تاریخ بتاتی ہے کہ انسان پر ترقی کے دو دور گزرے ہیں۔ ایک وہ ترقی جو فطرت کے دائرے میں انسان کو حاصل ہوئی ۔ دوسری وہ ترقی جو بعد کو انسان نے فطرت کے اندر چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرکے حاصل کیا ۔ پہلے دور کو تخلیقِ اول (first creation)کا دور کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے دور کو تخلیقِ ثانی (second creation) کا دور کہنا درست ہوگا۔ یہ دونوں دورخود تخلیق کا حصہ ہیں۔ لیکن پہلادور اگر تخلیق کا براہ راست حصہ تھا، تو دوسرا دور تخلیق کا بالواسطہ حصہ ۔
تخلیق کے ان دونوں ادوار کا ذکر قرآن کی اس آیت میں آیا ہے: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (
And (He has created) horses, mules and donkeys so that you may ride them and that they may serve as means of adornment (for you) as well and He will create that you do not know.
اس آیت کےدو حصے ہیں۔ اس کے پہلے حصے میں تین فطری چیزوں کا ذکر ہے، گھوڑا، خچر، اور گدھا۔ان تینوں چیزوں کا ذکر یہاںعلامتی معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جب پیدا کیا تو ابتدائی دور میں اس کو ہر قسم کی سہولتیں فطرت کے دائرے میں عطا کی۔مثلاً سواری اور باربرداری کے لیے حیوانات، پانی کے لیے دریا اور چشمہ کا پانی، غذا کے لیے زمین کی فطری پیداوار، وغیرہ۔ یہ گویا تخلیقِ اول کا دور تھا۔ قرآن کی آیت کے مطابق، اسی کے ساتھ اللہ نے زمین کے اندر بہت سی اور چیزیں بالقوۃ (potential) طور پر رکھ دیں۔ اس کو آج کل کی زبان میں ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔ ٹکنالوجی زندگی کے تمام ترقیاتی سہولتوں کو کوَر (cover)کرتی ہے۔ مگر یہ ٹکنالوجی قانونِ فطرت کی شکل میں پوشیدہ طور پر ہماری دنیا میں موجود تھی۔ انسان کو اللہ نے عقل دی۔ عقل کے ذریعہ انسان نے فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرکے ان کو قابلِ استعمال بنایا۔ یہاں تک کہ ترقی کرتےکرتے ٹکنالوجیکل تہذیب (technological civilization) وجود میں آئی۔ اس ٹکنالوجیکل تہذیب کو تخلیق کا دوسرا دور یا تخلیقِ ثانی کہا جاسکتا ہے۔
اس ٹکنالوجیکل تہذیب میں بیک وقت دو پہلو شامل تھے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعےانسا ن کو نئی مادی سہولتیں حاصل ہوئیں۔ مثلاً گھوڑے کی جگہ سواری کے لیے موٹر کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ تخلیق ثانی کا ایک اور زیادہ اہم پہلو تھا۔ وہ یہ کہ اس کے ذریعے خدا کے دین پر عمل کرنا زیادہ وسیع تر دائرے میں ممکن ہوگیا۔ تہذیب کا یہ دوسرا پہلو وہ ہے،جس کو دورِ اول کے اہلِ ایمان کی ایک قرآنی دعا میں مستقبل کی زبان میں اس طرح بیان کیا گیا تھا: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا َ (
دین کے اعتبار سے تہذیبی ترقیوں کے دو پہلو تھے۔ ایک، نظریاتی پہلو اور دوسرا، عملی پہلو۔ نظریاتی پہلو یہ تھا کہ تہذیب کے دور میں جو سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ نئی قوت کے ساتھ اسلام کی علمی تصدیق بن رہی تھیں۔ تہذیب کے اس پہلو کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں پیشگی طور پر کیا گیا تھا: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (
قرآن اللہ کے دین کا مستند اعلان ہے۔ قرآن ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوا۔ قرآن میں دینِ خداوندی کے صداقت کے دلائل موجود تھے۔ مگر وہ بظاہر سادہ فطری اسلوب میں تھے۔ اللہ نے مادی دنیا کے اندر بہت سے امکانات قوانینِ فطرت (laws of nature) کی صورت میں پوشیدہ طور پر رکھ دیے تھے۔ مثلاً پانی کے اندر اسٹیم پاور، وغیرہ۔ اسی کے ساتھ انسان کو عقل دی، جس کے ذریعے وہ ان قوانین ِفطرت کو دریافت کرے، اور ان کو اپنے لیے استعمال کے قابل بنائے۔ ان قوانین کو دریافت کرکے ایک نئی تہذیب (civilization)کو وجود میں لانے کے لیے لمبی مدت درکار تھی۔ اس عمل پر تقریباً ہزار سال گزرگئے۔ یہ عمل مختلف مراحل کے ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ چیز وجود میں آئی جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔
حضرت نوح نے قدیم زمانےمیں جب ایک بڑی کشتی بنائی تو اس کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:فَأَوْحَیْنَا إِلَیْہِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (
تہذیب کی تشکیل کا یہ کام ایک بے حد تخلیقی کام ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ دوسری قوموں کو اس کی تعمیر و تشکیل میں شامل کیا جائے۔ اس واقعے کا ذکر پیشگی طور پر حدیث میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے : اللہ تعالی اسلام کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہلِ دین میں سے نہ ہوں گے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔
نبوت محمدی کا ظہور
پیغمبرِ اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اول میں ہوا۔ خدا کے منصوبہ کے مطابق، یہ ایک فرد (خاتم النبیین) کے ظہور کا معاملہ نہ تھا۔ بلکہ ایک نئے تاریخی دور کو پیدا کرنے کا معاملہ تھا۔ یہ انقلابی دور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے، بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں مکمل ہوا۔ اس انقلاب کے پہلے مرحلے میں جو رول مطلوب تھا، وہ زیادہ تر اہل ایمان کے ذریعے وجود میں آیا۔ وہ رول یہ تھا کہ اسلام کو سماجی اور سیاسی اعتبار سے استحکام (stability)حاصل ہوجائے، قرآن محفوظ ہوجائے، امتِ مسلمہ کی تشکیل عمل میں آجائے، علوم ِاسلامی کی تدوین وقوع میں آجائے، دینِ توحید کا تسلسل اسی طرح قائم ہوجائے جس طرح اس سے پہلے دینِ شرک کا تسلسل تاریخ میں قائم ہوگیا تھا، وغیرہ۔
اس سلسلے میں دوسرا کام جو مطلوب تھا، وہ دینِ اسلام کی عالمی اشاعت تھی۔ دینِ اسلام کی اس عالمی اشاعت کے لیے ابتدائی زمانےمیں حالات مساعد نہ تھے۔ تہذیب ِجدید نے بالواسطہ طور پر اس کام کو انجام دیا۔ تہذیبِ جدید کے ذریعے دنیا میں ایک طرف پرنٹنگ پریس اور مواصلاتی دور (age of communication) وجود میں آیا، دنیا میں مکمل معنوں میں مذہبی آزادی کا دور آیا، فطرت (nature)میں موافق اسلام چھپے ہوئے حقائق دریافت ہوئے اور عمومی طور پر وہ ہر ایک کی دسترس میں آگئے، دنیا میں پہلی بار کامل معنوں میں کھلاپن (openness) کا دور آیا، دنیا میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ ہر آدمی کے لیے مواقع (opportunities) کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ کہ آدمی تشدد (violence) سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ دنیا میں کمیو نی کیشن کا دور آیا، فاصلہ کا مسئلہ ختم ہوگیا۔ اور بعید مقام تک پیغام رسانی آخری حد تک آسان اور قابل عمل ہوگئی۔ یہ پہلو دعوت کے اعتبار سے بے حد اہم تھا۔ چنانچہ قرآن میں اس آنے والے انقلاب کی طرف پیشگی طور پر اشارہ کردیا گیا تھا۔ یہ اشارہ اس واقعہ کی صورت میں تھا جس کو قرآن میں اسراء (بنی اسرائیل،
مکی دور کے آخری زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا، جب کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پراسرار طور پر مکہ سے یروشلم لے جایا گیا۔ مکہ سے یروشلم اور پھر یروشلم سے مکہ واپس لایا گیا۔ یہ سفر دو طرفہ اعتبار سے تقریباً 4000 کلو میٹر کا سفر تھا۔قرآن میں اس سفر کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا (
اس سفر میں آپ کو جو نشانی (sign) دکھائی گئی وہ یروشلم کی کوئی چیز نہ تھی، بلکہ اس سے مراد وہی چیز تھی جس کو قرآن میں اسرا کہا گیا ہے۔ یعنی مکہ اور یروشلم کے درمیان تیز رفتار سفر۔ اس تیز رفتار سفر کا تجربہ اُس وقت آپ کو علامتی طور پر کرایا گیا ۔ اس کا مقصد پیشگی طور پر اُس واقعے کو بتانا تھا، جو آپ کے بعد تاریخ میں مواصلاتی دور (age of communication) کی صورت میں پیش آنے والا تھا۔ یہ مواصلاتی دور جو جدید تہذیب کے ذریعے دنیا میں آیا،وہ اسلام کے دعوتی مشن کے لیے ایک بہت بڑا موافق پہلو تھا۔ اس انقلاب نے عملی طور پر اس بات کو ممکن بنادیا کہ اسلام کا پیغام تیز رفتار ذرائع سے ساری دنیا میں پہنچایا جاسکے۔
اسلام کا مطلوب
اسلام کا اصل مطلوب کوئی نظام قائم کرنا نہ تھا، اور نہ اسلام کا نشانہ یہ تھا کہ ساری دنیامیں اسلام کی سیاسی حکومت قائم کی جائے۔ یہ سب مبتدعانہ تصورات (innovated concepts) ہیں، جو بعد کے دور میں پیدا ہوئے۔ اسلام کا اصل نشانہ صرف ایک تھا، اور وہ وہی ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ(
اسلام کا یہ دعوتی نشانہ قدیم زمانے میں صرف محدود طور پر انجام دینا ممکن تھا۔ بعد کو ترقیات کے دور میں یہ امکان پوری طرح وقوع میں آنے والا تھا ،تاکہ اسلام کا یہ نشانہ عالمی سطح پر بلا روک ٹوک انجام پائے۔ اس حقیقت کو قرآن وحدیث میں مختلف الفاظ میں پیشگی طور پر بتادیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔ یعنی زمین کی سطح پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر یہ کہ اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
اسلام اکیسویں صدی میں
اب اسلام کی تاریخ اکیسویں صدی میں ہے۔ آج کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اسلام کے دعوتی مشن کی منصوبہ بندی (planning) جدید حقائق کی روشنی میں کی جائے۔ جدید پیدا شدہ مواقع (opportunities) کو پوری طرح اسلام کے پرامن عالمی مشن کے لیے استعمال کیا جائے۔ قرآن میں اعلان کیا گیا تھا :تَبٰرَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (
قرآن کا یہ نشانہ سفر کرتے ہوئے اب اکیسویں صدی عیسوی میں اپنے آخری دور میں پہنچ گیا ہے۔اب ضرورت یہ ہےکہ قرآن کو تمام قوموں کی قابل فہم زبانوں میں ترجمے کرکے ان کو تمام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ دسمبر 2015 میں راقم الحروف کا ایک سفر کناڈا کے لیے ہوا تھا۔ وہاں میں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اس پہلو کا ذکر کیا اور کہا :
What a thrilling idea that in the 21st century, we are in a position to complete the unfinished target of the Quran!
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
جس طرح خالص دینی معاملات میں اصلاح کا آغاز توبہ سے ہوتا ہے، اُسی طرح قومی اور سیاسی زندگی میں بھی کوئی نیا بہتر آغاز رجوع و اعتراف کے ذریعے ہوتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو مانے بغیر مستقبل کی کامیاب منصوبہ بندی ممکن نہیںہوتی، اور اِس معاملے میں کوئی استثناء نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی پہلی آیت یہ ہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (
انسان کی حکومت کا جب آپ تصور کرتے ہیں، تو آپ کے ذہن میں یہ نقشہ آتا ہے کہ ایک بااقتدار صدر یا وزیر اعظم ملک کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے، اور پورے ملک کو اپنے نقشے کے مطابق کنٹرول کررہا ہے۔
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر اور کامل صورت میں اللہ رب العالمین کا ہے۔ اللہ اس دنیا کا حاکم اعلیٰ ہے۔ وہ پوری دنیا، خواہ وہ مادی دنیا ہو یا انسانی دنیا، اس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک مادی کائنات کا معاملہ ہے، اللہ رب العالمین اس دنیا کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا کے معاملے میں جزوی طور پر انسان کو آزادی دے دی گئی ہے۔ انسان سے یہ مطلو ب ہے کہ وہ خود انضباطی (self-imposed discipline) کے تحت اللہ رب العالمین کے آگے جھک جائے۔ انسان کو حکومت الٰہیہ قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو حکومت الٰہیہ کا پابند بنانا ہے۔
دین کا یہی آغاز امتِ مسلمہ سے مطلوب ہے۔ بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مدرسوں میں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاںدرست ترتیب کے ساتھ کام نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی مدارس کا طریقہ ہے مسائل کی پابندی سکھانا، جب کہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا نقطۂ آغاز معرفتِ رب ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی دریافت، اور انسانی شخصیت کی تعمیر۔
واپس اوپر جائیں
زندگی کا مقصد
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے پیدا کرنے والے نے اس کو کَبَد (البلد،
ایک طرف قرآن میں اس قسم کے بیانات ہیں۔ دوسری طرف قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان ایک مکرم مخلوق (الاسراء،
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کی مصیبتیں انسان کی تربیت کے لیے ہیں ، نہ کہ تکلیف کے لیے ۔ خالق نے ایک معیاری دنیا بنائی ہے، جنت۔ یہی جنت کی دنیا انسان کا اصل مسکن (habitat) ہے۔ موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اپنے آپ کو احسن العمل (best in conduct)ثابت کرے(الملک،
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (
انسان کو عمل کے کن پہلوؤں کے اعتبار سے احسن ثابت ہونا چاہیے۔ یہ بات قرآن کی دوسری آیتوں پر غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اس انتخابِ افراد کا مقصد کیا ہے۔ قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی دنیا میں خدا کی ایک قربت گاہ (التحریم،
اس سے معلوم ہوا کہ یہ قربت گاہ جنت ہوگی،جو گویاخدائی ضیافت (hospitality) کا مقام ہوگا۔یہاں انسان کو ہر قسم کا فل فلمنٹ (fulfilment)حاصل ہوگا۔ یہ اعلیٰ اقامت گاہ فرشتوں کے انتظام میں بنے گی۔ قرآن کی دوسری آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان منتخب افراد کی صفات کیا ہوں گی۔ اس سلسلے میں چند آیتیں یہ ہیں:
1۔ احسن باعتبار معرفت : مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ(
2۔ احسن باعتبار کلام:وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ (
3۔ احسن باعتبار اخلاق :ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ (
4۔ احسن باعتبار ہمسائگی:وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
5۔ احسن باعتبار سلوک:لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا (
اس قسم کی صفات جنت میں جاکر انسان کے اندر پیدا نہیں ہوں گے، بلکہ اسی دنیا میں انسان کو اپنے اندر یہ صفات پیدا کرنا ہے۔ یعنی ان پہلوؤں کے اعتبار سے جو لوگ موجودہ دنیا کی زندگی میں احسن العمل ثابت ہوں، وہ اللہ کی نظر میں قابلِ انتخاب افراد ہیں۔ فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ایک ایسی دنیا میں جمع کیا جائے گا، جو ابدی ہوگی، اور عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ (
اہلِ سائنس نے ارض و سماء کی جو تاریخ دریافت کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک عالم کی تخلیق کی۔ اس عالم میں وہ ساری خوبیاں موجود تھیں، جو انسان جیسی کوئی مخلوق سوچ سکتا ہے۔ لیکن اس وسیع دنیا میں بظاہر رہنے والے لوگ موجود نہ تھے۔ اس کے بعد خالق نے انسان کو پیدا کیا۔ انسان کو مکمل آزادی دے کر سیارۂ ارض پر بسنے کا موقع دیا۔ آزاد ماحول کی یہ دنیا گویا ایک عظیم انسانی نرسری (nursery) تھی۔ اس میں ہر عورت اور مرد کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو گرو (grow) کرے، اور یہ ثابت کرے کہ وہ مطلوب معیار کے مطابق پورا اترتا ہے یا نہیں۔ یہ کام فرشتوں کی نگرانی میں پوری تاریخ میں جاری رہا۔ اس تاریخ کے آخر میں یہ ہوگا کہ تمام پیدا ہونے والے عورتوں اور مردوں کو اکٹھا کیا جائے گا، اور فرشتوں کے ریکارڈ کے مطابق، ان میں سے مطلوب افراد کا انتخاب ہوگا، اور ان کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ جنت کے باغوں میں داخل ہوجائیں، اور ابدی طور پر وہاں ایک ایسی دنیا میں رہیں، جہاں ان کے لیے نہ حزن ہوگا اور نہ خوف (یونس،
واپس اوپر جائیں
مسلح جہاد (armed struggle) اسلام میں کوئی اثباتی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ ایک سلبی حکم ہے۔ مسلح جد و جہد کو اثباتی حکم کی حیثیت دینا ، یہ تمام تر بعد کی پیداوار ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کمیونسٹ نظریے کے مطابق مسلح جدو جہد یہ ہےکہ قائم شدہ سسٹم کو بزور توڑا جائے، اور اس کی جگہ دوسرا مطلوب سسٹم قائم کیا جائے۔ مگر اس قسم کے تصور کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام مبنی بر نظام (system based) تصور نہیں ہے، بلکہ وہ مبنی بر فرد (individual based) تصور ہے۔ اسلام کا اصل مقصد تزکیۂ افراد ہے(طہ،
اسلام کے مطابق، زندگی کا تصور یہ ہے کہ انسان کے دورِ حیات کے دو حصے ہیں۔ ایک، قبل از موت دور، اور دوسرا، بعد از موت دور۔ قبل از موت دور کی حیثیت تیاری کی ہے، اور بعد از موت دور کی حیثیت تیاری کے مطابق اپنے عمل کا انجام پانے کی۔ تمثیل کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قبل از موت دورِ حیات گویا ایک نرسری (nursery) ہے۔ یہاں انسان کوآزادی کے ساتھ پودے کی مانند اُگنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ بعد از موت دور کی حیثیت گویا ھیبیٹاٹ کی ہے۔ خالق کی اسکیم یہ ہے کہ نر سری میں اُگے ہوئے صحت مند پودے کو نکال لیا جائے، اور اس کو ابدی ھیبیٹاٹ میں نصب کردیا جائے۔اس اعتبار سے موجودہ دنیا زندگی کا آغاز ہے، اور بعد کی دنیا زندگی کا انجام۔
واپس اوپر جائیں
سچی صحبت وہ ہے، جو معرفت کی صحبت بن گیا ہو۔مثلاً قرآن میں ایک واقعے کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (
قرآن کے اس حصے میں ایک صحبتِ رسول کا ذکر ہے۔ اُس صحبتِ رسول میں کچھ لوگوں نے پیغمبر کی زبان سے قرآن کا ایک حصہ سنا۔ قرآن کے اس حصے کو سن کر ان کو معرفتِ رب کا تجربہ ہوا۔ یہ تجربہ اتنا گہرا تھا کہ وہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑا۔ یہ ایک عارفانہ سنت رسول کا بیان ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی دوسری سنتیں قابلِ اتباع ہیں، اسی طرح آپ کی یہ سنت بھی اس قابل ہے کہ وہ اہلِ دین کی مجلسوں میں زندہ ہو۔قرآن کا سچا تذکرہ وہی ہے، جو لوگوں کے دل و دماغ کو ہلادے۔ جو سننے والے کے اندر معرفت کا طوفان پیدا کردے۔ جو آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں کے راستے بہہ پڑے۔
انسان کے جسم سے بہت سی چیزیں نکلتی ہیں، مثلاً آنسو،پسینہ، وغیرہ۔ ان میں آنسو ایک مختلف چیز ہے۔ آنسو انسان کے جسم سے نکلنے والا سب سے زیادہ خالص (purest) مادہ ہے۔ آنسو ایک ایسی چیز ہے، جو صرف اس وقت نکلتا ہے، جب کہ آدمی کو معرفت کا تجربہ ہوجائے۔ آنسو بندے کی طرف سے اپنے رب کے لیے سب سے زیادہ خالص تحفہ (purest gift)ہے جو کبھی ردّ (reject) نہیں ہوتا۔اسی لیے آنسو صرف اللہ کے لیے ہے، آنسو کسی غیر اللہ کودینے کی چیز نہیں۔
قرآن میں مذکورہ واقعے میں اس لمحے کا ذکر ہے، جب کہ ایک متلاشی (seeker) انسان ایک صاحبِ معرفت انسان سے ملتا ہے۔ یہ ملنا کوئی سادہ ملنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ذہنی طوفان (brainstorming) کا ایک لمحہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے، جب کہ دو سچے انسانوں کے درمیان ربانی ملاقات کا عمیق تجربہ ہوتا ہے۔ اس ملاقات میں ایک تیسری ہستی شامل ہوجاتی ہے، اور وہ اللہ رب العالمین کے فرشتے ہیں۔ فرشتوں کی شمولیت کی بنا پر یہ ملاقات ایک ربانی قربت کا لمحہ بن جاتی ہے۔ اس ربانی ملاقات کے دوران دینے اور پانے کاایسا تجربہ مل جاتا ہے، جس میںتبادلے کا ذریعہ الفاظ نہ ہوں ، بلکہ آنسو ہوں۔ جب کہ دلوں کے دروازے کھل جائیں، اور دماغ کی کھڑکیاں اس طرح کھل جائیں کہ اس کا کوئی دروازہ بند نہ رہے ۔
یہ رسول اللہ کی ایک صحبت کا واقعہ ہے، جو قدیم مدینہ میں پیش آیا۔ یہ واقعہ صرف مقدس کلام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک سنتِ رسول کا کیفیاتی بیان ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی دوسری سنتیں قابلِ اتباع ہیں، اسی طرح آپ کی عارفانہ سنتیں بھی اس قابل ہیں کہ وہ اہلِ دین کی مجلسوں میں زندہ ہوں۔ایک صاحبِ معرفت عالم کی صحبت ایک زندہ صحبت ہے۔ وہ حاضرین کے اندر ذہنی طوفان (brainstorming) کا سبب بن سکتی ہے۔
آپ کسی عالم کی کتاب پڑھیں، اس سے بھی آپ کو فائدہ ہوگا۔ لیکن جب آپ ایک سچے عالم کی صحبت میں بیٹھتے ہیں، تو یہ بیٹھنا، آپ کے لیے ایک زندہ تجربہ بن جاتا ہے۔ کتاب اگر آپ کو معلومات دیتی ہے تو ایک عارف کی صحبت سے آپ کو حکمت (wisdom) کا خزانہ مل سکتا ہے۔کتاب کا مطالعہ آپ کی واقفیت میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن ایک عارف کی صحبت آپ کو بتاتی ہے کہ معرفت کا زلزلہ کیا چیز ہے۔ سچی صحبت وہ ہے، جو معرفت کی صحبت بن جائے، جس سے آپ کو رزقِ رب ملنے لگے۔
رزقِ رب
مریم بنت عمران (وفات 100یا 120 ء)ایک ربانی خاتون تھیں، وہ ایک یہودی خاندان میں فلسطین میں 20 ق م میںپیدا ہوئیں۔ان کے تذکرےکے ضمن میںقرآن میں بتایا گیا ہے فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًا وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا قَالَ یَا مَرْیَمُ أَنَّى لَکِ ہَذَا قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَرْزُقُ مَنْ یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (
قرآن کی اس آیت میں رزق کا لفظ مادی رزق کے معنی میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جاڑے کے موسم میں گرمی کا رزق اور گرمی کے موسم میں جاڑے کا رزق۔ بلکہ ا س کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کا رزق، اللہ کی دریافت کا رزق۔ حضرت زکریا کا سوال تعجب کے طور پر نہیں ہوتا تھا، بلکہ شکر کے طور پر ہوتا تھا۔
اس رزق سے مراد وہ رزق ہے، جو اللہ کی یاد سے انسان کو ملتا ہے، جو آخرت کی یاد سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ جو اس یاد سے انسان کو ملتا ہے، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ، الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا (
عارفانہ صحبت اس صحبت کا نام ہے، جس میں صرف اللہ کی اور آخرت کی باتیں ہوں، جس میں صرف جنت اور جہنم کی باتیں ہوں۔ جس صحبت سے اللہ رب العالمین کی یاد دلوں میں آئے، جو انسان کے دل و دماغ کو اللہ رب العالمین کی باتوں سے بھر دے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک تعلیم سورہ محمد میں ان الفاظ میں آئی ہے:أُولَئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَہُمْ ۔أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا (
یہاں قلب سے مراد عقل ہے، اور اقفال سے مراد وہ چیزیں ہیں، جو انسان کے لیے صریح غور وفکر میں مانع بن جاتی ہیں، مثلاً جمود، تعصب، وغیرہ۔ دل کے لیے سب سے بڑا قفل متعصبانہ سوچ (biased thinking) ہے۔ اگر آدمی کسی ایسے ماحول میں دیر تک رہے، جہاں اس کی تربیت اس طرح ہوجائے کہ وہ موضوعی ذہن (objective mind) کے ساتھ چیزوں کو نہ دیکھ سکے۔ متعصبانہ سوچ میں وہ کنڈیشنڈ (conditioned) ہوجائے تو وہ ایسا ہوجائے گا، گویا کہ اس کی عقل پر ایک تالا لگ گیا ہے۔ وہ چیزوں کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہیں رہا ہے۔
متعصبانہ طرزِ فکر دراصل کنڈیشنڈ طرزِ فکر کا نام ہے۔ آدمی جس ماحول میں دیر تک رہے، اس ماحول کے تحت اس کے اندر بہت متاثر طرز فکر بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن صرف ایک رخ پر سوچنے لگتا ہے، اس کا ذہن دوسرے رخ پر سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنا محاسبہ کرکے اپنی کمزوری کو دریافت کرنا، اور اس کو بے رحمی کے ساتھ توڑ کر اپنے آپ کو فطرت پر قائم کرنا۔
دلوں کا قفل ماحول کے اثر سے لگتا ہے۔ اس قفل کو کھولنے کا ایک ہی ذریعہ ہے، اور وہ محاسبہ (introspection) ہے۔ غیر جانبدارانہ محاسبہ واحد چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اقفالِ قلب سے بچا سکے ۔ دوسری کوئی چیز انسان کو اس مسئلے سے بچانے والی نہیں۔ محاسبہ کیا ہے۔یہ ایک لفظ میں خود اپنے خلاف سوچنے(anti-self thinking) کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ اکبر نماز کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہے۔ اذان اور نماز دونوں کو ملا کر دیکھا جائے تو پانچ وقت کی نمازوں میں اللہ اکبر کا کلمہ روزانہ تقریباً تین سو بار دہرایا جاتا ہے، یعنی ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بار۔ گویا ایک مسلمان اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ جوکلمہ سنتا یا بولتا ہے، وہ اللہ اکبر کا کلمہ ہے، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔
اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ایک مسلمان، اللہ کی عظمت کو دریافت کرے۔ اللہ کی عظمت اس کے شعور کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہو۔ اللہ کی عظمت اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں اِس طرح شامل ہوجائے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ کی عظمت کے احساس سے غافل نہ ہو۔
اللہ اکبر کا کلمہ کسی انسان کی زندگی میں ایک شاہِ ضرب (master stroke)کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں کسی انسان کو اللہ کی دریافت ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں سب سے بڑا مثبت بھونچال آجائے گا۔ وہ پورے معنوں میں ایک نیا انسان بن جائے گا۔ اللہ اس کی سوچ کا واحد مرکز بن جائے گا۔ اس کی زندگی پورے معنوں میں ایک خدا رخی زندگی بن جائے گی۔
ایسے انسان کا معاملہ یہ ہوگا کہ اللہ اس کا سپریم کنسرن (supreme concern) بن جائے گا۔ اللہ کے سوا ہر چیز اس کی زندگی میں سکنڈری حیثیت اختیار کرلے گی۔ اس کے اندر مادی طرزِ فکر کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کی سوچ قومی سوچ کے بجائے اصولی سوچ بن جائے گی۔ وہ آخرت کی کامیابی کا حریص بن جائے گا۔ وہ منفی سوچ سے مکمل طورپر پاک ہوجائے گا۔ اس کی شخصیت کامل معنوں میں ایک متواضع (modest)شخصیت بن جائے گی۔ اس کے اندر سے کِبر (arrogance) کا خاتمہ ہوجائے گا — اللہ اکبر ایک اعتبار سے عقیدہ ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک شخص کی زندگی کا کامل طریقہ۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ اکبر خلاصۂ ایمان ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی ذہنی ساخت (mindset) کے بارے میں قرآن کا ایک بیان ان الفاظ میں آیا ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (
شاکلہ کے لفظی معنی طریقے کے ہیں، یعنی طریقِ فکر (way of thinking)۔ قرآن میں شاکلہ سے مراد وہ طریقہ ہے، جو ہر انسان کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے۔ اب دیکھیے کہ وہ کون سا طریقہ ہے۔ یہ بات ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385 )۔اس حدیثِ رسول کی روشنی میں آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو اس آیت میں موجود اھدی سبیلا سے مراد الفطرۃ ہے، یعنی وہ مزاج یا مائنڈ سیٹ (mindset) جو انسان کو پیدائش سے ملتا ہے۔ یہی اصل فطری مزاج ہے۔ لیکن انسان پیدا ہونے کے بعد ایک ماحول میں رہتا ہے۔ اس ماحول کے اثر سے ہر انسان کی ایک مزاج سازی ہونے لگتی ہے۔ اس مزاج سازی کو آج کل کی زبان میں کنڈیشننگ کہہ سکتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کنڈیشننگ اس پر چھاجاتی ہے۔ اس کی سوچ کنڈیشنڈ سوچ بن جاتی ہے۔
حدیثِ رسول میں یہودی، نصرانی، اور مجوسی کےالفاظ آئے ہیں۔ یہ الفاظ مطلق معنی میں نہیں ہیں، بلکہ علامتی معنی میں ہیں ۔ یعنی آپ کسی ماحول میں جاتے ہیں تو اسی کے مطابق آپ کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے،یہاں تک کہ دھیرے دھیرے انسان اپنے قریبی ماحول کے مولڈ (mould) میں ڈھل جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت ہر انسان اپنے فطری ماڈل پر ہوتا ہے، لیکن وہ ماحول سے متاثر ہوکر اسی ماحول میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔آدمی کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اس کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرے، اپنے آپ کو ماحول کے مولڈ سے نکال کر باہر کرے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سلسلے میں جو باتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: فَلَمَّا نَزَلْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، نَظَرْتُ أَسْفَلَ مِنِّی فَإِذَا أَنَا بِرَہْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ ، فَقُلْتُ:مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ:ہَذِہِ الشَّیَاطِینُ یَحُومُونَ عَلَى أَعْیُنِ بَنِی آدَمَ، أَنْ لَا یَتَفَکَّرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَوْلَا ذَلِکَ لَرَأَوْا الْعَجَائِبَ (مسند احمد، حدیث نمبر 8640)۔ یعنی جب میں آسمانِ دنیا کی طرف اترا تو میں نے اپنے نیچے کی طرف دیکھا۔ تو میں نے پایاکہ وہاں غبار، دھواں، اورشور ہے۔ میں نے کہا: جبریل، یہ کیا ہے۔ جبریل نے کہا: یہ شیاطین ہیں، جو بنی آدم کی آنکھوں پر منڈلا رہے ہیں، تاکہ انسان آسمانوں اور زمین کی ملکوت میں تفکر نہ کریں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان عجائب دیکھتے۔
اس حدیث میں عجائب سے مراد عالم فطرت کے ونڈرس (wonders of nature) ہیں۔ نیچر کے یہ مشاہدات اللہ رب العالمین کی تخلیق کے مشاہدات ہیں۔ ان مشاہدات کو دیکھنے سے اللہ رب العالمین کی عظمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ مگر تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس معاملے میں شیطان غالب آیا، اورشاید وہ پیغمبروں کے سوا ہر ایک کے لیے ان عجائبات کو دیکھنے کی راہ میں مانع بن گیا۔
اس معاملے میں علمائے دین کی تاریخ نہایت عجیب منظر پیش کرتی ہے۔ بڑے بڑے علماے دین میں سے شاید کوئی بھی شخص نہیں جو ان عجائبِ قدرت کو دیکھے، اور ان سے اللہ رب العالمین کا تجربہ حاصل کرے۔ دوربین (telescope) کے وجود میں آنے سے پہلے بھی تاریخ ایسے کسی عالمِ دین کی خبر نہیں دیتی، اور دور بین کے وجود میں آنے کے بعد بھی ایسا کوئی عالمِ دین تاریخ کے تذکرے میں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں علماے فنّیات تو بہت ملتے ہیں، لیکن عجائبِ فطرت کا کوئی عالم موجود نہیں۔ معرفت کی کتاب ایسے باب سے یکسر خالی ہے۔ اس حدیث میں شیطان کے شورو شغب وغیرہ سے مراد شاید اہلِ مغرب کے خلاف مسلمانوں کے اندر عمومی سطح پر منفی نفسیات کا پیدا ہونا ہے۔
شیاطین کا آنکھوں پر منڈلانا (to hover about) بہت بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فطرت کے مظاہر کو مقدس بنا کر انسان سے یہ اسپرٹ چھین رہے ہیں کہ وہ فطرت کے مظاہر پر آزادانہ غور وفکر کریں۔ جو خالق کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کو قرآن میں فتنہ (الانفال،
اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ اب فطرت کے مظاہر کی آزادانہ ریسرچ (objective research) ہونے لگی۔ مختلف اسباب کی بنا پر یہ کام تمام تر اہل مغرب نے انجام دیا۔ یہ عمل گلیلیو اور نیوٹن کے زمانے میں شروع ہوا۔ اسی عمل (process) کا نقطۂ انتہا وہ ظاہرہ تھا، جس کو تہذیب (civilization) کہا جا تا ہے۔
مغربی تہذیب دراصل اللہ کے تخلیقی عجائب (wonders of creation) کا نام تھی۔ اس تہذیب کے تحت جو سائنس پیدا ہوئی، وہ در اصل وہی چیز تھی، جس کے ذریعے وہی کام انجام پایا جس کو قرآن میں تبیین ِحق (فصلت،
مگر معاملہ یہ پیش آیا کہ جس چیز پر مسلمان بھڑک گئے، وہ ان کا فاجر ہونا تھا۔حالاں کہ اس حدیث کا مطلب یہ تھا کہ کلچرل اعتبار سے اگرچہ وہ ایسی باتوں میں مبتلا ہوں گے، جوبرا ہوگا، مگر وہ جو کام انجام دیں گے، وہ اسلام کی تائید کا کام بن جائے گا۔ یعنی اس سے تبیینِ حق کا دروازہ کھلےگا، اور معرفتِ حق کو اعلیٰ پیمانے پر سمجھنا ممکن ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
انسان نے پانی کے بارے میں بوائنسی (buoyancy)کے قانون کو دریافت کیا، اور پھر اس کے مطابق، کشتیاں بنائیں، اور سمندروں میں بآسانی وہ بڑے بڑے سفر کرنے لگا۔ اسی طرح انسان نے اپنے دماغ کو استعمال کرکے یہ دریافت کیا کہ الیکٹرسٹی کا مطلب ہے الیکٹران کا بہاؤ :
Electricity means flow of electrons
اس دریافت کے بعد انسان نے ڈائنمو (dynamo) بنایا، اور پھر اس میں میگنیٹک فیلڈ (magnetic field) پیدا کرکے یہ انتظام کیا کہ بجلی پیدا ہو، اور بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ممکن ہوجائے۔ اسی طرح انسان نے مزید یہ کیا کہ ڈائنمو کے اندر میگنیٹک فیلڈ پیدا ہو، اور وہاں بجلی کی کرنٹ پہنچائی جائے تو وہاں مادے میں حرکت پیدا ہوجائے گی۔ انسان نے کامیابی کے ساتھ ایسا کیا ، اور اس کے ذریعے بے شمار بڑے بڑے فائدے حاصل کیے، وغیرہ، وغیرہ۔
یہ واقعات امکانی طور پر ہمیشہ سے موجود تھے، لیکن عملاً وہ پچھلے پانچ سو سال سے پہلے لامعلوم مدت تک واقعہ (actual)نہ بن سکے۔ ایسا کیوں کر ہوا۔ سائنس کے مورخین یہ کہتے ہیں کہ ایسا اتفاقات (accident) کے ذریعے ہوا۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ یہ ویسا ہی تھا، جیسے قدیم زمانے میں کشتی کا بننا۔ پیغمبر نوح کی کشتی کے بارے میں قرآن میں آیا ہے : وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (
سائنسی تحقیقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اکسیڈنٹ کے ذریعے ہوا، صحیح یہ ہے کہ یہ واقعات فرشتوں کی مدد سے انجام پائے۔ ورنہ انسان خود اپنی آزادانہ عقل سے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ جیسا کہ پچھلے لاکھوں سال تک وہ اس معاملے میں کچھ نہ کرسکا۔ یہی وہ واقعہ ہے، جس کو اتفاق کا نتیجہ قرار دے کر serendipity کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ، فَلَا یُبْدِ لَہُ عَلَانِیَةً، وَلَکِنْ لِیَأْخُذْ بِیَدِہِ، فَیَخْلُوَ بِہِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَإِلَّا کَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِی عَلَیْہِ لَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 15333)۔ یعنی جو یہ چاہے کہ وہ صاحبِ امر کو اس کے کسی فعل پر خیرخواہانہ نصیحت کرے تو وہ علانیہ طور پر ایسانہ کرے، بلکہ وہ اس کا ہاتھ پکڑے،اور اس کو تنہائی میں لے جائے۔ اگر حاکم اس کی بات کو قبول کر لے تو بہتر ہے، ورنہ اس نے حاکم کے تعلق سے اپنا فرض ادا کردیا۔
حاکم کو اس کی کسی غلطی پر نصیحت کرنا،بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن انسان کو چاہیے کہ وہ ایسا کام ہمیشہ نتیجے کو دیکھ کر کرے۔ اگر وہ علانیہ طور پر صاحبِ امر کو نصیحت کرے گا تو عین ممکن ہے کہ وہ بھڑک اٹھے، اور ایسا کوئی اقدام کرے جو دونوں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن جائے، اور نصیحت کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) بن جائے۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ نتیجے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نصیحت کرے۔ نتیجہ خیز نصیحت ایک ثواب کا کام ہے، لیکن جو نصیحت ٹکراؤ کا سبب بن جائے، وہ باعتبارِنتیجہ نصیحت نہیں ہے، بلکہ فتنہ انگیزی ہے۔
یہ بات بے حد حکمت پر مبنی ہے کہ صاحبِ امر اگر نصیحت کو قبول کرلے تو ناصح کو اللہ کا شکر اداکرنا چاہیے کہ اس کو ایک نیک کام کرنے کی توفیق ملی، اور اگر وہ نصیحت قبول نہ کرے تو ناصح پر لازم ہے کہ وہ اس کے بعد چپ ہوجائے۔ کیوں کہ ناصح کا جو فریضہ تھا، اس کو ناصح نے ادا کردیا۔ اگر صاحبِ امر نصیحت قبول نہ کرے تو اس کے بعد اس کا اعلان کرنا، یا اس کے خلاف تنقید کی مہم شروع کرنا، نصیحت نہیں ہے، بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے وہ فتنہ انگیزی ہے، اور فتنہ انگیزی اپنے آپ میں ایک بہت بڑا گنا ہ ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب امر اگر غلطی کرے تو اس کو خیر خواہانہ نصیحت کرنا ہے۔ ایسی حالت میں ناصح اگر یہ کرے کہ وہ صاحبِ امر کے خلاف ہتھیار اٹھالے، یا وہ اس کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلائے تو خود ناصح نے ایک ناقابلِ معافی گناہ کا کام کیا۔
واپس اوپر جائیں
امت کے دورِ زوال کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّ أَوَّلَ مَا یُکْفَأُ - قَالَ زَیْدٌ:یَعْنِی فی الْإِسْلَامَ - کَمَا یُکْفَأُ الْإِنَاءُ یَعْنِی الْخَمْرَ . فَقِیلَ:کَیْفَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَقَدْ بَیَّنَ اللَّہُ فِیہَا مَا بَیَّنَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یُسَمُّونَہَا بِغَیْرِ اسْمِہَا فَیَسْتَحِلُّونَہَا(سنن الدارمی، حدیث نمبر 2145)۔ یعنی بے شک ( اسلام میں)پہلا (بگاڑ) اوندھاکرنے کی صورت آئے گا ، جیسے برتن اوندھا کیا جاتا ہے، (اور وہ شراب ہوگی)۔ پوچھا گیا کہ ایسا کس طرح ہوگا، حالاں کہ اللہ نے (دین میں )اس کو بیان کردیا جیسا کہ بیان کردیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: لوگ اس کا نام بدل کر کچھ اور نام رکھ دیں گے، پھر وہ اس کو جائز کرلیں گے۔
اس حدیثِ رسول میں خمر (شراب ) کا لفظ علامتی معنوں میں آٰیا ہے۔ یعنی دورِ زوال میں امت کے اندر خواہش پرستی کا دور آجائے گا۔ لوگ دین پر چلنے کے بجائے، اپنی خواہشات پر چلنے لگیں گے۔ اگر کوئی چیز بظاہر ممنوع (prohibited) ہوگی، تو لوگ نام بدل کر اس کا اسلامی نام رکھ لیں گے، اور پھر وہ اس کو جائز کرلیں گے۔ مثلا قوم پرستی کا نام اسلامی حمیت، شادی کی مسرفانہ دھوم کا نام مسنون نکاح،کلچرل رواج کا نام دینی شناخت، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں اس بگاڑ کی ایک عام صورت وہ ہے ، جس کا تعلق دعوت و تبلیغ سے ہے۔ موجودہ زمانے میںمسلمانوں کی شکست خوردہ نفسیات کونہایت منظم (organized)انداز میں ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے، اور اس کا نام رکھ دیا جاتا ہے دعوت و تبلیغ۔ کچھ لوگ جن کے اندر قوت کلام ہوتی ہے، اور جو مارکٹنگ (marketing)کا فن جانتے ہیں، وہ اس قسم کے مناظرہ (debate) کو ایک باقاعدہ پروفیشن کے طور پر اختیار کرلیتے ہیں، اور لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
یہ واقعہ گیارہ ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہوا تھا۔ سال 1437 ھ میں کیلنڈر کے اتفاق کی بنا پر عید الاضحی اسی تاریخ (
پیغمبر ابراہیم بن آزر تینوں سامی مذاہب یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے مورث اعلیٰ تھے۔ وہ عراق کے قدیم شہر اُر (Ur)میں پیدا ہوئے۔ وہ
اللہ کی ہدایت کے مطابق، حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ تھا، خصوصی تربیت کے ذریعے ایک نئی نسل بنانا۔ یہ صحرائی تربیت (desert therapy) کا طریقہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لاکر عرب کے غیر آباد صحرا میں بسا دیا۔ یہاں نسل در نسل ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایک نئی نسل بنی جس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔
یہ نسل تاریخ کی پہلی امن پسند نسل تھی۔ اس واقعے کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (
صحرائی تربیت کے ذریعے پیدا ہونے والا یہی وہ امن پسند گروہ ہے، جس کو پیغمبرِ اسلام نے بامقصد بنیاد پر منظم کیا۔ اور پھر ان کو لے کر وہ انقلاب برپا کیا جو تاریخ کا پہلا مبنی بر امن انقلاب تھا۔ اس امن پسند گروہ کی جدو جہد کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا، جو اس پر امن دور تک پہنچا، جس کو جدید دور (modern age)کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام 610 عیسوی میں عرب میں شروع ہوا۔ اکیسویں صدی میں دنیا میں اسلام کو ماننے والوں کی تعداد تقریباً ایک بلین اسی لاکھ (1.8 billion)ہے۔ آج مسلمان دنیا کے تقریبا ًہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ اس مجموعے کو امتِ مسلمہ کہا جاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کے لیے کام کرنے کے مختلف میدان ہیں۔
ایک کام امت کی اخلاقی اصلاح اور مادی تعمیر کا کام ہے۔ آج کی زبان میں اس کو مسلم ایمپاورمنٹ (Muslim empowerment)کہا جاتا ہے۔ یہ کام کا وہ میدان ہے، جس میں مصلحین تعلیم، اقتصادیات اور سماجی ترقی(social uplift) کے میدان میں کام کرتے ہیں۔اس کام کو دوسرے لفظوں میں تعمیرِ ملت کا کام بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرا میدان وہ ہے، جس میں کام کرنے والوں کو متکلم کہا جاتا ہے۔ اس میدان میں کام کرنے والے عقلی دلائل کی روشنی میں اسلام کی برتری ثابت کرتے ہیں۔ اسی کام کا ایک شعبہ وہ بھی ہے، جس کو مناظرہ (debate) کہا جاتا ہے۔ جس دور میں جو عقلی معیار رائج ہو، اس کے اعتبار سے یہ کام انجام دیا جاتا ہے۔
تیسرا کام وہ ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن میں انذار و تبشیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ کام پوری طرح آخرت رخی (akhirah-oriented) کام ہے۔ اس کام کے موضوعات اللہ کی معرفت ، جنت کا تعارف، اور آخرت کے اعتبار سے مزکیّٰ شخصیت (purified personality) بنا نا ہے۔
یہ تینوں کام اپنی اپنی جگہ مطلوب کام ہیں۔ لیکن ہر کام کی نوعیت الگ ہے۔ نوعیت کے اس فرق کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ کوئی بھی کام درست طور پر انجام نہیں پاسکتا۔ آدمی کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ ایک میدان والا کام کررہا ہو، اور دوسرے میدان کے کام کا دعویٰ کرے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کو عقلیت کا دور (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ادّعا (claim) کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں صرف ان لوگوں کو قبولیت حاصل ہوسکتی ہے، جو عقل کے معیار پر اپنا جواز (validity) ثابت کریں، جن کے پاس صرف اِدًعا (claim) ہو، ان کو موجودہ زمانے میں صرف دماغی مریض کے اسپتال میں جگہ ملے گی، اور کہیں نہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ کہنا کہ میں مجدد ہوں، میں مہدی ہوں، میں مسیح ہوں، وغیرہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی موجودہ زمانے کے حالات سے بالکل بے خبر ہے۔ وہ ایسی بولی بول رہا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں کوئی قبول کرنے والا نہیں۔ ایسے لوگوں کا کیس خلافِ زمانہ روش (anachronism) کا کیس ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی موجودہ زمانے میں ناقابلِ قبول ہے کہ میں وقت کا نپولین ہوں، میں وقت کا نیوٹن ہوں، میں وقت کا آئنسٹین ہوں، وغیرہ۔ اسی طرح اس قسم کے القاب بھی غیر زمانی القاب ہیں کہ غزالی زماں، رازی دوراں، بیہقی وقت ، یا یہ کہ فلاں شخص عہد ساز شخصیت کا حامل ہے، وغیرہ۔ یعنی موجودہ زمانے میں کوئی یہ کہے کہ میں ایسا ہوں، میں ویسا ہوں،یافلاں شخص وقت کا یہ ہے،اور فلاں شخص وقت کا وہ ہے، تو کوئی شخص اس کو قابلِ غور نہیں سمجھے گا۔
آج کا دور سائنسی استدلال کا دور ہے۔ آج کے زمانے میں بات کو فرد کے حوالے سے نہیں مانا جاتا ہے، بلکہ دلیل کے حوالے سے مانا جاتا ہے۔حدیث میں آیا ہے :مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔یعنی جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ بھلی بات کہے یا چپ رہے۔ آج کا انسان کہے گا کہ تمھارے پاس اگر مبنی بر عقل (reason based) کوئی بات ہے تو بولو، ورنہ چپ رہو۔
واپس اوپر جائیں
جن علاقوں میں تشدد (violence) کے واقعات ہورہے ہیں، ان علاقوں کے لیڈر یہ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں امن اس وقت قائم ہوگا جب کہ اس علاقے کے عوام کی جائز خواہشات کو پورا کیا جائے۔ جب تک اس علاقے کے عوام کو ان کا حق نہ دیا جائے، وہاں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔
یہ بات جو کہی جاتی ہے، وہ گرامر کے اعتبار سے درست ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ تاریخ میں کبھی اس قسم کا امن قائم نہیں ہوا۔ تاریخ میں اگر کبھی امن قائم ہوا ہے، تو وہ ہمیشہ عوامی مطالبات کو چھوڑنے کی بنیاد پر ہوا ہے، نہ کہ ان کو پانے کی بنیاد پر۔
اسلام کے دورِ اول میں پیغمبرِ اسلام اور مکہ کے قریش کے درمیان نزاع قائم تھی۔ دس سالہ ناجنگ معاہدہ ، صلحِ حدیبیہ کے ذریعے اس نزاع کا خاتمہ ہوا، اور علاقے میں امن قائم ہوا۔ مگر یہ امن قریش کی شرطوں پر قائم ہوا تھا، نہ کہ اہل ایمان کی شرطوں پر۔ حتی کہ اس امن کو پانے کے لیے پیغمبرِ اسلام کو معاہدہ کی دستاویز سے بوقتِ معاہدہ رسول اللہ کا لفظ مٹانا پڑا تھا۔ امن کبھی اپنی شرطوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وہ فریقِ مخالف کی شرطوں کو مان کر ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں جہاں تشدد کے واقعات ہورہے ہیں، وہ سب اسی لیے ہورہے ہیں کہ لوگ اس شرط کو نہیں جانتے، وہ امن کے لیے اس شرط کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی مانگ کو پورا کیا جائے۔ یہ ایک ایسی شرط ہے، جو پر جوش تقریروں میں تو دہرائی جاسکتی ہے، لیکن حقیقت کی دنیا میں ان کو قائم کرنا ناممکن ہے۔ ایسا امن نہ دنیا میں کبھی قائم ہوا، اور نہ وہ کبھی قائم ہوسکتا ہے، جن شرطوں کو پورا کرنا رسول اللہ کے زمانے میں ممکن نہیں ہواتھا، اس کو اب کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امن کا قیام جہاد و قتال کے ذریعے کبھی نہیں ہوتا۔ امن کا قیام ہمیشہ حقیقتِ واقعہ کے اعتراف (acceptance of reality) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔حقیقت کو حقیقت کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے، نہ کہ پرجوش نعروں کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں
امت پر جب عمومی بے عقلی کا دور آئے گا تو قانونِ دفع ( البقرۃ،
اس حدیث میں عدل سے مراد عدل کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح ظلم سے مراد ظلم کا نظام نہیں ہے۔ بلکہ عدل سے مراد عدل کی بات ہے، اور ظلم سے مراد ظلم کی بات ہے۔ اِسی طرح ارض سے مراد ساری زمین (globe) نہیں ہے بلکہ ارض سے مراد ارضِ مسلم ہے۔ یعنی مسلم دنیا میں جب ہر طرف بےعقلی کی باتیں ہونے لگیں گی، تو وہ انسان لوگوں کو ہر پہلو سے عقل کی بات بتائے گا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے، نہ کہ عملی اعتبار سے، مسلم دنیا کو بتائے گا کہ عقل کے مطابق سوچنا کیا ہے اورعقل کے مطابق کرنا کیا ہے۔ وہ انسان کوئی حکومت نہیں قائم کرے گا بلکہ وہ ایک نظریاتی دور لائے گا۔
یہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا نظام ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ ہر بار جب لوگوں کی سوچ بگڑ جاتی ہے، اوراس کے نتیجے میں عمل میں بگاڑ آجاتا ہے، تو اس وقت اللہ کی توفیق سے ایسے افراد اٹھتے ہیں، جو لوگوں کو صحیح طرز فکر دیں، جو لوگوں کی کنڈیشنڈ تھنکنگ کو کنڈیشننگ سے پاک کریں، اور صحیح انداز میں سوچنے والا بنائیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسانی سوچ خواہ کتناہی بگڑ جائے لیکن انسان کا ضمیر (conscience) پھر بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ ضمیر انسانی معاشرے کے بگاڑ کو کلی بگاڑ بننے نہیں دیتا ۔ ایک حد کے بعد ضمیر جاگ اٹھتا ہے، اور معاشرے کے اندر اینٹی بگاڑ کا پراسس شروع ہوجاتا ہے۔جو ہر رکاوٹ کے باوجود فطرت کی رہنمائی میں جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بگاڑ کے بعد اصلاح کا دور آجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
عورت کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح ابن حبان کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّمَا مَثَلُ الْمَرْأَةِ کَالضِّلَعِ، إِنْ أَرَدْتَ إِقَامَتَہَا کُسِرَتْ، وَإِنَّ تَسْتَمْتِعْ بِہَا تَسْتَمْتِعْ بِہَا وَفِیہَا عِوَجٌ، فَاسْتَمْتِعْ بِہَا عَلَى مَا کَانَ مِنْہَا من عوج(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4180)۔ یعنی عورت کی مثال پسلی کی مانند ہے۔ اگر تم چاہو اس کو سیدھا کرنا تو تم اس کو توڑ دو گے۔ اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤگے، اور اس کے اندر ایک ٹیڑ ھ ہے، پس تم اس کی ٹیڑھ کے باوجود اس سے فائدہ اٹھاؤ (تو تم اس سے فائدہ پاؤ گے)۔
اس حدیث میں عوج (ٹیڑھ) سے مراد یہ نہیں ہے کہ عورت کے اندر کوئی تخلیقی کجی ہے۔ یہ در اصل تمثیل کی زبان ہے۔ یعنی اس سے مرادوہ مخصوص مزاج ہے، جو عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اسی جذباتی مزاج کو پسلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جذباتی مزاج کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی بات کو عقلی طور پر سوچنے سے پہلے بھڑک اٹھنا۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہو تو ٹھنڈے طریقے سے سوچے بغیر رائے قائم کرلینا۔ کسی بات پر اتنا شدید ہوجانا کہ سمجھنے سمجھانے کا دروازہ بند ہوجائے۔کسی معاملے کو نتیجے کے اعتبار سے نہ دیکھنا، بلکہ صرف جذباتی پہلو سے سوچنا۔ اپنے کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھ لینا۔ اس قسم کی تمام باتیں جذباتیت (emotionalism) سے تعلق رکھتی ہیں۔
جو آدمی اس طرح کی جذباتیت کا شکار ہوجائے، اس کو صرف اپنے موافق بات سمجھ میں آتی ہے۔اس کے خلاف کوئی بات اس کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ جو بات اپنے مزاج کےخلاف نظر آئے، اس پر وہ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ایسے آدمی کو نرمی سے سمجھایا جاسکتاہے۔ لیکن اس کو سختی سے سمجھانا، ممکن نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں
ایک شادی شدہ جوڑے سے میری ملاقات ہوئی۔ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ شادی شدہ زندگی یہ ہے کہ دو آدمی سنجیدہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ باہم مل کر زندگی کا مشترک سفر طے کریں گے۔ یہ سفر پورا کا پورا تجربات کی صورت میں گزرتا ہے۔ کبھی خوش گوار تجربہ اور کبھی نا خوش گوار تجربہ۔
آپ دونوں کو میری نصیحت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جب اس مشترک سفر میں آپ دونوں کو کوئی خوش گوار تجربہ گزرے تو اس پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیجیے، اور اپنے سفر کو مثبت ذہن کے ساتھ جاری رکھیے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کو اس سفر میں کوئی نا خوش گوار تجربہ پیش آئے تو اس سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کیجئے۔ کیوں کہ ہر نا خوش گوار تجربہ ہمیشہ ایک نیا سبق لے کر آتا ہے۔ وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آپ سفر کا اگلا مرحلہ زیادہ بہتر طور پر گزاریں۔
شادی شدہ زندگی اجتماعیت کی اکائی ہے۔ آپ انفرادی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ لیکن اجتماعی زندگی میں دوسروں سے نبھانا ضروری ہوجاتا ہے۔ دوسروں سے نبھانے کا آرٹ سیکھے بغیر اجتماعی زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی، خواہ شادی شدہ زندگی ہو یاکوئی اور سماجی زندگی۔
شادی شدہ زندگی صرف شادی کے لیے نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ تجربہ سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی یہ سیکھے کہ دوسروں کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے۔ تجربہ ہمیشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ تجربے کی زندگی میں خوشگوار واقعات بھی پیش آتے ہیں،اور ناخوشگوار بھی۔ تاہم ہر تجربے میں کوئی نہ کوئی سبق ضرور موجود ہوتا ہے۔ کبھی ایک نئے اصول کی دریافت کی صورت میں ، اور کبھی کسی عملی رہنمائی کی صورت میں ، اور دونوں بلاشبہ یکساں طور پر مفید ہے۔جس آدمی کی زندگی تجربہ سے خالی ہو،اس کی زندگی حکمت (wisdom) سے خالی ہو گی۔
واپس اوپر جائیں
تنقید (criticism) کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے کسی آدمی کے قول پر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں علمی تجزیہ (analysis)کرنا۔ ایسا تجزیہ جس میں آدمی کی نیت زیر بحث نہ آئی ہو، بلکہ صرف اس کے نقطۂ نظر کاموضوعی (objective) انداز میں جائزہ لیا گیا ہو۔ یہ طریقہ ایک جائز طریقہ ہے۔ قرآن یا حدیث کا کوئی حوالہ ایسا نہیں ہے، جو اس طریقے کو دینِ اسلام کے خلاف بتاتا ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی آدمی کی طرف ایک ایسی بات کو منسوب کرنا، جس کے بارے میں کوئی ثابت شدہ حوالہ ایسا موجود نہ ہو کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے، وہ قصداً (intentionally) کہا یا لکھاہے، بلکہ وہ ناقد کا اپنا مفروضہ ہو۔ ایسی تنقید اسلام میں بلاشبہ جائز نہیں ، اور آدمی کو اس دوسرے قسم کی تنقید سے کامل پرہیز کرنا چاہیے۔
مذکورہ تقسیم میں دوسری قسم کی تنقید بے حد خطرناک ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی تنقید کا ارتکاب کرے، تو اس کو ڈرنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے وہ خود اللہ کی پکڑ میں نہ آجائے۔کیوں کہ حدیث سے غیر مشتبہ طور پر اس کا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت ہے:أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ یَرْمِی رَجُلٌ رَجُلًا بِالفُسُوقِ، وَلاَ یَرْمِیہِ بِالکُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَیْہِ، إِنْ لَمْ یَکُنْ صَاحِبُہُ کَذَلِکَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6045)۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر کوئی کسی شخص پر کفر یا فسق کا الزام لگائے، تو وہ خود کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گا، اگر دوسرا شخص ایسا نہ ہو۔
کفر یا فسق اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی خارجی واقعہ نہیں۔ بلکہ اس کا تعلق آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ اس لیے کسی کو کافر یا فاسق کہنا ، اس کی نیت پر حملہ بن جاتا ہے۔ اس لیے کسی کو کافر یا فاسق کہنا کسی حال میں جائز نہیں۔ یہ تمام تر اللہ رب العالمین کا معاملہ ہے، وہ انسان کے بیان کا معاملہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
تنقید (criticism) ایک جائز فعل ہے۔ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص پر تنقید کرے۔ لیکن تنقید کا ایک متعین اصول ہے۔ متعین اصول کے مطابق جو تنقید کی جائے، وہ ایک جائز تنقید ہے۔ لیکن جس تنقید میں متعین اصول کی رعایت نہ ہو، وہ تنقید نہیں، بلکہ تنقیص ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، تنقید بلاشبہ جائز ہے، لیکن تنقیص بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔
جائز تنقید اور ناجائز تنقید یا تنقیص میں کیا فر ق ہے۔ ناجائز تنقید یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے اوپر تنقید کریں، لیکن یہ تنقید آپ اپنے الفاظ میں کریں۔ یعنی ایسا ہو کہ تنقید تو دوسرے کی ہو، اور الفاظ اس کے اپنے ہوں تو ایسی تنقید جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ ایسا کریں کہ کسی شخص کے اوپرتنقید کریں، تو اس کے اپنے ثابت شدہ الفاظ پر مبنی ہو ۔ایسی تنقید ایک جائز تنقید ہے ۔مثلاً آپ کسی شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے اندر قول و فعل کا تضاد ہے، تو یہ تنقید صرف اس وقت جائز ہوگی، جب کہ آپ زیر تنقید شخص کے قول یا فعل سے اس قسم کا ثابت شدہ حوالہ پیش کریں۔ اگر آپ کے پاس ثابت شدہ حوالہ نہ ہو تو آپ کو ایسی تنقید کرنے کا ہر گز کوئی حق نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کا نام لیتا ہے، لیکن بات خود اپنی پیش کرتا ہے تو آپ کو اس روش کی کم از کم ایک متعین اور محدد (specific)مثال پیش کرنی ہوگی۔ ثابت شدہ مثال کے بغیر ایسی تنقید صرف ایک بے بنیاد الزام ہے، وہ ہرگز تنقید نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس کے پاس ڈبل معیار ہوتا ہے، ایک معیار اپنے لیے، اور دوسرا معیار دوسروں کے لیے۔ تو یہ تنقید بھی صرف اس وقت ایک جائز تنقید ہے، جب کہ زیر بحث شخص کے بارے میں ایک ثابت شدہ مثال دیں، ایسی مثال جو ناقابل تردید حوالوں پر مبنی ہو۔ صرف ایسی تنقید ، تنقید ہے۔ جس تنقید کے ساتھ ایسا ثبوت موجود نہ ہو، وہ سبّ شتم اور عیب جوئی اور الزام تراشی ہے، نہ کہ واقعی معنوں میں ایک جائز تنقید۔
واپس اوپر جائیں
پازیٹیو تھنکنگ اور پازیٹیوزم (positivism)، دونوں ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ پازیٹیو تھنکنگ انگریزی ڈکشنری کا ایک عام لفظ ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک خالص فلسفیانہ اصطلاح (philosophical term)ہے۔ پازیٹیو تھنکنگ کا مطلب ہے، مثبت طرزِ فکر، یعنی منفی طرزِ فکر سے پاک سوچ۔ یہ اس انسان کی صفت ہے، جو بے آمیز سوچ (unbiased thinking) کا مالک ہو، جو شکایتی نفسیات سے پاک ہو۔
اس کے برعکس، پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اصطلاح (term) ہے۔ پازیٹیوزم کا بانی فرانسیسی ماہر سماجیات اور فلسفی آگسٹ کامٹے (Auguste Comte) ہے۔یہ نظریہ انیسویں صدی کے وسط میں فروغ پایا۔ پازیٹیوزم کے مطابق، واحد مستند علم، سائنس کا علم ہے، اور یہ علم خالص سائنسی طریقے سے نظریات کے مثبت تصدیق سے حاصل ہوسکتا ہے:
Positivism is the view that the only authentic knowledge is scientific knowledge, and that such knowledge can only come from positive affirmation of theories through strict scientific method.
مثبت طرز فکر (positive thinking)ایک علاحدہ اصطلاح ہے۔ یہ سنجیدہ انسان کی ایک صفت ہے۔ ایسا انسان، جو بے آمیز انداز میں سوچتا ہے، جو موضوعی (objective)انداز میں رائے قائم کرتا ہے، اس کی رائے مبنی بر حقیقت رائے ہوتی ہے، اس کی رائے بے لاگ رائے ہوتی ہے، اس کا نقطۂ نظر خالص فکری نقطۂ نظر ہوتاہے۔ اس طرزِ فکر کو دوسرے الفاظ میں ایز اٹ از تھنکنگ (as it is thinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی کسی کمی زیادتی کے بغیر عین حقیقتِ واقعہ کے مطابق سوچنا۔ پازیٹیو تھکنگ ایک عام فکر ہے، جب کہ پازیٹیوزم ایک فلسفیانہ اسکول کا نام ہے۔ پازیٹیوزم کے مطابق، معتبر علم صرف سائنسی علم ہی ہے۔
واپس اوپر جائیں
عملی دانش مندی در اصل حسنِ تدبیر کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک روش جو بظاہر نظری اعتبار سے درست نہ ہو، اس کو دانش مندانہ تدبیر کے طور پر اختیار کرنا، تاکہ عملی اعتبار سے کوئی غیر مطلوب نتیجہ سامنے نہ آئے۔ مثلاً آپ کے اور کسی شخص کے درمیان پراپرٹی کو لے کر ایک نزاع قائم ہوجائے۔اس وقت آپ اس پر مقدمہ بازی کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ کچھ نقصان اٹھا کر آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرلیں، تو یہ پریکٹکل وزڈم کی ایک مثال ہوگی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے والا تھا تو آپ نے لکھایا : ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ، تو اس پر فریق ثانی نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو پیغمبر نہیں مانتے، آپ محمد بن عبد اللہ لکھیے۔ آپ اس پر راضی ہوگئے ،اور معاہدے کے کاغذ پر لکھوایا: محمد بن عبداللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔ یہ پریکٹکل وزڈم کی ایک مثال تھی۔
سلطان ٹیپو میسورکی ایک بڑی سلطنت کا مالک تھے۔ ان کا مقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں سے ہوا۔ ٹیپو سلطان کے لیے اس وقت دو آپشن تھے۔ ایک یہ کہ وہ برٹش فوجوں سے صلح کرلے، اور دوسرا یہ کہ وہ برٹش فوجوں سے لڑائی کا طریقہ اختیار کرے۔ٹیپو سلطان نے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا۔ اس وقت اس نے یہ مشہور جملہ کہا تھا:شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 4 مئی، 1799 کو سرنگاپٹنم میں دورانِ جنگ اس کے قتل کے ساتھ اس کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ اس کے برعکس مثال حیدر آباد کے نظام کی ہے۔ ان کے سامنے بھی برٹش فوجوں سے لڑائی کا چیلنج تھا۔ مگر انھوں نے برٹش فوجوں سے لڑائی نہیں کی، بلکہ برٹش فوجوں سے صلح کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیدر آباد کی ریاست تقریباً دو سو سال تک قائم رہی، اور اس مدت میں اس نے بہت سے مفید کام کیے۔ اس مثال میں برٹش فوجوں سے صلح کرلینا، پریکٹکل وزڈم کا معاملہ تھا، اور برٹش فوجوں سے لڑجانا، پریکٹکل وزڈم کے خلاف ایک معاملہ تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم رہنما کی تعریف میں ایک مضمون دیکھا۔ اس کا ایک جملہ یہ تھا— انہوں نے ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ ہندستانی مسلمانوں کے مخصوص مسائل کے بارے میں گہرائی سے غور وفکر کیا، اورہمیشہ پوری بے باکی سے اس پر اظہارِ خیال کیا۔
مشہور شخصیتوں کے بارے میں اکثر اس طرح کا جملہ لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسائل پر بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیا ل کرنا، کوئی کام نہیں۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس طرح کے بےباکانہ اظہارِ خیال کا کوئی فائدہ نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ صورتِ حال کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ پھر مواقع کی دریافت کی جائے، لوگوں کو بتایا جائے کہ مسائل کے باوجود کون سے مواقع موجود ہیں، جن کو اویل (avail) کرکے ترقی کی طرف کامیاب سفر جاری کیا جاسکتا ہے۔’’بے باکانہ اظہارِ خیال‘‘ دراصل ری ایکشن (reaction) کا دوسرا نام ہے، اور ری ایکشن کا طریقہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ مسائل میں کمی کرنے والا۔
اس قسم کے بے باکانہ اظہارِ خیال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر منفی سوچ بڑھتے بڑھتے تشدد کی سوچ اختیار کرلیتی ہے۔ لوگ ذہنی طور پر اس قابل نہیں رہتے کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں، اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔
مبنی بر مسائل سوچ (problem-based thinking) کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہن منفی ذہن بن جاتاہے۔ وہ دوسروں کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں پر سوچتا ہے، لیکن خود اپنی کوتاہیوں کا جائزہ نہیں لیتا۔ اس کے اندر یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ہر معاملے میں غلطی دوسروں کی ہے، میری کوئی غلطی نہیں۔ ہر مسئلے کے ذمے دار دوسرے لوگ ہیں، میں ذمے دار نہیں۔ اس قسم کی ذہن سازی الٹی ذہن سازی ہے۔ ایسی ذہن سازی قوم کی خدمت نہیں ہے، بلکہ وہ قوم کو غلط رہنمائی کرنے کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں
میر تقی میر ایک اردو شاعر تھے۔وہ آگرہ میں 1723 ء میں پیدا ہوئے، اور لکھنؤ میں 1810ء میں
صبح گزری شام ہونے آئی میر تو نہ چیتا اوربہت دن کم رہا
یہ شعر میں نے اپنی نوجوانی کی عمر میں پڑھا تھا۔ اس وقت میں یوپی کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ اب میں خود بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر اسی تجربے سے گزر رہا ہوں، جو تجربہ اردو شاعر کو پیش آیا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ بڑھاپے کی بات کو کہنایا لکھنا اور چیز ہے، لیکن بڑھاپے کی عمر کا تجربہ کرنا، بالکل مختلف چیز ہے۔ نوجوانی کی عمر میں جب میں نے یہ شعر پڑھا تھا، تو یہ صرف ایک شعر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن آج جب میں اس شعر کو پڑھتا ہوں، تو وہ ایک حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ اب واقعۃً یہ محسوس ہوتا ہے کہ لمبی عمر گزرگئی، اور اب کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہا۔
ایک بار بیرونی سفر کے دوران میری ملاقات سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ہنسراج کھنہ سے ہوئی، وہ ریٹائر ہونے کے بعد دلی میں رہتے تھے، اور 2008 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ دورانِ سفر ان سے جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے بتایا کہ جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)بڑھاپے کی عمر میں میرے پاس قانونی مشورے کے لیے کبھی کبھی آتے تھے۔ ایک بار جے آر ڈی ٹا ٹا نے ان سے کہا تھا: کھنہ صاحب، مُولیہ (capital)تو کھا چکا ہوں، اب بیاج پر جی رہا ہوں۔
بے خبر انسان کے لیے موت صرف زندگی کے خاتمے کا نام ہے، لیکن جو انسان حقیقت سے باخبر ہو، وہ سوچے گا کہ زندگی کے پچھلے دن تو میں کھو چکا، اب زندگی کے چند دن جو باقی ہیں، کیا میں ان کو اویل کرسکتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں غفلت کی زندگی کو اپنے آخری دنوں میں ہوشمندی کی زندگی بنا لوں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں۔ اس کے اندر میں فائٹنگ اسپرٹ (fighting spirit) نہیں پاتا، اور دنیا میں ترقی کے لیے فائٹنگ اسپرٹ ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کی اس رائے سے اتفاق نہیں۔ اس دنیا میں ترقی کے لیے زیادہ بڑی صفت خود اعتمادی (self confidence) ہے۔خود اعتمادی کا مطلب ہےاپنے بل پر کام کرنا، دوسرے پر بھروسہ کرکے چھلانگ نہ لگانا۔ فائٹنگ اسپرٹ والا آدمی اکثر یہ غلطی کرتا ہے کہ وہ ایسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے، جو اس کی طاقت سے زیادہ ہو۔
اس کی ایک مثال امریکا کے محمد علی کلے (1942-2016)کا کیس ہے۔ وہ اپنی حد پر قائم نہیں رہا، وہ مس ایڈوینچرزم کا شکار ہوا۔ یہاں تک کہ پارکنسن کا مریض بن گیا، اور اپنے آپ کو کنگ آف دی ورلڈ کہنے والا انسان بےبسی کی حالت میں مرگیا۔ اس کے برعکس، دوسری مثال جے آر ڈی ٹاٹا (1904-1993)کی ہے۔وہ ویزن والا انسان تھا۔ وہ مسلمہ طور پر خود اعتمادی کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اس نے نہایت درست پلاننگ کی، اور صنعت کے میدان میں بڑی ترقی حاصل کی، وہ دنیا سے گیا تو اس نے اپنے پیچھے ایک صنعتی ایمپائر چھوڑا۔
عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک ممیز صلاحیت ہوتی ہے، تو اسی کے ساتھ کچھ مشترک صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک ایڈونچرسٹ آدمی آسانی سے مس ایڈونچرزم کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر جس آدمی کے اندر خود اعتمادی کی صلاحیت ہو، وہ عام طور پر حقیقت پسند بھی ہوتا ہے۔ اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ حقیقت پسندانہ منصوبہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے بارے میں زیادہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ سے اپنے آپ کو بچائے گا۔ کامیابی کے لیے صرف ایک صلاحیت کافی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر مجموعی اعتبار سے کچھ مثبت صلاحیتیں موجود ہوں۔
واپس اوپر جائیں
مرکزِ اطلاعات، فلسطین کی رپورٹ کےمطابق، مراکش کے جنوبی شہر یرکان سے تعلق رکھنے والا عبدالرحمن اوزار نابینا ہونے کے باوجود متعدد عالمی زبانوں فرانسیسی، جرمن، انگریزی، اور اسپانوی وغیرہ میں ماہر ہے۔ پیدائش کے دو ماہ بعد ایک بیماری کے سبب وہ بصارت سے محروم ہوگیا، لیکن اس کا نابینا پن اس کے حصولِ علم کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔ میٹرک تک ممتاز نمبروں سے کامیابی نے اس کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔ قاضی عیاض یونیورسٹی ، مراکش میں فرانسیسی ادب کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، طب کی تکمیل کے بعد اسلامیات میں گریجویشن اور اس کے بعد قوانینِ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اس کے علاوہ موسیقی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا کورس کیا۔ وہ حافظ بھی ہے۔(اخبار مشرق، دہلی، بحوالہ ماہنامہ معارف، اعظم گڑھ،فروری 2018) ۔
یہ واقعہ انسان کے پوٹنشیل کو بتاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان بے پناہ امکانات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، کوئی انسان محروم انسان کی حیثیت سے پیدا نہیں ہوتا، محرومی کسی واقعہ کا نتیجہ نہیں ہے، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ حتی کہ کوئی حادثہ انسان کے لیےفطری امکانات کو ختم نہیں کرتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی بے حوصلہ نہ ہو، بلکہ اپنے فطری امکانات کو دریافت کرے، اور مثبت ذہن کے ساتھ اس کی منصوبہ بندی کرے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں بہت ہیں، جب کہ ایک مرد یا عورت کو کوئی حادثہ پیش آیا۔ اس حادثہ نے اس کو بظاہر معذور (disabled) بنا دیا۔ لیکن انسان نے اپنی ری پلاننگ کی۔ اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اگر چہ بظاہر وہ ایک معذور انسان ہے، لیکن وہ ایک اور پہلو سے پوری طرح ڈفرنٹلی ایبلڈ انسان (differently abled person) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ اگر اس کی پہلی پلاننگ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو، تو وہ دوسری پلاننگ (re-planning) کے ذریعہ اپنے آپ کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ ہررکاوٹ کے بعد اپنے سفر کو از سر نو جاری رکھنے کا آرٹ جان لے۔
واپس اوپر جائیں
باس از آلویز رائٹ(Boss is always right)—کمپنی کلچر کا ایک بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کے بغیر کوئی اجتماعی کام نظم و ضبط کے ساتھ انجام نہیں دیا جاسکتا۔ اسی لیے ہر اجتماعی کام میں ایک شخص کو ذمہ دارِ اعلی بنایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ذمے دارِ اعلی پر اعتماد کرنا پڑتا ہے کہ وہ صحیح فیصلہ لے گا۔ بوقتِ فیصلہ باس کو کلی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ بعد کو باس کا احتساب کیا جائے، اور باس سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ اپنے فیصلے کا جواز ذمے دار لوگوں کو بتائے۔
جو شخص کسی کمپنی میں کوئی جاب کرے، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ باس از آلویز رائٹ کے اصول کو بلاشرط مانے۔ اس اصول کے معاملے میں کسی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔ کیوں کہ اس معاملے میں اگر استثنا کے اصول کو مانا جائے، تو کمپنی کا کام درست طور پر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ جو آدمی کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، اس کو یہ اختیار تو حاصل ہے کہ وہ جاب کو چھوڑدے، لیکن اس کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ باس از الویز رائٹ کے اصول کو ماننے سے انکار کردے، یا جاب پر رہتے ہوئے،اس کی خلاف ورزی کرے۔
باس از الویز رائٹ کوئی عقیدے کی بات نہیں، یہ ایک پریکٹکل وزڈم کی بات ہے۔کوئی آدمی جو کسی کمپنی میں جاب کررہا ہو، یہ اس کی ذاتی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے قواعد کو جانے، وہ کمپنی کے اصول و ضوابط کو پوری اسپرٹ کے ساتھ اپنائے۔ کوئی شخص جو کمپنی کے جاب میں ہو، اگر وہ اس اصول کی خلاف ورزی کرے، تو اس کو لازماً اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا۔ یہ کمپنی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس معاملے میں کارکن کو اس کی غلطی پر سزا دے، یا وہ اس کو معاف کردے۔اسی طرح یہ کارکن کی اپنی ذمے داری ہے کہ وہ کمپنی کے ضوابط سے مکمل طور پر باخبر رہے، تاکہ وہ پوری طرح ان ضوابط کا پابند ہو سکے۔ اس معاملے میں کارکن کی طرف سے کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ اس معاملے میں کارکن کی صرف ذمے داری ہے، کارکن کا کوئی ناقابل تنسیخ حق (irrevocable right) نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے آپ کے تعلق سے لکھا ہےکہ مولانا وحید الدین خان اپنی تصنیف ’’مسائلِ اجتہاد‘‘ میں لکھتے ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں۔ سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانب دارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک عملی تدبیر ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے۔‘‘ اسلام، سیرتِ رسولؐ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر درجنوں کتابیں تحریر کرنے اور منفرد انداز میں تفسیرِ قرآن لکھنے والے جناب مولانا وحید الدین خان صاحب نے سیکولرزم کی جو تعریف (definition) کی ہے، اسے نہ تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے صرفِ نظر کیا جانا چاہیے۔ گزارش مگر یہ ہے کہ ہمیں شیخی مارنے سے پرہیز کرتے ہوئے تحمل سے دوسرے کا نقطۂ نظر بھی سننے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔یہاں میرا سوال یہ ہے کہ واقعی کیا سیکولر زم کا مطلب لا مذہبیت نہیں، اس معاملے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ (محمد محب اللہ،دہلی)۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ مسلم رہنما جو شاید سیکولرزم کے حقیقی معنی سے بے خبر تھے، انھوں نے سیکولرزم کا ترجمہ لامذہبیت یا لادینیت کے لفظ سے کردیا۔ یہیں سے یہ غلطی پیدا ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرزم کا تعلق صرف پریکٹکل وزڈم سے ہے۔سیکولر زم کا صحیح مطلب ہے -مذہبی امور میں ناطرف داری (non-interference) کا کلچر، اورہر ایک کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنا:
Secularism seeks to ensure and protect freedom of religious belief and practice for all citizens. It is simply a framework for ensuring equality throughout society - in politics, education, the law and elsewhere - for believers and non-believers alike.
www.secularism.org.uk/what-is-secularism.html
جو لوگ خود ساختہ طور پر مذہب میں پالٹکس کو شامل کرتے ہیں، ان کو یہ تعریف موافق نہیں آتی۔ مگر یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے، علمی اعتبار سے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
Your analysis of our current circumstances and proposed solutions based upon it, are very logical, practicable and bound to produce results if followed in true spirit. Your guidance for Pakistani citizens on how to participate in these elections so that an honest and God-fearing team may come forth to lead the whole nation and the country to the right direction and the right path is highly required. It might prove quite beneficial for, at least, all those people, who want to use this voting opportunity to develop a better situation. Thanks. (M. Iqbal, Pakistan)
جواب
اس کا سوال کا جواب ایک حدیث رسول میں ملتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِی بَکْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:کَمَا تَکُونُونَ یُوَلَّى أَوْ یُؤَمَّرُ عَلَیْکُمْ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر
اس حدیثِ رسول پر غور کیجیے۔ اس حدیثِ رسول سے ایک اہم سیاسی اصول معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیثِ رسول میں کما تکونون کا مطلب یہ ہے کہ جیسا معاشرہ ہوگا، اور یولی او یومرکا مطلب ہے حکمراں۔ مزید غور کیجیے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جیسا تمھارا معاشرہ ہوگا، ویسے ہی تمھارے حکمراں ہوں گے۔
اب اس حدیث کا مطالعہ ایک آیت کی روشنی میں کیجیے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (
پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ 1947 میں جو پاکستان بنا تو تمام رہنماؤں نے یہ سمجھ لیا کہ ایک اسلام پسند قوم وجود میں آگئی ہے۔ اب کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ حکومت کی سیاسی زمامِ کار اس قوم کے حوالے کردی جائے۔ یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے جو چیز وجود میں آئی تھی، وہ جغرافیہ کی زمینی تقسیم تھی، نہ کہ بامقصدقوم کی تشکیل۔ لیکن تمام لیڈروں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ بیلٹ باکس سے مطلوب حکومت نکال سکتے ہیں۔ مگر آدھی صدی سے زیادہ مدت کی سرگرم کوشش کے باوجود نتیجے کے اعتبار سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔
1971 میں مَیں نے پاکستان کا سفر کیا تھا۔ اس وقت میں نے لاہور میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی قیام گاہ پر دوبار ان سے ملاقات کی تھی۔دورانِ گفتگو میں نے کہا تھا کہ آپ کی اسٹریٹیجی نتیجہ خیز ہونے والی نہیں۔ میرے الفاظ میں آپ کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ مسلم لیگ نے اسلامی پاکستان کے نام پر مسلم قوم کے اندر جو ٹیمپو (tempo) پیدا کیا ہے، آپ اس کو اپنی تحریک کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ ٹیمپو کوئی پیدا کرے، اور اس کو استعمال کوئی دوسرا کرے۔ یہ ٹیمپو یا تو مسلم لیگ کے لیے استعمال ہوگا، یا وہ استعمال ہی نہیں ہوگا۔ اس وقت مولانا مودودی نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا، اور پوری طاقت کے ساتھ الیکشن میں کود پڑے۔ انھوں نے پاکستان میں چار بار باقاعدہ طور پر الیکشن میں حصہ لیا، مگر ہر بار الیکشن میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی۔ ان کا مفروضہ ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہوا۔
اہل پاکستان کے لیے اس معاملے میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے ۔ وہ اپنی جدو جہد کو الیکشن سے شروع نہیں کرسکتے۔ انھیں ہر حال میں یہ کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑیں، اور کامل معنوں میں پر امن انداز میں پاکستانی قوم کی تعمیر کریں، یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے۔ پاکستان میں مطلوب حکومت ایک تیار شدہ معاشرے سے برآمد ہوگی، نہ کہ سیاسی ٹکراؤ سے۔
واپس اوپر جائیں
■ دعوتی اسفار:سینٹر فار اسلامک ریسرچ اینڈ اسٹڈیز (CIRS) کی جانب سے 7جنوری 2018 کو ایک سیمینار سماجی عدل اور مساوات کے عنوان سے محمڈن اسپورٹنگ کلب ،ساکچی ،جمشید پور میں منعقد کیا گیا۔ ادارہ کی طرف سے حافظ ابو الحکم محمد دانیال (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو سٹڈیز بہار و جھارکھنڈ )کو مدعو کیا گیا ۔اس دعوت پر ابوالحکم محمد دانیال صاحب نے جمشید پور کا دوروزہ سفر کیا ، اور سیمینار میں جمشید پور ٹیم کے ہمراہ شرکت کی اور موضوع پر خطاب کیا ۔سیمینار میں اعلی تعلیم یافتہ برادران وطن بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔جنہوں نے خطاب کو بہت پسند کیا۔پروگرام کے بعد حاضرین کو سیرت رسول(اردو ، ہندی)،The Age of Peaceاور Leading A Spiritual Life بطور اسپریچول گفٹ دیا گیا۔ دوسرے دن ۸جنوری کو الحراء لائبریری میں ایک نشست ’’دعوت کا طریقۂ کار‘‘ پر ہوئی۔جس میں جناب حافظ ابوالحکم محمد دانیال صاحب نے سوال و جواب کے انداز میں گفتگو کی ۔اس کے بعد جناب ایاز صاحب کی رہائش گاہ پر مختلف لوگوں کے ساتھ میٹنگیں ہوئیں، جن میں الرسالہ مشن پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس کے بعد
■ 4 مارچ 2018 کو سی پی ایس ممبئی ٹیم نے پونے کا سفر کیا۔ یہ سفر سوئزر لینڈ کے مسٹر حسنو (Husnu)سے ملاقات کی غرض سے کیا گیا تھا۔مسٹر حسنونے ابتدائی ایام میں یورپین ممالک کے اندر قرآن ڈسٹریبیوشن میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی مدد کی تھی۔ وہ دو مہینے کے لیے پونے آئے ہوئے تھے۔ ان سےممبئی ٹیم کی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات رہی۔ ان سے صدر اسلامی مرکز کے کتابوں اور دعوہ لٹریچر کو جرمن زبان میں ٹرانسلیٹ کرنے پر گفتگو ہوئی، اور ان کو بتایا گیا کہ فی الحال ہمارے پاس صرف جرمن ترجمۂ قرآن اور واٹ از اسلام ہیں۔ انھوں اپنی فیملی کے ساتھ سی پی ایس کا بھرپور تعاون کرنے کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی انھوں نے جرمن حکومت کے اعلىٰ عہدیداروں کے درمیان دعوہ ورک کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
■
■ ساری دنیا میں قرآن کو پڑھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ نومبر 2017 کے خبرنامہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ ایمسٹرڈم کے ہوٹل میرٹ (Marriott) نے ڈاکٹر ثانی اثنین خان ( ٹرسٹی سی پی ایس انٹرنیشنل، وڈائریکٹر گڈورڈبکس ،نئی دہلی)سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کو اپنے ہوٹل روم کے لیے ترجمۂ قرآن چاہیے۔ اس وقت ان کو فوراً مطلوب تعداد میں ترجمۂ قرآن بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن دنیا میں قرآن کو پڑھنے کا رجحان اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ ہوٹل میں ٹھہرنے والے لوگ ہوٹل سے قرآن اٹھا کر لے گئے۔ اس کے بعد
I really need more copies of the Koran. Many guests are taking away Koran copies with them. Many rooms are without the Koran. Can we get 100 copies. (Charith Perera, Manager, Courtyard by Marriott Amsterdam Airport)
■
■ مسٹر جاوید احمد (سی پی ایس، کولکاتا) کے ایک فعال ممبر ہیں۔ مارچ (2018) کے مہینے میں ان کا اپنے آبائی وطن نوادہ، بہار جانا ہوا۔ وہاں انھوں نے اپنی بھتیجی مز شبینہ پروین کے ساتھ ناردی گنج کے انگلش اسکول کے اساتذہ کو انگلش بک لٹس کا ایک ایک سٹ بطور تحفہ دیا گیا، جسے ان تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اسی کے ساتھ انھوں نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو بھی کتابیں دیں،اور مشنری اسکول سینٹ جوزیف (ناردی گنج) کے پرنسپل کو انگلش قرآن اور ریلٹی آف لائف بطور گفٹ دیا، جسے انھوں نے شکریہ اور مسرت کے ساتھ قبول کیا۔
■ مسٹر رفیق احمد تاشے والا(۹۸۴۴۱۳۹۶۱۱)، رانی بنور ،کرناٹکا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک متحرک سی پی ایس ممبر ہیں۔ پیشے سے اسکول ٹیچر ہیں، وہ خود بھی ماہنامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اور بڑی تعداد میں دوسروں کو پڑھنے کے لیے دیتے ہیں۔ مثلاً انھوں نےمارچ 2018 میں ماہنامہ الرسالہ کی100 کاپیاں اردو داں طبقے میں تقسیم کی ہیں۔ اسی طرح غیر مسلموں کے درمیان بڑی تعداد میں کنڑا ترجمہ قرآن تقسیم کیا ہے۔ مسٹر رفیق بطور خاص ٹیچروں کے درمیان کام کرتے ہیں۔
■ محمد یونس لٹیانی صاحب ( 09131251641) کا تعلق بھوپال، مدھیہ پردیش سےہے۔وہ الرسالہ مشن کے پرانے ممبر ہیں، اور بہت عرصے سے دعوہ ورک کر رہے ہیں۔ ان کےدعوہ ورک کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ شادی کی کسی محفل میں شرکت کرتے ہیں، تو وہ وہاں اپنی جیب خاص سے کثیر تعداد میں مختلف زبانوں میں قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیمِ کرتے ہیں۔ مثلاً مؤرخہ
■ رشین کلچرل سینٹر( رشین کونسلیٹ ،چنئی) نے الور پیٹ، چنئی میں 7 اپریل 2018 کو ایک تقریب منعقد کی تھی۔ اس موقع پر سی پی ایس (چنئی) کے کلو ندیم صاحب نے اس پروگرام میں شرکت کی، اوردیگر لوگوں کے علاوہ نائب کونسل (کلچرل ) مسٹر میخائل گورباتوف (Mikhail Y. Gorbatov) کو ترجمہ قرآن بطور تحفہ دیا۔
■ سی پی ایس سہارن پورکی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان جگہوں پر بھی دعوتی کام کرتی ہے، جہاں عام داعی نہیں جاسکتا۔ مثلا ً 7 اپریل 2018کوزی میڈیا کے ڈائریکٹر مسٹر پردیپ دیانا، اور مسٹر راکیش سریواستو ڈاکٹر محمد اسلم خاں کو زی میڈیا کے شو میں شرکت کے لیے دعوت دینے آئے تھے۔ ان کو سی پی ایس کا لٹریچر بطور تحفہ دیا گیا، جسے ان لوگوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔
■ فرات انسٹیٹیوٹ (Euphrates Institute) ایک امریکی این جی او ہے، جو عالمی پیمانے پر سماجی امن اور مذہبی رواداری کے لیے کام کرتا ہے۔ انھوں نے
■ رامانوجن کالج (دلی یونیورسٹی)کے ادارہ تبت ہاؤس کلچرل سینٹر اور سینٹر فار ایتھکس اینڈ ویلوز نے عالمی اخلاقیات پر دوسرا کانکلیو
■
■ سی پی ایس علما ٹیم نے
■ مسٹر کنال دیشپانڈے پونے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بطور سیاحت کشمیر گئے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک کشمیری مسلمان، مسٹر ایوب سے ہوئی۔ مسٹر ایوب نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ انھیں ترجمۂ قرآن گفٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے مسٹر ایوب نے کشمیر ٹیم کے مسٹر حمید اللہ حمید صاحب سے گفتگو کی۔ اسی اثنا میں مسٹر کنال اپنا رابطہ نمبر ایوب صاحب کو دے کر اپنے وطن واپس آگئے۔ مسٹر حمید اللہ حمید نے سی پی ایس پونے کے جناب عبد الصمد صاحب سے رابطہ کیا ، اور قرآن پہنچانے کی درخواست کی۔ چنانچہ عبد الصمد صاحب نے 20 مئی 2018 کو مسٹر کنال دیشپانڈے کومراٹھی ترجمۂ قرآن، دی ایج آف پیس اور دوسری دعوتی کتابیں پہنچائی۔ اسی دن عبدالصمد صاحب نے مہارشٹر کے مشہور میڈیا گروپ ساکال کے بکس اور پبلیکیشن مینیجر مز ایشویریہ کمتھکال کو بھی مراٹھی ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوہ لٹریچر دیا۔
■
■ صدر اسلامی مرکز کی فکر پر دنیا کے مختلف ممالک میں اکیڈمک ریسرچ کا کام ہور ہا ہے۔ مثلاً مسٹر فیصل شہزاد سرگودھا یونیورسٹی، پاکستان سے صدر اسلامی مرکز کے سفرناموں پر ایم فل کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اسی طرح عرب نوجوان یحیٰ بن حبیب عبد اللطیف تیونس کی زیتونیہ یونیورسٹی سے جولائی 2018 میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کرچکے ہیں۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا: تجدید علم الکلام عند وحید الدین خان ۔ریسرچ کا کام انھوں نے دکتور محمد المستیری کی نگرانی میں مکمل کیا۔
■ Br. Khaja Kaleemuddin, We just received two pallets of the Quran before our major event. We are very excited. May Allah reward you and all your dawah team in the US and in India. Special thanks and prayer for our Sheikh Maulana Wahiduddin. May God keep him always in good health and always increase him in knowledge and wisdom and accept his services for conveying the message of Truth. Please covey our salaam to him from Why Islam team in Los Angeles. (Br. Hussain)
■ I had an incredible experience. I lost my hand luggage in the domestic airport and hunting it across airport made me the last person to reach the boarding gate. And there was a VIP entering the same time. It was none other than Ram Vilas Paswan. I quickly took out a copy of the Quran and gave it to him. When he saw what it was, he humbly accepted and asked if he could contact me. I said details of the translator are printed and he is my Guru Maulana Wahiduddin Khan. It was God who made me forget my hand luggage so I could meet him in the end. It was a radio and it was lying for two hours in the same place I forgot it. And I was surprised it went in unnoticed by all passengers and high security. God is with us. (Asad Pervez, New Delhi)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.