اللہ کی معرفت بلاشبہ انسان کا سب سےبڑا عمل ہے۔ اللہ کی معرفت ابدی جنت کی قیمت ہے۔ معرفت دین کا آغاز ہے۔ معرفت کے بغیر دین ایسا ہی ہے، جیسے مغز کے بغیر پھل۔ اللہ کی معرفت بلاشبہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معرفت کا حصول بلاشبہ دین میں سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ معرفت کے مشکل ہونے کا سبب یہ ہے کہ معرفت اگرچہ اللہ رب العالمین کی معرفت کا نام ہے۔ لیکن معرفت پورے معنی میں ادراک کا نتیجہ ہوتی ہے۔ معرفت اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیلف ڈسکورڈ (self discovered) حقیقت کا نام ہوتی ہے۔ اسی لیے کسی عارف نے کہا ہے
خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گِلِ کوزہ
یعنی وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا اور خود ہی کوزہ کی مٹی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کے حصول میں آدمی کو خود اپنا جج بننا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت اصلاً اللہ کی معرفت کا نام ہے۔ لیکن اس معرفت کا آغاز خود اپنی ذات کی معرفت سے ہوتا ہے۔ کسی عارف نے درست طور پر کہا ہے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ(حلیۃ الاولیاء، جلد10، صفحہ
اللہ کی معرفت کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ حقیقت شناس (realist) بنائے۔ وہ اپنے آپ کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بنائے۔وہ یہ جانے کہ اللہ قادرِ مطلق ہے،اور وہ صرف عاجزِ مطلق کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو حقیقت واقعہ کی سطح پر پہنچائے، تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی معرفت حاصل ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاحزاب میںانسان کی تخلیق کی نوعیت کو بیان کیا گیا ہے۔ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اﷲ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے۔ اور اﷲ بخشنے والا ،مہربان ہے۔(
قرآن کی اس آیت میںانسان کی منفرد نوعیت کو بتایا گیا ہے۔ کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ وہ ایک صاحبِ اختیار مخلوق پیدا کرے۔ اس منصوبے کے تحت اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ مذکورہ آیت میں امانت سے مراد اختیار (freedom of choice) ہے۔ اس منصوبے کے تحت انسان کو صلاحیتیں دی گئیں، ان کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ انسان ایڈونچرسٹ (adventurist) بن گیا۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو ظلوم و جہول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان کو امانت کی نعمت دینا، انسان کے لیے عظیم رحمت کا معاملہ تھا۔ اس امانت (اختیار) کو پاکر یہ اندیشہ تھا کہ انسان بگاڑ کا شکار ہو جائے، ان احوال کے اندر ہی وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں مومن کہا گیا ہے۔ انسان فرشتہ نہیں، انسان لازمی طور پر غلطی کرتا ہے، لیکن انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ ہر غلطی کے بعد ندامت (repentance) میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ توبہ کرتا ہے، یعنی وہ یوٹرن لیتا ہے۔ اس معاملے میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انسان سے توبہ کو قبول فرمائے گا۔ مزید یہ کہ غلطی کرنا اور پھر توبہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک ذہنی عمل (intellectual process) ہے، اس کے دوران انسان کی شخصیت اعلی ترقی کے مدارج طے کرتی ہے، اور آخر کار جنت میں داخلے کا مستحق بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
توبہ کیا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے غلطی کرنے کے بعد دوبارہ حق کی طرف واپس لوٹنا۔ ایک شخص اگر نیک عمل پر قائم ہو، تو یہ بلاشبہ ایک ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سچائی پر قائم ہو، اور پھر اس کے اندر ڈی ریلمنٹ (derailment)ہو ، وہ بھٹک کر غلط راستے پر چلاجائے، اور پھر دوبارہ صحیح راستے کی طرف لوٹے تو یہ اور بھی زیادہ بڑا عمل ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْہُ رَاحِلَتُہُ، تَجُرُّ زِمَامَہَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِہَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ، وَعَلَیْہَا لَہُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَہَا حَتَّى شَقَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُہَا، فَوَجَدَہَا مُتَعَلِّقَةً بِہِ؟قُلْنَا: شَدِیدًا، یَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللہِ لَلَّہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ، مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2746)۔ یعنی براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تم اس آدمی کی خوشی کے بارے میں کیا کہو گے، جس سے اس کی سواری ریگستان میں نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی بھاگ جائے، اور وہاںاس کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو، اور اس سواری پر اس کا کھانا پینا بھی ہو، اور وہ اسے تلاش کرتے کرتے تھک جائے، پھر وہ سواری ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے ،جس سے اس کی لگام اٹک جائے ،اور اس آدمی کو وہاں اٹکی ہوئی مل جائے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول اس کو بہت زیادہ خوشی ہوگی، رسول اللہ نے کہا:خدا کی قسم، اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی کی سواری مل جانے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
اس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کی طرف واپسی آدمی کو ڈبل ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ جب آدمی حق کو قبول کرنے کا عمل کرتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ایک ثواب کا مستحق بناتا ہے، اس کے بعد اگر وہ بھٹک جائے، اور دوبارہ حق کی طرف واپس آئے، تو وہ زیادہ بڑے ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس نے حق کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا۔
دریافت نو (rediscovery) کا انعام زیادہ اس لیے ہے کہ ایسا آدمی اپنی معرفتِ حق میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ ایک دریافت پر دوسری دریافت کا اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہنی ارتقا کے راستے میں ایک اور منزل طے کرتا ہے۔ ایسے آدمی کا کیس یہ ہے کہ پہلے اگر وہ سادہ معنوں میں حق کی طرف سفر کررہا تھا، تو اب وہ حق کی طرف چھلانگ (jump) کرکے آگے بڑھتا ہے۔ پہلے اگر اس کی معرفت ایک سادہ معرفت تھی، تو اب اس کی معرفت ایک زندہ معرفت بن جاتی ہے۔
حق کی طرف دوبارہ لوٹنا اس بات کی علامت ہے کہ آدمی نے حق کو دوبارہ دریافت کیا، اس نے اپنی دریافت اول پر دریافت ثانی کا اضافہ کیا۔اس نے ثبوت دیا کہ وہ تخلیقی ذہن (creative mind) کا مالک ہے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اس میں سے ایک یہ تھا کہ دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کی زبان میں تقریباً دس ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر جتنے ذائقہ خانے ہیں۔ ان سب کے مطابق، ہمارے آس پاس کی دنیا میں فل فلمینٹ (fulfilment ) کا سامان بھی موجود ہے۔ یہ معرفت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے۔ کیسے ایسا ہوا ۔ کیوں کہ انسان کا جو تجربہ ہم نے کیا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کسی ذائقے کو اس وقت جانتا ہے، جب کہ اس کا تجربہ کرے۔ ذاتی تجربے کے بغیر کسی ذائقے کو جاننا یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے۔
ایسی حالت میں انسان جب دنیا میں جیتا ہے، اور زندگی کے دوران کسی ذائقے کا تجربہ کرتاہے، وہ شکر کے جذبے سے اوور ویلم (overwhelm) ہو جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اعتراف کرے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں، جن کے ذریعے وہ اس عظیم نعمت کا اعتراف کرسکے۔ یہ اس کے لیے ایک مائنڈ باگلنگ (mind boggling) تجربہ ہوتاہے۔ اسی تجربے کا نام شکر ہے۔
میں ترکی گیا، تو وہاں مجھ کو جو پانی پینے کے لیے دیا گیا، وہ پانی اتنا زیادہ فریش (fresh) تھا، اور پینے میں اتنا زیادہ میرے اعلیٰ ذوق کے مطابق تھا کہ میں نے پانی کا گلاس میز پر رکھ دیا، اور یہ سوچنے لگا کہ خالق نے کیسے یہ جانا کہ میرے بندے کو ایسا پانی چاہیے، اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے بندے کے عین طلب کے مطابق، اس کو پانی فراہم کرو۔
یہ تجربہ اتنا زیادہ اعلیٰ تجربہ ہے کہ انسان اس تجربے سے گزرتے ہوئے اتنا اوورویلم ہوجائے گا کہ شکر کا لفظ بولنا اس کو اتنا کم لگے کہ وہ چاہے گا کہ میری شخصیت پوری کی پوری زبان ہوتی، اور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔ میرا پورا وجود شکر کے احساس میں ڈھل جاتا ۔ میں شکر کرنے والا نہیں، بلکہ شکر میں جینے والا انسان بن جاتا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ذکر کی کتاب ہے۔ قرآن کا مقصد انسان کو خالق کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میںقرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی اگر اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دے، تو وہ بے بنیاد الزام ہوگا، کیوں کہ کوئی دوسرا موجود ہی نہیں، جس نے وہ مصیبت آپ پر ڈالی ہے۔انسان پر کوئی دنیوی مصیبت پڑے، تو اس کا سارا دھیان خوداپنی کوتاہی کو تلاش کرنے پر لگانا چاہیے،نہ کہ کسی دوسرے کے ظلم کو دریافت کرنا۔ معاملات کو اپنی ذات کے اعتبار سے سوچا جائے، تو خود احتسابی پیدا ہوتی ہے، اور جب معاملات کو دوسرے کی نسبت سے سوچا جائے، تو شکایت او ر نفرت کا جذبہ ابھر تا ہے۔ خود احتسابی اصلاح ہے، او ر شکایت صرف بے فائدہ رد عمل۔
مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تجربہ (experience) ہے۔ مصیبت کو جب صرف مصیبت سمجھا جائے، تو بے نتیجہ افتاد ہوگی۔ لیکن جب مصیبت کو تجربہ بنادیا جائے، تو مصیبت آدمی کے لیے سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ ہر مصیبت میں ایک سبق موجود ہوتا ہے، اس سبق کو دریافت کیجیے۔ اس کے بعد کوئی مصیبت مصیبت نہ رہے گی۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں دو واقعات ایسے ہیں، جن کا وقت آخری حد تک غیر معلوم ہوتا ہے۔ انسان کی اپنی ذات کے اعتبار سے موت، اور خارجی دنیا کے اعتبار سے زلزلہ۔ یہ دونوں واقعات ایسے ہیں، جو پیشگی اطلاع کے بغیر آتے ہیں۔ علم انسانی کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں، جس سے ہم پیشگی طور پر موت یا زلزلے کی آمد کو جان سکیں۔
یہ نظام براہ راست طور پر خالق کا مقرر کردہ نظام ہے۔ یہ نظام اس لیے رکھا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ الرٹ رہے۔ آدمی ہمیشہ ہوشمندانہ زندگی گزارے۔ آدمی اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرے۔ انسان ہر لمحے کو اس طرح استعمال کرے کہ حاصل شدہ وقت کے علاوہ دوسرا وقت کبھی حاصل ہونے والا ہی نہیں۔
اس اعتبار سے موت اور زلزلہ دونوں انسان کے لیے یاددہانی (reminder) ہیں۔ یہ فطری قانون انسان کو وہ واقعات بتاتے ہیں، جو اس کے لیے ذاتی طور پر قابل دریافت نہیں۔ موت اور زلزلہ۔ یہ دونوں انسان کو علامتی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ انسان کے لیے کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو قابلِ دریافت (discoverable)ہیں، اور کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو انسان کے لیے قابلِ دریافت نہیں۔ یہ علم انسان کو مسلسل طور پر بیداری کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ سوچنے والی زندگی گزارے۔ وہ غفلت کی حالت میں پڑا نہ رہے۔
غفلت کی حالت میں رہنے کا موقع انسان کے لیے نہیں ۔ غفلت کا نقصان یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مقصد کو نہ جانے۔ وہ اپنے مقصد کی تکمیل سے محروم رہے، اور بیداری کی حالت میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مقصد کو جانے، اور اپنی پوری کوشش کرکے اس کو مکمل کرے۔اس دنیا میں انسان کے لیے ایک ہی چوائس ہے، اور وہ ہے حالت بیداری میں اپنے آپ کو رکھنا، اور غفلت سے اپنے آپ کو مکمل طو ر پر بچانا۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں مختلف باتوں کے علاوہ امت مسلمہ کو یہ رہنمائی بھی دی تھی یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر
یہ صرف ایک حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ رسول اللہ کی ایک قابلِ اعادہ (repeatable) سنت کا بیان ہے۔ چنانچہ رسول اللہ کے بعد اس سنت پرعمل جاری ہوگیا۔ رسول اللہ کے بعد امت پوری طرح اس سنت کے مطابق سرگرمِ عمل ہوگئی۔ سیرت لکھی گئی، مسجد بنے، مدرسے بنے، وغیرہ۔ یہاں تک کہ امتِ محمدی ایک زندہ امت بن گئی۔
رسول اللہ نے ایک قائم شدہ امت چھوڑی ہے، اس کے لیے مقدر ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ قیامت تک جاری رہے ۔امت رسول اللہ کی مستند نمائندہ بن کر اس کے مشن کو لے کر قیامت تک چلتی رہے ۔ رسول اللہ کے مشن کو لے کر چلنے کا مطلب کیاہے۔ یہ ہے دعوت الی اللہ کے مشن کو قیامت تک جاری رکھنا۔ امت محمدی کی حیثیت داعی گروہ کی ہے، اور دوسری قوموں کی حیثیت مدعو اقوام کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق داعی مدعو کا تعلق ہے، حریف اور رقیب کا تعلق نہیں۔
یہ تعلق عملاً ایک دوسرے کے درمیان خیرخواہی کا تعلق ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ داعی مدعو کے تعلق کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ اس کو کبھی حریف اور رقیب کا تعلق نہ بننے دیا جائے۔ امت کو ایک طرف زندہ حالت میں قائم رکھنا ہے، اور دوسری طرف برابر اس تعلق کو اپڈیٹ (update) کرتے رہنا ہے، یعنی بدلے ہوئے حالات کے مطابق، اس کی افادیت کو زندہ رکھنا۔
واپس اوپر جائیں
امتِ محمد ی میں بعد کے زمانے میں تجدید کا عمل جاری ہوگا۔ اس عمل کا اشارہ قرآن میں موجودہے(الحدید،
اس روایت میں شارحین نےزیادہ تر شخصیت پر فوکس کیا ہے، یعنی انھوں نے بتایا ہے کہ کوئی مجدد کامل ہوگا، کوئی الف ثانی کا مجدد ہوگا، کوئی مجدد تفسیر ہوگا، کوئی مجدد فقہ ہوگا، وغیرہ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک تاریخی عمل کا ذکر ہے، نہ کہ شخصیت کی فضیلت کا بیان۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے اندر ہمیشہ دعوت کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اس دعوتی عمل کے دوران امت اور دوسرے گروہوں کے درمیان اختلاط (interaction) ہوتاہے۔ اس اختلاط کے دوران امت محمدی کے افراد دوسروں کا اثر قبول کرتے ہیں۔اس تاثر پذیری کے درمیان ایسا ہوتا ہے کہ امت بار بار اپنی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اس وقت امت کے کچھ اہل علم اٹھتے ہیں، اور امت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی عمل کا نام تجدید ہے۔
مثلاً پہلےدور میں امت پیس فل دعوت کی پٹری سے ہٹ کر جنگ کی پٹری پر چلنے لگی، اس وقت کچھ علما نے امت کو یہ بتایا کہ جنگ اسلام میں حسن لذاتہ نہیں ہے، وہ حسن لغیرہ ہے۔ اسی طرح جب ماس کنورزن کا زمانہ آیا تو اس کے اثر سے مسلمانوں میں فرقے بن گئے ۔ اس وقت ابن عبد البر نے کتاب لکھی جامع بیان العلم و فضلہ۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ امت میں اختلافات توسع (diversity)کی مثالیں ہیں، نہ کہ توحُّد کی مثالیں ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
مشن کے بعض افراد نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ میرے بعد مشن کہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جائے۔ میں نے اس پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ ان حضرات کا شبہ اس لیے ہے کہ وہ غالباً دوسرے مشن پر قیاس کرتے ہوئے اس مشن کو مبنی بر فارم مشن سمجھ رہے ہیں، اور جیسا کہ تجربہ ہے ، مبنی بر فارم مشن کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
مگر اس معاملے میں سنتِ رسول میں ہمارے لیے ایک مثال ہے۔ میرا خیال ہے کہ حدیثِ قرطاس اسی معاملے میں رہنمائی کرنے کے لیے ہے۔ حدیث قرطاس کوئی پر اسرار چیز نہیں تھی، بلکہ وہی تھی، جو ایک حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ (موطا امام مالک، حدیث نمبر 1874)۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ی ہیں۔ تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم اس کو پکڑے رہوگے— اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
اس حدیث کے مطابق، ہدایت یہ ہے کہ پیش آمدہ معاملات میں سنجیدگی کے ساتھ قرآن وحدیث کا حکم معلوم کیا جائے،اور اس کو اختیار کرلیا جائے۔ اس کے برعکس گمراہی یہ ہے کہ اپنے معاملات میں قرآن وحدیث کے سوا دوسری چیزوں سے رہ نمائی لی جانے لگے۔اس حدیث میں اسلام کے معاملہ کو بتایا گیاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ نے کامل ہدایت کا انتظام فرمایا۔ اب جو لوگ اس ہدایت سے فیض حاصل کریں گے، ان کے لیے کامیابی ہے، اور جو لوگ اس کی پیروی نہ کریں، وہ ابدی ناکامی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔
امتِ محمدی کی حیثیت یہ ہے کہ وہ خدائی مدد کے تحت ایک محفوظ امت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ خود اللہ رب العالمین کا کنسرن ہے کہ یہ امت ختم نہ ہو، تاکہ خاتم النبیین کی نمائندگی مسلسل طور پر جاری رہے، اس کا تسلسل کبھی توٹنے نہ پائے۔
واپس اوپر جائیں
امت کے زوال کے زمانے میں جو باتیں پیش آتی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ،
مثلاً موجودہ زمانے میں جدید تہذیب کے ظہور کے بعد ترقی یافتہ قوموں کے درمیان ایک فکر پیدا ہوئی ہے، جس کو انسانی تکریم (human dignity) کہا جاتا ہے۔ یہ تصوُّر آزادی کے معاملے میں انتہاپسندی(extremism) کے نتیجے میں آیا ہے۔ آج کے انسان کا یہ کہنا ہے کہ وہ کامل طور پر آزاد ہے۔ اس کی مشابہت میں مسلمان بھی اسی قسم کی بولی بولنے لگے ہیں۔ مگر ا س کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام کا اصول تمام تر دعوت الی اللہ پر مبنی اصول ہے۔اسلام کا واحد کنسرن یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے مواقع کھلے رہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ موقع ہو کہ وہ لوگوں کو اللہ رب العالمین کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اہل اسلام کےلیے دعوت الی اللہ کے مواقع موجود ہوں، تو کسی اور سیاسی یا غیر سیاسی تقاضے کو لے کر مطالبے کی تحریک چلانا، اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔
ان کے لیے موقع ہو کہ وہ دعوت کا کام کرسکتے ہیں، تو ان کے لیے علاحدہ مسلم لینڈ کے نام سے کوئی تحریک چلانا درست نہیں۔ اگر مسلمان ایسا کریں، تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، اور جب اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، تو وہ کبھی اپنے مطالبے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اہل ایمان پر اللہ کی مدد ضرور آتی ہے، لیکن اللہ کی مقرر کردہ صراطِ مستقیم پر، نہ کہ کسی اور چیز پر۔ اس دنیا میں اہل ایمان کی صرف ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہیں، ان کا کوئی حق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
دین کی راہ میں قربانی سے عام طور پر جسمانی یا مالی قربانی مراد لی جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات اس کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی ذات کے تقاضوں کی قربانی پیش کی جائے ۔ کیوں کہ اس طرح کی قربانی کے بغیر دین کا کوئی بڑا کام نہیں کیا جاسکتا۔ جتنی بڑی قربانی اتنا ہی بڑا کام۔
ہر آدمی دو قسم کے تقاضوں کے درمیان جیتا ہے— ذاتی تقاضے اور مشن کے تقاضے۔ ذاتی تقاضے اپنی ذات کے محدودمفاد کے درمیان جینے کے لیے ہوتے ہیں، اور مشن کے تقاضے انسانیت کے وسیع تر مفاد کے لیے ہوتے ہیں۔ عام آدمی اپنی ذات یا اپنی فیملی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جیتا ہے۔ اس کی زندگی اپنے آپ سے شروع ہوتی ہے، اور اپنے آپ ہی پر ختم ہوتی ہے۔
لیکن جس شخص کواس کاغور وفکر مین آف مشن (man of mission)بنادے، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ مشن کے لیے جینے والا بن جائے۔ اس کی زندگی بالکل بدل جاتی ہے۔ بظاہر وہ دوسرے انسانوں جیسا ہوتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک مختلف انسان بن جاتا ہے۔ اس کی سوچ، اس کی دوڑ دھوپ، اس کی توانائی کا استعمال اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ مشن کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔ اگر وہ مومن ہے، تو اللہ رب العالمین کے لیے، اگر وہ عام انسان ہے، تو اس کی توجہات کا مرکز انسانی بہبود بن جاتاہے۔
انسان دراصل وہی ہے، جو مین آف مشن ہو۔ جس کے مطالعہ اور غورو فکر نے اس کو عمل کا ایک برتر نشانہ دے دیا ہو۔ جس کے صبح و شام ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف ہوگئے ہوں۔ جس کے فکر اور عمل کا مرکز ایک برتر مقصد بن گیا ہو۔ جو اسی مقصد کو لے کر رات کو سوئے، اور اسی مقصد کو لے کر صبح کو اٹھے۔ جو ٹھہرے تو اسی مقصد کے لیے، اور چلے تو اسی مقصد کے لیے۔ یہی وہ انسان ہے، جو صحیح معنوں میں انسان کہے جانے کا مستحق ہے۔ عام انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ جو کلچر اس کو اپنے ماحول سے ملا، اسی کو وہ اپنا کلچر بنالیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اصلاح کا آغاز تنقیدی عمل سے کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ شروع ہی میں فریقین کے درمیان نزاع کا ماحول بن جاتا ہے، اور پھر اصلاح کا کام صحیح انداز سے نہیں ہو پاتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اصلاح کا آغاز ایڈجسٹمنٹ (adjustment)سے کیا جائے۔اس معاملے میں ایڈجسٹمنٹ دراصل غیر نزاعی (non-controversial) طریقے کا دوسرا نام ہے۔ اجتماعی اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماحول میں عمل کا آغاز نزاع سے نہ کرے، اس کے برعکس، وہ یہ کرے کہ موافق پہلو سے اپنے عمل کا آغاز کرکے بتدریج غیر موافق پہلو کی طرف جائے۔
جو شخص بھی اپنے ماحول میں اصلاح کا کام کرنا چاہتا ہو، اس کو ہمیشہ نتیجہ خیز (result oriented) طریقہ اختیار کرنا چاہیے، یعنی جو طریقہ مفید نتیجہ پیدا کرے، اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور جوطریقہ مثبت نتیجہ پیدا نہ کرے، اس سے درگزر کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ نزاعی طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ رہتا ہے، اور غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ مفید نتیجہ پیدا کرتاہے۔
اصلاح کا کام عملاً یہ ہے کہ دوسرا آدمی اپنے خلاف بات کو سنے ، اور اس کو اپنائے۔ اس لیے اصلاح کا عمل ہمیشہ ذاتی احتساب بن جاتا ہے، اور ذاتی احتساب ایک ایسی چیز ہے، جو کبھی نزاعی انداز میں کامیاب نہیں ہوتی۔ ذاتی احتساب کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ کیا جائے، وہ غیر نزاعی انداز میں کیا جائے۔
اس سلسلے کے تمام تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی نزاع کا طریقہ اختیار کیا گیا، تو اختلاف بڑھا، اور جب بھی غیر نزاعی طریقہ اختیار کیا گیا تو لوگوں کے اندراصلاح کا عمل جاری ہوا۔ یہ نتیجہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے، اور نزاعی طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے لیے کچھ نئے حالات پیدا ہوئے۔ ہمارے مصلحین ان حالات کے جواب میں پرجوش طور پر کھڑے ہوگئے۔ بظاہر ان کے حلقۂ عمل مختلف تھے، لیکن خلاصے کے طور پر دیکھا جائے تو ہر ایک کا کیس عملا ًایک تھا، اور وہ تھا رد عمل (reaction) کا کیس۔ میرے علم کے مطابق، کسی نے ایسا نہیں کیا کہ وہ حالات کا مطالعہ کھلے ذہن کے ساتھ کریں، وہ مثبت ذہن کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور پھر کسی تاثر پذیری کے بغیر خالص قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کریں۔
سنتِ رسول کے مطابق، کرنے کا کام یہ تھا کہ حالات کے اندر مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ لیکن ہر ایک نے یہ کیا کہ وہ ری ایکشن کے طور پر کھڑا ہوگیا، اور وقتی جذبے کے تحت ایک عمل شروع کردیا۔ میرے علم کے مطابق، ان میں سے کوئی ایسا نہ کرسکا کہ وہ سنت رسول کا گہرا مطالعہ کرکے مبنی بر مواقع اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ اسی لیے اس ردعمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ مثبت فائدہ ردّعمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ گہری منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
مثلاً بہت سے لوگوں نے قوم کی تعلیم کا منصوبہ بنایا، لیکن ان کی تعلیم کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ کچھ کتابیں تیار کرکے پڑھادی جائیں۔ ان حضرات کی تعلیم میں ایک اہم چیز مفقود تھی، اور وہ ہے اسٹرکٹ کامپٹیشن(strict competition )۔ یہ لوگ جن کو تعلیمی ریفارمر کہا جاتا ہے، وہ تقریباً سب کے سب فیور (favour) کو جانتے تھے، حالاں کہ اس معاملے میں اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور (favour)۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش(compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی ہر ایک کے لیے مسائل کا مجموعہ ہے۔ زندگی کبھی مسائل سے خالی نہیں ہوسکتی۔ کسی انسان کے لیے یہاں تک کہ پیغمبر کے لیے بھی یہ آپشن (option) نہیں ہےکہ پہلے زندگی کو بے مسئلہ زندگی بناؤ، اس کے بعد اپنا کام کرو۔ اس دنیا میں ہر ایک کے لیے ایک ہی آپشن ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسائل میں سلیکٹیو (selective) انداز اختیار کرے، یعنی کچھ مسائل کو انتظار کے خانے میں ڈالے، اور کچھ مسائل کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے۔
اسلام کی تعلیم کے مطابق، اس معاملےمیں ایک سچے مسلم کےلیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ ایک مسلم دعوت الی اللہ کو اپنا کنسرن (concern) بنائے، اور دوسری تمام چیزوں کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردے۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس معاملے میں کوئی عذر (excuse) حقیقی عذر (genuine excuse) نہیں۔
عام طور پر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کو اپنا کنسرن بناتے ہیں، اور عذر(excuse) کے طو رپر کسی دنیوی اصول کا حوالہ دیتے ہیں۔مثلاً حق خود ارادیت (self determination) ، انسانی حقوق (human rights)، وغیرہ۔ مگر یہ تمام حوالے درست نہیں۔ ان معاملات میں اسلام کا اصول ایک لفظ میں یہ ہے أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُم (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ ادا کروان کو ان کا حق ، اورمانگو اپنا حق اللہ سے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں مومن کی منصوبہ بندی یک طرفہ طور پر ذاتی ذمے داری کے اصول پر ہے، دوسروں سے حقوق طلبی کے اصول پر نہیں۔ اس دنیا میں مومن کو صرف اپنی ذمے داری کی ادائیگی پر دھیان دینا ہے، مومن کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی غیر اسلامی اصول کا حوالہ دے کر دوسروں سے اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کردے۔ اس معاملے میں مومن کا طریقہ تمام تر آخرت رخی (Akhirah oriented)ہے، نہ کہ دنیا رخی۔
واپس اوپر جائیں
اسلام آخری دین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے قیامت تک باقی رہے۔ اسی لیے دین کا تحفظ بھی ایک ضروری اور مطلوب کام ہے۔ موجودہ زمانہ کی بعض تحریکوں نے اس اعتبار سے یقیناً مفید خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اسلام کے فکری اور عملی نقشہ کی محافظ ثابت ہوئی ہیں۔ بعض ادارے قرآن اور حدیث اور اسلامی مسائل کے علم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض جماعتیں اسلامی عبادات کے ڈھانچہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام کررہی ہیں۔ کچھ اور ادارے قرآن وحدیث کا متن صحت وصفائی کے ساتھ چھاپ کر ہر جگہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بجائے خود مفید ہیں، مگر بہر حال وہ تحفظ دین کے کام ہیں نہ کہ دعوتِ دین کے کام۔ جہاں تک اسلام کو دعوتی قوت کی حیثیت سے زندہ کرنے کا سوال ہے وہ موجودہ زمانہ میں ابھی تک واقعہ نہ بن سکا۔ حتی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو شاید اس کا شعور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ایسے کاموں کو اسلامی دعوت کا عنوان دے دیتے ہیں، جن کا اسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
موجودہ زمانہ میں کسی حقیقی اسلامی کام کے آغاز کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس صورت ِحال کو ختم کریں جس نے ساری دنیا میں اسلامی تحریک کو سیاسی تحریک کے ہم معنی بنا رکھا ہے۔ مسلمان ہر ملک میں وقت کے حکمرانوں کے خلاف شور وشر برپا کرنے میں مشغول ہیں۔ کہیں ان کی یہ تحریک غیر مسلم اقتدار کے خلاف برپا ہے، اور کہیں وہ ایک اسلامی سیاسی فلسفہ کے زیر سایہ کام کررہی ہے، اور کہیں فلسفہ اور نظریہ کے بغیر متحرک ہے۔ کہیں اس نے ملی عنوان اختیار کررکھا ہے، اور کہیں نظامی عنوان۔ تاہم سارے فرق واختلاف کے باوجود نتیجہ سب کا ایک ہے — حریفوں کے خلاف محاذ آرائی میں ضائع کرتے رہنا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بالکل الٹی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ خدانے دعوتِ حق کی راہ سے سیاسی رکاوٹ کو دور کرکے انھیں موقع دیا تھا کہ وہ آزادانہ حالات میں خدا کے تمام بندوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی اس اسکیم سے باخبر کردیں، جس کے تحت اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور جس کے مطابق وہ ایک ایک شخص کا حساب لینے والا ہے۔ مگر انھوں نے دوبارہ نئے نئے عنوان سے اپنے خلاف سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرلیں۔ خود ساختہ سیاسی جہاد میں ہر ایک مشغول ہے۔ مگر دعوتی جہاد میں اپنا حصہ ادا کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔
قرآن میں ہے کہ اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مددکرے (الحج،
بارش کا آنا خدا کے ایک منصوبہ کا خاموش اعلان ہے۔ وہ اعلان یہ ہے کہ آدمی اپنا بیج زمین میں ڈالے تاکہ خدا اپنے کائناتی انتظام کو اس کے موافق کرکے اس کے بیج کو ایک پوری فصل کی صورت میں اس کی طرف لوٹائے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں پور ی طرح شامل کردتیا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں اس کو واپس ملتاہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں کچھ نئے مواقع کھولے تھے۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ جو کام پہلے معجزاتی سطح پر انجام دینا پڑتاتھا، اس کو عام طبیعیاتی استدلال کی سطح پر انجام دیا جائے۔ جو کام پہلے تعصب کے ماحول میں کرنا پڑتا تھا، اس کو مذہبی رواداری کے ماحول میں کیا جائے۔ جو کام پہلے ’’حیوانی رفتار‘‘ سے کیا جاتا تھا اس کو ’’مشینی رفتار‘‘ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
یہ موجودہ زمانہ میں خدا کا منصوبہ تھا۔ خدا نے سارے بہترین امکانات کھول دیے تھے، اور اب صرف اس کی ضرورت تھی کہ خدا کےکچھ بندے ان کو استعمال کرکے ان امکانات کوواقعہ بننے کا موقع دیں۔ مگر مسلم قیادت خداکے اس منصوبہ میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے نئے نئے عنوانات کے تحت وہی سیاسی جھگڑے دوبارہ چھیڑ ددیا، جن کو خدا نے ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں ختم کیا تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کو سیاسی اور قومی دعوت بنا کر دوبارہ اسلام کو اقتدار کاحریف بنا دیا اور کہا کہ یہی عین خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدعو قوموں کے ساتھ ہر جگہ بالکل بے فائدہ قسم کی مقابلہ آرائی شروع ہوگئی، اور سارے نئے امکانات غیر استعمال شدہ حالت میں پڑے رہ گئے۔مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔
کام کی ایک سوسال سے بھی زیادہ لمبی مدت مسلمانوں نے کھو دی۔ یہاں تک کہ شیطان نے بیدار ہو کر قدیم شرک کی جگہ جدید شرک (کمیونزم) کی صورت میں کھڑا کردیا۔ اب کم از کم کمیونزم کے زیر تسلط علاقوں میں دوبارہ کام کرنے کی وہی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، جو اس سے پہلے شرک کے زیر تسلط علاقوں میں پائی جاتی تھیں۔مثلاً چائنا، اور نارتھ کوریا، وغیرہ۔ تاہم غیر کمیونسٹ دنیا میں اب بھی کام کے مواقع کھلے ہوئے ہیں،اور یہاں پندرھویں صدی ہجری میں اس صالح جدوجہد کا آغاز کیاجاسکتا ہے، جو چو دھویں صدی ہجری میں نہ کیا جاسکا۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ تدبیری واپسی منصوبہ بند اقدام کا پہلا مرحلہ ہے۔
ثخدا حالات کی زبان میںبولتا ہے۔ عقل والے اس کو سن کر رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور جوبے بصیرت ہوں، وہ تاریکیوں میں بھٹکتے ہیں۔
ثحقیقت کو اگر آپ اختیارانہ طور پر نہ مانیں، تو آخر کار آپ کو اسے مجبورانہ طور پر ماننا پڑے گا۔
ثحقیقی کام اور غیر حقیقی کام کا فرق یہ ہے کہ حقیقی کام ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، اور غیر حقیقی کام ہمیشہ بے نتیجہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
بیان کیا جاتا ہے کہ پچھلے انبیاء مقامی آبادیوں کے لیے آئے۔ وہ جس قوم میں پیدا ہوئے وہی قوم اُن کی دعوت کامیدان ہوتی تھی۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلمکے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے آپ ساری دنیا کے لیے داعی اور منذر بنا کر بھیجے گئے(الفرقان،
یہ بات اہل اسلام کے لیے فخر یا فضیلت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک سنگین ذمہ داری کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے پیغمبروں کی امتوں کی دعوتی ذمہ داری اگر مقامی دائرہ تک محدود رہتی تھی، تو امتِ محمدی کی ذمہ داری سارے عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اُمّتِ محمدی کا اُمّتِ محمدی ہونا صرف اُس وقت متحقّق ہو سکتا ہے، جب کہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے اوپر اپنی دعوتی ذمہ داری کو ادا کرے۔ اس دعوتی عمل کے بغیر اُس کا اُمتِ محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے (الانعام،
علمائے اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ دعوت کے بغیر جہاد نہیں۔ ابن رشد نے الفصل الرابع فی شرط الحرب کے تحت لکھا ہے: فَأَمَّا شَرْطُ الْحَرْبِ فَہُوَ بُلُوغُ الدَّعْوَةِ بِاتِّفَاقٍ، أَعْنِی أَنَّہُ لَا یَجُوزُ حِرَابَتُہُمْ حَتَّى یَکُونُوا قَدْ بَلَغَتْہُمُ الدَّعْوَةُ، وَذَلِکَ شَیْءٌ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ؛ لِقَوْلِہِ تَعَالَى:وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا[الاسراء،
اس معیارکی روشنی میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ پچھلے تقریباً تین سو سال سے مسلم رہنما جہاد کے نام پر غیر قوموں سے جو لڑائیاں لڑ رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی جہاد نہیں۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کے بغیر لڑی گئیں۔ مثلاً شاہ ولی اللہ دہلوی کی (بالواسطہ) جنگ مراٹھوں سے، شہیدَین کی جنگ سکھوں سے، علمائے ہندکی جنگ انگریزوں سے، عربوں کی جنگ اسرائیلیوں سے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی جنگ ہندوستانیوں سے، فلپائنی مسلمانوں کی جنگ وہاں کے عیسائیوں سے، چیچن مسلمانوں کی جنگ روسیوں سے، وغیرہ۔
یہ اور موجودہ زمانے کی دوسری لڑائیاں جو مسلم رہنما لڑتے رہے یا لڑ رہے ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہاد فی سبیل اللہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں دعوت و تبلیغ کی شرط کے بغیر شروع کردی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی یہ تمام لڑائیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔ مسلمانوں کی یک طرفہ تباہی کے سوا ان کا اور کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جہاد(بمعنٰی قتال) چھیڑنے کے لیے یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ اس نے مسلمانوں پر ملک و مال کے اعتبار سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔ ایسے کسی مسئلہ کے حل کے لیے پر امن تدبیر ہے، نہ کہ متشددانہ جنگ۔ غیر مسلموں کے سلسلہ میں مسلمانوں کی اول و آخر ذمے داری دعوت و تبلیغ ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) صرف مخصوص اور متعین شرطوں ہی پر جائز ہے، اور موجودہ زمانہ میں یہ شرطیں کسی بھی مقام کے مسلمانوں کے حق میں موجود نہیں۔
کسی قوم کے خلاف دعوت کے بغیر جہاد چھیڑنانہایت سنگین ذمہ داری ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے صرف یہ کیا تھا کہ دعوت کی تکمیل سے پہلے انہوں نے اپنی مدعو قوم سے ہجرت کا معاملہ کیا تو اللہ نے ان کی پکڑ کی۔ اب وہ لوگ جنہوں نے سرے سے دعوت کا عمل ہی نہ کیا ہو، اور پھر صرف مادّی نزاع کی بنا پر اپنی مدعو قوم کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑ دیں، اُن کا معاملہ حضرت یونس کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں کتنا زیادہ سنگین ہوگا، اس کا تصور بھی لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک آیت اس طرح آئی ہے:إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قتال (لڑائی) ابدی طور پر اللہ کے نزدیک ایک محبوب فعل ہے۔ بلکہ اس میں وقت کے ایک تقاضے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیت کے نزول کے وقت جب کہ ختمِ فتنہ کے لیے دفاعی طو رپر جنگ ہورہی تھی، اس وقت سب سے زیادہ مطلوب فعل یہ تھا کہ جنگ کے محاذ پر اہلِ ایمان کی صفوں کو تقویت دینے کے لیے مخالف طاقتوں سے جنگ کی جائے۔ تاکہ تاریخ کا منصوبہ مکمل ہو، اور دنیا میں دعوت کا وہ پرامن دور آئے، جو کہ فطرت کے نظام کے مطابق، خالقِ فطرت کو مطلوب ہے۔
متحد ہو کر لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ چوں کہ فتنہ پسند طاقتوں نے متحدہ طاقت کے ذریعے ناقابل تقسیم طاقت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے اس متحد فتنہ کو ختم کرنے کے لیے جوابی اتحاد کی ضرورت ہے، ورنہ وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہاں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution ) کا فتنہ ہے۔ اب یہ فتنہ (religious persecution ) عملا ًختم ہوچکا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف متحدہ جنگ کی ضرورت بھی عملاً باقی نہیں رہی۔
موجودہ دور امن کا دور ہے۔ اس دورکو قرآن کی ایک اور آیت کے مطالعے سے زیادہ واضح طو رپر سمجھا جاسکتا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (
واپس اوپر جائیں
تحریر کی ایک صفت وہ ہے، جس کو ادبی اعتبار سے روانی (fluent language) اور مضمون کے اعتبار سے بندھی ہوئی زبان (compact language) کہا جاتا ہے۔ یہ کسی تحریر کی ایک خصوصی صفت ہے۔ یہ صفت جس تحریر میں ہو، وہ سمجھنے کے اعتبار سے زود فہم (easily understandable)ہوگی،اور پڑھنے کے اعتبار سے دلچسپ مطالعہ (interest reading) کی صفت کا حامل ہوگی۔
یہ کسی محرر کی ایک امتیازی صفت ہے۔ یہ صفت کسی مصنف میں اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ کثرت مطالعہ کی وجہ سے وہ اپنے موضوع پر پوری طرح حاوی (be in control) ہوجائے۔ متعلقہ موضوع پر اس کا مطالعہ اتنا جامع ہو کہ وہ جب لکھے ، اور بولے تو وہ زیر بحث موضوع کا کامل احاطہ کیے ہوئے ہو۔
جس تحریر میں یہ صفت ہو، اس کے اندر بہت زیادہ وضوح (clarity) ہوگا۔ جو شخص اس کو پڑھے گا، وہ کسی مقام پر اٹکے بغیرصاحب تحریر کی بات کو بخوبی طور پر سمجھ لے گا۔ یہ کسی تحریر کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ یہ اعلیٰ صفت کسی شخص کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے زیرِ بحث مضمون پوری طرح اس کی گرفت میں آجائے۔ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے اٹ پٹاپن اس کی تحریر سے ختم ہوجائے۔ وہ جو کچھ کہے یا لکھے، وہ دوسروں کے لیے دو اور دوبرابر چار کی طرح واضح ہوجائے۔ اس کا کلام پوری طرح گنجلک سے خالی ہو۔ کلام کی اس صفت کو ہندی میں سرل بھاشاکہا جاتا ہے۔
یہ مطالعہ علمی ہونا چاہیے، نہ کہ صحافتی۔ علمی مطالعہ وہ ہے، جو موضوعی (objective)ہو، جو سنجیدہ ہو۔جو کسی تعصب (bias) کے بغیر کیا گیا ہو، جس مطالعے میں سائنٹفک ٹمپر (scientific temper) کی صفت پائی جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اہل ایمان کو آزمائش پیش آئی۔ سخت آزمائش کے بعد وہ جنت کےانعام کے لیے منتخب کیے گئے۔ یہ حقیقت قرآن کی دو آیتوں کے مطالعےسے معلوم ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالاں کہ ابھی تم پر وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تمہارے اگلوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ یاد رکھو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ (
اس سلسلے میں دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے، اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، تو ان کو ہماری مدد آپہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔ (
دعوت الی اللہ کا مشن جنت کی طرف سفر کا مشن ہے۔ یہ سفر مومن کی تربیت کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین کو یہ مطلوب ہے کہ اللہ نے اس کے لیے جو نعمت سے بھری کائنات بنائی ہے،اس کو وہ دریافت کرے۔ وہ ایمان کے اعتبار سےسیلف ڈسکوری (self discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ یہ سیلف ڈسکوری جنت کی قیمت ہے۔
جنت کا یہ سفر سخت امتحان کے مراحل سے گزرتا ہے۔ ان سخت مراحل سے گزرے بغیر انسان کے اندر وہ شخصیت تیار نہیں ہوتی، جس کو قرآن میں حسنِ رفاقت کی صفت بتایا گیا ہے۔ یہی وہ صفت ہے، جو کسی کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
اصل یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصدصرف ایک ہے، اور وہ عبادت گزاری ہے (الذاریات،
حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک انوکھی آزمائش کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں انسان کو ایک ایسے امتحان سے گزرنا ہوتا ہے، جو بیک وقت امید اور خوف کے دوطرفہ جذبات کے درمیان سے گزرتا ہے۔آدمی کو ہر لمحہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا سفر امید کا سفر ہے، اسی کے ساتھ ہر لمحہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کو کچھ نہیں معلوم کہ بالآخر کیا ہونے والا ہے۔ یہ امید اور خوف کی دو طرفہ کیفیت کے درمیان گزرنے والا سفر ہے۔ اس سفرمیں ہر وقت انسان امید میں بھی ہوتا ہے، اور اسی کے ساتھ خوف میں بھی۔
واپس اوپر جائیں
ہجرت نبوی کے چھٹے سال حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام میں حدیبیہ کا واقعہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ حدیبیہ کا واقعہ پورے معنوں میں ایک سنت رسول ہے۔ حدیبیہ کے موقعہ پر جو واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو بین اقوامی معاملات کے لیے ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
حدیبیہ کے موقعہ پر رسول اللہ اور قدیم مکہ کے مشرک لیڈروں کے درمیان صلح کی گفت و شنید (negotiation) شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دوہفتہ تک جاری رہی۔ جب اس کی شرطیں طے ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کاغذ پر صلح نامے کے دستاویز لکھوانا شروع کیا۔ آپ نے علی بن ابی طالب سے کہا:اکْتُبْ یَا عَلِیُّ:ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ (اے علی لکھو،یہ وہ شرائط ہیں جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی )۔ سہیل بن عمرو جو اس وقت مشرک قیادت کی نمائندگی کررہے تھے، انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، آپ وہ لکھیے جس کو ہم مانتے ہیں(اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ) ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض کو مان لیا ،اور کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن اے علی تم ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹاؤ اور اس کی جگہ لکھو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ ۔ علی ابن ابی طالب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں:فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَرِنِی مَکَانَہُ، حَتَّى أَمْحُوَہُ، فَمَحَاہُ، وَکَتَبَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہ (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، مجھے اس لفظ کی جگہ دکھاؤ، تاکہ میں خود اس کو مٹادوں، پھر رسول اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹادیا، اس کے بعد علی نے اس جگہ پرمحمد بن عبد اللہ لکھا)۔ تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح البخاری(حدیث نمبر 3184)،صحیح مسلم(حدیث نمبر1783-1784)، مسند احمد (حدیث نمبر 16800) ، صحیح ابن حبان(حدیث نمبر 4869)، وغیرہ۔
یہ واقعہ دوسری سنتوں کی طرح ایک سنت رسول ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (de-linking) کی پالیسی اختیار کی۔ آپ نے عقیدہ اور بین اقوامی معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ آپ نے فریقِ ثانی کے مسلّمہ کے مطابق معاہدہ لکھوایا، نہ کہ خود اپنے عقیدہ کے مطابق۔
اسی طرح کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں عرب کے دو آدمیوں نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ ایک یمامہ کا مسیلمہ بن حبیب، اور دوسرا صنعاء کا اسود بن کعب عنسی۔ مسیلمہ نے 10ہجری میں ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس خط کامضمون یہ تھا: اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام، سلام علیک، اما بعد، بے شک میں نبوت کے معاملے میں آپ کے ساتھ شریک کیاگیا ہوں، اس لیے نصف زمین ہمارے لیے اور نصف زمین قریش کے لیے۔ مسیلمہ کی طرف سے دو قاصد اس کا یہ خط لے کر مدینہ آئے۔ ان کا نام ابن النواحہ اور ابن اُثال تھا۔ جب مسیلمہ کے دونوںقاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو رسول اللہ نے کہا کیا تم دونوں بھی وہی کہتےہو جو وہ کہتا ہے۔ دونوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں کٹوادیتا (لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا)۔راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : فَجَرَتْ سُنَّةً أَنْ لَا یُقْتَلَ الرَّسُولُ ۔ یعنی پھر یہ سنت جاری ہوگئی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیاجائے گا(دیکھیے،سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2761،مسند احمد، حدیث نمبر 3708)۔
ان سننِ رسول سے اسلام کا ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے۔ان سےیہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اہل ایمان عقیدہ کے معاملے میں اپنے عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ لیکن جہاں تک بین اقوامی معاملات کا تعلق ہے، اس میں اہل ایمان بین اقوامی اصولوں (international norms) کو اسی طرح مانیں گے، جس طرح دوسرے لوگ ان کو مانتے ہیں۔ یہ اصول ان تمام معاملات پر قابلِ عمل ہوگا جو بین اقوامی تعلقات پر مبنی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں بین اقوامی رواج پر عمل کیا جائے گا۔ ہر زمانہ میں بین اقوامی تعلقات کے لیے کچھ رواج ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانےمیں بھی اس قسم کے بہت سے رواج ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ نے ان کو زیادہ منظم صورت دے دی ہے۔ اس قسم کے تمام رواج مسلم ملکوں میں بھی اسی طرح قابلِ احترام ہوں گے، جس طرح غیر مسلم ملکوں میں ان کو قابلِ احترام سمجھا جاتاہے۔ البتہ اگر اس قسم کے معاملات میں کوئی ایسی چیز یا رواج پایا جائے، جو صراحةً حرام ہو۔ مثلاً بین اقوامی میٹنگوں میں شراب پیش کرنا، تو اس مخصوص جز کی حد تک اس کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
بیسویں صدی کے وسط میں اقوامِ متحدہ (United Nations) کی تشکیل ہوئی۔ تمام قوموں نے اس تنظیم کی ممبر شپ قبول کی ۔ اس تنظیم کے تحت10 دسمبر 1948 کو ایک منشور تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔ جس کا ٹائٹل یہ تھا— دی یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس
The Universal Declaration of Human Rights (UDHR)
اب یہی منشور تمام قوموں کے اوپر نافذ ہوگا۔ اس معاملے میں کسی ملک کے لیے اپنی الگ پالیسی بنانے کا جواز نہیں۔یہ منشور مسلم ملکوں کے لیے بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے، جس طرح وہ غیر مسلم ملکوں کے لیے قابلِ عمل ہے۔
انھیں معاملات میں سے ایک معاملہ وہ ہے، جس کو اقلیاتی حقوق (minority rights) کہا جاتا ہے۔ مسلم ملکوں میں غیر مسلم لوگ ایک مذہبی اقلیت کے طور پر آباد ہیں۔ اسی طرح غیر مسلم ملکوں میں مسلمان ایک مذہبی اقلیت کے طور پر رہتے ہیں۔ ان دونوں معاملات میں یکساں طور پر بین اقوامی اصول کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔
مروجہ مسلم فقہ میں اس معاملے میں ذمی کا تصور پایا جاتا ہے۔ ذمی کا مطلب ہے پروٹکٹڈ کمیونٹی (protected community)،یعنی مسلم ملکوں میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت ۔ موجودہ فقہ کے مطابق، اس ذمہ (protection) کے عوض ذمی لوگوں کو ایک مخصوص ٹیکس (جزیہ)ادا کرنا ہوتا ہے۔ ذمی کے تصور کو اسلامی عقیدہ کی طرح ایک ابدی تصور سمجھا جاتا ہے، مگر یہ درست نہیں۔
موجودہ زمانے میں شہریت (citizenship) کا جو تصور ہے۔ اس کے مطابق، جدید ذہن کے لیے ذمی کا تصور بالکل ناقابل قبول ہے۔ خود مسلمان خواہ ذمی کے تصورکو کتنا ہی زیادہ اعلی تصور بتائیں، وہ جدید ذہن کے لیے ایک توہین آمیز اصطلاح ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم ملک میں رہنے والے غیر مسلم کا جو مقام ہے وہ ثانوی درجے کے شہری (second class citizen) کا مقام ہے۔ جدید ذہن کے نزدیک اگرچہ پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر مساوات انسانی کا اعلان کیا۔ لیکن جہاں تک مسلم ریاست کا تعلق ہے، اس کے اندر غیرمسلموں کو مساوی درجہ حاصل نہیں۔ ان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ یاتو مسلم ریاست میں ثانوی درجے کی شہری بن کر رہیں یا ریاست کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہوگا، جو عالمی قانون کے مطابق، تمام قوموں کا اصول ہے۔ اس کی اصل خود دورِ اول میں موجود ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے، تو آپ نے وہاں کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا۔اس کو اسلام کی تاریخ میں صحیفۃ المدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں یہود کے تعلق سےیہ الفاظ ہیںوَإِنَّ یَہُودَ ... أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ، لِلْیَہُودِ دِینُہُمْ، وَلِلْمُسْلِمَیْنِ دِینُہُم(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ
مسلم فقہ کا ایک مسلم اصول یہ ہےالأحکامُ تتغیَّرُ بتغیُّرِ الزَّمانِ والمکانِ(تیسیر علم الفقہ للعنزی)۔ یعنی زمان و مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس اصول کے انطباق کی مثالیں ماضی میں بھی ہیں اور حال میں بھی ۔ماضی میں اس کی مثال بنی قریظہ کے لیے سفر کا واقعہ ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر
حال کی نسبت سے اس اصول کے انطباق کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ حج کے لیے مکہ آنے والے اونٹ پر سفر کرکے آئیں گے(الحج،
اسلامی احکام کے دو حصےہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق الدین (الشوری،
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ دنیا میں ہر آدمی کے لیے کوئی نہ کوئی نقصان مقدر ہے۔ دانش مند وہ ہے، جو نقصان کو خدا کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔
ثپرامن جدو جہد کا نام جدو جہد ہے، متشددانہ جدو جہد سرے سے کوئی جدو جہد ہی نہیں۔
ثدشمن سے مقابلہ کرنے کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ دشمن کو اپنا دوست بنالیا جائے۔
ثدوسروں کو دوست بنانے کی سب سے زیادہ آسان تدبیر یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نفرت کرنا چھوڑ دیجیے۔
ثآپ دوسروں کی ضرورت بن جائیں، تو آپ کو دوسروں سے شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے۔ تخیل میں کوئی خارجی چیز آدمی کی سوچ کی حد بندی کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اسی لیے شاعر خیالی پرواز میں جو چاہتا ہے کہتا چلاجاتا ہے (أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی کُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَ)الشعراء،
اس کے برعکس سائنس کی بنیاد فطرت پر ہے۔ فطرت (nature) ایک متعین حقیقت کا نام ہے۔ فطرت کی دنیا میں تمام واقعات انتہائی معلوم اور متعین اصولوں کی بنیاد پر ظہور میں آتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس داں کی زبان شاعر کی زبان سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ شاعر کو لفظوں کے انتخاب میںاحتیاط کی ضرورت نہیں۔ اس کی فکری اڑان اس سے کچھ بھی کہلوا سکتی ہے۔ مگر سائنس داں انتہائی محتاط زبان استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ وہ سختی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتاہے کہ اس کی زبان میں فنی صحت اور ریاضیاتی قطعیت موجود ہو۔ جدید سائنس کا ظہور یورپ میں ہوا، اور وہیں اس کی ترقی ہوئی۔ پچھلے کئی سو سال کا زمانہ ایساہے جب کہ مغربی دنیا میں سائنس کو سب سے زیادہ غلبہ حاصل رہاہے۔ مغرب کی جدید تہذیب مکمل طورپر سائنس کے زیر اثر بنی ہے۔ اسی کے اثر سے مغرب کی زبانوں میں محتاط اسلوب اور حقیقت نگاری کا انداز پیدا ہوگیا ہے۔
سائنس داں جس شعبۂ علم میں کام کرتاہے، اس کے عین تقاضے کے طورپر وہ ایسا کرتاہے کہ اپنے خیالات کو محتاط زبان (guarded language) میں ظاہر کرتا ہے۔ جب مغربی انسان کے نزدیک سائنس کی اہمیت بڑھی، تو اسی کے ساتھ قدرتی طورپر یہ ہوا کہ زبان میں وہی طرز پسند کیا جانے لگا جو سائنس دانوں کا طرز تھا۔ اس طرح وہ زبان وجود میں آئی جس کو ہم نے محتاط زبان کا نام دیا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ریمزے میکڈونلڈ (1866-1937)ایک برطانی لیڈر تھے، جو بعد کو وہاں کے وزیر اعظم بنے ۔ان کو عوامی تقریروں کا خاص ملکہ تھا،جس میں معنی کم اورالفاظ زیادہ ہوتےہیں۔ ان کا تعلق انگلینڈ کی لیبرپارٹی سے تھا، جو سرونسٹن چرچل کی حریف تھی۔ چنانچہ لارڈ ونسٹن چرچل نے ایک بار ریمزے میکڈونلڈ پر طنز کرتے ہوئے کہا:
He is a man with the gift of compressing the largest amount of words into the smallest amount of thoughts.
یعنی وہ ایسی خصوصیت کے انسان ہیں، جو زیادہ سے زیادہ الفاظ میں کم سے کم معانی کا استعمال کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک بات وہ ہے، جو مدعیانہ زبان میں کہی جائے، اور دوسری بات وہ ہے جو علمی زبان میں کہی جائے۔ مدحیہ قصائد سب کے سب مدعیانہ زبان میں لکھے گئے ہیں۔ یعنی لفظی دعوی مگر اس کی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلا دہلی کے پرانے قلعےمیں ایک میوزیم ہے۔ ایک بار میں وہاں گیا تو دیکھا کہ اس میں ایک ٹوٹا ہوا پتھر رکھا ہوا ہے، جس پر لکھا ہوا ہے: ہمیشہ باد بزیر سپہر بو قلموں (آسمان کے نیچے ہمیشہ اس کی رونق قائم رہے)۔ یہ پتھر مغل دور کے کسی محل میں لگا ہوا تھا۔ مگر آج اس محل کا کہیں وجود نہیں ۔
مدعیانہ کلام میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آدمی کے پاس الفاظ ہوں، تو وہ شاندار الفاظ کے ذریعہ ایسا دعوی کرسکتا ہے، جس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ مثلاً ایک باپ کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا تاریخ کا سب سے بڑا عالم ہے۔ اس طرح کے دعوے کے لیے الفاظ کافی ہیں۔ خواہ دلیل کے اعتبار سے سرے سے اس کی کوئی حقیقت نہ پائی جاتی ہو۔ اس کے مقابلے میں ،علمی زبان وہ ہے، جو تمام تر دلائل پر قائم ہے، جس کی حقیقت کو ہر آدمی جانچ کر سمجھ سکتا ہو۔ راقم الحروف نے جدیدیات کے مطالعے کے دوران ایک کتاب پڑھی۔ کتاب کا ٹائٹل یہ ہے
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, J. Murray, 1965, pp.
جو آدمی جدید دور کو سمجھنا چاہتا ہے اس کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سائنس کا دور آنے کے بعد جس طرح دوسرے انقلابات ہوئے، ان میں سے ایک انقلاب وہ ہے، جس کا تعلق طرزِ بیان سے ہے۔ اب علم کی دنیا میں ایک نیا طرز بیان رائج ہوا ہے، جو تمام تر قدیم طرز سے مختلف ہے۔ اس طرز بیان کو ایک لفظ میں مبنی بر حقیقت (fact based)طرز بیان اور دوسرے الفاظ میں اس کو سائنٹفک طرز بیان کہا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نیوٹن (1727۔1642) کی دریافتوں کے نتیجہ میں جو عظیم ذہنی انقلاب ہوا، اس کے بعد یورپ میں ایک ترقی یافتہ تکنیک وجود میں آئی، اور پھر مطالعہ کے قطعی طریقے (exact methods)پیدا ہوئے، جن کو مسائل پر منطبق کیا جانے لگا۔ اس نہج نے فلسفہ، الہیات اور سیاسیات کے طریق مطالعہ کو متاثر کیا۔ اس باب میں ہم ادب پر اس انقلاب کے اثرات کا مطالعہ کریں گے۔
سائنسی علم (scientific knowledge) سے پیدا شدہ صورت حال نے لکھنے والوں پر قابل لحاظ اثر ڈالا ہے۔شکسپیئر(1616۔1564) جو کچھ پورے اعتماد اور سنجیدگی کے ساتھ لکھ سکتاتھا، وہ ملٹن (1674۔1608) کے لیے ناممکن اور الگزینڈر پوپ (1744۔1688) کے لیےناقابل قیاس تھا، اگر چہ ادبی صلاحیتوں (literary talents) کے اعتبار سے تینوں یکساں بلندی کے انسان تھے۔ شکسپیئر کو تینوں میں سب سے اونچا مقام حاصل ہوا۔ اس کی کم ازکم جزئی وجہ یہ تھی کہ اسے ایک خوش قسمت عہد (fortunate period) ملا۔ وہ انگریزی زبان کے ایک عظیم دورکے آغاز میں اور عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے پیداہوا۔ جس زمانہ میں اس نے اپنی تحریریں لکھیں، اس وقت استعار اتی انداز اہمیت رکھتا تھا، جو نیوٹن کے بعد اسے پھر حاصل نہ ہوسکا۔
تمثیل موجودہ زمانہ میں دو قسم کی ہوسکتی ہے۔ ایک تمثیل وہ ہے ،جو سائنس داں کے لیے عملی نمونہ (working model) کا کام دیتی ہے۔ ایٹم کا قدیم تصور کہ وہ بالکل گول ہے، انتہائی سخت ہے۔ اسی قسم کا ایک ماڈل تھا۔ بعد کو ردر فورڈ (1938۔1871) کا ایٹمی تصور بھی اس کی ایک مثال تھا، جس کے مطابق اس کے اندر ایک ایٹمی نیوکلیس تھا، جو مثبت برقی چارج رکھتا تھا، اور اس کے گرد الکٹران (electron) سیاروں کی طرح حرکت کررہے تھے۔ تمثیل کی یہ قسم تجزیات سے حاصل شدہ علم کے خلاصہ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر اندازہ درست ثابت ہو تو ماڈل باقی رہتا ہے، اور اگر اندازہ درست ثابت نہ ہو تو ماڈل کی یا تو تصحیح کی جاتی ہے یا اسے ختم کردیا جاتا ہے۔
ادبی کنایہ (literary analogy) جو عام طورپر تشبیہ کی شکل میں ہوتا ہے، اس کا مقصد بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ اس لیے وضع کیا جاتا ہے کہ قاری کو ایک بیان کی صداقت کے بارے میں ایک دلچسپ مثال کے ذریعےمتاثر کیا جائے۔ سائنسی ماڈل کے مقابلہ میں یہ بالکل وقتی نوعیت کی چیز ہے۔ سائنسی ماڈل سائنس داں کے اندازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس وقت تک استعمال کیاجاتا ہے، جب تک وہ غلط ثابت نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ ادبی تمثیل اپنی ذات میں کوئی ایک چیز نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ حقیقی نہیں سمجھی جاتی۔
تاہم عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے یہ دو قسم کی تمثیلات ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ نہیں تھیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اخلاقی نظام ہر اعتبار سے نہایت گہرائی کے ساتھ طبیعی دنیا سے مربوط ہے۔ جب شکسپیئراپنے ایک ڈرامہ کے کردار کی زبان سے فوجی نظم وضبط پر استدلال کرتےہوئے اس سے کہتا ہے کہ سورج سیاروں کے درمیان کمانڈر کی سی پوزیشن رکھتا ہے تو وہ محض ایک تشبیہ نہیں دیتا بلکہ اپنے یقین کے مطابق وہ کائنات کی فطرت کے بارہ میں ایک صحیح سائنسی بیان دیتا ہے۔ یہ خدائی نظام کا ایک جز تھا کہ سورج سیاروں کے اوپر حکمراں ہو، اور اسی طرح Agamemnon یونانیوں کے اوپر حکومت کرے، اور ان دونوں میں سے کسی کی حکمرانی میں بھی فرق آنا وسیع تر کائنات میں خلل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا:
The rise of science led to a separation of reason from emotion: and naturally enough, an age of prose followed an age of poetry. (p.
سائنس کے عروج نے عقل اور جذبات کو ایک دوسرے سے الگ کردیا، اور فطری طور پر شاعری کے دور کی جگہ نثر کے دور نے لے لی۔
سترھویں صدی کے وسط سے پہلے نثر بھی رنگین اور شاعرانہ طرز کی ہوتی تھی۔ سویفٹ (1745۔1667) اور اڈیسن (1719۔1672) کے وقت سے یہ محض سخن سازی سمجھی جانے لگی۔ ماقبل سائنس کے استعاراتی انداز کی ایک مثال لائلی (1606۔1554) کی کتاب (Euphues) میں ملتی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1579 میں شائع ہوئی۔ اس وقت وہ ایک پسندیدہ کتاب تھی ،اپنے اسٹائل کے اعتبار سے بھی اور اخلاقی مضامین کے اعتبار سے بھی۔1636تک وہ بار بار چھپتی رہی۔ اس کے بعد عام قارئین میں اس نے اپنی جاذبیت کھودی اور محض ایک ادبی عجوبہ (literary curiosity)بن کر رہ گئی۔
1650 تک ایک شخص انگلش لٹریچر میں عالم خیال اور عالم فطرت کے درمیان کاملیت (wholeness) پاتا ہے ۔ اس صدی کے وسط سے دونوں کے درمیان خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی، اور آرٹ اور سائنس کی تقسیم کی شکل میں د ونوں الگ الگ ہوگئے۔اس کے بعد انگریزی میں ایک سادہ اور استعارہ اور کنایہ سے خالی انداز پیدا ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یورپ میں سائنس کی طرف بڑھتا ہوا رجحان تھا۔
سادگیٔ اظہار (simplicity of expression) پیداہونے کی اور بھی وجہیں تھیں۔ مثلاً سترہویں صدی میں جب تعلیم بڑھی، تو یونان اور لاطینی کلاسیکل کتابوں کے مقابلہ میں لوگ زیادہ تر فلکیات، بحریات، جہاز سازی اور گھڑی سازی کے مطالعے میں دلچسپی لینے لگے۔ اس طرح فطری طورپر سادہ زبان کا رجحان بڑھا۔ کیونکہ یہ مضامین شاعرانہ طرز کے ادب میں بیان نہیں کیے جاسکتے تھے۔ پچھلے سو برس میں اخبار کی زبان بھی اس سے متاثرہوئی ہے۔ تعلیمی انفجار (literary explosion) کے بعد عوامی صحافت (popular journalism) پیدا ہوئی، اور اسٹائل میں سادگی آتی چلی گئی۔ سترھویں صدی کے بعد پیدا ہونے والے ادب کو ٹھیک ٹھیک حقائق (precise facts) بیان کرنے تھے۔ اس لیے سادہ اندازِ بیان کا پیدا ہونا بالکل فطری تھا۔
سپراٹ (Sprat) نے 1667میں (History of Royal Society) لکھی،اور اس میں نثر کے اسٹائل کے اصول مقرر کیے۔ اس میں اس نے لکھا کہ ہم کو فطری طرز کلام (natural way of speaking) اختیار کرنا چاہیے جس میں ریاضیاتی ڈھنگ کی واقعیت ہو، اور لفظی رنگینیوں سے خالی ہو۔1664 میں رائل سوسائٹی نے بالقصد ایک کمیٹی قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی زبان کے اسٹائل میں اصلاح کی کوشش کرے۔
اس وقت کے یورپ میں عوامی لہر پوری طرح شعر، استعارہ اور شاعرانہ نثر (poetic prose) کے خلاف تھی۔ فلاسفہ عام طورپر اس طرح کے بیان کو سچائی (truth)میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ہابس (1679۔1588) کے نزدیک وہ سیدھے فکر (straight thinking)میں خلل پیدا کرنے والا تھا۔ روسو (1712-1778) نے کہا تھا کہ ڈیکارٹ (1596-1650) کے فلسفہ نے شاعری کو قتل کردیا ہے۔ جان لاک (1632-1704) نے صاف طورپر کہا کہ شاعری خوبصورت تصویروں کا مجموعہ ہے ،مگر وہ بنیادی طورپر گمراہ کن ہے۔
ملٹن آخری شاعر تھا جو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور سرٹامس براؤن (1682-1606) شاید آخری شخص تھا ،جس نے اس طرز کی نثر لکھی۔ ٹامس براؤن ایک تعلیم یافتہ شخص تھا۔ مگر وہ قدیم طرز کی زبان استعمال کرتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خواہش کے باوجود رائل سوسائٹی کا فیلو نہ بنایا جاسکا۔ اس وقت کے اہلِ فکر ایک ایسی نثر وجود میں لانا چاہتے تھے جو فلسفۂ فطرت کے نئے میکانکی تصور سے ہم آہنگ ہو:
They were interested in the development of prose style in accordance with new mechanical concepts of natural philosophy. (p.
نثر میں سادگی پیدا کرنے کی تحریک کا سہرا خاص طور پر جان ڈرائڈن (1631-1700) کے سر ہے۔ اس نے مسلسل اس کی تبلیغ کی، اور خود سادہ نثر استعمال کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جدید انگریزی درحقیقت ڈرائڈن کی زبان ہے۔
اٹھارویں صدی کو ’’ایج آف ریزن‘‘ کہاجاتا ہے۔ نیوٹن کے بعد محسوس کیاگیا کہ جس طرح عالم افلاک میں نظم وضبط ہے، اسی طرح لٹریچر کو بھی نظم وضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اڈمنڈ والر (1606-1687) اور ڈرائڈن نے شاعرانہ زبان کے ذریعہ تاثیر پیدا کرنے کے بجائے یہ کوشش کی کہ متوازن خیالات (well-balanced thoughts) کو معتدل اور مناسب زبان میں ادا کرکے یہ فائدہ حاصل کیاجائے۔
اڈیسن (1672-1719) نے اپنی کتاب (The Spectator) میں انھیں خیالات کی وکالت کی۔اس ادبی تحریک (literary move) نے ارسطو کو دوبارہ اہمیت کا مقام دے دیا۔ پوپ نے فطرت (nature)کی پیروی کی تلقین کی، انگریزی شاعر ورڈسورتھ (William Wordsworth)کی بیان کردہ فطرت کی نہیں، بلکہ وہ فطرت جس کو نیوٹن نے دریافت کیا تھا۔
ولیم بلیک(1757-1827) نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ وہ شاعر (poet)کو اسی قسم کی ایک مخلوق سمجھتا تھا، جیسے قدیم اسرائیلی پیغمبر۔ اسی طرح ورڈسورتھ (1770-1850) نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس نے کہا کہ حقیقت کی کچھ اور قسمیں ہیں، جو ان مادی صداقتوں کے علاوہ ہیں، جن کو سائنس داں بیان کرتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کی صداقتیں وہ ہیں جن تک صرف شاعر کی پہنچ ہوسکتی ہے۔
رومانوی تحریک (Romantic Movement) ایک معنی میں نیوٹنی قطعیت (Newtonian Certainty)کے خلاف شاعرانہ رد عمل تھی، اور ہابس کے خلاف جس نے کہا تھا کہ انسان بنیادی طورپر ایک مشین ہے۔رومانیت (Romanticism) ایک قسم کی فراریت (escapism) تھی۔ رومانیت شاعری کے اندر 1798 سے جنگ عظیم 1914-18 تک رہی۔
اب یورپ میں تین سو سالہ دور کا ردعمل ہورہا ہے۔ صنعتی دور کی خشکی سے اکتا کر وہ سائنس کے ساتھ آرٹ کی اہمیت کو بھی تسلیم کررہا ہے۔ سترھویں صدی میں سائنس نے زبردست ترقی کی تھی۔ آرٹ نے بھی قدیم زمانہ میں بہت بلند مقام حاصل کیا تھا۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں وہ دوبارہ اپنے مقام پر لوٹ آئے۔
(جان فریڈرک ویسٹ (John Frederick West) کی کتاب دی گریٹ انٹلکچول ریولیوشن کے ایک باب استعارہ کی موت [The Death of Metaphor] کا ترجمہ)
واپس اوپر جائیں
برادرم مولانا سید اقبال احمدعمری ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
انڈیا کے ایک مشہور عالم دین کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ اسپتال کی زندگی سے بچائے۔ اسی طرح مجھے انڈیا کے دو بزرگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا گئے۔ جب وہ روانہ ہونے لگے، تو ان کے معتقدین نے ان کو مشورہ دیا کہ حضرت امریکا میں یہودی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔آپ یہودی ڈاکٹروںسے ہرگز علاج مت کیجیے گا۔ کیوں کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
یہ بات مضحکہ خیز حد تک غیر واقعی ہے۔ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں کے دررمیان اس قسم کا ماحول اس بات کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے کہ وہ جدید ترقیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق جدید ترقیوں سے الرجک ہوگئے ہیں۔ان حضرات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم (professionalism) کا زمانہ ہے۔ اب یہودی ڈاکٹر یہود کی حیثیت سے علاج نہیں کرتے، اب کرشچن ڈاکٹر کرشچن کی حیثیت سے کسی انسان کا طبی معاینہ نہیں کرتا، بلکہ خالص پروفیشنل انداز میں وہ اس کام کو انجام دیتا ہے۔
آج کا ایک ڈاکٹر جو کام کرتا ہے، وہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں کرتا، وہ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں اس کو انجام دیتا ہے۔ جب وہ اپنا کام انجام دیتا ہے، تو اس کے ذہن میں صرف پروفیشنل تقاضےموجود ہوتے ہیں، کسی بھی غیر پروفیشنل تقاضے سے ان کا ذہن مکمل طور پرخالی ہوتا ہے۔
جدید ترقی کیا ہے۔ وہ دراصل خدا کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ترقیاں کوئی غیر اسلامی ترقیاں نہیں ہیں، بلکہ وہ خود خدا کی تخلیق کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں بہت زیادہ دیر کی ، اب انھیں بلاتاخیراس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، تاکہ وہ مزیدنقصان سے بچ جائیں۔
یہ پروفیشنلزم ایک نیا ظاہرہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوا ہے، مگر امت کے لوگ خاص طور پر علما اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اسی لیے وہ دورِ جدید کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں، جو مضحکہ خیز حد تک غیر و اقعی ہوتی ہے۔اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حقیقت پسند بنے، وہ کسی انسان کے بارے میں تجربے (experience) کی بنیاد پر رائے قائم کرے، نہ کہ عقیدے کی بنیاد پر۔ یہ معاملہ خالص غیرمذہبی (secular) معاملہ ہے، اس کا مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دورِ جدید کی اس حقیقت کو دریافت کرے، تاکہ وہ غلط فہمی کی دنیا میں جینے سے بچ جائے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭
■ زندگی میں بار بار فیصلہ لینا پڑتا ہے، نئے حالات میں جو لوگ نیا فیصلہ نہ لے سکیں، وہ اس دنیا میں ناکام ہوکر رہ جائیں گے۔
■ دعوت دوسروں کے حق میں اپنی خیر خواہی کا اظہار ہے، نہ کہ دوسروں کے اوپر اپنی برتری کا اظہار۔
■ دعوت دراصل مدعو سے محبت کا ایک اظہار ہے۔ چوں کہ لوگوں کے سینوں میں دوسرے کے لیے محبت نہیں، اس لیے لوگوں کے سینوں میں دعوت کی تڑپ بھی نہیں ۔
■ جو انسان سے محبت کرتا ہے،وہ خدا کا محبوب بنتا ہے، اور جو شخص خدا کا محبوب بنتا ہے، اسی کو آخرت میں جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں
سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں کہ کچھ دنوں پہلے مہاراشٹر کے ایک مقام پر ان کا جانا ہوا تھا۔ وہاں ناروے کے کچھ عیسائی مشنری لوگوںسے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے یہ دو سوال کیے: (1) جنت(paradise) میں داخلے کا معیار (criterion)کیا ہے۔ (2) آپ کے پاس روحانیت (spirituality) کی تعریف کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
جواب
(1) جنت اعلیٰ درجے کا پرامن (peaceful)معاشرہ ہے۔ جنت میں اسی کو داخلہ ملے گا، جو اپنے ہم سایہ لوگوں (neighbours)کے ساتھ کامل معنی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔ اس کا ہر عمل قابل پیشین گوئی کردار (predictable character ) کا حامل ہو۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیا کی زندگی میں اس انداز میں تیار کریں، وہ آخرت میں جنت میں داخلے کا ریوارڈ پائیں گے۔
(2) روحانیت کسی پراسرار صفت کا نام نہیں ہے۔ روحانیت کامل طور پر مثبت انداز میں ذہنی ارتقا کا نام ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روحانیت مبنی بر قلب ڈیولپمنٹ کا نام ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ روحانیت مبنی بر ذہن ارتقا کا نام ہے۔
سوال
میں ایک عرصے سے آپ کے مضامین اردو اور انگریزی میں پڑھتا ہوں، اورانٹرنیٹ پر آپ کی تقریریں سنتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ الہام کی حقیقت کیاہے؟ یہ وحی سے کس طرح جدا ہے؟(اظہر مبارک، بھاگل پور، بہار)
جواب
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح وحی کی دوقسمیں ہیں— وحی متلو، اور وحی غیر متلو۔ اسی طرح الہام کی بھی دو قسمیں ہیں —— اجتہاداور انسپریشن (inspiration)ہے۔ یہ دو قسم کے معاملات پیغمبر کے ساتھ بھی ہوتے ہیں، اور غیر پیغمبر کے ساتھ بھی۔
اس کی مثالیں غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ مثلاً مکی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت غیر معمولی قسم کی حکیمانہ تدبیر اختیار کی، جس کوڈی لنکنگ(delinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی مکہ کے بت پرست زائرین سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ ان کو دعوت کے آڈینس (audience)کے طو رپر استعمال کرنا۔ یہ ایک غیر معمولی تدبیر تھی، اور اتنی اعلیٰ تدبیر ربانی الہام کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ الہام کی یہ قسم ایسے اہل ایمان کو نصیب ہوتی ہے، جو ری ایکشن کی نفسیات سے اپنے آپ کو کامل طور پر بچائیں۔ بدقسمتی سے مسلم علما نے اس اعلیٰ حکمت کو نہیں سمجھا، اس لیےوہ ایسے الہام کے وعایۃ (container)بھی نہیں بنے۔
ہمارے علما کے لیے اس سے مشابہ حالات پیدا ہوئے، لیکن ہمارے علما نے حدیث کو حکمت (wisdom) کے طورپر نہیں لیا، بلکہ فقہی مسائل کے ماخذ کے طور پر لیا۔ اس لیے ان کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ نبوی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہے، وہ خود ساختہ طور پرمسائل میں ترجیحات تلاش کرنے میں الجھ کر رہ گئے۔ جس چیز کو علما ترجیحی قول کہتے ہیں، وہ صرف حکمت نبوی کی دریافت میں محرومی کا نام ہوتا ہے— وحی سے مراد ہےلفظی انسپریشن، جو فرشتوں کے ذریعہ انبیا کو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں الہام سے مراد ہے، اجتہادی انسپریشن۔
سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیںسورہ یوسف احسن القصص ہے۔ لیکن دوسرے انبیاء کے مقابلے میں اس میں انذار و تبشیر کا کوئی نمایاں پہلو نظر نہیں آتا۔ حالاں کہ انبیاء کرام کا اصل مقصد یہی ہے۔ وضاحت مطلوب ہے۔ (سید فیض احمد قادری، کوئمبٹور، تامل ناڈو)
جواب
حضرت یوسف کا قصہ جو قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ ایک مخصوص پہلو سے بیان ہوا ہے۔ اس میں انذار و تبشیر کا معاملہ شامل نہیں ۔ اس معاملے میں اللہ تعالی کو ایک خاص رہنما ئی دینا مطلوب تھا۔ غالباً اسی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت یوسف ،جو کہ مصر سے باہر ایک گاؤں میںپیدا ہوئے تھے، ان کو وہاں سے مصر میں لایا گیا، جہاںایک متمدن حکومت قائم تھی۔کیوں کہ یہ مثال مصر جیسے متمدن مقام میں قائم ہوسکتی تھی۔ تاکہ ایک مثال کی صورت میں ایک سنت رسول قائم ہو ،وہ یہ کہ اس طرح کی صورت حال میں اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے، یعنی جب داعی ایک ایسے مقام پر ہو، جہاں ایک قائم شدہ حکومت موجود ہو، تو وہاں طریقِ کار(method) کیا ہونا چاہیے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) پر مبنی ہونا چاہیے۔یہ پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اس کو حضرت یوسف کی مثال کے ذریعے اس سورت میں بیان کیا گیاہے۔
سور ہ یوسف میں احسن القصص کا لفظ اپنے کامل معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ طریقِ کار کے معنی میں ہے، یعنی حضرت یوسف نے اپنے زمانے میں دعوت کا جو طریقہ (method)اختیار کیا، وہ بہترین طریقہ تھا۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’ بہترین طریقہ‘‘ سے متعین طور پر مراد غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational method) ہے۔
حضرت یوسف کا اختیار کردہ غیر نزاعی طریقہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ حضرت یوسف نے بادشاہ سے تخت اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کیا کہ مصر کے خزائن ارض (زرعی معاملہ [agricultural land]) کا انتظام حضرت یوسف کے حوالے کردیا جائے۔ وہ انتظام کیا تھا، اس کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یوسف نے کہا کہ تم سات سال تک برابر کھیتی کرو گے۔ پس جو فصل تم کاٹو، اس کو اس کی بالیوں میں چھوڑ دو مگر تھوڑا سا جو تم کھاؤ۔ اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے۔ اس زمانہ میں وہ غلہ کھالیا جائے گا جو تم اس وقت کے لیے جمع کرو گے، بجز تھوڑا سا جو تم محفوظ کرلو گے۔ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر مینھ برسے گا۔ اور وہ اس میں رس نچوڑیں گے۔ (
بادشاہ مصر کے ساتھ حضرت یوسف کا معاملہ کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور بادشاہ نے کہا، اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لیے رکھوں گا۔ پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہا ائْتُونِی بِہِ أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ۔ قَالَ اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ٌ (
بائبل(پیدائش،
You shall be in charge of my house, and all my people are to obey your commands. Only with regard to the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
سوال
مجھے نہیں معلوم میں کہاں سے شروع کروں۔ میں جب سولہ سال کی تھی، تو میں نے اپنے اکیس سالہ بھائی کو کھودیا، اس کے فوراً بعد میرے والدین فوت ہوگئے۔ شادی کے بعد میرے دو بھائی (brothers in law) اپنے پیچھے دو لڑکیوں کو چھوڑ کر انتقال کرگئے۔ ایسی کٹھن صورت حال میں میں کیا کروں۔ کیا آپ مجھے کوئی دعا پڑھنے کی نصیحت کریں گے۔ (مز ثنا خان، پاکستان)
جواب
آپ کو جو صورتِ حال پیش آئی ہے، وہ آپ کے لیے ایک نعمت ہے۔ دنیا کے سہارے کا رہنا یا نہ رہنا، دونوں اللہ کے فیصلے ہیں۔ جب آپ دیکھیں کہ دنیا کےسہارے آپ سے ٹوٹ رہے ہیں، تو اس کو پازیٹیوسنس میں لیں۔ اس کو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ رب العالمین کا آپ کے لیے منصوبہ ہے کہ آپ رب العالمین سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ آپ اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔ آپ کے اندر زیادہ سے زیادہ اسپریچول ڈیولپمنٹ ہو۔ یہ سب باتیں شکر کی باتیں ہیں ، نہ کہ شکایت کی باتیں۔
واپس اوپر جائیں
ثنیشنل انوائرمنٹل انجنئرنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ(NEERI Nagpur) میں دعوتی تجربہ: ایم ایم ربانی جونئرکالج کامٹی سے طلبہ کومرکزی حکومت کے ادارہ National Environmental Engineering Research Institute میں
اس پروگرام کا ایک دوسرا تجربہ یہ ہے کہ سامعین میں ایک ڈاکٹر ٹھاکرے صاحب ملے، جنھوں نے تقریباً ایک گھنٹے تک ہمارا انتظار کیا، اور ملنے پر کہنے لگے میں نے اپنی تمام سروس امریکہ اور افریقی ممالک میں کی ہے، اور اب میں شانتی کے پرچار میں لگا ہوا ہوں، میرے اس مشن کے ساتھ ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب پٹھان صاحب جڑے ہیں، جو کہ ابھی پونا میں مقیم ہو گئے ہیں۔ میں ان سے آپ کی بات کروادیتا ہوں، آپ ان سے مل کر اس کام کو آگے بڑھائیے۔ پھر اسی وقت انہوں نے بات بھی کروادی، اور اپنا مقصد بھی بتا دیا۔ پٹھان صاحب نے کہا آپ پونا آکر مجھ سے ملیے، کیوں کہ میں نے مولانا صاحب کو پڑھا ہے، اور ان سے کامل اتفاق رکھتا ہوں۔ (ساجد احمد خان، ناگپور- کامپٹی)
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان(سی پی ایس سہارن پور چیپٹر) بھائی چارے کے انداز میں زندگی گزارتے ہیں،اور ہر ایک سے وہ اپنائیت کے انداز میں بھید بھاؤ کے بغیر ملتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہر جگہ آسانی کے ساتھ دعوتی کام کرلیتے ہیں۔ مثلاً
ثمز نکیتا نائر نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین ایکوئیٹر لائن (Equator Line) کے لیے صوفی ازم اور اسلام کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو
ثیکم اکتوبر 2019کو عیسائی مشنری ادارہ ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی (نئی دہلی)کے طلبا کی ایک جماعت کو سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے تین ممبران، ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ماریہ خان، اور مولانا فرہاد احمد نے مختلف اسلامی موضوعات پر خطاب کیا، اور خطاب کے بعد سوال جواب کا بھی سیشن ہوا۔ چائے کے وقفے میں کئی طلبا نے کہا کہ میں اسلام کے تعلق سے منفی سوچ کا شکار تھا، لیکن آج آپ لوگوں نے جو بتایا ہے، اس سے میرا ذہن اسلام کے لیے بالکل مثبت ہوگیا ہے۔ تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے گئے۔
ثSouth Asian Jesuit Assistance secretariat for Interreligious Dialogue کے ایک پروگرام میں سی پی ایس انٹرنیشنل (دہلی) کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم کو اپنے ممبران کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں ساؤتھ ایشیا کے تمام بڑے عیسائی پادری جمع تھے۔ ڈاکٹر فریدہ خانم نے وہاں پر اسلام اورانٹرفیتھ (Interfaith)کے موضوع پر ایک تقریر کی، جسے تمام لوگوں نے بہت دلچسپی سے سنا۔سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے ممبران نے تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ یہ پروگرام سینٹ زیوئرس سینئر سیکنڈری کالج نئی دہلی میں
ثوینکوور (Vancouver) کناڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کا ایک ساحلی شہر ہے۔ یکم اکتوبر 2019 کو مز کوثر اظہار اور مز گل زیبا احمد (سی پی ایس انٹرنیشنل، امریکا) نے اس شہر کا سفر کیا۔ مقصد تھا، دعوتی سیاحت۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہری تھیں، اس کی انتظامیہ سے قرآن رکھنے کی بات کی، وہ لوگ راضی ہوگئے، اور کہا کہ آپ ہمیں
■ 9 اکتوبر 2019 کو ساجد احمد خان کے اسکول میں کامپٹی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر مسٹر دیوی داس کاتھلے اسکول کے پرنسپل کے پاس آئے۔ اس وقت ان کو ساجد خان صاحب نے مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ مراٹھی ترجمۂ قرآن اور کتاب خاندانی زندگی کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اور کہا کہ اب مجھے پولیس اسٹیشن آنے والے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ دوران گفتگو جب ساجد صاحب نے کہا کہ میں آپ کے پولیس اسٹیشن آکر تمام اسٹاف کو قرآن اور اسلام کی کتابیں دینا چاہتا ہوں، تو انھوں نے خوشی سے کہا کہ ضرور آئیں، آپ کا ہر وقت استقبال ہے۔
■ السلام علیکم، مولانا صاحب اللہ پاک آپ کو ایمان اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ میں آپ کے آباواجداد کے علاقے سوات ملاکنڈ سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپ کی تفسیر تذکیرالقران اور دیگر کتابوں سے مجھے ایمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہم طارق بدر صاحب کے ساتھ مل کر سی پی ایس انٹرنیشنل کے کاموں کو پوری دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ ہم لوگوں کے لیے دعا کریں۔(سردار عطاء الرحمن عثمان خیل)
■ Hello, I'd like to first share how I ended up with this translation of the Quran. I am a refugee from Bosnia, very strong Muslim roots. Muslim parents, I always said “I cannot touch religion until that is understandable to me.” For the last 7 years, I thought my life was hell but now in hindsight I see what it really was .I have numerous copies of the Kuran courtesy of My father but I never bothered with them because one quick glance and the truth in truth form did not resonate with me. While I was in Istanbul in 2013, I picked up a free copy at a mosque, never touched it until about a week ago, it really does call to you, I am still reading it (backwards seems to somehow make more sense to me), but this entire time I am thinking this translation is not like the others and this led me to CPS. I believe this is the true message. I suppose my question is this, does the center offer any type of exchange program where a person can come and learn a bit more. I've looked at the ambassador options, this will not satisfy my thirst for knowledge in the way I need it to unfold more within me. Thank you for taking the time to read my message, I look forward to any insights you may be able to provide . Peace & Love to you. (Edita Sehic)
■ My changing perspectives of Islam: As a child in my mind, Islam was merely that ‘burqa religion. As a slightly older child, it also became the nice, fun religion at Eid time because hospitable Muslim neighbours and friends shared their delicious festive fare with us. But, on reading the history of the Mogul invaders of India, I wondered whether they were cruel or fanatical, or both. Was it their mis-zeal, to convert or destroy the infidels by jihad? In later years I wondered whether certain parts of the Quran lent themselves to such mis-interpretation which led the followers of Islam to perpetrate such atrocities as forcible conversion and disrespect for Hindu belief and sentiment by razing the temples. Having read Sir Maulana Khan’s treatises, I am convinced that the true spirit of Islam is non-violent, peaceful and respectful. I quote Sir, Khan “Only a defensive war is permitted in Islam. Follow one religion and respect all. Jihad is the inner battle against non-spiritual urges, and, Do not judge Islam by what some Muslims do. All religions teach love, peace, forgiveness and the glory of God. I enjoy living in a multi-religious country and have nice friends of all religions. My vision of tomorrow’s world is one in which all of us will believe in the true, relevant message which is the universal heritage of mankind. We pray for a richer, peaceful world where there is greater interaction, understanding, harmony and friendship between peoples.(Mrs. Ramadevi Lingaraju)
■ مجھے الرسالہ باقاعدگی سے ہر ماہ موصول ہوتا ہے۔میں الحمد للہ الرسالہ کے پیغام کو عام کرنے میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرتا ہوں، چونکہ میں ایک ٹرینر ہوں اور ہفتہ بھر میں پندرہ بیس تعلیمی اداروں میں ٹریننگ سیشن کرنے جاتا ہوں ،ساتھ ہی ساتھ مجھے مختلف ٹی وی مارننگ شوز میں مدعو کیا جاتا ہے۔میں ہر جگہ اور مقام پر الرسالہ کے پیغام کو عام کرتا ہوں۔(خواجہ مظہر صدیقی ،کالم نگار نوائے وقت، ڈائریکٹر ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان)
■ ’’اللہ اکبر‘‘ مولانا کی عجیب کتاب ہے۔ کئی دفعہ پڑ ھنے کے باوجود ہر دفعہ نیا کیف و سرور ملتا ہے، اور مولانا صاحب کےلیے دل سے بار بار دعا نکلتی ہے ۔اللہ مولانا کو دراز عمر اور صحت نصیب فرمائے آمین (مفتی محمد، سوات)
ثخصوصی شمارہ :جنت کی دنیا (الرسالہ ستمبر 2019) میں حضرت نے جنت کی سیر کرائی ہے، اور ایسی عمدہ تشریح پیش کی ہے، جن سے اعتقادی اصلاح بھی ہوتی ہے، اور عملی بھی۔ خاص کر دنیاکی زندگی کےفانی اور ناپائیدار ہونے اور آخرت کی زندگی کےباقی اوردائمی ہونے کااستحضارودھیان پیدا ہوتاہے۔ استعدادللموت قبل الموت کی فکر مضبوط انداز میں پیدا ہوجاتی ہے۔اللہ ہمیں مزید استفادے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (محمد صدیق، بلوچستان)
■ الرسالہ، ستمبر 2019 کو پڑھتے ہوئے جب میں اس جملہ پر پہنچا تو جھوم اٹھا’’جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوبصورت تعبیر کہا جائے‘‘(صفحہ 4)۔ یہ ایک الہامی احساس سے بھر پور جملہ ہے۔ مولانا کا وصف یہ ہے کہ جس گہرائی سے بات کرتے ہیں، اسی گہرائی سے رگ جاں میں اتر جاتی ہے۔ ستمبر کے شمارے نے جنت کا ایک نیا تصور مجھے دیا ہے، اور یہی اصل بات ہے جو مولانا کی ہر تحریر میں موجود رہتی ہے۔ تاہم مولانا کی باتوں کو سمجھنے کے لیے وسعتِ دل اور کشادہ احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ (محمد ادیب، ملتان)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.