قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:وَقَالَ یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (
قرآن کی اس آیت میں تدبیر کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقہ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا کہ فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر ِ اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال:اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام،جلد 2، صفحہ
اسی طرح غزوۂ خیبر کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔محدث البخاری کے مطابق، ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں جارہے تھے، (راستے میں) ہم یہ کرنے لگے کہ جب ہم کسی بلندی پر چڑھتے یا بلندی پر پہنچ جاتے یاکسی نشیبی علاقہ میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے قریب آئے تو آپ نے کہا: اے لوگو ، اپنے آپ پر رحم کرو، کیونکہ تم کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے ہو،بلکہ تم اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا بڑا دیکھنے والا ہے (یَا أَیُّہَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا)صحیح البخاری، حدیث نمبر6610۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہےکہ انبیاء کے کام کرنے کا طریقہ کیا تھا۔انبیاء ہمیشہ لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا پسند کرتے تھے۔ ہائی پروفائل میں کام کرنا، نبیوں کا مطلوب طریقہ نہ تھا۔لو پروفائل کا مطلب ہے، غیر نمایاں انداز میں کام کرنا۔ ایسے انداز میں کام کرنا، جب کہ آپ کا حریف آپ کے کام کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے۔ فریق ثانی آپ کے کام میں اپنے لیے خطرہ محسوس نہ کرے۔ فریقِ ثانی آپ کے معاملے کو اپنے لیے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردے:
A position of avoiding or not attracting much attention or publicity. Intended to attract no attention or controversy.
یہ طریقہ بہت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ اس طریقۂ کار کی حکمت یہ ہے کہ لو پروفائل میں کام کیا جائے، تو اس سے ری ایکشن کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ آدمی کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ شروع سے آخر تک اپنا کام معتدل انداز میں جاری رکھے، اور اپنے حسب منشا اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے۔
لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں ایسا ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کو آپ کے کام کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا منصوبہ نہیں بناتا، وہ آپ سے ٹکراؤ کی کوشش نہیں کرتا۔ اس طرح آپ کو موقع مل جاتا ہے کہ آپ معتدل انداز میں اپنے منصوبوں کو مکمل کرسکیں۔ آپ کی پوری انرجی صرف اپنے منصوبے کی تکمیل میں استعمال ہو۔ غیر ضروری چیزوں میں ضائع ہونے سے بچ جائے۔ اس کے مقابلے میں ہائی پروفائل کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب ہے، نمایاں انداز میں کام کرنا:
A position or approach characterized by a deliberate seeking of prominence or publicity. If someone has a high profile, people notice them and what they do. If you keep a low profile, you avoid doing things that will make people notice you.
ہائی پروفا ئل (high profile)میں کام کرنا، ہمیشہ مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ فریق ثانی بہت جلد آپ کے عمل سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ وہ ضروری سمجھتا ہے کہ آپ کے مقابلے میں جوابی منصوبہ بندی شروع کردے۔ اس طرح بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ آپ اور فریق ثانی کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجاتا ہے۔ لو پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کا وقت اور آپ کی انرجی (energy)صرف اپنے منصوبہ کی تکمیل میں استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ ہائی پروفائل میں کام کرنے کی صورت میں آپ کے وقت اور آپ کی انر جی کا بڑا حصہ جوابی کارروائی میں گزر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اس مختصر مقالہ میں مجھے اس سوال کی تحقیق کرنی ہے کہ مسلمان موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں پیچھے کیوں ہوگئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان سائنس کی تعلیم میں اس لیے پیچھے ہیں کہ ان کا مذہب سائنس کی تعلیم کا مخالف ہے، یا کم ازکم اس کو پسند نہیں کرتا۔ مگر یہ بات حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں کثیر تعداد میں ایسی آیتیں موجود ہیں، جن میں مختلف طریقوں سے اس امر پر زور دیاگیا ہے کہ زمین وآسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ اسلام کے ماننے والے زمین و آسمان کی چیزوں کا مطالعہ نہ کریں، جس کا دوسرانام سائنس ہے۔ اسلام کے نزدیک کائنات کے مطالعہ کا سب سے پہلا فائدہ معرفت ہے، یعنی مخلوق کے ذریعے خالق کا مشاہدہ کرنا۔ تاہم جب لوگ کائنات کو قابل غور سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں، تو اس سے وہ چیز بھی برآمد ہوتی ہے جس کو سائنس کہاجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ کیوں کہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے سائنس کے شعبوں میں زبردست ترقی کی۔ حتی کہ جس زمانہ میں یوروپ کی قوموں نے سائنس کی راہ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا تھا، اس وقت مسلمان سائنس کی راہ میں شاندار ترقیاں حاصل کرچکے تھے۔ برٹرینڈ رسل نےاس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ 600ء سے 1000 ء تک کے دور کو ہم تاریک دور کہتے ہیں۔ یہ مغربی یوروپ کو غیر واقعی اہمیت دینا ہے۔ اسی زمانہ میں چین میں تُنگ کی حکومت تھی، جو کہ چینی شاعری کا اہم ترین دور ہے، اورکئی دوسرے پہلوؤں سے بہت اہم دور ہے۔ اسی زمانہ میں ہندستان سے لے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں جو چیز مسیحیت کے لیے کھوئی ہوئی تھی، وہ تہذیب کے لیے کھوئی ہوئی نہ تھی بلکہ اس کے برعکس تھی:
Our use of the phrase "the Dark Ages" to cover the period from 600 to 1000 marks our undue concentration on Western Europe. In China, this period includes the time of the Tang dynasty, the greatest age of Chinese poetry, and in many other ways a most remarkable epoch. From India to Spain, the brilliant civilization of Islam flourished. What was lost to Christendom at this time was not lost to civilization, but quite the contrary. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, Woking UK, 1947, p. 420)
زمانہ سے آگے
قرون وسطی میں مسلمانوں نے طب اور سائنس کے میدان میں جوکارنامے انجام دیےہیں، وہ تعجب خیز حد تک عظیم ہیں۔ الرازی (865-932) اور ابن سینا(980-1037) اپنے وقت کے سب سے بڑے ماہرینِ طب تھے، جن کا کوئی ثانی اس وقت کی دنیا میں موجود نہ تھا۔ ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب علم طب پر ایک بنیادی کتاب ہے۔ وہ دنیا کے اکثر طبی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی ہے۔ حتی کہ فرانس میں وہ 1650ء تک داخل نصاب تھی:
Al-Qanun became a classic and was used at many medical schools, at Montpellier, France, as late as 1650 (11/828).
مسلمانوں کے یہ کارنامے عام طورپر مشہور اور معلوم ہیں۔ ان پر بے شمار کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں ایک سوال ہے، اور یہ سوال اس کی توجیہہ کے بارے میں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانکا (1984) کے مقالہ نگار نےاس کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
The greatest contribution of Arabian Medicine was Chemistry and in the knowledge and preparation of medicines; many drugs now in use are of Arab origin, as also are such processes as distillation and sublimation. Often the chemistry of that time was mainly as search for the philosopher's stone, which supposedly would turn all common metals to gold. Astronomers were astrologers and chemists were alchemists. It is, therefore, surprising that, despite all this, the physicians of the Muslim empire did make a noteworthy contribution to medical progress. (11/828)
طب عربی کی سب سے بڑی خدمت کیمسٹری اور دواؤں کے علم اور ان کی تیاری کے بارے میں تھی۔ اکثر دوائیں جو آج استعمال ہوتی ہیں، ان کی اصل عرب ہی ہے۔ اسی طرح تقطیر اور تصعید جیسےعمل بھی۔ اس زمانہ کی کیمسٹری اکثر وبیشتر پارس پتھر کی تلاش کا نام تھی، جس کے متعلق یہ گمان کرلیاگیا تھا کہ وہ تمام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس زمانہ کے فلکیات داں محض نجومی ہوتے تھے، اور کیمسٹری کے علماء صرف کیمیا گری کرتے تھے۔ اس لیے یہ تعجب خیز بات ہے کہ ان سب کے باوجود مسلم عہد کے اطباء نے طب کی ترقی میں قیمتی اضافے کیے۔
اسلام سائنس کا خالق
یہ باتیں وہ ہیں، جن کا عام طورپر مورخین نے اعتراف کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ جدید سائنس خود اسلام کی پیدا کردہ ہے۔ اسلام بلاشبہ سائنس کے لیے نہیں آیا۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی انقلاب خود اسلامی انقلاب کی ضمنی پیداوار ہے۔ اسلام اور سائنس کے اس تعلق کو بریفالٹ نےان الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا قرضہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے حیران کن نظریات دیے۔ سائنس اس سے زیادہ عربوں کی مقروض ہے۔ یہ خود اپنے وجود کے لیے ان کی احسان مند ہے:
“The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries or revolutionary theories, science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. The Astronomy and Mathematics of the Greeks were a foreign importation never thoroughly acclimatized in Greek culture. The Greeks systematized, generalized and theorized, but the patient ways of investigation, the accumulation of positive knowledge, the minute method of science, detailed and prolonged observation and experimental inquiry were altogether alien to the Greek temperament. Only in Hellenistic Alexandria was any approach to scientific work conducted in the ancient classical world. What we call science arose in Europe as a result of new spirit of enquiry, of new methods of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics, in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs. (Robert Briffault, Making of Humanity, p.
یہ ایک علمی اور تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام سائنس کا خالق ہے۔ سائنس سادہ طورپر مطالعۂ فطرت (study of nature)کا نام ہے۔انسان جب سے زمین پر آباد ہے اسی وقت سے فطرت اس کے سامنے موجود ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فطرت کے مطالعہ اور تسخیر میں انسان کو اتنی زیادہ دیر لگی۔سائنس کی تمام ترقیاں پچھلے ہزار برس کے اندر ظہور میں آئی ہیں۔ جب کہ اصولاً انھیں لاکھوں سال پہلے ظاہر ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ قدیم زمانہ میں شرک کا غلبہ ہے۔ شرک اس میں مانع تھا کہ آدمی فطرت کا مطالعہ کرے، اور اس کی قوتوں کو دریافت کرکے انھیں اپنے کام میں لائے۔شرک کیا ہے۔ شرک نام ہے فطرت کو پوجنے کا۔ قدیم زمانہ میں یہی شرک تمام اقوام کا مذہب تھا۔
For the ancient man, Nature was not just a treasure-trove of natural resources, but a goddess, Mother Earth. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth’s bowels, all partook of nature’s divinity, so did all natural phenomena — springs and rivers and the sea; mountains, earthquakes and lightening and thunder.
غرض زمین سے آسمان تک جو چیز بھی انسان کو نمایاں نظر آئی، اس کو اس نےاپنا خدا فرض کرلیا، اسی کا نام شرک ہے اور یہ شرک اسلام سے پہلے تمام معلوم زمانوں میں دنیا کا غالب فکر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت پرستش کا موضوع (object of worship)بنی ہوئی تھی۔ پھر عین اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع (object of investigation) کیسے بنتی۔ یہی اصل وجہ ہے، جس کی بنا پر قدیم انسان اس طرف راغب نہ ہو سکا کہ وہ فطرت کا مطالعہ کرے۔ تمام قدیم زمانوں میں انسان فطرت کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا رہا ہے۔ فطرت کو مقدس نظر سے دیکھنا، انسان کے لیے اس میں روک بنا رہا کہ وہ فطرت کی تحقیق کرے ،اور اس کو اپنے تمدن کی تعمیر کے لیے استعمال کرے۔
آرنلڈٹائن بی نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ فطرت پرستی (شرک) کے اس دور کو سب سے پہلے جس نے ختم کیا وہ توحید (Monotheism) ہے۔ توحید کے عقیدے نے پہلی بار انسان کو یہ ذہن دیا کہ فطرت خالق نہیں، بلکہ مخلوق ہے۔ وہ پوجنے کی چیز نہیں، بلکہ استعمال کی چیز ہے۔ اس کے آگے جھکنا نہیں ہے، بلکہ اس کو تسخیر کرناہے۔ تاہم جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ توحید کے نظریہ کو پہلی بار اسلام نے عملی طورپر رائج کیا ،تو یہ انقلاب براہ راست اسلام کا کارنامہ قرار پاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا کے تمام پیغمبر توحید کا پیغام لے کر آئے۔ ہر دور میں خدا کے جن بندوں نے سچائی کی تبلیغ کی انھوں نے خالص توحید ہی کی تبلیغ کی۔ مگر اسلام سےپہلے کسی بھی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بڑی تعداد میں لوگ توحید کے نظریہ کو مان لیں اور توحید کی بنیاد پر انسانی معاشرہ میں وسیع انقلاب برپا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے پہلے انسان کبھی توحید کے حقیقی ثمرات سےآشنا نہ ہوسکا۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، خدا کا ہر پیغمبر توحید کا پیغام لےکر آیا۔ مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی کہ ان کے پیرو ان کے لائے ہوئے دین کی حفاظت نہ کرسکے۔ انھوں نے توحید میں شرک کی آمیزش کردی۔ مثال کے طورپر حضرت مسیح نے خالص توحید کا پیغام دیا، مگر ان کے بعد ان کے پیروؤں نے خود حضرت مسیح کو خدا سمجھ لیا۔ ان کا یہ مشرکانہ عقیدہ مختلف پہلوؤں سے سائنس کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ مثلاً کچھ علمائے فلکیات نے نظامِ شمسی کی تحقیق کی۔ وہ اس حقیقت تک پہنچے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مگر عیسائی علماء ایسے لوگوں کے سخت مخالف ہوگئے۔ اس کی وجہ ان کا مذکورہ مشرکانہ عقیدہ تھا۔ انھوں نے زمین کو خداوند کی جنم بھومی فرض کررکھا تھا، اس لیے ناقابلِ فہم ہوگیا کہ جس زمین پر خدا پیدا ہوا ہو، وہ زمین نظامِ شمسی کا مرکز نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت محض ایک تابع کی قرار پائے۔ اپنے مشرکانہ عقیدہ کو بچانے کے لیے انھوں نے سائنسی حقیقت کا انکار کردیا۔
دوسری بات یہ کہ پچھلے تمام پیغمبروںکامشن صرف اعلان کی حد تک جاسکا، وہ عملی انقلاب تک نہیں پہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھی انسانی تاریخ کے پہلے گروہ ہیں جنھوں نے توحید کو ایک زندہ عمل بنایا۔ انھوں نے اولاً عرب میں شرک (مظاہر فطرت کی پرستش) کا مکمل خاتمہ کیا، اور توحید کو عملی طورپر انسانی زندگی میں رائج کیا۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے، اور قدیم زمانہ کی تقریباً تمام آباد دنیا میں شرک کو مغلوب کردیا۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے تمام بُت خانوں کو غیر آباد کر دیا، اور توحید کو ایک عالمی انقلاب کی حیثیت دے دی۔
اہلِ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو عالمی انقلاب آیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ توہم پرستی کا دور ختم ہو۔ اب مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹا دیاگیا۔ خدائے واحدانسان کا معبود قرار پایا۔ اس کے علاوہ جو تمام چیزیں ہیں، وہ سب صرف مخلوق بن کررہ گئیں۔انسانی تاریخ میں اسلام کے ظہور سے جو عظیم تبدیلی آئی، اس کا اعتراف ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے کہ اسلام کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا:
Its advent changed the course of human history.
مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ فوراً انسان کے لیے تحقیق اور تسخیر کا موضوع بن گئے۔ مظاہر فطرت کی تحقیق وتسخیر کے فکر کی ابتدا بالواسطہ انداز میں مدینہ میںشروع ہوئی۔ پھر دمشق اور بغداد اس تحقیق وتسخیر کے عملی مرکز بنے۔ اس کے بعد یہ لہر سمندر پار کرکے اسپین اور سسلی میں داخل ہوئی، وہاں سے وہ مزید آگے بڑھ کر اٹلی اور فرانس تک جا پہنچی۔ یہ تاریخی عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ جدید سائنسی انقلاب تک پہنچ گیا۔ مغرب کا سائنسی انقلاب اس اعتبار سے اسلامی انقلاب کا نقطۂ انتہا ہے۔ وہ توحید کے انقلاب کا سیکولر نتیجہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اسلام سائنس کا بانی تھا، اور جس کے ماننے والے اپنے ابتدائی دور میں ساری دنیا کے لیے سائنس کے معلم بنے، اسی اسلام کے ماننے والے موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوگئے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے۔ مسلمانوں نےابتداء ً جو سائنسی انقلاب برپا کیا تھا، وہ اسپین تک پہنچنے کے بعد مغربی قوموں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد سائنس کی ترقیاں زیادہ تر اہلِ مغرب کے ہاتھوں ہوئیں۔ اس زمانہ میں بھی اگرچہ دنیا کا بڑا حصہ سیاسی طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، مگر سائنس کی ترقی کا کام صلیبی جنگوں کے بعد مغربی یورپ کے ذریعہ انجام پاتا رہا۔
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں سائنس کے میدان میں جو ترقیاں کی تھیں، اس کا پہلا سب سے بڑا فائدہ ان کو دو سو سالہ صلیبی جنگوں (1095-1270) میں ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً سارا یورپ متحدہ طاقت سےمسلم دنیا پر حملہ آور ہوا، تاکہ اپنے مقدس مقامات کو مسلمانوں کے قبضہ سے واپس لے۔ مگر انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ان مہموں میں کروروں جانیں اور بے پناہ دولت قربان کردی گئی،اور جب یہ سب ختم ہوا تو یروشلم بدستور ’’بددینوں‘‘ کے قبضہ میں تھا:
Millions of lives and an enormous amount of treasure were sacrificed in these enterprises. And when all was done, Jerusalem remained in the possession of the “infidels”.
(Pears' Cyclopeadia, 1953-1954, p.
صلیبی جنگوں کا خاتمہ مسلمانوں کی کامل فتح اور مسیحی یورپ کی کامل شکست پر ہوا۔ مسلمانوں کی فتح ان کے لیےالٹی پڑی۔ اس کے برعکس عیسائیوں کو ان کی شکست کا زبردست فائدہ حاصل ہوا۔ مسلمان اپنی سیاسی فتح پر قانع ہو کر رہ گئے۔ کامیابی کے احساس نے ان کی عملی قوتوں کو ٹھنڈا کردیا۔
اس کے برعکس مسیحی یورپ کو اپنی ناکامی کا یہ فائدہ ملا کہ اس کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ اپنی کمزوریوں کو معلوم کرکے ان کی تلافی کرے۔ چنانچہ اس کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے زور وشور کے ساتھ یہ تبلیغ کی کہ مسلمانوں کی زبان عربی سیکھو، اور ان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرو۔ یہ رجحان یورپ میں تیزی سے پھیلا۔ مسلمانوں کی اکثر کتابیں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں، جو اس وقت یورپ کی علمی زبان تھی۔ یہ عمل کئی سو سال تک جاری رہا۔ ایک طرف مسلمان اپنی سیاسی کامیابی میں گم تھے، دوسری طرف یورپ علمی میدان میں مسلسل ترقی کررہا تھا۔
یورپ کا یہ علمی سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ 18ویں صدی آگئی جب کہ یوروپ واضح طورپر مسلم دنیا سے آگے بڑھ گیا۔مغربی یوروپ نے سائنس کو جدیدٹکنالوجی تک پہنچایا۔ اس نے دستکاری کی جگہ مشینی صنعت ایجاد کی۔ اس نے دستی ہتھیاروں کی جگہ دور مار ہتھیار بنا لیے۔ وہ برّی طاقت سے آگے بڑھا، اور ابتداء ً بحری طاقت، اور اس کے بعد فضائی طاقت پر قابو حاصل کرلیا۔ اس طرح مغرب بالآخر ایسی طاقت بن گیا، جس کا مقابلہ مسلمان اپنے موجودہ سازوسامان کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مغرب جدید قوتوں سے مسلح ہو کر دوبارہ جب مسلم دنیا کی طرف بڑھا تو مسلمان قومیں ان کو روکنے میں ناکام رہیں۔ مغربی قوموں نے مختصر عرصہ میںتقریباً پوری مسلم دنیا پر براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کرلیا۔
صلیبی جنگوںکے بعد مسلمان اپنی سیاسی فتح کے جوش میں سائنس سے دور ہوگئے تھے۔ موجودہ زمانہ میں یہی بات ایک اور شکل میں پیش آئی۔ مغربی قوموں کے مقابلہ میں سیاسی شکست نے موجودہ مسلمانوں کے اندر منفی رد عمل پیدا کیا۔ مغربی قوموں نے ان سے ان کا سیاسی فخر (political pride) چھینا تھا۔ چنانچہ وہ مغربی قوموں سے سخت متنفر ہوکر رہ گئے۔ اپنی رد عمل کی نفسیات کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف مغربی قوموں کو برا سمجھا، بلکہ مغربی قوموں کی زبان، اور مغربی قوموں کے ذریعہ آنے والے علوم کو بھی وہ نفرت کی نظر سے دیکھنے لگے۔
ایک صدی کی پوری مدت اسی حال میں گزر گئی۔ مسلمان مغربی قوموں سے نفرت کرتے رہے، یا ان سے ایسی لڑائیاں لڑتے رہے، جو مسلمانوں کی کمتر تیاری کی وجہ سے صرف شکست پر ختم ہونے والی تھی۔ دوسری طرف دنیاکی دوسری قومیں مغربی زبان اور مغربی علم کو سیکھ کر تیزی سے آگے بڑھتی رہیں، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان وہ بعید فاصلہ پیدا ہوگیا،جس کی ایک مثال ہم کو ہندستان میں نظر آتی ہے۔ مسٹر کلدیپ نائر (1923-2018)نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان تعلیم میں دو سو سال پیچھے ہیں۔ اگر اس کو گھٹایا جائے تب بھی یہ فاصلہ ایک سوسال کے بقدر ماننا ہوگا۔
مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگےبڑھیں، وہ سادہ معنوں میں محض علوم نہ تھے، بلکہ وہ دورِ جدید میں ہر قسم کی ترقی کی بنیاد تھے۔ چنانچہ جن قوموں نے ان علوم کو سیکھا، وہ دنیوی اعتبار سے دوسروں سے آگے بڑھ گئیں۔ مغربی قومیں اور ان کے پیروی کرنے والے تہذیب وتمدن میں مسلمانوں سے بدرجہا زیادہ فائق ہوگئے۔ یہی وقت ہے جب کہ مسلمانوں میں سرسید (1817-1898) اور اس قسم کے دوسرے مصلحین پیدا ہوئے۔ مگر یہاں پہنچ کر مسلم مصلحین سے تیسری غلطی ہوئی۔ وہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہوگئے۔ وہ مغربی تہذیب کی جڑوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔ وہ مغرب کی طرف بڑھے۔ مگر ان کا بڑھنا مغرب کی تہذیب سے مرعوبیت کی بنا پر تھا،نہ کہ مغرب کی قوت کے اصل سرچشمہ (سائنس) کو سمجھ کر اس کو اختیار کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ اس قسم کے مصلحین کی ساری توجہ مغرب کی زبان، مغرب کے لٹریچر، مغرب کے تمدنی مظاہر پر رہی۔ یہ مغرب سے قریب ہونے والے بھی مغرب کی سائنس سے اسی طرح محروم رہے، جس طرح مغرب سے دور رہنے والے اس کی سائنس سے محروم تھے۔ سرسید نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں کی خاص چیز جو وہ اپنے ساتھ لائے وہ ایک صوفہ سیٹ تھا۔ اس کے بجائے اگر وہ سائنس کی کتابیں یا کوئی مشین اپنے ساتھ لاتے تو یقیناً وہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر تحفہ ہوتا۔ آخر وقت میں جب مسلمان مغربی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، اس وقت بھی ان کے ذہن میں ساری اہمیت مغربی تہذیب کی تھی۔ مغربی سائنس سےوہ بدستور دو رپڑے رہے۔
سائنسی شعور
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی — مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی، اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
اس کی ایک واضح مثال وہ فرق ہے جو مسلمانوں کے درمیان دینی تعلیم اور سائنسی تعلیم کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر دینی تعلیم کی اہمیت کا شعور موجود تھا، اس لیے انھوں نے اس کا پورا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کا شعور موجود نہ تھا، اس لیے وہ اس کا وہ اہتمام نہ کرسکے جس کے بغیر کسی قوم میں سائنسی تعلیم نہیں آسکتی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں کو جب جدید علوم کی طرف توجہ ہوئی تو انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں تو بنائیں مگر انھوںنے جدید علوم کی ابتدائی تعلیم کا نظام قائم نہیں کیا، جو کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ انھیں مسلمانوں میں دینی مدارس کی مثال اس سے بالکل مختلف نمونہ پیش کرتی ہے۔
مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بڑے بڑے دینی مدرسے قائم کیے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ صرف بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے بیٹھ جائیں۔ اسی کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کیا کہ پورے ملک میں ابتدائی تعلیم کا مکتب کا نظام قائم کیا۔ یہی ابتدائی مکاتب دراصل وہ ادارے ہیں جو بڑے بڑے دینی مدرسوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتدائی مکاتب نہ ہوں تو تمام بڑے بڑے دینی مدرسے غیر آباد نظر آئیں۔
یہی بات جدید سائنس کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ملحوظ رکھنے کی تھی۔ مسلم رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک پہنچانے والے ابتدائی اسکول نہ ہوں، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کو طلبہ کہاں سے ملیں گے۔ ہندستان میں مثال کے طورپر ہندو اور عیسائی بہت بڑے پیمانے پر ابتدائی تعلیم کا نظام قائم کررہے تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے اس مثال سے کوئی سبق نہیں لیا۔ انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے لیے زبردست کوشش کی، مگر ابتدائی اسکول قائم کرنے کی طرف اتنا کم دھیان دیا کہ وہ نہیں کے برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلم کالج اور اسلامی یونیورسٹی تو ہمارے پاس موجود ہیں مگر اس کے اندر مسلم طلبہ موجود نہیں۔ کیوں کہ ان بڑے اداروں کو غذا پہنچانے والے چھوٹے ادارے نہیں۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مذہبی جذبے کے تحت ہندو اور عیسائی یا گورنمنٹ کےابتدائی اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کیا، اور خود ان کے اپنے ابتدائی اسکول موجود نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اس انداز پر نہ ہوسکی کہ وہ آگے بڑھ کر سائنس کے شعبوں میں داخلہ لے سکیں۔مسلم رہنماؤں کی اس غفلت کی وجہ جو بھی ہو، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ عملی طورپر یہ ایک بڑا سبب ہے، جس نے مسلم قوم کو سائنسی تعلیم میں پیچھے کردیا۔
بنیادی غفلت
سائنس کی تعلیم میں مسلمانوں کے پیچھے ہونے کا سبب ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ یہ ہوگا— مسلمان انگریز اور انگریزی میں فرق نہ کرسکے۔ انھوں نے استعماری قوموں اور استعماری قوموں کے ذریعے آنے والے علوم کو ایک سمجھا۔ اول الذکر سے سیاسی اسباب کے تحت انھیں نفرت پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ثانی الذکر سے بھی نفرت کرنے لگے۔ اگر وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے، تو یقینی طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سائنسی تاریخ دوسری ہوتی۔
ہر قوم کے کچھ اپنے قومی علوم ہوتےہیں۔ ان قومی علوم سے دوسری قوموں کو دلچسپی نہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ مزید یہ کہ دوسری قومیں اگر ان قومی علوم سے دلچسپی نہ لیں تو اس سے انھیں کوئی حقیقی نقصان نہیں ہوتا۔مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم ایک علم کو لے کر اٹھتی ہے لیکن حقیقة ً وہ اس کا قومی علم نہیںہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک آفاقی علم کی ہوتی ہے۔ یہ علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام قوموں کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک قوم کے لیے۔ وہ انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی قوم کا انفرادی ورثہ۔
قدیم صلیبی جنگوں کے بعد یہی صورت حال مغربی قوموں کے ساتھ پیش آئی تھی۔ اُس وقت مسلمان سائنسی علوم کے حامل تھے، اور اسی بناپر وہ مغربی قوموں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، اس وقت مغرب کی حیثیت مفتوح کی تھی، اور مسلمانوں کی حیثیت فاتح کی۔ اگر چہ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ مفتوح کےدل میں فاتح کے لیے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ فاتح کی ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ مگر مغربی قوموں نے یہ نادانی نہیں کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی، مگر مسلمانوںکے علوم کو انھوں نے آگے بڑھ کر لیا۔ نیز اپنی کوششوں سے اس میں اتنے اضافے کیے کہ بعد کی صدیوں میں وہ ان علوم کے امام بن گئے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ وہ دوبارہ تاریخ کو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہی صورت حال موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی۔ مغربی قومیں ان کے لیے فاتح کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس لیے مغربی قوموں سے بیزاری ان کے لیے ایک فطری بات تھی۔ مگر یہاں مسلمان اس ہوش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغرب اور مغربی علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں۔مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگے بڑھی تھیں، وہ ان کے قومی علوم نہ تھے، بلکہ وہ کائناتی علوم تھے۔ ان کی حیثیت قوت وطاقت کی تھی۔ دور جدید کے مسلم رہنما اگر اس راز کو بروقت جان لیتے، تو وہ مغربی علوم کو مغرب سے الگ کرکے دیکھتے۔ مغربی علوم کو وہ اپنے لیے طاقت سمجھ کر حاصل کرتے۔ وہ ان کو خود اپنی چیز سمجھتے ،نہ کہ غیر کی چیز۔ مگر یہاں دور جدید کے مسلم رہنما اس دانش مندی کا ثبوت نہ دےسکے۔انھوں نے بیک وقت مغرب سے بھی نفرت کی، اور مغربی علوم سے بھی۔ یہی وہ غلطی ہے، جس نے دور جدید میں مسلمانوں کو سائنس میں پیچھے کردیا۔ مسلم رہنماؤں نے ایک لمحہ کی غلطی کی تھی، مگر اس کا نتیجہ مسلم قوم کو صدیوں کی شکل میں بھگتنا پڑا:
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت شعور کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، مسلمانوں نے جب صلیبی جنگوں میں مغربی اقوام پر فتح حاصل کی ،تو وہ فتح کے جوش میں مبتلا ہوگئے۔ اس جوش نے انھیں سائنس کی تحقیق سے غافل کردیا۔ اس کے بعد موجودہ زمانہ میں یہی واقعہ ایک اور شکل میں پیش آیا۔ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلہ میں مفتوح ہوئے، تو ان کےاندر مغربی اقوام کے خلاف نفرت جاگ اٹھی۔ وہ نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہو کر مغربی سائنس کی طرف سے بے رغبت ہوگئے۔ مسلمان اپنی بے شعوری کے نتیجہ میںفاتح کی حیثیت سے بھی نقصان میں رہے، اور مفتوح کی حیثیت سے بھی۔
واپس اوپر جائیں
محمد بن کعب القرظی (وفات
اس قول میں مومن کی چند صفات بتائی گئی ہیں— زہد، فہم ِدین، خود احتسابی۔ یہ صفات الگ الگ صفات نہیں ہیں، یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ ان کے مجموعے کو ایک لفظ میں معرفت کہا جاسکتا ہے۔ جب انسان کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوتی ہے، تو وہ ایک عارف باللہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ معرفت اس کی پوری شخصیت کی کلیدبن جاتی ہے۔
مذکورہ تابعی کے قول میں زہد کا لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے وہی ہے، جس کو قرآن میںعدم رکون (ہود،
آدمی کو امکان کے قریب پہنچانے والا اللہ رب العالمین ہے۔ لیکن اس امکان کو پہچاننا، ہمیشہ انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ انسان اگرمعرفت کی پہچان میں ناکام ہوجائے، تو کوئی فرشتہ اس کی مدد کے لیے آنے والا نہیں۔ اس معاملے میں فرشتہ انسان کو ضمیر کے ذریعے سے اشارہ کرتا ہے۔ لیکن نجات کے معنی میں خود کو بچانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ ضروری ہے کہ انسان اس معاملے میں بہت زیادہ الرٹ رہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل اسلام کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریق ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا رد عمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن عمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسانی غفلت کے حوالےسےایک اصول ان دو آیتوں میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ ۔ وَأُمْلِی لَہُمْ إِنَّ کَیْدِی مَتِینٌ (
تکذیبِ آیات (نشانیوں کو جھٹلانا) کا مطلب کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کائنات کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ قرآنی حقیقتوں کی تصدیق بن گئی ہے۔انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کائنات کی نشانیوں میں اس تصدیق کو پڑھے، اور ان کا اعتراف کرے، مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا نظام بتاتا ہے کہ اس کا کنٹرول ایک عظیم خالق کے ہاتھ میں ہے۔ سورج کا ہردن نہایت وقت پر نکلنا، اور پھر نہایت متعین وقت پر اس کا ڈوبنا، اس بات کی گواہی ہے کہ سورج کا نظام ایک عظیم خالق کے کنٹرول میں ہے۔ اس طرح کی بے شمار نشانیاں کائنات میں ہیں۔ جو لوگ ان نشانیوں سے سبق لے کر خالق کو دریافت کریں، انھوں نے سچائی کو جان لیا، اور جو لوگ ان نشانیوں کو نظر انداز کریں، انھوں نے عملاً ان کو جھٹلایا۔ ایسے لوگ خالق کی پکڑ میں آجائیں گے۔
تکذیب کا عمل زیادہ تر لاشعور کے تحت ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کو دھیرے دھیرے پکڑنے کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فطرت کے اس نظام کو جانے، اور زیادہ ہوش مندی کے ساتھ اس نظام کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر انسان زیادہ ہوش مندی کے ساتھ چیزوں کو دیکھے گا، تو وہ فطرت کے نظام سے با خبر ہوجائے گا، اور اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، جو لوگ غفلت کی زندگی گزاریں، جو دنیا کی دلچسپیوں میں اتنا مشغول ہوجائیں کہ اپنی آخرت کو بھلادیں، ایسے لوگ تخلیقی نظام کی پکڑ میں آجائیں گے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس غلطی سے اپنے آپ کو بچائے۔ انسان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ٖوہ غفلت کی زندگی گزارے۔
واپس اوپر جائیں
حدیثِ رسول کو پڑھتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت جو قرآن سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ ایساکیوں ہوتاہے، اِس کا سبب آج میری سمجھ میں آیا۔ یہ اُس فرق کی بنا پر ہے جو قرآن اورحدیث کے درمیان پایا جاتا ہے۔ قرآن دراصل حقیقت کا بیان (statement of fact) ہے۔ اِس کے مقابلے میں حدیث گویا ایک عارفِ کامل کا کلامِ معرفت ہے، جس نے خود اس معرفت کا تجربہ کیا ہو۔ قرآن کا مطالعہ آدمی کے اندر رب العالمین کی عظمت پیدا کرتاہے، اور حدیث کے مطالعے سے آدمی کو معرفت رب کا ذائقہ ملتاہے۔
مثال کے طور پر جب آپ قرآن میں پڑھتے ہیںأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی(
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کا ڈر آپ کے لیے حکمت کا خزانہ بن جائے۔اس کا سبب یہ ہے کہ خوفِ خدا کا احساس آپ کے ذہن کے بند دروازے کو کھول دیتا ہے۔المناوی نے اس حدیث کی شرح ان الفاظ میں کی ہے أَی أَصْلہَا وأسہا الْخَوْف مِنْہُ لِأَنَّہَا تمنع النَّفس عَن المنہیات والشبہات وَلَا یحمل على الْعَمَل بہَا أَی الْحِکْمَة إِلَّا الْخَوْف مِنْہُ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر ، جلد2، صفحہ
واپس اوپر جائیں
جیسا کہ معلوم ہے، حدیثیں رسول اللہ کے زمانے میں باقاعدہ طورپر جمع نہیں کی گئیں۔ جب کہ اسی زمانے میں قرآن کو باقاعدہ طورپر جمع کیا جارہا تھا۔ ایسا خود رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق ہوا۔آپ نے کہاتھا:لَا تَکْتُبُوا عَنِّی شَیْئًا غَیْرَ الْقُرْآن(مسند احمد، حدیث نمبر 11536)۔ یعنی مجھ سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔یہ ایک عجیب بات ہےکہ وہی پیغمبر جس نے قرآن کے بارے میں کہا: تَعَاہَدُوا القُرْآنَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033)۔ یعنی قرآن کی نگہبانی کرتے رہو۔ اس پیغمبر نے حدیث کی حفاظت کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اِس پر کافی غور کرنے کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ یہ ایک خدائی منصوبہ بندی کا معاملہ تھا۔ کیوں کہ یہ بات طے شدہ تھی کہ لوگ ہر حال میں اقوالِ رسول کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھیں گے۔ قرآن کی حفاظت، کتابت کے ذریعہ ہوتی رہی، اور حدیث کی حفاظت حافظے کے ذریعہ۔ اِس فرق کا ایک بہت بڑا فائدہ تھا۔ اگر قرآن ہی کی طرح حدیث، آپ کی زندگی میں لکھ کر محفوظ ہوجاتی، تو بعد کی نسلوں کے لیے کوئی کام باقی نہ رہتا۔ حدیثوں کی جمع وتدوین کاکام زیادہ تر عباسی خلافت کے زمانے میں ہوا ہے۔ یعنی اُس زمانے میں جب کہ مسلمانوں کے اندر سیاسی بگاڑ آچکا تھا۔ ایسی حالت میں یہ ہوتا کہ تمام لوگ سیاسی اصلاح کے نام پر حکمرانوں سے لڑنا شروع کردیتے۔ اِس طرح پوری امت، ابن زبیر او رمعاویہ جیسے لوگوں سے بھر جاتی۔ حدیث کا غیر مدوّن ہونا لوگوں کے لیے اِس بات کا ذریعہ بن گیا کہ وہ سیاسی بگاڑ کے اِشو کو نظر انداز کرکے حدیث رسول کی تدوین میں لگ جائیں۔
اِس طرح حدیث رسول کی تدوین کا کام بعد کے لوگوں کے لیے ایک چیک بن گیا، یعنی سیاسی بگاڑ یا حکمرانوں کے ساتھ لڑائی سے روکنے والا عمل۔ حدیث کےکام نے لوگوں کو ایک معلوم میدان دے دیا، جہاں وہ اپنی کوششوں کو صرف کریں۔ جو صلاحیتیں منفی جھگڑے میں ضائع ہوتیں، وہ صلاحیتیں مثبت کام میں مشغول ہوگئیں۔
واپس اوپر جائیں
سنتِ رسول کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے— قول، عمل اور تقریر۔ تاہم قدیم کتابوں میں قول ، عمل اور تقریر کی جو صورتیں بتائی گئی ہیں، وہی کل مثالیں نہیں ہیں۔ رسول اللہ کی زندگی سے استنباط کرکے ان مثالوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا۔
مثال کے طور پر کعبہ کو جس قرآن میں بیتِ اول (پہلی مسجد) کہا گیا ہے، اس کو پیغمبر ابراہیم نے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے قدیم مکہ میں تعمیر کیا تھا۔ اس کے ایک عرصہ بعد قدیم مکہ میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہوگیا،جو توحید کے بارے میں زیادہ حساس نہیں تھے۔ انھیں میں سے ایک شخص کا نام عمرو بن لحی تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ کعبہ کے اندر بت لا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہاں دھیرے دھیرے بتوں میں اضافہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ عملاً کعبہ ایک بت خانہ بن گیا۔ جس وقت رسول اللہ کو پیغمبر بنایا گیا، اس وقت کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ گویا کعبہ جو کہ توحید کا مرکز تھا، بعد میں اس کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا۔
یہ واقعہ پیغمبر توحید کے لیے بظاہر ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ لیکن آپ نے اس واقعے پر صبر سے کام لیا، آپ نے اس واقعے کو ایک نئے اینگل سے دیکھا، اوروہ موقع (opportunity) کا اینگل تھا۔ یعنی منفی پہلو کو نظر انداز کرکےیہ دیکھنا کہ اس میں دعوت کے لیے مواقع کیا ہیں ۔ آپ نے دریافت کیا کہ کعبہ عرب کے تمام قبائل کے بت پرستوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس بنا پر وہاں روزانہ بڑی تعداد میں بت پرست قبائل کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ آپ نے اس اجتماع کو دعوت کے اینگل سےدیکھا، اور اس اجتماع کو دعوتی مشن کے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کرنا شروع کردیا۔ آپ کعبہ میں بتوں کی عبادت کے لیے اکٹھا ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے ، وہاں آپ لوگوں کے سامنے کعبہ میں رکھے گئے بتوں کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرتے تھے، بلکہ پر امن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے۔
رسول اللہ کا یہ عملی نمونہ بھی ایک سنت ہے کہ دعوت کے لیے بظاہر ناموافق صورت حال کو موافق میں تبدیل کرنا،یعنی پیش آمدہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر ری ایکٹ نہ کرنا، اور اس میں موجود مواقع کو دعوت کے لیے استعمال کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاملات میں اس سنت رسول پر عمل نہیں کیا۔
مثلاً ایک مسلمان مضمون نگار نے ایک اردو میگزین میں ایک مضمون لکھا،جس کا ٹائٹل یہ تھا— بھارتی مسلمان: سیاسی و سماجی کسمپرسی ۔ یہ صورتِ حال کو مسائل کے اعتبار سے دیکھنا ہے۔ یہ سنت ِ رسول کے خلاف عمل ہے۔ سنت ِ رسول کے مطابق عمل کرنا یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان مسائل کے درمیان کیا مواقع ہیں ، جو فرد کو اور سماج کو ترقی میں مدد دے سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
جنوبی ہند سے ایک عالم ِ دین کا مکتوب موصول ہوا ہے، اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے: تمل ناڈو اور دوسرے علاقوں میں علمائے کرام مختلف اداروں، مثلاً مدرسہ یا مسجد، وغیرہ، سے منسلک ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ان کو ادارے کی انتظامیہ (management) سے کوئی شکایت ہوجاتی ہے ، اس وقت وہ منفی رویہ اپنا کر اس ادارے سے نکل کر کسی دوسرے ادارے میں چلے جاتے ہیں، یا ایک نیا ادارہ قائم کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ پریشان بھی رہتے ہیں، اور ان کا علمی سفر بھی رک جاتا ہے۔ کیوں کہ ادارہ کی ذمے داریاں سنبھالنے میں ان کا وقت گذر جاتا ہے۔ان واقعات کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات سمجھ میں آئی ہےکہ علما\ئے کو صرف خروج علی الحاکم کے مسائل معلوم ہیں، خروج علی مینجمنٹ کے مسائل ان کومعلوم نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خروج ہر جگہ غیر مطلوب ہے ، ا س کا انھیں علم نہیں ۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ علماء اپنی علمی ذمے داریاں ادا کریں ،اور ادارے کی انتظامیہ، وغیرہ اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں تو معاملہ ٹھیک رہے گا۔ اس معاملے میں علماء کے لیےوہ حدیث رسو ل واحد راستہ ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی ان کو حق ان کادو، اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔ اگر اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے، تو باعتبارِ نتیجہ صرف فساد برپا ہوگا، شکایت کا ازالہ نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں محدثین ہمارے لیے نمونہ ہیں۔ انھوں نے اپنی علمی اور دینی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کی، لیکن وقت کے حکام سے جو شکایت تھی، اس کو نظرانداز کیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم ان کے علمی ذخیرے سے فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ آج علماء کرام دلوں میں شکایت پالنے کی وجہ سےاپنے لیے مسائل میں اضافہ کرتے جارہے ہیں، مگر کوئی بڑا علمی ذخیرہ یا کارنامہ نہیں ادا کررہے ہیں۔ تقریباًہر عالم اپنی انتظامیہ اور متولیانِ مساجد کے خلاف شکایت کرتا ہوا نظر آتا ہے، یہاں تک کہ پوری زندگی شکایت کی نذرہوجاتی ہے ۔
آج علماء صرف جلسوں یا کانفرنسوں میں نظر آجاتے ہیں، مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو کو ئی علمی تحقیق یا علمی یاد گار نہیں دے پاتے۔ اس کےبغیر ہی وہ دنیا سےشاکی ہو کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ علماء اپنی اس سوچ کی اصلاح کریں، وہ اپنی لاعلمی کو جانیں۔ وہ ادارے کی انتظامیہ کی نیتوں پر حملے ترک کر یں ، اس کے بجائے ان کو چاہیےکہ جو مواقع ان کو حاصل ہیں ، ان پر وہ فوکس کریں، اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچائیں۔ (مولانا سیداقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
مکتوب نگار نے جو بات لکھی ہے، وہ بلاشبہ درست ہے۔ لیکن راقم الحروف کے نزدیک اس کا سبب ماضی کی تاریخ تک جاتا ہے۔ فقہائے متقدمین اس معاملے میں میرے نزدیک ٹرینڈ سیٹر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فقہائے متقدمین کے زمانے میں مسائل میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اس وقت فقہائے متقدمین نے مسائل پر لامتناہی بحثیں چھیڑ دیں۔ یہ بلاشبہ ایک غلو تھا، جس کے نتیجے میں غیرضروری طور پر فقہی مسالک بنے، اور بڑھتے بڑھتے ان مسائل کی بنیاد پر مختلف قسم کے فقہی گروپ بن گئے۔ فقہ صرف ایک ہے، اور وہ وہی ہے، جو صحابہ کرام کے زمانے میں عملاً موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں فقہی بنیاد پر مختلف گروہ بن گئے،مثلاًحنفی فقہ ،مالکی فقہ ، شافعی فقہ، حنبلی فقہ، جعفری فقہ، وغیرہ۔ وہ وہی چیز تھی، جس کو قرآن میں تفرق فی الدین (البقرۃ،
علمائے فقہ کو اس معاملے میں توسع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، جس کی طرف ابن عبد البر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ (جلد 1، صفحہ
اس معاملے پر شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اسلام کے دورِ اول میں جب خروج علی الحاکم کا مسئلہ پیدا ہوا، تو علمائے اسلام نے اس پر کیا رویہ اختیار کیا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس پر علما کا یہ اجماع ہو گیا کہ حاکم کے خلاف خروج کرنا، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ امام نووی نے لکھا ہے: وَأَمَّا الْخُرُوجُ عَلَیْہِمْ وَقِتَالُہُمْ فَحَرَامٌ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ وَإِنْ کَانُوا فَسَقَةً ظَالِمِینَ (شرح النووی علی صحیح مسلم، جلد نمبر
ا س کا مطلب یہ ہوا کہ حاکم کے خلاف خروج نہ کرنا، مطلقاً مطلوب ہے۔ کوئی بھی عذر (excuse) اس معاملے میں خروج کو جائز نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خروج ایک اور چیز سے جڑا ہوا ہے، اور وہ ہے، استحکام (stability)۔ سماجی زندگی میں استحکام مطلق طور پر مطلوب ہے۔ کوئی بھی چیز جو استحکام کو نقصان پہنچائے، وہ بطورِ اصول قابلِ ترک ہے۔
قدیم زمانے میں یہ عمل سیاسی حاکم کے مقابلے میں اختیار کیا گیا تھا، موجودہ زمانے میں یہی اصول اس معاملے میں اپلائی ہوتا ہے، جب کہ ادارے کے ذمے دار کے خلاف خروج کا معاملہ ہو۔ کسی کے لیے یہ تو جائز ہے کہ وہ کسی عذر کو لے کر خاموشی کے ساتھ ادارے سے الگ ہوجائے۔ وہ الگ ہونے سے پہلے بھی اس معاملے میں خاموش رہے، اور ادارے سے الگ ہونے کے بعد بھی خاموش رہے۔ ادارے کے خلاف یا ادارے کے ذمے داران کے خلاف شکایتیں کرنا، اور منفی باتیں کرکے لوگوں کے اندر شکایتی ماحول پیدا کرنا، ہرگز جائز نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معلمِ دین کی ہے، یعنی دینِ خداوندی کی تعلیمات سے انسان کو باخبر کرنا۔ اس سلسلے میں قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— کتاب اور حکمت۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ یعنی وہ سب جو پیغمبر اسلام پر بذریعہ وحی اترا ہو، اور وہ محفوظ طور پر مابین الدفتین، ہمارے پاس موجود ہو۔اس مجموعے کو قرآن بھی کہا جاتا ہے، اور کتاب اللہ بھی۔ اس کتاب کا متن عربی زبان میں محفوظ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو تعلیم قرآن میں لفظاً موجود نہ ہو، اس کے بارے میں کیا اصول ہے۔ انھیں دوسری تعلیمات کو حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیزہے، جس کو انگریزی زبان میں وزڈم (wisdom) کہتے ہیں۔یہ حکمت قرآن کی ملفوظ تعلیمات کے علاوہ ہے۔ یہ قول کی صورت میں بھی ہوسکتی ہیں، اور عمل کی صورت میں بھی، اور اُس صورت میں بھی جس کو محدثین کی اصطلاح میں تقریر کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ کی تعلیمات کا یہی وہ حصہ ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
مثال کے طور پر رسول اللہ کا مشن توحید کا مشن تھا، یعنی انسان اللہ کو ایک مانے، اور اس کا عبادت گزار بنے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب رسول اللہ کی بعثت ہوئی، اس وقت کعبہ کی عمارت میں تقریباً تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ رسول اللہ وہاں جاتے، اور لوگوں سے کہتے کہ ایک اللہ کو مانو، اور اسی کی عبادت کرو۔ لیکن سیرت کی کتابوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے وہاں جاکر یہ کہا ہوکہ کعبہ کے معمار پیغمبر ابراہیم نے کعبہ کو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا تھا۔ تم کعبہ کی عمارت سے بتوں کو ہٹاؤ، اور اس کو صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے خالص کرو۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ کا یہ عمل قرآن میں کہاں مذکور ہے۔ یہ تعلیم رسول اللہ کے عمل سے نکلتی ہے، نہ کہ قرآن کے الفاظ سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ جو رسول اللہ نے اختیار کیا، وہ ایک مستنبط طریقہ تھا۔ اسی مستنبط طریقے کا نام حکمت ہے،یعنی بذریعہ استنباط (inference) دریافت کیا ہوا طریقہ۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ پیغمبرِ اسلام نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (delinking) کا طریقہ اختیار کیا، یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ آپ نے دیکھا کہ قدیم مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھ دیے ہیں، وہاں وہ روزانہ جمع ہوتے ہیں، اور اپنے عقیدے کے مطابق بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کعبہ میں بیک وقت دو مظاہر موجود تھے۔ ایک، کعبہ کی عمارت میں بتوں کی موجودگی، اور دوسرا، ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ اہل شرک کا اکٹھا ہونا۔
آپ نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کی۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کے پاس عرب قبائل کا اکٹھا ہونا۔ آپ نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا۔ یعنی کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر اندازکیا، اور عرب قبائل کے اجتماع کو اپنے آڈینس کے طور پر استعمال کیا۔
ڈی لنکنگ کا یہ طریقہ جو آپ نے اختیار کیا، وہ لفظی حکم کے طو رپر قرآن میں موجود نہ تھا۔ یہ ایک استنباطی حکمت تھی، جو آپ نے دعوت کے لیے استعمال کی۔ اس استنباطی حکمت کے لیے دوسرا لفظ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے، اور حکمت سے مراد پریکٹکل وزڈم ہے۔
پریکٹکل وزڈم، یعنی ایک طریقے کو عمل کی بنیاد پر اختیار کرنا، جب کہ نظریے کی بنیاد پر وہ طریقہ متن میں موجود نہ ہو۔ موجودہ زمانےمیں حدیث اور سنت کا چرچا بہت زیادہ کیا گیا ہے، لیکن مذکورہ طریقہ جوبلاشبہ ایک سنت رسول ہے،اس کا کوئی چرچا نہیں۔ اس سنت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اب تک کوئی منصوبہ بندی نہیںہوئی۔ یہ ایک ایسی سنت رسول ہے، جو عملاً مسلمانوں میں متروک بنی ہوئی ہے۔ موجودہ زمانے کا اصل کام یہ ہے کہ اس متروک سنت کو زندہ کیا جائے۔ اس متروک سنت کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میںآئی ہے: إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (
اس طرح کی آیتوں میں حکم کا لفظ اس قانون کے لیے نہیں آیا ہے، جو اسمبلی میں یا پارلیمنٹ میں بنایا جاتا ہے، اور جس کو وزیرِ قانون یا عدالت کے جج نافذ کرتے ہیں۔ بلکہ اس طرح کی آیتوں میں حکم سے مراد وہ برتر حکم ہے، جو اللہ رب العالمین نے براہ راست طور پر اپنے فرشتوں کے ذریعہ عالم وجود میں نافذ کر رکھا ہے۔ اس حکم سے مراد وہ حکم ہے، جس کو یاد کرنے سے انسان کے اندر شکر اور عبادت کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے، جو آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں شاکر اور عبادت گزار بن کر زندگی گزارے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، بارش کا نظام، زمین سے غلہ پیدا ہونے کا نظام، ہواؤں کے چلنے کا نظام، زمین پر لائف سپورٹ سسٹم قائم کرنے کا نظام، وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جو اس دنیا میں انسان کو فطرت کے نظام کے تحت حاصل ہیں۔ یہ سب نظام اللہ رب العالمین کے حکم کے تحت وقوع میں آتے ہیں۔ اس حکم کی دریافت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرے، اور اللہ کو اپنا معبود سمجھ کر صرف اسی کی عبادت کرے۔
اگر کوئی شخص اس طرح کی قرآنی آیتوں کو لے کر دنیا میں سیاسی تحریک چلائے، اور حکمرانوں کو قیادت سے بے دخل کرنے کے لیے ان سے لڑائی شروع کردے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہیں ہوگی، بلکہ اس حکم کے نام پر ایک تخریب کاری کی سیاست چلانا ہوگا۔ یہ اللہ کے نام پر ایک باغیانہ فعل کا ارتکاب ہوگا۔ قرآن کی اس طرح کی آیتوں کا کوئی تعلق پولٹکل اکٹوزم (political activism)سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تمام تر تعلق اس سے ہے کہ انسان اس دنیا میں شکر اور عبادت کی زندگی گزارے، وہ دنیا میںرحمٰن کا بندہ (الفرقان،
حکومت کا معاملہ
موجودہ دنیا پورے معنوں میں اللہ رب العالمین کی سلطنت ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو محدود مدت کے لیے اللہ نے انسان کے چارج میں دے دیا ہے۔ اسی میں سے حکومت کا معاملہ بھی ہے، جس طرح زمین کا زرعی رقبہ (agricultural land) عارضی طو رپر انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کو استعمال کرے، اسی طرح انسان کو یہ موقع بھی عارضی طور پر دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میںسویلائزیشن بنائے۔ یہ مدت صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ قیامت کے بعد انسان کا اختیار ختم ہوجائے گا، اور اس کو اپنے عمل کے مطابق، اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔
یہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ حکومت دوسری اشیاء سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کا اختیار بھی انسان کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ آخرمیں انسان کا اس اعتبار سے حساب لیا جائے گا، اور انسان کو اس کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دی جائے گی۔ قرآن میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:( ترجمہ) لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (
حدیث میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں:یَطْوِی اللہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَى، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ، أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ. ثُمَّ یَطْوِی الْأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ؟ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2788)۔ یعنی اللہ تعالی قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین، پھر وہ زمین کو اپنے بائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین — یہ اس وقت ہوگا جب کہ انسان کی آزادی اس دنیا میں ختم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے :إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (
قرآن کی اس آیت کو اگر اس کے صحیح معنی کے اعتبار سے لیا جائے تو وہ انسان کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو حکم خداوندی کا تابعدار بنائے۔ اس کے برعکس، اگر اس آیت کو نفاذ (enforcement) کے معنی میں لیا جائے، تو برعکس طور پر اس کا مطلب یہ بنے گا کہ انسان کو چاہیے کہ وہ با اقتدار لوگوں سے لڑ کر ان سے اقتدار کی کنجیاں چھینے ، اور خود تختِ سلطنت پر قبضہ کرے۔ وہ حاکم بنے، اور دوسروں کو محکوم بنا کر بطور خود خدا کا حکم زمین پر چلائے۔
صحیح تفسیر کے مطابق، قرآن کی یہ تعلیم تمام انسانوں کو یکساں حیثیت دیتی ہے، یعنی آیت کی نظر میں تمام انسان اللہ کے بندے ہیں، اور ہر انسان کو یکساں طور پر یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کا محکوم سمجھے، اور اللہ کے احکام کی تابعداری میں زندگی گزارے ۔ یہ آیت ایسا نہیں کرتی کہ لوگوں کو دو گروہ میں بانٹے، اور پھر ان میں سے ایک گروہ کو حاکم (ruler) قرار دے، اور ودسرے گروہ کو یہ حیثیت دے کہ وہ محکوم (ruled) بن کر زندگی گزاریں۔
حکمِ الٰہی کا لفظ قرآن میں کسی سیاسی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی اطاعت کے معنی میں ہے۔ اس سے مراد ایک سلوک (behaviour) ہے، نہ کہ کوئی سیاسی قانون ۔ یہ فرد کو اسلامائز کرنے کا معاملہ ہے، نہ کہ حکومت یا ریاست کو اسلامائز کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں
تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے بھی سیاست کی اصلاح کے نام پر تحریک چلائی، ان کی سیاست ہمیشہ تخریبی سیاست ثا بت ہوئی۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ سیاسی اصلاح کا مروجہ طریقہ درست طریقہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی اصلاح کے طریقے میں ہمیشہ ایک فریقِ ثانی موجود رہتا ہے۔ ہر سیاسی اصلاح کا طریقہ فریقِ ثانی کو اپنے سیاسی مفاد کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس لیے اول دن ہی سے وہ اس اصلاحی سیاست کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔
یہ حل وہی ہے ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا تھا۔ آپ کی اہلیہ عائشہ آپ کی پالیسی کو ان الفاظ میں بتاتی ہیں:مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَہُمَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملات کے درمیان اختیار دیا گیا، آپ نے ان دونوںمیں سے آسان تر کو اختیار کیا۔ یہ طریقِ عمل ہر تحریک کے لیے یکسا ں طور پر چسپاں ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب بھی کوئی تحریک چلائی جائے، تو اس کے چلانے والوں کو نہایت شدت کے ساتھ یہ اصول اپنانا چاہیے کہ ان کی تحریک مکمل طور پر امن کے اصول پر قائم رہے۔
اس قسم کی تحریک کے دوران اگر کوئی ایسا مرحلہ آئے، جب کہ تحریک کو چلانے کی صورت میں اربابِ سیاست سے ٹکراؤ پیش آنے والا ہو، تو وہاں مصلحین کو چاہیے کہ وہ پریکٹکل وزڈم کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ یک طرفہ طور پر غیرنزاعی انداز میں اپنی تحریک کو چلائیں، کسی حال میں بھی وہ اپنی تحریک کو نزاع اور ٹکراؤ کے راستے پر نہ لے جائیں۔ اربابِ سیاست سے نزاعی طریقہ اختیار کرنا، ہمیشہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ کیوں کہ اس قسم کا ٹکراؤ عملاً دو غیر مساوی گروہوں کے درمیان ٹکراؤ بن جاتا ہے۔ اہل اقتدار کے پاس طاقت ہوتی ہے، اور مصلحین کے پاس طاقت موجود نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عملا ً گریٹر ایول (greater evil) کے انجام تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ (
اس آیت میں سارا زور یقین پر ہے۔ یعنی جب کوئی امت اپنے فکری اور ذہنی ارتقا کے نتیجے میں اللہ کی رہنما ئی پر یقین کے درجے میں قائم ہوجاتی ہے، تو وہ اللہ کے نزدیک اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس کو ہدایت کی ذمے داری عطا کی جائے۔ اس کو کلامِ الٰہی کی گہری سمجھ عطا کی جاتی ہے، اور اس کی یہ ذمے داری قرار پاتی ہے کہ وہ پوری امانت کے ساتھ اللہ کی ہدایت کو لوگوں تک پہنچائے۔ یہ ایک ذمے داری کا معاملہ ہے، وہ کوئی اعزاز کا معاملہ نہیں۔ اگر امت کے افراد یقین کی حالت پر نہ ہوں، تو وہ ذمے داری کے اس کام کو صحیح طور پر انجام دینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس لیے اس ذمے داری کو ادا کرنے کی شرط یہ قرار پائی کہ امت کے لوگ جس ہدایت کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں، وہ خود اس کی صداقت پر یقین رکھتے ہوں۔
اسی بات کو قرآن میں دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (
اس ذمے داری کی ادائیگی میں صبر کا بنیادی رول ہے۔ کیوں کہ صبر کسی آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ ذمے داری کے اس کام میں لگ جائے۔ اس کام میں وہ کسی رکاوٹ کو رکاوٹ نہ بننے دے۔ صبر سے آدمی کے اندر مشن کے لیے استقامت آتی ہے، صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ خواہ اس کی ذمے داری اس کے لیے ایک مشکل ذمے داری ہو، پھر بھی وہ اس پر دلجمعی کے ساتھ قائم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
حدیثِ رسول میں بعد کے زمانہ کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس میں بتایاگیاہے کہ یہ دور فتنۂ دہیماء کا دور ہوگا۔ فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے کالا فتنہ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت زیادہ اندھیرا (utter darkness) ہوگا۔ یہ اندھیرا مادی روشنی کےاعتبار سے نہیں ہوگا بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ لوگوں کے لیے سچائی کا راستہ گم ہوجائے گا۔ اس دور کے لیے حدیث میں یہ الفاظ بھی آئےہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا، اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔
حدیث کی اس پیشین گوئی کو میںنے ایک سفر کے دوران سمجھا۔اس سفر کے دوران میری ملاقات کچھ تعلیم یافتہ مسلمانوں سےہوئی۔ گفتگو کے دوران کسی نے کہا کہ ہمارے لیے نقطۂ آغازکیا ہے (مِن این نبدأ)۔ کسی نے کہا کہ ہمارے لیے لائحۂ عمل (line of action) کیاہے۔ گویاکہ لوگ اس امر میں مشتبہ ہوگئے ہیں کہ موجودہ حالات میں کرنے کا صحیح کام کیا ہے۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتاہے کہ یہ فقدان اجتہاد (lack of ijtihad) کا مسئلہ ہے۔موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ سوچنےکا انداز، کام کرنے کا طریقہ، وقت کے مطابق پلاننگ، رائے قائم کرنے کے پیمانے ،سب یکسر طور پر بدل گئےہیں۔اب روایتی طریقہ زمانے کے اعتبار سے غیر متعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ جو چیزیں پہلےمسلّمہ سمجھی جاتی تھیں، وہ اب ناقابل قبول بن گئی ہیں۔ایسی حالت میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ فتوی کی زبان نہیں ہے کہ لوگوں کو سادہ طورپر امر اور نہی (dos & don’ts) کی فہرست بتادی جائے۔ یہ صورت حال دراصل نئے اجتہاد کی طالب ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام دور حاضر میں بے جگہ(misfit) ہوگیا ہے، بلکہ یہ مسائل کو ریڈیفائن (redefine) کرنے کا وقت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کا از سرنو مطالعہ کیا جائے۔ اب ضرورت ہےکہ مجتہدانہ ذہن کے تحت اسلام کی از سر نو تطبیق (reapplication) تلاش کی جائے۔ اس سے کم درجہ کی کوئی رہنمائی موجودہ دور میں کافی نہیں ہوسکتی۔
مثال کے طورپر وطنیت (patriotism) کا تصور پہلے زمانہ میں مذہب سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ مگر موجودہ جمہوری زمانہ میں وہ ایک سیکولر سبجکٹ(subject)بن گیاہے۔ اس معاملہ میں ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو مجتہدانہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے، اور دنیا سے ہم آہنگی اختیار کرتےہوئے وطنیت کو ایک سیکولر سبجکٹ قرار دیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہر مقام پر مسلمان بے جگہ (displaced persons) بنے ہوئے ہیں۔
اسی طرح شریعت کے نفاذ کے بارے میں عام طورپر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جو تشدد کا سبب بن رہی ہے۔ اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے— پاکستان کے دو شہروں کوئٹہ اور پارا چنار میں بم دھماکے ہوئے جس میں
“Our attacks will continue until a true shariah system is enforced in Pakistan”. (The Times of India, June,
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر یہ سخت خطرناک غلط فہمی (extremely dangerous misunderstanding)پیدا ہوگئی ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ شریعت کے قانون کو وہ دنیا میں نافذ (implement) کریں۔ یہ بلاشبہ ایک بے بنیاد تصور ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ انفرادی سطح پر شریعت کے قانون کی پرامن انداز میں پیروی کریں۔مثلاً قرآن میں آیا ہے کہ أَقِیمُوا الصَّلَاةَ (نماز قائم کرو)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازکو اس کی اسپرٹ کے ساتھ ادا کرو، اور نماز والی اسپرٹ کو اپنی پوری زندگی میں قائم کرو۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں جنگ سلبی مقصد کے لیے ہے، اسلام میں جنگ ایجابی مقصد کے لیے نہیں۔ یعنی اسلام میں جنگ کسی مانع (obstacle) کو دور کرنے کے لیے ہے، نہ کہ مطلوب (desired) گول کو قائم و نافذ کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (
اس آیت میں واضح طو رپر جنگ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ فتنہ عملاً ختم ہوجائے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن عمر نے فتنہ کو یہاں شرک جارح کے معنی میں لیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4514)۔ دوسرے لفظوں میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جبر کرنے والے اگر اپنے جبر سے باز آجائیں، اور لوگوں کو مذہب پر آزادانہ عمل کرنے کا موقع دے دیں، تو اس کے بعد ان سے جنگ ختم کردی جائے گی۔ اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ فتنہ کو ختم کرکے عادلانہ حکومت قائم کرو۔ اس تفسیر کا تعلق قرآن کی اس آیت سے نہیں۔
کچھ لوگ خود ساختہ تشریح کے تحت اس آیت کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ فتنہ(شرک) کا نظام ختم کرو، اور عدل (اسلام)کا نظام قائم کرو۔ اس طرح کا مفہوم وہ قرآن کی آیتأَقِیمُوا الدِّینَ (
واپس اوپر جائیں
اسلام میں جہادبالسیف (مسلح جہاد) کا مقصد صرف ایک تھا ختم ِ فتنہ، یعنی مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ۔ دورِ جدید میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے میں مسلح جہاد قابلِ عمل (applicable) نہیں ہے۔ اس دور میں جہاد کی بات کرنی، یقینی طور پر بے خبری کی بات ہے۔ جہاد بالسیف کا حکم اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:(ترجمہ)ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد سختی نہیں ہے مگر ظالموں پر (
اس دوسری آیت کا مطالعہ پہلی آیت کے ذیل میں کیا جائے گا۔ یعنی اس آیت میں جس جہاد کا ذکر ہے، وہ پہلی آیت کی طرح ایک مشروط حکم ہے، نہ کہ غیر مشروط حکم۔ یعنی جب فتنہ کے ختم کے لیے قتال جاری ہو تو اس وقت دوسری آیت (یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا ) ایک مطلوب حکم ہوگا۔ لیکن جب فتنہ کا زمانہ ختم ہوجائے، تو اس وقت جہادکرنابھی موقوف ہوجائے گا۔ختم ِ فتنہ کے لیے قتال اس لیے ضروری تھا کہ فتنہ کی وجہ سے دنیا میںمذہبی آزادی (religious freedom) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام نے مذہبی آزادی کو امر ممنوع (forbidden)قرار دے دیا تھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ اس بنا پر ضروری تھا کہ بادشاہت کی قائم کردہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا جائے، تاکہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آجائے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے— یہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے۔ کیوں کہ یہ حکم نہ قرآن سے ثابت ہے، اور نہ حدیث سے۔ البتہ فقہا نے بطور خود ایسے مسائل وضع کرلیے ہیں، جن میں سےکچھ یہ ہیں، شاتم کی سزا قتل، مرتد کی سزا قتل ،وغیرہ۔
اس قسم کے مسائل اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہیں۔ اسلام کے نزدیک ایسے ایمان کی کوئی حقیقت نہیں، جو قانونی جبر کے تحت کسی نے اختیار کیا ہو۔ اسلام وہ ہے، جو قانونی جبر کے تحت نہیں، بلکہ آزادانہ طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ اسلام کی اصل ذاتی دریافت ہے۔ ایمان وہ ہے جو سیلف ڈسکوری (self discovery) کی بنیاد پر کھڑا ہو۔
اسلام کے مطابق، جہاں کوئی شخص "شتم " یا "ارتداد " میں مبتلا پایا جائے، تو خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اس کے لیے دعا کی جائے، اس سے ڈسکشن کیا جائے۔ اگر اس کے اندر کچھ شک پیدا ہو ا ہے، تو اس کے شک کو علمی ڈسکشن کے ذریعے دور کیا جائے۔ اس کو ایک مجرم کی طرح نہ دیکھا جائے، بلکہ اس طرح دیکھا جائے، جس طرح کوئی ڈاکٹر مریض کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مقصد لوگوں کو فتویٰ دے کر قتل کرنا نہیںہے، بلکہ اس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اللہ کی رحمت کے سائے میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اصل حقیقت کے اعتبار سے ایسے افراد کا کیس بے خبری (unawareness) کا کیس ہوتا ہے۔ داعی یا مصلح کا کام یہ ہے کہ اس کی بے خبری کو توڑا جائے، اس کی فطرت کو بیدار کیا جائے۔ اس کو اپنے خالق سے قریب ہونے کا موقع دیا جائے۔ یہ کوشش کی جائے کہ اس کے اندر توبہ کی نفسیات جاگے۔یہ کوشش کی جائے کہ وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ صراطِ مستقیم پر قائم ہوجائے۔ اسلام میں سماجی جرم (social crime) پر قتل کی سزا ہے، اسلام میں اعتقادی جرم (thought crime) پر قتل کی سزا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
میں نے تقریبا ًتمام مشہور مذاہب کا مطالعہ کیاہے۔ میں نے پایا کہ ہر مذہب میں ایک تعلیم مشترک ہے۔ اسلوب اور انداز مختلف ہے، لیکن تعلیم کا خلاصہ ایک ہے۔وہ ہے، انتقام نہ لینا۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچے، تو اس کو درگزر کردینا۔ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا، خواہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ یہ اخلاقی تعلیم ہر مذہب میں مشترک طو رپر پائی جاتی ہے۔
میں نےغور کیا کہ یہ تعلیم تمام مذاہب میں کیوں ہے، اور یہ کہ یہ صرف ایک اخلاقی تعلیم ہے، یا اس میں کوئی وزڈم ہے۔ اخلاق کا تصور تعلیم کو محدود کرتا ہے، لیکن اگر اس تعلیم میں کوئی وزڈم دریافت کی جائے، تو وہ تعلیم اپنی نوعیت میں ایک یونیورسل اصول بن جاتا ہے۔غور و فکر کے بعد میں نے پایا کہ یہ اصول ایک اعلیٰ وزڈم پر مبنی ہے۔ یہ ایک یونیورسل اصول ہے، نہ کہ محدود معنوں میں صرف ایک اخلاقی تعلیم۔
یہ تعلیم آپ کے ایک عمل کو ڈبل گڈ (double good) بنا دیتی ہے۔ آپ کا ایسا عمل آپ کو ڈبل بلیسنگ (double blessing) کا مستحق بنادیتا ہے۔ ایسے اصول پر عمل کرنا، آپ کی شخصیت میں ڈبل ارتقا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ ایک اچھا سلوک کریں، آپ اس کے ساتھ نیکی کا ایک معاملہ کریں۔ آپ کا ایسا کرنا، ایک درجہ کی نیکی ہے۔ لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے، اور آپ اس کے ساتھ رد عمل کا انداز اختیار کرتے ہوئے، خودبھی اس کے ساتھ ایک برا سلوک کریں، تو آپ دوسرے کے برے سلوک کابدلہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح آپ کا اور دوسرے کا معاملہ برابر ہوجاتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ جوابی عمل کا طریقہ یا ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، تو آپ ڈبل بلیسنگ کے مستحق بن جاتے ہیں۔ ایک ہے، انتقام نہ لینا، اور دوسرا ہے دوسرے کے ساتھ یک طرفہ طور پر نیکی کا معاملہ کرنا۔ غور کیجیے تو ہر مذہب میں اس طرح کے سلوک کا طریقہ موجود ہے۔مثلاً رام چندر کا درجہ ہندوؤں میں بہت بڑا ہے۔ رام چندر کا قصہ بیان کیاجاتا ہے کہ کوئی ان پر غصہ ہوگیا۔ اس نے اپنے پاؤں سے رام چندر کے سینے پر ماردیا۔ رام اس کے جواب میں غصہ نہیں ہوئے، انھوں نے مذکورہ آدمی کو اپنے گلےسے لگا لیا، اور کہا: میرے لوکھنڈ سینے سے تمھارے کومل پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ اس آدمی نے پوچھا کہ میں نے آپ کے ساتھ ایک غلط کام کیا، اور آپ میرے ساتھ اتنا اچھا معاملہ کیوں کررہے ہیں۔ رام نے کہا تمھیں تو اس قابل ہو کہ تم کو گلے سے لگایا جائے، کیوں کہ تمھارے اندر ایک برائی ہے۔ برائی کی اصلاح برائی سے نہیں ہوتی، بلکہ برائی کی اصلاح اچھائی سے ہوتی ہے۔ یہی تعلیم مسیحیت کی بھی ہے۔ مثلا ًنئے عہد نامہ کی تعلیم ہے:
Love your enemies, do good to those who hate you, bless those who curse you, pray for those who mistreat you. (Luke 6:27-28)
اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے دوسرا شخص آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے، آپ پھر بھی اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کیجیے۔ یہی تعلیم اسلام کی بھی ہے۔ مثلاً قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے: وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (
یہ تعلیم اس لیے ہے کہ جب آدمی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے، تو وہ ڈبل ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا، دوسرا یہ کہ انتقام کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس یک طرفہ سلوک میں حکمت یہ ہے کہ ایک غلط معاملہ کرنے کے بعد چین ری ایکشن نہیں بنتا، بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ گویا یہ نیپنگ ان دی بڈ (nipping in the bud) کی عملی صورت ہے۔ یعنی شروع میں ہی ختم کر دینا ، پوری طرح پھولنے پھلنے نہ دینا ۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانہ دستکاری کا زمانہ تھا۔ ہر آدمی اپنا کام خود کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ انڈسٹری کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر کام میں پورا سماج شامل (involve) ہوتا ہے۔ اس بنا پر موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر وجود میں آیا ہے، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ کلچر (interdependent culture)کہا جاسکتا ہے، یعنی ہر آدمی کا دوسرے آدمی پر منحصر (نربھر) ہونا۔
قدیم بادشاہت کے زمانے میں لوگوں کے درمیان جو مساوات (equation) تھی، وہ حاکم اور محکوم کی تھی۔ جدید دور میں دنیا میں جمہوریت کا نظام آیا۔ اب مساوات (equation) کا معاملہ بالکل بدل گیا۔ اس معاملے میں نئی مساوات پولٹیکل لیڈر اور ووٹر کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ قدیم بادشاہوں کو ووٹر کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صرف ایک بات جانتا تھا، فوج کے ذریعہ لوگوں کو زیر کرکے ان کے اوپر حکومت قائم کرنا۔
نئی مساوات کے زمانے میں حاکم اور محکوم کے درمیان نیا تعلق قائم ہوا۔ اب حاکم (political leader) کو ووٹر کی ضرورت ہے۔ اس نئے دور میں ووٹر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرے۔ اس طرح ایسا ہوا کہ ووٹر کو پولیٹکل لیڈر کی ضرورت ہوگئی، اور پولیٹکل لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ۔ اس کے بعد دنیا میں پہلی بار وہ نظام آیا، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ نظام کہا جاتا ہے۔
اس طرح دنیا میں نئے مواقع پیدا ہوگئے۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ ہر ایک دوسرے کی ضرورت بن کر اپنا فائدہ حاصل کرے۔ پولیٹکل لیڈر اور ووٹر ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔ اسی طرح تاجر اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں۔ اب نہ کسی کو لڑنے کی ضرورت ہے، اور نہ کسی کو شکایت کی ضرورت ۔ انٹر ڈپنڈنٹ کے نئے نظام میں ہر ایک کو اصولا ًوہی حیثیت مل گئی ہے، جو اس سے پہلے مراعات یافتہ طبقہ(privileged class) کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ ہر ایک کے لیے وہ تمام مواقع یکساں طور پر کھل گئے، جو پہلے کچھ خاص طبقے کو حاصل تھے۔
نئے سماج میں یہ ہوا کہ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت، اور ووٹر کو لیڈر کی ضرورت۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت، اور مریض کو ڈاکٹر کی ضرورت۔ دوکاندار کو کسٹمر کی ضرورت، اور کسٹمر کو دوکاندار کی ضرورت۔ اس طرح موجودہ زمانے میں ایک نیا سماج بنا، جس میں کسی ایک شخص کو عملاً وہی مواقع حاصل ہوگئے، جو کسی دوسرے شخص کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے۔
اس دو طرفہ سسٹم کی بنا پر موجودہ زمانے میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے حاصل کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ ،اور وہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ دوسرے کے لیے اپنی طرف سے کوئی پرابلم کھڑا نہ کرے۔ وہ دوسروں کے لیے مکمل طور پر پرابلم فری (problem-free)انسان بن جائے۔ وہ اگر دوسروں سے کچھ پاناچاہتا ہے، تو وہ دوسروں کو کچھ دینے والا بن جائے، نہ کہ صرف لینے والا۔ یہی وہ کلچر ہے، جس کو عام زبان میں گیو اینڈ ٹیک (give and take) کلچر کہا جاتا ہے۔ اس نئے دور نے شکایت کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر مذہب سچا ہے کا نظریہ بظاہر ایک خوبصورت نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ آدمی کو اسی چیز سے محروم کردیتا ہے، جو مذہب کی اصل ہے، یعنی یقین۔ ایسا آدمی بظاہر ہر مذہب کو یکساں درجہ دیتا ہے، لیکن یہ اس کے لیے لپ سروس (lip service) کی بات ہوتی ہے۔ یہ نظریہ مذہبی یقین کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دے دیتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ میں بھی سچا، تم بھی سچے۔ یعنی کہنے کے لیے ہر مذہب کو سچا ماننا، لیکن گہرے یقین کے اعتبار سے کسی بھی مذہب پر یقین نہ ہونا۔
اصل یہ ہے کہ یہ معاملہ ایک مذہب یا تمام مذاہب کو ماننے کا نہیں ہے۔ بلکہ مذہب کو سچائی کا معاملہ سمجھنے کے بعد اس کو سماجی اخلاق (social ethics) کا درجہ دینے کا ہے۔ یعنی مذہبی یقین کے بجائے سوشل مینرس (social manners) میں جینا۔ اس لیے اس معاملے میں صحیح فارمولا وہ ہے، جو باہمی احترام (mutual respect) پر قائم ہوتا ہے، نہ کہ باہمی اعتراف (mutual recognition) پر۔
دوسرے تمام معاملات میں زندگی کا نظام باہمی احترام کے نظریے پر چلتا ہے۔ یعنی کسی کا مذہب پوچھے بغیر اجتماعی زندگی میں اس کا احترام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی اعتبار سے زندگی کا نظام انسان کے عمومی احترام پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سچائی کے اعتبار سے زندگی کا نظام تحقیق، اور ڈسکوری کے اوپر قائم ہوتا ہے۔ سچائی کے معاملے میں پہلے آپ متلاشی (seeker) بنتے ہیں، پھر آپ مطالعہ اور تحقیق کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کو سچائی کی دریافت ہوجاتی ہے۔ اس وقت آپ سچائی پر دل و جان سے قائم ہوجاتے ہیں۔ باہمی احترام کا فارمولا ایک ورکیبل فارمولا (workable formula) ہے، جو عملی ضرورت کی بنیاد پر بنتا ہے۔اس کے برعکس، سچائی کو ماننے کا فارمولا یقین (conviction) کے اصول پر قائم ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ذاتی معاملہ ہر آدمی کا اپنا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کو کوئی دوسرا شخص نہ سمجھ سکتا ہے، اور نہ اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کر سکتا ہے۔ اپنے ذاتی معاملے میں آدمی کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے صوابدید کے مطابق فیصلہ کرے۔یہ طریقہ اصولی طور پر غلط ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ذاتی معاملے میں بہت زیادہ دخیل ہونے کی کوشش کرے، اور اس کے بارے میں اپنی رائے دینے میں شدت کا طریقہ اختیار کرے۔
فطرت کے اصول کے مطابق، کوئی آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی دوسرے آدمی کی رائے کا پابند نہیں ہے۔ میری رائے اپنے لیے ہوسکتی ہے، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔ ہر آدمی اپنے ذاتی معاملے میں جو کچھ کرتا ہے، وہ اس کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اصولی طور پر اس معاملے میں دوسروں کے لیے صرف یہ حق ہے کہ وہ آپ کے لیے دعا کرے۔ آپ کے لیے خیرخواہی کا طالب بنے۔ اس معاملے میں اگر کسی کو رائے دینے کا حق ہے، تو وہ آدمی کی اپنی فیملی ہے۔
مثلاً بچوں کی تعلیم، شادی بیاہ کا معاملہ، بزنس کا انتخاب، وغیرہ۔ زیادہ تر ذاتی دائرے کی چیزیں ہیں۔ ان معاملات میں فیملی کی رائے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ غیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی حد پر قائم رہے۔ کسی آدمی کے ذاتی معاملے میں زیادہ دخل نہ دے۔ اس حقیقت کو ایک عربی مثل میں اس طرح بیان کیا گیا ہےصاحب البیت ادرى بما فیہ ( گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے)۔
ضرورت سے زیادہ رائے دینا ایک غیر دانش مندانہ بات ہے۔ بہت سے معاملات جہاں لوگ رائے دینے لگتے ہیں، وہاں ان کو دعا کرنا چاہیے۔ دعا اگر سچی خیر خواہی کے ساتھ ہو، تو امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ، قبول ہوگی، اور آدمی کے لیے فائدہ کا سبب بنے گی۔ دعا خیر خواہی کا اعلیٰ طریقہ ہے۔دعا بلاشبہ مشورے کا ایک اعلیٰ بدل ہے۔ دعا گویا اپنی رائے کو اللہ کے ذریعے انسان تک پہنچانا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قدیم مثل ہے، بٗوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے۔ موجودہ زمانے میں مسلم ایکٹوسٹ (Muslim activist) لوگوں نے بار بار یہی غلطی کی ہے۔ وہ اجتماعی معاملات میں بار بار کسی طاقت سے الجھ گئے، اور پھر جب ناکامی سے دوچار ہوئے تو وہ کہنے لگے کہ ایسا مخالفین کی سازش کی وجہ سے ہوا۔ یہ بالکل خلاف واقعہ بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود اپنی اس غلطی کا شکار ہوئے کہ وہ بوجھے بغیر باجھ گئے، یعنی سوچے سمجھے بغیر اپنے آپ کو ایسے معاملات میں الجھا لیا، جس سے نپٹنے کی طاقت ان کے اندر نہ تھی۔
منصوبہ بندی اگر ٹکراؤ پرمبنی ہو، تو وہ نتیجہ خیز (result-oriented) منصوبہ بندی نہیں۔ کیوں کہ ایسی منصوبہ بندی میں بے فائدہ ٹکراؤ زیادہ ہوتا ہے، اور مطلوب نتیجہ بہت کم ۔ مطلوب نتیجہ جس میں ملحوظ رکھا گیاہو، وہ نتیجہ خیز منصوبہ بندی ہے، اور جو عملاً ردعمل (reaction) پر مبنی ہو، وہ حقیقی معنوں میں منصوبہ بندی نہیں۔ ایسی منصوبہ بندی رد عمل ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں عمل۔
بوجھ کے باجھے، باجھ کے نہ بوجھے کا مثل قدیم زمانے کے تجربات (experiences )پر قائم ہے۔ آج کی زبان میں اس کو کہنا ہو تو یہ کہیں گے کہ اقدام ہمیشہ منصوبہ بند اقدام ہونا چاہیے، نہ کہ بغیر منصوبہ کا اقدام۔ منصوبہ بند اقدام کیا ہے۔ وہ ہے اقدام سے پہلے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوچنا۔ ہر پہلو سے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت ،صورتِ حال کا جائزہ لینا، اور پھر غیر جذباتی انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔
منصوبہ بند اقدام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بطور ری ایکشن نہ ہو، بلکہ ری ایکشن کے بغیربے لاگ انداز میں سوچ کر بنایا گیا ہو۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو حقیقی حالات کی روشنی میں بنایا جائے، نہ کہ جذباتی رد عمل کے اثر سے۔ منصوبہ بند اقدام وہ ہے، جو پریکٹکل وزڈم پر مبنی اقدام ہو۔ منصوبہ بند اقدام مبنی بر حقیقت اقدام کا دوسرانام ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک ہندستانی نوجوان سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ماہ نامہ الرسالہ باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ اُس سے مجھ کو زندگی کا نیا شعور ملا ہے۔ الرسالہ کے مطالعے سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں انگریزی زبان سیکھوں۔ چنانچہ میں نے انگریزی زبان سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میںاس مقصد کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کروں۔ میں نے جواب دیا— ڈکشنری آف جنون۔
یہ بات نہ صرف کسی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ وہ ایک عام فطری اصول ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد مجنونانہ کوشش چاہتا ہے۔ مجنونانہ کوشش کے بغیر کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔مجنونانہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر مقصد کے حصول میںلگادے۔ وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ سمجھے، کوئی بھی چیز اُس کو اپنے طے شدہ راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ اُس کے دماغ میں اگر کوئی خیال ایسا آئے جو اس کے طے شدہ مقصد کے خلاف ہو، تو وہ اس کو لڑ کر اپنے ذہن سے نکال دے۔
کامیابی کا فارمولا صرف دو ہے— صحیح مقصد، اور اس مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد۔ جو آدمی اِن شرطوں کو پورا کرے، وہ لازماً اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔ کامیابی کے سفر کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔ دوسری چیزیں جومطلوب ہیں، وہ اپنے آپ اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔
جنون کا مطلب ہے اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لیے وقف (dedicate) کردینا۔ جو آدمی اپنے وقت اور اپنی توانائی کو مختلف کاموں میں تقسیم کیے ہوئے ہو، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑاکام لازمی طورپر ڈیڈی کیشن (dedication) چاہتا ہے، یعنی پوری یک سوئی کے ساتھ ایک متعین نشانے کے لیے جدوجہد۔ اِس یک سوئی میں دوسرے پہلوؤں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، لیکن اِسی برداشت میں بڑی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں
■ یکم دسمبر کو بی بی سی پشتو کے افغانی نمائندہ مسٹر داؤد اعظمی (مقیم حال انگلینڈ)نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹر ویو کا موضوع تھا— افغانستان کے موجودہ حالات، اور صدر اسلامی مرکز کا افغانستان سے تعلق۔ انٹرویو کے اختتام پر مہمان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا، جس کو انٹرویورنے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
■ سی پی ایس انٹرنیشنل (امریکا) کے نوجوان ممبر مسٹر اسد پرویز نے قرآن کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے سی پی ایس کے تراجم قرآن پر مشتمل ایک ویب سائٹ (www.quranonline.org) لانچ کی ہے۔ وہ سی پی ایس انٹرنیشنل کی امریکی ٹیم کی مدد سے اس کو مزید آگے لے جارہے ہیں۔
■ سی پی ایس ٹیم کے مختلف ممبران قرآن کو زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانے کے لیے طرح طرح سے کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ ہوٹل یا سوپر مارکیٹ ،وغیرہ، میں انتظامیہ کی اجازت لے کر وہاں ترجمۂ قرآن کی کاپیاں رکھوانا۔ مثلاً دہلی کے اندر ہوٹل القریش (الک نندا) میں قرآن کا اسٹینڈ لگا ہوا ہے، جہاں آنے والے لوگ قرآن کے ترجمے لے جاتے ہیں، اوربراہ راست طور پر خدا کا پیغام پڑھتے ہیں۔ امریکا میں اس دعوتی طریقے کا آغاز سی پی ایس دہلی کی بزرگ ممبر ڈاکٹر نجمہ صدیقی نے کیا ہے، جو حالیہ دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے امریکا کی میکسیکن سوپر مارکیٹ ، بریٹو میں انگریزی اور اسپینشن تراجم قرآن کا اسٹینڈ انتظامیہ کی اجازت سے لگوایا ہے۔ اطلاع کے مطابق،پہلا لوٹ (lot) بہت جلد ختم ہوگیا، اور سوپر مارکیٹ والوں نے دوبارہ قرآن پہنچانےکی درخواست کی ہے۔
■ ڈاکٹر رجت ملہوترا (ممبر سی پی ایس دہلی)نے از قرآن اونلی فار مسلم ؟ (Is Quran only for Muslims?) کے عنوان سے اپنی ایک ویڈیو تقریر ریکارڈ کی تھی۔یہ تقریر انٹرنیٹ پربہت زیادہ وائرل ہوئی۔ لوگوں نے امید سے زیادہ اس ویڈیو کو پسند کیا، اور جگہ جگہ سے مسلم و غیر مسلم نے ترجمہ قرآن کی ڈیمانڈکی، تاکہ وہ اس کو براہ راست طور پر پڑھ سکیں۔ مثلا ًجناب عبد الصمد صاحب (سی پی ایس، پونے) کی اطلاع کے مطابق، اس ویڈیو کو سننے کے بعدفوراً 7 لوگوں نے ان سے تراجم قرآن کی مانگ کی۔ اسی طرح مسز سارہ فاطمہ (سی پی ایس بنگلورو) نے بتایا کہ اس ویڈیو کے بعد قرآن کی کافی ڈیمانڈ بڑھی۔ان تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ پہنچایا جارہا ہے۔
■جناب عبد الصمد صاحب پونے(موبائل نمبر 9665059035) الرسالہ کے بہت پرانے قاری ہیں۔ انھوںنے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ سی پی ایس مہاراشٹر کی جانب سے اب تک صدر اسلامی مرکز کی چھ کتابیں اور دو لیف لٹس مراٹھی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کی گئی ہیں۔ وہ کتابیں یہ ہیں:(ریالٹی آف لائف، واٹ از اسلام، خاندانی زندگی،دلیلِ آخرت [مذہب اور جدید چیلنج کا ایک باب]، قرآن این ابائنڈنگ ونڈر، یکساں سول کوڈ، موت کی یاد [الرسالہ، نومبر 2016])، نیز واٹ از اسلام کو گجراتی زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیاہے۔اس کے بعد
■طارق بدر صاحب ( لاہور، پاکستان) کی اطلاع کے مطابق،
www.goodword.com.pk
■ صدر اسلامی مرکز کو اس وقت ساری دنیا میں انٹرنیٹ (سی پی ایس انٹرنیشنل ویب سائٹ، فیس بک، یوٹیوب، وغیرہ)کے ذریعے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔ذیل میں آڈینس کے چند کمنٹس کا ذکر کیا جاتا ہے، جو انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے فیس بک پیج (@maulanawkhan) پر لکھا ہے
Ø He is a wonderful person. Whoever follows him will definitely succeed in life. (Ms. Aayesha Yusra)
Ø A living saint and a completely peace loving person. A great human being who has helped people discover their Creator. He has not an iota of negative feelings against anyone.(Mr. Sahab Ali Khan)
Ø Maulana Sb is the only hope for Muslim Community. His thinking is based on the Quran and sunnah. Maulana always gives perfect solution for every matter. He is a really positive person. People must read his books. May God bless him. (Maulana Anas Malek Nadwi)
Ø If anyone has to learn the art of life, He must follow Maulana and read his books and literature. His immense knowledge, positive thinking, and real life management lessons help us. He is a big hope, not only for Muslims, but also for the whole of humanity. I strongly suggest all my friends to start following him.(Mr Aamir Mori)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.