تاریخ کے دو بڑے ادوار
انسانی تاریخ کے دو بڑے دور ہیں۔ ایک ، سائنسی انقلاب سے پہلے کا دور، اور دوسرا، سائنسی انقلاب کے بعد کا دور۔ وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، وہ اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (1564-1642) کے بعد شروع ہوا، اور اب تک جاری ہے۔ قبل سائنس دور میں استدلال کی بنیاد عقل عام (common sense) ہوا کرتی تھی۔ بعد از سائنس دور میں استدلال کی بنیاد ریزن (reason) ہوگئی۔ قدیم زمانے میں عقل عام استدلال کے لیے کافی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب سائنسی طور پر مسلمہ ریزن (accepted reason) استدلال کے واحد بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ رب العالمین کو معلوم تھا کہ تاریخ میں یہ انقلاب آنے والا ہے۔ اس لیے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ قبل از سائنس دور میں عقل عام کی بنیاد پر دین خداوندی کی بات کو مدلل کیا جائے۔ لیکن سائنسی دور آنے کے بعد فطری طور پر اللہ کی منشاء یہ ہوئی کہ اللہ کے دین کو وقت کی مسلمہ دلیل (سائنسی دلیل) کی بنیادپر پیش کیا جائے تاکہ انسان پر اللہ کی حجت قائم ہوسکے۔
ایک اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دور آخر میں جو داعی لوگوں کے سامنے دین خداوندی کو پیش کرے گا، وہ حَجِیج (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2937)ہوگا۔ حَجِیج کا مطلب بذریعہ دلیل کلام کرنے والا۔ یعنی وہ شخص جو عقلی دلیل (rational argument) کے ذریعہ اپنی بات پیش کرے۔ شہادت اعظم کے دور میں شاہد (گواہ) کی یہی صفت ہوگی۔ وہ مسلمہ دلیل (accepted reason) کی زبان میں لوگوں کے سامنے دینِ خداوندی کو پیش کرے گا۔
یہ سادہ بات نہ تھی۔ یہ بنائے استدلال میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ علم کی دنیا میں ایک نیا انقلاب لایا جائے۔ عقل عام پر مبنی استدلال کو عقلی دلائل کے ذریعہ استدلال پر قائم کیا جائے۔ قیاسی استدلال کی جگہ سائنسی طور پر ثابت شدہ استدلال مسلمہ استدلا ل کا درجہ دیا جائے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اللہ رب العالمین کا منصوبہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی امت پوری طرح حفاظت دین کے کام میں مشغول ہوجائے۔ کیوں کہ آپ کے بعد کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی نمائندگی کرنے کے لیے مکمل معنوں میں ایک محفوظ دین باقی رہے۔ امت محمدی نے اپنی کئی سال کی غیر معمولی کوششوں کے ذریعہ دین اسلام کو مکمل طور پر ایک محفوظ دین بنا دیا۔ امت محمدی کا یہ رول پندرھویں صدی عیسوی تک پوری طرح جاری رہا، جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آگیا۔ اب دین کی حفاظت کے لیے مشین نے انسانی کوششوں کی جگہ لے لی۔
اب وہ وقت آگیا تھا جب کہ خدا کے دین کو انسان کے اپنے مسلمات کی بنیاد پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا۔ اس کام کے لیے ایک تازہ دم قوم (fresh nation) کی ضرورت تھی۔ حدیث میںاس قوم کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ اللہ اسلام کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعہ کرے گا جو اس دین میں سے نہ ہوں گے( المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640ِ)۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں "رجال " سے مراد ایسا گروہ ہے جو کہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے لیے عقلی تائید (rational support) کا کام کرے گا۔ یعنی ان کے ذریعے اہل اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ دینِ خداوندی کی دعوت کا کام سائنسی طور پر ثابت شدہ عقلی دلیل کی بنیاد (rational basis) پر انجام دے سکیں ۔
مزید غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تائیدی گروہ مغرب کے مسیحی لوگوں کا گروہ ہے۔ نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد مغرب کی قوموں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ تاریخ میں ایک نیا دور پیدا کیا، جس کو سائنسی دور (scientific age) کہا جاتاہے ۔ سائنسی دور اگرچہ زیادہ تر مسیحی قوموں کی کوشش سے وجود میں آیا۔ لیکن پورے معنوں میں یہ موافق اسلام دور ہے۔ یہ امت کو اپنے دین کے لیے وہی تائید فراہم کرتا ہے ، جس کو اوپر حدیث میں بیان کیا گیاہے۔
انسانی تاریخ کے بعد کے زمانے میں پیش آنے والی اس شہادت اعظم کا ذکر خود قرآن میں بھی آیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ( 41:53 )۔ یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر پوری طرح ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔
قرآن کی اس آیت میں جس چیز کو آفاق اور انفس کی آیات (signs) کہا گیا ہے، وہ موجودہ کائنات میں کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں، مگر قرآن میں ان کا ذکر اشارات کی زبان میں ہے۔ ان اشارات کو اکچول (actual) بنانے کا کام موجودہ زمانے میں انجام پایا ہے۔ یہ کام زیادہ تر مغرب کی مسیحی قوموں نے انجام دیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ شہادت اعظم کی ادائیگی کا کام اگرچہ عملاً امت محمدی کے لوگ انجام دیں گے۔ لیکن اس کام کی انجام دہی کے لیے تائیدی اسباب بلاشبہ مغرب کی مسیحی قوموں نے فراہم کیے ہیں۔ گویا کہ شہادت اعظم کے کام میں ملت محمدی کا رول شاہد کا رول ہے، اور مسیحی اقوام کا رول مؤید کا رول ہے۔
تائیدکا یہ ظاہرہ بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ خالق نے ہماری زمین (planet earth) کو بے شمار ٹکنالوجی سے بھر دیا ہے۔ یہ ٹکنالوجی قوانین فطرت کی صورت میں ہمیشہ سے موجود تھی۔ لیکن اب تک وہ مخفی قوانین (hidden laws) کی صورت میں غیر دریافت حالت میں پڑی ہوئی تھی۔ صلیبی جنگوں کی شکست سے یورپ کی مسیحی قوموں کے لیے ایک جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت اپنی ساری طاقت فطرت کے قوانین کو دریافت کرنے میں لگا دیا۔ یہ عمل اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei [1564-1642]) کے زمانے میں شروع ہوا، اور تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ اس دوران بے شمار فطری قوانین دریافت ہوئے۔ یہاں تک کہ دنیا میں وہ عظیم انقلاب پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتاہے۔
واپس اوپر جائیں