قرآن دین خداوندی کو سمجھنے کا واحد مستند ماخذ ہے۔ قرآن اللہ رب العالمین کی آخری کتاب ہے۔ وہ ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا۔ یہ قبل از سائنس دور (pre-scientific age) کا زمانہ تھا۔ اس وقت اگر قرآن میں وہ اسلوب اختیار کیا جاتا جو سائنس کے ظہور کے بعد بیسویں صدی میںرائج ہوا ہے۔ تو یہ اس مشہور مثل کا مصداق بن جاتا:
Putting the cart before the horse
یعنی سائنٹفک اسلوب کے ظہور سے پہلے سائنٹفک اسلوب میں بات کرنا۔ قرآن و حدیث میں اعلیٰ معرفت کی باتیں ہیں، لیکن اس کا اسلوب قدیم ہے۔ اگر یہ باتیں جدید اسلوب کلام میں ہوتیں تو اس قسم کی باتیں معاصر مخاطبین کے لیے معمہ بن جاتیں۔ سننے والوں کا ذہن ایڈریس نہ ہوتا، اور کلام میں وہ تاثیر پیدا نہ ہوتی جو مطلوب تھی۔
مثال کے طور پر حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے۔ قدیم عراق کے بادشاہ سے ان کا ایک دعوتی مکالمہ ہوا۔ اس میں انھوں نےبادشاہ سے ایک بات یہ کہی:فَإِنَّ اللَّہَ یَأْتِی بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ (
اسی طرح کی ایک اور مثال یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینے میں سورج گرہن (solar eclipse) پڑا، اتفاق سے اس دن پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا۔ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ آج پیغمبر کے بیٹے کا انتقال ہوا ہے، اس لیے سورج گرہن لگا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس موقع پر لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ان کو خطاب کیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان دونوں پر گرہن نہ کسی کی موت سے لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر
Eclipse is an astronomical phenomenon. It occurs due to the well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time in the vast space.
پیغمبر اسلام اگر ایسی زبان بولتے تو وہ لوگوں کے لیے معمہ بن جاتا۔ آپ لوگوں کے اندر جو مبنی بر ذکر اللہ سوچ پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ پیدا نہ ہوتی۔قرآن فہمی کے سلسلے میں اس اسلوب کو جاننا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ اس اصول کو نہ جانیں، وہ موجودہ زمانے میں قرآن کے اعلیٰ معانی کو سمجھ نہیں سکتے، خواہ وہ روایتی قسم کے فنون میں کتنے ہی زیادہ مہارت رکھتے ہوں۔
چند مثالیں
دور نبوت کے اسلام میں کئی چیزیںعصری حالات (age factor) کی بنا پر ظہور میں آئیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ایک متلاشی (seeker) انسان تھے۔ آپ اکثر خاموش رہتے، اور سوچتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں آپ اکثر تنہا غار حرا (cave of Hira) میں چلے جاتے، اور وہاں کئی دن تک قیام کرتے۔ یہ غار جبل حرا کے اوپر واقع تھا، وہ مسجد حرام سے تقریباچار کلو میٹر کی دوری پر تھا۔ وہاں آپ کھانے پینے کا کچھ معمولی سامان لے کر جاتے اور کئی روز قیام کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول عصری کلچر کی بنا پر تھا۔ اس زمانے کے حنفاء پہلے سے ایسا ہی کر رہے تھے۔ حنفاء کا لفظ قدیم زمانے میں متلاشیان حق (truth seekers)کے لیے بولا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غار حرا نبوت کا کوئی مقدس حصہ نہیں۔ کسی نبی کا ظہور اگر موجودہ زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھاکہ وہ موجودہ زمانے کی انٹرنیشنل لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرتا،اور انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت کرتا۔
قتل وقتال کا معاملہ
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قتل و قتال کے معاملے کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا۔ مثلاً اس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (
اس طرح کی آیتوں اور حدیثوں کو دیکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد بالسیف مطلق معنوں میں کوئی بہت بڑی بات ہے۔ یعنی جس طرح تم نماز پڑھتے ہو، اسی طرح مفروضہ طور پر کچھ لوگوں کو دشمن قرار دے کر ان سے ہمیشہ لڑتے رہو۔ مگر باعتبار حقیقت ایسا نہیں ہے۔ جہاد بالسیف ایک موقت(وقتی) حکم ہے، وہ ایمان اور نماز، وغیرہ کی طرح ہردن اور ہر زمانے میںجاری رہنے والا مطلق اور ابدی حکم نہیں ہے۔ جیسا کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے اصحاب کوایک نصیحت کی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:اے لوگو، دشمن سے مقابلہ کی تمنا مت کرو، اور اللہ سے عافیت مانگو (لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ)، لیکن جب مقابلہ ہو تو جم کر مقابلہ کرو، اور یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر2966)۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جہاد بالسیف کوئی مطلق حکم کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اس وقت کا معاملہ ہے جب کہ فریق ثانی کے اقدام کی بنا پر اس کی صورت پیش آجائے۔ چناں چہ فقہاء نے بتایا ہے کہ جہاد بالسیف حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لغیرہ ہے (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن ابراہیم التویجری، بیت الأفکار الدولیة، 2009، 5/449-50)۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا مشن اصلاً توحید کا مشن تھا۔ یعنی وہی مشن جو تمام ابنیا ء کا ہمیشہ سے مشن رہا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ آپ کی ایک مزید ذمے داری (additional duty) یہ تھی کہ آپ دنیا سے دورِ جبر (age of despotism)کا خاتمہ کردیں۔ دورِجبر اللہ کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن فہمی کے بارے میں دو آیتیں ان الفاظ میں آئی ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْک َ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (
مثلاً قرآن میں ماہ رمضان کا بیان ہے، اس کے بعد فرمایا: فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (
اس سلسلے میں دوسری اہم آیت یہ ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (
خواہ قرآن کے مطالعے کے لیے صحیح طریقۂ کار کا معاملہ ہو یا قرآن کے مطالعے سے نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ ہو ، دونوں معاملوں میں ایک ہی درست معیار ہے، وہ معیار جو قرآن سے ثابت ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ سے کوئی معیار قائم نہ کرے۔ بلکہ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرکے اس سے درست معیار کو اخذ کرے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسو ل ان الفاظ میں آئی ہے:کُلُّ کَلَامٍ، أَوْ أَمْرٍ ذِی بَالٍ لَا یُفْتَحُ بِذِکْرِ اللہِ، فَہُوَ أَبْتَرُ - أَوْ قَالَ:أَقْطَعُ - (مسند احمد، حدیث نمبر 8712)۔ یعنی ہر کلام یا اہم معاملہ جس کو اللہ کے ذکر سے شروع نہ کیا جائے تو وہ دم بریدہ یا کٹا ہوا ہے۔یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہے۔ ان کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ جس کا کام آغاز بسم اللہ سے کیا جائےاس کا انجام بہتر ہوگا، اور جس کام کا آغاز بسم اللہ سے نہ کیا جائے ا س کا انجام بے نتیجہ ہوگا۔
بسم اللہ سے آغاز کا مطلب محض لفظی آغاز نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب کام میں خدائی اسپرٹ کا ہونا ہے، نہ کہ لفظی اعتبار سے دہرادینا۔ بسم اللہ سے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کو صحیح رخ سے آغاز کرنا۔ کسی کام کو حوصلہ مندانہ اسپرٹ کے ساتھ آغاز کرنا، کسی کام کو اس ذہن کے ساتھ آغاز کرنا کہ کرنے والا اگر چہ انسان ہے، لیکن اس کی تکمیل اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ رب العالمین ضرور اس کام کو تکمیل تک پہنچائے گا۔
کسی کام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنے ذاتی عزم (determination) کے ساتھ اللہ رب العالمین کی رحمت کو بھی پوری طرح شامل کر لیا ہے۔ اس نے اپنے اندر یہ اسپرٹ شامل (inculcate) کرلیا ہے کہ خواہ حالات کچھ بھی پیش آئیں، اس کی نظر حالات کے بجائے اللہ کی رحمت پر ہونی چاہیے۔
بندے کے وسائل ہمیشہ محدود ہوتے ہیں، لیکن اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ ایسی حالت میں کسی کام کو شروع کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی حقیقت کو یاد کرنا، یہ معنی رکھتا ہے کہ بندے نے اپنی محدودیت کے ساتھ اللہ کی لامحدودیت کو اپنے ساتھ شامل کر لیا ہے۔ اس نے امید کے ساتھ یقین کو اپنا سہارا بنا لیا ہے۔ بندے کی طرف سے یہ اسپرٹ گویا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ یہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نماز اسلام کی بنیادی عبادت ہے۔ نماز میں بار بار یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امر واقعہ کا اعلان ہے۔ یہ کوئی کلمۂ فخر نہیں، بلکہ یہ کلمۂ واقعہ ہے۔ انسان پیدا ہونے کے بعد اپنے چاروں طرف ایک عظیم کائنات کو دیکھتا ہے۔ وہ حیرانی کے ساتھ جاننا چاہتا ہے کہ کون اس دنیا کا خالق ہے، کون اس دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے، کون اس دنیا کی عظیم ہستی ہے،جس کا وہ اعتراف کرے، اور جس کے آگے وہ ہمیشہ کے لیے جھک جائے، جس کے آگے اپنے پورے وجود کے ساتھ وہ خود کو سرینڈر کردے، جس کے آگے وہ اعتراف کی علامت کے طور پر سجدے میں گر پڑے، جس کے آگے وہ اپنے آپ کو سپرد کرکے اپنی روح کو یہ تسکین دے کہ میں نے اپنے خالق کو پالیا، میں نے اپنے رب کو دریافت کرلیا، میں نے اس ہستی کو جان لیا جو مجھ کو ہر چیز کا دینے والا ہے۔
انسان اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی یہ تجربہ کرتا ہے کہ اس کائنات میں ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے۔مثلا ایک بے حد کامل نظام کے تحت یہاںوہ تمام چیزیں موجود ہیں، جن کے مجموعے کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاسکتاہے— سور ج کے ذریعے روشنی، ہوا کے ذریعے آکسیجن، بارش کے ذریعے پانی، سوئل (soil) کے ذریعے خوراک، استحکام کے لیے زمین کی کشش، اور تہذیب بنانے کے لیے ٹکنالوجی،وغیرہ۔ اس طرح کی ان گنت چیزیں اس کو رات دن بلاقیمت سپلائی ہورہی ہیں۔ انسان پیدا ہونے کے بعد رات دن ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کی روح کسی دینے والے کے لیے سرتاپا شکر گزار بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر یہ طلب آخری حد تک جاگ اٹھتی ہے کہ وہ اپنے رب کو پائے، اور سجدۂ اعتراف کے طور پر اس کے آگے پورے وجود کے ساتھ اپنے آپ کو سرینڈر کردے— اسی کیفیت کا نام ایمان باللہ ہے، اور ابدی جنت اسی ایمان باللہ کی قبولیت کے طور پر رب العالمین کا انعام (reward)ہے۔
واپس اوپر جائیں
انابت کا لفظی مطلب ہے، لوٹنا، بار بار لوٹنا: رجوع الشیء مرّة بعد أخرى (to return from time to time)۔ یہی انابت کی اصل ہے۔ انابت کے تمام استعمالات میں یہی مفہوم بطور اصل پایا جاتا ہے۔ یہ لفظ جب اللہ کی نسبت سے بولاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر ڈسٹریکشن کے بعد دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہونا۔ انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ خالق کا تصور اس کی فطرت کےساتھ پوری طرح وابستہ (interwoven)ہے۔ یہ وابستگی اتنی گہرائی کے ساتھ ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اور غور وفکر سے کام لیتا ہے تو خالق کے ساتھ اس کی فطرت کی یہ وابستگی اور بھی زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔
مگر اسی کے ساتھ دوسری حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ایک ایسی دنیا میں پیدا کیا گیا ہے، جہاں ہر وقت اس کا سابقہ خالق کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی توجہ اپنے خالق سے دور (distract) ہوجاتی ہے۔ وہ خالق کے بجائےکسی اور کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کو خالق کی معرفت ہوچکی ہو، اس نے اپنے رب کو دریافت کرلیاہو تو خدا کے ساتھ اس کا گہرا تعلق بار بار زندہ ہوگا۔ وہ بار بار اپنے رب کی طرف لوٹے گا، اسی کو رجوع الی اللہ کہا گیا ہے، یعنی رجوع الی اللہ اور انابت دونوں اپنے معنی کے اعتبار سے ایک ہیں۔
انابت، صاحبِ معرفت انسان کی ایک مستقل خصوصیت ہے۔ جس آدمی کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوچکی ہو، وہ اپنے اندرونی تقاضے کے تحت اس کا تحمل نہیں کرے گا کہ اس کی توجہ اپنے رب کی طرف سے ہٹ کر کسی اور کی طرف چلی جائے۔ اس لیےاس طرح کی صورت حال میں وہ بار بار لوٹے گا، اور مزید شدت کے ساتھ اپنے رب سے جڑ جائے گا— اسی کا نام توجہ الی اللہ یا انابت الی اللہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
جنت ایک صاحب معرفت کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ جنت کے بارے میں پیغمبر اسلام کی بہت سی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّہُ لا یُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُہُ،قَالُوا:وَلاَ أَنْتَ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللَّہُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَة(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6467)۔ یعنی درستی اوراعتدال پر قائم رہو اور پر امید رہو ، کیوں کہ کسی کا عمل اسے جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں، اے اللہ کےرسول۔ آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ مغفرت اور رحمت سے مجھ کوڈھانپ لے۔
جنت انسان کا ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جنت وہ آئڈیل دنیا ہے، جہاں انسان کو ابدی عمر ملے گی۔ جہاں کسی قسم کا حزن (sorrow) نہ ہوگا۔ جو ہر قسم کی محدودیت (limitations) سے خالی ہوگی۔ جہاں انسان کو کامل معنوں میں فُل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ جہاں نہ کوئی تکلیف ہوگی، اور نہ کوئی بورڈم (boredom) ہوگا۔ ایسی دنیا بلاشبہ ایک بیحد قیمتی دنیا ہے۔ کوئی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ دنیا کی قیمت ادا کرسکے۔
یہ جنت کسی کو اس کے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی۔ وہ صرف ان منتخب افراد کو ملے گی، جن کو رب العالمین اس قابل پائے کہ وہ جنت میں اعلیٰ اخلاق ( سورۃالقلم،
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَأَحَدُہُمْ بِمَسْکَنِہِ فِی الجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2440)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں محمد کی جان ہے، ان میں کا کوئی شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا کہ وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔ دنیا کی زندگی میں جو گھر آدمی کو رہنے کے لیے ملتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو جنت نہیں ہوتا۔ لیکن اگر انسان اس کو ایک خدائی عطیے کے طور پر دریافت کرے تو اس کا گھر اس کو اتنی بڑی نعمت معلوم ہوگا، جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں اس کا جنتی گھر دے دیا۔
ایک مومن دنیا میںاپنا ایک گھر بنائے، اور وہ وہاں رہنا شروع کردے۔ تو اس کی معرفت کی بنا پر اس کے لیے یہ گھر عام قسم کا ایک گھر نہیں ہوگا۔ وہ ہر لمحہ اپنے دنیا کے گھر کی صورت میں جنت کے گھر کو دریافت کرے گا۔اس کا نعمت سے بھرا ہوااحساس اس کے لیے اپنے گھر کو ایک اعلیٰ تجربہ بنادے گا۔ وہ ہر چیز میں اللہ کی نعمت کو دریافت کرے گا۔ وہ ہر چیز میں اپنے جنتی گھر کی جھلک دیکھے گا۔ یہ احساس دھیرے دھیرے اتنا شدید بن جائے گا کہ اس کو محسوس ہوگا جیسے کہ اللہ نے اس کو اسی دنیا میں پیشگی طور پر وہ گھر دے دیا ہے جو جنت کی دنیا میں اس کو ملنے والا ہے۔
اس کا یہ بڑھا ہوا احساس اس کو اس قابل بنادے گا کہ وہ ایسی دعائیں کرے جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والی ہوں، جو اس کے لیے اسم اعظم کی دعا بن جائے۔ مثلاً شکر کے گہرے احساس کے ساتھ اس کی زبان سے نکلے گا کہ خدایا تو نے اسی دنیا میں مجھ کو ایک جنتی گھر دے دیا ۔ اب کیا تو ایسا کرے گا کہ آخرت میں مجھ سے میرا جنتی گھر واپس لے لے۔ کیا تیرے رحیم و کریم ہونے کی صفت یہ چیز گوارا کرے گی کہ ایک چیز مجھ کو دےدے ، اور پھر اس کو مجھ سے واپس لےلے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں جنت کی زندگی کے بارے میں مختلف بیانات آئے ہیں۔ ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِی شُغُلٍ فَاکِہُونَ (
Indeed the companions of Paradise, that Day, will be amused in joyful occupation .
جنت میں جو چیزیں اہل جنت کو ملیں گی، ان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مشابہ (سورۃ البقرۃ،
حدیث میں آیا ہے کہ َحُجِبَتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6487)۔ یعنی جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔موجودہ دنیا اپنی حقیقت کے اعتبار سے جنت کی مانند ہے۔ لیکن اس کے اوپر انسانی آلودگی (man-made pollution) کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت کی دنیا ہر اعتبار سے انسانی آلودگی سے پاک ہوگی۔ اس لیے جنت کامل معنی میں شغل فاکہہ کی دنیا بن جائے گی۔ یعنی پر مسرت سرگرمیوں (pleasant activities) کی دنیا۔جنت میں وہ تمام سرگرمیاں جاری رہیں گی جو انسانی فطرت کا تقاضا ہیں۔ لیکن موجودہ دنیا میں انسانی آلودگی کی بنا پر یہ سرگرمیاں پُرمسرت سرگرمیاں نہیں بنتیں۔ لیکن جنت کی دنیا میں انسان کی تمام سرگرمیاں جنت کے حالات کی بنا پرپُر مسرت سرگرمیاں بن جائیں گی۔ مثلا دنیا میں بورڈم ہے، مگر جنت میں بورڈم جیسی کوئی چیز موجود نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے 100 دن پورے کرنے کے بعد ایک انٹرویو دیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک بات کہی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وائٹ ہاؤس میں بحیثیت صدر داخل ہونے سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ وائٹ ہاؤس میرے خوابوں کی دنیا ہے۔ لیکن ایسا نہ تھا۔وائٹ ہاؤس میرے لیے ایر کنڈیشنڈ قفس کی مانند بن گیا۔ وائٹ ہاؤ س سے پہلے کا دور میرے لیے ناسٹلجیا (nostalgia) بن گیا۔
یہی اس دنیا میں ہر آدمی کا معاملہ ہے۔ ہر آدمی گویا جنت کی تلاش میں ہے۔ ہر آدمی اپنی ساری کوشش سے اپنے لیے خوابوں کی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے— کوٹھی، بنگلہ، محل ، فارم ہاؤس، وغیرہ۔ مگر جب وہ اپنی اس دنیا میں داخل ہوتا ہے، تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ کہیں اور آگیا ہے۔ یہ دنیا وہ دنیا نہیں جو اس کی خوابوں میں بسی ہوئی تھی۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا تعمیر جنت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ تعمیر شخصیت کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کا مقصد یہ ہے کہ آدمی یہاں مختلف حالات کے درمیان اپنے اندر وہ شخصیت بنائے جو اگلے مرحلۂ حیات میں جنت میں داخلے کےلیے منتخب کی جائے۔ مگر انسان غلطی سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اپنی جنت اسی دنیا میں بنا سکتا ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ شاندار امنگوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے، مگر آخر میں ہر ایک کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ مایوسی (frustration) میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور ناکامی کی موت مرکر اس دنیا سے چلاجاتا ہے۔
امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مثال ہر ایک کی مثال ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ اگر انسان ایسا کرے تو اس پر کبھی مایوسی کا دور نہیں آئے گا۔ وہ ایک کامیاب زندگی جیے گا، اور جب وہ اس دنیا سے جائے گا تو اس احساس کے ساتھ جائے گا کہ اس نے اپنی مطلوب منزل کو پالیا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورۃ التین میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا، اس کے بعد اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب ایک اور حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْر(صحیح مسلم، حدیث نمبر
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عمومی طور پر اس کا حال یہ ہے کہ وہ احسن تقویم کا تحمل نہیں کرپاتا۔ وہ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کسی کے اندر یہ نفسیات کم ہوتی ہے، اور کسی کے اندر زیادہ۔انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج ہو، اور یہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ انسان آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)ہوجائے۔ جب انسان کٹ ٹو سائز ہوتا ہے، اس وقت اس کے اندر تواضع (modesty)آتا ہے۔ وہ حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ اس کے اندر اپنے محاسبے کامزاج پیدا ہوتا ہے۔ وہ متکبر انسان کے بجائے متواضع انسان بن جاتا ہے۔ اس کے اندر خودپسندی کے بجائے خدا پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ آخری حد تک سنجیدہ (sincere) بن جاتاہے۔ اس کے ذہن کی تمام بند کھڑکیاں کھل جاتی ہیں، یہ صفتیں آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنے پوٹینشل کو ایکچول بنائے۔
یہ صفات آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اللہ رب العالمین کے مقابلے میں حقیقی معنوں میں عبد بن جائے۔ وہ قادرِ مطلق خدا (all-powerful God) کے مقابلے میں عاجز مطلق (all powerless) کی دوسری حد (extent) بنائے۔
انسان چوں کہ اس دنیا میں ایک مکرم مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے تمام انسان کسی نہ کسی درجے میں کبر (arrogance) کا کیس بن جاتے ہیں۔ یہ نفسیات انسان کی ترقی میں حتمی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کا موثر حل صرف یہ تھا کہ انسان کے اوپر اس معاملے میں دباؤ (compulsion)پیدا کیا جائے۔ یہی کمپلشن پیدا کرنے کے لیے خالق نے انسان کو احسن تقویم ہونے کے باوجود اسفل سافلین کی حالت میں ڈال دیا۔ اگرچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اس شدید تجربے کے باوجود تاریخ میں بہت کم انسان ایسے نکلے جو اس معیار پر پورے اتریں۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو شاید پوری تاریخ گزرجاتی، اور کوئی ایک انسان بھی ایسا پیدا نہ ہوتا جو اللہ کے عظیم عطیے کو پاکر حقیقی معنوں میں اس کا بندہ ٔشاکر بن جائے۔
احسنِ تقویم سے مراد فطرت کا عطیہ ہے، اور اسفل سافلین سے مراد وہ ناپسندیدہ صورت حال ہے، جو اسباب و علل کے تحت انسان کو پیش آتی ہے۔ اگر آدمی حالات کو مینج (manage)کرنا سیکھ لے، تو وہ اس آزمائش میں بچ جائے گا، اور اگر وہ آرٹ آف مینجمنٹ نہ جانے تو وہ آزمائش کا شکار ہوکر ناکام رہےگا۔ اس دنیا میں کامیابی اور ناکامی دونوں انسان کا اپنا فعل ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز میں سوچے۔ منفی انداز فکر انسان کو بگاڑتا ہے، اور مثبت انداز فکر انسان کو بچالیتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
جنتی دنیا میں انسان کامل آزادی کے ساتھ رہے گا، لیکن وہ اتنا زیادہ پختہ اور اتنا زیادہ با شعور ہوگا کہ وہ کسی بھی حال میںاپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پوری طرح آزاد ہوتے ہوئے بھی پوری طرح ڈسپلن میں رہے گا۔یہی وہ انسان ہے جس کے سلیکشن کے لیے موجودہ زمینی سیّارہ بنایا گیا۔ موجودہ دنیا میں بھی وہ سارے حالات پائے جاتے ہیں جو جنتی دنیا میں موجود ہوں گے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ کون انسان ہے جس نے ہر قسم کے حالات سے گزرتے ہوئے جنتی کیریکٹر کا ثبوت دیا۔ اُسی انسان کا انتخاب کرکے اس کو جنتی دنیا میں ابدی طورپر بسا دیا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
یہود کی تاریخ کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا ہَذِہِ الْقَرْیَةَ فَکُلُوا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَکُمْ خَطَایَاکُمْ وَسَنَزِیدُ الْمُحْسِنِینَ۔ فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ (
یہی واقعہ بدلی ہوئی صورت میں امتِ مسلمہ کے ساتھ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا زمانہ تھا، وہ زمانہ جس میں مواقع (opportunities)کا انفجار تھا ،جہاں ان کے لیے ہر قسم کے مواقع اعلیٰ پیمانے پر موجود تھے۔ اس زمانے کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے بہت پہلے کردی تھی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ آفاق و انفس کی نشانیاں دینِ اسلام کی صداقت بن جائیں گی(سورۃ فصلت،
واپس اوپر جائیں
قرآن میں دو دنیاؤں کا ذکر ہے۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسری مادی دنیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، انسانی دنیا عملاً دار الفساد بنی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (
دوسری دنیا وہ ہے، جس کو سمجھنے کے لیے ہم فطرت کی دنیا کہہ سکتے ہیں۔ فطرت کی دنیا سے مراد وہ مادی دنیا ہے، جو قوانین فطرت (laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔ اس دنیا کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک آئڈیل ورلڈ ہے ۔ مثلاً سورج کے طلوع کا جو وقت ہے، وہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے، اسی طرح سورج کے غروب کا جو وقت ہے، وہ بھی ہمیشہ یکساں رہتا ہے، وغیرہ۔ اس کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (
گویا یہ کائناتی دنیا خالی از فطور دنیا (flawless world) ہے۔ اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے کہ فطرت کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے، جو صحت کی بنا پر پورے معنوں میں ایک قابل پیشین گوئی دنیا (predictable world)ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا پوری کی پوری ناقابل پیشین گوئی دنیا (unpredictable world) بنی ہوئی ہے۔
یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ اس فرق کے تقابلی مطالعے (comparative study) کے ذریعے ہم ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرتے ہیں، اور وہ اللہ رب العالمین کی دریافت ہے، جو اپنی غیر معمولی طاقت کے ذریعے پوری کائنات کو نہایت صحت کے ساتھ مینج (manage)کر رہا ہے۔ اس کے برعکس، انسان کے پاس ایسی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے انسانی دنیا میں اس قسم کا مینجمنٹ موجود نہیں۔ دونوں دنیاؤں کے فرق پر اس عالمی اصول کو منطبق کیجیے، جو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہےکہ چیزیں تقابل کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں:
تعرف الاشیاء باضدادھا
In comparison that you understand
انسانی دنیا میں نقص کا موجود ہونا، یہ بتاتا ہے کہ انسانی دنیا کا مینیجر انسان ہے، اور انسان کا مینجمنٹ اس کی اپنی کمزوریوں کی بنا پر پُر عیب مینجمنٹ (defective management) بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا منتظم (manager) ایک ایسی ہستی ہے، جو پوری طرح عیب اور نقص سے خالی ہے۔ اس کی ہستی ہر اعتبار سے ایک بے عیب ہستی ہے۔یہ فرق اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
موجودہ دنیا میں امتحان عقل کا ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب انسان (آدم) کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم انسان کے آگے سجدہ کرو۔ یہ سجدہ، سجدۂ عبادت نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ انسان کو زمین پر آباد کیا جائے گا اور فرشتوں کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ انسان کے ساتھ سپورٹنگ رول اداکریں۔ حضرت نوح نے جب کشتی بنائی تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا : وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا(
فطرت کا یہی اصول انسان اور انسان کے درمیان بھی مطلوب ہے۔ انسان جب کوئی بڑا کام کرتا ہے تویہ کام بہت سے لوگوں کے تعاون سے انجام پاتا ہے۔فطرت کے نظام کے مطابق، اس تعاون میں کسی انسان کا قائدانہ رول ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا سپورٹنگ رول۔انسانی سپورٹ کے بارے میں اس اصول کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (
واپس اوپر جائیں
ہماری کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ قرآن میں اس کائناتی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیر (
موجودہ زمانے میں کائنات کا مطالعہ نہایت وسیع پیمانے پر کیا گیاہے۔ دوربین اور خورد بین کے ذریعے انسان مشاہدہ کی اس حد تک پہنچ گیا ہے، جو پہلے بالکل ممکن نہ تھا۔ اس مشاہدے کے ذریعے انسان کائنات کے بڑے اجسام سے بہت زیادہ واقف ہوگیا ہے، اور کائنات کے چھوٹے اجسام سے بھی۔اس مشاہدے نے انسان کو صرف یہ بتایا ہے کہ قرآن کا دعوی مکمل طور پر ایک صحیح دعوی ہے۔ اب یہ ایک مسلّم حقیقت بن گئی ہے کہ کائنات بے حد منظم کائنات ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا نقص (defect) موجود نہیں۔
موجودہ زمانے میں انسان نے ٹکنالوجی کی دنیا میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ انسان نے بہت زیادہ چاہا کہ انسانی دنیا کے مینجمنٹ کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح تک پہنچائے۔ مگر غیر معمولی کوششوں کے باوجود انسان زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر اپنے کسی نظام کو قائم نہ کرسکا۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں مضامین لکھے گئے ہیں، اور کتابیں چھاپی گئی ہیں۔ ان میں سے انٹرنیٹ پر ایک آرٹیکل یہ ہے:
The Concept of Zero Defects in Quality Management, by Ms Chandana Das
واپس اوپر جائیں
مثبت مزاج
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مربی اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سلسلے میں مختلف موقع پر جو رہنمائی اتری ان میں سے ایک وہ تھی جس کو مثبت مزاج کی تعمیر کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر ناخوشگوار دکھائی دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں بھی بار بار ایسے واقعات پیش آئے ۔ ایسے موقع پر ہر بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رہنمائی دی گئی کہ بظاہر ایک غیر موافق واقعے میں بھی کس طرح موافق پہلو چھپا ہوا ہے۔
قدیم مکہ میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت توحید کا آغاز کیا تو وہاں سخت قسم کی مشکلات پیش آئیں۔ اس وقت قرآن میں یہ رہنمائی دی گئی : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(
تقریباً 20 سال تک تبلیغ کرنے کے باوجود آپ اور آپ کے ساتھی عرب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے، اور مشرکین اکثریت میں تھے۔ اس وقت آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فطرت کا ایک قانون یاد دلاتے ہوئے قرآن میں کہاگیا : کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیرَةً بِإِذْنِ اللَّہِ وَاللَّہُ مَعَ الصَّابِرِینَ (
اسی طرح 3 ہجری میں غزوۂ اُحد پیش آیا۔ ا س میں مسلمانوں کو مشرکین کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ یہ بظاہر ایک دل شکن واقعہ تھا۔ مگر اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رہنما آیتیں اتریں، وہ دوبارہ اس کے روشن پہلو کی طرف نشاندہی کرنے والی تھیں۔ ان میں سے قرآن کی ایک آیت یہ ہے: إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ (
اسی طرح 6 ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان وہ واقعہ پیش آیا جس کو صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ یہ صلح بظاہر مسلمانوں کی سیاسی شکست کے ہم معنی تھی۔ مگر قرآن میں جب اس پر تبصرہ کیاگیا تو برعکس طورپر، اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا (
اللہ پر اعتماد
ہجرت کے سفر میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر صدیق تھے۔ یہ بے حد نازک سفر تھا۔ مکہ کے لوگ آپ کے جانی دشمن تھے۔ یہ یقینی تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کریں گے۔ چناں چہ آپ نے شدید احتیاط کے ساتھ یہ سفر فرمایا، حتٰی کہ آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف جاناتھا، لیکن آپ الٹے رخ پر چل کر غارِ ثور میں پہنچے اور وہاں حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ چھپ کر چند دن قیام کیا۔
مکہ کے سرداروں کو جب آپ کی ہجرت کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف دوڑایا، تاکہ وہ آپ کو مدینہ پہنچنے سے پہلے پکڑ لیں اور نعوذ باللہ آپ کو قتل کرڈالیں۔ آپ ابھی غارِ ثور میں چھپے ہوئے تھے کہ مکہ کے کئی لوگ آپ کی تلاش میں وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت وہ اتنے قریب تھے کہ غار کے اندر سے وہ صاف نظر آرہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے جب یہ دیکھا کہ تلوار لیے ہوئے یہ لوگ غار کے منہ تک پہنچ گئے ہیںتوانھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف نظر ڈالے تو وہ ضرور ہم کو دیکھ لے گا۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا:یَا أَبَا بَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللَّہُ ثَالِثُہُمَا(سیرۃ ابن کثیر
پیغمبر اسلام کی زبان سے نکلا ہوا یہ کلمہ اتنا عظیم ہے کہ شاید پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری نظیر موجود نہیں۔ اس وقت آپ بلا شبہ انتہائی پُر خطر حالات میں تھے، لیکن اللہ پر اعتماد اتنا زیادہ بڑھا ہوا تھا کہ کوئی بھی طوفان اس کو متزلزل نہیں کرسکتاتھا۔ یہی بے پناہ اعتماد تھا جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ ایسے پُر خوف حالات میں اتنا زیادہ بے خوفی کا کلمہ آپ کی زبان سے نکلے۔
عبادت کی کیفیت
پیغمبر اسلام روزانہ خدا کی عبادت کرتے تھے، دن کو بھی اور رات کو بھی۔ عبادت کے وقت آپ کے دل کی جو کیفیت ہوتی تھی اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتا ہے۔ حضرت علی بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس میں ذکر ودعا کے کون سے الفاظ آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ نماز کے وقت رکوع میں جھکتے تھے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے تھے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، خَشَعَ لَکَ سَمْعِی، وَبَصَرِی، وَمُخِّی، وَعَظْمِی، وَعَصَبِی (صحیح مسلم، حدیث نمبر
اسی طرح حضرت علی بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام جب سجدے کے وقت زمین پر اپنا سر رکھتے تھے تو اس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوجاتے تھے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ، وَبِکَ آمَنْتُ، وَلَکَ أَسْلَمْتُ، سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ، تَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِین (صحیح مسلم، حدیث نمبر
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام جب عبادت میں مشغول ہوتے تھے تو اس وقت ان کے جذبات کیا ہوتے تھے۔ اس وقت وہ خدا کی عظمت وہیبت کے احساس میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا کی برتری اور اس کے مقابلے میں اپنے عجز کا تصور ان کے سینے میں ایک طوفان کی حیثیت اختیار کرلیتا تھا۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے خدائے عظیم وکبیر کے سامنے حاضری کے ہم معنیٰ بن جاتی تھی۔ آپ کی عبادت آپ کے لیے انتہائی حد تک ایک زندہ عمل تھا، نہ کہ محض کچھ رسمی اعمال کی ادایگی۔
ہدایت کے لئے تڑپنا
قر آن کی سورۃ الشعراء میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے :تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ ۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ۔إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُہُمْ لَہَا خَاضِعِینَ (
یہ اور اس طرح کی دوسری شہادتیں بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنے مخاطبین کی ہدایت کے لیے کتنا زیادہ حریص تھے۔ ’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلو گے‘‘ کا جملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو پیغمبر اسلام کو اپنے مخاطبین کے حق میں تھی۔دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبے سے ابلتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اسی کامل خیر خواہی کے تحت اپنی قوم کوحق کی دعوت پہنچائی۔ اور آپ نے اپنی تمام کوششیں اس کی راہ میں صرف کردیں۔ اس کے باوجود ان کی اکثریت آپ کے پیغام کو ماننے پر راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد آپ کا حال یہ ہوا کہ آپ ان کی ہدایت کے غم میں ہلکان ہونے لگے۔ آپ کے دن کا چین رخصت ہوگیااور آپ کی رات کی نیند غا ئب ہوگئی۔
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ (شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کر لوگے) کا مطلب آپ کو اس سے روکنا نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ آپ نے اپنی پیغمبرانہ ذمے داری کو اس کی آخری اور انتہائی حد تک ادا کردیا۔ دوسرے کی ہدایت کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کرنا، پیغمبر کی شخصیت کا اہم ترین وصف ہے۔ اس وصف میں آپ بلا شبہ کمال کے درجے کو پہنچے ہوئے تھے۔
انسان کا احترام
قدیم مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ یہودی قبیلے بھی آباد تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پیغمبراسلام مدینہ کے ایک مقام پر تھے۔ اس وقت وہاں سے ایک جنازہ گزرا۔ آپ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازے کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت آپ کے کچھ صحابہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہ دیکھ کر کسی نے کہا کہ اے خدا کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: أَلَیْسَتْ نَفْسًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1312)۔یعنی کیا وہ انسان نہ تھا۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے دل میں دوسرے انسانوں کے بارے میں کس قسم کے جذبات ہوتے تھے۔ آپ ہر انسان کو انسان سمجھتے تھے۔ ہر انسان آپ کو قابل احترام نظر آتا تھا، خواہ وہ کسی بھی قوم یا ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کو آپ خدا کی ایک مخلوق سمجھتے تھے۔ ہر انسان کے اندر آپ کو وہی کاریگری دکھائی دیتی تھی جو آپ کو خود اپنے وجود میں دکھائی دیتی تھی۔ انسان کو دیکھ کر آپ انسان کے خالق کو یاد کرنے لگتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے دل میں ہر انسان کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ تھا۔ انسان سے نفرت کرنا آپ کے مزاج کے بالکل خلاف تھا۔
آخرت کی فکر
ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اپنی ایک اہلیہ کے مکان میں تھے۔ ان کے یہاں ایک خادمہ تھی۔ آپ نے کسی فوری ضرورت کے تحت خادمہ کو باہر بھیجا۔ اس نے آنے میں دیر کی۔ معلوم ہوا کہ وہ راستہ میں بچوں کا کھیل دیکھنے کے لیے کھڑی ہوگئی تھی۔خادمہ جب تاخیر کے ساتھ واپس آئی تو اس کو دیکھ کر آپ کے چہرے پر غصے کے آثار ظاہر ہوگئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میںایک مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ سے کہا:لَوْلَا خَشْیَةُ الْقَوَدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَأَوْجَعْتُکِ بِہَذَا السِّوَاک (الادب المفرد، حدیث نمبر
پیغمبر اسلام لوگوں کو قیامت کی پکڑ سے ڈراتے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ڈرانا یک طرفہ نہ تھا۔ آپ جس طرح دوسروں کو آنے والی قیامت سے ڈراتے تھے، اسی طرح آپ خود بھی سب سے زیادہ اس سے ڈر محسوس کرتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ دنیا میں اس طرح رہیں کہ ان کے دل میں خدا کی پکڑ کا خوف سمایا ہوا ہو۔ یہی خود آپ کی اپنی حالت بھی تھی۔ آپ آنے والی قیامت کو اپنے سمیت ہر ایک کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ کا پیغمبر ہونا آپ کو اخروی مسئولیت سے بے نیاز بنادے۔
٭ ٭ ٭ ٭٭ ٭
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے، اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔
واپس اوپر جائیں
کئی بار ا یسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جو درس قرآن کے کسی حلقے میں برابر شرکت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے ایک سوال کیا۔ وہ یہ کہ آپ جو درس قرآن سنتے ہیں، اس سے آپ کو ٹیک اوے (takeaway)کیا ملا۔ میرے تجربے کے مطابق، یہ لوگ متعین انداز میں بتا نہ سکے کہ ان حلقوں میں شرکت سے ان کو ٹیک اوے کیا ملا یا کیا ملتا ہے۔ ٹیک اوے کا مطلب ہےکسی کلام سے اخذ کردہ بات:
A conclusion to be made based on presented facts or information
آپ کوئی کتاب پڑھیں یا کوئی تقریر سنیں، اور اس سے آپ کو کوئی متعین بات نہ ملے تو آپ کا ذہن ایڈریس نہ ہوگا۔ آپ پڑھ کر یا سن کر بھی اس سے کوئی کار آمد بات اخذ نہ کرسکیں گے۔ جب ایسا ہوگا تو پڑھی ہوئی بات یا سنی ہوئی بات آپ کی شخصیت کا جزء نہیں بنے گی۔ پڑھ کر یا سن کربھی آپ ویسے ہی رہیں گے، جیسا کہ سننے یا پڑھنے سے پہلے تھے۔ مفید کلام وہ ہے، جس سے قاری یا سامع کو کوئی متعین پیغام ملے۔ جو اس کے ذہن کو متعین انداز میں ایڈریس کرے، جس کے بعد آدمی اس قابل ہوجائے کہ وہ تقابلی انداز میں بات کو سمجھے۔ وہ اپنی شخصیت یا اپنے موقف کا تقابلی انداز میں مطالعہ کرے۔ جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا کرے، وہی کلام مفید کلام ہے، اور جو کلام آپ کے اندر یہ صفت پیدا نہ کرے، وہ بظاہر الفاظ کا ایک مجموعہ ہوسکتا ہے، لیکن وہ معانی کا خزانہ نہیں ہوسکتا۔
مثال کے طور پر آپ نے یہ آیت پڑھی یا سنی: اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ (
اسی طرح اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں آئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، اللہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس پر نہ ابھارے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو۔ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو(المائدۃ،
آپ نے اس آیت کو پڑھا۔ پھر آپ نے اس آیت کو اپنے آپ پر منطبق کیا۔ تطبیقی مطالعہ (applied study) کرکے آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا میں اپنے معاملے میں اس آیت پر عمل کررہا ہوں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ اس طرح کے معاملے میں میرا رویہ اس آیت کے مطابق نہیں ہے۔اس کے بعد آپ نے فوراً اپنا بے لاگ محاسبہ کیا۔ آپ نے اپنی سوچ کو بدل کر اپنے آپ کو عادلانہ روش پر قائم کیا تو قرآن کا یہی مطالعہ صحیح قرآنی مطالعہ ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ایسا کریں کہ قرآن کا مطالعہ فنی انداز میں کریں ۔ قرآن کے لغوی اور نحوی مسائل کو حل کریں تو آپ کو قرآن سے حلّ الفاظ کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔
قرآن کی تحریک پچھلے تقریباً سو سال سے بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ لوگ قرآن کے نام پر کتابیں چھاپ رہے ہیں، اور تقریریں کر رہے ہیں۔ لیکن اگر نتیجے کے اعتبار سے جائز ہ لیا جائے تو ایسے افراد کو پانا مشکل ہوگا جن کا ذہن مطلوب انداز میں بنا ہو۔ مثلاً قومی مسائل میں جو متعصبانہ رائے عام مسلمانوں کی ہے، وہی قرآن کے ان قاریوں کی بھی ہے۔ قرآن کا نام لینے والے تو بہت سے لوگ ملیں گے ، لیکن ایسا کوئی شخص مشکل سے ملے گا، جس کے اندر صحیح معنوں میں قرآن کا ذہن بنا ہو۔
اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کے نام پر ہونے والی یہ تمام کوششیں غیر تطبیقی انداز (unapplied way) میں کی جارہی ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہورہا ہے کہ سننے یا پڑھنے والوں کا ذہن ایڈریس نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن کا سننا یا پڑھنا، بس قرآن کا قصیدہ بن کر رہ جانا ہے۔ ایسے لوگ تو ملتے ہیں،جو قرآن پر فخر کریں، لیکن ایسے لوگ نہیں ملتے، جن کے اندر قرآن کو سن کر محاسبہ (introspection) کی سوچ جاگے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی تفسیر کا مروج طریقہ یہ ہے کہ شان نزول (background of revelation) کو لے کر قرآن کی تفسیر کرنا۔ امام الشاطبی کا قول ہے:معرفة أسباب النزول لازمة لمن أراد علم القرآن ( دَرْجُ الدُّرر فی تَفِسیِر الآیِ والسُّوَر، عبد القاہر الجرجانی، الأردن، 2009،
تفسیر کا یہ اصول قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو قرآن کی آیت کی ابتدائی تاریخ بتاتا ہے۔ نزول آیات کے بعد کے زمانے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مگر قرآن کی تفسیر کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ مطالعہ کرنے والا قرآن کی تاریخ کو سمجھتا رہے۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ نزول کے بعد کے زمانے کے لیے اس آیت کا مدعا کیا ہے۔
شانِ نزول یا سببِ نزول کو جاننا زمانۂ نزول کے اعتبار سے جتنا اہم ہے، اسی طرح زمانۂ نزول کے بعد کے ادوار میں قرآن کے تطبیقی مفہوم (applied meaning)کو جاننا بھی اہم ہے۔ مثلاً قرآن میں سورہ یوسف کی ایک آیت یہ ہے : مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاہُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلَّا أَنْ یَشَاءَ اللَّہُ (
قرآن کا تاریخی مطالعہ کرنا ہو تو شانِ نزول یا سببِ نزول کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اگر یہ جاننا ہو کہ اس آیت سے کون سا اصول اخذ ہوتا ہے، اور ہمارے اپنے زمانے کے لحاظ سے اس اصول کی تطبیق (application) کیا ہے تو قرآن کا تطبیقی مطالعہ ضروری ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی ۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے ۔ٗٗ
یہ بات علماء کے پورے حلقے میں تیزی سے پھیل گئی۔ غیر منقسم ہندستان کے تقریباً تمام مدارس اور مساجد میں درس قرآن کے حلقے قائم ہوگئے۔ یہ حلقے ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ان دروس قرآن کا مطلوب نتیجہ ابھی تک بر آمد نہ ہوسکا۔ جب کہ اس عمل پر اب تقریباً ایک صدی پوری ہورہی ہے۔
اس ناکامی کا سبب کیا تھا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ تھا کہ بیسویں صدی میں مسلمانان ہند کے اوپر مسلم فخر (Muslim Supremacism) کا ذہن چھایا ہوا تھا۔ اس لیے علماء کا یہ درس قرآن عملاً قصیدۂ قرآن بن کر رہ گیا، وہ نصیحتِ قرآن نہ بن سکا۔ قرآن کا درس دینے والے، اور قرآن کےدرس کو سننے والے دونوں فخر کی نفسیات میں جی رہے تھے۔ اس لیے قرآن کا تذکرہ ان کے لیے قومی فخر کو تسکین دینے والا بن کر رہ گیا، وہ ان کے لیے ذہنی اصلاح کا ذریعہ نہ بن سکا۔
قرآن کی بنیاد پر اصلاحِ امت کی تحریک صرف اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے، جب کہ اس کو تطبیقی انداز (applied way) میں چلایا جائے۔ یعنی قرآن کی آیتوں کو مسلمانوں کی حالت پر منطبق کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی جائے۔ تطبیقی انداز میں قرآن کا جو تذکرہ کیا جائے گا،و ہ سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا بنے گا، اور جو درس قرآن سامعین کے ذہن کو ایڈریس کرے، وہی اصلاح یا انقلاب کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کے بغیر ہرگز نہیں۔
مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (
اس آیت میں لا تسبوا کا خطاب اصحاب رسول سے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے بتوں کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کریں گے۔اس کے باوجود اصحاب رسول جب ان کے خلاف کوئی بات بولیں گے تو وہ مشرکین کو سب و شتم نظر آئے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ جواب میں ری ایکشن کا طریقہ اختیار کریں۔ پھر یہ ری ایکشن بڑھے گا، اور چین ری ایکشن کی صورت اختیار کر لے گا، اور اس طرح لوگوں کی اصلاح کا کام مزید مشکل بن جائے گا۔
اس حقیقت کو جب تطبیقی انداز میں بیان کیا جائے تو آج کے مسلمانوں کو اس میں نصیحت کا پہلو ملے گا۔ وہ سوچیں گے کہ کچھ لوگوں کو جب ہم شاتم قرار دے کر پر شور تحریک چلانا چاہتے ہیں تو اس کا نتیجہ الٹا ہورہا ہے۔ لوگ اس کو اپنے خلاف سمجھ کر اور زیادہ شدید ہوجائیں گے، اور اصلاح کا کام مشکل سے مشکل تر ہوجائے گا۔سب و شتم کے خلاف قتل کا فتویٰ اس معاملے میں صرف کاؤنٹر پروڈکٹیو ثابت ہوگا، وہ اصلاح کا ذریعہ نہیں بنے گا، بلکہ اصلاح کو مزید مشکل بنانے کا سبب بن جائے گا- درسِ قرآن وہی مفید ہے، جو تطبیقی انداز میں کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن بلاشبہ ایک خدائی کتاب ہے۔ لیکن عملاً وہ انسانی زبان میں اتارا گیا ہے۔ تاکہ وہ انسان کے لیے پوری طرح قابل فہم ہوسکے۔ بعد کے زمانے میں قرآن کے لیے مقدس قرآن (Holy Quran) اور پَوِتر قرآن جیسے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔ مگر یہ اسلوب قرآن و حدیث میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ یہ اسلوب بلاشبہ مضاہات (سورۃالتوبہ،
اس غیر مطلوب ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قرآن فہمی کا عمل درست انداز میں جاری نہ رہ سکا۔ قرآن کی بہت سی آیتوں کو ہمارے علماء اور مفسرین سمجھنے سے قاصر رہے۔ کیوں کہ انھوں نے قرآن کے الفاظ کو مقدس سمجھ لیا، جن کو صرف ان کے ظاہری معنی میںلیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے قرآن میں غور و فکر کے لیے اجتہادی اسلوب کا خاتمہ ہوگیا۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (
حقیقت یہ ہے کہ قتال کا لفظ اس آیت میں انسانی اسلوب کے اعتبار سے آیا ہے، یعنی شدید جدو جہد۔ مثلاً انسانی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں فائٹ ٹو فنیش (fight to the finish) کی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنا ہے، یا یہ کہا جاتا ہے کہ ہمیں کرپشن کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ تمام الفاظ شدید جدو جہد (utmost struggle) کے معنی میں ہیں، نہ کہ لفظی اعتبار سے جنگ و قتال کے معنی میں۔
یہی معاملہ حدیثِ رسول کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ لوگ حدیث کے کلام کو بالکل لفظی معنی میں لینے لگے۔ مثلاً متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ اللہ کا ایک اسم ِاعظم ہے، اور جو آدمی اسم ِاعظم کے ساتھ دعا کرے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے ۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے نام ہیں۔ لوگوں نے یہ ننانوے نام بطور خود متعین کر لیے ، اور یہ تلاش کرنا شروع کیا کہ اس میں سے اسمِ اعظم کونسا ہے۔ اس قسم کی کوششوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔کیوں کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ لفظی معنیٰ کے علاوہ بھی مراد ہوسکتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6937)۔
صحیح یہ ہے کہ حدیث میںمذکوراسم ِاعظم سے مراد کوئی متعین نام (name) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی اللہ کو ایسے اسلوب میں پکارے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والا ہو تو ایسی دعا اللہ کے یہاں ضرور قبول ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص سے ایک غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد اس آدمی کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہو۔ وہ بے تابانہ طور پر سجدے میں گر پڑے، اور روتے ہوئےکہے کہ یا اللہ تو نے مجھ کو ضعیف پیدا کیا۔ اپنے اس ضعف کی بنا پر مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اب تیرے سوا کون ہے، جو میری اس غلطی کو سنبھالے، جو مجھ کو اس غلطی کے انجام سے بچائے۔ خدایا تو میرا رب ہے۔ تیرے سوا کون ہے جس سے میں امید کروں کہ وہ میری غلطی کو سنبھالے گا، اور مجھ کو میری غلطی کے انجام سے بچائے گا۔ آدمی یہ الفاظ بولے، اور اس کی آنکھیں بےتابانہ طور پر آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی تنہائیوں میں اس طرح اللہ کو پکارے۔ تو اس کا یہ پکارنا اللہ کو اسم ِاعظم کے ساتھ پکارنا ہو گا، اور عین ممکن ہے کہ اس کی پکار اللہ کےیہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرلے ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ہدایت پانے کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللَّہَ لَا یَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَہَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّہُ بِہَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ (
کوئی بات ریاضیات کی زبان میں کہی جائے تو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مذہب کا تعلق ہیومنیٹیز (humanities)سے ہے۔ اس لیے مذہب میں ہمیشہ یہ گنجائش رہتی ہے کہ آدمی کسی بات کی صحیح تاویل کرکے اس سے ہدایت پائے، یا غلط تاویل کرکے گمراہ بن جائے۔
مثلا اگر مچھر کی مثال سے کوئی اخلاقی بات کہی جائے تو آدمی کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اصل مدعا پر دھیان دے۔ ایسی حالت میں مچھرکی مثال اس کے لیے مفید سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ غیر سنجیدہ ہوکر مچھر کا مذاق اڑانے لگے تو اس کو مچھر کی مثال سے کوئی سبق نہیں ملے گا۔قرآن کی کسی آیت سے صحیح سبق لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر سنجیدگی ہو۔ وہ بات کو صحیح زاویے سے دیکھے۔ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی نہ ہو تو وہ ہمیشہ بات کو غلط زاویے سے دیکھے گا ، اور اس کو سبق کے بجائے مذاق کا موضوع بنالے گا۔ ریاضیات (mathematics) میں اس قسم کی گنجائش نہیںہوتی، لیکن مذہب اور اخلاقیات کےموضوع میں غلط تاویل کی بہت زیادہ گنجائش ہوتی ہے، اس لیے مذہب اور اخلاقیات کے موضوع پر انسان کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن نے تاریخِ انسانی میں ایک نئی سوچ کا آغاز کیا۔ یہ سوچ قرآن میں لفظی طور پر اشارے کی زبان میں ہے، اور عملی طور پر وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی صورت میں۔ قرآن کے الفاظ میں وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ رُجزکو اوائڈ کرکے اپنے مثبت عمل کا منصوبہ بنانا (المدثر،
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اسٹرٹیجی کے اصول پر اپنا مشن چلایا۔ مثلاً مکہ میں مقدس کعبہ کے اندر کئی سو بت رکھے ہوئے تھے، جو بلاشبہ ایک موحد انسان کے لیے ایک اشتعال انگیز منظر تھا۔ یہ بت بظاہر رجز (گندگی)تھے۔ لیکن اسی رجز کی وجہ سے کعبہ کے پاس روزانہ عرب کے قبائل اپنے عبادتی رسوم کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ نے رجز کے خلاف کوئی براہ راست تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ اس معاملے میں آپ نےڈی لنکنگ پالیسی اختیار کی۔ یعنی آپ نے رجز کے اشو کو نظر انداز کیا، اور مشرکین کے اجتماع کو اپنے مشن کے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔
یہ گویا معاملے کے دو پہلوؤں کے درمیان ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy)تھی۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی غالباً تاریخ میں پہلی بار پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن میں کامیابی کے ساتھ استعمال کی۔ اگرچہ مسلمان اس سنتِ رسول کو سمجھ نہ سکے، اور وہ بعد کی تاریخ میں اس حکیمانہ پالیسی کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی تاریخ میں یہ ایک انقلابی اصول تھا، جو پیغمبرِ اسلام نے پہلی بار تاریخِ انسانی کو عطا کیا۔
ڈی لنکنگ پالیسی کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی غیر ضروری ٹکراؤ سے اپنے آپ کو بچائے، اور موجود مواقع (opportunities) کوبھر پور طور پر استعمال کرے۔ ڈی لنکنگ پالیسی آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حریف کو اپنا موید (supporter) بنالے، وہ اپنے عدو کوعملاً اپنے ولی حمیم (فصلت،
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الزخرف مکی دور کے نصف آخر میں نازل ہوئی۔ غالباً یہ سفر طائف کے بعد کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مخالفین کی مخالفت نہایت شدیدہوچکی تھی۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتری:أَفَنَضْرِبُ عَنْکُمُ الذِّکْرَ صَفْحًا أَنْ کُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِینَ (
یہ سنتُ اللہ آج بھی قائم ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص یا گروہ ایسے مشن کو لے کر اٹھے، جو حقیقی معنوں میں اللہ کا مشن ہو تو اس کے لیے اللہ کی نصرت یقینی ہوجائے گی۔ دوبارہ اس کے لیے اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ کوئی بھی صورت حال اس کو درمیان میں روکنے پر قادر نہ ہو۔ ایسے مشن کے لیے دوبارہ یہ مقدر ہوگا کہ وہ ضرور اپنے نشانے تک پہنچے۔ کوئی طاقت درمیان میں اس کا راستہ روکنے پر قادر نہ ہو۔
مثلاً قرآن کے متعلق اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ قرآن سارے عالم کے لیے نذیر (warner) بنے۔ اب جب کہ دنیا میں عالمی کمیو نی کیشن کا زمانہ آگیا ہے، اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جدید کمیونی کیشن کے ذرائع کو استعمال کرکے قرآن کو عالمی سطح پر پہنچادیا جائے، تو دوبارہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوگا کہ جو گروہ بے آمیز انداز میں اس مشن کو لے کر اٹھے، جس کا نشانہ صرف یہ ہو کہ وہ قرآن کے خالص پیغام کو ساری دنیا تک پہنچادے، ایسے مشن کا معاملہ کسی عام مشن کا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے مشن کے ساتھ ضرور ایسا ہوگا کہ وہ اللہ کی خصوصی مدد کے ذریعے اپنی تکمیل تک پہنچے۔ کوئی بھی طاقت اس کے اس پرامن مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہوگی۔ شرط صرف یہ ہے کہ مشن پورے معنوں میں ایک بے آمیز مشن ہو، اور اس مشن کے چلانے والے یک طرفہ طور پرامن طریقہ پر قائم ہوں۔
واپس اوپر جائیں
انسان موجودہ دنیامیں پیداہوتا ہے۔ وہ حالات کے مطابق زندگی گزارتا ہے، اور پھر ایک دن مرجاتاہے۔ سروے کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے۔ انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیاہے۔ موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ان حقیقتوں کی دریافت پر انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو بتانے کے لئے اترا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کا تخلیقی نقشہ انسان کے بارے میں کیا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع تخلیقی منصوبہ (creation plan) ہے۔ قرآن انسان کو وہ ضروری معلومات دیتا ہے جس کی روشنی میںانسان اپنی زندگی کا صحیح منصوبہ (right planning) بنا سکے۔ ایسی حالت میں حاملینِ قرآن کی یہ لازمی ڈیوٹی ہے کہ وہ قرآن کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اور یہ پہنچانا لوگوں کی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں ہو، تا کہ وہ اس کو سمجھیں اور قرآن کو ایک رہنما کتاب (guide book) بنا سکیں۔قرآن کے نزول کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں حاملین قرآن نے قرآن کے متن کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان جو مطلوب کام ہے وہ ابھی تک نہ ہوسکا۔
قرآن کے متن کی حفاظت پر توبہت زیادہ کام ہوا لیکن قرآن کی اشاعت کا کام جیسے ہونا چاہیے تھا، وہ اب تک نہ ہوسکا ہے۔ اس معاملے میں مسیحی لوگوں نے حاملینِ قرآن کے لئے راستہ دکھادیا ہے۔ مسیحی لوگوں نے دنیا کی تقریباًتمام زبانوں کو سمجھا، اور لوگوں کی قابل فہم زبانوں میں بائبل کےترجمے تیار کیے ہیں۔ یہی کام حاملین ِقرآن کو قرآن کے لیے کرنا ہے، اور پھر تمام زبانوں میں ترجمے تیار کرکے ان کو ساری قوموں میں پھیلادینا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا، وَیَضَعُ بِہِ آخَرِین(صحیح مسلم، حدیث نمبر
ایک ہی کتاب (قرآن) کس طرح دو مختلف انجام کا سبب بنتی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قرآن کے مطالعے کے دو طریقے ہیں۔ اگر قرآن کا مطالعہ تطبیقی انداز (applied way) میں کیا جائے تو قرآن کی حامل قوم اپنے حالات میں اس سے رہنمائی پالے گی، اور اس طرح ان کے لیے ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اس کے برعکس، اگر قرآن کا مطالعہ غیر تطبیقی انداز (non-applied way) میں کیا جائے تو ایسے لوگوں کا حال حضرت عائشہ کی زبان میں وہی ہوگا : أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا (مسند احمد، حدیث نمبر24609)۔ یعنی قرآن کا حامل ہونے کے باوجود وہ قرآن کے فیض سے محروم رہ گئے۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاںایک مثال درج کی جاتی ہے۔
تطبیقی تفسیر
ملت کی بعد کی نسلوں میں قانونِ فطرت کے مطابق زوال آتا ہے۔ زوال آنے کے بعد ملت کے اندر احیائے نو کا کام کس طرح کیا جائے، اس کا طریقہ قرآن میں پیشگی طور پر بتادیا گیا ہے۔ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (سورۃ الحدید،
یہاں ایک فطری تمثیل کے ذریعے ملت کے احیاء نو کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زمین پر دو موسم آتے ہیں، سوکھے کا موسم اور بارش کا موسم۔ سوکھےکے موسم میں کھیت سوکھ جاتے ہیں، کھیت کی ہریالی باقی نہیں رہتی۔ لیکن بارش کا موسم آتے ہی کسان دوبارہ پانی اور کھاد کو استعمال کرکے اپنے کھیت کو تیار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ سوکھی زمین دوبارہ ہری بھری زمین بن جاتی ہے۔
فطرت کی یہ مثال بتاتی ہے کہ ملت کے رہنماؤں کو ملت کے احیائے نو کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ وہ ایسا نہ کریں کہ سوکھی زمین کو کسی دشمن کی سازش کا نتیجہ بتا کر احتجاج کی تحریک شروع کردیں۔ بلکہ وہ کسان کی طرح یہ کریں کہ ملت کی زمین کو دوبارہ ہموار کریں، اور پانی کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ زمین میں بیج بودیں، اور پودے، یعنی ملت کے افراد کو پانی پہنچا کر زراعت کے اصول کو ملت کے معاملے میں اپلائی (apply) کرتے ہوئےملت کو دوبارہ شاداب بنائیں۔ جس طرح کسان کی محنت مبنی بر پودا ہوتی ہے، اسی طرح ملت کے رہنماؤ ں کی ساری محنت مبنی برافراد ہونی چاہیے۔ ملت کا زوال دراصل افراد کے زوال کا نام ہے۔ ایسا وقت آنے پر ملت کے رہنماؤں کو یہ کرناہے کہ وہ تعمیرِ افراد کا کام کرکے ملت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملت کے احیاء کا کام افراد کے احیا سے شروع ہوتا ہے۔افراد کے اندر اسپرٹ کو زندہ کرنے کے بعد ملت اپنے آپ زندہ ہوجاتی ہے۔
قرآن کی تفسیریں مختلف زبانوں میں بڑی تعداد میں لکھی اور چھاپی گئی ہیں۔ مگر راقم الحروف کے علم کے مطابق یہ تفسیریں غیر تطبیقی انداز میں لکھی گئی ہیں۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں مسلم اہل علم کا غالباً یہی وہ انداز ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے۔ مختلف زمانوں میں لکھی جانے والی یہ تفسیریں عملاً اسی قسم سے تعلق رکھتی ہیں، جس کو یہاں غیر تطبیقی انداز کہا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی قابلِ ذکر استثنا راقم الحروف کے علم میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے دروس اور تفاسیر کی کثرت کے باوجود اس کا مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں دعوت کے ایک اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
اس کے برعکس، اگر آپ مسلمانوں سے یہ کہیں کہ تم قرآن کی ایک آیت کو دوبارہ پڑھو، اور اس میں جو فطرت کا قانون بتایا گیا ہے، اس کو سمجھو۔ وہ آیت یہ ہے:أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ (
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جو گروہ اپنے اندر نفع بخشی کی صلاحیت پیدا کرے، اس کو اس دنیا میں مکث (استحکام) حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس گروہ کے پاس صرف شکایت اور احتجاج (protest) کی زبان ہو، وہ اس دنیا میں جھاگ کی مانند ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں کوئی باعزت جگہ حاصل ہونے والی نہیں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی گروہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو نافع گروہ (giver community) کہا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جن کو انسانی لغت میں لینے والا گروہ (taker community) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا پیغام، عقل کا تقاضا، اور فطرت کا قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں شکایتی گروہ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا صرف ان لوگوں کی دنیا ہے، جو گیور(giver) کمیونٹی بن کر رہیں۔ جو لوگ لینے والے گروہ بنے ہوئے ہوں، ان کے لیے فطرت کے قانون کے مطابق صرف یہ مقدر ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں پڑے رہیں، اور آخر میں ان کو محرومی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہو۔
جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ عرب جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے انڈیا کو شاندار کلچر (brilliant culture) دیا۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کیوں انڈیا کی ایک پسماندہ کمیونٹی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں انڈیا میں آئے تھے۔ وہ زمانہ قدیم دستکاری کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے کے اعتبار سے عربوں نے انڈیا کو بہت کچھ دیا۔مثلا آبپاشی کے لیے رہٹ (noria) کا طریقہ ۔ یعنی ایساپہیّہ جس کے محیط کے گرد ڈول لگے ہوتے ہیں اور جو ہسپانیہ، مشرقِ وُسطیٰ اور ایشیا میں پانی کھینچنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر بعد کو جب برٹش لوگ انڈیا میں آئے تو وہ اپنے ساتھ مشینی دور (mechanical age) لے آئے۔ ماڈرن تعلیم گاہوں میں اس نئے ٹکنیک کی تعلیم ہونے لگی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان نئے تعلیم گاہوں کو مسلمانوں کے لیے قتل گاہ قرار دے دیا۔ اس طرح مسلمان نئے دور کے لحاظ سے پیچھے ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی پسماندگی کا یہی اصل سبب ہے ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اجتماعی زندگی کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ إِلَى اللَّہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات ایک اور آیت میں اس انداز میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا إِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ (
دوسروں کے شر سےمحفوظ رہنے کا ایک اٹل اصول ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے اشتعال انگیز کارروائی کرکے فریق ثانی کو جوابی کارروائی (retaliation) کا موقع نہ دیں۔ اس معاملے میں یہی سب سے بڑا اصول ہے۔ اس اصول کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھیے، دوسروں کو کبھی جوابی کارروائی کا موقع نہ دیجیے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ یٰسین میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبروں کو اُن کے معاصرین نے ہمیشہ استہزا کا موضوع بنایا — ’’افسوس ہے بندوں پر، جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا استہزا کرتے رہے‘‘(
دونوں قسم کی آیتوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں میں فرق کا معاملہ کیا ہے۔ جہاں تک سامعین کا معاملہ ہے، اُن کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کریں یا وہ اس کو رد کردیں۔ اِسی طرح پیغمبر کے گرد بڑی تعداد اکھٹا ہو یا نہ ہو۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کی دعوت کا معاملہ ہے، اِس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے کامل حفاظت کا انتظام فرمایا ہے۔ ہر پیغمبر کے ساتھ ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کو روکنے میں کامیاب نہ ہو۔ پیغمبر کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ خدائی پیغام کو بے کم وکاست، لوگوں تک پہنچا دے۔ فرشتوں کی مسلسل حفاظت اِس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ خدائی دعوت کی نظری اشاعت ہر حال میں پوری ہو کر رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ یہ سنت جس طرح پیغمبروں کے معاملے میں پوری ہوئی، اُسی طرح بعد کے زمانے میں وہ ہر سچے داعی کے ساتھ لازماً پوری ہو کر رہتی ہے۔ سچا داعی مسلسل طورپر فرشتوں کی حفاظت میں رہتاہے، تاکہ اس کا دعوتی مشن ہر حال میں پورا ہو کر رہے، کوئی شخص یا گروہ اس کے دعوتی مشن کی تکمیل میں مانع نہ بن سکے۔
واپس اوپر جائیں
حافظ قاری سید شبیر احمد صاحب عمری(پیدائش1940:) جامعہ دارالسلام، عمر آباد، تامل ناڈو میں شعبہ تحفیظ القرآن کے مدیر تھے۔
ایسے ہی افراد ہیں جن کو با اصول انسان کہا جاتا ہے۔ با اصول انسان کی تعریف ایک لفظ میں یہ ہے - اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی۔ وہ جب تک کسی ادارے سے منسلک ہو با اصول انداز میں اپنی ذمے داری اداکرے۔ اگر اس کو کوئی اختلاف پیش آئے تو مثبت انداز میں ذمے داروں سے اس کا ذکر کردے، اور اس کے بعد اپنے کام میں لگا رہے۔ دوسروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنا، با اصول انسان کا طریقہ نہیں۔ با اصول آدمی کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ دوسرے آدمی کا اعتراف کرے، اور کسی معاملے میں اگر اس کی تعریف کی جائے تو وہ اس کا کریڈٹ دوسرے کو دے دے۔ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھے، اور نہ دوسرے کے اعتراف میں کوئی کمی کرے۔ایسا آدمی موت سے پہلے ایک با اصول انسان ہوتا ہے، اور موت کے بعد لوگوں کے لیے ایک یادگار نمونہ۔
واپس اوپر جائیں
■ مز سعدیہ خان، سی پی ایس دہلی کی ایک سر گرم ممبر ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کے درمیان صدراسلامی مرکز کی آئڈیالوجی شیر کرتی رہتی ہیں۔ یہ آئڈیالوجی لوگوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے، جیسا کہ درج ذیل کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے:
٭ What Maulana says applies to situations we face in our daily lives. (Kritika S. Reddy) ٭Thank you for sharing these thoughts, they are so helpful. (Krishna K. Tripathi) ٭I was waiting for this audio. It feels good listening to him. (Venessa Michel) ٭You have no idea how much I love these daily snippets of wisdom, which I hear almost everyday. It brings calm during a stormy day. (Anjali Ghosh) ٭Great thoughts, thanks for sending. I am enjoying them and they are good reminders. (Nadia Khan) ٭Profound thoughts. Thanks for sharing. (Preeti Aggarwal) ٭ Thanks for making my morning beautiful with such wonderful messages. (Dakshina Sharma) ٭ All good lessons. But do we follow. I am trying to, in some ways. (Ravi Seth) ٭Thank you. These are really very impactful short audios. (Javed Siddiqui) ٭ They are too good! They inspire me the whole day and stay in mind. (Nadia Zaidi ) ٭ Thanks for Maulana's audios. They are very apt, and very inspiring! (Preeti Vyas) ٭This is so true and pertinent, Sadia. If only people were to give it a serious and sincere thought, our philanthropists wouldn't have to work so hard on the problems. (Dr. Nirula) ٭Thanks for sending these messages. They are really inspirational. (Srishti Pandey) ٭ Thanks for sharing such wonderful and meaningful messages. (Karuna Kalra) ٭I really like Maulana's daily audios. They are the only thing in this negative environment which provide me with the incentive to go on in the positive direction. (Aysha Sajid) ٭ Beautiful! Maulana puts in a perspective that’s so comforting. (Fabeha Syed) ٭ Thank you, these short clips are full of wisdom. (Tajwar Hassan)
ث مسز نرگس چنائے (Nargis Chinoy)سابق انگلش پروفیسر اور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے اسنیہانچل ہاسپٹل (ناگپور) کا دورہ کیا۔ اس وقت جناب ساجداحمد خان (سی پی ایس ناگپور ٹیم) وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور سی پی ایس مشن کا تفصیلی تعارف کرایا۔ انھوں نے اس کام کو پسند کیا، اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ قرآن کے مطالعہ کے لیے انھوں نے انگلش قرآن کی کاپی دو ضخیم جلدوں میں پاکستان سے منگوائی ہے۔ لیکن جب ساجد صاحب نے پاکٹ سائز انگلش قرآن ان کو پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اس کے علاوہ واٹ از اسلام، دی ایج آف پیس، ریالٹی آف لائف، وغیرہ، کتابوں پر بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دی ایج آف پیس کو انھوں نے فوراً پڑھنا شروع کردیا۔ نیز انھوں نے اسلام کے گہرے مطالعے کے لئے سی پی ایس کے رابطے میں رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات 2 ستمبر 2017 کو ہوئی۔
■
ث 6 اکتوبر 2017 کو ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار دی اسپیکنگ ٹری کی ایڈیٹر مز نرائنی اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز کے آفس میں تشریف لائیں۔ یہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز اور تخت سری دمدمہ صاحب ،بھٹنڈا،کے جتھدار جناب ہرپریت سنگھ جی کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اس مناسبت سے لیا گیا تھا کہ جتھدار جی نے پنجابی میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے، توآپ دونوں یہ بتائیں کہ اسلام اور سکھ ازم میں انسانیت اور امن کے لیے کیا پیغام ہے۔
ث امریکا میں ایک آرگنائزیشن ہے، جس کا نام ہے:
Women's Islamic Initiative in Spirituality & Equality [WISE]
اس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیزی خان ہیں۔ انھوں نے ایکسٹریمزم کے تعلق سے ایک کتاب شائع کی ہے، یہ مختلف لوگوں کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کا بھی ایک مضمون ہے۔
Dear Mr. Kaleemuddin, On behalf of Daisy and the WISE team, I want to thank you once again for taking the time out of your busy schedule to attend and participate in last week’s WISE Up Summit, and for everything you’ve contributed to the WISE Up Report and Campaign! You have truly been an invaluable partner throughout this whole process, and the WISE Up Report would not be what it is without you and Maulana. In particular, I wanted to let you know that we heard from a number of attendees that they really enjoyed your remarks during your panel discussion on “Islamic Theology vs. Extremist Ideology.” I know you had very little time to speak, but your unique insights, willingness to speak candidly, and dynamism on stage made your panel a big success. We have so enjoyed working with you throughout this process and hope your experience was positive as well. I look forward to being in touch with you about the WISE Up event in Philadelphia. Thank you again ! (Lisa Nakashima, Program Manager)
ث مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی )، اور حافظ فیاض الدین عمری( حیدرآباد ) نے
ث سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے تحت دو تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ ایک ، جامعہ ہمدردر، نئی دہلی کے ساتھ ایک ایم او یو (Memorandum of understanding)سائن کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دور جدید میں اسلام، امن، تنازعات کا حل، بقائے باہمی، رواداری وغیرہ موضوع پر پی ایچ ڈی ریسرچ کا کام سی پی ایس انٹر نیشنل اور جامعہ ہمدرد،د ونوں کی نگرانی میں ہوگا۔ دوسری پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ کلچر آف پیس پروگرام کے تحت کالج کے طلبہ کے درمیان انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس میں کالج کے طلبہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، اورالرسالہ مشن کے تحت انفارمل تعلیم کے ذریعہ اپناذہنی و روحانی ارتقا کرتے ہیں۔ اس کا پہلا تین ماہی پروگرام دہلی یونیورسٹی کے رام انوجن کالج میں شروع ہوا، اور اس کا اختتامی پروگرام
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔ وہ ہر ایک موقع پر دعوت کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً
■ میں نے خدا کے تخلیقی منصوبہ کو مولانا کے لٹریچر سے جانا ہے، اور اسی سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جمعہ کے دن نگینہ (بجنور) کی اولیاء مسجد میں مَیں نے اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ نماز کے بعد بہت سے لوگوں میں یہ تجسس بیدار ہوا کہ اس سے پہلے ایسا اچھوتابیان نہیں ہوا۔ اس موقع پر میں نے ان لوگوں کو الرسالہ اور اسپرٹ آف اسلام پڑھنے کے لیے دیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، 9897593659 )۔
■ We recently received 100 copies of the Quran from your organization. Alhamdulillah, we have been able to distribute them to people via our bi-monthly street dawah and we have only a few remaining. We will be glad if you can help with more copies of this Quran. (Auwalu Ali, Team Leader, Street Dawah, Nigeria)
■ I am a professor of Islamic Studies and Comparative Religion at Mahidol University Thailand. I am teaching “Introduction to Islam” to about 30 Buddhist monk students from Myanmar, Cambodia, Thailand, China, Indonesia, etc. They have expressed the need to have an English translation of the Quran and I think the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best for them. Will it be possible for you to send me 30 copies for free or at a discounted rate? Alternatively, you can send me 30 copies for free and I pay for the shipping cost. I look forward to hear from you soon. Warm regards. (Dr. Imtiyaz Yusuf, Lecturer and Director Center for Buddhist-Muslim Understanding, College of Religious Studies, Mahidol University, Thailand)
■ I work in the Chaplain’s Dept as the Islamic Activities Coordinator for Mississippi’s Dept. of Corrections in Parchman. Our population fluctuates between 3,000 to 3,500 men. We have a little over 100 Muslims in our facility and we have daily expressed interest in the religion of Islam. I would like to provide Quran copies for the new converts and for those who would like to study the book and the religion. We would thoroughly appreciate any assistance you can provide in fulfilling this need to provide the Holy Quran to the inmate population.(William Sabree, Chaplain’s Dept. Mississippi, USA)
■It has been a privilege for me to listen to Maulana Wahiduddin Khan. I read his book "Tabeer ki Ghalti" and it took me out from the depths of darkness towards a clear understanding of Islam. I appreciate your work, which you have been doing since past so many years and I totally agree with you that terrorism cannot be eliminated through counter acts, rather it has to be eliminated ideologically. (Burhan Ahmad, Srinagar, Kashmir)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.