30 مئی 1985
قدیم یونانی سوانح نگار اور فلاسفر پلوٹارک (Plutarch)کا ایک قول ہے، جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
Courage consists not in hazarding without fear, but in being resolutely minded in a just cause.
یعنی ہمت اس کا نام نہیں کہ آدمی کسی مشکل میں بے خطر کود پڑے۔ بلکہ ہمت یہ ہے کہ آدمی ایک صحیح مقصد میں مستقل ارادہ کے ساتھ لگا ہو ۔
اکثر لوگ ہمت اور بے جا جوش میں فرق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ بے جا جوش کے تحت ظاہر ہونے والے واقعہ کو ہمت کا واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہمت کے تحت اقدام سوچا سمجھا اقدام ہوتاہے اور بے جا جوش کے تحت اقدام محض وقتی جذبہ سے بھڑک کر کیا جانے والا اقدام۔ اول الذکر اپنی منزل کی طرف کامیاب سفر ہے، اور ثانی الذکر صرف بربادی کی خندق میںاحمقانہ چھلانگ ۔
سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو دوڑاتی ہیں۔ جنگل میں ہر وقت چھوٹے جانوروں کو بڑے جانوروں کا ڈر لگا رہتا ہے۔ یہی خدا کا نظام ہے۔ اگر مچھلیاںاور جانور خدا سے اس کی شکایت کریں تو خدا کا جواب یہ ہوگا:
میں نے جو سمندر اور جو جنگل بنائے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں۔ اگر تمھیں وہ منظور نہ ہوںتو تم اپنی مرضی کے مطابق دوسرے سمندر اور دوسرے جنگل بنالو۔
یہی معاملہ انسانوں کا ہے۔ انسانوں کی دنیا میں بھی ہمیشہ یہ مقابلہ (competition) جاری رہا ہے، او رجاری رہے گا۔ اس مقابلہ کی وجہ سے کوئی گِرتا ہے ،اور کوئی اٹھتا ہے۔ کسی کو جیت ملتی ہے، اورکسی کو ہار۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اس سے مطابقت کرکے رہے۔ جو لوگ اس کو پسند نہ کریں، ان کے لیے دنیا کا نظام بدلا نہیں جاسکتا۔ ان کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق نئی دنیا تخلیق کریں۔ خدا کی دنیا میں تو ایسا ہونا ممکن نہیں۔
1 جون 1985
انسان کی اعلیٰ ترین تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ دلیل کے آگے جھک جائے، وہ طاقت کے بغیر محض دلیل کی بنیاد پر حقیقت کا اعتراف کرلے۔
مگر میری زندگی کا سب سے زیادہ تلخ تجربہ یہ ہے کہ آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ صرف طاقت کے زور کو جانتا ہے، وہ دلیل کے زور کو نہیں جانتا۔موجودہ دنیا میں آدمی دلیل کا انکار کرکے خوش ہوجاتا ہے، اور طاقت کا اعتراف کرکے اپنے کو عقل مند سمجھتا ہے۔ مگر یہ اتنا بڑا جرم ہے جو سب سے زیادہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والا ہے۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں مبتلا کرتے ہیں کہ آخرت کی دنیا میں انھیں فرشتوں کی طاقت کے آگے جھکایا جائے۔ مگر اُس دن کا جھکنا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ دلیل کے آگے جھکنا آدمی کے لیے جنت (Paradise)کا دروازہ کھولتا ہے۔ جب کہ طاقت کے آگے جھکنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی کو مجبور کرکے جہنم کے گڑھے میںدھکیل دیا جائے۔
دلیل کے آگے جھکنا خدا کے آگے جھکنا ہے۔ جو لوگ دلیل کے آگے نہ جھکیں، وہ گویا خدا کے آگے سرکشی کررہے ہیں۔ جو لوگ خدا کے آگے سرکشی کریں ، اور پھر اسی حال میں مر جائیں ،ان کو خدا کبھی معاف نہیں کرے گا۔
3 جون 1985
موجودہ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ آزاد خیالی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مفکرین آزادی کو خیر اعلیٰ (summum bonum) کہتے ہیں۔مگر یہی سب سے بڑا خیر سب سے بڑا شر بن گیا ہے۔ آزادی کے اس تصور نے انسان کو بالکل بے قید بنا دیا ہے۔ وہ کسی قسم کی اخلاقی پابندی کو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتا۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو اضافی پابندیوں سے آزاد سمجھ لیں وہ جنگل کے جانوروں سے بھی زیادہ برے بن جاتے ہیں۔
آزادی کے نام پر پیدا شدہ اس بگاڑ کا سب سے زیادہ برا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے۔مسلمان اپنی قدیم تاریخ کے نتیجہ میں جھوٹے فخر کی نفسیا ت میں مبتلا تھے۔ جدید دور کی بے قید آزادی نے ان کے فکری زوال میں دُگنا اضافہ کردیا— آزاد خیالی اور پُر فخر نفسیات۔ یہ دونوں چیزیںجب یکجا ہوجائیں تو برائی اس آخری حد پر پہنچ جاتی ہے جس کے آگے اس کی کوئی اور حد نہیں۔
4 جون 1985
تقریباً1950 کی بات ہے۔ اس وقت میںاپنے بڑےبھائی کے کارخانہ لائٹ اینڈ کمپنی (قائم شدہ 1944)سے وابستہ تھا، اور کارخانہ کی ضرورت کے تحت اعظم گڑھ سے بنگلور جارہا تھا۔ اس لمبے سفر کے دوران میرے اندر ایک تجربے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ میں کتنی زیادہ دیر تک بھوکا رہ سکتا ہوں۔ میںنے اس پر عمل شروع کردیا۔ ٹرین اسٹیشنوں پر رکتی۔ لوگ اتر کر کھاتے پیتے۔ مگر میں مسلسل فاقہ کررہا تھا۔ یہ فاقہ سراسر اختیاری تھا۔ کیوں کہ میری جیب میں اس وقت کافی رقم موجود تھی۔
کئی وقت کے فاقے کے بعد مجھے کافی کمزوری محسوس ہونے لگی۔ میں ایک بڑے اسٹیشن پر اترا۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ میں بھی اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ وہاں بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے کھاپی رہے تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھنے لگا۔ معاً مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص مجھے پکڑ کر ہٹا رہا ہے۔ بات یہ تھی کہ مجھے ریسٹورنٹ میںداخل ہوتے ہی چکر آگیا، اور میں ایسی کرسی پر بیٹھنے لگا جس پر پہلے سے آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ کسی آدمی نے مجھے ایک خالی کرسی پر بٹھایا، اور خود ہی میرے لیے کھانے کا آرڈر دیا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں میں نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد غالباً دس روپیہ کا نوٹ دے کر روانہ ہونے لگا۔ دوبارہ ریستوران کے آدمی نے مجھے روکا اور بقیہ پیسے مجھے واپس کیے۔
اگلے دن میں بنگلور کی کسی سڑک پر چل رہا تھا کہ ایک آدمی نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ میںنے گھوم کر دیکھا تو وہ میرے لیے ایک اجنبی شخص تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مذکورہ اسٹیشن کے ریسٹورنٹ میں جب میں کھانے کے لیے داخل ہوا تو وہ بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: اس وقت آپ کا حال دیکھ کر ہم نے یہی سمجھا تھا کہ آپ پیے ہوئے ہیں، اور مد ہوشی کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔ میںنے اس آدمی کو بتایا کہ یہ وجہ نہ تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ میں نے کئی وقت سے کچھ نہیں کھایا تھا، اس لیے مجھے چکر آگیا۔ اسی آدمی نے مجھے بتایا کہ ریسٹورنٹ میں آپ بھری ہوئی کرسیوں پر بیٹھ رہے ـتھے۔
میری زندگی میںاس طرح کے بہت سے عجیب عجیب واقعات ہیں۔ سلف میڈ مین (self made man) کا لفظ عام طورپر صرف معاشی تعمیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ لیکن اس لفظ کا کامل مصداق اگر کوئی شخص ہوسکتا ہے تو یقیناً وہ میں ہوں۔ میں پورے معنوں میں ایک سلف میڈ مین ہوں۔ مجھ کو نہ خاندانی روایات نے بنایا ہے، اور نہ سماجی حالات نے۔ میںنے ہر اعتبار سے اپنے آپ کو خود بنایا ہے۔ تاریخ میں اس قسم کا کوئی دوسرا انسان اگر پایا جاتا ہو تو وہ میرے لیے ایک دریافت ہوگی۔
5 جون 1985
بظاہر سائنس خدا کے بارہ میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica, 1984, 15/531)
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
6 جون 1985
ایک مرتبہ میںعلی گڑھ گیا۔ وہاںمیری ملاقات ایک ’’ریٹائرڈ پروفیسر‘‘ سے ہوئی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میںنے انگریزی زبان میں ایک تفسیر لکھی ہے۔ آپ اس کی اشاعت کا انتظام کیجیے۔گفتگو کے دوران میں نے پوچھا کیا آپ عربی زبان جانتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا جب آپ عربی زبان نہیں جانتے تو آپ نے قرآن کی تفسیر لکھنے کی ذمہ داری کیوں لے لی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ انھوںنے کہا کیا قرآن کی تفسیر لکھنا صرف مولویوں کی اجارہ داری ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے مولویوں کو قرآن کی تفسیر لکھنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے، وغیرہ۔
مسلمانوں کا عجیب مزاج ہے۔ ان کا ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں ہر کام کرنے کا اہل ہوں۔ وہ نہایت آسانی سے ایک ایسا کام شروع کردیتا ہے، جس کے لیے ضروری علمی لیاقت اس کے اندر موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان بے شمار کتابیں لکھ لکھ کر چھاپ رہے ہیں، مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میںواقعۃً قابل مطالعہ مواد پایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کو بے کار نہیںبنایا۔ ہر آدمی کسی خاص کام کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طورپر یہ استعداد موجود ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکے، بڑا کام شہرت کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہے۔ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو جانے۔ وہ بے لاگ غور وفکر کے ذریعہ اس بات کو دریافت کرے کہ اس کو خدا نے کسی خاص کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ محنت کا ہے۔
اپنے لیے صحیح ترین میدان کا تعین اور اس میدان میںمکمل جدوجہد، ان دو شرطوں کو پورا کیے بغیر ایک شخص کوئی قابل لحاظ کام نہیں کرسکتا۔ جو شخص اپنی زندگی کو کارآمد بنانا چاہتاہو اس پر لازم ہے کہ وہ ان دو شرطوں کو پورا کرے۔
7 جون 1985
خشکی کے اکثر جانور پانی میں تیرنا جانتے ہیں۔ وہ بآسانی ندی کے اِس طرف سے اُس طرف تیر کر جاسکتے ہیں۔ ان جانوروں کو یہ تیرنا کس نے سکھایا۔ جواب ہے کہ قدرت نے، یعنی وہ اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت تیرتے ہیں۔
جانور جس طرح تیرنے کا ملکہ پیدائشی طورپر لے کر آتا ہے اسی طرح اپنی ضرورت کی دوسری چیزوں کو بھی وہ پیدا ہوتے ہی جان لیتا ہے۔ مثلاً گھر کیسے بنایا جائے۔ دشمنی سے کیسے بچا جائے۔ کون سی خوراک کھائی جائے اور کون سی خوراک نہ کھائی جائے۔ توالد و تناسل کے لیے کیا کیا جائے، وغیرہ۔ یہ سب باتیں ہر جانور پیدائشی طورپر جانتا ہے۔
انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان کو ہر بات سیکھنی پڑتی ہے۔ گھر کے اندر اور گھر کے باہر کی دنیا اس کے لیے تعلیم گاہ ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی ضرورت کی تمام باتوں کو سیکھتا ہے۔جانور اورانسان کے درمیان یہ فرق بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جانور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ نہیں۔ مگر انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ انسان کا جواب دہ (accountable) ہونا خود انسان کی اپنی بناوٹ سے ثابت ہورہاہے۔
8 جون 1985
برطانی قوم کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے، جس میںدوسروں کے لیے زبردست سبق پایا جاتا ہے۔ سیکنڈ ورلڈ وار (1939-45) میں برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965) تھے۔ انھیں کی قیادت میں برطانیہ نے اس جنگ میںفتح حاصل کی تھی۔ مگر جنگ کے فوراً بعد جب برطانیہ میں الکشن ہوا تو اہل برطانیہ نے مسٹر چرچل کو الکشن میں شکست دے کر مسٹر کلیمنٹ اٹلی (1883-1967)کو ملک کا وزیر اعظم بنادیا۔ فاتح کو عین ا س کی فتح کے بعد معزول کردیا گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت برطانیہ عظمی کے نوآبادیاتی علاقوں میں آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جنگ کے بعد برطانیہ اس قابل نہ تھا کہ وہ ہندستان اور دوسرے نو آبادیاتی ممالک میں بزور اپنا اقتدار قائم رکھ سکے۔ برطانیہ کے باشعور طبقہ نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیاتی ممالک کو آزاد کردیا جائے۔ اس عمل کے لیے متشدد چرچل موزوں نہ تھے۔ بلکہ صلح پسند اٹلی موزوں تھے۔ چنانچہ اہل برطانیہ نے فاتح ہونے کے باوجود چرچل کو اقتدار سے ہٹا دیا اور مسٹر اٹلی کو ان کی جگہ ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔
مہاتما گاندھی (1869-1948) اور ہندستان کے دوسرے لیڈروں کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، اور اسی کے نتیجہ میں ملک بسہولت آزاد ہوگیا۔ مگر مہاتما گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے خود اپنے لیے اس سے کوئی سبق نہیں لیا۔ہندستان میں جنگ آزادی کی قیادت شمالی ہند نے کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں شمالی ہند کے لوگوں میں غیر معتدل قسم کا سیاسی مزاج بلکہ تخریبی مزاج پیدا ہوگیا۔ اس کے مقابلہ میں جنوبی ہند کا مزاج بالکل مختلف تھا۔ شمالی ہند میں اگر انتہا پسندانہ سیاست کا مزاج تھا تو جنوبی ہند میں مخصوص اسباب کے تحت حقیقت پسندانہ تعمیر کا مزاج۔
ان حالات میں مہاتما گاندھی کے لیے صحیح ترین بات یہ تھی کہ وہ آزاد ہندستان کا وزیر اعظم جنوبی ہند کے کسی شخص کو بنائیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت کے جنوبی ہند میں سی راج گوپال اچاریہ (Chakravarti Rajagopalachari, 1878-1972) جیسا عظیم لیڈر موجود تھا۔ مگر مہاتماگاندھی نے جواہر لال نہرو کو آزاد ہندستان کا وزیر اعظم بنادیا۔ جن لوگوں نے جنگ کی قیادت کی تھی انھیں کو مہاتما گاندھی نے تعمیر کی قیادت بھی سونپ دی۔
مہاتما گاندھی نے آزادی ہند کی تحریک نہایت کامیابی کے ساتھ چلائی تھی مگر اسی کامیابی کے ساتھ وہ تعمیر ہند کی تحریک کی رہنمائی نہ کرسکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مہاتما گاندھی نے شمالی ہند کے جواہر لال نہرو کے بجائے جنوبی ہند کے راجہ گوپال آچاریہ کو ملک کا وزیر اعظم بنایا ہوتا تو آج ہندستان کی تاریخ یقینی طور پر بالکل دوسری ہوتی۔
10 جون 1985
اقبال نے کہا تھا کہ مارکسزم جمع خدا، برابر اسلام:
Marxism + God = Islam
اسی بات کو ایک اور شخص نے زیادہ بھونڈے انداز میں اس طرح کہا ہے:
اسلام لنگڑا تھا، مارکسزم نے اس کو اس کا دوسرا پاؤں عطا کیا ہے۔
اس قسم کی باتیں جو لوگ کرتے ہیں، خواہ وہ اقبال ہوںیا غیر اقبال، ان کے متعلق میرا خیال یہی ہے کہ انھوں نے نہ مارکسزم کا گہرا مطالعہ کیا تھا، اور نہ اسلام کا۔ اگر وہ مارکسزم اوراسلام کو گہرائی کے ساتھ جانتے تو ہرگز وہ اس قسم کی بات نہیں کہتے۔
اقبال نے تہذیب حاضر کو خارجی مظاہر کی چمک (dazzling exterior) کہا تھا۔ ان کا مشہور شعرہے:
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
مگر مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ خود بھی اسی جھوٹے نگوں کی چمک کا شکار رہے ۔اقبال کا مذکورہ فارمولا اور اسی طرح ان کے دوسرے بہت سے خیالات اس کی مثال ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کے بارے میں اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا ہے:
Heaven and Hell are states, not localities.
یعنی جنت اور جہنم احوال ہیں، مقامات نہیں۔ اس طرح کی اور کئی باتیں ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ شاعرانہ تک بندیوں میں تو ضرور انھوںنے تہذیب حاضر کی مذمت کی، مگر ان کا حقیقی شعور تہذیب حاضر سے بلند ہو کر نہ سوچ سکا۔ وہ خود بھی تہذیب حاضر کی ظاہری چمک میں گم ہو کر رہ گئے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو (1928-1979) کا نعرہ یہ تھا:
اسلام ہمارا دین،
جمہوریت ہماری سیاست،
سوشلزم ہماری معیشت ہے
مسٹر بھٹو کے اس نعرہ پر پاکستان کے مذہبی طبقہ کو سخت اعتراض تھا۔وہ کہتے تھے کہ مسٹر بھٹو نے اسلام کو تین حصہ میں بانٹ دیا ہے۔ ایک اسلام، دوسرے جمہوریت، تیسرے سوشلزم۔ جب کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا تعلق ہر شعبہ زندگی سے ہے۔ اس میں کسی قسم کی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔ مسٹر بھٹو ایک بدنام شخص تھے۔ ان کی تقسیم فوراً لوگوں کو نظر آگئی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خود مذہبی طبقہ اس طرح تین تقسیم پر اپنے کو راضی کیے ہوئے ہے۔ اگر چہ اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں، جو مسٹر بھٹو نے استعمال کیے تھے۔
مذہبی افراد کی تقسیم کو اگر ہم لفظوں میں ظاہر کرنا چاہیں تو اس کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
اسلام ہمارا دین ہے،
خودنمائی ہماری سیاست،
ذاتی مفاد ہماری معیشت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا نظریہ حیات ایک ہی ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔ ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں جو فرق ہے وہ الفاظ کا ہے، نہ کہ حقیقت کا۔ہر آدمی اپنے حسب حال الفاظ بولتا ہے۔ ہر لیڈر اس نعرہ کو اختیار کرلیتا ہے جو اس کے لیے مفید مطلب (convenient) ہو۔ اگر کئی الفاظ کو ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں ہر شخص کا دین صرف ایک ہے، اور وہ ہے استحصال(exploitation)۔ بولے ہوئے الفاظ میں لوگوں کے دین ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
صحابۂ کرام نے جو حدیثیں بیان کی ہیں وہ سب کی سب براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی نہیں ہیں۔ ان میںایسی حدیثیں بھی ہیں جن کو ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے سنا اور صحابی کا نام لیے بغیر حدیث کو بیان کردیا۔ براء بن عازب (وفات
اس قسم کی روایت کو اصطلاح حدیث میں مرسل حدیث کہتے ہیں اور علما کا اتفاق ہے کہ صحابی کی مراسیل قابل اعتبار ہیں۔ امام موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامی المقدسی کہتے ہیں:مراسیل اصحاب النبی صلى اللہ علیہ و سلم مقبولة عند الجمہور (روضۃ الناظر وجنۃ المناظر، صفحہ
مولانا الطاف حسین حالی (1914۔1837) اور ڈاکٹر محمد اقبال (1877-1938) دونوں تقریباً ہم زمانہ ہیں۔ دونوں نے اشعار کےذریعے قوم کو پیغام دیا۔ مگر اقبال کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ حالی کو حاصل نہ ہوسکی۔
حالی کی ’’مسدس حالی‘‘ بلاشبہ ایک بہترین نظم ہے۔ میرے نزدیک وہ اقبال کے اشعار سے زیادہ اہم ہے۔ اس کے باوجود کیوں حالی کو وہ مقبولیت نہیں ملی جو اقبال کو ملی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حالی کا کلام احتساب خویش (self-introspection)ہے، اور اقبال کا کلام احتساب غیر۔ حالی کا کلام درسِ عمل ہے، اور اقبال کا کلام درسِ فخر۔ حالی کے کلام میں کرکے پانے کا سبق ہے، اور اقبال کے یہاں کیے بغیر شاعرانہ ترنگوں (جذبات) میں سب کچھ مل رہا ہے۔ حالی بتاتے ہیں کہ تم دوسروں سے پیچھے ہوگئے ہو۔ اقبال یہ شراب پلاتے ہیں کہ تم سب سے آگے ہو، حتی کہ تمھارا وہ مقام ہے کہ خدا بھی تمھارے الفاظ کا انتظار کررہا ہے:
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
حالی نے حقیقت پسندی کا سبق دیتے ہوئے کہا :
صدا ایک ہی رُخ نہیں ناؤ چلتی چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
اس کے برعکس، اقبال نے پر فخر طورپر اعلان کیا:
حدیثِ بے خبراں است کہ بازمانہ بساز زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ ستیز
یعنی بے خبروں کی نصیحت ہے کہ اگرزمانہ تمہارے خلاف ہو تو تم بھی بدل کرزمانے کے ساتھ ہو جاؤ، اگرزمانہ ساتھ نہیں دیتا تو تم زمانے سے لڑکرزمانہ کو بدل دو۔
امت نے اقبال کی بات کو پکڑ لیا ، مگر خلاف زمانہ حرکت (anachronism) سے صرف امت کے نقصان میں اضافہ ہوا، اس سے امت کو کوئی مثبت فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔قوم نے اگر حالی کے پیغام کو پکڑا ہوتا تو آج یقیناً اس کی تاریخ دوسری ہوتی۔ مگر قوم کی اکثریت اقبال کا کلام گنگناتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نصف صدی کے بعد بھی قوم کے پاس جھوٹے فخر اور خیالی پرواز کے سوا اور کوئی سرمایہ نہیں۔
مسلمانوں نے پچھلے دو سو برس کے اندر کوئی بھی ٹھوس تعمیری کام نہیں کیا۔ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا مسئلہ عقلی نقطۂ نظر کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ میں عقلی نقطۂ نظر نے ایک فکری انقلاب پیدا کیا ہے۔ اس انقلاب نے دینی عقائد کو دور جاہلیت کی چیز قرار دے کر ان کو تاریخ کے خانہ میں ڈال دیا۔ یہاں ضرورت تھی کہ مسلمان اٹھیں اور دینی عقائد اور تعلیمات کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم کریں۔ مگر اس پوری مدت میں منفی ہنگاموں کے سوا مسلمان اور کچھ نہ کرسکے۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمانے میں تبدیلی واقع ہوئی اور دینی عقائد کو دوبارہ عقلی بنیاد فراہم ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے۔ مگر یہ کام تمام تر عیسائی اور یہودی علماء نے انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔جدیدسائنس نے خدا کو کائنات کے نقشہ سے حذف کردیا تھا۔ اب دوبارہ خدا کائنات کے نقشہ میں نظر آرہا ہے مگر اس عمل کو انجام دینے والے وہ لوگ ہیں، جن کے نام جیمز جینز اور اڈنگٹن جیسے ہیں۔
یہی معاملہ تمام دینی تعلیمات کا ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ دنیا میں دوسرے الہامی مذاہب (عیسائیت، یہودیت) بھی موجود تھے۔ اسلام اور ان مذاہب کے درمیان تعلیمات اور تاریخی شخصیتوں کا اشتراک ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی تعلیمات اور اپنی تاریخ کو عقلی اور سائنسی طورپر معتبر ثابت کرنے کے لیے جو تحقیقات کیں اس کا فائدہ بالواسطہ طورپر اسلام کے حصہ میں بھی آگیا۔ مثلاً علم الآثار کی تحقیق جس نے قرآن میں مذکور اقوام اور شخصیتوں کو تاریخ کی روشنی عطا کی۔ نظریۂ ارتقا کی تردید جس نے خالق کے عقیدہ کو دوبارہ بحال کیا۔ عورت اور مرد کے درمیان حیاتیاتی فرق کو ثابت کرنا جس نے خاندان کے بارے میں اسلامی قوانین کو دوبارہ اعتباریت (credibility) عطا کی۔ حتی کی اسلام کی قدیم عربی کتب کو مخطوطات کے دور سے نکال کر مطبوعات کے دورمیں داخل کرنا بھی انھیں عیسائیوں اور یہودیوں کا کارنامہ ہے۔ غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ جس زبان میں اعلیٰ لٹریچر موجود ہے، وہ انگریزی زبان ہے۔ اس سلسلہ کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سیرت کی مستند کتاب ،سیرت ابن ہشام کا مکمل ترجمہ پہلے انگریزی میں ہوا اور اس کے بہت دیر بعد کسی مسلم زبان میں۔
ہندستان ٹائمس میں ایک ہندو کا خط چھپا ہے۔ یہ خط ہندستان کے مسلمانوں کے معاملا ت سے متعلق ہے۔ مسلمان اس خط کو پسند نہیں کریں گے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خط صد فی صد (100%) درست ہے، وہ مسلمانوں کی حالت کی صحیح ترین ترجمانی ہے۔ہندو مکتوب نگا رنے لکھا ہے کہ ہندستان کے مسلمان اپنی زبوں حالی کا الزام ہندوؤں کو دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذمہ دارتمام تر خود مسلمان ہیں۔ اس نے مسلمانوں کی لیڈر شپ کو مسلمانوں کی بد حالی کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
مکتوب نگار کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی بد حالی کا سبب یہ ہے کہ ان کے لیڈروں میں خود نمائی (self-glorification)کا جذبہ ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام لیڈر خود نمائی (self glory) کے مرض میں مبتلارہے۔ وہ انھیں چیزوں میں دوڑتے ہیں جس میں نیوز ویلو ہو، جس میں ان کی ذات کو شہرت اور بڑائی حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی لیڈر (سرسید کے واحداستثنا کے سوا) اس پورے دور میں کوئی حقیقی تعمیری کام (constructive) نہ کرسکا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار اپنے آپ کوقرار دینا چاہیے، دوسروں کی شکایت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
مجھے مذکورہ ہندو مکتوب نگار کی رائے سے صد فی صد (100%) اتفاق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے اصل دشمن خود ان کے اپنے لیڈر ہیں۔ ان لیڈروں نے اپنی شخصی لیڈری کی خاطر قوم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمان جب تک اس اصل سبب کا اعتراف نہ کریں، وہ موجودہ زمانے میں اپنی جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔
18 جون 1985
قدیم عرب کے لوگ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے حیرت انگیز تھے۔ ان کی مختلف صلاحیتوں میں سے ایک اعلیٰ صلاحیت یہ تھی کہ وہ کم الفاظ میں نہایت با معنی بات کہنا جانتے تھے۔
جنگ جمل کے زمانہ میں حضرت علی نے دو آدمیوں کو کوفہ بھیجا کہ وہ ان کو تعاون پر آمادہ کریں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت ان الفا ظ میں آئی ہے:لَمَّا بَعَثَ عَلِیٌّ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ إِلَى الْکُوفَةِ لِیَسْتَنْفِرَہُمْ ،خَطَبَ عَمَّارٌ فَقَالَ:إِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّہَا زَوْجَتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ ،وَلَکِنَّ اللہَ ابْتَلَاکُمْ بِہَا ، لَیَنْظُرَ إِیَّاہُ تَتَّبِعُونَ أَوْ إِیَّاہَا(السنن الکبریٰ للبیہقی، اثرنمبر 16717)۔ یعنی جب علی ابن ابی طالب نے عمار اور حسن کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ انھیں جنگ میں نکلنے کے لیے ابھاریںتو عمار نے تقریر کرتے ہوئے کہا: میں جانتا ہوں کہ عائشہ دنیا اور آخرت میں تمھارے پیغمبر کی بیوی ہیں۔ مگر اللہ نے اس کے ذریعہ سے تم کو آزمایا ہے تاکہ دیکھے کہ تم علی کا ساتھ دیتے ہو یا عائشہ کا— اتنی نازک بات کواس سے زیادہ کم الفاظ میں شاید نہیں کہا جاسکتا۔
19 جون 1985
ہر دو آدمی کے درمیان ان کا خدا کھڑا ہوا ہے۔ خدا ہر وقت ہر آدمی کی بات سن رہا ہے تاکہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان انصاف کرے۔
اگر آدمی کو اس واقعے کا احساس ہو تو اس کا وہی حال ہوگا، جو ایک آدمی کا عدالت میں ہوتا ہے۔ عدالت میںہر آدمی بالکل ناپ تول کر بولتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی بات خلاف قاعدہ منھ سے نکل گئی تو وہ فوراً عدالت کی پکڑ میںآجائے گا۔ اسی طرح اللہ پر عقیدہ رکھنے والا جو کچھ بولتا ہے، اس احساس کے تحت بولتا ہے کہ خدا اس کو سن رہا ہے۔ یہ احساس اس کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کوئی غلط بات اپنے منھ سے نہ نکالے۔
انسان سے اگر غلطی ہوجائے اور وہ فوراً اس کا اعتراف کرلے توگویا کہ اس نے خدا کے سامنے اعتراف کیا۔ اور اگر وہ غلطی کا اعتراف نہ کرے تو گویا کہ اس نے خدا کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ لوگ معاملات کو انسان کا معاملہ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ سرکشی اور بے انصافی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غلطی کرکے بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے۔
میرا مزاج یہ ہے کہ اگر میں کوئی خلافِ حق بات کہہ دوں اور اس کے بعد مجھے معلوم ہو کہ یہ بات حق کے خلاف تھی تو میں اس کو افورڈ (afford )نہیں کرسکتا کہ میں اس کا اعتراف نہ کروں۔ میں حق کے آگے جھک نہ جاؤں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا خود ظاہر ہو کر میرے سامنے آیا اور کہا کہ میرے سامنے جھک جا اس کے باوجود میں خدا کے سامنے نہیں جھکا— حق کے سامنے نہ جھکنا ایسا ہی ہے گویا کسی کے سامنے خدا آیا، ا ور وہ اس کے سامنے نہیں جھکا۔
20 جون 1985
ایک شخص نے اپنا دل چسپ تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہے:
“A fast way of becoming a millionaire”, read the ad in the newspapers. “For further particulars send a self-addressed stamped envelope along with Rs. 1". Intrigued, I sent off the money and received the following reply: “Start a scheme just like this one.” (Dilip Rendalkar, Secunderabad)
’’جلد کرورپتی بننے کا طریقہ‘‘ اس عنوان سے میںنے اخبارات میں ایک اشتہار پڑھا۔ اسی کے ساتھ اشتہارمیں یہ درج تھا کہ مزید تفصیلات کے لیے اپنا پتہ لکھے ہوئے لفافہ کے ساتھ ایک روپیہ بھیجیں۔ میرا اشتیاق بڑھا۔ میںنے مطلوبہ رقم بھیج دی۔ اس کے بعد مجھے ایک جواب ملا، جس میں یہ لکھا تھا— اسی طرح کی ایک اسکیم آپ بھی شروع کردیجیے۔
تجارت کے دو طریقے ہیں۔ ایک معروف تجارت، اور دوسری وہ جس کو جھوٹی امیدوں کی تجارت (false hopes business) کہا جاسکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ "جھوٹی امیدوں کی تجارت" کی ایک دلچسپ مثال ہے۔
جھوٹی امیدوں کے بزنس کے سب سے بڑے تاجر موجودہ زمانہ میں ہمارے لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر ایک بڑی سی امید دلا کر قوم کو اکسائیں گے۔ قوم ان کے الفاظ سے متاثر ہو کر دوڑ پڑے گی۔ وہ انھیں چندہ دے گی۔ ان کے جلسوںمیں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو کر ان کی امیج (image)بڑھائے گی۔ حتی کہ بے شمار لوگ ان کے الفاظ کے فریب میں آکر گولیاں کھائیں گے، اور اپنے کو برباد کریں گے۔
اس کے نتیجہ میں لیڈر کی لیڈری چمک اٹھے گی۔ اس کی قیادت کا شان دار مینار کھڑا ہوجائے گا۔ مگر قوم کے حصہ میں کچھ بھی نہ آئے گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے مذکورہ مثال میں لاکھوںآدمیوںنے اپنی جیب کی رقم کھو کر ایک شخص کو دولت مند بنا دیا، مگر خود کھونے والوںکے حصہ میں کچھ بھی نہ آسکا۔
چھوٹی انسائیکلو پیڈیا (ایک جلد والی) میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:
Pears' Cyclopaedia (London)
اس انسائیکلو پیڈیا میں مونو تھیئزم کے آگے حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ہیں— توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے:
Monotheism, the doctrine that there exists but one God. The chief monotheistic religion is Christianity.
یہ انسائیکلو پیڈیا کا وہ ایڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبارسے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذاہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں ہیں۔
مغربی علما نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔چنانچہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلو پیڈیا— Collins Concise Encyclopedia (Glasgow) میں اس سلسلہ میں حسب ذیل الفاظ لکھے گئے ہیں کہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتاہے:
Monotheism, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity and Islam.
اخبار ملاپ (نئی دہلی) آریہ سماجی حضرات کا اخبار ہے۔ اس میںایک بار ایک لطیفہ چھپا۔ وہ یہ تھا— ایک ہندو ایک بار اپنے ایک ہندو دوست کے یہاں گیا جو کٹر مذہبی تھا۔ میزبان نے کافی دیر تک کھانا پکوایا۔مہمان کا بھوک سے برا حال ہورہا تھا۔ آخر کار کئی گھنٹہ کے بعد میزبان نے کہا کہ اندر چلیے۔ وہ ان کے ساتھ اندر کی طرف چلے۔ یہاں تک کہ دونوں اس کمرے کے سامنے پہنچے جس کے اندر کھانا رکھا ہوا تھا۔ مہمان حسب عادت چلتاہوا اس طرح کمرہ میں داخل ہوا کہ پہلے چوکھٹ کو پار کر کے ایک پاؤں کمرے میں رکھا اور پھر اس کے بعددوسرا پاؤں۔ یہ دیکھ کر میزبان بگڑ گیا۔ اس نے کہا کہ تم نے سارا کھانا بھرشٹ کردیا۔ مہمان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیا غلطی کی ہے۔ میزبان نے کہا کہ تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ تم نے سارا کھانا خراب کردیا۔ اب اس کو نہ تم کھاسکتے نہ میں کھاسکتا۔ مہمان جو بھوک سے بے تاب تھا، اس نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا کہ آخر مجھ سے کیا غلطی ہوگئی ہے۔ میزبان نے کہا کہ تم رسوئی گھر میں ایک پاؤں آگے ایک پاؤں پیچھے کرکے داخل ہوگئے۔ تم کو یہ کرنا چاہیے تھا کہ دونوں پاؤں برابر کرکے ملاتے اس کے بعد چوکھٹ کے اوپر سے کود کر کمرے میں داخل ہوتے۔
مشرکانہ مذاہب میں اس قسم کی ظاہری رسموں کی بے حد اہمیت ہوتی ہے۔ بلکہ مشرکانہ مذہب سارا کا سارا رسوم ورواج ہی کے اوپر قائم ہوتاہے۔
مسلمانوں کے ایک قائد نے ہندستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا ذمہ دار ہندوؤں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزادی کے بعد مسلسل مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جارہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ ان چیزوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر دفاعی ذہن پیداہوگیا ہے۔ ان کے اندر وہ مثبت ذہن پیدا نہیں ہوتا جو تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے ہندو جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا سلسلہ بند کریں تاکہ مسلمان تعمیر و ترقی کی راہ میں آگے بڑھ سکیں۔
میں کہوں گا کہ مسلمانوں کی تعمیر کی راہ میں اصل رکاوٹ ہندو صاحبان نہیں ہیں بلکہ مذکورہ بالا قسم کے مسلم قائدین ہیں، جو مسلمانوں میں صحیح ذہن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہ قائدین مستقل طورپر ایک ہی کام کررہے ہیں، اور وہ ہے ذہن کو بگاڑنا۔ ا س دنیا میں رکاوٹوں کے باوجود کام کیا جاتا ہے، نہ کہ رکاوٹوں کے بغیر۔ یہ دنیا کبھی رکاوٹوں سے خالی نہیں ہوسکی۔ اسی لیے رکاوٹوں کی شکایت کرنا ہی بے معنی ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم رکاوٹوں کے اندر سے اپنے لیے امکان تلاش کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے لیے مکہ اور مدینہ میں جو رکاوٹیں تھیں، وہ ہماری رکاوٹوں سے ایک کرور گنا زیادہ تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ’’تعمیر وترقی‘‘ کے کام کی صورتیں نکالیں۔ حتی کہ انھوں نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا۔ اگر وہ قریش اور یہود اور منافقین سے مطالبہ کرتے کہ ہمارے راستہ کی رکاوٹیں ختم کرو تاکہ ہم تعمیری کام انجام دے سکیں تو نہ کبھی رکاوٹیں ختم ہوتیں، اور نہ کبھی تعمیری کام کا آغاز ہوتا۔
ہمارے قائدین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو رکاوٹوں کے باوجودکام کرنے کا سبق دیں۔ رکاوٹوں کے بغیر کام کا جو نسخہ وہ پیش کررہے ہیں، وہ کسی خیالی جزیرہ میں ممکن ہوسکتاہے۔ موجودہ مقابلہ کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
زندگی بے حد مشکل امتحان ہے۔ اس مشکل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اکثر معاملات میں آدمی کو کٹھن فیصلہ لیناہوتا ہے، کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف۔ یہ طے کرنا کہ کب کس رُخ پر اقدام کیا جائے، یہ بے حد نازک اور مشکل کام ہے، بلکہ شاید اکثر اوقات میں انسانی عقل سے باہر۔ کیوں کہ صحیح فیصلہ لینے کے لیے مستقبل کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے، اور مستقبل کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ وہ ہے جو آپ نے صلح حدیبیہ کے وقت لیا اور دوسرا فیصلہ وہ ہے جو آپ نے فتح مکہ کے وقت لیا۔ دونوں دو انتہائی فیصلے تھے۔ صلح حدیبیہ کے وقت مکمل طورپر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور فتح مکہ کے سفر میں مکمل طورپر آگے بڑھنے کا۔ دونوں انتہائی فیصلے تھے۔پیغمبر کا فیصلہ خدا کی وحی کی بنیاد پر تھا، اس لیے پیغمبر اسلام کے لیے ممکن تھا کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن معاملے میں صحیح فیصلہ لے سکے۔ مگر عام انسان کے لیے شاید یہ ممکن نہیں کہ وہ اس طرح کے انتہائی کٹھن فیصلے اتنے درست طور پر لے سکے۔ عام آدمی کے لیے ِ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3560)کے مطابق، یہی راستہ ہے کہ وہ ممکن (possible)یا آسان تر کو پہچانے اور اس کو اختیار کرے۔
ایک صاحب تھے۔ ان کی کوئی خاص تعلیم نہ تھی۔ اردواخبارات اور اردو ریڈیو سن کر جو معلومات انھیں مل گئی تھیں وہی ان کا کل علمی اثاثہ تھا۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بھی کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم نہ دلا سکے۔
مگر ان صاحب کی ’’انا‘‘ یعنی ایگو (ego)بے حد بڑھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے کو سب سے زیادہ قابل سمجھتے تھے۔ ان کا جھوٹا احساسِ برتری کسی کی علمیت تسلیم کرنے میں مسلسل مانع بنا ہوا تھا۔ حتی کہ اپنے جاہل بچوں میں بھی انھوں نے یہی ذہن پیدا کردیا۔ انھوں نے اپنے بچوں کو سکھایا کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات پوچھے تو ایسا کبھی نہ کہو کہ ہم کو نہیں معلوم۔ چنانچہ ان کے بچوں کا ،جہالت کے باوجود ، یہ حال تھا کہ کوئی بات کہی جاتی تو فوراً بول اٹھتے: ہماں کو سب معلوم ہے(ہم کو سب معلوم ہے)۔
ایسا ہی کچھ حال موجود زمانہ کے ’’علما‘‘ کا ہوا ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت محدود ہوتا ہے مگر ان کا ذہن مخصوص اسباب سے یہ بن جاتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ مدرسوں کے ان پیدا شدہ علما سے گفتگو کیجیے ۔ وہ کبھی یہ نہ کہیں گے کہ یہ بات میں نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ یہ ظاہر کریں گے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ان علما کو غیر علما بنانے میں سب سے زیادہ دخل ان کی اسی ذہنیت کا ہے۔
’’ہم کو سب بات معلوم ہے‘‘ کا مزاج آدمی کو ہر بات سے بے خبر کررہا ہے، اور موجودہ زمانہ کے علما اس کی عبرت ناک مثال ہیں۔
بعض لوگ قرآن میں ’’اختلاف قرأت‘‘ کے مسئلہ کو لے کر قرآن کی حفاظت کو مشتبہ ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سراسر مغالطہ ہے۔ان کو جاننا چاہیے کہ قرآن میں اختلافِ قرأت ہے، اختلافِ کتابت نہیں ہے۔ یعنی تمام دنیا کے سارے قرآن ایک ہی طرز پر لکھے جاتے ہیں۔ اس میں کسی کے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔ اب جو فرق ہے وہ قرأت کا ہے۔ یعنی قرآن کو پڑھنے میں لوگ کئی آوازوں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرب قبائل رب الناس کو رب النات پڑھتے تھے۔ کچھ لوگ رَبَّک کو رَبّش پڑھتے تھے، وغیرہ(البرھان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 220)۔
اختلاف قرأت، بالفاظ دیگر لہجہ کا اختلاف ہر زبان میں ہوتا ہے۔ مثلاً انگریزی کو لیجیے۔ poet کو تمام ملکوں میں اسی طرح لکھا جاتا ہے مگر اس کو پڑھنے میں فرق ہے۔ مثلاً امریکا کے لوگ اس کو پائٹ پڑھتے ہیں اور انگلینڈ کے لوگ پواِٹ کہتے ہیں۔ اسی طرح salt کو ہندستان میں سالٹ کہاجاتا ہے۔ مگر یہی لفظ برطانیہ میں سوٹ کی آواز میں پڑھا جاتا ہے۔ جب کہ لکھنے کے اعتبار سے ہر جگہ اس کو ایک ہی طریقہ سے لکھا جاتاہے۔
قرآن اپنی کتابت کے اعتبار سے بلا شبہ محفوظ ہے، اور صد فی صد(100%) محفوظ ہے۔ اب جو بعض فرق ہے وہ لہجہ اور تلفظ کا فر ق ہے۔ اور لہجہ اور تلفظ کا فرق فطری ہے، وہ نہ ختم ہوتا اور نہ اس سے کوئی خرابی واقع ہوتی ہے۔
مستشرقین نے حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کے لیے جن چیزوں کو بنیاد بنایا ہے، ان میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ کی کثیر روایات ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ نے ہجرت کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی صحبت غزوہ خیبر کے بعد شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت ابو ہریرہ کی صحبت رسول ان کثیر روایات کے لیے ناکافی ہیں جو ان سے مروی ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ کی روایات کی تعداد 5374 ہے، جیسا کہ ابن حزم نے لکھا ہے۔ مگر یہ کثیر تعداد تکرار اسناد کی بنا پر ہے۔ محدثین کا طریقہ ہے کہ وہ احادیث کو طرق روایت کے اعتبار سے شمار کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ سے ایک حدیث کو چار آدمیوں نے سنا ہو اور وہ چاروں الگ الگ اس کو بیان کریں تو محدثین کے یہاں یہ ایک حدیث چار حدیث بن جائے گی۔
کچھ لوگوں نے اس کا جائزہ لیا ہے اور تکرار کو حذف کرکے روایات کی تعداد متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوںنے مکررات کو حذف کیا تو روایات ابوہریرہ کی اصل تعداد صرف 1336 رہ گئی۔
اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو منکرین حدیث کا اعتراض بالکل بے حقیقت ثابت ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ حضرت ابوہریرہ کی مدت صحبت کے اعتبار سے 1336 کی تعداد زیادہ نہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے قبیلے سے آکر مدینہ میں رہ گئے تھے اور مسجد نبوی میں قیام کی وجہ سے ان کو رسول اللہ کے ارشادات سننے کا موقع دوسروں سے زیادہ ملا تھا۔
تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں اس قسم کے الفاظ آئے ہیں:کَانَ مِن أحفظ أَصْحَاب رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَیْہِ وَسلم وألزمہ لَہُ على شبع بَطْنہ وَکَانَت یَدہ مَعَ یَدہ یَدُور مَعَہ حَیْثُ مَا دَار إِلَى أَن مَاتَ رَسُول اللہ صلى اللہ عَلَیْہِ وَسلم(رجال صحیح مسلم لابن مَنْجُوَیہ، جلد2، صفحہ
1 جولائی 1985
اقبال نے نصف صدی سے بھی پہلے پر فخر طورپر یہ شعر کہا تھا:
ایک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تاخاک بخارا وسمرقند
اقبال کی موت (1937)کے تقریباً دس سال بعد ان کا یہ خواب بھی پورا ہوا کہ ایک آزاد مسلم اسٹیٹ (an independent Muslim State) پاکستان کے نام پر قائم ہوگیا۔ اقبال اگر مفکر پاکستان تھے تو جناح معمار پاکستان۔ قیام پاکستان کے بعد مسٹر محمد علی جناح نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ خدا نے ہم کو ایک سنہرا موقع دیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایک نئی قوم کا معمار ہونے کا اہل ثابت کریں۔ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیجیے کہ ہم اپنے آپ کو اس مہم کا اہل ثابت نہ کرسکے:
“God has given us a golden opportunity to prove our worth as architects of a new nation, and let it not be said that we didn’t prove equal to the task.”
پاکستان کے ایک اقبال اور جناح کے مداح لکھتے ہیں’’افسوس کہ علامہ اقبال پاکستان کے قیام سے لگ بھگ دس سال قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قائداعظم مرحوم بھی قیام پاکستان کے بعد کل ایک سال زندہ رہے۔ ان کے بعد ان کی عظیم تحریک کا ثمرہ دوسروں نے اچک لیا‘‘۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا یہ معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ خوش قسمتی کے ہجوم میں بد قسمتی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ انھوںنے اتنا بڑا مفکر اسلام پیدا کیا ،جس نے سارے عالم اسلام میں نیا ولولہ پیدا کردیا۔ مگر اس نئے ولولہ کا عملی انجام یہ ہے کہ مفکر اسلام کے اپنے وطن (لاہور) میں بھی غیراسلام کے علم بردار اسلام کے علم برداروں کو شکست فاش دیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بطور خود مفکر اعظم اور قائد اعظم پیدا کرلیے۔ مگر ان اعاظم(اکابر) کی کامیاب تحریکوں کا ثمرہ (result)وہ لوگ اچک لے گئے جو بالکل برعکس ذہن رکھتے تھے۔
2 جولائی 1985
ایس ٹی کو لرج(Samuel Taylor Coleridge, 1772-1834) ایک مشہور انگریزی شاعر ہے۔ اس کی ایک نظم کا عنوان ہے:
The Rhyme of the Ancient Mariner
اس نظم میں شاعر نے دکھایا ہے کہ ایک ملاح اپنے کسی گناہ کے سبب سمندر میںپھنس گیا ہے۔ اس کے پاس پینے کے لیے میٹھا پانی نہیں ہے۔ کشتی کے چاروں طرف سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ مگر کھاری ہونے کی وجہ سے وہ اس کو پی نہیں سکتا۔ وہ پیاس سے بے تاب ہو کر کہتا ہے کہ ہر طرف پانی ہی پانی مگر ایک قطرہ نہیں جس کو پیا جاسکے:
Water, water, everywhere / Nor any drop to drink.
جو حال کولرج کے خیالی ملاح کا ہوا وہی حال امکانی طورپر اس دنیا میں تمام انسانوں کا ہے۔ انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پانی کا تمام ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جن میں 1/10 حصہ نمک ملا ہوا ہے۔ اس بنا پر سمندر کا پانی اتنا زیادہ کھاری ہے کہ کوئی آدمی اس کو پی نہیں سکتا۔
اس کا حل قدرت نے بارش کی صورت میں نکالا ہے۔ سورج کی گرمی کے اثر سے سمندروں میں تبخیر (evaporation) کا عمل ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا کی طرف اٹھتا ہے، مگر مخصوص قانونِ قدرت کے تحت اس کا نمک کا جزء سمندر میں رہ جاتا ہے، اور صرف میٹھے پانی کا جزء اوپر جاتا ہے۔ یہی صاف کیا ہوا پانی بارش کی صور ت میں دوبارہ زمین پر برستا ہے اور انسان کو میٹھا پانی عطا کرتا ہے جس کی اسے سخت ترین ضرورت ہے۔ بارش کا عمل ازالۂ نمک (desalination) کا ایک عظیم آفاقی عمل ہے۔ آدمی اگر صرف اس ایک واقعہ پر غور کرے تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ وہ خداکے کرشموں کے احساس سے رقص کرنے لگے۔
3 جولائی 1985
قرآن میں متعدد مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے دودریا بنائے۔ ان کے درمیان ایک آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ آپس میں نہیں ملتے۔
یہ ایک انتہائی حیرت ناک بیان ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت ساری دنیا میں کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ پانی دو قسم کے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ملے بغیر بہتے ہیں۔ ایسے زمانہ میں قرآن میںاس قسم کی آیت کا ہونا واضح طو رپر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خدائی کتاب ہے۔ کیوںکہ کوئی انسان اس راز سے واقف ہی نہ تھا کہ وہ اس کو بیان کرے۔
موجودہ زمانہ میں تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بات پانی کے کھار ی پن میں فرق سے پیدا ہوئی ہے۔ انسائکلو پیڈیا برٹانکا میں (Salinity Current) کے تحت درج ہے:
Saline water is denser than fresher water; when two water bodies converge, the more saline of the two flows beneath the less saline. Thus, a river flowing into the sea flows on the surface, sometimes for great distances; the Mississippi, for example, appears as a brown, freshwater stream in the blue waters of the Gulf of Mexico. (EB. VIII, p.
کھاری پانی میٹھے پانی سے زیادہ کثیف (dense) ہوتاہے۔ جب دو پانی ملتے ہیں تو جو دونوں میں سے زیادہ کھاری ہوتا ہے وہ کم کھاری کے نیچے بہتا ہے۔ اس طرح سمندر میں بہنے والا ایک دریا سمندر کی سطح پر بہتا ہے۔ بعض اوقات بہت دور تک مثلاً مسیسپی میکسکو گلف کے نیلے پانی کے اوپر بادامی پانی کی شکل میں بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
4 جولائی 1985
اکثر باتیں بالکل سادہ اور فطری ہوتی ہیں مگران کو غیر ضروری طورپر پراسرار بنا دیا جاتاہے۔ مثلاً روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر ابراہیم نے جب مکہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو پکارو ، تاکہ وہ یہاں حج کے لیے آئیں۔حضرت ابراہیم کو اندیشہ ہوا کہ میری آواز ہر جگہ کیسے پہنچے گی۔ خدا نے کہا کہ تم پکارو اور پہنچا نا ہمارا کام ہے( یَا رَبِّ، وَکَیْفَ أُبْلِغُ النَّاسَ وَصَوْتِی لَا یَنْفُذُہُمْ؟ فَقِیلَ:نَادِ وَعَلَیْنَا الْبَلَاغُ)۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے پکار کر کہا کہ لوگو! بیت اللہ کا حج کرنے کہ لیے آؤ۔ پھر پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ہر جگہ پہنچ گئی(تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ
پیغمبر ابراہیم کی یہ بات اگر بالکل لفظی معنوں میں ہوتی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر دوبارہ یہ اعلان کرنے کی ضرورت نہ ہوتی :أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا(مسند احمد، حدیث نمبر 10607)۔ یعنی اے لوگو، بے شک اللہ تعالی نے تم لوگوں پر حج فرض کیا ہے تو حج کرو۔
حضرت ابراہیم کا اعلان دراصل بات کو کہنے کا ایک اسلوب ہے۔ حضرت ابراہیم کا اعلان پراسس کی تکمیل اعلان نہیں تھا بلکہ وہ پراسس کے آغاز اعلان تھا۔ حضرت ابراہیم کے ذریعہ اس اہم اعلان کا آغاز کیاگیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان فرمایا۔ اس کے بعد آپ کی امت کے لوگ نسل در نسل اعلان کررہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔
اکثر غلط فہمی اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ ایک پراسس کے تحت جاری واقعات کوایک دوسرے سے ملا کر نہیں دیکھتے۔ مثلاً اس معاملہ میں وہ حضرت ابراہیم کے اعلان کو الگ واقعے کی حیثیت سے دیکھیں گے، اور پھر رسول اللہ کےاعلان کو الگ واقعہ سمجھیں گے۔ پھر ان دونوں کو الگ الگ واقعہ سمجھ کر لکھنا اور بولنا شروع کردیں گے۔ یہ غیر علمی نقطہ نظر ہے، اور اکثر حالات میں یہی غیر علمی نقطہ نظر لوگوں کے لیے اصل بات کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
5 جولائی 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو حدیثیں وضع کی گئیں اس کے بہت سے محرکات تھے۔ ان میں سے ایک محرک دین کا مذاق اڑانا تھا۔مثلاًیہود ونصاری نے بعض چیزوں کو خودساختہ طور پر اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔اس معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ تم ان معاملات میں یہود ونصاری کا انداز اختیار نہ کرو بلکہ اس سے مختلف طریقہ اختیار کرو (خَالِفُوا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَى)۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 2186۔
ایک شخص نے اس تعلیم کا مذاق اڑانے کے لیے ایک حدیث گھڑی اور کہا:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَقْطَعُوا اللَّحْمَ بِالسِّکِّینِ فَإِنَّہُ مِنْ صَنِیعِ الْأَعَاجِمِ( سنن ابوداؤد، حدیث نمبر3778) ۔ یعنی گوشت کو چھری سے نہ کاٹو، کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے۔ پیغمبرِ اسلام نے مذہبی شعار میں تشبہ سے منع کیا تھا۔ مگر کہنے والے نے ایک خود ساختہ مثال کے ذریعے اس کو مضحکہ خیز بنا دیا۔ اس قسم کی لاکھوں حدیثیں وضع کرکے لوگوں کے اندر پھیلا دی گئیں۔ تاہم اس سے دین محفوظ کو کوئی خطرہ نہیں۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید (148-193ھ)کا واقعہ ہے۔ اس نے ایک حدیث وضع کرنے والے کو موت کی سزا دی تو اس نے کہاتھا:فأین أنت من ألف حدیثٍ وضعتُہا على نبیِّک؟ فقال لہ:أین أنت یا عدوَّ اللہ من أبی إسحاقَ الفَزاریّ وابن المبارک؟ فإنہما یتصفَّحانہا فیُخرجانہا حرفًا حرفًا (مرآة الزمان فی تواریخ الأعیان، جلد
6 جولائی 1985
صحابہ کرام کے اقوال جو کتابوں میں آئے ہیں،وہ حد درجہ حکمت کی باتیں ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ کسی صحابی نے بھی کسی یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ پھر یہ علم ان کے اندر کہاں سے آیا۔ یہ علم ان کے اندر تقویٰ نے پیدا کیا۔ تقویٰ خود علم ہے۔جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اس کا سینہ علم کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مسروق تابعی نے کہا:کَفَى بِالْمَرْءِ عِلْمًا أَنْ یَخْشَى اللَّہَ(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد6، صفحہ
حضرت عمر کے اس قول میں جو حکمت ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔
8 جولائی 1985
1976 میں طرابلس (لیبیا) میں ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کا عنوان تھا:
Muslim Christian Dialogue
میں نے بھی کانفرنس کے دعوت نامہ پر اس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ مجھے قبض (constipation) ہوگیا اور کئی دن تک اجابت نہیں ہوئی تو میں ہوٹل کے اس کمرے میں گیا جہاں شرکاءِ کانفرنس کے لیے دواؤں کا انتظام تھا۔ وہاں جو ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی پر تھے ان سے میں نے قبض کی دوا مانگی۔ایک کافی بڑے ہال میں دواؤں کا انبار لگا ہوا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب دیر تک تلاش کرنے کے بعد بھی قبض کی کوئی دوا نہ پاسکے۔ میںنے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ کے پاس اتنی ساری دوائیں ہیں اور قبض کی کوئی دوا آپ کے پاس نہیں۔ انھوںنے مسکراتے ہوئے جواب دیا : ہمارے پاس تو سب دست (diarrhea) کے مریض آرہے ہیں۔
میں نے اپنے اور دوسروں کے بارے میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ میں بھوک سے کم کھاتا تھا اور دوسرے حضرات بھوک سے زیادہ۔ یہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ کھانے کی چیزیں نہایت افراط کے ساتھ مہیا کی گئی تھیں۔ کھانے کے مخصوص اوقات کے علاوہ بار بار (refreshment)دیا جارہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ خوب دھوم کے ساتھ کھا پی رہے ہیں۔ جب کہ میں اپنے مزاج کے مطابق زیادہ نہیں کھا پاتا تھا۔ دوسروں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے دست ہوگیا اور مجھ کو کم کھانے کی وجہ سے قبض۔
9 جولائی 1985
سید ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’’پردہ‘‘ پڑھ رہا تھا۔ قوانین فطرت کے باب میں حسب ذیل الفاظ لکھے ہوئے ملے:
وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں اور دونوں صنفوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ پھولوں کی خوشبو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب ماہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ داعیات صنفی کو حرکت میں لانے کاسبب نہ بنتا ہو۔
مصنف نے یہ بات اپنے خیال سے اچھے معنی میں لکھی اور اس سے اچھا معنی نکالنے کی کوشش کی ہے۔ مگرمیں نے اس کو پڑھا تو مجھے اپنے ذوق کے مطابق فطرت کا یہ حوالہ کچھ پسند نہیں آیا۔فطرت کے مناظر بے حد پرکشش ہیں۔ وہ آدمی کے اندر زبردست جذبہ ابھارتے ہیں۔ مگر اس معنی میں نہیں جس معنی میں مصنف نے لکھا ہے۔
مجھے فطرت کے مناظر بے حد پسند ہیں۔ میں گھنٹوں انھیں دیکھتا رہتا ہوں مگر مجھ کو یاد نہیں کہ میرے اندر مذکورہ بالا قسم کا جذبہ ابھرتا ہو۔ مجھ کو فطرت کے مناظر میں خدا کا جلوہ نظرآتا ہے۔ فطرت کو دیکھ کر مجھے خدا کی یاد آتی ہے۔شاعروں اور افسانہ نگاروں نے ضرور فطرت کو مذکورہ انداز میں پیش کیاہے۔ مگر یہ فطرت کا کمتر اندازہ ہے۔ فطرت کا اعلیٰ استعمال یہ ہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر اس کے خالق کو یاد کرے۔ آدمی فطرت کے حسن کو دیکھے تاکہ یہ اس کے لیے ایک آئینہ بن جائے جس میں اس کو خالق کا چہرہ نظر آتا ہو۔
10 جولائی 1985
ولیم ہاورڈ ٹافٹ (William Howard Taft, 1857-1930) امریکا کے
White House is the loneliest place in the world.
یہ آدمی کی ایک ضرورت ہے کہ وہ پرائیوسی (privacy) حاصل کرسکے۔ وہ محسوس کرے کہ وہ اپنی دنیا میں ہے جہاں دوسروں کا دخل شامل نہیں۔ مگر ’’بڑے لوگ‘‘ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ فطرت انسانی کی اِس طلب کا ان کے یہاں کوئی خانہ نہیںہوتا۔
یہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں ان بڑے لوگوں کو مستقل طورپر اضطراب میں رکھتی ہیں۔ وہ اپنے ماحول سے کبھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ مگر اقتدار کا نشہ ایسی چیز ہے جو ہر چیز پر غالب آجاتا ہے۔ آدمی ہر حال میں اقتدار کے منصب پر بیٹھنا چاہتا ہے، خواہ اس کی وجہ سے اسے خود اپنی شخصیت کو قتل کر دینا پڑے۔
میری زندگی کے تجربات میں سے ایک تجربہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ خواہ اس کی غلطی کو کتنے ہی زیادہ قوی دلائل کے ساتھ واضح کردیا جائے۔
اس سلسلے میں میرے بہت سے تجربات ہیں۔ایک دل چسپ واقعہ وہ ہے، جو مولانا عامر عثمانی (وفات 1975) سے متعلق ہے۔ 1963 میں میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘چھپی تو لوگوں نے عامر عثمانی صاحب سے کہا کہ وہ اس کا جواب لکھیں۔ عامر عثمانی صاحب اکثر جماعت اسلامی کا دفاع کیا کرتے تھے، اور اپنے تفریحی انداز کی وجہ سے کافی پڑھے جاتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق ابتدامیں انھوںنے گریز کیا۔ مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھا تو انھوں نے ایک لمبا مضمون لکھا جو 1965 کے آغاز میں ان کے رسالہ تجلی (فروری- مارچ 1965، صفحہ 99-124)میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان تھا: مولانا وحید الدین خانصاحب کی تعبیر کی غلطی۔
یہ مضمون واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ عامر عثمانی صاحب اپنے آپ کو علم کے میدان میں عاجز پارہے ہیں۔ چنانچہ اس میں اصل نقطہ نظر کی علمی تردید کی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ مختلف انداز سے اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے جواب میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’تنقید یا مسخرہ پن‘‘ یہ مضمون اولاً ماہ نامہ نظام (کانپور) میں دسمبر 1965 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد دوسرے جرائد میں نقل کیا گیا۔ میرے اس مضمون کی اشاعت کے بعد جناب عامر عثمانی مزید دس سال تک زندہ رہے۔ مگر وہ اس موضوع پر بالکل خاموش ہوگئے۔ پھر انھوں نے کبھی تعبیر کی غلطی کا رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔
البتہ اس کے بعد انھوںنے تجلی کا ’’حاصل مطالعہ نمبر‘‘ نکالا۔ یہ نمبر جولائی- اگست 1966 پر مشتمل تھا۔ اس میں انھوںنے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سمیت متعدد شخصیتوں کی منتخب تحریریں شائع کیں اور ان پر تبصرے لکھے۔ مگر انھوں نے سب سے زیادہ شاندار ذکر راقم الحروف کا کیا۔ اس کتاب کا پہلا مضمون راقم الحروف کی کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ سے متعلق تھا اس کے اعتراف میں انھوں نے اپنے وہ آخری الفاظ صرف کردئے جو ان کے پاس موجود تھے۔
جناب عامر عثمانی صاحب کا یہ مضمون ’’پچاس فی صد اعتراف‘‘ کا ثبوت ہے۔ مگر افسوس کہ دوسروں میں اتنے اعتراف کی بھی جرأت نہیں۔
میںجن لوگوں سے اپنی زندگی میںغیر معمولی طورپر متاثر ہوا ان میں سے سے ایک مولانا عبدالباری ندوی (1886-1976) ہیں۔ ان سے نہ صرف میری ملاقاتیں ہوئی ہیں بلکہ ایک مختصر عرصہ تک میںان کی رہائش گاہ پر مقیم بھی رہا ہوں۔
موصوف مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفۂ مجاز تھے۔ مولاناتھانوی نے ان کو رسمی بیعت کے بغیر مرید کیا تھا، یعنی مولانا اشرف علی تھانوی نے ان سے مجازی بیعت لی تھی۔ جن دنوں میں ان کے یہاں مقیم تھا (غالباً یہ 1967 کے اوائل کی بات ہے)،میںنے ایک روز ان سے کہا کہ آپ مجھے بیعت کرلیجیے۔ وہ مجھ سے بہت زیادہ خوش رہتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ پیدائشی صوفی ہیں۔ آپ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت ہونے کی ضرورت نہیں۔ میںآپ کو اسی طرح اپنے حلقۂ بیعت میں لیتاہوں جس طرح مولانا تھانوی نے مجھ کو اپنے حلقۂ بیعت میں لیا تھا۔
مولانا عبد الباری ندوی میرے کام کے سلسلہ میں میری بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا:
باقی میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں۔
مولانا عبد الباری ندوی کے بارے میں میں نے ایک مفصل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مسٹر مولوی‘‘۔ یہ الجمعیۃ ویکلی 7 مارچ اور
میں 1948میں جماعت اسلامی سے متاثر ہواا ور جلد ہی اس کارکن بنالیا گیا۔ اس زمانے میں میرا قیام اعظم گڑھ میں تھا۔ میں وہاں کی مقامی جماعت سے وابستہ تھا، جس کے امیر اس وقت ماسٹر عبد الحکیم انصاری تھے۔1950 کے لگ بھگ زمانہ میںمیرا یہ خیال ہوا کہ میں پاکستان چلا جاؤں، اور وہاں پر کوئی کام کروں۔ رکن جماعت کی حیثیت سے میرے لیے ضروری تھا کہ میں امیر جماعت اسلامی ہند سے اس کی اجازت حاصل کروں۔ اس وقت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی جماعت اسلامی ہند کے امیر تھے۔ میںنے ان کو اجازت کے لیے خط لکھا تو انھوںنے اجازت نہ دی۔ ان کو یہ تردد تھا کہ میں پاکستان جاکر کوئی کام نہ کرسکوں گا، اور وہاں مشکلات میںپھنس جاؤں گا۔
اس خط وکتابت کا ذکر میں نے مقامی امیر ماسٹر عبد الحکیم انصاری صاحب سے کیا۔ وہ میری تجویز سے متفق ہوگئے ،اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ پاکستان چلے جائیں۔ وہاں آپ کو کام کے زیادہ مواقع ملیں گے۔
چوں کہ مولانا ابوللیث صاحب (امیر جماعت اسلامی ہند) مجھے منتقل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اس لیے انھوںنے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک سفارشی خط لکھا۔ اس خط میں میری تجویز کی پرزور تائید کرتے ہوئے انھوںنے جو کچھ لکھا اس میں سے ایک جملہ یہ تھا:
’’میں وحید الدین خاں کو عرصہ سے جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایک بار طے کرلیں تو ہمالیہ پہاڑ کو بھی اپنی جگہ سے کھسکا دیں‘‘۔
ماسٹر عبد الحکیم صاحب کا یہ خط مولانا ابواللیث صاحب کو بھیج دیا گیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے مجھے اجازت دے دی۔ اگر چہ بعد کو خود میری رائے بدل گئی، اور میں پاکستان نہ جاسکا۔
دورِ اول کے مسلمانوں کی اٹھان تواضع (modesty) پر ہوئی تھی، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اٹھان فخر (pride)پر ہوئی ہے — ایک لفظ میں یہی وہ فرق ہے جس نے دورِاول کے مسلمانوں اور موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان وہ فرق پیدا کردیا ہے، جس کو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔دورِ اول کے مسلمانوں کا آغاز خدا کی دریافت سے ہوا تھا۔ انھوں نے خدا کی عظمت وکبریائی کو اپنے دل و دماغ میں اتارا تھا۔ اس کے نتیجہ میں وہ سراپا تواضع بن گئے تھے۔ ان کا سینہ ذاتی بڑائی کے احساس سے آخری حد تک خالی تھا۔
اس کے برعکس، موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں دو بیماری اپنے ’’شاندار‘‘ ماضی کی دریافت سے آئی ہے۔ ایک، شبلی نے انھیں ’’ہیروان اسلام‘‘ کا تعارف کرایا۔دوسرا، اقبال نے ان کوماضی کی عظمت کے حصول کے لیے آفاقی بلند پروازی کا درس دیا۔ اسی طرح ہر ایک ماضی کی عظمتوں کو یاد دلا کر ان کے اندر جوش ابھارنے کی کوشش کرتا رہا۔ دورِ اول کے مسلمان ’’خدا کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان ’’اپنی تاریخ کی عظمت‘‘ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ بنیادی بات ہے جس نے دونوں گروہوں کی سوچ میں فرق پیدا کردیا ہے۔ دورِ اول کے لوگوں کو خدا کی عظمت کے احساس نے تواضع کا ذہن دیا تھا۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو تاریخ کی عظمت کے احساس نے فخر کا ذہن دیا ہے۔ تواضع کا ذہن تمام خوبیوں کا سر چشمہ ہے، اس کے مقابلہ میں جھوٹا فخر (false pride) تمام خرابیوں کا سر چشمہ۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصلاح کا مقام آغاز یہی ہے کہ ان کے اندر سے جھوٹے فخر کا مزاج ختم کیا جائے اور دوبارہ ان کے اندر تواضع کا مزاج پیدا کیا جائے۔
ہندستان کی وزارت خوراک کے فیصلہ کے تحت یہاں 10 ملین ٹن غلہ بطور بفر خوراک (buffer stock) رکھاجاتا ہے۔ مگر ہندستان کے اس 10 ملین غلہ کو حفاظت کے ساتھ رکھنے کا انتظام نہیں۔ چنانچہ غلہ چوری ہوتا ہے، چوہے کھاجاتے ہیں، کیڑے لگتے ہیں، برسات میں سڑ کر بے کار ہوجاتا ہے، وغیرہ۔اس کے خلاف ایک انگریزی اخبار نے مضمون لکھا جس کا عنوان تھا:
Cut the system to size
یعنی اتنا ہی غلہ رکھو جتنا انتظام کرسکتے ہو۔ یہ اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ اگر لفظ بدل کر اس طرح کہا جائے تو وہ اصول ہے — اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر رکھو:
Cut yourself to size
انسان کی اکثرمصیبتیں صرف اس کا نتیجہ ہوتی ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو حد واقعی کے اندر نہیں رکھتا۔ اگر لوگ اس اصول پر عمل کرنے لگیں تو زندگی کے اکثر مسائل اپنے آپ ختم ہوجائیں۔
شاہ محمد اسماعیل دہلوی (1779-1831)نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں لکھا تھا:
’’اس شہنشاہ (باری تعالی) کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کرورڑوں نبی و جن وفرشتے، جبرئیل او رمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پیدا کرڈالے۔
یہ کتاب چھپی تو علما کی ایک فوج اس کے رَدّ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ علامہ فضل حق خیر آبادی (1797-1861) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھا امتناعِ نظر۔اس میں انھوں نے بتایا کہ مثل محمد ممتنع الوجود (ناممکن)ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف نبی تھے بلکہ خاتم الانبیا تھے، اور خاتم الانبیا کا مرتبہ کسی ایک ہی شخص کو مل سکتاہے۔ اس لیے مثلِ محمد مقدرِ حق سبحانہ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ خاتم الانبیا کا مماثل (مانند)پیدا کرنے پر خدا قادر نہیں۔
اس پر مولانا حیدر علی رام پوری نے لکھا کہ ا بن عباس کا ایک اثر ہے جس کے مطابق اللہ نے سات زمینیں پیدا کی ہیں اور ہر زمین میں الگ الگ انبیاء ہیں(سَبْعَ أَرَضِینَ فِی کُلِّ أَرْضٍ نَبِیٌّ کَنَبِیِّکُمْ) مستدرک الحاکم، اثر نمبر 3822۔ اس اثر سے استناد کرکے انھوںنے کہا کہ اللہ مثل خاتم الانبیا پیدا کرنے پر قادر ہے۔ کیوں کہ جب سات زمینیں ہیں تو سات خاتم الانبیا کی ضرورت ہوئی۔
مرزا غالب (1797-1869)نے ایک اور نکتہ نکالا۔ انھوںنے کہا کہ موجودہ عالم میں تو ایک خاتم الانبیا کے سوا دوسرا خاتم الانبیا پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن خدا اس پر قادر ہے کہ ایسا ہی ایک اور عالم پیدا کرے اور اس میںموجودہ عالم کے خاتم الانبیا کی طرح ایک اور خاتم الانبیا مبعوث فرمائے۔
اس طرح کی بحثیں برسہا برس تک جاری رہیں۔ دونوں طرف سے عجیب عجیب دلائل دیے جاتے رہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ زوال میںمسلمانوں کے ذہنی افلاس(intellectual dwarfism) کا حال کیا ہوگیا تھا۔ بے معنیٰ موشگافیوں کو وہ علم سمجھتے تھے اور بے فائدہ بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کو یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدا کی راہ میں جہاد کررہے ہیں۔
18 جولائی 1985
دانیال لطیفی صاحب (پیدائش 1917) سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ (بیرسٹر)ہیں۔ ان کی تعلیم زیادہ تر انگلینڈ میںہوئی ہے۔ وہ 1928 سے 1939 تک تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان میں رہے ہیں۔ انھوں نے انگلینڈ سے قانون کی ڈگری لی۔
انھوں نےتعلیم کے زمانے کا ایک واقعہ بتایا۔ ان کے ساتھ ایک انگریز نوجوان تھا، جس نے آکسفورڈ یونی و رسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس زمانہ میں نیر وبی کے لیے اعلیٰ تقررات لندن سے ہوا کرتے تھے۔ نیروبی میں ایک جج کی جگہ خالی ہوئی۔ اس کے لیے مذکورہ نوجوان مسٹر برسفورڈ نے درخواست دی۔اس کے بعد لارڈ چانسلر نے اس کو انٹرویو کے لیے بلایا۔ لارڈ چانسلر نے مسٹر برسفورڈ سے صرف ایک سوال کیا اور اس کے بعد ان کا تقرر کردیا۔
لارڈ چانسلر کے کمرے میں ایک بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس نے نوجوان سے پوچھا، کیا تم جانتے ہو کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ انھوںنے کہا کہ بتاؤ۔ نوجوان نے کہا کہ لارڈ کُک کی۔ لارڈ چانسلر نے کہا کہ تم نے صحیح بتایا۔ اب مجھے امید ہے کہ تم نیروبی میں جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوگے۔
سراڈورڈ کُک (1552-1634) برطانیہ کی مشہور قانونی شخصیت ہیں۔ ان کا نام انگریزی میں (Coke) لکھا جاتاہے۔ بظاہر عام آدمی اس کو کوک پڑھے گا۔ مگر انگریز اس کا تلفظ کُک کرتے ہیں۔ لارڈ چانسلر نے یہی جاننے کے لیے مذکورہ سوال کیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ نوجوان لارڈکُک کا صحیح تلفظ کررہا ہے تو اس نے اس کی بقیہ استعداد کا قیاس کرلیا اور اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کا تقرر کردیا۔
بعض چیزیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہے۔ مگر وہ کسی بڑی چیز کی علامت ہوتی ہیں۔ اس بناپر چھوٹی ہونے کے باوجود ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی اصول تمام معاملات میں ہے۔ خواہ وہ دنیا کا معاملہ ہو یا دین کا معاملہ۔(
19 جولائی 1985
امریکی نژاد برٹش رائٹراور نقاد لُگان پیرسال اسمتھ (Logan Pearsall Smith, 1865-1946) کا قول ہے کہ دو چیزیں ہیں جن کو زندگی کا مقصد بنانا چاہیے۔ اول، اس چیز کو حاصل کرنا جس کو تم چاہتے ہو، اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھانا۔ انسانوں میں صرف انتہائی عقل مند لوگ ہی دوسری چیز کو حاصل کر پاتے ہیں:
There are two things to aim at in life: first to get what you want; after that to enjoy it. Only the wisest of mankind achieve the second.
یہ صورت حال کے عین مطابق ہے۔ بیشتر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ رات دن محنت کرکے کسی نہ کسی طرح وہ چیز حاصل کرلیتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جب اس سے فائدہ اٹھانے(enjoy) کا وقت آتا ہے تو ناکام ثابت ہو تے ہیں۔
طاقت ملنے کے بعد اس سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر غرور نہ آئے۔ دولت ملنے کے بعد اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سرکشی کا مزاج پیدا نہ ہو۔ علم حاصل کرنے کے بعد اس سے واقعی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر برتری کا مزاج نہ آئے۔چوں کہ آدمی طاقت اور دولت اور علم کے بعد ان نفسیاتی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا نہیں پاتا، اس لیے وہ ملی ہوئی نعمت کواپنے لیے حقیقی طورپر مفید نہیںبنا پاتا۔
20 جولائی 1985
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا(1984) کی 30 جلدیں میرے پاس ہیں۔ اس میں ایک دلچسپ چیز یہ نظر آئی کہ متعدد جگہوں پر کسی اندراج کو مٹایا گیا ہے۔مثلاً جلد 5 صفحہ
ایک زندہ اور طاقتور خداپر یقین کرنا اتنا عجیب ہے کہ ماننے والے بھی اس کو نہیں مانتے اور جاننے والے بھی اس کو نہیںجانتے۔خدا مکمل طورپر ظاہر ہونے کے باوجود مکمل طورپر چھپا ہوا ہے۔ وہ اپنی تخلیق میں مکمل طورپر ظاہر ہے مگر اپنی ذات میںوہ مکمل طورپر پوشیدہ ہے۔ براہِ راست طورپر اس کا مشاہدہ موجودہ دنیا میں آخری حد تک ناممکن ہے۔ مگر بالواسطہ طورپر اس کا مشاہدہ آخری حدتک ممکن ہے۔یہی واحد وجہ ہے ،جس کی بناپر لوگ شخصیتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا ان کو دکھائی نہیں دیتا، اور شخصیتیں ان کو دکھائی دیتی ہیں۔ مگر انسان کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ شخصیتوں کے تقدس کا پردہ پھاڑ کر خدا کو دیکھے۔
مسلم اہل علم نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تقابل پر جو کتابیں لکھی ہیں، ان میں مشترک طورپر چند غلطیاں پائی جاتی ہیں:
(1) انھوںنے مغربی سماج کے چند واقعات کو لے کر اسے generalize کردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خاص کو عام بنانے کی غلطی کی ہے۔ اس قسم کی تحریروں کو پڑھ کر مسلمان خوش ہوسکتے ہیں۔ کیوںکہ انھیں یہ تسکین ملتی ہے کہ اُن کے ’’دشمن‘‘ کا سماج بہت بُرا سماج ہے۔ مگر ان تحریروں سے خود مغرب کے لوگ کوئی اچھا اثر نہیں لے سکتے۔
(2) دوسری چیز یہ کہ ان تحریروںمیں آئڈیالوجی کا تقابل پریکٹس (عمل) سے کیاگیا ہے۔ یعنی اسلام سے تو نظریات واقدار لی گئی ہیں اور جدید سماج سے ان کا عمل۔ یہ تقابل درست نہیں۔ تقابل ہمیشہ دو برابر کی چیزوںمیں ہوتا ہے۔ یعنی تقابل یا تو آئڈیالوجی سے آئڈیالوجی کا ہونا چاہیے یا پریکٹس سے پریکٹس کا۔
اس قسم کا غیر علمی لٹریچر دعوت کے لیے کبھی مفید نہیںہوسکتا۔ وہ مسلمانوں میں جھوٹا فخر پیدا کرسکتا ہے۔ مگر وہ دعوت عام کے لیے کارآمد نہیں۔
قرآن میں بہت سے پیغمبروں کا ذکر ہے۔ اس کا مقصد اہل ایمان کو ان کی زندگی سے سبق دینا ہے۔ مثلاًسلیمان علیہ السلام ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی کہ جنات کو ان کے لیے مسخر کردیا (الانبیاء،
حضرت مسیح کا اصل کام دعوت تھا۔ دعوت کا تقاضا ہے کہ داعی یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا طریقہ اختیار کرے۔ چنانچہ حضرت مسیح نے اپنے پیروؤں کو رافت اوررحمت اور اعراض کی زبردست تاکید کی۔ بعد کو حضرت مسیح کے پیرو کار رافت ،رحمت اور اعراض کی دعوتی مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے اس کو اصل مطلوب سمجھ لیا اور اس میں مزید مبالغہ کرنا شروع کیا۔ یہاںتک کہ اعراض دنیا برائےاخلاق و دعوت کو انھوںنے ترکِ دنیا بمعنی رہبانیت بنادیا (الحدید،
اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چہ اپنی زندگی کا ابتدائی نصف سے زیادہ حصہ دعوت پر زور دینے میں صرف کردیا۔ اس زمانہ میں آپ نے بھی صبر اور اعراض اور یک طرفہ حسن اخلاق کی تعلیم دی۔ مگر ہجرت کے بعد قریش کی جارحیت نے آپ کو دفاع پر مجبور کیا۔ اس وقت آپ کے اوپر قتال کی آیتیں اتاری گئیں۔ مدنی زندگی کا بیشتر حصہ جارحانہ کارروائیوں کا دفاع کرنے میں گزرا۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید اندیشہ تھا کہ آپ کی امت بھی اس معاملہ میں فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ جوچیز مشرکین اورکافروں کی جارحیت کے خلاف بطور دفاع فرض کی گئی تھی، اس کو مسلمان خود اپنی جنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں گے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے خطبےمیں فرمایا:لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا، یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4403) ۔ یعنی میرے بعد تم لوگ کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض ، بعض کی گردن مارنے لگے۔
اس طرح کی کثیر حدیثیں ہیںجن میں مسلمانوں کو مطلق طورپر جنگ سے منع کیا گیا ہے۔ مگر خلیفہ سوم کے زمانہ ہی میں مسلمان اس فتنہ میں پڑ گئے۔ انھوںنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین انتباہ کے باوجود آپس میں لڑنا شروع کردیا اور کہا کہ یہ جہاد ہے۔ مگر یہ جہاد نہیںبلکہ بدعت تھی اور یہ بدعت آج تک مسلمانوں میں جاری ہے۔
کہاجاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھیوں کا تحفہ دیا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات ) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیے گئے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ میں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اورنہ ہاتھی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتاہے۔ ایک جگہ جہاں آج ’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہاں جب کل سورج نکلتاہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔زمانہ کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔
ایک صاحب قرآن کا درس دے رہے تھے۔درمیان میں یہ آیت آئی:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَاءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ (
حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا :جناب، اس آیت میں لفظ اَشْیَاءَ حرف جار (عَنْ) کے بعد آیا ہے۔ عربی قاعدہ کے مطابق یہاں اشیاء پر زیر ہونا چاہیے تھا۔ پھر اُس پر زبر کیوں ہے۔ یعنی وہ مکسور کے بجائے مفتوح کیوں ہے۔مفسر صاحب نے فوراً جواب دیا: میرے بھائی، یہی تو وہ بات ہے جس سے آیت میں پوچھنے سے منع کیا گیا ہے۔ پھر خود آیت جس سوال سے منع کررہی ہے وہی سوال آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔
یہ بظاہر ایک جواب ہے۔ مگر جو لوگ عربی زبان اور عربی نحو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی جواب نہیں۔ اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سے ایک سوال پوچھا جاتا ہے، اور وہ اس کا ایک جواب دیتا ہے، اور اپنی لاعلمی سے وہ سمجھتا ہے کہ جواب ہوگیا۔ حالاں کہ جاننے والوں کے نزدیک وہ جواب نہیں ہوتا۔
ہنری پرین (Henri Pirenne) ایک مغربی مورخ ہے۔ وہ 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ ہنری پرین نے باقاعدہ طورپر یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ قدیم دنیا اور جدید دنیا کے درمیان انفصال (essential break) درحقیقت عرب فتوحات کے ذریعہ پیش آیا۔
Encyclopaedia Britannica (1984) Vol.
ہنری پرین نے اپنی کتاب ہسٹری آف یورپ میں لکھا ہے کہ اسلام نے کرۂ ارض کے رخ کو بدل دیا۔ قدیم روایتی نظام کا خاتمہ کردیا گیا:
It (Islam) had sufficed to change the face of the globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p.
امریکی صحافی مسٹر بنجمن اسٹولبرگ(1891-1951)کا قول ہے — اکسپرٹ وہ شخص ہے جو بڑی غلطی کی اصلاح کے لیے چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کردے:
An expert is a man who avoids the small errors as he sweeps on to the grand fallacy. (Benjamin Stolberg)
بنجمن اسٹولبرگ نے یہ بات ٹکنکل اکسپرٹ کے لیے کہی ہے۔ مگریہی بات ہرمیدان عمل کے لیے صحیح ہے۔ آپ خواہ جس شعبہ میں بھی کام کررہے ہوں، اور جس مقصد کی تکمیل میںبھی لگے ہوئے ہوں، آپ کو یہ اصول اختیار کرنا ہوگا— زیادہ بڑے پہلوؤں پر نظر رکھنے کے لیے چھوٹے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ وہ بیک وقت چھوٹے پہلوؤں اور بڑے پہلوؤں پر یکساں نظر رکھے۔ آدمی مجبور ہے کہ وہ ایک کی خاطر دوسرے کا نقصان گوارہ کرے۔ وہ بڑا فائدہ حاصل کرنے کی خاطر چھوٹے فائدوں کو نظر انداز کردے۔ جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں کا نقصان برادشت نہ کرے، وہ اپنی زندگی میںکسی بڑی چیز کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
30 جولائی 1985
ایک عربی میگزین میں یہ عبارت نظر سے گزری:دخل اعرابی علی بخیل فوجدہ یأکل خبزاً وعسلاً فأخفی الخبز فی حجرہ ولم یدعہ لتناول الطعام معہ. فما کان من الاعرابی الا ان تقدم الی اناء العسل وأخذ یأکل بلا خبز ۔ فقال لہ البخیل:ان العسل وحدہ یحرق القلب فأجابہ الأعرابی:نعم، ولکن قلبک لاقلبی۔یعنی ایک دیہاتی آدمی ایک بخیل کے پاس آیا۔ اس نے دیکھا کہ بخیل روٹی اور شہد کھارہا ہے۔ بخیل نے روٹی کو اپنی گود میں چھپا لیا اور دیہاتی کے لیے نہیں چھوڑا کہ وہ اس کے ساتھ کھاسکے۔ دیہاتی نے یہ کیا کہ وہ شہد کے برتن کی طرف بڑھا اور اس کو روٹی کے بغیر کھانے لگا۔ یہ دیکھ کر بخیل نے اس سے کہا کہ خالی شہد کھانا دل کو جلاتا ہے۔ دیہاتی نے جواب دیا، ہاں وہ جلاتا ہے، مگر وہ تمھارے دل کو جلاتا ہے، نہ کہ میرے دل کو۔
ممکن ہے کہ یہ واقعہ نہ ہو بلکہ محض لطیفہ ہو، قدیم زمانہ تمثیلات کا زمانہ تھا۔ لوگ اپنی باتوں کو کہانی کے روپ میں بیان کیا کرتے تھے۔ گمان غالب یہ ہے کہ کسی شخص نے ’’بخیل‘‘ کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے یہ قصہ گھڑا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلا دیا۔
اخلاقی درس کی حد تک یہ بناوٹی قصے درست تھے۔ مگر اس کے بعد اپنے بڑوں کی بڑائی اور بزرگی ظاہر کرنے کے لیے طلسماتی قصے کہانیاں گھڑے جانے لگے۔ یہاں آکر یہ طریقہ سراسر غلط ہوگیا۔ کیوں کہ ان جھوٹے قصوں نے یہ تصور دیا کہ ’’بزرگ ایسے ہوتے ہیں‘‘ ۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان ایسا ہوتا ہی نہیں، اور نہ کوئی بزرگ کسی قسم کے بزرگی اور کرامات کے ساتھ پیدا ہوتاہے۔ مگر فرضی تصویر لوگوں کے لیے حقیقی تصویر بن گئی۔
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیہِ ذِکْرُکُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (
اسی اصول کے تحت مجھے بھی یہ خیال ہوا کہ میں قرآن میںاپنا ’’ذکر‘‘ تلاش کروں۔ تلاش کرنے کے بعد قرآن کی جس آیت پر میرا ذہن رُکا وہ یہ تھی:وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِہِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَى اللَّہُ أَنْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ (
قرآن کے نزدیک ہدایت یافتہ گروہ کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ جنھوںنے واقعۃً پورے معنی میںعمل صالح کا ثبوت دیا ہو اور اپنے عمل صالح کی بنا پر وہ نجات کے مستحق قرار پائیں۔
قرآن کے مطابق دوسرے لوگ وہ ہیں، جو پورے معنوں میں عملِ صالح کا ثبوت نہ دے سکے۔ البتہ انھوں نے اپنی حیثیتِ واقعی کا اعتراف کیا ہو۔ جنھوں نے کامل شعور کے ساتھ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جانا اور کسی تحفظ کے بغیر کھلے طورپر اللہ کے سامنے اس کا اقرار کیا۔ یہ دوسرے لوگ بھی اپنے اقرار واعتراف کی بنیاد پر اللہ کے یہاں قابل نجات قرار پائیں گے۔
میںاللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے گروہ میں شامل کرے۔میرے پاس ’’عمل‘‘ کا سرمایہ نہیں، مگر غالباً میرے پاس ’’اعتراف‘‘ کا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا آخری حد تک اعتراف کروں۔ یہی میرا سرمایہ ہے اس کے سوا میرے پاس اور کوئی سرمایہ نہیں۔
2 اگست1985
انسان کی گمراہی ہر دور میں ایک ہی رہی ہے— جوچیز خدا کی قدرت سے ہورہی ہے اس کو غیر خدا کی طرف منسوب کرنا۔ جب بھی انسان ایسا کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جس واقعہ کو دیکھ کر انسان پر خدا کی عظمت طاری ہونی چاہیے تھی، اس سے وہ غیر خدا کی عظمت میںگم ہوجاتا ہے۔
قدیم زمانہ میں انسان سورج کو پوجتاتھا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان نے سورج سے روشنی اور حرارت نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ یہ خود سورج ہے جو اپنی طاقت سے روشنی اور حرارت نکال رہا ہے۔ آدمی اگر روشنی اور حرارت کو خدا کی قدرت سے نکلنے والی چیز سمجھتا تو وہ خدا کے آگے جھک جاتا۔ مگر جب اس نے روشنی اور حرارت کو خود سورج سے نکلنے والی چیز سمجھا تو وہ سورج کے آگے جھک گیا۔
اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے معجزے دکھائے۔ یہ معجزے خدا کی قدرت سے تھے مگر بعد کے مسیحیوں نے اس کو خود حضرت مسیح کا اپنا کرشمہ سمجھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے جذبات سب سے زیادہ حضرت مسیح سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے حضرت مسیح کو خدا سمجھ کر ان کی پرستش شروع کردی۔
یہی معاملہ ایک اور شکل میں پیغمبر اسلام کے ساتھ پیش آیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو فتوحات ہوئیں، وہ پوری انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ انوکھا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بھی یقینی طورپر خدائی قدرت سے پیش آیا، جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے(التوبۃ،
3 اگست 1985
فرنچ رائٹر اور فلاسفر ژاں پال سارترے (Jean-Paul Sartre, 1905-1980) کا ایک قول ہےکہ تشدد صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے، جو کھونے کے لیے کچھ نہ رکھتے ہوں:
Violence suits those who have nothing to lose.
یہ ایک نہایت حکیمانہ بات ہے۔ جب بھی ایک شخص تشدد کرتا ہے تو لازماً اس کونقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حتی کہ اس وقت بھی جب کہ اس نے اپنے حریف کے مقابلہ میں لڑائی جیت لی ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص پر تشدد کیاگیا ہے ،وہ کوئی پتھر نہیں ہے، بلکہ انسان ہے، اور انسان ہمیشہ ردِّ عمل(reaction) ظاہر کرتا ہے۔ زیر ِتشدد آدمی تشدد کے جواب میں وہ سب کچھ کرتا ہے، جو اس کے بس میںہو۔ اگر وہ طاقت ور ہے تو وہ اپنے حریف کے مقابلہ میں براہ راست وار کرتاہے، اور اگر وہ طاقت ور نہیں ہے تب بھی کمینہ پن کا راستہ ہر ایک کے لیے کھلا ہوا ہے۔ طاقت ور آدمی جو کچھ کھلے طورپر کرسکتاہے وہی کمزور آدمی بھی کرسکتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ وہ جو کچھ کرتا ہے چھپے طور پر کرتا ہے۔
ایسی حالت میںتشدد صرف اس شخص کے لیے مفید ہے، جس کے پاس پھوس کا چھپر بھی نہ ہو، جس میںاس کا حریف رات کے وقت آکر آگ لگاسکے۔ اس کی جیب میں چند روپیے بھی نہ ہوں، جس کو کوئی اس سے چھین سکے۔زندگی کا اصل راز یہ ہے کہ آدمی فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنی تعمیر کرے۔ حتی کہ فریق ثانی شرارت کرے تب بھی وہ اس کو نظر انداز کرے۔ تشدد کے نقصانات سے وہی شخص بچ سکتا ہے، جو اعراض کی حکمت کو جانتا ہو۔
5 اگست 1985
برٹش ہسٹورین جی ایم ٹریولیان (George Macaulay Trevelyan, 1876-1962) نے کہا کہ تعلیم نے ایسے بہت سے لوگ پیدا کر دیے ہیں جو پڑھ سکیں۔ مگر تعلیم ایسے لوگ پیدا نہ کرسکی، جو یہ فرق کرسکیں کہ کیا چیز پڑھنے کے قابل ہے ،اور کیا چیز پڑھنے کے قابل نہیں:
Education has produced a vast population able to read, but unable to distinguish what is worth reading.
تعلیم ایک وسیلہ ہے، جو آدمی کو پڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ مگر آدمی کیا چیز پڑھے، اس کا فیصلہ وہ خود کرتا ہے۔ اگر اس کے مزاج میں سنجیدگی ہے تو وہ سنجیدہ لٹریچر پڑھے گا اور اگر اس کے مزاج میں سطحیت ہے تو وہ سطحی چیزوں کو پڑھ کر اپنے ذوق کی تسکین حاصل کرے گا۔
انسان کو تعلیم یافتہ بنانا اصل کام نہیں، انسان کو انسان بنانا اصل کام ہے۔ تعلیم یقیناً ایک ذریعہ ہے، مگر تعلیم بجائے خود مقصد نہیں۔
6 اگست 1985
میری زندگی کے تجربات میںسے ایک تجربہ یہ ہے کہ لوگوں کی ڈگریوں اور لوگوں کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر ان کے فکر وشعور میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ میں جب کسی آدمی سے لمبے عرصہ کے بعد ملتا ہوں تو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مدت میںاس نے کئی مزید ڈگریاں لے لی ہیں۔ مگر جب اس سے گفتگو کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ فکر وشعور کے اعتبار سے اب بھی وہ اسی مقام پر ہے جہاں وہ پہلے تھا۔
اس موضوع پر میںنے بہت سوچا کہ آخر شعوری ارتقا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے۔ بالآخر میری سمجھ میں آیا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اپنے خلاف نہ سوچنا ہے، جس کو دینی اصطلاح میں احتساب کہاگیا ہے۔ تقریباً ہر ایک کا حال میں یہ پاتا ہوں کہ جیسے ہی کوئی ایسی بات کہی گئی ہو، جو اس کے اپنے خلاف ہو تو وہ فوراً ناراض ہوجاتا ہے۔ جو بات اپنے خلاف ہو،اس پر وہ معتدل انداز سے سوچ نہیں پاتا۔ میرے اندر خدا کے فضل سے بچپن سے یہ صلاحیت ہے کہ میں اپنے خلاف سوچتا ہوں۔ میرے خلاف کوئی بات کہی جائے تو میں کبھی اس پر برہم نہیں ہوتا۔ اور اگر بالفرض کبھی میرے اندر برہمی پیدا ہوجائے تو چند منٹ یا چند گھنٹوں کے اندر میں دوبارہ معتدل ہو کر اس پر غور کرنے لگتاہوں۔
مگر عجیب بات ہے کہ اپنی پوری زندگی میں مجھے کوئی ایسا شخص یاد نہیں جو اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہر آدمی جو مجھے ملا وہ اپنے موافق سوچنے کا ماہر ملا۔ اقبال کا مرد مومن ان کی تشریح کے مطابق سلف تھنکر ہوتا ہے۔ مگر میںاس کو سطحی بات سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک زیادہ گہری بات یہ ہے کہ آدمی اینٹی سلف تھنکر (anti-self thinker)ہو۔
واپس اوپر جائیں
مسٹر اعجاز احمد (پیدائش 1963) کا
مسٹر اعجاز انتہائی محنتی اور ایک آنسٹ انسان تھے ۔ان کی زندگی کا فارمولا تھا— سادہ زندگی ، اونچی سوچ ۔انھوں نے نہ تو تعلیمی زمانے میں کوئی چھٹی لی، اور نہ ہی جاب کے زمانے میں کبھی کوئی چھٹی لی۔ یہاں تک کہ ڈیوٹی کے اوقات میں وہ اپنی فیملی سے فون پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ان کے اکاؤنٹ میں غلطی سے ڈبل سیلری آگئی تو انھوںنے اس کو واپس کیا ۔اگرچہ اس کو لوٹانے کا جو پراسس (process)تھا وہ بہت ہی مشکل اور پیچیدہ تھا۔یہاں تک کہ خود کمپنی کے ایڈمنسٹریٹیو آفسرس (Administrative Officers )نےبھی انہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ خاموش ہوجائیں مگر انھوں نے ان کے اس مشورہ کو رد کردیا اور اس وقت تک چپ نہ بیٹھے جب تک کہ اسے لوٹا نہیں دیا۔
سی پی ایس مشن سے ان کا تعلق ان کی اہلیہ مزفاطمہ سارہ (پیدائش1967)کے ذریعے ہوا۔ سائنٹفک ذہن ہونے کی وجہ سےوہ سی پی ایس کے لٹریچر سے بہت زیادہ متأثر ہوئے ،اور اسلام کی پیس فل آئڈیالوجی کے معاملہ میں انھوں نے سی پی ایس مشن کا بھر پور ساتھ دیا۔ وہ اگرچہ 2000ہی سے اس مشن کے ساتھ تھے۔ مگر 2005 میں راقم الحروف نے بنگلور کا سفرکیا، جس کی تفصیل ماہنامہ الرسالہ مارچ 2006میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد سے وہ مشن کو اورزیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے لگے تھے۔
سی پی ایس مشن سےان کو بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ مشن کے کاموں کے لیےاپنی اہلیہ کی بھی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ، اورہر لمحہ مشن کے تعاون کے لیے تیار رہتے، جو مشکل ترین حالات میں بھی کمی کے بغیر جاری رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2015کے بعد جب آئل انڈسٹری کا ڈاؤن فال شروع ہوا تو ان کا ڈموشن ہوگیا ، اور ان کو انڈین کمپنی میں واپس بھیج دیا گیا۔اس کے باوجود مشن سے تعلق اور تعاون میں انھوں نے کوئی کمی نہیں کی ۔
مولانا عنایت اللہ عمری (پیدائش 1983) بنگلور میں مسٹر اعجاز اور ان کی اہلیہ مز فاطمہ سارہ کے ساتھ مل کر دعوتی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اعجاز صاحب اور ان کی اہلیہ، دونوں مولانا کے اس فارمولا پر عمل کرتے تھے — میاں بیوی ایک دوسرے کے انٹلکچول پارٹنر ہیں۔ چنانچہ اس کو لے کر وہ ہمیشہ تھرلڈ(thrilled) رہتے تھے ۔ ان دونوں کا یہ معمول رہا کہ وہ باہم قرآن میں تدبر کرتے ، اور الرسالہ کے مطالعہ کا اہتمام کرتے تھے ۔اسی طرح اعجاز صاحب کو یہ پسند تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں سب سے اعلی کوالٹی کی چیزیں استعمال کریں، خواہ وہ آفس کا سٹ اپ (setup) ہو یا کتابوں کا ڈسٹری بیوشن ،کمپیوٹر سسٹم کی ضرورت ہو یا موبائل وین ، وغیرہ۔ ہر جگہ انھوں نے یہی کوشش کی کہ اعلیٰ کوالٹی کی چیزیں استعمال کی جائیں۔
مسٹر اعجاز کا ایک انتہائی اہم رول سی پی ایس مشن کے انگریزی میگزین اسپرٹ آف اسلام (www.spiritofislam.co.in) کی بنگلور سے اشاعت ہے۔ یہ میگزین مسٹر اعجاز اور ان کی اہلیہ مز سارہ فاطمہ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے انتہائی عمدہ طباعت کے ساتھ شائع ہوتا رہاہے۔ کووڈ 19 کے بعد سے یہ ای میگزین (e-magazine)کی شکل میں نکل رہا ہے۔ انگریزی زبان پر ان کومہارت حاصل تھی۔میگزین کے آغاز جنوری 2013 سے لے کردسمبر 2020تک مسٹر اعجازمیگزین کے ایڈیٹوریل ٹیم کے بنیادی رکن تھے، اور جب بھی وہ گھر پر ہوتے باقاعدہ میگزین کی ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ کرتےتھے۔ اس کے علاوہ راقم الحروف کی کتاب اظہارِ دین کے انگریزی ورزن کی بھی ایڈیٹنگ کررہےتھے۔ لیکن وہ اس کو مکمل نہ کرسکے ۔
بنگلور ٹیم کے دوسرے ساتھی مسٹر ابرار مدثر (پیدائش 1985) نے بتایا کہ اعجاز بھائی کی وفات کے بعد میں نے ان کی اہلیہ سارہ آپا کا رویہ دیکھا تو مجھے صحابہ کی زندگی یاد آگئی، جو مصیبت کے موقع پر صبر سے کام لیتے تھے۔ سارہ آپا نے پوری طرح اللہ کی سچی بندی ہونے کا حق ادا کیا۔صبر اور حوصلہ کے ساتھ انھوں نے ہم سب کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ غم نہ کریں، وہ کسی نامعلوم (unknown) جگہ نہیں گئے ہیں،وہ اللہ کے کنگڈم (kingdom) میں گئے ہیں ، اللہ نے انھیںاپنے پاس بلا لیا ہے، جو اس دنیا سے بہت بہتر ہے۔اس دنیا کے اندر ان کے امتحان کا وقت اتنا ہی تھا۔ اس لیے ہمیں خدا کے کریشن پلان پر راضی ہونا ہے، اور صبر کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ انھوں نے دعوتی مشن کو جو تعاون دیا ہے، اس کو آگے بڑھانا اب ہماری ذمے داری ہے۔ وہ دیر تک معرفت اور ایمان کی باتیں کرتی رہیں، جس سے خود ہمارے ایمان میں تازگی پیدا ہوئی۔
اُس وقت سارہ آپا نےمزید کہا کہ میں اور میرے شوہر مولانا (راقم الحروف) کے ساتھ ایک مجلس میں تھے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک کا پہلے انتقال ہوجائے تو دوسرے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے رفیقِ حیات کے حصے کا بھی دعوتی کام کرے ۔اس طرح وہ اپنے اور اپنے رفیق حیات کے گریڈ کو خدا کی نظر میں بڑھائے ۔اس لیےمیں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے حصہ کا دعوتی کام کرنے کے ساتھ شوہر کے حصے کا بھی دعوتی کام کروں گی تاکہ میں اپنے ساتھ اپنے شوہرکے گریڈ کو بڑھا سکوں۔
مسٹر اعجاز کی وفات کی خبر سنی تو مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.