خبرنامہ اسلامی مرکز- 270
ثنیشنل انوائرمنٹل انجنئرنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ(NEERI Nagpur) میں دعوتی تجربہ: ایم ایم ربانی جونئرکالج کامٹی سے طلبہ کومرکزی حکومت کے ادارہ National Environmental Engineering Research Institute میں 15 جولائی 2019 کومدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے طے کیا کہ اس ٹرپ کو اپنے لیے دعوہ ٹرپ بنایاجائے۔ ملک کے نامور سائنس داں ڈاکٹر این کے سنگھ اس پروگرام کے خاص اسپیکر تھے، اس کے علاوہ اور بھی کئی ماہر سائنس داں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہونے والے ہیں۔ جب ہم لوگوں نے پروگرام انتظامیہ سے اپنے پیس اور اسپریچول مشن کا تذکرہ کیا اور تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور اسپریچول لٹریچر دینے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا ،تو منتظمین بہت خوش ہوئے، اور یہاں تک معاونت کی کہ مجھے دعوت دی کہ آپ اپنے مشن کا تعارف اسٹیج پر آکر کرائیں۔ یہ ہمارے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔ یقینی طور پر یہ صرف اللہ رب العالمین کی مدد تھی۔ میں نے مختصراًسی پی ایس مشن کا تعارف اور مقصد پیش کیا، اور ڈائس پر موجود سبھی شخصیات کو انگلش قران اور دیگر دعوتی لٹریچر پیش کیا۔ خاص طور سے ڈاکٹر این کے سنگھ کو انگریزی ترجمہ قرآن اور گاڈ ارائزز (God Arises)دیا گیا۔ انہوں نے بہت ہی خوشی سے قبول کیا۔ دیگر افراد میں ڈاکٹر اپادھیائے ، ڈاکٹر پوروہت(Dr Purohit) ڈاکٹر کمبھارے(Dr Kumbhare) ، وغیرہ، سب کو انگلش ترجمۂ قران اوردی ایج آف پیس (The Age of Peace) کے ساتھ دیگر دعوتی کتابیں پیش کی گئیں۔ اسٹیج سے نیچے آنے کے بعد سامعین میں سے کئی افراد نے ہماری ٹیم سے رجوع کیا، اور اپنے لیے بھی انگلش ،ہندی ،اور مراٹھی میں قران کی درخواست کی، جو کہ ہم نے انہیں دےدیا۔ دو تجربات ایسے پیش آئے، جن سے میں تھرلڈ (thrilled)ہوں۔ ایک، اس پروگرام کی شوٹنگ کرنے والے کیمرہ مین مسٹر انِل نے میرے پاس آکر کہا : سر، کیا یہ کتابیں مجھے بھی مل سکتی ہیں، اور جب میں نے انہیں مراٹھی قران پیش کیا تو انہوں نے بہت ہی ادب سے ترجمہ قرآن کو اپنے سر، پر رکھ لیا۔ اس وقت کے تاثرات بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
اس پروگرام کا ایک دوسرا تجربہ یہ ہے کہ سامعین میں ایک ڈاکٹر ٹھاکرے صاحب ملے، جنھوں نے تقریباً ایک گھنٹے تک ہمارا انتظار کیا، اور ملنے پر کہنے لگے میں نے اپنی تمام سروس امریکہ اور افریقی ممالک میں کی ہے، اور اب میں شانتی کے پرچار میں لگا ہوا ہوں، میرے اس مشن کے ساتھ ناگپور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب پٹھان صاحب جڑے ہیں، جو کہ ابھی پونا میں مقیم ہو گئے ہیں۔ میں ان سے آپ کی بات کروادیتا ہوں، آپ ان سے مل کر اس کام کو آگے بڑھائیے۔ پھر اسی وقت انہوں نے بات بھی کروادی، اور اپنا مقصد بھی بتا دیا۔ پٹھان صاحب نے کہا آپ پونا آکر مجھ سے ملیے، کیوں کہ میں نے مولانا صاحب کو پڑھا ہے، اور ان سے کامل اتفاق رکھتا ہوں۔ (ساجد احمد خان، ناگپور- کامپٹی)
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان(سی پی ایس سہارن پور چیپٹر) بھائی چارے کے انداز میں زندگی گزارتے ہیں،اور ہر ایک سے وہ اپنائیت کے انداز میں بھید بھاؤ کے بغیر ملتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہر جگہ آسانی کے ساتھ دعوتی کام کرلیتے ہیں۔ مثلاً 27 اگست 2019 کو اتراکھنڈ کے چیف منسٹر جناب ترویندر سنگھ راوت نے ڈاکٹر اسلم خان کو خاص اعزاز سے نوازا۔ اس موقع پر انھوں نے پروگرام میں موجود تمام لوگوں بشمول سی ایم اتراکھنڈ کو ترجمۂ قرآن بطور ہدیہ دیا۔ اس کے بعد دوبارہ 5 اکتوبر 2019 کو اتراکھنڈ میں ایک پروگرام میں سی پی ایس سہارن پور سے ڈاکٹر محمد اسلم خان، مسٹرمحسن بلال، مسٹر دانش خان، ڈاکٹر تاثیر ،وغیرہ، نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں بھی اتراکھنڈ کے موجودہ سی ایم ترویندر سنگھ راوت ، سابق سی ایم ہریش راوت، بی جے پی صدر اتراکھنڈ و دیگر سیاسی، اور سماجی، اور بیوروکریسی سے منسلک افراد موجود تھے۔ اس پروگرام میں بھی تمام لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچردیے گئے، جن کو تمام لوگوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا، اور اس کام کو مزید آگے بڑھانے میں مدد کا وعدہ کیا۔
ثمز نکیتا نائر نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے انگریزی میگزین ایکوئیٹر لائن (Equator Line) کے لیے صوفی ازم اور اسلام کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو 21 ستمبر 2019 کو لیا گیا۔ انٹرویو کے بعد مز نائر کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر بطور گفٹ دیے گئے۔
ثیکم اکتوبر 2019کو عیسائی مشنری ادارہ ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی (نئی دہلی)کے طلبا کی ایک جماعت کو سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے تین ممبران، ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ماریہ خان، اور مولانا فرہاد احمد نے مختلف اسلامی موضوعات پر خطاب کیا، اور خطاب کے بعد سوال جواب کا بھی سیشن ہوا۔ چائے کے وقفے میں کئی طلبا نے کہا کہ میں اسلام کے تعلق سے منفی سوچ کا شکار تھا، لیکن آج آپ لوگوں نے جو بتایا ہے، اس سے میرا ذہن اسلام کے لیے بالکل مثبت ہوگیا ہے۔ تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے گئے۔
ثSouth Asian Jesuit Assistance secretariat for Interreligious Dialogue کے ایک پروگرام میں سی پی ایس انٹرنیشنل (دہلی) کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم کو اپنے ممبران کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں ساؤتھ ایشیا کے تمام بڑے عیسائی پادری جمع تھے۔ ڈاکٹر فریدہ خانم نے وہاں پر اسلام اورانٹرفیتھ (Interfaith)کے موضوع پر ایک تقریر کی، جسے تمام لوگوں نے بہت دلچسپی سے سنا۔سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی کے ممبران نے تمام سامعین کو انگریزی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ یہ پروگرام سینٹ زیوئرس سینئر سیکنڈری کالج نئی دہلی میں 11 اکتوبر 2019 کو ہوا تھا۔
ثوینکوور (Vancouver) کناڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کا ایک ساحلی شہر ہے۔ یکم اکتوبر 2019 کو مز کوثر اظہار اور مز گل زیبا احمد (سی پی ایس انٹرنیشنل، امریکا) نے اس شہر کا سفر کیا۔ مقصد تھا، دعوتی سیاحت۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہری تھیں، اس کی انتظامیہ سے قرآن رکھنے کی بات کی، وہ لوگ راضی ہوگئے، اور کہا کہ آپ ہمیں 118 روم کے لیے اسی تعداد میں قرآن دیجیے۔ مطلوبہ تعداد انھیں دے دی گئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے وہاں مختلف سیاحوں کو بھی قرآن دیا۔ ان دونوں خواتین داعیوں کے لیے یہ سفر دعوتی تجربہ سے بھرپور سفر رہا۔
■ 9 اکتوبر 2019 کو ساجد احمد خان کے اسکول میں کامپٹی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر مسٹر دیوی داس کاتھلے اسکول کے پرنسپل کے پاس آئے۔ اس وقت ان کو ساجد خان صاحب نے مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیے۔ مراٹھی ترجمۂ قرآن اور کتاب خاندانی زندگی کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ خوش ہوئے، اور کہا کہ اب مجھے پولیس اسٹیشن آنے والے مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی۔ دوران گفتگو جب ساجد صاحب نے کہا کہ میں آپ کے پولیس اسٹیشن آکر تمام اسٹاف کو قرآن اور اسلام کی کتابیں دینا چاہتا ہوں، تو انھوں نے خوشی سے کہا کہ ضرور آئیں، آپ کا ہر وقت استقبال ہے۔
■ السلام علیکم، مولانا صاحب اللہ پاک آپ کو ایمان اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ میں آپ کے آباواجداد کے علاقے سوات ملاکنڈ سے تعلق رکھتا ہوں۔ آپ کی تفسیر تذکیرالقران اور دیگر کتابوں سے مجھے ایمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہم طارق بدر صاحب کے ساتھ مل کر سی پی ایس انٹرنیشنل کے کاموں کو پوری دلجمعی کے ساتھ آگے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ ہم لوگوں کے لیے دعا کریں۔(سردار عطاء الرحمن عثمان خیل)
■ Hello, I'd like to first share how I ended up with this translation of the Quran. I am a refugee from Bosnia, very strong Muslim roots. Muslim parents, I always said “I cannot touch religion until that is understandable to me.” For the last 7 years, I thought my life was hell but now in hindsight I see what it really was .I have numerous copies of the Kuran courtesy of My father but I never bothered with them because one quick glance and the truth in truth form did not resonate with me. While I was in Istanbul in 2013, I picked up a free copy at a mosque, never touched it until about a week ago, it really does call to you, I am still reading it (backwards seems to somehow make more sense to me), but this entire time I am thinking this translation is not like the others and this led me to CPS. I believe this is the true message. I suppose my question is this, does the center offer any type of exchange program where a person can come and learn a bit more. I've looked at the ambassador options, this will not satisfy my thirst for knowledge in the way I need it to unfold more within me. Thank you for taking the time to read my message, I look forward to any insights you may be able to provide . Peace & Love to you. (Edita Sehic)
■ My changing perspectives of Islam: As a child in my mind, Islam was merely that ‘burqa religion. As a slightly older child, it also became the nice, fun religion at Eid time because hospitable Muslim neighbours and friends shared their delicious festive fare with us. But, on reading the history of the Mogul invaders of India, I wondered whether they were cruel or fanatical, or both. Was it their mis-zeal, to convert or destroy the infidels by jihad? In later years I wondered whether certain parts of the Quran lent themselves to such mis-interpretation which led the followers of Islam to perpetrate such atrocities as forcible conversion and disrespect for Hindu belief and sentiment by razing the temples. Having read Sir Maulana Khan’s treatises, I am convinced that the true spirit of Islam is non-violent, peaceful and respectful. I quote Sir, Khan “Only a defensive war is permitted in Islam. Follow one religion and respect all. Jihad is the inner battle against non-spiritual urges, and, Do not judge Islam by what some Muslims do. All religions teach love, peace, forgiveness and the glory of God. I enjoy living in a multi-religious country and have nice friends of all religions. My vision of tomorrow’s world is one in which all of us will believe in the true, relevant message which is the universal heritage of mankind. We pray for a richer, peaceful world where there is greater interaction, understanding, harmony and friendship between peoples.(Mrs. Ramadevi Lingaraju)
■ مجھے الرسالہ باقاعدگی سے ہر ماہ موصول ہوتا ہے۔میں الحمد للہ الرسالہ کے پیغام کو عام کرنے میں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرتا ہوں، چونکہ میں ایک ٹرینر ہوں اور ہفتہ بھر میں پندرہ بیس تعلیمی اداروں میں ٹریننگ سیشن کرنے جاتا ہوں ،ساتھ ہی ساتھ مجھے مختلف ٹی وی مارننگ شوز میں مدعو کیا جاتا ہے۔میں ہر جگہ اور مقام پر الرسالہ کے پیغام کو عام کرتا ہوں۔(خواجہ مظہر صدیقی ،کالم نگار نوائے وقت، ڈائریکٹر ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان)
■ ’’اللہ اکبر‘‘ مولانا کی عجیب کتاب ہے۔ کئی دفعہ پڑ ھنے کے باوجود ہر دفعہ نیا کیف و سرور ملتا ہے، اور مولانا صاحب کےلیے دل سے بار بار دعا نکلتی ہے ۔اللہ مولانا کو دراز عمر اور صحت نصیب فرمائے آمین (مفتی محمد، سوات)
ثخصوصی شمارہ :جنت کی دنیا (الرسالہ ستمبر 2019) میں حضرت نے جنت کی سیر کرائی ہے، اور ایسی عمدہ تشریح پیش کی ہے، جن سے اعتقادی اصلاح بھی ہوتی ہے، اور عملی بھی۔ خاص کر دنیاکی زندگی کےفانی اور ناپائیدار ہونے اور آخرت کی زندگی کےباقی اوردائمی ہونے کااستحضارودھیان پیدا ہوتاہے۔ استعدادللموت قبل الموت کی فکر مضبوط انداز میں پیدا ہوجاتی ہے۔اللہ ہمیں مزید استفادے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (محمد صدیق، بلوچستان)
■ الرسالہ، ستمبر 2019 کو پڑھتے ہوئے جب میں اس جملہ پر پہنچا تو جھوم اٹھا’’جنت کے تصور کو انسانی تاریخ کی خوبصورت تعبیر کہا جائے‘‘(صفحہ 4)۔ یہ ایک الہامی احساس سے بھر پور جملہ ہے۔ مولانا کا وصف یہ ہے کہ جس گہرائی سے بات کرتے ہیں، اسی گہرائی سے رگ جاں میں اتر جاتی ہے۔ ستمبر کے شمارے نے جنت کا ایک نیا تصور مجھے دیا ہے، اور یہی اصل بات ہے جو مولانا کی ہر تحریر میں موجود رہتی ہے۔ تاہم مولانا کی باتوں کو سمجھنے کے لیے وسعتِ دل اور کشادہ احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ (محمد ادیب، ملتان)
واپس اوپر جائیں