کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص (zero-defect)کائنات ہے۔قرآن میں کائنات کے اس پہلو کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےَ ۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: یعنی جس نے بنائے سات آسمان درجہ بدرجہ، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے (ھَلْ تَرَى مِنْ فُطُور) ۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی (
قرآن کی اس آیت میں کائنات کوبے فطور (flawless) کہا گیا ہے ۔ جس وقت قرآن میں یہ آیت اتری، اس وقت انسان کو معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ انسان سورج چاند کو دیکھتا تھا، سمندروں اور پہاڑوں کو دیکھتا تھا۔ اس سے اس کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا تھا۔ اس سے کائنات کی پرستش (nature worship) کا تصور پیدا ہوا۔ خالق کا جو اصل مقصود تھا، وہ یہ تھا کہ انسان کائنات کے بے فطور (flawless) پہلو کو جانے ، اور اس طرح خالق کی قدرت کو دریافت کرے۔ مگر ہزاروں سال تک کائنات کا یہ پہلو غیردریافت شدہ بنا رہا۔
پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان سائنس کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، انھوں نے پہلی بار انسا ن کو بتایا کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔ کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔ اب سائنسداں عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ حتی کہ اب یہ ایک باقاعدہ موضوع بن گیا ہے، جس پر بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کیے جارہے ہیں۔
نیوٹن کے زمانے میں کائنات کو ایک میکینیکل کائنات کہا جاتا تھا۔ لیکن مزید ریسرچ سے یہ نظریہ غلط ثابت ہوگیا۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جو ریسرچ ہوئی ہے، اس سے اب یہ بات تقریباً واقعہ (fact) بن چکی ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننے کے بعد یہ معاملہ ایک لفظی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننا دوسرے لفظوں میں یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات ایک ذہین خالق کی تخلیق ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور مفہوم نہیں ہوسکتا۔ اس موضوع پر غالباً پہلی باقاعدہ کتاب فریڈ ہائل (Fred Hoyle) کی تھی، جس کا نام تھا ذہین کائنات:
The Intelligent Universe: A New View of Creation and Evolution (1983)
مگر اب ذہین ڈزائن کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں اورمقالے چھپ چکے ہیں۔ ان کتابوں اور مقالات کو کسی بڑی لائبریری میں یا انٹر نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
٭ ٭ ٭٭ ٭
ایک سائنس داں، پروفیسر کارل ٹرال نے کہا— میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گذار ہوگیا ہوں۔
“The fruit of my life as scientist and geographer is to have become more and more deeply grateful to our Creator.”
Prof. Carl Troll was president of the International Geographical Union from 1960 to 1964
سائنس داں جب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اُس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے، جس نے اتنی با معنی کائنات بنائی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ دراصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طورپر انکار خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طورپر اقرار خدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔
واپس اوپر جائیں
سیکنڈ ورلڈ وار (1939-1945) کے زمانے میں ایک تصور پیدا ہوا، جس کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کہا جاتا ہے۔اس موضوع پر بہت سے آرٹکل اور بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ جلد ہی یہ تصور ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پھیل گیا۔کئی ملکوں، مثلا ًامریکا اور جاپان، وغیرہ میں اس تصور کو بڑے پیمانے پرعمل میں لانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن لمبے تجربے کے بعد یہ مان لیا گیا کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور ناقابل حصول ہے۔اس موضوع پر انٹرنیٹ میں کافی مواد موجود ہے۔ آپ نمونے کے طور پر حسب ذیل آرٹکل پڑھ سکتے ہیں:
The Concept of Zero Defects in Quality Management by Chandana Das (www.simplilearn.com)
دور جدید میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر یہ کوشش کی گئی کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ قائم کیا جائے۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں ریسرچ ہوئی، اور کتابیں لکھی گئیں۔بیسویں صدی کے تقریباً پورے دور میں یہ کام جاری رہا۔ مگر اس مقصد میں مکمل ناکامی ہوئی۔ حالاں کہ دورِ جدید کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ مثلاً امریکا اور جاپان، وغیرہ۔ دوسری طرف عین اسی وقت دور جدید کے سائنسی مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فطرت کا نظام، مثلاً ستاروں اور سیاروں کی گردش ،وغیرہ، انتہائی حد تک بے خطا انداز میں قائم ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کل ٹھیک ٹھیک کس وقت سورج نکلے گا، اور کس وقت ٹھیک وہ غروب ہوگا، تو آپ آج ہی اس کو نہایت درست انداز میں معلوم کرسکتے ہیں۔
ایک طرف یہ تجربہ ہے کہ انسانی دنیا میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، اور دوسری طرف انسان کے سوا جو مادی دنیا ہے، اس میں یہ تصور کامل طور پر موجود ہے۔ مثلاً اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ
طلوع آفتاب (Sun rise)
سورج کے طلوع و غروب کےبارے میں یہ وقت اسی صحت (accuracy) کے ساتھ ساری دنیا کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پوری مادی دنیاکا نظام کامل صحت کے ساتھ چل رہا ہے۔ مادی دنیا کی سائنس کو اسٹرانومی ، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس مادی دنیا کا ریکاڑ ہزاروں سال پہلے، اور ہزاروں سال بعد تک معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی ادنی فرق کے بغیر وہ یہی رہے گا۔ اس دنیا کے بارے میں اب تک کوئی فرق ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔
آپ غور کیجیے کہ وہ مادی دنیا جو براہ راست خالق کے مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے، وہ شروع سے اب تک اسی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر قائم ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کی دنیا میں ، انسان جو منصوبہ بناتا ہے، مثلاً انڈسٹری کی دنیا ، وہاں انتہائی کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یعنی ایک طرف اسپیس میں ڈیوائن مینجمنٹ کو دیکھیے، جو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر مسلسل چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہیومن مینجمنٹ کو دیکھیے۔ اس دوسری دنیا میں تقریباً ایک صدی کی مسلسل کوشش کے باوجودد زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔اس معاملے میں اگر آپ کو ہیومن مینجمنٹ کا تجربہ جاننا ہو، تو آپ انٹرنیٹ پر موجود اس مضمون کو پڑھیے:
Zero Defects, a term coined by Mr. Philip Crosby in his book “Absolutes of Quality Management” has emerged as a popular and highly-regarded concept in quality management—so much so that Six Sigma is adopting it as one of its major theories. Unfortunately, the concept has also faced a fair degree of criticism, with some arguing that a state of zero defects simply cannot exist. Others have worked hard to prove the naysayers wrong, pointing out that “zero defects” in quality management doesn’t literally mean perfection, but rather refers to a state where waste is eliminated and defects are reduced. It means ensuring the highest quality standards in projects. What Do We Mean by Zero Defects: From a literal standpoint, it’s pretty obvious that attaining zero defects is technically not possible in any sizable or complex manufacturing project.
(www.simplilearn.com. accessed on 13.03.19)
اب اس دو طرفہ تجربے کے اوپر مشہور فارمولے کو منطبق (apply) کیجیے کہ چیزیں اپنی ضد سے سمجھ میں آتی ہیں(تعرف الاشیاء باضدادہا):
It is in comparison that you understand
قرآن کی مختلف آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان موجودہ دنیا میں جو نظام بناتا ہے، اور انسان کے باہر بقیہ کائنات میں جو نظام ہے، دونوں میں تقابل (comparison) کرکے دیکھو۔ یہ تقابلی مطالعہ(comparative study) بتائے گا کہ دونوں دنیاؤں میں بنیادی فرق ہے۔ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اس میں ساری کوشش کے باوجود زیروڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ یہ مان لیا گیا کہ انسان کی دنیا میں اس تصور کا حصول ممکن نہیں۔ دوسری طرف خدا کی قائم کردہ مادی دنیا میں یہ تصور پوری تاریخ میں انتہائی صحت (accuracy) کے ساتھ قائم ہے۔
اس فرق پر جب مذکورہ فارمولا کو منطبق کیا جائے تو خود انسانی تجربے کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک برتر ہستی ہے، یعنی اللہ رب العالمین۔ انسان کی دنیا اور فزیکل سائنس (exact sciences) کی دنیا میں جو فرق ہے، وہ فرق خدا کے وجود کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ(
اسی طرح ایک آیت یہ ہے:أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاھَا وَزَیَّنَّاھَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (
٭٭٭٭٭
موجودہ زمانے کے سائنس دانوں نے جن چیزوں کی کھوج کی ہے، ان میں سے ایک بالائی تہذیب (alien civilizations)ہے۔ زمین پر انسانی تہذیب کے علاوہ کیا خلا میں کوئی اور تہذیب ہے، جو ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ پچھلے
اس قیاس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں کو کائنات میں ماورائی ذہانت (extraterrestrial intelligence) کے آثار ملے ہیں۔ ان آثار کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خدا کے وجود پر لوگوں کا یقین بڑھتا، مگر غیر خدا پرستانہ ذہن کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ ماورائی ذہانت کو انسانی ذہانت سمجھ رہے ہیں۔ جو حقیقۃً خدا کا وجود ثابت کررہی ہے، اس کو اس معنی میںلے رہے ہیں کہ کائنات میں کسی سیارہ پر انسانی تہذیب جیسی کوئی اور تہذیب موجود ہے۔ حالاں کہ کائنات میں ’’ذہانت‘‘ کے آثار کا ملنا، اور ذہانت کا نظر نہ آنا، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ذہانت اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر انسانی اور غیر مرئی (invisible)ہے، نہ کہ انسان کی طرح دکھائی دینے والی۔ (ڈائری، 7 جنوری 1984)
واپس اوپر جائیں
کیرالا کے عیسائی مشن نے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس کا نام ہے:
Nature and Science Speak about God
اخباری سائز کی اس
دیمک اپنے قدکے مقابلے میں ہزار گنا بڑا مکان بناتے ہیں۔ اگر ہم اپنی جسامت کی نسبت سے اتنا بڑا مکان بنائیں تو ہم کو ایک میل سے بھی زیادہ اونچی تعمیر کرنی پڑے گی۔ دیمک لکڑی میں رہ سکتے ہیں اور اسی کے اندر اپنے مکانات تراشتے ہیں ان کی زندگی کے مطالعہ سے بے شمار حیرت انگیز واقعات سامنے آئے ہیں۔ صرف ایک مثال لیجیے۔ دیمک لکڑی کو کھاتے ہیں۔ پتھر کے بعد لکڑی تمام معلوم چیزوں میں سب سے زیادہ عسیر الہضم (indigestible)ہے، مگر دیمک کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے مخصوص جبڑے رکھتے ہیں جو آرے کا کام دینے کے ساتھ ساتھ پیسنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ تاہم لکڑی خواہ کتنی ہی پیس ڈالی جائے، وہ بہر حال لکڑی ہی رہے گی، اور پیٹ میں جاکر غذا کی ضرورت پوری کرنے کے بجائے صرف بدہضمی پیدا کرے گی۔ پھر کیا چیز ہے، جو دیمک کی مدد کرتی ہے۔ اس کام کے لیے دیمک کی آنتوں میں نہایت چھوٹےچھوٹے خوردبینی کیڑے موجود ہیں۔ یہ کیڑے نگلی ہوئی لکڑی پر مخصوص عمل کرکے اس کے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کردیتے ہیں کہ وہ ہضم ہو کر جزو بدن ہوسکے۔ یہ حیرت انگیز انتظام کون کرتاہے۔
مرغی کے انڈے پر غور کیجئے۔ ہر ایک انڈے میں سات ایسی مختلف خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو اتنی اہم ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر نہ ہو تو انڈا، انڈا نہ رہے گا — چونے کا خول،خول کے اندر مسامات جو ہوا کو گزرنے کا راستہ دیتے ہیں، پتلی جھلی جو اَستر کی طرح چاروں طرف ہوتی ہے، زردی اور سفیدی جو خول کےاندر بچے کی غذا ہیں، بچے کا جرثومہ، تار جو جرثومے کو صحیح رُخ پر باقی رکھتے ہیں۔ان میں سے کسی ایک چیز کو انڈے سے الگ کردیجیے، اور انڈا کبھی بھی چوزے کی پرورش گاہ نہیں بن سکے گا۔ کیا یہ سات مختلف چیزیں محض اتفاق سے یکجا ہوگئی ہیں، ’’اتفاق‘‘ ان سات مختلف چیزوں کی موجودگی کی تشریح نہیں کرسکتا، جو ٹھیک اور بالکل صحیح حالت میں پائی جارہی ہیں۔ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اتفاق سے صرف یہی چیزیں کیوں اکھٹا ہوئیں۔ کیوں نہ درخت کی پتّی ، کوئی لکڑی، پتھر کا ایک ٹکڑا اور اس طرح کی ہزاروں چیزیں جن کا موجود ہونا ممکن تھا خول کے اندر آگئیں، جن میں سے کوئی ایک چیز بھی اگر وہاں ہوتی تو وہ سارے انڈے کو برباد کردیتی۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جب مرغی کا بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ انڈے سے باہر نکلے، اس وقت اس کی چونچ پر ایک چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے۔ سینگ اپنا کام پورا کرکے بچہ کی پیدائش کے چند دن بعد خود بخود جھڑ جاتی ہے۔
خود اپنے وجود پر غور کیجیے۔ انسان کو جو جسم حاصل ہے وہ کس قدر حیرت انگیز ہے۔ دماغ کو دیکھیے۔ ایک ایسا ٹیلی فون اکسچینج جو ہر آن زمین کے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں سے تعلق جوڑے ہوئے ہو، ان سے پیغامات وصول کرتا ہو اور ان کے نام پیغام بھیجتا ہو، اگر آپ ایک ایسے ٹیلی فون اکسچینج (exchange)کا تصور کرسکیں تو آپ دماغ کے ناقابل یقین حد تک پیچیدہ نظام کا صرف ایک ہلکا سا اندازہ کرسکتے ہیں۔
آپ کے دماغ(brain)کے اندر تقریباً ایک ہزار ملین عصبی خانے (nerve cells) ہیں۔ ہر خانے سے بہت باریک تار نکل کر تمام جسم کے اندر پھیلے ہوئے ہیں جن کو عصبی ریشے (nerve fibres) کہتے ہیں۔ ان پتلے ریشوں پر خبر وصول کرنے اور حکم بھیجنے کا ایک نظام تقریباً ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا رہتا ہے۔
دل کو دیکھیے، اس کا اوسط قد چار انچ لمبا اور ڈھائی انچ چوڑا ہوتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ اونس سے زیادہ نہیں ہوتا مگر انسانی جسم کا یہ چھوٹا سا پمپ رات دن مسلسل چلتا رہتا ہے۔ اس کی حرکت دن میں ایک لاکھ بار ہوتی ہے اور وہ ہر تیرہ سکنڈ میں تقریباً ایک گیلن خون سارے جسم میں بھیج دیتا ہے۔ ایک سال میں دل جتنا خون پمپ کرتا ہے وہ اتنا ہوتا ہے جو ایک ایسی ٹرین کو پوری طرح بھر سکے، جو
کائنات میں اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں جن کی صرف فہرست بنانے کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہوگی، جب کہ انسان کا علم کائنات کے موجود حقائق کی نسبت سے کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے وہ چیز جس کو دیکھنا ابھی باقی ہے۔
یہ حیرت انگیز کاریگری، یہ مکمل منصوبہ بندی، یہ اعلی ترین ذہانت کیا محض اتفاق (chance) سے وقوع میں آگئی ہے۔ بے شک بعض اوقات محض اتفاق سے بھی کوئی واقعہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ مثلاً ہوا کا ایک جھونکا کبھی سرخ گلاب کے زیرہ (pollen) کو اڑا کر سفید گلاب پر ڈال دیتا ہے، جس کے نتیجے میں زرد رنگ کا پھول کھلتا ہے۔ مگر اس قسم کا اتفاق محض جزوی اور خفیف تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے۔ وہ صرف اس مخصوص رنگ کے گلاب کی توجیہہ کرتا ہے، نہ کہ وہ گلاب کے پورے وجود کا سبب ہے۔ اتفاق ہر گز اس کی توجیہہ نہیں کرسکتا کہ ایک مخصوص قسم کا نظام اس قدر تسلسل کے ساتھ کیوں جاری ہے۔ وہ ہم کو نہیں بتاتا کہ ہماری دنیا میں باقاعدگی اور تنظیم کیوں پائی جاتی ہے۔’’اتفاق‘‘ کا عمل کبھی بھی یکساں طور پر نہیں ہوسکتا۔ اتفاق کے لیے ممکن نہیں ہے کہ جو کچھ آج ہوا اسی کو کل بھی وجود میں لائے۔ پھر کیوں تمام چیزیں ہمیشہ یکسانیت کے ساتھ ایک ہی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں۔ ان میں نظم اور باقاعدگی کیوں پائی جاتی ہے۔
کچھ دھات کے ٹکڑے ہوا میں اچھالے جائیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ڈھلے ہوئے حروف کی شکل میں زمین پر گریں اور گرتے ہی ایک بامعنی عبارت کی شکل میں کاغذ کے صفحہ پر اکھٹاہوجائیں۔ اگر ایسا محض اتفاق سے نہیں ہوسکتا تو یہ کیوں فرض کرلیا گیا ہے کہ اتنی بڑی دنیا اتنی حیرت انگیز خصوصیات کے ساتھ محض اتفاق سے وجود میں آگئی ہے۔ ایک نظریہ جس کو کسی تجربہ گاہ میں ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کو علمی طور پر منوانے کی کیا دلیل ہے۔
دوسری توجیہہ جس پر مادہ پرست علماء انحصار کرتے ہیں وہ قانونِ قدرت (nature)ہے۔ ’’مرغی کے انڈوں سے بچے کیوں
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خون سرخ کیوں ہوتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے چھوٹے سرخ اجزاء ہوتے ہیں(ایک انچ کے ساتھ ہزار ویں حصے کے برابر) جن کو سرخ ذرات کہاجاتا ہے۔
’’درست، مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں؟‘‘
’’ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتاہے جس کا نام ہیموگلوبن (haemoglobin) ہے، یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہے تو سرخ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مگر ہیموگلوبن کے حامل سرخ ذرات آخر کہاں سے آئے۔‘‘
’’وہ آپ کی تِلّی (spleen)میں بن کر تیار ہوتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! جو کچھ آپ نے فرمایا، وہ بہت عجیب ہے، مگر مجھے بتائیے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون، سرخ ذرّات، تلّی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کُل کے اندر باہم مربوط ہیں، وہ اس قدر صحت کے ساتھ یک جا ہوکر کیسے عمل کرتی ہیں کہ میں سانس لیتا ہوں، میں دوڑتا ہوں، میں بولتا ہوں، میں زندہ ہوں۔‘‘
’’یہ قدرت کا قانون ہے۔‘‘
’’وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قانونِ قدرت کہتے ہیں۔‘‘
’’اس سے میری مراد طبیعی اور کیمیاوی طاقتوں کا اندھا عمل ہے۔‘‘
’’مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں، جو انھیں ایک متعین انجام کی طرف لے جائے۔ کیسے وہ اپنی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اُڑنے کے قابل ہوسکے، ایک مچھلی تیر سکے اور ایک انسان اپنی مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ وجود میں آئے۔‘‘
’’میرے دوست ، مجھ سے یہ نہ پوچھو، سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیا ہے۔ اس کے پاس اس سوال کاجواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔‘‘
یہ سوال وجواب موجودہ سائنس کی حقیقت واضح کررہا ہے۔ بے شک سائنس نے ہم کو بہت سی نئی باتیں بتائی ہیں۔ مگر اس نے جو کچھ بتایا ہے وہ صرف کچھ ہونے والے واقعات ہیں۔ وہ واقعات کیوں کر ہورہے ہیں اس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ہے۔ ایک مکھی کے نازک اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں۔ بے شک سائنس نے اس سلسلے میں ہم کو بہت کچھ بتایا ہے، مگر وہ کون ذہن ہے، جس نے سوچا کہ مکھی کو ان نازک اعضاء کی ضرورت ہے، اور اس کو کمال کاریگری کے ساتھ ایسے اعضا فراہم کیے۔ کائنات کے نظم اوراس کی موزونیت کی تشریح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ مختلف قسم کی بے شمار اندھی طاقتیں ایک مخصوص انجام کی طرف اپنا عمل کیوں کرتی ہیں — ہم کو ان طاقتوں کی موجودگی کے سوا کس چیز کی ضرورت ہے۔ ایک بچھے ہوئے بستر کی تشریح محض اس طرح نہیں ہوسکتی کہ آپ چادر، تکیہ اور پلنگ کے نام لے لیں۔ ایک محل، نام ہے لاکھوں اینٹیں اور دوسری چیزیں اپنے صحیح ترین مقام پر نصب ہونے کا۔ انسانی جسم کے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو کے وجود میں آنے کے لیے ضروری ہے کہ کروروں ایٹم ایک منفرد اور مخصوص ترتیب کے ساتھ یک جا ہوں۔ اندھی طاقتیں ہر گز اس طرح کی مقصدیت کا اظہار نہیں کرسکتیں، وہ واقعات کے اندر معنویت اور ہم آہنگی پیدا نہیں کرسکتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون کائنات کا ایک واقعہ ہے، وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو خود اپنے وجود کے لیے ایک توجیہہ کا طالب ہے۔ اس موقع پر مصنف کے الفاظ نقل کرنے کے قابل ہیں۔ وہ لکھتا ہے— قانونِ قدرت کائنات کی تشریح نہیں کرتا۔ وہ خود اس کا طالب ہے کہ اس کی تشریح کی جائے
Nature does not explain, she is herself in need of an explanation.
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز میں معنویت کا ہونا، اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ذہن کام کررہا ہے۔زندگی کا جرثومہ جو ایک مرد کے جسم میں پرورش پاتا ہے، وہ جسم کے دوسرے خلیوں (cells)کے بالکل مشابہ ہوتا ہے، مگر اس میں دوسرے خلیوں سے بالکل مختلف خصوصیت ہوتی ہے، اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ عورت کے ایک خلیہ سے ہم آہنگ ہو کر مکمل طورپر ایک نیا انسان وجود میں لاسکے۔ یہ کس طرح ممکن ہوتاہے کہ دو خلیے جن میں سے ہر ایک دو بالکل مختلف جسموں میں پرورش پاتے ہیں، وہ اس قدر حیرت انگیز طورپر باہم مل کر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیا ایک تخلیقی ذہن کی کارفرمائی تسلیم کیے بغیر اس کی تشریح کی جاسکتی ہے۔
کائنات میں ایک تخلیقی ذہن کو ماننا محض ایک بے بنیاد روایت کو ماننا نہیں ہے۔ دراصل بہت سے ناگزیر نتائج ہم کواس عقیدہ تک پہنچاتےہیں، بے شمار علمی حقیقتیں ہم کو مجبور کرتی ہیں کہ ہم کائنات کے پیچھے ایک ذہن کی کارفرمائی تسلیم کریں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ریڈیو کی آواز ہم کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم کچھ لہروں کی موجودگی تسلیم کریں، حالانکہ ہم ان لہروں کو بالکل نہیں دیکھتے۔ گلاس میں شکر ڈالیں تو تھوڑی دیر میں وہ اس طرح گھل مل جائے گی کہ آنکھوں کو دکھائی نہیں دے گی۔ مگر زبان سے چکھ کر آپ پانی میں شکر کی موجودگی کو معلوم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خدا آنکھوں کو نظر نہیں آتا مگر جب ہم اپنے گردوپیش کی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارا وجدان (intuition)پکار اٹھتا ہے کہ بےشک یہاں ایک خداہے، اس کے بغیر موجودہ کائنات وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کے اضافہ نے انسان کو خدا سے دور نہیں کیا بلکہ اور اس کے قریب کیا ہے۔ خدا کے وجود پر شک کرنا محض اپنی جہالت کا اعلان کرنا ہے۔ پاسچر کا قول کس قدر صحیح ہے جس کو مصنف نے کتاب کے صفحہ اول پر درج کیاہے:
A smattering of science turns people away from God—Much of it brings them back to Him.
معمولی علم آدمی کو خدا سے دور کرتاہے، زیادہ علم اس کو خدا سے قریب کرنے والا ہے۔
٭٭٭٭٭
موجودہ زمانہ کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ استعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے لیے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے۔
جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔
واپس اوپر جائیں
سچائی کا سفر ایک فطری سفر ہے۔ وہ اتنا آسان ہے کہ ہر آدمی عین اپنے پاس سے اس کو شروع کرسکتا ہے۔ مثلاً بیان کیا جاتا ہےکہ ایک عرب بدو سے سوال کیا گیا مَا الدَّلِیلُ عَلَى وُجُودِ الرَّبِّ تَعَالَى؟ فَقَالَ:یَا سُبْحَانَ اللَّہِ إِنَّ البعر لیدل عَلَى الْبَعِیرِ، وَإِنَّ أَثَرَ الْأَقْدَامِ لَتَدُلُّ عَلَى الْمَسِیرِ، فَسَمَاءٌ ذَاتُ أَبْرَاجٍ، وَأَرْضٌ ذَاتُ فِجَاجٍ، وَبِحَارٌ ذَاتُ أَمْوَاجٍ أَلَا یَدُلُّ ذَلِکَ عَلَى وجود اللطیف الخبیر؟(تفسیر ابن کثیر، جلد1، صفحہ
مثلاً ایک آدمی نے سوال کیا کہ ہم خدا کو کیسے پہچانیں۔ میں نے کہا آپ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو دیکھیے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ہاتھ کی انگلیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی، اور پاؤں کی انگلیاں بڑی بڑی ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوجاتی۔ اتنی گہری پلاننگ صرف خلاق اور رزاق ہی کرسکتا ہے۔اگر آپ ایک ایسے خدا کو نہ مانیں، جو خلاق اور رزاق ہے، تو آپ ہر معلوم چیز کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔خدا کو پہچاننا اتنا ہی آسان ہے، جتنا کہ خود اپنے آپ کو پہچاننا۔اس قسم کی دریافت کو کامن سنس کی سطح پر خالق کی دریافت کہاجاتا ہے۔ لیکن دریافت کی ایک اور سطح ہے، جو جدید دور میں انسان نے ڈسکور کی ہے، اور وہ ہے سائنسی دلائل کے ذریعے خالق کی دریافت۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے (فصلت،
واپس اوپر جائیں
حق کی تلاش ایک فطری تلاش ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو وہ سب سے پہلے یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیا ہے، وہ کیسے وجود میں آیا، دنیا میں اس کی معنویت کیا ہے۔ اسی کا نام حق کی تلاش ہے۔ یہ ہمیشہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کی مشترک تلاش رہی ہے۔ شاید کوئی بھی انسان اس اسپرٹ سے خالی نہیں۔ کسی نے اس تلاش کو فلسفیانہ تلاش کا درجہ دیا، کوئی اس کو صوفیانہ تلاش سمجھا، کسی نے اس کو مراقبہ (meditation) کے ذریعے دریافت کرنا چاہا، کسی نے یہ سمجھا کہ روحانی ریاضت کے ذریعے وہ اس کو پاسکتا ہے، کسی نے کسی اور طریقے سے اس منزل تک پہنچنے کی کوشش کی۔
جہاں تک راقم الحروف کا اندازہ ہے ، اٹلی کے سائنسداں گلیلیو (1564-1642ء) کے زمانے سے اس تلاش نےایک نیا انداز اختیار کیا۔ اب یہ ہوا کہ اس تلاش کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect)، اور اس کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا۔ یہی دور اب تک جاری ہے۔
خورد بین اور دوربین کی دریافت نے اس تلاش میں ایک نئے دور کا اضافہ کیا ہے۔ اب انسان نے یہ جانا کہ اس سوال کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) عملاً قابلِ دریافت نہیں ہے، لیکن اس کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect) بڑی حد تک قابل دریافت ہے۔ اب یہ ہوا کہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ کیفیاتی پہلو کچھ مخصوص لوگوں کی دریافت کے موضوع کی حیثیت سے باقی رہا۔ لیکن جہاں تک کمیاتی پہلو کا سوال ہے، سائنس دانوں کی پوری جماعت اس کی دریافت میں مشغول ہوگئی۔ اسی کو آج ہم سائنس کہتے ہیں۔
پھر اس قابلِ مشاہدہ پہلو کے دو حصے ہوگئے۔ ایک وہ جس کو نظری سائنس کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جس کو تطبیقی سائنس (applied science) کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں، اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے بھی۔
واپس اوپر جائیں
Discovery of God
خدا کی فلسفیانہ تلاش (philosophical pursuit of God) کی تاریخ قدیم یونان کے دور تک جاتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ پہلا یونانی فلاسفر تھیلز آف میلٹس (Thales of Miletus)تھا، جس کا زمانہ 624-546 قبل مسیح ہے۔ فلسفہ (philosophy) اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی تلاش کا نام ہے۔لیکن فلسفہ کبھی خالق کی دریافت میں کامیاب نہ ہوسکا۔ فلسفہ کا موضوع وجود ہے
Philosophy is the study of general and fundamental questions about existence, knowledge, values, reason, mind, and language.
یہ فلسفہ کے مضمون کا ظاہری بیان ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے فلسفہ خدا (supreme truth)کی علمی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ تمام فلسفی کسی نہ کسی عنوان کے تحت حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے، لیکن کوئی فلسفی اپنی تلاش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ برطانی فلسفی برٹرینڈ رسل (1872-1970) کے بارے میں اس کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ برٹرینڈ رسل ایک ایسا فلسفی تھا، جو اپنا کوئی فلسفہ ڈیولپ نہ کرسکا
Bertrand Russell was a philosopher of no philosophy
مگر یہ صرف ایک فلسفی کی بات نہیں۔ بلکہ تمام فلسفیوں کا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی ہے۔ حقیقت اعلیٰ (supreme reality) ہر فلسفی کی تلاش کا موضوع رہا ہے، لیکن کوئی فلسفی اپنی تلاش کا جواب نہ پاسکا۔
اس ناکامی کا راز یہ ہے کہ فلسفیوں کو اپنی تلاش کے لیے صحیح میتھڈالوجی کی دریافت نہ ہوسکی۔ قرآن میں صحیح طریق کار (methodology)کی نشاندہی کی گئی تھی، لیکن اس میتھڈالوجی کو انسان صرف اس وقت دریافت کرسکا، جب کہ اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی (1564-1642)نے دوربین کو فلکیاتی مطالعے کےلیے استعمال کیا۔ گلیلیو گلیلی کو ماڈرن سائنس کا موجد (father of modern science) کہا جاتا ہے۔ جدید سائنس کا آغازاس وقت ہواجب انسان نے 1608ء میں ابتدائی طور پر دوربین ایجاد کی۔ گلیلیو نے 1609ءمیں دوربین کو مزید ڈیولپ کیا، اور پہلی بار دوربین کے ذریعے شمسی نظام (solar system) کا مطالعہ کیا۔
اس معاملے کا آغاز حقیقۃً ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیغمبر موسی کے تجربےسے ہوا۔ یہ قصہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِیقَاتِنَا وَکَلَّمَہُ رَبُّہُ قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرَانِی وَلَکِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِی فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ (
یعنی اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا، مجھے اپنے کو دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھوں۔ فرمایا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہے تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلّی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑا۔ پھر جب ہوش آیا تو بولا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
فلاسفہ خدا کی تلاش میں تو سرگرداں رہے، لیکن وہ کبھی یقین کے درجے میں خدا کی دریافت تک نہ پہنچ سکے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کا طریقہ غیر عملی تھا، فلسفیانہ طریقے پر خدا تک پہنچنے والے تمام اہل علم خدا کی تلاش کے لیے صحیح میتھڈ (right method) دریافت نہ کرسکے۔ یہ تمام لوگ خدا کو براہ راست دیکھنا چاہتے تھے، حالاں کہ خدا کی معرفت صرف بالواسطہ انداز میں ممکن تھی۔
ہر ایک نے یہ چاہا کہ وہ خدا کو براہ راست طور پر دریافت کریں، جیسے وہ عالم خلق کی دوسری چیزوں کو دریافت کرتے ہیں ۔ لیکن یہ طریقہ خالق (خدا) کے معاملے میں قابل عمل نہ تھا۔ اس لیے وہ کامیاب بھی نہیں ہوا۔ سیکولر فلاسفہ اور مذہبی متکلمین دونوں کا کیس اس معاملے میں ایک ہی ہے۔
اس معاملے کا صحیح طریق کار کیا ہے۔ اس کی رہنمائی تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی پیغمبر حضرت موسی کے قصے میں ملتی ہے۔ پیغمبر موسی ساڑھے تین ہزار سال پہلے قدیم مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کا قصہ تفصیل کے ساتھ قرآن میں آٰیا ہے۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ کوہ طور پر پیش آیا، جو صحرائے سینا میں 2285 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کو براہ راست نہیں دیکھ سکتا۔ خدا کے وجود کا علم انسان کو صرف بالواسطہ طور پر حاصل ہوتا ہے، یعنی تخلیق (creation)پر غور کرکے خالق (Creator)کے علم تک پہنچنا۔ پیغمبر موسی کے تجربے کی صورت میں یہ رہنمائی تاریخ میں ساڑھے تین ہزار سال سے موجود تھی، لیکن اہل علم کبھی اس طریقہ کار (methodology)کو اختیار نہ کرسکے۔ وہ بدستور اس کوشش میں لگے رہے کہ وہ خالق کو براہ راست دریافت کرسکیں۔
حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہےإِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔یعنی بیشک اللہ ضرور ہی اس دین کی تائید فاجر آدمی کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں الرجل الفاجر سے مراد سیکولر انسان ہے۔ اس طرح حدیث میں مستند طور پر یہ سراغ (clue) موجود تھا کہ اس معاملے میں ایک سیکولر انسان ہوگا جو ابتدائی رہنمائی فراہم کرے گا۔ لیکن فلاسفہ اور مسلم متکلمین دونوں اس معاملے میں صحیح رہنمائی تک نہ پہنچ سکے۔
راقم الحروف لمبی مدت تک اس موضوع پر غور کرتا رہا ہے،اور آخر کار اس دریافت تک پہنچا کہ صحیح البخاری میں جس الرجل الفاجر (سیکولر انسان) کا ذکر ہے، وہ غالباًاٹلی کا سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) ہے، جو چار سو سال پہلے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں گلیلیو کا رول چونکہ براہ راست نہیں تھا، بلکہ بالواسطہ تھا۔ یعنی اس کی دریافت سے بالواسطہ طور پر اس سوال کا جواب مل رہا تھا کہ خدا کی دریافت تک پہنچنے کا طریق کا ر (method) کیا ہے۔
گلیلیو گلیلی کے زمانے میں ایک واقعہ ہوا، جس کو نیوٹن کے ایپل شاک (apple shock) کی طرح ٹیلی شاک (tele-shock) کہا جاسکتا ہے، یعنی دوربین کی دریافت۔آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ گلیلیو جدید سائنس کا بانی تھا
Galileo was the “father of modern science.”
یہ ایک حقیقت ہے کہ گلیلیو سے سائنس میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن اس دور کے آغاز کا اصل سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں دور بین (telescope) کو 1608 میں ابتدائی طور پر ہالینڈ میں ایجاد کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1609 میں گلیلیو نے اس دوربین کا ترقی یافتہ ورزن (developed version)خود سے تیار کیا،اورپہلی بار دور بین کو استعمال کرکے شمسی نظام (solar system)کا جزئی مشاہدہ کیا ۔ اس مطالعے کے ذریعے گلیلیو نے پہلی بار یہ دریافت کیا کہ ارسطو کا قدیم نظریہ غلط تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔
اس نظریے کو علم کی زبان میں ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory) کہاجاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے دنیا میں جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory) کا رواج تھا۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جس طرح نیوٹن کی کشش ثقل کا نظریہ ایپل شاک کے واقعے کے بعد دریافت ہوا ، اسی طرح گلیلیو کی دریافت کا آغاز’’ٹیلی شاک‘‘ کے بعد پیش آیا۔ یہی واقعہ جدید سائنس (modern science)کے آغاز کا سبب بنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دور بین کی ایجاد سے نئے سائنسی دور کا آغاز ہوا، اور اس امکان کو پہلی بار جس نے استعمال کیا، وہ اٹلی کا سائنس داں گلیلیو گلیلی تھا۔
گلیلیو کو جدید سائنس کا بانی اس لیے کہاجاتا ہے کہ گلیلیو نے ایک چیز کو دوسری چیز سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ اس تعلق سے ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) لکھتے ہیں— گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں، اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا، جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں، اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا
Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected. (Man, the Unknown, New York, 1939, p.
کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) کو کمیاتی پہلو (quantitative aspect) سے الگ کرنے کے معاملے کو الکسس کیرل نے بظاہر ایک منفی واقعے کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی وہ واقعہ ہے، جو سائنس میں نئے انقلاب کا سبب بنا۔ اس علاحدگی (delinking) نے سائنسی تحقیق کے بند دروازے کو کھول دیا، جو فلسفہ کے زیر اثر سائنس پر بند پڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہر سائنسی شعبہ ، فزکس(physics)، فلکیات(astronomy)، کیمسٹری (chemistry)،وغیرہ ، میں تحقیقات ہونے لگی۔ ان تحقیقات کا براہ راست تعلق مذہب سے نہ تھا، مگر بالواسطہ طور پر وہ پوری طرح مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ سائنس کے شعبوں میں آزادانہ طور پر تحقیق ہونے لگی۔ اس طرح جو سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے والی تھیں۔
عملی طور پر گلیلیو گلیلی کے اس طریقِ کار کا مطلب تھا — اشیاء کے قابل مشاہدہ جزء (observable aspect)کو اشیاء کے ناقابل مشاہدہ جزء (unobservable aspect)سے الگ کردینا۔ اس سے پہلے اہل علم دونوں کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) نہیں کرسکے تھے۔ وہ ناقابل مشاہدہ پہلو کی دریافت میں مشغول ہونے کی بنا پر قابل مشاہدہ پہلو کی دریافت سے محروم بنے ہوئے تھے۔ اب یہ ہوا کہ سارا فوکس چیزوں کے قابل مشاہدہ پہلو پر آگیا۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ قابل مشاہدہ پہلو کو دریافت کرکے ناقابل مشاہدہ پہلو تک پہنچنا ممکن ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ علمی طور پر یہ ممکن ہوگیا کہ قابل مشاہدہ مخلوق کو دریافت کرکے ناقابل مشاہدہ خالق کی بالواسطہ معرفت حاصل کی جاسکے،یعنی وہ طریقہ جس کو استنباطی طریقہ (inferential method) کہا جاتا ہے۔
سائنسی تحقیق میں اس طریق کار کے استعمال کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل دریافت ہوگئیں۔ چنانچہ بیسویں صدی میں اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالات اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔یہاں اس قسم کی صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250(
اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968)۔
راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا۔ عربی ٹائٹل کا نام ہے الاسلام یتحدی۔ یہ عربی ورزن پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپا اور یہ
ان دو پہلوؤں کی تفریق (delinking) کے بعد جو سائنسی معلومات سامنے آئیں، ان کو استعمال کرکے مذہب کی صداقت از سرِ نو ثابت شدہ بن گئی۔ اس موضوع پر راقم الحروف نے کثیر تعداد میں مضامین لکھے ہیں۔ اگلے صفحات پر اس قسم کی کچھ مذہبی صداقتوںکا ذکر کیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نظام شمسی سورج اور ان تمام غیر روشن اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں، جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت (gravitational pull)میں ہیں،اور سورج کے اردگرد اپنے مخصوص مدار میں گھوم رہے ہیں۔معلوم نظام شمسی ابھی تک صرف ایک ہے، جس میں ہماری زمین واقع ہے۔ تاہم علمائے فلکیات کا قیاس ہے کہ اس قسم کے مزید ایک ملین نظام شمسی کائنات میں ہوسکتے ہیں۔
کہکشاں اس مجموعہ کو کہتے ہیںجس میں روشن ستارے ایک خاص نظام کے اندر گردش کررہے ہیں۔ ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) جورات کے وقت لمبی سفید دھاری کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، اس کے اندر تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں۔ ہمارا نظام شمسی(solar system) اسی میں واقع ہے۔
سورج ہماری کہکشاں کی پلیٹ پر اپنے تمام سیاروں کو لیے ہوئے
کہکشاں کے اندر ستارے انتہائی بعید فاصلوں پر واقع ہیں۔ ہمارے سورج سے قریب ترین ستارے کی روشنی جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کررہی ہو، زمین تک اس کے پہنچنے میں 4 سال سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
اجرامِ سماوی کے اتنے بڑے نظام کو کیا چیز تھامے ہوئے ہے، فلکیات دانوں کے نزدیک وہ اجرام سماوی کی باہمی کشش ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ’’اجرام سماوی کی باہمی کشش‘‘ کے لفظ کی معنویت کوآدمی سمجھ لیتا ہے۔ مگر ’’خدا‘‘ کے لفظ کی معنویت اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔
واپس اوپر جائیں
طبیعیات کے جدیدمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً
ایٹمی ذرات کے رفتار میں تبدیلی ایک بے حد انوکھا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ اپنے آپ نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک انٹروینر (intervener) کو بتاتا ہے۔ اتفاق (accident) جیسے الفاظ اس کی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایک بے حد بامعنی واقعہ تھا اور صرف ایک بامعنی توجیہہ (meaningful explanation) ہی اِس واقعے کی تشریح کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی دریافتوں نے انسان کو معرفتِ الٰہی کے عین دروازے تک پہنچا دیا ہے۔ اب صرف اتنا ہی باقی ہے کہ لفظی طورپر اس کا اعتراف کرلیا جائے۔
Universe Origins: Giant Boost for Big Bang Theory
London: An international team of astrophysicists has discovered the signal left in the sky by the super-rapid expansion of space that would have occurred fractions of a second after everything came into being following the Big Bang. Announcing their finding over a global press call, scientists from Harvard Smithsonian Centre for Astrophysics said researchers from the BICEP2 (Background Imaging of Cosmic Extragalactic Polarization) collaboration have found this first direct evidence for this cosmic inflation, a theory pioneered by Prof Alan Guth among others. Almost 14 billion years ago the universe burst into existence in an extraordinary event that initiated the Big Bang, they said. It has been theorized that in the first fleeting fraction of a second the universe expanded exponentially in what is described as the first tremors of the Big Bang, stretching far beyond the view of our best telescopes. Their data also represents the first images of gravitational waves or ripples in space-time. The team analysed their data for more than three years in an effort to rule out any errors.They also considered whether dust in our galaxy could produce the observed pattern, but the data suggest this is highly unlikely. Harvard theorist Avi Loeb said this work offers new insights into some of our most basic questions: Why do we exist ? How did the universe begin??? These results not only offer strong evidence for inflation, they also tell us when inflation took place and how powerful the process was. These ground breaking results came from observations by the BICEP2 telescope of the cosmic microwave background, a faint glow left over from the Big Bang. (The Times of India, New Delhi, March 19, 2014, p.
٭ ٭ ٭٭ ٭
بظاہر سائنس خدا کے بارہ میں غیر جانب دار ہے۔ مگر یہ غیر جانب داری سراسر مصنوعی ہے۔ سائنسی مطالعہ واضح طورپر یہ بتاتا ہے کہ کائنات کا نظام ایسے محکم انداز میں بنا ہے کہ اس کے پیچھے ایک خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں:
In 1932, Sir James Jeans, an astrophysicist said: “The universe appears to have been designed by a pure mathematician”. (Encyclopedia Britannica [1984] 15/531)
یعنی سرجیمز جینز نے 1932 میںکہا تھا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیا ہے۔
سر جیمز جینز نے جو بات کہی تھی، دوسرے متعدد سائنس دانوں نے بھی مختلف الفاظ میں اس کا اقرار کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا ریاضیاتی اصولوں پر بننا، اور اس کا ریاضیاتی اصولوں پر حرکت کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک ایسا ذہن کام کررہا ہے، جو ریاضیاتی قوانین کا شعور رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
سائنس کیا ہے۔ سائنس در اصل ایک منظم علم کا نام ہے۔ سائنس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کا مطالعہ موضوعی طور پر ثابت شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے:
Science: the systematized knowledge of nature and the physical world.
کائنات کی حقیقت کے بارے میں انسان ہمیشہ غور و فکر کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے روایتی عقائد کی روشنی میں ، اس کے بعد فلسفیانہ طرز فکر کی روشنی میں، اور پھر سائنس کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں۔سائنس کا موضوع کائنات (physical world) کا مطالعہ ہے۔ تقریباً چار سو سال کے مطالعے کے ذریعے سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ استنباط (inference) کے اصول پر خالق کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔ لیکن قدیم زمانے میں غالباً کسی سائنسداں نے کھلے طور پر خدا کے وجود کا اقرار نہیں کیا ہے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ البرٹ آئن سٹائن (1879-1955) کی طرح ان کا کیس کھلے طور پر خدا کے انکار (atheism)کا کیس نہیں ہے، بلکہ ان کا کیس لا ادری (agnosticism) کا کیس ہے۔
طبیعیاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی ڈیولپمنٹ پیش آئے ہیں۔ اول، برٹش سائنس داں نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی تعمیر ی اینٹ مادہ ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس داں آئن سٹائن کا یہ نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی تعمیری اینٹ توانائی ہے، اور اب آخر میں ہم امریکن سائنس داں ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں، جب کہ سائنس دانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ شعور ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طور پر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ فلسفہ مادیت سے گزر کر عملا ًروحانیت تک پہنچ گیا ہے:
In the realm of the physical science, we have had three major paradigm shifts in the last four centuries. First, we had the Newtonian hypothesis that matter was the basic building block of the universe. In the early twentieth century, this gave way to the Einsteinian paradigm of energy being the basic building block. And the latest is the David Bohm era when more and more scientists are accepting consciousness to be the basic building block. These shifts have had inevitable consequences for the New Age philosophy, which has moved away from the philosophy of crass materialism to that of spirituality.
وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، اس کا آغاز تقریباً سو سال پہلے مغربی یورپ میں ہوا۔ دھیرے دھیرے عمومی طور پر یہ تاثر بن گیا کہ سائنس حقیقت کو جاننے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جو بات سائنس سے ثابت ہوجائے، وہی حقیقت ہے، جو بات سائنسی اصولوں کے ذریعہ ثابت نہ ہو، وہ حقیقت بھی نہیں۔ابتدائی صدیوں میں سائنس خالص مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔ چوں کہ مذہبی حقیقتیں مادی معیار استدلال پر بظاہر ثابت نہیں ہوتی تھیں، اس لیے مذہبی حقیقتوں کو غیر علمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن علم کا دریا مسلسل آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب کہ خود سائنس مادی علم کے بجائے عملاً غیر مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔
سائنس اور عقیدۂ خدا
پچھلی صدیوں کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے ارتقا کے ذریعے پہلی بار استدلال کی ایسی علمی بنیاد وجود میں آئی جو عالمی طور پر مسلمہ علمی استدلال کی حیثیت رکھتی تھی، پھر اس میں مزید ارتقا ہوا، اور آخر کار سائنس ایک ایسا علم بن گیا جو مسلمہ عقلی بنیاد پر یہ ثابت کر رہا تھا کہ کائنات ایک بالاتر شعور کی کار فرمائی ہے۔ ایک سائنس داں نے کہا ہے —کائنات کا مادہ ایک ذہن ہے:
The stuff of the world is mind-stuff (Eddington)
1927 میں بلجیم کے ایک سائنس داں جارجز لیمٹری (Georges Lemaitre) نے بگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ پیش کیا۔اِس نظریے پر مزید تحقیق ہوتی رہی، یہاں تک کہ اِس کی حیثیت ایک مسلّمہ واقعہ کی ہوگئی۔ آخر کار 1965 میں بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن (background radiation) کی دریافت ہوئی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بالائی خلا میں لہر دار سطح (ripples) پائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی شکل میں ہونے والے انفجار کی باقیات ہیں۔ اِن لہروں کو دیکھ کر ایک امریکی سائنس داں جویل پرائمیک (Joel Primack) نے کہا تھا— یہ لہریں خدا کے ہاتھ کی تحریر ہیں:
The ripples are no less than the handwriting of God.
جارج اسموٹ 1945 میں پیداہوا۔ وہ ایک امریکی سائنس داں ہے۔ اس نے 2006 میں فزکس کا نوبل پرائز حاصل کیا۔ یہ انعام اُن کو ’کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر، کے لیے کام کرنے پر دیاگیا۔ 1992 میں جارج اسموٹ نے یہ اعلان کیا کہ بالائی خلا میں لہردار سطحیںپائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی باقیات ہیں۔ اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— یہ خدا کے چہرے کو دیکھنے کے مانند ہے:
George Fitzgerald Smoot III (born February 20, 1945) is an American astrophysicist and cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006 for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was “like seeing the face of God.” (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000)
مشہور سائنس داں ڈاکٹر اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے :
There is a ‘‘grand design” to the universe, but it has nothing to do with God. Science is coming close to “The Theory of Everything” and when it does, we will know the grand design. (Catherine Giordano: Here’s Why Stephen Hawking Says There Is No God [www.owlcation.com])
وہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں
One can’t prove that God doesn’t exist, but science makes God unnecessary. (www.en.wikipedia.org/wiki/The_Grand_Design_(Book)
کوانٹم فزکس کے نظریے کو اگر اس معاملے پر منطبق کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے :
Probably, there is a God
یہ خالص سائنس کا موقف ہے۔ لیکن جہاں انسان کے وجدان (intuition) کا تعلق ہے۔ اس کی سطح پر خدا کا وجود اتنا ہی یقینی ہے، جتنا کہ انسا ن کا وجود۔
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کار فرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طور پر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتا ہے۔ کائنات میں ان گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind)کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے۔
اس موضوع پر اب بہت زیادہ لٹریچر تیار ہوچکا ہے، جس کو انٹرنیٹ پر یا لائبریری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم جس میں ہماری زمین واقع ہے، وہ ایک بڑی کہکشاں (galaxy)کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمارا شمسی نظام کہکشاں کے بیچ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے کنارے واقع ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم محفوظ طور پر زمین پر زندگی گزاریں، اور یہاں تہذیب (culture) کی تعمیر کریں:
The centre of the galaxy is a very dangerous place. Being in the outskirts of the galaxy, we can live safely from the hectic activities at the centre.
اس حکیمانہ واقعہ کا اشارہ قرآن میں موجود تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں، جو گویا قرآن کے اجمالی بیان کی تفسیر ہے۔جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے۔ فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)کام کر رہا ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہہ بن جاتاہے۔
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات انسان کے لیےایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان جیسی مخلوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا آپس میں بے حد مربوط ہیں، اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی کوئی توجیہہ ہونی چاہیے۔
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں۔ سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے۔ لیکن تخلیق کے مطالعے میں خالق (Creator) کا مطالعہ اپنے آپ شامل ہے۔ اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا۔ سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کی دریافت کے ہم معنی بن گئیں، جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘ (signs of God) کہاگیا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کو دریافت کرنا عملاً ایک بامعنی خالق کے وجود کی دریافت ہے۔
Fine-Tuning in the Universe: “There is plenty of good scientific evidence that our universe began about 14 billion years ago, in a Big Bang of enormously high density and temperature, long before planets, stars and even atoms existed. But what came before [The physicist Lawrence] Krauss in his book discusses the current thinking of physicists that our entire universe could have emerged from a jitter in the amorphous haze of the subatomic world called the quantum foam, in which energy and matter can materialize out of nothing. Krauss’s punch line is that we do not need God to create the universe. The quantum foam can do it quite nicely all on its own. Aczel asks the obvious question: But where did the quantum foam come from? Where did the quantum laws come from? Hasn’t Krauss simply passed the buck? Legitimate questions. But ones we will probably never be able to answer.” ...[The fine-tuning problem] For the past 50 years or so, physicists have become more and more aware that various fundamental parameters of our universe appear to be fine-tuned to allow the emergence of life - not only life as we know it but life of any kind. For example, if the nuclear force were slightly stronger than it is, then all of the hydrogen atoms in the infant universe would have fused with other hydrogen atoms to make helium, and there would be no hydrogen left. No hydrogen means no water. On the other hand, if the nuclear force were substantially weaker than it is, then the complex atoms needed for biology could not hold together. In another, even more striking example, if the “cosmic dark energy” discovered by scientists 15 years ago, were a little denser than it actually is, our universe would have expanded so rapidly that matter could never have pulled itself together to form stars. And if the dark energy were a little smaller, the universe would have collapsed long before stars had time to form. Atoms are made in stars. Without stars there would be no atoms and no life. So, the question is: Why? Why do these parameters lie in the narrow range that allows life. (Book: ‘Why Science Does Not Disprove God’ by mathematician Amir D. Aczel, who is currently researcher in the history of science at Boston University. The above are excerpts taken from a review on the book by physicist Alan Lightman for The Washington Post, April 11, 2014)
سائنس کی شہادت
انسان کی تخلیق کا مقصد قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (
انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر تصوراتی سوچ (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان کے لیے معرفت کا تعین اسی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے انسان کے لیے معرفت کا معیار خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے سوچنے کی طاقت (thinking power) کو ڈیولپ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ وہ سیلف ڈسکوری کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرلے۔
اس دریافت کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ہے کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا، اور دوسرا درجہ ہے سائنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ پچھلے ہزارو ں سال سے انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے کامن سنس کو بے آمیز انداز میں استعمال کرے۔ وہ اپنی فطرت کو پوری طرح بیدار کرے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کی شعوری معرفت حاصل کرلے۔ اس دریافت کی صرف ایک شرط تھی، اور وہ ہے ایمانداری (honesty)۔ اگر آدمی کامل ایمانداری کی سطح پر جینے والا ہو تو یقینی طور پر کامن سنس اس کے لیے اپنے خالق کی دریافت کے لیے کافی ہوجائے گی۔
معرفت کی دوسری سطح ، سائنٹفک معرفت ہے۔ یعنی فطرت (nature) میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو جاننا، اور ان کی مدد سے اپنے خالق کی عقلی معرفت (rational realization) تک پہنچنا۔ سائنٹفک معرفت کے لیے ضروری تھا کہ آدمی کے پاس غور و فکر کے لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غور و فکر کے ذریعہ سائنٹفک معرفت کا حصول ممکن نہیں۔ سائنٹفک معرفت تک پہنچناکسی کے لیےصرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ اس سائنٹفک ڈیٹا کے حصول کا واحد ذریعہ قوانین فطرت (laws of nature) کا علم ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کو قوانین فطرت کا علم حاصل نہ تھا۔ اس لیے خالق کی سائنسی معرفت بھی انسان کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔
خالق کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو مینج کرتا ہے، یعنی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق مطلوب حالت تک پہنچاتا ہے۔ خالق اپنا یہ کام انسانی آزادی کو منسوخ کیے بغیر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ کام ہے، اور اس کو خالق کائنات ہی اپنی بر تر طاقت کے ذریعہ انجام دے سکتا ہے۔ ہمارا کام اس منصوبۂ خداوندی کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کے کورس کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ کیوں کہ وہ ممکن ہی نہیں۔
قرآن کے ذریعہ اللہ تعالی نے بار بار اہل ایمان کو یہ بتایا تھا کہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ تم ان تسخیری قوانین کو دریافت کرو، تاکہ تم معرفت کے اس درجے تک پہنچ سکو، جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے۔ مگر اہل ایمان اس کام کو کرنےمیںعاجز ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اس کام کے لیے ایک اور قوم کو کھڑا کیا (محمد،
اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (وفات1642ء) کو فادر آف ماڈرن سائنس ( father of modern science) کہاجاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ پہلا سائنس داں تھا جس سے ماڈرن سائنس کا سفر باقاعدہ صورت میں شروع ہوا۔ یہ عمل تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ بیسویں صدی میں انسان کو وہ تمام سائنٹفک ڈیٹا حاصل ہوگئے، جو خالق کو سائنسی سطح یا ریشنل لیول پر دریافت کرنے کے لیے ضروری تھے۔
اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔ پھر اس نے اس علم سے فرشتوں کو واقف کرایا۔ اس کے بعد اس نے اس حقیقت کو چھپے طور پر (hidden form)اس کائنات میں رکھ دی، جس کو انسان خود سے دریافت کرسکتا تھا۔ یہی وہ چھپی حقیقت ہے جودریافت کے بعد ماڈرن سائنس کےنام سے جانی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
شہد کے بارے میں انگریزی کا ایک مضمون پڑھا اس میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ تقریباً 550 شہد کی مکھیاں مسلسل مشغول رہ کر بیس لاکھ سے زیادہ پھولوں کا رس چوستی ہیں تب ایک پاؤنڈ شہد تیار ہوتا ہے۔
Some 550 busy bees have to dip their snouts into as many as 2.5 million flowers to make just one pound of honey.
شہد کی مکھی کے اندر بے شمار نشانیاں (signs)ہیں۔ مذکورہ واقعہ ان میں سے صرف ایک ہے۔ آدمی اگر اس پر غور کرے تو وہ خالق کے کمالات کے احساس سے سرشار ہو جائے۔
واپس اوپر جائیں
خدا کی معرفت اول دن سے میری تلاش کا مرکز رہاہے۔ میرا دن اور میری راتیں اسی تلاش میں گزری ہیں یہاں تک کہ شاید میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میںنے خدا کو پالیا ہے۔
1960 کے آس پاس کی بات ہے۔ میںاپنے بڑے بھائی کے گھر 9 بدرقہ روڈ اعظم گڑھ میں تھا۔ وہاں میری ملاقات شاہ نصیر احمد صاحب سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران اچانک انھوںنے کہا: کیا انسان خداکو دیکھ سکتا ہے۔ میری زبان سے نکلا۔ کیا آپ نے ابھی تک خدا کو نہیں دیکھا۔ اس طرح کے تجربات میری زندگی میں بہت زیادہ ہیں ۔ تاہم خداکو دیکھنا مجازی معنی میں ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں۔ کیونکہ حقیقی معنی میں اللہ رب العالمین کو دیکھنا اس دنیامیں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔
میںنے ایک مرتبہ کسی مضمون میں لکھا تھا —خدا کو ماننا عجیب ہے لیکن خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ جب میں خدا کو مانتا ہوں تو میں زیادہ عجیب کے مقابلہ میں کم عجیب کو ترجیح دیتاہوں
To believe in God is strange, but not believing in God is stranger. When I say that I believe in God I prefer the less strange than the more strange.
البرٹ آئن سٹائن کے ایک جرمن دوست نے اس سے پوچھا کیا آپ اتھیسٹ (atheist) ہیں۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ تم مجھ کو زیادہ صحیح طورپر اگناسٹک (agnostic) کہہ سکتےہو۔ اگناسٹک کا مطلب متشکک ہے۔ یعنی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ میں نہ یہ کہہ سکتاہوں کہ خدا نہیں ہے، اور نہ یہ کہہ سکتا کہ خدا ہے۔ اس جملہ کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ خدا کے انکار کے حق میں میرے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البتہ سائنٹفک دلائل (scientific evidence) اس معاملہ میں اتنے زیادہ ہیں کہ میں یہ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ خدا نہیں ہے۔
آئن اسٹائن کا یہ جملہ ففٹی ففٹی کا جملہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے :
I can say that probably there is a God but I cannot say in certain terms, 'Yes there is certainly a God'.
کوانٹم فزکس (quantum physics) کی اصطلاح میں میں کہوں گا کہ آئن سٹائن کا یہ کہنا خدا کے اقرار کے ہم معنى ہے۔ کیوں کہ سب ایٹمک پارٹیکل (subatomic particle) کی دریافت کے بعدکوانٹم فزکس میں پرابیبلٹی (probability) کو یقین کے قریب کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اب یہ کہا جاتا ہے :
Probability is less than certainty but certainty is more than perhaps.
٭٭٭٭٭
انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے، جو غیب پر ایمان لائے (البقرۃ،
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ انھیں رازوں کو قوانین فطرت (laws of nature) کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ موجودہ زمانہ میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں (developed countries) کو تمام ترقیاں ان کی انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔
اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں
آئن اسٹائن کے بارے میں لوگوں کے درمیان کنفیوژن (confusion)پایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آئن اسٹائن کا کیس منکرِخدا (atheist) کا کیس تھا۔ کچھ دوسرے لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ مگر آئن اسٹائن کے مختلف بیانات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آئن اسٹائن منکرِ خدا نہیں تھا، بلکہ وہ خدا کے وجود کے بارے میں شک کی کیفیت میں مبتلا تھا۔
1945 میں امریکی بحریہ کے ایک جونیر افسر گائے رینر(Guy Raner) نے خط کے ذریعہ آئن اسٹائن سے سوال کیا تھا — کیا آپ ڈکشنری کے مفہوم کے اعتبار سے، منکرِ خدا ہیں، یعنی وہ آدمی جو خدا کے وجود میں عقیدہ نہیں رکھتا۔ اِس کے جواب میں آئن اسٹائن نے لکھا کہ آپ مجھ کو لاادریہ کہہ سکتے ہیں، مگر میں پروفیشنل قسم کے منکر خدا سے اتفاق نہیں رکھتا:
In 1997, Skeptic, a hard unbelief science magazine, published for the first time a series of letters Einstein exchanged in 1945 with a junior officer in the US navy named Guy Raner on the same topic. Raner wanted to know if it was true that Einstein converted from atheism to theism when he was confronted by a Jesuit priest with the argument that a design demands a designer and since the universe is a design there must be a designer. Einstein wrote back that he had never talked to a Jesuit priest in his life but that from the viewpoint of such a person, he was and would always be an atheist. He added it was misleading to use anthropomorphical concepts in dealing with things outside the human sphere and that we had to admire in humility the beautiful harmony of the structure of this world as far as we could grasp it. But Raner persisted.''Are you from the viewpoint of the dictionary,'' he wrote back, ''an atheist, one who disbelieves in the existence of a God, or a Supreme Being.'' To this Einstein replied: ''You may call me an agnostic, but I do not share the crusading spirit of the professional atheist whose fervour is mostly due to a painful act of liberation from the fetters of religious indoctrination received in youth.'' (The Times of India, New Delhi, May 18, 2012)
عقیدۂ خدا کے بارے میں آئن اسٹائن کا جو موقف ہے، وہی موقف تقریباً تمام سائنس دانوں کا ہے۔ خدا سائنسی مطالعہ (scientific study) کا موضوع نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سائنس داں خدا کا انکار نہیں کرتے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ لا ادریہ (agnostic) بتاتے ہیں، یعنی ایک ایسا موقف جب کہ انسان نہ انکار کرنے کی پوزیشن میں ہو اور نہ اقرار کرنے کی پوزیشن میں۔
یہ صحیح ہے کہ سائنس کے مطالعے کا موضوع مادی دنیا (material world) ہے، مگر مادی دنیا کیا ہے، وہ خالق کی تخلیق (creation) ہے، اِس لیے سائنس کا مطالعہ بالواسطہ طورپر خالق کی تخلیق کا مطالعہ بن جاتا ہے۔ ایک سائنس داں خالق کے عقیدے کا انکار کرسکتاہے، لیکن تخلیقات میں خالق کی جو نشانیاں (signs) موجود ہیں، اُن کا انکار ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ سائنس نے جس مادّی دنیا (physical world) کو دریافت کیا ہے، اس میں حیرت انگیز طورپر ایسی حقیقتیں پائی جاتی ہیں جو اپنی نوعیت میں غیر مادی ہیں۔ مثلاً معنویت، ڈزائن، ذہانت اور بامقصد پلاننگ، وغیرہ۔ مادی دنیا کی نوعیت کے بارے میں یہ دریافت گویا خالق کے وجود کی بالواسطہ شہادت ہے۔خدا کے وجود کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے ایک سائنسی طریقہ یہاں قابلِ انطباق (applicable) ہے، وہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ سائنس کی دریافت کردہ دنیا کس نظریے کی تصدیق کررہی ہے، انکارِ خدا کے نظریے کی تصدیق یا اقرارِ خدا کے نظریے کی تصدیق۔اِس اصولِ استدلال کو سائنس میںویری فکیشن ازم (verificationism) کہا جاتا ہے۔
سائنس میں استدلال کا ایک اصول ہے، جس کو اصولِ مطابقت(principle of compatibility) کہا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظریہ جو بذاتِ خود قابلِ مشاہدہ نہ ہو، لیکن وہ مشاہدہ کے ذریعے دریافت کردہ معلومات سے مطابقت رکھتا ہو، تو اِس بالواسطہ شہادت کی بنا پر اِس نظریے کو حقیقت کا درجہ دے دیا جائے گا۔ جس نظریے کے حق میں اِس قسم کی مطابقت موجود ہو، اس کو بالواسطہ تصدیق کی بنا پر بطور حقیقت تسلیم کرلیا جائے گا۔ سائنس کے اِس اصول استدلال کو اگر عقیدۂ خدا کے معاملے میں منطبق کیا جائے تو اصولی طورپر خدا کا عقیدہ ایک ثابت شدہ عقیدہ بن جاتا ہے۔جو سائنس داں اپنے کیس کو لا ادریہ (agnosticism)کا کیس بتاتے ہیں، وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر فرار کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ خود اپنے علم کے مطابق، خدا کا انکار نہیں کرسکتے، وہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کیس لا ادریہ (agnostic) کا کیس ہے۔
عقیدۂ خدا اور سائنس
خالص سائنسی نقطۂ نظر کے مطابق، خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔ سائنس نے اپنے طریقِ مطالعہ کے ذریعے جس چیز کو دریافت کیا ہے، وہ ہے— الیکٹران (electron) اور نیوٹران (neutron) اور پروٹون(proton)۔ مگر اِسی کے ساتھ یہ واقعہ ہےکہ اب تک کسی سائنس داں نے الیکٹرانس اور نیوٹرانس اور پروٹانس کو نہیں دیکھا ہے، نہ آنکھ سے اور نہ خورد بین سے، پھر سائنس داں اُن کے وجود پر یقین کیوں رکھتے ہیں۔ سائنس داں کے پاس اِس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہم اُن کو براہِ راست نہیں دیکھتے، لیکن ہم اُن کے اثرات (effects) کو دیکھ رہے ہیں:
Though we cannot see them, we can see their effects.
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف کاز اینڈ افیکٹ (cause and effect) کا مسئلہ نہیں ہے۔ اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں اعلی درجے کی ذہانت (intelligence)ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی ہم آہنگی (harmony) ہے۔ کائنات میں اعلی درجے کی منصوبہ بندی (planning) ہے۔ اس بات کو ٹاپ کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے۔ مثلاً جیمس جینز، آرتھر ایڈنگٹن، البرٹ آئن اسٹائن، ڈیوڈ فوسٹر (David Foster) اور فریڈ ہائل(Fred Hoyle)، وغیرہ۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ، ایک سائنس داں کے الفاظ میں، کائنات کی جنس ،ذہن (mind-stuff) ہے:
Molecular biology has conclusively proved that the “matter of organic life, our very flesh, really is mind-stuff.”
عقیدۂ خدا اور سائنس کے معاملے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ مذہب میں جس خدا کو بطور عقیدہ پیش کیاگیا تھا، وہ اگر چہ سائنس کا براہِ راست موضوع نہیں، لیکن سائنس کی دریافتیں بالواسطہ طورپر عقیدہ خدا کی علمی تصدیق (affirmation) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سائنس نے خدا کے عقیدے کو ثابت نہیں کیا ہے، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ سائنس نے عقیدہ خدا کے ثبوت کا ڈیٹا فراہم کردیا ہے۔
سائنس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایک چیز مسنگ لنک (missing link) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ماڈل فعل (action) کو بتاتا تھا، مگر وہ فاعل (actor) کو نہیں بتاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں، قرآن کائنات کا جوماڈل دے رہاہے، اس میں فعل اور فاعل دونوں موجود ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن میں سبب (cause) کے ساتھ مسبّب (causative factor) کو بھی بتایا گیاہے۔ سائنس جب فعل (ذہانت) کی تصدیق کررہی ہے تو منطقی طورپر اِس کا جواز نہیں کہ وہ فاعل (ذہن) کی تصدیق نہ کرے۔
خدا کا وجود
البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) اگرچہ ایک یہودی خاندان میں پیداہوا تھا، لیکن سائنسی مطالعے کے بعد وہ خدا کے وجود کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہوگیا۔ اپنی وفات سے ایک سال پہلے 3 جنوری 1954 کو اس نے ایک اسرائیلی فلسفی ایرک (Eric B. Gutkind) کو جرمن زبان میں ایک خط لکھا۔ اِس خط کا ایک جملہ یہ تھا— خدا کا لفظ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ وہ صرف انسانی کمزوریوں کی ایک پیداوار ہے:
The word God was nothing more than the expression and product of human weaknesses.
آئن اسٹائن نے جس چیز کو ’’انسانی کمزوری‘‘ بتایا ہے، وہ کمزوری نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی ایک اعلی خصوصیت ہے۔ اِس خصوصیت کو درست طورپر اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal)ہے۔ انسان کی یہی خصوصیت تمام علمی ترقیوں کی بنیاد ہے۔ اِسی خصوصیت کی بنا پر انسان چیزوں کی توجیہہ تلاش کرتاہے، اور پھر وہ بڑی بڑی ترقیوں تک پہنچتا ہے۔ انسان کے اندر اگر یہ خصوصیت نہ ہوتی تو انسانی تہذیب (human civilization) پوری کی پوری غیر دریافت شدہ حالت میں پڑی رہتی۔
خود آئن ا سٹائن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اپنی عمر کے آخری 30 سال کے دوران وہ ایک سوال کا سائنسی جواب پانے کی کوشش کرتا رہا، مگر وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ سوال آئن اسٹائن کے الفاظ میں، یونی فائڈ فیلڈ تھیوری (unified field theory)کی دریافت ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ سوال اتنا زیادہ اہم ہے کہ آج وہ تمام نظریاتی سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب اِس سوال کو عام طورپر تھیوری آف ایوری تھنگ (Theory of Everything)کہاجاتا ہے۔
یہ ’تھیوری آف ایوری تھنگ‘ کیا ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا ریاضیاتی فارمولادریافت کرنا ہے جو تمام کائناتی مظاہر کی سائنسی توجیہہ کرسکے۔ تھیوری آف ایوری تھنگ کا مطلب ہے:
Theory that explains everything.
ایک سائنسی ادارہ (European Organization for Nuclear Research) کے تحت سوئزر لینڈ میں ایک پروجیکٹ قائم کیاگیا۔ اس کا نام یہ تھا— لارج ہیڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider)۔ یہ پروجیکٹ 1998 میں قائم کیا گیا۔ اِس پروجیکٹ پر ایک سو ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ اِس میں دنیا کے ایک سو ملک اور دس ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں کا تعاون شامل تھا۔ اگر چہ یہ پروجیکٹ کامیاب نہ ہوسکا، تاہم اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ ’تھیوری آف ایوری تھنگ‘ کو دریافت کیاجائے۔
’تھیوری آف ایوری تھنگ، یا زیادہ درست طورپر، ایکسپلنیشن آف ایوری تھنگ کی تلاش پر تقریباً 90 سال گزر چکے ہیں، مگر اِس معاملے میں سائنس دانوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مظاہرِ کائنات کی توجیہہ خدا کے وجود کو مان کر حاصل ہوتی ہے۔ کوئی ریاضیاتی فارمولا کبھی اِس کا جواب نہیںبن سکتا۔ ریاضیاتی فارمولے میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے پیاس کو بجھانے کے لیے پانی کے سوا کسی اور چیز کو اس کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرنا۔
واپس اوپر جائیں
1۔ فرانس کی ایک فلم ایکٹرس گائنالولوبرائیگیڈا (Gina Lollobrigida) جنوری 1975ء میں ہندستان آئی تھی۔ ایک پریس کانفرنس میں ایک اخباری رپورٹر سے اس کا سوال وجواب یہ تھا:
To a question whether she believed in God, Gina said: I beleive in God, I believe in God, more when I am on an aeroplane. (The Times of India, 3 January 1975)
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا وہ خدا کو مانتی ہے، گائنا نے کہا: میں خدا کو مانتی ہوں، میں خدا کو مانتی ہوں، اس وقت اور بھی زیادہ جب میں ہوائی جہاز میں ہوتی ہوں۔
آدمی جب ہوائی جہاز میں اڑ رہاہو تو اس وقت وہ مکمل طورپر ایسے خارجی اسباب کے رحم وکرم پر ہوتا ہے جن کے توازن میں معمولی فرق بھی اس کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ انسان کی یہی بے چارگی سمندری سفروں میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے، تاکہ وہ تمہیں اپنی قدرتیں دکھائے۔ در حقیقت اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ اور جب سمندر میںان لوگوں کو موجیں بدلیوں کی طرح گھیر لیتی ہیںتو یہ اللہ کو پکارتے ہیں، اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرکے۔ پھر جب وہ بچا کر انھیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اعتدال پر رہتا ہے، اور ہماری نشانیوں کا انکار وہی کرتا ہے جو بد عہد اور ناشکرا ہے (
کوئی شخص خواہ کتنا ہی سرکش اور منکر کیوں نہ ہو، جب مشکل حالات پڑتے ہیں تو وہ بے اختیار خدا کو پکار اٹھتا ہے۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا انسانی فطرت کی آواز ہے۔
2۔ روس میں اشتراکی انقلاب اکتوبر 1917ء میں آیا، اورتقریباً
اشتراکی نظریے کے مطابق مذہب، سرمایہ داری نظام کا ضمیمہ (appendix)تھا۔ سرمایہ داری نظام کے خاتمہ کے بعد قدرتی طورپر اس کے ضمیمہ کو بھی ختم ہوجانا چاہیے۔ روسی حکومت کا دعوی ہے کہ اس نے سرمایہ داری نظام کو روس سے ختم کردیا ہے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ مذہب اب بھی وہاں زندہ ہے۔ حتی کہ روس کی جدید نسل میں دوبارہ مذہب پروان چڑھ رہا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ روسی ڈکٹیٹر مارشل اسٹالن (1879-1964ء)کا ہے۔ اسٹالن خدا کا منکرتھا۔ مگر اس کی زندگی میں ایسے واقعات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ مشکل اوقات میں وہ بے اختیار خدا کو یاد کرنے لگتا تھا۔ ونسٹن چرچل ( 1874-1965) نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اگست 1942ء میں ماسکو کا سفر کیا تاکہ ہٹلر کے خلاف دوسرا محاذ (سکنڈ فرنٹ) قائم کرنے کے لیے روسی لیڈروں سے گفتگو کرے۔ چرچل نے اس سلسلہ میں اتحادیوں کا فوجی منصوبہ اسٹالن کے سامنے رکھا، جس کا خفیہ نام ٹارچ(Torch)رکھاگیا تھا۔ اسٹالن چونکہ خود بھی ہٹلر کی بڑھتی ہوئی یلغار سے خائف تھا، اس نے اس فوجی منصوبہ میں گہری دلچسپی لی۔ چرچل کا بیان ہے کہ منصوبہ کی تشریح کے ایک خاص مرحلہ پر جب کہ اسٹالن کی دلچسپیاں اس سے بہت بڑھ چکی تھیں۔ اس کی زبان سے نکلا —خدا اس منصوبہ کو کامیاب کرے:
“May God prosper this undertaking”
(Winston S. Churchill, The Second World War, (Abridgement) Cassell & Company, London, 1965, p.
سویتلانہ (Svetlana Alliluyeva) روسی ڈکٹیٹر اسٹالن کی بیٹی تھی۔ اس کی پیدائش 1926 کوہوئی، اشتراکی دنیا سے مایوس ہو کر 1966میں وہ ہندستان آئی تھی۔ پھر وہ یورپ چلی گئی، اور 2011 میں اس کی وفات ہوئی۔
اس نے عیسائیت کو اختیار کرلیا تھا۔ اپنے سچائی کے تلاش کا واقعہ لکھتے ہوئےوہ اپنی کتاب ’’صرف ایک سال‘‘ ( Only One Year) میں لکھتی ہے کہ میں ماسکو میں غیر مطمئن تھی ،اور اپنے قلب کی تسکین کے لیے کوئی چیز ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ چیز مجھے بائبل کے ان جملوں میں مل گئی — اے خداوند! تو میری روشنی اور نجات دہندہ ہے۔ مجھے تو کسی سے بھی نہیں ڈرنا چا ہئے۔ خداوند میری زندگی کے لیے محفوظ پناہ گا ہ ہے۔ پس میں کسی بھی شخص سے خوف نہیں کھا ؤ ں گا۔ ہو سکتا ہے کہ شریر لوگ مجھ پر چڑھا ئی کریں۔ہو سکتا ہے کہ وہ مجھ پر حملہ کریں گے ، اور مجھے نیست و نابود کر دیں گے،لیکن وہ ٹھو کر کھا ئیں گے اور گریں گے۔ اگر چاہے پو را لشکر بھی مجھ کو گھیر لے، میں نہیں ڈروں گا، اگر جنگ میں بھی لوگ مجھ پر حملہ کریں میں نہیں ڈروں گا
The Lord is my light and my salvation, whom shall I fear? The Lord is the stronghold of my life- of whom shall I be afraid? When the wicked advance against me, to devour me, it is my enemies and my foes, who will stumble and fall. Though an army besiege me, my heart will not fear ; though war break out against me, even then I will be confident. (Psalm,
اس سلسلہ میں ایک اور دلچسپ واقعہ وہ ہے جو1973 میں ہندستان میں پیش آیا۔ ایک روسی جہاز (Ilyushin Jet)ہندستان میں مغربی بنگال کی فضا میں پرواز کررہا تھا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا۔ ہوا باز کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں، اورجہاز زمین پر گرپڑا۔ ہوا باز سمیت سارے مسافر جل کر ختم ہوگئے۔
چونکہ یہ حادثہ ہندستان کی سرزمین پر ہوا تھا، اس لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہندستان کو اس کی تفتیش کرنی تھی۔ ہوائی جہازوں کا قاعدہ ہے کہ اس میں آواز ریکارڈ کرنے والی ایک خود کار مشین رکھی جاتی ہے، جس کو عام طورپر بلیکس باکس (Black Box) کہتے ہیں۔ یہ بلیک باکس ہوا باز اور کنٹرول ٹاور کے درمیان گفتگو کو ریکارڈ کرتا رہتاہے۔ اس کو ہوائی جہاز کی دُم میں رکھا جاتا ہے تاکہ ہوائی جہاز کے جلنے کے بعد بھی وہ بچ سکے۔
ہندستانی افسروں نے ہوائی جہاز کے ملبہ سے اس بلیک باکس کو حاصل کیا۔ جب اس بکس کا ٹیپ بجایا گیا تاکہ اس سے تفتیش میں مدد لی جاسکے تو معلوم ہوا کہ بالکل آخری لمحات میں روسی پائلٹ کی زبان سے جو لفظ نکلا، وہ یہ تھا— پیٹر ہم کو بچا
Peter save us.
واضح ہو کہ پیٹر یا پطرس حضرت عیسیٰؑ کے بارہ حواریوں میں سے ایک تھے، اور عیسائیوں کے یہاں بڑے بزرگ مانے جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایس ٹی کا لرج(1772-1834)ایک مشہور انگریزی تنقید نگار، فلاسفر اور شاعر ہے۔ اس کی ایک نظم کا عنوان ہے
The Rhyme of the Ancient Mariner
اس نظم میں شاعر نے دکھایا ہے کہ ایک ملاح اپنے کسی گناہ کے سبب سمندر میںپھنس گیا ہے۔ اس کے پاس پینے کے لیے میٹھا پانی نہیں ہے۔ کشتی کے چاروں طرف سمندر کا پانی پھیلا ہوا ہے۔ مگر کھاری ہونے کی وجہ سے وہ ان کو پی نہیں سکتا۔ وہ پیاس سے بے تاب ہو کر کہتا ہے — ہر طرف پانی ہی پانی، مگر ایک قطرہ نہیں جس کو پیا جاسکے
Water, water everywhere, / Nor any drop to drink.
جو حال کولرج کے خیالی ملاح کا ہوا، وہی حال امکانی طورپر اس دنیا میں تمام انسانوں کا ہے۔ انسان پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر پانی کا تمام ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے، جن میں 1/10 حصہ نمک ملا ہوا ہے۔ اس بنا پر سمندر کا پانی اتنا زیادہ کھاری ہے کہ کوئی آدمی اس کو پی نہیں سکتا۔
اس کا حل قدرت نے بارش کی صورت میں نکالا ہے۔ سورج کی گرمی کے اثر سے سمندروں میں تبخیر (evaporation) کا عمل ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کر فضا کی طرف اٹھتا ہے مگر مخصوص قانون قدرت کے تحت اس کے نمک کا جزء سمندر میں رہ جاتا ہے ،اور صرف میٹھے پانی کا جزء اوپر جاتا ہے۔ یہی صاف کیا ہوا پانی بارش کی صور ت میں دوبارہ زمین پر برستا ہے، اور انسان کو میٹھا پانی عطا کرتا ہے، جس کی انسان کو سخت ترین ضرورت ہے۔
بارش کا عمل ازالۂ نمک (desalination) کا ایک عظیم آفاقی عمل ہے۔ آدمی اگر صرف اس ایک واقعہ پر غور کرے تو اس پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ وہ خداکے کرشموں کے احساس سے رقص کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
بنانے والے نے اس دنیا کو عجیب ڈھنگ سے بنایا ہے۔ یہاں واقعہ دکھائی دیتا ہے، مگر صاحبِ واقعہ نظر نہیں آتا۔ یہاں تخلیق (creation)کا منظر ہر طرف پھیلا ہوا ہے، مگر ان کے درمیان خالق (Creator)بظاہر کہیں موجود نہیں۔ اس صورتِ حال نے بہت سے لوگوں کو خد اکا منکر بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم خدا کو دیکھتے نہیں، تو ہم کیسے اسے مانیں، مگر خدا کے انکار کے لیے یہ بنیاد کافی نہیں۔
ہم جس ٹرین پر سفر کررہے ہیں وہ ایک بہت بڑی ٹرین ہے۔ وہ 110کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل دوڑ رہی ہے۔ ہم اس کے اندر بیٹھے ہوئے منزل کی طرف چلے جارہے ہیں۔ بظاہر ہم ریل کے ڈرائیور کو نہیں دیکھتے۔ اس کا نام بھی ہم کو نہیں معلوم۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ گاڑی کا ایک ڈرائیور ہے، اور وہی اس کو چلا رہا ہے۔
ہم کو یہ یقین کیوں ہے۔ منکر خدا کہیں گے، اس لیے کہ اگرچہ ہم ڈرائیور کو نہیں دیکھتے، مگر ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ کسی بھی اسٹیشن پر اتر کر انجن کے پاس جائیں، اور وہاں اس کو دیکھیں۔ لیکن یہ محض ایک مغالطہ ہے۔ اگر ہم اسٹیشن پر اتر کر انجن کے پاس جائیں، اور گاڑی کے ڈرائیور کو دیکھیں تو ہم کیا چیز دیکھیں گے۔ ہم صرف ہاتھ پاؤں والے ایک جسم کو دیکھیں گے۔مگر کیا یہی دکھائی دینے والا جسم ہے جو گاڑی کو چلا رہا ہے۔ یقیناً نہیں۔ انجن کو چلانے والا دراصل ذہن ہے، نہ کہ ظاہری جسم۔ چنانچہ موت کے بعد ڈرائیور کا جسم پوری طرح موجود رہتاہے، مگر وہ گاڑی کو چلا نہیں پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں بھی وہی صورت حال ہے — ہم گاڑی کا ایک ڈرائیور مان رہے ہیں، بغیر اس کے کہ ہم نے ڈرائیور کو واقعی طورپر دیکھا ہو۔
موجودہ زمانہ کے منکرین خدا کہتے ہیں کہ یہ دنیا محض اتفاق سے بن گئی ہے۔ اس کا کوئی موجد اور خالق نہیں۔ مگر موجودہ کائنات جیسی با معنی کائنات کا محض اتفاق سے ظہور میں آنا ممکن نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کباڑ خانہ میں دھماکہ ہونے سے ایک اکسپریس ٹرین برآمد ہوجائے یا اچانک ایک ہوائی جہاز بن کر ہوا میں اڑنے لگے۔
٭٭٭٭٭
لیوس ٹامس (Lewis Thomas) ایک امریکی سائنس داں اور فلسفی ہے۔اس کی پیدائش 1913 میں ہوئی، اور وفات 1993 میں ہوئی۔ بائیولوجی پر اس کی ایک کتاب ہے۔ اس کتاب میں اس نے زمین کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں— وہ خلا میں لٹکا ہوا، اور بظاہر ایک زندہ کرہ ہے
hanging there in space and obviously alive. (Lewis Thomas, The Fragile Species, Collier, 1993, p.
یہ زمین (planet earth) کی نہایت صحیح تصویر ہے۔ زمین ایک اتھاہ خلا (vast space)میں مسلسل گردش کررہی ہے۔ اسی کے ساتھ زمین کے جو احوال ہیں، وہ انتہائی استثنائی طور پر ایک زندہ کرہ کے احوال ہیں۔ یہ چیزیں اتنی حیرت ناک ہیں کہ اگر ان کو سوچا جائے، تو رونگٹےکھڑے ہوجائیں، اور بدن میں کپکپی طاری ہوجائے۔ زمین میں اور بقیہ کائنات میں اتنی زیادہ نشانیاں ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان میں سنجیدگی سے (sincerely) غور کرے، تو یہ کائنات اس کے لیے خدا کی معرفت اورجلال و جمال کا آئینہ بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.