قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ ۔ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ۔ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (
قرآن کی ان آیتوں میں ایسے اہل ایمان کا ذکر ہے، جو بڑے نصیبے والے (truly fortunate) ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے برتاؤ سے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ دشمن بھی ان کا دوست بن جائے، جو بظاہر غیر بنا ہوا تھا، وہ بدل کر آپ کا اپنا بن جائے۔
اس انقلابی تبدیلی کا فارمولا کیا ہے۔ وہ صبر کا فارمولا ہے۔ صبر کا فارمولا کیا ہے۔ صبر کا فارمولاایک لفظ میںیک طرفہ اخلاقیات (unilateral ethics) کا نام ہے۔ یعنی جوابی ردِّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، بلکہ فریقِ ثانی کی روش سے اوپر اٹھ کر غیر جوابی انداز میں یا ردِّعمل کا طریقہ اختیار کیے بغیر یک طرفہ بنیاد پر حسن ِعمل کا سلوک کرنا۔
ایسے لوگوں کو ذو حظِّ عظیم (truly fortunate) ہونےکی بشارت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر سب سے بڑا اسلامی عمل ہے۔ اس لیے کہ صبر کا طریقہ اختیار کرنے والا ذاتی سوچ پر اللہ کی سوچ کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ذاتی تقاضے پر کنٹرول کرتے ہوئے اللہ کے حکم کو اختیار کرتا ہے۔وہ قربانی کی سطح پر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب اپنے ای میل میں لکھتے ہیں: میں خدا کو پانا چاہتا ہوں۔ تقریباً
آپ سے رہنمائی چاہنے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک، آپ کی تحریر آج سے
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کو پانا، دراصل ایک پائی ہوئی حقیقت کو دوبارہ دریافت کرنا ہے۔ خدا کو پانا دراصل غیر شعور کو شعور بنا نا ہے۔یعنی جو چیز غیر شعوری طور پر ملی ہوئی ہے، اس کو شعوری طور پر اپنی یافت بنانا ہے۔ خدا آپ کا خالق ہے، اور اس نے آپ کو غیر موجود سے موجود کیا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کی زندگی میں شامل ہے، وہ خود بخود آپ کو ملا ہوا ہے۔ مگر یہ پانا غیر شعوری اعتبار سے ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ آپ غیر شعوری طور پر ملی ہوئی چیز کو شعوری طور پر دریافت کرلیں۔ خدا کو پانا بظاہر ایک مشکل کام معلوم ہوتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ آسان کام ہے۔
آپ سوچیے کہ جب آپ ماں کے پیٹ میں تھے، اسی وقت آپ کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی باقاعدہ طورپر شروع ہوگئی تھی۔ یہ کون تھا، جس نے آپ کے لیےآپ کی ضروریات کی کامل فراہمی کا انتظام کیا۔ پھر جب آپ ماں کے پیٹ سے نکلے ، تو آپ نے پایا کہ آپ کےلیے یہاں مکمل معنوں میں ایک لائف سپورٹ ئسسٹم (life support system) موجود ہے۔ پھر جب آپ بڑے ہوئے، اور آپ دنیا میں چلنے پھرنے کے قابل ہوئےتو آپ نے پایا کہ پوری یونیورس آپ کے لیے کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe)ہے۔ اس قسم کے تجربات جو آپ کو ہر لمحہ پیش آتے ہیں، وہ گویا ملی ہوئی چیز کو آپ کے لیے ایک دریافت کردہ حقیقت (discovered reality) بنا رہے ہیں۔
میں جب پہلی بار امریکا گیا، تو وہاں ایرپورٹ کے باہر نکلتے ہوئے میں نے جو پہلی چیز دریافت کی، وہ یہ تھی کہ کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے میرے لیےزندگی بخش آکسیجن کی سپلائی کا نظام انڈیا میں بھی قائم کررکھا تھا، اور امریکا میں بھی اس کا تسلسل بلاانقطاع جاری ہے۔ یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ میں نے چاہا کہ میں روڈ پراپنے خالق کے لیے سجدے میں گر پڑوں۔ اسی طرح دوسرے تمام تجربات ہر لمحہ میرے لیے خدا کی یاد کے ریمائنڈر بنے رہتے ہیں۔ یہی وہ یاد دلانے والے واقعات ہیں، جن کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (
جو لوگ صبح و شام ان نشانیوں کے درمیان زندگی گزاریں، مگر ان کا حال یہ ہو کہ ان کے پاس دماغ ہو مگر وہ نہ سوچیں، ان کے پاس آنکھیں ہو مگر وہ نہ دیکھیں، ان کے پاس کان ہو مگر وہ نہ سنیں، ایسے لوگ خالق کے نزدیک اندھے بہرے ہیں۔ ان کو صرف قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ صورِ اسرافیل کے سواکوئی اور چیز نہیں ہے، جو ان کو غفلت کی نیند سے جگائے۔
خالق کی معرفت کوئی سادہ چیز نہیں۔ خالق کی معرفت جنت الفردوس کی قیمت ہے۔جنت الفردوس اس کے لیے ہے جو خدا کو دیکھے بغیر دیکھے، جو خدا کی جنت میں داخل ہونے سے پہلے ا س کو دریافت کرے ۔ خدا کو پانے کی توفیق اس کو ملتی ہے، جو خدا کے لیے غیر خدا کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ڈسکور کرے۔ یہ زندگی کی شروعات ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیںتو آپ کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے گا۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈئلزم ہمیشہ ناکامی کی طرفلے جاتی ہے۔ جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن یہ آئڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اعتدال کیا ہے
اعتدال کا اصول، کسی اصولی موقف کی طرح کسی مستقل اصول پر مبنی نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر مبنی ہے۔ یعنی جس موقعے پر خالص اصولی موقف بظاہر قابل عمل (practical)نہ ہو، وہاں حالات کو دیکھتے ہوئے رعایت کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور ایسے موقف کو اختیار کیا جائے، جس میں نقصان بھی کم ہو، اور اختلاف کی صورت ختم ہوجائے۔ مثلا ً پراپرٹی کی تقسیم کا معاملہ ہو، اور دو آدمیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے، تو دونوں پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ نزاع کی صورت کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے درمیانی حل پر راضی ہوجائیں، جس میں بظاہر نظری انصاف تو نہ ہو، لیکن اس سے نزاع کی صورت ختم ہوتی ہو۔ ایسے حل کو پریکٹکل وزڈم پر مبنی حل کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
برٹش شاعر والٹر ڈی لا مئر (Walter de la Mare [1873-1956]) کا ایک شعر ہے۔ وہ کہتا ہے — یہ بڑی عجیب بات کہ مس ٹی (انسان) جو کچھ کھاتا ہے، وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کا جز بن جاتا ہے:
It's a very odd thing -
As odd can be-
That whatever Miss T eats ,
Turns into Miss T.
یہ بات بلاشبہ بہت ہی زیادہ عجیب ہے کہ انسان کی خوراک، خواہ وہ زمینی خوراک ہو، یا حیوانی خوراک اس کے پیٹ میں داخل ہوتی ہے۔ ایک بے حد پیچیدہ نظام اس کو ہضم (digest) کرتا ہے۔ انسان کے جسم میں دو سو سے زیادہ قسم کے خلیات (cells) ہیں۔ یہ سیل جسم کے مختلف حصوں کا پارٹ بنتے ہیں۔ یہ سیل برابر بدلتے رہتے ہیں۔ انسان کا جسم انھیں سیل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وہ پیدائش سے موت تک انسان کے جسم کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ یہ ایک بے حد عجیب قسم کا جسمانی نظام ہے، جو ہر عورت اور مرد کو مفت میں حاصل رہتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے وجود سے باہر کی پوری دنیا ، انسان کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کرتی ہے۔
انسان کے جسم میں تقریباً اسّی آرگن ہوتے ہیں، یہ تمام آرگن انتہائی مربوط انداز میں کام کرتے ہیں۔ اس طرح انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام کام انجام دے سکے۔ مزید یہ کہ یہ تمام آرگن خود کار مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ انسان کے ارادے کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کے جسم میں ہر وقت متحرک رہتی ہیں۔ تب انسان اس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال انجام دے سکے۔ انسان اگر اپنے وجود کے اس فطری انتظام کو لے کر سوچے تو وہ شکر کے سمندر میں غرق ہوجائے، ناشکری کا کلمہ کبھی اس کی زبان سے نہ نکلے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک بات ان الفاظ میں آئی ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ، وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ (
مثلاً انسان جب اس کائنات کو دیکھتاہے ، تو اس کو یہ نظرآتا ہے کہ پوری کائنات نہایت منصوبہ بند انداز میں چل رہی ہے۔مثلاً سورج ہمیشہ ٹھیک اپنےوقت پر نکلتا ہے، اور ٹھیک متعین وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پوری کائنات زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چل رہی ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے انتظام میں ہمیشہ نقائص موجود رہتے ہیں۔ انسان اگر اس معاملے کا مطالعہ تقابلی انداز میں کرے، تو وہ خود اپنے مطالعہ کے ذریعے خدائے برتر کے وجود کو دریافت کرلے گا۔ یہ دریافت اس کو یہ کہنے پر مجبور کردے گی:أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (
اگر آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث کی باتوں کو اپنے الفاظ میں ڈھال سکے، تو اس کی دریافت اس کے لیے ری ڈسکوری (rediscovery) بن جاتی ہے۔ وہ مذکور باتوں کو زیادہ موثر انداز میں دریافت کرنے لگتا ہے۔ مثلاً قرآن میں آیاہے:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (
واپس اوپر جائیں
امریکا کے مشہور مشنری بلی گراہم (1918-2018) نے لکھا ہےکہ ایک بار امریکا کے ایک مشہور سیاست داں نے اس کو لکھا کہ وہ فوری طور پر اس سے ملے ۔ جب بلی گراہم اس سے ملا، تو دونوں ایک کمرے میں اکٹھا ہوئے۔ اس وقت سیاست داں نے بلی گراہم سے کہا:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am ready to take a fateful leap into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope. (The Secret of Happiness, by Billy Graham, p. 2)
یہ موت کے بارے میں ایک ایسا قول ہے، جس کو موت کی سیکولر معرفت کہا جاسکتا ہے۔ دوسرا واقعہ جو موت کی ربانی معرفت کا واقعہ ہے، وہ ایک حدیث سے اس طرح معلوم ہوتا ہے: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَہُوَ فِی المَوْتِ، فَقَالَ:کَیْفَ تَجِدُکَ؟ ، قَالَ: وَاللَّہِ یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنِّی أَرْجُو اللَّہَ، وَإِنِّی أَخَافُ ذُنُوبِی، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ ہَذَا المَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللَّہُ مَا یَرْجُو وَآمَنَہُ مِمَّا یَخَافُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر
موت ہر انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ سیکولر انسان موت کو زندگی کے خاتمے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس، ربانی انسان موت پر اس یقینی لمحے کے طور پر دیکھتا ہے، جب کہ بندے کی ملاقات اس کے رب سے ہوگی۔ یہ لمحہ اس کے لیے بیک وقت دو کیفیات کا لمحہ ہوتا ہے— ایک طرف اللہ کی رحمت، اور دوسری طرف اللہ کا خوف۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ(
قرآن کی اس آیت میں قتال کا لفظ جنگ کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ شدید جدو جہد کے معنی میں ہے۔ یہ اسلوب وہی ہے، جس کے لیے انگریزی میں جنگی سطح (war footing) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یعنی کسی کام کو پوری طاقت کے ساتھ انجام دینا۔
اسی طرح آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں :وہ نہ پست ہمت ہوئے، نہ انھوں نے کمزوری دکھائی، اور نہ وہ دبے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہت طاقت ور لوگ تھے، اور انھوں نے نہایت طاقت کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشن کے راستے میں جب کوئی مشکل پیش آئی تو وہ اس کے لیے فکر مند ہوکر رکے نہیں، بلکہ مشکل کو رب العالمین کے حوالے کرکے اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اعتماد علی اللہ کی اسپرٹ کا مطلب ہے کہ ایسے موقعے پر یہ یاد کرنا کہ تمام وسائل اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ یعنی یہ اسپرٹ کہ اللہ مجھ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، بلکہ ایسے حالات پیدا کرےگا، جب کہ میں اللہ کے کام کواللہ کی مدد سے کامیابی کے ساتھ انجام دے سکوں۔ مومن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ دنیا کے نظام کو اللہ کے فرشتے انجام دے رہے ہیں۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم سے مومن کی مدد کوآجائیں گے، اور فرشتوں کی مدد سے مطلوب کام کو انجام دینا ممکن ہوجائے گا۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد یہاں انسان کو آباد کیا، اور پیغمبر اور داعیوں کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ انسانوں کے پاس مسلسل طور پر ایسے افراد آئیں، جو انسان کو بتائیں کہ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو پیشگی طور پر پوری بات معلوم ہوجائے، اور وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر جنت کے انعام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے۔ اسی بات کو مزید تاکید کی زبان میں بتاتے ہوئے یہ کہا گیا: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (
یہ کوئی فقہی نوعیت کا حکم نہیں ہے، یعنی کوئی ایسا حکم جس کا لوگوں میں صرف اعلان کر دینا کافی ہے۔ مثلاً یہ کہ اے لوگو، تم لوگ ہر سال ایک مہینے کا روزہ رکھو۔ بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اجتہادی حکم ہے، یعنی ہمیشہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ حکم کا تطبیقی مفہوم (applied meaning)دریافت کرتے رہنا ہے۔ ہمیشہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے حکم کو اس طرح بتاتے رہنا ہے کہ لوگوں کو حکم اپنے زمانے کے لحاظ سے قابلِ اتباع معلوم ہو۔ حکم کی وضاحت اس طرح کرنا ہے کہ ہر زمانے کے انسان کا ذہن برابر ایڈریس ہوتا رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت کسی جامد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انفرادی حکم میں ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بتانے والا ہمیشہ اس کو اس طرح بتائے کہ زمانے کے لوگوں کا ذہن اس سے ایڈریس ہوتا رہے۔ اس حکم میں حجت شامل ہے، یعنی بتانے والا حکم کو اس طرح بتائے کہ جس سے سننے والے کا ذہن مطمئن ہو۔ وہ یقین کی اسپرٹ کے ساتھ اس پر برابر کاربند ہوتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت میں پیغمبر یعقوب کی اپنے بیٹوں کو نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا بَنِیَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ (
قرآن کی اس آیت میں تدبیر ِ کار کا ایک طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ طریقہ فقہ کی اصطلاح میں غیرجہری طریقہ ہے۔ یعنی اپنا مشن اس انداز میں چلانا کہ فریقِ ثانی اس کو اپنے لیے خطرہ نہ سمجھے۔ وہ آخر وقت تک کام کرنے والوں کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس طریقِ کار کو اگر جدید اسلوب میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —— لوپروفائل (low profile) میں کام کرنا۔ یعنی کام کو ایسے انداز میں کرنا جس سے فریق ثانی اس کو اپنے لیے چیلنج نہ سمجھے، اور اس طرح کام کرنے والوں کو آخر وقت تک کام کرنے کا موقع ملتا رہے۔ اس کے مقابلے میں جو طریقہ ہے، اس کو ہائی پروفائل کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ ہائی پروفائل میں فریق ثانی فوراً ہی چوکنا ہوجاتا ہے، اور جوابی کارروائی شروع کردیتا ہے۔ جب کہ لوپروفائل میں فریق ثانی کام کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ اس بنا پر اس کونظر انداز کرتا رہتا ہے۔
اس طریقِ کار کے لیے حدیثِ رسول میں ایک حوالہ موجود ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کی فتح کا ارادہ کیا تو آپ نے اس معاملے میں بہت زیادہ لوپروفائل سے کام لیا۔ سیرت ابنِ ہشام میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وأمر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بالجہاز، وأمر أہلہ أن یجہزوہ،فدخل أبو بکر على ابنتہ عائشة رضی اللہ عنہا، وہی تحرک بعض جہاز رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقال:أی بنیة:أأمرکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أن تجہزوہ؟ قالت:نعم، فتجہز، قال:فأین ترینہ یرید؟ قالت:(لا) واللہ ما أدری. ثم إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أعلم الناس أنہ سائر إلى مکة، وأمرہم بالجد والتہیؤ، وقال: اللہم خذ العیون والأخبار عن قریش حتى نبغتہا فی بلادہا(سیرت ابن ہشام، 2/397)۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے تیاری کا حکم دیا۔ اور اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ اس کے سفر کی تیاری کا کام کرے۔ جب ابو بکر اپنی بیٹی عائشہ کے پاس آئے ، اس وقت وہ رسول اللہ کے سفر کی کچھ تیاری کا کام کر رہی تھیں، تو پوچھا: بیٹی رسول اللہ نےکسی سفر کی تیاری کا حکم دیا ہے۔ عائشہ نے کہا: ہاں، سامان سفر کی تیار کرنے کا ۔ ابوبکر نے پوچھا، تمھارے خیال سے کہاں کا ارادہ ہے۔ عائشہ نے کہا، اللہ کی قسم مجھےنہیں معلوم۔ پھر رسول اللہ نے لوگوں کو خبر دیا کہ وہ مکہ کی طرف کوچ کرنے والے ہیں، اور ان کو تیاری کا حکم دیا۔ اس وقت یہ دعا کی: اللہ ، تو قریش کی آنکھوں اور خبروں کو روک دے۔ یہاں تک کہ تو ہم کو ان کےشہر میں پہنچا دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کام کا ایک طریقہ شور و غل کے ساتھ کام کرنا ہے، اور دوسراطریقہ ہے حکیمانہ طریقہ۔ شور و غل کے ساتھ کام کرنا نبی کا طریقہ نہیں۔ نبی کا طریقہ وہ ہے، جس میں خاموش تدبیر کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ کامیابی ہمیشہ خاموش تدبیر والے کام میں ہوتی ہے، نہ کہ شور و غل والے طریقے میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر بیک وقت دو آزادانہ نظام قائم ہیں— انا (ego)، اور دوسرا ضمیر (conscience)۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ انسان کے اندر انا (ایگو) کا نظام پوری طرح آزاد ہے، اور آزادی کے تحت وہ خود جیسا چاہے ، اس کے مطابق، فیصلہ لے سکتا ہے،یعنی صحیح بھی اور غلط بھی۔ لیکن ضمیر کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے کنٹرول کا نظام بالکل الگ ہے۔ ضمیر اگرچہ انسان کی شخصیت کا ایک حصہ ہے، اوراپنے عمل میں وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان اگر اپنی زندگی میں صحیح راستہ اختیار کرے، تو ضمیر خاموش زبان میں اس کی تصدیق کرتا ہے، اور اگر انسان غلط راستے پر چل پڑے تو ضمیر فوراً اس کو وارننگ دیتا ہے کہ تم غلط راستے پر چل پڑے ہو، اور غلط راستے پر چلنے کا انجام اس سے مختلف ہوگا، جو صحیح راستے پر چلنے کا ہوتا ہے۔ ضمیر کا نظام گویا ایک غیبی آواز ہے، جو بر وقت انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتاہے۔
واپس اوپر جائیں
عباسی دور میں فقہ کی تدوین ہوئی۔صحابہ کے دوراور تابعین کے دور میں عام طور پر مبنی بر اسپرٹ دین کا تصور پایا جاتا تھا، لیکن فقہاء کے دورمیں بعض اسباب سے مبنی بر فارم دین کا تصور عام ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس بارے میں لوگ غلو (انتہا پسندی) کی حد تک پہنچ گئے۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین میں اصل اہمیت اسپرٹ کی ہوتی تھی۔ اس بنا پر اس زمانے میں جزئی نوعیت کے طریق عبادت میں تنوع کا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ تصور اس حدیث پر مبنی تھا:أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ فَبِأَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1684) ۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں،تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے، ہدایت پر رہوگے۔
لیکن بعد کے زمانے میں جب کہ طریقِ عبادت میں تعدد کا ذہن ختم ہوگیا، اور فارم میں توحد پر زور دیا جانے لگاتو اس قسم کا ذہن ختم ہوگیا۔ مگر یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ کیوں کہ اس روایت کے علاوہ بھی ایسی صحیح روایتیں ہیں، جس میں تعدد کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے زمانے میں ایک صحابی کا بلند آواز سے کہنا :رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے جزئی طریقوں میں اسپرٹ اصل ہے۔ اس معاملے میں اگر اسپرٹ کو اصل مانا جائے تو اپنے آپ فرقہ بندی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر عبادت کے جزئی طریقوں میں فارم پر زور دیا جانے لگے تو فرقہ بندی کا دروازہ کھل جاتا ہے، جو کبھی بند نہیں ہوتا۔ عہدِ رسالت میں عبادت کا صرف ایک تصور پایا جاتا تھا، وہ ہے مبنی بر اسپرٹ عبادت۔ مبنی بر فارم عبادت کا تصور بعد کے زمانے میں پیدا ہوا، اور پھر تاریخ میں عام ہوگیا۔ تاہم مبنی بر اسپرٹ عبادت ہی اصل عبادت ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میں ہوئی۔ 610ء میں آپ کو نبوت ملی۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس استثنائی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اِس موضوع کی تفصیل کے لیے ایک مکمل کتاب درکار ہے۔ یہاں آپ کی استثنائی شخصیت کے چند پہلو مختصر طورپر درج کیے جاتے ہیں:
اظہارِ دین
قرآن کی سورہ الفتح میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس انقلابی صفت کا اعتراف مختلف مورخین نے کھلے طورپر کیا ہے۔ فرانس کا مورخ ہنری پرین (Henri Pirenne) 1862 میں پیدا ہوا، اور 1935 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اسلام اور پیغمبر ِاسلام کے موضوع پر کئی کتابیں شائع کی ہیں۔ اُس نے لکھا ہے کہ — اسلام نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس کے بعد روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ ہوگیا:
It (Islam) had sufficed to change the face of the globe. Wherever it had passed the ancient States, which were deeply rooted in the centuries, were overturned as by a cyclone; the traditional order of history was overthrown. (Henri Pirenne: A History of Europe, London, 1939, p.
کارِ نبوت کا تسلسل
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو انقلاب آیا، اُس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر کے بغیر کارِ نبوت کا تسلسل جاری رہے۔ پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا ہوتا تھاکہ پیغمبر پر نازل ہونے والی وحی پیغمبر کے بعد محفوظ نہیں رہتی تھی، اِس لیے بار بار خدا کی طرف سے پیغمبر بھیجے جاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کے ذریعے یہ ہوا کہ آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی (قرآن) پوری طرح محفوظ ہوگئی۔ آپ کی زندگی بھی تاریخی طورپر مدوّن ہوگئی۔ اِس لیے آپ کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص جو گہرے طورپر پیغمبر کے مشن سے اپنے آپ کو وابستہ کرے، وہ اپنے زمانے میں پیغمبر کا نمائندہ بن جائے۔
یہی بات حدیثِ رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682)۔یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: عُلَمَاءُ أُمَّتِی کَأَنْبِیَاءِ بَنِی إِسْرَائِیلَ(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر
پیغمبرِ اسلام صلی للہ علیہ وسلم کے ذریعے دینِ خداوندی کے تمام اجزا محفوظ ہوگئے، جو دین پہلے زندہ شخصیتوں کی سطح پر ہوتا تھا، وہ اب مستند کتابوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا، اِس طرح امت کی بعد کی نسلوں میں اٹھنے والے افراد کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ کارِ نبوت کا تسلسل دوبارہ زندہ حالت میں جاری کرسکیں:
Without being a prophet, one can play the prophetic role.
خالق کا تخلیقی پلان
یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ جانے کہ پیدا کرنےوالے نے اُس کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اُس کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ اس کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا۔ ہر عورت اور مرد اِس سوال سے لازمی طور پر دوچار ہوتے ہیں، خواہ شعوری طورپر یا غیر شعوری طورپر۔
اِس سوال کا معتبر جواب صرف خالق دے سکتا ہے۔ یہ صرف خالق ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ انسان اور کائنات کو پیدا کرنے سے اُس کا منصوبۂ تخلیق(creation plan) کیا ہے۔ قرآن اور پیغمبرقرآن کے ذریعے خدا نے اِس سوال کا معتبر جواب فراہم کیا ہے۔اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے:
It became possible for everyone to know the creation plan of God.
پہلے زمانے میں حنفاء ہوا کرتے تھے، یعنی متلاشیٔ حق۔پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی شخص اپنی تلاشِ حق کو دریافت ِحق بناسکے:
Truth-seekers no longer need to live in bewilderment.
نشانیوں کا ظہور
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں بعد کی تاریخ کے لیے ایک پیشین گوئی اِن الفاظ میں آئی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ(
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، انھوںنے خرقِ عادت معجزے دکھائے۔ یہ معجزے اُن کے معاصرین کے لیے اُن کے پیغمبر ہونے کی دلیل تھے۔ حسّی معجزہ معاصرین کے لیے دلیل ہوتا ہے، بعد کے لوگوں کے لیے وہ دلیل نہیں ہوتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری پیغمبر تھے، یعنی قیامت تک کے لیے پیغمبر۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے پیغام کی پیغام رسانی اہلِ عالم کے لیے جاری رہے گی۔
یہ کام اِس طرح انجام پایا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے تاریخ میں ایک ایسا عمل جاری ہوا جس کے نتیجے میں فطرت کے قوانین دریافت ہوئے۔ یہ قوانین ِ فطرت معجزہ کا بدل بن گئے۔ اِن قوانین کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ بعد کے زمانے میں سائنسی دلائل کی طاقت سے وہ دعوتی کام انجام دیا جاسکے جو پہلے معجزہ کی طاقت سے انجام دیا جاتا تھا، گویا کہ پیغمبر اسلام سے پہلے دعوت بذریعہ معجزہ (dawah through miracle)کا زمانہ تھا۔ اور اب دعوت بذریعہ علمی دلائل (dawah through scientific argument) کا زمانہ ہے۔
قرآن کی سورہ الاسراء میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ: عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(
Muhammad was born within the full light of history.
حقیقت یہ ہے کہ نبیٔ محمود سے مرادنبیٔ معتَرَف(acknowledged Prophet) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں آپ کو اتنا کم سمجھا گیا کہ مکہ کے مخالفین آپ کو مذمّم (condemned person) کہنے لگے۔ لیکن آخر کار تاریخ آپ کے موافق ہوگئی۔ عام طور پر مؤرخین اور مبصرین آپ کی عظمت کا اعتراف کرنے لگے۔اِن میں سے ایک مثال امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ(Michael H. Hart) کی ہے۔ انھوں نے تمام دنیا کی مشہور شخصیتوں کا مطالعہ کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ اُس کا عنوان ایک سو (The Hundred) ہے۔ اِس کتاب میں پوری انسانی تاریخ کی ایک سو بڑی شخصیتوں کا تذکرہ ہے۔ مصنف نے اِس کتاب میں پیغمبر اسلام کو اِس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ انھوںنے لکھا ہے — محمد تاریخ کے پہلے شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
He [Mohammad] was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels (Michael H, Hart: The 100, Carol, 1993, p. 3).
اخوانِ رسول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قول میں یہ پیشین گوئی کی کہ بعد کے زمانے میں آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوانِ رسول قرار پائیں گے(صحیح مسلم، حدیث نمبر
Ikhwan-e-Rasool are those who share Sahaba-like experiences due to their deep realization.
پچھلے پیغمبروں کے یہاں صرف اصحاب (Companions) ہوا کرتے تھے۔ یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی استثنائی صفت ہے کہ آپ کی امت میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جو اخوان (brothers) کا درجہ پائیں گے۔ ایسا صرف اِس لیے ممکن ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے بعد خدا کا دین نظریہ اور عمل دونوں اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔
خاتم النبیین
قرآن کی سورہ الاحزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے متعدد پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ نبوت اب شخصی عمل کے طور پر باقی نہ رہی، البتہ کارِ نبوت اب دعوتی عمل کے طورپر مسلسل جاری ہے۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک استثنائی صفت ہے۔ دوسرے پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ پیغمبر کا نام لینے والوں کا ایک گروہ تو ضرور باقی رہا، لیکن پیغمبر کی حقیقی دعوت کسی تبدیلی کے بغیر اپنی اصل صورت میں جاری رہنے کا امکان ختم ہوگیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ ہوا کہ ایک نیا دورِ دعوت وجود میں آیا، وہ تھا — براہِ راست پیغمبر کی ذات کے ذریعے دعوت کے دورکا خاتمہ، اور پیغمبر کے ماننے والوں کے ذریعے دعوت کے دور کا آغاز:
End of Dawah through the Prophet, beginning of Dawah through the followers of the Prophet, continuation of prophetic role through the followers of the Prophet.
فتحِ مبین
قرآن کی سورہ نمبر
تاریخ کے مطابق، معاہدۂ حدیبیہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معاہدہ بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلے میں شکست کا واقعہ تھا، نہ کہ فتح کا واقعہ۔ اِس کے باوجود قرآن میں کیوں اُس کو فتح ِ مبین کہاگیا ۔ ایسا اِس لیے ہوا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد دعوت کے تمام مواقع کھل گئے۔ یہ مواقع اتنے غیر معمولی تھے کہ معاہدے کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کی تعداد پانچ گنا زیادہ ہوگئی۔ اور جنگ کے بغیر صرف زیادہ تعداد فیصلے کے لیے کافی ہوگئی۔
حدیبیہ دراصل ایک عظیم پالیسی کا نام ہے۔ یہ پالیسی تاریخ میں پہلی بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو بتائی، یعنی حالتِ موجودہ کو مان کر ٹکراؤ ختم کردو، تاکہ مواقع (opportunities) کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے:
Hudaybiyah means the policy of positive status quoism. And positive status quoism is the key to super achievement.
صلح بہتر ہے
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: الصُّلْحُ خَیْرٌ(
Peace is the most successful policy.
فلاسفہ اور مفکرین ہمیشہ امن کی بات کرتے رہے ہیں۔ امن کے مطالعے کے لیے ایک مستقل شعبۂ علم وضع ہوا ہے جس کو پیسفزم (pacifism) کہا جاتاہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے ایک مکمل نظریۂ امن (ideology of peace) دنیا کو دیا۔ اِس اعتبار سے آپ کو پیغمبر امن (prophet of peace) کہا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی (مسند احمد، حدیث نمبر 22288)۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میںپیغمبر اسلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے لیے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلمّہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تاریخ کے سب سے بڑے انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہ نُما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (الاحزاب،
میری کتاب ’پیغمبرِ انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(
بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں، جن کو صلیبی جنگ (Crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات1881) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب آن ہیرو، ہیروورشپ ہے:
On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History (James Fraser, London, 1841)
اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔ اس کتاب کا متعلق باب یہ ہے:
The Hero as a Prophet. Mahomet: Islam
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں۔ اِن کتابوں کے اندر انسانی تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات1954) کی کتاب (Historical Role of Islam) 1939 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبرِ اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوںنے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الاسراء،
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے، اِس کے بعد کسی نئے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں
عقل (reason) کیا ہے۔ عقل خالق کا ایک قیمتی عطیہ ہے۔ حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالی نے عقل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا — میں نے کوئی مخلوق نہیں پیدا کی— جو میرے نزدیک تم سے زیادہ افضل ہو(مَا خلقت خلقا...أکْرم عَلیّ مِنْک)نوادر الاصول،الحکیم الترمذی، جلد 2، صفحہ
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے تمام کمالات کا انحصار عقل پر اور عقل کے استعمال پر ہے۔ عقل کے بغیر کوئی بھی انسانی ترقی ممکن نہیں۔عقل نہ ہو تو انسان پتھر کے ایک اسٹیچو کی مانند ہوجائے گا۔ وہ نہ حق کو حق سمجھ سکے گا اور نہ باطل کو باطل۔عقل بذاتِ خود معیار (criterion) نہیں ہے۔ عقل، فہم وادراک کی صلاحیت (ability) ہے۔ عقل کی حیثیت آلہ یا فیکلٹی (faculty) کی ہے، عقل کی حیثیت مستقل بالذات جج کی نہیں۔ عقل، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے کی استعداد کا نام ہے:
Reason: The intellectual faculty by which conclusions are drawn from premises.
عقل اور وحی (revelation) کو ایک دوسرے کا حریف بتانا بلاشبہ ایک غلطی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے، جب کہ عقل بذاتِ خود کوئی ذریعۂ علم نہیں۔ خود وحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرتاہے تو وہ بھی یہی کرتاہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اُس پر غور کرتاہے اور پھر یقین کے درجے میں پہنچ کر وہ وحی کی صداقت کو دریافت کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عقل، وحی کی مددگار ہے، نہ کہ وحی کی مدِّ مقابل۔
عقل، خالق کی دی ہوئی ایک فطری صلاحیت ہے، عقل کسی کی ذاتی ایجاد نہیں۔ اِس معاملے میں غلطی کا آغاز یہاں سے ہوا کہ دوسری تمام چیزوں کی طرح عقل کے معاملے میں بھی کچھ لوگوں نے عقل کا غلو آمیز تصور (extreme version) پیش کیا۔ انھوں نے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کرتےہوئے خود ساختہ طورپر یہ دعوی کیا کہ عقل بذاتِ خود حصولِ علم کا معیاری ذریعہ ہے۔ مذہبی طبقے نے اِس تصورِ عقل کو درست سمجھ لیا اور وہ غیر ضروری طورپر عقل یا عقلی غوروفکر کو مذہب کا مخالف سمجھنے لگے اور وہ اِس طرح کی غیرعلمی باتیں کرنے لگے —عقل کا دائرہ الگ ہے اور وحی کا دائرہ الگ۔ عقل کا دائرہ وہاں پر ختم ہوجاتاہے، جہاں سے وحی کا آغاز ہوتاہے، وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ عقل الگ ہے اور عقل پرستی الگ۔
قرآن میں ’عقل‘کا مادّہ (root word)تقریباً 50 بار استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں بار بار عقل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ اپنی عقل کے ذریعے وحی کی صداقت کو دریافت کرو۔ مثال کے طور پر قرآن کی سورہ یوسف میں یہ آیت آئی ہے:إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (
We have sent down the Quran in Arabic, so that you may understand (by applying reason).
اِسی طرح قرآن میں بتایاگیا ہے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے نبوت کی صداقت کو دریافت کرو(یونس،
عقل انسان کو اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ ڈاٹا (data) جمع کرے، اور پھر حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے صحیح علم تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ تاہم عقل بذاتِ خود علم کا ذریعہ نہیں، اِس لیے عقل صحیح فیصلہ تک بھی پہنچ سکتی ہے اور غلط فیصلے تک بھی۔ جو لوگ عقل کو بذاتِ خود علم کا ذریعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل عقلی مدرسۂ فکر (school of thought) کے انتہا پسند (extremists) لوگ ہیں۔ ایسے انتہا پسند لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، حتی کہ خود مذہب اور عقیدے کے دائرے میں بھی۔
واپس اوپر جائیں
امیرشکیب ارسلان (1946-1869) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غیرہم (مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے اور ان کے سوا دوسرے کیوں آگے ہوگئے) یہ کتاب 50 سال پہلے چھپی تھی ۔ اس کے بعد میں نے ایک عربی مجلہ رابطة العالم الاسلامی (اپریل 1985) میںایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کا عنوان دوبارہ حسب ذیل الفاظ میں قائم کیاگیا تھا:
لما ذا تأخرنا وتقدم غیرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان پچھلی نصف صدی سے ایک ہی سوال سے دوچار ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہم جدید دور میں دوسری قوموں سے کیوں پیچھے ہوگئے۔ اور دوسری قومیں ہم سے آگے کیوں نکل گئیں۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ اسی نصف صدی کے اندر جاپان ایٹمی بربادی کے کھنڈر سے ابھرا اور ترقی کی انتہا پر پہونچ گیا۔ چنانچہ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک:
Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ انجام کسی موہوم سبب کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ معلوم خدائی قانون کی بنا پر ہے۔ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں ترقی اور استحکام نصیب ہو، اور جو گروہ نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے اس کو ہمیشہ کے لیے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ قدیم زمانہ کے مسلمان اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بنے ہوئے تھے اس لیے قدیم زمانہ میں انھیں عظمت حاصل ہوئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان بے نفع ہوگئے۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں انھیں کوئی عظمت حاصل نہ ہوسکی۔عروج وزوال کا یہ اصول قرآن کی حسبِ ذیل آیت میں واضح طورپر موجود ہے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے لیے اللہ تعالی کا قانون کیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں بقا اور استحکام ملے۔ اور جو گروہ اپنی نفع بخشی کھو دے وہ یہاں بے قیمت ہو کر رہ جائے۔
اس عالمی قانون کو ایک طرف کتابِ الٰہی میں لفظی طور پر بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف مادی دنیا میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سورۂ رعد کی مذکورہ آیت میں اس نوعیت کی دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک مثال بارش کی ہے۔ بارش ہوتی ہے اور اس سے نالے بھرتے ہیں تو جھاگ اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ جھاگ تو ہوا میں اڑ جاتا ہے اور جو چیز اس میں نفع بخش ہے وہ باقی رہتی ہے، یعنی پانی۔
دوسری مثال دھات کی ہے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس کا میل کچیل اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر بہت جلد یہ وقتی منظر ختم ہوجاتا ہے اور جو اصل قیمتی دھات ہے وہ اپنی جگہ باقی رہ جاتی ہے۔
دورِ اول کی مثال
دورِ قدیم میں اسلام کو غیر معمولی عظمت ملی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام کو آباد دنیا کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسلام کو یہ عظیم حیثیت اتفاقاً نہیں ملی اور نہ مطالبات کے ذریعہ اس کو یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ قدرت کا وہی ابدی قانون تھا جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی نفع بخشی اور فیض رسانی۔
دنیا کو اسلام سے جو کچھ ملا، اس کے بہت سے پہلو ہیں۔اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام نے دنیا کو توہمات (superstitions) کے دور سے نکالا اور اس کو پہلی بار سائنس کے دور میں داخل کیا۔
آج کی دنیا جس چیز کو اپنے لیے سب سے بڑی نعمت سمجھتی ہے وہ سائنس ہے۔ اور تمام محققین اور منصف مورخین نےتسلیم کیا ہے کہ یہ دراصل اسلام ہے جس نے سائنس کے دور کو پیدا کیا۔ یہاں ہم صرف ایک مغربی مصنف مسٹر بریفالٹ کا قول نقل کریں گے۔ وہ اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ اگر چہ یورپی ترقی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی تہذیب کی فعال اثر انگیزی دیکھی نہ جاسکتی ہو۔ مگر وہ سب سے زیادہ واضح اس قوت کی پیدائش میں ہے جو جدید دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اسپرٹ۔ ہماری سائنس پر عربوں کا قرض انقلابی نظریات کی دریافت کی حد تک نہیں ہے۔ سائنس اس سے کہیں زیادہ عرب تہذیب کی احسان مند ہے، وہ خود اپنےوجود کے لیے اس کی مرہون منت ہے:
For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the permanent distinctive force of the modern world, and the supreme source of its victory -natural science and the scientific spirit... The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault: Making of Humanity, London, 1919, pp. 190-91)
یہ ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں تمام دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ تمام قومیں بے شمار دیوتاؤں کو پوجتی ہیں۔ ہندستانی روایات کے مطابق ان کی تعداد
A widespread phenomenon in religions is the identification of natural forces and objects as divinities. It is convenient to classify them as celestial, atmospheric, and earthly. This classification itself is explicitly recognized in Indo-Aryan religions: Surya, the sun god, is celestial; Indra, associated with storms, rain, and battles, is atmospheric; and Agni, the fire god, operates primarily at the earthly level (14/785)
اسلام سے پہلے انسان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ سورج اور چاند سے لے کر دریا اور پہاڑ تک ہر چیز کے آگے جھکتا تھا۔ درختوں میں اس نے درخت خدا (plant deities)اور جانوروں میں اس نے جانور خدا (animal deities) بنا رکھے تھے۔ دنیا کی تمام چیزیں معبود بنی ہوئی تھیں۔ اور انسان ان کا عبادت گزار۔ اس طرح انسان نے اپنی عظمت کھو دی تھی۔ اسلام کے ذریعہ تاریخ میں جو انقلاب آیا اس نے پہلی بار انسان کو اس کی عظمت عطا کی۔
شرک (بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کی پرستش) کا رواج قدیم زمانہ میں سائنسی ترقیوں میں رکاوٹ بناہوا تھا۔ انسان فطرت کے مظاہر کو معبود سمجھ کر انھیں تقدس کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس لیے اس کے اندر یہ جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ وہ ان مظاہر کی تحقیق کرے اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعما ل کرے۔ فطرت کے مظاہر جب پرستش کاموضوع بنے ہوئے ہوں تو اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع نہیں بن سکتے۔ یہ بنیادی سبب تھا جو طبیعی سائنس کا دور شروع ہونے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام نے تاریخ میں پہلی بار اس سبب کو ختم کیا، اس لیے اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ طبیعی سائنس کا دور شروع ہوا ور بالآخر اس حد کو پہنچا جہاں ہم آج اس کو دیکھ رہے ہیں۔
آرنلڈ ٹوائن بی نے بجاطورپر لکھا ہے کہ یہ در اصل توحید(Monotheism) کا عقیدہ ہے جس نے جدید سائنس اور صنعتی دور کو پیدا کیا۔ کیوں کہ توحید کے انقلاب سے پہلے دنیا میں عملی طورپر شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کے عقیدہ کے تحت آدمی فطرت (Nature) کو پوجنے کی چیز سمجھے ہوئے تھا۔ پھر وہ اس کو تحقیق و تسخیر کی چیز کیسے سمجھتا۔ جب کہ فطرت کو تحقیق اور تسخیر کی چیز سمجھنے کے بعد ہی اس علم کا آغاز ہوتا ہے جس کو طبیعی سائنس کہتے ہیں۔
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین وآسمان کی نشانیوں (مظاہر فطرت) پر غور کرو۔ قرآن میں اس قسم کی سات سو آیتیں شمار کی گئی ہیں جن میں مظاہر فطرت پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اگر بالواسطہ آیتوں کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جائے گی۔ یہ معلوم انسانی تاریخ میں بالکل نئی آواز تھی۔ کیوں کہ اس سے پہلے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مظا\ہر فطرت کو پوجے۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہزاروں برس سے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ مظاہر فطرت پوجنے کی چیزہیں، وہاں قرآن نے یہ آواز بلند کی کہ مظاہر فطرت اس لیے ہیں کہ ان پر غور کیا جائے، اور ان میں چھپی ہوئی حکمتوں کو دریافت کیا جائے۔
اسلام کا یہ پیغام صرف پیغام نہ رہا بلکہ سو سال کےاندر ہی وہ ایک عالمی انقلاب بن گیا۔ اس نے اولاً عرب کے دل ودماغ کو فتح کیا۔ پھر وہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ تک پہنچ گیا۔ اس نے عرب کے بُت خانے ختم کردیئے۔ ایرانی اوررومی شہنشاہتیں اس زمانہ میں شرک کی سب سے بڑی سرپرست تھیں، دونوں کو اسلام نے مغلوب کرلیا اور توحید کا غلبہ تقریباً پوری آباد دنیا میں قائم کردیا۔
اسلام کی اس نفع بخشی کو تمام منصف مزاج مورخین نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں ہم انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کرتے ہیں:
Islamic culture is the most relevant to European science. There was active cultural contact between Arabic-speaking lands and Latin Europe. Conquests by the Prophet's followers began in the 7th century, and, by the 10th, Arabic was the literate language of nations stretching from Persia to Spain. Arabic conquerors generally brought peace and prosperity to the countries they settled (16/368)
اسلامی تہذیب کا تعلق یورپی سائنس سے بہت زیادہ ہے۔ عربی زبان بولنے والے علاقوں اور لاتینی یورپ کےدرمیان نہایت گہرا ربط قائم تھا۔ پیغمبر کے پیروؤں کی فتوحات ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئیں۔ اور دسویں صدی تک یہ حال ہوگیا کہ عربی زبان ایران سے لے کر اسپین تک کی تمام قوموں کی علمی زبان بن گئی۔ عرب فاتحین جہاں گئے وہاں عام طورپر وہ امن اور خوش حالی لے گئے۔ قرآن کے ذریعہ عالمی سطح پر جو فکری انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار نئی قسم کی سرگرمیاں شروع کردیں۔ انسان نے اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پایا جو پوجنے کی چیز نہیں بلکہ برتنے کی چیز تھی، جس کا وہ تابع نہ تھا بلکہ وہ اس کے لیے مسخر کی گئی تھی کہ وہ اس کو اپنا تابع بنائے۔ چنانچہ اسلام کے عظیم الشان اعتقادی انقلاب کے ساتھ ایک عظیم الشان علمی اور ذہنی انقلاب بھی شروع ہوگیا۔ اسلام کے ماننےوالوں نے جب ایک قادر مطلق خدا کو پایا تو اسی کے ساتھ انھوںنے دوسری تمام چیزوں کو بھی پالیا۔ انھوں نے ہر میدان میں ترقیاں شروع کردیں۔ ان سے دنیا کو وہ چیزیں ملنے لگیں جو ابھی تک اس کو نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ اس دور میں پیداہونے والی جتنی بھی قابلِ ذکر ترقیاں ہیں ان کامطالعہ کیجیے تو ہر ترقی کے پیچھے کسی نہ کسی مسلمان کا ہاتھ کام کرتا نظر آئے گا۔
چند تاریخی حوالے
توحید اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔توحید کو اختیار کرنے کی وجہ سے دورِ اول کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ دنیا والوں کے درمیان ایک ایسی برادری بن کر ابھریں جن کا ہر طرف استقبال کیا جائے اور جن سے دنیا والوں کو ہر قسم کا نفع حاصل ہو۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں چند مثالیں درج کریں گے۔
1۔ اسلامی انقلاب کے بعد کئی سو سال ایسے گزرے ہیں جب مسلمان ساری دنیا میں علمِ طب کے امام تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ مسلم اطباء سے رجوع کرتے تھے، اور طب میں مسلمانوں کی تصنیفات ہر جگہ فن طب کا ماخذ بنی ہوئی تھیں۔ یورپ کا سب سے پہلا میڈیکل کالج سارنو (اٹلی) میں قائم ہوا۔ یہ میڈیکل کالج گیارھویں صدی عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کا نصاب بڑی حد تک ان طبی کتابوں پر مشتمل تھا جو عربی زبان سے لاتینی زبان میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا (1984) نے اس کے تذکرہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی نے عربی سے لاتینی میں کتابوں کے ترجمہ کا ایک ہیرووانہ پروگرام دیکھا۔یہ بات بہت اہم ہے کہ یورپ کا ابتدائی طبی اسکول جو سلرنو میں قائم ہوا اور دوسرا جو مانٹ پیلیر میں قائم ہوا، دونوں عربی اور یہودی ماخذوں سے بہت قریب تھے:
The 12th Century saw a heroic program of translation of works from Arabic to Latin. It is significant that the earliest medical school in Europe was at Salerno and that it was later rivaled by Montpellier, also close to Arabic and Jewish sources (16/368)
پروفیسر ہٹی نےاس سلسلہ میں مزید تفصیل بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ الزہراوی کی کتاب (التصریف لمن اعجز عن التالیف) کا سرجری سے متعلق حصہ گیرارڈ آف کریمونا نے عربی سے لاتینی میں ترجمہ کیا۔ یورپ میںاس کے مختلف ایڈیشن چھپے۔ وینس میں 1497 میں، بیسل میں 1541 میں، آکسفورڈ میں 1778 میں۔ یہ ترجمہ صدیوں تک سلرنو اور مانٹ پیلیر اور دوسرے یورپی طبی اداروں میں نصابِ تعلیم کا جز بنا رہا:
This surgical part was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497, at Basel in 1541 and at Oxford in 1778. It held its place for centuries as the manual of surgery in Salerno, Montpellier and other early schools of medicine
(P. K. Hitti, History of the Arabs. 1979, p.
آج آپ جدید طرز کے کسی اسپتال یاکسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہر چیز آپ کو مغربی تہذیب کا عطیہ نظر آئے گی۔ مگر چند سو سال پہلے یہ حال تھا کہ آپ وقت کے کسی معیاری اسپتال یا کسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہرچیز اسلامی تہذیب کا عطیہ نظر آتی تھی۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو مسلمانوں کے ماضی اوران کے حال میں پیدا ہوگیا ہے۔
2۔ جغرافیہ ایک بے حد اہم سائنس ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے بے شمار شعبوں سےہے۔ دور اول کے مسلمانوں نے اس فن میں بھی کمال پیدا کیا۔ مثال کے طورپر الادریسی اپنے زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا جغرافی عالم تھا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے اس کی بابت حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
The most distinguished geographer of the Middle Ages.
یعنی قرونِ وسطی کا سب سے زیادہ ممتاز جغرافیہ داں۔ الادریسی کے زمانہ میں راجر دوم سسلی کا بادشاہ تھا۔ اس کو ایک جغرافی نقشہ کی ضرورت ہوئی تو اس کو یہ نقشہ جس نے بنا کردیا وہ یہی الادریسی تھا۔ فلپ ہٹی نے مزید لکھاہے:
The most brilliant geographical author and cartographer of the twelfth century, indeed of all medieval time, was al-Idrisi, a descendant of a Spanish Arab family who got his education in Spain. (P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p.
بارھویں صدی عیسوی کا سب سے زیادہ باکمال جغرافی مصنف اور نقشہ نویس، بلکہ پورے قرونِ وسطی کا سب سے بڑا جغرافی عالم بلاشبہ الادریسی تھا۔ وہ اسپین کے ایک اعلی عرب خاندان میں پیدا ہوا، اور اس کی تعلیم اسپین میں ہوئی۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ الادریسی نے 1154ء میں سسلی کے مسیحی حکمراں (راجر دوم) کے لیے ایک عالمی نقشہ بنایا۔ اس میں ایشیائی علاقوں کی زیادہ بہتر معلومات دی گئی تھیں جو اس وقت تک ابھی انسان کو حاصل نہ ہوئی تھیں:
Al-Idrisi constructed a world map in AD 1154 for the Christian king Roger of Sicily, showing better information on Asian areas than had been available theretofore. (11/472)
موجودہ زمانہ میں مسلم ملکوں میں مغرب کے ماہرین (experts) بھرے ہوئے ہیں۔ مگر ایک وقت تھا جب کہ مسلمان ہر شعبہ کے ماہرین دنیا کو فراہم کررہے تھے۔ آج مسلمان دنیا والوں سے لے رہے ہیں، مگر چند سال پہلے یہ حال تھا کہ مسلمان دنیا کو دینے والے بنےہوئے تھے۔ کیسا عجیب فرق ہے ماضی میںاور حال میں۔
3۔ آج مسلم ملکوں کے نوٹ اور سکے مغربی ممالک تیار کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلم ملک خود اپنا سکہ یا نوٹ تیار کرتاہے تو اس کے لیے بھی وہ مغربی ٹکنالوجی کا مرہون منت ہے۔ مگر ایک وقت تھا کہ یہ مقام خود مسلمانوں کو عالمی سطح پر حاصل تھا۔
پروفیسر ایچ. ڈبلیو . سی . ڈیوس(H.W.C. Davis) نے اپنی کتاب قرونِ وسطی کا انگلستان (Medieval England) میں انگلستان کےایک قدیم سنہرے سکہ کی تصویر اس کے دونوں رخ سے چھاپی ہے۔ یہ سکہ برٹش میوزیم میں رکھاہوا ہے۔ تصویر میں واضح طورپر نظر آرہاہے کہ سکہ کے ایک طرف عربی رسم الخط میں کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف اس وقت کے انگلستان کے بادشاہ اوفاریکس (Offa Rex) کا نام کندہ ہے۔ اسی کے ساتھ سکہ پر بغداد کے مسلمان سکہ گر کانام بھی درج ہے۔ سکہ کی تصویر کے نیچے پروفیسر ڈیوس نے حسب ذیل الفاظ لکھےہیں:
Anglo-Saxon gold coin imitating an Arab Dinar of the year 774.
یعنی قدیم انگلستان کا سونے کا سکہ جو
2۔ واسکوڈی گاما (1524-1469) ایک پرتگالی ملاح تھا۔ اس کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے 1497 میں ہندستان اور یورپ کے درمیان سمندری راستہ دریافت کیا جو کیپ آف گڈہوپ ہو کر جاتا تھا۔ مگر یہ عظیم کامیابی اس کو ایک عرب ملاح احمد بن ماجد کے ذریعہ حاصل ہوئی اس کی بابت انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) نے حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
Vasco da Gama's Arab pilot, Ahmad ibn Majid (7/862)
یعنی واسکوڈی گاما کا عرب جہاز راں احمد بن ماجد۔ برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ واسکوڈی گاما جب پرتگال سے چل کر افریقہ پہنچا تو وہاںموزنبیق کے سلطان نے واسکوڈی گاما کو دو مسلم ملّاح دیئے۔ ان میں سے ایک اس وقت بھاگ گیا جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ پرتگالی مسیحی مذہب کے ہیں:
The Sultan of Mozambique supplied da Gama two (Muslim) pilots, one of whom deserted when he discovered that the Portuguese were Christians (7/861)
جس جہاز راں نے واسکوڈی گاما کا ساتھ دیا اس کا نام احمد بن ماجد تھا۔ وہ نہایت ماہر تھا اور سمندری جہاز سے اتنی واقفیت رکھتا تھا کہ اس پر اس نے ایک اہم کتاب لکھی تھی جو مذکورہ سفر کے وقت اس کے ساتھ تھی۔
پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز رانی کےموضوع پر ایک خصوصی کتاب احمد بن ماجد کی ہے جس میں بحری جہاز رانی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ 1498 میں یہی احمد بن ماجد تھا جس نے افریقہ سے ہندستان تک واسکوڈی گاما کی رہنمائی کی:
And exceptional work of major importance is a compendium of theoretical and practical navigation by Ahmad ibn Majid of Najdi ancestry, who, it is claimed, in 1498 piloted Vasco da Gama from Africa to India.
P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p.
5۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آخر میں جو دریافتیں ہوئیں ان میں سے ایک وہ دریافت ہے جس کو نئی دنیا (امریکا) کی دریافت کہاجاتا ہے۔ یہ عظیم دریافت عام طورپر کرسٹوفر (کولمبس 1506-1451) کے نام سے موسوم ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اٹلی کا کولمبس ہی وہ شخص ہے جس نے اس مہم کی رہنمائی کی۔ مگر اس کو یہ تصور دینے والے مسلمان تھے کہ وہ اٹلانٹک سمندر میں اپنی کشتی اس امید میں داخل کرے کہ اس ناپیداکنار سمندر کے دوسری طرف اس کو خشکی ملے گی جہاں وہ اتر سکے۔
پروفیسر ہٹی نے لکھاہے کہ عربوں نے زمین کے گول ہونے کے قدیم نظریہ کو زندہ رکھا ،جس کے بغیر نئی دنیا کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ اس نظریہ کا ایک مبلغ ابو عبیدہ مسلم البلنسی تھا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کا زمانہ دسویں صدی عیسوی کا نصف اول ہے۔ زمین کے گول ہونے کا نظریہ عربی سے لاتینی میں ترجمہ ہو کر 1410ء میں یورپ میں شائع ہوا۔ اس کو پڑھ کر کولمبس نے اس نظریہ سے واقفیت حاصل کی۔ اِس سے اُس نے سمجھا کہ زمین ایک ناشپاتی کی مانند ہے اور یہ کہ زمین کے مغربی نصف کرہ میں بھی ایسا ہی ابھار موجود ہے جیسا کہ اس کے مشرقی نصف کرہ میں نظر آتا ہے۔ پروفیسر ہٹی کے الفاظ یہ ہیں:
They kept alive the ancient doctrine that the earth was round. We have already referred to the Hindu idea that the known hemisphere of the world had a centre or “world cupola” situated at an equal distance from the four cardinal points. This arīn theory found its way into a Latin work published in 1410. From this Columbus acquired the doctrine which made him believe that the earth was shaped in the form of a pear and that on the western hemisphere opposite the arin was a corresponding elevated centre.
P. K. Hitti, History of the Arabs, The Macmillan Press Ltd., London, Tenth Edition 1979, p. 570.
ہمیں کیا کرنا ہے
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرناہے۔ ماضی میں بلاشبہ مسلمانوں نے بہت بڑی بڑی سائنسی خدمات انجام دی تھیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان سائنس اور صنعت کے میدان میں تمام قوموں سے پیچھے ہوگئے ہیں۔ آج وہ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ خالص سائنسی اور صنعتی اعتبار سے اہلِ دنیا کے لیے نفع بخش بن سکیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک صنعتی دور (industrial Age) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ جب کہ بقیہ دنیا الوین ٹافلر کے الفاظ میں، مافوق صنعتی دور (super-industrial Age) میں داخل ہوگئی ہے۔
Alvin Toffler, Future Shock, New York, 1971
مگر امت مسلمہ محفوظ آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ اس نسبت سے وہ خود بھی ایک محفوظ امت ہے۔ اس محفوظیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں مواقع بظاہر ختم ہوجائیں، وہاں بھی اس کے لیے ایک نیا موقع موجود رہتا ہے۔ خدا نےانسانیت کے لیے عام طور پر اور امت مسلمہ کے لیے خاص طورپر یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر ڈس ایڈوانٹج کے ساتھ اس کے لیے ایک ایڈوانٹج ہمیشہ موجود رہے۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:فَإِن معَ الْعُسْرِ یُسْراً إنَّ معَ الْعُسْرِ یُسْراً(
اللہ تعالی کی یہ سنت موجودہ زمانہ میں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہے۔سائنس اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچ کر ایک ایسے سنگین مسئلہ سے دوچار ہے جس کا خود اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ نہ سائنسی طبقہ سے باہر کوئی گروہ ایسا موجود ہے، جو اس مسئلے کا حل اسے دے سکے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو محفوظ آسمانی کتاب کے حامل ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ سائنسی طبقہ کو نیز پوری انسانیت کو اس مسئلہ کےحل کا تحفہ پیش کرسکیں۔
اس معاملہ کی نوعیت سمجھنے کے لیےیہاں میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کروں گا۔ اس کے تاریخ سائنس (History of Science) کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition; and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
ابھی حال تک سائنس کی تاریخ کامیابیوں کی کہانی تھی۔ سائنس کی فتوحات میں یہ شمار ہوتا تھا کہ اس نےانسانی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور جہالت اور توہم پرستی پر فتح حاصل کی ہے۔ سائنس سے ایجادات کا ایک سیلاب نکلا ہے جس نے انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ مگر حال میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے۔ بے قید ٹکنالوجی کے خطرات کی وجہ سے اس کی ترقی پر روک لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یہ صورتِ حال مؤرخین کو چیلنج کررہی ہے کہ وہ ان خیالات کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیں جو ابتدا میں سادہ طورپر قائم کرلیے گئے تھے۔
جدید دنیا کا یہی وہ خلا ہے جہاں مسلمان اپنے نفع بخش ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں، اور اس طرح دوبارہ اپنے لیے سرفرازی کا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھوں نے دنیا میں کھودیا ہے۔
سائنس کی ابتدائی فتوحات نے بہت سے لوگوں کو اتنا زیادہ متاثر کیا کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں سائنس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ سائنس ہماری تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ جولین ہکسلے (1975-1887) نے اس نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی تھی جس کا نام تھا — انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے:
Man Stands Alone
اس کے جواب میں کریسی ماریسن (1946-1884) نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام بامعنی طورپر یہ تھا — انسان تنہا کھڑا نہیں ہوسکتا:
Man Does Not Stand Alone
بیسویں صدی کے نصف اول تک انسان کا یہ دعوی تھا کہ اس کی سائنس اس کے لیے کافی ہے۔ مگر اسی صدی کے نصف ثانی میں انسان کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جو بات کریسی ماریسن جیسے چند مستثنی افراد کہتے تھے، اب وہ عام طورپر لوگوں کی زبانوں سے کہی جارہی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے۔
جدید انسان کی ذہنی حالت کیا ہے، اس کا ایک نمونہ لارڈ بر ٹرینڈرسل (1970-1872) ہے۔ وہ انگلینڈ کے ایک دولت مند خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نےاعلی ترین تعلیم حاصل کی۔ اس کو نوبل انعام ملا جو آج کی دنیا میں سب سے بڑا علمی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس نے مذہب کو چھوڑ دیا اور مادی سائنس میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر بھر پور عمر گزارنے کے باوجود اس کو وہ چیز نہیں ملی جس کو سکون کہاجاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کی طویل خودنوشت سوانح عمری کے آخر میں ہم اس کے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے پاتے ہیں:
The inner failure has made my mental life a perpetual battle (p.
اندرونی ناکامی نے میری ذہنی زندگی کو ایک مستقل جنگ میں مبتلا رکھا۔
گلیلیو اور سائنس
آپ سائنس کی تاریخ کی کسی کتاب میں گلیلیو (1642-1562) کا باب کھول کر دیکھیں تو وہاں آپ کو اس قسم کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے کہ گلیلیو نے مشاہدہ اور تجربہ اور ریاضی کو جس طرح استعمال کیا اس نے جدید سائنس کی بنیاد رکھنے میں مدد دی:
His use of observation, experiment and mathematics helped lay foundation of modern science.
گلیلیو کا خاص کارنامہ کیا ہے۔ گلیلیو کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اس نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد (Dimension) اور وزن (Weight) پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان کو ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ایک لفظ میں یہ کہ اس نے کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا۔
گلیلیو کے اس فعل نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آدمی میٹر کو استعمال کرسکے، بغیر اس کے کہ اس نے میٹر کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی ہوں۔ اس طرح فطرت کو کام میں لانے کا دروازہ کھل گیا۔ ٹکنالوجی کو ترقی ہوئی اور بے شمار نئی نئی چیزیں بننے لگیں جو انسان کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ مگر زیادہ مدّت نہیں گزری کہ انسان کا عدم اطمینان ظاہر ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں سائنس داں یا انجینئر کا معاملہ اس جاہل بڑھئی سے کچھ بھی مختلف نہیں جو لکڑی کو کاٹ کر فرنیچر بناتا ہے، اگرچہ وہ لکڑی کی کیمسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ گلیلیو نے چیزوں کے جس ظاہری پہلو کو الگ کرکے اس کو سائنس کے مطالعہ کا موضوع بنایا تھا، اس کے بارہ میں بھی انسان کی معلومات حد درجہ ناقص ہیں۔ انسان نہ صرف پھول کی ’’خوشبو‘‘سے بے خبر ہے بلکہ پھول کی ’’کیمسٹری‘‘ بھی بہت کم اس کے علم میں آتی ہے۔ ایک چیز جس کو متمدن دنیا کا انسان تین سو سال تک علم سمجھتا رہا وہ بھی آخر کار بے علمی ثابت ہوا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
As is natural when one is trying to ignore a profound cause of unhappiness, I found impersonal reasons for gloom. I had been very full of personal misery in the early years of the century, but at that time I had a more or less Platonic philosophy which enabled me to see beauty in the extra-human universe. Mathematics and the stars consoled me when the human world seemed empty of comfort. But changes in my philosophy have robbed me of such consolations. Solipsism oppressed me, particularly after studying such interpretations of physics as that of Eddington. It seemed that what we had thought of as laws of nature were only linguistic conventions, and that physics was not really concerned with an external world. I do not mean that I quite believed this, but that it became a haunting nightmare, increasingly invading my imagination. (Bertrand Russell, Autobiography, Unwin Paperbacks, London, 1978, pp. 392-93 )
میں نے اپنی اداسی کے کچھ غیر شخصی اسباب پالیے جیسا کہ عام طورپر اس وقت ہوتا ہے جب کہ آدمی ناخوشی کے ایک گہرے سبب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ میں موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں ذاتی پریشانیوں میں بہت زیادہ مبتلا رہاہوں۔ مگر اس وقت میں کم وبیش افلاطونی فلسفہ کا قائل تھا جس نے مجھے اس قابل بنائے رکھا کہ میں خارجی دنیا میں حسن کو دیکھ سکوں۔ ریاضیات اور ستاروں نے مجھے اس وقت تسکین دی جب کہ انسانی دنیا آسائش سے خالی نظر آتی تھی۔ مگر میرے فلسفہ میں تبدیلی نے اس قسم کی تسکین کو مجھ سے چھین لیا۔ خودی نے مجھ کو بالکل مضمحل کردیا۔ خاص طورپر اس وقت جب کہ میں نے طبیعیات کی ان تشریحوں کو پڑھا جو اڈنگٹن جیسے لوگوں نے کی ہیں۔ مجھ کو نظر آیا کہ جس چیز کو ہم نے فطرت کے قوانین سمجھا تھا وہ محض الفاظ کا معاملہ تھا۔ اور طبیعیات حقیقةً کسی خارجی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کو پوری طرح مانتا ہوں۔ مگر یہ میرے لیے ایک کابوس بن گیا جو میرا پیچھا کررہا تھا۔ وہ میرے تخیلات پر برابر حملہ کررہا تھا۔
روحانی تسکین
جو سائنس خارجی دنیا کا علم دینے سے عاجز تھی وہ اس باطنی دنیا کا علم کیا دیتی جس کے بارے میں اس نے گلیلیو ہی کے زمانہ میں عملی طورپر اپنی نارسائی کا اعلان کردیا تھا۔ سائنس آدمی کو وہ جھوٹا اطمینان بھی نہ دے سکی جو مادی سطح پر بظاہر ایک انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اور ذہنی اور روحانی سطح کا اطمینان تو نہ اس کے بس میں تھا اور نہ کبھی اس نے اس کو دینے کا دعوی کیا۔
قرآن میںارشادہوا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسیح نے اسی بات کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے— آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ایک مخصوص نفسیات رکھتا ہے۔ اس نفسیات سے وہ اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ یہ نفسیات ایک برتر تسکین کی طالب ہے۔ انسان کو مادی سازوسامان کے ساتھ ایک عقیدہ اور ایک اصولِ حیات بھی درکار ہے۔ سائنس نے انسان کو جو کچھ دیا وہ اپنی آخری صورت میں بھی صرف مادی سازوسامان تھا۔ سائنس انسان کو ایک قابلِ اعتماد عقیدہ نہ دے سکی۔ یہی وہ کمی ہے، جس نے جدید دنیا کے بے شمار لوگوں کو غیر مطمئن کر رکھا ہے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو ان کی زندگیاں پُررونق نظرآتی ہیں۔ مگر اندر سے ان کی روح بالکل ویران ہوچکی ہے۔
اقدار کا مسئلہ
یہ مسئلہ جس سے آج کا انسان دوچار ہے، فلسفیانہ لفظ میں اس کو اقدار کا مسئلہ (problem of values) کہاجاسکتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ انسان ایک دہری مشکل سے دوچار ہے۔ وہ جانتا ہےمگر نہیں جانتا۔ معلومات کے ڈھیر کے درمیان وہ محسوس کرتاہے کہ وہ کم سے کم اس پوزیشن میں ہوتا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو بُرا سمجھے۔ وہ اس تمیز کو کسی بھی طرح اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ مگر جب اپنی عقل یا اپنے علم کے ذریعہ وہ اس کو متعین کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کو متعین نہیں کرپاتا۔
جوزف وڈکرچ نےاپنی کتاب ’’دورِ جدید کا مزاج‘‘ میں اس مسئلہ پر عقلی بحث کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اگرچہ باعتبار فطرت یہ یقین کرنے کی طرف مائل ہے کہ زندگی کا ایک مقصد ہے اور اچھائی اور برائی کا ایک معیار ہے۔ مگر سائنس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیتی۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سےزیادہ ظاہر کرتی جاری ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی موضوعی مقام (objective status) نہیں رکھتیں۔ انسان اخلاقی معیاروں کی ضرورت محسوس کرتاہے جس کے مطابق وہ زندگی گزارے۔ وہ وجدانی طورپر اس کی مستقل تلاش میں ہے۔ مگر سائنس کی دریافت کردہ دنیا میں خیر وشر کے تصورات کی کوئی جگہ نہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک اخلاقی جانور ہے جو ایک ایسی کائنات میں ہے جہاں اخلاقی عنصر کا کوئی وجود نہیں:
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. (Joseph Wood Krutch, The Modern Temper, New York, 1929, p.
انسان چیزوں کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف چیزوں کے ڈھانچہ کا علم دیتی ہے۔ انسان دنیا کے آغاز وانجام کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف درمیانی مرحلہ کے بارہ میںکچھ باتیں بتاتی ہے۔ انسان چیزوں کی معنویت کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف اس کی ظاہری ہیئت کا پتہ دیتی ہے۔ انسان پھول کی مہک کو سمجھنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف پھول کی کیمسٹری سے آگاہ کرتی ہے۔ انسان ذہن اور روح کی گہرائی میں اترنا چاہتاہے مگر سائنس صرف جسم کے مادی اجزا کا تجزیہ اس کے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک لفظ میں یہ کہ انسان ’’خالق‘‘ کے بارہ میں جاننا چاہتا ہے اور سائنس اس کو صرف ’’مخلوق‘‘ کے بارہ میں بتا کر خاموش ہوجاتی ہے۔
یہی بات ہے جس کو ایک مغربی مفکر نے حسرت کے ساتھ اس فقرہ میں بیان کیا ہے— جو اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے، اور جو قابل دریافت ہے وہ اہم نہیں:
The important is unknowable, and the knowable is unimportant.
اعلی ذریعۂ علم
یہی بے اطمینانی جدیددور کے تمام باشعور انسانوں کا پیچھا کیے ہوئے ہے۔ ان کی اکثریت اگر چہ مذہب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر انھوںنے یہ بات مان لی ہے کہ جس سائنسی ترقی کو انھوں نے انسانیت کے مسئلہ کا حل سمجھ لیا تھا، وہ انسانیت کے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ برٹرینڈ رسل نے مغربی فکر وفلسفہ پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ہم اس کے اعتراف کے حسب ذیل کلمات پاتے ہیں:
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p.
مغربی فلسفی کھلے طور پر اقرار کرتے ہیں کہ انسانی عقل کے بس سے باہر ہے کہ وہ ان بہت سے سوالات کا قطعی جواب پاسکے جو انسانیت کے لیے بے حد اہمیت رکھتےہیں۔ مگر وہ اِس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ سائنس کے علاوہ علم کا کوئی اور بلند طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم ان سچائیوں کو دریافت کرسکیں جو سائنس اور عقل کی دسترس میں نہیں آتیں۔
آج کے انسان کو یہی بتانا اس کو سب سے بڑی چیز دینا ہے کہ ہاں، یہاں ایک بلند تر طریقہ موجود ہے جس کے ذریعہ نامعلوم کو معلوم کیا جاسکے۔ اور وہ الہام خداوندی ہے۔ اور یہ الہام خداوندی جہاں اپنی محفوظ شکل میں موجود ہے وہ قرآن ہے۔
قرآن پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل اپنی صداقت کو ثابت کررہا ہے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسری کتابوں میں گفتگو کی ہے۔ اس کی تفصیل ان کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
داخلی شہادت
اخلاقی یا مذہبی احساس انسان کے اندر بے حد طاقت ور ہے۔ ماضی سے لے کر حال تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ احساس کسی طرح انسان کے اندر سے ختم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ یہ خالص انسانی خصوصیت ہے۔ کسی بھی نوع کے جانور میں اب تک اخلاقی یا مذہبی شعور کا ہونا ثابت نہ کیا جاسکا۔
الفرڈ رسل ویلس (1913-1823)مشہور ارتقا پسند عالم ہے۔ تاہم وہ ڈارون کی طرح اس کا قائل نہ تھا کہ ذہنِ انسانی کی اعلی اور نادر خصوصیات محض انتخابِ طبیعی (natural selection) کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اس نے لکھا ہے کہ افادیت کا مفروضہ جو کہ دراصل ذہن پر انتخاب طبیعی کے نظریہ کا انطباق ہے، وہ انسان کے اندر اخلاقی شعور کی پیدائش کی تشریح کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اخلاقی شعور کو اس دنیا میں بےحد مشکلات کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے استثنائی حالات پیش آتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اخلاقی شعور کے تحت عمل کرنے والا موت سے دوچار ہوتا ہے یا برباد ہو کر رہ جاتاہے۔ ہم کیوں کر یقین کرسکتے ہیں کہ افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پر اسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پراسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرسکتی ہے کہ وہ سچائی کو بذاتِ خود مقصود ومطلوب سمجھے اور نتائج کا لحاظ کیے بغیر اس پر عمل کرے:
The Utilitarian hypothesis, which is the theory of natural selection applied to mind, seems inadequate to account for the development of the moral sense. Such being the difficulties with which virtue (or the moral sense) has had to struggle, with so many exceptions in its practice, with so many instances in which it brought ruin or death to its too ardent devotee, how can we believe that considerations of utility could ever invest it with the mysterious sanctity of the highest virtue–-could ever induce men to value truth for its own sake, and practice it regardless of consequences.
’’ذہین کائنات‘‘ نامی کتاب کا مصنف فریڈ ہائل اپنے قیمتی مطالعہ کا خاتمہ ان الفاظ پر کرتاہے کہ اگر زمین کو کسی مزید اہمیت کا حامل بننا ہے، اور انسان کو کائناتی اسکیم میں کوئی جگہ پانی ہے تو ضرورت ہوگی کہ ہم افادیت کے نظریہ کو مکمل طورپر ترک کردیں۔ اگر چہ میرا خیال ہے کہ قدیم طرز کے مذہبی نظریات کی طرف واپسی کچھ مفید نہ ہوگی، مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایساکیوں ہے کہ ویلس کی تشریح کے مطابق ، پراسرار تقدس ہمارے اندر موجود رہتا ہے اور فردوسی دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیا ہم اس کی پیروی کریں گے:
If the Earth is to emerge as a place of added consequence, with man of some relevance in the cosmic scheme, we shall need to dispense entirely with the philosophy of opportunism. While it would be no advantage I believe to return to older religious concepts, we shall need to understand why it is that the mysterious sanctity described by Wallace persists within us, beckoning us to the Elysian fields, if only we will follow. (Fred Hoyle, The Intelligent Universe, Michael Joseph, London, 1983, p.
حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کا انسان بھی اتنا ہی زیادہ مذہب کا ضرورت مند ہے جتنا قدیم زمانہ کا انسان تھا۔ مزید یہ کہ سائنس کی طرف سے مایوسی نے اس کو مزید شدت کے ساتھ مذہب کا مشتاق بنادیا ہے۔ مگر جدید انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ مذہب کے نام سے جس چیز کو جانتا ہے ،وہ صرف بگڑے ہوئے مذاہب ہیں، اور بگڑے ہوئے مذاہب کے ساتھ انسانی فطرت کو مطابقت نہیں۔ جدید انسان جب اندرونی تقاضے سے مجبور ہو کر مذہب کے بارے میں سوچتا ہے تو اسی بگڑے ہوئے مذہب کی تصویر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ مذہب سے قریب ہو کر دوبارہ مذہب سے دور ہوجاتا ہے۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے۔وہ ان خرابیوں سے یکسر پاک ہے جو انسانی ملاوٹ کے نتیجہ میں دوسرے مذہبوں میں پیدا ہوگئی ہیں۔ انسان کی فطرت جس مذہب کو تلاش کررہی ہےوہ حقیقةً اسلام ہی ہے۔ مگر مسلمانوںکا حال یہ ہے کہ وہ اسلام کو اپنے خود ساختہ جھگڑوں کا عنوان بنائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا، اور اگر پیش کیا تو بگڑی ہوئی خود ساختہ صورت میں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اسلام اور دوسرے مذہبوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اگر اس کی اصل صورت میں آج کے انسان کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ یقیناً اس کو اپنی طلب کا جواب پائے گا اور اس کی طرف دوڑ پڑے گا۔
مسلمان سائنس کے میدان میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں مگر عقیدہ (نظریۂ حیات) کے معاملہ میں وہ آج بھی دوسروں سے آگے ہیں۔ وہ جدید دنیا کو وہ چیز دے سکتے ہیں جس کی آج اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے آیا ہوا سچا دین، وہ دین جس کے اوپر آدمی اپنے لیے ایک پر اعتماد زندگی کی تعمیر کرسکے۔ یہ مقام آج مسلمانوں کے لیے خالی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں وہ اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بن سکتے ہیں، اور دوبارہ اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کرسکتےہیں کہ قدرت کا یہ قانون ان کے حق میں پورا ہو — فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ (
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں
صدر اسلامی مرکز کو ساری دنیا میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔مثلاً ہمارے فیس بک پیج، مولانا وحید الدین خان (@@maulanawkhan)،اور سی پی ایس انٹرنیشنل (@@cpsinternational)، نیز مولانا عبد الباسط عمری (قطر)کے زیر انتظام چل رہے اردو فیس بک پیج حکمت و دانائی (@@hikmat.u.danae) پر لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں، اور اپنی تلاش کا جواب پاتے ہیں۔ ذیل میں ایسے کچھ متلاشیان حق کا تاثر دیا جارہا ہے، جن کی زندگیوں میں اس مشن سے مثبت تبدیلی آئی ہے:
I was introduced to Maulana in the most negative phase of my life. It was totally by the grace of God, Maulana’s views and knowledge changed my life from that of a hopeless negative person to an optimistic positive one. It helped me to discover our Creator, Sustainer and Cherisher. (Danish Khan, Kanpur [Via Facebook])
After listening to the lectures of Maulana Wahiduddin Khan, one can understand the purpose of one’s life, the creation plan of God, and how to live successfully. (Izhar ul Hassan, Bhakkar, Pakistan [Via Facebook])
CPS, I think, is the only hope that will make peace prevail in every corner of this world and with Maulana’s ideas it seems to be very near in achieving its goal. The chains of hate, unhappiness, ruthlessness and cruelty will be overcome by peace, love, happiness and prosperity. Whenever I think of Maulana in my mind, it gives me hope that soon people of this world will love Islam in its true peaceful essence. (Irfan ul Islam [Via Facebook)
I love everything that CPS International stands for and their work in promoting peace, spirituality and disseminating the message of Islam in a peaceful way! I have benefited a lot from CPS International (Shahril Shahrudin [Via Facebook])
الرسالہ کا انگلش ورژن ’’ اسپرٹ آف اسلام‘‘ ہر ماہ پابندی کے ساتھ انڈیا اور پاکستان سے شائع ہوتا ہے اورپوری دنیا میں کثرت سے پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے۔ ذیل میں تین قارئین کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
I have been reading Spirit of Islam for some time now, and I have come to understand well that Islam is a modern, progressive religion, fair to women in particular, especially with regards to divorce and property rights. It has dispelled my earlier misperception of it as merely a “burqa” religion. Sri Wahiduddin Khan and Smt. Farida Khanam write very clearly and beautifully. (Ms. Ramadevi Lingaraju, Bangalore)
Yesterday I saw the PDF version of Spirit of Islam February 2019 issue. The contents are extremely interesting as well as informative and helpful. Also the designing of the magazine from January 2019 onwards is worthy of praise. I have a plan to open a “Peace Centre” in my locality so that people can benefit from Islamic knowledge and can read the literature of Maulana Wahiduddin Khan and can get free copies of the Quran and monthly magazines Al-Risala and Spirit of Islam. In addition they can also get access to the digital programs which they can later on watch at home or other places. I hope Almighty Allah will make me able to do so. (Muneeb Gulzar, Kashmir)
I would like to present a tribute to you for the great contributions in promoting the true image and spirit of Islam through your esteemed monthly magazine Spirit of Islam. I read the issue of June 2018 (soft copy version) and found it a valuable effort for a noble cause. I am Assistant Professor in Mass Communication at a Post Graduate College in Gilgit-Baltistan, the northern region of Pakistan. I am keen to take advantage of your knowledge and vision, and will further disseminate the valuable contribution and knowledge-based thoughts. You are kindly requested to include me in your online mailing list for getting the softcopy of your magazine. If possible, please share your contents regarding the course Peace Building and Conflict resolution, as I am also contributing as provincial Vice Chairman of National Peace Council of Pakistan. I pray that Almighty Allah help and strengthen your efforts for the noble cause. (Prof. Ejaz Ahmed Khan, Gilgit-Pakistan)
واپس اوپر جائیں
قارئین الرسالہ سے گزارش ہے کہ وہ اپنامکمل ایڈریس مع پن کوڈ ، فون نمبراور ای میل (اگر موجود ہو) بذریعہ ڈاک الرسالہ کے پتے پر یا مندرجہ ذیل ای میل پر روانہ فرمائیں:
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.