بڑھاپا کیاہے۔ آدمی کے اعضاء میں کمزوری پیدا ہوجائے۔ اعضا میں اپنا عمل کرنے کی طاقت کم ہوجائے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے جسم کے اندر بہت سے آرگن ہیں۔یہ آرگن جسم کی پوری مشین کو چلاتے ہیں۔ ان میں سے وائٹل آرگنز (vital organs) پانچ ہیں۔ وہ یہ ہیں— برین، ہارٹ، کڈنی، لیور ،ا ور لنگس۔ انھیں آرگن کے فنکشن پر سارے جسم کی کارگردگی منحصر ہوتی ہے۔ موت یہ ہے کہ انسان کے آرگنز اپنا عمل کرنا بند کردیں۔اس کو میڈیکل سائنس کی زبان میں ملٹی آرگن فیلیر (multi-organ failure) کہا جاتا ہے۔
آرگن کے فنکشن کا جاری رہنا، یا اس کے فنکشن کا بند ہوجانا، حیرت انگیز واقعہ ہے۔ ان کا انسان کی مرضی سے تعلق نہیں، وہ تخلیقی نظام کے تحت مسلسل طو رپر اپنا عمل جاری رکھتے ہیں، اور جب ان کا عمل جاری نہ رہے، تو اسی کا نام موت ہے۔ اس معاملے کو قرآن میں تنکیس ِخلقت کہا گیا ہے (یس،
یہ انسان کے لیے شکرِ خداوندی کا بہت بڑا آئٹم ہے ۔یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے، جس کی تخلیق پر انسان قادر نہیں، اورنہ ان کی صحت اور بقا پر قادر ہے۔ یہ انسان کے لیے ایک ایسی نعمت ہے، جو یک طرفہ عطیے کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ آرگن انسان کے جسم میں کیسے وجود میں آتے ہیں۔ کیسے وہ خود کار مشین کی طرح اپنا کام کرتے رہتے ہیں، اور پھر انسان کی مرضی کے بغیر ان کا جزئی یا کلی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ یہ سب چیزیں تخلیق کے اسرار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انسان اس نعمت پر جتنا زیادہ غور کرے، اتنا ہی اس کے تعلق باللہ میں اضافہ ہوتا ہے۔
برٹش شاعر والٹر(Walter de la Mare) کا واقعہ ہے۔ وہ ایک مرتبہ کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔ گھر کے کئی افراد کھانے پینے میں مشغول تھے۔ ان میں ایک لڑکی بھی تھی۔ شاعر اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ وہ فوڈ آئٹم لیتی ہے، اور اس کو کھاتی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کھانا، جو لڑکی کھارہی ہے، وہ کھانا جسم میں پہنچ کر خون اور گوشت اور ہڈی کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے یہ شعر کہا:
It's a very odd thing / As odd can be/That whatever Miss T eats/Turns into Miss T.
کھانا کھانے کے بعد انسان کے جسم میں کیساحیرت انگیز واقعہ پیش آتا ہے، یعنی کھانا اور پانی جسم کے اندر انسان کی شخصیت کی صورت میں ڈھل جاتاہے۔
انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔یہ ایک معجزاتی واقعہ ہے، جو ہر دن ہر انسان کے جسم میں پیش آتا ہے۔ یہ معجزاتی واقعہ کیسے وقوع میں آتا ہے۔ اس کے لیے قدرت نے انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو حیرت انگیز عامل بنائے ہیں، جن کو آرگنز (organs) کہاجاتا ہے۔ یہ آرگن ایک خود کار مشین کی طرح رات دن کام کرتے ہیں۔ انسان نہ ان کو حرکت میں لاسکتا ہے، اور نہ وہ ان کی حرکت کو بند کرسکتا۔میڈیکل سائنس میں اسی نظام کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق، جسم کا یہ نظام جو مسلسل طور پر انسان کے اندر عمل کرتا ہے، یہ بہت ہی حیرت انگیز معاملہ ہے۔
اسپتال میں انسانی جسم کے میکنزم مطالعہ کیا جاتا ہے، اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیسے یہ زندہ مشین مسلسل حرکت کرتی ہے۔ اس مطالعے میں جب کوئی بگاڑ دکھائی دیتا ہے تو ڈاکٹر کوشش کرتے ہیں کہ اس جسمامی بگاڑ کو خارجی ٹریٹمنٹ کے ذریعے دوبارہ فطری حالت پر واپس لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا جسمانی نظام خالق کا ایک حیرت انگیز عطیہ ہے۔انسان اگر اس کے بارے میں سنجیدہ ہوکر سوچے تو وہ اپنے خالق کا اتنا زیادہ شکر گزار بن جائے کہ خالق کے شکر کےسوا کوئی اور چیز اس کو یاد نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں
اکثر لوگ مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالات ہمارے لیے موافق نہیں ہیں۔ ایسے مقام پر کیا کرنا چاہیے۔مثلاً ایک مسلم ادارے سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین میں ایک مضمون کا عنوان تھا:
Where the mind is without fear
یعنی جہاں انسان بے خوف ہو کر زندگی گزارے۔ مگر یہ تصور مطلق معنی میںدرست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مائنڈ کو خوف والا رہنا چاہیے۔ بے خوف مائنڈ بے پروائی کی زندگی گزارتا ہے، ایسا انسان تواضع کی صفت سے خالی ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے سے لڑتا جھگڑتا رہتاہے۔ ایسا انسان انجام سے بے خبر ہوکر ہر کام کرتا ہے۔ اس کو نتیجے کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔
اس کے برعکس،خوف انسان کو اس کی اپنی آزادی کے مس یوز (misuse)سے روکتا ہے۔ وہ مائنڈ کو متحرک کرتا ہے تاکہ مائنڈمسائل میں الجھنے کے بجائے مواقع کو تلاش کرے۔ یہ انسان کا سب سے اچھا استاد ہے،جو مائنڈ کو الائیو (alive) رکھتا ہے۔جو انسان کو تجربہ سکھاتا ہے۔ انسان خوف کی حالت میںسنجیدگی کے ساتھ پلاننگ کرتا ہے۔ ایسا انسان کچھ کرنے سے پہلے سوچتا ہے، اس کے بعد وہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔خوف کی صورتِ حال اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے لیے ایک چیلنج کی صورتِ حال ہے۔
آدمی سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیلنج کے درمیان مواقع کو تلاش کرنا سیکھے، وہ چیلنج کو مینج (manage) کرکے اپنی دنیا بنائے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی عقل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے، وہ اپنی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ بنائے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے۔میں ایک چڑیا خانہ (zoo) دیکھنے کے لیے گیا۔ یہ چڑیاخانہ غالباً یوپی کے کسی شہر میں واقع تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا گھیرا(enclosure) ہے۔ ا س کے اندر کچھ ہرن بیٹھے ہوئے تھے۔ چڑیا خانے کے نگراں نے کہا کہ ان ہرنوں کو دیکھیے۔ یہ بے خوفی کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بے خوفی کی حالت ان کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اگر وہ دیر تک بے خوفی کی حالت میں رہیں تو وہ اپنی تولیدی (fertility) صلاحیت کھو دیں گے۔ اس لیے ہم کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں کہ اس گھیرے(enclosure) کے اندر بھیڑیا ڈال دیتے ہیں۔ بھیڑیاہرن کے لیے ایک خوفناک جانور ہے۔ چنانچہ ہرن جب بھیڑیا دیکھتاہے، تو وہ فورا گھیرے کے اندر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ بھیڑیا ہرن کو دوڑاتا ہے، اور ہرن بھیڑیا سے بچنے کے لیے تیزی سے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ یہ گویا جنگل والی حالت کو چڑیا گھر میں مصنوعی طور پر پیدا کرنا ہے۔ اس دوڑ دھوپ کے نتیجے میں ہرن کی تولیدی صلاحیت لوٹ آتی ہے۔ ہرن دوبارہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں۔ وہ جنگلی زندگی والے اوصاف کو دوبارہ اپنے اندر پیدا کرلیں۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ فطرت کا نظام انسان کے لیے بھی مطلوب ہے۔ انسان کی زندگی میں جب ٹھہراؤ آجاتا ہے تو فطری نظام کے تحت انسان کے اندر ڈر کی حالت (challenge) پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ڈر کی حالت یا چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سے غیر تخلیقی گروہ (non-creative group) تخلیقی گروہ (creative group) بن جاتاہے۔ یہی وہ فطری حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (
خوف محض ایک منفی چیز نہیں وہ ایک بصیرت ہے، جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتا ہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی (as it is)روپ میں دیکھ سکے۔ خوف یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں یہ اذن اللہ، یعنی فطرت کا نظام ہے۔ یہ فطرت کا نظام بظاہر خوف کی بات ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ امید کی بات ہے۔ انسان کو چاہیے کہ جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو وہ اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے۔وہ اس کو بطور موقع (opportunity) اویل (avail) کرے۔ اس طرح غیر تخلیقی گروہ تخلیقی گروہ بن جائے گا۔
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) نے
موجودہ زمانے میں اس واقعے کی ایک مثال جاپان ہے۔ جاپان ایک کم ترقی یافتہ قوم بنی ہوئی تھی۔ پھر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سیکنڈ ورلڈ وار میں اس پر دو ایٹم بم گرا دیے گئے۔ اس واقعے کے بعد جاپان کی پوری قوم متحرک ہوگئی۔ جاپان کے اندر ترقیاتی سرگرمی کا عمل جاری ہوگیا۔
میں نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جاپان کی صنعت کھلونا بنانے والی صنعت بنی ہوئی تھی۔ جاپان میں بڑی ترقیاں نہیں ہورہی تھی۔ اس کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ امریکا نے جاپان کے دو شہروں ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر 1945 میں دو ایٹم بم گرادیے۔ اس سے جاپان کے شہر برباد ہوگئے۔ جاپان کی صنعت کو غیر معمولی نقصان پہنچا۔ یہ ایک دھماکہ خیز عمل تھا۔ مگر اس دھماکہ خیز عمل نے پوری جاپانی قوم کو جگا دیا۔ اس وقت جاپان کے اوپر ہیرو ہیٹو (Hirohito) کی حکومت تھی۔ ہیرو ہیٹو بہت پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اس نے اس واقعے سے منفی سبق نہیں لیا، بلکہ اس سے مثبت سبق حاصل کیا۔ جنگ عظیم کے بعد 10 اگست 1945 کو ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم ایک ناقابلِ برداشت صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ لیکن ہم کو اس ناقابلِ برداشت صورتِ حال کو برداشت کرنا ہے:
The time has come when we must bear the unbearable.
ہیرو ہیٹو کی بات کا مطلب یہ تھا کہ وقتی طور پر ہمیں ایک نا موافق صورتِ حال کو برداشت کرنا ہے تاکہ ہم جاپان کی اگلی نسلوں کو ترقی یافتہ قوم بناسکیں۔
دھماکہ خیز واقعات ہمیشہ چیلنج ہوتے ہیں، وہ اس لیے آتے ہیں کہ قوم کے اندر ہلچل پیدا کریں، وہ غیر زندہ قوم کو زندہ قوم بنادیں۔چیلنج کیا ہے۔ چیلنج کا لفظ مسئلہ (problem) کے لفظ سے مختلف ہے۔مسئلہ ایک منفی لفظ ہے، جب کہ چیلنج ایک مثبت لفظ ہے۔ چیلنج نسبتاً ایک نیا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہے — ایک نیا یا مشکل مسئلہ جو کہ آدمی کے لیے اس کی استعداد کا امتحان ہوتا ہے:
A new or difficult task that tests somebody's ability and skill.
جب بھی کوئی چیلنج سامنے آتا ہے تو اس میں مسائل (problems) کےساتھ نئے امکانات (opportunities) بھی موجود ہوتے ہیں۔ چیلنج کا رسپانس دینے کی دوصورتیں ہیں — نگیٹیو رسپانس (negative response)، پازیٹیو رسپانس (positive response)۔ نگیٹیو رسپانس یہ ہے کہ آدمی کو جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو وہ منفی رد عمل کا شکار ہوجائے، اور چیلنج کی حالت کو خوف اور سازش کے اعتبار سے دیکھنے لگے۔ اس کے برعکس، پازیٹیو رسپانس یہ ہے کہ انسان چیلنج پیش آنے پر نفرت اور شکایت کی نفسیات کا شکار نہ ہو، بلکہ صورتِ حال کا مطالعہ کرکے اس میں موجود مواقع کو دریافت کرے، اور اس کو اویل کرنے کی کوشش کرے۔
فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔اگر فرد یا سماج کی سرگرمیوں میںمنفی نفسیات کے تحت مداخلت نہ کی جائے تو فرد اور سماج دونوںچیلنج - رسپانس (challenge-response) کے پراسس کے تحت اپنے آپ بھر پور طور پر ترقی کرتے ہیں — عقل مند انسان وہ ہے، جو مسائل میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے امکان تلاش کرے، اور اس کو اویل (avail) کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںاللہ کی صفت کو بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ (
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو ایک امانت دی ہے،جو کائنات میں کوئی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔انسان نے اس امانت کو اٹھالیا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا(
امانت کیا ہے۔ امانت سے مراداختیار و ارادے کی آزادی ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی خصوصیت ہے۔اس بنا پر اس کو امانت کہا گیا ہے۔اس خصوصیت کو اللہ رب العالمین نے عارضی طور پر انسان کو بطورِ آزمائش عطا کیا ہے۔ تاکہ انسان خود اپنے ارادے سے خدا کا تابعدار بنے، اور اپنے آپ کو خدا کے کنٹرول میں دے دے۔ اس کائنات میں صرف اللہ حاکم ہے، اور تمام چیزیں اس کی محکوم ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ ایک ایسی آزاد مخلوق پیدا کرے، جو کسی جبر کے بغیر خود اپنے اختیار سے وہی کرے، جو خدا اس سے کروانا چاہتا ہے۔ اب انسان موجودہ دنیا میں خدا کی ایک امانت کا امین ہے۔ اس کو اپنے اختیار سے وہی کرنا ہے، جو خدا دوسری چیزوں پر کر رہا ہے۔ انسان کوخود اختیاری سے اپنے آپ پر خدا کا حکم چلانا ہے۔
اس کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔ خود اختیار کردہ اخلاقیات کے ساتھ زندگی گزارنا کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں زندگی کا ایک اصول ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا(
اس دنیا میں ہر ایک کو اپنا امتحان دیناہے ۔ یہ امتحان صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہے۔ امتحان کا یہ نظام کسی انسانی گروہ کی جانب مقرر کردہ سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق براہ راست طور پر خالقِ کائنات سے ہے۔کسی اورکے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خالق کائنات کے مقرر کیے ہوئے کورس کا خاتمہ کرسکے۔لیکن اللہ نے آپ کے لیے اس دنیا میں یہ امکان ضرور رکھا ہے کہ اگر کوئی اپنی آزادی کاغلط استعمال (misuse) کررہا ہے تو آپ سازش یا مخالفانہ تدبیر کو آزادی کے حدود میں رہتے ہوئے اپنی جوابی تدبیر سے غیر موثر بناسکیں۔
مثلاً اگر آپ کو یہ شکایت ہے کہ پولیس آپ کے خلاف ہے، اور وہ آپ پر گولی چلاتی ہے تو آپ اس معاملے کا موضوعی انداز میں مطالعہ کیجیے۔ گہرے مطالعے کے ذریعے آپ دریافت کریں گے کہ پولیس کبھی ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود سے آپ کے اوپر گولی چلائے۔ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر ماریں گے۔ اس کے بعد پولیس جوابی کارروائی کے طورپر آپ کے اوپر گولی چلائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر نہ ماریں۔اس کے بعد پولیس آپ پر گولی بھی نہیں چلائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے قانون کےمطابق ناموافق صورتِ حال کا وجود کبھی ختم نہ ہوگا، البتہ دانشمندانہ منصوبہ بندی کے ذریعہ اس کو اپنے لیے بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اجتماعی زندگی کبھی یکساں نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا، جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا۔ ایسے موقع پر ہمیشہ یہ عقل کی بات ہوتی ہے کہ آدمی کم پر راضی ہوجائے۔ آئڈیل کی مانگ کرنا، عملاً اس نتیجے تک پہنچنا ہے کہ جو ممکن ہے، وہ بھی نہ ملے، اور زیادہ تو ملنے والا ہی نہیں تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ اِس دنیا میں ا جتماعی اختلافات کبھی معیار (ideal) کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے۔
عام طور پر انسان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ متاثر ذہن (conditioned mind)سے سوچنے کی بنا پر صحیح فیصلہ نہیں لے پاتا۔ وہ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتا ہے۔جہاں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، وہاں وہ جلد بازی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جہاں پر امن تدبیر کے ذریعہ مسئلہ حل کرنا چاہیے، وہاں وہ تشدد کا طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جہاں رد عمل (reaction) سے بچ کر اپنا منصوبہ بنانا چاہیے، وہاں وہ ری ایکشن کا شکار ہوکر ایسا منصوبہ بناتا ہے، جو مسائل میں صرف اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اسے اس کا مطلوب آئڈیل کی بنیاد پر حاصل ہو۔اس بنا پر وہ ایسا کرتا ہے۔ مگر یہ طریقہ وزڈم کے خلاف ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو نتیجے کے اعتبار سے دیکھے۔ اس طرح مسئلہ کسی مزید دشواری کے بغیر بہ آسانی حل ہوجائے گا۔
اس دنیا میں اختلاف کے معاملے میںآپشن دو بہتر کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ چھوٹے شر (lesser evil)اور بڑے شر (greater evil)کے درمیان ہوتا ہے۔اسی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیر الشرین کہا ہے(العقد الفرید، جلد2، صفحہ109-110)، یعنی عقل مند وہ ہے، جو دو برائیوں (evils) میں سے کمتر بُرائی (شر)کو پہچانے۔ اگر آدمی چھوٹے شر پر راضی نہ ہو تو اس کے بعد اس کو جس چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، وہ بڑا شر ہے۔اس حقیقت کو صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ اس طرح بیان کیا ہے: جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر پر راضی نہیں ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258)۔
اختلاف کے وقت دانش مند آدمی کے لیے پہلا آپشن کیا ہوتا ہے۔ وہ یہ ہےکہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو قبول کرتے ہوئے اس سے صلح کرلی جائے۔پیغمبر اسلام کی یہی سنت رہی ہے۔ اسی سنت کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا۔ کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہا جاتا ہے ۔
پریکٹکل وزڈم کی وجہ سے آپ کو ملنے والی چیز ابتدا میں بہ ظاہر کم نظر آتی ہے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر بہت سے صحابہ کو لگا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2731)۔ لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آئڈیل وزڈم نتیجے کی اعتبار سے بے فائدہ ٹکراؤ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے برعکس، پریکٹکل وزڈم غیر ضروری نقصان سے بچا کر کامیابی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔پریکٹکل وزڈم ہمیشہ آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ اس کو اسٹارٹنگ پوائنٹ مل جائے۔ اسٹارٹنگ پوائنٹ سے آغاز کرکے آدمی زیادہ کو پاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اسی اصول پر مبنی تھی۔
غیر حقیقت پسندانہ رہنمائی
ایک صاحب کا مضمون پڑھا، اس کا پہلا جملہ یہ تھا: مسائل تو اس امت کو ورثے میں ملے ہیں۔یہ پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ قاری کو اس مضمون سے کیا ملے گا۔ مسلم قاری کا ذہن منفی ذہن بنے گا۔ وہ سمجھے گا کہ میری زندگی مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ اس سے اس کے اندر شکایتی ذہن پیدا ہوگا، جو بڑھ کرکے نفرت کا ذہن بن جائے گا۔ اب اگر اس کے حالات ٹکراؤ کے موافق ہیں، تو وہ ٹکراؤ شروع کردے گا، اور اگر ایسا نہیں ہے تو قاری مستقل طور پر ڈبل اسٹینڈرڈ میں جینے لگے گا۔ یعنی وہ زمانے سے نفرت کی سوچ کے ساتھ جیے گا۔ مگر عملا ًوہ مصالحت کی زندگی گزارے گا۔ مسلم شعرا کے یہاں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔مثلاًاقبال کا یہ شعر
گفتند جہان ما آیا بہ تو می سازد؟ گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
یعنی اس نے کہا کہ میرا پیدا کردہ یہ جہاں تمہارے ساتھ سازگاری کررہا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں،یہ سازگاری نہیں کر رہا ،تو اس نے کہاکہ اسے درہم برہم کر دو۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ذہن عام طور پر اسی قسم کا ہے۔ وہ منفی ذہن کے ساتھ جیتے ہیں،اور زمانے کے ساتھ ٹکراؤ کرنا چاہتے ہیں، لیکن عملاً زمانے کو ناساز پاکر ڈبل اسٹینڈرڈ کے تحت مصالحانہ زندگی اختیار کرلیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے اندر کوئی ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔ کیوں ایسے لوگ ہمیشہ منفی ذہن کے ساتھ جیتے ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حالتِ موجودہ میں مواقع کو تلاش کرے۔ آدمی مسائل کو نظر انداز کرے، اور مواقع کو دریافت کرکے ان کی بنیاد پر اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ مثلاً اگر وہ دیکھے کہ اس کے ماحول میں ایک گروہ کو ریزرویشن ملا ہوا ہے، جس سے تعلیم گاہوں میں اس کو بہ آسانی داخلے مل جاتے ہیں۔ اس کو بہ آسانی سروس حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ ان حالات کا مطالعہ کرے۔ اگر وہ غیر جانبدارانہ انداز میں مطالعہ کرے گا ، تو وہ دریافت کرے گاکہ ریزرویشن ایک محدود دائرے میں عمل کرتا ہے۔ محدود دائرے کے باہر تمام مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اگر ریزرویشن کے دائرے سے باہر جاکر محنت کرے، تو اس کو نئے نئے دائرے حاصل ہوں گے، جہاں وہ ریزرویشن کے بغیر بھی اچھے مواقع پاسکتا ہے۔
مثلاً میرے چھوٹے بھائی ایک کالج میں داخلے کے لیے گئے۔ وہ تاخیر کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔جب کہ داخلے کا وقت نکل چکا تھا۔ پرنسپل کو جب معلوم ہوا کہ طالب علم تاخیر کے ساتھ آیا ہے، تو اس نے فرض کرلیا کہ یہ تھرڈ کلاس کا طالب علم ہوگا، اسی لیے اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا، تو اب وہ ہمارے ادارے میں آیا ہے۔ پھر گفتگو کے دوران پرنسپل نے پوچھا کہ تمھارے مارکس کتنے ہیں۔ طالب علم نے جواب دیا: سر،
یہ سنتے ہی پرنسپل فوراً اس کے لیے ہمدرد بن گیا، اور اس کو اپنے کالج میں داخلہ دے دیا۔ یہ طالب علم بعد کو فرسٹ کلاس میں پاس ہوا، اور اپنی بعد کی زندگی میں کامیاب رہا۔ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی مواقع کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ، خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیفِ، وَفِی کُلٍّ خَیْرٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے، اور بھلائی ہر ایک کے لیے ہے۔
ایک شخص اگر پیدائشی طور پر طاقت ور ہو تو اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرلے۔ لیکن جو انسان پیدائشی طور پر کمزور ہو، وہ بظاہر اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرسکے۔ لیکن خیر دونوں کے لیے ہے۔ ایک کےلیے اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر ، اور دوسرے کے لیے اللہ کی مدد کی بنیاد پر۔
جو آدمی کمزور اور عاجز ہو، وہ اگر منفی نفسیات میں مبتلا نہ ہو تو اس کے اندر اللہ کی یاد جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اللہ سے مدد کا طالب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کی مدد پر آجاتا ہے۔ جب کمزور انسان یہ کہتا ہے کہ خدایا، تونے مجھ کو کمزور پیدا کیا، اب تجھ ہی کو یہ کرنا ہے کہ تو میری کمزوری کی تلافی کرے۔ اس قسم کی دعا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ ایسے انسان کی طرف مزید اضافے کے ساتھ متوجہ ہوجاتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ کو طاقت ور پائے، اس کے اندر اپنے آپ پر بھروسے کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس جو آدمی اپنے آپ کوعاجز اور کمزور پائے۔ اس کے اندر اللہ سے طلب کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے کہ خدایا، تونے مجھے ضعیف پیدا کیا ہے۔ اب تو ہی میرے ضعف کی تلافی فرما۔ اس طرح کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور بندۂ ضعیف اللہ کی مدد سے وہ کام کرلیتا ہے، جو اکثر حالات میں بندۂ قوی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اس کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ بندۂ ضعیف کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں
Modern Hospital, Centre of New Hope
ماڈرن ہاسپٹل کیا ہے۔ انسانی جسم، اور اس کے فنکشن کو سمجھنے کا مقام ہے۔جہاں میڈیکل سائنس کی بنیاد پر انسانی جسم کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔پہلے زمانے میں علاج کا تصور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے روایتی علاج پر قائم تھا۔ سائنس نے میڈیکل دنیا میں یہ تصور دیا کہ ماڈرن میڈیکل ٹکنالوجی کے ذریعے جسمانی فنکشن کا مشاہدہ کرکے اس کا علاج کیا جائے:
Medical science covers many subjects which try to explain how the human body works. Starting with basic biology it is generally divided into areas of specialisation such as anatomy, physiology and pathology with some biochemistry, microbiology, molecular biology and genetics.
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ اس کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل پر انسان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ کاؤنٹ ڈاؤن کی اس مدت کو اچھی طرح مینٹین (maintain) کرے، تاکہ وہ زیادہ مدت تک اپنے آپ کو قابل کار بنائے رکھے۔ جدید اسپتال اسی انسانی انجینئرنگ کا سینٹر ہے۔ لیکن یہ سینٹر خواہ کتنا ہی اچھی طرح عمل کرے، اس کے ساتھ یہ ضروری ہوتا ہے کہ انسان کا خود اپنا عمل صحیح سمت میں جاری رہے، اگر انسان کے عمل اور خارجی میکنزم میں موافقت نہ رہے، تو اس بندوبست کا بہت جزئی فائدہ حاصل ہوگا۔
اس معاملے میں انسان کا خود اپنا رول یہ ہے کہ وہ ہیلتھ کے فطری قوانین کو سمجھے، اور اس کو بھرپور طور پر اپنی زندگی میں برقرار رکھے۔ اگر انسان اپنے حصے کا یہ کام نہ کرے تو خارجی انجینئرنگ اس کے لیے بہت کم مفید ثابت ہوگی۔ مثلاً انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی مضر عادت نہ اپنائے۔ وہ کسی غیر ضروری چیز کا شائق نہ بن جائے۔ وہ ہمیشہ اپنی حد کو جانے، اور اپنی فطری حد کے اندر ہر کام انجام دے۔ وہ اپنی زندگی میں بقدر ضرورت پر قانع رہے، نہ کہ زیادہ سے زیادہ (more and more) کا طالب بن جائے۔وہ حرص کے بجائےقناعت کا طریقہ اختیار کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک انسانی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے قریبی مطالعے کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (
انسان خدا کو براہ راست نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ وہ تخلیق کی معرفت حاصل کرکے خدا کی موجودگی کے یقین تک پہنچ سکتا ہے۔ کائنات ایک موجود حقیقت ہے۔ خدا اس موجود حقیقت کا واجد (وجود دینے والا) ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کائنات کا موجود ہونا،اپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت موسی اسرائیلی سلسلۂ نبوت کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ان کاایک واقعہ قرآن میں اس طرح ذکر ہوا ہے:(ترجمہ)اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا، مجھے اپنے کو دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھوں۔ فرمایا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو تم بھی مجھ کو دیکھ سکو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا۔ اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑا۔ پھر جب ہوش آیا تو بولا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں اول المومن ہوں(
قرآن کی اس آیت پر غور کیجیے۔ اس میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ قَالَ لَنْ تَرَانِی(کہا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے)۔ دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں کہ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ(میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں)۔ ان دونوں الفاظ کے فرق پر غور کیجیے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان براہ راست اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ وہ بالواسطہ طور پر اللہ کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ بالواسطہ انداز پہلی بار گلیلیو گلیلی کے زمانے میں پیش آیا، جب کہ گلیلیو نے حقیقت کو دوربین کے ذریعے دیکھا۔ دور بین کے ذریعے پہلی بار وہ میتھڈ قائم ہوا، جو حقیقت اعلیٰ کی معرفت کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ کوانٹم فزکس (quantum physics) کے زمانے میں یہ ثابت ہوا کہ مادہ (matter) کا آخری جزء سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) ہے، اور سب ایٹمک پارٹکل براہ راست طور پر قابل مشاہدہ نہیں۔ یہ سب ایٹمک پارٹکل مسلسل طور پر حرکت کی حالت میں رہتا ہے۔ اس حرکت کے دوران اس سے ہیٹ (heat) جنریٹ ہوتا ہے۔ یہ ہیٹ (heat) صرف آلاتی طور پر قابلِ دریافت ہے۔ اس طرح مادہ کا آخری جزء قابل دریافت بن جاتا ہے۔یہی معاملہ خالق کائنات کا ہے۔ خالق کائنات بلاشبہ اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے۔ لیکن انسان کی نسبت سے وہ صرف بالواسطہ طور پر قابل دریافت ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں خالق کائنات کو رب العالمین کہا گیا ہے۔ راغب الاصفہانی(وفات
انسانی تاریخ میں اللہ تعالی صفت ربوبیت کا اظہار مختلف اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
اس معاملے میں انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ خدا کی حمد کرے، اور الحمد للہ کلچر کو اپنائے۔ حمد کی حقیقت شکر ہے۔جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے:الْحَمْدُ رَأْسُ الشُّکْرِ، مَا شَکَرَ اللہَ عَبْدٌ لَا یَحْمَدُہُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4085)۔ یعنی حمد شکر کی بنیاد ہے، اس بندے نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا، جو اس کی حمد نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ کی صفت غضب بھی ہے اور رحمت بھی۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ وہ اس کو اپنے غضب کا تجربہ کرائے تو یہ بلاشبہ اللہ رب العالمین کا ایک کمتر اندازہ (underestimation) ہوگا۔زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اس لیے پیدا کیا کہ اللہ رب العالمین اس کو اپنی رحمت کا تجربہ کرائے۔ یہی تصور اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ(
باپ کے اندر اپنے بیٹے کے لیے ایک اعلیٰ شریفانہ جذبہ ہوتا ہے، جس کو پدرانہ شفقت (fatherliness)کہا جاتا ہے۔ یہ جذبہ باپ کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی غلطی کو سنبھالے، وہ اپنے بیٹے کو اس کی غلطی کا انجام بھگتنے نہ دے۔ یہ صفت بلاشبہ خالق کے اندر بے شمار گنا حد تک زیادہ ہے۔ اس صفت کی بنا پر جس طرح خالق کے غضب پر اس کی رحمت غالب آجاتی ہے۔ اسی طرح بندے کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے مہربان خالق کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی رجاء (hope)اس کے خوف پر غالب آجاتی ہے۔ وہ یہ امید کرتا ہے کہ اس کا مہربان خالق اس کی غلطیوں کو سنبھالے گا، وہ اس کو اس کی غلطیوں سے بچالے گا۔یہ احساس آدمی کو اللہ کی رحمت کا یقین دلاتا ہے۔
زندگی کا یہ تصور اگر آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ ایک طرف وہ ہمیشہ آخرت کی پکڑ سے ڈرتا رہے، دوسری طرف یہ مزاج اس کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کے بارے میں پر امید (hopeful) بنا رہے— رحمت، اللہ کی صفت عام ہے، اور اللہ کاغضب ایک استثنائی (exceptional)معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت کے مطابق، جنت میں وہ لوگ داخلہ پائیں گے، جن کو پیشگی طو رپر جنت کی معرفت حاصل ہوئی ہو: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (
جنت کی پیشگی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جنت کے موضوع پر اتنا زیادہ تدبر کرے کہ جنت اس کے لیے اجنبی چیز نہ رہے، بلکہ وہ ایک جانی پہچانی حقیقت بن جائے۔ یعنی جنت اس کے لیے ایسی چیز بن جائے، جس کو اس نے دیکھے بغیر دیکھا ہے۔ پہلے زمانے میں انسان کو حیوانِ ناطق کہاجاتا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
conceptual thinking animal
انسان کی یہی خصوصیت ہے، جو کسی صاحبِ ایمان کو عارف بالجنۃ انسان بناتی ہے۔ جنت کی طلب انسان کے لاشعور میں فطری طو رپر بسی ہوئی ہے۔ اس کے بعد جب وہ دنیا میں اللہ کی نعمتوں کوپاتا ہے، اور اس پر غور کرتا ہے تو وہ دوبارہ جنت کا تعارف حاصل کرلیتا ہے۔اس لیے جنت انسان کے لیے ایک قابلِ دریافت چیز ہے۔ جس طرح ایک سائنسداں مظاہر فطرت پر غور کرکے فطرت کے ایک قانون کو دریافت کرتا ہے، اسی طرح ایک مومن اللہ کی نعمتوں پر غور کرکے جنت کا تعارف حاصل کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ انسان کو تخلیق کے بعد جنت میں رکھا گیا تھا، پھر اس کو جنت سے نکلنا پڑا۔ اس اعتبار سے جنت انسان کے لیے ایک دیکھی ہوئی چیز کو پانے کے ہم معنی ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440) ۔ یعنی اہل جنت میں سے ہر ایک اپنے جنت کے مسکن کو اس سے زیادہ جانے گا، جتنا وہ دنیا میں اپنی منزل کو جانتا تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک کردار کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:یُخَادِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (92)۔ یعنی وہ دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو ، اور ان کو جو لوگ ایمان لائے ،اور نہیں دھوکہ دیتے مگر اپنے آپ کو ،اور نہیں سمجھتے ۔
اللہ کو دھوکہ دینے کا کام کون کرتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے، جو سماج میں اپنی امیج (image) بنانے کے لیے ایسے انداز میں بولتا ہے کہ عام لوگ اس کے بارے میں غلط فہمی میں پڑجائیں، وہ جھوٹ کو سچ مان لیں، اور بناوٹی بات کو حقیقی بات سمجھ لیں۔ اپنے دنیوی معاملات میں ہوشیار ہونا ،اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں، وہ گویا اللہ رب العالمین کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کو دھوکہ دینا اپنے جرم کو ڈبل بنانا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ایسی کوشش سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے۔
مثلاً لوگوں میں اختلافات کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی حقیقی جواز نہیں ہوتا۔ اختلافات کی جڑ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ تاہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنے اختلاف کو جائز اختلاف بتانے کے لیے اس کا کوئی ایساسبب پیش کرتے ہیں، جو ان کے اختلاف کو جائز قرار دیتا ہو۔ وہ اپنے ذاتی اختلاف کو جائز اختلاف کا نام دے دیتے ہیں۔
اسی کو قرآن میں اللہ کو دھوکہ دینا کہا گیا ہے۔ یعنی ان کا حقیقی مقصد تو ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ لیکن وہ ایسے الفاظ بولتے ہیں، جو ان کے اصل مقصد کو چھپانے والا ہو، اور یہ ظاہر کرتا ہو کہ صرف حق کے لیے وہ ایسا کررہے ہیں۔ اس قسم کے واقعے کو یہاں اللہ کو دھوکہ دینا کہا گیا ہے۔ یعنی عالم الغیب جو تمام حقیقتوں سے باخبر ہے، اس کو معلوم ہے کہ کس نفسیات کے تحت کوئی اختلاف کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے۔ لوگوں کو جاننا چاہیے کہ آخرت میں ان کا معاملہ حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے جانچا جائے گا، نہ کہ ان کے بولے ہوئے الفاظ کی نسبت سے۔
واپس اوپر جائیں
خدا رخی زندگی یہ ہے کہ آدمی اللہ رب العالمین کو اس طرح دریافت کرے کہ وہ اس کی زندگی میں شامل ہوجائے۔ وہ خدا کی یاد کے ساتھ سوئے، اور خدا کی یاد کے ساتھ جاگے۔ وہ خدا کی دنیا میں خداوالا بن کر رہے۔ دنیا کی ہر چیز اس کو خدا کی یاد دلانے والی بن جائے۔ اس کے مقابلے میں بےخدا زندگی یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوکر اس دنیا میں آگیا ۔ لیکن اس نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے اپنے خالق کو دریافت کرے۔ وہ اپنے آج میں مشغول رہے، مگر وہ اس حقیقت کو دریافت نہ کرے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔
میرا تجربہ ہے کہ اگر لوگوں سے مسلم ایمپاورمنٹ کی بات کی جائے، تو ہر آدمی شوق سے سنے گا۔ بہت جلد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجائے گی۔ ہر آدمی چاہے گا کہ وہ مسلم ایمپاورمنٹ کی کوشش میں اپنا حصہ ادا کرے۔اس کے برعکس، اگر خدا اور آخرت کی بات کی جائے، تو اچانک محسوس ہوگا کہ لوگوں کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ لوگ اس کو اس طرح لینے لگے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی غیر متعلق بات ہے۔ مسلم ایمپاورمنٹ کی بات لوگ اس طرح سنیں گے، جیسے کہ وہ ان کی اپنی بات ہو۔ اس کے برعکس، خدا اور آخرت کی بات لوگ اس طرح سنیں گے ، جیسے کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کے حصول کی طرف دوڑ لگا ر ہے ہیں۔ دنیا کے معاملے میں وہ تکاثر کی نفسیات میں جیتے ہیں، نہ کہ قناعت کی نفسیات میں۔ موجودہ زمانے کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جلسہ اور جلوس کی دھوم ہے، لیکن اسلام کے اعتبار سے حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ قدر چیز نظر نہیں آتی۔ لوگوں کے درمیان فارم کی دھوم ہے، لیکن اسپرٹ کے اعتبار سے دیکھیے، تو وہ ہر جگہ مفقود نظر آئے گی۔ اسی کو حدیث میں ان الفاظ میں کہا گیا ہے:مَسَاجِدُہُمْ عَامِرَةٌ وَہِیَ خَرَابٌ مِنَ الْہُدَى(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔یعنی ان کی مسجدیں آباد ہیں، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہیں۔
واپس اوپر جائیں
آج کل ہر لکھنے والا اور بولنے والا مسلمان الفاظ کا جنگل بکھیر رہاہے۔ ہر لکھنے اور بولنے والا مسلمان بے تکان لکھ رہا ہے، اور بول رہا ہے۔ لیکن اگر آپ ان کے کلام کو سنیں یا پڑھیں، تو تقریباً بلااستثنا آپ یہ پائیں گے کہ الفاظ کے اس جنگل میں آپ کے لیے کوئی ٹیک اوے نہ ہوگا۔ حتی کہ ان کا کلام صحافت کے سادہ تقاضوں سے بھی خالی ہوگا۔
اصل یہ ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک، وہ جو سوچتے ہیں، اور پھر بولتے ہیں۔ جن کی ہر بات احساسِ ذمے داری کا نتیجہ (outcome) ہوتی ہے۔ جن کا کلام ان کی پوری شخصیت کا ترجمان ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے، جن کے حافظے میں الفاظ کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ وہ جب بولتے ہیں، تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کہ ان کا ذہن ایک ماہر ذہن ہے،جو سوچے بغیر بولے چلاجارہا ہے۔
اس سلسلےمیں ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس میں بعد کے زمانے کی پیشین گوئی کی گئی ہے ۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے:وَیُقَالُ لِلرَّجُلِ:مَا أَعْقَلَہُ وَمَا أَظْرَفَہُ وَمَا أَجْلَدَہُ، وَمَا فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیمَانٍ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6497، صحیح مسلم، حدیث نمبر
غالباً اس حدیث میں موجودہ زمانے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔موجودہ زمانہ ایک اعتبار سے اسٹیج ایکٹوزم کا زمانہ ہے۔ جو آدمی اسٹیج پر عوام پسند بولی بول سکے، وہ اچانک مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کا ہر جگہ استقبال کیا جاتا ہے۔ لوگ اس کی باتوں کو شوق کے ساتھ سنتے ہیں، اور تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کو تیزی سے سستی مقبولیت (cheap popularity) حاصل ہوجاتی ہے۔ وہ میڈیا میں نمایاں ہوجاتا ہے۔ خوبصورت الفاظ بولنا ہی اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے کہ وہ ہر جگہ سنا جائے۔ میڈیا میں اور اخبارات میں اس کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ مجلسوں میں اس کا چرچا ہوتا ہے، وغیرہ۔ اسٹیج کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے اندر وہ مزاج بن جاتاہے، جس کوایک ہندومفکر نے باہری یاترا کا نام دیا تھا، یعنی سیلف تھنکنگ (self-thinking) کے بجائے اکسٹرنل تھنکنگ ۔
انسان کو فطری طور پر مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ۔مثلاً پاؤں کے اندر چلنے کی صلاحیت، ہاتھ کے اندر پکڑنے کی صلاحیت، آنکھ کے اندر دیکھنے کی صلاحیت۔ کان کے اندر سننے کی صلاحیت، وغیرہ۔ اِسی طرح انسان کو عقل دی گئی ہے، جو سوچنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر اکثر انسان اپنی اس صلاحیت کو درست طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنے منصوبۂ تخلیق سےبے خبر رہتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنی باتیں سناتا رہتا ہے، لیکن خود اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوںکو دریافت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کو خوش کرنے والی بولی بولتے ہیں۔ انھیں اس کا وقت نہیں ملتا کہ وہ اپنے بارے میں سوچیں، اور اپنی ذات کے ارتقا کی فکر کریں۔
انسان کو جس دنیا میں جینا پڑتا ہے، وہ گویا ایک عالمی جنگل ہے، اس جنگل میں ہر جگہ حکمت و معرفت کا نِکٹر (nectar) چھپا ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ اللہ نے انسان کو خصوصی صلاحیت دی ہے، جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں دی۔وہ بذریعہ عقل تدبر و تفکر کی صلاحیت ہے۔ تدبر کی صفت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔ وہ غور و فکر کرکے حکمت و معرفت کے چھپے ہوئے نکٹر کو دریافت کرے۔ جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت ہوتی ہے،وہ شہد کی مکھی کی مانندانسانی تہذیب کے اس جنگل میں معرفت کا نِکٹر دریافت کرتے ہیں۔اس کے ذریعے اپنے آپ کو وہ انسان بناتے ہیں، جس کو صاحبِ معرفت انسان (realized soul) کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اخلاقیات (ethics) کا معاملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہبی شریعت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ سیکولر دستور کا معاملہ ہے۔ اخلاق کی صحت کے لیے کوئی مذہبی شرط نہیں ہوسکتی۔ اخلاق کی صحت کے لیے صرف ایک ہی قابلِ قبول شرط ہے، اور وہ یہ کہ اخلاقی اصول کو انصاف کے مطابق ہونا چاہیے۔ اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی طور پر قابلِ قبول (mutually acceptable) معاملہ ہو، اور پورے سماج کے ہر فرد کو یکساں طور پر درست نظر آئے۔ اخلاق وہی ہوسکتا ہے، جو سماجی تعمیر کے اصول پر مبنی ہو۔ اخلاق سماجی انصاف کا موضوع ہے، اور سماجی انصاف اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک سیکولر موضوع ہے۔ اخلاق کا معیار (criterion) صرف ایک چیز ہے، اور وہ فطری انصاف (natural justice) ہے۔ مذہب کو اخلاقیات کا معیار بنایا جائے تو کبھی اخلاقی سماج نہیں بنے گا۔ اس کے برعکس، نیچرل جسٹس کی بنیاد پر اخلاق کا نظام بنایا جائے تو وہ بہ آسانی قائم ہوجائے گا۔ کیوں کہ نیچرل جسٹس سب کے لیے قابل قبول بنیاد ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔قرآن میں میزان (الحدید،
اخلاق کیا ہے۔ اخلاق در اصل صحیح سماجی سلوک (right social conduct) کا نام ہے۔ ایک فرد جب سماج کے اندر زندگی گزارتا ہے، تو اس وقت اس کی کچھ اجتماعی ذمہ داریاں بن جاتی ہیں۔ ان اجتماعی ذمہ داریوں کو اس طرح نبھانا کہ فرد اور سماج دونوں کے تقاضوں کی ادائیگی کے درمیان کوئی ٹکراؤ پیش نہ آئے۔ اس اعتبار سے اخلاق ان اصولوں نام ہے، جس سے سماج کی تنظیم ہو ۔ اخلاق فطرت انسانی کا سبجکٹ ہے، وہ قانون کا سبجکٹ نہیں۔
اس تعریف کے مطابق، درست اخلاق وہ ہے، جس میں فرد اور سماج دونوں کے تقاضے اس طرح پورے ہورہے ہوں کہ ایک دوسرے کے لیے پرابلم نہ بنے۔ فرد اپنی زندگی کی پلاننگ اس طرح کرے کہ اس کے اپنے انفرادی تقاضے بھی پورے ہورہے ہوں، اور اسی کے ساتھ سوسائٹی کے اجتماعی تقاضوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ فرد کو بھی یہ موقع ہو کہ وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کسی رکاوٹ کے بغیر کر سکے، اور اسی طرح سوسائٹی کو بھی یہ موقع ہو کہ اس کی اجتماعی ترقی درست طور پر جاری رہے۔
غور کیا جائے تو اس لحاظ سے اخلاق کی تعریف یہ قرار پاتی ہے کہ فرد کے اندر سوشل ذمےداریوں کا پورا احساس موجود ہو۔ وہ قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہو۔ ہر فرد یہ جانے کہ سماج کا دوسرا فرد کس صورتِ حال میں کیسا عمل کرے گا تاکہ دوسرا شخص اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی زندگی کا منصوبہ اس طرح بنائے، جو دوسروں سے ٹکراؤ کے بغیر کامیابی کے ساتھ جاری رہے۔
اس اعتبار سے اخلاق گویا انفرادی ترقی اور سماجی ترقی کے درمیان مطابقت (coordination) کے ساتھ زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے۔ مثال کے طور پر رات کا وقت ہے، اور ایک شخص کے گھر سے کوئی اچھی خبر آتی ہے۔ اب اگر اس وقت خبر پانے والا خوشی منائے تو اس کے پڑوسی کی نیند خراب ہوگی۔ اس لیے خبر پانےوالے کو خوشی منانے کا ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو بلا آواز طریقہ ہو، نہ کہ با آواز طریقہ۔
قابلِ عمل اخلاق وہی ہوسکتا ہے، جو سب کے لیے باہمی طور پرقابل قبول (mutually accepted)معاملہ ہو۔ مثال کے طور پر حکومت سازی کا معاملہ ہو ، اور اس کے لیے الیکشن کرایا جائے تو الیکشن کو فری اینڈ فیر (free and fair) بنیاد پر ہونا چاہیے۔ کیوں کہ فری اینڈ فیربنیاد ایک ایسا اصول ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہے۔ اسی طرح کوئی نزاعی معاملہ ہو تو اس کو قانون ملکی (law of the land) کے مطابق سیٹل کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ملکی قانون سماج کے تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنیاد دیتا ہے، جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، وغیرہ۔عبادت کے معاملے میں اسلام کا الگ اصول ہوسکتا ہے، لیکن سماجی اخلاقیات کے معاملےمیں اسلام کا اصول بڑی حد تک وہی ہوگا، جو سماج کے دائرے میں سب کے لیے قابل قبول ہو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیاہے کہ پوری کائنات انسان کےلیے مسخر کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک آیت یہ ہے:وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (
انسان کے لیے دوسرا تخلیقی اصول ا س آیت میں ملتا ہے: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات انسان کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made) کے طور پر بنائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ہر فرد کےلیے ایک گوشۂ خاص (personal corner) ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ذاتی گوشے کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ جو شخص ایسا کرے، وہ بہت جلد دنیا میں اپنے لیے ایک گوشۂ عافیت پالے گا۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ ساری عمر منفی سوچ میں جیے گا، اور دنیا سے حصہ لیے بغیر اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ زندگی کی اس حقیقت کو ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنْیَا (
واپس اوپر جائیں
پر عافیت زندگی کا راز صرف ایک ہے— آدمی حقیقت پسند (realist) بن جائے۔ اس معاملے میں یہی ایک ورکیبل فارمولا (workable formula)ہے، دوسرا کوئی فارمولا ورکیبل ہی نہیں۔آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ زندگی کے معاملے میں کچھ امیدیں قائم کرلیتا ہے، کبھی دنیا سے اور کبھی اپنے تعلق والوں سے، اورکبھی سماج سے۔ یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں۔ جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں، تو وہ اپنے اندر شکایت کا مزاج بنا لیتا ہے۔ اسی حقیقت سے بے خبری کے نتیجے میں تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بل تو اپنا بل ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی زندگی کا حقیقت پسندانہ فارمولا ہے۔ یعنی آدمی کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طاقت سے جو کچھ کرسکتا ہو، اس پر بھروسہ کرے۔ لیکن جو چیز اس کی ذاتی طاقت سے باہر ہو، اس پر اپنی امید کی دیوار کھڑی نہ کرے۔ اسی حقیقت کو دریافت کرنے کا نام پر عافیت زندگی ہے۔
یہ اصول خاندانی زندگی کے لیے بھی ہے، اور سماجی زندگی کے لیے بھی، حتی کہ قومی زندگی کے لیے بھی۔ اگرچہ کلی معنوں میں حقیقت پسند بننا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ جب آدمی کے اندازے پورے نہ ہوں، تو وہ برداشت کا طریقہ اختیار کرے، وہ شکایت کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ جب آدمی کسی کے ساتھ احسان کا کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ کچھ امیدوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مشہور مثل کے مطابق عمل کرے— نیکی کر دریا میں ڈال۔
اگر آپ کسی سے کوئی اچھا سلوک کریں تو تقریباً ننانوے فیصد کیسوں میں فریق ثانی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے گا۔ اس لیے عافیت کا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے میں آدمی یہ اصول اختیار کرے کہ وہ یا تو کسی کے ساتھ کوئی احسان کا معاملہ ہی نہ کرے یا وہ ایسا کرے کہ احسان کا معاملہ کرتے ہی وہ اس کو بھلادے۔
واپس اوپر جائیں
صبر کی حقیقت کیا ہے، اس کو بیان کرتے ہوئے خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب (وفات
یہ دراصل صابر انسان کی پہچان (identity) ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، اس کے اندر اسی قسم کی اعلی انسانی صفت موجود ہوگی۔کریم انسان سے مراد شریف اور سنجیدہ انسان ہے۔ جو اعلیٰ سوچ کا مالک ہو، جو بولنے سے پہلے سوچے، جو بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھتا ہو، جو بولے کم، اور سوچے زیادہ، جس کے اندر ردعمل (reaction) کا مزاج نہ ہو، وغیرہ۔
اعلیٰ سوچ کیا ہے۔اعلیٰ سوچ ایک لفظ میں بگ برڈ تھنکنگ (Big Bird Thinking) کا دوسرا نام ہے۔ بگ برڈ تھنکنگ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خطرناک طوفان آتے ہیں، تووہاں پر موجود چھوٹے چھوٹے پرندے جو زیادہ اوپر نہیں اڑ پاتے ہیں، وہ طوفان میں پھنس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ا س کے برعکس، بڑے پرندے، جو اونچائی پر اڑان بھرتے ہیں، وہ طوفان سے بچنے کے لیے مزید اوپر چلے جاتے، جہاں طوفانی ہواؤں کا اثر نہیں ہوتا۔اس طرح وہ طوفان سے اپنے آپ کو بچالیتے ہیں۔ ایک سچے انسان کو اپنے اندر یہی مزاج ڈیولپ کرنا چاہیے، یعنی مثبت سوچ کا مزاج— عقل مند آدمی وہ ہے جو ان چیزوں کے ساتھ پرامن طورپر رہ سکے، جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
In countries where there are severe storms, birds with small wings are caught up in them, but large birds with strong wings fly upwards and save themselves from becoming victims of these storms. This phenomenon has given rise to the saying: ‘Big bird of the storm.’ A spiritual person is one who has developed the capacity for ‘big bird’ thinking.
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص جب کلمہ پڑھتا ہے، تو عین اسی وقت یہ ہوتاہے کہ کلمہ کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے کہ ایمان قبول کرنے سے پہلے انسان جو عمل کرتا ہے، وہ ایمان قبول کرنے کے بعد معاف کردیا جاتا ہے۔ لیکن معافی کا یہ عمل اس طرح نہیں ہوتا، جیسے کمپیوٹر میں ایک بٹن دبایا، اور سارا ٹائپ کیا ہوا، فوراً ہی ڈیلیٹ ہوگیا۔ یہ سارا معاملہ ایک پراسس کے تحت انجام پاتا ہے، نہ کہ ٹچ بٹن میکانزم کی مانند۔
ایمان ایک دریافت کا نام ہے۔ ایمان ایک معرفت ہے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی زندگی پر غور وفکر کرے، اور پھر فکری دریافت کے طور پر اس پرکُھلے کہ اس کا خالق اللہ رب العالمین ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہے، وہ اللہ رب العالمین کا دیا ہوا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اس کو ایک بامقصد منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس غور وفکر کے نتیجے میں اس پر تخلیق کی حکمت کُھلے۔ وہ شعوری طور پریہ فیصلہ کرے کہ اس نے انکارِ خدا کی زندگی کو چھوڑا، اور اقرارِ خدا کی زندگی کو اختیار کیا۔ وہ شعوری طور پر زندگی کے اس نقشے کو اختیار کرے، جو خالقِ کائنات نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
ایمان ایک شعوری فیصلہ ہے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی زندگی کی ایک روش کو بالقصد چھوڑے، اور ایک زندگی کی دوسری روش کو بالقصد پورے عزم کے ساتھ اختیار کرے۔ انسان دنیا پرستانہ زندگی کو ترک کرے، اور آخرت پسندانہ زندگی کو عملاً اختیار کرلے۔کوئی انسان جب ایسا کرے، تو اللہ کا اعلان ہے کہ وہ اس کو اپنے بندے کے طور پر قبول فرماتا ہے، اور اس کی پچھلی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی ناکامی کے واقعات کے ایک تسلسل کا نام ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اپنی ناکامی کو اپنی کامیابی میں کنورٹ (convert)کرسکے۔ یہ زندگی کا سب سے بڑا راز ہے۔ کامیاب وہ ہے، جو اس راز کو جانے، اور اس کو جانتے ہوئے اپنی زندگی کی پلاننگ کرسکے۔
انسانی زندگی کی یہ نوعیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی انسان اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کا نشانہ الگ ہے۔ ہر ایک کی سوچ مختلف ہے۔ ہر ایک آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے جس منزل کا چاہے انتخاب کرے۔
زندگی کی اس نوعیت نے زندگی کو ایک ایسی دنیا بنا دیا ہے، جہاں مسابقت اور چلن کا ایک سمندر ہے۔ ہر آدمی مجبور ہے کہ وہ اس سمندر کو پار کرکے اپنے آپ کو ساحل تک پہنچائے۔ جو اس راز کو نہ جانے، وہ اس سمندر میں عملاً غرق ہوجائے گا۔ اس کو زندگی کے تجربے سے شکایت کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ جو آدمی زندگی کی اس نوعیت کو جانے، جو عقل کو استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کی مطلوب منصوبہ بندی (planning) کرسکے، وہ ضرور کامیابی کے ساحل تک پہنچے گا۔ اس کو کوئی روکنے والا نہیں ۔
زندگی کے بارے میں یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چوائس ہے، وہ دوسروں سے لڑنا نہیں ہے، بلکہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کرتے ہوئے سفر طے کرے۔ وہ مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا میں کامیابی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی کا نام ہے، اور ناکامی یہ ہے کہ آدمی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی کے امتحان میں فیل ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی درست پلاننگ میں ناکام رہا۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت وہ ہے، جس کو غیر نزاعی طریقہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ، وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ، وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُم(ابن ماجہ، حدیث نمبر 4032) ۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ زیادہ اجر پاتا ہے اس مومن سے جو لوگوں کے درمیان نہیں رہتا، اور لوگوں کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔
اجتماعی زندگی میں کام کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک، نزاعی طریقہ اور دوسرا، غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational approach)۔ موجودہ زمانے میں جو سیاسی طریقہ عام طورپر رائج ہوا ہے، وہ زیادہ تر نزاعی طریقہ (confrontational approach) ہوتا ہے، یعنی برسرِ اقتدار پارٹی سے نزاع کرتے ہوئے اپنا طریقِ کار متعین کرنا۔اس معاملے میں دوسرا طریقہ غیر نزاعی طریقہ ہے۔ غیر نزاعی طریقے کا دوسرا نام پرامن تعمیری طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجود صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش نہ کرنا، بلکہ کامل طور پر غیر نزاعی طریقے کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنانا۔
جب آدمی سوسائٹی میں رہتا ہے تو اس کے لیے صحیح یہ ہے کہ وہ نو پرابلم انسان بن کر رہے۔ نوپرابلم انسان بننے کا اصول یہ ہے کہ آدمی کے اندر قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) موجود ہو۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔ یعنی دوسرا آدمی یہ جانے کہ اس کا سلوک آپ کے ساتھ کیا ہوگا۔ اصولی طور پر ہر انسان بے مسئلہ انسان کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن پیدا ہونے کے بعد ماحول کے اثر سے وہ مسئلے والا انسان بن جاتا ہے۔ اپنے آپ کوماحول کی کنڈیشننگ سے بچائیے، اور آپ اس دنیا کے لیے ایک رحمت والے انسان بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:قَالَ عَبْدُ اللَّہِ:کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَحْکِی نَبِیًّا مِنَ الأَنْبِیَاءِ، ضَرَبَہُ قَوْمُہُ فَأَدْمَوْہُ، وَہُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْہِہِ وَیَقُولُ: اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3477)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ گویا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، نبیوں میں سے ایک نبی کا واقعہ آپ بیان کر رہے ہیں، اس نبی کو ان کی قوم نے مارا، ان لوگوں نے نبی کا خون بہا دیا، اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں: اے اللہ، میری قوم کو معاف کردے، بیشک وہ نہیں جانتی ۔
اس واقعے میں نبی کی حیثیت داعی کی تھی، اور مارنے والوں کی حیثیت مدعو قوم کی۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل دین کو اگر اپنے مدعو سے برے سلوک کا تجربہ ہو ، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس برے سلوک کو مدعو کی بے خبری پر محمول کرے۔ مدعو قوم کے خلاف شکایت کرنا، ان کے خلاف اخباروں میں بیان چھاپنا، مدعو کےخلاف لوگوں کو ایسے احتجاج پر ابھارنا، جس سے لوگوں میں نفرت اور تشدد پیدا ہوتا ہو، یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ اگر داعی کو مدعو گروہ کی طرف سے تکلیف پہنچے، تو داعی کے لیے صرف ایک آپشن (option) ہے۔ وہ یہ کہ داعی مدعو کے لیے اللہ سے ہدایت کی دعا کرے۔ وہ دل سے مدعو کا خیر خواہ بنے۔
اس سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَ:قِیلَ:یَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِکِینَ قَالَ:إِنِّی لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2599) ۔ یعنی ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ کہا گیا : اے خدا کے رسول، مشرکین پر بددعا کردیجیے، آپ نے کہا: میں لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں، میں بلاشبہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں— اللہ رب العالمین پر ایمان لانے والوں کے لیے صرف وہی روش جائز ہے، جو رحمت کے مطابق ہو، کسی بھی صورتِ حال میں اس کے خلاف روش جائز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاعراف میں پیغمبر کی زبان سے اپنے مدعو کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (
Well-wishing for all mankind
خدا کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس پیغمبرانہ مشن کے دو بنیادی نکتے تھے،ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور بلاتفریق ہر انسان کا خیرخواہ ہونا۔ یہی مشن پچھلے تمام پیغمبروں کا تھا، اور پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بھی۔ اب امت محمدی کو ہر زمانے میں اسی مشن کو زندہ رکھنا ہے۔
اللہ کو اپنا کنسرن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے شعور کو اتنا بیدار کرے کہ وہ دریافت (discovery) کے درجے میں اللہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرے۔ یہ معرفت اتنی زیادہ گہری ہو کہ وہ انسان کے پورے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ لے۔ انسان کی پوری شخصیت اسی معرفت میں ڈھل جائے۔ اس کی سوچ اور اس کا قول و عمل اس کے عین مطابق ہو جائے۔ یہی وہ عارفانہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں ربانی شخصیت (آل عمران،
انسانی خیر خواہی وہ بنیادی اصول ہے، جس پر تمام انسانی تعلقات کی بنیاد قائم ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر انسان دوستی (human-friendly behaviour) کا کردار بنتا ہے۔ سماج کا ہر فرد سماج کا دینے والا ممبر (giver member) بن جاتا ہے۔ اپنی اصول پسندی کی بنا پر سماج کا ہر فرد قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل بن جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندریہ مزاج پرورش پاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے ، جو سلوک وہ دوسروں سے اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
روحانیت ایک ادبی زبان کا لفظ ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ لفظ مذکور نہیں۔ روحانیت اگرچہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔ لیکن یہ قرآن و حدیث کی اصطلاح نہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانیت اگر چہ باعتبار لفظ قرآن میں نہیں ہے، لیکن باعتبار معنی وہ قرآن میں موجود ہے۔ یہ قرآنی لفظ الربانیہ (آل عمران،
تاہم اسلامی روحانیت مبنی بر قلب روحانیت کا نام نہیں ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت ایک متصوفانہ اصطلاح ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل مائنڈ بیسڈ اسپریچوالٹی کا دوسرا نام ہے۔ مائنڈ بیسڈ اسپریچوالٹی کیا ہے۔ یہ صحتِ فکر یا مثبت تھنکنگ کا عمل ہے۔ یہ دراصل صحتِ فکر ہی ہے، جو انسان کو حیوان سے ممیز کرتی ہے۔
قرآن میں اس موضوع پر جو آیتیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مبنی بر ذہن روحانیت (mind-based spirituality) کو مانتا ہے۔ مبنی بر قلب روحانیت (heart-based spirituality) کا تصور اسلام میں موجود نہیں۔قرآن میں عقل کے مترادف کم سے کم چھ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— عقل، فؤاد، لب، قلب، حجر، نُہٰی۔ان کے سوا قرآن میں اور بہت سے الفاظ ہیں، جو بالواسطہ طورپر عقل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً سمع اور بصر، وغیرہ۔ یہ ایک واحد حقیقت کو بتانے کے لیے مختلف الفاظ ہیں۔
یہ جوبتایا جاتا ہے کہ عقل سوچ کا مرکز ہے، اور قلب جذبات کا مرکز ۔یہ درست تصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور فکر کے تمام پہلوؤں کا مرکز ایک ہی ہے، اور وہ عقل ہے۔ قلب (heart) کا فنکشن صرف ایک ہے، اور وہ ہے انسان کے جسم میں تیار شدہ خون کو رگوں کے ذریعے جسم کے تمام حصوں میں پہنچانا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قلب (heart) کو تھنکنگ ہارٹ (thinking heart) سمجھنا، ایک بے خبری کا کیس ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے۔ وہ 570 عیسوی میں قدیم مکہ میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں اُن کو خدا کی طرف سے پہلی وحی ملی۔ اِس کے بعد انھوںنے مکہ میں اپنا مشن شروع کردیا۔ وہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن توحید تھا، یعنی خدا کو ایک ماننا، اورایک ہی خدا کی عبادت کرنا۔ جب پیغمبر ِ اسلام نے لوگوں کو توحید کا یہ پیغام دینا شروع کیا، اُس وقت مکہ کی مسجد کعبہ میں 360 بُت موجود تھے، لیکن آپ نےبتوں کی موجودگی کے مسئلے سے اعراض کیا، اوربتوں کی زیارت کے لیے آنے والوں کے درمیان اپنا مشن جاری رکھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر شروع میں خدا کی طرف سے جو تعلیمات اُتریں، اُن میں سے ایک تعلیم یہ تھی کہ نزاعی مسئلوں پر صبر کرتے ہوئے پُرامن انداز میں اپنا پیغام لوگوں کو پہنچاتے رہو(المدثر،
پیغمبر اسلام کی زندگی اور اُن کی تمام تعلیمات اور واقعات آج بھی پوری طرح محفوظ ہیں۔ کوئی بھی شخص اُن کا مطالعہ کرکے خالص تاریخی معیار پر آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ آپ کی حیثیت پورے معنوں میں ایک تاریخی پیغمبر کی ہے۔
پیغمبر اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ خود آپ کے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— خدا سے ڈرنا، اور اچھے اخلاق کے ساتھ دنیا میں رہنا (تَقْوَى اللَّہِ وَحُسْنُ الخُلُقِ) جامع الترمذی، حدیث نمبر 2004۔ خدا سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) سمجھے۔ وہ خدا کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جائے۔
اچھے اخلاق کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو معیار دیے ہیں۔ اچھے اخلاق کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ انسان ، سماج کے اندر اِس طرح رہے کہ اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔ وہ سماج کا ایک دینے والا ممبر(giver member) بن جائے۔ اچھے اخلاق کا کم سے کم معیار یہ ہے کہ آدمی اپنے سماج میں بے مسئلہ انسان(no-problem person) بن کر رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2518)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم لوگ اِمَّعہ نہ بنو، یعنی یہ کہنے لگو کہ لوگ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور لوگ بُرا سلوک کریں گے، تو ہم بھی اُن کے ساتھ ظلم کریں گے۔ اس کے برعکس تم اپنے اندر یہ مزاج پیدا کرو کہ لوگ اچھا سلوک کریں، تب بھی تم اچھا سلوک کرو، اور لوگ بُرا سلوک کریں، تو تم اُن کے ساتھ ظلم نہ کرو(إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا، وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا)جامع الترمذی، حدیث نمبر 2007۔
اِس اصول کا تعلق صرف انفرادی کردار سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اجتماعی کردار سے بھی ہے۔ یہی اصول ایک خاندان کو بھی اختیار کرنا ہے۔ یہی اصول ایک سماج کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہی اصول ایک قوم کو اپنی قومی پالیسی کے لیے بھی رہ نمااصول کی حیثیت سے اپنانا ہے۔
قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ماڈل کی حیثیت دی گئی ہے (الأحزاب،
واپس اوپر جائیں
اسلام عربی زبان کا ایک لفظ ہے۔ اُس کا لفظی مطلب سرینڈر کرنا(to surrender) ہے۔ اِس سے اسلام کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں اپنے اختیار سے خدا کی اطاعت کرنے والا بن کر رہے، وہ اپنے آپ کو خدا کے حکموں کا تابع بنالے۔
انسان کو اِس دنیا میں پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ یہ آزادی جو انسان کو ملی ہے، وہ کسی حق یا انعام کے طورپر نہیں ملی ہے، بلکہ وہ صرف امتحان کے لیے ہے۔ اِس دنیا میں انسان کے لیے صرف ایک ہی انتخاب(choice) ہے، اور وہ یہ کہ وہ اپنی آزادی کو خدائی احکام کے دائرے میں استعمال کرے۔
اسلام کے مطابق، انسان کی زندگی دو مرحلوں میںتقسیم ہے— موت سے پہلے کا مرحلہ، اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ عارضی ہے، اورموت کے بعد کامرحلہ مستقل۔ زندگی کے موجودہ مرحلے میں انسان جس طرح عمل کرے گا، اُسی کے مطابق، اگلے دورِ حیات میں وہ اس کا صلہ پائے گا۔ اچھا عمل کرنے والوں کے لیے اگلے دورِ حیات میں انعام ہے، اور بُرا عمل کرنے والوں کے لیے اگلے دورِ حیات میں سزا۔
اسلام کی ایک لمبی تاریخ ہے جو اس کے آغاز کے بعد بنی۔ لیکن اسلام کیا ہے، اس کو جاننے کا ماخذ تاریخ نہیں ہے، بلکہ اسلام کا اسکرپچر (scripture) ہے، یعنی قرآن، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات۔ جس آدمی کو جاننا ہو کہ اسلامی مذہب کیا ہے، اس کو براہِ راست قرآن اور حدیثِ رسول کو دیکھنا چاہیے۔ اِس کے بغیر وہ اسلام پر صحیح رائے قائم نہیں کرسکتا۔
اسلام کوئی نسلی مذہب نہیں ہے۔ تمام انسان یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کی نجات کا فیصلہ اِس پر نہیں کیا جائے گا کہ وہ پیدائشی طورپر کس نسل سے تعلق رکھتا ہے، بلکہ اِس پر کیا جائے گا کہ اسلام کے بتائے ہوئے اصولی معیار پر کون شخص پورا اترا، اور کون شخص پورا نہیں اترا۔
اسلام کا مذہب خدا کے تصور پر قائم ہے۔ اسلام میں خدا مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام دوسری چیزیں خدا کے عقیدے سے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر جُڑی ہوئی ہیں۔ اسلامی عقیدے کی بنیاد خدا کے تصور پر ہے۔ بقیہ تمام چیزیں خدا کے تصور کا حصہ ہیں، نہ کہ اس سے الگ یا مستقل حصہ۔
اسلام میں خدا کا تصور وحدتِ وجود (monism) کے تصورپر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ توحید (monotheism) کے تصور پر مبنی ہے۔ وحدتِ وجود کے تصور میں تمام چیزیں خدا کا حصہ ہیں، مگر توحید کے تصور میں ایسا نہیں ہے۔ توحید کے تصور میں، خدا خالق ہے، اور بقیہ تمام دوسری چیزیں اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں۔ خدا اپنی ذات میں ایک علاحدہ اور مستقل وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا تمام چیزوں کا نہ صرف خالق ہے، بلکہ وہ ان کا رب اور مالک بھی ہے۔
اسلام کے تصور کے مطابق، انسان اور خدا کے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے کسی تیسرے وسیلے کی ضرورت نہیں۔ہر انسان براہِ راست طورپر خدا سے تعلق قائم کرسکتا ہے۔ ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں خدا کو دریافت کرسکتا ہے۔ ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں خدا کا عبادت گزار بن سکتا ہے۔ ہر انسان اِس پوزیشن میں ہے کہ وہ براہِ راست طورپر خدا سے تعلق قائم کرسکے۔
اسلام کی حیثیت ایک کلچر یا ٹریڈیشن (tradition) کی نہیں ہے۔ اسلام کسی سماج کا ظاہرہ بھی نہیں ہے، بلکہ اسلام ایک الہامی مذہب (revealed religion) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے ایک ہدایت نامہ ہے۔ اسلام اُسی طرح ہر انسان کی ضرورت ہے، جس طرح سورج کی روشنی ہر انسان کی ایک ضرورت ہے۔ اسلام کسی کمیونٹی کا کلچر نہیں، اسلام ہر انسان کی تلاشِ حق کا جواب ہے۔
اسلام کے مطابق، سچّا مسلم وہ ہے جو اپنے دل اور اپنے دماغ کی تبدیلی کے ذریعے مسلم بنے۔ اِس لیے اسلام میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں۔ اسلام از اوّل تا آخر امن کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے مقصد کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعے حاصل کرو، اور اگر امن کا طریقہ حصولِ مقصد میں موثر نہ ہو، تو صبر کرتے ہوئے اپنی ذاتی ذمّے داریوں کو ادا کرتے رہو۔
واپس اوپر جائیں
امام الغزالی (1058-1111ء)کی ایک مشہور کتا ب ہے: احیاء علوم الدین۔ اس میں انھوں نے جہاد بالنفس کا ذکر کیا ہے: جاہد نفسک بأسیاف الریاضة(نفس سے جہاد کرو، ریاضت کی تلوار سے)۔ امام الغزالی کے نزدیک جہاد بالنفس کیا ہے۔ انھوں نے احیاء العلوم میں جہاد بالنفس کے تحت جن مختلف باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ایک ہے کم سے کم کھانا، اور بہت تھوڑا سونا (القوت من الطعام والغمض من المنام) احیاء علوم الدین،جلد 3، صفحہ
جہاد بالنفس بلاشبہ ایک اعلیٰ اسلامی عمل ہے۔لیکن امام الغزالی نےجہاد بالنفس کا جو تصوردیا ہے، وہ درست تصور نہیںہے۔ بالقصد اپنے آپ کو جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا ، دوسرے ادیان کا تصور ہے، یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ اسلام کے مطابق، جہاد بالنفس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کے دوران فطری طور پر جو پُر مشقت احوال گزریں،ان کو منفی انداز میں نہ لینا، بلکہ ان کو صبر کے خانے میں ڈالنا۔ پرمشقت احوال کے باوجود اپنے آپ کو مثبت فکر اور مثبت عمل پر قائم رکھنا۔ جیسا کہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ساتھ شعب ابی طالب میں گزرا تھا۔ اس وقت انھوں نے مثبت سوچ (positive thinking) کا طریقہ اختیار کیا تھا۔
دوسرے الفاظ میں اس کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا — ایک، اپنے آپ کو جان بوجھ کر جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا ۔مثلاً غذا رہنے کے باوجود کئی دنوں تک نہیں کھانا، نیند کے باوجود نہیں سونا، وغیرہ۔ یہ غیر اسلامی طریقہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر کسی اعتبار سےآپ کو مصیبت یا تکلیف کا معاملہ پیش آجائے، مثلا ًآپ کہیں سفرمیں جارہے ہیں، اور وہاں آپ کو کوئی نقصان پیش آجائے، تو آپ مثبت سوچ کے ساتھ اس کو برداشت کیجیے۔اپنے آپ کوصابرانہ روش پر قائم رکھیے۔ اسلام کے مطابق، یہ جہاد بالنفس ہے۔
واپس اوپر جائیں
ماہ نامہ الرسالہ کے مضامین میں اکثر روحانیت (spirituality) پر زور دیا جاتا ہے۔ ایک صاحب جو ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، اِن مضامین کو پڑھنے کے بعد ای میل کے ذریعے اُن کا ایک سوال موصول ہوا ہے۔ انھوں نے یہ سوال کیا ہے — زندگی کے مادی تقاضے بھی ہیں اور روحانی تقاضے بھی، پھر دونوں تقاضوں کے درمیان توازن (balance)کس طرح قائم کیا جائے:
How can one maintain a balance between spirituality and materialism?
جواب یہ ہے کہ توازن کا اصول غیر فطری اصول ہے۔ اکثر لوگ ’’توازن‘‘ کے تصور میںالجھے رہتے ہیں،چنانچہ وہ کبھی اپنی زندگی کے مختلف تقاضوں کے درمیان توازن قائم نہیں کرپاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی تناؤ (tension)کا شکار ہوجاتے ہیں۔ توازن کا اصول غیر فطری ہونے کی وجہ سے ایک ناقابلِ حصول چیز ہے، اور جو چیز ناقابلِ حصول ہو، اس کے بارے میں صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ قبول کرلیا جائے۔
فطری قانون کے مطابق، زندگی کا نظام ترجیح (priority) کے اصول پر قائم ہے، یعنی زندگی کے ایک تقاضے کو اولین (primary) اہمیت دینا اور دوسرے تقاضے کو ثانوی (secondary) درجے پر رکھنا۔ اِس معاملے میں یہی واحد قابلِ عمل فارمولا ہے۔ اِس کے سوا کوئی دوسرا فارمولا سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔
روحانیت اور مادیت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ترجیح کا اصول اختیار کیا جائے ، یعنی روحانیت کو اولین حیثیت دی جائے اور مادیت کو ثانوی حیثیت۔ اِس معاملے میں یہی حقیقت پسندی ہے۔ جو آدمی اِس حقیقت کو نہ مانے، اُس کو اِس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی۔ وہ یہ کہ ایسا شخص ہمیشہ ذہنی تناؤ میں جیے گا، وہ ہمیشہ ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم رہے گا۔
واپس اوپر جائیں
کائنات میں اَن گنت ستارے اور سیارے ہیں۔ یہ سب کے سب وسیع خلا کے اندر ہر لمحہ گھوم رہے ہیں۔ خلا گویا کہ لاتعداد متحرک اجسام کی دوڑ کا ایک اتھاہ میدان ہے۔ مگر حیرت ناک بات ہے کہ ان ستاروں اور سیاروں میں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
اس کا راز کیا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور ہر سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں گھومتا ہے۔ وہ اپنے مدار سے ذرا بھی باہر نہیں جاتا۔ حرکت کا یہی قانون ہے جو ان ستاروں اور سیاروں کو آپس میں ٹکرانے سے مسلسل روکے ہوئے ہے۔
ٹھیک یہی طریقہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔انسان کی دوڑ کے لیے بھی خالقِ کائنات نے ایک دائرہ مقرر کردیا ہے۔ ہر انسان کواسی محدود دائرے کے اندر حرکت کرنا ہے۔ جب تمام انسان اپنے اپنے دائرے میں حرکت کریں تو سماج میں اپنے آپ امن کی حالت قائم ہوجاتی ہے، اور جب لوگ اپنی حد میں نہ رہیں بلکہ مقرر حد کو توڑ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگیں تو ایسے سماج میں لازماً نزاع شروع ہوجائے گی۔ لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر اپنے آپ کو بھی تباہ کریں گے، اور دوسرے کی تباہی کا بھی سامان فراہم کریں گے۔
اختلاف کے وقت
اختلاف انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مختلف اسباب سے لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح عام لوگوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح مخلص اور مومن کے درمیان بھی اختلاف پیش آتا ہے۔ اختلاف کے ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف کے باوجود آدمی اپنے آپ کو صحیح رویہ پر قائم رکھے۔اختلاف پیش آنا بُرا نہیں، بُرا یہ ہے کہ اختلاف پیش آنے کے بعد آدمی دشمنی اور انتقام میں مبتلا ہوجائے۔
سچا انسان وہ ہے، جو اختلاف کو دشمنی کا مسئلہ نہ بنائے۔ اختلاف کو اسی دائرے تک محدود رکھے جہاں اختلاف پیدا ہوا ہے۔ ایک معاملے میں اختلاف کی وجہ سے کسی کو ہر معاملے میں غلط سمجھ لینا، ایک معاملہ میں اختلاف پیش آنے کے بعد اس کو منافق، بدنیت اور غیر مخلص کہنے لگنا، یہ سراسر غیرخدائی طریقہ ہے۔
اختلاف پیش آنے پر تعلقات ختم کرنا صحیح نہیں۔ اختلافی مسئلے پر سنجیدہ بحث جاری رکھتے ہوئے باہمی تعلقات کو بدستور قائم رکھنا چاہیے۔ اختلاف والے شخص سے سلام وکلام بند کرنا یا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دینا کسی بھی حال میں درست نہیں۔
موجودہ دنیامیں ہر چیز لرننگ کے لیے ہے۔ اسی طرح اختلاف بھی لرننگ کے لیے ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اختلاف سے کوئی نئی لرننگ حاصل کرے ، نہ کہ کوئی ایسا غلط اقدام کرے، جولرننگ کے خلاف ہو۔اختلاف کے وقت انصاف پر قائم رہنا بلا شبہ ایک مشکل کام ہے۔مگر وہ انسان ایک اعلیٰ انسان ہے ، جو اختلاف اور نزاع کی صورت پیش آنے کے باوجود اپنے دل کو دشمنی اور انتقام کی نفسیات سے بچائے، اختلاف کے باوجود وہ انصاف کی روش پر قائم رہے۔
عدم یکسانیت
خالق نے انسانی زندگی کو جس اصول پر بنایا ہے، اس میں یکسانیت (uniformity) نہیں ہے، بلکہ عدم ِیکسانیت (dis-uniformity) ہے۔یہ فطرت کا قانون ہے۔ یعنی انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ مختلف انسانوں کی سوچ کبھی یکساں نہیں ہوسکتی۔ یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کی سوچ میں یکسانیت (uniformity)نہ ہو۔ لیکن اس فرق کی بنا پرایسا ہوتا ہے کہ بار بار ایک اور دوسرے کے درمیان اختلاف کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ وہ ہر جگہ اور ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ دو مختلف انسان اپنی مختلف صلاحیتوں کو متحدہ طور پر استعمال کرکے زیادہ مفید انداز میں سماجی زندگی کا حصہ بنیں۔ تاہم اس فرق کی بنا پرایسا ہوتا ہے کہ بار بار ایک کو دوسرے سے ناخوش گواری کا تجربہ پیش آتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں، خواہ وہ گھر کے اندر کی ہو یا گھر کے باہر ، اس طرح کی ناپسندیدہ صورت حال کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ اس کو روکنا کسی حال میں ممکن نہیں۔
اب ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر اختلاف سے ٹکراؤ کیا جائے۔ ہر ناخوش گواری سے براہِ راست مقابلہ کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔اس طرح کی کوشش غیر فطری ہے۔ اس لیے کہ وہ مسئلہ کو صرف بڑھانے والی ہے، وہ ہر گز اس کو گھٹانے والی نہیں۔
رواداری
ایسے مواقع پرقابلِ عمل اصول رواداری (tolerance) اور اعراض (avoidance) کا اصول ہے۔یہ دونوں اہم معاشرتی اصول اور اعلیٰ انسانی صفات ہیں۔ رواداری کامطلب دوسروں کی رعایت کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں عدم رواداری یہ ہے کہ آدمی صرف اپنے آپ کو جانے، وہ دوسروں کے تقاضے سے بے خبر ہوجائے۔ رواداری ایک اعلیٰ انسانی اسپرٹ ہے۔ اس کواسلام میں مختلف الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ مثلاً — رفق، تالیفِ قلب، شفقت علی الخلق، وغیرہ۔
سچا انسان وہ ہے ،جو خود غرضی کے تحت پیش آنے والی تمام برائیوں سے اوپر اٹھ جاتاہے۔ وہ اپنی ذات میں جینے کے بجائے حقائق میں جینے لگتا ہے۔ ایسا انسان عین اپنے مزاج کے مطابق دوسروں کو محبت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ وہ دوسروں سے کسی چیز کا امیدوار نہیں ہوتا اس لیے دوسرے اگر اس سے اختلاف رکھیں یا اس کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں تب بھی وہ دوسروں کا خیرخواہ بنا رہتا ہے۔ تب بھی وہ دوسروں کی رعایت کرتا ہے۔ تب بھی وہ دوسروں کے ساتھ اپنے روادارانہ سلوک کو باقی رکھتا ہے۔
رواداری یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں دوسرے کی عزت کرے ،خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف۔ وہ ہر حال میں دوسرے کو اعلیٰ انسانی درجہ دے، خواہ وہ اس کا اپنا ہو یا غیر۔ وہ دوسرے کے کیس کو ہر حال میں ہمدردی کا کیس سمجھے۔ خواہ دوسرے کی طرف سے بظاہر غیر ہمدردانہ سلوک کا اظہار کیوں نہ ہوا ہو۔
رواداری کا مطلب دراصل دوسروں کی رعایت کرنا ہے۔اجتماعی زندگی میں لازمی طورپر ایک دوسرے کے درمیان اختلافات پیش آتے ہیں۔ مذہب، کلچر، رواج اور ذاتی ذوق کا فرق ہر سماج میں باقی رہتا ہے۔ ایسی حالت میں اعلیٰ انسانی طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اصول پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کے ساتھ رعایت اورتوسع کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ اپنی ذات کے معاملے میں اصول پسند ہو، مگر دوسرے کے معاملے میں روادار۔ وہ اپنے آپ کو آئڈیل کی روشنی میں جانچے۔ مگر جب دوسروں کا معاملہ ہو تو وہ رواداری اور وسعتِ ظرف کا طریقہ اختیار کرے۔ یہ رواداری انسانی شرافت کا لازمی تقاضا ہے۔ اسلام آدمی کے اندر یہی اعلیٰ شرافت پیدا کرتاہے۔
اعراض
اعراض کا مطلب ہے شکایت اور اختلاف کے وقت ٹکراؤ سے پرہیز کرنا۔ اشتعال کے مقام پر رد عمل سے بچتے ہوئے اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھنا۔ یعنی ناخوش گوار صورت حال کو مٹانے کے بجائے اس کو برداشت کرنا، اشتعال انگیزی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کو نظر انداز کرنا، اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ متحد ہو کر رہنا۔ اعراض کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ سچے انسان کا ایک مثبت رویہ ہے۔
اسلام کے مطابق جب کوئی شخص شکایت اور اختلاف کے باوجود لوگوں کے ساتھ اچھے رویے پر قائم رہے، وہ اپنے منفی جذبات کو دبا کر مثبت رویے کا ثبوت دے توخدا کے یہاںایسے لوگوں کا شمار محسنین میں کیا جائے گا، یعنی وہ لوگ جنھوں نے دنیا کی زندگی میں برتر اخلاق اوراعلیٰ انسانیت کا ثبوت دیا —رواداری اور اعراض کے بغیر اعلیٰ انسانی کردار پر قائم رہنا ممکن نہیں۔
امن پسندی
سچا انسان ایک امن پسند انسان ہوتاہے۔ سچائی اور امن پسندی اتنا زیادہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں کہ سچا انسان ہر حال میں امن کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتاہے۔ وہ ہر دوسری چیز کو کھونا گوارا کرلیتا ہے، مگر وہ امن کو کھونا گوارا نہیں کرتا۔
سچا انسان موجودہ دنیا میں جو زندگی گزارنا چاہتاہے، وہ صرف امن کی حالت ہی میں گزاری جاسکتی ہے۔ امن کی حالت سچے انسان کے لیے موافق ماحول فراہم کرتی ہے، اور بے امنی کی حالت سچے انسان کے لیے مخالف ماحول کی حیثیت رکھتی ہے۔
امن ہمیشہ ایک قربانی چاہتاہے۔ وہ قربانی یہ کہ دوسری طرف سے بد امنی کے اسباب پیداکیے جائیں تب بھی اس کو نظر انداز کرتے ہوئے امن کی حالت کو برقرار رکھا جائے۔سچا انسان ہمیشہ اس قربانی کو دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ ہر نقصان اور زیادتی کو برداشت کرتاہے تاکہ امن کی حالت نہ ٹوٹے، تاکہ امن کا ماحول مسلسل طورپر قائم رہے۔
سچا انسان اندر سے باہر تک ایک تعمیرپسند انسان ہوتاہے۔ اس کی تعمیری سرگرمیاں صرف امن کی حالت میں جاری رہ سکتی ہیں۔ اس لیے وہ ہر قیمت دے کر امن کو برقرار رکھتا ہے تاکہ اس کی تعمیری سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رہیں۔
سچا انسان فطرت کے باغ کا ایک پھول ہے۔ پھول گرم ہوا میں جھلس جاتاہے اور ٹھنڈی ہوا میں اپنے دل کش وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہی حال سچے انسان کا ہے۔ امن سچے انسان کی لازمی ضرورت ہے، اور اس کی زندگی ہے۔ سچا انسان حرص کی حد تک امن کا خواہش مند ہوتاہے تاکہ اس کا انٹلکچول ڈیولپمنٹ ہوسکے، اور کسی رکاوٹ کے بغیر فطرت کی فضا میں ظاہر ہوکر اپنی بہاریں دکھا سکے۔
امن کائنات کا دین ہے۔ امن فطرت کا عالمگیر قانون ہے۔ خالق ِکائنات کو امن کی حالت پسند ہے، اس کو بے امنی کی حالت پسند نہیں۔ یہی واقعہ اس بات کے لیے کافی ہے کہ اس کی مخلوق امن کو پسند کرے۔ وہ کسی حال میں امن کے خاتمہ کو برداشت نہ کرسکے۔
انسان اجتماعی زندگی میں کس طرح رہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ کس طرح معاملہ کرے۔ دوسروں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا ہو۔ اپنے قول وعمل میں وہ کیا انداز اختیار کرے۔ جو لوگ زندگی کے معاملات میں اپنے مقرر دائرے کے اندر حرکت کررہے ہیں، وہ سماج میں امن قائم کرنے والے ہیں۔اس کے برعکس ،جو لوگ اپنے مقرر دائرے سے باہر آگئے، یہی وہ لوگ ہیں جو سماج میں ہر قسم کی خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ وہ خود بھی تباہ ہوتے ہیں، اور سماج کی تباہی کا بھی سبب بنتے ہیں۔سچا انسان وہ ہے، جو اپنے مقرر دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم میگزین میں ایک آئٹم ان الفاظ میں چھپا ہوا تھا: ایک استاد نے اپنےطالب علم سے پوچھا، تم شہد کی مکھی سے کیا سیکھ سکتے ہو۔ طالب علم نے جواب دیا: یہی کہ جو چھیڑے اسے ڈنک مارو۔ شہد کی مکھی کا یہ حوالہ درست نہیں۔ شہد کی مکھی میں انسان کے لیے ایک تعمیری سبق ہے، نہ کہ کوئی تخریبی سبق۔
شہد کی مکھی (honeybee) فطرت کا ایک شاہ کار ہے۔ شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ مسلسل محنت کر کے بے شمار پھولوں سےان کا نکٹر (nectar) نکالتی ہے، اس کے بعدپر امن منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے۔تاکہ انسان کے لیے ایک قیمتی غذا حاصل ہو۔ اس اعتبار سے شہد کی مکھی کا سبق انسان کے لیے یہ ہے کہ تم اپنے سماج کے ایک دینے والے ممبر (giver member) بنو، تم اپنے سماج میں اس طرح تعمیری انداز میں رہو کہ تم سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔
یہ صحیح ہے کہ شہد کی مکھی بعض اوقات انسان کو ڈنک مارتی ہے۔ لیکن شہد کی مکھی کا یہ ڈنک مارنا صرف اپنے بچاؤ کےلیے ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی یہ دیکھتی ہے کہ کوئی انسان اس کے چھتے میں مداخلت کر رہا ہے تو وہ اپنے بچاؤ کے لیے ایسے آدمی کو ڈنک مارتی ہے۔شہد کی مکھی کا ڈنک مارنا صرف اپنے دفاع (defence) کے لیے ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کے اندر پیدائشی طور پر کسی کے خلاف کوئی منفی سوچ نہیں۔
انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان کے اندر اَنا (ego) کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔ انسان ایسے موقعے پر انتقامی کارر وائی کرتا ہے، جب کہ انتقام کلچرشہد کی مکھی کی فطرت میں موجود ہی نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ مثبت سبق (positive lesson) لے، منفی سبق (negative lesson) لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
قرآن کی ایک آیت ہے:وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِینَ کَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْہَبْتُمْ طَیِّبَاتِکُمْ فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَا فَالْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَبِمَا کُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (
جواب
قرآن کی اس آیت میں اذہابِ طیبات مطلق معنی میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ مطلق معنی میںطیبات اس زمانے میں کسی کو نہیں ملتی تھیں۔ اُس زمانے میں جو چیز ملتی تھی، وہ کھجور اور اونٹ کا دودھ ہے ۔ یہ طیبات کے اسٹینڈرڈ کے مطابق، بہت معمولی چیزیں ہیں۔
اس آیت میں طیبات سے مراد طیبات فطری ہیں، نہ کہ مادی طیبات۔ یعنی طیبات سے مراد غالباً انسانی مصنوعات نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ چیزیں ہیں، جو براہ راست اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانوں کو پہنچ رہی ہیں۔ یعنی وہ تمام چیزیں جو فطری طور پر کسی خاص کسب کے بغیر انسانوں کو ملتی ہیں ۔ اس میں رزق کی تمام چیزیں شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تم کو جو مواقع دیےگئے تھے، وہ خداوند عالم کی شکر گزاری کے لیے تھے۔ لیکن تم نے ان طیبات کو اویل نہیں کیا، بلکہ اویل کرنے کا موقع گنوادیا۔ خداوند عالم کی شکر گزاری کا تعلق تمام فطری نعمتوں سے ہے۔ مثلاً پانی کا برسنا، ہوا کے ذریعے آکسیجن کی سپلائی۔ زمین سے غذائی اشیاء کا اگنا، وغیرہ وغیرہ۔
سوال
مسلمانوں کے درمیان مختلف مسائل پر جاری احتجاج کے پس منظر میں ایک صاحب نے لکھا ہے:"احتجاج کے لیے جو جرات درکار تھی، وہ خون میں شامل ہوچکی ہے۔ اب نقصان کی پرواہ مت کیجیے۔ مولانا وحید الدین خاں صاحب سمجھانا چاہیں، تو ٹال دیجیے۔" اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ (عادل خاں، بنگلورو، کرناٹک)
جواب
میرے نزدیک احتجاج کے جواز یا عدم جواز کا سوال نہیں ہے۔ مفید یا غیر مفید ہونے کا سوال ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کشمیر اور فلسطین میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہوا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، بلکہ برعکس طور پر ان کے نقصان میں اضافہ ہوا ہے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن مسعود کے الفاظ میں،وہ خوش قسمت ہے، جو دوسرے (کی کامیابی یا ناکامی)سے نصیحت حاصل کرے(السَّعِیدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ)صحیح مسلم، حدیث نمبر 2645۔ احتجاج کے تعلق سے میری یہ رائے کسی عالم دین کی رائے پر مبنی نہیں ہے، بلکہ حدیث رسول پر مبنی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے:مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317) ۔ یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔
اس حدیث کی تشریح میں محمد بن عبد الہادی السندی لکھتے ہیں: مِنْ جُمْلَةِ مَحَاسِنِ إِسْلَامِ الشَّخْصِ وَکَمَالِ إِیمَانِہِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ مِنْ عَنَاہُ إِذَا قَصَدَہُ ... فَإِنَّ الشَّیْءَ الَّذِی لَا فَائِدَةَ فِیہِ غَیْرُ قَاصِدٍ لِلشَّخْصِ وَلَا مُتَوَجِّہٌ إِلَیْہِ وَلَا مُتَعَلِّقٌ بِہِ (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ، جلد2، صفحہ
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.