دعا اگر صالح دعا ہوتو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ لیکن بڑی بڑی دعائیں ہمیشہ تاخیر کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال حضرت ابراہیم کی دعا ہے۔ حضرت ابراہیم نے تعمیر کعبہ کے وقت ایک آخری پیغمبر کے ظہور کی دعا کی تھی(البقرۃ،
دعا کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (
اس آیت میں بتایا گیاہے کہ خدا بندے کے قریب ہے۔ اور وہ بندے کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ لیکن جواب کی صورت کیا ہوتی ہے، اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں موجود نہیں۔ اجیب دعْوة الداع اذا دعان کے فورا بعد جو الفاظ آئے ہیں، وہ یہ ہیں:فلیستجیبو لی ولیؤ منوا بی لعلھم یرشدون۔یعنی ان کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر یقین کریں، اسی میں ان کی فلاح ہے۔
یہاں دعا کے بعد جواب دعا کا ذکر نہیں۔ یہ قرآن کا ایک خاص اسلوب ہے کہ اس میں کسی بات کے ایک پہلو کا ذکر ایک مقام پر ہوتا ہے، اور اُس کے دوسرے پہلو کا ذکر دوسرے مقام پر ۔ مثلاً قرآن میں قصہ آدم کے تحت یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے غلطی کرنے کے بعد جب توبہ کی، تو ان کی توبہ قبول ہوئی، اور دعا کے الفاظ بھی ان کو تلقین کیے گئے۔ مگر یہ دونوں بات ایک جگہ موجود نہیں۔ مثلاً سورہ البقرۃ آیت
یہی اسلوب قرآن کی مذکورہ آیت میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب ریح (یوسف،
دعا کی یہ قبولیت ہر انسان کے لیے مقدر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کی ایک شرط ہے۔ وہ شرط قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ (
اس معاملے کی ایک مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ وہاں کچھ لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا، لیکن اکثریت آپ کی مخالف بن گئی۔ آخر کار یہ واضح ہوگیا کہ آپ کو مکہ چھوڑنا پڑےگا۔ اس زمانےمیں آپ اللہ سے بہت زیادہ دعائیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا (
اس زمانے میں ہجرت سے تقریباً دو مہینہ پہلے وہ واقعہ ہوا، جو بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے۔ بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ بظاہر دعا کے جواب کے طور پر پیش نہیں آیا۔ مگر یہ وہی چیز تھی جس کو قرآن میں ریح (یوسف،
دعا کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَة (سنن الترمذی، حدیث نمبر3371) ۔یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دعا حکمت (wisdom) کا خزانہ ہے۔ دعا کا خزانہ خدا کی دوسری رحمتوں کی طرح عام ہے۔ لیکن اس خزانۂ دعایا اس خزانۂ رحمت سے صرف اس شخص کو حصہ ملتا ہے، جو محسن ہو۔ یعنی تقویٰ اور صبر کے مطلوب معیار پر قائم رہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایمان باللہ وہ ہے جو کسی کو معرفت کی سطح پر ملے، نہ کہ محض تقلید کی سطح پر۔
واپس اوپر جائیں
روزہ کے بارے میں ایک حدیث قدسی آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے:روزہ (صوم) میرے لیے ہے، اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ دار میرے لیے اپنی شہوت کو چھوڑتا ہے۔ وہ میرے لیے اپنا کھانا اور اپنا پانی چھوڑتا ہے۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی جب کہ وہ روزہ کھولتا ہے، اور دوسری خوشی جب کہ وہ اپنے رب سے ملے گا۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7492)۔
روزہ کی اصل اہمیت اس کی اسپرٹ میں ہے، نہ کہ اس کے فارم میں۔ روزہ کی حقیقت ترک (چھوڑنا) ہے۔ روزہ میں روزہ دار یہ کرتا ہے کہ وہ مخصوص اوقات میں عارضی طور پر کھانا اور پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس چھوڑنے کے عمل کا اللہ کے یہاں بہت بڑا درجہ ہے۔ بشرطیکہ یہ چھوڑنا خالص اللہ کے لیے ہو۔ روزہ میں کھانے اور پینے کا ترک علامتی ترک ہے۔ اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ روزہ دار اپنی عادت کو یا اپنی کسی محبوب چیز کو اللہ کے خلاف سمجھ کر چھوڑ دے۔
سچا روزہ دار وہ ہے جو رمضان کے مہینہ میں یہ طے کرے کہ وہ اپنی قابل ترک عادتوں کو دریافت کرے گا۔ اور ہر دن کم از کم ایک عادت کو اللہ کے لیے چھوڑ دے گا۔ یہ گویا اللہ کے لیے ایک خود انضباطی (self discipline) کا معاملہ ہے۔
اس خود انضباطی کے عمل میں چھوڑنے کی بہت سی چیزیں ہیں۔ مثلا ایک سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق دوسروں سے بیان کرنا ۔ مجلس میں ہنسنا اور مذاق اڑانا۔ ایک آدمی بول رہا ہو تو اس کی بات ختم ہونے سے پہلے بولنا۔ وعدہ کرنے کے بعد اس کو پورا نہ کرنا۔ غیر سنجیدہ گفتگو کرنا۔ منفی رویہ اختیار کرنا۔ ایک دوسرے پر فخر کرنا۔ بات چیت میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کرنا۔ دسترخوان پر کھانا اور پانی چھوڑنا۔ تکلف کا طریقہ اختیار کرنا۔ دھکا دے کر آگے بڑھنا۔ دلیل کے بجائے عیب جوئی کی زبان بولنا۔زیادہ بولنا یا زور زور سے بولنا ، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں روزےکا حکم سورہ البقرۃ کی آیات183-187 میں آیا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں روزے کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاً مشکوٰۃ المصابیح میں کتاب الصوم کے تحت جو حدیثیں آئی ہیں ، ان کی تعداد
حضرت مریم کے جس رزق پر حضرت زکریا کو تعجب ہوا تھا، وہ یہی رزق پلس (آل عمران،
رمضان کا رزق ایسے انسان کے لیےرزق پلس بن جاتا ہے، جو رمضان سے پہلے اللہ کی یاد اور اللہ کے شکر میں جیتا ہو، ایسا آدمی گویا بیدار آدمی ہے۔ اس کی بیداری اس کے لیے رمضان کے رزق میں نئے ربانی پہلو کا اضافہ کردیتی ہے۔ یہی مطلب ہے رزق کے رزق پلس ہونے کا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ یَخَافُ وَعِیدِ (
وعید کا لفظی مطلب ہے، ڈراوا (warning) ۔ یہ ڈراوا کیا ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈراوا یہ ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ خالق نے اس دنیا میں انسان کو جو نعمتیں دی ہیں، اس کے ساتھ ایک لازمی ذمہ داری وابستہ ہے۔ وہ یہ کہ آخرت میں انسان سے یہ پوچھا جائے کہ تم نے زندگی میں ملی نعمتوں کا اعتراف کیا یا تم نے بے اعترافی کی زندگی گزاری۔ یہ حقیقت قرآن کی ا ٓیت سے معلوم ہوتی ہے: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ (
انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے، جو اس کے لیے کسٹم میڈ دنیا (custom-made world) ہے۔ پیدا ہوتے ہی انسان کو وہ تمام چیزیں ملنے لگتی ہیں، جن پر اس کی زندگی کا انحصار ہے۔ مثلا پانی، غذا، روشنی، آکسیجن، کشش ارض (gravitational pull)، وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں، جو انسان کی زندگی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہیں، اور وہ سب پیشگی طور پر زمین کے اوپر مہیا کردی گئی ہیں۔انسان پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پہچانے، وہ ان نعمتوںکو شعور کی سطح پر دریافت کرے، وہ ان نعمتوں کا اعتراف (acknowledge) کرے ۔
ان نعمتوں کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ یَشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ(
واپس اوپر جائیں
آسان برائے ذکر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ (
مثلاً قرآن کی اس آیت کو آپ پڑھیں، اور اس میں غور کریں: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (
قرآن کے تصور تیسیر کے مطابق آپ غور کریں تو اس میں آپ کو نصیحت کا یہ بالکل آسان پہلو ملے گا کہ خالق نے پہلے دور میں انسان کو فطرت کی سواریاں دیں، مثلا گھوڑا، خچر اور گدھا۔ پھر فطرت (nature) میں ایسی ٹکنالوجی رکھ دی، جس کو دریافت کرکے آدمی موٹرکار او ر ہوائی جہاز جیسی مشینی سواریاں بنائے، اور اس کے ذریعہ اس کے لیے زیادہ تیز رفتار سفر ممکن ہوجائے۔
یہ تفسیر مبنی بر تیسیر کی ایک مثال ہے۔ یہ تفسیر ہر آدمی کے لیے قابل فہم ہے۔ اس تفسیر میں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے شکر کا سامان ہے۔ جو شخص اس تفسیر کو لے کر سوچے گا، اس کے اندر ربانی شخصیت پرورش پائے گی۔ قرآن کی صداقت پر اس کا یقین بڑھے گا۔ اس کے اندر تخلیقی طرز فکر (creative thinking) بیدار ہوگی۔ اللہ کے وجود کے بارے میں اس کا یقین بہت بڑھ جائے گا- انھیں صفات کا نام ذکر (نصیحت) ہے۔ یہی وہ صفات ہیں، جو کسی انسان کے اندر ایمان کا وہ درخت اگاتی ہیں، جس کے بارے میںقرآن میں ا ٓیا ہے :أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ (
واپس اوپر جائیں
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔جس میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک بڑا فتنہ ظاہر ہوگا۔ اس کے قائد کو حدیث میں دجال کانام دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو، صحیح مسلم، حدیث نمبر2937، وابو داؤد، حدیث نمبر4321، سنن الترمذی، حدیث نمبر 2240، سنن النسائی الکبری ، حدیث نمبر10717، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4075، مسند احمد، حدیث نمبر 17629 ، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7644وغیرہ ۔ ایک روایت میں دجال کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:إِنْ یَخْرُجْ وَأَنَا فِیکُمْ، فَأَنَا حَجِیجُہُ دُونَکُمْ، وَإِنْ یَخْرُجْ وَلَسْتُ فِیکُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِیجُ نَفْسِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2937)۔
ان روایتوں میں کہا گیا ہے کہ دجال کا مقابلہ حجیج کرے گا۔ اگر دجال رسول اللہ کے زمانے میں ظاہر ہوگا، تو خود رسول اللہ اس کے مقابلے میں حجیج ہوںگے، اور اگر وہ بعد کے زمانے میں ظاہر ہوگا تو امت کا کوئی فرد اس کے مقابلے میں حجیج ہوگا، اور دجال کو حجت کی سطح پر مغلوب کرے گا۔
حجَ یحج کا معنی ہے حجت سے غالب آنا۔ اس کا اسم فاعل ہے حجیج ۔ اس کا مطلب ہوتا ہے حجت میں غالب آنے والا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال دور حجت (age of reason) میں ظاہر ہوگا۔ دجال دور سیف(age of sword) کا فتنہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ دور حجت (age of reason) کا فتنہ ہوگا۔
دجال کے بارے میں جو روایتیں ہیں، وہ زیادہ تر تمثیل کی زبان میں ہیں۔ ان روایتوں کو سمجھنے کے لیے ضرورت ہے کہ تمثیل کی زبان کو تعیین کی زبان میں بدلا جائے۔ اس کام کا اصول کیا ہوگا۔ وہ اصول یہ ہوگا کہ دور حجت کا مطالعہ کیا جائے، اور دور حجت کے احوال کے اعتبار سے احادیث کی تشریح کی جائے۔
مثلاً دجال کے بارے میں احادیث میں آٰیا ہے کہ وہ اعور ہوگا۔ اعور کا لفظی مطلب ہوتا ہے یک چشم یعنی ایک آنکھ والا(one-eyed)۔ لیکن اس سے مراد وہ انسان ہے جو لوگوں کو بری رہنمائی دے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کی اصل صفت یہ ہوگی کہ وہ لوگوں کے ساتھ غلط رہنمائی (mislead)کا معاملہ کرے گا۔ چوں کہ غلط رہنمائی کا عمل وہ نہایت ہوشیاری کے انداز میںانجام دے گا،لوگ اس کی غلط رہنمائی کو صحیح رہنمائی سمجھ لیں گے، اس لیے اس کو حدیث میں دجال (the Great Deceiver)کہا گیا ہے۔
یہ بات کہ دجال کا ظہور دور حجت میں ہوگا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے رہنمائی ہے جو دجال کے مقابلے کے لیے نکلیں۔ ان کو جاننا چاہیے کہ دجال کا مقابلہ نہ تلوار سے ہوگا ، اور نہ بندوق (gun) سے ہوگا۔ بمباری یا خود کش بمباری (suicide bombing) بھی دجال کے مقابلے کے لیے بالکل کارآمد نہ ہوگی۔ دجال کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ اس زمانے کے لوگ حجت کی زبان سیکھیں۔ تاکہ وہ اسی زبان میں دجال کا مقابلہ کرسکیں، جس زبان میں دجال لوگوں کو گمراہ کررہا ہوگا۔ تاریخ کے دوسرے فتنوں کے مقابلے میں یہ ایک مختلف فتنہ ہوگا۔
قدیم دور کے تمام فتنے ، تشدد (violence) کے فتنے تھے۔ قدیم دور کے ارباب فتنہ تشدد کے ہتھیار کے ذریعہ لوگوں کو مغلوب کرتے تھے۔ لیکن بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والا یہ فتنہ حجت (reason) کے ذریعہ گمراہ کرے گا۔ ایسی حالت میں جولوگ حجت کے ذریعے دجال کے فریب میں مبتلا ہوں، ان کو دجالی فریب سے نکالنے کے لیے دوبارہ حجت یعنی عقلی استدلال کا طریقہ استعمال کرناہوگا۔
اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ ان لوگوں کی خصوصی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کے لیے اٹھیں(الحج،
واپس اوپر جائیں
دعوت کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جو سچائی بیان کی گئی ہے، اس کو دوسروں تک پہنچانا۔ مگر پہنچانے کا مطلب صرف پہنچانا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو بات کہی جائے، وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
اگر آپ دعوت کا کام اس طرح کریں کہ قرآن و حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، خود اپنے ذہن کے مطابق، اس کی شرح کردیں تو یہ حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوگا۔ کوئی کلام اس وقت دعوت بنتا ہے، جب کہ آپ اپنی دعوت میں دو تقاضوں کو پورا کریں۔ ایک یہ کہ آپ قرآن و سنت کا مطالعہ غیرمتاثر ذہن کے ساتھ کریں، اور اس کا مدعا بے کم و کاست انداز میں جاننے کی کوشش کریں، اور پھر اس کو تقریر یا تحریر کے ذریعہ مخاطب کے سامنے بیان کریں۔
مگر مطلوب دعوت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ مطلوب دعوت وہ ہے، جس میں داعی غیر جذباتی انداز میں مدعو کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور پھر مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرنے والے انداز میں خیر خواہانہ طور پر اس کو اپنا مخاطب بنائے۔دعوت اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے دوسری تحریکوں کی طرح ایک تحریک ہے۔ مگر دعوت اور دوسری تحریکوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری تحریکیں عام طور پر ردعمل کے ذہن کے تحت چلائی جاتی ہیں۔ یعنی سماج میں کوئی چیز نظر آئی جو دیکھنے والوں کےلیے بظاہر غلط تھی۔ اس پر دیکھنے والوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اور یہ ردعمل دھیرے دھیرے ایک تحریک بن گیا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو تمام تحریکیں عملاً ردعمل کی تحریکیں ہوتی ہیں۔ لیکن دعوت کی تحریک کسی بھی درجے میں ردعمل کی تحریک نہیں ہے۔ دعوت داعی کی طرف سے نصح (well-wishing )کا اظہار ہے، اور بس۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ اس وقت پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں یہ اعلان کیا گیا کہ قرآن سارے عالم میں پھیلے گا، یہاں تک کہ اس کا پیغام زمین پر بسنے والےہر مرد اور ہرعورت تک پہنچ جائے گا۔
یہی بات حدیث رسول میںاس طرح بیان کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ، بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ ذُلِّ ذَلِیلٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 23814) ۔یعنی زمین پر کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت کے ساتھ، ذلت والے کو ذلت کے ساتھ ۔ (یعنی اسلام کا پیغام ماننے والوں تک بھی اورنہ ماننے والوں تک بھی )۔
یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے، یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا، بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔
قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا کام ہے جو امت مسلمہ محض اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی کام میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات حدیث رسول میں اس طرح بیان کی گئی ہے:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے جو بظاہر اپنے مادی مقاصد کے لیے اسباب پیدا کریں گے، مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹ بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر موید (secular supporter) سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب عملاً قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب نے پہلی بار دنیا کے جغرافیہ کو پوری طرح ایک معلوم واقعہ بنا دیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچر آخری حد تک عام ہوگیا ہے۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین اٹھیں اور قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ آخری حد تک ممکن ہوچکی ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
دعوت کی اس عالمی مہم کے لیے دوسرے معروف طریقوں کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ خالص مثبت ذہن کے تحت اعلیٰ معیار کا ایک ٹی وی چینل قائم کیا جائے۔ اس کے ذریعے تمام بڑی بڑی زبانوں میں دعوتی پروگرام نشر کیے جائیں۔ یہ کام مکمل طور پر پر امن دعوت کے تصور کے تحت کیا جائے۔ اس میں نہ مسلمانوں کی مفروضہ مظلومیت کی داستان کا ذکر ہو اور نہ مسلم فخر کا تذکرہ کیا جائے۔ اس ٹی وی کی نشریات تمام تر دعوت الی اللہ کے اصول پر مبنی ہوں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نشریات لازمی طور پر عصرحاضر کے اسلوب میں ہوں تاکہ وہ آج کے انسان کے ذہن کو ایڈریس کرسکیں۔جدید ٹکنالوجی نے اس بات کو پوری طرح ممکن بنا دیا ہے کہ خدا وندِ رب العالمین کا پیغام ہر گھر میں اور ہر انسان تک پہنچ جائے۔ عالمی دعوت کا یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے:ہَذَا أَعْظَمُ النَّاسِ شَہَادَةً عِنْدَ رَبِّ الْعَالَمِینَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔
واپس اوپر جائیں
ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اللہ کے پیغمبر انسان کی ہدایت کے لیے آئے۔ایک روایت کے مطابق، ان نبیوں کی مجموعی تعدادایک لاکھ بیس ہزار (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
یہ ہے ہماری دلیل جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی۔ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔ بے شک تمھارا رب حکیم اور علیم ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا کئے، ہر ایک کو ہم نے ہدایت دی اور نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی اس سے پہلے۔ اور اس کی نسل میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیکوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی، ان میں سے ہر ایک صالح تھا۔ اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی، اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت عطا کی۔ اور ان کے باپ دادوں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی، اور ان کو ہم نے چن لیا اور ہم نے سیدھے راستہ کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس سے سرفراز کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔ اور اگر وہ شرک کرتے تو ضائع ہوجاتا جو کچھ انھوں نے کیا تھا۔یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی۔ پس اگر یہ مکہ والے اس کا انکار کردیں تو ہم نے اس کے لئے ایسے لوگ مقرر کر دئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔ کہہ دو، میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ یہ تو بس ایک نصیحت ہے دنیا والوں کے لئے۔ (
یہ ربانی ماڈل بنیادی طور پر دو اصولوں پر مشتمل تھا- توحید کی پر امن دعوت، رُجز (المدثر،
رُجز (المدثر،
آسان طریقہ کیا ہے، اور مشکل طریقہ کیا ہے۔ آسان طریقہ وہ ہے جو مسئلے کو مسئلے تک محدود رکھے۔ اس کے مقابلے میں مشکل طریقہ وہ جو اصل مسئلہ میں دوسرے مسئلے کا اضافہ کردے۔ مثلاً یہ بات واضح ہے کہ توحید کا داعی اگر دعوت کے ساتھ ٹکراؤ کا طریقہ شامل کرلے تو یقینا بات بڑھے گی۔ اب پیس فل گفت و شنید کے ساتھ ٹکراؤ اور تشدد کی صورتیں شروع ہوجائیںگی۔ اس طرح پر امن مشن ڈی ریل (derail) ہو کر ایسے راستوں پر چل پڑے گا جہاں اصل مقصد گم ہوجائے گا، اور تعمیر کے بجائے تخریب کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے پیغمبروں کے حالات قرآن و حدیث سے معلوم ہوتے ہیں، اس سے اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے۔
پیغمبر کا نمونہ
قرآن میں بتایا گیا ہےکہ جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مشن ایک تھا۔ اس سلسلےمیں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (
یہی طریقہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا۔ آپ کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوئی۔ اس وقت مکہ کا یہ حال تھا کہ کعبہ کی عمارت کو عملاً بت پرستی کا مرکز بنادیا گیا تھا، اور اس کا انتظام قبائلی پارلیمنٹ (دارالندوہ) کے تحت کیا جاتا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منظر کو دیکھا، مگر اس سے عملی طور پر کامل اعراض کرتے ہوئے، آپ نے توحید کی پرامن دعوت لوگوں کے درمیان شروع کردی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ماضی اور حال کے واقعات بتاتے ہیں کہ ہر انسان آخر کار احساسِ خسران میں مرتا ہے۔ کوئی شخص دولت کماتا ہے، کوئی عزت حاصل کرتا ہے، کوئی سیاسی اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، کوئی لیڈر بن کر ابھرتا ہے، لیکن ہر شخص اپنی مطلوب منزل پر پہنچنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ ہر شخص کے ذہن میں خوشیوں کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے۔ وہ اس کو پانے کے لیے اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔ مگر ہر آدمی کا خاتمہ آخر کار اس احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوب دنیا کو نہ پاسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی خواہشات لا محدود ہیں۔ مگر موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس محدود اور غیر معیاری دنیا میں لامحدود قسم کی معیاری خوشی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ طالب اور مطلوب کے درمیان یہی فرق خسران کا اصل سبب ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کی مطلوب دنیا موت کے بعد کے دور حیات میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کی تیاری کرے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔اس وقت آپ کو ایک بنیادی ہدایت یہ دی گئی کہ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (
وہ رجز کیا تھا جس کو آپ نے چھوڑ کر اپنا مشن چلایا۔اس کی تفصیل آپ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔اس کا تعلق آپ کے مشن کے طریقہ کار (method) سے تھا۔ اگر رسول اللہ کی عملی روش کو لے کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ نزاعی طریقہ کار (confrontational method) کو چھوڑو، اور غیر نزاعی طریقہ کار (non-confrontational method) کو اختیار کرو۔
رسول اللہ کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا مشن پوری طرح غیر نزاعی اصول پر چلایا۔کعبہ میں اس وقت کے لوگوں نے 360 بت رکھ دیے تھے۔ مگر آپ نے اس سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ اس سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ مکہ میں دارلندوہ (tribal parliament) تھا۔ مگر آپ نے اس میں قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس سے مکمل طور پر اعراض کرتے ہوئے اپنا مشن غیر سیاسی انداز میں چلایا۔ مکہ کے سرداروں نے کہا کہ آپ مکہ چھوڑ دیجیے، تو آپ نے ان کے اس فیصلہ پر کوئی ٹکراؤنہیں کیا، بلکہ خاموشی کے ساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گیے۔
اس واقعے کی روشنی میں رجز کو چھوڑنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر قسم کے ٹکراؤ کو چھوڑتے ہوئے، اپنا مشن جاری رکھا جائے۔ یعنی مذہبی ٹکراؤ، سیاسی ٹکراؤ، قومی ٹکراؤ، حقوق کا ٹکراؤ، وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہوئے توحید کا مشن جاری رکھا جائے۔ یہی طریقہ ابدی طور پر اہل اسلام کا طریقہ ہے۔ وہ جس ملک یا جس زمانے میں ہوں، ہر جگہ میں اسی غیر نزاعی طریقہ کو اختیار کرنا ہے۔ یہی کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ قانون ِخداوندی کے مطابق کوئی اور طریقہ کامیابی کا طریقہ نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں پیغمبر یوسف کے واقعہ کو احسن القصص (best story)کا ٹائٹل دیا گیا ہے (یوسف،
حضرت یوسف کے زما نے میں یہ طریقِ کار مصر کےایک بادشاہ کے ذاتی ذوق کے بنا پر ممکن ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں انسانی تاریخ ایک نئے دور میں پہنچی ہے۔ اب جدید دور کے مسلمہ اصول (accepted norm) کے تحت یہ ممکن ہوگیا ہے کہ احسن القصص کا اعادہ زیادہ وسیع پیمانے پر کیا جائے، اور دعوت کو احسن القصص کے اصول پر منظم کرکے عالمی کامیابی حاصل کی جائے۔
قدیم مصر میں حضرت موسیٰ کے زمانے میں جو بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ ایک جابر بادشاہ (despotic king)تھا۔ اس کے زمانے میں پیغمبر کے لیے یہ موقع نہیں تھا کہ وہ احسن القصص کے اصول کو استعمال کریں۔ لیکن اس سے پہلےحضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ایک اوربادشاہ کی حکومت قائم تھی، جو مختلف مزاج کا حامل تھا۔ اس کے مخصوص مزاج کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ حضرت یوسف احسن القصص کے مطابق وہاں اپنا کام کریں۔ حضرت یوسف کے معاصر بادشاہ نے حضرت یوسف سے کہہ دیا کہ تم مصر کے اقتصادی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلاؤ، میری شرط صرف یہ ہے کہ تم کو سیاسی تخت کے معاملے میں میرے ساتھ ٹکراؤ سے اعراض کرنا ہے(Only I, as king, will be greater than you.)۔ اب موجودہ زمانے میں ممکن ہوگیاہے کہ اس حسن تدبیر کو زیادہ کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آج کے اہل ایمان حضرت یوسف کی طرح وقت کی پولیٹکل اتھاریٹی کے ساتھ ٹکراؤ سے یک طرفہ طور پر اعراض کریں۔
واپس اوپر جائیں
دور قدیم اور دور جدید اصلاً یہ ہے کہ دور قدیم مبنی بر عقیدہ علم پر قائم تھا،اور دور جدید مبنی بر دریافت علم پر قائم ہے۔ سائنس اسی کا نام ہے کہ علوم فطرت کے مطالعے سے جو چیز دریافت ہو ، اس کو مان لیا جائے، اور جو چیز فطرت کے مطالعے سے دریافت نہ ہو، اس کو انتظار کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ گلیلیو کے زمانے میں جو نزاع تھی، وہ یہی تھی کہ ٹیلسکوپ (telescope) کے مطالعے سے یہ دریافت ہوا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یعنی ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory)، نہ کہ جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory) ۔ مسیحی طبقہ اپنے روایتی عقیدہ کے مطابق اس کے خلاف ہوگیا۔ اس لیے دونوں کے درمیان متشددانہ نزاع قائم ہوگئی۔ اب مسیحی طبقہ نے سائنسی دریافت کو مان لیاہے، اس لیے اب یہ نزاع بھی ختم ہوگئی۔
سائنس کا علم، نہ موافق مذہب علم ہے اور نہ مخالف مذہب علم۔ سائنسی علم در اصل موافق فطرت (pro-nature knowledge) کا نام ہے۔ سائنس سے نزاع کرنا، ایک غیر ضروری کام ہے۔ کیوں کہ سائنس کا موقف کسی نزاع سے متعین نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس حقیقت سے متعین ہوگا کہ فطرت کے مطالعے سے کیا بات درست ثابت ہوئی ہے۔اہل اسلام کے لیے اس معاملے میں یہ سبق ہے کہ وہ مسیحی گروہ کی غلطی کو نہ دہرائیں۔ سائنسی دریافتوں کو وہ مذہبی عقیدہ سے نہ جانچیں۔ بلکہ اس کی واقعیت کو فطرت کے دریافت شدہ قانون کی روشنی میں جانچ کر دیکھیں۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ وہ مغربی سائنس اور مغربی کلچر میں فرق کریں۔ مغربی سائنس مبنی بر دریافت علم کا نام ہے۔ اس کے برعکس، مغربی کلچر مغربی سوسائٹی کا حصہ ہے۔ وہ ایک سماجی ظاہرہ ہے، نہ کہ کوئی علمی طور پر دریافت شدہ حقیقت۔ سائنس کا تعلق حدیث کے مطابق، بصیرت زمانہ سے ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:على العاقل أن یکون بصیراً بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے جب آدم (انسانِ اول) کو پیدا کیا تو اس کو تمام اسماء کا علم دے دیا (البقر،ۃ
تخلیق کے حوالے سے قرآن میں تین الفاظ استعمال کے گیے ہیں۔ پہلا لفظ آلاء (الرحمن،
خالق نے انسان کے اندر بالقوۃ (potential) اعتبار سے ساری تخلیقی معلومات رکھ دی ہے، جس کو علم آدم الاسماء کلہا میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ معلومات گویا کلمات اللہ ہیں۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ تخلیق کی حکمتوں (آلاء ) کو دریافت کرے، اور اس طرح اپنی معرفت کو بڑھائے۔ انسان اگر اس فکری عمل (intellectual process) کو اپنے اندر جاری کرے گا ، تو وہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) کے مقام تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ لوگ جو اپنے اندر اعلیٰ ربانی شخصیت کی تشکیل کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے باغوں میں داخل کرنے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، اور پھر وہ ابدی طور پر وہاں رہیں گے۔یہ سارا عمل تدبر کا طالب ہے۔ تدبر اعلیٰ معرفت تک پہنچنے کا زینہ ہے، اور اعلیٰ معرفت جنت میں داخلے کا استحقاق پیدا کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
قرآن کا ایک اصول یہ ہے کہ قرآن میں بڑی بڑی باتیں بالواسطہ انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔ تاکہ انسان ان باتوں کو غور و فکر کے ذریعہ دریافت کرے، وہ ان باتوں کو خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے۔یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جس بات کو وہ خود دریافت کردہ معرفت کے طور پر جانے ، وہ ایسی باتوںکو نہایت گہرائی کے ساتھ اخذ کرتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسانی سوچ کو ڈائریکشن (way of thinking) دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے ہمیشہ غلطیاں کرتا ہے(to err is human)۔ ایسے موقع پر انسان کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو قنوطیت (ناامیدی)سے بچنا چاہیے ، اور مبنی بر رحمت سوچ کو اپنانا چاہیے۔ انسان جب اس طرز فکر کو اختیار کرے گا، تو وہ تخلیق کے بارے میں ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرے گا۔ وہ یہ کہ انسان کے اندر فطری طور پر یہ صلاحیت رکھ دی گئی ہے کہ اس کے اندر ہر غلطی یا ذنب کے بعد احساس ندامت (repentance) جاگتا ہے۔
اس احساس کے تحت اس کے اندر شدید طور پر ری تھنکنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ری تھنکنگ اس کے ذہن کو جگاتی ہے۔ اس کا احساس ندامت اس کی شخصیت کے ارتقا (personality development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک ایسا پراسس (process) جاری ہوجاتا ہے، جو اس کی روحانی ترقی کو نئی اونچائیوں تک پہنچا دیتا ہے، وہ اعلیٰ درجہ میں ایک مزکیّٰ انسان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلامی روحانیت اپنی حقیقت کے اعتبار سے تخلیقی روحانیت (creative spirituality) کا نام ہے۔ اسلامی روحانیت در اصل ایسے مومن کی ذہنی پیداوار ہے، جو مسلسل تدبر کے ذریعہ اس قابل ہوگیا ہو، جو روحانی آئٹم (content of spirituality) کو چیزوں سے دریافت کرسکے، اور اس طرح اپنی روحانیت کو ترقی یافتہ رروحانیت بنائے۔
قرآن میں اس عمل کو شہد کی مکھی کے عمل کی مثال سے واضح کیا گیا ہے (النحل،
یہاں قرآن میں آیت سے مراد روحانی نکٹر (nectar of spirituality) ہے۔ مومن کا تیار ذہن جب زمین و آسمان کو دیکھتا ہے۔ تو وہ بار بار چیزوں میں چھپے ہوئے روحانی نکٹر کو دریافت کرتا ہے، اور پھر اس کو اخذ کرکے اپنی فکری ارتقا کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر ایک روحانی شخصیت جاگتی ہے۔ اس طرح اس کی سوچ ترقی کرتے کرتے اس کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنادیتی ہے۔
زمین و آسمان کے اندر یہ روحانی نکٹر مادی صورت میں نہیں ہے، جیسا کہ شہد کی مثال میں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ امکان (potential)کے روپ میں ہے، جو دریافت کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی حیثیت مادی نکٹر کی ہے، اور روحانی آئٹم کی حیثیت توسم کے ذریعہ اخذ کردہ اسپریچول وزڈم (spiritual wisdom) کی۔
واپس اوپر جائیں
الرسالہ مشن کے تعلق سےمیں نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ مائنڈ بیسڈ معرفت، اور پیس بیسڈ ایکٹوزم۔ لیکن میرا خیال ہے کہ الرسالہ مشن کی سب سے بڑی ڈسکوری ہے: منصوبہ تخلیق کے مطابق دین کی صحیح تعبیر پیش کرنا۔ پہلی دو نوں باتیں اس کی عملی شکلیں ہیں، اقدام کی دنیا میں عملی طور پر یہ دونوںبڑی ڈسکوری ہیں۔مولانا اس پر کچھ تبصرہ فرمائیں۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
میں کہوں گا کہ میری سب سے بڑی ڈسکوری اللہ کی دریافت ہے۔ اللہ کی دریافت سے مراد اللہ کو حی و قیوم کی حیثیت سے شعوری طور پر جان لینا۔ میرے علم کے مطابق اس ڈسکوری میں شاید مَیں اکیلا ہوں۔ اگر آپ کو اس کا تجربہ کرنا ہے تو آپ دنیا کے کسی بڑےعالم کی مجلس میں ایک گھنٹہ بیٹھیے اور دیکھیے کیا آپ کو اس مجلس میں خدا کا زندہ تذکرہ ملتا ہے،یا پھر کسی کتب خانہ میں جاکر تلاش کیجیے کہ کیا کسی شخص نے اللہ رب العالمین کے وجود پر کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے۔ کیا آپ کسی ایسی تحریک کو جانتے ہیں ، جس کا مرکز و محور صرف اللہ ہو۔ میرے علم کے مطابق لوگ اللہ پر رسمی عقیدہ تو رکھتے ہیں ، لیکن انھوں نے شعوری طور پر اللہ رب العالمین کو ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے دریافت نہیں کیا۔
اللہ کی دریافت ایک چیز کی دریافت نہیں ہے، بلکہ اللہ کی دریافت تمام چیزوں کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو اللہ کی دریافت ہوجائے، اس کو زندگی کا سرا مل جائے گا۔ وہ زندگی کی حقیقت کو گہرائی کے ساتھ جان لے گا۔ اس کو زندگی کے آغاز اور زندگی کے انجام کی معرفت ہوجائے گی۔ وہ ہر چیز کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ اس کو معرفت کا وہ سرا مل جائے گا، جس کی روشنی میں وہ تمام چیزوں کو ایز اٹ از (as it is) دیکھنے کے قابل ہوجائے گا۔ اللہ کی دریافت سے پہلے انسان نہ اپنے آپ کو حقیقی طور پر جانتا ہے ، اور نہ بقیہ کائنات کو۔وہ نہ تاریخ کو جانتا ہے، اور نہ تعبیر تاریخ کو۔
میری ڈسکوری کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ساری دنیا کے مسلمان یہ جانتے ہیںکہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو رحمۃ للعالمین (الانبیاء،
وہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے تاریخ میں ایک انقلاب برپا کیا۔ جس کا حوالہ قرآن میں اتمام نور (التوبۃ ،
میں نے اپنے مطالعے کے ذریعے اس حقیقت کو دریافت کیا، اور سائنسی فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، اللہ رب العالمین کی اعلیٰ معرفت تک پہنچا۔ یہ ربانی معرفت بلاشبہ میرا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اگر میں اس فریم ورک سے بے خبر ہوتا تو شاید میں ایک اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے جیتا اور اندھے بہرے انسان کی حیثیت سے مرتا۔ رسول اللہ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا ایک ناقابل بیان پہلو یہ ہے کہ آپ کے ذریعے وہ انقلاب آیا، جس نے اللہ کی اعلیٰ معرفت تک رسائی کو ہر انسان کے لیے ممکن بنادیا، اور بلاشبہ اللہ کی اعلیٰ معرفت سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔معرفت صرف ایک چیز نہیں ، وہ تمام مطلوب چیزوں کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
یہود کی تاریخ کے بارے میں ایک آیت قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللَّہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (
قرآن کی اس آیت میںکسی امت کے لیے حمل کتاب کے دو درجے معلوم ہوتےہیں۔ ایک ہے انسانی درجے کا حمل (bearing)، اور دوسرا ہے حیوانی درجہ کا حمل۔ انسانی درجے کا حمل وہ ہے، جب کہ امت اسپرٹ کے اعتبار سےخدا کی کتاب کی حامل ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت ایک زندہ امت کی حیثیت سے باقی ہو۔ اس کے بعد جب امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آجائے تو اس وقت امت حمل حیوانی کے درجے میں آجاتی ہے۔ یعنی فارم تو باقی رہتا ہے، لیکن اس کی اسپرٹ غائب ہوجاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ظاہر میں لوگ سمجھتے ہیں کہ امت دین پر قائم ہے۔ حالاں کہ یہ قائم ہونا ویسا ہی ہے جیسے حیوان کی پیٹھ پر کتاب لاد دی جائے۔
جب کسی امت کا یہ حال ہوجائے تو اس وقت کرنے کا کام یہ نہیں ہوتا کہ فارم کی دھوم مچائی جائے۔ بلکہ ا س وقت کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ امت کے اندر دوبارہ اسپرٹ کو زندہ کیا جائے۔ اس کو دوبارہ دین کے معنوی پہلو پر کھڑا کیا جائے۔ کسی امت میں دین کبھی کلی معنوں میں ختم نہیں ہوتا۔ ختم ہونے کا مطلب عملاً یہی ہے کہ امت کے افراد میں دین کا فارم تو بظاہر موجود ہو، مگر دین کی اسپرٹ ان کے اندر سے نکل گئی ہو۔ مثلاً نفرت والا دین تو موجود ہو، لیکن محبت والا دین موجود نہ ہو۔ مبنی بر تشدد دین تو موجود ہو، لیکن مبنی بر امن والا دین غائب ہوگیا ہو۔ مبنی بر قومیت والا دین تو موجود ہو، لیکن مبنی بر دعوت والا دین ان کے اندر پایا نہ جائے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، یَعْنِی الْمَوْتَ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔اس کی شرح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ موت دنیا کی لذتوں سے آدمی کوپوری طرح منقطع کردیتی ہے ( فإنہ یقطع لذات الدنیا قطعا)۔
اس حدیث میں لذات سے مراد دنیوی تمنائیں (worldly aspirations)ہیں۔یہاں جس چیز کو ھادم اللذات کہا گیا ہے، اس کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کے اندر اگر موت کا زندہ شعور ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کی دنیوی وابستگی (worldly attachment)باقی نہ رہے گی۔ وہ موت سے پہلے کی زندگی کے مقابلے میں موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ اہم سمجھے گا۔ اس کے بعد اس کی سوچ مکمل طور پر آخرت رخی سوچ (akhirat-oriented thinking) بن جائے گی۔
اس سوچ کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی کی امنگیں، آدمی کی دوڑ بھاگ، آدمی کی منصوبہ بندی، سب آخرت رخی ہوجائے گی۔ جو آدمی موت سے غافل ہو ، وہ موجودہ دنیا کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے، اس کے ذہن پر موجودہ دنیا کا نقصان اور فائدہ چھایا رہتا ہے۔ وہ ایک دنیا پرست انسان بن جاتا ہے۔لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا زندہ شعور آدمی کو حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک انقلاب آجائے۔ اب وہ سب سے زیادہ اس دن کے بارے میں سوچے گا، جب کہ لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے(المطففین،
واپس اوپر جائیں
اسلام میں جنگ، دفاع کا معاملہ (issue of defence) ہے۔ اور امن، اقدام کا اشو (issue of advancement) ہے۔ اسلام میں اہل ایمان کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے جنگ چھیڑیں ۔ البتہ جہاں تک امن کا تعلق ہے ، اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن اقدام کا منصوبہ بنائیں۔ اسلام کا یہ اصول فطرت کے قانون پر مبنی ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، جنگ کے ذریعہ کسی مثبت نتیجہ کا حصول ممکن نہیں۔ کیوں کہ جنگ سے کسی بات کا فیصلہ نہیں ہوتا، نہ ہارنے کی صورت میںاور نہ جیتنے کی صورت میں۔ جنگ میں اگر فتح حاصل ہو، تب بھی ہارنے والے فریق کے دل میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ اس لیے جنگ میں فتح بھی ایک نئی جنگ کا آغاز بن جاتا ہے۔
پر امن منصوبہ بندی ہمیشہ اپنا کام کرتی ہے، پرامن منصوبہ بندی کوئی نیا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ وہ صرف مسئلہ کے حل کی طرف لے جاتی ہے۔ پر امن منصوبہ بندی کے تحت اقدام کرنا، ایک ایسے انجام کی طرف لے جاتا ہے جہاں جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور لوگوں کو پر امن سرگرمیوں کے لیے مواقع (opportunities) حاصل ہوجائیں۔ اسلام کے دورِ اول کی تاریخ اس اصول کی تصدیق کرتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل ایمان اور ان کے مخالفین کے درمیان کچھ لڑائیاں ہوئیں۔ مثلاً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ حنین، وغیرہ۔ مگر ان لڑائیوں سےٹکراؤ ختم نہیں ہوا۔
ٹکراؤ کا خاتمہ اس وقت ہوا، جب آپ نے یک طرفہ طور پر صلح کی۔ قرآن میں فتح کی آیت صرف صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس آیت میں فتح کا مطلب ہے ٹکراؤ کا خاتمہ اور پرامن سرگرمیوںکے لیے موافق ماحول پیدا ہوجانا۔کسی اور غزوہ کے بعد فتح کی آیت نہیں اتری۔حدیبیہ کا واقعہ 6 ہجری میں پیش آیا۔ اس موقع پر فریق ثانی کی کوشش صرف یہ تھی کہ رسول اور اصحابِ رسول مکہ میں داخل نہ ہوں، اور عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ چلے جائیں۔ مگر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے امن کی بات چیت (peace negotiation) شروع کی۔ اس معاملہ میں آپ اس آخری حد تک گیے کہ فریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر منظور کر لیا۔ صرف اس مقصد کے لیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح ہوجائے اور معتدل حالات قائم ہوجائیں۔ تاکہ کھلے طور پر اسلام کے دعوتی مشن کو جاری کیا جاسکے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس طرح فریقِ ثانی سے یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلی تو اس کے بعد قرآن کی سورہ نمبر
اسلام میں جنگ مجبوری کے تحت وقتی دفاع کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پر امن منصوبہ اس لیے ہوتا ہے کہ سماج کے اندر مستقل طور پر اعتدال کی حالت قائم ہوجائے۔ ہر فرد کے لیے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع حاصل ہوجائیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
بعد کے دور کے مسلم علماء نے جو باتیں کہی ہیں، ان کی ایک قسم وہ ہے جو نص قطعی پر مبنی ہو۔ کوئی عالم جب ایک ایسی بات کہے جو قرآن وحدیث کے ثابت شدہ حوالوں پر مبنی ہو تو ایسی رائے پر کسی کو تنقید کا حق نہیں۔ مثلاً ایک عالم اگر یہ کہتا ہے کہ نماز اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن ہے تو اس پر کوئی شخص تنقید کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ رائے ایک معلوم نص پر مبنی ہے۔رائے کی دوسری قسم وہ ہے جو قرآن و حدیث پر اضافہ کے ہم معنٰی ہو۔ مثلاً دار الکفر، دار الحرب اور دار الاسلام کی اصطلاحیں مقرر کرنا۔ ایسی رائے شرعی اصطلاح کے مطابق ایک اجتہاد ہے۔ اجتہاد کے بارے میں شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ مجتہد کا اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔
واپس اوپر جائیں
محبت انسانی کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى یُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہِ(مسند احمد، حدیث نمبر 13875) ۔ یعنی تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ اس بات کو فارسی شاعر شیخ سعدی (585-691ـھ) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:ہر چہ بر خود مہ پسندی، بر دیگراں مہ پسند (جو چیز تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اس کو تم دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو)۔
ہر انسان سے محبت کرنا، محض ایک سماجی یا اخلاقی تقاضہ نہیں ہے، بلکہ وہ خود اپنی شخصیت کے ارتقا کی بات ہے۔ یہ انسان کا خود اپنا انٹرسٹ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔ جو آدمی ایسا نہ کرے، وہ اپنے آپ کو جنت میں داخلے کے لیے غیر مستحق ثابت کررہا ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِیمًا إِلَّا قِیلًا سَلَامًا سَلَامًا (
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کا عقیدہ ہر انسان کے لیے حسن اخلاق کو اس کے ذاتی انٹرسٹ کا معاملہ بنادیتا ہے۔ ہر آدمی اخلاق کے معاملے میں حد درجہ حساس ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ اخلاق کے معاملے میں اعلیٰ معیار پر قائم نہ ہو تو وہ قانون قدرت کے مطابق، جنت میں داخلے کے لیے نااہل ہوجائے گا۔ جنت کو ماننے والا کوئی شخص اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر پورا نہ اترے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بنی اسرائیل (یہود) کے حوالے سے ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِذْ نَجَّیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ (
یہ اس واقعہ کا ذکر ہے، جب کہ قدیم مصر میںیہود کو فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے ظلم کا سامنا تھا، اور پھر اللہ نے اس سے نجات دی۔ موجودہ زمانے میں نجات کا یہی واقعہ امت مسلمہ کے ساتھ پیش آیا ۔ یہود کے ساتھ قدیم عذاب در اصل مذہبی تعذیب (religious persecution) کا واقعہ تھا۔ موجودہ زمانے میںامت مسلمہ کے ساتھ بھی زمانی فرق کے ساتھ اسی قسم کا تجربہ پیش آیا۔ یہ تجربہ زیادہ تر سیاسی جبر (political persecution) کی بنا پر تھا۔ اللہ تعالی نے ایسے حالات پیدا کیے کہ دنیا سے سیاسی جبر کا نظام ختم ہوگیا، اور آزادانہ جمہوریت کا نظام ساری دنیا میں قائم ہوگیا۔ 1945 میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی، اور دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ طے ہوا کہ اب کسی بھی شخص یا گروہ پر مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کا جبر یا تشدد نہیں کیا جائے گا۔
اب دنیا کامل مذہبی آزادی کے دور میں ہے۔ اب اگر کسی گروہ کو جبر یا تشدد کا سامنا پیش آئے تو وہ خود اس کی اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کی بنا پر ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ لوگوں نے’’آبیل مجھے مار‘‘ کی سیاست اختیار کی ۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص یا گروہ حقیقی معنوں میں پر امن طریق کار کو اختیارکرتے ہوئے اپنا کام کرتا ہے تو اس کو ہرگز کسی سے کسی قسم کے جبر یا تشدد کا سامنا پیش نہیں آئے گا۔ قدیم زمانے میں یہود کو ظلم سےجو’’ نجات‘‘ ملی تھی، موجودہ زمانے میں اس سے بہت زیادہ بڑی ’’نجات‘‘ اہل اسلام کو مل چکی ہے۔ اب ان کے لیے شکر کا موقعہ ہے، نہ کہ شکایت کا موقعہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: إِنَّا أَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ (
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن آخرت کا مشن تھا۔ مگر یہ مشن اتفاقاً نہیں بنتا ۔ اس کے لیے پیغمبروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپنا مشن شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ انسان کے خالق نے ان کو کس منصوبہ کے تحت پیدا کیا ہے۔ غور و فکرکی اس زندگی کے بعد انھیں اللہ کی طرف سے ہدایت ملتی ہے۔ اور پھر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی آخرت رخی (akhirat-oriented life)ہو، انسان کی سوچ کا مرکز و محور آخرت ہو، وہ اپنی زندگی اس سوچ کے تحت گزارے کہ دنیا میں ان کی جو شخصیت بنے ،وہ آخرت کے اعتبار سے ایک کامیاب شخصیت ہو۔
پیغمبر اس لیے نہیں آتا کہ وہ ملی ورک یا سوشل ورک جیسے کام کرےیا کوئی سیاسی پروگرام چلائے۔ پیغمبر کا مشن یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو زندگی کے اصل مقصد سے آگاہ کرے، وہ لوگوں کو بتائے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ، ان کے لیے کامیابی کیا ہے اور ناکامی کیا ۔ وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ موت کے بعد جب وہ آخرت کی دنیا میں پہنچیں تو وہ اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں۔ اللہ کی طرف سے پیغمبروں کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی جھکاؤ (tilt)کا ثبوت نہ دیں، وہ کسی سمجھوتے کے بغیر خدا کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔ اس معاملے میں وہ کسی بھی عذر کو استعمال نہ کریں۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر یہ خیال ہے کہ اسلام کی دعوت کا کام اگر کیا جائے تو اس کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں کی طرف سے یا مخاطبین کی طرف سے داعی کو پتھر مارا جائے۔ اگر داعی کا استقبال پتھر سے نہ کیا جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ دعوت، انبیاء کے نہج پر نہیں ہے۔ وہ پیغمبرانہ دعوت نہیں ہے، بلکہ کوئی اور دعوت ہے۔ اس سوچ کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ بلکہ جو دلیل موجود ہے، وہ اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اور اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں اللہ تعالی سے یہ دعا کی: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیسیر کا یہ معاملہ مطلق معنی میں پایا جائے گا، یعنی وہ داعیوں کو خود بخود حاصل ہوجائے گا ۔بلکہ یہ ایک موقع (opportunity) کا معاملہ ہوگا۔ یعنی داعی اگر اس کو جانے، اور اس کے مطابق دانش مندانہ انداز میں اپنا دعوتی عمل جاری کرے تو اس کو اس تبدیلی کا فائدہ حاصل ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس فائدہ کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ داعی اپنا کام غیر نزاعی انداز میں کرے۔ اگر اس نے اتھاریٹی سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا، تواس کو ٹکراؤ کے جواب میں ٹکراؤ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں
عظمت رفتہ کی بازیابی موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا ایک محبوب موضوع ہے۔ عظمت رفتہ کی بازیابی کا مطلب ہے امت مسلمہ کے سیاسی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا ، یا اگر سیاسی اصطلاح سے اعراض کیا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ملت کی تہذیبی عظمت کی بازیافت۔ سوسال سے بھی زیادہ مدت سے تقریبا تمام مسلم رہنما اس کواپنا محبوب مقصد بنائے ہوئے ہیں، خواہ وہ عرب رہنما ہوں یا غیرعرب رہنما۔ان حضرات کی تحریر و تقریر سے معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قرآن یا حدیث کے کس حوالے سے انھوں نے یہ نشانہ اخذ کیا ہے تو معلوم ہوگا کہ اس معاملہ میں کوئی بھی حقیقی حوالہ ان کے پاس موجود نہیں۔ یہ مسلمانوں کے قومی جذبات کی ترجمانی ہوسکتی ہے، لیکن وہ قرآن و حدیث سے اخذ کردہ کوئی ثابت شدہ مقصد نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق، عظمت رفتہ کی واپسی کوئی مقصد نہیں بن سکتا۔ اس نشانے کو اگر مادی معنی میں لیا جائے تو وہ ایک بے معنی اصطلاح ہوگی۔ کیوں کہ مادی ترقی کے اعتبار سے زندگی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے، وہ کبھی پیچھے کی طرف سفر نہیں کرتی۔ اس لیے مادی اعتبار سے اگر ملت کی منزل متعین کی جائے تو وہ یہ ہونا چاہیے کہ جدید تہذیب میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کیا جائے، اور مسلمانوں کو جدید معنی میں تعلیم و ترقی کے درجے تک پہنچایا جائے۔
اور اگر واپسی کے اس نشانے کو قرآن و حدیث کے معنی میں لیا جائے تو اس کو امام مالک کے استاذ، صالح بن کیسان کے الفاظ کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: لا یُصْلِحُ آخِرَ ہَذِہِ الأُمَّةِ إِلا مَا أَصْلَحَ أَوَّلَہَا ( مسند الموطا للجوہری، اثر نمبر
واپس اوپر جائیں
قرآن کے ایک مقام پر اٹھارہ نبیوں کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ہر ایک کے لیے یہ آیت آئی ہے:وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِینَ (
یہاں فضیلت کا مطلب کیا ہے۔ یہ قرآن کی ایک اور آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں ایک مقام پرمختلف پھلوں کے بارے میں یہ آیت آئی ہے:وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَى بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ (
پھلوں میں فضیلت کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی ایک پھل دوسرے پھلوں سے علی الاطلاق طور پر افضل ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پھل میں دوسرے پھل کے مقابلے میں ایک اضافی خصوصیت (additional quality) ہوتی ہے۔ کسی میں ایک مزہ ہے، او رکسی میں دوسرا مزہ۔ کوئی خالص میٹھا ہے، اور کوئی ترشی آمیز میٹھا۔ کوئی کم میٹھا ہے اور کوئی زیادہ میٹھا، کسی میں ایک غذائی فائدہ ہے ، اور کسی میں دوسراغذائی فائدہ، وغیرہ۔
یہی معاملہ مختلف نبیوں کے ساتھ تھا۔ ہر نبی مختلف قوموں میں اور مختلف حالات میں آئے۔ ہر نبی کو ان کے مقامی حالات کے اعتبار سے کوئی اضافی خصوصیت دی گئی۔ مثلاً حضرت موسیٰ کو عصا کا معجزہ، اور حضرت مسیح کو شفائے امراض کا معجزہ، وغیرہ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نبی بنا کر بھیجے گیے۔ اس لیے آپ کو کوئی وقتی معجزہ نہیں دیا گیا، بلکہ ایسا معجزہ دیا گیا جو قیامت تک باقی رہے، اور وہ قرآن تھا۔ قرآن کا معجِز کلام ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ایک حجت ہے۔
واپس اوپر جائیں
دور زوال میں کسی امت کا حال کیا ہوتا ہے، اس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (
کسی امت کی یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب کہ اللہ رب العالمین کے بارے میں ان کا عقیدہ محض رسمی عقیدہ بن جائے، وہ زندہ عقیدہ کی حیثیت سے ان کے درمیان باقی نہ رہے۔ اس وقت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کو بڑے بڑے القاب دینے لگتے ہیں۔ مثلا امام، شیخ الاسلام، مجدد کامل، فقیہ الامت، حکیم الامت، حکیم الاسلام،امام اعظم،وغیرہ۔ اس طرح کے بڑے بڑے القاب دینے کی بنا پر ان کا ذہن یہ بن جاتاہے کہ علم کے بارے میں یہ لوگ آخری شخص بن گئے۔ تجدید اور اجتہاد کا عمل ان کے اوپر ختم ہوگیا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑوں کو پیغمبر تو نہیں کہتے، لیکن عملا ًوہ ان کو دین میں پیغمبر جیسا درجہ دے دیتے ہیں۔
یہ تنزل کا آخری درجہ ہے۔ جب امت میں یہ درجہ آتا ہے تو امت کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اجتہادی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ تقلید کو دین سمجھ لیتے ہیں، اور اجتہاد کو بے دینی۔ ان کی سوچ کی آخری حدیہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مفروضہ اکابر کے ملفوظات کو دہراتے رہیں۔ وہ اپنے بڑوں کی رایوں کو تفقہ کا اعلیٰ درجہ سمجھ لیتے ہیں۔ زوال کے اس حد پرپہنچنے کے بعد ان کا وہی درجہ ہوجاتا ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (
واپس اوپر جائیں
سرحد پار سے آنے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو انتہا پسند گروپ ہیں، وہ اب وہاں کی حکومت کے لیے غیر مطلوب (unwanted) بن چکے ہیں ۔ حکومت کے ذمہ دار اس کا اعتراف یہ کہہ کر کررہے ہیں کہ وہ ہمارےلیے مسئلہ (problem) بن گیے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیںکہ حکومت ان کے خلاف فوری طور پر کوئی سخت اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ کیوں ہوگیا ہے کہ حکومتی ذمہ دار وہاں کی انتہا پسند تنظیموں سے اختلاف کرتے ہوئے بھی ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ اس معاملے میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ جن مسائل (issues) کو لے کر پڑوسی ملک میں انتہاپسند تحریکیں اٹھیں، ان کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کے لوگوں کے لیے جذباتی اشو بن گیا۔ یہی اس معاملے میں اصل غلطی تھی۔ اجتماعی مسائل میں بے حد ضروری ہے کہ ان کو سنسٹائز (sensitize) نہ کیا جائے، یعنی ان کو جذباتی اشو نہ بنایا جائے۔
کسی اجتماعی مسئلے کو ہمیشہ معتدل حد میں باقی رکھنا چاہیے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قوموں کےاجتماعی مسائل مقدس عقیدے کی مانند نہیں ہوتے۔ اس طرح کے مسائل میں ہمیشہ ری تھنکنگ ، ری پلاننگ، یو ٹرن پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی مسئلے کو سنسٹائز کرکے اس کو ایک جذباتی اشو بنا دیا جائے تو اس معاملے میں کوئی نیا موقف (stand) لینا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کوئی جذباتی مسئلہ جب تک اعتدال کے دائرے میں ہو، وہ رہنماؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑھ کر ایک جذباتی اشو بن جائے تو رہنما پیچھے ہوجاتے ہیں، اور عوام آگے ہوجاتے ہے۔ اب رہنماؤں کےلیے کوئی نیا موقف اختیارکرنا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری میں اس کا ابتدائی جزء یہ ہے:یَأْتِی فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ، سُفَہَاءُ الأَحْلاَمِ، یَقُولُونَ مِنْ خَیْرِ قَوْلِ البَرِیَّةِ، یَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّة(صحیح البخاری، حدیث نمبر3611)۔
اس حدیث میں ایک ظاہرے کی طرف اشارہ ہے، جس کی ایک انتہائی صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مگراس سے قطع نظر اس حدیث سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔وہ یہ کہ کوئی آدمی جب اپنے عہد شباب (youth age) میں ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنی عقل و فہم کے اعتبار سے غیر پختہ (immature) ہوتا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کی اس رائے کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے جس کو اس نے پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ظاہر کی ہو۔
قرآن سے بھی فطرت کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسی جب جوانی کی عمر میں تھے۔ اس وقت انھوں نے مصر کے ایک قبطی کو گھونسا ماردیا، جس سے وہ مرگیا (القصص،
مذکورہ حدیث میں مسلم تاریخ کے ایک اہم پہلو کی توجیہہ ملتی ہے۔ مسلم تاریخ اپنے بعد کے زمانے میں نظریاتی انتہاپسندی (ideological extremism) کی طرف چلنے لگی۔ اس کو حدیث میں انتباہ کی زبان میں غلو (ابن ماجہ، حدیث نمبر3029)کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطالعے سے مذکورہ تاریخی ظاہرہ کی نفسیاتی توجیہہ معلوم ہوتی ہے۔وہ یہ کہ بعد کے زمانے میں جن افراد کو مسلمانوں کے اندر مفکر (thinker)کا درجہ ملا، ان کی فکر ان کے عہدِ شباب میں تشکیل پائی تھی، جب کہ وہ پختگی کی عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ مثلاً ابن تیمیہ، عبدالوہاب نجدی، ابولاعلی مودودی، وغیرہ۔
عہد شباب میں انسان کے اندر جوش کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کے افکار میں اکثر انتہاپسندی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اعتدال کی زبان بولنے کے بجائے، انتہاپسندی کی زبان بولنے لگتا ہے۔ بعد کو اس کی یہ فکر مقدس بن کر لوگوں میں اتنی پھیل جاتی ہے کہ لوگ اس کو نظرثانی کے بغیردرست فکر سمجھ لیتے ہیں۔ یہی واقعہ بعد کے زمانے کے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔
مثلاً ابن تیمیہ کے زمانے میں یہ خبر پھیلی کہ ایک عیسائی نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کوئی بات کہی ہے، جس کو اس وقت کے مسلمانوں نے شتم رسول کا کیس قرار دیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ ابن تیمیہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔اس وقت انھوں نے عربی میںایک ضخیم کتاب لکھی: الصارم المسلول علی شاتم الرسول ۔ اس کتاب میں انھوں نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ جو آدمی شتم رسول کا مرتکب ہو، اس کی سزا قتل ہے۔ ابن تیمیہ اس وقت اگر پختگی کی عمر میں ہوتے تو یقیناً ان کا ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ مذکورہ عیسائی سے مل کر اس کو ہمدردانہ انداز میں سمجھاتے۔ وہ ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں وہ بتاتے کہ شتم رسول جیسا غیر فطری معاملہ ہمیشہ غلط فہمی کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ایسے آدمی کے اوپر تبلیغ کرنا چاہیے، اور پر امن دعوتی عمل کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہیے۔
سید ابوالاعلی مودودی کے زمانے میں ایک واقعہ پیش آیا، اس کے بعد انھوں نے اپنی اردو کتاب الجہاد فی الاسلام لکھی۔ اس وقت وہ اپنی جوانی کی عمر میں تھے۔ چناں چہ انھوں نے جوش و خروش کے انداز میں ایک ایسی کتاب لکھی جس میں جہاد بمعنی قتال کی زبردست وکالت کی گئی تھی۔ حالاں کہ اگر وہ اس وقت پختگی کی عمر میں ہوتے تو شاید وہ ایک اور کتاب لکھتے جس کا عنوان یہ ہوتا، الدعوۃ الی اللہ۔ اس کتاب میں وہ پر امن دعوت کی اہمیت بتاتے اور مسلمانوں کو راغب کرتے کہ وہ پرامن دعوت کے اصول پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی معاملہ دوسرے مسلم مفکرین کے ساتھ پیش آیا۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے براہ راست طور پر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے ،نہ کہ بعد کے زمانے میں لکھی ہوئی کتابوں کا۔
واپس اوپر جائیں
طالب علمی کا دور نوجوانی کا دور ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دور میں آدمی ایک غیر پختہ انسان ہوتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق کرے۔ وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ جذباتی بات اور دانش مندانہ بات کے درمیان تجزیہ کرسکے۔ وہ لفظی نعرہ اور دانشمندانہ قول کو الگ الگ کرکے دیکھے۔ وہ نتیجہ خیز اقدام اور غیر نتیجہ خیز اقدام کے درمیان فرق کو سمجھے۔ یہ فرق خود فطرت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پختگی (maturity) کا تعلق عمر سے ہے۔ جب تک آدمی ایک خاص عمر تک نہ پہنچے ، اس کا شعور ایک پختہ شعور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے طالب علموں کی تنظیم بنا کر ان کو مظاہراتی سرگرمیوں میں لگانا کوئی کام نہیں۔ اس قسم کی سرگرمی طالب علموں کےڈی ریلمنٹ (derailment) کے ہم معنی ہے۔ اپنے نتیجے کے اعتبا ر سے وہ طالب علموں کے ساتھ دشمنی ہے، نہ کہ دوستی۔
طالب علموں کے لیے صحیح ترین مشغلہ یہ ہے کہ وہ پڑھیں، اور پڑھیں، اور پڑھیں۔ وہ تعلیم کے ختم تک اپنی ذہنی ارتقا (intellectual development) کے سوا کسی اور چیز کو اپنا فوکس نہ بنائیں۔ مثلاً طالب علمی کے دوران وہ کالج اور یونیورسٹی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت لائبریری کو دیں۔ وہ کلاس کے بعد کا وقت کتابوں کے مطالعے میں لگائیں۔ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ طالب علمی کے زمانے میں وہ صرف اپنے تعلیمی مستقبل کو فوکس کریں۔ کسی اور چیز پر صرف اس وقت فوکس کریں، جب کہ تعلیم کا زمانہ ختم ہوچکا ہو۔
موجودہ زمانے میں اقتصادیات تعلیم کا ایک جزء بن گیا ہے۔ مگر طالب علم کو چاہیے کہ اس کو وہ صرف ضرورت کے خانے میں رکھے۔ تعلیم کی تکمیل سے پہلے تعلیم برائے تعلیم (education for the sake of education) کا فارمولہ اختیار کرے۔ یاد رکھیے موجودہ زمانہ اختصاص کا زمانہ ہے۔ اگر آپ کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں تو آپ کی قیمت ہے، اور اگر آپ مہارت نہ رکھتے ہوں تو آپ کی قیمت عملی زندگی میں بہت زیادہ گھٹ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں
کچھ لوگوں کا طریقہ ہے کہ وہ کسی کےبارے میں کھل کر رائےنہیں دیتے، البتہ وہ اس کے بارے میں مشتبہ اظہار رائے (doubtful comment) دیتے ہیں۔ اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو 6 ھ کے آخرمیں پیش آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومن ایمپائر کے بادشاہ ہرقل کو دعوتی مکتوب بھیجا۔ اس وقت ہرقل (Hercules)فلسطین میں موجودہ تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں تفصیلی روایت حدیث کی کتابوںمیں آئی ہے۔ اس مکتوب کے ملتے ہی ہرقل نے ابوسفیان کوبلایاجو کہ تجارتی سفر کے سلسلے میں اس وقت فلسطین میں موجود تھے۔ ان سے ہرقل کے جو سوالات اور جوابات ہوئے ان میں سے ایک یہ تھا:قَالَ:فَہَلْ یَغْدِرُ؟ قُلْتُ:لاَ، وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر7)۔ ہرقل نے پوچھا، کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے، ابوسفیان نے کہا : نہیں، اور ہم اس سے ابھی ایک معاہدہ کی مدت میں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم وہ اس میں کیا کرے گا۔
اس واقعے میں ابوسفیان ، جو اس وقت اسلام نہیں لائےتھے۔ ان کو صرف یہ کہنا تھا کہ نہیں۔ مگر اس کے بعد انھوں نے اپنے جواب میں جو بات (وَنَحْنُ مِنْہُ فِی مُدَّةٍ لاَ نَدْرِی مَا ہُوَ فَاعِلٌ فِیہَا) کہی ۔ یہ رسول اللہ کے کردار کے بارے میں ایک مشتبہ بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قسم کا مشتبہ بیان اسلامی تعلیما ت کےمطابق جائز نہیں۔
اعلیٰ انسانی اخلاق یہ ہے کہ آدمی وہ بات کہے جو عملاً واقعہ بن چکا ہو۔ جو بات واقعہ نہیں بنی، اس کو بیان کرنا زیر بحث شخصیت کے کردار کو مشتبہ بنانے کے ہم معنی ہے۔ یہ طریقہ بلاشبہ درست طریقہ نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ خیر (ثابت شدہ) بات بولے، ورنہ چپ رہے:وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُت(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔ یعنی جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر کی بات کہے، یا چپ رہے۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اگر حالات حاضرہ کے موضوع پر کلام کرتا ہے تو تقریبا ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ منفی انداز میں کلام کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ پر منفی تنقید کرتا ہے، وہ حالات حاضرہ میں ظلم کی نشاندہی کرتا ہے، اور بطور خود کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور پھر اس کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کردیتا ہے ۔ یہی معاملہ تقریر کا بھی ہے اور تحریر کا بھی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب چیزوں کے بارے میں غلط معیار سے سوچنا ہے۔ مقررین یا محررین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کے مطابق، چیزوں کو جانچنے کا ایک معیار (yardstick) بنا لیتے ہیں۔یہ معیار ہمیشہ آئڈیل پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے اس آئڈیل معیار پر چیزوں کو جانچتے ہیں تو پاتے ہیں کہ ہر چیز ان کی معیار سے کم ہے۔ اس ذاتی تجربے کی بنا پر وہ منفی بن جاتے ہیں، اور چیزوں کے بارے میں منفی رائے دینا شروع کردیتے ہیں۔ بطور خود وہ اس کو تنقید (criticism) سمجھتے ہیں۔یہ رواج ہمیشہ خود ناقد کی غلط فکری پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی حالات کبھی آئڈیل نہیں ہوسکتے۔ چوں کہ ہر آدمی کو آزادی ملی ہوئی ہے، اس لیے ہر آدمی اپنی آزادی کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ آزادی کا یہ استعمال دوسروں کی سوچ سے ٹکراتا ہے۔ جب ہر آدمی اپنی آزادی پر چلے تو لازماً ایسا ہوگا کہ ایک صورت حال جو ایک شخص کو درست معلوم ہو، وہ دوسرے کو غلط نظر آئے ۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے سوا کوئی اور نظام اس دنیا میں ممکن نہیں۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist) نہ بنیں، بلکہ وہ پریگمیٹک (pragmatic) بنیں۔ وہ یہ نہ دیکھیں کہ کیا ہونا چاہیے، بلکہ وہ یہ دیکھیں کہ عملاً کیا ہوسکتا ہے۔مذکورہ رواج کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ ہر آدمی منفی سوچ میں مبتلا ہے۔ ہر آدمی دوسروں کے خلاف شکایت لیے ہوئے ہے۔ لیکن اگر لوگ حقیقت پسند بنیں، اور چیزوں کو آئڈیل معیار پر نہ جانچیں، بلکہ پریگمیٹک معیار پر جانچیں تو اس منفی صورتِ حال کا خاتمہ ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
جس کو آپ دشمن سمجھتے ہیں، وہ آپ کا سب سے بڑا دوست ہے۔ آپ کا مفروضہ دشمن آپ کی فکر کو بیدار کرتا ہے۔ وہ شاک (shock)کے ذریعہ آپ کے ذہن کی بند کھڑکیوں کو کھولتا ہے۔ وہ آپ کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ آپ کو نان کریٹیو مائنڈ سے ترقی دے کر کریٹیو مائنڈ بنا تا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا دشمن آپ کا بے رحم ناقد ہے، اور بے رحم ناقد سے زیادہ اچھا مشیر (adviser) اور کوئی نہیں۔
میں ایک مرتبہ ایک شہر میں گیا۔ وہاں مجھےمقامی زو (zoo) دکھایا گیا۔ اس زو میں ایک انکلوزر (enclosure) تھا۔ اس انکلوزر میں بہت سے ہرن بیٹھے ہوئے تھے۔ زو کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ ہرن یہاں کے پرامن ماحول میں رہتے رہتے ڈل (dull) ہوجاتے ہیں، ان کی فرٹیلیٹی (fertility) کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہم کبھی کبھی ان کے درمیان بھیڑیا ڈال دیتے ہیں۔ تاکہ ہرن ان کے خوف سے دوڑیں، اور اس طرح ان کی فرٹیلیٹی کی صلاحیت بیدار ہو۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان بھی اگر آسودگی میں رہے تو اس کا ذہن ڈل ہوجائے گا۔ یہ اللہ تعالی کی حکمت کا معاملہ ہے کہ انسان کے معاشرے میں ان کے حریف (rival) موجود ہوں۔ تاکہ انسان کا ذہن برابر بیدار رہے، وہ کبھی ڈل (dull)نہ ہونے پائے۔ انسان کی ترقی کے لیے چیلنج (challenge) بہت ضروری ہے۔ چیلنج کی حیثیت شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کی ہوتی ہے۔ چیلنج ایک رحمت کا معاملہ ہے۔ چیلنج سے سوئے ہوئے انسان جاگتے ہیں۔ چیلنج آدمی کو مین (man)سے ترقی دے کر سوپر مین (superman)بنا دیتا ہے۔
انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں ہیں۔ لیکن یہ صلاحیتیں خوابیدہ (dormant) حالت میں ہیں۔ ان صلاحیتوں کو جگانے کے لیے’’دشمن‘‘ درکار ہوتے ہیں۔ دشمن آپ کا سب سے بڑا دوست ہے۔دشمن آپ کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
■ متلاشی حق انسان:اورنگ آباد سی پی ایس ممبر عبد السمیع صدیقی( فون9766663559:)
■ اسرائیل میں دعوت:اسرائیل سے ملنے والی خبروں کے مطابق، اسرائیل میں دعوت کے وسیع مواقع موجود ہیں، اور فلسطینی نوجوانوں کا ایک گروپ مسٹر طارق بن شہاب کی سرکردگی میں بیت المقدس اور ناصرہ (Nazareth)، وغیرہ، میں سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کرتا ہے۔ ذیل کا پیغام انھوں نے سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کے ٹرسٹی اور گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر مسٹر ثانی اثنین خان صاحب کو بھیجا ہے:
As Salam alaykom Brother, how are you. Let me tell you that the English Quran copies you had sent are almost finished. So when will the next shipment arrive here? We need many, many copies of all languages you have, brother, we need a big shipment.
■ سی پی ایس علماء ٹیم کا دعوتی دورہ: مولانا سید اقبال احمد عمری (چنئی)، اور حافظ فیاض الدین عمری ( حیدرآباد)نے
■
ث
■ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما یکم دسمبر 2017 کو نئی دہلی میں تھے۔ اس وقت انھوں نے ٹاؤن ہال کے نام سے 300 نوجوانوں کی منتخب ٹیم کو خطاب کیا تھا۔ یہ تمام لوگ اوباما فاؤنڈیشن کی جانب سے منتخب کیے گئے تھے۔ ان منتخب شدہ افراد میں دہلی سی پی ایس کے ممبر مسٹر اسد پرویز بھی تھے۔ مسٹر اسد پرویز نے اس موقع پر اداکارہ زائرہ وسیم کو ترجمہ قرآن بطور ہدیہ دیا۔اس پروگرام میں شریک معروف ٹی وی اینکر مز ندھی رازدان نے بتایا کہ انھوں نے صدراسلامی مرکز کا نام سنا ہے،اور وہ ان کی کتابیں پڑھنا پسند کریں گی ۔ لہذا انھیں کتابوں کا ایک سیٹ کوریرکر دیا گیا ہے۔
■ 5دسمبر 2017 کو ایک انڈونیشین وفد نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ یہ وفد عیسائی اور مسلمان ریسرچ اسکالروںکا تھا۔ ان لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اس بات پر انٹرایکشن کیا کہ کس طرح انڈیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں لوکل سطح پر مذہبی وزڈم کو بڑھاوا ملے (Religious Local wisdom for strengthening social harmony in Indonesia, India and Thailand.)۔ پروگرام کے بعد تمام لوگوں کو انگلش ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
ث
■
■
■ کیرالا سی پی ایس کے مسٹر شبیر علی (K) نے کیرتی انٹر نیشنل فیسٹیول آف بک اینڈ آتھرس میں شرکت کی۔ اس میلہ میں انھوں نے جن لوگوں کو ترجمہ قرآن دیا، ان میں منورما کی چیف نیوز پروڈیوسر مز شنیمول (Shanimol) بھی شامل ہیں۔ یہ میلہ
■ نوجوان داعی: مسٹر اظہر مبارک (بھاگلپور) سی پی ایس کا لٹریچر خود بھی پڑھتے ہیں، اور مختلف مواقع پر لوگوں کے درمیان سی پی ایس کا لٹریچر تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے نیو ہورائزن کالج (بھاگلپور) کی لائبریری کو سی پی ایس کا لٹریچر ہدیةً پیش کیا اور دو سال کے لئے صدر اسلامی مرکز کی انگلش میگزین ’اسپرٹ آف اسلام‘ کو کالج کی لائبریری کے لئے جاری کرایا ہے۔
■ مز شبینہ علی اور مز شبانہ خاتون کولکاتا ٹیم کی بہت متحرک ممبر ہیں۔ وہ کولکاتا میں سیکولر سطح پر ہونے والے مختلف پروگراموں کو بطور مواقع استعمال کرتی ہیں۔ وہ ان پروگراموں میں جاکر ان لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیتی ہیں، جہاں تک عام لوگوں کی پہنچ نہیں ہوتی ۔ دوسرے الفاظ میں وہ ملأ قوم میں دعوت کا کام کرتی ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج کے دور میں خواتین بھی اسی طرح دعوت کا کام کرسکتی ہیں، جس طرح مرد کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دونوں خواتین نے جن پروگراموں میں حصہ لیا، اور قرآن کو دیکھ کر مدعو حضرات نے جو تاثر پیش کیا ،وہ ذیل میں در ج کیا جاتا ہے:
٭ 30 November 2017: Century Celebration of Bose Institute Foundation, Bose Institute, Kolkata.
٭ 8 December 2017: Women’s Writer Fest, Saturday Club, Kolkata. Award winning Artist Ramanjit Kaur exclaimed excitedly on seeing the Quran that she also would like to have her copy of the Quran. And she believes in the Quran being a divine book since there is a mention of the Prophet in Guru Granth Sahib.
٭
٭
٭
٭
٭
٭
٭ 7 February 2018: Presentation on ‘Our Journey into Deep Space’, Birla Industrial and Technological Museum, Kolkata. NASA Scientist Dr. Sharmila Bhattacharya said she was honoured to have received a copy of the Quran.
٭
■ شیخ عبد الحق الترکمانی عرب عالم ہیں، اور لیسٹر برطانیہ میں رہتے ہیں۔ وہ صدر اسلامی مرکزسے تین سال قبل ملاقات کرچکے ہیں۔ اُس وقت انھوں نےتین دنوں تک مختلف موضوعات پر صدر اسلامی مرکز سے انٹرویو لیا تھا، اور کافی خوش ہوئے تھے۔ ذیل کا ای میل انھوں نے لکھ کریہ اجازت طلب کی ہے کہ وہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب الاسلام یتحدی (عربی ترجمہ: مذہب اور جدید چیلنج)کا اختصار کرنا چاہتے ہیں:
حضرة العلامة وحید الدین خان سدد اللہ قولہ وعملہ، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ: أسأل اللہ تعالى أن تکونوا بخیر وعافیة فی الدین والدنیا وأن یدیم علیکم نعمة التوحید والسنة وخدمة الدین بفضلہ وإحسانہ۔ أعرض على حضرتکم حفظکم اللہ رغبتی فی اختصار کتابکم العظیم *الإسلام یتحدى* ذلک لأننی سعیت فی طبعہ لدى عدة جہات فی البلاد العربیة فقالوا لی: الکتاب کبیر، وقد صار أکثر الناس الیوم لا یقرؤون ولیس عندہم صبر على الکتب الکبیرة فلو أمکن اختصار الکتاب إلى مقدار النصف بالترکیز على المسائل والأفکار الأساسیة وحذف التفاصیل۔ فأحببت أن أستأذنکم فی ہذا العمل خاصة مع انتشار الإلحاد فی ہذہ الأیام۔ وتقبلوا بقبول وافر الإحترام والتقدیر واللہ یحفظکم ویرعاکم والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ أخوکم: عبد الحق الترکمانی (فی ١١/١/٢٠١٨)
■ ایک عرب نے صدر اسلامی مرکز کی مشہور کتاب الاسلام یتحدی کے تعلق سے فتوی اسلام ویب ڈاٹ نیٹ (www.fatwa.islamweb.net) پر یہ سوال پوچھا تھا کہ اس کو پڑھنا چاہیے یا نہیں ۔ اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہےکہ دور جدید میں لکھی گئی کتابوں میں وہ ایک افضل کتاب ہے،اس کا پڑھنا فائدہ مند ہے، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ یہ کتاب خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہےجو دعوت کا کام کرتے ہیں:
السؤال: ما ہو رأیکم فى کتاب الإسلام یتحدى للکاتب الہندى وحید الدین خان؟ وہل یجوز قراءة ہذا الکتاب؟۔ الإجابــة :فکتاب: الإسلام یتحدى. للکاتب الہندی وحید الدین خان، من أفضل الکتب التی ألفت فی العصر الحدیث، والتی تتناول الدعوة إلى الإسلام وبیان أنہ الدین الحق، بأسلوب یناسب ثقافة العصر، ویواجہ أمواج الإلحاد والعلمانیة، یتمیز بعمق الفکرة وقوة الحجة، ویدل على رسوخ الکاتب فی العلم، وسلامة منہجہ وصحة معتقدہ وقوة إیمانہ، وقراءة ہذا الکتاب أمر نافع بإذن اللہ، لا سیما لمن یتصدى للدعوة إلى اللہ، ویجابہ أصحاب العقائد الباطلة والأفکار المنحرفة. واللہ أعلم. (رقم الفتوى 117706:)
■ My husband and I have read almost all books by Maulana Wahiduddin Khan. We are Pakistanis, living in Germany, and we want to make short educational videos in Urdu based on selected ideas and concepts from Maulana's books, mainly for Pakistani audience, as Ambassadors of Peace. We will be posting these videos on our YouTube channel specially made for this purpose, and Facebook as well, and you can then upload these videos on cpsglobal website for a global audience. This is purely for educational purposes and we do not intend to earn money from these videos in any way. Credit to Maulana will be given in every video and viewers will be expressly informed in every video that the videos are based on Maulana’s ideas and books. Reference to respective books will also be given in all the videos to bring viewers’ attention to the books. The idea is to propagate Maulana’s ideas from his books to everyone, including people who do not or cannot read books. Videos will be short (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.