خروج کا مسئلہ
خروج کا لفظی مطلب ہے نکلنا (going out)۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے سیاسی بغاوت۔ یعنی کسی قائم شدہ حکومت کے اقتدار کو نہ ماننا، اور اس کو بدلنے کی کوشش کرنا، پولیٹکل اپوزیشن کی تحریک چلانا۔ خروج یا بغاوت اسلام میں حرام ہے، اور اس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد مسلم دنیا میں شوری پر مبنی خلافت شروع ہوئی۔ یہ طرزِ حکومت تقریباً تیس سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد معاویہ بن ابو سفیان (وفات 60:)کا دور آیا۔
امیر معاویہ، علی بن ابی طالب (وفات 40:ھ)کے بعد امیر المومنین بنے۔ امیر معاویہ کو دَاھِیَۃُ الْعَرَبْکہا جاتا تھا، یعنی اعلیٰ فراست کا انسان۔امیر معاویہ کو اموی سلطنت (Umayyad Empire) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے پہلی بار مبنی بر شوریٰ خلافت کے بجائے مبنی بر خاندان حکومت (dynasty)کا نظام قائم کیا۔کچھ لوگ اس کو ملوکیت کا دور کہتے ہیں، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس کے بعداسلامی دنیا میں سیاسی استحکام(political stability) کا دور آیا، جو نشیب و فراز کے ساتھ برابر جاری رہا، اور اب بھی عرب ریاستوں میں جاری ہے۔
سمجھاجاتا ہے کہ امیر معاویہ اسلامی دور کے وہ شخص ہیں، جنھوں نے خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کیا۔ مگر اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو اسلام کی سیاسی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کا درجہ حاصل ہوا۔ امیر معاویہ نے شورائی خلافت کو خاندانی حکومت (dynasty) میں تبدیل کیا تھا، اور تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے بعد یہی طرز حکومت بعد کے پورے اسلامی دور میں باقی رہا۔ اس اعتبار سے امیرمعاویہ کو اسلامی تاریخ میں ٹرینڈ سیٹر کا درجہ حاصل ہے۔
اس معاملے کا زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ امیر معاویہ کے اس’’اجتہاد‘‘ کو پوری امت نے تسلیم کرلیا۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین ، فقہاء، اور تمام علمائے متقدمین نے اس کو بلااختلاف مان لیا، حتی کہ ان کے اس اجتہاد کو اجماع امت کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس معاملے میں علمائے امت کی نمائندگی کرتے ہوئےشارح مشکاۃ المصابیح شرف الدین الحسین بن عبد اللہ الطیبی(وفات 743: ھ) اس موضوع کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما الخروج علیہم وتنازعہم فمحرم بإجماع المسلمین، وإن کانوا فسقة ظالمین. وأجمع أہل السنة على أن السلطان لا ینعزل بالفسق؛ لتہیج الفتن فی عزلہ وإراقة الدماء وتفرق ذات البین، فتکون المفسدة فی عزلہ أکثر منہا فی بقائہ (الکاشف عن حقائق السنن، 8/2560)۔ یعنی اور جہاں تک خروج (بغاوت) کی بات ہے، اور ان سے نزاع کرنا، وہ حرام ہے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، خواہ وہ فاسق اور ظالم ہو، اور اس پر اہل سنت نے اجماع کیا ہے کہ سلطان کو فسق کی بنا پر معزول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس کی معزولیت کی وجہ سے فتنے اٹھتے ہیں، اور خون بہتا ہے، اور( مسلمانوں میں)باہمی اختلاف پیدا ہوتا ہے، تو اس کی معزولیت پر ہونے والا نقصان اس کے باقی رہنے سے زیادہ ہے۔
علمائے امت کا یہ اجماع محض اتفاق کے طور پر نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر نہایت صراحت کے ساتھ پیشگی طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ حدیث کی کتابوں میں کتاب الفتن میں اس طرح کی روایتیں کثرت سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں تین روایتیں نقل کی جاتی ہیں:تَسْمَعُ وَتُطِیعُ لِلْأَمِیرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَہْرُکَ، وَأُخِذَ مَالُکَ، فَاسْمَعْ وَأَطِعْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1847)۔ یعنی آپ نے کہا کہ سنو اور اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے، اور تمھارا مال چھین لے، سنو اور اطاعت کرو۔
ایک دوسری روایت یہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِی أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْکِرُونَہَا، قَالُوا:فَمَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:أَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ، وَسَلُوا اللَّہَ حَقَّکُمْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7052)۔ یعنی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہم لوگوں سے کہا کہ تم میرے بعد عنقریب ترجیح (preference)دیکھوگے، اور کچھ ایسے امور جن کو تم ناپسند کرو گے، لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے کہا: ان کو ان کا حق ادا کرو، اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:مَنْ رَأَى مِنْ أَمِیرِہِ شَیْئًا یَکْرَہُہُ فَلْیَصْبِرْ عَلَیْہِ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاہِلِیَّةً (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7054)۔ یعنی آپ نے کہا کہ جو اپنے امیر میں کوئی ایسی بات دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، تو وہ اس پر صبر کرے، کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی جدا ہوا، اور اسی حال میں وہ مرگیا، تووہ جاہلیت کی موت مرا۔
اس موضوع پر بعض علماء کا اختلاف نقل کیا گیا ہے۔ مگر ا س قسم کا اختلاف بلاشبہ ناقابل اعتبار ہے۔ اس لیے کہ اس معاملے میں رسول اللہ کی اتنی زیادہ کھلی کھلی ہدایات موجود ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ وہ کوئی خود ساختہ عذر لے کر اس سے اختلاف کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا اختلاف بداہۃً ہی قابل رد ہے:
prima facie it stands rejected
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح احادیث کےمطابق، اس مسئلے پر امت کا اجماع مسلسل طور پر جاری رہا۔ بیسویں صدی میں پہلی بار بعض مسلم رہنما مثلاً پاکستان کے سید ابو الاعلیٰ مودودی (وفات1979:) اور مصر کے سید قطب(وفات 1966:)نے مبینہ طور پر اس معاملے میں اختلافی موقف اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے منتخب صدر جنرل ایوب کے خلاف، اور مصر میں سید قطب نے سابق صدر جمال عبد الناصر کے خلاف سیاسی اپوزیشن کے تحریکیں چلائیں۔ اس قسم کا اپوزیشن بلاشبہ وہی چیز تھا، جس کو خروج یا بغاوت کہا جاتا ہے۔ ان حضرات کا یہ فعل بلاشبہ شرعی اعتبار سے غلط تھا۔ اس معاملے میںکوئی بھی عذر (excuse) ایک ایسے عمل کے لیے وجہِ جواز نہیں بن سکتا، جس کو خود پیغمبرِ اسلام نے حرام کا درجہ دیا ہو۔
اس معاملے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب ، اور ان کے رفقا اور مویدین کو وہی کرنا چاہیے تھا، جو رسول اللہ کے بعد امت کے تمام اسلاف و اخلاف نے اختیارکیا۔ یعنی پولیٹکل دائرے کو چھوڑ کر نان پولیٹکل دائرے میں اپنی کوششوں کو صرف کرنا۔ مثلاً رسول اللہ کے بعد کے زمانے میں مسلم حکمرانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ پوری طرح آچکا تھا، جس کے حوالے سے پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں نے بڑی بڑی سیاسی تحریکیں چلائی تھیں۔ رسول اللہ کے بعد علمائے امت نے صرف یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر رہ کر غیر سیاسی دائرے میں اپنی تمام سرگرمیاں محدود کردیں۔ پاکستان اور مصر کے مسلم رہنماؤں پر لازم تھا کہ وہ یہی طریقہ اختیار کریں۔
مثال کے طور پر مصر میں وہاں کے حکمراں جنرل جمال عبد الناصر نے سید قطب کو، جو کہ سیاسی اپوزیشن کے لیڈر تھے، یہ پیش کش کی کہ وہ مصر میں تعلیم کی وزارت سنبھالیں، اور ملک کے نوجوانوں کو اسلامی انداز میں تربیت دیں۔ مگر سید قطب نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح 1962 میں پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خاں نے سید ابوالاعلیٰ مودوی کو یہ پیش کش کی کہ ان کو بہاول پور یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا جائے گا، اور اس کا پورا چارج بلاشرط ان کو دے دیا جائے گا۔ یہاں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ نوجوانوں کی اپنے نہج پر فکری تربیت کریں۔ مگر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ دونوں صاحبان کا انکار رسول اللہ کی ہدایات اور امت کے اجماع کےواضح طور پر خلاف تھا۔ اس معاملے میں ان حضرات کا کوئی بھی عذر ہرگز قابل قبول نہیں۔
رسول اللہ نے حکمرانوں سے خروج کے خلاف جو واضح ہدایات دی تھی، اور جس پر آپ کے بعد تمام علمائے امت نے اجماع کرلیا، وہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ وہ آپ کی اس پیغمبرانہ حیثیت کی بنا پر تھا، جو آپ کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی، یعنی امت کو حکمت کی تعلیم دینا (الجمعۃ ، 62:2 )۔ تجربہ بتاتا ہے کہ آپ کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (wisdom) پر مبنی تھی۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں امت اس پیغمبرانہ حکمت پر قائم رہی، اس لیے مسلمان مسلسل طور پر کامیاب رہے۔ مگر بیسویں صدی میں امت کے رہنماؤں نے اس حکیمانہ تعلیم کو چھوڑ دیا، اور اپنے حکمرانوں سے سیاسی نزاع کا طریقہ اختیار کرلیا، اس کے نتیجے میں ان کی تمام کوششیں حبط اعمال (الکہف، 18:105 ) کا شکار ہوگئیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم اعلیٰ حکمت (great wisdom) پر مبنی تھی۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سیاسی معاملے میں غیر نزاعی طریقہ ہمیشہ کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ ایسافطرت کے مسَلّم قانون کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو ہدایت دی تھی، وہ بظاہر ایک مذہبی ہدایت تھی، لیکن وہ فطرت کے قانون پر مبنی ایک ہدایت تھی۔ اسی حقیقت کو جرمنی کے مدبر سیاست داں بسمارک (1815-1898) نے اس طرح کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
ُُُPolitics is the art of the possible, the attainable, the art of the next best.
فطرت کے قانون پر مبنی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل وزڈم کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں کسی کے لیےآئڈیل وزڈم کا انتخاب ممکن نہیں ہے، بلکہ یہاں ہر ایک کے لیے پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ہے۔ کوئی شخص تصوراتی طور پر آئڈیل کو اپنا گو ل بنا سکتا ہے۔ لیکن جب معاملہ کسی نشانے کو عملی صورت میں ظہور میں لانے کا ہو تو ہر ایک کے لیے صرف پریکٹکل وزڈم کا انتخاب ممکن ہوتا ہے، نہ کہ آئڈیل وزڈم کا انتخاب۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت
امریکا میں کئی ایسے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی جو نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ نظامِ خلافت کی باتیں کرتے ہیں، مگر عملاً وہ نظامِ منافقت پر قائم ہوتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ لوگ واقعۃً نظامِ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ امریکا کی شہریت کو ختم کردیجئے۔ کیوں کہ شہریت کے فارم پر دستخط کرنے کے بعد اِس قسم کی باتیں کرنا اگر بالاعلان ہو تو وہ ملک سے غداری ہے، اور اگر اعلان کے بغیر ہو تو وہ منافقت ہے۔
واپس اوپر جائیں