غالباً 1965 ء میں مَیں اعظم گڑھ سے کانپور گیا تھا۔ کانپور میں میرے ایک مدرسے کے ساتھی تھے،ان کا نام تھا، مرزا امتیاز بیگ اصلاحی۔ اب ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ کانپور کے اس سفر میں مَیں مرزا امتیاز بیگ اصلاحی کےیہاں چند دن ٹھہرا۔ یہاں قیام کے دوران انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا، جو بہت سبق آموز تھا، اور یہ واقعہ اب تک مجھے یاد ہے۔
مرزا امتیاز بیگ اصلاحیاعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ کانپور میں انھوں نے چمڑے کا بزنس شروع کیا تھا۔ پہلے وہ یہاں ایک مکان میں کرائے پر رہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مالکِ مکان نے مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے کوشش کی کہ دوسرا کوئی مکان کرائے پر مل جائے، مگر کافی کوشش کے باوجود ان کو کانپور میں دوسرا کوئی مکان کرائے پر نہیں ملا۔ ان کا یہ مالک مکان ایک ہندو تاجر تھا۔ وہ روزانہ اس کے پاس جاتے ، اور کہتے کہ میرے پاس کوئی دوسرا مکان نہیں ہے، اس لیے آپ مجھے اس مکان میں رہنے دیں۔ لیکن مالک مکان کسی طرح راضی نہیں ہوتاتھا۔ وہ روزانہ مالک مکان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ آخر کار ایک دن اس نے الٹی میٹم کی زبان میں کہہ دیا کہ آپ میرے مکان کو خالی کردیں، ورنہ میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا۔
یہ سن کر مرزا امتیاز بیگ اصلاحی مایوسی کے عالم میں واپس آگئے۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ اس رات کو انھیں نیند نہیں آئی، وہ رات کے اکثر اوقات دعا کرتے رہے۔ انھوں نے اللہ سے کہا : خدایا ، میرے پاس تو کوئی گھر نہیں ہے ، میں کل کہاں جاؤں۔ اسی طرح کی دعاؤں میں رات گزرگئی۔ اگلے دن صبح کو وہ پھر مالکِ مکان کے پاس گئے۔ جب وہ اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو ان کی توقع کے بالکل خلاف تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ مالک مکان اور اس کی بیوی دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن پر نظر پڑتے ہی مالک ِمکان بولا۔ مرزا صاحب آئیے، ہم تو آپ ہی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر مالک مکان نے خلاف توقع کہا: ہمارے پاس ایک اور مکان ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فی الحال ہم اس کو استعمال کریں گے ۔ اس درمیان آپ کوئی مکان تلاش کر لیجیے۔جب مکان مل جائے ، تو آپ ہمارے مکان کو ہمارے استعمال کے لیے چھوڑ دیجیے۔
یہ ایک سچا واقعہ ہے، جس کو خود صاحبِ واقعہ نے براہ راست طور پر مجھ سے بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندے کو ہمیشہ سچی اسپرٹ کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ (
تاریخ میں اس قسم کی قبولیتِ دعا کے واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً قدیم مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیمانے پر دعوت کا کام کیا۔ وہاں بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ لیکن عمربن الخطاب آپ کے مخالف بنے رہے۔ یہاں تک کہ روایت میں آیا ہےکہ ایک صحابی، عامر بن ربیعہ اپنی بیوی، لیلی بنت ابی حثمہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کررہے تھے کہ عمر بن الخطاب کا وہاں سے گزر ہوا۔ عمر نے ماجرا پوچھا، انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہمیں ستاتے ہو، اس لیے ہم شہر چھوڑ کر جارہے ہیں، عمر نے کچھ ہمدردی کے الفاظ کہے۔ یہ سن کر عامر بن ربیعہ نے کہا: کیا تم امید کرتی ہو کہ عمر اسلام قبول کرلے گا، لیلیٰ نے کہا: ہاں، تو عامر نے جواب دیا:خدا کی قسم ،خطّاب کا گدھا اسلام قبول کرسکتا ہے، لیکن عمر نہیں کرے گا (وَاللّہِ لَا یُسْلِمُ حَتَّى یُسْلِمَ حِمَارُ الْخَطَّابِ )۔ المعجم الکبیر للطبرانی،
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک تعلیم ان الفاظ میں آئی ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ(
There are some who set up equals with God and adore them with the adoration due to God, but those who believe love God most.
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ امر (حکم) کے صیغے میں نہیں ہے، بلکہ وہ خبر (information)کے اسلوب میں ہے۔ یعنی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی میں کوئی غیر خدا ان کی حبِّ شدید کا مرکز بن جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ ایمان والے ہیں، یعنی جن کو اللہ رب العالمین کی دریافت ہوگئی ہے، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر بطور واقعہ اللہ رب العالمین سے حبِّ شدید پیدا ہوجاتی ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ایک فطری کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے، یعنی کسی چیز سے گہری محبت کاتعلق قائم کرنا۔ یہ حکم کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ فطری حالت کا معاملہ ہے۔ مومن وہ ہے، جو اس حقیقت کو دریافت کرلے کہ اللہ رب العالمین اس کا سب کچھ ہے۔ اس وقت یہ ہوتا ہے کہ اللہ ہی کامل معنوں میں اس کا مرکزِ محبت بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کچھ لوگ جو فطرت کے اس معاملے کو دریافت نہیں کرپاتے ، ان کا کیس غلط انتساب (wrong attribution) کا کیس بن جاتا ہے۔ وہ عدمِ دریافت کی بنا پر اپنے اس فطری جذبے کو اللہ رب العالمین کے سوا کسی اور سے منسوب کرلیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے سواکوئی اور ان کے اس فطری جذبے کا مرکز بن جاتا ہے۔گویا شرک اور توحید دونوں انتساب کا معاملہ ہے، شرک غلط انتساب کا معاملہ، اور توحید درست انتساب کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں
فتح ِمکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک صحابی کہتے ہیں: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّةَ، فَقَالَ:لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ- قَالَ ہُشَیْمٌ مَرَّةً أُخْرَى-الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی صَدَقَ وَعْدَہُ، وَنَصَرَ عَبْدَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15388) ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح ِمکہ کے دن خطبہ دیا، تو کہا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اسی نے اپنے بندے کی مدد کی، اور اکیلے لشکروں کو شکست دی، ہُشَیم راوی نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی۔
مکہ کی فتح کا واقعہ سن آٹھ ہجری میں ہوا، آپ اس واقعے کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ یہ واقعہ رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے وقوع میں آیا۔ پھر رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اپنی تقریر میں مذکورہ بالا الفاظ کیوں کہے۔ یہ قصیدے کی زبان نہیں ہے، بلکہ واقعے کی زبان ہے۔ اگر وہ قصیدہ کی زبان ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کی اہمیت اسی وقت ہے، جب کہ وہ حقیقت کی زبان میں کہی جائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ جو اس دنیا میں پیش آتا ہے، وہ بے شمار عوامل (factors) کے مجموعی عمل کے نتیجے میں پیش آتا ہے۔ ان عوامل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ ان عوامل میں کوئی ایک عامل اگر اپنا کام نہ کرے، تو مطلوب نتیجہ کا نکلنا ناممکن ہوجائے گا۔ خواہ ایک درخت کا اگنا ہو، یا سورج کا نکلنا ہو، یا بارش کا برسنا ہو، سب اسی نہج پر وقوع میں آتے ہیں۔ یہی معاملہ تاریخ کے واقعات کا بھی ہے۔مومن وہ ہے،جو صاحبِ معرفت انسان ہو۔ صاحب معرفت انسان ، صاحبِ دریافت انسان ہوتا ہے۔ ایک مومن کی معرفت انہیں عالمگیر حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ مومن جب مذکورہ قسم کے الفاظ بولتا ہے، تو وہ قصیدہ کی زبان نہیں ہوتی، بلکہ وہ دریافت (discovery) کی زبان ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
قرآن کی اس آیت میںایک بات بظاہر غیر مذکور ہے، مگر وہی بات آیت کا اصل مدعا ہے۔ آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ یہ کیس اس انسان کا ہے، جو غلطی کرنے کے بعد شرمندہ ہو، اور اللہ سے مغفرت کا طالب ہو، تو ایسے انسان کو یہ امید رکھنا چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا ہوگا کہ اس کو معاف کردیا جائے، اور اس کو جنت میں داخلہ دے دیا جائے۔
دوسری آیات اور احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کواس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ اس کےاندر غلطی کرنے کے بعد شرمندگی ہو، اور اس کے اندر ندامت (repentance) کا احساس جاگ اٹھے۔ یہ احساس انسان کی اصلاح کا ضامن ہے۔ انسان کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر وہ اپنی فطرت پر قائم رہے، توہمیشہ ایسا ہوگا کہ غلطی کرنے کے بعد اس کے اندر ندامت کا احساس جاگ اٹھے۔ اس احساس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی احساسِ خطا کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب ہوگا۔ یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کی اصلاح کا سب سے بڑا ضامن ہے۔
یہ نفسیاتی واقعہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ غلطی کرنے کے بعد اپنی اصلاح کرے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو اصلاح یافتہ بنالے۔ وہ گمراہی کی تاریکی کو دوبارہ روشنی میں تبدیل کرلے۔ وہ اپنی غفلت کو دوبارہ بیداری بنالے ۔ وہ آلودگی میں مبتلا ہونے کے بعد دوبارہ اپنے آپ کو پاک و صاف بنالے۔ وہ خدا سے دور ہونے کے بعد دوبارہ خدا کی قربت حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس حدیث میں ایک فطری مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیداہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
اس حدیث میں ایک ایسے عمل (process) کا ذکر ہے، جو ہر انسان کے ساتھ لازماً پیش آتا ہے۔ ہر انسان اصلاً مذہبِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، مگر بعد کووہ اپنے قریبی کلچر سے متاثر ہو کر دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتاہے۔ یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ بلااستثنا پیش آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ابتدائی طور پر خالق کا شعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیدائشی طور پر خالق کے مقرر کردہ مذہب کی پیداوار ہوتا ہے۔ لیکن دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کسی ماحول میں زندگی گزارتا ہے، وہ ہر لمحے اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ انسان ابتدائی طور پر فطرت کے پروڈکٹ کے طو رپر پیدا ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے وہ پوری طرح ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔
لفظ بدل کر اس حقیقت کو بیان کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اس حدیث میں در اصل کنڈیشننگ (conditioning) کے معاملے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی ابتدائی طور پر اپنی حالتِ فطری پر ہوتا ہے، لیکن ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ دھیرے دھیرے ماحول کا پروڈکٹ بن جاتاہے۔ یہ ہر آدمی کا کیس ہے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرکے اپنے کیس کو سمجھے ۔ ہر آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر اپنے آپ کو اپنی فطری حالت پر قائم کرے۔ اسی عمل کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں فطری طور پر انسان کی جو ضرورتیں ہیں، خالق کی طرف سےوہ سب کی سب انسان کو دے دی گئی ہیں۔ اب انسان کو اپنی ضروریات کے لیے تخلیق نہیں کرنا ہے، بلکہ ضروریات کو دریافت کرکے اس کو استعمال (avail)کرنے کی پلاننگ کرنا ہے، تاکہ انسان ان کو پوری طرح استعمال کرسکے۔
ضروریات کی یہ فراہمی صرف ہوا اور پانی تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسری تمام چیزوں تک وسیع ہے۔ مثلا ً حکومت کو لیجیے۔ لوگ حکومت کو سرچشمہ اقتدار سمجھتے ہیں۔ وہ اہلِ حکومت سے حکومت کو چھیننے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں کرتے ہیں۔ حالاں کہ حکومت کا جو اصل مقصد ہے، وہ ہر ایک کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ غور کیجیے تو حکومت کی سیٹ (seat) پر بیٹھنے کا موقع کسی ایک شخص کو ملتا ہے۔ لیکن ایک قائم شدہ حکومت کی صورت میں جو امن (peace) قائم ہوتا ہے، اس میں ہر ایک کو حصہ ملتا ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے، تو سیاست کے معاملے میں لوگوں کو اقتدار چھیننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ موجودہ حکومت کے ذریعے حاصل شدہ مواقع کو اپنے اپنے مقصد کے مطابق اویل (avail) کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا سیاسی اقتدار کے معاملے میں اصل چیز حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے کی پلاننگ ہے، نہ کہ اقتدار کی کنجی کو چھیننے کی پلاننگ۔ اسی لیے قرآن میںدوسری چیزوں کی طرح حکومت کو بھی عطیہ خداوندی بتایا گیا ہے (البقرۃ
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ(
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; but being as they are, even if He makes them hear, they will turn away in aversion.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میںناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورتِ حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے ، اور کنفیوژن بلا شبہ قبولِ حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک شہر میں، میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے یہاں گیا۔ وہ ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُس سے ملاہوا غیر مسلموں کا فلیٹ تھا۔ مسلمان نے کہا کہ ہم لوگ اِس گھر میں پریشان رہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اِس گھر میں کچھ آسیب کا اثر ہے۔ میں نے کہا کہ یہ سب توہم پرستی (superstition) ہے۔ پھر میں نے اُن سے قرآن مانگا، تاکہ اِس معاملے میں، میںاُن کو قرآن کی ایک آیت دکھاؤں۔ معلوم ہوا کہ ان کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ موجودنہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ صاحبِ خانہ نے جواب دیا کہ پہلے یہاں قرآن کا ایک نسخہ موجود تھا، پھر ہم نے اُس کو بے ادبی کے ڈر سے مسجد میں رکھوا دیا۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے بارے میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مزاج کیا ہے۔ قرآن کو وہ شعو ری طورپر اپنے لیے رہ نمائی کی کتاب نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے اور اُس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اُس کو مفروضہ ’’بے ادبی‘‘ سے بچایا جائے۔بے ادبی کیا ہے۔ مسلم تصور کے مطابق، بے ادبی یہ ہے کہ قرآن نیچے ہو اور آپ اوپر بیٹھ جائیں۔ وضو کیے بغیر کوئی شخص قرآن کو چھولے۔ کوئی غیر مسلم، قرآن کو اٹھا کر اُسے دیکھنے لگے۔ قرآن غلاف میں لپٹا ہوا نہ ہو۔ قرآن ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر جائے۔ قرآن کھلا ہو ا رہ جائے، کیوں کہ ایسا ہوگا تو شیطان اس کو پڑھے گا۔ قرآن کے اوپر کوئی اور کتاب، یا کوئی اور چیز رکھ دی جائے، وغیرہ۔
یہ سب بے اصل باتیں ہیں۔ اِن خود ساختہ نظریات نے مسلمانوں کو قرآن سے دور کردیا ہے۔ قرآن کا حق یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے۔ اُس سے نصیحت لی جائے۔ اُس سے اپنے معاملات میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔ قرآن پر غور کیا جائے اور اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اُس سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کی جائے— قرآن، ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے اور یہی اُس کا حق ہے کہ لوگ اُس سے ہدایت حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں
دو مسلم نوجوان ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم دونوں دین کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ آج ساری دنیا میں اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے، الحاد زور پکڑتا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں دین کا کام کیسے کیا جائے۔
میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے : ابْدَأْ بِنَفْسِکَ (صحیح مسلم، حدیث نمبر
ابھی آپ کی سوچ یہ ہے کہ ساری دنیا اسلام کی دشمن ہے۔ لوگ اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس سوچ کے تحت آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آج اسلام کی خدمت یہ ہے کہ اس کے دشمنوں کو ختم کیا جائے۔ جب تک اسلام کے دشمنوں کو ختم نہ کیا جائے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے عمل کا راستہ نہیں کھلے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی آپ کا دل دوسروں کی نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ آپ اپنے دل کو دوسروں کی دشمنی سے پاک و صاف کریں، اپنے آپ کو اسلام کی خدمت کے قابل بنائیں۔یہ داخلی اصلاح کا کام ہے۔ جب داخلی اصلاح ہوجائے، تب خارجی اصلاح کا کام ہوگا۔
جب آپ اپنے آپ کو انسان سے محبت کرنے والا بنائیں گےتو فطری طور پر یہ ہوگا کہ آپ سوچیں گے کہ دین کا کام کس طرح انجام دیا جائے کہ وہ لوگوں کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہو۔اس کے بعد آپ اپنا مطالعہ بڑھائیں گے، دوسروں کے بارے میں ضروری معلومات جمع کریں گےاور دعوت کے کام کی پلاننگ کریں گے تاکہ وہ زیادہ مفید ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں
سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے ایک ممبر مسٹر رجت ملہوترا 7 مارچ 2008 کو اپنی کمپنی کے کسی کام سے دہلی سے ممبئی گئے۔ ان کا یہ سفر کنگ فشر (Kingfisher) ائر لائنس کے ذریعے ہوا۔ نئی دہلی کے ائر پورٹ پر جب وہ جہاز کے اندر داخل ہوئے، تو انھوںنے دیکھا کہ فرسٹ کلاس کی اگلی سیٹ پر ایک ہندو لیڈر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ ہوائی پرواز(civil aviation) کے منسٹر ہیں۔ اُس وقت مسٹررجت ملہوترا کی جیب میں ہمارے یہاں کا انگریزی میں چھپا ہوا پمفلٹ (The Reality of Life) موجود تھا۔ انھوںنے منسٹر صاحب کو ایک پمفلٹ یہ کہتے ہوئے پیش کیا:
Sir, this is for your inflight reading.
منسٹر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پمفلٹ کو لے لیا اور اُسی وقت اس کو پڑھنا شروع کردیا۔ مسٹر رجت ملہوترا نے جب یہ واقعہ مجھے بتایا، تو میںنے یہ سمجھا کہ موجودہ زمانے کے دعوتی امکانات میںسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ حاکم (ruler) اور محکوم (ruled) دونوں ایک سواری پر سفر کریں، اور محکوم کسی قسم کے درباری رسوم ادا کیے بغیر حاکم کو بے تکلف ایک خوب صورت چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ پیش کرسکے۔
جب پہلی وحی اتری، تو اُس میں یہ کہا گیا تھا: الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(
واپس اوپر جائیں
20 جون 2010 کو ایک ویڈیو کانفرنسنگ تھی۔ راقم الحروف نے دہلی سے امریکا کے ایک آڈینس کو خطاب کیا۔ یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا۔ اس خطاب کا موضوع یہ تھا:
How to do effective dawah work in the western world?
میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ملکوں میں مؤثر دعوتی کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر داعیانہ طرزِ فکر پیدا کریں۔ اِس وقت مختلف مغربی ملکوں میں دس ملین سے زیادہ مسلمان جاکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پچھلے مائنڈ سیٹ (mindset)کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔ وہ مشرقی گیم کو مغربی فیلڈ میں کھیلنا چاہتے ہیں:
They are playing eastern game in the western court.
یہ طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر باطل ہے۔ مغربی ملکوں میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اُن کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اُن کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں۔ وہ اُن سے نفرت کرنا یک طرفہ طورپر چھوڑ دیں۔ مزید یہ کہ یہ چھوڑنا اصولی طورپر ہو، نہ کہ منافقانہ طورپر۔ یہ مسلمان اگر ایسا کریں کہ ان کے دل میں تو نفرت ہو، لیکن وہ اسٹیج پر یا میڈیا میں مختلف بولی بولیں، تو یہ ان کے جرم میں مزید اضافے کے ہم معنی ہوگا۔
مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمان جب مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے تو اس کے بعد لازمی طورپر ان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی۔ ان کی سوچ مثبت سوچ بنے گی، ان کا بول خیر خواہانہ بول بن جائے گا، اُن کا کردار ایک با مقصد انسان کاکردار ہوگا۔ وہ مغربی ملکوں میں حریف اور رقیب کے طورپر نہیں رہیں گے، بلکہ داعی اور مبلغ بن کر رہیں گے۔ وہ ایک مشن کے حامل بن جائیں گے، اُن کو وہ ٹارگیٹ (target)مل جائے گا جو ایک سچے مومن کا ٹارگیٹ ہے، یعنی تمام انسانوں کو خدائی سچائی سے آگاہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن کی یہ آیت پڑھی:(ترجمہ) جنھوں نے اپنے دین میں راہیں نکالیں اور گروہ گروہ بن گئے (
یہ کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر دین کا خودساختہ ماڈل بنالیتے ہیں،اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی خدا کا دین ہے۔ یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ انسان ایک خود ساختہ دین کو اصل دین سمجھ لے۔انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ ماحول کے اثر سے اس کی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔ اس شخصیت کے بننے میں مختلف قسم کے تعلقات کا دخل ہوتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا پروڈکٹ (product) بن جاتا ہے۔ یہ اثرات دھیرے دھیرےاتنا زیادہ پختہ ہوجاتے ہیں کہ انسان اسی کو اصل دین سمجھنے لگتاہے۔ وہ سختی کے ساتھ اسی خود ساختہ دین پر قائم ہوجاتا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ فطرت کے تقاضوں پر کھڑا کرے۔
کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ کا معاملہ ہر انسان کا معاملہ ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے اثرات کے تحت ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بن جاتاہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کنڈیشننگ کو دریافت کرے۔ بے رحم ڈی کنڈیشننگ (merciless de-conditioning) کے تحت وہ اپنے بناوٹی مولڈ کو توڑے، اور دوبارہ اپنے آپ کو فطرت کے مولڈ (mould)پر قائم کرے۔ یہ عمل ہر انسان کو لازمی طورپر کرنا ہے۔ جو آدمی ڈی کنڈیشننگ کے اس عمل میں ناکام رہے، اس کا وہی حال ہوگا، جس کی تصویر مذکورہ حدیث میں بتائی گئی ہے،یعنی دین کے نام پر بے دین شخصیت۔
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر ذاکر حسین کی اس کہانی میں آزادی اور بہادری کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آزادی کے لیے بڑی سے بڑی طاقت سے لڑجاؤ، خواہ اس راہ میںتم کو اپنی جان دینی پڑے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ الموڑا کے ایک شخص، ابو خاں، کی بکری آزادی کی تلاش میں اپنے مالک سے بھاگ کر پہاڑ وں میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کو ایک بھیڑیا ملتا ہے۔ بکری خوب جانتی تھی کہ میں بھیڑیے کو نہیں مارسکتی مگر اس نے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ ضروری ہے، خواہ اس راہ میں جان دینی پڑے۔ کہانی کے مطابق، بکری ساری رات بھیڑیے سے لڑتی رہی یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہوگئی۔صبح ہوئی تو قریب کی مسجد سے مؤذن کی اللہ اکبر کی آواز آرہی تھی۔ بکری نے کہاکہ اللہ تیرا شکر ہے اور پھر وہ سخت زخمی ہو کر زمین پر گرگئی اور مر گئی۔ اس وقت پاس کے درخت پر کچھ چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اکثر چڑیوں نے کہا کہ بھیڑیا جیت گیا۔ مگر ایک بوڑھی چڑیا نے کہا کہ نہیں، بکری کی جیت ہوئی۔
بکری کی یہ لڑائی بلاشبہ بے مقصد بھی تھی اور بے فائدہ بھی۔ کہانی کے مطابق، بظاہر اس لڑائی کا کوئی واقعی مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس لڑائی سے کوئی فائدہ نکلنے والا نہ تھا۔ کہانی اس لڑائی کا کوئی مثبت فائدہ نہیں بتاتی۔ گویا کہ یہ لڑائی برائے لڑائی تھی، اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی لڑائی کوئی قابلِ تعریف کام نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو مذکورہ قسم کی لڑائی بکری کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ کوئی بکری کبھی اس طرح بھیڑیے سے لڑ کر اپنی جان نہیں دیتی۔ بکری کا طریقہ بھیڑیے سے ٹکراؤ کو اوائڈ کرنا ہے نہ کہ جان بوجھ کر اس سے لڑ جانا۔ اس فرضی کہانی کو اس کے مصنف نے الموڑا کے ایک واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے، مگر اس کا تعلق نہ حقیقت سے ہے اور نہ اسلام سے۔
کسی بکری نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ رات بھر بھیڑیے سے لڑے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کردے۔ کہانی کی مذکورہ بکری ڈاکٹر ذاکر حسین کی مفروضہ بکری ہے، وہ نہ کسی ابو خاں کی بکری تھی اور نہ خدانے کبھی کسی ایسی بکری کو پیدا کیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو اس قسم کی لڑائی سراسر ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اچانک کسی طاقتور دشمن کی زد میں آجائے اور قتل کرنے والا اس کو قتل کردے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ایسے دشمن سے ٹکرانا بلاشبہ غلط ہے جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت آدمی کے اندر نہ ہو اور جس کا یقینی نتیجہ یک طرفہ تباہی ہو۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965) یعنی تم دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرواور تم اللہ سے عافیت مانگو۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کا ٹکراؤ خود کشی ہے، اور خود کشی اسلام میں جائز نہیں۔لوگ اکثر ایک مہلک غلطی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بطور خود ایک مفروضہ ماڈل بناتے ہیں اور پھر اس مفروضہ ماڈل کے ذریعہ ایک ایسے عمل کو جسٹی فائی(justify)کرنے لگتے ہیں جو حقیقۃً قابلِ جواز (justifiable) نہیں۔اس کی ایک مثال امام حسین کے معاملہ میں ملتی ہے۔ خطیبوں اور شاعروں نے امام حسین کا ایک خود ساختہ ماڈل بنایا۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ امام حسین نے اپنا سر کٹوادیا مگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے:
سرداد نداد دست در دست یزید
یہ شاعروں اور خطیبوں کا اپنا بنایا ہوا ماڈل ہے ورنہ تاریخ میں جو تصویر ملتی ہے وہ برعکس طورپر یہ ہے کہ امام حسین جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا کوئی ارادہ لڑائی کا نہ تھا۔ اس وقت یزید دمشق میں تھا اور امام حسین اس سے بہت دور کوفہ کی سرحد پر تھے۔ کوفہ میں متعین فوج نے یزید کے حکم کے بغیر بطور خود امام حسین کو گھیر کر ان کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت امام حسین نے وہاں کے فوجی افسر سے کہا کہ تم مجھ کو جنگ پر مجبور نہ کرو بلکہ میری طرف سے تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو، یا تو میں وہاں واپس چلا جاتا ہوں، جہاں سے میں آیا ہوں، یا مجھے یزید کے پاس لے چلو، اور میں یزید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دوں گا، پھر دیکھیں گے کہ میرے اور یزید کے درمیان کیا رائے بنتی ہے (وَإِمَّا أَنْ أَضَعَ یَدِی فِی یَدِ یَزِیدَ بْنِ مُعَاوِیَةَ فَیَرَى فِیمَا بَیْنِی وَبَیْنَہُ رَأْیَہُ)، یا تم مجھے مسلمانوں کی سرحدوں میں سے کسی سرحد پر لے چلو، میں انھیں میں سے ایک بن جاؤں گا،پھر جو حق ان کا ہوگا، وہ میرا ہوگا، اور جو ذمے داری ان کی ہوگی، وہ میری ہوگی۔( تاریخ طبری، جلد5 ، صفحہ
معلوم ہوا کہ امام حسین کا وہ ماڈل فر ضی ماڈل ہے جس کو نام نہاد مجاہدین اپنی جنگی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلائی جو یقینی طورپر غیر اسلامی سیاست تھی۔ اس کے لیے انہوں نے امام حسین کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حسین کے نمونہ کو چھوڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ اس اصول کے مطابق، شاید ڈاکٹر ذاکر حسین بھی یہ کہیں کہ اگر ابو خاں کی بکری نہ ہوتی تو لڑکر مر جانے کا نمونہ کہاں سے آتا۔
فرضی ماڈل کو اپنے غلط اقدام کے لیے جواز بنانا ایک عام برائی ہے۔ مگر وہ ایک مہلک عمل ہے۔ جو لوگ اس قسم کا طریقہ اختیار کریں ان کے اندر ایک بے حد کمزور شخصیت پرورش پاتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی اعلیٰ ربانی حقائق کا تجربہ نہیں کرسکتے۔
فرضی ماڈل کو نمونہ بنانے کی ایک مثال حضرت ابراہیم کے بارے میں اقبال کا یہ شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل واقعہ کے مطابق، حضرت ابراہیم خود سے آگ میں نہیں کودے تھے بلکہ ان کے مخالفین نے جارحیت کرکے انہیں آگ میں ڈالا تھا (الأنبیاء،
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
واپس اوپر جائیں
غالباً 1983کی بات ہے۔ اُس وقت دہلی میں ایک انگریز مسٹر جان بَٹ (John Butt) رہتے تھے۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی تھیں ،اور میری فکر سے کافی مانوس ہوچکے تھے۔ ملاقات کے دوران ایک بار میں نے اُن سے کہا کہ قلم میری محبوب چیز ہے۔ میںنے بہت سے قلم استعمال کیے مگر مجھے اپنی پسند کا قلم ابھی تک نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لندن جانے والا ہوں، وہاں سے میں آپ کے لیے ایک اچھا قلم لے آؤں گا۔
کچھ عرصہ کے بعد وہ مجھ سے ملے اور انگلینڈ کا بنا ہوا ایک قلم مجھے دیتے ہوئے کہا کہ میں نے لندن اور آکسفورڈ کی مارکیٹ میںکافی تلاش کے بعد یہ قلم (فاؤنٹین پین) حاصل کیا ہے۔ تاہم مجھے امید نہیں کہ یہ قلم آپ کی پسند کے مطابق ہوگا۔ میں نے کہا ، کیوں۔ اُنہوں نے کہا کہ میںجانتا ہوں کہ آپ ایک پرفیکشنسٹ(perfectionist) ہیں اور دنیا میں چونکہ کوئی بھی قلم پرفیکٹ قلم نہیں، اس لیے آپ کوکوئی بھی قلم پسند نہیں آئے گا۔اصل یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان ایک کمال پسند حیوان ہے:
Man is a perfection-seeking animal.
انسانی فطرت کا یہی خاص پہلو ہے جس کی بنا پر ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ محرومی کے احساس میںجیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو دنیا کا ہر سامان حاصل کرلیتے ہیں، وہ بھی محرومی کے احساس سے خالی نہیں ہوتے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے پرفیکشنسٹ ہے مگر جس دنیا میںوہ رہتا ہے اُس کی کوئی بھی چیز پرفیکٹ نہیں۔ اس طرح انسان کی طلب اور دنیا کی قابلِ حصول چیزوںکے درمیان ایک عدم مطابقت (incompatibility) پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان یہی عدم مطابقت انسان کے اندر محرومی کے احساس کا اصل سبب ہے۔
انسان اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے دنیا میں جدوجہد شروع کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ دولت، اقتدار، سازوسامان اور دوسری مطلوب چیزیں حاصل کر لیتا ہے۔ مگر اُس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مطلوب چیزوں کو پانے کے بعد بھی وہ بدستور محرومی کے احساس سے دوچار ہے، اب بھی وہ یافت کے احساس تک نہ پہنچ سکا۔اس کا سبب یہ ہے کہ پانے سے پہلے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی آرزو وہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ مگر اس چیز کو پانے کے بعد اُسے وہ تسکین نہیں ملتی جو کسی مطلوب چیز کی یافت سے ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اُس کے دل میںجو آرزو تھی وہ پرفیکٹ چیز کے لیے تھی۔ جب کہ دنیا کی ہر چیز غیر پرفیکٹ(imperfect) ہے اور ظاہر ہے کہ کسی پرفیکشنسٹ کو غیر پرفیکٹ میںتسکین نہیں مل سکتی۔
اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی جنت کو اپنا نشانہ بنائے۔ جنت پورے معنوں میں ایک پرفیکٹ ورلڈ (perfect world) ہے، جب کہ اُس کے مقابلہ میں موجودہ دنیا صرف ایک اِم پرفیکٹ ورلڈ (imperfect world) کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جس پرفیکٹ ورلڈ کا طالب ہے، وہ جنت ہے۔ جنت کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے آدمی موجودہ دنیا میں اپنی آرزوئیں تلاش کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت اورخارجی دنیا کے درمیان عدم مطابقت کی بنا پر محرومی کے احساس کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر وہ شعوری انقلاب لایا جائے کہ وہ جنت کی معرفت حاصل کرسکے۔ اس معرفت کے حصول کے بعد اُس کی مایوسی کا احساس اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ وہ جان لے گا کہ جن چیزوں میںوہ اپنی آرزوؤں کی تسکین ڈھونڈھ رہا ہے، اُن میںاُس کے لیے تسکین کا سامان موجود ہی نہیں۔ اس دریافت کے بعد اُس کی توجّہ جنت کی طرف لگ جائے گی۔ اس کے بعد وہ موجودہ دنیا کی چیزوں کو ضرورت کے طورپر لے گا، نہ کہ مطلوب کے طورپر۔ اور جب کسی آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے تو اُس کے بعد اُس کا حال یہی ہوگا کہ وہ یافت کے احساس میں جینے لگے گا، نہ کہ محرومی کے احساس میں۔
موجودہ دنیا پانے سے زیادہ کھونے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر مرد اور عورت کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس سے کھوئی گئی۔ فلاں موقع اُس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ فلاں شخص نے اُس کو نقصان پہنچادیا۔ اس قسم کے چھوٹے یا بڑے حادثات ہر ایک کو بار بار پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مرد یا عورت کے لیے ان نقصانات سے بچنا ممکن نہیں۔
اس قسم کے نقصانات ہر ایک کو پیش آتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی صورت کیا ہے۔ اس کی صورت صرف ایک ہے۔ اور وہ جنت کا یقین ہے۔ جس آدمی کو خدا کی جنت پر یقین ہو اُس کا حال یہ ہوگا کہ ہر نقصان کے بعد وہ یہ کہہ سکے گا کہ دنیا کا یہ نقصان تو بہت چھوٹا ہے۔ جنت کے مقابلہ میں اس نقصان کی کوئی حقیقت نہیں۔ دنیا کے ہر نقصان کے بعد وہ اور زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ وہ خدا سے اور زیادہ جنت کا طالب بن جائے گا۔
قرآن میں جنت کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہاں آباد ہونے والے لوگوں کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن (البقرہ ،
﴿جنت صرف اُن افراد کو ملے گی جو اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کریں ﴾
واپس اوپر جائیں
مولانا عبد الماجد دریابادی نے لکھا ہے کہ انھوں نے پہلی بار مولانا ابوالکلام آزاد کو لکھنؤ کے ریلوے اسٹیشن پر دیکھا۔ اس وقت ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے ان کے سامنے کوئی ایرانی پرنس کھڑا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ مسحور کن شخصیتوں کی داستان کا نام ہے۔ کوئی کسی انسان کی شاندار شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوگیا، تو اس نے اسی کو بڑا انسان سمجھ لیا۔ کوئی کسی کے غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر اس سے مسحور ہوگیا۔ کوئی کسی کی خطابت کا گرویدہ ہوگیا، وغیرہ۔
بعض افراد میں کچھ ظاہرفریب خصوصیات ہوتی ہیں۔ لوگ ان ظاہر فریب خصوصیات کو دیکھ کر مسحور ہوجاتے ہیں، اور ان کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان مسحور کن شخصیتوں نے حقیقی معنوں میں کبھی کوئی بڑا کام نہیں کیا۔ مثلا جرمنی کا ہٹلر اپنی تقریر سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کردیتا تھا۔ لیکن
حقیقت یہ ہے کہ بڑے آدمی کی پہچان نہ شاندار شخصیت ہے، اورنہ شاندار خطابت، حتی کہ شاندار حافظہ بھی کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان نہیں۔ کسی آدمی کے بڑے ہونے کی پہچان یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ کا خوف پایا جاتا ہو۔ یہ معیار ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔اللہ کا خوف آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو سنجیدہ (sincere) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کو محتاط (cautious) بناتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتا ہے، جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا وہ چپ رہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یہ صفات آدمی کو مین آف وزڈم (man of wisdom)بناتی ہے، اور جو آدمی مین آف وزڈم ہو، وہی آدمی جانتاہے کہ سوچنے کے وقت وہ کیا سوچے اور بولنے کے وقت وہ کیا بولے۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن پہلا کام خود اپنی اصلاح ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کام کریں۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے گی تو اس کے بعد غیر مسلموں میںدعوت کا کام اپنے آپ ہونے لگے گا۔
میںنے کہا کہ یہ نظریہ آپ نے خود اپنے ذہن سے بنایا ہے، یا آپ نے اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا ہے۔ وہ اپنے اِس نظریے کے حق میں قرآن اور حدیث سے کوئی حوالہ نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ جو بات قرآن اورحدیث میںنہ کہی گئی ہو، اس کو اپنی طرف سے دین کا نام دینا بدعت ہے۔ ’’پہلے اپنی اصلاح‘‘ کا نظریہ بھی اِسی قسم کی ایک بدعت ہے۔ میںنے کہا کہ دعوتی کام کے لیےاصحابِ رسول ہمارے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوںنے مسلسل دعوتی عمل کے ذریعے اسلام کو ہر طرف پھیلایا۔ آپ اصحابِ رسول کی زندگی کا مطالعہ کریں، تو آپ پائیں گے کہ ہر صحابی احساسِ بے عملی میںمبتلا تھا، نہ کہ احساسِ عمل میں۔ ہر صحابی اپنے آپ کو غیر اصلاح یافتہ سمجھتا تھا، اِس کے باوجود اُس نے دعوتِ عام کا کام کیا۔
دعوت کی شرط اگر یہ ہو کہ داعی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھنے لگے، تو کبھی دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ سچا مومن ہمیشہ اِس احساس میںمبتلا رہتا ہے کہ میں اپنی اصلاح نہ کرسکا۔ جو آدمی اپنے آپ کو اصلاح یافتہ سمجھ لے، وہ دعوت کے لیے سب سے زیادہ نااہل (incompetent) انسان بن جاتا ہے۔ اِسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ دعوت ہر حال میں دی جائے گی، خواہ مسلمان اصلاح یافتہ ہوں، یا اصلاح یافتہ نہ ہوں۔ اصلاح اور دعوت دونوں کام ایک ساتھ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام نہ مقدم ہے اور نہ مؤخر۔حقیقت یہ ہے کہ اپنی اصلاح بھی اُسی وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں لگا ہوا ہو۔ اپنی اصلاح کوئی ایسا کام نہیں جو خلا میں انجام پائے۔
واپس اوپر جائیں
انھوںنے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میںنے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میںنے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail)کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوںنے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو الیکٹرانک اتصال کہاجاتا ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ موجودہ زمانے میں براہ راست صحبت کا بدل ہے۔جدید ذرائعِ اتصال کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ان جدیدذرائع سے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صنعتی شہر کا واقعہ ہے۔ وہاں کے ایک مسلم نوجوان نے ٹکنکل ایجوکیشن حاصل کی ۔ اِس کے بعد ان کو مقامی طورپر ایک اچھا جاب (job)مل گیا۔ اِس درمیان ان کا ربط ایک دینی حلقے سے قائم ہوا۔ انھوںنے دینی کتابیں پڑھیں اور دینی شخصیتوں سے استفادہ کیا۔ وہ کافی متاثر ہوئے، یہاںتک کہ انھوںنے رو کر کہا — میںنے اپنی عمر کا ایک حصہ ضائع کردیا۔ کاش، یہ دینی ماحول مجھے اور پہلے مل گیا ہوتا۔
اِس کے بعد مذکورہ نوجوان کے اندر ایک تبدیلی واقع ہوئی۔ مذکورہ نوجوان کے ایک رشتے دار ایک ’’فارین‘‘ کنٹری میں رہتے تھے۔ انھوں نے ان کے لیے ہوائی جہاز کا ایک ٹکٹ بھیج دیا اور کہا کہ تم وزٹ ویزا (visitor visa) لے کر یہاں میرے پاس آجاؤ اور جاب ہنٹنگ (job hunting) کرو۔ ہوسکتا ہے، تم کو یہاں زیادہ اچھا جاب مل جائے۔ اِس کے بعد نوجوان کا ذہن بدل گیا۔ وہ پہلی فرصت میں باہر کے ملک میں جاب ہنٹنگ کے لیے چلے گئے۔
یہ کسی ایک نوجوان کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ بظاہر ایک آدمی دین داری کی بات کرے گا۔ وہ اسلام کو اپنی منزل بتائے گا۔ لیکن اگر اس کو کسی قسم کی مادّی ترقی (worldly progress)حاصل ہوجائے، تو اچانک وہ بدل جائے گا۔ وہ تمام باتوں کو بھلاکر مادّی ترقی ہی کو اپنا سب کچھ بنا لے گا۔
ایسے کسی آدمی کے سامنے جب کوئی مادّی ترقی کا موقع آتا ہے، تو وہ اس کے لیے کوئی انعام کی بات نہیں ہوتی، بلکہ وہ تمام تر اس کی آزمائش (test) کے لیے ہوتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ تمام لوگ اُس کو انعام کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں، تمام لوگ اِس خدائی آزمائش میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ دین داری کسی رُٹین(routine) کا نام نہیں، دین دار وہ ہے جو اِس جانچ (test)میں پورا اُترے— اپنے دین کی حفاظت کیجئے، ورنہ شیطان کسی بھی وقت اس کو اچک لے جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إِذَا رَأَیْتُمْ أَمْرًا لَا تَسْتَطِیعُونَ تَغْیِیرَہُ، فَاصْبِرُوا حَتَّى یَکُونَ اللہُ ہُوَ الَّذِی یُغَیِّرُہُ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7685)۔ یعنی اگر تم ایک ایسا معاملہ دیکھو، جس کو بدلنے کی طاقت تم کو نہ ہو تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ خود اس میں کوئی تبدیلی کردے۔ اس حدیث رسول میں اسلام کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ اسلام کا طریقہ نظری تبلیغ اور عملی اقدام میں فرق کرتا ہے۔ اسلام کا طریقہ یہ ہےکہ ممکن کے درجے میں پر امن طریقے سے تبلیغ کا کام کیا جائے۔ خود اپنی طرف سے ہر گز کوئی عملی ٹکراؤ نہ شروع کیا جائے۔ اسی اسلامی اصول کا نام صبرہے۔ مومن کے لیے فرض ہے کہ وہ ایک خود ساختہ عذر لے کرموجود اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے اپنا کام شروع نہ کرے۔
تحریک کا ایک مرحلہ عملی تبدیلی ہے۔ مگر عملی تبدیلی کے لیے کوئی اقدام صرف اس وقت کیا جائے گا، جب کہ حالات میں کوئی ایسا واضح فرق واقع ہو، جو بتائے کہ اب اگر عملی اقدام کیا گیا تو وہ مثبت (positive) ریزلٹ کا سبب بن سکتا ہے۔ گویا کہ آدمی اگر کسی چیز کو حق سمجھے تو وہ صرف پرامن طور پر نظری تبلیغ کرسکتا ہے، لیکن عملی اقدام کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کو اس کااپنا اقدام بطور خود درست نظر آتا ہو۔ عملی اقدام کی لازمی شرط ہے کہ وہ باعتبار نتیجہ مفید ثابت ہوسکتا ہو۔ جس عملی اقدام سے مثبت نتیجہ نکلنے والا نہ ہو، وہ اقدام اسلام کے مطابق ہرگز جائز نہیں۔
اس حدیث میں تبدیلی کو اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ خود آکر حالات کو بدل دے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطری حالات کے مطابق خود اس میں تبدیلی واقع ہوجائے۔ فطری حالات کے مطابق تبدیلی کا واقع ہونا، اس بات کا اشارہ ہے کہ اب درست طور پر وہ وقت آگیا ہے، جب کہ اپنے مقصد کی طرف عملی اقدام کیا جائے۔ نظری تبلیغ میں، پہنچانا معیار ہے، اور عملی اقدام میں، مثبت نتیجہ کا نکلنا۔
واپس اوپر جائیں
مصر کی الاخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے پانچویں منتخب صدر تھے۔ وہ یکم جولائی2012 کو مصر کے صدر منتخب ہوئے، تاہم ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی پورے ملک میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، جس کے بعد جولائی 2013 میں مصری افواج نے انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا ۔ بوقتِ تحریر (10 جولائی 2018)و ہ مصر کی جیل میں ہیں۔ بحیثیتِ صدر انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: أصبت أحیانا وأخطأت أحیانا أخرى (Sky News Arabia, published on June 26, 2013) ۔یعنی میں نے کبھی درست کام کیا، اور کبھی میں نے غلطی کی۔یہ تقریر ابھی بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔
یہ غلطی کیا تھی، جو ان کے زوال کا سبب بنی ۔ یہ در اصل کچھ ایسے اقدامات تھے، جو مصری فوج کے مفاد (interest) کے خلاف تھے۔ مثلاً سوئز کنال کی توسیع کے بارے میں فوجی حکومت کے دور میں کچھ کمپنیوں کو ٹھیکے دیے گئے تھے۔ ان ٹھیکوں کو ڈاکٹر مرسی نے قابلِ اعتراض سمجھا۔ چنانچہ انھوں نے ٹھیکوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر مرسی اور فوجیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس ;کا نتیجہ یہ ہوا کہ فوج نے قبل از وقت ان کی صدارت کا خاتمہ کردیا۔
یہ غلطی کی وہ قسم ہے، جو اکثر اربابِ اقتدار کرتے ہیں۔ پولیٹکل اقتدار میں آنے سے پہلے، ان کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد وہ فوراًاپنے ایجنڈے کو عمل میں لانا شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ طریقہ حکمت کے خلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس معاملے میں جلدی نہ کی جائے۔ کچھ نازک چیزوں کو ناتمام ایجنڈا (unfinished agenda) کے طور پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر اکثر اربابِ اقتدار اس معاملے میں غلطی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، اور قبل از وقت ان کو اقتدار سے محروم ہوجانا پڑتا ہے، اور پھر ایک فریق دوسرے فریق کو الزام دینا شروع کردیتا ہے۔ حالاں کہ قرآن کی ایک آیت (الحج
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو 8 ہجری میں مکہ کا اقتدار ملا۔ اس وقت کعبہ کی عمارت میں ایک مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ کاتقریبا ًدو تہائی حصہ مسقف (covered)تھا،یہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک تہائی حصہ غیر مسقف (non-covered)پڑا ہوا تھا، جس کو حطیم کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ نے غیر مسقف حصے کو بھی مسقف بنانے کا مشورہ دیا، لیکن رسول اللہ نےایسا نہیں کیا، اور غیر مسقف حصے کو بدستور ایز اٹ از (as it is) چھوڑ دیاکیوں کہ ایسا کرنا اہل مکہ کو ناپسند ہو سکتا تھا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584)۔
کعبہ کی عمارت کا یہ معاملہ رسول اللہ کی ایک حکیمانہ سنت کو بتاتاہے۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی میں کچھ چیزوں کو ناتمام ایجنڈے کے طور پر چھوڑنا پڑتا ہے، خواہ آدمی کو مکمل اقتدار ملا ہوا ہو۔یہ اجتماعی زندگی کی ایک اہم حکمت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس واقعے سے سبق نہیں لیا۔ ہر آدمی اقتدار پانے کے بعد اپنے ایجنڈے کو فوراً مکمل کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو مکمل تو نہیں کرپاتا، البتہ اس کے اقتدار کا قبل از وقت خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اس کی مثالیں تاریخ میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں ہے۔ 1947 میں جب پاکستان بنا ، تو شیخ مجیب الرحمن مسلم لیگ کی جماعت میں شامل تھے۔ لیکن محمد علی جناح نے
ناتمام ایجنڈے پر راضی ہونا، ایک پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)ہے۔ اجتماعی زندگی کی یہ ایک اہم حکمت ہے۔ اس حکمت کے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ کعبہ میں حطیم کی مثال سے سمجھا جاسکتاہے۔
واپس اوپر جائیں
کمیونسٹ حکومت کے آخری زمانے میں میںنے سوویت یونین (روس) کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت میخائل گوربا چیف (Mikhail Gorbachev) وہاں کے صدر تھے۔ اُس زمانے میں وہاںآزادی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں کے چرچ اور مسجدیں جو پہلے ویران رہا کرتی تھیں، اب وہاں مذہبی سرگرمی دکھائی دیتی ہے۔ میںنے اپنے گائڈ سے کہا کہ ہم نے پہلے سنا تھا کہ روس میں مذہب مر چکا ہے، مگر یہاں تو وہ زندہ حالت میں دکھائی دیتا ہے۔ گائڈ نے جواب دیا کہ مذہب یہاں ہمیشہ زندہ تھا۔ جو فرق ہوا ہے، وہ صرف یہ کہ پہلے یہاں مذہب اَنڈر گراؤنڈ (underground)تھا، اور اب وہ سامنے آگیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اور مذہب کا تصور انسان کی فطرت میں آخری حدتک پیوست ہے۔ کوئی شخص اگر اپنی زبان سے خدا کا انکار کرے، تب بھی خدا کا شعور اس کے دل کے اندر پوری طرح موجود رہتا ہے۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چیف پہلے ایک ملحد کمیونسٹ تھے، مگر اب ان کی دبی ہوئی فطرت جاگ اٹھی ہے۔ انھوںنے خود اِس کا اعتراف کیا ہے۔
برٹش نیوز پیپر ڈیلی ٹیلی گراف (The Daily Telegraph) کی ایک رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (20 مارچ2008 ) میں چھپی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گورباچیف اٹلی کے ایک چرچ میں پہنچے اور وہاں انھوںنے اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کی عبادت کی:
Gorbachev, who had earlier publicly pronounced himself as an atheist, acknowledged his Christian faith while paying a surprise visit to pray at the tomb of St Francis of Assisi in Italy (p.
خدا کا شعور انسان کی فطرت میںاِس طرح شامل ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اُس سے جدا نہیں ہوتا۔ اِس معاملے میں منکرین اور ملحدین کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ (
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔ یعنی وبضدہا تعرف الأشیاء(in comparison that you understand)۔
انسان کا کوئی کام خالی ازنقص(free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام (solar system) مکمل طو رپر زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم ہے۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈیفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مصنف کی کتاب ہے جس کا نام ہے:
A Modern Appraoch to Islam by Dr A A Faizi (1899-1981)
میں نے اس کتاب کو مکمل طو رپر پڑھا ہے۔ اس پر ایک تبصرہ بھی لکھا ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، اس کتاب میں مسئلہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کا اصل مسئلہ ماڈرن اپروچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ سائنٹفک انقلاب کے بعد اسلوب کے اعتبار سےفریم ورک (framework) بدل گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کی دعوت کو جدید فریم ورک کے اعتبار سے پیش کیا جائے۔ مثلا موجودہ زمانے میں ادبی اسلوب ایک متروک اسلوب بن چکا ہے۔ اب دنیا میں سائنٹفک اسلوب کا رواج ہے۔ تبدیلیٔ اسلوب کے سلسلہ میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حسب ذیل کتاب:
The Great Intellectual Revolution by John Frederick West
(J. Murray, 1965, pp.
اس کتاب کاایک چیپٹرہے :تمثیلی اسلوب کا خاتمہ (The Death of Metaphor)۔ یہ چیپٹر اس موضوع پر بحث کرتا ہے۔ تمثیلی اسلوب (metaphor) میں ادبی اسلوب بھی شامل ہے۔ یہاں اس اسلوب کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ ایک معروف مسلمان عالم نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں یہ بتایا ہے کہ اسلام عرب میں کیوں آیا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: معمورۂ عالم کے صفحےنقشہائے باطل سے ڈھک چکے تھے۔ اب ایک سادہ ، بے رنگ ، ہر قسم کے نقش و نگار سے معرّا ورق درکار تھا، جس پر طغرائے حق لکھا جائے۔
یہ ادبی اسلوب کی مثال تھی۔ اب ماڈرن سائنٹفک فریم ورک کے اعتبار سے یہ کہاجائے گا کہ یہ پوری عبارت ادبی اسلوب میں ہے۔ اس سے متعین (specific) انداز میں معلوم نہیں ہوتا کہ جو واقعہ ہوا، وہ کیا تھا۔ اس کے برعکس، اس واقعہ کو سائنٹفک اسلوب میں کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ اسلام کے ظہور کا معاملہ دو فیز (phase) سے تعلق رکھتا ہے۔ پیغمبر ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو اس صحرائی مقام پر بسایا جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہ گویا ڈزرٹ تھرپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں دوہزار سالہ توالد وتناسل کے ذریعہ ایک نسل بنو اسماعیل تیار ہوئی، جو مشرکانہ ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ یہ ڈی کنڈیشنڈ قوم (deconditioned nation) بڑی حد تک اپنی فطرت پر قائم تھی۔ اس ڈی کنڈیشنڈ نسل میں پیغمبرِ اسلام نے اپنا مشن شروع کیا۔ پیغمبر ابراہیم نے اس مشن کو باعتبار تربیت شروع کیا، اور پیغمبرِ اسلام نے اس مشن کو عملی اعتبار سے تکمیل تک پہنچایا۔
مذکورہ عالم نے اس قوم کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ ایک ادبی اسلوب تھا، اور ادبی اسلوب جدید فریم ورک کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس، اوپر جو لکھا گیا، وہ جدید فریم ورک کے اسلوب کی مثال ہے۔ ہمارے مصنفین کی کتابوں میں اصل کمی یہی ہے۔ میرے تجربے کے مطابق، ان میں سے کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جو جدید فریم ورک کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتابیں عصری ذہن کو ایڈریس نہیں کرتیں۔ ان کتابوں میں عصری ذہن کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ اور جب پڑھنے والے کو ٹیک اوے نہ ملے تو ایسی تحریروں کو پڑھنا، اور نہ پڑھنا برابر ہوجاتا ہے۔
مسلم مصنفین کی جو کتابیں ہمارے کتب خانوں میں موجود ہیں، ان کا بڑا حصہ اسی قسم کا ہے جو جدید علمی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
میں نے ایک امریکی پروفیسر سے پوچھا کہ امریکا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ڈسینٹ (dissent) کا احترام کرنا۔ اس نے کہا کہ ہم ڈسینٹ (اختلاف) کو بُرا نہیں سمجھتے۔ ہم ڈسینٹ کو اُس وقت تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ تشدد نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں
ایک عالم دین اپنے خط میں لکھتے ہیں: میں ابھی سر ی لنکا کے سفر سے واپس ہوا ہوں۔ اس دوران وہاں کےدینی مدارس کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔میں نے یہ دیکھا کہ سری لنکا کےدینی مدارس کے نصاب میں شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ شامل نہیں ہے۔مگر ہندوستان کے مدارس میں اس کتاب کو اہمیت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔واپسی کے بعد اس کتاب کے تعلق سے میری گفتگو ہندستان کے ایک بزرگ عالم دین سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ اس تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ حجۃ اللہ البالغۃ کو ہندوستان کے مدارس میں شاہ صاحب کی عقیدت میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر شاہ صاحب کی اُس توجیہہ کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ طلبہ کو پڑھاتا ہوں، جو انھوں نے امت میں موجود اختلافات کے تعلق سے بیان کی ہیں، مثلاً مقلدین اور غیر مقلدین کے مسائل ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، تو شاہ صاحب نے دونوں کے درمیان اعتدال قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے یہ نقطۂ نظر پسند ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال کہ اسرارِ شریعت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے،تو اسرارِ شریعت میں انھوں نے تکلف کیا ہے، مجھے اس سے زیادہ اتفاق نہیں ۔ اس باب میں میری رائے یہ ہے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ ہر ایک حکم کی علت پیش کریں، جیسے پانچ وقت کی نمازوں میں رکعات کیوں مختلف ہیں ، سری اور جہری نمازیں کیوں ہیں، وغیرہ۔ ایسی تمام باتوں سے پچاس فیصد ہی اتفاق کیا جاسکتا ہے، مجھے ذاتی طور پر ان باتوں سے دلچسپی نہیں ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
الرسالہ: شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب کا ٹائٹل ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ قرآن کی ایک آیت سے لیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں: قُلْ فَلِلَّہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ (
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
عام طورپر لوگ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھ پاتے۔ مثلاً امریکا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی، جو باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ جدید اصطلاح میں ایسے لوگوں کو امیگرنٹ (immigrant) کہاجاتا ہے۔ یہ امیگرینٹ لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ تھے۔ یہاںآکر وہ یہاں کے مختلف ترقیاتی شعبوں میں سروس کرنے لگے۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے انھوںنے کہا کہ امریکا کو امریکیوں نے ترقی نہیں دی ہے، بلکہ امیگرینٹ لوگوں نے ترقی دی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ امیگرنٹ لوگ خود اپنے ملک کو کیوں ترقی نہ دے سکے۔ میںنے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکا میں میرٹ (merit) کا اصول ہے۔ یہ اصول لوگوں کے اندر عمل کا محرک (incentive) پیدا کرتا ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رٹرن (return) پاسکیں۔ ایسی حالت میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امریکا کو مسٹر امیگرنٹ (Mr. Immigrant) نے ترقی نہیں دی، بلکہ امریکا کو مسٹر انسینٹیو (Mr. Incentive) نے ترقی دی۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسو ل مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:الْمُؤْمِنُ الَّذِی یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِی لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلَى أَذَاہُمْ (مسند احمد، حدیث نمبر23098)۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، اس کا اجر اس سے زیادہ ہے جو لوگوں سے میل جول نہیں رکھتا، اور ان کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔اس حدیث میں اختلاط کا مطلب میل جول (interaction) ہے۔ ایک شارحِ حدیث نے اس کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ إن الخلطة أفضل من العزلة (تحفۃ الاحوذی، جلد7، صفحہ
یہ فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر سنجیدگی ہو۔ اس کے اندر سوچنے اور نصیحت لینے کا مزاج ہو۔تو ہر اختلاط اس کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔لوگوں سے انٹرایکشن کے درمیان اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں۔وہ لوگوں سے نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔ اختلاط کے دوران اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری اصلاح کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ لوگوں کی معلومات سے اپنے علم میں اضافہ کرے۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی فکری محدودیت کو عالمی فکر میں تبدیل کرسکے۔ انٹرایکشن کا یہ فائدہ اس انسان کو ملتا ہے جس کے اندر سیکھنے کا مزاج (spirit of learning) ہو۔ جوباتوں کو غیر متعصبانہ انداز میں دیکھ سکے۔ وہ جو کچھ سنے اس کوآبجکٹیو (objective) انداز میں لے، نہ کہ سبجکٹیو (subjective) انداز میں ۔ اس کے اندر اعتراف کا مادہ ہو۔ وہ کسی رائے کو سچائی کے اعتبار سے دیکھے، نہ یہ کہ وہ کس شخص کی رائے ہے۔ وہ پورے معنوں میں نفسِ مطمئنہ (complex-free soul) کی حیثیت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں
خروج کا لفظی مطلب ہے نکلنا (going out)۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے سیاسی بغاوت۔ یعنی کسی قائم شدہ حکومت کے اقتدار کو نہ ماننا، اور اس کو بدلنے کی کوشش کرنا، پولیٹکل اپوزیشن کی تحریک چلانا۔ خروج یا بغاوت اسلام میں حرام ہے، اور اس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد مسلم دنیا میں شوری پر مبنی خلافت شروع ہوئی۔ یہ طرزِ حکومت تقریباً تیس سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد معاویہ بن ابو سفیان (وفات 60:)کا دور آیا۔
امیر معاویہ، علی بن ابی طالب (وفات 40:ھ)کے بعد امیر المومنین بنے۔ امیر معاویہ کو دَاھِیَۃُ الْعَرَبْکہا جاتا تھا، یعنی اعلیٰ فراست کا انسان۔امیر معاویہ کو اموی سلطنت (Umayyad Empire) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار مبنی بر شوریٰ خلافت کے بجائے مبنی بر خاندان حکومت (dynasty)کا نظام قائم کیا۔کچھ لوگ اس کو ملوکیت کا دور کہتے ہیں، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے بعداسلامی دنیا میں سیاسی استحکام(political stability) کا دور آیا، جو نشیب و فراز کے ساتھ برابر جاری رہا، اور اب بھی عرب ریاستوں میں جاری ہے۔
سمجھاجاتا ہے کہ امیر معاویہ اسلامی دور کے وہ شخص ہیں، جنھوں نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا۔ مگر اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو اسلام کی سیاسی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوا۔ امیر معاویہ نے شورائی خلافت کو خاندانی حکومت (dynasty) میں تبدیل کیا تھا، اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد یہی طرز حکومت بعد کے پورے اسلامی دور میں باقی رہا۔ اس اعتبار سے امیرمعاویہ کو اسلامی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر کا درجہ حاصل ہے۔
اس معاملے کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہ کے اس’’اجتہاد‘‘ کو پوری امت نے تسلیم کرلیا۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین ، فقہاء، اور تمام علمائے متقدمین نے اس کو بلااختلاف مان لیا، حتی کہ ان کے اس اجتہاد کو اجماع امت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس معاملے میں علمائے امت کی نمائندگی کرتے ہوئےشارح مشکاۃ المصابیح شرف الدین الحسین بن عبد اللہ الطیبی(وفات
وأما الخروج علیہم وتنازعہم فمحرم بإجماع المسلمین، وإن کانوا فسقة ظالمین. وأجمع أہل السنة على أن السلطان لا ینعزل بالفسق؛ لتہیج الفتن فی عزلہ وإراقة الدماء وتفرق ذات البین، فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منہا فی بقائہ (الکاشف عن حقائق السنن، 8/2560)۔ یعنی اور جہاں تک خروج (بغاوت) کی بات ہے، اور ان سے نزاع کرنا، وہ حرام ہے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہو، اور اس پر اہل سنت نے اجماع کیا ہے کہ سلطان کو فسق کی بنا پر معزول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس کی معزولیت کی وجہ سے فتنے اٹھتے ہیں، اور خون بہتا ہے، اور( مسلمانوں میں)باہمی اختلاف پیدا ہوتا ہے، تو اس کی معزولیت پر ہونے والا نقصان اس کے باقی رہنے سے زیادہ ہے۔
علمائے امت کا یہ اجماع محض اتفاق کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر نہایت صراحت کے ساتھ پیشگی طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں کتاب الفتن میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:تَسْمَعُ وَتُطِیعُ لِلْأَمِیرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَہْرُکَ، وَأُخِذَ مَالُکَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1847)۔ یعنی آپ نے کہا کہ سنو اور اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے، اور تمھارا مال چھین لے، سنو اور اطاعت کرو۔
ایک دوسری روایت یہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْکِرُونَہَا، قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم لوگوں سے کہا کہ تم میرے بعد عنقریب ترجیح (preference)دیکھوگے، اور کچھ ایسے امور جن کو تم ناپسند کرو گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے کہا: ان کو ان کا حق ادا کرو، اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاہِلِیَّةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7054)۔ یعنی آپ نے کہا کہ جو اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، تو وہ اس پر صبر کرے، کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی جدا ہوا، اور اسی حال میں وہ مرگیا، تووہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس موضوع پر بعض علماء کا اختلاف نقل کیا گیا ہے۔ مگر ا س قسم کا اختلاف بلاشبہ ناقابل اعتبار ہے۔ اس لیے کہ اس معاملے میں رسول اللہ کی اتنی زیادہ کھلی کھلی ہدایات موجود ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ وہ کوئی خود ساختہ عذر لے کر اس سے اختلاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اختلاف بداہۃً ہی قابل رد ہے:
prima facie it stands rejected
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح احادیث کےمطابق، اس مسئلے پر امت کا اجماع مسلسل طور پر جاری رہا۔ بیسویں صدی میں پہلی بار بعض مسلم رہنما مثلاً پاکستان کے سید ابو الاعلیٰ مودودی (وفات1979:) اور مصر کے سید قطب(وفات 1966:)نے مبینہ طور پر اس معاملے میں اختلافی موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے منتخب صدر جنرل ایوب کے خلاف، اور مصر میں سید قطب نے سابق صدر جمال عبد الناصر کے خلاف سیاسی اپوزیشن کے تحریکیں چلائیں۔ اس قسم کا اپوزیشن بلاشبہ وہی چیز تھا، جس کو خروج یا بغاوت کہا جاتا ہے۔ ان حضرات کا یہ فعل بلاشبہ شرعی اعتبار سے غلط تھا۔ اس معاملے میںکوئی بھی عذر (excuse) ایک ایسے عمل کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتا، جس کو خود پیغمبرِ اسلام نے حرام کا درجہ دیا ہو۔
اس معاملے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب ، اور ان کے رفقا اور مویدین کو وہی کرنا چاہیے تھا، جو رسول اللہ کے بعد امت کے تمام اسلاف و اخلاف نے اختیارکیا۔ یعنی پولیٹکل دائرے کو چھوڑ کر نان پولیٹکل دائرے میں اپنی کوششوں کو صرف کرنا۔ مثلاً رسول اللہ کے بعد کے زمانے میں مسلم حکمرانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ پوری طرح آچکا تھا، جس کے حوالے سے پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلائی تھیں۔ رسول اللہ کے بعد علمائے امت نے صرف یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر رہ کر غیر سیاسی دائرے میں اپنی تمام سرگرمیاں محدود کردیں۔ پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں پر لازم تھا کہ وہ یہی طریقہ اختیار کریں۔
مثال کے طور پر مصر میں وہاں کے حکمراں جنرل جمال عبد الناصر نے سید قطب کو، جو کہ سیاسی اپوزیشن کے لیڈر تھے، یہ پیش کش کی کہ وہ مصر میں تعلیم کی وزارت سنبھالیں، اور ملک کے نوجوانوں کو اسلامی انداز میں تربیت دیں۔ مگر سید قطب نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح 1962 میں پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خاں نے سید ابوالاعلیٰ مودوی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو بہاول پور یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جائے گا، اور اس کا پورا چارج بلاشرط ان کو دے دیا جائے گا۔ یہاں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ نوجوانوں کی اپنے نہج پر فکری تربیت کریں۔ مگر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دونوں صاحبان کا انکار رسول اللہ کی ہدایات اور امت کے اجماع کےواضح طور پر خلاف تھا۔ اس معاملے میں ان حضرات کا کوئی بھی عذر ہرگز قابل قبول نہیں۔
رسول اللہ نے حکمرانوں سے خروج کے خلاف جو واضح ہدایات دی تھی، اور جس پر آپ کے بعد تمام علمائے امت نے اجماع کرلیا، وہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ وہ آپ کی اس پیغمبرانہ حیثیت کی بنا پر تھا، جو آپ کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی، یعنی امت کو حکمت کی تعلیم دینا (الجمعۃ ،
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (great wisdom) پر مبنی تھی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سیاسی معاملے میں غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ ایسافطرت کے مسَلّم قانون کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو ہدایت دی تھی، وہ بظاہر ایک مذہبی ہدایت تھی، لیکن وہ فطرت کے قانون پر مبنی ایک ہدایت تھی۔ اسی حقیقت کو جرمنی کے مدبر سیاست داں بسمارک (1815-1898) نے اس طرح کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
ُُُPolitics is the art of the possible, the attainable, the art of the next best.
فطرت کے قانون پر مبنی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل وزڈم کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں کسی کے لیےآئڈیل وزڈم کا انتخاب ممکن نہیں ہے، بلکہ یہاں ہر ایک کے لیے پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ہے۔ کوئی شخص تصوراتی طور پر آئڈیل کو اپنا گو ل بنا سکتا ہے۔ لیکن جب معاملہ کسی نشانے کو عملی صورت میں ظہور میں لانے کا ہو تو ہر ایک کے لیے صرف پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ممکن ہوتا ہے، نہ کہ آئڈیل وزڈم کا انتخاب۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
امریکا میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جو نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً وہ نظامِ منافقت پر قائم ہوتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ واقعۃً نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ امریکا کی شہریت کو ختم کردیجئے۔ کیوں کہ شہریت کے فارم پر دستخط کرنے کے بعد اِس قسم کی باتیں کرنا اگر بالاعلان ہو تو وہ ملک سے غداری ہے، اور اگر اعلان کے بغیر ہو تو وہ منافقت ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک سفر کے دوران مجھے ایک ایسے ملک میں جانا پڑا جہاں پہلے بادشاہی نظام تھا۔ اب بادشاہ کا خاتمہ ہوگیا۔ اب وہاں صدر راج قائم ہے۔ قدیم شاہی محل کی تمام شان وشوکت باقی ہے۔ البتہ اب \اس کو شاہی محل کے بجائے صدارتی محل کہاجاتاہے۔
میںاور کانفرنس کےدوسرےشرکاء صدرِ مملکت سے ملاقات کے لیے صدارتی محل میں لے جائے گئے۔ ہم لوگ جب اس پُر ہیبت عمارت میںداخل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ہر آدمی کا انداز اچانک بدل گیا ہے۔ لوگوں پر خاموشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ان کی رفتار سست پڑ گئی۔ چہرے پر سنجیدگی کے آثار ظاہر ہوگئے۔ محل کی ہر چیز کو وہ پُر رعب نظروں سے دیکھنے لگے۔
اس منظر کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتـے ہیں، وہ بھی خدا کا ایک عظیم محل ہے۔ اس میں ہر طرف خدا کی عظمت وقدرت کے جلوے نمایاں ہیں۔ اس خدائی محل کے اندر چلتے ہوئے مزید اضافہ کے ساتھ آدمی پر وہ کیفیت طاری ہونا چاہیے جو کسی شاہی محل کے اندر چلتے ہوئے اس کے اندر طاری ہوتی ہے۔
مگر جب میں دنیا کے راستوں میں لوگوں کو چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو یہ محسوس کرکے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں کہ یہاں لوگ اس طرح چل رہے ہیں گویا کہ انھیں اس عظیم حقیقت کی کوئی خبر ہی نہیں۔ لوگوں کے چہروں پر خشوع جھلکتا ہوا نظر نہیں آتا جو از روئے واقعہ ان کے چہروں پر جھلکنا چاہیے۔لوگوں کے چہروں پر مجھے احتیاط کے بجائے غفلت نظر آتی ہے۔ ان کی چال تواضع کے بجائے سرکشی کی چال معلوم ہوتی ہے۔ ان کے انداز پر ذمہ داری کے بجائے بے حسی کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ خدا کی دنیا میں چلتے ہوئے لوگ اتنا سنجیدہ بھی نظر نہیں آتے جتنا کہ کوئی شخص کسی ایوانِ صدارت یا کسی قصر شاہی میں چلتے ہوئے نظر آتا ہے۔
جن لوگوں کاحال یہ ہوکہ انسانی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری ہو مگر خدائی محل میں چلتےہوئے ان پر ہیبت طاری نہ ہو وہ خدا کی رحمت سے آج ہی دور ہوگئے۔
واپس اوپر جائیں
مغربی دنیا کے ایک سفر میں میری ملاقات ایک مسلمان سے ہوئی۔ ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوچکی ـتھی۔ انھوں نے کہا: مجھ کو تو جنّت کا ٹکٹ چاہیے، مجھ کو آپ صرف یہ بتائیے کہ جنّت کا ٹکٹ کیا ہے۔
میں نے کہا کہ جنت کا کوئی ٹکٹ نہیں۔ یہ جنتی ٹکٹ کا معاملہ نہیں، یہ جنتی شخصیت کا معاملہ ہے۔ آخرت کی قیمتی جنت اس آدمی کو ملے گی جس نے اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کی تھی۔ جنت میں داخلہ کسی کو ’’ٹکٹ‘‘ کے ذریعہ نہیں ملے گا۔ جنت کی قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے، اپنے وجود کی قیمت دے کر ہی کوئی شخص جنت کی دنیا میں اپنے لیے داخلہ پاسکتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت تزکیہ کرنے والوں کےلیے ہے (طہ،
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس کے ایک طرف کیچڑ ہے اور دوسری طرف صاف وشفاف پانی۔ آدمی چاہے تو اپنے کو کیچڑ میں گندا کرے، اور چاہےتو صاف پانی میںنہاکر صاف ستھرا بن جائے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گندا کریں، وہ آخرت میں جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنے آپ کو پاک کریں، ان کو جنت کی نعمت گاہوں میں بسایا جائے گا۔
اعتراف کے موقع پر اعتراف کرنا، اپنی شخصیت کو پاک کرنا ہے۔ اس کے برعکس، اعتراف کے موقع پر بے اعترافی کا رویہ اختیار کرنا، اپنی شخصیت کو گندا کرنا۔ اسی طرح ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص اعلی اخلاق کا ثبوت دیتا ہےاور دوسرا شخص پست اخلاق کا۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص حق تلفی کرتاہےاور دوسرا شخص حق رسانی۔ ایک موقع آتاہے جس میں ایک شخص امین ثابت ہوتا ہےاور دوسرا شخص خائن۔ ایک موقع آتا ہے جس میں ایک شخص تواضع کے راستہ پر چلتاہے اور دوسرا شخص سرکشی کے راستہ پر۔ان میں سے پہلا آدمی جو اپنی شخصیت کو پاک کرنے والا ہے، وہ جنت کی نفیس دنیا میں داخلہ پائے گا۔ اس کے برعکس، دوسرا آدمی جو اپنی شخصیت کو گندا کرنے والا ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ایک مجلس میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ اسلام میں روحانیت کا تصور کیا ہے، اور اسلامی نقطۂ نظر سے روحانیت کو پانے کا کیا اصول ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ روحانیت (spirituality) کا لفظ بعد کی تاریخ میں بولا جانے لگا۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ربانیت ہے۔ روحانیت بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے۔
عام تصور یہ ہے کہ روحانیت کا مقام پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ترکِ دنیا (renunciation) ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ترکِ دنیا سے جو چیز ملتی ہے وہ روحانیت نہیں ہے بلکہ وہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں (مسنداحمد، حدیث نمبر 25893) ۔
روحانیت یا ربّانیت یہ ہے کہ آدمی کی داخلی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے۔ وہ خدا اور آخرت کے تصور میں جینے لگے۔ روحانیت کا یہ درجہ فکری انقلاب کے ذریعہ آتا ہے نہ کہ مادی دنیا کو چھوڑنے کے نتیجہ میں۔ یہ فکری انتقال کا ایک عمل ہے نہ کہ جسمانی انتقال کا کوئی عمل۔ قرآن کے مطابق، اس فکری انتقال کا ذریعہ توسم ہے۔ یہ روحانیت کسی کو اس ذہنی بیداری کے ذریعہ ملتی ہے جس کو قرآن میں ذکر ِکثیر (الجمعہ،
یہ ذکرِ کثیر کوئی لسانی تکرار نہیں، وہ دراصل ایک فکری عمل ہے۔ یعنی مادی چیزوں میں خدا کی نشانیاں دیکھنا۔ مادی تجربات سے آخرت کا سبق نکالنا۔ دنیا کی ہر چیز میں یہ ربانی پہلو چھپا ہوا ہے۔ روحانیت یہی ہے کہ آدمی دنیوی یا مادی سرگرمیوں کے درمیان رہتے ہوئے ان نشانیوں کو دیکھے ۔وہ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرسکے۔ روحانیت دراصل کنورژن کی اسی ذہنی صلاحیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت نہ دنیا کو ترک کرنے سے ملتی ہے اور نہ الفاظ کی لسانی تکرار سے۔ روحانیت کا درجہ اُس کو ملتا ہے جو مادی دنیا کو اپنے لیے روحانی خوراک بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں
حق کی مخالفت اصلاً صرف ایک سبب سے ہوتی ہے، اور وہ ہے ماحول کی کنڈیشننگ۔ ہر انسان ایک ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ آدمی اپنے قریبی ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس تاثر پذیری کو جدید نفسیاتی اصطلاح میںکنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔اسی معاملے کو حدیث میں ماں باپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔
یہ کنڈیشننگ اگرچہ گہری ہوتی ہے، لیکن وہ انسان کی فطرت کو نہیں بدلتی۔ انسان کا حقیقی مزاج بدستور انسان کی فطرت میں موجود رہتا ہے۔ انسان کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہتاہے کہ وہ اپنی ضمیر کی آواز کو سنے، اور اپنی کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرسکے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ ابتدائی فطرت میں کنڈیشننگ کا معاملہ ماحول سے اثر پذیری کی بنا پر ہوتا ہے، لیکن بعد کو اس کی ڈی کنڈیشننگ آدمی خود اپنے ارادے سے کرتا ہے۔ ہر انسان جو سچائی کا طالب ہو، اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ (introspection) کرے، وہ اپنے آپ کو دریافت کرے، اور پھر اپنے آپ کو دوبارہ اصل فطرت پر قائم کرے۔ یہ کام ہر آدمی کو لازماً کرنا ہے۔ اس ڈی کنڈیشننگ کے بغیر کوئی شخص دوبارہ اپنی اوریجنل فطرت پر قائم نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر آدمی کو اپنا مصلح آپ بننا ہے۔ ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ طور پر اپنا جائزہ لے۔ وہ عذر(excuse)کو قبول نہ کرے، وہ اپنا نگراں آپ بنے۔ اس طرح وہ آسانی کے ساتھ اپنی شخصیت کی تعمیرِ نو کرسکتا ہے۔ یہاں آدمی کے لیےاس کا ضمیر (conscience) اس کا معاون ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ انسان کا ضمیر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ انسان کا ضمیر کبھی بدلتا نہیں ۔ اس لیے ہر انسان کے لیے ہمیشہ یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرکے خود کو دریافت کرے، اور اپنے آپ کو اصلاح یا فتہ انسان بنائے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہو۔ لیکن اکثر حالات میں انسان خود اس معاملے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کا ارتقا ہونے نہیں دیتا۔ علمی دنیا میں اس کی مثالیں بہت عام ہیں۔ مثلاً ایک آدمی ایک کتاب لکھے گا، اس میں وہ ایک فکر (thought) کا ذکر کرے گا۔ وہ ایسا کرے گا کہ اپنی تھیم (theme)کا اصل فکر تو کسی اور سے لے گا، لیکن غیر متعلق طور پر کسی کا حوالہ دے کر یہ ظاہر کرے گا کہ اس کی تھیم فلاں شخص سے ماخوذ نہیں ہے، بلکہ دوسرے شخص سے ماخوذ ہے۔ اس طرح وہ اپنے خیال کے مطابق، اپنے آپ کو بچاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔
اعلیٰ شخصیت والا انسان وہ ہے، جو کھلے اعتراف والا ہو، جس کا یہ حال ہو کہ جب اس کو کسی سے کوئی بات ملے تو وہ ایسا نہ کرے کہ دوسرے سے ملی ہوئی بات کو خود اپنی طرف منسوب کرلے، بلکہ وہ کھلے طور پر اس بات کا اعتراف کرے کہ اس کو یہ بات فلاں شخص سے حاصل ہوئی ہے۔ زندگی میں شاید سب سے بڑی قابل قدر چیز اعتراف ہے۔ ایک حدیث رسول آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:جو انسان کا شکر ادا نہیں کرے گا، وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 19350) ۔ شکر کا مطلب اعتراف (acknowledgment) ہے۔
ایک شخص جب انسان کا اعتراف نہ کرے، تو وہ اپنے اندر ایسی نفسیات کی پرورش کررہا ہے کہ وہ اللہ رب العالمین کا بھی اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔ اعتراف انسان کی ایک اعلیٰ صفت ہے۔ اعتراف کے ذریعے انسان کے اندر شخصیت کا ارتقا مسلسل طور پر جاری رہتا ہے، اور جو آدمی اعتراف سے محروم رہے، وہ شکر خداوندی سے بھی محروم رہے گا۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، انسان کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے(الاحزاب،
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میرے اندر کام کرنے کا بہت جذبہ ہے، لیکن جب میں کوئی کام شروع کرتا ہوں تو درمیان میں کچھ ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں ، جس کی وجہ سے مجھے اس کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں کام کس طرح کروں۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کی بات کرتے ہیں، ان کا کیس عذر کا کیس نہیں ہے،بلکہ ارادے(will power)کے نہ ہونے کا کیس ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر ارادے کی طاقت موجود نہیں ہوتی۔ البتہ کام کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جاننا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی کام صرف شوق کی بنیاد پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ طاقتور ارادے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حقیقی ارادہ یہ ہے کہ آپ جانیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ کے کام کی راہ میں کس قسم کی صلاحیت درکار ہے۔ آپ کو کن رکاوٹوں سے لڑ کر اپنے کام کو آگے بڑھانا ہے۔ آپ کے اندر سابقہ کنڈیشننگ کی وجہ سے وہ کون سی کمزوریاں ہیں، جن کو دور کرنا ضروری ہے، ورنہ آپ عذرات میں پھنسے رہیں گے، اور جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں، اس میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔
اصل یہ ہے کہ ہر کام سب سے پہلے منصوبہ بندی (planning) چاہتا ہے۔ منصوبہ بندی یہ ہے کہ آپ اپنے کام کے تمام پہلوؤں اور اس کے مالہ و ماعلیہ کو جانیں، آپ پیشگی طور پر یہ جانیں کہ آپ محض شوق کے طور پر یہ کام کرنا چاہتے ہیں، یا آپ اس کے لیے ضروری قربانی دینے کو تیار ہیں۔ آپ صرف باتیں بنانے والے آدمی ہیں، یا آپ کے اندر پختہ عزم کی طاقت موجود ہے۔ آپ دوسروں کو الزام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، یا آپ عذر میں خود اپنی کمی کو دریافت کرکے اس کی اصلاح کے لیے تیار ہیں۔ جو لوگ مذکورہ قسم کی باتیں کرتے ہیں، وہ دراصل وہ لوگ ہیں، جو ہر مسئلے کا ذمے دار دوسرے کو قرار دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں، ان کے اندر یہ ہمت نہیں ہوتی کہ اپنی کمزوریوں کو دریافت کریں، اور اپنی کمزوریوں کو ڈھونڈ کر اپنے منصوبہ کو آگے بڑھائیں۔
واپس اوپر جائیں
■ 30 جولائی 2018 کو امریکن سنٹر (کولکاتا) نے ’آور وائس آور جرنی، اے کنورسیشن وِد وومن چینج میکرس‘ کے عنوان سے ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا۔ شرکاء میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کافی تعداد میں موجود تھیں۔ مس شبینہ علی (سی پی ایس ٹیم ممبر، کولکاتا) نےاس میں شرکت کی۔ انھوں نے شرکاء سے ملاقات کرکے ان تمام لوگوں کے درمیان قرآن (ترجمہ)، اسپرٹ آف اسلام ، ایج آف پیس، لیڈنگ اسپریچول لائف وغیرہ دیے۔ تمام لوگوں نے خوشی کے ساتھ ان کو قبول کیا۔
■ سی پی ایس (جمشید پور) نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے تحت ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر مساجد اور لائبریریوں میں لوگوں کو پڑھنے کی غرض سے رکھا جاتا ہے۔اس پر سی پی ایس جمشید پور کا اسٹمپ لگا ہواہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا کہ سی پی ایس (جمشید پور) کو ایک فون آیا ۔کال کرنے والے نے بتایا کہ ٹلکو (جمشیدپور) کی ایک مسجد میں اس نے قرآن کا ہندی ترجمہ دیکھا ہے جس پر یہ فوننمبر تھا، اور اس پر فری ڈسٹریبیوشن کااسٹامپ لگا ہوا ہے، تو کیا میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔ انھوں نے مزید یہ بتایا کہ میں ملٹری میں سروس کرتا ہوں۔یہ تھے مسٹر شیخصادق جو انڈین ملٹری کے میکینیکل ڈپارٹمنٹ میں ٹکنیشین ہیں۔ 3 اگست 2018 کو مسٹر شیخصادق اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ قرآن کے لیے آئے۔انھوں نے بتایا کہ وہ مولانا کو پچھلے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور انٹر نیٹ پر ان کو کبھی کبھی سنتےہیں۔ان کو قرآن کے ہندی اور انگریزی ترجمے، ہندی کی سیرت کی کتابیں اور پمفلٹس دیے گئے۔ ان کو پاکر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور شکریہ ادا کرکے رخصت ہوئے۔
■ سی پی ایس ٹیم (سہارنپور) نے مشہور دینی ادارہ مظاہر العلوم اور دار العلوم کے علماء سے 2 اگست 2018 کو ملاقات کی اور انھیں دعوت کی اہمیت بتائی۔ تمام لوگوں نے اس کاا ظہار کیا کہ وہ دعوت کا کام کریں گے۔
■ سی پی ایس مشن کے تحت جیلوں میں بھی دعوہ لٹریچر خاص طورپر قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے کا ایک ای میل یہاںشائع کیا جارہا ہے:
I am wanting to get at least 25 copies of the Quran for a jail in the city of Marion, Indiana. They have requested for Quran copies and have a high need of them, as the prisoners have asked for the Quran. I am the President of the Women’s Committee at the Islamic Center of Bloomington in Bloomington, Indiana. I am a convert to Islam. I would like to help these people by providing them the Quran. We have had some copies of your translation of the Quran and they are wonderful. If you could send some more so that we can distribute as a form of dawah, it would be greatly appreciated. (Katherine Barrus, Bloomington, Indiana, USA).
■ ذیل میں چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
میں پچھلے 20 سال سے درس وتدریس کا کام کرتاہوں۔ تفسیر جلالین، تفسیر نسفی کا طلبہ کو درس دے چکا ہوں،تفسیر القرطبی وغیرہ مطالعے میں رہتی ہیں، لیکن یہ سب تفاسیر صرف فنی معلومات دیتی ہیں۔ نصیحت کہیں کہیں مل بھی جاتی ہے تو فنی معلومات کے بالمقابل نہ کے برابر ہے۔اس کے برعکس، تذکیر القران ایک ایسی تفسیر ہے جس میں صرف پیغام الٰہی پر فوکس کیا گیا ہے، جس میں ناصحانہ پہلو ،داعیانہ پہلو مرکزی موضوع ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اس تفسیر سے اصل پیغام الٰہی کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے۔ یہ خصوصیت کسی اور تفسیر میں نہیں ملتی ۔واللہ اعلم (مولانا محمد جمیل صدیقی، گلبرگہ، کرناٹک)۔
تذکیر القرآن کا فوکس معرفت اور دعوت ہے۔ مولانا کی چاہے کوئی کتاب ہو، یا تفسیر، یا لکچر، یہ تمام معرفت اور دعوت پر مبنی ہیں۔ جو آدمی بھی مولانا کی کتابیں اور لکچرس مسلسل پڑھتا اور سنتا رہےگا، امید ہے کہ وہ کنفیوژن سے بچ جائے گا۔ (مولانا عبد الباسط عمری، قطر)۔
تذکیر القرآن ایک ایسی تفسیرہے، جو دوسروں کے یہاں نہیںہے۔ خدا اور آخرت کا پیغام، دعوت کا پیغام کسی دوسری جگہ نہیں ملتا ہے۔یہی تذکیر القرآن کی امتیازی خصوصیت ہے۔ قرآن کا جو اصل پیغام ہے تذکیر القرآن اس کو بتاتا ہے، یعنی خدا اور آخرت رخی زندگی ۔ اس کے پڑھنے والے کو ہر جگہ معرفت، دعوت اور ربانیت کی ہی باتیں ملتی ہیں۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
مولانا صاحب کی تحریریں کس طرح ہمیں سوچنے میں مدد کرتی ہیں ۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ 1992 میں میں نے کسی کے کہنے پر مولانا کی کتاب ’’ کتاب زندگی‘‘ خریدی تھی۔ اُس وقت میں مولانا کے نام سے بھی واقف نہ تھا ۔ میرا مطالعہ زیادہ تر ناولوں، افسانوں یا سفر ناموں پر مشتمل تھا۔ اُس وقت میری عادت تھی جب کوئی کتاب پڑھنے بیٹھتا، چالیس پچاس صفحے ایک نشست میںختم کردیتاتھا۔ اِ سی عادت کے تحت میں نے مولانا کی مذکورہ کتاب بھی پکڑی، اورپڑھنے بیٹھ گیا ،صرف پانچ چھ صفحات پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ یہ کتاب ویسی نہیں جیسی کتابیں میںنے پہلے پڑھی ہیں۔ اس کا ہر صفحہ اپنے دامن میں حکمت و دانائی کے موتیوں کوسمیٹے ہوا ہے۔ یہ کتاب تو کایا پلٹ (game changer) کتا ب ہے ۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز اِس کتاب کا ہر روز ایک صفحہ پڑھوں گا۔ پھر اس صفحہ میں جو پیغام ہے اُس کو اچھی طرح سے ذہین نشین کرنے کے لیے باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس پیغام کو زیر گفتگو لاؤں گا۔ کتاب زندگی کو میں نے ایسے ہی ختم کیا تھا ۔ اس کتاب نے مجھے سنجیدگی دی ، اور ایک با مقصد زندگی کی طرف ر اغب کیا۔ پھر مولانا کی کتابوں کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ ایک کے بعد ایک کتاب زیر مطالعہ رہی ۔تاہم کبھی بھی مولانا کی کتاب کے دوتین صفحے سے زیادہ پڑھنے کی کوشش نہ کی۔ کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مولانا کی دعوت گہرے غور وفکر کا تقا ضہ کرتی ہے۔ سرسری مطالعہ اس فکر کے ساتھ ناانصافی ہے۔ مولانا کی تحریر نے مجھے احساس دیا کہ اگر میں کسی کی طرف ایک اُنگلی اُٹھاتا ہوں تو باقی انگلیوں کا رخ میری طرف ہوتا ہے۔پہلے مجھے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے ۔ کامیابی کوئی خارجی چیز نہیں ہے ،یہ داخلی معاملہ ہے۔ کامیاب وہ نہیں ہے،جو دوسروں کا سر کاٹ لے ،کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے دلوں کو جیت لے۔ مولانا کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف لڑنے کی اہمیت کو جانتا ہوں، امن اور صلح کی اہمیت سے بے خبر ہوں ، جب کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امن کے لیے حد یبیہ میں فریقِ مخالف کی تمام شرائط کو یک طرفہ طور پرتسلیم کر لیتے ہیں،تا کہ کسی طرح امن قائم ہو جائے ۔ میں اُن کا امتی ہو کر بھی امن کی اہمیت سے بے خبر تھا۔ یہ مولانا کی تحریروں کا فیض تھا کہ میرے لیے امن (peace)کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ اسی طرح مولانا سے یہ بھی سیکھا کہ اللہ بتانے سے نہیں ملتا ، اللہ کو ذاتی طور پر تلاش (discover) کرنا پڑتا ہے۔ جب داخلی طور پراللہ کی دریافت ہوتی ہے ،توپھر ایمان و یقین ثمر بار ہوتا ہے۔ اس لیے اپنےاردگرد مظاہر فطرت پر غور کرو ۔ پھر اللہ کی موجودگی کا احساس اندر سے پیدا ہوگا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب ’’فکر اسلامی ‘‘ جب میں نے پڑھی ، یقین جانیے میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس میں مولانا نے بڑی بڑی اسلامی قد آور شخصیات کے فکر و نظریات پر قلم اُٹھایا تھا۔ پہلے پہل تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کیا تو مولانا کے نقطہ نظر میں مجھے توازن نظر آیا۔ ہم پچھلے کئی سو سال سے خوار ہورہے ہیں۔ اس کی آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ کہیں تو ہم سے چوک ہوئی ہوگی۔ کوئی شخص تو ہمت کرکے جائزہ لے کہ ہم کیوں دنیا میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ مولانا نے جس چیز کو صحیح سمجھا اس کو بیان کر دیا ۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئی اس کا بر ملا اظہار کردیا۔ نتیجتاً اُن کو سقراط بن کر لوگوں کی زہریلی باتوں کے جام پینے پڑے ، لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نے محمد بن قاسم اور صلاح ا لدین ایوبی کی تلواروں کی تعریف کی ہے۔ لیکن کبھی اپنے احتساب کے لیے اٹھنے والے قلم کی تعریف نہ کی۔ ہماری عقلوں کو نہ جانے کس کی نظر لگی ہے کہ جب تک کو ئی رہنما اس دنیا سے چلا نہیں جاتا، تب تک ہم اُس کا اعتراف نہیں کرتے۔ ہماری آنکھوں میں ایسی کجی آئی کہ عصر حاضر کے آئینہ میں ہم کو کسی کی خوبی نظر نہیں آتی۔ دعا کریں اللہ میرے اندر ایک داعی کی خوبیاں پیدا کرے۔ آمین (محمد فاروق، لاہور، پاکستان )
The Quran: An Abiding Wonder was the first book by Maulana that I read about 30 years ago. It helped me understand the reason for the fall of various Muslim rulers and their dynasties over centuries. At a personal level, it has been a constant source of learning for all facets of life. I have also learnt from the Maulana that dawah is not merely one of the activities of a believer, rather it should reflect in all of one’s dealings and behaviour. (Azhar Rizvi, Karachi)
The real subject of Maulana’s books is to see things scientifically and understand their logical end. (Qamar Abbas, Lahore)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.