قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے : اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم او رموسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو(الشوریٰ ۱۳) ایک طرف قرآن میں یہ آیت ہے اور دوسری طرف قرآن میںایک اور آیت ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرایا (المائدہ ۴۸)
قرآن کی ان دونوں آیتوں پر غور کیجئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے پیغمبروں کے ذریعہ مختلف زمانوں میں جو الہامی ہدایت بھیجی ہے اس کے دو حصے ہیں ۔ایک حصّہ کو قرآن میںالدین کہا گیا ہے اور اس کے دوسرے حصّہ کو شریعت اور منہاج کہا گیا ہے۔ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ الدین خدائی ہدایت کا غیر مختلف اور مشترک حصہ ہے۔ مگر جہاں تک شریعت اور منہاج کا تعلق ہے، اس میں ایک پیغمبر کی تعلیم اور دوسرے پیغمبر کی تعلیم کے درمیان ثابت شدہ طورپر فرق پایا جاتا ہے۔
الدین کیا ہے۔ الدین سے مراد خدائی ہدایت کا وہ ابدی حصہ ہے جو ہر حال میں اور ہر شخص سے یکساں طورپر مطلوب ہے ۔اس سے مراد ہے—توحید، اخلاص، فکر آخرت، ذکر و عبادت، حسن اخلاق، انسان سے خیر خواہی اور دعوت الی اللہ، وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اہل ایمان سے ہمیشہ مطلوب ہوتی ہیں، خواہ اہل ایمان تھوڑے ہوں یا زیادہ۔ امیر ہوں یا غریب، بے اقتدار ہوں یا بااقتدار، سفر میں ہوں یا حضر میں، مسلم ملک میں ہوں یا غیر مسلم ملک میں، کسی بھی صورت حال میں یہ چیزیں اہل ایمان سے ساقط نہیں ہوتیں۔
اس کے برعکس شریعت اور منہاج کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ شریعت سے مراد قانون اور منہاج سے مراد طریقِ کارہے۔ ان دونوں چیزوں کا تعلق تمام تر حالات سے ہے۔ کیوں کہ مختلف پیغمبروں کے حالات ایک دوسرے سے الگ تھے۔ اس لئے انہیں الگ الگ شریعت اور منہاج دیے گیے۔ اسی طرح خود امت مسلمہ کے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس امت کے لیے بھی مختلف حالات کے اعتبار سے اس کی وہ ذمّہ داریاں مختلف ہوں گی جو شریعت اور منہاج کی نسبت سے اس سے مطلوب ہیں۔
مثلاً امت مسلمہ کا کوئی گروہ بے اقتدار ہو تو اس پر صرف دین کے مذکورہ بنیادی تقاضے ہی فرض ہوں گے۔ قانون اور حدود شرعی کا نفاذ اس وقت اس سے مطلوب نہ ہوگا۔اسی طرح اگر امت پر کھلی جارحیت کی جائے اور اعراض کی تدبیریں ناکام ہوجائیں تو اس وقت بشرط استطاعت دفاع اس پر فرض ہوجائے گا۔ لیکن اگر حالات معتدل ہوں تو اس سے یہ مطلوب ہوگا کہ وہ پر امن طریقِ کا ر کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
کچھ لوگوں نے قرآن کی سیاسی تفسیر کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمّل نظام ہے اور اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ اس کے مختلف حصوں میں فرق نہ کرتے ہوئے اس کے سارے احکام کو بہ تمام وکمال زمین پر نافذ کریں۔ ان لوگوں کو اپنے اس خود ساختہ ’’انقلابی‘‘ نظریہ کے لیے قرآن میںکوئی آیت نہیںملی۔اس کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ لفظی مناسبت کا سہارا لے کر سورہ الشوریٰ کی مذکورہ آیت کو لے لیا اور اس کے حوالہ سے یہ دعویٰ کرنے لگے کہ اس آیت میںاقامت دین سے مراد اقامت نظام ہے۔ اقیمواالدین کا مطلب یہ ہے کہ دین کے تمام احکام کو مکمّل طورپر زمین کے اوپرنافذ کیا جائے۔
یہ بلاشبہہ غیر سنجیدگی کی حد تک ایک غیر علمی بات ہے۔ جب یہاں دینِ مشترک کی اقامت کا ذکر ہے تو سارے دینی احکام کو اس آیت کے حکم میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ جیسا کہ عرض کیا گیا، شریعت اور منہاج کا دینی حصہ تمام انبیاء کے یہاں یکساں نہیںہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، دین وشریعت)
اس معاملہ میں ان سیاسی مفسرین کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ کرتے ہیں کہ وہ دین کو جزئی اور کلّی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اگر اقامت دین میں سارے دینی احکام کانفاذ مراد نہ لیا جائے تو یہ صرف جزئی احکام کی اطاعت کے ہم معنٰی ہوگا جب کہ مطلوب یہ ہے کہ کلّی احکام کی اطاعت کی جائے۔
مگر جزئی اور کلّی کی یہ تقسیم صرف ایک مغالطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو تقسیم مراد ہے وہ مطلق اور مشروط کی ہے۔ یعنی مذکورہ آیت میں الدین سے مراد دین کا وہ حصہ ہے جو مطلق طورپر مطلوب ہوتا ہے اور شریعت اور منہاج سے مراد دین کا وہ حصہ ہے جو حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتا ہے۔
اس سیاسی تفسیرکے بعض حامی یہ کرتے ہیں کہ وہ غیر متعلق مثالوں سے اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالاں کہ تمام اہل علم جانتے ہیں کہ فرضی مثالوں سے کوئی بات ثابت نہیںہوتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
Analogy is the weakest form of argument.
مثلاً اقامت کا لفظ لے کر وہ کہتے ہیں کہ اگر خیمہ گرا ہوا ہے تو اسے کھڑا کیا جائے گا اور اگر کھڑا ہے تو کھڑا رکھا جائے گا۔ اگر آندھی آرہی ہے تو اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے گی کہ خیمہ گر نہ جائے ۔ اس کے کھونٹے خوب اچھی طرح مضبوط کردیے جائیں گے، اس کی رسیاں خوب کس دی جائیں گی۔ کوئی رسی کمزور ہو تو اس کو بدل دیا جائے گا۔ ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جھکّڑ بہت زور دار آرہا ہو تو لوگ خیمے کی طنابیںاور بانس پکڑ کر کھڑے رہیں۔ یہ سارے کام اس لیے ہیں کہ خیمے کو کھڑا رکھنا ہے۔ اور اگر وہ گر جائے تو لا محالہ اب اس کو از سر نو کھڑا کرنا ہوگا۔
یہ مثال مکمّل طورپر ایک غیر متعلق (irrelevant) مثال ہے۔ الدین خیمہ کی طرح کوئی خارجی ڈھانچہ نہیں۔ الدین مکمّل طورپر داخلی ربّانی صفات سے تعلق رکھتاہے۔ یہ الدین کی تصغیر ہے کہ اس کو خیمہ جیسی چیز کے مشابہ قرار دیا جائے۔
الدین کی اقامت کا مطلب کسی خارجی خیمہ کو کھڑا کرنا نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو اللہ کے اوپر کھڑا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس طرح خدا کی معرفت حاصل کرے کہ اس کے احساس سے اس کا دل دہل اٹھے، اس کی سوچ کامل طورپر خدا رخی سوچ بن جائے، آخرت کا تصوراس کی نظر میںدنیا کو بے وقعت بنادے، خداکی یاد اورخدا کی عبادت اس کی روح کی غذا بن جائے، اس کا اخلاق پوری طرح تواضع میں ڈھل جائے، وہ یک طرفہ طورپر سارے انسانوں کی خیر خواہی کرنے لگے، جنت اور جہنم کا یقین اس پر اتنا چھا جائے کہ وہ اس کا تحمّل نہ کرسکے کہ وہ لوگوں کو ان اخروی حقیقتوں سے آگاہ نہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ الدین کی اقامت شخصیتِ انسانی کو اللہ کے رنگ میں رنگنا ہے، نہ کہ خارجی دنیا میں رسّی اور کپڑے کا کوئی خیمہ کھڑا کرنا۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ دین صرف عقائد و عبادات کا نام نہیں۔ دین میں ہر قسم کے اجتماعی اور سیاسی اور معاشی اور عدالتی احکام شامل ہیں۔ دین ایک مکمّل نظام زندگی کا نام ہے۔ اس لیے ان سارے ہی احکام کو اقامت دین میں شامل کرنا ہوگا۔ مگر یہ ایک غیر علمی بات ہے۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دین کے کیا کیا اجزاء ہیں اور دین کا لفظ قرآن میں کن کن معنوں میں آیا ہے۔ بلکہ اُصولی اعتبار سے صرف یہ دیکھا جائے گا کہ سورہ الشوریٰ کی مذکورہ آیت میں سیاق و سباق کے اعتبارسے الدین کا مفہوم کیا ہے۔
مذکورہ نام نہاد جامع تفسیر کی غلطی اسی سے ثابت ہے کہ قرآن میں دین جزاء کے معنٰی میں بھی آیا ہے(مالک یوم الدین)۔ اگر مذکورہ قسم کی جامع تفسیر کو درست مانا جائے تو اُس میں یہ بھی شامل کرنا پڑے گا کہ اہل ایمان یوم الدین کو قائم کریں اور لوگوں کو اُن کے عمل کے مطابق، جزاء و سزا دیں۔ ظاہر ہے کہ اقامتِ دین میں اقامتِ یوم الدین کے مفہوم کو شامل کرنا لغویت کی حد تک بے معنٰی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے تمام مفسرین نے بلا استثناء سورہ الشوریٰ کی آیت میںاقامتِ دین کا وہی مفہوم لیا ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ موجودہ زمانہ کے نام نہاد سیاسی مفسرین کے سوا کوئی ایک بھی مفسر ایسا نہیں جس نے یہ لکھا ہو کہ قرآن کی مذکورہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے نافذ کیا جائے۔ یہ ایک مبتدعانہ تفسیر ہے جو بلا شبہہ قابلِ رد ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ،تعبیر کی غلطی)۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی قوم کی لسان (ابراہیم ۴) میں کلام کیا ۔ مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود نے کہا :کلم الناس علی قدر عقولہم (لوگوں سے ان کے عقلی درجہ کے مطابق بات کرو)۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتاہے کہ داعی کا کلام ایسا ہونا چاہئے جو مدعو کے ذہن کو ایڈرس (address) کرے۔ جس میں مدعو اپنے سوالات کا جواب پارہا ہو۔ ایسا کلام جو داعی کے خود اپنے ذہن کی نمائندگی کرے ، اس میں مدعو کے ذہن کی رعایت نہ ہو، داعیانہ کلام نہیں ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لیے یہاں ایک سادہ مثال درج کی جاتی ہے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میں مسلمانوں کے ایک جلسہ میں ان کی دعوت پر شریک ہوا۔ اس کا موضوع سیرت رسول تھا۔ میں نے وہاں سیرت کے موضوع پر کسی قدرتفصیلی تقریر کی۔ تقریر کے بعد ایک باریش بزرگ مجھ سے ملے۔ انہوں نے کہا کہ سیرت پر تو آپ کچھ بولے نہیں۔ میںنے تعجب کے ساتھ جواب دیاکہ میری ساری تقریر تو سیرت ہی پر تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں صرف رسول اللہﷺ کے اقوال اور آپ کے واقعات بیان کئے، یہی تو سیرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ کو معجزات اور کرامات اور فضائل اور فتوحات جیسی چیزیں بیان کرنا چاہئے۔
اپنے اس تجربہ سے میں نے ایک بہت بڑی حقیقت دریافت کی۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں سیرت کے جلسے ہو رہے ہیں مگر لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( الأحزاب ۲۱) کے معیار پر جانچا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس پہلو سے سیرت کے جلسوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس قرآنی آیت کے مطابق، سیرت کی تقریروں کا یہ فائدہ ہونا چاہئے کہ لوگ رسول کے اسوہ کو جانیں اور اُس کو اپنی زندگی میںاختیار کریں۔مگرمیں نے اب تک ایساکوئی شخص نہیں دیکھا جو یہ کہے کہ اس نے ان جلسوں سے اسوۂ رسول کا سبق پایا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں اپنا لیا ہے۔ ان جلسوں میں بس مخصوص روایتی ذہن کے مسلمان شریک ہوتے ہیں اور ان سے فخر کی غذا لے کر اپنے گھروں کو واپس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ سیرت کے جلسوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان سے اسوہ اخذ کریں ،نہ کہ فخر۔ظاہر ہے کہ جب سیرت کی تقریروں میں فخر کی غذا دی جارہی ہو تو لوگ اُن سے فخر ہی لیں گے، نہ کہ اُسوہ۔ کیوں کہ اُنہیں اُسوہ کی خوراک تو دی ہی نہیں گئی۔
موجودہ انسان جن خیالات میں جیتا ہے وہ مذکورہ ذہن سے بالکل مختلف ہے۔ آج کا تعلیم یافتہ انسان یہ جاننا چاہتا ہے کہ موجودہ حالات میں پیغمبر اسلام کا ریلیوینس (relevance) کیا ہے۔ آج کے مسائل کے بارے میں اسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ مثلاً آج تمام سوچنے والے ذہن تشدد کے مسئلہ سے پریشان ہیں۔ جنگ اور امن کاموضوع آج کا سب سے بڑا فکری چیلنج بنا ہواہے۔ ایسی حالت میں لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معاملہ میںپیغمبر اسلام کی زندگی سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ مگر مذکورہ قسم کی تقریروں میں اس کا کوئی جواب نہیں۔اس پہلو سے یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔
اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ یہ تعریف خالص فنّی اعتبار سے درست ہوسکتی ہے مگر وہ آج کے انسان کو بہت زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ آج کے انسان کے نزدیک اس قسم کا امن صرف ایک انفعالی امن (passive peace) ہے۔ امن کی اس تعریف میں اس سوال کا جواب نہیںہے کہ تشدد کے بغیر اپنے مسائل کا حل کس طرح نکالا جائے۔ اس اعتبار سے یہ انسان کے لیے پیغمبر اسلام کی بہت بڑی دین ہے۔ انہوں نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ کیا کہ انفعالی امن کو فعّال امن (active peace) میں تبدیل کردیا۔اُنہوں نے امن برائے امن کے اصول کو امن برائے عمل کے اصول کی حیثیت دے دی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اُنہوں نے امن کو ایک وقفۂ تعمیر (constructive interlude)کے طورپر استعمال کرنا سکھایا:
The policy of the Prophet in bilateral matters was based on the principle of buying time.
پیغمبر اسلام نے ربّانی ہدایت کے تحت یہ دریافت کیا کہ جنگ اور ٹکراؤ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کام کے مواقع یکسر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن سے کام کے تمام مواقع کھلتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ فارمولا دیا کہ یکطرفہ تحمل کے ذریعہ جنگ سے اوائڈ کرو اور امن کی حالت میں پیدا ہونے والے مواقع کو اپنی تعمیر اور استحکام کے لیے استعمال کرو۔
پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اسی اعلیٰ حکمت کی مثال ہے۔ مکہ کے ابتدائی زمانہ میں کعبہ (بیت اللہ) میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام نے بت کے سوال پر عملی ٹکراؤ سے بچتے ہوئے پرامن انداز میں دعوت توحید کا کام شروع کردیا۔ مکہ کے آخری زمانہ میں جب کہ وہاں کے سردار آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے تب بھی آپ نے اُن سے ٹکراؤ نہیں کیا بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور وہاں اپنا دعوتی مرکز قائم کیا۔ ہجرت کے بعد قریشِ مکہ نے آپ کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ دی مگر آپ نے حسن تدبیر کے ذریعہ اُن سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ کرلیا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔اس صلح نے آپ کو اپنے دعوتی کام کے لیے وسیع مواقع دے دیے۔
پیغمبر اسلام نے اس طرح امن کو ایک مستقل پالیسی کی حیثیت دے دی۔ اس حکیمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ۲۳ سال میں پورے عرب میں اسلامی انقلاب آگیا۔ یہ انقلاب اتنا زیادہ پرامن تھا کہ اس کو بجا طور پر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت کا سائنٹفک اسلوب کیا ہے، وہ ہے بات کو اس انداز میں کہنا کہ آج کا انسان محسوس کرے کہ اُس کے ذہن کو ایڈرس کیا جارہا ہے۔ اُس میں اُس کو اپنے سوال کا جواب ملنے لگے۔ وہ سوال دیگر، جواب دیگر کا مصداق نہ ہو بلکہ سائل کے ذہن میں جو سوال ہو، عین اُسی کا جواب اُس کو سننے کو ملے۔
اس مقصد کے لیے بیک وقت دو باتوں کی گہری واقفیت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ داعی دین کی حقیقی تعلیمات سے بخوبی طورپر واقف ہو اور دوسرے یہ کہ اُس نے مدعو کے ذہن کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ کہ داعی کے دل میں مدعو کے لیے سچی خیر خواہی موجود ہو۔ ان شرطوں کی کامل یکجائی کے بعد داعی کے اندر کلام کا جو اُسلوب بنے اُسی کا نام سائنٹفک اسلوب ہے۔ (۱۴ مئی ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں
مولانا اقبال اعظمی قاسمی (۶۵ سال) لِسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کو ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل (directionless) قوم بن گئے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں نے قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں دینے کی کوشش کی۔ پھر یہی موضوع یکم جون ۲۰۰۳ کو ہمارے ہفتہ وار درس میں بھی زیر بحث رہا۔ اس گفتگو کاخلاصہ یہاں درج کیا جاتاہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور یہ تو نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکلتے تو ایسا کیو ںنہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے (التوبہ ۱۲۲)
اس آیت کا مصداق بوقت نزول یہ تھا کہ مختلف قبیلوںسے منتخب افراد نکل کر مدینہ آئیں اور کچھ دن پیغمبر کی صحبت میں رہ کر تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کریں۔ پھر واپس جاکر وہ اپنے لوگوں میں دعوت و اصلاح کا کام کریں۔
اس قرآنی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک غیر سیاسی قسم کی مرکزی دینی شخصیت یا غیر سیاسی مرکزی ادارہ موجود ہو۔ یہ شخصیت یا ادارہ لوگوں کے لیے تفقہ فی الدین کا مرجع ہو۔ لوگ اس سے رجوع ہو کر دینی بصیرت حاصل کریں۔ اور یہ کہ اس کے تحت تربیت پا کر ایسے اصحاب بصیرت تیار ہوں جو پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کی صحیح دینی رہنمائی کریں۔ اس قرآنی آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ امت کے درمیان ایک فقیہ المسلمین ہونا چاہئے۔ فقیہ المسلمین کا یہ تصور گویا کہ زیادہ بہتر طورپر اس اجتماعی مقصد کو حاصل کرنا ہے جو دوسرے مذہبوں میں پوپ یا گرو یا امام معصوم کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پوپ یا گرو یا امام معصوم کی تعلیم کو مقدس عقیدہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ قرآن کے مطابق، فقیہ المسلمین کے ادارہ کی اہمیت عقیدہ کے اعتبار سے نہیںہے بلکہ اس کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔
فقیہ المسلمین کا یہ ادارہ اہل اسلام کے لیے فکری اعتبار سے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد کے زمانہ میں یہ سیاسی غلطی ہوئی کہ فقیہ المسلمین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کو اجتماعی ادارہ سمجھ لیا گیا۔ اور جب خلیفۃ المسلمین کا سیاسی ادارہ مسلمانوں میں موجود نہ رہا تو خلیفۃ المسلمین کے ادارہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑائی شروع کر دی گئی جو آج تک ختم نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں دوسری غلطی یہ ہوئی کہ عباسی خلافت کے زمانہ میں علماء نے تفقہ کا عمل شروع کیا تو تفقہ کے تصور کو گھٹا کر اس کو جزئی شرعی مسائل کی تحقیق کے ہم معنٰی بنا دیا گیا۔ جزئی مسائل کی یہ بحث بجائے خود اہم ہوسکتی ہے مگر وہ تفقہ فی الدین کے مدعا کی تکمیل ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تفقہ فی الدین کے اسی ادارہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل اور بے نشان قوم بن گئے ہیں۔ ہر جگہ وہ بے مقصد جدال و قتال میںمصروف ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ایسا فکری ادارہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل میں صحیح اور بروقت رہنمائی دے اور ان کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز رخ کی طرف موڑ دے۔ تفقہ فی الدین کے ادارہ کو دوسرے لفظوں میں اسلامک تھنک ٹینک کہا جاسکتا ہے۔
مثال کے طورپر ۲۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نو آبادیاتی قوموں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس وقت اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ حالت میںموجود ہوتا تو وہ انہیں بتاتا کہ یہ سازش اور دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا توازن بدل جانے کا مسئلہ ہے اس لیے تم نئے معیار کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر بہت سی تباہ کن سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ جہاد حکومت کا کام ہے وہ عوام کا کام نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان دوسری قوموں کو دشمن قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو بتاتا کہ یہ غیر مسلم تمہارے مدعو ہیں اور مدعو سے نفرت کرنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان مغربی تہذیب کو اسلام کے حریف کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کاادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ مغربی تہذیب اسلام کی حریف نہیں، وہ نئے مواقع کی نقیب ہے۔ تم ان مواقع کو پہچانو اور ان کو اسلام کے حق میں استعمال کرو۔
ضرورت ہے کہ فقیہ المسلمین کے ادارہ کو ایک غیر سیاسی ادارہ کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے اور خلیفۃ المسلمین کے سیاسی ادارہ سے الگ کرکے اس کو ڈیولپ (develop) کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے احیاء (revival) کا یہی واحد نقطۂ آغاز ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۴ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اُس کو پھیلادیتے ہیں۔ اور اگر وہ اُس کو رسول تک یا اپنے ذمّہ دار لوگوں تک پہنچاتے تو اُن میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے (النساء ۸۳)
قرآن کی اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اجتماعی امور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر آدمی اُن پر اظہار خیال کرنا شروع کردے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو ذمہ دار افراد تک پہنچایا جائے اور وہ غور و فکر کرنے کے بعداُس پر اپنے فیصلہ کا اعلان کریں۔ یہی معاملات کی درستگی اور اصلاح کا واحد یقینی طریقہ ہے۔
قرآن کے مطابق، خلافت یا سیاسی اقتدار ایک امتحان کی چیز ہے، وہ کسی ایک گروہ کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا اورنہ رہ سکتا ۔ اس لیے مذکورہ قسم کی فکری تنظیم کے لیے سیاسی ادارہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے غیر سیاسی ادارہ ہو جو مستقل طورپر اور ہر حال میں باقی رہے۔ فقیہ المسلمین کا ادارہ اسی قسم کاایک مستقل ادارہ ہے۔ وہ ہمیشہ اورہر حال میں مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا ضامن ہے۔ اس لیے فقیہ المسلمین کے ادارے کے قیام کی کوشش سیاسی ادارہ کے قیام سے بھی زیادہ کی جانی چاہئے۔ (۲جون ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں
۱۷مئی ۲۰۰۳ کو دہلی میں ایس آئی او (SIO) کے دفتر میں میرا ایک پروگرام تھا۔ یہاں مجھے اسلام پسند نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملا۔ ایک نوجوان مسٹر شمشاد احمد نے سوال کیا کہ آج کے تعلیم یافتہ طبقہ کو کس طرح موثر انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ یہی سوال زیادہ تر گفتگو کا موضوع رہا۔ میںنے کہا کہ عام طور پر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اسلام آج کی دنیا میں کمتر ذہنی سطح کے لوگوں کی دلچسپی کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگ اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اس کا سبب مدعو کے اندر نہیں بلکہ داعی کے اندر ہے۔
دعوت کے نام پر موجودہ زمانہ میں بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر یہ سرگرمیاں وقت کے اعلیٰ فکر ی مستویٰ(intellectual level) کے مطابق نہیں۔ ان دعوتی سرگرمیوں میں کوئی فضائل کی کہانیاں سنا رہا ہے۔ کوئی فخر پسندی کی غذا دے رہا ہے۔ کوئی اسلام کو سیاسی غلبہ کا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ کوئی ملی مسائل پرتقریر کرنے کو دعوت سمجھے ہوئے ہے۔ کوئی کمیونٹی ورک میںمشغول ہے اور اس کو دعوہ ورک کا نام دئے ہوئے ہے۔ اس قسم کا انداز اعلیٰ ذہنی سطح کے لوگوں کو اپیل نہیں کرسکتا اس لیے وہ اس کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتے۔
قرآن میںدعوتی کلام کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قولاً بلیغاً فی انفسہم (النساء ۶۳) کا مصداق ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرے۔ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا کلام جدید انسان کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام ان کے لیے قابل غور چیز بھی نہیں بنتا۔ آج دنیا میں ہر جگہ لوگ اسلام قبول کررہے ہیں مگر یہ زیادہ تر متوسط طبقہ کے لوگ ہیں۔ بہت کم ایسے افراد ہوں گے جو مثبت معنوں میںذہنی انقلاب کے بعد اسلام میں داخل ہوئے ہوں۔ جدید تاریخ میں ایسے قلیل افراد کی ایک مثال مجھے ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادھیائے میں ملتی ہے۔ وہ ایک سچے متلاشی ٔ حق تھے۔انہوں نے اپنے گہرے ذاتی مطالعہ سے اسلام کو سمجھا اور اس کو قبول کیا۔ ان کا واقعہ میں نے اپنی کتاب (Islam Rediscovered) میں نقل کیا ہے۔
پچھلی صدیوں میں اور موجودہ زمانہ میں بڑی تعداد میں لوگ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے۔ مگر یہ لوگ اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا باعث نہ ہوسکے۔ مسلمانوں کی جدید نسلوں کا سفر بدستور زوال کی طرف جاری رہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تمام نو مسلم رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام میں داخل ہوئے۔مثال کے طورپر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اعلیٰ ذہنی صلاحیت کے آدمی تھے۔ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مہاتما گاندھی اوردوسرے ہندو لیڈروں کی مداخلت سے ایسا نہ ہوسکا۔ تاہم اگر وہ اسلام قبول کرتے تو مجھے اُمید نہیں کہ ان کا قبول اسلام مثبت معنوں میں کسی جدید اسلامی تاریخ کے آغاز کا سبب بن سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی طرف ان کا میلان برہمنزم کے خلاف رد عمل کے تحت ہواتھا۔ایسی حالت میں اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تب بھی صرف یہ ہوتا کہ وہ اسلام کے اسٹیج سے برہمنزم کے خلاف ایک محاذ کھول دیتے۔ مثبت معنوں میں وہ اسلام کی کوئی انقلابی خدمت نہ کر پاتے۔ جیسا کہ بدھزم کو قبول کرنے کے بعد اُنہوں نے کیا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ تعلیم یافتہ نو مسلم افرادہیں جنہوں نے موجودہ زمانہ میں اسلام قبول کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق، یہ سب کے سب ردّ عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے۔ اس لیے وہ مثبت معنوں میں اسلام کی جدید تاریخ بنانے کا ذریعہ نہ بن سکے۔ان میں سے کوئی مسلمانوں کے کسی کمیونٹی ورک میں لگا ہوا ہے اور کوئی مفروضہ مسلم دشمنوں کے خلاف تقریر کررہا ہے۔موجودہ زمانہ کے معروف نو مسلموں میں سے اکثر کو یا تو میںنے سنا ہے یا پڑھا ہے یا ان سے ملاقات کی ہے۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، یہ سب لوگ کسی نہ کسی طور پر رد عمل کی نفسیات کے تحت اسلام کی طرف آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد بھی ان کے سینہ میں غیر قوموں کے خلاف کدورتیں ختم نہیں ہوئیں۔ وہ اب بھی ردّ عمل کی بولی بول رہے ہیں۔ مثلاً امریکا کے حمزہ یوسف اور سراج وھّاج، جرمنی کے مرادہاف مین، برطانیہ کے یوسف اسلام، ہندستان (کیرلا) کی ڈاکٹر ثریا ، وغیرہ۔
میرے مطالعہ کے مطابق،موجودہ زمانہ کے خود مسلم داعیوں اوررہنماؤں کا حال بھی تقریباً یہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جتنے بھی عرب یا غیر عرب علماء اور مفکرین اسلام کی خدمت کے لیے اُٹھے وہ کسی نہ کسی اعتبار سے رد عمل کی نفسیات کے تحت اُٹھے۔ کوئی استعمار کے مسئلہ سے بھڑ ک اُٹھا۔ کوئی صہیونیت کی زمین سے اُبھرا۔ کسی کو مغربی تہذیب کے غلبہ نے بے چین کردیا۔ کوئی ہندو خطرہ یا غیرہندو خطرہ کے خلاف مجاہد بن گیا۔ کوئی مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت پر بے برداشت ہو کر تحریک چلانے لگا، وغیرہ۔ جب کہ داعی وہ ہے جو ابدی حقائق کی دریافت سے اُبھرے، نہ کہ وقتی مسائل کے ہنگاموں سے۔
دعوت کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دعوت کے دو مختلف اسلوب ہیں— مقلدانہ اسلوب اور مجتہدانہ اسلوب ۔ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں جو دعوتی کوششیں ہورہی ہیں وہ سب کی سب مقلدانہ اسلوب پر ہو رہی ہیں۔ اس قسم کے اسلوب سے صرف تقلیدی مزاج کے لوگ ہی متاثر ہوسکتے ہیں اور وہی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ جدید طبقہ مجتہدانہ اسلوب چاہتا ہے مگر مجتہدانہ اسلوب میں دعوتی کام سرے سے نہیں ہو رہا ہے اس لیے جدید طبقہ اسلام کی طرف مائل بھی نہیں ہو رہا ہے۔اس بنا پر اسلامی دعوت اور جدید طبقہ کے درمیان ایک قسم کا ذہنی بُعد (intellectual gap) پیدا ہوگیا ہے۔ دعوتی عمل کو تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان موثر بنانے کے لیے اس بُعد کو ختم کرنا ضروری ہے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات بہار کے ایک صاحب ڈاکٹر اکرام الحق سے ہوئی۔ وہ ایم ڈی کی ڈگری لیے ہوئے تھے۔ انہیں اسلامیات کے مطالعہ کا شوق ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے انگریزی اور اردو کی تقریباً تمام تفسیریں پڑھی ہیں مگر مجھے ان تفسیروں سے اطمینان نہیں ہوا۔ اس قسم کا احساس موجودہ زمانہ کے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تفسیریں زیادہ تر تقلیدی اسلوب میں لکھی گئی ہیں۔ میرے علم کے مطابق، حقیقی معنوں میں مجتہدانہ اسلوب میں کوئی تفسیر ابھی تک لکھی نہیں گئی ۔
میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی ایک آیت ہے: کلما اوقدوا ناراً للحرب اطفأھا اللہ (المائدہ ۶۴) اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ جدید امن پسند طبقہ کے لیے بے حد پرکشش ہے مگر کسی بھی عربی یا اردو یا انگریزی تفسیر میں اس کی معنویت کو کھولا نہیں گیا ہے۔ عام طورپر اس آیت میں قدیم یہود کے معاملہ کو بتایا جاتا ہے۔ گویا کہ تمام مفسرین اس آیت کو زمانی مفہوم میں لے رہے ہیں۔ اس طرح یہ آیت بظاہر قدیم زمانہ کی ایک گزری ہوئی داستان بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجۃً خود قرآن بھی غیر جانبدار قاری کو زمانۂ ماضی کا ایک قصہ معلوم ہوتا ہے جس میں آج کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہ ہو۔
قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس میں جو بات قدیم ریفرنس میں کہی گئی ہو اس کوآج کا ایک مفسر جدید حوالہ (modern context) میں دیکھ سکے، وہ اس آیت کا نیاانطباق (reapplication) دریافت کرسکے۔اس اعتبار سے غور کیجئے تو قرآن کی مذکورہ آیت میں ایک ابدی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اہل اسلام کی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ دوسرے لوگ جنگ چھیڑیں تو وہ حسن تدبیر سے اس کو اوائڈکرنے کی کوشش کریں، نہ یہ کہ خود بھی جنگ میں الجھ جائیں:
Muslims must adopt the policy of avoiding war rather than of indulging in war.
موجودہ زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم اور نو مسلم دونوں کے درمیان کمیونٹی کاز (community cause) کی دھوم ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی حقیقی معنوں میں ڈوائن کاز (divine cause) کے لیے تڑپنے والا ، اس کے لیے کام کرنے والا نظرنہیں آتا۔ حتیٰ کہ ہزاروں کتابیں ہرجگہ چھپ رہی ہیں مگر میرے علم کے مطابق، کوئی بھی کتاب انسانیت عامہ کو موثر انداز میں خطاب کرنے والی نہیں۔
موجودہ زمانہ کا سب سے زیادہ اندوہناک واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں میںدعوت الی اللہ کا عمل سرے سے وجود ہی میںنہ آسکا۔ کچھ مسلمان یا مسلم جماعتیں بظاہر دعوت کے نام پر سرگرم ہیں مگر یقینی طورپر وہ دعوت الی اللہ کا عمل نہیں۔ یہ لوگ اصلاًکوئی اور کام کررہے ہیں جس کا دعوت الی اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کوانہوں نے دعوت کاعنوان دے دیا ہے۔
مسلمانوں کی موجودہ تاریخ کا دعوت الی اللہ سے خالی ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے اسباب نہایت گہرے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں یا جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا ان میںدعوت الی اللہ کو سرے سے حذف کردیا گیا۔ دعوت الی اللہ کیا ہے اور اس کے لازمی اجزاء کیا ہیں، یہ قرآن میںنہایت واضح طورپرموجود ہے۔ مگر بعد کے زمانہ میں جو تفسیریں لکھی گئیں ان میں یہ سب چیزیں یا تو منسوخ کردی گئیں یا ان کی تفسیر درست طورپر نہ ہوسکی۔
مثلاً دعوت کے لیے ضروری ہے کہ داعی دوسرے لوگوں کو اپنی قوم سمجھے، جیسا کہ قرآن کے بیان کے مطابق پیغمبروں نے سمجھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں دوسرے گروہوں کو کافر قرار دے کر انہیں غیر قوم کے خانہ میں ڈال دیاگیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے ضروری ہے کہ مدعوکی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کیا جائے۔مگر تفسیروں میں صبر کے حکم کو جہاد سے پہلے کے دور کی چیز قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح دعوت کے لیے تالیف قلب لازمی طورپر ضروری ہے۔ مگر بعد کی تفسیروں میں تالیف قلب کے اصول کو ہمیشہ کے لیے منسوخ قرار دے دیاگیا۔ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ اس کو لا اسئلکم علیہ من اجر کے اصول پر چلایا جائے۔ مگر موجودہ زمانہ میں دعوت کے ساتھ ملّی حقوق کی مطالباتی مہم کو جوڑ دیا گیا، وغیرہ۔شکایتی اور احتجاجی باتیں قاتل دعوت ہیں نہ کہ معاونِ دعوت۔
دعوت الی اللہ کے لیے قرآن کی شرطوں کو ملحوظ رکھے بغیر دعوت کا کام کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ اس کو دعوت الی اللہ کا مقدس نام ہر گز نہیں دیا جاسکتا۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ مقلدانہ ذہن کو توڑ کر مجتہدانہ ذہن کے تحت سوچا جائے۔ اس کے بغیر دعوت الی اللہ کاعمل کبھی زندہ نہیں ہوسکتا۔ (۳۰ مئی ۲۰۰۳)
واپس اوپر جائیں
سوال
جون ۲۰۰۳ء کا الرسالہ ملا۔ اس الرسالہ میںمیرے نام ایک خط شائع ہوا ہے۔ آپ کا اصرار ہے کہ میں اپنا نقطۂ نظر تحریری طورپر بھیجوں آپ ضرور اس پر غور کریں گے۔ آپ ہمیشہ تنقید کو wel come کرتے ہیں۔ آپ کی اس یقین دہانی کے پیش نظر آپ کو اپنا opinion لکھ رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں آپ اس پر positive یا negative جو بھی آپ کی رائے ہوگی اس سے مجھے ضرور باخبر کریں گے۔
قبولیت تنقید کی بنیادی شرط ہے، فرد کو معاملہ سمجھنے کے لیے اپنے آپ کو خود فریبی کے حصار سے نکالنا، جو بات کہی جارہی ہے اس پر اپنے کامن سنس کو اپلائی کرنا، ورنہ خود فریبی معاملہ میں پیچیدگی پیدا کردیتی ہے اور فرد سمپل لاجک کو سمجھنے سے محروم ہوجاتاہے۔
الرسالہ جون ۲۰۰۳ء کے سرِ ورق پر حسب معمول آپ کے قلم سے نکلا ہوا حسب ذیل جملہ نقل کیا گیا ہے۔
’’کوئی آدمی کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کا حقیقی کردار کیا ہے۔‘‘ یہ جملہ منفی سوچ کا آئینہ ہے۔ اس جملہ میں منفی سوچ ہے یہ کیسے معلوم کیا جائے۔ اس لیے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں آپ بھی غور کریں۔
کوئی آدمی یہ کہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں کیا ہے، اس کو جاننے کا ذریعہ یہ نہیں ہے کہ وہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ مولانا وحید الدین خان کا حقیقی کردار کیا ہے‘‘۔ یہ یقینا منفی سوچ negative thinking ہے۔
با اخلاق انسان کے لیے منفی سوچ سے پرہیز لازم ہے۔ الرسالہ جیسے تعمیری جریدہ میں منفی سوچ کو کیسے جگہ مل گئی حیرت ہے؟ الرسالہ جون ۲۰۰۳ کے صفحہ نمبر ۳۳ اور ۳۴ پر آپ کا میرے نام لکھا ہوا جو خط شائع ہوا ہے اس کے پہلے پیراگراف میںآپ نے آگے آنے والی بحث کے لیے ایک ڈسپلن مقرر کیا ہے کہ:
’’بنیادی سوال یہ ہے کہ کس کو کس کے تابع کیا جائے۔ حوصلہ کو برداشت کے تابع کیا جائے یا برداشت کو حوصلہ کے تابع۔ اسی راز کو جاننے کا نام کامیابی ہے‘‘۔
اس کے بعد پیراگراف نمبر ۲۔۳۔۴ اور ۵ میں بحث کو پوری کرتے ہوئے نتیجہ نکالا ہے۔ اس پوری بحث کو میںانٹلکچول ڈس اونسٹی (intellectual dishonesty) کا کیس کہوں گا، کیوں کہ لفظ کی شکل بگاڑ کر بات کرنا اور اپنی بات ثابت کرنا intellectual dishonesty کے سوا کچھ بھی نہیں۔
حوصلہ زندگی کی ایک اہم قدر ہے، یہ آپ مانتے ہیں۔ لیکن پوری بحث میںلفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر بات کرتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کا لفظ confidence جو ایک نفسیاتی علامت ہے اس کی تشریح کوئی شخص لفظ over confidence کا استعمال کرکے لفظ confidence کی نفسیاتی علامت کی اہمیت گھٹائے کیا آپ اسے علمی تجزیہ کہیں گے؟ اردو لفظ حوصلہ کی ٹرم: پختہ ارادہ، احساس یافت، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدو جہد میں مدد گار نفسیات کے لیے لفظ حوصلہ کی ٹرم (term) استعمال کی جاتی ہے۔ اورہمیشہ مثبت (positive) نفسیات کے لیے بولا جاتا ہے۔
اس کے برخلاف منفی (negative) نفسیات کے لئے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر نہیں بولا جاتا بلکہ اس کے لیے خود فریبی، مایوسی، اندھی چھلانگ، انتقام، ظلم، تکبر وغیرہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لفظ کو اس کے مقام سے ہٹانا یا اس کی شکل بگاڑنا intellectual dishonesty کا کیس ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں نقل کر رہا ہوں۔ آپ بھی غور کریں۔ مثلاً:
سوسائیڈائیکر کو شہید کہنا یا لکھنا
معصوم لوگوں کے قاتل کو مجاہد کہنا یا لکھنا
ڈاکو کو بہادر کہنا یا لکھنا
چور کو عقل مند کہنا یا لکھنا
سود کو تجارت کہنا یا لکھنا
ان تمام مثالوں میںخط کشیدہ الفاظ کو اس کے مقام سے ہٹا یا گیا ہے جو صد فی صد intellectual dishonesty کا کیس ہے۔
آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کا بنیادی سبق ’’جملہ بنانے کی مشق کرو‘‘ اس سے رجوع کریں ۔اس مشق سے جملہ میں استعمال کیے گئے الفاظ کا فہم طالب علم کے ذہن پر نقش ہوتاہے جس کی وجہ سے طالب علم لفظ کو سن کر یا پڑھ کر اس کے صحیح ادراک کو پالیتا ہے۔ اگر آپ لفظ حوصلہ کا استعمال کرتے ہوئے جملہ بنائیں گے تو آپ جان لیں گے کہ حوصلہ اس نفسیات کا نام ہے جس کے تابع برداشت۔ سچ بولنا، در گزر، اخلاق، سخاوت، انصاف ، رواداری وغیرہ۔ ایسی کئی مثبت سوچ و عمل پر انسان کو ٹھہرائے رکھنے کی وجہ حوصلہ کی نفسیات ہے۔
میں نے آپ سے جو بات ٹیلی فون پر کہی تھی وہ قرآن شریف کی عربی لغت میں لفظ صبر کے فہم کے متعلق تھی۔ میںنے آپ سے کہا تھا کہ قرآنک عربک لغت میںلفظ صبر کا فہم اردو لفظ حوصلہ میں پورا ہوتا ہے۔ اردو کا لفظ برداشت قرآن شریف کے لفظ صبر کا کمزور ترین مفہوم ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ آڑ میںآپ نے خط میں پورے معاملہ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس خط میںآپ نے پہلے پیراگراف میںجن انگریزی الفاظ courage (حوصلہ)، patience (برداشت) کو نقل کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہاں پر بھی آپ سے سہو ہوا ہے۔
انگریزی لفظ courage کے لیے اردو لفظ جرأت، ہمت، بہادری قریب ترین لفظ ہیں۔ اردو لفظ برداشت کے لیے صحیح انگریزی لفظ tolerate یا tolerance ہیں۔ آپ اکثر اپنی تحریروں میںلفظ برداشت کے لیے ان ہی انگریزی لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔
انگریزی کا لفظ patience فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ اردو لفظ برداشت اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
انگریزی لفظ confidence + patience کا فہم قرآنک عربک لغت کے لفظ صبر سے قریب ترین ہے اور اردو لفظ حوصلہ کے بھی۔
یہ الفاظ انسانی نفسیات کی علامت کے بطور بولے اور لکھے جاتے ہیں اور یہی نفسیات انسان کی سوچ میں مددگار ہوتی ہے اوراسی سے انسانی نفسیات کو تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ (عبد السلام اکبانی، ناگپور، ۴ جون ۲۰۰۳)
جواب
۱۔ خود فریبی کیا ہے اور کون شخص خود فریبی میں مبتلا ہے۔ اس کا تحقق کسی شخص کے مدعیانہ ریمارک سے نہیں ہوسکتا۔ اس کو معلوم استدلالی اصول کے مطابق موضوعی طورپر ثابت کیا جانا چاہئے۔ اس سے پہلے کسی کو خود فریبی کا شکار بتانا ایک غیر ذمّہ دارانہ بیان ہے نہ کہ کوئی علمی بیان۔ میں نے آپ کی تحریر کو کئی بار پڑھا مگر میراا حساس ہے کہ آپ نے اس سلسلہ میں اپنے بیان کی کوئی بھی علمی دلیل نہیں دی۔
۲۔ الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۳ میںسرِورق پر جو جملہ نقل کیا گیا ہے وہ در اصل مؤطا الامام مالک کی ایک روایت کا تقریباً ترجمہ ہے۔ یہ روایت حدیث کے اس مشہور مجموعہ میں کتاب الجامع کے تحت آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال مالک وبلغنی ان القاسم بن محمّدٍ کان یقول: ادرکت الناس وما یعجبون بالقول، قال مالک: یُرید بذلک العملَ، إنما یُنظر إلی عملہ ولا ینظر إلی قولہ (ص ۷۰۲) آپ نے الرسالہ کے جس شائع شدہ جملہ کو منفی سوچ کا آئینہ بتایا ہے اس کی زَد ان مقدّس لوگوں تک جاتی ہے جوثابت شدہ طور پر پوری امت کے لیے قُدوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پھر کیا آپ اپنے مذکورہ تبصرہ کی اس توسیع کو پسند کریں گے۔
۳۔ آپ نے الرسالہ جون ۲۰۰۳ میں میری چھپی ہوئی ایک عبارت کو انٹیلکچول ڈس اونسٹی intellectual dishonesty) (قرار دیا ہے مگرآپ نے اس کا کوئی ثبوت نہیںدیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ صبر کا لغوی مفہوم کیا ہے اوراس کا استعمالی مفہوم کیا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ صبر کا لغوی مفہوم برداشت یا اپنے آپ کو روکنا ہے۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں صبر کا مفہوم ان الفاظ میںبتایا گیا ہے: اصَلُ الصبر الحبسُ، الصبر نقیض الجزع (۴؍۴۳۸) جس طرح بیش تر الفاظ کے استعمالی مفہوم میں توسیع ہوتی ہے اسی طرح صبر کے استعمالی مفہوم میںبھی توسیع ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خالص علمی اعتبار سے میرے اس نقطۂ نظر میںاعتراض کا پہلو کیا ہے۔
آپ نے جس چیز کو انٹلکچول ڈس اونسٹی کہا ہے وہ میرے لیے ناقابل فہم ہے۔ میںالرسالہ میںاکثر اس طرح کی مثالیں دیتا رہا ہوں کہ تاریخ کی کئی بڑی شخصیتوں میں حوصلہ اور ہمت کی زبردست صلاحیت تھی مگر وہ ناکام ہوگئے کیوں کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جس صورت حال کے مقابلہ میں وہ اپنے حوصلہ کا استعمال کررہے ہیں وہ در اصل برداشت کا معاملہ ہے۔
مثال کے طورپر ہندستان کی دو شخصیتوں کو لیجئے—سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی۔ دونوں یکساں طورپر با حوصلہ شخص تھے۔ دونوں نے برٹش ایمپائر کے خلاف اقدام کیا۔ اس اقدام میںسبھاش چندر بوس مبینہ طورپر ناکام رہے اور مہاتما گاندھی کامیاب ۔ اس کا سبب یہی تھا کہ سبھاش چندر بوس کے پاس حوصلہ تھا مگر ان کے پاس صابرانہ منصوبہ بندی نہ تھی۔ جب کہ گاندھی کے پاس حوصلہ کے ساتھ صابرانہ منصوبہ بندی بھی موجود تھی۔ اس فرق نے ایک کو ناکام بنا دیا اور دوسرے کوکامیاب کردیا۔ میںنے اپنی تحریر میں حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑا نہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ حوصلہ کو برداشت کے تابع رکھا جائے نہ کہ برداشت کو حوصلہ کے تابع بنا یا جائے۔ یہ واضح طورپر تدبیر کار کا معاملہ ہے نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا معاملہ۔
۴۔ آپ نے جو مثالیں نقل کی ہیں وہ سب فرضی مثالیں ہیں۔ کسی ڈسکشن میں اسی مثال کا تجزیہ کرنا چاہئے جو پیش کرنے والے نے پیش کی ہے۔ مفروضہ مثال سے ڈسکشن میںکوئی مدد نہیں ملتی۔ مثلاً آپ نے confidence اور over confidence کا تقابل کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے ڈاکو کو بہادر اور چور کو عقلمند کہنے کی مثالیں دے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو میری تحریر میں موجود نہیں۔ آپ کو میری تحریر میں وارد شدہ الفاظ یا مثال کا تجزیہ کرکے اپنی بات ثابت کرنا چاہئے، نہ یہ کہ آپ کچھ مفروضہ مثالوں کو لے کر اپنا نقطۂ نظر ثابت کریں۔ اس قسم کی مثالیں اصل بحث کی نسبت سے ارریلیوینٹ(irrelevant) ہیں۔
۵۔ آپ نے اپنی تحریر میںایک عجیب وغریب نصیحت مجھے یہ کی ہے کہ ’’آپ اپنی تحریر کی خامی کو پرکھنے کے لیے پرائمری اسکول کے بنیادی سبق کی مشق کریں‘‘۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کی ان سطروں کا زیر بحث مسئلہ سے کیا تعلق ہے۔یہ ایک مجرّد ریمارک ہے اور مجرّد انداز میں منفی ریمارککسی بھی شخص کے بارے میں کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس قسم کے ریمارک سے کوئی بات ثابت نہیںہوتی۔
۶۔ آپ کی کچھ سطریں لسانیات سے متعلق ہیں۔ مثلاً آپ نے لکھا ہے کہ انگریزی لفظ پیشنس (patience) فہم کے اعتبار سے اردو لفظ برداشت سے بہت بلند ہے۔ آپ کا یہ بیان صرف ایک دعویٰ ہے جس کے لیے آپ نے کوئی دلیل نہیں دی۔ انگریزی کے مشہور لغت ویبسٹر (Webster's) میں پیشنس (patience) کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
The will or ability to wait or endure without complaint. (p. 1314)
ٹھیک یہی مفہوم برداشت کا بھی ہے، پھر دونوں میںکیا فرق۔
۷۔ آپ نے پورے خط میںایک عجیب و غریب انداز اختیار کیا ہے۔ آپ نے میرے خلاف کئی سخت بیانات دئے ہیں۔ مگر آپ نے اپنی تائید میں کوئی دلیل نہیں دی اور نہ کسی بات کا علمی اصول کے مطابق تجزیہ کیا۔ آپ نے صرف خود اپنے بیان پر انحصار کیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ شعر و شاعری میں ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کا انداز تو ضرور چل سکتا ہے مگر علمی بحث میں یہ انداز بالکل بے فائدہ ہے۔آپ کو مدعیانہ کلام کے بجائے مدلّل کلام کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
۸۔ آپ کے خط میںایک اور بڑی عجیب بات ہے اور وہ ہے مجھ پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگانا۔ آپ کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ متعین اور مشخص طورپر کسی پر اس قسم کا ذاتی الزام لگانا بے حد سنگین بات ہے۔ایسے الزام کے لئے ناقابل تردید دلائل درکار ہیں۔محض قیاسی اندازہ اس کے لیے کافی نہیں۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ اس قسم کی باتوں کو اختلاف رائے کے خانہ میں ڈالیں نہ کہ انٹلکچول ڈس آنسٹی کے خانہ میں۔ انٹلکچول ڈس آنسٹی کا تعلق نیت سے ہے اور نیت کا علم صرف خدا کوہے۔ یہ بے حد غیر ذمہ دارانہ بات ہے کہ قطعی دلائل کے بغیر کسی متعین شخص پر انٹلکچول ڈس آنسٹی کا الزام لگایا جائے۔
۹۔ آپ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ میںنے لفظ حوصلہ کی شکل بگاڑ کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک غیر علمی بات ہے۔ اگر میں کہوںکہ زندگی میں کامیابی کے لیے صرف حوصلہ کافی نہیں ہے بلکہ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی اپنے جذبات کو تھام کر اپنے اقدام کی دوراندیشانہ منصوبہ بندی کرے تو یہ حوصلہ کے مفہوم کو بگاڑنا نہیں ہوا بلکہ یہ زندگی کی وسیع تر حقیقتوں کو سامنے رکھ کر اس کا مفہوم متعین کرنا ہے۔ آپ کو غالباً معلوم ہوگا کہ حضرت عمر نے خالد بن ولید کو سپہ سالار کے مقام سے ہٹایا تھا تو اس کا ایک خاص سبب یہ تھا کہ حضرت خالد ایک بے حد حوصلہ مند آدمی تھے اوراپنے اس جذبہ کے تحت ایسا اقدام کردیتے تھے جو حضرت عمر فاروق کے نزدیک سنگین رسک لینے کے ہم معنیٰ تھا۔
۱۰۔ تنقید کو قبول کرنے کی شرط وہ نہیں ہے جو آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمائی ہے۔ آپ کی زیر نظر تحریر کی نسبت سے اس کی شرط یہ ہوگی کہ تنقید علمی طورپر درست ہے۔ جیسا کہ اوپر کے تجزیہ سے واضح ہوتاہے، آپ کی تنقید علمی اعتبار سے درست ہی نہیں۔ ایسی حالت میں اس کو کس طرح قبول کرلیا جائے گا۔
یہاں میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تنقید ایک بے حد مشکل کام ہے۔ صحیح تنقید کے لیے کئی ضروری شرطیں درکار ہیں۔ مثلاً ناقد متعلقہ موضوع پر عالمانہ نظر رکھتا ہو۔ اس کو معلوم ہو کہ علمی فریم ورک کیا چیز ہے۔ وہ ریلیوینٹ (relevant) اور ارریلیونٹ (irrelevant) کے فرق کو بخوبی جانتا ہو۔ وہ عقل پر مبنی استدلال (reason based argument) سے بخوبی طورپر واقف ہو۔ وہ جانتا ہو کہ لفظی الزام اور مدلّل تنقید میںکیا فرق ہے، وغیرہ۔ جس آدمی کو ان باتوں کا گہرا علم نہ ہو اس کو اس حدیث رسول کو اپنا رہنما بنانا چاہئے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً أو لیصمت۔
سوال
آپ سے الرسالہ کے متعلق دو سوال عرض کرتاہوں، شاید آپ جواب دے سکیں۔ کیوں کہ آپ کی تو عادت ہے جواب سے کترانا اور ایسا جواب دینا جس سے سائل متفق نہ ہوسکے۔
۱۔ آپ نے الرسالہ فروری ۲۰۰۳ء کے صفحہ ۳۵ پر لکھا ہے کہ میں ملحد ہوگیا۔ اور پھر ۱۹۴۹ء میں دوبارہ اعظم گڑھ کی جامع مسجد میں ماسٹر عبد الحکیم انصاری کے سامنے کلمۂ شہادت ادا کیا۔ آپ کو کس خیال نے منکر بنایا؟ اور آپ نے پھر دوبارہ اسلام قبول کیسے اور کیوں کیا؟ دوسرا سوال اسی سے متعلق یہ ہے کہ آپ نے الرسالہ ستمبر ۱۹۹۹ ء میں لکھا ہے کہ میری شادی ۱۹۴۲ ء میں ہوئی۔ یعنی منکر کی حالت میںآپ نے شادی کی تو کیا اسلام لانے کے بعد دوبارہ نکاح کیا؟ جب کہ آپ نے نکاح حرام کیا تھا؟
۲۔ آپ نے ’’صدام حسین کے لیے انتخاب‘‘ کے تحت الرسالہ جون ۲۰۰۳ء میں لکھا ہے صدام حسین کو وہاں سے ہٹ جانا چاہئے۔ یہ ایک ایسا پاگل پن مشورہ ہے جسے کوئی بھی با شعور انسان قبول نہیں کرسکتا۔ اگر آپ کے ساتھ امیریکا کہے کہ آپ اپنے مشن کو ختم کرڈالیں اور ہندستان سے نکل جائیں ورنہ آپ کو تباہ کر ڈالا جائے گا تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟ شاید آپ جواب دیں مجھے تو امید نہیں ہے۔ (شاہ عمران حسن، دلاورپور، مونگیر )
جواب
سائل کا سوال یہاں سائل کے اپنے الفاظ میں پورا نقل کردیا گیا ہے۔ مذکورہ سوالات کا جواب مختصر طورپر عرض ہے۔
۱۔ الرسالہ فروری ۲۰۰۳ میں جس معاملہ کا ذکر ہے وہ وقتی طورپر اسلام کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات کا ذہن میں پیداہونا ہے۔ اس قسم کے شکوک و شبہات ہمیشہ ان لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو تخلیقی فکر کے مالک ہوں۔ یہ شکوک و شبہات کسی سنجیدہ انسان کے لیے عظیم تر یقین تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کی توفیق سے میرے ساتھ پیش آیا۔ شکوک و شبہات کا یہ وقتی معاملہ تاریخ میں بہت سے بڑے بڑے علماء کو پیش آیا ہے۔ مثلاً امام ابو الحسن اشعری، امام الغزالی، امام الرّازی، مولانا عبد الماجد دریا آبادی، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ۔ اس قسم کا مرحلہ پیش آنا کوئی عیب کی بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ روایتی عقیدہ سے گزر کر اعلیٰ معرفتِ حق تک پہنچنے کا ایک مرحلہ ہے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہیں جن کو اللہ کی رحمت سے یہ مرحلہ پیش آئے۔
۲۔ میرے ساتھ جو مذکورہ مرحلہ پیش آیا وہ خدا نخواستہ ترک اسلام یا انکار اسلام کا مرحلہ نہ تھا۔ وہ صرف تحقیق مزید کا معاملہ تھا۔ چنانچہ ان سالوں میں بھی میں مسلسل اللہ سے دعا کرتا تھا۔ میں حسب معمول دوسرے مسلمانوں کی طرح نماز و روزہ اداکرتا تھا۔ اور خصوصیت سے قرآن کے ان الفاظ پر غور کیاکرتا تھا جو ایک پیغمبر کے حوالہ سے آئے ہیں: قال اَو لم تُؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی (البقرہ ۳۶۰ )
۳۔ جہاں تک صدّام حسین کے بارے میں میرے مشورہ کا معاملہ ہے تو اس میںسائل کی حیثیت ایک فارسی مقولہ کے مطابق، مدّعی سست گواہ چست کی مانند ہے۔ صدام حسین صاحب کویہ مشورہ میںنے آغاز جنگ سے تقریباً ایک مہینہ پہلے دیا تھا۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، صدّام حسین صاحب نے یہ مشورہ اس وقت نہیں مانا مگر جب امریکہ نے شدید بمباری کے ذریعہ صدّام حسین کے محلوں اور بنکروں اور پناہ گاہوں کو تباہ کردیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا مشورہ میںنے پہلے دیا تھا۔ یعنی وہ خاموشی کے ساتھ اپنی سیاسی گدّی کو چھوڑ کر بغداد سے باہر چلے گئے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ صدّام حسین صاحب کا یہ فعل فارسی شاعر کے اس شعر کا مصداق ہے کہ جو دانشمند کرتا ہے وہی نادان بھی کرتاہے لیکن کافی تباہی کے بعد :
آنچہ دانا کند کند ناداں لیک بعد از خرابیٔ بسیار
۴۔ کلمہ شہادت کو بار بار ادا کرنا ایک اہم اسلامی تعلیم ہے اور وہ تمام علماء صالحین کا طریقہ رہا ہے۔ جیسا کہ حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جدِّدوا ایمانکم بقول لا الٰہ الا اللہ (تم لاالہ الا اللہ کہہ کر اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو)۔
سوال
یہاں دو سوالات درج کرتا ہوں۔میرے نزدیک یہ دونوں سوال بہت اہم ہیں۔ براہِ کرم دونوں سوالوں کے واضح جواب عنایت فرمائیں۔ایک یہ کہ جماعت اسلامی کے ایک سینئر عالم نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’اس امت کی ایک تاریخ ہے، عظیم الشان تاریخ، ایسی تاریخ کہ جس کی کوئی مثال نہیںملتی، اس تاریخ پر ہم فخر کرتے ہیں اور بجا طورپر کرتے ہیں‘‘۔ (سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڈھ، جنوری۔ مارچ ۲۰۰۳، صفحہ ۶) کیا تاریخ پر فخر کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کا ایک تفصیلی انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا ایک سوال یہ تھا کہ ملک کی فسطائی طاقتوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کیسے روکا جائے۔ اس سلسلہ میں امت کے لئے جماعت کی رہنمائی کیا ہے۔ امیر جماعت نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’جماعت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ انہیں آگے بڑھ کر اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ جو لوگ جمہوری فضا کو ختم کرنا چاہتے ہیں، جو مذہبی آزادی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، انہیں ہر قیمت پر اقتدار میں آنے سے روکیں۔ اس کا مشورہ ہم مسلمانوں کو دیتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ افکار ملّی، نئی دہلی، مئی ۲۰۰۳، صفحہ ۲۶) کیا آپ کے خیال سے ہندستانی مسلمانوں کے لیے یہ سیاسی پالیسی درست ہے۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
۱۔ پہلے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ تاریخ پر فخرکرنا ایک بدعت ہے۔ صالحین امت میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میںسے کوئی بھی شخص نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ مجھے امت کی تاریخ پر فخر ہے۔ اسی طرح محدثین اور فقہاء اور مفسرین نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ امت کی مشہور شخصیتوں میں سے کسی نے بھی کبھی ایسی بات نہیںکہی۔ مثلاً حسن بصری، عمر بن عبد العزیز، الغزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ وغیرہ۔ان میں سے کسی نے بھی ایسا نہیں لکھا۔ یہ بلا شبہہ ایک مبتدعانہ کلام ہے۔ یہ قوم پرستی کے مزاج کے تحت نکلے ہوئے الفاظ ہیں، نہ کہ خدا پرستی کے تحت نکلے ہوئے الفاظ۔ امت کی تاریخ بالفرض عظیم الشان تاریخ ہو تب بھی وہ ہمارے لیے شکر کی بات ہے نہ کہ فخر کی بات۔
تاریخ چونکہ کبھی معیاری نہیں ہوتی اس لیے تاریخ کو فخر کا موضوع بنانے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ اس سے قومی تعصب کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ فخر کی نفسیات یہ چاہتی ہے کہ جس چیز پر فخر کیا جارہا ہے وہ نقص سے پاک ہو۔ اس لیے ایسے لوگوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مزاج بن جاتا ہے کہ میری قوم ہر حال میں صحیح ہے اور دوسری قوم ہر حال میں غلط۔ اپنی قوم کے خلاف تنقید سن کر اُنہیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اُن کا فخر ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے نزاعی معاملات میںوہ ہمیشہ دوسری قوم پر الزام دیتے ہیں اور اپنی قوم کو بری الذمہ ثابت کرتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایسے لوگوں میں ایک شدید تر برائی پیدا ہوجاتی ہے، وہ ہے اپنے قومی احتساب سے محروم ہوجانا۔
۲۔ دوسرے سوال کے بارہ میں عرض ہے کہ یہ کوئی نیا فارمولا نہیں۔ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد مسلمانوں نے اپنے رہنماؤں کی پیروی میں بار بار ایسا کیا ہے کہ ہر الیکشن کے موقع پر وہ مفروضہ فُسطائی پارٹیوں کے خلاف ووٹ دے کر اُنہیں ہرائیں اور اُنہیں اقتدار میں آنے نہ دیں۔ اس سیاسی طریقِ کا ر کی پشت پر ماضی میں بڑی بڑی مسلم شخصیتوں کے نام شامل رہے ہیں۔
مگر یہ تجربہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوا ۔ مسلمانوں کی یہ ہرانے کی پالیسی مسلسل طورپر ’’فُسطائی طاقتوں‘‘ کو جِتاتی رہی۔ آزادی کے بعد مفروضہ فُسطائی پارٹی کے صرف دو ممبر مرکزی پارلیمنٹ میں ہوتے تھے۔آج یہ لوگ مرکز میں حکمراں کی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ کئی ریاستوں میںاُن کی حکومت قائم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے سال گجرات میںاسی قسم کی ہرانے کی پالیسی کے نتیجہ میں مفروضہ فسطائی پارٹی کو ایسی جیت حاصل ہوئی کہ ریاست میں اُس کی حکومت قائم ہوگئی۔
اس تجربہ کی روشنی میں اب اصل مسئلہ سیاسی پالیسی پر نظر ثانی کا ہے، نہ کہ اس کو مزید جاری رکھنے کا۔ مذکورہ سیاسی پالیسی کو جاری رکھنے کا مشورہ دینا، فارسی مثل کے مطابق، آزمودہ را آزمودن جہل است کے ہم معنٰی ہے۔ یعنی آزمائے ہوئے کو آزمانا صرف ایک نادانی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کو یہ کرنا چاہئے کہ اگر اُس کے پاس مسئلہ کا کوئی واقعی حل نہیں ہے تو وہ کم ازکم یہ کرے کہ وہ اس سوال پرچپ ہوجائے۔
ایک اور پہلو سے دیکھئے تو مفروضہ فسطائی طاقتوں کو ہرانے کی پالیسی سراسر غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اس ملک میں داعی ہیں اور تمام ہندو اُن کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی اور مدعو کا یہ تعلق مذکورہ قسم کی تفریقی پالیسی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ داعی کی حیثیت سے ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم تمام ہندوؤں کو یکساں طورپر امتِ دعوت کی نظر سے دیکھیں۔
واپس اوپر جائیں
۱۔ مختلف مذہبوں اور تہذیبوں کے سماج میں ہم آہنگی کیسے لائی جائے۔ اس کا ایک فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس قسم کے اختلافات کو بلڈوز کر کے پورے سماج کو ایک مذہب اور ایک کلچر کا سماج بنایا جائے۔ مگر یہ کوئی فارمولا نہیں۔ کیوں کہ ایسا ہونا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ فطرت کا نظام جو خالق نے بنایا ہے وہ یکسانیت کے اصول پر نہیں بنایا بلکہ تعدد اور تنوع کے اصول پربنایا ہے۔ یہی تعدد اورتنوع مذہبی اور تہذیبی دنیا میں بھی موجود ہے۔ یہ خالق کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے اور جو چیز خود خالق کے تخلیقی نقشہ کا حصہ ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں انسانی دنیا میں مذہبی یکسانیت یا کلچرل یکسانیت کی بات کرنا اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ مادّی دنیا کے تنوع کو ختم کرکے یکساں مادّی نظام قائم کرنے کا منصوبہ بنانا۔
اس سلسلہ میں دوسرا فارمولا یہ پیش کیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب یکساں ہیں۔ اس نظریہ کے حامی، لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مختلف مذاہب میں کوئی اختلاف ہی نہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ فرق اور اختلاف کے ذہن کو ختم کردیں، اس طرح اپنے آپ اتحاد قائم ہوجائے گا۔ یہ بات بھی سراسر بے معنٰی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مختلف مذہبوں اور مختلف تہذیبوں میں فرق اور اختلاف اتنا زیادہ حتمی صورت میں موجود ہے کہ کسی بھی دلیل سے اس کو غیر موجود ثابت کرنا ممکن نہیں ۔ یہ فارمولا یقینی طورپر ایک غیر حقیقی فارمولا ہے۔ وہ عملی طورپر نہ کبھی ممکن ہوا اور نہ آئندہ وہ کبھی ممکن ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ فرق کوئی عیب نہیں، بلکہ وہ ایک خوبی ہے۔ وہ مذہبی فکر میں ارتقاء کا ذریعہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صرف ایک ہی فارمولا ہے جو مفید اور قابل عمل ہے، اور وہ فارمولا وہ ہے جو رواداری(tolerance) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ — ایک کی پیروی کرو اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
۲۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو غلط فہمیاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہندو اور مسلمان دونوں طرف کے رہنماؤں کے اوپر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ مختلف اسباب کے تحت دونوں طرف کے رہنماؤںنے اپنے اپنے عوام کو وہ ذہن دیا جس کو شناخت(identity) کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی نے اپنے قومی وجود کے لیے شناخت کو اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔ اس کو پختہ کرنے کے لیے ہندو رہنماؤں نے یہ نظریہ بنایا کہ مسلمان مَلچھ ہیںاور مسلم رہنماؤں نے یہ نظریہ وضع کیا کہ ہندو کافر ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں نظریے یکساں طورپر غلط ہیں۔ ہندو کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ مسلمان انہی کی طرح انسان ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو دل سے یہ ماننا چاہئے کہ ہندو انہی کی طرح انسان ہیں۔ جب تک سوچ میںیہ تبدیلی نہ آئے ہماری سماجی زندگی میںمعتدل تعلقات کا ماحول قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے، اور اس کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان اپنے عقیدہ کی رو سے داعی ہیں اورہندو ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی۔مدعو کے اس رشتہ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان یک طرفہ طورپر یہ ذمہ داری لیں کہ انہیں شرعی حکم کے مطابق، تالیف قلب کے اصول پر عمل کرنا ہے۔ انہیں یہ کرنا چاہئے کہ وہ ہندوؤں کی شکایتوں کو یک طرفہ طورپر اپنے آپ پر لے لیں تاکہ دونوں فرقوں کے درمیان وہ معتدل ماحول قائم ہو جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔
یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ ہندوؤں کی کئی شکایتیں جن کو مسلمان’’ غلط فہمی‘‘ قرار دیتے ہیں اور غلط فہمی دور کرنے کے نام پر ایک غیر مؤثر مہم لمبی مدت سے چلارہے ہیں۔ اس کو انہیں مکمل طورپر ترک کردینا چاہئے۔ کیوں کہ جو معاملہ ہندوؤں کے نزدیک صحیح فہمی کاہو اس کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ ہم اس کو غلط فہمی کہہ کر نظر انداز کردیں۔ مثال کے طور پر مسلم بادشاہوں کی کئی کارروائیوں پر ہندوؤں کو بجا طورپر شکایت ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کھلے طورپر ان کارروائیوں کی مذمّت کریں ۔ وہ کھلے طورپر یہ کہیں کہ ہندستان کی مسلم حکومتیں خاندانی حکومتیں تھیں نہ کہ اسلامی حکومتیں۔ اس کے سوا کسی اور طریقہ سے اس معاملہ کا خاتمہ ممکن نہیں۔
۳۔ اقلیت و اکثریت کے تعلقات کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں پہل مسلمانوں کو کرناچاہئے۔ مثلاً مسلمانوں کے اندر دو قومی نظریے کے بجائے ایک قومی نظریہ کو فروغ دینا۔ مسلمانوں کے اندر فرقہ وارانہ سوچ کو ختم کرکے قومی سوچ (national thinking) پیدا کرنا، اسی طرح مسلمانوں کے اندر سے اس ذہن کو مکمل طورپر ختم کرنا کہ وہ ہندوؤں کے ایک طبقہ کو دشمن ہندو اور دوسرے طبقہ کو سیکولر ہندو سمجھتے ہیں۔ وہ الیکشن میںدھوم مچاتے ہیں کہ مفروضہ دشمن ہندو ہاریں اور سیکولر ہندو جیتیں۔ اس قسم کی سیاست دین اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ مسلمان اس قسم کی تفریقی سیاست کا تحمّل نہیں کرسکتے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس غیر دانشمندانہ سیاست کا مکمل طورپر خاتمہ کردیا جائے۔
اس سلسلہ میں دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان میل ملاپ (interaction) زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ قدیم زرعی دور میں یہ میل ملاپ فطری طورپر موجود تھا۔ مگر اب صنعتی دور میں یہ خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔ وہ ہندو اسکول اور مسلم اسکول کی تفریق کے بغیر ہر تعلیمی ادارہ میں داخلہ لے کر پڑھیں۔
مسلمانوں میں اگر بھر پور طور پر اس قسم کی تعلیمی سرگرمیاں جاری ہو جائیں تو اس کا دو یقینی فائدہ حاصل ہوگا۔ اوّل یہ کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے دوران ہندوؤں سے ان کاinteraction بڑھے گا اور interaction اپنے آپ میں ہر مسئلہ کا حل ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان جب تعلیم میں آگے بڑھیںگے تو اس کے بعد فطری طورپر وہ دفتروں اور کمپنیوں اور تجارتی اداروں میںبڑی تعداد میں پہنچیں گے ۔ اس طرح وہ بُعداپنے آپ ختم ہوجائے گا جو زمانی تبدیلی کے نتیجہ میں پیدا ہوگیاہے۔
۴۔ پُر امن بقائے باہم کی اہمیت اسلام میں اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ لازم کردیاگیا کہ وہ یک طرفہ قربانی کے ذریعہ پر امن بقائے باہم کا ماحول سماج میں قائم رکھیں۔اسی قربانی کا نام صبر ہے۔
صبر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی ہو تب بھی مشتعل نہ ہونا۔ دوسرے اگر نادانی کریں تب بھی اس سے اعراض کرنا۔ دوسرے اگر ستائیں تب بھی اس کو برداشت کرلینا۔ دوسرے اگر نزاع کھڑی کریں تو پہلے ہی مرحلے میں صلح کرکے اس کا خاتمہ کردینا ۔ دوسرے اگر نقصان پہنچائیں تو دوسروں سے لڑنے کے بجائے خدا سے اس کی تلافی کی امید رکھنا۔ دوسرے اگر فساد کریں تب بھی ان کے لیے اصلاح کی دعائیں کرنا۔ دوسرے اگر کاٹنے کی کوشش کریں تب بھی ان سے جڑے رہنا۔ دوسرے اگر نہ دیں تب بھی ان کو دینے کی کوشش کرنا۔ دوسرے اگر ظلم کریں تب بھی انہیں معاف کردینا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میںاس آخری حد تک گئے کہ ہجرت کے بعد مدینہ میںآپ تقریباً سولہ ماہ تک کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے تاکہ وہاں بسنے والے یہودیوںسے غیر ضروری ٹکراؤ نہ پیش آئے۔ قرآن میںاس معاملہ میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ تمہارے لیے تمہارا دین اورہمارے لیے ہمارا دین۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے جو منشور جاری کیا اس میں آپ نے یہ درج فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے مسلمان کا دین اور یہود کے لیے یہود کا دین(للیہود دینہم وللمسلمین دینہم) وغیرہ۔
اس مقصد کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ تمام انسان ایک ہی جوڑے کی اولادہیں۔ تمام انسان آپس میں بھائی اور بہن ہیں۔ تمام انسان خدا کی عیال ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے انسان میں دنیوی تعلقات کے اعتبارسے کوئی فرق نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدّس میں اس طرح نظم کیا ہے:
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
۲۵ جون، ۲۰۰۳
واپس اوپر جائیں
برادر محترم و مکرم ڈاکٹر عزیز احمد خاں ایڈوکیٹ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مورخہ ۲۸ جون ۲۰۰۳ ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحتِ کامل عطا فرمائے۔آپ کو ہر طرح امن اور عافیت کے ساتھ رکھے اور تمام اہل خانہ کا ہر طرح مددگار ہو۔
آپ نے لکھا ہے کہ عزیزہ شاذان کی شادی ۶ جولائی ۲۰۰۳ کو ہونے والی ہے۔ اس خبر سے خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو مبارک کرے اورکامیاب زندگی عطا فرمائے۔ میری طرف سے عزیزہ کو دعا اور مبارک باد۔
شادی زندگی کا ایک ایسا مرحلہ ہے جو ہر مرد اور عورت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور جب شادی خود فطرت کا قانون ہو تو خود فطرت کے اندر یہ انتظام ہونا چاہئے کہ شادی طرفین کے لیے پُر سکون زندگی کی ضمانت بنے۔
میرے نزدیک شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز صرف ایک ہے اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔ ایڈجسٹمنٹ شادی شدہ زندگی کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ اصل یہ ہے کہ خالق نے ہر مرد اور عورت کو مسٹر ڈفرنٹ اور مِز ڈفرنٹ کے روپ میں پیدا کیا ہے۔ ڈفرینس خود فطرت کالازمی حصہ ہے اور جب دو ڈفرنٹ پرسن باہم ملیں تو کامیاب زندگی کی ضمانت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈ جسٹ کرکے زندگی گذاریں۔ اس معاملہ میں فریقین کے لیے ایڈجسٹمنٹ کے سوا کوئی اورآپشن نہیں۔
یہ ڈفرینس ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی ڈفرینس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ذہنی ارتقاء کا عمل جاری رہے۔ میرے تصور میں بہترین بیوی اور بہترین شوہر وہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے انٹیلکچول پارٹنر بن سکے۔ اگر فریقین میں مثبت مزاج ہو تو ڈفرینس سے انٹلیکچول ایکسچینج پیداہوگا اور انٹیلیکچول ایکسچینج سے انٹیلیکچول ڈیولپمنٹ کا عمل جاری رہے گا۔
قدیم روایتی تصور کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے ہاؤس پارٹنر سمجھے جاتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں اس میں توسیع ہوئی تو یہ سمجھا جانے لگا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے جاب پارٹنر ہیں۔ مگر میںسمجھتا ہوں کہ یہ شادی شدہ زندگی کی ایک تصغیر ہے کہ اس کو ہاؤس پارٹنر یا جاب پارٹنر کے دائرہ میں محدود کردیا جائے۔
میںسمجھتا ہوں کہ شادی شدہ زندگی کا زیادہ بڑا پہلو یہ ہے کہ اس طرح عورت اور مرد دونوں کو اپنے لیے ایک قابل اعتماد انٹیلکچول پارٹنر مل جاتاہے، ایک ایسا ساتھی جس کے ذریعہ وہ اپنے ذہنی ارتقاء کا سامان کرسکیں۔
کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل مسلسل جاری رہے۔ یہ ذہنی ارتقاء مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ بھی جاری رہتا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی کے ذہن میں جو بات آئے اُس پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے اُس کے پاس ایک قریبی معاون موجود ہو۔ اُس پر وہ اس سے ڈسکشن کرے۔ ڈسکشن کے دوران غیر واضح افکار واضح ہوتے ہیں۔ اُس سے ذہنی سفر کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ ڈسکشن کے دوران نئے افکار ایمرج کرتے ہیں جو کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں ہوتے۔
اس تبادلۂ خیال کے لیے عورت اورمرد دونوں کو ایسا ساتھی چاہیے جو مسلسل طورپر اُنہیں حاصل رہے۔ جس سے اعتماد کے ساتھ گفتگو کی جاسکتی ہو۔ جس سے رزرویشن کے بغیر ڈسکشن ہوسکے۔ اس قسم کا ساتھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے ہوسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی منزل ذہنی ارتقاء ہے، اس ذہنی ارتقاء کے لیے بیوی اور شوہر دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین انٹلیکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح دونوں کے اندر تھنکنگ پراسس بلا روک جاری رہے گا،اور بلاشبہہ کسی مرد یا عورت کے لیے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں کہ اس کا تھنکنگ پراسس کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ عزیزہ شاذان کواُن کی زندگی کا یہ نیا دور مبارک ہو۔
یکم جولائی ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں
برادر محترم پریذیڈنٹ پرویز مشرف صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
انڈیا کے لئے آپ کا دورہ (۱۵۔۱۶ جولائی) ہم سب کے لئے خوشی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اقدام کو مکمل کامیابی عطا فرمائے۔
۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک امکانی ہوائی حادثہ سے بچایا اور پاکستان کے سیاسی اقتدار پر سرفراز کیا تو مجھے رابرٹ کلایو کا واقعہ یاد آیا۔ ایک امکانی حادثہ سے بچنے کے بعد کلایو کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے: خدانے تم کو کسی بڑے کام کے لئے بچایا ہے۔ اور اس کے بعداس نے واقعۃً برطانی تاریخ میں ایک بڑا کام انجام دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی تاریخ آپ کے ساتھ دہرائی جانے والی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنی خصوصی مدد سے بچایا ہے تاکہ آپ برصغیر ہند میں قیام امن کا وہ ضروری کردار ادا کر سکیں جس کا تاریخ کو نصف صدی سے انتظار ہے۔
جب یہ خبر آئی کہ آپ حکومت ہند کی دعوت پر انڈیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو اس دورہ کے بارے میں میں نے کئی مضمون لکھے جو یہاں کے اردو، ہندی اور انگریزی اخباروں میں شائع ہوئے۔ مثال کے طور پر ساؤتھ انڈیا کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ہت واد (The Hitavada) میںمیرا ایک تفصیلی انٹرویو اس کے شمارہ ۳۰ جون ۲۰۰۱ میں چھپا ۔ اس میں ملٹری رولر کی حیثیت سے میں نے آپ کا پرزور دفاع کیا تھا۔ چنانچہ اخبار نے اس انٹرویو کو چھاپتے ہوئے اس کا یہ عنوان دیا:
Military ruler is a blessing for Pakistan
اگر آپ اجازت دیں تو میں کہنا چاہوں گا کہ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کو وہی پالیسی اختیار کرنا چاہئے جو مشہور انگریزی مقولہ میں اس طرح بیان کی گئی ہیــــــسیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
میں ایک بہی خواہ کی حیثیت سے کشمیر کے مسئلہ پر اس کے آغاز ہی سے غور کرتا رہا ہوں۔ ۱۹۶۸ سے میں نے اس موضوع پر لکھنا شروع کیا اور اردو اور ہندی اور انگریزی پریس میں بار بار لکھتا رہا ہوں۔ اس مسئلہ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے میری قطعی رائے ہے کہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے لئے صرف دو ممکن انتخاب (options) ہیں۔ ایک یہ کہ اس معاملہ میں پاکستان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) اختیار کرے۔ یعنی کشمیر کے اشو کو پر امن گفت و شنید کے خانہ میں ڈالتے ہوئے بقیہ تمام امور میں ہندستان سے نارمل تعلقات قائم کرلے۔ اور دوسرے یہ کہ جموں و کشمیر میں جغرافی اعتبار سے جو اسٹیٹس کو (statusquo) بن گیا ہے اس کو مستقل سرحد کے طورپر مان کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے۔ اس کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپرممکن نہیں۔ تیسری صورت یقینی طور پرصرف تباہی کی صورت ہے، نہ کہ ترقی اور کامیابی کی صورت ۔
اس معاملہ کا ایک اور نہایت اہم پہلو ہے۔آپ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر جہاد کے نام سے مِلیٹنسی (militancy) چلائی جارہی ہے، ان میں سے ایک نمایاں نام کشمیر کا ہے۔ اس مِلیٹنسی کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوا۔ البتہ اس کا ایک عظیم نقصان یہ ہوا کہ اسلام کی امیج ایک وائلنٹ مذہب (violent religion) کی ہوگئی۔ اس بدنامی نے موجودہ زمانہ میں اسلام کے آئیڈیالاجیکل مارچ (ideological march) کوروک دیا جو ایک ہزار سال سے مسلسل ساری دنیا میں چلا آرہا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے آپ کے لئے یہ رول مقدر کیا ہے کہ آپ اسلام کے اس دعوتی سفر کو دوبارہ جاری کریں۔ اگر آپ انڈیا کے ساتھ مستقل قسم کا ایک پیس ٹریٹی (peace treaty) کر لیں تو اس کا فائدہ نہ صرف پاکستان کو ملے گا بلکہ اس کے نتیجہ میں پوری مسلم دنیا میں ایک نیا صحت مند پراسس جاری ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ ہوگا کہ موجودہ متشددانہ رجحان ایک پر امن دعوتی رجحان میں بدل جائے گا۔ لوگ نارمل فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنے لگیں گے۔
موجودہ مبصرین پاکستان کو امکانی طورپر نیو کلیر فلیش پائنٹ (nuclear flashpoint) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ جرأت و ہمت سے کام لے کر حدیبیہ جیسا ایک پیس ٹریٹی کر لیں تو پاکستان برعکس طورپر دعوہ فلیش پائنٹ(dawah flashpoint) بن جائے گا۔
مجھے اندازہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں مصالحت کی پالیسی اختیار کرنا آپ کی مقبولیت کے لیے ایک رِسک (risk) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس اندیشہ کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا ہے کہ: والصلح خیر (النساء ۱۲۸)۔ یعنی صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافی معاملات میں ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ کر مصالحت کی پالیسی اختیار کی جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے وہ زیادہ بہتر ثابت ہوگی۔
زندگی میں ہر بڑی کامیابی کا تعلق رسک سے ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں فرانس کی نو آبادیاتی پالیسی نے فرانس کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ جنرل ڈیگال نے جرأت کرکے یک طرفہ طورپر اس پالیسی کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں جنرل ڈیگال کی مقبولیت بہت کم ہوگئی۔ مگر آج اِس ڈیگال ازم کو ایک کامیاب خارجہ پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اسی پالیسی کے نتیجہ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کو نئی طاقت ملی۔
اس خط کے ساتھ میں دو چیزیں بھیج رہا ہوں۔ ایک اپنی کتاب Islam Rediscovered اور دوسرے، ماہنامہ الرسالہ کا شمارہ اگست ۲۰۰۱۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے لئے کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اس مطالعہ سے میرا مدعا مزید واضح ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کا مددگار ہو۔
نئی دہلی ۹ جولائی ۲۰۰۱ دعا گو وحید الدین
نوٹ: یہ خط صدر پرویز مشرف کے دورۂ ہند سے پہلے لکھا گیا اور اسلام آباد میں اُنہیں دستی طورپر پہنچایا گیا۔
واپس اوپر جائیں
۱ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں دہلی کے ۱۲ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ ونود دوا اس کے اینکر تھے۔ موضوع یہ تھا کہ بحران کے وقت کیوں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ لوٹ پاٹ شروع کردیتے ہیں۔ یہ واقعہ نیویارک، لاس اینجلیز، گجرات، بغداد، دہلی، وغیرہ میں بڑے پیمانہ پر پیش آیا ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اس موقع پر جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ـتھا کہ یہ انسان کی انا والی نفسیات کا نتیجہ ہوتاہے۔ لوگ اس بنا پر اتھارٹی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ پہلا موقع پاتے ہی بغاوت کردیتے ہیں۔ اس کا علاج دو چیز ہے۔ اچھا ایڈمنسٹریشن اور اچھی ایجوکیشن۔
۲ ای۔ ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۳ اپریل ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کا موضوع تھا— امن ، انسانیت اور توہم پرستی کے بارہ میں مذہب کی تعلیمات۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور اس موضوع پر اسلام کی روشنی میں کلام کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسلام امن اور انسانیت کا مذہب ہے۔ جہاں تک توہم پرستی کا تعلق ہے، اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔اسلام کے مطابق، موثر حقیقی صرف خدا ہے۔ نفع کا ملنا یا نقصان کا پہنچنا دونوں صرف خدا کے اختیار سے ہوتا ہے۔ خدا کے سوا کسی اورکو نافع یا ضار سمجھنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
۳ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۷ اپریل ۲۰۰۳ کی شام کو توسیعی لکچر کاایک پروگرام تھا۔ اس میں دہلی کی خاتون چیف منسٹرمسز شیلا دکشت چیف گیسٹ تھیں اور صدر اسلامی مرکز اُس کے واحد اسپیکر تھے۔ وسیع ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ اس میں تقریر کاعنوان یہ تھا:
Spirituality and Spiritual Power
تقریر میں تفصیل سے بتایا گیا کہ اسپریچولٹی ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اسپریچولٹی آدمی کو ذہنی سکون دیتی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ایک عظیم طاقت ہے۔ یہ پروگرام انگریزی میں تھا اور اُس میںاعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سامعین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ چیف گیسٹ مسز شیلادکشت نے آخر میں کہا کہ میں بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ مولانا صاحب کی تقریر نے ہم لوگوں کو اتنا زیادہ مسحور کردیا ہے کہ ہمارے پاس اب بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
۴ جین ٹی وی میں ۲ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام تھا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی گئی۔ اس کا موضوع تھا: پیغمبر اسلام کی سیرت اور تعلیم۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ۔
۵ ہندی ہفت روزہ پَروکتا کے نمائندہ مسٹر راجیو شرما (Tel. 26711954/955) نے ۴ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ ۱۹۶۸ سے جو بات کہتے رہے ہیں وہ اب بعد از خرابیٔ بسیار پاکستانی لیڈروں کی سمجھ میںآئی ہے۔ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ اس معاملہ میں ڈی لنکنگ (delinking) پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی کشمیر کے سوال کو الگ رکھ کر اس کو شملہ ایگریمنٹ کے تحت پر امن گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اسی کے ساتھ تجارت، سیاحت اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں دونوں ملکوں کے درمیان نارمل تعلق قائم کر لیا جائے۔ اب پاکستانی لیڈر اس پر راضی ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی اس پر عمل ہوگا اور دھیرے دھیرے انشاء اللہ کشمیر کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔
۶ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اَپرنا دویدی (Aparna Dwivedi) نے ۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکزکا انٹرویو لیا۔ اُ ن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر مدرسہ کے ماڈرنائزیشن سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ مدرسہ میں بلا شبہہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اُس کو ماڈرنائزیشن کہنا درست نہیں۔ مثلاً مدرسہ میں ضرورت ہے کہ قدیم منطق کی جگہ جدید منطق پڑھائی جائے۔ عربی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کو باقاعدہ طورپر داخل نصاب کیا جائے۔ کمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔ نئے طریقہ سے کام کرنے کی تربیت دی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ مدرسہ میں جنگجوئی سکھائی جاتی ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدرسہ میں ٹالرنس اور ایڈجسٹمنٹ کا مزاج بنانے کا اہتمام نہیںکیا جاتا، حالاں کہ ایسا کرنا چاہئے (Tel: 91 11 51502000) ۔
۷ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۱۰ مئی ۲۰۰۳ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس پروگرام میں مختلف اصحاب نے حصہ لیا۔ مسلمان بھی، ہندو بھی اور سکھ بھی۔ اس کا موضوع سیرتِ رسول کا عالمی پیغام تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اُس کی دعوت پر اُس میںشرکت کی۔ اُنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایا کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے ہیں۔ اس کے مطابق، سارے انسان ایک خاندان کی مانند ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے لیے بھائی اور بہن کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میںانسان دوسروں کے ساتھ جو معاملہ کرے گا اُس کے بارہ میں خدا کے یہاں اُس سے باز پرس ہوگی۔ یہ دو چیزیں پیغمبر کی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۸ ادھیاتمک جاگرتی منچ کے زیر اہتمام ۱۳ ،ساؤتھ اوینیو، نئی دہلی میں ۱۳ مئی ۲۰۰۳ کو ایک میٹنگ ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میںکہا کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لیے صرف سیاسی طریقِ کار کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ روحانی انقلاب لانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مگر تعمیری سماج بنانے کے لیے فرد فرد میں اخلاقی اور روحانی تبدیلی لانا ضروری ہے۔ اس میٹنگ میں ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان شریک ہوئے۔
۹ نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ۱۸ مئی ۲۰۰۳ کو محفل میلاد کا پروگرام ہوا۔ اس پروگرام کا اہتمام ایک خاتون تنظیم نے کیا تھا۔ یہ ایک سالانہ پروگرام ہے جو ہر سال بڑے پیمانہ پر کیا جاتا ہے ۔ اس میں دہلی کے ممتاز اور تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور سیرت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ بقیہ مقررین یہ تھے: سفیر ایران، سفیر عرب امارات، ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ، رفیعہ حسین۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔
۱۰ نئی دہلی کا مشہور تعلیمی ادارہ این سی ای آر ٹی (NCERT) نے اپنے ہال میں ایک پروگرام منعقد کیا جس میں ادارہ کے تمام ٹیچر، پروفیسر اور کارکن بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ ڈاکٹر جے ایس راجپوت (ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی) نے اس کی صدارت کی۔ اس میںایکسٹنشن لکچر کے پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کوتقریر کرنے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے روحانیت کے موضوع پر ایک گھنٹہ خطاب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر انسان پیدائشی طورپر الفطرۃ پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ روحانیت کا آغاز ہے۔ اس کے بعد وہ نیچر میں غور وفکر سے اپنی روحانیت کو بڑھاتا ہے۔ اور پھر خدا سے تعلق قائم کرکے اس سے انسپریشن (inspiration) لیتا ہے۔ اس طرح انسان کی روحانی شخصیت ترقی کرتی رہتی ہے۔ یہ پروگرام ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو منعقد کیا گیا۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر راجپوت نے اپنے صدارتی کلمات کے درمیان یہ تجویز پیش کی کہ میں تقریباً سو صفحہ کی ایک کتاب انگریزی میں تیار کرکے اُنہیں دوں جس کو وہ بڑی تعداد میں چھاپ کر پورے ملک کے تمام اسکول ٹیچروں تک پہنچائیں گے۔ حاضرین نے پر جوش طورپر اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ڈاکٹر راجپوت نے اس کتاب کا نام یہ تجویز کیا:
The Basics of Islam
۱۱ جین ٹی وی (نئی دہلی)کے تحت ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو پینل ڈسکشن ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ڈسکشن کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی یہ تصویر ساری دنیا میںکیوں بن گئی ہے کہ وہ لڑنے بھڑنے والی قوم ہیں۔ وہ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے نہیں رہ سکتے۔ اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اس کا سبب مسلم رہنماؤں کا دیا ہوا سیاسی ذہن ہے۔ اس بنا پر مسلمان اپنے آپ کو پولیٹکل پاور کے ساتھ آئڈنٹفائی (identify) کرنے لگے ہیں۔ ان کا ماڈل مسلمانوں کا دور اقتدار بن گیا ہے جس کو وہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ تصور غلط ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک جارحیت نہ ہو اس وقت تک ہر ماحول میںوہ امن کے ساتھ رہیںخواہ وہاں مسلم اقتدار ہو یا غیر مسلم اقتدار۔
۱۲ نئی دہلی کے انگریزی ہفت روزہ آرگنائزر نے ۲۱ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دہلی کی خاتون فرزانہ کے کیس کی روشنی میں یہ سوال تھا کہ جہیز کے بارے میں اسلامی شریعت کا حکم کیا ہے۔ جواب میں کہا گیاکہ اسلام میں موجودہ قسم کا جہیز ہر گز جائز نہیں۔ علماء یہ فتوے دیتے رہے ہیں کہ انگریزی مال کا بائیکاٹ کرو، یہودی مال کا بائیکاٹ کرو اور امریکی مال کا بائکاٹ کرو۔ اس کے بجائے ان علماء کو یہ فتویٰ دینا چاہئے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو ستائے اس کا بائیکاٹ کرو، جو مرد جہیز کے لیے اپنی بیوی کو اور اس کے خاندان کو پریشان کرے اس کا بائیکاٹ کرو، جوآدمی اپنی بیوی کے حقوق ادا نہ کرے اس کا بائیکاٹ کرو، وغیرہ۔
۱۳ موونگ پکچر کمپنی (نئی دہلی) نے آستھاٹی وی چینل کے لیے ۲۲ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کی بابری مسجد سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد کا ڈھایا جانا نااہل مسلم لیڈروں کی ناعاقبت اندیشانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس اشو کو جلسوں اور تقریروں کا موضوع نہ بنایا جاتا اور خاموش تدبیر کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو یقینی طورپر بابری مسجد نہ ڈھائی جاتی۔ اب مسلم عوام اس اشو سے اپنا انٹرسٹ کھو چکے ہیں۔اب عدالت جو بھی فیصلہ دے گی مسلم عوام اس کو قبول کرلیں گے۔ اس لیے اب عدالت کو مزید تاخیر کے بغیر اپنا فیصلہ دے دینا چاہئے۔
۱۴ ایران نیوز ایجنسی (IRNA) نے ۲۵ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ میلاد النبی نماز روزہ کی طرح کوئی شرعی فریضہ نہیں۔ یہ مسلم کلچر کا ایک حصہ ہے جو بعد کے زمانہ میں شروع ہوا۔ تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ میلاد النبی کے موقع پر مسلمان بڑی تعداد میں اکٹھا ہوتے ہیں اور علماء کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اس موقع پر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالہ سے اسلام کا پیغام پہنچائیں۔
۱۵ ہندی ماہنامہ سرو شانتی (نئی دہلی ) کے ایڈیٹر مسٹر اعجاز شاہین نے ۲۸ مئی ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر موجودہ سماج میں عورتوں کے مسائل سے تھا۔جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ سماج میں عورتوں کو جو مسائل در پیش ہیں وہ زیادہ تر مساوات مرد وزن کے غیر فطری اصول کی بنا پر ہیں۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ عوئرت اور مرد کا دائرہ کار الگ الگ ہو۔ دوسری بات یہ کہ آزادیٔ نسواں کے نام پر برہنگی کا جو کلچر چلایا گیا ہے اس کو بند ہونا چاہئے ورنہ عورتوں کے مسائل کبھی ختم نہ ہوںگے۔
۱۶ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کی رات کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ سویڈن کی راجدھانی اسٹاک ہام میں مقیم جناب رشید شمس الحسن زیدی اور ان کے ساتھیوں کے تعاون سے ٹیلی فون پر خطاب کا یہ پروگرام رکھا گیا۔ یہ پروگرا م اسٹاک ہام کے ایک ہال میںتھا۔ صدر اسلامی مرکز نے دہلی میںاپنے دفتر سے ساڑھے بارہ بجے رات کو ٹیلی فون پرآدھ گھنٹہ کی تقریر کی جس کو پانچ ہزار کیلومیٹر دور اسٹاک ہام کے مسلمانوں نے سنا۔ یہ تقریر سیرت رسول کے موضوع پر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور واقعات کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق ہال میںجمع شدہ حاضرین بہت متاثر ہوئے۔ بہت سے لوگوں کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ ان لوگوں کی فرمائش ہے کہ اس تقریر کو لکھ کر انہیں دیا جائے تاکہ وہ اسے سویڈش زبان میں چھاپ سکیں۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اہل اسلام کے لیے قابلِ اتباع نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہے۔
۱۷ نئی دہلی میںانڈیا انٹرنیشنل سنٹر (انکسی) میں انٹرنیشنل فیڈریشن فار ورلڈپیس کے تحت ۵ جون ۲۰۰۳ کی شام کو ایک خصوصی فنکشن ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو فیڈریشن کی طرف سے امبیسڈر فارپیس (Ambassador for Peace) کا ایوارڈ دیا گیا۔اس موقع پر صدر اسلامی مرکز نے پیس اور اسلام کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میںہوا۔ غیر ملکی افراد بھی اس فنکشن میں شریک تھے۔
۱۸ ایک فرانسیسی تنظیم (Latitude de Paix) کی طرف سے ایک بین اقوامی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ یہ سیمینار ۲۷۔۲۸ جون ۲۰۰۳ کو ہوا۔ اس کا مقام سوئزر لینڈ کے ایک قدیم محل (Chateau de Coux) میں تھا۔ اس کا موضوع فلسطین کے مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا:
Reconciliation between Israelies and Palestinian People.
اس سیمینار میں شرکت کے لیے صدر اسلامی مرکز کے نام دعوت نامہ موصول ہواتھا اور سفر کا انتظام بھی ہوچکا تھا۔ مگر بعض اسباب سے وہ اس میں شرکت نہ کر سکے۔ البتہ انہوں نے موضوع کے بارے میں اپنے خیالات تحریری طورپر لکھ کر سیمینار کے منتظمین کو بھیج دئے۔
۱۹ دھروفلمس (Dhruv Filams) نے دور درشن کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ۲۱ جون ۲۰۰۳ کو ریگل اسٹوڈیو (نوئڈا) میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس پروگرام کااہتمام مسٹر او۔پی ۔سہگل (Tel. 7658100) نے کیا تھا۔ اس کا موضوع تھا— کشمیر کی خواتین کے مسائل اور کشمیر کی تعمیر و ترقی میں ان کا حصہ۔ اس پروگرام کے تحت چھ ایپی سوڈ(Episode) تیار کیے گیے۔ اس موقع پر جو کچھ کہا گیا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ کشمیر اور دوسرے مقامات پر پر جوش مسلمان جوکچھ کر رہے ہیں وہ اسلامائزیشن نہیں ہے۔ مثال کے طورپر اسلام لرننگ پر زور دیتا ہے اور یہ لوگ (de-learning)کاکام کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ کشمیر کی خواتین کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ تعلیم کے بغیر تعمیر و ترقی کا کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا۔
۲۰ سہارا گروپ (اردو، ہندی، انگریزی) کے نمائندہ مسٹر سونیل تیواری نے ۲۰ مئی ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پرصدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس قسم کے انٹرویو تینوں زبان کے سہارا میں بیک وقت چھپتے ہیں۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ ہندستان میںمذہب کی پکڑ سماج سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ صرف جزئی طورپر یہ بات درست ہے۔ آج بھی ہندستانی سماج پر مذہب اور روحانیت کی پکڑ کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کٹرواد یہاں زیادہ بڑھ نہیں پاتا۔ ۷۵ سال کی کوشش کے باوجود ابھی تک وہ مین اسٹریم نہ بن سکا۔
۲۱ مسٹر ودود ساجد نے ۱۳ جون ۲۰۰۳ کو نئی دہلی کے روز نامہ راشٹریہ سہارا (اردو) کے لیے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویولیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیاکی بابری مسجد کے مسئلہ سے تھا۔ سوالات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس اشو کو نام نہاد مسلم لیڈروں نے بگاڑا ہے ورنہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔
۲۲ مسٹر وید ویاس اور ان کے ساتھیوں نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو گاندھی سمیتی( نئی دہلی )کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس مسئلہ سے تھا کہ مہاتما گاندھی نے اخلاقی افکار پر مبنی صحافت کی وکالت کی تھی۔ مگر آزادی کے بعد اس قسم کی صحافت وجود میںنہ آسکی۔ اس کا سبب کیاہے۔جوا ب میں کہا گیا کہ صحافت ریڈر شپ کے تابع ہوتی ہے۔ جیسی ریڈر شپ ویسی صحافت۔ اخلاق پر مبنی صحافت کو وجود میں لانے کے لیے پہلے اس کے مطابق ریڈر شپ تیار کرنا ہوگا۔
۲۳ نئی دہلی کے آؤٹ لک میگزین کے نمائندہ مسٹر بھودیپ کانگ (Bhavdeep Kang)نے ۱۷ جون ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اجودھیا کے مسئلہ سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بابری مسجد کو گفٹ میں ہندوؤں کو دے دیں۔ یہ ایک خیالی تجویز ہے۔ مسلمان مسجد کے مالک نہیں، پھر وہ گفٹ کیسے کر سکتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ سب سے پہلے اس معاملہ میں ایک فریم ورک بنانا چاہئے۔ فریم ورک بنائے بغیر غیر متعلق باتیں ہوتی رہیں گی اور مسئلہ حل نہ ہوگا۔
۲۴ گاندھی سمیتی کے تحت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن (نئی دہلی) میں ۱۱ جون ۲۰۰۳ کو ایک ریڈیو پروگرام ہوا۔ یہ امن کے موضوع پر تھا۔ مختلف اسکول کے تقریباً ۲۰ طلبہ اور طالبات اس میں شریک ہوئے۔ اینکر (Anchor) کے فرائض ایک طالبہ نے انجام دیے۔ ایر کموڈور جگجیت سنگھ اور راہل دیو جی نے تقریریں کیں۔قرآن و حدیث کی روشنی میںصدر اسلامی مرکز نے اسلام میںامن پر ایک تقریر کی۔ اس کے بعد طلبہ اور طالبات نے موضوع سے متعلق سوالات کئے۔ اس کے جوابات دیے گیے۔ یہ پروگرام تقریباً دو گھنٹہ جاری رہا۔
واپس اوپر جائیں
پیاز کے اوپر ایک کے بعد ایک پرت ہوتی ہے۔ اگر ان پرتوں کو ہٹائیں تو ہٹاتے ہٹاتے اس کا آخری حصہ آجائے گا جو پیاز کا داخلی مغز ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت صحیح پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماحول کے اثر سے اس کے اوپر خارجی افکار چھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی داخلی فطری شخصیت بالکل ڈھک جاتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی متعصبانہ طرزفکر کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اپنی ساری عمر انہی تعصبات کے تحت سوچتارہتا ہے اور آخرکار مر جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ من شبّ علی شیٔ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جو ان ہوتا ہے اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)
یہ صورت حال ہر آدمی کومطابق واقعہ سوچ (as it is thinking) سے محروم کردیتی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے۔ ہر آدمی پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد گہرائی کے ساتھ اپنا جائزہ لے۔وہ اپنی کنڈیشننگ کی دوبارہ ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنی شخصیت پر چڑھی ہوئی اوپری پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ اس کی اصل فکری شخصیت اس طرح کھل جائے کہ وہ تعصبا ت سے پاک ہو کر سوچنے لگے۔ یہ اپنی مصنوعی شخصیت کو دوبارہ حقیقی شخصیت بنانے کا عمل ہے جو ہر شخص کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرنے کا یہ عمل بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے خلاف ایک ذہنی محنت (intellectual labour) کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو اپنی مانوس اور محبوب سوچ کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے آپ پر بلڈوزر چلانا پڑـتا ہے۔ تاہم یہی واحد عمل ہے جو آدمی کو متعصبانہ یا غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ عمل گویا اپنافکری آپریشن کرنے کا عمل ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ مگر اس کام کے بغیرکوئی بھی شخص بے آمیز سوچ کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میںکوئی بھی دوسری چیز فکری تطہیرکا بدل نہیں۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.