مولانا عبد الرشید ندوی نے ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک بڑے دینی ادارے کا ایک وفد برماگیا۔ اس وفد میںکئی بڑے علما اور دوسرے بڑے مسلم رہنما شامل تھے۔ اُس زمانے میں ہندستان کے دینی ادارے چندہ (donation)کے لیے برما اور ملایا (Malaya) جایا کرتے تھے۔
اس وقت ہندستان کے لوگ کثیر تعداد میں وہاں رہتے تھے،لیکن ان میں اکثریت بدعتی خیال لوگوں کی تھی۔ یہ وفد جب رنگون پہنچا توان لوگوں نے پوسٹروں وغیرہ کے ذریعے خوب مشہور کیا کہ یہ وہابی ہیں، یہ کافر ہیں، وغیرہ۔ ان کو ہر گزچندہ نہ دیا جائے۔ جو چندہ دے گا وہ گنہ گار ہوگا۔ بدعتی طبقہ کے پروپیگنڈوں سے فضا بہت خراب ہوگئی۔
تاہم جلسہ کیاگیا۔ سب سے پہلے ایک مقرر آئے۔ ان کے نام میں سلیمان لگا ہوا تھا۔ وہ بہت خوش بیان مقرر تھے۔ انھوں نے کہاکہ بھائیو، اور لوگوں کو تو تم جانو اور وہ جانیں۔ مگر جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پہلے ہی براءت اتاردی ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ آیت (
وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا
یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا، بلکہ یہ شیاطین تھے جنھوں نے کفر کیا۔ وہ بہت خوش گلو تھے۔ انھوںنے قرآن کی آیتیں پڑھیں ۔ مولانا روم (1207-1273ء)کے اشعار سنائے۔ اب فضا بالکل بدل گئی۔ آخر میں انھوں نے لوگوں کو کھڑا کرکے سلام پڑھوایا۔ اس کے بعد بالکل تصدیق ہوگئی کہ یہ لوگ ’’وہابی‘‘ نہیں ہیں۔اس کے بعد رنگون میں خوب چندہ ہوا۔ تیرہ لاکھ روپیے جمع ہوئے۔لوگوں کی مایوسی دوبارہ خوشی میں تبدیل ہوگئی۔
عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اس قسم کے الفاظ بولنا جانتے ہوں۔ تاہم یہ مقبولیت وقتی ہوتی ہے۔ نیز اس کے ذریعہ کوئی گہرا تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔
علم حساب کے ایک ماہر نے کہا ہے:
I can prove anything by statistics— except the truth.
یعنی میں حساب اور شماریات کے ذریعے ہر چیز کو ثابت کرسکتا ہوں سوائے سچائی کے۔ شماریات کا علم موجودہ زمانے میں بہت ترقی کرگیا ہے۔ شماریات کی زبان میں کوئی بات کہہ دی جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کو واقعہ کی زبان میں کہہ دیا گیا۔ حالاں کہ یہ محض گنتیوں کا ایک شعبدہ ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شماریات سے ثابت شدہ چیز کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
کوئی چیز گنتی کی زبان میں ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حقیقت کے طورپر بھی ثابت ہوگئی۔
ایک صاحب دفتر میں تشریف لائے۔ انھوں نے کہا کہ میں الرسالہ میں مضمون شائع کروانا چاہتا ہوں۔اس کی کیا شرائط ہیں۔ میںنے کہا:آپ دس سال عربی پڑھیے۔ دس سال انگریزی پڑھیے۔ دس سال لکھنے کی مشق کیجیے۔ اس کے بعد آپ کا مضمون الرسالہ میں شائع ہوجائے گا۔ اس کو سن کر وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر چلے گئے۔
آج کل مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محنت کیے بغیر نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور محنت کے بغیر کسی نتیجہ کا اس دنیا میں ملنا ممکن نہیں ہے۔لکھنا مشکل ترین آرٹ ہے۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جو شخص بھی قلم پکڑنا جانتا ہو، وہ سمجھتا ہے کہ میں لکھنا بھی جانتا ہوں۔چنانچہ غیر معیاری مضامین اور غیر معیاری کتابوں کی بھرمار ہورہی ہے۔ اس کے برعکس، معیاری کتابیں بہ مشکل ہی دیکھنے میںآتی ہیں۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ان سے کسی نے میرے بارے میںکہا کہ ان کا کیا کہنا ہے۔ وہ تو اب فلاں صاحب کے ٹکر کے ہوگئے ہیں، یعنی مادی اعتبار سے۔
کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو آدمی کو اس سے ناپتے ہیں کہ اس کے پاس بلڈنگ اور کار وغیرہ ہے یا بلڈنگ اور کار نہیںوغیرہ ہے۔ میرے نزدیک یہ سادہ سی بات نہیںہے۔ یہ دراصل دوزخ کی اصطلاحوں میں سوچنا ہے۔ ایسے لوگ دوزخ کے مومنین ہیں۔ اگر چہ خوش فہمی کے تحت وہ اپنے آپ کو جنت کے مومنین میں شمار کرتے ہیں۔
ایک عیسائی پادری تشریف لائے۔ان کا نام اور پتہ درج ذیل ہے:
REV John, Preacher in Church of God, Sector 33, Chandigarh
دوران گفتگو میںنے کہا کہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کفارہ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ کفارہ کو بنیادی عقیدہ کہتے ہیں حالاں کہ وہ موجودہ انجیل میں کہیں واضح طورپر موجود ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہے۔ میںنے انھیں انجیل کا انگریزی ترجمہ دیا کہ نکال کر بتائیے کہ کہاں ہے۔ وہ تقریباً آدھ گھنٹہ انجیل کے اوراق الٹتے رہے۔ بالآخر اس کا ایک صفحہ نکالا۔ میں نے کہا کہ یہ محض آپ کی تاویل ہے۔ ورنہ اس عبارت سے براہِ راست طور پر کفارہ کا عقیدہ نہیں نکلتا۔ کیسی عجیب ہے موجودہ مسیحیت کہ اس کا بنیادی عقیدہ ہی انجیل کے عبارت النص میں موجود نہیں۔
اس کے برعکس، اگر آپ کسی مسلمان سے پوچھیں کہ قرآن کا بنیادی عقیدہ کیا ہے، تو وہ فوراً کہے گا کہ توحید ۔ اس کے بعد اگر آپ پوچھیں کہ توحید کا عقیدہ کس آیت سے نکلتا ہے تووہ فوراً پڑھ دے گا:قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ (
ایک صاحب سنگا پور سے تشریف لائے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں مسجد وں میں لاؤڈاسپیکر سے اذانیں ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہاں کے غیر مسلم حضرات میں ناراضگی پیدا ہوگئی۔ خاص طورپر عشا اور فجر کی اذان کے متعلق ان کا مطالبہ ہے کہ اس کو لاؤڈاسپیکر پر دینا بند کیا جائے۔ اس سلسلے میں سنگاپور کے بدھسٹ وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آزادی یہ ہے کہ آپ رات کے آخری حصے میں اذان دیں۔ میری آزادی یہ ہے کہ میںاس وقت اچھی نیند حاصل کروں:
Your freedom is to call Azan in the late hours of the night. My freedom is to have a good sleep at that time.
اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور جدید انسان میں ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے، اور چونکہ جدید انسان طاقتور ہے ۔اس لیے اب اسلام کو باقی رکھنے کی شکل صرف یہ ہے کہ اسلام کو میدان سے ہٹا دیا جائے۔ حالاں کہ یہ قیاس سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوٹکراؤ پیدا ہوا ہے، وہ جدید انسان اور ’’لاؤڈ اسپیکر‘‘ کے درمیان ہے، نہ کہ جدید انسان اور اسلام کے درمیان۔
1984 میں سابق وزیر اعظم ہند، مسز اندرا گاندھی (پیدائش 1917)کے حکم کے تحت امرتسر میںواقع سکھوں کی مذہبی عبادت گاہ ہرمندر صاحب (گولڈن ٹیمپل) میں فوجی کارروائی کی گئی۔ اس فوجی کارروائی کو آپریشن بلو اسٹار (Operation Blue Star)کہاجاتا ہے۔ سکھوں کے نزدیک یہ ان کے مقدس مقام کی بے حرمتی کے ہم معنیٰ تھا۔چنانچہ سکھوں کا طبقہ ان سے ناراض ہو گیا ۔ یہاںتک کہ کچھ انتہا پسند سکھوں نے انھیں
(The assasination of Mrs Indira Gandhi by Sikh youths) has effectively nullified Maneka Gandhi as a political force. Moreover, this murder has triggered of “a wave of sympathy” in favour of Rajiv Gandhi.
مسز گاندھی کے قتل نے مینکا گاندھی کو بحیثیت سیاسی طاقت کے بالکل ختم کردیا۔ مزید یہ کہ اس کے بعد راجیو گاندھی کے حق میں ہمدردی کی زبردست لہر پیدا ہوگئی ہے۔ جن لوگوں نے مسز اندرا گاندھی کو قتل کیا تھا انھوں نے بطور خود یہ سمجھا تھا کہ وہ اندرا فیملی کو سیاست کے میدان سے ہٹا رہے ہیں۔ مگر اسی قتل کے بعد اندرا فیملی مزید طاقت کے ساتھ سیاست کے میدان میں واپس آگئی۔ آٹھویں الکشن (1984) میںکانگریس کو ہمیشہ سے زیادہ لوک سبھا کی سیٹ ملی، یعنی کل
غیر دانش مندانہ اقدام کا نتیجہ اکثر الٹا نکلتا ہے، اور مذکورہ واقعہ الٹا نتیجہ نکلنے کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔
سوامی پورن جی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو گرو ہیں۔ وہ یورپ میں اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران روم سے دہلی تک ہوائی جہاز میں ان کا ساتھ رہا۔ اس کے بعد ان کے کئی ٹیلیفون آئے یہاں تک کہ مندرجہ ذیل مقام پر ان سے ملاقات ہوئی:
Suit 2025, Hotel Sentaur, New Delhi
میںنے سوامی پورن جی سے کہا کہ آپ کے نزدیک سچائی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں۔ میںنے کہا کہ جب سچائی کوئی ایک معلوم چیز نہیں تو آپ اپنے سفروں میں کس چیز کا پرچار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں لوگوں کو یہ نہیں بتاتا کہ سچائی کیا ہے۔ میں یہ بتاتاہوں کہ وہ کون سا پراسس ہے جس کو فالو(follow) کرکے تم سچائی تک پہنچ سکتے ہو۔
میںنے دوبارہ ان سے سوال کیا کہ سچائی اگر چہ آپ کے نزدیک معلوم چیز نہیں مگر آپ کے بیان کے مطابق سچائی کا پراسس ضرور ایک معلوم چیز ہے۔ جبھی تو آپ اس کا پرچار کرتے ہیں۔ پھر آپ کے نزدیک وہ کرائٹیرین (criterion) کیا ہے، جس پر جانچ کر ہم یہ معلوم کرسکیں کہ آپ کا تجویز کردہ پراسس درست ہے۔ سوامی جی اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی۔ آخر میں ان کو الرسالہ انگریزی پیش کیاگیا۔
070
انڈیا کے ایک عالم دین لندن کی ایک مسجد میں امام ہیں۔وہ لندن جاتے ہوئے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے فلاں عالم صاحب بہت بڑے عالم تھے۔ جزئیاتِ فقہ پر ان کی نظر جتنی وسیع تھی شاید ہی ہندو پاک میں کسی دوسرے عالم کی ہو‘‘۔ گویا جزئیاتِ دین کے عالم ہونے کا نام عالم ہے، اساسات دین کا عالم ہونے کا نام عالم نہیں۔
فقہ جب ابتداء ً بنی تو اساساتِ دین کے مطالعہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مسائل دین کے مطالعہ کے لیے بنی۔ اسی طرح فقہ پر جزئیاتی ذہن غالب آگیا۔ اسی فقہ پر ہمارے موجودہ مدارس کی بنیاد قائم ہے۔ ہمارے مدارس میں جزئیاتی مسائل پر زبردست بحثیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جزئیاتی مسائل کے عالم ہونے کا نام عالم ہے۔ اس طریقۂ تعلیم نے ملت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ زمانے کے دینی اختلافات کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مدارس کا تعلیمی نظام فقہ پر قائم ہے۔ اگر مدارس کا نظام قرآن و حدیث پر قائم کیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔
اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dauh [1921-2001]) تھے۔موجودہ زمانے میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔
تحریکوں کی اس عسکری جدو جہد(armed struggle)کا سبب یہ ہے کہ مفروضہ ’’دشمنانِ اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کے خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طورپر نفرت او رتشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے کی ان تحریکوں میں سی کسی تحریک میں ’’جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔ اگر یہ تحریکیں حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طورپر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔
دعوت کا کام دلوں کو جیت کر اور ذہنوں کو مطمئن کرکے ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں کے لیے محبت، اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔
پانی پت کی جنگ (1526) میں بابر کو ہندستانی راجاؤں کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کا راز بابر کا توپ خانہ تھا جس کو رومی ترک چلاتے تھے۔ بابر نے یہ توپ رومی ترکوں سے حاصل کی تھی۔ مگر عجیب بات ہے کہ بابر کی اولاد اس واقعہ کو بالکل بھول گئی۔ ان کی سمجھ میں کبھی یہ نہ آیا کہ توپ سازی کے فن کو ترقی دینے کے لیے باقاعدہ تجربہ گاہیں بنائی جائیں۔مغلوں اور ہندستانی نوابوں کی یہی پس ماندگی تھی، جس نے انگریزوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنی برتر ٹکنیک کے ذریعے ہندستان پر قابض ہوجائیں۔
انگریزوں نے فنِ جہاز رانی کو زبردست ترقی دی مگر ہندستان کے مغل حکمراں جہاز رانی کے فن سے بالکل بے خبر رہے۔ رابرٹ کلائیو اور نواب سراج الدولہ کی فوجوں میں مقابلہ ہوا تو رابرٹ کلائیو کی فوج کو زبردست کامیابی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کلائیو کی اسپرنگ دار (flint locks) بندوقوں، رائفلوں اور توپوں کی بناوٹ اتنی اعلیٰ تھی کہ سراج الدولہ کی فتیلہ سوز (match locks) بندوقیں ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دور جدید میں سائنس کے علوم میں پیچھے ہو گئے اور یہی موجودہ زمانے میں ان کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
ہندستان میں مسلمانوں کی بہت سی جماعتیں ہیں مگر تقریباً سب کی سب ردِّ عمل کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کی ایک جماعت او ر دوسری جماعت میں کوئی حقیقی فرق نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو لیڈر اینٹی ہندو ٹون (anti-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے مسلمان خوش ہوجاتے ہیںاور جو پرو ہندو ٹون (pro-Hindu tone) میں بولتا ہے اس سے ناخوش۔
قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ (anti-establishment) آوازوں کو پسند کرتی ہیں اور پرو اسٹیبلشمنٹ (pro-establishment) آوازوںکو عوام کے اندر پسندیدگی حاصل نہیں ہوتی۔
ہندستان میں اس نفسیات پر مزید اضافہ یہ ہوا کہ مختلف اسباب سے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف منفی سوچ پیدا ہوگئی۔ اس کی وجہ سے کوئی ایسی تحریک ان کے درمیان مقبول نہیں ہوتی جو ہندوؤں سے ایڈجسٹمنٹ (adjustment) کی باتیں کرتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی تقریباً نصف صدی کی پرشور مسلم سیاست کے باوجود مسلمانوں کے حصہ میں احتجاج کے سوا اور کچھ نہ آیا۔
شیخ محمد سلیمان القائد (لیبیا)
دہلی میںانھوں نے مولانا حمید اللہ ندوی اندوری سے کہا — اگر آپ نے شیخ وحید الدین کے مشن کو واقعۃً پوری طرح سمجھا ہے تو آپ میرے بعد دوسرے شخص ہوں گے۔
شیخ محمد سلیمان القائد افریقہ میں زبردست تبلیغی کام کررہے ہیں۔ مگر وہ اپنے کام کو ہمارے کام ہی کی شاخ سمجھتے ہیں۔ انھوںنے کہا — دہلی مرکز تفجیر الثورۃ الفکریۃ ہوگا، اور یہاں سے سارے عالم میں اسلامی دعوت پھیلے گی۔کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک تمنا کو واقعہ بنا دے۔
پاکستان کے ایک معروف عالم دین دہلی آئے اور ہمارے یہاں ٹھہرے۔ ایک ملاقات میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ کی دریافت کیا ہے‘‘۔ انھوںنے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا: قرآن حکیم میں امت مسلمہ سے خطاب کا کلائمکس سورہ حدید ہے۔ سورہ حدید کی پہلی چھ آیات میں ذات باری تعالیٰ کی صفات کا اعلیٰ ترین سطح پر بیان نقطۂ عروج پر ہے۔
عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں کوئی بھی شخص قرآن میں دعوت کو نہیں پاتا۔ دوسری ہر چیز آدمی پالیتا ہے مگر کسی کو قرآن میں دعوت نہیں ملتی۔ حالاں کہ امت کی سرفرازی کا تعلق دعوت سے ہے نہ کہ کسی اور چیز سے۔
علامہ اقبال(1877-1938) کا ایک شعر ہے:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
اس قسم کے اشعار لوگ بہت جوش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس قسم کے اشعار جو ذہن بناتے ہیں وہ سراسر غیر قرآنی ذہن ہے۔ قرآن کے مطابق، خاشاک غیر اللہ کو جلانا اور باطل کو غارت کرنا خدا کا کام ہے، نہ کہ انسان کا کام۔ اس قسم کے اشعار سے صرف جھوٹا فخر پیدا ہوسکتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی کار آمد ذہن۔
مومن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ دنیا والوں کا خیر خواہ (well-wisher)ہو۔ لوگوں کے لیے اس کے دل میں محبت کے چشمے جاری ہوجائیں۔ وہ لوگوں کو آخرت کی دعوت دینے کا حریص بنے ، نہ کہ انھیں شعلوں کی نذر کرنے کا حریص۔اہلِ ایمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حق کا اعلان کرنے والے بنیں۔ اس اعلان کا اصل جذبہ خیر خواہی ہونا چاہیے ،جس کو قرآن میں نصح کہاگیا ہے (الاعراف،
عرب ممالک کے سفر کے دوران اگست 1982میں میری ملاقات ایک مصری نوجوان سے ہوئی تھی۔ ان کا نام ڈاکٹر محمد سعید مراد ہے۔ انھوںنے مصر کے انور سادات (1918-1981) کے بارے میں بتایا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ میں اِن اخوانیوں پر رحم نہیں کروں گا۔
انور سادات نے اسکندریہ کے شیخ المحلاوی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اس کے بعد تقریر کرتے ہوئے، محمد سعید مراد کے الفاظ میں، کہا :قال السادات عنہ فی خطبۃ عندما کان یتحدث عن الجماعات الاسلامیۃ اغتقلہا۔
’’وہناک رجل من الاسکندریۃ کان یہاجم النظام ولکنہ الآن مرمیّ فی السجن مثل الکلب‘‘ یقصد الشیخ المحلاّوی ۔ وکان السادات یقول فی خطابہ تکراراً انا لم ارحم ہذہ الجماعات۔(اسکندریہ میں ایک آدمی ہے، وہ حکومت سے ٹکراؤ کرتا ہے، لیکن اب وہ جیل میں کلب کی مانند بند ہے۔ ان کی مراد شیخ المحلاوی تھے۔ اور سادات اپنی تقریروں میں بار بار کہا کرتے تھے کہ میں ان جماعتوں پر رحم نہیں کروں گا)
انورسادات کے یہ الفاظ بہت سخت معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اس میں پچاس فی صد غلطی اگر انورسادات کی ہے تو پچا س فی صد غلطی ان حضرات کی جو حکومت ٹکراؤ کی سیاست کررہے تھے۔
مسلمانوں کا کوئی بھی ادارہ ہو۔ اگر وہاں کوئی شخص ادارے کے صدر کامخالف بن جائے تو اس کے ساتھ بقدرِ استطاعت ادارے کے لوگ وہی سلوک کریں گے ،جو اپنی استطاعت کے دائرے میں انورسادات نے اپنے مخالفوں سے کیا۔ انورسادات اور ان کے جیسے حکمرانوں کے ظلم کی داستان سنانے والے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ یہ وہی سلوک ہے جو خود اپنے اداروں میں ہورہا ہے:
این گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند
سارے قرآن میںایک آیت بھی ایسی نہیں جس میں فطرت کے مظاہر کی ایسی توجیہہ کی گئی ہو، جس سے سائنسی تحقیقات کی نفی لازم آئے۔یہی وجہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ نہیںملتا جو چرچ کی تاریخ میں ’’گلیلیو‘‘ کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ اسلام میں اس کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی کہ علمی نظریات کے لیے کسی کی پکڑ دھکڑ کی جائے یا اس کو سزا دی جائے۔
نظریاتی احتساب کی مثالیں اسلامی تاریخ میں خالص مذہبی لوگوں کے یہاں نہیں پائی جاتیں۔ صرف معتزلہ کے یہاںاس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ معتزلہ کٹر مذہبی لوگ نہیںتھے۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے، جو اپنے آپ کو روشن خیال کہتے تھے، اور آزادیٔ فکر کے علَم بردار تھے۔
معتزلہ نے عباسی حکمرانوں کی مدد سے اپنے نظریاتی مخالفین کا زبردست احتساب کیا۔ اسی احتساب کی ایک مثال امام احمد بن جنبل ہیں۔ امام احمد بن حنبل کو زبردست سزائیں دی گئیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ’’خلقِ قرآن‘‘ کے مسئلے میں معتزلہ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔
امام احمد بن حنبل کو مسلسل مارا گیا۔مارنے والے ایک جلاد نے بعد میں اس ضرب کی شدت کے بارے میں کہا تھا :ضربت أحمد بن حنبل ثمانین سوطا، لو ضربتہ فیلا لہدمتہ (المنہج الأحمد لأبی الیمن العلیمی، ج 1 ص
ایک مجذوب تھے۔ وہ گندی حالت میں سڑکوں پر پڑے رہتے تھے۔ لوگ ان سے کچھ کہتے تو ان کا جواب ہمیشہ صرف ایک ہوتا تھا:حرام کھاؤ، چوری کرو، ماں پر سوؤ۔
لوگ حیران رہتے کہ مجذوب صاحب اس قسم کی الٹی بات کیوں کہتے ہیں۔ تاہم مجذوب صاحب نے کبھی اس کی تشریح نہیں کی۔ کوئی شخص ان الفاظ کا مطلب پوچھتا تو وہ بگڑ جاتے۔ مجذوب اسی طرح کہتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
مجذوب صاحب کے ایک معتقد سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں تک مجذوب صاحب کے الفاظ پر سوچتا رہا۔ آخر کار میری سمجھ میں آگیا کہ وہ کیا کہتے تھے۔ ان کا مطلب تھا:غصہ کھاؤ، چھپ کر عبادت کرو، زمین پر سوؤ۔
اسلام توہم پرستی کو مٹانے آیا تھا مگر بعد کے زمانے میں خود مسلمان طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے۔ انھیں میں سے ایک ’’مجذوب‘‘ کا عقیدہ بھی ہے۔شریعت میںمجذوب کوئی چیز نہیں۔ مگر لوگ جب کسی کو غیر معمولی حالت میں دیکھتے ہیںتو سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کوئی مجذوب (پہنچے ہوئے شخص ) ہیں، اور اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔
080
مہاتما گاندھی نے آزاد ہندستان کے کانگریسی حکمرانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خلیفہ ابو بکر اور خلیفہ عمر کے نمونہ کی پیر دی کریں:
We have to follow the example of Abu Bakr and Umar
اسلام کے ابتدائی دور میں زندگی کا جو نمونہ ظہور میں آیا وہ ساری انسانی تاریخ کا ایک انوکھا نمونہ تھا— خلیفہ ابوبکر اور خلیفہ عمر اپنے وقت کی انتہائی وسیع اور عظیم سلطنت کے حکمراں تھے ۔مگر ان کی زندگی اتنی سادہ تھی کہ دیکھنے والے ان کو عام شہری سمجھتے تھے۔ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے میں کوئی جذبہ ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔
ان لوگوں کی زندگیاں ساری انسانیت کے لیے معیاری نمونے ہیں۔ جو لوگ اسلام کوبطور عقیدہ کے نہیں مانتے وہ بھی اگر سنجیدہ ہوں تو وہ اپنے آپ کو مجبور پائیں گے کہ اپنے حکمرانوں کو ابوبکر وعمر کی مثال دے کر کہیں کہ تم ان کی تقلید کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے پاس دوسرا کوئی نمونہ نہیں جس کو وہ کامل معیار کے طور پر پیش کرسکیں۔
لاش نس (Loch Ness) اسکا ٹ لینڈ کی ایک بڑی جھیل ہے۔ 1975میں ایک امریکی قانون داں نے زمیں دوز کیمرے کے ذریعے اس جھیل کے اندرونی فوٹو لیے۔ ان فوٹوؤں میں جھیل کے اندر کے کچھ مناظر دکھائی دیتے تھے۔یہ مناظر بادل کے دھبوں کی شکل میں تھے۔ ان تصویری دھبوں کا مطالعہ شروع کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان دھبوں پر قیاس کا اضافہ کرکے سمجھ لیاگیا کہ یہ زندہ جانوروں کی تصویریں ہیں۔ کہاگیا کہ اسکاٹ لینڈ کی اس جھیل کے اندر انتہائی قدیم زمانے کے بعض بہت بڑے بڑے جانور موجود ہیں، جو نظریۂ ارتقاء کے مطابق قدیم زمانے میں افراط کے ساتھ زمین پر پائے جاتے تھے۔اس قیاس پر ماہرین کو اتنا یقین تھا کہ اس کا ایک مفروضہ نام پلی ساسور (Pleisosaurs) رکھ دیا گیا۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط تھا۔ یہ دھبے چٹانوں کے تھے، نہ کہ زندہ جانوروں کے۔
انسانی علم میں ہمیشہ اس قسم کی غلطیوں کا انکشاف ہوتا رہا ہے، پہلے بھی اور آج بھی۔ مگر قرآن میںآج تک اس قسم کی کسی غلطی کا انکشاف نہ ہوسکا۔ حالاں کہ قرآن ہر قسم کے موضوعات کو ٹَچ (touch) کرتا ہے۔ یہی ایک واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، وہ کوئی انسانی کلام نہیں۔ اگر وہ انسانی کلام ہوتا تو یقینا اس کے اندر بھی وہی کمیاں پائی جاتیں جو تمام انسانوں کے کلام میں بلا استثنا پائی جاتی رہی ہیں۔
ایس ایم عارف ندوی نے ایک واقعہ بتایا۔ انھوں نے کہا کہ قرول باغ (دہلی) میںحکیم اجمل خاں نے طبیہ کالج قائم کیا۔ اس کا بہت بڑا کیمپس تھا۔ مگر انھوں نے اس کے اندر مسجد نہیں بنائی۔ تقسیم ملک کے بعد اس کا بڑا حصہ شرنارتھیوں کی قیام گاہ بن گیا۔
1970 کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو خیال ہوا کہ کالج کے کیمپس میں ایک مسجد بنائیں۔ انھوںنے بنانا شروع کیا۔ مگر جب دیواریں کھڑی ہوگئیں تو مقامی غیر مسلموں نے اعتراض کیا، اور کہا کہ یہاں جب پہلے مسجد نہیں بنائی گئی تو اب آپ کو یہاں مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ایک مسلمان نے اس کے بعد ایک تدبیر کی۔ اس نے خاموشی سے ایک پتھر تیار کرایا۔ اس پرکندہ کرکے لکھا ہوا تھا:
ہذا المسجد وقف لعامّۃ المسلمین
اس نے اس پتھر کو مسجد کے پاس زمین میں گاڑدیا۔ اس کے بعد ایک روز زور شور کے ساتھ اعلان کیا کہ یہاںایک پتھر گڑا ہوا ملا ہے۔ ہندو جمع ہوئے۔ انھوںنے دیکھا کہ واقعی زمین سے ایک پتھر برآمد ہوا ہے، اور اس پر مذکورہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہندو خاموش ہوگئے اور مسلمانوں نے وہاں باقاعدہ مسجد تعمیر کرلی۔
ہندو جب کہیں مندر بنانے والے ہوتے ہیں تو وہاں ان کا ایک بھگوان پرکٹ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی مسجد کے حق میں ایک پتھر کو پرکٹ کرلیا۔ مذکورہ حالات میں مَیں اس تدبیر کو درست سمجھتا ہوں۔ مگر مسلمان جس تدبیر کو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں، وہی تدبیر اگر دوسرے لوگ کریں تو انھیں اس پر شور وغل نہیں کرنا چا ہیے۔
1981 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ہنگامے ہوئے تھے۔اس کے نتیجے میں یونی ورسٹی کے اندر پولس بلائی گئی۔ اس وقت ہندستان کی مسلم قیادت نے زبردست جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔
’’یونی ورسٹی کے ذمہ داران یونی ورسٹی کے مسائل کو جیل اور گولی اور رسوا کن بیانات سے کیوں طے کرنا چاہتے ہیں۔ معقولیت اور گفتگو کا طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا۔ہمارے ادارے نے مسلم یونیورسٹی کنونشن اس لیے بلایا ہے تاکہ یونی ورسٹی کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کیا جائے اور یونیورسٹی کی فضا خو ش گوار ہوسکے‘‘ (
جب دوسروں کا احتساب کرنا ہو تو تمام مسلم لیڈر یہی زبان بولتے ہیں، مگر خود اپنا احتساب کرنا ہو تو وہ اس کے بالکل خلاف عمل کرتے ہیں۔ آج ہر مسلم ادارے کا یہ حال کہ اس کو جس سے اختلاف ہو جائے اس کے بارے میں بقدر استطاعت وہ ’’گولی‘‘ اور’’ رسوا کن بیانات‘‘ کاطریقہ اختیار کرتا ہے۔ مگر دوسروں سے اپنے لیے وہ اس سے مختلف رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس قسم کے مطالبات بلاشبہ جھوٹے مطالبات ہیں، اور جھوٹے مطالبات کی موجودہ دنیا میں کوئی قیمت نہیں۔
ٹھیک سات سال پہلے 6 فروری1979 کو میں نے حسب ذیل سطریں لکھی تھیں:مکہ میں جب خدا کے دشمنوں نے خدا کے رسول کو گھر سے بے گھر کرنے کا منصوبہ بنایا تو خدا نے اپنے رسول کے لیے دوسرا زیادہ بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس نے مدینہ کو اسلامی دعوت کا مرکز بنادیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص سنت ہے۔ وہ ایک کو حق کا راستہ روکنے کا مجرم ثابت کرکے دوسرے کو حق کا استقبال کرنے کا اعزاز دیتا ہے۔ وہ ایک کو ڈسکریڈٹ (discredit) کرکے دوسرے کو کریڈٹ (credit) عطا فرماتا ہے (6 فروری، 1979)۔
یہ سطریں میں نے ایک مسلم ادارے میں رہتے ہوئے لکھی تھیں، جب کہ ادارے والے مجھ کو بے گھر کرنے اور میرے مشن کو برباد کرنے کے لیے اپنی آخری کوشش کررہے تھے ،اور میں بظاہر بے بس بنا ہوا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے راستہ کھولا ۔ آج میں دوبارہ یہ سطریں نظام الدین کے اسلامی مرکز میں لکھ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا معجزہ دکھایا۔ الرسالہ بھی خدا کے فضل سے زندہ رہا اور میں بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی شخصیت اپنے ماحول سے سراسر غیر متاثر نظر آتی ہے۔ مثال کے طورپر آپ کے زمانے میں عرب میں شاعری کا بہت زور تھا۔ شعر گوئی کو اس وقت سب سے بڑا کمال سمجھا جاتا تھا۔ وہی شخص قوم میں نمایاں ہوتا تھا جو شعر کی زبان میں اپنی بات کہہ سکے۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں شعر وشاعری کا مطلق کوئی اثر نہیں ملتا۔ اپنے زمانے کے ادبی رواج سے اس قدر غیر متاثر رہنے کی کوئی دوسری مثال غالباً تاریخ میں نہیں ملے گی۔ آپ کی زندگی کا یہ غیر معمولی پہلو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آپ ایک غیر معمولی انسان تھے۔ آپ خدا کے پیغمبر تھے۔
ایک مسلمان بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ بہت دنوں سے صابن بنانے کا تجربہ کررہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ صابن کا اصل جزء تیل ہے۔ صابن میں پوسٹک سوڈا بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر اس کا خاص کام یہ ہے کہ وہ تیل کو جمادے ۔ کسی بھی نباتاتی تیل سے صابن تیار ہوسکتا ہے۔ انھوںنے کہا— مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں صابن نہیں بناتے۔ حالاں کہ صابن بنانا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ شب برات کا حلوا بنانا۔
اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے گھر میں صابن بناتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ انھوںنے کچھ عذر بیان کیے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں صابن بنانے کا کام نہیں کرسکتے۔مسلمانوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ نہیں کہ مسلمان اپنے گھر میں ’’صابن‘‘ نہیں بناتے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا مشورہ وہ لوگ دے رہے ہیں، جو خود اپنے گھروں میں ’’صابن‘‘ بنانے کا کام نہیں کرتے۔
مولانا محمد شاکر صاحب (دہلی) نے بتایا کہ ایک شخص پر کسی جرم میں مقدمہ چلا اور اس کو قید کی سزا ہوگئی۔اس نے جیل خانے سے ایک بزرگ کے یہاں پیغام بھیجا کہ میں جیل میں بند ہوگیا ہوں۔ کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس سے رہائی ہوجائے۔ بزرگ نے اس کو بتایا کہ تم یہ پڑھا کرو:
آج کل پرسوں ہزار بار بگوید قفل در زنداں بکشاید
اس نے اس جملہ کا ورد شروع کیا اور اسی کے بعد اس کو جیل خانے سے رہائی مل گئی۔
مسلمان بہت بڑی تعداد میں اسی قسم کے طلسماتی اعمال کے فریب میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ دین جو توہمات کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا، اس کے ماننے والے خود توہمات میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ مزید یہ کہ انھوں نے توہمات کواسلامائز (Islamize)کر لیا۔ انھوںنے کچھ اسلامی الفاظ بول کر اس کو اسلامی بنا لیا۔
بشیر احمد راشد الامینی (پیدائش 1942 ) 1970میں حج کرنے گئے۔انھوںنے بتایا کہ مدینہ میںانھوںنے ایک نقشہ نما خریدا،جس میں مسجد وغیرہ کی تصویریں تھیں۔ انھوں نے اس کو پھیری والے سے لیا تھا۔ پھیری والے نے بتایا تھا کہ اس میں دس تصویریں ہیں۔ مگر انھوںنے گھر پر جاکر دیکھا تو صرف آٹھ تصویریں تھی۔ وہ دوبارہ پھیری والے کے پاس شکایت کرنے کے لیے گئے۔ پھیری والے نے کہا ہم کیا کریں ہم تو ہول سیلر سے خریدتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ مجھ کو ہول سیلر کے پاس لے چلو۔ کافی جھگڑا کے بعد وہ راضی ہوا۔ ہول سیلر کے پاس پہنچے تو وہ بھی جھگڑا کرنے لگا۔ بشیر صاحب نے اس کے سامنے ایک آیت پڑھی:فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَى اللَّہِ وَالرَّسُولِ (
اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کاتصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی کو چپ کرسکے۔ وہ خدا کا واسطہ دے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔
بزرگوں کی بزرگی ثابت کرنے کے لیے کس طرح جھوٹے قصے گھڑے جاتے ہیں، اس کی ایک دلچسپ مثال ذیل کا قصہ ہے:
مولانا قاسم نانوتوی کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ مولانا نانوتوی دار العلوم دیو بند میں استاد تھے۔ دارالعلوم کی طرف سے ان کو دس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں (بھوپال) نے ان کو لکھا کہ آپ دیوبند سے بھوپال آجائیں۔ یہاں آپ کو 300روپئے ماہوار پیش کیے جائیں گے۔ مولانا نانوتوی نے ان کو جواب میں لکھا :’’میںیہاں مدرسہ میں دس روپیے ماہوار تنخواہ پاتا ہوں۔ 5روپیے میں بچوں کا خرچ چل جاتا ہے، اور بقیہ پانچ روپیہ کا مصرف ہر ماہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں بھوپال آجاؤں تو مجھ کو ہر ماہ
اس سلسلے میں مولانا محمد عبد الحق (انچارج دفتر دار العلوم دیوبند) کا ایک مضمون الجمعیۃ 4 جنوری 1975میںچھپا ہے۔ انھوںنے اس قصہ کو سراسر بے بنیاد بتایا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنی ساری عمر کبھی دار العلوم دیوبند سے کوئی تنخواہ ہی نہیں لی (ملاحظہ ہو، سوانح قاسمی جلد اول، صفحہ
جب مولانا نانوتوی دار العلوم دیوبند سے سرے سے کچھ تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے تو ان کے بارے میں مذکورہ قصہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔
090
میںنے ایک خانقاہ میں چند دن گزارے۔ یہاں میںنے دیکھا کہ لوگ زور وشور سے ذکربالجہر کررہے ہیں۔ میںنے وہاں کے ایک عالم دین سے کہا یہ ذکر بالجہر جس کی گونج ہر خانقاہ میں سنائی دیتی ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ قرآن کے نص صریح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ قرآن میںآیا ہے:وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیفَةً وَدُونَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ (
انھوں نے جواب دیا۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ کی روحانیت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جو آپ کو دیکھتا تھا وہ ایمان کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیتا تھا۔ مگر بعد کے دور میں جب یہ چیز باقی نہ رہی تو بزرگوں نے ذکر بالجہر کا طریقہ اختیار کیا۔ اس سے دل پر ضرب لگائی جاتی ہے اور دل کو پاک صاف کیا جاتا ہے۔
’’بزرگوں‘‘ کی طرف سے اس قسم کا جواب دیا جانا اور مریدوں کا نہایت وفاداری کے ساتھ اس کو محفوظ کرلینا ظاہر کرتا ہے کہ مسلم قوم میں دینی فکر کی سطح آج کتنی پست ہوچکی ہے۔ ذکر عبادت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ عبادت کے لیے یہ امر مسلم ہے کہ یہ اجتہاد کے دائرے سے باہر کی چیز ہے۔ یعنی اس کا تعین صرف خدا کرسکتا ہے۔ اِنسان اس کی صورت متعین نہیں کرسکتا۔ اب مذکورہ بالا سوال پر غور کیجیے تو منطقی طورپر یہ جواب جہاں پہنچاتا ہے وہ یہ کہ ’’ہم پیغمبر نہیں بن سکتے تھے، اس لیے ہم نے خدا کی نشست پر قبضہ کرلیا ہے۔‘‘
حضرت مسیح علیہ السلام بلاشبہ خدا کے پیغمبر تھے مگر آپ کا تذکرہ عیسائیوں کی مقدس کتاب کے باہر کہیں موجود نہیں۔ اس بنا پر بہت سے اہلِ علم حضرات، مسیح کو غیر تاریخی شخصیت قرار دیتے ہیں۔کسی شخص کے تاریخی شخص ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ اس کا ذکر معاصر تاریخ (contemporary history) میں موجود ہو۔چنانچہ عیسائی علما نے بے شمار کوشش کی کہ وہ حضرت مسیح کی معاصر تاریخ میں آپ کا تذکرہ حاصل کرسکیں مگر اس میں انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح کے بارے میں غیر مذہبی ریکارڈ (secular records) نہیں ملتا۔ پیغمبرعیسی کے زمانے کی غیر مسیحی تحریروں میں براہِ راست ان کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم بےپناہ تلاش کے بعد موجودہ زمانے میں بعض بالواسطہ حوالے معلوم کیے گئے ہیں۔ مثلاً بعد کےکچھ یہودی ربّی کی تحریروں میںاس قسم کے جملے دریافت کیے گئے ہیں — فلسطین میںایک جادو گر کا ظہور ہوا تھا تاہم یہ تحریر بھی پہلی صدی عیسوی کی ہے یعنی حضرت مسیح کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کی۔
ایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون مصافحہ کے شرعی طریقہ کے بارے میں ہے۔ اس میں ’’احادیث نبوی‘‘ کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دو نوںہاتھوں سے مصافحہ کرنا افضل ہے۔ تاہم ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ یہ ایک حنفی عالم کا مضمون ہے۔ دوسری طرف اہلِ حدیث علما یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا افضل ہے، اور ان کے پاس بھی حدیث موجود ہے۔
اس طرح کے امور میں افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑنا سراسر خلاف سنت ہے۔ جس معاملے میں بھی ایک سے زیادہ طریقہ حدیثوں میں موجود ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں توسع ہے۔ یعنی یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست ہے۔ ایسے تمام امور میں دونوں ثابت شدہ طریقوں کو درست قر ار دینا چاہیے، نہ کہ ایک کو افضل اور دوسرے کو غیر افضل ثابت کیا جائے۔
اسی لیے حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ میں یہ پسندنہیںکرتا ہوں کہ اصحابِ رسول اختلاف نہ کرتے۔ کیوں کہ اگر صرف ایک قول ہوتا تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے۔ وہ لوگ نمونہ تھے۔ ان کی اقتدا کی جاتی ہے، اگر کوئی آدمی ان میں سے کسی کے بھی قول کو اختیار کرلے تو وہ آسانی میں ہے(مَا أُحِبُّ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَخْتَلِفُوا؛ لِأَنَّہُ لَوْ کَانَ قَوْلًا وَاحِدًا کَانَ النَّاسُ فِی ضِیقٍ وَإِنَّہُمْ أَئِمَّةٌ یُقْتَدَى بِہِمْ وَلَوْ أَخَذَ رَجُلٌ بِقَوْلِ أَحَدِہِمْ کَانَ فِی سَعَةٍ) جامع بیان العلم و فضلہ، اثر نمبر1689۔
بعدکے لوگوں میں جو فقہی اختلافات ہوئے ان سب کا ابتدائی سبب صحابہ کے یہاں موجود تھا۔ مگر فرق یہ ہے کہ صحابہ کا ذہن ان اختلافات میںیہ تھا کہ یہ بھی درست ہے اور وہ بھی درست۔ مگر بعد کے لوگوں نے یہ بدعت کی کہ ان اختلافات میںافضل اور غیر افضل تلاش کرنے لگے۔ بس یہیں سے شدت پیدا ہوئی، اور اختلاف آخر کار نااتفاقی بن گیا۔ اختلافی امور میں توسع کا ذہن ہو تو کوئی نقصان نہیںہوتا۔ مگر جب افضل اور غیر افضل کی بحث چھیڑ دی جائے تو وہیں سے تباہ کن اختلاف کا آغاز ہوجاتا ہے۔
ہندستان کے سابق وزیر اعظم مسٹر مرار جی ڈیسائی یورپ اور امریکا کے بارہ روزہ سرکاری دورہ کے بعد
ہندستان ٹائمس18 جون 1978 ، صفحہ 1
یہ ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جس میں ان لوگوں کی تصویر نظرآتی ہے، جو جنتا پارٹی کے نام سے حکومت میں آئے تھے۔ 1977 میں جنتا پارٹی کا حکومت میں آنا بالکل جوار بھاٹا کا معاملہ تھا۔ وہ تیزی سے گورنمنٹ ہاؤس میں داخل ہوئی اور پھر دو سال بعد تیزی سے باہر نکل گئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ جنتا پارٹی دراصل مخالف کانگریس عناصر کا دوسرا نام تھی۔ جولوگ کسی مخالفانہ نعرے کی بنیاد پر اکٹھا ہوں ان کے اجتماع واتحاد پر ایک نادان آدمی ہی خوش ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح اکھٹا ہونے والے لوگ ہمیشہ نہایت سطحی لوگ ہوتے ہیں۔ وہ اگر اقتدار پر قبضہ پالیں تب بھی کوئی مثبت کام نہیں کرسکتے۔ وہ جتنی تیزی سے جمع ہوتے ہیں اتنی ہی تیزی سے دوبارہ منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے جھوٹے اتحاد کا تماشہ مسلمانوں میں بھی کثرت سے دیکھا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) نے لکھا ہے کہ گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ کمیّت کو کیفیت سے جدا کردیا گیا:
Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected. (Man, the Unknown, New York, 1939, p.
قرآن میں سورہ الذاریات کی ایک آیت یہ ہے:وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (
قدیم مترجمین کی سمجھ میں پھیلانے والے کی معنویت نہ آسکی، اس لیے انھوں نے لَمُوسِعُونَ کا ترجمہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
وہر آئینہ ما توانائیم۔
اور ہم کو سب مقدور ہے۔
اور ہم وسیع القدرت ہیں۔
اور بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں۔
اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں۔
اور ہم یقیناً بڑی طاقت والے ہیں۔
اور ہم ہی صاحب قدرت ہیں۔ وغیرہ۔
خالص لفظی اعتبار سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ کیوںکہ لفظی ترجمہ یہ ہے:’’ ہم کشادہ کرنے والے ہیں‘‘ یا ’’ہم پھیلانے والے ہیں‘‘۔
ترجمہ کے اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میں لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات(expanding universe) ہے۔ انسانی علم کی محدودیت اس کو نہ پاسکی۔ مگر قرآن کے مصنف کو یہ حقیقت اس وقت بھی معلوم تھی کہ جب کہ ساری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اس حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے مُوسِعُونَ(ہم پھیلانے والے ہیں) کے لفظ کا انتخاب فرمایا۔
قرآن میںاس طرح کے کثیر شواہد ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن عالِم الغیب کا کلام ہے، محدود ذہن رکھنے والا انسان ایسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا۔
سورۃ الذاریات کی آیت
شاہ رفیع الدین صاحب (1750-1818)کے متعلق معلوم ہے کہ وہ خالص لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔ حتی کہ وہ اس کا بھی لحاظ نہیں کرتے کہ ان کے الفاظ پڑھنے والا سمجھ سکے گا یا نہیں ۔ان کے لفظی ترجمہ پر کچھ لوگ ہنستے ہیں، مگرحقیقت ہے کہ اس لفظی ترجمہ کی وجہ سے اکثر وہ ایسی غلطی سے بچ جاتے ہیں، جو دوسرے مترجمین سے ہوئیں۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے مذکورہ آیت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں یہ ہے:
’’اور آسمان کو بنایا ہم نے اس کو ساتھ قوت کے اور تحقیق ہم البتہ کشادہ کرنے والے ہیں‘‘
(مطبوعہ:مجمع البحوث العلمیہ الاسلامیہ، نئی دہلی، صفحات623-24)
یہ چھوٹی سی مثال ایک بہت بڑی حقیقت کو بتاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ خدا کے کلام کی اطاعت خالص تقلیدی انداز سے ہونی چاہیے۔ خدا کے کلام سے اگر ایک حکم واضح طورپر نکل رہا ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم بالکل مقلدانہ انداز میں اس پر چل پڑیں۔ عین ممکن ہے کہ مستقبل یہ بتائے کہ خدا کے اس حکم میں بہت بڑا خیر تھا جو بظاہر ہماری عقل میں نہیں آتا تھا۔
شاہ رفیع الدین صاحب نے یقیناً یہ ترجمہ جدیدفلکیاتی فہم کے ساتھ نہیں کیا کیوں کہ توسیع کائنات کا نظریہ (expanding universe theory) ان کے زمانے میں دریافت ہی نہ ہوا تھا۔ یقینی طورپر انھوں نے یہ ترجمہ خالص تقلیدی ذہن کے تحت کیا، مگر ان کی تقلید عظیم الشان اجتہاد بن گئی۔ جو چیز ماضی میں بظاہر ناقابلِ فہم تھی، جب مستقبل کے پردے ہٹے تو معلوم ہوا کہ وہی سب سے زیادہ قابلِ فہم بات ہے۔ آج جدید معلومات سامنے آنے کے بعد شاہ رفیع الدین صاحب ہی کا ترجمہ صحیح نظر آتا ہے جب کہ قدیم زمانے میں وہ غیر صحیح دکھائی دیتا تھا۔
شریمتی سبھدرا جوشی (پیدائش 1919) نے فورمن کرشچین کالج لاہور سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ بچپن سے ملکی سیاست میں دلچسپی لیتی رہی ہیں۔ 1947کے بعد فرقہ پرستی کے خلاف کام کرنے والوں میں ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ ماہنامہ شبستان (جون 1972) کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اپنا ایک واقعہ اس طرح بیان کیا:
1947 کے ہنگامہ میں ہم دہلی کے مسلم محلوں میں کام کررہے تھے۔ دلی کانگریس پر ہمارا قبضہ تھا۔ گاندھی جی آئے انھوں نے ہم سے پوچھا، کتنے مسلمان مارے گئے۔ ہم نے بتایا کہ دس ہزار سے زیادہ مارے گئے ہیں۔ وہ بہت برہم ہوئے اور کہا کہ تم نے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ ہم نے کہا ہم تو برابر کوشش کررہے ہیں، مگر حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ انھوںنے غصے میں پوچھا ان دس ہزار میں تمھارے کانگریس ورکر کتنے مارے گئے۔ ہم نے جواب دیا، ایک بھی نہیں۔ اس پر وہ بولے: پھر میں کیسے مان لوں کہ تم نے بچانے کی کوشش کی ہوگی‘‘۔
سبھدرا جوشی کی رپورٹ کے بعد گاندھی جی کا ایک جواب یہ ہوسکتا تھا— ’’کوشش اپنا کام ہے، کامیابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ تم اپنی کوشش جاری رکھو‘‘۔
مگر یہ جواب نہیں۔ جولوگ اپنے ماتحتوں کو اس قسم کے جواب دیں وہ زندگی کی حقیقتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔جامع مسجد دہلی میں ایک دن دو جلسے ہوئے۔ دونوں جلسے جامع مسجد کے قریبی پارک میں تھے۔ دونوں کی تاریخ ایک تھی۔ صرف اتنا فرق تھا کہ ایک جلسہ مغرب سے پہلے ہوا، اور دوسرا جلسہ مغرب کے بعد۔
ایک جلسے کو جماعت اسلامی اور مجلس مشاورت وغیرہ کی جانب سے کیا گیا تھا، اور دوسرے جلسے کو جمعیۃ علماء اور قوم پرست مسلمانوں نے۔ ایک حلقے کے لوگ ایک جلسے میں گئے اور دوسرے حلقے کے لوگ دوسرے جلسے میں۔
میں اتفاق سے دونوں جلسوں میں شریک ہوا۔ دونوں جلسوں کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے نئی دہلی کے عرب سفیروں کو دعوت دی۔ کچھ سفیر ایک جلسہ کو مل گئے، اور کچھ سفیر دوسرے جلسہ کو۔ اس کے بعد دونوں طرف کے مقررین نے پرجوش تقریریں کیں۔ آخر میں دونوں جلسوں میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا گیا — اے عربو! متحد ہو کر اسرائیل کا مقابلہ کرو۔
دونوں جلسوں میں شرکت کے بعد جب میں گھر کی طرف واپس ہوا تو بے اختیار میری آنکھوںمیں آنسو آگئے۔ میری زبان سے نکلا ’’ہم متحد ہو کر مشورہ بھی نہیں کر سکتے ہیں، مگر دوسروں کو مشورہ دینے کے لیے جلسے کرتے ہیں کہ وہ متحد ہو کر مقابلہ کریں‘‘۔
جماعت اسلامی کے لوگوں نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی پر ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ہے ’’ایک شخص ایک کارواں‘‘۔ اس کے مرتب جناب مجیب الرحمن شامی ہیں۔ اس کتاب میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی صدر ایوب سے ملاقات کا ذکر ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ صدر ایوب نے اپنی ملاقات میں کہا ’’مولانا صاحب، آپ کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ واقعی آپ نے دین کی بہت خدمت کی ہے۔ مولانا صاحب میری ایک تجویز ہے۔ آپ جیسی بڑی علمی شخصیت کو اپنی عمدہ صلاحیتیں سیاست میں ضائع کرنے کے بجائے ان سے قومی تعمیر کا کوئی ٹھوس کام لینا چاہیے۔ اس غرض کے لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم ملک کے اندر ایک شاندار اسلامی یونیورسٹی قائم کریں۔ آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ یہ یونیورسٹی میں نے بھاول پورمیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے ابتدائی سرمایہ کے طورپر رواں بجٹ میں دو کروڑ روپیہ کی رقم مختص کردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی میں بہترین استادوں اور عمدہ انتظامات کے ذریعے خالص دینی علوم اس طرح پڑھائے جائیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ کا فریضہ سنبھالیں۔ اس یونیورسٹی کی سربراہی کے لیے آپ کا نام میرے ذہن میں آیا ہے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ سیاست کے جھنجھٹ سے الگ ہو کر اس کام کا بیڑا اٹھائیں، جو آپ کی اعلیٰ صلاحیتیوں کے مطابق آپ کا اصل کام ہے۔ میں یہ بیان کردوں کہ یونیورسٹی کے لیے ہم نے دوکروڑ روپیہ کا جو ابتدائی فنڈ مختص کیا ہے، وہ رقم اور حکومت کی طرف سے اس کے بعد ملنے والی تمام گرانٹ سب پر آپ کو اپنی صوابدید کے مطابق مکمل تصرف کا اختیار ہوگا۔ اور آپ کو قانوناً آڈٹ وغیرہ کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے گا۔‘‘ (ایک شخص ایک کارواں،نئی دہلی، 1981، صفحہ 100)
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے اس پیشکش کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔یہ پاکستان میںان کی اختیار کردہ سیاست کا قدرتی نتیجہ تھا۔جو لوگ سیاسی اپوزیشن میں انوالو (involve)ہوں ، ان کو مذکورہ قسم کے تعمیری کام کام نہیں لگتے ہیں۔حالاں کہ اصل کام یہی ہے کہ انسان اپنی کوششوں کو سیاسی ٹکراؤ کے میدان سے ہٹائے ،اور وہ اپنےآپ کو پوری طرح سماجی تعمیر کے کام میں لگادے۔
100
ڈاک سے ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس میں ایک دینی ادارے کے ہفت روزہ میگزین کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ مضمون ادارے کے بانی کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے:
چراغ عالم اسلام تھے
اس عنوان کے نیچے جو مضمون ہے وہ گویا نثر میں شاعری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے نعت کے تمام شاندار الفاظ بانیٔ ادارہ کی قصیدہ خوانی میں صرف کردیئے ہیں۔
اس مضمون کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میری وفات کے بعد جو لوگ میری تعریف میںاس قسم کے قصیدے لکھیں گے، وہ میرے جھوٹے ماننے والے ہوں گے۔ میرے حقیقی ماننے والے وہ ہیں، جو میرے مشن کو لے کر آگے بڑھیں، جو میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اس دینی جدوجہد کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں۔
میرا کام اللہ کے سچے دین کا اعلان واظہار ہے۔ میری ساری دلچسپی صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت کو آج کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن سے ہوشیار کیا جائے۔میرے بعد جولوگ میرے اس مشن کے لیے سرگرم ہوں وہی میرے سچے ساتھی ہیں۔ اور جو لوگ نظم و نثر میں میری تعریف کریں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی راہ الگ ہے اور میری راہ الگ۔
علمی حدود کیا ہے۔ اس کو ذیل کے واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔علما کے ایک گروہ کا ماننا ہے کہ فاسق امیر کے ساتھ جہاد کرنا جائز ہے۔ اس کی مختلف دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری(وفات
یزید کو لعین کہنا بذات خود قابل اعتراض ہے۔ کسی شخص کو ملعون قرار دینے کے لیے شرعی دلیل درکار ہے، اور یقیناً ایسی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، جو صراحۃً یزید کی ملعونیت کا اعلان کرتی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ یزید کو جو لوگ بطور خود ملعون کہتے ہیں، وہ اس کی ملعونیت کو کربلا (
ہمارے علما میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو علمی حدود کے پابند رہ کر بولتے ہوں۔ ہمارا قدیم وجدید لٹریچر غیر علمی بیانات سے بھرا ہوا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ وہاں آپ تقریباً
مکی دور کے آخر میں اس سورہ کا اترنا اس بات کا اشارہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خداکی مدد سے یہی معاملہ پیش آئے گا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مکہ والوں نے آپ کو ہلاکت کے غار میں ڈالنا چاہا مگر عین اسی وقت مدینہ میں آپ کے قدرداں پیدا ہوگئے۔ آپ ان کی دعوت پر مکہ سے مدینہ پہنچ گئے اوروہاں آپ نے اسلام کی نئی تاریخ بنائی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ معاملہ پیش آنے والا ہے۔میں 1956 سے 1962 تک جماعتِ اسلامی کے مرکزی شعبۂ تصنیف وتالیف سے وابستہ تھا۔ اس کے بعد 1963 سے 1966تک مجلس تحقیقات ونشریات اسلام(ندوۃ العلماء) لکھنؤ سے وابستہ رہا۔ دونوں جگہ یہ صورت پیش آئی کہ وہ لوگ میری تنقیدوں سے برہم ہوگئے۔ میرا غیر مصالحانہ انداز ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ چنانچہ دونوں جگہ سے علیحدگی عمل میںآئی۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء کی دعوت پر میں 1967 میں دلی آیا، اور جمعیۃ علما ہند کے ہفت روزہ اخبار الجمعیۃ سے وابستہ رہا۔ یہاں بھی ابتدائی چند سالوں کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ 1974میں انھوں نے مجھ کو الگ کر دیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دلی کے مرکزی شہر میں ٹھہرانے کا انتظام کیا اور ایسے اسباب پیدا کیے کہ 1976میں الرسالہ جاری ہوا۔ اور اب خدا کے فضل سے اسلامی مرکز کی صورت میں اس نے ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور لوگوں کی مخالفتوں کے باوجود وہ دن بدن ترقی کررہا ہے۔ شاید تاریخ دوبارہ یہ منظر دیکھنے والی ہے — ایک اُسوءُ القصص خدا کی مدد سے احسن القصص میں تبدیل ہوگیا۔
موجودہ زمانے کے مسلم قائدین کا معاملہ نہایت عجیب ہے۔ وہ بیک وقت نہایت کامیاب تھے، اور اسی کے ساتھ نہایت ناکام بھی۔مثلاً1952میں مصر کی اخوان المسلمون جنرل محمد نجیب (1901-1984) اور جمال عبد الناصرحسین(1918-1970) کے ساتھ مل کرمصر سے شاہ فاروق (1920-1965) کو معزول کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے مصر کے الیکشن میں حصہ لیا تو وہ بالکل ناکام ہوگئے۔جماعت اسلامی پاکستان جنرل ایوب خان (1907-1974)اورذوالفقار علی بھٹو (1928-1979)کی حکومت ختم کرنے میں نہایت کامیاب رہی۔ مگر جب وہ لوگ الیکشن کے میدان میں آئے تو وہ کامیاب نہ ہوسکے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص جب شاہ فاروق یا ایوب اور بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اٹھتا ہے تو وہ اکیلا نہیں ہوتا۔ پوری اپوزیشن اور تمام مخالف حکومت عناصر اس کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔ حکومت کے خلاف مہم میں آدمی کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قائدین اینٹی حکومت مہم میں کامیاب رہے۔اس کے بعد جب یہ لوگ ملک میں خود اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے اٹھے تو اس وقت وہ تنہا تھے۔ اس دوسری مہم میںانھیں اپنی تنہا قوت سے کامیاب ہونا تھا۔ چوں کہ ان کی تنہا قوت بہت کم تھی اس لیے وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔
اینٹی حکومت مہم میں جو مقبولیت حاصل ہوتی ہے، وہ بلا شبہ جھوٹی مقبولیت ہے۔ اس قسم کی مہم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض شخصی لیڈری ہے، نہ کہ کوئی واقعی کام۔ اینٹی حکومت مہم میں فوراً مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے لوگ تیزی سے اس کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مثبت مہم میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا میدان سونا پڑا ہوا ہے۔ اس میدان میں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہ شکایت کی کہ الرسالہ میں سلف پریز (self-praise) ہوتا ہے۔ میںنے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔ انھو ںنے الرسالہ میں شائع شدہ ایک خط کا ذکر کیا جس میں الرسالہ کے زبان و بیان پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ میںنے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ سلف پریز کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ اپنی تعریف آپ کرنا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جس خط کا حوالہ دیا ہے ،وہ دوسرے شخص کا خط ہے پھر یہ اپنی تعریف آپ کرنا کیسے ہوا۔
اسی مجلس میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے اخراجات پہلے میں خود کرتا تھا مگر میںنے دیکھا کہ میرے ہاتھ سے زیادہ خرچ ہوجاتاہے اس لیے میں نے یہ کام اپنی بیوی کے حوالے کردیا۔ وہ، ماشاء اللہ، نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہیں۔ اب ہمارے گھر کا ماہانہ خرچ پہلے سے کم ہوگیا ہے، اور پس انداز کی جانے والی رقم کی مقدار بڑھ گئی ہے۔
میں نے سوچا کہ آدمی بھی کیسا عجیب ہے۔ ایک معاملے میں اس کا رویہ کچھ ہے، اور دوسرے معاملے میں اس کا رویہ کچھ دوسرا۔ وہ اپنے پیسے کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت کفایت شعار ہے مگر اپنے الفاظ کو خرچ کرنے کے معاملے میں نہایت فیاض۔ مذکورہ بزرگ الرسالہ پر تبصرہ کرنے کے لیے اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بے حساب خرچ کررہے ہیں، مگر وہی بزرگ اپنے جیب کے پیسہ کو خرچ کرنے کے معاملے میں حد درجہ محتاط اورکفایت شعارنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی رقم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں،اور اپنے الفاظ کو سوچے بغیر۔
ڈاکٹر انوار احمد (کوہنڈہ، اعظم گڑھ) کے ایک خط کے جواب میں لکھا:
آپ کا خط مورخہ
مومن خود ایک کامل وجود ہے۔ اس لیے اس کے واسطے نہ کبھی محرومی کا سوال پیداہوتا ہے، اور نہ کبھی بے کاری کا۔آپ کے مخالفین آپ کو لاؤڈ اسپیکر پر بولنے نہیں دے رہے ہیں تو آپ دل کے خاموش تاروں پر حق کا نغمہ چھیڑیے۔ آپ کو انسانوں میں اگر ایسے لوگ نہیں مل رہے ہیں، جو آپ کی بات پر دھیان دیں تو آپ خدا کے فرشتوں سے سرگوشی شروع کردیجیے۔ انسانی آبادیوں میں اگر آپ کو اپنے ہم نوا نہیں مل رہے ہیں تو آپ قبرستان کے سناٹے میں اپنا ہم نشین تلاش کرلیجیے۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی (1903-1979)کی ایک کتاب ہے جس کا نام تنقیحات ہے۔ یہ موصوف کے مضامین کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار 1939میں شائع کیاگیاتھا۔ اس کتاب کے ایک مضمون کا عنوان ہے ’’لارڈ لوتھین کا خطبہ‘‘۔ لارڈ لوتھین(1882-1940) ایک انگریز تھے۔ جنوری 1938 میںانھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کانوکیشن ایڈریس دیا۔ مذکورہ مضمون میںاس ایڈریس کے کچھ حصے اردو میں ترجمہ کرکے نقل کیے گئے ہیں۔ جب میں نے پہلی بار اس مضمون کو پڑھا تو مجھے لارڈ لوتھین کے اس خطبے سے بڑی دلچسپی ہوئی۔ کیوںکہ اس میں بتایا گیا تھا کہ جدید یورپ میں اسلام کی تبلیغ کے زبردست امکانات ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے یورپ جائیں، اوراس امکان کو استعمال کریں۔
دلچسپی کی بنا پر میں نے چاہا کہ اس خطبے کو اصل انگریزی زبان میں حاصل کرکے پڑھوں۔ چنانچہ میں علی گڑھ گیا اور وہاں کی یونی ورسٹی لائبریری میں اس کو تلاش کیا۔ مگر یونی ورسٹی کے کتابی ذخیرہ میں یہ خطبہ موجود نہ تھا۔ بالآخر میں سرسید روم میں گیا کہ شاید وہاں مل جائے مگر وہاں بھی نہیں ملا۔ سرسید روم کے ذمہ دار نے بتایا کہ اس خطبے کی اصل کی ہمیں بھی تلاش تھی۔ ہم نے یونیورسٹی کے ہر شعبے میں اس کو ڈھونڈا مگر معلوم ہوا کہ وہ یونی ورسٹی کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔
مجھے یونی ورسٹی کی اس بے انتظامی پر بے حد افسوس ہوا۔ تاہم اس سے میں نے ایک سبق لیا۔ وہ یہ کہ جب میں اپنے اردو مضامین میں انگریزی یا کسی دوسری زبان کا کوئی اقتباس نقل کروں تو اس کے ترجمے کے ساتھ اس کا ضروری حصہ بھی اصل زبان میں نقل کردوں۔ چنانچہ الرسالہ کے اکثر مضامین میں میں نے یہی انداز اختیار کیا ہے۔
ایک عرب پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ کی جو عربی کتابیں یا مضامین میں نے پڑھے ہیں، ان میں الاسلام یتحدی (اردو ورژن مذہب اور جدید چیلنج) فائق ہے، باقی سب اس کے تحت ہیں۔میں نے کہا کہ ہمارے مشن کا اصل اظہار الاسلام یتحدی میں نہیں ہوا ہے، بلکہ دوسری کتابوں میں ہوا ہے۔ الاسلام یتحدی صرف اس مشن کی اعتباریت(credibility) ثابت کرنے کے لیے ہے، وہ خود مشن کا تعارف نہیں۔
میں نے کہا کہ حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے لاٹھی کو سانپ بنادیا۔ اب کوئی شخص کہے کہ حضرت موسی نے نبوت ملنے کے بعد جو کچھ پیش کیا، ان میں عصا کا معجزہ سب پر فائق ہے، تورات اس کے تحت ہے، تو یہ صحیح نہیں ۔ کیوں کہ آپ کی دعوت میں تورات اصل ہے اور عصا کا معجزہ ایک ضمنی (relative)حیثیت رکھتا ہے۔
الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہمارے مشن کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے ہے، نہ کہ خود وہی ہمارا مشن ہے۔ مولانا عبد الباری ندوی (1886-1976)اس طرح کی چیزوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ ’’رکانہ کی کشتی‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکانہ ( بن عبدیزید)پہلوان نے چیلنج کیا اور آپ نے کشتی لڑکر اس کو ہرادیا(الاصابة فی تمییز الصحابة لابن حجر العسقلانی، جلد2، صفحہ
حقیقت ِ واقعہ کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ واقعہ اپنی جگہ پر بدستور باقی رہے، اور آدمی خو واقعات کی دنیا سے بہت دو رہوجائے۔ روس میں 1917 میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے سولہ سال تک اس کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر اس کا کوئی فائدہ امریکہ کو نہ مل سکا۔ کلائڈ سینگر(Clyde Sanger) نے لکھا ہے کہ امریکا کو سوویت یونین کے تسلیم کرنے میں سولہ سال لگ گئے۔ اس سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ روسی عوام کے درمیان مغربی دنیا کے خلاف نفرت پیدا کرے اور ان کے گردآہنی پردہ کھڑا کرسکے:
It took the United States 16 years to recognize the Soviet Union. This helped Stalin stimulate xenophobia among his people, and build an iron curtain around them.
کلائڈسینگر نے مزید لکھا ہے کہ اگر اس زمین پر شیطان کی ایک سلطنت ہوتی تووہ اپنے نوجوان لوگوں میں سے ایک بہترین شخص کو اس کا سفیر نامزد کرتا تاکہ وہ اس کے اوپر پوری نظر رکھ سکے۔
کلائڈ سنگر کا یہ تبصرہ نہایت سخت ہے۔میں پسند نہیں کروں گا کہ میں ایسا سخت تبصرہ کروں۔ تاہم میری پوری زندگی کا مطالعہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کی سب سے اہم شرط حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے۔ جو شخص اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف، وہی موجودہ دنیا میں کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص حقیقتِ واقعہ کے اعتراف پر راضی نہ ہو اس کو اس سے زیادہ بُرے چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ کبھی اپنی منزل مقصود کو نہ پہنچ سکے۔
ڈاکٹر جان ڈَن(Dr. John Donne) سترھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1572 میں پیدا ہوا اور 1631 میںاس کی وفات ہوئی۔اس کی قبر لندن میں ہے۔
انگریزی شاعری کا ایک دبستان فکر ہے، جس کو مابعد الطبیعاتی اسکول (Metaphysical school of poetry)کہا جاتا ہے۔ جان ڈَن اسی دبستان فکر کا ممتاز شاعر شمار کیا جاتا ہے۔ وہ صوفیانہ مزاج کا آدمی تھا۔ اس کا ایک شعر ہے:
Done is Undone
یعنی ڈن برباد ہوگیا۔ تاہم صوتی اعتبار سے Done is Undone کا دوسرا لفظی مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جو ہوا وہ نہیں ہوا۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہوگیا، وہ بھی اب تک ناکردہ (undone)پڑا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر یہ بات پوری طرح صادق آتی ہے۔ان کے سب کام ابھی تک ناکردہ پڑے ہوئے ہیں۔ مثلاً بین اقوامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا ترجمہ— موجودہ زمانے میں عملاً یہ ہوا کہ بڑے بڑے قابل لوگ سیاسی اور ہنگامی کاموں میں پڑے رہے۔ اور نسبتاً چھوٹے اور کم تر درجہ کے لوگوں نے ترجمہ کا کام کیا۔ مثلاً حدیث کی کتاب مشکاۃ المصابیح کا ترجمہ الحدیث (Al-Hadis) کے نام سے چار جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ اس ترجمہ میں غیر ضروری قسم کا دیباچہ اور تشریح شامل کرکے اس کو خواہ مخواہ ضخیم بنا دیاگیا ہے۔ نیز اس کی زبان نہایت poor ہے۔
کوئی اچھا انگریزی داں اس کو پڑھ کر مشکل ہی سے گہرا تاثر قبول کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اچھے انگریزی داں لوگ اس کام کو کرتے تو یہی کام کتنا زیادہ جاندار ہوتا۔محمد اقبال اور محمد علی کی انگریزی زبان اچھی تھی۔ مگر محمد اقبال شاعری کرتے رہے، اور محمد علی نے اپنی ساری زندگی سیاسی ہنگاموں میں ضائع کردی۔
110
حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کا کام کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ بناتے تھے (الانبیاء،
حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عین اسلامی طریقہ ہے۔ تمام پیغمبروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرکے اپنی روزی کمانا عزت کی چیز ہے، نہ کہ ذلت کی چیز جس کو کرتے ہوئے آدمی شرمائے۔حدیث میںآیا ہے:مَا أَکَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ، وَإِنَّ نَبِیَّ اللَّہِ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ، کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2072)۔ یعنی کسی نے کھانا نہیں کھایا، جو بہتر ہو اس انسان سےجو اپنے ہاتھ کے عمل سے کھاتا ہے۔اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے عمل سے کھایا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے :إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِف (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر
حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر سمجھنا دورِ ملوکیت اور مسلمانوں کے دورِ زوال کی پیداوار ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کو بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
قرآن میں زمین کے بارے میں ایک تو خَلَقَ الْأَرْضَ (
یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت کسی کو معلوم نہ تھا کہ ساری کائنات میں صرف زمین ہے، جو ذی حیات اشیا کے انتہائی مناسب حال بنائی گئی ہے۔زمین کی جسامت (diameter) اگر موجودہ جسامت کا نصف ہو تو اسکی قوتِ کشش اتنی کم ہوجائے گی کہ انسان اور اس کے مکانات زمین پر ٹھہر نہ سکیں ۔ زمین کی جسامت اگر موجودہ جسامت کی دگنی ہوجائے تو اس کی قوتِ کشش اتنا بڑھ جائے گی کہ زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہوجائے۔ اسی طرح سورج اور زمین کا فاصلہ اگر موجودہ فاصلہ کا دگنا ہوجائے تو زمین برف کی طرح ٹھنڈی ہوجائے۔ اور اگر سورج اور زمین کا فاصلہ آدھے کے بقدر کم ہوجائے تو زمین سورج کی گرمی سے جھلس اٹھے۔
یہی معاملہ دوسری چیزوں کا ہے۔ زمین پر پانی ہے جو کسی دوسرے کرہ پر موجود نہیں۔ زمین پر آکسیجن ہے جو اس طرح موزوں حالت میں اور کہیں نہیںپائی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔
ذی حیات اشیا کے لیے زمین کی اس استثنائی موزونیت کا علم صرف زمانۂ جدید میں ہوسکا ہے۔ اس سے پہلے انسان اس بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ایسی حالت میں قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس آیت کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ خدائی کلام ہے۔
آخری زمانے میں حضرت مسیح کے نزول کے بارے میں جو روایات آئی ہیں ان میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ابو داؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ أَرْبَعِینَ سَنَةً، ثُمَّ یُتَوَفَّى(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4324)۔حضرت مسیح دنیا میں 40سال رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَیَمْکُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِینَ سَنَةً، ثُمَّ یَمُوتُ (المنتظم فی التاریخ،جلد2، صفحہ
بظاہر دونوں روایتوں میں فرق ہے۔ مگر یہ محض لفظی فرق ہے، نہ کہ حقیقی فرق۔ یہ ایک انداز کلام ہے جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ شارحینِ حدیث نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ 40 سال والی روایت میںاوپر کا عدد حذف کردیا گیاہے۔ عربی زبان میں اور دوسری زبانوں میں یہ عام لسانی قاعدہ ہے کہ کبھی کسر کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی اس کو حذف کردیتے ہیں۔
اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں روایات میں پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ ان کو روایت میں اختلاف سمجھتے ہیں، اور حدیث میں شبہ کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف اندازِ کلام کی بات ہے، اور انداز کلام کا یہ طریقہ ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔
انڈیا کےمشہورانگریزی صحافی مسٹر خشونت سنگھ (پیدائش 1915)نے لکھا ہے کہ میں ہندستان سے پاکستان گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز لاہور کی فضا میں پہنچا تو جہاز میں اناؤنسر نے اعلان کیا کہ پاکستان میں شراب ممنوع ہے۔ کوئی مسافر شراب کی بوتل کے ساتھ پاکستان میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپ میں سے جس شخص کے پاس شراب ہو وہ اس کو جہاز کے عملے کے پاس جمع کردے۔ مسٹر خشونت سنگھ نے لکھا ہے کہ میرے پاس شراب کی ایک بوتل تھی۔ یہ بوتل میں نے حسبِ اعلان ہوائی جہاز کے عملے کے حوالے کردیا۔ مگر اس کے بعد جب میں لاہور کے اندر داخل ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ بلیک مارکیٹ میں شراب نہایت فراوانی کے ساتھ بک رہی ہے، اور میں بلیک سے جتنی چاہے شراب خرید سکتا ہوں۔(20 مارچ 2014 کومسٹر خشونت سنگھ کا انتقال ہوچکا ہے)۔
مولانا غیاث الدین رحمانی سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانے میں جن مسلم ملکوںمیں شراب بند کی گئی ہے، وہاں اس کا یہی انجام ہوا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے لوگوں کا ذہن بنایا اس کے بعد شراب کی حرمت کا اعلان کیا (مسند احمد، حدیث نمبر 8620)۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں پہلے اس کے موافق ذہنی فضا بنانی پڑے گی۔ محض قانون کے زور پر لوگوں کو شراب نوشی سے روکا نہیں جاسکتا۔
انھوں نے کہا کہ مگر یہ طریقہ ہم کو اسلاف کے یہاں نہیں ملتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال تک قانون ہی کے زور پر شراب کو روکا جاتا رہا۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ پہلے ذہنی فضا بنائی جائے اس کے بعد شراب پر پابندی لگائی جائے۔
میںنے کہا پچھلے زمانے پر موجودہ زمانہ کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ پچھلا زمانہ وہ ہے، جب کہ اسلامی روایات کا تسلسل برابر جاری تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں اسلامی روایات کا تسلسل یکسر ٹوٹ گیا ہے۔ اب دوبارہ وہی ضرورت پیش آگئی ہے، جو رسول اللہ کے زمانےمیں تھی۔ اب ہمیں دوبارہ اسلامی روایات قائم کرنی پڑیں گی، اس کے بعد ہی قانون کا نفاذ مفید ہوسکتا ہے۔ کیوںکہ قانون ہمیشہ روایات کے اورپر نافذ ہوتاہے، اورموجودہ زمانے میں شراب بندی کے قانون کے لیے روایات کا زور موجود نہیں ہے۔
رشوت بالاتفاق حرام ہے۔ قتادہ (وفات
رشوت ایک ایسا مال ہے، جو آدمی حق کے بغیر لیتا ہے، اور جب آدمی واقعی حق کے بغیر کوئی چیز لے تو عین اسی وقت وہ اپنے آپ کو نیچے گرالیتا ہے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کی سطح پر رہ کر کام نہیں کرسکتا۔ اونچا کام کرنے والے کے اندر اونچا ذہن پرورش پاتا ہے، اور پست کام کرنے والے کے اندر پست ذہن پیدا ہوتا ہے۔ رشوت بہ ظاہر ایک مالی معاملہ ہے، مگر آدمی جب اس میں پڑجاتا ہے تو اس کی عقل و بصیرت بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی ہے۔ اخلاقی گراوٹ کا فعل کرتے ہی وہ اپنے آپ کو ذہنی اور فکری حیثیت سے بھی گرالیتا ہے۔
آدمی اپنے کپڑے صاف رکھنے کے لیے اس کو گندگی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عقل و بصیرت کو صاف ستھرا رکھنا چاہتا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے۔ برے اخلاق میں ملوث ہونے کے بعد وہ اپنی عقل کو صحیح حالت میں باقی نہیں رکھ سکتا۔
حیدرآباد کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایاکہ حیدر آباد میں ایک ہندو نے اسلام قبول کیا ہے۔ انھوںنے اس نومسلم سے پوچھا کہ تم نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کیوں اختیار کیا۔ نومسلم نے چند باتیں بتائیں جن میں ایک یہ تھی۔ انھوںنے کہا کہ میںمسلم محلہ میں رہتاہوں۔ وہاں ایک مسجد ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ جو مسلمان بھگوان کی عبادت کے لیے آتا ہے وہ وضو کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتاہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کو خدا تک پہنچنے کے لیے کسی درمیانی واسطے کی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس، مندروں میں جب میںجاتا تھا تو میں دیکھتا تھا کہ وہاں مندر کے مہنت کا ذریعہ اختیار کیے بغیر کوئی شخص پوجا نہیں کرسکتا۔
یہ بات بہ ظاہر سادہ سی ہے مگر نہایت اہم ہے۔ انسان فطری طور پر خدا کو پانا چاہتاہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دینا چاہتاہے۔ مگر دوسرے مذاہب میں بگاڑ کی وجہ سے یہ حال ہوگیا ہے کہ آدمی جب مندر اور چرچ میںجاتا ہے تو وہاں وہ پاتا ہے کہ کلرجی (clergy) کے بغیر وہ خدا تک نہیں پہنچ سکتا، اور نہ اس کے بغیر وہ خدا کی عبادت کرسکتا۔ اس طرح اس کو اپنے جذبۂ پرستش کی پوری تسکین حاصل نہیںہوتی۔ اسلام میں یہ صورت حال نہیں ۔ اسلام میں ہر آدمی براہِ راست خدا کو پکارسکتا ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی عبادت کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے، جس کا تعلق موجودہ زمانے سے ہے۔ موجودہ زمانہ آزادی اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی اپنے آپ کو دوسرے کے برابر سمجھتا ہے۔ اس زمانی مزاج کی وجہ سے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آتی ہےکہ کوئی طبقہ ان سے اوپر ہو۔ لوگ جس مقام پر خود ہیں ،وہیں وہ کلرجی کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات آج صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔اس طرح اسلام انسانی فطرت کے مطابق بھی ہوجاتا ہے، اور وقت کے تقاضے کے مطابق بھی۔
اسلامک انسٹی ٹیوٹ، تغلق آباد، میں ایک میٹنگ تھی۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ میٹنگ میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے ادارے کا تعارف کرایا۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کے یہاں جو افراد ریسرچ کا کام کررہے ہیں ،ان کو آپ کیا سہولیات دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے جواب دیا کہ ہم اپنے آدمیوں کو وہی سہولتیں دیتے ہیں، جو یوجی سی کی طرف سے مقرر ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ان کو اپنے کیمپس میں رہائش گاہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
سوال کرنے والے نے کہا کہ یہ گویا یہاں کے افراد کے لیے مزید ایک attraction ہے۔ ڈاکٹر اوصاف علی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ہاں، مگر وہ ہمارے لیے distraction بن رہا ہے۔ اس لیے کہ جو لوگ ایک مرتبہ رہائش گاہ پر قبضہ کرلیتے ہیں،وہ پھر اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان سے رہائش گاہ کو خالی کرانے کے لیے ہمیں کورٹ جانا پڑتا ہے۔
تغلق آباد کا یہ ادارہ خالص مسلم ادارہ ہے۔ اس میں کام کرنے والے بھی سب کے سب مسلم ہیں۔ اس کے باوجود ذمے دارا ن اور کارکنوں کے درمیان اس طرح کے جھگڑے پائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے جھگڑے اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوں تو فوراً اس کو تعصب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ مذکورہ مسئلے کے بارے میں کیا کہیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں تمام جھگڑے انٹرسٹ (interest) کے جھگڑے ہیں۔ بظاہر کوئی شخص ایک قسم کی زبان استعمال کررہا ہے اور کوئی شخص دوسری قسم کی زبان ۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے سب کا کیس ایک ہی کیس ہے ،اور وہ وہی ہے، جس کو ’’انٹرسٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔
اس دنیا میں کامیابی کے لیے سب سے ضروری چیز حقیقت پسندی ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں حقیقت پسندانہ انداز سے رائے نہیں قائم کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا ہر اقدام ناکامی کا شکار ہوتاہے۔
ستمبر 1982میں میں نےشیخ سلیمان القائد (لیبیا)کے ساتھ حج کے لیے سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔اس دوران مدینہ کا سفر ہوا تو مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، جس میں زیادہ تر ہندستانی طلبہ اور کچھ عرب طلبہ شریک تھے۔
گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں جو لوگ حکومت اسلامی قائم کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، ان کی تحریک بالفرض کامیاب ہوجائے تب بھی وہ ناکام رہے گی۔ کیوں کہ حکومت کو چلانے کے لیے وہ تقویٰ کافی نہیں ہے، جو مسجد کی امامت یا مدرسہ کی معلمی کے لیے کافی ہوجاتاہے۔ حکومت کا ادارہ چلانے کے لیےجس صفت کی ضرورت ہے، وہ ہے تقویٰ پلس دانش مندی کی صفت ، اوریہ صفت آج کسی مسلم رہنما کے اندر موجود نہیں۔
اس پر ایک عرب نوجوان نے اعتراض کیا۔انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے اکابر کا نام لیا، اور کہا کیا آپ کا خیال ہے کہ ان کے اندر تقویٰ موجود نہیں۔ میں نے کہا کہ تقویٰ ہے ،مگر وہ عملی حکمت (practical wisdom) سے خالی ہے۔ وہ نوجوان اس کو سمجھ نہیں پائے، اورناراض ہوگئے۔
مجھے فوری طورپر ندامت ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے حکمت کے خلاف ایک بات کہہ دی۔ مگر بار بار کے تجربے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میری زبان سے جو بات نکلی تھی وہ عین صحیح بات تھی۔ موجودہ زمانے میں ہمارے تقریباً تمام قائدین کا یہی حال ہورہا ہے کہ ان پاس تقویٰ کا سرمایا تھا، مگر وہ پریکٹکل وزڈم سے خالی تھے۔ اس کے باوجود وہ بڑے بڑے میدانوں میں کود پڑے اور بالآخر سراسر ناکام رہے۔ (اس سفر کا مطالعہ کرنے کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی کتاب سفر نامہ غیر ملکی اسفار جلد اول صفحہ 50 ) ۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص حکومت کو چیلنج کرے وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ حقیقت ہے کہ یہ عوامی مقبولیت ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔یہی معاملہ مسلم ورلڈ میں بھی پیش آیا۔ چنانچہ واقعہ بتاتا ہے کہ بہت سے مسلم دینی رہنما اس قسم کی تحریکوں کے ذریعے عوام کے اندر مقبول ہوگئے۔ مگرعوامی مقبولیت حاصل کرتے ہی وہ بدل گئے۔
اب غور کیجیے کہ جو رہنما عوامی مقبولیت کے مقابلے میں بااصول بن کر قائم نہ رہ سکا، وہ اقتدار کے مقابلہ میں کیسے قائم رہے گا۔
غالباً 1970 میں مجھے تاج محل دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تاج محل کو دیکھنے سے پہلے تاج محل کے بارے میں بہت سے مضامین پڑھے تھے۔ ان مضامین میں تاج محل مجھے بہت عظیم محسوس ہوتا تھا۔ مگر جب میںنے تاج محل کو دیکھا تو وہ اس سے بہت کم تھا جو میںنے اپنے ذہن میں سمجھ رکھا تھا۔
یہی حال تمام انسانی مصنوعات کا ہے۔ انسانی ساخت کی کسی چیز کے بارے میں اسے دیکھنے سے پہلے جو میری رائے تھی وہ اس کو دیکھنے کے بعد باقی نہ رہی۔ ہر انسانی چیز دیکھتے ہی اس سے کم نظر آئی، جو دیکھنے سے پہلے محسوس ہوتی تھی۔
مگر فطرت کے مناظر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کوئی فطری واقعہ اس سے بہت زیادہ عظیم ہے، جو دیکھنے سے پہلے میں سن کر یا پڑھ کر سمجھ رہا تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کا ہر واقعہ انتہائی حد تک عظیم اور حسین ہے، انسانی الفاظ اس کو پوری طرح بیان نہیں کرپاتے۔ یہاں ہر بولا ہوا لفظ اصل حقیقت سے بہت کم ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت دیکھنے میں اس سے زیادہ نظر آتی ہے جتنا کہ وہ پڑھنے یا سننے میں محسوس ہو رہی تھی۔
120
بہت سی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب کہ آدمی کا دل زندہ ہو اور اس کا شعور بیدار ہو۔ مسلمان موجودہ زمانے میں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں، جو دل ودماغ کی زندگی سے محروم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بدقسمتی سے جن باتوں کو وہ نہیں سمجھتے وہی وہ باتیں ہیں جو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔مثلاً کبھی نہ کرنے کا نام کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بولنا اس کا نام ہوتا ہے کہ آدمی چپ رہے، وغیرہ۔ یہ بلاشبہ زندگی کی سب سے زیادہ گہری حقیقت ہے۔ مگر وہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے لیے بہت زیادہ گہری شخصیت درکار ہے۔
آدمی ایک ایسی مخلوق ہے جو لازماً مشغول رہنا چاہتا ہے۔وہ عین اپنی فطرت کے تحت ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے نہ کرنے پر وہی شخص راضی ہوسکتا ہے جس کے پاس نہ کرنے کے وقت بھی کچھ کرنے کے لیے ہو۔ وہی انسان چپ رہ سکتا ہے جو خاموشی کے وقت بھی اپنے پاس بولنے کا سامان رکھتا ہو۔
الرسالہ میں اس قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں تو موجودہ مسلمانوں کو وہ معمہ (mysterious) معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ مسلمان اندر سے خالی (preoccupied)نہ ہوتے بلکہ ان کے اندر کا وجود خدا کی معرفت سے ایک زندہ وجود بن چکا ہوتا تو انھیں یہ باتیں معمہ نہ معلوم ہوتی۔
اس وقت وہ جان لیتے کہ آدمی جب چپ ہوتا ہے تو وہ اپنے خدا سے سرگوشیاں کرنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جب بظاہر اس کے قدم رک جاتے ہیں تو وہ اپنے اندر ہی اندر مارچ کرنے لگتا ہے۔ خارجی تدبیروں سے جب وہ منقطع ہوجاتا ہے تو اس کا رشتہ قوت کے اس لازوال سرچشمے سے جڑ جاتا ہے جو کسی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے خارجی تدبیروں کا محتاج نہیں۔
قاسم رضوی (1902-1970) ’’آزاد حیدر آباد‘‘ کے علم بردار تھے۔ وہ بہت زور وشور کے ساتھ آزاد حیدر آباد کی تحریک چلا رہے تھے۔کسی ہندوسیاست داں نے ان سے کہا کہ آپ حیدرآباد کو آزاد حیدر آباد کیسے بنائیں گے جب کہ آپ چاروں طرف انڈین یونین سے گھرے ہوئے ہیں۔ قاسم رضوی نے جواب دیا:
’’ہم نہیں گھرے ہوئے ہیں، تم گھرے ہوئے ہو‘‘
پچھلے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلمان اسی قسم کی لفظ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ان کے درمیان ایسا لیڈر اٹھتا ہے جو خوب صورت الفاظ بول کر ان کے ذہن کو خراب کرتا رہتا ہے۔ میرے علم میں کوئی بھی لیڈر نہیں جس نے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو حقیقت پسندی کا سبق دیا ہو۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس قسم کے جھوٹے الفاظ بولنے والے لیڈروں کو مسلمانوں میں ساتھ دینے والے بھی جوق در جوق مل جاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ مسلمانوں کی جھوٹے فخر کی نفسیات ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج، ایک لفظ میں، جھوٹے فخر کا مزاج ہے۔ مذکورہ قسم کی باتوں سے جھوٹے فخر کے مزاج کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمان جس کو ایسا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ مقبولیت اقبال کو حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اقبال کی شاعری فخر ومباہات کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میںمسلمانوں کے جھوٹے فخر کو زبردست غذا ملتی ہے۔ اس لیے ہر چھوٹا بڑا آدمی اس کو گنگناتا ہے۔ اقبال کی یہ شاعرانہ بلند پروازی بھی کیسی عجیب ہے کہ جو قوم اپنے زوال یافتہ ذہنیت کے نتیجے میں مقتدی بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکی تھی اس کو انھوں نے الفاظ کی خود ساختہ دنیا میں امامت کے مقام پر بٹھا دیا:
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
سموئل جانسن(Samuel Johnson [1709-1784]) کا قول ہے کہ بہت کم ایسا ہوتاہے کہ مشورہ کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا جائے۔ جو لوگ سب سے زیادہ مشورہ کے حاجت مند ہوں وہ سب سے کم اسے پسند کرتے ہیں:
Advice is seldom welcome. Those who need it most, like it least.
آدمی جب خود سوچتا ہے تو وہ اپنے جذبات کے زیر اثر سوچتا ہے۔ جب کہ مشورہ دینے والا ان جذبات سے خالی ہونے کی وجہ سے کم ازکم دوسرے شخص کے بارے میں غیر جذباتی اندازمیں سوچتا ہے۔ اس لیے مشورہ دینے والے کی رائے اکثر صحیح ہونے کے باوجود طالب مشورہ کے ذوق کے خلاف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
آدمی کے اندر یا تو یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔ یا یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ مشورہ دینے والے کے مشورہ کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھ سکے۔ جس آدمی کے اندر دونوں میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے لیے اس دنیا میں بربادی کے سوا او رکوئی چیز مقدر نہیں۔
میرے مزاج میں بعض عجیب باتیں ہیں۔ یہ باتیں بچپن سے پائی جاتی ہیں۔ میں ہر چیز کو خود جاننا چاہتا ہوں۔میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ میں ’’گلاس‘‘ کو صرف اس گلاس کہتا ہوں کہ میں نے خود دریافت کیا ہے کہ یہ گلاس ہے۔ میںکسی چیز کو صرف اس لیے نہیں مانتا کہ لوگ اس کو ایسا اور ایسا مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں میری زندگی کے عجیب عجیب واقعات ہیں۔
غالباً 1960 کی بات ہے۔ میںاپنے وطن (بڈھریا) میں تھا۔ اس وقت گھر میں کوئی نہیں تھا۔ میں کچھ دیر کے لیے وہاں آیا تھا، اور پھر مجھے ریلوے اسٹیشن (پھریہا) سے ٹرین پکڑ کر اعظم گڑھ جانا تھا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے مجھے آزادی تھی کہ جو چاہوں کروں۔میں نے دیکھا کہ ایک طرف ارنڈ کے کچھ بیج پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ ارنڈ دست آورہوتا ہے۔ مگر میں اپنے ذوق کے تحت اس پر راضی نہ تھا کہ صرف سن کر اسے مان لوں۔ چنانچہ میں نے ارنڈ کا چھلکا اتار کر اسے کھانا شروع کردیا، اور اس طرح بہت سی ارنڈ کھا گیا۔ اس کے بعد میں بڈھریا سے روانہ ہوا کہ پھریہا کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر ٹرین پکڑوں۔
پھریہا ریلوے اسٹیشن ہمارے گھرسے تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ میں نے ایک کیلومیٹر کا راستہ طے کیا تھا کہ پیٹ میں مروڑ شروع ہوئی۔اس کے بعد مسلسل دست آنے شروع ہوگئے۔ یہاںتک کہ میں کمزور ہو کر گر پڑا، اور اس قابل نہ رہا کہ ریلوے اسٹیشن پہنچ سکوں۔ مگر حسن اتفاق سے اس وقت ہمارا ملازم سردھن اہیر میرے ساتھ موجود تھا۔ وہ مجھے کسی طرح پھریہا ریلوے اسٹیشن تک لے گیا، اور ٹرین پر سوار ہو کر ہم اعظم گڑھ پہنچے۔اپنے اس مزاج کی وجہ سے میں نے اپنی زندگی میں بے شمار مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ مگر انھیں مصیبتوں کا یہ نتیجہ ہے کہ میں خدا کے فضل سے اپنے آپ کو ایک ایسا انسان سمجھتا ہوں، جو خود اپنی دریافت کردہ دنیا پر کھڑا ہوا ہو۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.