اکثر سلفی حضرات یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ کُلُّ خَیْرٍ فِی اتِّبَاعِ مَنْ سَلَف، وَکُلُّ شَرٍ فی ابْتـدَاعِ مِـنْ خَلَـفْ(تمام خیر سلف کی اتباع میں ہے، اور تمام برائی بعد میں آنے والوں کی ایجاد کردہ باتوں میں ہے)۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ وضاحت فرمائیں۔ (حافظ سید اقبال احمدعمری، چنئی، تامل ناڈو)۔
اس کے جواب میں یہاں ایک حدیث رسول ، اور خود ائمہ سلف میں سے ایک امام کا قول نقل کیا جاتا ہے۔حدیث رسول یہ ہے:تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہو، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔
اسی کے مثل امام احمد بن حنبل (وفات
حدیثِ رسول اور امام احمد کے بیان کردہ اصول کی روشنی میں سلفی حضرات کے مذکورہ قول کودیکھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قول کو اگر معتدل معنی میں لیا جائے تو وہ صرف یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل یا نظریہ کا انتخاب کرتے ہوئے، دوسرے علما سے استفادہ کرے۔ اس قول کو اس معنی میں لیا جائے تو اس میں کوئی قباحت پیدا نہیں ہوگی، لیکن اگر اس کو غلو تک پہنچا دیا جائے، تو پھر اس میں قباحت کا آغاز ہوجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر قول میں ایک سچائی کا عنصر ہوتا ہے۔ اس عنصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جب اس پر عمل کیا جائے، تو وہ اعتدال کا معاملہ رہتا ہے، لیکن جب اس کو منطقی حد (logical end) تک پہنچا دیا جائے، تو اس میں مشکلات کا آغاز ہوجائے گا۔
مثلاً اگر ایک عالم کہتا ہے کہ وضو کے وقت تمام اعضا کو ٹھیک سے دھونا چاہیے۔ سادہ مفہوم کے لحاظ سے یہ قول بالکل درست قول ہے۔ لیکن اگر اس کو منطقی حد تک پہنچایا جائے، اور یہ کہا جائے کہ ہر بال کی جڑ تک پانی کو پہنچانا ضروری ہے، یا آنکھ کے اندر ونی حصے کو دھونا ضروری ہے، تو یہ غلو کا معاملہ ہوگا، اور دین کے نام پر شدت تک پہنچ جائے گا، جو دین میں مطلوب نہیں— دین میں اعتدال مطلوب ہے، اور غلو غیر مطلوب۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭ ٭
قرآن کے مطابق، ہمارا دشمن صرف شیطان ہے جس کو قرآن میں طاغوت کہا گیا ہے۔ ہماری لڑائی صرف شیطان سے ہے، کسی اور سے نہیں۔انسان کے اندر امتحان کے مقصد سے مختلف قسم کے جذبات رکھے گئے ہیں۔ مثلاً غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ اِن جذبات کو غلط رُخ دے کر شیطان ہم کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ ہمیں شیطان سے لڑنا ہے۔ شیطان کی تزئین (الحجر،
واپس اوپر جائیں
مشورہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔مشورہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک باہمی مشاورت ہے، یعنی دوسرے کو کچھ دینا اور دوسرے سے کچھ لینا۔مشورہ اگر حقیقی اسپرٹ کے ساتھ کیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مشورہ کی اصل اسپرٹ باہمی مشاورت (mutual consultation) ہے۔
مشورہ میں دو پارٹیاں ہوتی ہیں۔ اس میں بظاہر ایک پارٹی دینے والی (giver) اور دوسری پارٹی لینے والی (taker) ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ دو طرفہ لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ صرف مشورہ نہیں، بلکہ وہ باہمی لین دین (mutual exchange) کا معاملہ ہے۔ مشورہ کی صحیح اسپرٹ ہو تو جو بظاہر دینے والا ہے، وہ عین اسی وقت لینے والا بھی ہوگا، اور جو لینے والا ہے، وہ عین اسی وقت دینے والا بھی ہوگا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتاہے کہ کان یتعلم من کل احد(وہ ہر ایک سے سیکھتے تھے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انٹرایکشن کے وقت وہ باہمی لین دین کی اسپرٹ کے ساتھ انٹرایکشن کرتے تھے۔ اس طرح ہر انٹرایکشن دو طرفہ بن جاتا تھا۔ وہ ہر انٹرایکشن میں دوسرے سے کچھ لیتے تھے، اور عین اسی وقت وہ دوسرے کو کچھ دیتے تھے۔ یہی مطلب ہے میچول کنسلٹیشن کا ۔
موجودہ زمانے میں اسی عمل کو ڈائلاگ کہا جاتاہے۔ ڈائلاگ مباحثہ یا مناظرہ سے الگ ہوتا ہے۔ ڈائلاگ ایک تخلیقی عمل (creative practice) ہے۔ صحیح ڈائلاگ اس وقت وجود میں آتا ہے، جب کہ دونوں پارٹیوں میں اس قسم کی دو طرفہ اسپرٹ پائی جاتی ہو۔ ڈائلاگ اگر مباحثہ اور مناظرہ بن جائے، تو اس سے کسی پارٹی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، اگر ڈائلاگ میں دو طرفہ تعلم (mutual learning) کی اسپرٹ موجود ہو، تو ڈائلاگ دونوں فریقوں کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: مَا طَلَعَتْ شَمْسٌ قَطُّ إِلَّا بُعِثَ بِجَنْبَتَیْہَا مَلَکَانِ یُنَادِیَانِ، یُسْمِعَانِ أَہْلَ الْأَرْضِ إِلَّا الثَّقَلَیْنِ:یَا أَیُّہَا النَّاسُ ہَلُمُّوا إِلَى رَبِّکُمْ فَإِنَّ مَا قَلَّ وَکَفَى خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَأَلْہَى(مسند احمد، حدیث نمبر 21721) ۔ یعنی جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اس کے دونوں کناروں پر بھیجے جاتے ہیں۔ وہ دونوںاعلان کرتے ہیں، جس کو جن و انسان کے علاوہ تمام مخلوقات سنتی ہیں: اے لوگو، اپنے رب کی طرف آئو، جو کم ہو، اور کافی ہو، وہ بہتر ہےاس سے جو زیادہ ہو، اور غفلت میں ڈالدے۔
انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ مادی سامانِ حیات درکار ہوتا ہے۔ یہ سامان حیات زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن سامانِ حیات فراہم کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، بقدرِ ضروت پر اکتفا کرنا، اور دوسرا ہے، ہر خواہش کو پورا کر نے کی کوشش کرنا۔ جو آدمی سامانِ حیات کے معاملے میں بقدرِ ضرورت پر اکتفا کرے، وہ کامیاب انسان ہے، اور جو آدمی ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا مقصدِ حیات بنالے، وہ کامیاب زندگی کی تعمیر سے محروم رہے گا۔
جو آدمی سامان حیات کو ضرورت کے درجے میں رکھے، اور اپنی ساری توجہ مقصدِ حیات کو جاننے پر لگائے ، اس کی زندگی کامیاب زندگی ہوگی۔ کیوں کہ ضرورت پر اکتفا کرنے پر اس کو کافی موقع ملےگا کہ وہ زندگی کے اصل مقصد کے حصول کے لیے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ فارغ کرسکے۔
مثلاً ایسے آدمی کے پاس کافی وقت ہوگا۔ وہ کتابوں کا مطالعہ کرکے زندگی کے مقصد کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائے۔ اس کے برعکس، جو آدمی سامانِ حیات کو بذاتِ خود اہم سمجھ لے، وہ سامانِ حیات کی زیادہ سے زیادہ فراہمی میں اتنا وقت لگادے گا کہ اس کے پاس اصل مقصد کے لیے کچھ کرنے کا وقت ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس کے پاس سامان حیات کی افراط ہوگی، لیکن انٹلکچول ڈیولپمنٹ کے معاملے میں وہ ذہنی بوناپن کا شکار ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے ۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَاءَہُ الیَقِینُ، إِنِّی لَأَرْجُو لَہُ الخَیْرَ مِنَ اللَّہِ،و َاللَّہِ مَا أَدْرِی - وَأَنَا رَسُولُ اللَّہِ - مَا یُفْعَلُ بِی وَلاَ بِکُمْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7018)۔یعنی اس کو موت آگئی، اور میں اس کے بارے میں اللہ سے خیر کی امید رکھتا ہوں، خدا کی قسم، میں نہیں جانتا، حالاں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، کیا کیا جائے گامیرے ساتھ، اور کیا کیا جائے گا تمھارے ساتھ۔اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے: لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ (
مذکورہ روایت میں رسول اللہ نے جو بات کہی، وہ عظمتِ خداوندی کے پہلو سے ہے، جس کو قرآن میں ایک مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دنیا کو پیدا کرنے کے بعد یہاں انسان کو آباد کیا، اور پیغمبر اور داعیوں کے ذریعے یہ انتظام فرمایا کہ انسانوں کے پاس مسلسل طور پر ایسے افراد آئیں، جو انسان کو بتائیں کہ خالق کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو پیشگی طور پر پوری بات معلوم ہوجائے، اور وہ اس کے مطابق زندگی گزار کر جنت کے انعام کا اپنے آپ کو مستحق بنائے۔ اسی بات کو مزید تاکید کی زبان میں بتاتے ہوئے یہ کہا گیا: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (
یہ کوئی فقہی نوعیت کا حکم نہیں ہے، یعنی کوئی ایسا حکم جس کا لوگوں میں صرف اعلان کر دینا کافی ہے۔ مثلاً یہ کہ اے لوگو، تم لوگ ہر سال ایک مہینے کا روزہ رکھو۔ بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اجتہادی حکم ہے۔ یعنی ہمیشہ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ حکم کا تطبیقی مفہوم (applied meaning)دریافت کرتے رہنا ہے۔ ہمیشہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے حکم کو اس طرح بتاتے رہنا ہے کہ لوگوں کو حکم اپنے زمانے کے لحاظ سے قابلِ اتباع معلوم ہو۔ حکم کی وضاحت اس طرح کرنا ہے کہ ہر زمانے میں انسان کا ذہن برابر ایڈریس ہوتا رہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت کسی جامد مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک انفرادی حکم میں ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بتانے والا ہمیشہ اس کو اس طرح بتائے کہ زمانے کے لوگوں کا ذہن اس سے ایڈریس ہوتا رہے۔ اس حکم میں حجت شامل ہے، یعنی بتانے والا حکم کو اس طرح بتائے کہ جس سے سننے والے کا ذہن مطمئن ہو۔ وہ یقین کی اسپرٹ کے ساتھ اس پر برابر کاربند ہوتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
احادیثِ قدسی ان حدیثوں کو کہتے ہیں، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیثِ قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ عَنِ اللَّہِ جَلَّ وَعَلَا:الْکِبْرِیَاءُ رِدَائِی وَالْعَظَمَةُ إِزَارِی، فَمَنْ نَازَعَنِی فِی شَیْءٍ مِنْہُ أَدْخَلْتُہُ فِی النَّارِ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 5672)۔ یعنی عبداللہ ابن عباس رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کہا: کبریا ئی میری چادر ہے، اور عظمت میرا ازار ہے، جس نے بھی ان میں سے کچھ بھی چھیننے کی کوشش کی، میں نے اس کو جہنم میں داخل کیا۔
اس حدیث میں رداء اور ازار کا لفظ تمثیلی طور پر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عظمت اور بڑائی تمام تر اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ کوئی آدمی جو اپنی بڑائی میں جیے، اور کچھ بھی عظمت کا دعویٰ کرے، تو اللہ اس کو جہنم میں ڈال دے گا۔ یہ بے حد ڈرانے والی حدیث ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بے حد محتاط رہے۔ حقیقی عظمت(real greatness) صرف اللہ رب العالمین کا حق ہے۔ انسان کے لیے تواضع ہے۔ انسان کو اس دنیا میں احساسِ برتری کے ساتھ نہیں رہنا ہے، بلکہ اس کو ہمیشہ احساسِ کمتری کے ساتھ اس دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ جو لوگ حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں، اور حقیقت پسندی کی روش اختیار کرتے ہوئے متواضع انسان بن کر رہیں، ان کو اللہ کی طرف سے انعام ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے اس کا اچھا بدلہ پائیں گے۔
اس کے برعکس، جو لوگ حقیقتِ واقعہ کے خلاف دنیا میں بڑے بن کر رہنا چاہیں، ان کا انجام آخر کار ذلت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کا احساسِ برتری کچھ بھی ان کے کام نہ آئے گا۔ آخر کار وہ دیکھیں گے کہ ان کی خود ساختہ عظمت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ وہ ذلت و خواری کا کیس بن کر رہ گئے۔ عزت اس کے لیے ہے، جس کو اللہ رب العالمین عزت دے۔ جو شخص بطور خود اپنے کو عزت والا سمجھ لے، اس کو اللہ کی اس دنیا میں کچھ بھی ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی نے آلِ فرعون کے سامنے اپنی دعوت کو معجزاتی انداز میں پیش کیا، لیکن وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا:مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِنْ آیَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ (
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حضرت موسیٰ کا استدلال اپنے آپ میں کوئی کمزور استدلال تھا۔ حضرت موسی کا استدلال پوری طرح ایک طاقت ور استدلال تھا۔ لیکن انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو توڑ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کنڈیشننگ میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ یہ خود فریبی انسان کے لیے ہمیشہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔
حدیث میں اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے گھر کا ماحول اس کو کنڈیشننگ کا شکار بنادیتا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یہ کنڈیشننگ بلاشبہ ہر انسا ن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کے بجائے، مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بنائے۔ جو آدمی ایسا نہ کرسکے، وہ سچائی کو قبول کرنے میں ناکام ہوجائے گا۔ خواہ رسول کا زمانہ ہو یا رسول کے بعد کا زمانہ ۔
کنڈیشننگ کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈی کنڈیشنڈ آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور وہ سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے فری انسان بنائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی، یا مجوسی۔
اس حدیثِ رسول میں والدین سے مراد قریبی ماحول ہے۔ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت وہ صرف ایک بچہ ہوتا ہے، یعنی ناپختہ انسان(immature human being)۔ فطرت کے اعتبار سے ہر آدمی اپنی زندگی کا آغاز ناپختگی سے کرتا ہے۔ اس لیے ہر آدمی ماحول سے اثر قبول کرکے ماحول کی پیداوار (product) بن جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اپنے فطری حالات کی بنا پرہر انسان لازمی طور پر ایک متاثر ذہن کا انسان (man of conditioning) بن جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اپنا بے لاگ محاسبہ (introspection) کرے۔ اس پراسس میں وہ اپنی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور ایک ایک کرکے اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، اور اس طرح اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بنائے۔ کنڈیشننگ کا یہ واقعہ ہر انسان کی زندگی میں ایک فطری قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ لیکن اسی طرح اس معاملے میں اصلاحِ فطرت کا قانون بھی ہے۔ اگر آدمی اس فطری قانون کو استعمال کرے تو خود فطرت اس کی معلم بن جائے گی۔ اس کے ذہن میں اپنے آپ ایک جوابی کنڈیشننگ (counter conditioning) کا عمل شروع ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے وہ مکمل معنوں میں ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّہُ یَنْظُرُ بِنُورِ اللہِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3127)۔یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ دانش مند آدمی کے ساتھ چالبازی سے بچو۔
مومن وہ ہے جو اللہ رب العالمین کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کو دریافت کرتا ہے۔ وہ فطرت کے اصولوں کی بنیاد پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کا ارتقا اس کو اس قابل بنادیتا ہے کہ وہ چیزوں کو خالق کائنات کی روشنی میں دیکھ سکے۔یہ چیزیں مومن کو اعلیٰ معنوں میں دانش مند بنادیتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ حکمت (wisdom) کی روشنی میں اپنے معاملات کو حل کرے۔
دانش مندی کیا ہے۔ دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔ اس کی بناپر کوئی انسان جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرلے، اوراس کو تباہی کے راستے پرچلنے والا بنادے۔
فراستِ مومن سے مراد وہ فراست ہے جو اللہ رب العالمین کی دریافت سے بنے۔ جو اللہ کے قائم کردہ فطری قوانین پر مبنی ہو۔ ایسا انسان غلط منصوبہ بندی سے بچ جاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی سازش کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny)کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا یا رد کرتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
فطرت (nature) خالق کی ایک تخلیق ہے۔اس موضوع پر قرآن کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کا جو مطلب سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ فطرت کوئی پر اسرار چیز نہیں ، وہ انسان کے لیے ایک معلوم حقیقت ہے۔ فطرت ہر موقعے پر انسان کو الارم دیتی ہے کہ وہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔ فطرت کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(
فطرت ہر موقعے پر انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی خاموش زبان (unspoken language)میں ہوتی ہے۔ فطرت انسان کی صحیح گائڈ ہے۔ وہ ہر موقعے پر انسان کو آواز دیتی ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر بیک وقت دو فیکلٹی موجود ہیں ، ایک اکاؤنٹیبل پرسنالٹی، اور دوسرا الارمنگ کانشنس(conscience)۔
اگر آدمی بر وقت اس آواز کو سن لے، تو وہ فوراً انسان کی رہنمائی کے لیے متحرک ہوجاتی ہے، اور اگر انسان فوراً متحرک نہ ہو، تو وہ انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔فطرت کی یہ خاموش زبان اگرچہ انسان نہیں سنتا، لیکن ہر آدمی اس کو غیر واضح انداز میں فوراً محسوس کرلیتا ہے۔یہ واقعہ جو انسان کے اندر پیش آتا ہے، وہ دوسرے الفاظ میںوہی ہے جس کو ضمیر (conscience) کہا جاتا ہے۔
انسان کی شخصیت ایک آزاد شخصیت ہے۔ وہ ردو قبول کا آزادانہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ فطرت یا ضمیرکا کام انسان کو صرف الارم دینا ہے۔ یہ فطری الارم اپنے صحیح وقت پر بجتا ہے، اور انسان یقینی طور پر اس کو سنتا ہے۔ اب یہ انسان کا اپنا چوائس (choice) ہے کہ وہ فطرت کی آواز کو سنے یا اس کا انکار کردے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ (
جنت اور جہنم کا معاملہ بھی انھیں دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے جو ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود رہتا ہے۔ انسان اگر اس نظام کی پیروی کرے تو وہ ہمیشہ درست راستے پر چلے گا۔ وہ کبھی ڈی ریل (derail)ہوکر غلط راستہ اختیار نہیں کرے گا۔اس نظام کو ایک اعتبار سے داخلی اصلاح کا نظام (system of internal correction) کہا جاسکتا ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت ت
اس دنیا میں آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اگر چہ اس کو شروع کرنے والا وہ خود ہوتا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ فطرت کا نظام بھی اس کے ساتھ موافقت کرے۔ فطرت کے نظام کی موافقت حاصل کیے بغیر، یہاں کوئی کام کبھی تکمیل کو پہنچنے والا نہیں۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تدریج کے اصول پر عمل کرتی ہے۔ وہ واقعات کو اچانک ظہور میں نہیں لاتی۔ اب انسان اگر فوراً اور جلد نتیجہ نکالنا چاہے تو وہ عملاً ممکن نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان کی رفتار تیز ہوگی اور فطرت کی رفتار تدریجی قاعدے کی بنا پر سُست۔ ایسی حالت میں آدمی کو اپنے کام میں فطرت کی موافقت حاصل نہ ہوگی۔ اس کا کام بننے کے بجائے صرف بگڑ کر رہ جائے گا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے، سب سے پہلے وہ فطرت کے نظام کا مطالعہ کرے۔ اس کے بارے میں وہ فطرت کے اصول کو معلوم کرے۔ اور پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔
کامیابی اورناکامی دونوں کا معاملہ فطرت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس دنیا میں فطرت سے مطابقت کرنے کا نام کامیابی ہے، اور فطرت کے خلاف چلنے کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے فطرت کے نظام کو سمجھے اور اُس کے بعد اُس کے مطابق، وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (
اس آیت میں بظاہر قتال کا ذکر ہے۔ لیکن وسیع تر معنی میں اس سے مراد ہر قسم کی دینی جدوجہد ہے۔ وسیع تر معنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی مشن کے لیے اس طرح متحد ہوکر کوشش کرنا کہ آپ کا اختلاف ہرگز اس متحدہ جدو جہد کے لیے رکاوٹ نہ بنے۔
اجتماعی زندگی میں اختلاف کا پیش آنا، ایک فطری امر ہے۔ کوئی بھی اجتماعی معاملہ ہو، اس میں افراد کے درمیان اختلاف کی صورتیں ضرور پیش آتی ہیں۔ لیکن اہلِ ایمان ذہنی ارتقا کے اس درجے پر ہوتے ہیںکہ وہ ہر اختلاف کو مینج کرلیتے ہیں۔ وہ اختلاف کو کسی بھی حال میں دین کی اجتماعی جدو جہد کے لیے رکاوٹ بننے نہیں دیتے۔ اس کی ایک مثال دو صحابی کا یہ واقعہ ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ:کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَبَیْنَ سَعْدٍ کَلَامٌ، قَالَ:فَتَنَاوَلَ رَجُلٌ خَالِدًا عِنْدَ سَعْدٍ، قَالَ:فَقَالَ سَعْدٌ:مَہْ، فَإِنَّ مَا بَیْنَنَا لَمْ یَبْلُغْ دِینَنَا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 3810)۔ یعنی طارق بن شہاب روایت کرتے ہیں کہ خالد بن الولید اور سعد بن ابی وقاص کے درمیان کچھ تکرار ہوگئی۔ اس کے بعد ایک آدمی نے سعد کے پاس خالد کا بُرا ذکر کیا ، تو سعد نے کہا: دور ہوجاؤ، ہمارے درمیان جو کچھ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔
اسی اجتماعی اسپرٹ کا نام اختلاف کے باوجود متحد ہونا ہے۔ اس طرح کا کردار مینج کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی دو واقعے کو ایک دوسرے سے الگ رکھے، ذاتی اختلاف کا معاملہ الگ، اور مشن کے لیے اتحاد کا معاملہ الگ۔ جو لوگ اس اسپرٹ کے حامل ہوں، ان کا اتحاد کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ لیکن صرف کتابی مطالعہ کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ قاری کی حیثیت ایک تیار ذہن (prepared mind) کی ہو۔ ایسا ہی قاری کتابوں کے مطالعے سے پورا فائدہ حاصل کرسکتاہے۔
مثلاً ابو بکر احمد بن مروان الدینوری المالکی (المتوفى
صحابہ کرام کی یہ صفت بلاشبہ بہت اہم ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا کریں کہ اس بات کو کتاب میں پڑھیں، اور اس کو ایسا ہی لے لیں، جیسا کہ وہ نقل ہوئی ہے، تو آپ اس سے صرف یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رزق کے حصول کا افضل طریقہ یہ ہے کہ آدمی تجارت کے ذریعے کمائی کرے۔ مگر یہ مطالعے کا کمتر طریقہ ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ اتنا وسیع ہو کہ آپ صحابہ کے بارے میں یہ جانتے ہوں کہ صحابہ آج کل کی اصطلاح میں مین آف مشن (man of mission) تھے۔ پیغمبر ِ اسلام پورے معنوں میں مین آف مشن تھے، اور پیغمبر اسلام کی تعلیم کی بنا پر ہر صحابی عملاً مین آف مشن بنا ہوا تھا۔
اگر آپ اس حقیقت کو جانتے ہوں، تو آپ اقتباس کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکالیں گے کہ رسول اللہ کی دعوت کا طریقہ یہ تھا کہ ہر مومن کو تعلیم و تربیت کے ذریعے پورے معنی میں مین آف مشن بنا دیا جائے، تاکہ آدمی جس فیلڈ میں بھی ہو، وہ مین آف مشن کی طرح زندگی گزارے۔ وہ ہر حال میں بامقصد انسا ن کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہی ہے جس نے تمہارے اوپر کتاب اتاری۔ اس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ پس جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں فتنہ کی تلاش میں اور اس کے مطلب کی تلاش میں۔ حالاں کہ ان کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور جو لوگ راسخ علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں (آل عمران،
اس آیت میں متشابہ کا مطلب مشتبہ نہیں ہے۔ بلکہ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے۔ یعنی کچھ آیتیں جو امور ِغیب سے تعلق رکھتی ہیں، وہ فطری طور پر تمثیل کی زبان میں ہیں۔ جو لوگ زیادہ گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، وہ اس حقیقت کو جان لیتے ہیں کہ اس قسم کی آیتیں تمثیل (symbolism) کی زبان میں ہیں۔ انھیں ان آیتوں کے بارے میں شبہ واقع نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح محکم آٰیتوں کا مفہوم غیر مشتبہ طور پر سمجھ لیتے ہیں، اسی طرح ان آیتو ں کا مفہوم بھی سمجھ لیتے ہیں، جو تمثیل کی زبان میں آئی ہیں۔
رسوخ کا لفظ یہاں نتیجہ کے اعتبار سے ہے،نہ کہ طریقہ کے اعتبار سے ۔ یعنی یہ کہ زیادہ مطالعہ اور گہرے غور وفکر کی بنا پر ایک شخص شبہات سے بلند ہوجائے۔ وہ کنفیوزن (confusion)میں نہ رہے، بلکہ فکری وضوح (intellectual clarity) کا درجہ پالے— اسی کا نام رسوخ فی العلم ہے۔ رسوخ فی العلم کوئی پیدائشی صفت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جس کو اپنے حالات کے اعتبار سےیہ موقع ملے کہ وہ موضوع کا گہرا مطالعہ کرے، وہ زیادہ غور و فکر کےساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ایسا آدمی کنفیوزن سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ یقین کے درجے میں وضوح (clarity) کے ساتھ مذکورہ بات کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر انسان کو پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کودریافت(discover) کرے۔ یہ کسی آدمی کے لیے اس کی زندگی کی ابتدا ہے۔ اگر آپ سیلف ڈسکوری کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی چوائس لے لیں۔ تو ایسےچوائس کے لیے مقدر ہے کہ وہ آپ کو غیر مطلوب انجام کی طرف لے جائے ۔ اس منفی ریزلٹ کے بعد آپ چاہیں گے کہ آپ سیکنڈ چوائس لیں ۔ لیکن سیکنڈ چوائس آپ کو دوسری ناکامی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اس سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ وہ ہے کہ آپ ریلسٹک اپروچ کو اختیار کریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آئڈیلزم ہمیشہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے ، جب کہ پریگمیٹک اپروچ کامیابی کی طرف۔ لیکن یہ آئیڈیل ٹرم میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ پریگمیٹزم کے سنس میں ہوتا ہے۔
جب آپ کوئی کام شروع کریں اور اس میں آپ کامیاب نہ ہوں، تو کبھی یہ غلطی نہ کیجیے کہ اپنی ناکامی کا الزام آپ دوسروں کو دینے لگیں۔ ناکامی جب بھی ہوتی ہے، آپ کی اپنی کسی کوتاہی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی کوتا ہی کو دریافت کرلیں تو آپ کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری پلاننگ (replanning) زیادہ صحیح بنیادوں پر کریں، اور اس طرح پہلی بار کی ہار کو دوسری بار جیت میں تبدیل کرلیں۔
اپنی غلطی کا ذمہ دار دوسروں کا قرار دینا، ایک بے فائدہ کام ہے۔ اس کے برعکس، جب آپ اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں تو یہ کوشش آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ آپ دوسری بار اپنے کام کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکیں۔ جو آدمی آپ کی ناکامی کا الزام کسی دوسرے شخص کو دے ، وہ آپ کا دشمن ہے۔ ایسا آدمی آپ کو اس قابل بننے سے روکتا ہے کہ آپ اپنی غلطی کی اصلاح کریں، آئندہ اپنی غلطیوں کو دہرانے سے بچیں۔ اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دینا صرف وقت کا ضیاع ہے۔ بزدل آدمی اپنی غلطی کا الزام دوسروں کو دیتا ہے، اور بہادر آدمی اپنی غلطی کو مان کر اپنے آپ کوزیادہ صحیح پلاننگ کے قابل بنا لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنی غلطی کی صفائی پیش کرتے رہتے ہیں۔وہ کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلطی میری نہیں تھی، بلکہ دوسروں کی تھی۔ وہ غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائےہمیشہ غلطی کی توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلطی کے اعتراف کو وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں، اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو اپنی بڑائی۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنے کو سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بڑائی کو برقرار رکھا۔
مگر یہ دانش مندی کی بات نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو جانے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً یہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا(I was wrong)۔ غلطی کو نہ ماننا گویا غلطی کے اوپر قائم رہنا ہے، اور غلطی کو مان لینا یہ ہے کہ آدمی نے غلطی کرنے کے بعد فوراً اپنی اصلاح کرلی، اور اس طرح اپنے لیے شخصیت کے ارتقا (personality development) کے پراسس کو نان اسٹاپ (non stop) طور پر جاری رکھا۔
بڑی بات یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو بے خطا ثابت کریں۔ اگر آپ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں، تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ آپ جہاں پہلے تھے، وہیں اب بھی باقی رہیں گے۔ اس لیے زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے اندر اپنی غلطی کو ماننے کا مزاج ہو۔ آپ بے جھجھک یہ کہہ سکیں کہ میں غلطی پر تھا۔
اس مزاج کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ہمیشہ نئی بات سیکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا ارتقا (personality development) بلا رکاوٹ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ غلطی نہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جہاں کل تھے، وہیں آج بھی بر قرار ہیں۔ اس کے برعکس، غلطی ماننے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ کی ترقی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ آپ کے اندر لرننگ (learning)کے پراسس میں کبھی جمود نہ آئے گا۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ اسلام کے موضوع پر ایک کتاب لکھتے ہیں۔ اس کتاب میں آپ قلم کی پوری طاقت کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر دنیا میں حکومت الٰہیہ (Islamic State)قائم کی جائے۔ بعد کو آپ پر یہ واضح ہو کہ حکومت الٰہیہ یا اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے کا حکم سارے قرآن میں کہیں موجود نہیں ہے، یہ آپ کی ایک اختراع ہے۔ اس وقت آپ کے لیے دو آپشنس (options)ہیں۔ ایک یہ کہ آپ صاف لفظوں میں یہ کھلا اعلان کردیں کہ میں غلطی پر تھا، آپ اپنی کتاب میں تصحیح (correction)کرلیں،اور اس کے بعد دوبارہ اس قسم کی بات کہنا چھوڑ دیں۔ یہ درست طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو دو سری بات کا کریڈٹ مل جائے گا، یعنی توبہ کا کریڈٹ یا غلطی کے اعتراف کا کریڈٹ۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنی غلطی کا اعتراف نہ کریں۔ بلکہ غیر متعلق باتیں کرکے یہ ظاہر کریں کہ آپ نے پہلے جو کہا تھا، وہ درست تھا، وہ قرآن و سنت کے مطابق تھا، اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے بے بنیاد تاویلیں پیش کریں،تو یہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے۔ آپ کا یہ طریقہ آپ کی صفائی نہیں بنے گا، بلکہ آپ کی غلطی میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔
غلطی کو نہ ماننا، یا گھما پھرا کربات کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک غلطی پر دوسری غلطی کا اضافہ ہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ ایسا کریں، وہ لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کا دل خوفِ خدا سے خالی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ (accountable) نہیں سمجھتے۔ ان کا گما ن ہے کہ اگر وہ دنیا والوں کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کردیں تو آخرت میں بھی وہ بری الذمہ قرار پائیں گے ۔ یہ اللہ رب العالمین کو انڈر اسٹیمٹ (underestimate) کرنا ہے۔ غلطی کا اعتراف اللہ کے یہاں قابلِ قبول ہے، لیکن مذکورہ قسم کی روش اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ۔
واپس اوپر جائیں
ایک قول بطور حدیثِ رسول مختلف کتابوں میںنقل کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: اخْتِلَافُ أمتِی رَحْمَة (کنز العمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف ایک رحمت ہے۔ محدثین عام طور پر اس قول کوبے اصل ( لَا أصل لَہُ)مانتے ہیں(المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر
اختلاف (difference) فطرت کے قانون کے مطابق ایک مثبت ظاہرہ ہے۔ وہ کوئی غیر مطلوب ظاہرہ نہیں۔ اختلاف اگر سنجیدہ اختلاف ہو تو وہ ڈسکشن کا دروازہ کھولتا ہے۔ لوگ اس پر سنجیدہ اظہارِ رائے کرتے ہیں، جس سے زیر بحث مسئلے کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے مشہور امریکی رائٹر اور صحافی والٹر لپ مین (Walter Lippmann) نے نہایت درست طور پر کہا ہے کہ جہاں تمام لوگ یکساں طور پر سوچیں تو وہاں کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
Where all think alike, no one thinks very much
جب دو پتھر آپس میں ٹکرائیں تو اس سے ایک تیسری چیز ایمرج کرتی ہے، اور وہ چنگاری ہے۔ یہی حال انسان کا ہے۔ جب دو دماغ کسی اختلافی موضوع پر آپس میں گفتگو کریں تو اس سے ایک تیسرا خیال وجود میں آتا ہے، جو کہ دونوں کے ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بنتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک رحمت ہے۔ اختلاف کو اگر سنجیدگی کے ساتھ لیا جائےتو اس سے غور و فکر کا نیا دروازہ کھلتا ہے، معاملے کےنئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ البتہ اس کی یہ شرط ہے کہ گفتگو کو ہار جیت کے معنی میں نہ لیا جائے، بلکہ موضوع کی تحقیق کےمعنی میں لیا جائے۔بحث کے دونوں فریق اپنی ذات کو الگ کرکے زیرِ بحث مسئلے پر تبادلۂ خیال کریں۔
واپس اوپر جائیں
یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان کوئی نزاع ہو، تو معمولی بات پر وہ بھڑک اٹھتا ہے، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آخری حد تک پہنچنے سے پہلے وہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی نادانی ہے، جو پوری تاریخ میں ایک ہی انداز پرجاری رہی ہے، اور آج بھی جاری ہے۔ تجربہ بتاتا ہےکہ جب تک نزاع کی صورت پیدا نہ ہو، فریقین نارمل انسان نظر آتے ہیں۔ لیکن اختلاف کی صورت پیدا ہونے کے بعد اچانک دونوں فریق غیر نارمل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ نارمل انداز میں سوچیں، اور پرامن بات چیت سے نزاع کو ختم کرلیں۔
اس کا سبب یہ ہے کہ نزاع سے پہلے معاملہ عقل کے درمیان ہوتا ہے، لیکن نزاع شروع ہونے کے بعد عقل پس پشت چلی جاتی ہے،ا ور دونوں فریق ایگو کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔ پہلے اگر وہ نتیجہ کو سامنے رکھ کر سوچتے تھے، تو اب وہ جذبات کے زیر اثر سوچنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں بہترین تدبیر یہ ہے کہ معاملے کو عقل کی حد میں رکھا جائے، اس کو جذبات تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ اس معاملے میں فارمولا یہ ہے :
When one's ego is touched, it turns into super ego, and the result is breakdown.
اگر فریقین ٹھنڈے ذہن کے ساتھ نتیجہ کو لے کر سوچیں تو ان کو سمجھ میں آجائے گا کہ نزاع جاری رکھنے کا انجام دونوں کے حق میں برا نکلے گا۔ دونوں کے حق میں صرف نقصان آئے گا۔ دونوں میں سے کسی کو بھی کوئی فائدہ ملنے والا نہیں۔ معاملے پر عقلی انداز میں سوچنا، دونوں کو ایک ہی انجام تک پہنچاتا ہے۔وہ یہ کہ نزاع کا جاری رکھنا، کسی کے حق میں اچھا نہیں ۔ جب کہ نزاع کو پہلی فرصت میں ختم کرلینا، دونوں کے لیے مفید ہے۔ نزاع کا واحد حل صرف یہ ہے کہ نزاع کو پہلی فرصت میں بلاشرط ختم کردیا جائے ۔ اس حکمت کو ملحوظ رکھا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ جائے گا۔ یہ نزاع کے مسئلے کا سب سے زیادہ آسان حل ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک مین آف مشن تھے۔ آپ کی پوری زندگی مشن کی زندگی تھی۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو دعوت کا حکم دیتے ہوئے ایک بنیادی اصول یہ بتایا گیا: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (
اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ گندگی کو چھوڑ دو۔ یہاں رجز (گندگی ) سے وہی چیز مراد لی جائے جو آپ نے عملاً اختیار فرمائی ۔ وہ یہ کہ رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ جب آپ نے مکہ میں اپنا مشن شروع کیا تو وہاں کے لوگوں میں شرک کی برائی عام تھی۔ ایسی حالت میں ایک عام انسان یہ کرے گا کہ وہ سماجی طور پر پھیلی برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار کرے گا۔ مگر آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ تم صرف مثبت طریقے پر قائم رہو، اور ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرو۔
پیغمبر اسلام نے مکہ میں جو روش اختیار کی، وہ عمل یہی تھا۔ یعنی موجود برائی کے خلاف ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرنا، اور امن پر قائم رہتے ہوئے مثبت انداز میں توحید کی طرف لوگوں کو بلانا۔ قرآن کی یہ آیت (وَالرُّجْزَ فَاہْجُر) اسلامی مشن کا بنیادی اصول بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ ردعمل کی روش سے کامل طور پر دور رہنا، اور کامل طور پر امن اور خیر خواہی کی روش پر قائم رہتے ہوئے لوگوںکو حق کی طرف بلانا۔
بعض مفسرین نے وَالرُّجْزَ فَاہْجُر کی شرح یہ کی ہے کہ بتوں کی گندگی سے دور رہیے، جیسے اب تک دور ہیں۔ مگر یہ ایک غیر ضروری تکلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ رسول اللہ کے عمل کی بنیاد پر اس کی تفسیر کی جائے، اور وہ یہی ہے کہ بتوں کے معاملے میں رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ ان سے اعراض کرتے ہوئے مثبت انداز میں دعوت کا کام جاری رکھو۔
واپس اوپر جائیں
انسانی زندگی میں کسی بڑے انقلاب کا آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان کے اندر کوئی بریک تھرو (breakthrough) کا واقعہ پیش آئے۔ کوئی ایسا واقعہ جو انسان کے اندر وہ نفسیاتی بھونچال پیدا کرے جس کو برین اسٹارمنگ (brainstorming)کہا جاتاہے۔ ایسا واقعہ جو انسان کی پوری شخصیت کو ہلادے۔
اصل یہ ہے کہ عام حالت میں انسان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند رہتی ہیں۔ اس بنا پر اس کی تمام صلاحیتیں بالقوۃ حالت میں پڑی رہتی ہیں، ان کو بالفعل بنانے کے لیے ایک انقلابی حرکت درکار ہے۔ اس انقلابی حرکت کا نقطہ آغاز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اعترافِ خطا۔ یعنی یہ کہہ سکنے کی ہمت کہ میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
یہ اعترافِ خطا جتنا زیادہ شدید ہوگا، اتنا ہی زیادہ بڑا نقلاب آدمی کی شخصیت میں آئے گا۔ اس اعترافِ خطا کے اعلی درجہ کو قرآن میں توبۂ نصوح (التحریم
انسان عزت نفس (self respect) کے نام پر اکثر یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے۔ اس کو عام طور پر لوگ عزتِ نفس کہتے ہیں۔ عزتِ نفس سے آدمی کو فرضی تسکین تو مل سکتی ہے، مگر شخصیت کے ارتقا کا پراسس جاری نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
عام طو رپر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی گفتگو کی جائے، اور درمیان میں کوئی ایسی بات آجائے جو بظاہر صاحبِ گفتگو کے نقطۂ نظر کے خلاف ہو، تووہ فوراً اس کے دفاع میں بولنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ علمی گفتگو کا طریقہ نہیں۔علمی گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو درمیان میں کاٹے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں سنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گفتگو کا مقصد میوچول لرننگ (mutual learning) ہو، نہ کہ دوسرے کی بات کو کاٹنا، اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنا۔
گفتگو کا معیار (criterion) یہ ہونا چاہیے کہ دونوں فریق نے اپنے علم میں کیا اضافہ کیا۔ دونوں فریق نے کیا نئی بات سیکھی۔ دونوں فریق نے گفتگو کے موقع کو کس طرح ذہنی ارتقا (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔
دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کا مقصدمناظرہ (debate)نہیں ہوتا، بلکہ شخصیت کا ارتقا (personality development) ہوتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا جانتا ہے، وہی جاننے کی حد نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جاننے کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر گفتگو کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے ، جس سےاس کے علم میں اور اضافہ ہو، اس کی تخلیقی فکر (creative thinking) اور زیادہ ہوجائے۔
اس کے تجربات کی فہرست میں نئےآئٹم شامل ہوں۔ زندگی کی منصوبہ بندی (planning) کے لیے اس کا دائرہ (vista) اور وسیع ہوجائے۔ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ پہلے سے زیادہ پختہ انسان (mature person)بن کر ابھرے۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسرے کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرے۔وہ ماضی اور حال کے بارے میں زیادہ جاننے والا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کا رسول انسانوں کو اللہ کی کتاب دیتا ہے، جس میں اللہ کے قوانین درج ہیں، اور اسی کے ساتھ وہ انسان کوحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ حکمت کی تعلیم سے کیا چیز مراد ہے۔اصل یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم پر عمل کرنا،کوئی سادہ بات نہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا ایک میدان ہے، اور اس میں ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہے، بلا روک ٹوک اپنی مرضی کے مطابق انجام دے سکے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ دنیا میں دوسرے بہت سے انسان آباد ہیں۔ ہر ایک کے اپنے منصوبے ہیں، ہر ایک کا اپنا الگ الگ ایجنڈا ہے۔ ایسی حالت میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنائے۔ اگر لوگ ایسا نہ کریں تو سارے لوگ آپس میں لڑیں گے، اور کوئی بھی شخص اپنا کام درست طور پر انجام نہ دے سکے گا۔
ایسی حالت میں انسان کو اپنا کام انجام دینے کے لیے دانش مندانہ منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ اس دانش مندانہ منصوبے کو ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم کہا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کی ان آیات میں حکمت سے مراد عملی دانش مندی (practical wisdom) ہے۔ یعنی دوسروں سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنے منصوبے کو مکمل کرنا۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکہ میں جب آپ نے توحید کا مشن شروع کیا تو وہاں کی اکثر آبادی شرک پر قائم تھی۔ رسول اللہ کو یہ کرنا تھا کہ مشرکین سے ٹکراؤ کیے بغیر اپنا توحید کا منصوبہ پر امن انداز میں عمل میں لائیں۔ توحید کا اصول ایک مطلق اصول ہے۔ اس کے مقابلے میں توحیدکو زیر عمل لانا، دانش مندانہ منصوبے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹکراؤ کیے بغیر توحید کے منصوبے کو زیر عمل لانے کے لیے اس حکمت کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو پریکٹکل وزڈم کہاجاتاہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ ایک طرف توحید کے اصول لوگوں کو بتا تا ہے، اور دوسری طرف وہ پریکٹکل وزڈم یعنی اس کے اختیار کرنے کے عملی پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کیے بغیر توحید کے عامل بن سکیں۔
غور و تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں رسول کی نسبت سے جس چیز کو حکمت کہا گیا ہے۔ اس سے مراد یہی پریکٹکل وزڈم ہے۔ پیغمبر نے اپنی پوری زندگی میں اس پریکٹکل وزڈم کو اختیار کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو رسول اور اصحابِ رسول لڑائی اور ٹکراؤ کی تاریخ بناتے، نہ کہ توحید کی اشاعت کی تاریخ۔
مثال کے طور پر رسول اللہ نے مکہ میں توحید کا پیغام دینا شروع کیا تو آپ نے کعبہ سے اس کا آغاز کیا۔ اس وقت کعبہ میں سینکڑوں کی تعداد میںمشرکین نے اپنے بت رکھ دیے تھے۔ اگر آپ اپنے مشن کا آغاز بتوں کو کعبہ سے نکالنے سے شروع کرتے تو یقینا آپ کا مشرکین کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہوجاتا، اور کوئی مثبت کام انجام نہ پاتا۔ اسی طرح ہجرت کے وقت ایسا نہ ہوتا کہ آپ پرامن طور پر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے جاتے اورنہ ہی مدینہ میں اپنے مشن کی ری پلاننگ کرتے۔ اسی طرح حدیبیہ کے موقع پر ایسا نہ ہوتا کہ آپ کے اور مشرکین کے درمیان ناجنگ معاہدہ تشکیل پاتا، بلکہ دونوں فریق حدیبیہ کو جنگ کا میدان بنا لیتے، وغیرہ۔
پیغمبر کی نسبت سے حکمت کا لفظ سمجھنے کے لیے ہم کو یہ طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ پیغمبر نے عملاً اس حکمت کو مکہ اور مدینہ میں کس طرح اختیار کیا۔ اس معاملے میں رسول اللہ کا عملی نمونہ بتائے گا کہ وہ چیز کیا تھی، جس کو قرآن میں آپ کی نسبت سے حکمت کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس آیت کی تفسیر یہ بنتی ہے کہ الکتاب، رسول اللہ کی تعلیمات کو جاننے کا نظری ماخذ ہے، اور توحید کے مشن کو عرب میں جاری کرنے کے لیے آپ نے جو طریقہ کار اختیار فرمایا، وہ آپ کا عمل ہے،جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الکتاب سے مراد اسلام کی نظری تعلیم ہے، اور حکمت سے مراد اس کا عملی پہلو ہے۔ دوسرے لفظ میں حکمت سے مراد وہی چیز ہے ، جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کہا جاتا ہے۔ یعنی نظری تعلیم کو عمل کی صورت میں ڈھالنا۔
واپس اوپر جائیں
سقراط (Socrates )
سمجھدار (ذکی)انسان وہ ہے جو ذہنی اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ جو ذہنی ارتقا کے مراحل کو طے کرچکا ہو۔ ایسے آدمی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کی اخذ (grasp)کی طاقت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ باتوں کو سنتے ہی اس کے گہرے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ ظاہری معنی سے گزرکر بات کے گہرے پہلووں کو دریافت کرلیتا ہے ۔
کوئی آدمی سمجھدار کیسے بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا زیادہ سے زیادہ شائق بن جائے۔ اپنی کمیوں کو دریافت کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تعلم (learning) کی صفت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آدمی کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر دوسروں سے سیکھنے لگتا ہے۔ کسی قسم کی بڑائی کا جذبہ اس کے لیے ذہنی ترقی میں رکاوٹ نہیں رہتا۔ وہ اتنا زیادہ متلاشی (seeker) بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی وزڈم کی بات اس کے سامنے آتی ہے، تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیر فوراً اس کو قبول کرلیتا ہے۔
نفسیاتی رکاوٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ ذہن بن جائے کہ وہ جانتا ہے۔ یہ ذہن مزید سیکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے، جو اپنے’’نہیں‘‘ کو جانے۔ جو آدمی ’’نہیں‘‘ کو جانے گا، وہ گویا پیشگی طور پر وزڈم کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسا آدمی ہر ایک سے سیکھے گا، ایسا آدمی ہر تجربے کو پکڑے گا، ایسا آدمی ’’میں جانتا ہوں‘‘کی نفسیات سے پاک ہوگا۔ اس لیے وہ ہر وقت جاننے اور سیکھنے کے لیے تیار رہے گا۔
واپس اوپر جائیں
تجربہ (experience) ہمیشہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں، جو اپنے تجربے کو سبق بنا سکیں۔ تجربہ ہر انسان کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ ہوتا ہے۔ تجربہ انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔ لیکن عام طور پر لوگ تجربہ سے مثبت فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔ اس لیے کہ وہ تجربہ کو شکایت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب بھی کسی کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ صرف دوسرے کی غلطی کی بنا پر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایسے کسی واقعے میں دونوں فریق کا حصہ ہوتا ہے، کسی کا کم کسی کا زیادہ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جب کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اس کو یک طرفہ طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کو حذف کرکے سارے معاملے کو دوسرے کی غلطی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی تقریباًننانوے فیصد مثالوں (cases) میں پیش آتا ہے۔
مگر اس طرح یک طرفہ رائے قائم کرنا،قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اصحابِ رسول جیسے سارے لوگ ہوں، تب بھی ناخوش گوار واقعات میں کچھ نہ کچھ اپنا حصہ شامل رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ اس غزوہ میں اصحاب رسول کو ابتداءاً کامیابی ہوئی، لیکن بعد کو خود اپنی ایک غلطی سے سخت نقصان اٹھانا پڑا (آل عمران152-153:) ۔
تجربے کو سبق (lesson) بنائیے، تجربے کو شکایت(complaint) نہ بنائیے۔ تجربے کو سبق بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنی زندگی کے ایک منفی واقعہ کو مثبت واقعہ میں تبدیل کردیا، آدمی نے اپنے نقصان کو دوبارہ اپنے لیے فائدہ بنالیا۔ اس کے برعکس، جو لوگ تجربے کو شکایت اور نفرت کا ذریعہ بنا لیں، انھوں نے گویا نقصان کے بعد ملنے والے فائدہ سے بھی اپنے کو محروم کرلیا۔ انھوں نے پہلے موقع کو بھی کھویا، اور دوسرےموقع کو بھی کھو دیا۔
واپس اوپر جائیں
مثبت سوچ (positive thinking) کا مطلب کیا ہے۔ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جس میں شکایت اور احتجاج کے بجائے، مکمل طور پر حقیقت واقعہ کی بنا پر رائے قائم کی جائے۔ مثبت سوچ وہ ہے جو ہر قسم کے فخر اور تعصب سے خالی ہو۔ مثبت سوچ دوسرے الفاظ میں مبنی بر حقیقت سوچ کا نام ہے۔
مثبت سوچ کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ منفی سوچ سے منفی شخصیت بنتی ہے، اور مثبت سوچ سے مثبت شخصیت۔ مثبت سوچ فطرت کی آواز ہوتی ہے، اور منفی سوچ ابلیس کی آواز۔ مثبت سوچ انسان کو پاکیزہ شخصیت بناتی ہے، اور منفی سوچ اس کی شخصیت کو آلودہ شخصیت بنادیتی ہے۔ مثبت سوچ والے آدمی کو جنت میں بسانے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اور منفی سوچ والا آدمی ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلہ سے محروم رہے گا۔
منفی سوچ سے بچنا ، اور مثبت سوچ کا طریقہ اختیارکرنا، اتفاق سے نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیت آدمی کے اندر اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ باشعور ہو، جب وہ شعوری طور پر اپنے آپ کو ایسا بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی برابر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔
مثبت سوچ کا معاملہ، مثبت سوچ برائے مثبت سوچ نہیں ہے۔ یعنی مثبت سوچ بذاتِ خود اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ مثبت سوچ کا فائدہ یہ ہے کہ مثبت سوچ والا آدمی ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچ جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس مقصد کے لیے خالی ہوجاتا ہے کہ وہ صرف ضروری باتوں میں اپنے ذہن کو مشغول کرے، وہ غیر ضروری باتوں میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرے۔ مثبت سوچ آدمی کو بامقصد انسان بناتی ہے۔ مثبت سوچ آدمی کو ایسی مصروفیت سے بچاتی ہے جس کا کوئی فائدہ ، نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔
واپس اوپر جائیں
ایک بار میں لندن کی ایک سڑک پر چل رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دکان کے سامنے ایک بورڈ لگا ہوا ہے، اس بورڈ پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا، ٹیک اوے(takeaway)۔ ٹیک اوے کا لفظی مطلب ہے، لے کر جانا۔ پہلے یہ لفظ دکان کے لیے بولا جاتا تھا کہ آپ دکان پرجائیں، اور آپ وہاں اپنا مطلوب سامان مثلاً کھانے کا پیکٹ قیمت ادا کرکے لیں اور چلے جائیں۔ بعد کویہ لفظ عام ہوکر اِس مفہوم میں بولا جانے لگا کہ آپ کسی میٹنگ میں شرکت کریں، اور وہاں سے آپ کوئی آئڈیا یا نئی بات لے کر واپس آئیں:
A key fact, point, or idea to be remembered, typically one emerging from a discussion or meeting.
کوئی تقریر یا تحریر کامیاب تقریر یا تحریر اس وقت ہے، جب ایسا ہو کہ آپ اس تحریر کو پڑھیں یا کسی اجتماع میں اس تقریر کو سنیں، اوراس سے آپ کو کوئی کام کی بات یا کوئی مفید آئڈیا ملے، اور اس کو لے کر آپ واپس جائیں۔ تقریر یا تحریر کی کامیابی کا یہی معیار ہے۔ اگر اس کے برعکس معاملہ ہو، یعنی جس تقریر یا تحریر سے کوئی ایسی بات نہ ملے جو لے جانے کے قابل ہو ، تو آپ نے اپنا وقت ضائع کیا۔ آپ کا پڑھنا بھی بے فائدہ تھا، اور سننا بھی بے فائدہ ۔
مقرر ہو یا محرر ، دونوں کو چاہیے کہ وہ بولنے یا لکھنے سے پہلے اچھی طرح سوچے، اور کوئی ایسی بات متعین کرے، جو دوسروں کو دینے کے قابل ہو۔ پھر یہ بھی ہے کہ وہ بات آپ واضح انداز میں بیان کرسکیں۔ اگر ایسا ہو کہ آپ نے لکھا یا کہا تو اس سے پڑھنے یا سننے والے کو کوئی لے جانے کی بات نہیں ملی تو ایسا لکھنا بھی بیکار ہے، اور پڑھنا بھی بیکار ہے۔
کسی تقریر یا تحریر کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ اس میں پڑھنے یا سننے والے کے لیے حقیقی معنی میں کوئی ٹیک اوے ہو۔ پڑھنے یا سننے والے کو کوئی ایسی بات ملے ، جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کو زیادہ مفید بنا سکے، جو اس کے شخصی ارتقا میں مددگار ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں
اس دنیا میں انسان کے لیے بقدر ضرورت چیزیں رکھی گئی ہیں، نہ کہ بقدر اشتہا، تو انسان اس دنیا میں کس طرح خدا کا شکر گزار بن سکتا ہے۔(مولانا عبد الباسط عمری، قطر)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ موجودہ حالت میں انسان صرف بقدر ضرورت چیزوں کا تحمل کرسکتا ہے۔ بقدر اشتہا چیزوں کا تحمل انسا ن کے لیے موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ دنیا میں کسی انسان کے لیے بقدر اشتہا کا طالب ہونا، ایک غیر فطری بات ہے۔ وہ انسان کی فطرت کا حقیقی تقاضا نہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف موجودہ دنیا کے اپنے وقت کے سب سے زیادہ امیر آدمی امریکا کے مسٹر بل گیٹس (پیدائش1955 ) نے کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا— اگر تم ایک ملین ڈالر سے زیادہ حاصل کرلو، تب بھی تمھاری ضرورت ایک ہمبرگر ہی رہے گی۔
Once you get beyond a million dollars, it's still the same hamburger.
اس معاملے میں شکر گزاری یہ ہے کہ آپ اللہ کی اس رحمت کا اعتراف کریں کہ انسان کی جو حقیقی ضرورت تھی، وہ اللہ نے انسان کو عطا کیا۔ اگر اللہ ایساکرتا کہ انسان کو اس کی حقیقی ضرورت سے زائد دیتا تو ایسی حالت میں انسان کے اندر فساد پیدا ہوتا، نہ کہ شکر۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اس کی فطرت کے مطابق دیا، نہ کہ اس کی خواہش کے مطابق۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی اس حکمت کو دریافت کرے، اور اس صورتِ حال کو شکر کا مسئلہ بنائے، نہ کہ شکایت کا مسئلہ۔
بل گیٹس کی مثال بتاتی ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت آئی، تو اس نے پایا کہ اس کے بچے بگاڑ میں مبتلا ہوگئے۔ اس بنا پر بل گیٹس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ چیریٹی میں دے دیا، کیوں کہ اس نے دیکھا کہ ضرورت کے بقدر دولت انسا ن کواپنی حد پر رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر انسان کو ضرورت سے زیادہ دولت مل جائے، تو وہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
راقم الحروف کا ایک آرٹیکل نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا،
The Hawking Effect: Triumph of Human Spirit
یہ آرٹیکل برٹش سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کے بارے میں ہے، جس کی وفات
میرے آرٹیکل کے بارے میں یہ تبصرہ ایک غیر واقعی تبصرہ ہے۔ راقم الحروف کا یہ مضمون انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ کوئی بھی شخص مذکورہ عنوان کے تحت اس آرٹیکل کو پڑھ سکتا ہے۔ اس آرٹیکل کا کوئی تعلق اسٹیفن ہاکنگ کے ذاتی مدح یا ذم سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کے ایک پہلو کو سادہ طور پر بیان کیا گیاہے۔ اس پہلو میں دو قسم کے سبق موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ معذور شخص بھی ایک بڑا کام کرسکے، اور دوسر ایہ کہ کائنات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کائنات میں واحد کنٹرول کا نظام ہونا چاہیے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس پر کام کیا ہے، جس کو سنگل اسٹرنگ تھیَری کے نام سے جانا جاتا ہے، سنگل اسٹرنگ تھیَری باعتبار حقیقت توحید کی سائنسی تصدیق کے ہم معنی ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ سبق کے لیے کسی بھی چیز کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔ جہاں سبق کا پہلو ہو، وہاں بات کو مطلوب سبق (lesson) کے اعتبار سے دیکھا جائے گا، بات کا دوسرا پہلو وہاں حذف ہوجائے گا۔ اس اصول کو قرآن (البقرۃ،
واپس اوپر جائیں
مغرب کے سفر میں میری ملاقات ایک بڑے مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مغرب (West) کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا— اختلافِ رائے کو انسان کا ناقابل تنسیخ حق سمجھنا:
To accept dissent as an absolute human right.
مغربی اسکالر کے اس جواب کو سننے کے بعد میں نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں،مثلاً:
Dissent: The History of an American Idea, by Ralph Young
On Liberty, by John Stuart Mill
The Constitution of Liberty, by F. A. Hayek
اس موضوع پر اپنے مطالعے کے نتیجے میں میں اس رائے کی صداقت پر مطمئن ہوگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی تہذیب سے پہلے انسانی تاریخ میں اختلاف رائے کو انسانی حق (human right) کا درجہ حاصل نہ تھا۔ یہ صرف مغربی تہذیب کے بعد ہوا ہے کہ اختلاف رائے کو متفقہ طور پر ایک یونیورسل نارم کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اختلاف رائے کو ڈیسنٹ (dissent) کا نام دینا مغربی تہذیب کا ظاہرہ ہے۔ مغربی تہذیب سے پہلے یہ لفظ موجود نہ تھا۔ ڈیسنٹ ایک نیوٹرل لفظ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف کے لیے یہ ایک صحیح ترین لفظ ہے۔ مثبت اختلاف صرف اختلاف ہوتا ہے، وہ نہ موافق ہوتا ہے، اور نہ مخالف۔ میں سمجھتا ہوں کہ مثبت اختلاف اجتماعی ترقی کے لیے شرط لازم ہے۔
اختلاف اگر صرف اختلاف ہو تو وہ نہایت آسانی سے مخالفت کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور مخالفت صرف ایک منفی سرگرمی ہے۔ مخالفت کو مثبت سرگرمی بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو مثبت معنی دے دیا جائے۔ یعنی اختلاف کو ڈیسنٹ کا معنی قرار دینا۔ مثبت اختلافِ طرفین کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے، جب کہ منفی اختلاف کا دونوں میں سے کسی کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
میں ذاتی طور پر اختلاف رائے کو یہی درجہ دیتا ہوں۔ میں نے اپنے ذاتی تجربے سے یہ سمجھا ہے کہ اختلافِ رائے کو نہ ماننا خود اپنے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔ اس لیے کہ اختلاف رائے کے ذریعہ زیرِ بحث مسئلے کے مختلف پہلو کھلتے ہیں۔ اس کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کسی انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جو آدمی اختلاف رائے کو برداشت نہ کرے، وہ یقینی طور پر ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہوگیا، اوروہ نعمت ہے ذہنی ارتقا۔
کسی نے درست طور پر کہا ہے:من ھو ناصحک، خیر لک ممن ھو مادحک(جو شخص تمہیں نصیحت کرے، وہ اس سے بہتر ہے جو تمھاری تعریف کرے )۔ جو آدمی حقیقت پسند ہو ، وہ یقیناً تنقید یا اختلاف رائے کو اپنے لیے ایک نعمت سمجھے گا۔ کیوں کہ تنقید اور اختلاف رائے ہمیشہ فکر کے نئے دروازے کھولنے والا ہے۔
تنقید یا اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا میرے نزدیک کوئی تقویٰ کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ خالص علمی بات ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)موجود ہے۔ سائنٹفک ٹمپر اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی کے اندر اعتراف ِحقیقت (acceptance of reality) کا مزاج ہو۔ جب آپ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ آپ آزادانہ سوچیں، اور آزادانہ رائے قائم کریں تو فطرت کے قانون کے مطابق آپ کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ دوسرے شخص کو بھی یکساں طور پر اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اختلاف رائے کو کھلے ذہن کے ساتھ سننا، گویا حقیقت ِواقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔ اسی اعتراف کا دوسرا نام سائنٹفک اسپرٹ ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭
اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں جوآدمی کو متواضع بناتی ہیں۔ ایک، سائنٹفک ذہن، دوسرے متقیانہ مزاج۔ سائنٹفک ذہن علم کی معرفت سے بنتا ہے اور متقیانہ ذہن خدا کی معرفت سے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مضمون نگار نے ہندستانی مسلمانوں پر ایک مقالہ شائع کیا ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:اس سے زیادہ بے عقلی کی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ(انڈیا میں) ’’مسلمان ترقی کررہے ہیں‘‘۔ ایسی بات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتی ہے جو ذہنی اور فکری طور پر مفلس ہوگیاہو یا غباوت کی بلند ترین چوٹی پر ہو (جولائی- اگست 2016) ۔اس پیراگراف میں جو جملے ہیں، وہ باعتبار گرامر درست ہیں۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ درست نہیں کہے جاسکتے۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو ترقی عطیے کی چیز نہیں۔ وہ ایک خود حاصل کردہ چیز کا نام ہے۔ اس دنیا میں ہر قسم کے مواقع پھیلے ہوئے ہیں۔ جو فرد یا گروہ ان مواقع کو پہچانے، اور ان کو درست طور پر استعمال کرے، وہ ترقی کرے گا، اور جو فرد یا گروہ ان مواقع کو نہ پہچانے، اور درست منصوبہ کے ذریعہ ان کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، وہ ترقی سے محروم رہے گا۔
فطرت کے قانون کےمطابق، اس دنیا کا اصول یہ ہے کہ جیسا بونا ویسا کاٹنا۔ اصل یہ ہے کہ ترقی کرنا، انسان کا اپنا کام ہے۔دوسراانسان اس کو نہ تو ترقی دے سکتا، اور نہ ترقی سے محروم کرسکتا۔موجودہ زمانے میں ایک نیا دور آیا ہے، اس کو ترقی کا انفجار کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ترقی کے مواقع اتنے زیادہ کھل چکے ہیں کہ کوئی شخص ترقی سے محروم نہیں رہ سکتا، الا یہ کہ وہ ترقی کرنا نہ چاہتا ہو۔ موجودہ زمانہ ایک مختلف زمانہ ہے۔ اس زمانے میں اجارہ داری (monopoly) کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ اب آزادی کا دور ہے، نہ کہ اجارہ داری کا دور۔
ایک دن ایک صاحب مجھ سےملنے کے لیے آئے، وہ میرے گاؤں کے رہنے والے تھے۔ میں ان سے پوچھا کہ دہلی میں کیسے آنا ہوا۔ انھوں نے کہا کہ میرا پوتا انگلینڈ جارہا ہے، اس کو پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ اس طرح کے تجربے مجھے بار بار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک آدمی جس کے پاس پہلے کوئی روزگار نہیں تھا۔ اب وہ روزگار کے نئے طریقوں کو حاصل کرکے ترقی کر رہا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
تنقید اگر ثابت شدہ مثال کے ساتھ ہو، تو وہ علمی تنقید ہے۔ اس کے برعکس، اگر تنقید ثابت شدہ مثال کے بغیر ہو، تو وہ ایک الزام (allegation) ہے۔ علمی تنقید ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ کسی شخص کے اوپر ایک با اصول تنقید کرے۔ لیکن ثابت شدہ مثال کے بغیر کسی کے اوپر تنقید کرنا، تنقیص ہے، جو کہ ایک ناقابلِ قبول فعل ہے۔ اس قسم کی تنقید کا فائدہ نہ ناقد کو ملتا ہے، اور نہ زیرِ تنقید شخص کو۔
جائز تنقید ایک صحت مند علمی سرگرمی ہے۔ صحت مند تنقید وہ ہے، جو ثابت شدہ مثال کی بنیاد پر کی گئی ہو۔ ایسی تنقید ہر اعتبار سے مفید ہے۔ اس کے برعکس، غیر صحت مند تنقید جس میں کسی ثابت شدہ مثال کا حوالہ موجو دنہ ہو، وہ ایک علمی فساد ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
مثلاً اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص کا کوئی کنٹری بیوشن علم کی دنیا میں نہیں ہے۔ تو یہ تنقید صرف اس وقت درست قرار پائے گی، جب کہ اس میں ثابت شدہ مثال کا حوالہ دیا گیا ہو۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر کی ہوئی تنقید بے بنیاد الزام (false allegation)کے سوا او ر کچھ نہیں۔ ایسی تنقید مفسدانہ علمی سرگرمی کے برابر ہے۔ لیکن اگر اس میں ثابت شدہ مثال دی گئی ہو، تو بلاشبہ وہ ایک صحت مندعلمی سرگرمی ہے، اور صحت مند علمی سرگرمی نہایت ضروری ہے۔ صحت مند علمی سرگرمی لوگوں کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچاتی ہے۔
تنقید کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دعوی کے مطابق، ثابت شدہ مثال دے کر اس کا علمی تجزیہ کیا جائے۔ اس قسم کا علمی تجزیہ صحت مند علمی سرگرمی کو بڑھاتا ہے۔ وہ صحت مند علمی سرگرمی کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ صحت مند تنقید اگر مذہب کے میدان میں ہو تو اس سے لوگوں کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح اگر اس قسم کی تنقید سیکولر میدان میں ہو تو اس سے علم کے میدان میںترقی ہوگی۔
﴿ تعلیم کی اصل اہمیت یہ ہے کہ تعلیم آدمی کو باشعور بناتی ہے﴾
واپس اوپر جائیں
امت کی بیداری ایک عام موضوع ہے، جس پر تمام لوگ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ اگر ان تحریروں اور تقریروں کو یکجا کیا جائے تو غالباً سب کا خلاصہ ایک ہوگا، اور وہ ہے امت کو جوش دلا کر عمل پر ابھارنا۔ مثلاً امیر شکیب ارسلان کی کتاب لماذا تأخر المسلمون ولماذا تقدم غیرہم (1939ء)، کا موضوع مسلمانوں میں بیداری لانا ہے۔ مگر پوری کتاب جوش دلانے کے انداز میں لکھی گئی ہے، اس میں کوئی ریشنل پوائنٹ نہیں ہے۔ صرف جوش دلا کر ابھارنے کا انداز ہے۔ اسی طرح اقبال کا کلام مسلمانوں کو جوش دلانے کے انداز میں ہے۔ مثلاً ان کا نمائندہ ایک شعر یہ ہے:
نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
یعنی اگر ذوق نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنے گیت کوتیز کردے۔ اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حْدی خواں اپنی لَے اور تیز کردیتے ہیں۔
ایک امت جب اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو جذباتی شعلہ بیانی کا کوئی کام نہیں رہتا ۔ اس وقت کرنےکا کام یہ ہوتا ہے کہ افراد کو ذہنی غذا دی جائے۔ افراد کو عروج و زوال کے قوانین بتائے جائیں۔ اس معاملےمیں قرآن کی دو رہنما آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں۔ اور اس حق کے آگے جو نازل ہوچکا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ کے بہت سے اصحاب کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ اسلام سے پہلے وہ ایک مختلف انسان تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بالکل دوسرےانسان بن گئے۔ مثلاً پہلے سخت تھے، تو اب نرم ہوگئے۔ پہلے ان کے اندر نفرت کا جذبہ تھا، تو اب وہ انسان سے محبت کرنے والے بن گئے، وغیرہ۔
صحابہ کے اندر یہ تبدیلی کسی کرامت کی بنا پر نہیں ہوئی، بلکہ معلوم سبب سے ہوئی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے دلوں میں اللہ کا ڈر پیدا ہوگیا۔ پہلے وہ بے فکری کی زندگی گزارتے تھے، اب وہ آخرت کو سوچ کر فکر مند زندگی گزارنے لگے، وغیرہ۔ ان چیزوں کے نتیجے میں ان کے اندر نئی سوچ جاگی۔ وہ آخرت کی جواب دہی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ان کے اندر جنت کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس طرح ان کے اندر ایک نیا فکری عمل (thinking process) جاری ہوگیا۔ اس فکری عمل کے نتیجے میں دھیرے دھیرے ان کی سوچ بدلی۔ سوچ کی اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ تبدیلی آئی، جس کو اب ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔
اس طرح کی تبدیلی کسی کرامت کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوتی۔ بلکہ وہ فکری انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ انسان پہلے ذہن کی سطح پر بدلتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اخلاق اور کردار میں تبدیلی آتی ہے۔ آدمی کی فکر میں اگر تبدیلی نہ آئے، تو اس کے اندر عمل کے اعتبار سے تبدیلی بھی نہیں آئے گی۔ آدمی پہلے شعور کی سطح پر بدلتا ہے، اس کے بعد وہ عمل کی سطح پرایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش پراسس (silent process) ہے، جو ہر اس انسان کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے، جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرے۔
ایسے لوگوں کا کیس یہ تھا کہ پہلے وہ بے خبری کی زندگی گزار رہے تھے۔ بعد کو جب انھیں حقیقت کی دریافت ہوئی، تو ان کا ذہن جاگ اٹھا۔ وہ اپنے ماضی اور مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ وہ اپنے بارے میں یہ سوچنے لگے کہ انھوں نے زندگی میں کیا کھویا، اور کیا پایا۔ انھوںنے اپنا محاسبہ شروع کردیا۔وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے حال اور اپنے مستقبل پر غور کرنے لگے۔ وہ زیادہ بے لاگ انداز میں اپنا جائزہ لینے لگے۔ اس سوچ نے ان کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا کردیا۔ ان کے اندر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اگرچہ انھوں نے اپنے ماضی کو کھویا ہے، لیکن مستقبل اب بھی ان کے پاس ہے۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ درست پلاننگ کے ذریعے اپنے مستقبل کو بچائیں۔ پیچھے کی بربادی کی تلافی آگے کی نتیجہ خیز پلاننگ کے ذریعے کریں۔ یہی فکر تھی، جس نے ان کو ایک نیا انسان بنا دیا۔
صحابہ تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ ہیں۔ یہ نمونہ وہ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ مقدس تھے۔ بلکہ وہ اس لیے نمونہ ہیں کہ انھوں نے اپنے زندگی کی نئی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے اپنی کمی کو دریافت کیا، انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اور درست منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭ ٭
خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ مال کی محبت میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے، اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔
واپس اوپر جائیں
ذہن دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک، علمی ذہن، اور دوسرا وہ جس کو شخصیت پرستی (personality cult) کا ذہن کہا جاتا ہے۔علمی ذہن وہ ہے جس میں ساری گفتگو علم کی بنیاد پر کی جائے۔ جس میں فیصلے کی بنیاد صرف مسلمہ علم ہو، نہ کہ کوئی اور چیز۔ جس میں مسلمہ علم کی بنیاد پر کوئی چیز قبول کی جائے، اور مسلمہ علم کی بنیاد پر کسی چیز کو ردّ کردیا جائے۔
جہاں علمی ذہن ہو، وہاں ہمیشہ ذہنی ترقی کا سفربرابر جاری رہتا ہے۔ وہاں ترقی کا سفر کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوگا۔ یہ مزاج کیا ہے، اس کو برطانوی رائٹر اور نقاد برنارڈ شا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— میرا قد شیکسپیئر سے چھوٹا ہے، لیکن میں شیکسپیئر کے کندھے پر کھڑا ہوا ہوں:
Shakepear is a far taller man than I am, but I stand on his shoulders. (The Oxford Companion to Shakespeare, Shaw, George Bernard, p.
اس کے برعکس، شخصیت پرستی کا معاملہ ہے۔ شخصیت پرستی ہمیشہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا کرتی ہے۔ جہاں شخصیت پرستی ہو، وہاں لوگوں کے اندروہ سوچ پیدا ہوگی ، جس کو ایک قدیم جاہلی شاعر، عنترہ بن شداد نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ہَل غادَرَ الشُعَراءُ مِن مُتَرَدَّمِ
کیا شعرا نے کوئی پیوند لگانے کی کوئی جگہ چھوڑی ہے۔ شعرا سے مراد ان کے نزدیک بڑےشاعر تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عرب کے بڑے شعرا نے سب کچھ کہہ دیا ہے، اب کوئی چیز کہنے کے لیے باقی نہیں رہی۔ پرسنالٹی کلٹ کیا ہے۔ کسی مشہور شخصیت کے بارے میں غلو آمیز انداز میں تعریف یا اس سے وابستگی:
Personality cult is excessive public admiration for or devotion to a famous person.
واپس اوپر جائیں
جب اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کی وفات (
فما کان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
قیس کی وفات ایک شخص کی وفات نہیں تھی، بلکہ اس کی وفات سے ایک پوری قوم کی بنیاد ہل گئی۔یہ سن کر الولید بن عبدالملک اموی نے کہا، چپ ہو جاؤ، کیوں کہ تم شیطان کی زبان سے بول رہے ہو (فإنک تتکلم بلسان شیطان)۔ تم نے یہ کیوں نہیں کہا جو اوس بن حجر نےکہا تھا:
إذا مقرم منا ذرا حد نابہ تخمط منا ناب آخر مقرم
جب ہم میں سے ایک سردار ہلاک ہوجاتا ہے، تواس کی جگہ دوسرا سردار آجاتا ہے۔ (الکامل فی التاریخ، بیروت، 1997، 3/532)۔ اسی بات کو ایک اور شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
إذا مات منا سید قام بعدہ لہ خلف یکفی السیادة بارع
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں افراد کے لیےبڑے بڑے القاب کا طریقہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ اگر ایک شخص کو قائد اکبر کا خطاب دے دیں تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ قائد اکبر تو وہی ایک آدمی تھا، اس کے مرنے کے بعد جو لوگ ہیں، سب قائد اصغر ہیں۔ اسی طرح آپ اپنے ایک شخص کو مفکرِ اعظم کا ٹائٹل دے دیں، تو شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنے گا کہ مفکر اعظم تو ایک ہی تھا، اس کے بعد جو لوگ ہیں، وہ سب مفکر اصغر ہیں۔
اسلام میں اخلاقی احترام ہے، اسلام میں شخصی عظمت کا تصور نہیں ۔ اسلام میں ایک دوسرے کی خیرخواہی کا تصور ہے، لیکن یہ تصور اسلام میں نہیں ہےکہ کسی ایک شخص کو اکبر اور اعظم جیسا ٹائٹل دیا جائے ۔ کیوں کہ اس سے شخصیت پرستی کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی کے معاملے میں اصولی بات یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ دراصل ری ایکشن کا طریقہ ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ کبھی بھی کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمیشہ ایک ری ایکشن کے بعد دوسرا ری ایکشن پیدا ہوتا ہے، اور اس طریق کار کے نتیجہ میں جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ چین ری ایکشن (chain reaction)ہے، نہ کہ ری ایکشن کا خاتمہ۔ قدیم زمانے میں ٹرائبل ایج میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لوگ برابر لڑتے رہتے تھے۔ اسلام نے یہ کیا کہ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرکے چین ری ایکشن کو ختم کردیا۔ اس کے بعد دنیا میں امن کا دور آیا۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا(
لوگ اکثر اپنے حریف کی شکایت کرتے ہیں۔ لیکن غور کیجیے تو یہ ظلم نہیں ہوتا، بلکہ وہ چین ری ایکشن کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے حریف کو پتھر مارا، اس کے بعد اس نے آپ کو بم مارا۔ آپ نے دوبارہ حریف کے خلاف کوئی کارروائی کی، اس کے جواب میں اس نے بھی کوئی کارروائی کی۔ اس طرح ایک چین ری ایکشن شروع ہوگیا، جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
تشدد کا خاتمہ جوابی تشددسے نہیں ہوتا۔ تشدد کے خاتمہ کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ یک طرفہ طور پر تشدد کی کارروائی کرنا چھوڑدیں، آپ یک طرفہ طور پر خاموش ہوجائیں، آپ یک طرفہ طور پر امن کا طریقہ اختیار کرلیں۔
﴿ تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں﴾
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب جن کی تعلیم ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔
آج کی ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ یہ بات آپ نے ایک ڈائری میں لکھی اور وہ ڈائری مجھ کو دے دی۔ اسی وقت سے میںنے اس نصیحت کو پکڑلیا ہے۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی غلطی کو دریافت کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے سارے معاملات درست ہوگئے۔ گھر کے معاملات بھی، پڑوسیوں کے معاملات بھی، اور مسجد اور مدرسے کے معاملات بھی۔ پہلے میں برابر ٹینشن میں رہتا تھا، اب مجھے کوئی ٹینشن نہیں۔ کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ کسی سےکوئی جھگڑا نہیں۔ اب میں یہ کرتا ہوں کہ کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو میں خود ہی سوچ کر اس کو درست کرلیتا ہوں۔ اب سب لوگ مجھ سے خوش رہتے ہیں۔ جب کہ پہلے ہر شخص کو مجھ سے شکایت ہوتی تھی۔
یہ کرشمہ صرف ایک پر حکمت بات کا تھا ۔ وہ یہ کہ اس سے پہلے و ہ غلط تقابل (comparison)کا شکار تھے۔ اب انھوں نے احساس کمتری کے جملے کو بدل کر احساسِ غلطی بنا لیا۔ پہلے وہ دوسروں کے خلاف سوچا کرتے تھے، اب وہ اپنی اصلاح آپ کے انداز میں سوچنے لگے۔ بظاہر یہ ایک لفظ کا فرق تھا، لیکن یہ لفظ اتنا زیادہ پرحکمت تھا کہ اس نے ان کی پوری زندگی کو بدل دیا۔ ان کو منفی شخصیت (negative personality)سے نکال کر مثبت شخصیت (positive personality) بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں
جون30 اور یکم جولائی 2018 سی پی ایس ممبئی ٹیم کے زیر اہتمام ایک دعوتی سفر ہوا۔ اس سفر میں ناگپور، پونے، مالیگاؤں اور اورنگ آباد کے ممبران نے حصہ لیا۔اسی طرح چنئی سے مولانا حافظ سید اقبال احمد عمری اور گلبرگہ سے مولانا حافظ فیاض عمری صاحبان بھی شریک رہے ۔ اس سفر میں چوپڑا شہر کے مشنری اسکول اور ڈگری کالج میں لوگوں سے ملاقات اور انٹرایکشن ہوا۔ ان سے گفتگو انتہائی خوش گوار ماحول میں اور تفصیل سےہوئی۔اس کے بعد یکم جولائی کو جلگاؤں میں اقرا ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والے H G Thim کالج میں شہر کے مخصوص افراد اور ادارہ کے اسٹاف کے ساتھ دعوتی نشست رکھی گئی۔ اس کے بعد سوال جواب کا سیشن تھا۔ پروگرام نہایت کامیاب رہا۔ حاضرین نے جذباتی تاثرات پیش کئے۔ آخر میں تمام حضرات کو مراٹھی قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دئے گئے۔ دونوں جگہ الرسالہ کے قارئین پر مشتمل دعوتی ٹیم بھی تیار کی گئی ہیں۔
3 جولائی 2018کو مز شبنم پوپٹ(ساؤتھ افریقہ) نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے دہلی کا سفر کیا۔ انھوں نےصدر اسلامی مرکز کی کتابیں اور ترجمہ قرآن پڑھا ہے، اور اس سے متاثر ہو کر انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ کافی دیر تک صدر اسلامی مرکز سے ان کا انٹرایکشن ہوا۔ انھوں نے جب اپنے سچائی کی تلاش کا قصہ سنایا تو جذباتی ہوگئیں اور رونے لگیں۔ انھوں نے وزیٹر رجسٹر میںاپنا تاثر ان الفاظ میں نقل کیا:
Maulana's books have brought peace and guidance to me, I thank him deeply, His knowledge and guidance are extremely helpful.
ملیشیا کی موجودہ حکمراں جماعت کےٹریزرر مسٹر ہوسم موسى(Husam Musa) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے
ڈاکٹر رفیق انجم نے حال ہی میں اسلامک اسٹڈیز میں اپنی پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف کشمیر (سری نگر) سے پروفیسر نسیم احمد شا کی زیر نگرانی مکمل کی ہے۔ ان کی ریسرچ کا موضوع ’’ریلیجس تھاٹ آف مولانا وحید الدین خان— این اینالیٹکل اسٹڈی ‘‘تھا۔ انھوں نےصدر اسلامی مرکز کے نظریات اور ان کے مشن کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے، نیز موجودہ حالات میں دوسرے علماء اور اسکالرس کے مقابل صدر اسلامی مرکز کے نظریات کے ریلیونس پر روشنی ڈالی ہے۔
ذیل میں پاکستان میں موجود الرسالہ قارئین کے تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
v مجھے بہت غصہ آتا تھا۔اکثر مایوس بھی ہو جاتا تھا۔ 2012 میں مولانا کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا۔اس سے مجھے زندگی بسر کرنے کا ایک نیا ولولہ ملا۔خصوصاً فلسفہ اعراض (avoidance)نے مجھے کئی بار غلط فیصلوں سے بچایا ہے۔وقت کی قدر بھی مجھے مولانا کی تصانیف سے حاصل ہوئی۔ (فضل الرحمن، لاہور)
v اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا صاحب کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے جو تاثیر رکھی ہے وہ اب بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، مولانا صاحب کی ہر بات سائنس اور تجربے کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، ہر بات انسان کے احساسات اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے، جس سے سننے والے پر گہرا اثر پڑ تا ہے اورمثبت تحریک ملتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کو ہمیشہ صحت مند اور توانا رکھے آمین۔ (محمد فرحان، کراچی)
v مولانا صاحب کی تحریروں کا اثر ہے کہ اب میں عام طور پر بولنے سے پہلے سوچتا ہوں کہ کیا بولنا چاہیے، اور کتنا بولنا ہے۔ (ندیم خان، کراچی)
v مولانا کی تحریروں نے میری زندگی میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ ان میں سے چندیہ ہیں:(۱) وقت کو پہچان کر درست وقت پر درست اقدام کرنا۔وقت کی حقیقت۔ وقت کی طاقت۔ لہٰذا میں ہر طرح کے وقت کا شکر گزار بنتا جا رہا ہوں ۔ ( ۲) کائنات میں موجود اشیاء کی قیمت کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اب میں زیادہ قیمت کی چیز کی قیمت کم اور کم کی زیادہ قیمت نہیں لگاتا۔ (۳) سب سے بڑھ کر یہ سیکھا کہ ’’صبر‘‘ سب سے بڑی ’’تحریک‘‘ ہے۔ جزاک اللہ۔ (عادل درانی، ہری پور)
v مولانا صاحب سے میں نے یہ سیکھا کہ صبر بزدلی کا نام نہیں، صبر بہادری کا نام ہے،صبر ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ (ابوبکر، فیصل آباد)
v مولانا سے تعارف کامیرا رشتہ زیادہ پرانا نہیں ہے، بلکہ وہ تقریباً تین سالوں پہ محیط ہے، اور اس وقت میری لائبریری میںمولانا کی تقریباً بیس کتابیں موجود ہیں۔ان میں سے ایک اہم کتاب راز حیات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے کئی موٹی ویشنل (motivational)بکس کا مطالعہ کیا اور تقاریر بھی سنیں، مگر مولانا کا کام بے مثل ہے۔اس کتاب سے میرے اندر نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اس کتاب سے ایک سبق جو مجھے ملا ہے ، وہ یہ ہے کہ تصادم کی فضا کو چھوڑکر عمل اور امن کی راہ اختیار کرنا ہے۔اس کتاب کو ایک بارمکمل پڑھ لینے کے باوجود اسے روزانہ پڑھنا میرا معمول ہے۔ اب تک تقریباً سو سے زائد لوگوں کو اس کتاب کے پڑھنے پر آمادہ کرچکا ہوں۔ (عثمان غنی رعد، اردو ڈیپارٹمنٹ، نمل، اسلام آباد)
v پاکستان میں الیکشن سے پہلے میں سیاسی مباحثوں میں پڑ گیا تھا۔ ان مناظروں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر منفی توانائیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اُن دنوںمیں بہت ڈپریس رہا، اور اس کے اثرات الیکشن کے بعد بھی میرے ذہن پر نقش تھے۔ اب دوبارہ میں نے مولانا کی تحریریں پڑھنا شروع کر دی ہیں، اور میں واضح طور سے محسوس کر رہا ہوں کے میرے وجود اور میرے رویے سے مثبت توانائیاں پھر سے خارج ہونا شروع ہو گئیں ہیں۔ (محمد نوید، کے پی کے)
v مجھے مولانا سے صحیح فہم دین ملا ،اور عملی طور پر میرا کردار تعمیر ہوا،شخصیت سازی ہوئی۔ سوچنے، غور کرنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ یوں سمجھیے کہ مثبت و تعمیری سوچ پیدا ہوئی۔ ان سے میں نے صبر سیکھا، اور شکر سیکھ رہے ہیں۔ معرفت خدا وندی عطا ہوئی۔ خود آگہی ہوئی، اپنے آپ کی پہچان عطا ہوئی۔ دنیا پرستی سے گریز اور آخرت پرستی کے شوق نے جنم لیا۔ذوق مطالعہ پیدا ہوا۔ بہت سی چیزوں کے نئے مفہوم کا ادراک حاصل ہوا۔ بس تجربات اتنے زیادہ ہوئے کہ چند سطروں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ کبھی کہیں کوئی نشست جمی اور بیان کا موقع ملا تو ضرور اظہار خیال کروں گا۔(خواجہ مظہر نواز صدیقی کالم نگار روزنامہ نوائے وقت ملتان)
w I used to consider religion as more of an external change in society than an inner discovery. Maulana was the person who taught me that religious journey begins as a discovery by the mind and proceeds to the development of a purified personality. I never thought that complaining over oppression, injustice, discrimination and accusing others of evil in the world are negative aspects of thinking which deprive us of all virtues of positive thinking. After reading and listening to Maulana, I have tried to do away with negative thinking. Doing this I have realized that I am very calm. Earlier, I used to stick to a literal and technical interpretation of scriptures. Maulana taught me that we have to learn to read and understand scripture by understanding the nature of Man, and that there are seas of lessons in the Quran for someone prepared to contemplate. I used to think that meditation is the path to spirituality. Maulana taught me that contemplation is the path to spirituality. He is the one person who completely changed my worldview. (Mohammad Talha, Lahore)
w Recently, a traffic warden stopped me for not having driving license. Instead of getting angry, I went the next day to procure my license. I realized that I was driving without having permission from the state, although I am answerable to God in regard to following state rules. This major shift in my attitude came after listening to Maulana’s lectures. Second, I learned to practice avoidance of confrontation whenever there is a conflict of interest. Third, I learned that spirituality lies not in meditation or yoga, rather it is attained through observation and contemplation of things around us, for example, trees and their mechanism of growth, the variety of products yielded by the same soil. All this shows God’s greatness, which increases gratefulness and love for God. (Ansa Riaz, Islamabad)
رمضان کے موقع پر سی پی ایس پاکستان نے دعوت کے تعلق سے جو عہد اور پلاننگ کی تھی، وہ ہر ایک کے لیے اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی کوششیں کرے، اور خدا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کرے۔ انھوں نے جو پلاننگ اور عہد کیا تھا ، وہ یہ ہیں:
w Ramzan is the month of the Quran. In this month, we are launching a new initiative to take our mission to the next level towards fulfilling our core responsibility of continuing the Prophetic Mission, i.e., Dawah Work. We will be setting up a separate organization, or NGO, only for the purpose of Dawah work. Its task would be to educate people about Dawah work and its importance in current times and to engage in Quran distribution in Pakistan and around the world. We will be joining hands with CPS International and CPS USA to reach out to the world. Quran translations are already available in 27 languages. We need to engage people in Pakistan for Dawah work and will be using their connections in the world to disseminate the Quran all over the world. Last year, in Turkey alone 100,000 Quran copies were distributed in various languages. In India, CPS International is already doing Dawah in various states. In the US, Khaja Kaleemuddin Sb and Viqar Alam Sb are doing Quran distribution since past several years, but the demand is very high and we need more helping hands. I spoke to Dr. Saniyasnain Khan Sb from CPS International and he told me that he is receiving so many requests from all over the world that he needs to double the amount of printing and distribution. We learned through our experience at Book Fairs and interaction at various places that Dawah according to the Quranic concept is not well-known to people here and they are not familiar with this idea. We need to work here to explain the importance of Dawah work through literature and then engage people to participate in distributing Quran and supporting such activities. We have a very big plan in this regard — we will be connecting with people, building our offices in all cities, supporting the work of translation of the Quran in remaining languages, printing and distribution of copies of the Quran and providing support to all new Daees. We believe that Allah will make this enormous task easy for us, Inshallah. To start this work we need your full support. We will be requiring active members for this organization who will be involved in this work and we will also need people to support this initiative. We will be updating you with our work requirement and will need your guidance and support. The starting point is to finalize the name of the Organization. We recommend the following names: 1. Dawah International 2. Quran for Everyone 3. Quran for Peace. Please suggest more names (we will check the domain availability). Let us pray to Allah for guidance and for the success of this mission. Salaam (Tariq Badar, Coordinator, CPS Pakistan)
ہر ہفتہ صدر اسلامی مرکزکا تین تربیتی پروگرام ہواکرتا ہے۔ بروز سنیچر (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.