اسلام دورِ جدید میں
امیرشکیب ارسلان (1946-1869) کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:لماذا تأخر المسلمون وتقدّم غیرہم (مسلمان کیوں پیچھے ہوگئے اور ان کے سوا دوسرے کیوں آگے ہوگئے) یہ کتاب 50 سال پہلے چھپی تھی ۔ اس کے بعد میں نے ایک عربی مجلہ رابطة العالم الاسلامی (اپریل 1985) میںایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کا عنوان دوبارہ حسب ذیل الفاظ میں قائم کیاگیا تھا:
لما ذا تأخرنا وتقدم غیرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان پچھلی نصف صدی سے ایک ہی سوال سے دوچار ہیں۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ ہم جدید دور میں دوسری قوموں سے کیوں پیچھے ہوگئے۔ اور دوسری قومیں ہم سے آگے کیوں نکل گئیں۔ مزید عجیب بات یہ ہے کہ اسی نصف صدی کے اندر جاپان ایٹمی بربادی کے کھنڈر سے ابھرا اور ترقی کی انتہا پر پہونچ گیا۔ چنانچہ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کا نام ہے جاپان نمبر ایک:
Japan as Number One: Lessons for America by Ezra Vogel
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ انجام کسی موہوم سبب کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ معلوم خدائی قانون کی بنا پر ہے۔ اس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں ترقی اور استحکام نصیب ہو، اور جو گروہ نفع بخشی کی صلاحیت کھو دے اس کو ہمیشہ کے لیے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ قدیم زمانہ کے مسلمان اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بنے ہوئے تھے اس لیے قدیم زمانہ میں انھیں عظمت حاصل ہوئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان بے نفع ہوگئے۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں انھیں کوئی عظمت حاصل نہ ہوسکی۔عروج وزوال کا یہ اصول قرآن کی حسبِ ذیل آیت میں واضح طورپر موجود ہے:
أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ ( 13:17 )۔ یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر نالے اپنی اپنی مقدار کے موافق بہہ نکلے۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھالیا اور اسی طرح کا جھاگ ان چیزوں میں بھی ابھر آتا ہے جن کو لوگ زیور یا اسباب بنانے کے لیے آگ میں پگھلاتے ہیں۔ اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے۔ پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچانے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔ اللہ اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کے لیے اللہ تعالی کا قانون کیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جو گروہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت کرے اس کو دنیا میں بقا اور استحکام ملے۔ اور جو گروہ اپنی نفع بخشی کھو دے وہ یہاں بے قیمت ہو کر رہ جائے۔
اس عالمی قانون کو ایک طرف کتابِ الٰہی میں لفظی طور پر بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف مادی دنیا میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ سورۂ رعد کی مذکورہ آیت میں اس نوعیت کی دو مثالیں دی گئی ہیں۔ ایک مثال بارش کی ہے۔ بارش ہوتی ہے اور اس سے نالے بھرتے ہیں تو جھاگ اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ جھاگ تو ہوا میں اڑ جاتا ہے اور جو چیز اس میں نفع بخش ہے وہ باقی رہتی ہے، یعنی پانی۔
دوسری مثال دھات کی ہے۔ دھات کو جب آگ پر پگھلایا جاتا ہے، تو ابتداء ً اس کا میل کچیل اوپر دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر بہت جلد یہ وقتی منظر ختم ہوجاتا ہے اور جو اصل قیمتی دھات ہے وہ اپنی جگہ باقی رہ جاتی ہے۔
دورِ اول کی مثال
دورِ قدیم میں اسلام کو غیر معمولی عظمت ملی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام کو آباد دنیا کے قائد کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسلام کو یہ عظیم حیثیت اتفاقاً نہیں ملی اور نہ مطالبات کے ذریعہ اس کو یہ حیثیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ قدرت کا وہی ابدی قانون تھا جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی نفع بخشی اور فیض رسانی۔
دنیا کو اسلام سے جو کچھ ملا، اس کے بہت سے پہلو ہیں۔اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام نے دنیا کو توہمات (superstitions) کے دور سے نکالا اور اس کو پہلی بار سائنس کے دور میں داخل کیا۔
آج کی دنیا جس چیز کو اپنے لیے سب سے بڑی نعمت سمجھتی ہے وہ سائنس ہے۔ اور تمام محققین اور منصف مورخین نےتسلیم کیا ہے کہ یہ دراصل اسلام ہے جس نے سائنس کے دور کو پیدا کیا۔ یہاں ہم صرف ایک مغربی مصنف مسٹر بریفالٹ کا قول نقل کریں گے۔ وہ اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ اگر چہ یورپی ترقی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس میں اسلامی تہذیب کی فعال اثر انگیزی دیکھی نہ جاسکتی ہو۔ مگر وہ سب سے زیادہ واضح اس قوت کی پیدائش میں ہے جو جدید دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یعنی طبیعی سائنس اور سائنسی اسپرٹ۔ ہماری سائنس پر عربوں کا قرض انقلابی نظریات کی دریافت کی حد تک نہیں ہے۔ سائنس اس سے کہیں زیادہ عرب تہذیب کی احسان مند ہے، وہ خود اپنےوجود کے لیے اس کی مرہون منت ہے:
For although there is not a single aspect of European growth in which the decisive influence of Islamic culture is not traceable, nowhere is it so clear and momentous as in the genesis of that power which constitutes the permanent distinctive force of the modern world, and the supreme source of its victory -natural science and the scientific spirit... The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries of revolutionary theories; science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. (Briffault: Making of Humanity, London, 1919, pp. 190-91)
یہ ایک معلوم تاریخی حقیقت ہے کہ قدیم زمانہ میں تمام دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ تمام قومیں بے شمار دیوتاؤں کو پوجتی ہیں۔ ہندستانی روایات کے مطابق ان کی تعداد 33 کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) میں تعدد آلہہ کےعنوان کے تحت بتایا گیا ہے کہ مذاہب میں عمومی طورپر یہ بات پائی گئی ہے کہ فطرت کی طاقتوں اور فطرت کے مظاہر کو خدا مان لیا جاتا ہے۔ نہایت آسانی کے ساتھ ان کو تین قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے— آسمانی، فضائی اور زمینی۔ یہی تقسیم بجائے خود ہند آریائی مذہب میں تسلیم کی گئی ہے، چنانچہ سورج ان کے یہاں آسمانی خدا ہے۔ اِندر فضائی خداہے جو طوفان، بارش اور جنگ لانے والا ہے۔ اگنی (آگ کا دیوتا) زمینی واقعات کا سبب ہے:
A widespread phenomenon in religions is the identification of natural forces and objects as divinities. It is convenient to classify them as celestial, atmospheric, and earthly. This classification itself is explicitly recognized in Indo-Aryan religions: Surya, the sun god, is celestial; Indra, associated with storms, rain, and battles, is atmospheric; and Agni, the fire god, operates primarily at the earthly level (14/785)
اسلام سے پہلے انسان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر چیز کو پوجتا تھا۔ وہ سورج اور چاند سے لے کر دریا اور پہاڑ تک ہر چیز کے آگے جھکتا تھا۔ درختوں میں اس نے درخت خدا (plant deities)اور جانوروں میں اس نے جانور خدا (animal deities) بنا رکھے تھے۔ دنیا کی تمام چیزیں معبود بنی ہوئی تھیں۔ اور انسان ان کا عبادت گزار۔ اس طرح انسان نے اپنی عظمت کھو دی تھی۔ اسلام کے ذریعہ تاریخ میں جو انقلاب آیا اس نے پہلی بار انسان کو اس کی عظمت عطا کی۔
شرک (بالفاظ دیگر مظاہر فطرت کی پرستش) کا رواج قدیم زمانہ میں سائنسی ترقیوں میں رکاوٹ بناہوا تھا۔ انسان فطرت کے مظاہر کو معبود سمجھ کر انھیں تقدس کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس لیے اس کے اندر یہ جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا تھاکہ وہ ان مظاہر کی تحقیق کرے اور ان کو اپنے فائدے کے لیے استعما ل کرے۔ فطرت کے مظاہر جب پرستش کاموضوع بنے ہوئے ہوں تو اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع نہیں بن سکتے۔ یہ بنیادی سبب تھا جو طبیعی سائنس کا دور شروع ہونے میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اسلام نے تاریخ میں پہلی بار اس سبب کو ختم کیا، اس لیے اسلام کے بعد تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ طبیعی سائنس کا دور شروع ہوا ور بالآخر اس حد کو پہنچا جہاں ہم آج اس کو دیکھ رہے ہیں۔
آرنلڈ ٹوائن بی نے بجاطورپر لکھا ہے کہ یہ در اصل توحید(Monotheism) کا عقیدہ ہے جس نے جدید سائنس اور صنعتی دور کو پیدا کیا۔ کیوں کہ توحید کے انقلاب سے پہلے دنیا میں عملی طورپر شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کے عقیدہ کے تحت آدمی فطرت (Nature) کو پوجنے کی چیز سمجھے ہوئے تھا۔ پھر وہ اس کو تحقیق و تسخیر کی چیز کیسے سمجھتا۔ جب کہ فطرت کو تحقیق اور تسخیر کی چیز سمجھنے کے بعد ہی اس علم کا آغاز ہوتا ہے جس کو طبیعی سائنس کہتے ہیں۔
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین وآسمان کی نشانیوں (مظاہر فطرت) پر غور کرو۔ قرآن میں اس قسم کی سات سو آیتیں شمار کی گئی ہیں جن میں مظاہر فطرت پر غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اگر بالواسطہ آیتوں کو بھی شامل کیا جائے تو ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جائے گی۔ یہ معلوم انسانی تاریخ میں بالکل نئی آواز تھی۔ کیوں کہ اس سے پہلے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ وہ مظا\ہر فطرت کو پوجے۔ ایک ایسی دنیا جس میں ہزاروں برس سے انسان صرف یہ جانتا تھا کہ مظاہر فطرت پوجنے کی چیزہیں، وہاں قرآن نے یہ آواز بلند کی کہ مظاہر فطرت اس لیے ہیں کہ ان پر غور کیا جائے، اور ان میں چھپی ہوئی حکمتوں کو دریافت کیا جائے۔
اسلام کا یہ پیغام صرف پیغام نہ رہا بلکہ سو سال کےاندر ہی وہ ایک عالمی انقلاب بن گیا۔ اس نے اولاً عرب کے دل ودماغ کو فتح کیا۔ پھر وہ ایشیا اور افریقہ اور یورپ تک پہنچ گیا۔ اس نے عرب کے بُت خانے ختم کردیئے۔ ایرانی اوررومی شہنشاہتیں اس زمانہ میں شرک کی سب سے بڑی سرپرست تھیں، دونوں کو اسلام نے مغلوب کرلیا اور توحید کا غلبہ تقریباً پوری آباد دنیا میں قائم کردیا۔
اسلام کی اس نفع بخشی کو تمام منصف مزاج مورخین نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں ہم انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کرتے ہیں:
Islamic culture is the most relevant to European science. There was active cultural contact between Arabic-speaking lands and Latin Europe. Conquests by the Prophet's followers began in the 7th century, and, by the 10th, Arabic was the literate language of nations stretching from Persia to Spain. Arabic conquerors generally brought peace and prosperity to the countries they settled (16/368)
اسلامی تہذیب کا تعلق یورپی سائنس سے بہت زیادہ ہے۔ عربی زبان بولنے والے علاقوں اور لاتینی یورپ کےدرمیان نہایت گہرا ربط قائم تھا۔ پیغمبر کے پیروؤں کی فتوحات ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوئیں۔ اور دسویں صدی تک یہ حال ہوگیا کہ عربی زبان ایران سے لے کر اسپین تک کی تمام قوموں کی علمی زبان بن گئی۔ عرب فاتحین جہاں گئے وہاں عام طورپر وہ امن اور خوش حالی لے گئے۔ قرآن کے ذریعہ عالمی سطح پر جو فکری انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار نئی قسم کی سرگرمیاں شروع کردیں۔ انسان نے اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پایا جو پوجنے کی چیز نہیں بلکہ برتنے کی چیز تھی، جس کا وہ تابع نہ تھا بلکہ وہ اس کے لیے مسخر کی گئی تھی کہ وہ اس کو اپنا تابع بنائے۔ چنانچہ اسلام کے عظیم الشان اعتقادی انقلاب کے ساتھ ایک عظیم الشان علمی اور ذہنی انقلاب بھی شروع ہوگیا۔ اسلام کے ماننےوالوں نے جب ایک قادر مطلق خدا کو پایا تو اسی کے ساتھ انھوںنے دوسری تمام چیزوں کو بھی پالیا۔ انھوں نے ہر میدان میں ترقیاں شروع کردیں۔ ان سے دنیا کو وہ چیزیں ملنے لگیں جو ابھی تک اس کو نہیں ملی تھیں۔ چنانچہ اس دور میں پیداہونے والی جتنی بھی قابلِ ذکر ترقیاں ہیں ان کامطالعہ کیجیے تو ہر ترقی کے پیچھے کسی نہ کسی مسلمان کا ہاتھ کام کرتا نظر آئے گا۔
چند تاریخی حوالے
توحید اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے۔توحید کو اختیار کرنے کی وجہ سے دورِ اول کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ دنیا والوں کے درمیان ایک ایسی برادری بن کر ابھریں جن کا ہر طرف استقبال کیا جائے اور جن سے دنیا والوں کو ہر قسم کا نفع حاصل ہو۔ یہاں ہم اس سلسلہ میں چند مثالیں درج کریں گے۔
1۔ اسلامی انقلاب کے بعد کئی سو سال ایسے گزرے ہیں جب مسلمان ساری دنیا میں علمِ طب کے امام تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ مسلم اطباء سے رجوع کرتے تھے، اور طب میں مسلمانوں کی تصنیفات ہر جگہ فن طب کا ماخذ بنی ہوئی تھیں۔ یورپ کا سب سے پہلا میڈیکل کالج سارنو (اٹلی) میں قائم ہوا۔ یہ میڈیکل کالج گیارھویں صدی عیسوی میں قائم ہوا تھا۔ اس کا نصاب بڑی حد تک ان طبی کتابوں پر مشتمل تھا جو عربی زبان سے لاتینی زبان میں ترجمہ کی گئی تھیں۔ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا (1984) نے اس کے تذکرہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی نے عربی سے لاتینی میں کتابوں کے ترجمہ کا ایک ہیرووانہ پروگرام دیکھا۔یہ بات بہت اہم ہے کہ یورپ کا ابتدائی طبی اسکول جو سلرنو میں قائم ہوا اور دوسرا جو مانٹ پیلیر میں قائم ہوا، دونوں عربی اور یہودی ماخذوں سے بہت قریب تھے:
The 12th Century saw a heroic program of translation of works from Arabic to Latin. It is significant that the earliest medical school in Europe was at Salerno and that it was later rivaled by Montpellier, also close to Arabic and Jewish sources (16/368)
پروفیسر ہٹی نےاس سلسلہ میں مزید تفصیل بیان کرتےہوئے لکھا ہے کہ الزہراوی کی کتاب (التصریف لمن اعجز عن التالیف) کا سرجری سے متعلق حصہ گیرارڈ آف کریمونا نے عربی سے لاتینی میں ترجمہ کیا۔ یورپ میںاس کے مختلف ایڈیشن چھپے۔ وینس میں 1497 میں، بیسل میں 1541 میں، آکسفورڈ میں 1778 میں۔ یہ ترجمہ صدیوں تک سلرنو اور مانٹ پیلیر اور دوسرے یورپی طبی اداروں میں نصابِ تعلیم کا جز بنا رہا:
This surgical part was translated into Latin by Gerard of Cremona and various editions were published at Venice in 1497, at Basel in 1541 and at Oxford in 1778. It held its place for centuries as the manual of surgery in Salerno, Montpellier and other early schools of medicine
(P. K. Hitti, History of the Arabs. 1979, p. 577 )
آج آپ جدید طرز کے کسی اسپتال یاکسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہر چیز آپ کو مغربی تہذیب کا عطیہ نظر آئے گی۔ مگر چند سو سال پہلے یہ حال تھا کہ آپ وقت کے کسی معیاری اسپتال یا کسی میڈیکل کالج میں داخل ہوں تو وہاں کی ہرچیز اسلامی تہذیب کا عطیہ نظر آتی تھی۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو مسلمانوں کے ماضی اوران کے حال میں پیدا ہوگیا ہے۔
2۔ جغرافیہ ایک بے حد اہم سائنس ہے۔ اس کا تعلق زندگی کے بے شمار شعبوں سےہے۔ دور اول کے مسلمانوں نے اس فن میں بھی کمال پیدا کیا۔ مثال کے طورپر الادریسی اپنے زمانہ میں دنیا کا سب سے بڑا جغرافی عالم تھا۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے اس کی بابت حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
The most distinguished geographer of the Middle Ages.
یعنی قرونِ وسطی کا سب سے زیادہ ممتاز جغرافیہ داں۔ الادریسی کے زمانہ میں راجر دوم سسلی کا بادشاہ تھا۔ اس کو ایک جغرافی نقشہ کی ضرورت ہوئی تو اس کو یہ نقشہ جس نے بنا کردیا وہ یہی الادریسی تھا۔ فلپ ہٹی نے مزید لکھاہے:
The most brilliant geographical author and cartographer of the twelfth century, indeed of all medieval time, was al-Idrisi, a descendant of a Spanish Arab family who got his education in Spain. (P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 568 )
بارھویں صدی عیسوی کا سب سے زیادہ باکمال جغرافی مصنف اور نقشہ نویس، بلکہ پورے قرونِ وسطی کا سب سے بڑا جغرافی عالم بلاشبہ الادریسی تھا۔ وہ اسپین کے ایک اعلی عرب خاندان میں پیدا ہوا، اور اس کی تعلیم اسپین میں ہوئی۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ الادریسی نے 1154ء میں سسلی کے مسیحی حکمراں (راجر دوم) کے لیے ایک عالمی نقشہ بنایا۔ اس میں ایشیائی علاقوں کی زیادہ بہتر معلومات دی گئی تھیں جو اس وقت تک ابھی انسان کو حاصل نہ ہوئی تھیں:
Al-Idrisi constructed a world map in AD 1154 for the Christian king Roger of Sicily, showing better information on Asian areas than had been available theretofore. (11/472)
موجودہ زمانہ میں مسلم ملکوں میں مغرب کے ماہرین (experts) بھرے ہوئے ہیں۔ مگر ایک وقت تھا جب کہ مسلمان ہر شعبہ کے ماہرین دنیا کو فراہم کررہے تھے۔ آج مسلمان دنیا والوں سے لے رہے ہیں، مگر چند سال پہلے یہ حال تھا کہ مسلمان دنیا کو دینے والے بنےہوئے تھے۔ کیسا عجیب فرق ہے ماضی میںاور حال میں۔
3۔ آج مسلم ملکوں کے نوٹ اور سکے مغربی ممالک تیار کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی مسلم ملک خود اپنا سکہ یا نوٹ تیار کرتاہے تو اس کے لیے بھی وہ مغربی ٹکنالوجی کا مرہون منت ہے۔ مگر ایک وقت تھا کہ یہ مقام خود مسلمانوں کو عالمی سطح پر حاصل تھا۔
پروفیسر ایچ. ڈبلیو . سی . ڈیوس(H.W.C. Davis) نے اپنی کتاب قرونِ وسطی کا انگلستان (Medieval England) میں انگلستان کےایک قدیم سنہرے سکہ کی تصویر اس کے دونوں رخ سے چھاپی ہے۔ یہ سکہ برٹش میوزیم میں رکھاہوا ہے۔ تصویر میں واضح طورپر نظر آرہاہے کہ سکہ کے ایک طرف عربی رسم الخط میں کلمہ شہادت لکھا ہوا ہے اور دوسری طرف اس وقت کے انگلستان کے بادشاہ اوفاریکس (Offa Rex) کا نام کندہ ہے۔ اسی کے ساتھ سکہ پر بغداد کے مسلمان سکہ گر کانام بھی درج ہے۔ سکہ کی تصویر کے نیچے پروفیسر ڈیوس نے حسب ذیل الفاظ لکھےہیں:
Anglo-Saxon gold coin imitating an Arab Dinar of the year 774.
یعنی قدیم انگلستان کا سونے کا سکہ جو 774 ء میں ڈھالا گیا اور جس میںایک عرب دینار کی نقل کی گئی ہے۔ یہ ایک تاریخی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان صنعتی ترقی کے اس مقام پر تھے کہ انگلستان کے نامور بادشاہ اوفارکس (وفات 796: ء)کو ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ وہ اپنے ملک کا سکہ ڈھالنے کے لیے بغداد سے مسلم ماہرین کو بلائے۔ اس وقت انگلستان میںجو سکہ ڈھالا گیا وہ مسلم ممالک کے سکہ (دینار) کی نقل تھا۔حتی کہ مسلم سکوں کی طرح اس پر کلمہ شہادت بھی عربی رسم الخط میں لکھا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہزار برس پہلے کے دور میں اسلامی تہذیب ساری دنیا میں کس قدر غالب حیثیت رکھتی تھی۔
2۔ واسکوڈی گاما (1524-1469) ایک پرتگالی ملاح تھا۔ اس کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے 1497 میں ہندستان اور یورپ کے درمیان سمندری راستہ دریافت کیا جو کیپ آف گڈہوپ ہو کر جاتا تھا۔ مگر یہ عظیم کامیابی اس کو ایک عرب ملاح احمد بن ماجد کے ذریعہ حاصل ہوئی اس کی بابت انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984) نے حسب ذیل الفاظ لکھے ہیں:
Vasco da Gama's Arab pilot, Ahmad ibn Majid (7/862)
یعنی واسکوڈی گاما کا عرب جہاز راں احمد بن ماجد۔ برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ واسکوڈی گاما جب پرتگال سے چل کر افریقہ پہنچا تو وہاںموزنبیق کے سلطان نے واسکوڈی گاما کو دو مسلم ملّاح دیئے۔ ان میں سے ایک اس وقت بھاگ گیا جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ پرتگالی مسیحی مذہب کے ہیں:
The Sultan of Mozambique supplied da Gama two (Muslim) pilots, one of whom deserted when he discovered that the Portuguese were Christians (7/861)
جس جہاز راں نے واسکوڈی گاما کا ساتھ دیا اس کا نام احمد بن ماجد تھا۔ وہ نہایت ماہر تھا اور سمندری جہاز سے اتنی واقفیت رکھتا تھا کہ اس پر اس نے ایک اہم کتاب لکھی تھی جو مذکورہ سفر کے وقت اس کے ساتھ تھی۔
پروفیسر فلپ ہٹی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز رانی کےموضوع پر ایک خصوصی کتاب احمد بن ماجد کی ہے جس میں بحری جہاز رانی کے نظریاتی اور عملی پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ 1498 میں یہی احمد بن ماجد تھا جس نے افریقہ سے ہندستان تک واسکوڈی گاما کی رہنمائی کی:
And exceptional work of major importance is a compendium of theoretical and practical navigation by Ahmad ibn Majid of Najdi ancestry, who, it is claimed, in 1498 piloted Vasco da Gama from Africa to India.
P. K. Hitti, History of the Arabs, 1979, p. 689 .
5۔ پندرھویں صدی عیسوی کے آخر میں جو دریافتیں ہوئیں ان میں سے ایک وہ دریافت ہے جس کو نئی دنیا (امریکا) کی دریافت کہاجاتا ہے۔ یہ عظیم دریافت عام طورپر کرسٹوفر (کولمبس 1506-1451) کے نام سے موسوم ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اٹلی کا کولمبس ہی وہ شخص ہے جس نے اس مہم کی رہنمائی کی۔ مگر اس کو یہ تصور دینے والے مسلمان تھے کہ وہ اٹلانٹک سمندر میں اپنی کشتی اس امید میں داخل کرے کہ اس ناپیداکنار سمندر کے دوسری طرف اس کو خشکی ملے گی جہاں وہ اتر سکے۔
پروفیسر ہٹی نے لکھاہے کہ عربوں نے زمین کے گول ہونے کے قدیم نظریہ کو زندہ رکھا ،جس کے بغیر نئی دنیا کی دریافت ممکن نہ ہوتی۔ اس نظریہ کا ایک مبلغ ابو عبیدہ مسلم البلنسی تھا جس نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ اس کا زمانہ دسویں صدی عیسوی کا نصف اول ہے۔ زمین کے گول ہونے کا نظریہ عربی سے لاتینی میں ترجمہ ہو کر 1410ء میں یورپ میں شائع ہوا۔ اس کو پڑھ کر کولمبس نے اس نظریہ سے واقفیت حاصل کی۔ اِس سے اُس نے سمجھا کہ زمین ایک ناشپاتی کی مانند ہے اور یہ کہ زمین کے مغربی نصف کرہ میں بھی ایسا ہی ابھار موجود ہے جیسا کہ اس کے مشرقی نصف کرہ میں نظر آتا ہے۔ پروفیسر ہٹی کے الفاظ یہ ہیں:
They kept alive the ancient doctrine that the earth was round. We have already referred to the Hindu idea that the known hemisphere of the world had a centre or “world cupola” situated at an equal distance from the four cardinal points. This arīn theory found its way into a Latin work published in 1410. From this Columbus acquired the doctrine which made him believe that the earth was shaped in the form of a pear and that on the western hemisphere opposite the arin was a corresponding elevated centre.
P. K. Hitti, History of the Arabs, The Macmillan Press Ltd., London, Tenth Edition 1979, p. 570.
ہمیں کیا کرنا ہے
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرناہے۔ ماضی میں بلاشبہ مسلمانوں نے بہت بڑی بڑی سائنسی خدمات انجام دی تھیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان سائنس اور صنعت کے میدان میں تمام قوموں سے پیچھے ہوگئے ہیں۔ آج وہ اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ خالص سائنسی اور صنعتی اعتبار سے اہلِ دنیا کے لیے نفع بخش بن سکیں۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک صنعتی دور (industrial Age) میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ جب کہ بقیہ دنیا الوین ٹافلر کے الفاظ میں، مافوق صنعتی دور (super-industrial Age) میں داخل ہوگئی ہے۔
Alvin Toffler, Future Shock, New York, 1971
مگر امت مسلمہ محفوظ آسمانی کتاب کی حامل ہے۔ اس نسبت سے وہ خود بھی ایک محفوظ امت ہے۔ اس محفوظیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں مواقع بظاہر ختم ہوجائیں، وہاں بھی اس کے لیے ایک نیا موقع موجود رہتا ہے۔ خدا نےانسانیت کے لیے عام طور پر اور امت مسلمہ کے لیے خاص طورپر یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر ڈس ایڈوانٹج کے ساتھ اس کے لیے ایک ایڈوانٹج ہمیشہ موجود رہے۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:فَإِن معَ الْعُسْرِ یُسْراً إنَّ معَ الْعُسْرِ یُسْراً( 94:5-6 )۔ یعنی پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اللہ تعالی کی یہ سنت موجودہ زمانہ میں پوری طرح ظاہر ہوچکی ہے۔سائنس اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچ کر ایک ایسے سنگین مسئلہ سے دوچار ہے جس کا خود اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ نہ سائنسی طبقہ سے باہر کوئی گروہ ایسا موجود ہے، جو اس مسئلے کا حل اسے دے سکے۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو محفوظ آسمانی کتاب کے حامل ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ سائنسی طبقہ کو نیز پوری انسانیت کو اس مسئلہ کےحل کا تحفہ پیش کرسکیں۔
اس معاملہ کی نوعیت سمجھنے کے لیےیہاں میں انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کا ایک پیراگراف نقل کروں گا۔ اس کے تاریخ سائنس (History of Science) کے مقالہ نگار نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:
Until recently, the history of science was a story of success. The triumphs of science represented a cumulative process of increasing knowledge and a sequence of victories over ignorance and superstition; and from science flowed a stream of inventions for the improvement of human life. The recent realization of deep moral problems within science of external forces and constraints on its development, and of dangers in uncontrolled technological change has challenged historians to a critical reassessment of this earlier simple faith. (16/366)
ابھی حال تک سائنس کی تاریخ کامیابیوں کی کہانی تھی۔ سائنس کی فتوحات میں یہ شمار ہوتا تھا کہ اس نےانسانی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور جہالت اور توہم پرستی پر فتح حاصل کی ہے۔ سائنس سے ایجادات کا ایک سیلاب نکلا ہے جس نے انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ مگر حال میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سائنس گہرے اخلاقی سوالات سے دوچار ہے۔ بے قید ٹکنالوجی کے خطرات کی وجہ سے اس کی ترقی پر روک لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یہ صورتِ حال مؤرخین کو چیلنج کررہی ہے کہ وہ ان خیالات کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیں جو ابتدا میں سادہ طورپر قائم کرلیے گئے تھے۔
جدید دنیا کا یہی وہ خلا ہے جہاں مسلمان اپنے نفع بخش ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں، اور اس طرح دوبارہ اپنے لیے سرفرازی کا وہ مقام حاصل کرسکتے ہیں جو انھوں نے دنیا میں کھودیا ہے۔
سائنس کی ابتدائی فتوحات نے بہت سے لوگوں کو اتنا زیادہ متاثر کیا کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ اب ہمیں سائنس کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ سائنس ہماری تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ اس سلسلہ میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ جولین ہکسلے (1975-1887) نے اس نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک کتاب شائع کی تھی جس کا نام تھا — انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے:
Man Stands Alone
اس کے جواب میں کریسی ماریسن (1946-1884) نے ایک کتاب شائع کی جس کا نام بامعنی طورپر یہ تھا — انسان تنہا کھڑا نہیں ہوسکتا:
Man Does Not Stand Alone
بیسویں صدی کے نصف اول تک انسان کا یہ دعوی تھا کہ اس کی سائنس اس کے لیے کافی ہے۔ مگر اسی صدی کے نصف ثانی میں انسان کو اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جو بات کریسی ماریسن جیسے چند مستثنی افراد کہتے تھے، اب وہ عام طورپر لوگوں کی زبانوں سے کہی جارہی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے۔
جدید انسان کی ذہنی حالت کیا ہے، اس کا ایک نمونہ لارڈ بر ٹرینڈرسل (1970-1872) ہے۔ وہ انگلینڈ کے ایک دولت مند خاندان میں پیدا ہوا۔ اس نےاعلی ترین تعلیم حاصل کی۔ اس کو نوبل انعام ملا جو آج کی دنیا میں سب سے بڑا علمی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس نے مذہب کو چھوڑ دیا اور مادی سائنس میں سکون تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر بھر پور عمر گزارنے کے باوجود اس کو وہ چیز نہیں ملی جس کو سکون کہاجاتا ہے۔ برٹرینڈرسل کی طویل خودنوشت سوانح عمری کے آخر میں ہم اس کے ہاتھ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے پاتے ہیں:
The inner failure has made my mental life a perpetual battle (p. 727 )
اندرونی ناکامی نے میری ذہنی زندگی کو ایک مستقل جنگ میں مبتلا رکھا۔
گلیلیو اور سائنس
آپ سائنس کی تاریخ کی کسی کتاب میں گلیلیو (1642-1562) کا باب کھول کر دیکھیں تو وہاں آپ کو اس قسم کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے کہ گلیلیو نے مشاہدہ اور تجربہ اور ریاضی کو جس طرح استعمال کیا اس نے جدید سائنس کی بنیاد رکھنے میں مدد دی:
His use of observation, experiment and mathematics helped lay foundation of modern science.
گلیلیو کا خاص کارنامہ کیا ہے۔ گلیلیو کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ اس نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد (Dimension) اور وزن (Weight) پر مشتمل ہیں اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان کو ثانوی صفات سے الگ کردیا جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ ایک لفظ میں یہ کہ اس نے کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا۔
گلیلیو کے اس فعل نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آدمی میٹر کو استعمال کرسکے، بغیر اس کے کہ اس نے میٹر کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی ہوں۔ اس طرح فطرت کو کام میں لانے کا دروازہ کھل گیا۔ ٹکنالوجی کو ترقی ہوئی اور بے شمار نئی نئی چیزیں بننے لگیں جو انسان کے لیے مفید ثابت ہوئیں۔ مگر زیادہ مدّت نہیں گزری کہ انسان کا عدم اطمینان ظاہر ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں سائنس داں یا انجینئر کا معاملہ اس جاہل بڑھئی سے کچھ بھی مختلف نہیں جو لکڑی کو کاٹ کر فرنیچر بناتا ہے، اگرچہ وہ لکڑی کی کیمسٹری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ گلیلیو نے چیزوں کے جس ظاہری پہلو کو الگ کرکے اس کو سائنس کے مطالعہ کا موضوع بنایا تھا، اس کے بارہ میں بھی انسان کی معلومات حد درجہ ناقص ہیں۔ انسان نہ صرف پھول کی ’’خوشبو‘‘سے بے خبر ہے بلکہ پھول کی ’’کیمسٹری‘‘ بھی بہت کم اس کے علم میں آتی ہے۔ ایک چیز جس کو متمدن دنیا کا انسان تین سو سال تک علم سمجھتا رہا وہ بھی آخر کار بے علمی ثابت ہوا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
As is natural when one is trying to ignore a profound cause of unhappiness, I found impersonal reasons for gloom. I had been very full of personal misery in the early years of the century, but at that time I had a more or less Platonic philosophy which enabled me to see beauty in the extra-human universe. Mathematics and the stars consoled me when the human world seemed empty of comfort. But changes in my philosophy have robbed me of such consolations. Solipsism oppressed me, particularly after studying such interpretations of physics as that of Eddington. It seemed that what we had thought of as laws of nature were only linguistic conventions, and that physics was not really concerned with an external world. I do not mean that I quite believed this, but that it became a haunting nightmare, increasingly invading my imagination. (Bertrand Russell, Autobiography, Unwin Paperbacks, London, 1978, pp. 392-93 )
میں نے اپنی اداسی کے کچھ غیر شخصی اسباب پالیے جیسا کہ عام طورپر اس وقت ہوتا ہے جب کہ آدمی ناخوشی کے ایک گہرے سبب کو نظر انداز کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ میں موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں ذاتی پریشانیوں میں بہت زیادہ مبتلا رہاہوں۔ مگر اس وقت میں کم وبیش افلاطونی فلسفہ کا قائل تھا جس نے مجھے اس قابل بنائے رکھا کہ میں خارجی دنیا میں حسن کو دیکھ سکوں۔ ریاضیات اور ستاروں نے مجھے اس وقت تسکین دی جب کہ انسانی دنیا آسائش سے خالی نظر آتی تھی۔ مگر میرے فلسفہ میں تبدیلی نے اس قسم کی تسکین کو مجھ سے چھین لیا۔ خودی نے مجھ کو بالکل مضمحل کردیا۔ خاص طورپر اس وقت جب کہ میں نے طبیعیات کی ان تشریحوں کو پڑھا جو اڈنگٹن جیسے لوگوں نے کی ہیں۔ مجھ کو نظر آیا کہ جس چیز کو ہم نے فطرت کے قوانین سمجھا تھا وہ محض الفاظ کا معاملہ تھا۔ اور طبیعیات حقیقةً کسی خارجی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کو پوری طرح مانتا ہوں۔ مگر یہ میرے لیے ایک کابوس بن گیا جو میرا پیچھا کررہا تھا۔ وہ میرے تخیلات پر برابر حملہ کررہا تھا۔
روحانی تسکین
جو سائنس خارجی دنیا کا علم دینے سے عاجز تھی وہ اس باطنی دنیا کا علم کیا دیتی جس کے بارے میں اس نے گلیلیو ہی کے زمانہ میں عملی طورپر اپنی نارسائی کا اعلان کردیا تھا۔ سائنس آدمی کو وہ جھوٹا اطمینان بھی نہ دے سکی جو مادی سطح پر بظاہر ایک انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اور ذہنی اور روحانی سطح کا اطمینان تو نہ اس کے بس میں تھا اور نہ کبھی اس نے اس کو دینے کا دعوی کیا۔
قرآن میںارشادہوا ہے:أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( 13:28 )۔ یعنی سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔ یہی بات بائبل میں ان الفاظ میں آئی ہے— انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا، بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے، وہ جیتا رہتا ہے:
Man does not live by bread alone but by every word that comes from the mouth of the Lord. (Deuteronomy 8:3)
حضرت مسیح نے اسی بات کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے— آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے:
Man shall not live by bread alone, but by every word that comes from the mouth of God. (Matthew 4:4)
انسان اپنے ساتھ ایک مخصوص نفسیات رکھتا ہے۔ اس نفسیات سے وہ اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ یہ نفسیات ایک برتر تسکین کی طالب ہے۔ انسان کو مادی سازوسامان کے ساتھ ایک عقیدہ اور ایک اصولِ حیات بھی درکار ہے۔ سائنس نے انسان کو جو کچھ دیا وہ اپنی آخری صورت میں بھی صرف مادی سازوسامان تھا۔ سائنس انسان کو ایک قابلِ اعتماد عقیدہ نہ دے سکی۔ یہی وہ کمی ہے، جس نے جدید دنیا کے بے شمار لوگوں کو غیر مطمئن کر رکھا ہے۔ باہر سے دیکھنے والوں کو ان کی زندگیاں پُررونق نظرآتی ہیں۔ مگر اندر سے ان کی روح بالکل ویران ہوچکی ہے۔
اقدار کا مسئلہ
یہ مسئلہ جس سے آج کا انسان دوچار ہے، فلسفیانہ لفظ میں اس کو اقدار کا مسئلہ (problem of values) کہاجاسکتا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ انسان ایک دہری مشکل سے دوچار ہے۔ وہ جانتا ہےمگر نہیں جانتا۔ معلومات کے ڈھیر کے درمیان وہ محسوس کرتاہے کہ وہ کم سے کم اس پوزیشن میں ہوتا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ کرسکے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو بُرا سمجھے۔ وہ اس تمیز کو کسی بھی طرح اپنے آپ سے جدا نہیں کرسکتا۔ مگر جب اپنی عقل یا اپنے علم کے ذریعہ وہ اس کو متعین کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کو متعین نہیں کرپاتا۔
جوزف وڈکرچ نےاپنی کتاب ’’دورِ جدید کا مزاج‘‘ میں اس مسئلہ پر عقلی بحث کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اگرچہ باعتبار فطرت یہ یقین کرنے کی طرف مائل ہے کہ زندگی کا ایک مقصد ہے اور اچھائی اور برائی کا ایک معیار ہے۔ مگر سائنس اس کا کوئی حتمی جواب نہیں دیتی۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سےزیادہ ظاہر کرتی جاری ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی موضوعی مقام (objective status) نہیں رکھتیں۔ انسان اخلاقی معیاروں کی ضرورت محسوس کرتاہے جس کے مطابق وہ زندگی گزارے۔ وہ وجدانی طورپر اس کی مستقل تلاش میں ہے۔ مگر سائنس کی دریافت کردہ دنیا میں خیر وشر کے تصورات کی کوئی جگہ نہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان ایک اخلاقی جانور ہے جو ایک ایسی کائنات میں ہے جہاں اخلاقی عنصر کا کوئی وجود نہیں:
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. (Joseph Wood Krutch, The Modern Temper, New York, 1929, p. 16 )
انسان چیزوں کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف چیزوں کے ڈھانچہ کا علم دیتی ہے۔ انسان دنیا کے آغاز وانجام کو جاننا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف درمیانی مرحلہ کے بارہ میںکچھ باتیں بتاتی ہے۔ انسان چیزوں کی معنویت کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف اس کی ظاہری ہیئت کا پتہ دیتی ہے۔ انسان پھول کی مہک کو سمجھنا چاہتا ہے مگر سائنس اس کو صرف پھول کی کیمسٹری سے آگاہ کرتی ہے۔ انسان ذہن اور روح کی گہرائی میں اترنا چاہتاہے مگر سائنس صرف جسم کے مادی اجزا کا تجزیہ اس کے سامنے پیش کرتی ہے۔ ایک لفظ میں یہ کہ انسان ’’خالق‘‘ کے بارہ میں جاننا چاہتا ہے اور سائنس اس کو صرف ’’مخلوق‘‘ کے بارہ میں بتا کر خاموش ہوجاتی ہے۔
یہی بات ہے جس کو ایک مغربی مفکر نے حسرت کے ساتھ اس فقرہ میں بیان کیا ہے— جو اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے، اور جو قابل دریافت ہے وہ اہم نہیں:
The important is unknowable, and the knowable is unimportant.
اعلی ذریعۂ علم
یہی بے اطمینانی جدیددور کے تمام باشعور انسانوں کا پیچھا کیے ہوئے ہے۔ ان کی اکثریت اگر چہ مذہب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر انھوںنے یہ بات مان لی ہے کہ جس سائنسی ترقی کو انھوں نے انسانیت کے مسئلہ کا حل سمجھ لیا تھا، وہ انسانیت کے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ برٹرینڈ رسل نے مغربی فکر وفلسفہ پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے آخر میں ہم اس کے اعتراف کے حسب ذیل کلمات پاتے ہیں:
(Western philosophers) confess frankly that the human intellect is unable to find conclusive answers to many questions of profound importance to mankind, but they refuse to believe that there is some 'higher' way of knowledge, by which we can discover truths hidden from science and the intellect. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, 1979, p. 789 )
مغربی فلسفی کھلے طور پر اقرار کرتے ہیں کہ انسانی عقل کے بس سے باہر ہے کہ وہ ان بہت سے سوالات کا قطعی جواب پاسکے جو انسانیت کے لیے بے حد اہمیت رکھتےہیں۔ مگر وہ اِس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ سائنس کے علاوہ علم کا کوئی اور بلند طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم ان سچائیوں کو دریافت کرسکیں جو سائنس اور عقل کی دسترس میں نہیں آتیں۔
آج کے انسان کو یہی بتانا اس کو سب سے بڑی چیز دینا ہے کہ ہاں، یہاں ایک بلند تر طریقہ موجود ہے جس کے ذریعہ نامعلوم کو معلوم کیا جاسکے۔ اور وہ الہام خداوندی ہے۔ اور یہ الہام خداوندی جہاں اپنی محفوظ شکل میں موجود ہے وہ قرآن ہے۔
قرآن پوری طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار برس سے مسلسل اپنی صداقت کو ثابت کررہا ہے، اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ اور دوسری کتابوں میں گفتگو کی ہے۔ اس کی تفصیل ان کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
داخلی شہادت
اخلاقی یا مذہبی احساس انسان کے اندر بے حد طاقت ور ہے۔ ماضی سے لے کر حال تک کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ احساس کسی طرح انسان کے اندر سے ختم نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ یہ خالص انسانی خصوصیت ہے۔ کسی بھی نوع کے جانور میں اب تک اخلاقی یا مذہبی شعور کا ہونا ثابت نہ کیا جاسکا۔
الفرڈ رسل ویلس (1913-1823)مشہور ارتقا پسند عالم ہے۔ تاہم وہ ڈارون کی طرح اس کا قائل نہ تھا کہ ذہنِ انسانی کی اعلی اور نادر خصوصیات محض انتخابِ طبیعی (natural selection) کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اس نے لکھا ہے کہ افادیت کا مفروضہ جو کہ دراصل ذہن پر انتخاب طبیعی کے نظریہ کا انطباق ہے، وہ انسان کے اندر اخلاقی شعور کی پیدائش کی تشریح کے لیے ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اخلاقی شعور کو اس دنیا میں بےحد مشکلات کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے استثنائی حالات پیش آتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اخلاقی شعور کے تحت عمل کرنے والا موت سے دوچار ہوتا ہے یا برباد ہو کر رہ جاتاہے۔ ہم کیوں کر یقین کرسکتے ہیں کہ افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پر اسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت کا لحاظ ایک شخص کے اندر ایک اعلی نیکی کے لیے اتنا پراسرار تقدس پیدا کرسکتا ہے۔ کیا افادیت آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرسکتی ہے کہ وہ سچائی کو بذاتِ خود مقصود ومطلوب سمجھے اور نتائج کا لحاظ کیے بغیر اس پر عمل کرے:
The Utilitarian hypothesis, which is the theory of natural selection applied to mind, seems inadequate to account for the development of the moral sense. Such being the difficulties with which virtue (or the moral sense) has had to struggle, with so many exceptions in its practice, with so many instances in which it brought ruin or death to its too ardent devotee, how can we believe that considerations of utility could ever invest it with the mysterious sanctity of the highest virtue–-could ever induce men to value truth for its own sake, and practice it regardless of consequences.
’’ذہین کائنات‘‘ نامی کتاب کا مصنف فریڈ ہائل اپنے قیمتی مطالعہ کا خاتمہ ان الفاظ پر کرتاہے کہ اگر زمین کو کسی مزید اہمیت کا حامل بننا ہے، اور انسان کو کائناتی اسکیم میں کوئی جگہ پانی ہے تو ضرورت ہوگی کہ ہم افادیت کے نظریہ کو مکمل طورپر ترک کردیں۔ اگر چہ میرا خیال ہے کہ قدیم طرز کے مذہبی نظریات کی طرف واپسی کچھ مفید نہ ہوگی، مگر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ایساکیوں ہے کہ ویلس کی تشریح کے مطابق ، پراسرار تقدس ہمارے اندر موجود رہتا ہے اور فردوسی دنیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیا ہم اس کی پیروی کریں گے:
If the Earth is to emerge as a place of added consequence, with man of some relevance in the cosmic scheme, we shall need to dispense entirely with the philosophy of opportunism. While it would be no advantage I believe to return to older religious concepts, we shall need to understand why it is that the mysterious sanctity described by Wallace persists within us, beckoning us to the Elysian fields, if only we will follow. (Fred Hoyle, The Intelligent Universe, Michael Joseph, London, 1983, p. 251 )
حقیقت یہ ہے کہ مذہب انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج کا انسان بھی اتنا ہی زیادہ مذہب کا ضرورت مند ہے جتنا قدیم زمانہ کا انسان تھا۔ مزید یہ کہ سائنس کی طرف سے مایوسی نے اس کو مزید شدت کے ساتھ مذہب کا مشتاق بنادیا ہے۔ مگر جدید انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ مذہب کے نام سے جس چیز کو جانتا ہے ،وہ صرف بگڑے ہوئے مذاہب ہیں، اور بگڑے ہوئے مذاہب کے ساتھ انسانی فطرت کو مطابقت نہیں۔ جدید انسان جب اندرونی تقاضے سے مجبور ہو کر مذہب کے بارے میں سوچتا ہے تو اسی بگڑے ہوئے مذہب کی تصویر اس کے سامنے آجاتی ہے۔ وہ مذہب سے قریب ہو کر دوبارہ مذہب سے دور ہوجاتا ہے۔
اسلام ایک محفوظ مذہب ہے۔وہ ان خرابیوں سے یکسر پاک ہے جو انسانی ملاوٹ کے نتیجہ میں دوسرے مذہبوں میں پیدا ہوگئی ہیں۔ انسان کی فطرت جس مذہب کو تلاش کررہی ہےوہ حقیقةً اسلام ہی ہے۔ مگر مسلمانوںکا حال یہ ہے کہ وہ اسلام کو اپنے خود ساختہ جھگڑوں کا عنوان بنائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اسلام کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کیا، اور اگر پیش کیا تو بگڑی ہوئی خود ساختہ صورت میں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اسلام اور دوسرے مذہبوں میں بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اگر اس کی اصل صورت میں آج کے انسان کے سامنے پیش کردیا جائے تو وہ یقیناً اس کو اپنی طلب کا جواب پائے گا اور اس کی طرف دوڑ پڑے گا۔
مسلمان سائنس کے میدان میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں مگر عقیدہ (نظریۂ حیات) کے معاملہ میں وہ آج بھی دوسروں سے آگے ہیں۔ وہ جدید دنیا کو وہ چیز دے سکتے ہیں جس کی آج اسے سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے آیا ہوا سچا دین، وہ دین جس کے اوپر آدمی اپنے لیے ایک پر اعتماد زندگی کی تعمیر کرسکے۔ یہ مقام آج مسلمانوں کے لیے خالی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں وہ اہلِ عالَم کے لیےنفع بخش بن سکتے ہیں، اور دوبارہ اپنے آپ کو اِس کا اہل ثابت کرسکتےہیں کہ قدرت کا یہ قانون ان کے حق میں پورا ہو — فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ ( 13:17 )۔ یعنی پس جھاگ تو سوکھ کر جاتا رہتا ہے اورجو چیز انسانوں کو نفع پہنچا نے والی ہے، وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
واپس اوپر جائیں