کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملاً ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔
ابدی جنت کی دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل موجودہ دنیا کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ جنت میںپوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities) کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
جنت کے حصول کے لیے انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار (deserving candidate) قرار پائے۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (
انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے، جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔
پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:
(1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
(2) طریقِ کار (Method)۔ پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
واپس اوپر جائیں
تاریخ کا مطالعہ
تاریخ میں معنویت کی تلاش— ایک مستقل موضوع ہے۔ اس پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک مشہور کتاب برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی کی ہے۔یہ کتاب بارہ جلدوں میں ہے، اس کا نام ہے:
A Study of History by Arnold Toynbee (1934-61)
اس موضوع سے متعلق بنیادی باتیں قرآن سےبھی معلوم ہوتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ موضوع اہل علم کی دلچسپی کا خصوصی مرکز بنا ہے۔ مطالعے کے ذریعے اس موضوع کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک، منصوبۂ تخلیق کے اعتبار سے، اس موضوع کو تین عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) فطرت کا سفر (Journey of Nature)
(2) انسانی تاریخ کا سفر (Journey of Human History)
(3) جنت کا سفر (Journey of Paradise)
اس موضوع پر قرآن کی آیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ خالق نے انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین (planet earth) پر بسایا۔ یہاں انسان کے لیے ہر قسم کی آزادیاں فراہم کی گئی ہیں۔ ہر انسان کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ آزادی کے ماحول میں تاریخ کا سفر شروع کرے۔ مگر اسی کے ساتھ خالق مسلسل طور پر انسانی تاریخ کی نگرانی کر رہا ہے۔ وہ انسانی آزادی کو بر قرار رکھتے ہوئے بار بار اس میں مداخلت کرتا ہے تاکہ انسانی تاریخ کا سفر کامل طور پر ڈی ریل (derail) نہ ہونے پائے۔ خالق جب بھی دیکھتا ہے کہ انسانی تاریخ درست راستے سے ہٹ رہی ہے تو وہ تاریخ میں جزئی مداخلت کرکےتاریخ کی گاڑی کو دوبارہ صحیح پٹری پر ڈال دیتا ہے۔انسانی تاریخ میں اس نوعیت کی مداخلت بار بار پیش آئی ہے۔اس معاملے کی وضاحت کے لیے ہم یہاں کچھ مثالیں درج کریں گے، جس سے انسانی تاریخ کی خدائی منصوبہ بندی کا اصول واضح طور پر سامنے آسکے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین نے پہلے مادی کائنات (universe) کو بنایا۔ معلوم طور پر یہ آغاز اس عالمی دھماکے سے ہوا جو سائنسی اندازے کے مطابق، تقریباً
(1)بگ بینگ (Big Bang): سائنس کے مطابق، تقریباً
(2) سولر بینگ (solar bang): مذکورہ دھماکے کے بعد خلا میں جو پراسس جاری ہوا، اس کے نتیجے میں سورج اور شمسی نظام وجود میں آئے۔ اسی دوران ہماری زمین (planet earth) وجود میں آئی۔
(3) واٹر بینگ (water bang): زمین کے وجود میں آنے کے بعد ایک لمبا پراسس جاری ہوا، اس کے بعد زمین پر دو گیسوںکی ترکیب سے پانی بنا، اور وہ سمندروں میں بھر گیا۔
(4) پلانٹ بینگ (plant bang): اس پراسس کے اگلے مرحلے میں زمین کے اوپر نباتات کا وجود عمل میں آیا۔ مختلف قسم کے نباتات سے پوری زمین ڈھک گئی۔
(5) انیمل بینگ (animal bang) : اس کے بعد اگلا مرحلہ سامنے آیا، اور زمین پر بے شمار قسم کے حیوانات (زندہ اشیا) وجود میں آگئے۔
(6)ہیومن بینگ (human bang): آخری دور میں انسان وجود میں آیا، اور دھیرے دھیرے پورے زمین پر پھیل گیا۔ زندگی کی یہ مختلف صورتیں، الگ الگ وجود میں آئیں۔ ان چیزوں کے وجود میں آنے کے معاملے میں مفروضہ نظریۂ ارتقا کا کوئی دخل نہیں ہے۔
ان چھ ادوار کا ذکر قرآن میں اپنے مخصوص انداز میں آیا ہے۔ قرآن کا گہرا مطالعہ کرکے ان کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پہلے دور کی بات ہے، وہ قرآن میں صراحت کی زبان میں آیا ہے۔ یہ بات قرآن کی دو آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت یہ ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا (
پہلی آیت میں جس واقعے کو رَتق اور فَتق کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اسی کو دوسری آیت میں فاطر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ دونوں آیتوں میں لفظی فرق کے ساتھ ایک ہی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کائنات ابتدا میں ایک کاسمک بال کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس کاسمک بال میں کائنات کے تمام پارٹکل موجود تھے۔ پھر ایک عظیم دھماکے کے ذریعے یہ تمام پارٹکل فضا میں پھیل گئے۔ پھر ایک لمبے پراسس کے ذریعے یہ تمام پارٹکل کائنات کے مختلف اجزا کی صورت میں جمع ہوئے۔ یہ سارا معاملہ انتہائی منظم انداز میں ہوا۔ اس عمل کی کوئی توجیہہ اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ ایک قادرِ مطلق خدا نے ان تمام واقعات کو انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن معروف معنوں میں ایک مذہبی رسم کی کتاب نہیں ہے، وہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں پوری انسانی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات دی گئی ہیں۔قرآن کی رہنمائی عام انسانی کتابوں سے مختلف ہے۔ عام انسانی کتابوں کے لیے ریڈنگ (reading) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے لیے یہ کرنا ہے کہ اس کا قاری اس کو تدبر (ص،
قرآن کے مطابق ،تاریخ بہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ لیکن تاریخ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی طرح ایک خدائی واقعہ ہے، جس طرح تخلیق (creation) ایک خدائی واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق مکمل طور پر خدا کا عمل ہے، لیکن تاریخ چوں کہ انسان کے لیے امتحان گاہ ہے، اس لیے تاریخ کے معاملے میں خدا کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو مینج کرنا:
Managing the course of human history while maintaining human freedom.
قرآن کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا عنوان غالباً یہی ہوگا۔اس اصول کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُورٍ (
واپس اوپر جائیں
اللہ اور اس کے فرشتوں کے درمیان ہونے والا مکالمہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔اور اللہ نے سکھادیے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا کہ تو پاک ہے۔ ہم تو وہی جانتے ہیں جو تو نے ہم کو بتایا۔ بیشک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ اللہ نے کہا اے آدم، ان کو بتاؤ ان کے نام۔ تو جب آدم نے بتائے ان کو ان کے نام تو اللہ نے کہا ۔ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں۔ اور مجھ کو معلوم ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ (البقرۃ،
واپس اوپر جائیں
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم کے واقعے میں اسماء (نام) کو بتانے سے مرادغالباً انسان کی تاریخ کا خلاصہ بتانا ہے۔ یعنی وہ تاریخ جو آدم کی اولاد کے زمین پر سرگرم عمل ہونے کے بعد وجود میں آئی۔ انسان سے پہلے اللہ نے جنات کو پیدا کیا(الحجر،
یہاں اس بات کا شدید امکان تھا کہ کامل آزادی کی صورت میں ایسا ہوگا کہ انسانوں کی ایک تعداد اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرے گی۔ لیکن ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ ابدی جنت کے مستحق افراد کو وجود میں لانا، اور ایسےافراد اسی وقت پیدا ہوسکتے تھے جب کہ ان کو حقیقی معنوں میں کامل آزادی دے کر یہ رسک (risk) لیا جائے کہ ان میں سے ایک گروہ بھٹکنے والا ہوگا تو دوسرا گروہ ایسانکلے گا، جو اپنے اختیار کو صحیح طور پر استعمال کرے، اوراپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کرے۔
فرشتے اپنے ذہن کے مطابق اس کو ناممکن سمجھتے تھے کہ نئی مخلوق (انسان) فرشتوں کی مانند کامل معنوں میں اطاعت گزار ہو۔ چنانچہ انھوں نے کہاکہ انسان زمین میں فساد کریں گےاور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے (البقرۃ،
یہاں "علم الاسماء"سے مرادبہ ظاہر انسان کی تاریخ ہے۔ اللہ کا فرشتوں سے یہ کہنا کہ تم ان کے نام بتاؤ، یعنی ان کی تاریخ بتاؤ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ تم یہ دیکھ رہے ہو کہ پیدا کیے جانے والے انسان آزادی کا غلط استعمال کریں گے، اور دوبارہ زمین میں فساد پھلائیں گے۔ مگر اللہ کے سوال میں یہ بات مضمر تھی کہ تم انسانی تاریخ کے جزء کو دیکھ رہے ہو، تم تاریخ کے کُل کو دیکھ کر رائے نہیں بنا رہے ہو۔ آدم نے اپنے الہامی علم کے مطابق، فرشتوں کو انسان کی تاریخ بتائی۔ اس کے بعد فرشتے اعتراف کے طور پر سجدے میں گر پڑے، اور وہ انسان جیسی مخلوق کی پیدائش کو اللہ رب العالمین کا اعلیٰ تخلیقی منصوبہ سمجھ کر اس پر راضی ہوگئے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے بارے میں اللہ رب العالمین کا منصوبہ کیا تھا۔ قرآن کے اشارات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ نے انسان کے اندر تخلیقی طور پر ایک مزید صفت رکھ دی۔ یہ صفت اس بات کی ضامن تھی کہ انسان جنات سے مختلف مخلوق ثابت ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ صفت رکھ دی، جس کو قرآن میں نفس لوامۃ کہا گیا ہے(القیامۃ،
یہ گویا انسان کی شخصیت میں سیلف کریکشن (self-correction) کا نظام قائم کرنا تھا۔ اس نظام کی بنا پر یہ امید تھی کہ انسان اپنی غلطی کے بعد اپنا محاسبہ کرے گا۔ وہ اپنی غلطی کو درست کرے گا۔ وہ اپنے عمل کی ری پلاننگ (replanning) کرے گا۔ یعنی انسان اس صفت کا ثبوت دے گا، جس کو آسٹرین عالم نفسیات، الفریڈ ایڈلر (1870-1937) نے انسان کی سب سے بڑی صفت قرار دیا ہے ۔ اس کا مخصوص موضوع شخصی نفسیات (individual psychology)ہے۔ اپنی ریسرچ کے مطابق اس نے پایا کہ انسان کی خصوصیات میں سے ایک نادر خصوصیت اس کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے "نہیں" کو" ہے" میں تبدیل کرسکے:
One of the wonder-filled characteristics of human beings is their power to turn a minus into plus. (The Golden Treasury of WISDOM, B N Bahuguna, Delhi, 1998, p.
انسان کی شخصیت میں یہ صفت بلاشبہ ایک نادر صفت ہے، جو صرف انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ اس صفت کی بنا پر انسان جنات کے مقابلے میں یا دوسرے حیوانات کے مقابلے میں ایک ممتاز مخلوق قرار پاتا ہے۔ چنانچہ انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان نے بار بار ایسا کیا ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے، اور اپنی محرومی کو یافت میں بدل دے۔
واپس اوپر جائیں
سفک دماء یا فساد فی الارض کا واقعہ کون کرتا ہے۔ یہ انسان کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے اندر مزید ایک برعکس صفت موجود ہوتی ہے، اور وہ ہے ضمیر کی صفت۔ اس کو دوسرے الفاظ میں محاسبہ خویش کی صفت کہا جاسکتا ہے۔ انسان کے ساتھ لازماً ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ جب وہ کسی وجہ سے ایک انتہائی اقدام کربیٹھتا ہے، اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ فطرت کے قوانین کی بنا پر اس کا اقدام باعتبار نتیجہ معکوس (counter productive)اقدام ثابت ہوتا ہے تو اس کے اندر ندامت (repentance) کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اپنی فطرت کی بنا پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کرتا ہے۔ انسان کے اندر یہ عمل ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کو کوئی بڑا شاک (shock) لگے۔ اس قسم کے بڑے شاک کے لیے کوئی بڑا واقعہ چاہیے۔ سفک دماء یا فساد فی الارض انسان کی شخصیت میں اسی قسم کا شاک پیدا کرتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ وہ چیز جس کو قرآن میں سفکِ دماء یا فساد فی الارض کہا گیا ہے، وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کے ساتھ جب غیر مطلوب صورت حال پیش آتی ہے تو وہ انسان کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کرتی ہے۔ وہ انسان کی سوئی ہوئی صلاحیت کو بیدار کردیتی ہے۔ وہ انسان کے اندر یہ محرک (incentive) جگاتی ہے کہ وہ دوبارہ نئے سرے سے کوشش کرکے کامیابی حاصل کرے۔
فرشتوں نے انسان کے بارے میں سفک دماء اورفساد کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، اللہ تعالی نے سفک دماء اور فساد کےمقابلے میں مثبت پہلو کا حوالہ دیا، اور فرشتوں کو مظاہرے کی صورت میں بتایا کہ انسان کی یہ صفت اس کے اندر نئی سوچ پیدا کرے گی، اور وہ ایسے کام کرسکیں گے، جو اس سے پہلے نہ حیوانات نے کیا، اور نہ جنات نے۔
تاریخ کے واقعات کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو جن اوصاف کے ساتھ پیدا کیا جارہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان کے لیے فساد فی الارض اور سفک دماء جیسے واقعات اپنے عمل پر نظر ثانی (rethinking) کا ذریعہ بن جائیں گے۔ اس طرح اس قسم کے منفی واقعات اس کے لیے مثبت نتیجہ کا سبب بنیں گے۔ وہ بار بار اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے گا۔ اس طرح منفی واقعات باعتبار نتیجہ اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کا سبب بن جائیں گے۔ اس کو اپنی غلطیوں سے اپنے لیے نیا ڈائریکشن (new direction) ملے گا۔ اس طرح ہر غیر مطلوب تاریخ کے بعد مطلوب تاریخ بنے گی، اور اس طرح انسان کی تاریخ عملاً صحیح رخ پر سفر کرتی رہے گی، اور اس طرح وہ بڑے بڑے نتائج تک پہنچے گی۔ اس سلسلے میں چند تاریخ مثالیں یہاں درج کی جاتی ہیں— غالباً منفی واقعہ سے مثبت واقعہ نکلنے کا یہی وہ ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں قانونِ دفع سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین کا ایک قانون وہ ہے، جس کو قرآن میں قانونِ دفع کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کی دو آیتوںمیں اس قانون کا ذکر ہوا ہے:وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ (
قانونِ دفع کا تعلق جزئی طور پر جہاد سے ہے۔ لیکن وہ توسیعی اعتبار سے اللہ رب العالمین کی عمومی سنت ہے۔ اس کے تحت اللہ انسانی تاریخ میں مداخلت (interference) کرتا ہے، اور انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئےتاریخ کو غلط رخ پر چلنے سے بچاتا ہے۔ اس طرح انسانی تاریخ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔جہاد تو مسلم حکومت کا اپنے دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن دفع کی سنت ایک ایسی سنت ہے، جو عمومی اعتبار سے یہ کام انجام دیتی ہے کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کا سفر صحیح سمت میں جاری رہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں تاریخ کی کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی پیدائش فطرت کے جس نظام کے تحت ہوئی ہے، اس کے مطابق، انسان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طور پر متحرک رہے۔ حرکت سے انسان کے اندر ترقی ہوتی ہے، اور ٹھہراؤ سے انسان کے اندر جمود (stagnation) آجاتا ہے۔ اس بنا پر خالق نے یہ مقدر کردیا کہ انسان کو ہمیشہ شاک لگتا رہے۔ اس بنا پر انسان کے لیے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کا طریقہ مقرر کیا گیا۔
انسان کی تاریخ میں اس نوعیت کا شاک ٹریٹمنٹ سب سے پہلے آدم اور حوا کے ساتھ پیش آیا، جس کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ آدم کو پیدائش کے بعد پہلے مرحلے میں جنت کے باغوں میں بسایا گیا، وہاں اس کے لیے ایک امتحان (ٹیسٹ) مقرر کیا گیا، اور وہ شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا ٹیسٹ تھا۔ انسان اپنے مزاج کی بنا پر عزم (طہ،
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر بسایا۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان کی آبادکاری ابتدائی دور میں دریائے دجلہ، اور دریائے فرات کے درمیان عراق کے اس علاقے میں ہوئی جس کو میسوپوٹامیہ کہا جاتاہے۔ یہ ایک زرخیز علاقہ تھا۔ یہاں توالد و تناسل کے ذریعہ انسان کی نسل بڑھتی رہی۔ اس علاقے میں انسان لمبے عرصے تک اپنی آزادانہ سرگرمیوں میں مشغول رہا۔ شروع میں لوگ آدم کی شریعت پر تھے۔ لیکن کئی نسل گزرنے کے بعد ان کے اندر جمود (stagnation) آگیا۔ ان کے اندر ضعیف الاعتقادی اور بدعملی پیدا ہوگئی۔ ان کی بیداری کے لیے پیغمبر نوح آئے۔ یہ گویا کہ پرامن تبلیغ کے ذریعہ ان کے اندر بیداری لانے کی کوشش تھی۔ لیکن لمبی مدت کی پرامن اصلاحی کوششوں کے باوجود ان کے اندر دوبارہ بیداری نہیں آئی۔
اب ان کے اندر نئی زندگی لانے کے لیے ہارش ٹریٹمنٹ (harsh treatment) کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ قوم نوح کے علاقے میں ایک عظیم طوفان (great flood) آیا۔ اس وقت اپنی قوم کے منتخب افراد کو پیغمبر نوح نے ایک کشتی میں بٹھایا، اور اس کشتی کو تیز طوفان میں ڈال دیا۔
قوم نوح کے یہ منتخب افراد ایک مدت تک کشتی میں تیرتے رہے۔ یہاں تک کہ کشتی تیرتے ہوئے جودی پہاڑ پر رکی۔ الجودی کوہستان ارارات کی اس چوٹی کا نام ہے جو جبل وام (Vam) کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔اس قرب وجوار میں کردوں کی زبان پر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ کشتی نوح یہیں آکر رکی تھی(تفسیر ماجدی،سورہ ھود، حاشیہ
کشتی کے ذریعہ حفاظت کا یہ مخصوص طریقہ کیوں اختیارکیا گیا۔ اس کا مقصد اولادِ آدم کو میسوپوٹامیہ سے منتشر (disperse) کرکے مختلف ملکوں میں پہنچانا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ میسوپوٹامیہ سے کشتی پرسوار ہوکر نکلے اور دھیرے دھیرے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ بعد کو انسانوں کا ایک گروہ سمندر پار کرکے امریکا پہنچا، اور نئی دنیا آباد ہوئی۔
قوم نوح کے ساتھ یہ جو معاملہ پیش آیا، وہ ایک اعتبار سے سرزنش کا معاملہ تھا، اور دوسرے اعتبار سے اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے جمود کو توڑا جائے ، اور ان کو زمین کے وسیع تر حصے میں پھیلنے کا موقع دیا جائے۔ محققین نے بتایا ہے کہ کشتی نوح ایسے مقام پر ٹھہری ،جہاں ایشیا، یورپ، اور افریقہ ملتے تھے۔ اس طرح قوم نوح کے افراد کو یہ موقع ملا کہ وہ پھیلتے پھیلتے تین بر اعظموں میں داخل ہوجائیں، اور زمین کے محدود رقبے سے نکل کر زمین کے وسیع تر رقبے میں آباد ہوجائیں۔ قوم نوح کو اس طرح بکھیرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زمین کے وسیع تر رقبے میں ترقی کے مواقع کو اویل کریں۔
واپس اوپر جائیں
اس دور میں انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کیا۔ کچھ انسانوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے دنیا میں بادشاہت (kingship) کا نظام قائم کرلیا۔ بادشاہت کے نظام نے وسائل پر اپنی اجارہ داری (monopoly) قائم کرلی۔ اس نظام کے تحت انسان کی آزادی بہت محدود ہوگئی، اور انسان کے لیے ترقی کا دروازہ عملاً بند ہوگیا۔
اب خالق کی مرضی یہ ہوئی کہ اس سیاسی اجارہ داری (political monopoly) کو ختم کرکے تمام انسانوں کو یکساں طور پر عمل کا موقع دیا جائے۔ اس کے لیے ایک انقلاب درکار تھا۔ اس انقلاب کولانے کے لیے ایک تیار ٹیم (prepared team)کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے اللہ رب العالمین نے پیغمبر ابراہیم کو استعمال کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی فیملی کو لے کر عرب کے صحرا میں ذبح عظیم (الصافات،107:37) کا ثبوت دیا۔یہ صحرائی پراسس کا لمبا دور تھا، جو تقریباً ڈھائی ہزار سال کے اندر پورا ہوا۔
واپس اوپر جائیں
اس منصوبے کے تحت وہ انوکھی ٹیم تیار ہوئی، جو مطلوب انقلاب کے لیے پوری طرح اہل تھی۔ اس پراسس کی تکمیل پر 570 عیسوی میں خالق نے اس نسل میں پیغمبر محمد بن عبداللہ کو قدیم مکہ میں پیدا کیا۔ انھوں نے ایک اعلیٰ پلاننگ کے تحت اس علاقہ میں توحید کا مشن چلایا۔ اس مشن کے ذریعہ وہ خصوصی نسل پیدا ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ پھر اس نسل کے اندر ایک حکیمانہ عمل کے ذریعہ صحابہ کی جماعت پیدا ہوئی۔ آپ نے ایک منظم جدو جہد کے ذریعہ وہ مطلوب ٹیم تیار کی۔ اسی مطلوب ٹیم کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے (ابراہیم،
اس موقع پر اللہ ر ب العالمین نے مداخلت کی۔اس وقت وہ حالات پیدا ہوئے جب کہ اصحاب رسول کی ٹیم کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے وقت کےنظامِ بادشاہت کو توڑ کر نئے تاریخی دور کا آغاز کریں۔ اس واقعہ کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے:الم ۔ غُلِبَتِ الرُّومُ ۔ فِی أَدْنَى الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ ۔ فِی بِضْعِ سِنِینَ لِلَّہِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ۔ بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَاءُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت، اور دوسرا، مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو 610 ء میںنبوت ملی ۔اس کے بعد آپ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے نیک فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمہارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دی ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمہارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں، حالات کے سراسر خلاف، یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مورخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پر اسرار طور پر تبدیلی پیدا ہوناشروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس دوطرفہ جنگ میں دونوں سلطنتیں انتہائی حد تک کمزور ہوگئیں۔ پہلے ساسانیوں نے رومیوں پر فتح حاصل کرکے ان کو کمزور کیا، اس کے بعد رومیوں نے ساسانیوں پر فتح حاصل کرکے انھیں بے حد کمزور کردیا۔ اس طرح باری باری ایک نے دوسرے کو کمزور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور تابعین کو یہ موقع ملا کہ وہ اس قدیم جبری بادشاہت کے نظام کو بہ آسانی توڑ دے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر اور خلیفہ ثانی عمر کے زمانے میں جب مسلم فوجیں ساسانیوں اور رومیوں کے علاقے میں داخل ہوئیں تو انھوں نے نہایت آسانی کے ساتھ دونوں سلطنتوں کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ ساسانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
یہ خاتمہ صرف دو سیاسی طاقتوں کا خاتمہ نہ تھا، بلکہ اسی کے ساتھ شرک کا خاتمہ بھی تھا۔ کیوں کہ یہ سلطنتیں اس زمانےمیں مذہبی جبر کی سرپرست بنی ہوئی تھیں۔ اس طرح ساتویں صدی اور آٹھویں صدی میں پوری دنیا کا سیاسی اور تہذیبی نقشہ بدل گیا،اور پھر ایک تاریخی عمل کے ذریعہ وہ انقلابی واقعہ پیش آیا، جس کا اعتراف فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے ان الفاظ میں کیا ہےکہ اسلام نے زمین کا نقشہ بدل دیا، تاریخ کے روایتی نظام کو ختم کردیا گیا:
(Islam) changed the face of the Globe...the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne, A History of Europe, London, 1958, p 46)
اس کے بعد یہ ہوا کہ جن علاقوں میں مشرک بادشاہ حکومت کرتے تھے، وہاں موحد حکمراں حکومت کرنے لگے۔اس وقت عملاً پوری دنیا میں مسلم ایمپائر کا غلبہ قائم ہوگیا— اموی ایمپائر، عباسی ایمپائر، اسپینی ایمپائر، مغل ایمپائر، عثمانی ایمپائر، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی سلطنتیں ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں قائم ہوگئیں۔ اس کےنتیجے میں ہر جگہ توحید کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ بڑی تعداد میں شرک کو چھوڑ کر دین توحید میں داخل ہونے لگے۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ اس زمانے کے رواج کے مطابق، عام طور پر انفرادی تبدیلیٔ مذہب نہیں ہوتی تھی، بلکہ لوگ عام طور پر پبلک کنورزن (public conversion)کے اصول پر دین توحید میں داخل ہوتے تھے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، برٹش مورخ پروفیسر آرنلڈ (T W Arnold) کی کتاب، دی پریچنگ آف اسلام )۔
واپس اوپر جائیں
قرآن و حدیث، نیز اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں پالٹکس کا کوئی ایک متعین معیاری ماڈل نہیں۔ اسلام کی طویل تاریخ میں کوئی واحد عملی ماڈل نہیں ملتا ، جس کو ہر دور کے لیے ایک اسٹینڈرڈ ماڈل سمجھا جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پالٹکس کے معاملے میں اسلام کا اصول تمکین (stability) پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک معیاری ڈھانچےپر۔ مثلاً اسلام میں کوئی ایسی نص موجود نہیں ، جس سے معلوم ہو کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل خلافت پر مبنی ہے، یا حکومت الٰہیہ پرمبنی ہے، یا اجتماعی عدل پر مبنی ہے، یا شورائیت پر مبنی ہے، یا اور کسی ماڈل پر مبنی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا پولیٹکل ماڈل ، پریکٹکل وزڈم پر مبنی ہے، نہ کہ کسی ایک آئیڈیل پر۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سیاست کے معاملے میں اصل چیز تمکین (الحج،
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام کی وفات کےتقریباً تیس سال بعد مسلم دنیا میںعملاً شخصی حکومت قائم ہوگئی، جس کو ڈائناسٹی (dynasty)کہا جاتا ہے۔اس حکومت کو اگرچہ بعض لوگوں نے یہ نام دیا کہ وہ خلافت کو منسوخ کرکے ملوکیت کو قائم کرنا تھا۔ مگر جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، علمائےامت نے اجماعی طور پر اس کو قبول کرلیا، اور وہ تقریباً ہزار سال تک پوری مسلم دنیا میں جاری رہا۔ اس نظام کے خلاف بغاوت (revolt)کا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ اس طرز حکومت نے مسلم دنیا میں پولیٹکل استحکام قائم کردیا، جس کے تحت اسلام کے تمام مطلوب کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائے۔ مثلاً قرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کی تشکیل، مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام، عربی زبان کی فنی تشکیل، سیرت اور تاریخ جیسے موضوعات پر کتب خانے کی ترتیب و تشکیل، اور اس طرح کے دوسرے عملی تقاضوں کی تکمیل، وغیرہ، وغیرہ۔یہ تمام کام صرف سیاسی استحکام کے حالات میں انجام پاسکتے تھے۔ چوں کہ اس نظام کے تحت یہ مقصد حاصل ہوا، اس لیے عملاً پوری امت نے اس کو قبول کرلیا۔
واپس اوپر جائیں
مسلم دور میں یہ ہوا کہ ساری دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر دین شرک کے بجائے دین توحید کا چرچا ہونے لگا۔ پہلے اگر دنیا میں شرک اور اہل شرک کو وقت کے بادشاہوں کی سرپرستی حاصل تھی تو اب توحید اور اہل توحیدکو حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہونے لگی۔ اس طرح اصولی طور پر یہ ہوا کہ ہر جگہ دین شرک کا غلبہ تقریباً ختم ہوگیا، اور دین توحید کا غلبہ عام طور پر قائم ہوگیا۔ پہلے اگر مظاہر فطرت (nature) کو خدائی کا درجہ حاصل تھا، تو اب فطرت کے خالق کو خدائی کا درجہ حاصل ہوگیا۔
تاہم یہ اصل کام کا نصف حصہ تھا۔ فطرت (nature) کی اعتقادی بالادستی ختم ہوگئی۔ لیکن اس کام کا دوسرا پہلو ابھی باقی تھا۔ یعنی فطرت (nature) کے قوانین کو دریافت کرکے ان کو ٹکنالوجی میں تبدیل کرنا۔ مسلم عہد میں یہ ہواکہ فطرت (nature)پرستش کا موضوع (object of worship) نہ رہی۔ اب دوسرا کام یہ تھا کہ فطرت کو تحقیق کا موضوع (object of investigation) بنایا جائے، فطرت میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرکے دنیا میں ٹکنالوجی کا دور لایاجائے، جو اپنی تکمیل تک پہنچ کر جدید تہذیب کا موجد بنے۔ یہ دوسرا کام یورپ کے مسیحی علما نے انجام دیا۔
واپس اوپر جائیں
مسلم فتوحات کے بعد تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس عمل کے نتیجے میں مسلم اقوام کو غیر معمولی عروج حاصل ہوا۔ اسی عروج کا ایک حصہ یہ تھا کہ مسیحی عقیدہ کے مطابق ایشیا میں ان کے مقدس مقامات مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔ یہ صورت حال مسیحی قوموں کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ چنانچہ یورپ کی مسیحی سلطنتوں نے متحد ہو کر اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لینے کے لیے حملہ کردیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور مسیحی قوموں کے درمیان دو سوسال کی وہ لڑائی چھڑ گئی، جس کو صلیبی جنگ (Crusades) کہا جاتا ہے۔ مگر تقریباً دو سو سال کی خونی جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست پیش آئی۔ مورخ گبن کے الفاظ میں مسیحی قوموں کو اس جنگ میں ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کا سامنا کرنا پڑا۔
مسیحی قوموں کے لیے یہ شکست اتنی فیصلہ کن تھی کہ عملاً ان کے لیے یہ آپشن باقی نہ رہا کہ وہ اس صلیبی جنگ کو مزید جاری رکھ سکیں۔اس شکست نے یورپ کی مسیحی قوموں میں یہ سوچ بیدار کی کہ ان کے لیے مسلمانوں کے مقابلے میں جنگ کا آپشن باقی نہیں رہا۔ حالات کے دباؤ (compulsion) کے تحت انھوں نے اپنے لیے نیا آپشن (new option) تلاش کیا۔ یہ آپشن تھا — جنگی میدان کے بجائے علم کے میدان میں اپنی کوشش لگا دینا۔ان کے اندر فطرت (nature) کی تحقیق کا ذہن پیدا ہوا۔ دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کا ذہن جو جنگ کی اصطلاح میں سوچتا تھا، وہ اب فطرت کی دریافت کی اصطلاح میں سوچنے لگا۔ یہ عمل تقریباً پانچ سو سال تک جاری رہا۔ اس عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) وہ واقعہ ہے، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مسیحی قوموں کے لیے یہ ایک ڈائیورزن (diversion) تھا، جو بہ ظاہر خدائی مداخلت (divine intervention) کے ذریعہ پیش آیا۔
واپس اوپر جائیں
اس تاریخی عمل کا غالباً آخری دور وہ ہے، جو تقدیر الٰہی کے تحت غالباً اکیسویں صدی میں پیش آنے والا ہے۔ اس عمل کو قرآن میں گلوبل انذار (الفرقان،
واپس اوپر جائیں
قرآن خدا کے دین کا واحد مستند ماخذ (authentic source)ہے۔ خدا کے دین کے لیےیہ مطلوب ہے کہ وہ سارے عالم میں پھیلے۔ پھیلنے کا یہ عمل دو طریقوں سے جاری ہوتا ہے— انذار اور تائید۔ پہلے طریقے کا ذکر قرآن میں آیا ہے، اور دوسرا طریقہ حدیث رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ قرآن میں ان الفاظ میں مذکور ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا(
دین کی اشاعت کے اس عمل کو قرآن میں انذار کا عنوان دیا گیا ہے۔ انذار کا مطلب ہوتا ہےآگاہ کرنا، باخبر کرنا۔ عربی زبان کے مشہور عالم ابن فارس(وفات
اس تائیدی عمل کا ذکر حدیث کی اکثر کتابوںمیں آیا ہے۔ مثلاً قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ اس معنی کی حدیث صحیح البخاری میں ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ان دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اسلام کی تائید کا کام ان لوگوں سے لے گا، جو اہل دین نہ ہوں گے۔ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ اس معاملے میں اہل ایمان کو اتنا زیادہ باشعور ہونا چاہیے کہ وہ تاریخ میں تائید کے اس عمل کو پہچانیں، اورمنصوبہ بند انداز میں تائید کے مواقع کو قرآن کی عالمی اشاعت کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں
انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک ، سائنسی انقلاب سے پہلے کا دور، اور دوسرا، سائنسی انقلاب کے بعد کا دور۔ وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، وہ اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (1564-1642) کے بعد شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے۔ قبل سائنس دور میں استدلال کی بنیاد عقل عام (common sense) ہوا کرتی تھی۔ بعد از سائنس دور میں استدلال کی بنیاد ریزن (reason) ہوگئی۔ قدیم زمانے میں عقل عام استدلال کے لیے کافی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب سائنسی طور پر مسلمہ ریزن (accepted reason) استدلال کے واحد بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ رب العالمین کو معلوم تھا کہ تاریخ میں یہ انقلاب آنے والا ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ قبل از سائنس دور میں عقل عام کی بنیاد پر دین خداوندی کی بات کو مدلل کیا جائے۔ لیکن سائنسی دور آنے کے بعد فطری طور پر اللہ کی منشاء یہ ہوئی کہ اللہ کے دین کو وقت کی مسلمہ دلیل (سائنسی دلیل) کی بنیادپر پیش کیا جائے تاکہ انسان پر اللہ کی حجت قائم ہوسکے۔
ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دور آخر میں جو داعی لوگوں کے سامنے دین خداوندی کو پیش کرے گا، وہ حَجِیج (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2937)ہوگا۔ حَجِیج کا مطلب بذریعہ دلیل کلام کرنے والا۔ یعنی وہ شخص جو عقلی دلیل (rational argument) کے ذریعہ اپنی بات پیش کرے۔ شہادت اعظم کے دور میں شاہد (گواہ) کی یہی صفت ہوگی۔ وہ مسلمہ دلیل (accepted reason) کی زبان میں لوگوں کے سامنے دینِ خداوندی کو پیش کرے گا۔
یہ سادہ بات نہ تھی۔ یہ بنائے استدلال میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ علم کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لایا جائے۔ عقل عام پر مبنی استدلال کو عقلی دلائل کے ذریعہ استدلال پر قائم کیا جائے۔ قیاسی استدلال کی جگہ سائنسی طور پر ثابت شدہ استدلال مسلمہ استدلا ل کا درجہ دیا جائے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اللہ رب العالمین کا منصوبہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی امت پوری طرح حفاظت دین کے کام میں مشغول ہوجائے۔ کیوں کہ آپ کے بعد کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی نمائندگی کرنے کے لیے مکمل معنوں میں ایک محفوظ دین باقی رہے۔ امت محمدی نے اپنی کئی سال کی غیر معمولی کوششوں کے ذریعہ دین اسلام کو مکمل طور پر ایک محفوظ دین بنا دیا۔ امت محمدی کا یہ رول پندرھویں صدی عیسوی تک پوری طرح جاری رہا، جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ اب دین کی حفاظت کے لیے مشین نے انسانی کوششوں کی جگہ لے لی۔
اب وہ وقت آگیا تھا جب کہ خدا کے دین کو انسان کے اپنے مسلمات کی بنیاد پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا۔ اس کام کے لیے ایک تازہ دم قوم (fresh nation) کی ضرورت تھی۔ حدیث میںاس قوم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعہ کرے گا جو اس دین میں سے نہ ہوں گے( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640ِ)۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں "رجال " سے مراد ایسا گروہ ہے جو کہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے لیے عقلی تائید (rational support) کا کام کرے گا۔ یعنی ان کے ذریعے اہل اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ دینِ خداوندی کی دعوت کا کام سائنسی طور پر ثابت شدہ عقلی دلیل کی بنیاد (rational basis) پر انجام دے سکیں ۔
مزید غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تائیدی گروہ مغرب کے مسیحی لوگوں کا گروہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد مغرب کی قوموں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کیا، جس کو سائنسی دور (scientific age) کہا جاتاہے ۔ سائنسی دور اگرچہ زیادہ تر مسیحی قوموں کی کوشش سے وجود میں آیا۔ لیکن پورے معنوں میں یہ موافق اسلام دور ہے۔ یہ امت کو اپنے دین کے لیے وہی تائید فراہم کرتا ہے ، جس کو اوپر حدیث میں بیان کیا گیاہے۔
انسانی تاریخ کے بعد کے زمانے میں پیش آنے والی اس شہادت اعظم کا ذکر خود قرآن میں بھی آیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (
قرآن کی اس آیت میں جس چیز کو آفاق اور انفس کی آیات (signs) کہا گیا ہے، وہ موجودہ کائنات میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں، مگر قرآن میں ان کا ذکر اشارات کی زبان میں ہے۔ ان اشارات کو اکچول (actual) بنانے کا کام موجودہ زمانے میں انجام پایا ہے۔ یہ کام زیادہ تر مغرب کی مسیحی قوموں نے انجام دیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ شہادت اعظم کی ادائیگی کا کام اگرچہ عملاً امت محمدی کے لوگ انجام دیں گے۔ لیکن اس کام کی انجام دہی کے لیے تائیدی اسباب بلاشبہ مغرب کی مسیحی قوموں نے فراہم کیے ہیں۔ گویا کہ شہادت اعظم کے کام میں ملت محمدی کا رول شاہد کا رول ہے، اور مسیحی اقوام کا رول مؤید کا رول ہے۔
تائیدکا یہ ظاہرہ بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ خالق نے ہماری زمین (planet earth) کو بے شمار ٹکنالوجی سے بھر دیا ہے۔ یہ ٹکنالوجی قوانین فطرت کی صورت میں ہمیشہ سے موجود تھی۔ لیکن اب تک وہ مخفی قوانین (hidden laws) کی صورت میں غیر دریافت حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ صلیبی جنگوں کی شکست سے یورپ کی مسیحی قوموں کے لیے ایک جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت اپنی ساری طاقت فطرت کے قوانین کو دریافت کرنے میں لگا دیا۔ یہ عمل اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei [1564-1642]) کے زمانے میں شروع ہوا، اور تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ اس دوران بے شمار فطری قوانین دریافت ہوئے۔ یہاں تک کہ دنیا میں وہ عظیم انقلاب پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
مادی دنیا کی ہر چیز میں ایک پہلو تخلیق کا ہے، اور دوسرا پہلو تہذیب کا۔ مثلا ً لوہا (iron)خدا کی ایک تخلیق ہے۔ مگر انسان جب لوہا اور ربر (rubber)سے پہیہ (wheel) بناتا ہے تو یہ انسانی تہذیب کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔لوہا اور ربراگر خالق کی یاد دلاتا ہے تو پہیہ انسان کی یادلاتا ہے، جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے پہیہ بنایا۔
ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے :مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہَ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 1955)۔ یعنی جس نے انسان کا شکر ادا نہیں کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر آدمی کے اندر صحیح سوچ ہو تو ایک چیز کو دیکھ کر وہ پوری انسانی تاریخ کو یاد کرے گا۔ مثلا ً آج وہ ایک پہیہ دار گاڑی کو استعمال کرے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس انسان کا تاریخ میں کتنا بڑا کنٹری بیوشن ہے کہ جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے پہیہ جیسی چیز کو ایجاد کیا۔ اس کے بعد انسان نے پہیہ دار بیل گاڑی بنائی۔ اس کے بعد غور و فکر کرکے پہیہ دار کشتی (wheel boat)بنائی۔ اس کے بعد مزید غور و فکر کے ذریعہ انسان نے پہیہ دار بائسکل بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار ریل بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار موٹر کار بنائی۔ پھر اس نے پہیہ دار ہوائی جہاز بنایا۔اسی فہرست میں وھیل چیر (wheelchair) ہے جس نے کمزور انسان کے لیے چلنے کو آسان بنادیا، وغیرہ۔ یہی معاملہ پوری انسانی تہذیب (human civilization) کا ہے۔
آدمی اگر اس طرح سوچے تو پورا انسانی قافلہ اس کو اپنا محسن نظر آئےگا۔ اس کو محسوس ہوگا کہ پوری انسانیت ساری تاریخ میں سرگرم رہی ہے تاکہ وہ اُن تمام چیزوں کو بنائے جس نے آج میری زندگی کو بہت آسان کردیا ہے۔یہ سوچ اگر گہرائی کے ساتھ آدمی کے اندر آجائے تو وہ ایک طرف خالق کی عظمت میں سرشار ہوجائے گا۔ وہ سوچے گا کہ خالق کتنا عظیم ہے، جس نے میرے لیے یہ تمام چیزیں تخلیق کیں۔ اسی کے ساتھ وہ انسانوں کے بارے میں بہت زیادہ اعتراف(شکر) کرنے والا بن جائے گا، جس نے تخلیق کو تہذیب میں کنورٹ کیا۔یہ سوچ آدمی کے لیے شکرِ خداوندی کا سرچشمہ ہے، اور اسی کے ساتھ محبتِ انسانی کا سرچشمہ بھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک دعوتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ (
قرآن کی ا س آیت میں نور (روشنی) سے مراد حق کےدلائل ہیں۔ یعنی ہر زمانے کے انسان جس چیز کو دلیل کا درجہ دیتے تھے، اس استدلالی زبان میں اللہ تعالی نے اپنے دین کو انبیاء کے ذریعہ مدلل فرمایا۔ تاکہ ہر زمانے کے انسان پر حق کی حجت قائم ہوسکے۔ یہی واقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر لوگوں کے ساتھ پیش آیا۔ لیکن رسول اللہ کی نبوت قیامت تک کے لیے ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہاں یہ انتظام فرمایا، تاکہ بعد کے لوگوں کے ذہن کے مطابق اللہ کا دین مدلل ہوسکے۔
اتمام نور سے مراد یہ ہے کہ ہر زمانے کے انسان کے عقلی تقاضے کے مطابق دین کا مدلل کیا جانا۔ اس اعتبار سے آخری زمانہ غالباً وہ زمانہ ہے جس کو سائنس کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنسی استدلا ل کو اعلیٰ استدلال مانا جاتا ہے۔ اس لیے انسان کی نسبت سے اتمام نور یہ ہوگا کہ سائنسی دور کے عقلی تقاضے کے مطابق دینِ حق کو مدلل کیا جائے۔
یہی وہ بات ہے،جو حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے:مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا قَدِ اُعْطِیَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَى اللہُ إِلَیَّ، فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر
واپس اوپر جائیں
پانی زمین پر زندگی کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کو قرآن میں اشاراتی طور پران الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَکًا (
پھر یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتداءمیں نیچر نے اس پانی میں حفاظت ( preservation) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ پانی جب سورج کی حرارت سے بھاپ بنا، تو فطری قانون کے تحت نمک الگ ہوگیا،ا ور پانی الگ۔ پھر یہ ڈیسالینیٹڈ پانی (desalinated water) ہلکا ہونے کی بنا پر فضا میں بلند ہوا، اور پھر آخر کار وہ فطرت کے قانون کے مطابق، پانی بارش بن کر زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
موافق اسلام انقلاب
یہ سائنسی انقلاب (scientific revolution) پورے معنوں میں ایک موافق اسلام انقلاب تھا۔ اس انقلاب کے ذریعہ اللہ کی وہ رحمتیں انسان پر کھلیں، جن کو قرآن میں آیات اللہ، کلمات اللہ، آلاءاللہ جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہی وہ موافق اسلام انقلاب ہے، جس کو مختلف حدیثوں میں تائید دین بذریعہ غیر مسلم اقوام کہا گیا ہے۔ مسند احمد میں یہ بات ان الفاظ آئی ہے:إِنَّ اللہَ سَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِأَقْوَامٍ لَا خَلَاقَ لَہُمْ ( مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ یعنی یقینا اللہ اس دین کی مدد اس قوم کے ذریعے کرے گا، جن کا اس (دین) میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔
تہذیب جدید (modern civilization)کا یہ انقلاب مختلف پہلوؤں سے بلاشبہ ایک موافقِ اسلام انقلاب (pro-Islamic revolution) تھا۔ لیکن مسلم رہنما اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔وہ مغربی تہذیب، اور مغربی کلچر ، اسی طرح مغربی کلونیلزم (colonialism)کے درمیان فرق نہ کرسکے، اور مغربی تہذیب کی اصل حیثیت کو دریافت نہ کرسکے۔ اس لیے موجودہ دور کے مسلم رہنما غیر ضروری طور پر ویسٹو فوبیا (Westophobia) کا شکار ہوگئے۔ وہ مغرب کے خلاف نفرت اور تشدد میں مبتلا ہوگئے۔ جو چیز حدیث کے الفاظ میں تائید دین کی حیثیت رکھتی تھی، اس کو انھوں نے برعکس طور پر دشمنی اور سازش وغیرہ سمجھ لیا۔ بد قسمتی سے ویسٹوفوبیا کی یہ حالت مسلم دنیا میں ابھی تک جاری ہے۔ مگر یہ سوچ قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ (
قرآن (الحجر،
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المائدہ(
یہ حفاظت دنیا کے اعتبار سے ہے، آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔اس حقیقت کو حدیث رسول میں امت مرحومہ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مرحومہ کا مطلب ہے محفوظہ ، یعنی حفاظت کی ہوئی امت۔ اس بات کا ذکر مختلف روایتوں میںکیا گیا ہے،ان میں سے تین روایتوں کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
(1) عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ مِنْ أُمَّةٍ مَرْحُومَةٍ، فَلَا تَنْزَقُوا، وَلَا تَطْغَوْا(مساوی الاخلاق للخرائطی، حدیث نمبر
(2)عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ:إِنَّ ہَذِہِ الْأُمَّةَ أَمَةٌ مَرْحُومَةٌ، لَا عَذَابَ عَلَیْہَا إِلَّا مَا عَذَّبَتْ ہِیَ أَنْفُسَہَا، قَالَ:قُلْتُ وَکَیْفَ تُعَذِّبُ أَنْفُسَہَا؟ قَالَ:أَمَا کَانَ یَوْمُ النَّہَرِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ الْجَمَلِ عَذَابٌ؟ أَمَا کَانَ یَوْمُ صِفِّینَ عَذَابٌ؟( مسند ابی یعلیٰ، حدیث نمبر 6204)۔یعنی ابوہریرہ نے کہا: بیشک یہ امت، امتِ مرحومہ ہے۔ اس پر کوئی عذاب نہیں ہے، سوائے اس کے کہ یہ خود ہی اپنے کو عذاب دے۔ راوی نے پوچھا، اپنے آپ کو کیسے عذاب دیا جاتا ہے۔ ابوہریرہ نے کہا: کیا یوم النہر عذاب نہیں تھا، کیا یوم الجمل عذاب نہیں تھا، کیا یوم صفین عذاب نہیں تھا۔
امت کے بارے میں نصرتِ الٰہی کی ایک اورروایت میں اس طرح آئی ہے:(ترجمہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے روئے زمین کو سمیٹا،چنانچہ میں نے روئے زمین کو مشرق سے لے کر مغرب تک دیکھا اور یقینا میری امت کادائرہ روئے زمین میں وہاں تک پہنچے گا، جو سمیٹ کر مجھ کو دکھایا گیا ہے، اورمجھ کو سرخ اور سفید دو خزانے عطا کیے گئے ہیں،اس وقت میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ اللہ میری امت کے لوگوں کو عام قحط میں نہ مارے ،اور یہ کہ میری امت پر اپنے لوگوں کے سوا کسی اور کو مسلط نہ کرے۔
میرے رب نے فرمایا :اے محمد، جب میں کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہوں تو وہ بدلا نہیں جاسکتا، پس تمہاری امت کے لیے میں نے تم کو یہ عطا کیا کہ تمھاری امت کو نہ تو قحط میں ہلاک کروں گا اور نہ خود ان کے علاوہ کوئی اور دشمن ان پر مسلط کروں گا ،جو ان کی اجتماعیت پر قبضہ کرلے، اگرچہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہو جائیں، الاّ یہ کہ تمہاری امت ہی کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں اور ایک دوسرے کو قید وبند میں ڈالیں (حَتَّى یَکُونَ بَعْضُہُمْ یُہْلِکُ بَعْضًا، وَیَسْبِی بَعْضُہُمْ بَعْضًا)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2889۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس عصمت (حفاظت) کا وعدہ تھا، وہ اپنے دور کے لحاظ سے فرشتوں کے ذریعے تھا۔ لیکن بعد کے لوگوں کے لیے یہ حفاظت باعتبار حالات یا زمانی تقاضے کے تحت ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ کے اس منصوبہ کے مطابق، تاریخ میں ایک عمل (process) جاری کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود تاریخی اسباب اس بات کی ضمانت بن گئے کہ امت محمدی ایسی مصیبت سے محفوظ رہے، جو اس کے لیے دعوت الی اللہ کی ذمے داری کی ادائیگی میں حتمی رکاوٹ بن جائے۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مقصد بعد کے زمانے میں اس طرح حاصل ہوا کہ اللہ رب العالمین نے امن (peace) کو لوگوں کے لیے باہمی مفاد (mutual interest) کی چیز بنا دیا۔ لوگوں کی مفادپرستی کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے حصول میں سرگرم رہیں، اور امت محمدی کے خلاف عداوتی منصوبہ نہ بنائیں۔
موجودہ زمانے میں یہ عمل (process) اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے— تاجر کو گراہک (customer) کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طور پر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مسلمان ظالموں کے ظلم کا شکار ہیں، مسلمان ساری دنیا میں محاصرے (under siege) میں ہیں۔ دنیا میںاسلاموفوبیا (Islamophobia)پھیلا ہوا ہے،وغیرہ۔ مسلمانوں کی مظلومیت کا یہ افسانہ یقینی طور پر بے بنیاد ہے۔ یہ مسلمانوں کے بے خبر لوگوں کی اپنی سوچ ہے، نہ کہ زمانے کی حالت۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ جن باتوں کو مسلمانوں کے خلاف ظلم کا کیس بتاتا ہے، وہ صرف جوابی انتقام (retaliation) کا کیس ہے۔ مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر دوسروں کے خلاف کوئی کارروائی کرتے ہیں، مثلاً دوسروںکو شتم رسول کا ملزم بتا کر ان کو مارنا، یا دوسروں کو دشمن قرار دے کر ان پر سنگ باری (stone-pelting) کرنا۔ اس بنا پر مسلمانوں کو دوسروں کی طرف سے ناموافق حالات کا تجربہ ہوتا ہے، مسلمان اگر اپنی طرف سے مفروضہ ظلم کے خلاف رد عمل کا طریقہ مکمل طور پر چھوڑ دیں تو اس کے بعد یقینی طور پر مسلمانوں کے خلاف تمام مخالفانہ کارروائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
اللہ کے مقرر کردہ نظام کے مطابق،تبلیغ رسالت کا نظام یہ ہے کہ اللہ کا پیغام پہلے فرشتوں کے ذریعہ رسولوں تک آتا ہے، اور پھر رسول اس پیغام کو اپنے زمانے کے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔ یہ اصول قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے:اللَّہُ یَصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِکَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ(
گویا دعوت الیٰ اللہ کے پیغام کے چار مرحلے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں اللہ رب العالمین سے فرشتے تک۔ دوسرے مرحلے میں فرشتے سے پیغمبر تک، اور تیسرے مرحلے میںپیغمبر کے ذریعہ اپنے معاصر انسانوں تک، اور آخری مرحلے میںامت کے منتخب افراد کے ذریعے عہد بہ عہد تمام انسانوں تک۔ یہ نظام عین فطرت کے مطابق ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ذمے داری امت محمدی کے اہل علم کی ہے کہ وہ پیغمبر سے ملے ہوئے دین خداوندی کو ہر زمانے کے انسانوں تک پہنچاتے رہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے، جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَکَذلِکَ جَعَلْناکُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُہَداءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیداً (
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ (علیہم السلام) تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف،
اس نظام میں جو لوگ واسطہ بنیں ، ان کے اوپر فرض ہے کہ وہ اس نظام کے اندر اپنی ذمہ داری کو دریافت کریں، اور پھر پوری تیاری کے ساتھ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں لگ جائیں۔ دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور نان کمیونل انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ،
واپس اوپر جائیں
نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ مثلاً یہ کہ جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن دعوت کا طریقہ اختیار کرنا۔ اس سلسلے میںصحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں آیا ہے:السَّعِیدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2645) ۔ یعنی سعید وہ ہے جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پر امن انداز اختیار کرتے ہوئے، دعوت الی اللہ کے کام میں لگ جائیں۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔
وقت کے ان مواقع کو دعوتی عمل کے لیے کیسے اویل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں بھی نمونے موجود ہیں، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں بھی ۔ انسانی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف،
پیغمبر یوسف کنعان میں پیدا ہوئے، جو اب الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ بقول اغلب 1910 تا 1800 ق م کا ہے۔ ان کے ساتھ کچھ خاندانی اسباب پیدا ہوئے، اور وہ فلسطین سے نکل کر مصر پہنچ گئے۔اس زمانے کا مصر کا بادشاہ ان سے متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو اپنی سلطنت میں پورے ملک کی زراعت کا انچارج بنا دیا۔
پیغمبر یوسف ایک گاؤں سے نکل کر مصر پہنچے تھے۔ ان کو یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل ہوئی۔ اس کا راز یہ تھا کہ انھوں نے مصر میں اس وقت کے بادشاہ سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا ، جس کو پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کہا جاسکتا ہے۔ وہ پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ یہ تھا کہ پیغمبر یوسف اِس پر راضی ہوگئے کہ حکومت کے تخت پر مشرک بادشاہ بدستور قائم رہے، لیکن ملک کے خزائن (زرعی نظام) پیغمبر یوسف کے ہاتھ میں ہو۔
یہ قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے۔ بائبل (پیدائش،
Only as regards the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
پیغمبر یوسف کے قصے کو قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین طریق کار(best method) قرار دیا گیا ہے۔ یہ بہترین طریق کار کیا تھا، جس نے پیغمبر یوسف کو قدیم مصر میں اعلیٰ مواقع عطا کردیے۔ وہ طریق کار ایک لفظ میں یہ تھا— سیاسی اقتدار کے ساتھ پولیٹکل اپوزیشن کے بجائے پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہ طریقہ جو پیغمبر یوسف نے اختیار کیا، وہ قدیم زمانے میں بھی سب سے زیادہ کامیاب طریقہ تھا، اور موجودہ زمانے میں بھی وہ سب سے زیادہ کامیاب طریقہ ہے۔
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کی بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔
واپس اوپر جائیں
پرامن منصوبہ بندی کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ آپ کا مشن اللہ کی توحید کا مشن تھا۔ مکہ کی عملی صورت حال یہ تھی کہ پیغمبر ابراہیم کے بنائے ہوئے مقدس کعبہ کو بعد کے لوگوں نے بت پرستی کا مرکز بنادیا تھا۔ خود کعبہ کی عمارت میں تقریبا 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام اپنے ابتدائی دور میں تیرہ سال مکہ میں رہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان تیرہ سالوں میں آپ نے کبھی عملی طور پراس پر احتجاج نہیں کیا کہ تم لوگوں نے پیغمبر ابراہیم کے کعبہ کو بتوں کا مرکز کیوں بنا دیا، اس کو یہاں سے ہٹاؤ، اور دوبارہ اس کو کعبہ کے بانی کی بنیاد پر قائم کرو۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک غیر معمولی عمل تھا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا توحید کا مشن جاری کرنا۔ مگر حدیث کے پورے ذخیرہ میں ایسا کوئی حوالہ موجود نہیں کہ اس کا سبب کیا تھا۔ گویا کہ یہ واقعہ ابھی تک بلاتوجیہہ (unexplained) پڑا ہوا ہے۔ یقیناً اس واقعہ کا کوئی معقول سبب موجود ہوگا۔ جب وہ کتابوں میں لکھا ہوا موجود نہیں ہے،تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اس دریافت کے ذریعہ جو سبب معلوم ہو، اس کو مبنی بر استنباط سنت کا درجہ دیا جائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)کی سنت تھی ۔ یعنی پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی بلاشبہ ایک غیر مطلوب فعل ہے۔ لیکن ان بتوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ عرب میں پھیلے ہوئے تمام قبائل کے بت تھے۔ ان بتوں کی وجہ سے عرب کے تمام قبائل کے لوگ روزانہ مکہ آتے، اور اپنے بتوں کی زیارت کرتے۔ اس بنا پر کعبہ سارے عرب کے لوگوں کا اجتماع گاہ بن گیا تھا۔ یہ اجتماع عملاً پیغمبر اسلام کے لیے آڈینس (audience) کی حیثیت رکھتا تھا۔ گویا کہ ان بتوں کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ مشرکانہ کلچر کی علامت تھے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ ان کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل رہا تھا کہ آپ سارے عرب کا سفر کیے بغیر خود مکہ میں عرب کے تمام قبائل کو اپنا موحدانہ پیغام پہنچا سکیں۔ چنانچہ آپ نےاس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے آپ نے زائرین کو لیا، اور ان کو خدا کا پیغام براہ راست طور پر پہنچانا شروع کردیا۔
اس اصول کو پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو طریقوں میں سے ایک طریقہ کو ا ختیار کرنا ہوتاآپ ہمیشہ ان میں سے آسان طریقہ کا انتخاب کرتے تھے۔اس اصول کی بنیاد پر اگر فارمولا بنایا جائے تو وہ یہ ہوگا— مسئلے کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problem, avail the opportunity
واپس اوپر جائیں
جدید تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں فرسٹ ورلڈ وار(1914-1918) اور سکنڈ ورلڈ وار(1939-1945) میں شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں انھوں نے صرف نقصان اٹھایا۔ جنگ کا طریقہ ان کے لیے کاؤنٹر پرڈکٹیو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنی افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں لگ گیا۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں مصروف ہوگئے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہود کی تاریخ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ سورۃ الاسراء کی ابتدائی چند آیتوںمیںبیان کیا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں خرابی کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب ان میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کرو گے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کرو گے تب بھی اپنے لیے برا کرو گے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا زور چلے اس کو برباد کردیں (
قرآن کی ان آیتوں میں یہود کے بگاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ یہود کے اندر ہم نے مصلحین پیدا کیے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے اندر ہم نےاپنے زور آور بندے بھیجے، جنھوں نے ان کو تباہ و برباد کیا۔ یہود (بنی اسرائیل) کی تاریخ میں دوبار یہ واقعہ پیش آیا کہ ان کو نبوکد نضر(1125-1104ق م) اور رومی بادشاہ ٹائٹس (39-81ء) نے فلسطین کے علاقے سے نکال کر بیرونی علاقہ میں پھیلادیا، جس کو ڈائسپورا (diaspora) کہا جاتا ہے۔ (دیکھیے، تفسیر ماجدی، سورہ بنی اسرائیل، حاشیہ7)
اس کی وجہ کیا ہے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ ایک اعتبار سے سزا کا معاملہ تھا، اور دوسرے اعتبار سے اس کا مقصد یہ تھا کہ قدیم زمانے میں یہودی نسلوں میں جو تعطل (stagnation) آگیا تھا، اس کو توڑا جائے۔ ان کو دوبارہ یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے افراد کے اندر بیداری لائیں، اور ان کو احیا (revival) کا موقع مل سکے۔ ہار ش ٹریٹمنٹ کا یہ عمل یہود کے ساتھ کئی سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1948 میں ان کو دوبارہ یہ موقع دیا گیا کہ وہ فلسطین کے علاقے میں لوٹ کر آئیں، اور اپنی نئی زندگی شروع کریں۔ بد قسمتی سے اسرائیل کی یہ واپسی مثبت واپسی نہ بن سکی۔ اس واپسی کے ساتھ یہودیوں اور عربوں کے درمیان ایک خونی تصادم شروع ہوگیا، اور اس طرح وہ امکان واقعہ نہ بن سکا، جو اس معاملہ میں چھپا ہوا تھا۔
اگر مسلمان یہود کو دشمن سمجھنے کے بجائے مدعو سمجھتے، اور ان کے درمیان دعوتی کام کرتے تو عین ممکن تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی یا کلی طور پر وہی واقعہ پیش آتا، جو اس آیت میں مذکور ہے:وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (
اس کے برعکس، اس بات کو ماننے کے لیے کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ہے کہ یہود ابدی طور پر "ملعون" ہوچکے ہیں، اور اب ان کے لیے سچائی کے راستے پر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بہت سے یہودیوں نے اسلام قبول کیا، اور اب بھی قبول کر رہے ہیں۔ مثلا آسٹریا کے لیو پولڈ اسد (1900-1992)، اور امریکا کی مارگریٹ جمیلہ (1934-2012)۔ اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہود کے اوپر قرآن کی یہ آیت (
واپس اوپر جائیں
خلیفہ دوم عمر فاروق کے زمانے کا واقعہ ہے۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی ایمپائر سے پیش آیا۔ مسلمان جب پیش قدمی کرنے لگے تو ایرانی فوج کےسپہ سالار رستم نے مسلم فوج کے سردار سعد بن وقاص کے پاس پیغام بھیجا کہ تم اپنا نمائندہ گفت وشنید کے لیے بھیجو ۔ وہ دربار میں پہنچے تو رستم نے اُن سے کہا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میں آئے ہو۔ اِس سوال کے جواب میں ربعی بن عامر نے کہا:اللَّہُ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّہِ (البدایة والنہایة،جلد 7، صفحہ
یہی معاملہ دورِ جدید کا ہے۔ دور جدید اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک موافقِ اسلام دور ہے، نہ کہ مخالفِ اسلام دور۔ دور جدید کو مخالفِ اسلام دور بتانا، صرف اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی دورِ جدید کی الف ب بھی نہیں جانتا۔ ایسا آدمی دراصل مسلم قومی ذہن کے تحت سوچ رہا ہے اور غلط فہمی کی بنا پر اس کو وہ اسلام کے اوپر منطبق کررہا ہے۔
دورِ جدید کیا ہے۔ دورِ جدید عقلی طرز فکر (rational thinking) کا نام ہے، اور عقلی طرز فکر مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید مذہبی آزادی کا دور ہے، اور مذہبی آزادی مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید کمیونی کیشن کا دور ہے، اور کمیونی کیشن مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے۔ دورِ جدید پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے، اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مکمل طورپر اسلام کے لیے مفید ہے، وغیرہ۔ ایسی حالت میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دورِ جدید کے موافقِ اسلام پہلوؤں کو دریافت کرکے اس کو اسلام کےحق میں استعمال کریں۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب نوآبادیاتی غلبہ کا دور آیا تو مسلم دنیا کے تمام رہنما، علما اور غیر علما دونوں اُن سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اِس لڑائی میں انھوں نے غیر معمولی قربانیاں پیش کیں، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیںنکلا۔ مسلم رہنما اگر صحابی رسول کی اِس مثال سے سبق لیتے اور اس کو موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرتے اور وہ کہتے کہ یہ نوآبادیاتی قومیں سادہ طورپر صرف حملہ آور نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک نئی تہذیب کے نقیب (harbinger of a new civilization) ہیں۔ لہٰذاہم کو چاہیے کہ ہم اُن سے لڑنے کے بجائے، اُن سے نئے ترقیاتی ذرائع کو سیکھیں۔ ہمارے رہنما اگر اِس طرح ایک پہلو کو دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھتے اور اِس کے مطابق، وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرتے تو آج امتِ مسلمہ کی تاریخ مختلف ہوتی۔ آج مسلمان شکر کرنے والا گروہ ہوتے، جب کہ آج مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کرنے والا گروہ بنے ہوئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں قدیم زمانے سے قوموں کے درمیان جنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ اس نامتناہی سلسلۂ جنگ کا سبب یہ تھا کہ قدیم زمانے میں جنگ اور صلح کی کوئی ایسی معلوم حد موجودد نہ تھی، جو قوموں کے درمیان تسلیم شدہ ہو۔ اسلام نے صلح حدیبیہ کے بعد اس دورِ صلح کا آغاز کیا۔ اس کے بعد دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک تاریخی عمل (historical process)کا آغاز ہوا۔ اس عمل کا نقطۂ انتہا 1945 تھا، جب کہ تمام قوموں کے اتفاق رائے سے اقوام متحدہ (UN) کا قیام عمل میں آیا۔
اقوامِ متحدہ کے قیام سے بین الاقوامی طور پر ایک مشترک پلیٹ فارم وجود میں آیا۔جہاں تمام قوموں کے ذمہ دار نمائندے اکٹھا ہوں، اور با اختیار انداز میں اجتماعی فیصلے کریں۔ اس اجتماعی پلیٹ فارم کے ذریعے اس سلسلے میں پہلا اہم کام یہ ہوا کہ قوموں کی جغرافی حدیں متعین ہوئیں۔ یہ حد نیشن اسٹیٹ (nation state) تھی۔ اس سے یہ طے ہوا کہ ہر قوم کی ایک معلوم حد ہے، اور کسی قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ اس معلوم حد کی خلاف ورزی کرے۔
اسی طرح قوموں کے اتفاق رائے سے یہ اصول طے ہوا کہ باہمی اختلافات کا تصفیہ اقوام متحدہ کے تحت امن کی میز پر ہوگا، نہ کہ جنگ کے میدان میں۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار یہ ہوا کہ تقریباً ایک سو قوموں کی جغرافی حدیں مقرر ہوگئیں، اور اس طرح جنگ کا خاتمہ ممکن ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کی ایک آیت میں یہ جو الفاظ آئے ہیں حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا (
اسلام کے ذریعے ایک عالمی عمل جاری ہوا، جس کی تکمیل جدید تہذیب کی صورت میں ہوئی، اور رسول اللہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ اللہ اس دین کی تائید سیکولر قوموں کے ذریعے کرے گا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اصحابِ رسول کو ایک حکم ان الفاظ میں دیا گیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِینَ (
قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں کہا گیا ہے کہ جنگ کرو یہاں تک کہ فتنے کا خاتمہ ہوجائے،دوسرے حصے کے الفاظ یہ ہیں کہ "دین اللہ کا ہوجائے"۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا، اور دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں فطری حالت قائم تھی، اور فطری حالت امن کی حالت ہے۔ لیکن بعد کو ایسا ہوا کہ دنیا میں ڈسپاٹک کنگ (despotic king) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی جبر و تشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی، کیوں کہ یہ حالت اللہ کے منصوبۂ تخلیق کے خلاف تھی ۔ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول اور اصحابِ رسول کویہ حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طور پر تشدد کی حالت قائم کر رکھی ہے، اس کو بزورِ طاقت ختم کردو، تاکہ دوبارہ دنیا میں حالت فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اسی بنا پر قائم تھا۔چنانچہ اصحابِ رسول کو اپنے زمانے کے اربابِ اقتدار سے جنگ کرنا پڑا۔ یہی وہ تاریخی انقلاب ہے، جس کی طرف بائبل میں ان الفاظ اشارہ کیا گیا ہے: اس نے نگاہ کی، اورقومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھگ گئے (حبقوق،
تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا، بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہوکر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دورِ امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانے میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا، وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دورِ امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں دین سب کا سب اللہ کے لیے ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ پرامن طریقِ کار کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ السَّلَامَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّہِ وَضَعَہُ اللَّہُ فِی الْأَرْضِ فَأَفْشُوہُ بَیْنَکُمْ (الادب المفرد، حدیث نمبر 989)۔ یعنی بیشک السلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، جس کو اس نے زمین میں رکھا ہے، تو اس کو تم لوگ آپس میں پھیلاؤ۔ اس حدیث میں السلام کا لفظی مطلب ہے، امن (peace)، سلامتی، چین و سکون، امان و حفاظت، صلح جوئی، وغیرہ۔
اس حدیث میں اللہ کے نام سے مراد اللہ کا مطلوب ہے۔ یعنی اللہ کی مطلوبات میں سے ایک مطلوب وہ ہے، جس کو ہم اپنی زبان میں امن کہتے ہیں۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ امن (peace) کو خوب پھیلائیں۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسانوں کے درمیان امن کا ماحول قائم ہو۔ اللہ کو مطلوب ہے کہ انسانوں کا معاشرہ امن کا معاشرہ ہو۔ کیوں کہ جہاں امن ہوگا، وہاں تمام مطلوباتِ الٰہی کی اشاعت اعلیٰ سطح پر ممکن ہوجائے گی۔ جہاں امن ہے، وہاں عبادت کا ماحول ہے۔ جہاں امن ہے، وہاں اللہ کے پیغام کو پھیلانے کا ماحول ہے۔جہاں امن ہے، وہاں تعلیم اور دعوت ،وغیرہ کا کام کرنا آسان ہے۔ سماج کے اعتبار سے امن کی حیثیت خیر مطلق(absolute good) کی ہے۔ امن ہے، تو سب کچھ ہے، اور امن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہر سماجی ترقی امن کے ماحول میں ممکن ہے۔
امن کے ماحول کا مطلب ہے فطری ماحول۔ خالق کا بنایا ہوافطری ماحول ہمیشہ پرامن ماحول ہوتا ہے۔ پرامن ماحول میں مثبت مزاج پھیلتاہے۔ پرامن ماحول میں یہ موقع ہوتا ہے کہ انسان کسی مزاحمت کے بغیر ہر اچھے کام کو انجام دے سکے۔ امن کا ماحول ہر مفید اور تعمیری کام کے لیے ضروری ہے۔ کسی بھی سماج میں امن کا ماحول لانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر مخالف امن سرگرمیاں ختم ہوجائیں۔ مخالفِ امن سوچ موجود نہ رہے۔ امن کا ماحول تعلیم کے ماحول سے شروع ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعے وہ ذہن بنتاہے، جو سماج کے لیے تعمیری کام کرتاہے۔
واپس اوپر جائیں
جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔اسی طرح ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ چنانچہ قدیم زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ زندگی کی قائم شدہ ر وایات کو باقی رکھنے کے لیے تربیت یافتہ افراد مہیا کرنا۔ مثلاً مذہب کے رسوم کو درست طور پر ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ افراد کو مہیا کرنا ہے۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہوگیا ہے کہ ریسرچ و تحقیق کے ذریعے زندگی کے نئے راستے تلاش کرنا، اور تہذیب کی ترقی کے سفر کو مسلسل طور پر آگے بڑھا نا ہے۔
موجودہ زمانے میں تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ اپنے آپ کو وقت کے تقاضے کے مطابق تیار کیا جائے۔ تاکہ انسان ترقی کی دوڑ میں اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ قدیم زمانے میں تعلیم عملاً ایک جامد ڈسپلن کی حیثیت رکھتی تھی۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک تخلیقی سرگرمی (creative activity) کا نام ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا تعلق کچھ محدود لوگوں سے ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کا تعلق زندگی کے تمام شعبوں سے ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا نشانہ یہ نہیں ہوتا تھا کہ نئی نئی چیزوں کو دریافت کیا جائے،تاکہ تہذیب کے ارتقا میں ان کا استعمال ہو۔ موجودہ زمانے میں تعلیم ایک انقلابی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قدیم زمانے میں تعلیم گویا ایک بنی بنائی عمارت کا نام ہوتا تھا، جس کی وقت وقت پر صفائی کردی جائے اور وائٹ واش کردیا جائے۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانے میں تعلیم یہ ہے کہ نئی نئی دریافتوں کے مطابق نئی نئی عمارت کھڑی کی جائے۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا مقصد زندگی کے روایتی ڈھانچہ کو برقرار رکھنے کا نام ہوتا تھا۔ قدیم زمانے میں تعلیم کا اصل مقصد یہ تھا کہ سماج کے اقدار (values)، آداب، تہذیب، وغیرہ کو اگلی نسل میں منتقل کرنا، تاکہ سماجی روایت جاری رہے۔موجودہ زمانے میں تعلیم ایک ترقی پذیر عمل کا نام ہے، جو بہتے ہوئے دریا کی مانند آگے بڑھتا ہے، اور ترقی کے سفر میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔
قدیم دور میں اپنی روایت سے نکل کر سوچنا نادرست سمجھا جاتا تھا، خواہ وہ توہمات پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جو ایسا کرتا اس کا بائیکاٹ کیا جاتا تھا۔اس پر ظلم کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس،جدید دور میں روایت شکنی سب سے بڑی خوبی کی بات ہے۔ یہ انسان کو موقع دیتی ہے کہ انسان ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ کے ساتھ سوچے، اور میرٹ (merit)کی بنیاد پر کسی چیز کو رد ّیا قبول کرے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں انسانوں کی بڑی تعداد کو شیطان نے یہ سکھایا کہ مخلوق میں بھی خدائی (divinity) ہوتی ہے۔ چنانچہ بیشتر انسان مخلوق کے پرستار بن گئے۔ سائنس دانوں اس روایتی کنڈیشننگ کا توڑا،انھوں نے پچھلے تقریباً چار سو سال کی تحقیق کے بعد بتایا کہ مخلوقات میں خدائی (divinity) نہیں۔ سائنس دانوں کی ریسرچ سے یہ ثابت ہوگیا کہ خالق الگ ہے، اور مخلوق الگ۔ مغرب کے سائنس داں حدیث کے الفاظ میں مؤیدین ِ دین تھے (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے ذریعے دریافت شدہ علم نے دین کی تائیدکا کام انجام دیا ہے۔ لیکن شیطان نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا کہ اہل مغرب تمھارے دشمن ہیں۔اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیلنج تھا، جو شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو ان الفاظ میں دیاتھا: وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (
چنانچہ مغرب سے دشمنی کی بنا پرمسلمان اس اہم چیز سے دور ہوگئے، جس کو سائنٹفک ڈیٹا کہا جاتا ہے۔ یعنی ہمارے علما نے اہل مغرب سے دشمنی کی بنا پر ان کی زبان اور ان کے ذریعے دریافت شدہ سائنس کو نہیں پڑھا، اس بنا پر وہ جدید سائنسی دریافت سے بے خبر ہوگئے۔اس طرح مسلمان ان تمام کائناتی نشانیوں سےدور ہوگئے، جو اللہ رب العالمین کے وجود کا علمی ثبوت فراہم کرنے والے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ وہ اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے نہ بن سکے۔وہ لوگ اگرچہ اللہ کے منکر تو نہیں بنے، لیکن اللہ ان کی زندگی کا ایک رسمی ضمیمہ بن کر رہ گیا۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں ایک دعوتی پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ (مسند احمد، حدیث نمبر 16957)۔ یعنی یہ معاملہ وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں۔اس پیشین گوئی کو لازماً پورا ہوناتھا۔ اس پیشین گوئی کی تکمیل اہل ایمان کے ذریعے ہوگی۔ اب آخر وقت آگیا ہے کہ اہل ایمان ان مواقع کو جانیں، اور اس کے لیے ضروری پلاننگ کریں۔ اگر اہل ایمان کا ایک گروہ اس کام کے لیے اٹھے، تو اللہ رب العالمین کی تائید ان پر ٹوٹ پڑے گی، اور فرشتے ہر طرف ان کی مدد کے لیے کھڑے ہوجائیں گے، اور عالمی دعوت کا یہ کام اس طرح انجام پائے گا، جیسے کہ اس سے زیادہ آسان کوئی کام نہیں تھا۔اکیسویں صدی میں امت محمدی کو اپنا فائنل رول ادا کرنا ہے۔ یہ فائنل رول ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فائنل رول وہی ہے، جس کو قرآن میں اعلیٰ سطح پر تبیین حق (فصلت،
واپس اوپر جائیں
اس وقت جو رول اہل ایمان کو انجام دینا ہے، وہ ہے وقت کے مطابق اعلیٰ ذہنی مستویٰ (higher intellectual level) پر دعوت الی اللہ کا کام انجام دینا۔ یہ کام سائنسی دریافتوں کے ذریعہ بالقوۃ طور پر (potentially) انجام پاچکا ہے۔ اب اہل ایمان کو یہ کرناہے کہ وہ اس بالقوۃ کوبالفعل (actual)بنائیں۔ وہ فطرت (nature) میں دریافت کردہ حقیقتوں کو ربانی شہادت کے طور پر دنیا کے سامنے لائیں۔
اس کام کا اصل نشانہ یہ ہے کہ خدا کے ہدایت نامہ قرآن کو دنیا کی ہر زبان میں معیاری ترجمہ کرکے اس کو تمام قوموں تک پہنچانا، تاکہ دنیا یہ جانے کہ جن حقیقتوں کو موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیق کے طور پر انسان نے دریافت کیا ہے، وہ حقیقتیں پیشگی طور پر قرآن میں "آیات" کی زبان میں بتا دی گئی تھیں۔ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ کلمۂ اسلام ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ اس کا مطلب ہے قرآن کا گلوبل ڈسٹری بیوشن ، یعنی قرآن کو ہر قوم کی قابل فہم زبان میں پہنچادینا۔اس کام میں اصل اہمیت قرآن کے اشاعت کی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ قرآن کی ضروری تشریح کرنا بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ اس مقصد کےلیے ایک مدد گار لٹریچر (supporting literature) بھی ضروری ہے، جو قرآن کو لوگوں کے لیے ان کے اپنے مائنڈ سیٹ کے اعتبار سے قابلِ فہم (understandable) بنادے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ قرآن عالمی سطح پر انسانوں کے درمیان پہنچے۔ اس کام کی کچھ شرطیں تھیں، وہ شرطیں اللہ تعالی کی توفیق سے پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف یہ کام ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں، اور قرآن کو عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچادیں۔
اللہ کی توفیق سے پہلا کام یہ ہوا کہ قرآن کے متن کو امت نے پوری طرح محفوظ کردیا۔ قرآن کے متن کو اس طرح محفوظ کردیا گیا کہ اب اس کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ تمام اسباب مکمل طور پر فراہم کردیے گئے، جو ان سب کے لیے ضروری تھے۔
مثلاً (1)پرنٹنگ پریس کا وجود میں آنا۔ (2) عالمی کمیونی کیشن، اس کے تحت قرآن تمام لوگوں کے لیے قابلِ حصول ہوگیا۔ (3)انٹرنیشنل زبان ، یعنی انگریزی زبان کا وجود میں آنا۔ (4)مذہبی تعصب کا خاتمہ۔ (5) علمی انفجار(knowledge explosion)۔ (6) عالمی سطح پر نقل و حمل کی آسانی۔ (7) اسپرٹ آف انکوائری۔ (8) مذہبی افہام و تفہیم (religious understanding) کا کھلا ماحول۔ (9) حاملین قرآن کے پاس وسائل کی مکمل موجودگی، مثلاً تیل اور گیس کے ذخائر کا ہونا۔(10) امن کو خیر اعلیٰ کی حیثیت دینا۔ (
یہ تمام ظاہرے دعوت الی اللہ کے حق میں ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ قرآن کی اشاعت کا کام بھر پور طور پر انجام دے دیا جائے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل اسی مقصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا ہے،یعنی تمام انسانوں کو خدا کے پیغام سے باخبر کرنا۔ اس کے ذریعے یہی کام انجام دیا جارہا ہے۔دعا ہے کہ یہ کام اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.