خبرنامہ اسلامی مرکز — 260
■ مز سعدیہ خان، سی پی ایس دہلی کی ایک سر گرم ممبر ہیں۔ وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کے درمیان صدراسلامی مرکز کی آئڈیالوجی شیر کرتی رہتی ہیں۔ یہ آئڈیالوجی لوگوں کے لیے کافی فائدہ مند ہے، جیسا کہ درج ذیل کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے:
٭ What Maulana says applies to situations we face in our daily lives. (Kritika S. Reddy) ٭Thank you for sharing these thoughts, they are so helpful. (Krishna K. Tripathi) ٭I was waiting for this audio. It feels good listening to him. (Venessa Michel) ٭You have no idea how much I love these daily snippets of wisdom, which I hear almost everyday. It brings calm during a stormy day. (Anjali Ghosh) ٭Great thoughts, thanks for sending. I am enjoying them and they are good reminders. (Nadia Khan) ٭Profound thoughts. Thanks for sharing. (Preeti Aggarwal) ٭ Thanks for making my morning beautiful with such wonderful messages. (Dakshina Sharma) ٭ All good lessons. But do we follow. I am trying to, in some ways. (Ravi Seth) ٭Thank you. These are really very impactful short audios. (Javed Siddiqui) ٭ They are too good! They inspire me the whole day and stay in mind. (Nadia Zaidi ) ٭ Thanks for Maulana's audios. They are very apt, and very inspiring! (Preeti Vyas) ٭This is so true and pertinent, Sadia. If only people were to give it a serious and sincere thought, our philanthropists wouldn't have to work so hard on the problems. (Dr. Nirula) ٭Thanks for sending these messages. They are really inspirational. (Srishti Pandey) ٭ Thanks for sharing such wonderful and meaningful messages. (Karuna Kalra) ٭I really like Maulana's daily audios. They are the only thing in this negative environment which provide me with the incentive to go on in the positive direction. (Aysha Sajid) ٭ Beautiful! Maulana puts in a perspective that’s so comforting. (Fabeha Syed) ٭ Thank you, these short clips are full of wisdom. (Tajwar Hassan)
ث مسز نرگس چنائے (Nargis Chinoy)سابق انگلش پروفیسر اور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے اسنیہانچل ہاسپٹل (ناگپور) کا دورہ کیا۔ اس وقت جناب ساجداحمد خان (سی پی ایس ناگپور ٹیم) وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور سی پی ایس مشن کا تفصیلی تعارف کرایا۔ انھوں نے اس کام کو پسند کیا، اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ قرآن کے مطالعہ کے لیے انھوں نے انگلش قرآن کی کاپی دو ضخیم جلدوں میں پاکستان سے منگوائی ہے۔ لیکن جب ساجد صاحب نے پاکٹ سائز انگلش قرآن ان کو پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اس کے علاوہ واٹ از اسلام، دی ایج آف پیس، ریالٹی آف لائف، وغیرہ، کتابوں پر بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ دی ایج آف پیس کو انھوں نے فوراً پڑھنا شروع کردیا۔ نیز انھوں نے اسلام کے گہرے مطالعے کے لئے سی پی ایس کے رابطے میں رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ ملاقات 2 ستمبر 2017 کو ہوئی۔
■ 12 ستمبر 2017 کو گورکی سدن (کولکاتا) میں رشین سینٹر آف سائنس اینڈ کلچر نے انڈین پلورلزم فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ’انٹرفیتھ راؤنڈ ٹیبل ڈائلاگ ‘ کا انعقاد کیا۔ اس میں معزز اور بااثر مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا: بلڈنگ بریجز فار پیس اینڈ ہارمنی اِن ملٹی کلچرل ورلڈـ۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے رہنما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوئے، اور انھوں نےسماجی ہم آہنگی ، تعلیم، صحت، ماحولیات اور غربت جیسے موضوعات پر اپنے خیال کا اظہار کیا، اور ان میدانوں میں باہمی تعاون سے کام کرنے کے مواقع اور لائحہ عمل پر گفتگو ہوئی۔ اس پروگرام میں سی پی ایس (کولکاتا) کی جانب سے مسٹر جاوید عالم، بشیر احمد اور اصطفیٰ علی صاحبان نے شرکت کی، اور حاضرین کے درمیان ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
ث 6 اکتوبر 2017 کو ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار دی اسپیکنگ ٹری کی ایڈیٹر مز نرائنی اپنی دو ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز کے آفس میں تشریف لائیں۔ یہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز اور تخت سری دمدمہ صاحب ،بھٹنڈا،کے جتھدار جناب ہرپریت سنگھ جی کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اس مناسبت سے لیا گیا تھا کہ جتھدار جی نے پنجابی میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے، توآپ دونوں یہ بتائیں کہ اسلام اور سکھ ازم میں انسانیت اور امن کے لیے کیا پیغام ہے۔
ث امریکا میں ایک آرگنائزیشن ہے، جس کا نام ہے:
Women's Islamic Initiative in Spirituality & Equality [WISE]
اس کی سربراہ ڈاکٹر ڈیزی خان ہیں۔ انھوں نے ایکسٹریمزم کے تعلق سے ایک کتاب شائع کی ہے، یہ مختلف لوگوں کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کا بھی ایک مضمون ہے۔ 26 اکتوبر 2017 کوواشنگٹن ڈی سی کے کارنیگی سائنس سینٹر میں اس کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر WISE UP SUMMIT کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس ، امریکا) نے شرکت کی۔وہاں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کی دو انگریزی کتابوں، دی ایج آف پیس اور قرآنک وزڈم کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ کانفرنس کے بعد خواجہ کلیم الدین صاحب کو پروگرام کے منتظمین کی جانب سے درج ذیل ای میل موصول ہوا:
Dear Mr. Kaleemuddin, On behalf of Daisy and the WISE team, I want to thank you once again for taking the time out of your busy schedule to attend and participate in last week’s WISE Up Summit, and for everything you’ve contributed to the WISE Up Report and Campaign! You have truly been an invaluable partner throughout this whole process, and the WISE Up Report would not be what it is without you and Maulana. In particular, I wanted to let you know that we heard from a number of attendees that they really enjoyed your remarks during your panel discussion on “Islamic Theology vs. Extremist Ideology.” I know you had very little time to speak, but your unique insights, willingness to speak candidly, and dynamism on stage made your panel a big success. We have so enjoyed working with you throughout this process and hope your experience was positive as well. I look forward to being in touch with you about the WISE Up event in Philadelphia. Thank you again ! (Lisa Nakashima, Program Manager)
ث مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی )، اور حافظ فیاض الدین عمری( حیدرآباد ) نے 25 جنوری تا 4 فروری 2018 راجستھان میں جے پور، اجمیر، جودھ پور، پالی ، اورماؤنٹ آبوکا سفر کیا۔ اس سفر میں مختلف اداروں میں جانا ہوا، اور انفرادی طور پر لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جن اداروں کا دورہ ہوا وہ یہ ہیں، مسلم مالوار ٹرسٹ (جودھ پور) کے تحت چلنے والے ادارے، جامعہ ہدایت (جے پور)، جامعہ معین الدین چشتی (اجمیر)، اوردرگاہ معین الدین چشتی (اجمیر) کے ذمہ دار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ان مقامات پر مسلمانوں سے دعوہ مشن کے تعلق سے باتیں ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگ دعوتی مشن کو پھیلانے کی خواہش رکھتے ہیں، اورکئی علماء نے صدراسلامی مرکز کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ برہما کماری (ماؤنٹ آبو) بھی جا نا ہوا، اور جے پور لٹریچر فیسٹیول میں دیگر سی پی ایس کے ممبران کے ساتھ مل کر پروگرام کے دوران اسپیکروں کو ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔
ث سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے تحت دو تعلیمی پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ ایک ، جامعہ ہمدردر، نئی دہلی کے ساتھ ایک ایم او یو (Memorandum of understanding)سائن کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دور جدید میں اسلام، امن، تنازعات کا حل، بقائے باہمی، رواداری وغیرہ موضوع پر پی ایچ ڈی ریسرچ کا کام سی پی ایس انٹر نیشنل اور جامعہ ہمدرد،د ونوں کی نگرانی میں ہوگا۔ دوسری پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ کلچر آف پیس پروگرام کے تحت کالج کے طلبہ کے درمیان انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس میں کالج کے طلبہ جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے شریک ہوتے ہیں، اورالرسالہ مشن کے تحت انفارمل تعلیم کے ذریعہ اپناذہنی و روحانی ارتقا کرتے ہیں۔ اس کا پہلا تین ماہی پروگرام دہلی یونیورسٹی کے رام انوجن کالج میں شروع ہوا، اور اس کا اختتامی پروگرام 26 مئی 2018 کو ہوا۔
■ ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک ممبر ہیں۔ وہ ہر ایک موقع پر دعوت کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً 24 فروی 2018 کو ملیشیا میں ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کو ہیلتھ کیر سیکٹر میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملیشیا کے وزیر صحت اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مندوبین موجود تھے۔ ان لوگوںکو ڈاکٹر صاحب نے انگریزی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اس کے بعد مشہور اردو چینل زی سلام کے راہ نجات پروگرام میں ایک مہینہ ( 11 اپریل تا 11 مئی 2018) تک ان کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس موقع پر بھی انھوں نے الرسالہ مشن کا تعارف کرایا، اور الرسالہ فکر کی بنیاد پر لوگوں کی رہنمائی کی۔ نیز چینل کے آفس میں موجود تمام اسٹاف کو انھوں نے ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔ پھر 16 اپریل 2018 کو انھوں نے دیوبند میں ایک ولیمہ کی تقریب میں شرکت کی، اور مشہور شاعر ڈاکٹر نواز دیوبندی کے ہاتھوں تمام لوگوں کو تراجم قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا۔
■ میں نے خدا کے تخلیقی منصوبہ کو مولانا کے لٹریچر سے جانا ہے، اور اسی سے میرے اندر دعوتی شعور پیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ جمعہ کے دن نگینہ (بجنور) کی اولیاء مسجد میں مَیں نے اس موضوع پر ایک تقریر کی۔ نماز کے بعد بہت سے لوگوں میں یہ تجسس بیدار ہوا کہ اس سے پہلے ایسا اچھوتابیان نہیں ہوا۔ اس موقع پر میں نے ان لوگوں کو الرسالہ اور اسپرٹ آف اسلام پڑھنے کے لیے دیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیا۔ (مولانا مظہر جمیل، بجنور، 9897593659 )۔
■ We recently received 100 copies of the Quran from your organization. Alhamdulillah, we have been able to distribute them to people via our bi-monthly street dawah and we have only a few remaining. We will be glad if you can help with more copies of this Quran. (Auwalu Ali, Team Leader, Street Dawah, Nigeria)
■ I am a professor of Islamic Studies and Comparative Religion at Mahidol University Thailand. I am teaching “Introduction to Islam” to about 30 Buddhist monk students from Myanmar, Cambodia, Thailand, China, Indonesia, etc. They have expressed the need to have an English translation of the Quran and I think the translation by Maulana Wahiduddin Khan is the best for them. Will it be possible for you to send me 30 copies for free or at a discounted rate? Alternatively, you can send me 30 copies for free and I pay for the shipping cost. I look forward to hear from you soon. Warm regards. (Dr. Imtiyaz Yusuf, Lecturer and Director Center for Buddhist-Muslim Understanding, College of Religious Studies, Mahidol University, Thailand)
■ I work in the Chaplain’s Dept as the Islamic Activities Coordinator for Mississippi’s Dept. of Corrections in Parchman. Our population fluctuates between 3,000 to 3,500 men. We have a little over 100 Muslims in our facility and we have daily expressed interest in the religion of Islam. I would like to provide Quran copies for the new converts and for those who would like to study the book and the religion. We would thoroughly appreciate any assistance you can provide in fulfilling this need to provide the Holy Quran to the inmate population.(William Sabree, Chaplain’s Dept. Mississippi, USA)
■It has been a privilege for me to listen to Maulana Wahiduddin Khan. I read his book "Tabeer ki Ghalti" and it took me out from the depths of darkness towards a clear understanding of Islam. I appreciate your work, which you have been doing since past so many years and I totally agree with you that terrorism cannot be eliminated through counter acts, rather it has to be eliminated ideologically. (Burhan Ahmad, Srinagar, Kashmir)
واپس اوپر جائیں