پیغمبر ِ امن
The Prophet of Peace
پیغمبر اسلام، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (وفات 632 ء)کے متعلق ہسٹورین نے عام طور پر اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طورپر برٹش مؤرخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon, 1737-1794) نے اپنی کتاب ’’ر وما کا عروج وزوال‘‘ (The History of the Decline and Fall of the Roman Empire) میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے لائے ہوئے انقلاب کو تاریخ کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ بتایا ہے:
The rise and expansion of Islam was one of the most memorable revolutions which has impressed a new and lasting character on the nations of the globe.
ایم۔ این۔ رائے(M.N. Roy) ایک انڈین لیڈر تھے۔ وہ بنگال میں 1887 میں پیدا ہوئے اور 1954 میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی کتاب ’’ہسٹاریکل رول آف اسلام ‘‘ (Historical Role of Islam) پہلی بار دہلی سے 1939 میں چھپی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : محمد کو تمام پیغمبروں میں سب سے بڑا پیغمبر ماننا چاہیے۔اسلام کی توسیع تمام معجزوں سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
Mohammad must be recognised as by far the greatest of all prophets. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
امریکا کے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart) کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ (The 100) نیویارک سے 1978 میں چھپی۔ اس کتاب میں انہوں نے پوری انسانی تاریخ سے ایک سو ایسے افراد کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے اُن کے مطابق، اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔ اِس فہرست میں انہوں نے ٹاپ پر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’وہ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی‘‘:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ کی اس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔ اس کا راز ایک لفظ میں امن تھا۔ یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے بڑے پیسیفسٹ (pacifist) تھے۔ اُنہوں نے پُر امن طریقہ (peaceful method) کو ایک کامیاب ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ ( 4:128 )۔یعنی اختلافی معاملات میں پُرامن طریقہ زیادہ نتیجہ خیز طریقہ ہے:
Peaceful method is a far more effective method.
اسی طرح خود پیغمبر اسلام نے فرمایا: یُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2593)۔یعنی خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا:
God grants to peace what He does not grant to violence.
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے امن کو ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طورپر دریافت کیا۔ آپ نے امن کو ایک ایسے طریقۂ کار کے طورپر دریافت کیا جو ہر صورتِ حال کے لیے سب سے موثّر(effective) تدبیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک مفکّر نے لکھا ہے کہ ’’تاریخ کے تمام انقلابا ت صرف حکمرانوں کی تبدیلی (coup) کے واقعات تھے، وہ حقیقی معنوں میں انقلاب نہ تھے‘‘۔ یہ بات اگر صحیح ہو تو پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام اس معاملے میں ایک استثنا مانا جائے گا۔ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی(individual)، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب (revolution) کہا جاتا ہے۔
اپنے مطالعے کی بنیاد پر میرااحساس یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا انسانی تاریخ میں جو کنٹری بیوشن (contribution) ہے۔ اُس کے لحاظ سے اُن کا سب سے زیادہ مناسب نام یہی ہوسکتا ہے کہ اُن کو امن کا پیغمبر (Prophet of Peace) کہا جائے۔
تاریخ ایک ایسا ڈسپلن ہے جس میں یہ امکان رہتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا ایک سے زیادہ رایوں تک پہنچ جائے ۔ تاہم مصنف کا یہ خیال ہے کہ ایسا زیادہ تر محدود مطالعے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ زیادہ وسیع اور جامع ہوتو تعدّد آراء کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں کچھ دفاعی لڑائیاں پیش آئیں۔ ان میں سے ایک دفاعی لڑائی وہ تھی جس کو جنگِ بدر کہاجاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت جنگ کا واقعہ ہوا، پیغمبر اسلام میدانِ جنگ سے باہر ایک عَریش میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ہاتھ یا لکڑی سے آپ ریت پر کچھ لکیریں کھینچتے نظر آئے۔ اس واقعے کو لے کر ایک مستشرق نے بطور خود اس کو جنگ سے منسوب کیا، اور لکھا کہ ’’قائدِ اسلام اُس وقت اپنی اگلی جنگ کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘:
The leader of Islam was making his next war plan.
مستشرق (Orientalist)نے یہ بات کسی حوالے کے بغیر صرف اپنے قیاس کی بنیاد پر لکھ دی۔ حالاں کہ دوسری روایات کو دیکھا جائے تو خود روایت کی بنیادپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام اُس وقت کیا کررہے تھے۔ وہ دراصل یہ نقشہ بنارہے تھے کہ آئندہ کس طرح امن قائم کیا جائے:
چنانچہ دوسری روایت میںبتایا گیا ہے کہ جس وقت بدر کی یہ دفاعی جنگ ہورہی تھی، عَین اُسی وقت خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:ہُوَ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَامُ وَإِلَیْہِ السَّلَامُ(البدایۃ والنہایۃ، جلد 3، صفحہ 267 )۔یعنی خدا سلامتی ہے اور اُسی سے سلامتی ہے، اور اسی کی طرف سلامتی ہے۔
اس دوسری روایت کے مطابق درست طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر پیغمبراسلام اپنا اگلا منصوبۂ امن بنا رہے تھے:
The leader of Islam was making his next peace plan.
پیغمبر اسلام کو قرآن( 21:107 )میں پیغمبرِ رحمت کہا گیا ہے ( وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) یعنی پرافٹ آف مرسی۔ پرافٹ آف مرسی ہی کا دوسرا نام پرافٹ آف پیس ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے دو مختلف انداز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیغمبر اسلام کا مشن کوئی پولیٹیکل مشن نہیں تھا۔ آپ کے مشن کو دوسرے الفاظ میں اسپریچول مشن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن ( 2:129 )میں اس کو تزکیۂ نفس (purification of the soul) بتایا گیا ہے۔ یعنی انسان کو کامل انسان بنانا۔ دوسری جگہ قرآن ( 89:27 )میں اس کے لیے النّفس المطمئنّہ (complex-free soul) کے الفاظ آئے ہیں۔
اس قسم کا مقصد صرف نصیحت اور تذکیر (persuasion) کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ مقصد ذہن کی تشکیلِ نَو (re-engineering of the mind) کا طالب ہے ۔ یہ مقصد صرف انسان کی تھنکنگ قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔
پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب قرآن میں تقریباً 6236 آیتیں ہیں۔ اِن آیتوں میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جن میں قتال یا جنگ کا ذکر ہے۔ یعنی کُل آیتوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ۔ قرآن کی 99 فیصد سے زیادہ آیتیں وہ ہیں جن میں انسان کی قوتِ فکر کو بیدار کیا گیا ہے۔اس لیے قرآن میں بار بار تدبر و تفکر پر ابھارا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن گویا آرٹ آف تھنکنگ کے موضوع پر ایک کتاب ہے، وہ کسی بھی درجے میں آرٹ آف فائٹنگ کی کتاب نہیں۔
پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریۂ امن پیش کیا بلکہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پُر امن زندگی کے لیے ایک مکمل طریقِ کار وضع کیا:
He was able to develop a complete methodology of peaceful activism.
اسلام کے بعد کی سیاسی تاریخ نے پیغمبر اسلام کے اس پہلو پر ایک پردہ ڈال دیا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس پردے کو ہٹایا جائے۔ یہ ہٹانا گویا پیغمبر اسلام کی دریافتِ نو (re-discovery of the Prophet of Islam) ہے۔پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف امن کی ایک آئیڈیالوجی پیش کی، بلکہ امن کو عمل میں لانے کے لیے وہ ایک مکمل میتھاڈولوجی آف پیس ڈیویلپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا کہ آپ نظریۂ امن کے آئیڈیا لاگ بھی تھے، اور نظریۂ امن کو عملی انقلاب کی صورت دینے والے بھی۔
ابتدائی حالات
عرب ایک جزیرۂ نما ہے۔ وہ ایشیا کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ ایک صحرائی ملک ہے، اور انتہائی قدیم زمانے سے آباد ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں رہتے تھے۔ ہر قبیلے کا سردار اُن کے اوپر حاکم ہوا کرتا تھا۔
چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے اپنے خاندان کو مکّہ کے علاقے میں آباد کیا۔ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے تھے اور ایک خدا کی پرستش کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ باہر کے اثرات سے یہ لوگ بتوں کو پوجنے والے بن گئے۔ اب بھی وہ سماجی روایت کے طورپر ایک خدا کو مانتے تھے مگر اسی کے ساتھ عملی طور پر وہ بہت سے بتوں کو پوجتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں پورا عرب ایک بت پرست ملک بن چکا تھا۔ عرب کے یہی حالات تھے جب کہ پیغمبر اسلام وہاں پیدا ہوئے۔
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب عرب کے شہر مکّہ میں 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 610 عیسوی میں مکّے میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا ۔ 622 عیسوی میں وہ عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے گئے۔ 632 عیسوی میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی۔ اس طرح آپ کی کُل عمر 63 سال تھی، اور آپ کی پیغمبرانہ عمر 23 سال ۔
آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کی عمر چھ سال تھی تو آپ کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب اور اپنے چچا ابو طالب کی سر پرستی میں رہے۔ قرآن میں خدا نے پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کے بارے میں فرمایا:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى ۔ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَى ( 93:6-7 )۔یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اور تم کو متلاشی پایا تو اس نے تم کو راہ دکھائی۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنی ابتدائی زندگی میں جب یتیمی کا تجربہ ہوا تو اس تجربے نے آپ کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ کوئی چیز آپ سے کھوئی گئی ہے۔ یہ احساس آخر کار حق کی تلاش کی صورت میں اُبھرا۔ آپ حق کی تلاش میں اتنا زیادہ سرگرداں ہوئے کہ اکثر آپ مکے کے باہر چلے جاتے اور قریبی پہاڑ حِرا کے ایک کھوہ میں تنہائی کی حالت میں زندگی کی حقیقت کے بارے میں سوچتے رہتے اور دعا کرتے رہتے۔ اس طرح آپ حق کی تلاش میںسرگرداں تھے کہ خدا نے 610عیسوی کی ایک رات کو آپ کے پاس فرشتہ بھیجا۔ فرشتے نے آپ کو بتایا کہ خدا نے آپ کو اپنے پیغمبر کی حیثیت سے چن لیا ہے۔ اس کے بعد آپ پر قرآن وقفے وقفے سے اُترتا رہا۔ 23 سال کی مدت میں وہ مکمّل ہوا۔
پیغمبر اسلام کو خدا کی طرف سے یہ مشن دیاگیا کہ وہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچائیں۔ یعنی یہ کہ خدا صرف ایک ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اعتبار سے خدا رُخی زندگی (God-oriented life) گذارے۔ یہی انسان کی نجات کا راستہ ہے۔پیغمبر اسلام اپنی ابتدائی زندگی میںایک تاجر تھے۔ تاجر کی حیثیت سے ان کی تصویر ایسی بنی کہ لوگ اُن کو الامین(honest person) کہنے لگے۔ اس طرح آپ مکّے میںایک باعزت شخص بن گئے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ پیغمبری ملنے کے بعد جب آپ نے مکّہ کے ایک ٹیلے ’’صَفا‘‘ پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا تو لوگ آپ کی بات سننے کے لیے وہاں جمع ہوگئے۔
یہ نبوت کی حیثیت سے آپ کا پہلا خطاب تھا۔ اس خطاب میں آپ نے لوگوں کو بتایا کہ موت کے بعد ہر ایک کو یا تو جنت ملے گی یا جہنم۔ اس لیے تم لوگ موت سے پہلے کے زمانے میں موت کے بعد کے زمانے کی تیاری کرو۔
مکّہ میں اُس وقت بت پرستی کا رواج تھا۔ لوگ بت پرستی میں کنڈیشنڈ ہوچکے تھے۔ اس لیے ابتدائی زمانے کی اس تقریر کا لوگوں کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔لوگ اثر لیے بغیر واپس چلے گئے۔ آپ کے چچا عبد العزّی (ابو لہب) نے منفی ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’تمہارا بُرا ہو، کیا تم نے یہی کہنے کے لیے ہم کو بلایا تھا ( تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِہَذَا)۔ مستخرج ابی عوانہ، حدیث نمبر 262
مکّہ عرب کا مرکزی شہر تھا۔ یہاں قبیلۂ قریش کے لوگ رہتے تھے۔ قریش کو کعبہ کی تولیت حاصل تھی، جو کہ پورے عرب کا مذہبی مرکز تھا۔ اس بنا پر قریش کو پورے ملک میںسرداری کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔ قریش نے مکّہ میں دار الندوہ قائم کررکھا تھا۔ دار الندوہ گویا قبائلی پارلیمنٹ تھی۔ قریش کے سینئر افراد دارالندوہ کے ممبر ہوتے تھے۔ یہاں تمام اہم اُمور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب دارالندوہ کے ممتاز ممبروں میں سے ایک تھے۔
عام رواج کے مطابق، ایک حوصلہ مند لیڈر کے لیے پہلا ٹارگیٹ یہ تھا کہ وہ دار الندوہ کا رُکن بننے کی کوشش کرے۔ جو گویا اُس وقت کے عرب میں سیاسی طاقت کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر اس کے بغیر عرب یا مکّہ میں کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے دار الندوہ میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ اپنے دادا عبد المطلب کی خالی سیٹ اُنہیں دی جائے۔
دار الندوہ کے معاملے میں پیغمبر اسلام نے وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جس کو اسٹیٹس کوازم (status quoism) کہا جاتا ہے۔ یعنی صورتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ جو صورتِ موجودہ ہے اس کو علی حالہٖ قبول کرلینا۔ مگر پیغمبر اسلام کا اسٹیٹس کوازم سادہ طورپر صرف اسٹیٹس کوازم نہ تھا، بلکہ وہ مثبت اسٹیٹس کوازم (positive-status quoism) تھا۔ مثبت اسٹیٹس کوازم یہ ہے کہ آدمی وقت کے نظام سے ٹکراؤ نہ کرے، بلکہ وہ یہ کرے کہ وقت کے نظام میں موجودہ مواقع کو دریافت کرکے اُسے استعمال کرے۔ اس طریقِ کار کو فارمولا کی زبان میں اس طرح کہاجاسکتا ہے:
Ignore the problem, avail the opportunities.
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم کا یہ طریقہ ایک انتہائی حکیمانہ طریقہ تھا۔ اس کی طرف رہنمائی پیغمبر اسلام کو خود قرآن کی ابتدائی آیتوں میں ان الفاظ میں دی گئی:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ( 94:5-6 )۔ یعنی ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ اس دنیا میں کوئی مسئلہ کبھی کُلّی معنوں میں مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر مسئلہ کے ساتھ ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ اس لیے آدمی کو یہ حکمت اختیار کرنا چاہیے کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرے اور مواقع کو استعمال کرے۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ طریقہ ایک حکیمانہ آغاز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آج جو ممکن ہے، اُس سے اپنے عمل کا آغاز کرو۔ اس طرح کَل وہ چیز ممکن ہوجائے گی جو بظاہر آج ممکن نظر نہیں آتی۔
پیغمبر اسلام کا مشن توحید (oneness of God) کا قیام تھا۔ اس لحاظ سے آپ کے لیے اُس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مکّہ کے مقدس عبادتی مرکز کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ عرب کے مختلف قبائل کے بُت تھے۔ اور مکّہ کے سرداروں نے ان بتوں کو کعبے میں اس لیے رکھا تھا تاکہ وہ مکہ کو مرکزی مقام کا درجہ دے سکیں۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت کا ہونا ایک پرابلم تھا، مگر اسی کے ساتھ اُس میںایک موقع (opportunity) بھی چھپی ہوئی تھی۔ ان بتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا کہ مکّہ کے لوگ اور مکّہ کے باہر کے لوگ وہاں ہر روز جمع ہوتے تھے۔ اس طرح کعبہ لوگوں کے لیے اجتماع کا ایک فطری مقام بن گیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا، اوران بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کے اجتماع کو ایک موقع کے طورپر استعمال کیا۔ اب آپ نے یہ کیا کہ آپ روزانہ وہاں جاتے اور لوگوں سے ملاقات کرتے اور ان کو قرآن کی آیتیں سناتے۔
قدیم مکّہ میں پیغمبر اسلام نے دعوت کا جو مذکورہ طریقہ اختیار کیا، وہ پرابلم سے خالی نہ تھا۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النجم اُتری تو حسب معمول آپ نے یہ کیا کہ کعبہ کے اجتماع میں جاکر لوگوں کو اُسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورہ میں عرب کے بڑے بڑے بتوں کو بے حقیقت بتاتے ہوئے یہ الفاظ تھے:
أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ۔ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى ( 53:19-20 ) ۔ یعنی بھلا تم نے لات اور ُ ّعزیٰ پر غور کیا ہے۔ اور تیسرے ایک اور منات پر۔
اس آیت میں لات، عزّیٰ اور مَنات کے نام آئے ہیں۔ یہ تینوں بُت قدیم عرب کے بڑے بڑے بُت تھے۔ قدیم عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی مجلس میں اِن بتوں کا نام آتا تو وہ اُن کے اعتراف کے لیے کچھ تعظیمی الفاظ بولتے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ جب پیغمبر اسلام نے قرآن پڑھتے ہوئے لات وعزّیٰ اور منات کے نام لیے تو وہاںکے مشرک حاضرین نے اپنے رواج کے مطابق، بلند آواز سے کہا :
تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلَى. وَإِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجَى
پیغمبر اسلام کی آواز میں حاضرین کی مذکورہ آواز مل گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود رسول اللہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ یہ خبر نہایت تیزی سے پھیل گئی، یہاں تک کہ یہ خبر حبش تک پھیل گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام نے مشرک عربوں کے اس مطالبے کو مان لیا ہے کہ اُن کے جو بُت ہیں وہ بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف ایک غلط فہمی تھی، نہ کہ کوئی حقیقی واقعہ۔
اس طرح مکّہ میں پیغمبر اسلام لوگوں کو مسلسل عقیدۂ توحید کی طرف بلاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ لوگوں کو خطاب بھی کرتے اور انفرادی طورپر ان سے مل کر اُنہیں اپنا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس طرح ایک ایک کرکے لوگ پیغمبر اسلام کے دین میں داخل ہوتے رہے۔ مثلاً حضرت خدیجہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، وغیرہ۔تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مکّہ میں پیغمبر اسلام کی مخالفت شروع ہوگئی۔ قریش ہر تدبیر سے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا توحید کا مشن ختم ہوجائے۔ اس مخالفت کا سبب کسی بھی درجے میں سیاسی نہ تھا، وہ صرف اعتقادی حسّاسیت کی بنا پر تھا۔ اس مخالفت کا سبب صرف اعتقادی اختلاف تھا، نہ کہ کوئی سیاسی خطرہ۔
پیغمبر اسلام کے اس ابتدائی دَور میںآپ کی بیوی خدیجہ اور آپ کے چچا ابو طالب آپ کے لیے گویا سَپورٹ سسٹم بنے ہوئے تھے۔ اعلانِ نبوت کے دسویں سال اِن دونوں کا انتقال ہوگیا۔ قدیم قبائلی رواج کے مطابق، اب آپ کو ضرورت تھی کہ آپ کسی اور کو تلاش کریں، جو آپ کو اپنی پناہ میں لے لے۔ تاکہ آپ اپنا مشن بدستور جاری رکھ سکیں۔
پناہ کے حصول کے لیے پہلے آپ نے مکّہ میںکوشش کی ۔ کعبہ کی زیارت کے لیے جو قبائلی سردار مکّہ آتے تھے، اُن سے اس مقصد کے لیے ملاقاتیں کیں۔ مگر اُن میں سے کوئی شخص تیّار نہیں ہوا۔ آخر کار آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ مکّہ سے 75 کلومیٹر دور واقع شہر طائف جائیں۔ اور وہاں کے سرداروں سے پناہ طلب کریں۔ عرب رواج کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ مگر طائف کے سردار جو خود بھی بتوں کے پرستار تھے، وہ توحید کے پیغمبر کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے شہر کے لڑکوں کو اکُسایا کہ وہ آپ کو پتھر مار کر شہر کے باہر کردیں۔
آپ طائف سے باہر ایک باغ میں رات گذارنے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے۔ روایت کے مطابق، اُس وقت، خدا نے پہاڑوں کا فرشتہ (مَلک الجبال) کو آپ کے پاس بھیجا۔ ملک الجبال نے آپ سے کہا کہ طائف والوں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کو خدا نے دیکھا۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں طائف کے اَطراف میں واقع پہاڑوں کو ایک دوسرے میں ملا دوں۔ تاکہ طائف کے لوگ اُس میں دب کر ختم ہوجائیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے کہا کہ نہیں۔ طائف کی موجودہ نسل نے اگر چہ میری بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ طائف کی اگلی نسلیں میری بات کو مانیں گی اور خدا کے راستے پر چلیں گی (بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ، لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231۔
پیغمبر اسلام طائف سے واپس ہوکر دوبارہ مکّہ پہنچے تو قریش کا ظلم اور زیادہ بڑھ گیا۔ انہوں نے دار الندوہ میں مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کردیں۔ اس فیصلے میں مکہ کے تمام قبائل شریک ہوگئے۔اُس وقت مکّہ اور اطرافِ مکہ میں تقریباً دو سو آدمی پیغمبر اسلام کے پیغام کو مان کر اُن کے ساتھی بن چکے تھے، مگر یہ تعداد قریش کے مقابلے میں آپ کی حمایت کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے جائیں، جو مکہ سے تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔
مدینہ میں اسلام کا داخلہ
پیغمبر اسلام ابھی مکّہ میں تھے کہ آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے مدینہ کے لیے روانہ کیا۔ یہ لوگ وہاں اس لیے گئے تھے تاکہ آپ کا پیغام مدینہ والوں کو پہنچائیں۔ مدینہ والوں کی زبان عربی تھی، جس طرح مکہ والوں کی زبان عربی ۔ چنانچہ اِن لوگوں نے یہ کیا کہ قرآن کے مختلف حصوں کو پڑھ کر اُنہیںسنانے لگے۔ اسی لیے ان کا نام مُقری پڑ گیا (وَکَانَ یُدْعَى الْمُقْرِئَ) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصفہانی، جلد5، صفحہ2556۔ عربی زبان میں مقری کے معنی ہیں: پڑھ کر سنانے والا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ کے برعکس مدینہ میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ مدینہ کے تقریباً ہر گھر میں ایسے افراد پیدا ہوگئے جنہوں نے بتوںکی پرستش چھوڑ دی اور پیغمبر اسلام کے دین کو اختیار کرلیا۔مکّہ میںمخالفت اور مدینہ میں موافقت کا یہ دو مختلف تجربہ کیوں ہوا۔ اس کا ایک معلوم سبب تھا۔ وہ یہ کہ مکّہ عرب کے صحرائی علاقے میں واقع تھا۔ یہاں زراعت وغیرہ موجود نہیں تھی۔ مکّہ والوں کی معیشت بڑی حد تک بت پرستی کے کلچر سے وابستہ تھی۔ کعبہ اُس زمانے میں پورے عرب میں بت پرستی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا تھا کہ عرب کے تمام قبائل کے لوگ سال بھر یہاں آتے۔ اس طرح بت پرستی میں مکّہ والوں کے لیے ایک اقتصادی قدْر (commercial value) پیدا ہوگئی تھی۔ گویا کہ قدیم مکّہ میں بتوں کو وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس کو موجودہ زمانے میں ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر مکّہ کے لوگ ڈرتے تھے کہ اگر عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو ان کی ’’ٹورسٹ انڈسٹری‘‘ ختم ہوجائے گی۔
اہل مدینہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ مدینہ عرب کے ایک ایسے علاقے میں واقع تھا جہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ اس بنا پر وہاں زراعت اور باغبانی کا کافی رواج تھا۔ یہاں کے لوگوں کے لیے یہ ڈر نہ تھا کہ اگر بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو اُن کی معاش کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ بت پرستی ان کی معاش کا ذریعہ ہی نہ تھی۔
اس بنا پر ایسا ہوا کہ توحید کا مذہب اہلِ مکّہ کے لیے ابتدائی زمانے میں قابلِ قبول نہ ہوسکا۔ مگر اہلِ مدینہ اس قسم کی نفسیات سے خالی تھے۔ بت پرستی کا خاتمہ ان کے نزدیک صرف ایک مذہبی کلچر کا خاتمہ تھا، نہ کہ ان کےمعاشی ذریعے کا خاتمہ۔ چنانچہ مدینے میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل گیا۔
پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔یہ دراصل ٹکراؤ کے طریقے کو چھوڑ کر امن کے طریقے کو اختیار کرنا تھا۔ پیغمبر اسلام کےاس اصول کو آپ کی اہلیہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔یعنی پیغمبر اسلام کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ یہ کرتے کہ مشکل کے مقابلے میں آسان طریقے کا انتخاب فرماتے۔
اس معاملے کی ایک واضح مثال مکّہ کے تیرہ سالہ قیام کے آخری دنوں میں آپ کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو قریش سے جنگی ٹکراؤ کریں، یاخاموشی کے ساتھ پُر امن طورپر مکّہ سے نکل کر مدینہ چلے جائیں۔ اُس وقت کے حالات میں پہلا انتخاب مشکل انتخاب (harder option) تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا انتخاب، یعنی خاموشی سے مدینہ چلے جاناایک آسان انتخاب (easier option) تھا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصول کے مطابق اُس کو لے لیا جو آسان تھا، اور اس کو چھوڑ دیا جو مشکل تھا۔
مکّہ سے مدینہ کا یہ سفر تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ یہ پورا سفراونٹ پر گذرا۔ مگر چوں کہ آپ کو معلوم تھا کہ مکّہ کے لوگ آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کا پیچھا کررہے ہیں، اس لیے آپ نے ان سے بچاؤ کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ مثلاً مکہ سے رات کے وقت خاموشی سے روانگی۔ سیدھے مدینہ سفر کرنے کے بجائے مخالف سمت کےایک غیر آباد کھوہ میں تین دن چھپے رہنا۔ عام راستے کے بجائے نئے راستے سے سفر کرنا، وغیرہ۔
ہجرت کے اس سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا مزاج کیا تھا۔ مثلاً ایک مقام پر آپ کو دو شخص ملے۔ وہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ آپ نے اُن سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے نے ہم دونوں کا ایک ہی نام رکھا ہے۔ وہ ہے الْمُہَانَانِ(دو بے عزّت آدمی)، آپ نے فرمایا کہ نہیں، تم دونوں باعزت آدمی ہو (بَلْ أَنْتُمَا الْمُکْرَمَانِ) مسند احمد، حدیث نمبر 16691 ۔
یہ طریقہ آپ کے اصولِ تربیت کا ایک حصہ تھا۔ آپ جانتے تھے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں کی جائے۔ اس لیے آپ نے اُن کا نام بدل دیا۔ اس طرح انہیں یہ نفسیاتی ترغیب دی کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانیت کے رُخ پر ترقی دیں۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے ہُوا۔ ان کے یہاں پہلا لڑکا پیدا ہوا تو پیغمبر اسلام نے علی سے پوچھا کہ تم نے بیٹے کا نام کیا رکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ حَرب (جنگ) پیغمبر اسلام نے کہا کہ یہ نام درست نہیں۔ اس کےبعد آپ نے اس کا نام حَسن رکھا (فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2777۔
مدنی زندگی
622 عیسوی سے پیغمبر اسلام کی مدنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کا ہجرت کرکے مدینہ پہنچنا کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس سے پہلے مکّہ کی تیرہ سالہ پیغمبرانہ زندگی میںآپ کو نہایت تلخ تجربے پیش آئے تھے۔ آپ کو مسلسل ستایا گیا، آپ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا گیا، آپ کا اور آپ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا گیا، آپ کو اتنی شدید مصیبتوں میں مبتلا کیاگیا کہ آپ اور آپ کے ایک سو سے زیادہ ساتھی اپنے وطن اور اپنی جائداد کو چھوڑ کر مکّہ سے مدینہ آگئے۔ یہاں انہیں اپنے گھر اور اپنے عزیزوں سے محروم ہوکر از سرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کا مشکل کام کرنا تھا۔
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ پیغمبر اسلام کا دل شکایت اور احتجاج سے بھرا ہوا ہو اور وہ مدینہ پہنچتے ہی مکّہ والوں کے خلاف منفی باتیں کہنا شروع کردیں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچ کر مدینہ والوں کے سامنے جو پہلی تقریر کی،وہ اب بھی سیرت کی کتابوں میںموجود ہے۔ سیرت ابن ہشام میںاس کو" مدینہ کا پہلا خطبہ" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے —وَکَانَتْ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ آپ کے اس خطبے کا خلاصہ یہ ہے— فَمَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَقِیَ وَجْہَہُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ بِشِقٍّ مِنْ تَمْرَةٍ فَلْیَفْعَلْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 501 ) ۔ یعنی تم میں سے جو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانےکی طاقت رکھتا ہو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے کیوں نہ ہو، وہ ضرور کرے۔
یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ یہ دراصل پیس فل ایکٹوزم کی قیمت تھی۔ اُس وقت کے حالات میں بلاشبہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ یہ اپنے منفی جذبات کو مثبت جذبات میںکنورٹ کرنا تھا۔ مگر یہی پیس فل ایکٹوزم کی قیمت ہے۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن اور تشدد دونوں ہی داخلی احساسات کا اظہار ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کے ذہن میںنفرت ہو تو اس کا اظہار متشددانہ(violent) عمل کی صورت میں ہوگا، اور اگر اس کے ذہن میں محبت ہو تو اس کا اظہار ہمیشہ پُر امن طریقِ عمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ایسی حالت میں پیس فل ایکٹوزم کا نام لینا، کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ قربانی یہ کہ آدمی نفرت کے اسباب کے باوجود فریقِ ثانی سے نفرت نہ کرے، وہ اپنے دماغ کو نفرت والی باتوں سے پوری طرح خالی رکھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی پُر امن طریقِ کار پر عمل کرنا چاہتا ہو اُس کو سب سے پہلے خود اپنے ذہن کومیانہ روی پر قائم رکھنا ہوگا۔ اُس کو یک طرفہ طورپر یہ کرنا ہوگا کہ فریقِ ثانی اس کوغصہ دلائے، مگر وہ ہر گز غصہ نہ ہو۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پُر امن طریقِ کار کے اصول کواختیار نہیں کرسکتا۔
پیغمبر اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار پُر امن ایکٹوزم کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ نے یک طرفہ اعتدال پسندی کی مذکورہ قیمت ادا کی۔ آپ کے ساتھ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتی کی گئی مگر آپ ان زیادتیوں سے اوپر اُٹھ کر سوچتے رہے۔ ان کی زیادتیوں کو نظر انداز کرکے آپ نے مثبت انداز میںاپنے عمل کا نقشہ بنایا۔
پیغمبر اسلام کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ آپ مکمل معنوں میں ایک امن پسند انسان تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا ناخوش گوار واقعہ آپ کے ذہنی سکون (peace of mind) کو درہم برہم نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے اپنے ذہن کی سطح پر ایک ایسی بلند چیز پالی تھی کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز آپ کو غیراہم معلوم ہوتی تھی۔ آپ کامل معنوں میں ایک مثبت ذہن کے انسان تھے۔ آپ کا دماغ گویا ایک ایسا کارخانہ تھا جس میں داخل ہو کر ایک نیگیٹیو آئٹم بھی پازیٹیو آئٹم بن جاتا تھا۔ آپ کو اپنی زندگی میں جب بھی کوئی ناخوشگوار تجربہ پیش آتا تو آپ کا ذہن فوری طور پر ڈفیوز کرکے اس کو ایک مثبت احساس میں تبدیل کرلیتا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے حافظے تک جب کوئی منفی احساس پہنچتا تو وہ بدل کر مثبت احساس بن چکا ہوتا تھا۔ آپ کی شخصیت کامل معنوں میں ایک مثبت شخصیت تھی۔ آپ منفی حالات میں بھی مثبت ذہن کے ساتھ رہنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ تشدد کے واقعات کو بدل کر امن کا واقعہ بنانے کی غیر معمولی استعداد رکھتے تھے۔
622 عیسوی میںجب آپ مدینہ پہنچے اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہود بھی موجود تھے۔ گویا کہ اس وقت کا مدینہ ایک ملٹی ریلیجس سوسائٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایسے ماحول میں لوگ کس طرح پُر امن طورپر رہیں، آپ نے اس کا ایک کامیاب فارمولا دریافت کیا۔ یہ فارمولا اس اصول پر مبنی تھا — ایک کی پیروی کرو، اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
اس وقت کے مدینہ میں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ اس لیے اُس وقت کے مدینہ میں جو ابتدائی ریاست بنی، اُس کے صدر خود پیغمبر اسلام تھے۔ آپ نے صدرِ ریاست کی حیثیت سے ایک ڈیکلیریشن (declaration) جاری کیا، جو تاریخ میں صحیفۂ مدینہ یا میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈیکلیریشن میں بتایا گیا تھا کہ مسلم، مشرک اور یہود، تینوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو خود اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق طَے کریں۔ البتہ جہاں تک اجتماعی نزاعات کی بات ہے، اُن کو اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق طَے کیا جائے گا(وَإِنَّکُمْ مَہْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ شَیْءٍ، فَإِنَّ مَرَدَّہُ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) سیرت بن ہشام، جلد1، صفحہ 503 ۔
یہ کثیر مذہبی یا کثیر کلچر والے سماج میںامن قائم کرنے کا واحد عملی اصول ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک اپنے طریقے کی پیر وی کرنے میں آزاد ہو۔ جہاں تک اجتماعی معاملات کا تعلق ہے، یعنی وہ معاملات جن میں رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہیں، وہاں مرکزی انتظامیہ کی اتّباع کرنا۔ اس طریقے کو دوسرے الفاظ میں پُر امن ڈفرینس مینجمنٹ (peaceful difference management) کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں ہمیشہ فرق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ سماج واحد مذہبی سماج ہو یا کثیر مذہبی سماج۔ اس فرق کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، مگر اس کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسے حالات میں کسی سماج میں امن قائم کرنا صرف بقائے باہم (co-existence) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس معاملے میں دوسرا کوئی انتخاب ممکن نہیں۔
مدینہ پہنچ کر آپ نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے وہاں ایک مسجد بنائی۔ اور اس مسجد میںپانچ وقت کی نماز کا نظام قائم کیا۔ اس نماز کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کا منظّم طریقہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیتیںپیدا ہوں جن کے ذریعے وہ سماج کے اندر پُر امن طورپر رہ سکے۔ چنانچہ آپ نے نماز کا جو طریقہ مقرر کیا اس کے خاتمے پر تمام نمازیوں کو اپنا چہرا دائیں اور بائیں پھیر کر یہ کہنا ہوتا تھا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ اس طرح گویا نمازی ساری دنیا کے انسانوں کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے لوگو، تمہارے اوپر سلامتی (peace) ہو۔
اس طرح نمازِ باجماعت گویا لوگوں کی اس انداز میں تربیت کا ذریعہ تھی کہ وہ اپنے سماج میں پُر امن شہری بن کر رہیں۔ سماج کے لوگوں کے لیے ان کے دل میں ہر حال میں مثبت جذبات ہوں، وہ دوسروں کے لیے کبھی مسئلہ نہ بنیں۔ اُن کا رویّہ دوسروں کے ساتھ انسان دوستی (human friendly) والا رویّہ ہو۔
پیغمبر اسلام جب ہجرت کرکے مکّہ سے مدینہ آگئے تو یہ ٹکراؤ کا خاتمہ نہ تھا بلکہ یہ ٹکراؤ کے نئے دَور کا آغاز بن گیا۔ پیغمبر اسلام نے خود تو یہ قربانی دی کہ جنگ سے بچنے کے لیے اپنے وطن مکّہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ جاکر آباد ہوگئے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مدینہ آپ کے مشن کے لیے ایک زرخیز علاقہ ثابت ہوا۔ یہاں کے لوگ تیزی سے آپ کے دین میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کی اکثریت آپ کی ساتھی بن گئی۔
پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد یہ ہوا کہ مکّہ اورمکہ کے آس پاس دوسرے مسلمان بھی اپنے مقامات کو چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ اس طرح مدینہ، پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک مضبوط مرکز بن گیا۔ یہاں مدینہ کے اندر اور مدینہ کے باہر، دونوں علاقوں کے لوگ جمع ہوگئے۔ یہ مکّہ والوں کے لیے گویا ایک وارننگ تھی۔ وہ اپنے طور پر یہ سوچنے لگے کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں اپنے افراد کو اکٹھاکرکے ایک بڑی قوت بنائیں گے اور مکّہ کو واپس لینے کے لیے مکّہ پر حملہ کردیں گے۔ اس لیے مکّہ والوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مدینہ میں پیغمبر اسلام کی طاقت کو توڑ کر اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے مکّہ والوں نے عوامی عطیات سے پچاس ہزار دینار اکھٹا کیے ، اور تیاری شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ پر باقاعدہ حملے کا منصوبہ بنالیا۔ حتی کہ ایک ہزار کی تعداد میں مسلّح فوج لے کر روانہ ہوئے تاکہ مدینہ کی جدید مسلم ریاست کا خاتمہ کردیں۔
اس طرح مدنی دَور میںغزوات (لڑائیوں) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیرت کی کتابوں میں تقریباً 85 غزوات شمار کیے گئے ہیں۔ مگر یہ غزوات فریقِ ثانی کی طرف سے غزوات تھے اور پیغمبر اسلام کی طرف سے اعراض۔ پیغمبر اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ فریقِ ثانی کے جنگی اقدام کا مقابلہ پُر امن تدبیروں سے کریں۔ اس پُر امن تدبیر کے لیے امن پسند انسانوں کی ایک تربیت یافتہ ٹیم درکار تھی۔ اصحاب ِ رسول نے یہی کام کیا۔ چنانچہ تشدد کا مقابلہ امن کے ذریعہ کرنے کی تدبیر اس طرح کامیاب ہوئی کہ بیس سال کی مختصر مدت میں پورا عرب اسلام کے کنٹرول میں آگیا۔
اس پُر امن تدبیری مہم کا ایک خاص جُزء یہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے عرب کے تمام قبائل سے معاہدے کرلیے، اور تمام قبائل کو امن کا پابند بنا لیا۔ یہ ایک نیا طریقہ تھا جس کو معاہدہ ڈپلومیسی کہا جاسکتا ہے۔ انہیں تدبیروں کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب جیسے جنگ جُو ملک میں مختصر مدت کے اندر ایک ایسا انقلاب آگیا جس کو بلاشبہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
صبر کا فلسفہ
پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیاہے۔ یہاںتک کہ صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو! صبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (آلِ عمران، 3:200 ) ۔اسی طرح فرمایا کہ امامت یا لیڈر شپ میں کامیابی کا راز صبر ہے (السجدہ، 32:24 )۔
اسی حقیقت کو پیغمبر اسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا:وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ (مسند احمد،حدیث نمبر 2803)۔ یعنی جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی بھی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسیفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُر امن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے ساؤتھ افریقہ میں کیا۔ انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے سفید فام مکینوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور پھر کہا کہ ہم ان کو ساؤتھ افریقہ سے نکالنے کے لیے پیس فُل تحریک چلائیں گے۔حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کی نفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں۔ اس کے مقابلے میں آپ مکمل طورپر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہوسکتی ہیں۔ مدّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُر امن مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے، لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر تشدد کے ذ ریعہ مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے۔ یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہتے ہیں۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبر اسلام کی زندگی میںملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیںکی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کےاحساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
مثال کے طورپر مکہ میں پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہاجاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چنانچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبر کا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبر اسلام نے اس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف نفرت کا کوئی کلمہ نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:صَبْرًا یَا آلَ یَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5646)۔ یعنی اے آل یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔جنت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کی۔ یعنی مخالفوں کی ہر زیادتی پر صبر کرنا۔ قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاًنبیوں کی زبانی یہ کہا گیا ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَیْتُمُونَا ( 14:12 )۔ یعنی ہم تمہاری ایذاؤں پر صرف صبر ہی کریں گے۔
یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔ کیوں کہ فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے ساتھ پُر امن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہوجائے۔ پر امن طریقِ کار (peaceful activism) در اصل معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا یہ اصول دراصل اسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ پابندی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے، اور اپنے ساتھیوں کو اسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیاجائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اس کے برعکس، آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے مخالفوں کو کبھی کافریا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مارکر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:اللہُمَّ اہْدِ قَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1375)۔ خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میںاختیار فرمایا، وہ اسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طورپر نہیں کرسکتا۔
خاموش تبلیغ
ایسی حالت میں پیغمبر اسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھلے طور پر شرک کو غلط قرار دیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کااندازہ کرتے ہوئے تدریجی طورپر آگے بڑھیں۔پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکراؤ کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا، جو واضح طور پر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اسی طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اس طرح فرمایا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جاؤ، بلکہ امن کے اصولوں کواختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by following the peaceful method.
اس طرح آپ پُر امن انداز میں کام کرتے رہے یہاںتک کہ دھیرے دھیرے 83 آدمی آپ کے مشن میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت آپ کے ایک سینئر ساتھی ابوبکر صدیق بن ابی قحافہ نے کہا کہ اب ہم کو اعلان کے ساتھ کھُلے عام اپنا کام کرنا چاہیے۔ پیغمبر اسلام نے کہا : اے ابوبکر! ابھی ہم تھوڑے ہیں ( یَا أَبَا بَکْرٍ إِنَّا قَلِیلٌ)۔ لیکن ابوبکر صدیق نے اس کے باوجود ایسا کیا کہ وہ کعبہ میں گئے اور وہاں بلند آواز سے اعلان کرکے لوگوں کو بتایا کہ میں پوری طرح محمد کا ساتھی بن گیا ہوں۔ یہ سُن کر مخالفین کی ایک جماعت دَوڑ کر آئی۔ وہ آپ کو مارنے پیٹنے لگی۔ انہوںنے آپ کو اتنا زیادہ مارا کہ آپ زخمی ہوکر گِر پڑے۔ مارنے والوں نے ابوبکر صدیق کو صرف اُس وقت چھوڑا جب کہ انہوںنے سمجھا کہ اب ان کا خاتمہ ہوچکا ہے( سیرت ابنِ کثیر، جلد 1، صفحہ 439 )۔
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقتور شخص تھے۔ انہوں نے بھی پیغمبر اسلام سے کہا کہ ہم حق پر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طورپر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:یَا عُمَرُ إِنَّا قَلِیلٌ قَدْ رَأَیْتَ مَا لَقِینَا (سیرت ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 441 ) ۔یعنی اے عمر! ہم تھوڑے ہیں، ابوبکر کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ تم نے دیکھ لیا۔
دھیرے دھیرے پیغمبر اسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے 73 آدمی آکر آپ سے ملے، اور بتایا کہ ہم آپ کے مشن میںآپ کے ساتھ ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اب آپ مکّہ والوںکی زیادتی کو اور زیادہ برداشت نہ کیجیے۔ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم مکّہ والوں کے خلاف جہاد کریں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:اصْبِرُوا فَإِنِّی لَمْ أُومَرْ بِالْقِتَال (المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، جلد1، صفحہ 199 ) ۔یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھے لڑائی کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو ،وہ کوئی اقدام نہیں۔ وہ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action) کے حامی تھے۔
پیغمبر اسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، جس کو موجودہ زمانے میں خود کُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خود کُش بمباری کیا ہے۔ وہ در اصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو پریشان کرنے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے اور پھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں شہید ہوجاؤں۔
دشمن کے مقابلے میں خود کش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اور انتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اندھا ہوجائے اور اس اندھے پن میں وہ خود اپنے ہی کو ہلاک کرڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چائس لیتا ہے، وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کرنے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ چیزوں کوویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ وہ ہیں (أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ) تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ 119 ۔پُر امن عمل ایک مثبت عمل ہے اور مثبت عمل کی اہمیت کو ایک مثبت ذہن ہی سمجھ سکتا ہے، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
امن پسندانہ سوچ
پیس فل ایکٹوزم بظاہر ایک خارجی عمل ہے، مگر وہ مکمل طورپر ایک داخلی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ صرف پیس فل مائنڈ ہے جو پیس فل ایکٹوزم کی بات سوچ سکتا ہے اور اس کو درست طورپر عمل میں لاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس حقیقت کو جانا۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ کیا کہ سب سے پہلے پیس فل مائنڈ بنایا۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکے کہ پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر اپنی تحریک چلا سکیں۔ اسی حقیقت کو آپ نے مذہبی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے : جب آدمی کا دل درست ہوتا ہے تو اس کے تمام اعمال درست ہوجاتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 52 )۔
ذہن سازی کے اس عمل کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کرے (البقرہ، 2:129 ) ۔یعنی روح کی تطہیر (purification of the soul)۔اس تزکیہ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِی قَلْبِہِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُہُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ، حَتَّى یَعْلُوَ قَلْبَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 7952) ۔ یعنی مؤمن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک کالا دھبّہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اس کو مٹا دے اور استغفار کرے تو اس کا دل دھبّے سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر دھبّے میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
اس حدیث میں پیغمبر اسلام نے ایک اہم نفسیاتی حقیقت بتائی ہے۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے ذہن میں جب کوئی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کے حافظے میںاس طرح محفوظ ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کبھی نہیں نکلتی۔ نفسیات کا مطالعہ مزید بتاتا ہے کہ انسانی ذہن کے دو بڑے خانے ہیں۔ ایک، شعور، اور دوسرا، لاشعور۔ جب کوئی بات انسانی ذہن میں آتی ہے تووہ پہلے اس کے زندہ شعور کے خانے میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ لاشعور کے خانے میں چلی جاتی ہے۔
ایک خانے سے دوسرے خانے میں جانے کا یہ عمل خاص طورپر رات کے وقت ہوتا ہے۔ اس طرح اگرچہ ایساہوتا ہے کہ کوئی بات جو آج زندہ حافظہ (active memory) میں ہے، بعد کو وہ دماغ کے پچھلے خانے میں جاکر بظاہر ایک بھولی ہوئی بات بن جاتی ہے۔ مگر جہاں تک شخصیتِ انسانی کاتعلق ہے، وہ لازمی طورپر اس کا جُزء بنتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصیتِ انسانی کا براہِ راست تعلق انسانی تھنکنگ سے ہے۔ جیسی سوچ ویسی شخصیت۔
پیغمبر اسلام کے مذکورہ قول کا مطالعہ جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قولِ رسول میں پیس فل تھنکنگ اور پیس فل ایکٹوزم کا اصل راز بتادیا گیا ہے۔ صحیح معنوں میں وہی شخص پیس فل ایکٹوسٹ بن سکتا ہے جو مذکورہ قولِ رسول پر عمل کرے۔ اس عمل کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے۔
ہر انسان اور ہر انسانی گروہ ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں ہر وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس کے لیے ناخوش گوار ہوں، جو اس کے اندرفریقِ ثانی کے خلاف منفی احساسات پیدا کریں۔ اس طرح گویا ہر آدمی کے ذہن میں بار بار منفی نوعیت کے احساسات آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی اس منفی احساس کو فوری طورپر بدل کر مثبت احساس نہ بنائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کے لاشعور میں ایک منفی آئٹم کے طورپر محفوظ ہوجائے گا۔ یہ عمل اگر بلا روک ٹوک جاری رہے تو آخر کار یہ ہوگا کہ اس کا لاشعور یا اس کا حافظہ منفی آئٹم سے بھر جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت، منفی شخصیت بن جائے گی۔ یہی وہ منفی شخصیت ہے جس کے حامل افراد دوسروں کے خلاف تشدد اور جنگ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تشدد دراصل منفی شخصیت کے خارجی اظہار کا دوسرا نام ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جب آدمی کے ذہن میں کوئی منفی احساس آئے تو اسی وقت وہ اس کو بدل کر مثبت احساس بنا لے۔ جو آدمی اپنے اندر کنورزن کا یہ عمل جاری کرے اس کا یہ حال ہوگا کہ اس کا پورا لاشعور یا حافظہ مثبت آئٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ اس کا فائدہ اس کو یہ ملے گا کہ اس کی شخصیت ایسی شخصیت بنے گی جو ہر قسم کے نیگیٹیو احساس سے خالی ہوگی۔ ایسا آدمی مکمل طورپر ایک پازیٹیو شخصیت کا حامل ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پر امن ذہن میں جیتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پیس فل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق کوئی تحریک چلا سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نفسیاتی (psychological)حقیقت کو سمجھا، اور تزکیہ، بالفاظ دیگر ایک ایک شخص پر ڈی کنڈیشننگ کا عمل جاری کرکے ایک سو ہزار سے زائد افراد کی ایک ٹیم بنائی۔ یہ وہ لوگ تھے جو پورے معنوں میں امن پسندی کا مزاج رکھتے تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ پیس فُل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق عمل کرسکیں، اور امن کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک انقلاب لائیں۔
واپس اوپر جائیں