بڑھاپے کا زمانہ یاد دلاتا ہے کہ اب انسان کے لیے موت کا وقت قریب آچکا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ پہلا دور حیات ختم ہوا، اور اب دوسرا دور حیات شروع ہونے والا ہے۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ وہ وقت قریب آچکا ہے ، جس کو قرآن میں یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (
بڑھاپا یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے عمل کا زمانہ ختم ہوچکا ہے، اور اب عمل کے مطابق محاسبہ کا وقت آگیا۔ بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ عارضی دور حیات سے گزر کر ابدی دور حیات میں داخل ہونے کا وقت قریب آچکا ہے۔بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ اب اس کا سامنا اس رب العالمین سے ہونے والا ہے جس سے اس کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔
بڑھاپے کا زمانہ یاددلاتا ہے کہ انسان کے لیے وہ وقت قریب آچکا ہے، جس کو قرآن میں یوم التغابن (التغابن،
بڑھاپے کا زمانہ آدمی کے لیے گویا فائنل کال (final call)ہے کہ اب تمھارے لیے تلافی ما فات کا آخری لمحہ ہے۔ جو کام ماضی میں نہ ہوسکا اس کو اب انجام دینے کی کوشش کرو۔ اب تمھارے لیے آخری وقت ہے کہ تم ماضی کی غلطی کی اصلاح کرلو۔ اب تمھاری زندگی میں جو تھوڑا سا وقت باقی ہے، وہ تمھارے لیے آخری وقت ہے۔ اس کو استعمال کرلو، کیوں کہ اب یہ وقت دوبارہ تمھارے لیے آنے والا نہیں۔پچھلا زمانہ اگر تم نے سونے میں گزاردیا تو اب جاگ اٹھو۔ کیوں کہ بیداری کا وقت اب دوبارہ آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اللہ رب العالمین کی قدرت کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں:لَہُ مَقَالِیدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشَاءُ وَیَقْدِرُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (
اس بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پوری کائنات کا سوئچ بورڈ اللہ رب العالمین کے پاس ہے۔ وہ جس سوئچ کو چاہے آن کرے، اور جس سوئچ کو چاہے آف کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ رب العالمین پر بھروسہ کرے۔ وہ مانگے تو اللہ رب العالمین سے مانگے۔ وہ امید رکھے تو صرف اللہ رب العالمین سے امید رکھے۔ اس معاملے میں اس کا یقین اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ اللہ رب العالمین سے کبھی اور کسی حال میں مایوسی کا شکار نہ ہو۔ یہ یقین کسی انسان کے اندر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ اللہ رب العالمین کو شعور کی سطح پر دریافت کرلے۔
ایک اور مقام پر اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَلِلَّہِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَفْقَہُونَ (
اس آیت میں منافقین سے مراد کوئی فرقہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو زبان سے اللہ کا اقرار تو کریں ، مگر اللہ پر ان کا اقرار دریافت (discovery) کے درجے تک نہ پہنچا ہو۔ اس بنا پر ان کا اقرار یقین کی کیفیت سے خالی ہو۔ وہ لپ سروس (lip service) کے درجے میں اللہ کو مانتے ہوں، لیکن اللہ کا عقیدہ ان کی شخصیت سازی میں موثر عامل کی حیثیت سے شامل نہ ہوا ہو۔ وہ اللہ کو مانیں ، مگر اللہ ان کے لیے یقین کا سرمایہ نہ بنا ہو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں تخلیق کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ احسن العمل (best in conduct) افرا د کا انتخاب (selection) کیا جائے (الملک،
منتخب افراد پر مبنی اس معاشرہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
قرآن کے الفاظ میں جنت حسن رفاقت کا ایک اعلیٰ معاشرہ ہے۔ اس معاشرے کے افراد کی صفت کیا ہوگی۔ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ اس کی امتیازی صفت یہ ہوگی کہ جنت دارالسلام (the home of peace) ہوگا(الانعام،
ان کی یہ اعلیٰ صفت آخرت کی تربیت کا نتیجہ نہ ہوگی۔ بلکہ خود دنیا کی زندگی میں وہ اسی اصول پر سیلف میڈ مین بن چکے ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میںاسی اصول کی پیروی کرکےخود انضباطی زندگی (self-disciplined life) کا ثبوت دے چکے ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کا انعام غیر ممنون انعام (endless reward) ہوگا۔ اس سلسلے میں قرآن میں چار جگہ اجر غیر ممنون کے الفاظ آئے ہیں۔ایک جگہ یہ حقیقت مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان ہوئی ہے:وَأَمَّا الَّذِینَ سُعِدُوا فَفِی الْجَنَّةِ خَالِدِینَ فِیہَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّکَ عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوذٍ (
جنت کا غیر منقطع ہونا واضح ہے۔ کیوں کہ جنت رب العالمین کا عطیہ ہے، اور خدائے لامحدود کا عطیہ کبھی محدود نہیں ہوسکتا۔ یہ رب العالمین کی شان کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو محدود عطیہ دے۔ محدود عطیے کا تصور اللہ رب العالمین کے کمتر اندازہ (underestimation) کے ہم معنی ہے، اور ایسا کبھی ہونے والا نہیں۔ اب سوال انسان کا ہے ۔ کیا یہ لامحدودیت جو اللہ کی نسبت سے ہے، وہ انسان کی نسبت سے بھی باقی رہے گی۔ اس کا جوابـ" ہاں" ہے، جو خدا کی طرف سے انھیں بطور عطیہ ملے گا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں داخلہ مل جائے گا تو وہ کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (
اہل جنت کی طرف سے اظہارحمد ، یہ وقتی کلمہ نہیں ہے۔ یہ ابدی احساس حمد کی بات ہے۔ اہل جنت کی طرف سے احساس حمد ، بلاشبہ ایک تخلیقی احساس (creative feeling) کی بات ہے۔ یہ کریٹیو احساس انھوں نے دنیا کی زندگی میں حاصل کیا ہوگا۔ یہ کریٹیو احساسِ حمد جو جنت کے پانے سے پہلے بذریعہ معرفت اہل جنت کے اندر پرورش پائے گا، وہ اتنا طاقت ور ہوگا کہ وہ جنت کا ابدی عطیہ پانے کے بعد بھی برابر ایک اضافہ پذیرتجربہ کی حیثیت سے جاری رہے گا۔ جنت جس طرح ابدی ہوگی، اسی طرح جنت کے پانے پر احساسِ حمد بھی یقینی طور پر ابدی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:ألا أنبئکم بخیر أعمالکم، وأزکاہا عند ملیککم، وأرفعہا فی درجاتکم وخیر لکم من إنفاق الذہب والورق، وخیر لکم من أن تلقوا عدوکم فتضربوا أعناقہم ویضربوا أعناقکم؟ قالوا:بلى. قال:ذکر اللہ تعالى(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3377)۔ یعنی کیا میں تمھیں سب سے بہتر اعمال کے بارے میں نہ بتاؤں۔ وہ تمہارے بادشاہ کے نزدیک بہت پاکیزہ ہے، وہ تمہارے درجات کے لیے سب سے بلند ہے،اوروہ تمہارے لیے بہتر ہے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور وہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے دشمنوں سے ملو : تم ان کی گردنیں مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں ؟ صحابہ نے کہا کہ کیوں نہیں؟ آپ نے کہا: اللہ کا ذکر۔
یہاں ذکر ُاللہ سے مراد اللہ کا لفظی ورد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد اللہ کی شعوری یاد (intellectual remembrance) ہے۔ یہ یاد شعوری یانان اسٹاپ (non-stop) انداز میں ہر وقت مطلوب ہے۔ یہ شعوری یاد کسی قسم کے روٹین کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ حقیقت کی دریافت کے نتیجے میں ذہن انسانی میں خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک زندہ اور تخلیقی سوچ ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (
واپس اوپر جائیں
لوگوں نے قرآن فہمی کا خود ساختہ طور پر ایک غلط معیار بنا رکھا ہے۔ وہ قرآن فہمی اس کو سمجھتے ہیں کہ اس میں الفاظ کی تحقیق ہو۔فنی تجزیہ کیا گیا ہو۔ اس کے اندر شخصیتوں کے حوالے درج ہوں۔ قرآن کی آیتوں کی تفسیر شان نزول کے حوالے سے کی گئی ہو، اس میں قرآن کی آیتوں کا ربط (order)بیان کیا گیا ہو،وغیرہ۔
مگر یہ سب قرآن فہمی کے خود ساختہ معیار ہیں۔ اس طرح کے بظاہر تحقیقی مضمون میں قاری کو سب کچھ ملتا ہے لیکن وہی چیز نہیں ملتی جو قرآن و سنت کا مقصد اصلی ہے۔ جس کو قرآن میں ذکریٰ اور تذکر جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی فنی تشریح و تفسیر کے بارے میں انور شاہ کشمیری نے، ایک حدیث کی شرح کے ذیل میں کہاہے: لم یتحصَّل عندنا منہ شیءٌ غیر حلِّ الألفاظ(فیض الباری علی صحیح البخاری، 1/230)۔یعنی ہمیں اس سے حل الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔
قرآن و حدیث کو پڑھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر خدا کا خوف پیدا ہو۔ اس کو اس میں اللہ سے محبت کی غذا ملے۔ اس کو اللہ و رسول کے کلام میں حکمت (wisdom) کی دریافت ہونے لگے۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ اللہ سے ملاقات کے ہم معنی بن جائے۔ وہ قرآن و سنت کو پڑھے تو اس کو محسوس ہو کہ وہ عالم آخرت میں اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ اللہ اور رسول کا کلام پڑھنے سے اس کے اندر محاسبہ (introspection) کا جذبہ پیدا ہو۔ اس کے لیے قرآن و سنت کا مطالعہ جنت اور جہنم کے تعارف کے ہم معنی بن جائے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کچھ فنی نکات کا حل آپ کو مل جائے۔ بلکہ قرآن و حدیث کے مطالعے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے اندر فکری بھونچال پیدا ہو۔ آپ کے اندر اسپریچول اسٹارمنگ آئے۔ آپ کا ذہن نان کریٹو سے کریٹیو (creative)بن جائے۔ قرآن و حدیث کا صحیح مطالعہ وہ ہے جو آپ کو سجدہ قربت (العلق،
واپس اوپر جائیں
امام سیوطی (وفات
اسی طرح احادیث میں بھی اس قسم کے پرامید اقوال آئے ہیں۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لما خلق اللہ الخلق، کتب کتابا، فہو عندہ فوق العرش:إن رحمتی سبقت غضبی (مسند احمد، حدیث نمبر 7528)، و فی روایۃ : إن رحمتی غلبت غضبی (مسند احمد، حدیث نمبر8127)۔ یعنی جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب سے آگے ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بیشک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت ایک بے حد پرامید آیت ہے۔ اسی طرح حدیث بھی ایک بہت پرامید حدیث ہے۔ دونوں میں جو مشترک بات ہے، وہ یہ ہے کہ اس امید کی بنیاد رحمت ہے۔ اللہ رب العالمین کی صفات میں ایک صفت اس کا رحیم و کریم ہونا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ رحمت کا معاملہ فرماتا ہے۔ اللہ رب العالمین کی یہ صفت بندے کے لیے بلاشبہ سب سے زیادہ پر امید صفت ہے۔ اللہ رب العالمین کا رحیم وکریم ہونا، اس کے بندوںکو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ایسے الفاظ میں اپنے رب کو پکاریں، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں۔ اگر بندہ ایسی دعا کرے تو وہ گویا اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اور جو آدمی اسم اعظم کے ساتھ اپنے رب کو پکارے تو اللہ رب العالمین اس کی پکار کو ضرور قبول فرماتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227) ۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس حدیث میں آدم سے مراد انسان ہے، اور صورت (image)کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر اس مثبت (positive) صفات کا ایک شمہ (very little part)رکھ دیا گیا ہے، جو اللہ رب العالمین کے اندر کامل معنوں میں موجود ہے، مثلاً رحم و شفقت ۔
یہ حدیث رسول ایک امید (hope) کی حدیث ہے۔ یہ حدیث آپ کو موقع دیتی ہے کہ آپ اللہ سے امید قائم کریں ۔ وہ یہ کہ اللہ نے جب انسان کے اندر رحمت کا یہ جذبہ رکھا ہے کہ غصہ آنے پر وہ کسی کو معاف کردے توخود اللہ کے اندر یہ صفت یقیناً بے حساب گنا زیادہ درجے میں ہوگی۔ اس لیے انسان کو کبھی اللہ کے عطیے کےبارے میں مایوسی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
یہ سوچتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آیا، جس کو میں نے خود ذاتی طور پر دیکھا ہے۔ یہ برٹش انڈیا کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں نوجوانی کی عمر میں تھا، اور اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک زمیندار (landlord) نے گاؤں کے ایک دلت کو اپنے گھر پر بلایا ۔ دلت نے زمیندار کا ایک کام نہیں کیا تھا، اس لیے وہ اس پر غصہ تھا۔ اس نے دلت کو اپنے سامنے بٹھایا، اور اس کو اس کی غلطی یاد دلائی، اور ڈنڈا ہاتھ میں لے کر کہا کہ آج میں تم کو ماروں گا۔ دلت اپنی پیٹھ کھو ل کر بیٹھ گیا، اور کہا :بابو ،لَے مارا (لیجیے، صاحب، ماریے)۔ یہ سن کر زمیندار کے ہاتھ سے ڈنڈا چھوٹ کر گر پڑا۔ اس نے دلت سے کہا کہ جاؤ، میں نے معاف کیا۔ یہ کہہ کر زمیندار اپنے گھر کے اندر چلا گیا۔ اس واقعہ کے بعد میں نے سوچا کہ زمیندار کے اندر یہ صفت خالق کی دی ہوئی تھی۔ اس لیے خالق کے اندر یہ صفت یقیناً اور بھی زیادہ ہوگی۔ خالق یقیناً مجھے معاف کردےگا، اگر میں اس کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دوں۔ (
واپس اوپر جائیں
ایک آدمی قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرے، وہ صحابہ کے حالات کو پڑھے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کی سوچ آخرت رخی سوچ بن جائے۔ وہ آخرت کے مضمون پر لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ لیکن عین ممکن ہے کہ اب بھی اس کا لکھنا آخرت نویسی کے ہم معنی ہو۔ فنی اعتبار سے صحیح ہونے کے باوجود اس کے لکھنے اور بولنے میں آخرت کا گہرا ادراک شامل نہ ہو۔
لیکن آدمی اگر لمبی عمر پائے۔ اس پر بیماری اور حادثات کے حالات گزریں، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوجائے۔ اس پر بڑھاپے کے حالات گزریں۔ وہ عجز اور کمزوری کے حالات سے دوچار ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کا آخرت کا علم آخرت کا گہرا احساس بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت کے اوپر لکھتا تھا تو اب وہ آخرت میں جینے والا بن جائے گا۔
جو آدمی اپنی عمر کے لحاظ سے آخرت میں جینے کے دور میں پہنچ جائے ، اس کے لیے آخرت ایک ایسا موضوع بن جائے گا، جس کا وہ ذاتی طور پر تجربہ کر رہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت کو پڑھتا تھا، تو اب وہ آخرت کو دیکھنے والا بن جائے گا۔ پہلے اگر وہ آخرت پر معلومات دیا کرتا تھا تو اب وہ ایسا انسان بن جائے گا، جو گویا کہ آخرت کا ذاتی تجربہ کررہا ہے۔ پہلے اگر وہ آخرت نویسی کرتا تھا ، تو اب وہ آخرت کے موضوع پر تجربہ نویسی کے مرحلہ میں پہنچ جائے گا۔
ایسا آدمی بہت قیمتی ہوتا ہے۔ دوسروں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر کو پہچانیں۔ وہ اس کی صحبت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اس کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ کسی کی تحریر و تقریر سےآپ کو معلومات مل سکتی ہیں، لیکن تجربہ کار سے جو چیز ملتی ہے، وہ اس سے زیادہ ہوتی ہے۔یعنی آخرت والا بن جانا۔تاہم تجربہ کا دور اسی آدمی کے لیے مفید ہوسکتا ہے جو بڑھاپے سے پہلے آخرت کو جاننے والا ہو۔وہ قرآن و حدیث کے ذریعہ آخرت کا علم حاصل کرنے کے بعد آخرت میں جینے کی کوشش کرنے والا بن چکا ہو۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2664)۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن سے، اور بھلائی ہر ایک کے لیے ہے۔ ایک شخص اگر پیدائشی طور پر طاقت ور ہو تو اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرلے۔ لیکن جو انسان پیدائشی طور پر کمزور ہو، وہ بظاہر اس قابل نہیں ہوتا کہ اپنے معاملات کو خود اپنی طاقت سے درست کرسکے۔ لیکن خیر دونوں کے لیے ہے۔ ایک کےلیے اپنی ذاتی طاقت کی بنیاد پر ، اور دوسرے کے لیے اللہ کی مدد کی بنیاد پر۔
جو آدمی ضعیف ہو، وہ اگر منفی نفسیات میں مبتلا نہ ہو تو اس کے اندر اللہ کی یاد جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اللہ سے مدد کا طالب بن جاتا ہے۔ اس بنا پر یہ ہوتا ہے کہ اللہ اس کی مدد پر آجاتا ہے۔ جب کمزور انسان یہ کہتا ہے کہ خدایا، تونے مجھ کو کمزور پیدا کیا، اب تجھ ہی کو یہ کرنا ہے کہ تو میری کمزوری کی تلافی کرے۔ اس قسم کی دعا اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ ایسے انسان کی طرف مزید اضافے کے ساتھ متوجہ ہوجاتا ہے۔
جو انسان اپنے آپ کو طاقت ور پائے، اس کے اندر اپنے آپ پر بھروسہ کی نفسیات پیداہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنے آپ کوکمزور پائے۔ اس کے اندر اللہ سے طلب کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ دعا کرنے لگتا ہے کہ خدایا، تونے مجھے ضعیف پیدا کیا ہے۔ اب تو ہی میرے ضعف کی تلافی فرما۔ اس طرح کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، اور بندۂ ضعیف اللہ کی مدد سے وہ کام کرلیتا ہے جو اکثر حالات میں بندہ قوی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اس کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ بندۂ ضعیف کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں
انسان موجودہ دنیا میں پیدائش کی بنیاد پر داخل ہوتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والا، ماں کے پیٹ سے نکل کر موجودہ دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ کسی انسان کے لیے اس دنیا میں پہلا داخلہ ہے۔ یہ داخلہ ہر انسان کو محض پیدائش کی بنیاد پر مل جاتا ہے۔ مگر یہ داخلہ عارضی داخلہ ہے۔ موت کے بعد انسان دوبارہ خدا کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔
دنیا میں پہلا داخلہ عارضی داخلہ تھا، لیکن دوسرا داخلہ مستقل داخلہ ہے۔ پہلا داخلہ کسی کو پیدائش کی بنیاد پر اپنے آپ مل جاتا ہے۔ لیکن دوسرے داخلے کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔ دوسرا داخلہ کسی انسان کو صرف استحقاق (merit) کی بنیاد پر ملے گا۔ پہلے دور حیات کی حیثیت یہ ہےکہ وہ استحقاق ثابت کرنے کا دور ہے۔ پہلے دورِ حیات میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ خدا کی دنیا میں مستقل قیام کا واقعی حقدار ہے۔ اس دوسرے داخلے کے بارے میں قرآن کی چند آیتیں یہ ہیں:
یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْکُمْ خَافِیَةٌ ۔ فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَیَقُولُ ہَاؤُمُ اقْرَءُوا کِتَابِیَہْ ۔ إِنِّی ظَنَنْتُ أَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِیَہْ۔ فَہُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیَةٍ۔ فِی جَنَّةٍ عَالِیَةٍ۔ قُطُوفُہَا دَانِیَةٌ ۔ کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِی الْأَیَّامِ الْخَالِیَة (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک فطری حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تمھاری امانی سے کچھ نہیں ہوگا (النساء
ایسے موقع پر لوگ عام طور پر اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کے اوپر ڈالتے ہیں۔ مگر ایسا رد عمل ناکامی پر نادانی کا اضافہ ہے۔ اس دنیا میں ہر ناکامی خود اپنی غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی آدمی کو اس قسم کا تجربہ ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسری غلطی نہ کرے۔ وہ دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے خود اپنی غلطی کو دریافت کرے، اور مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کے ذریعہ دوبارہ اپنے کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔
غیر حقیقت پسندانہ منصوبہ ہمیشہ دو سبب سے ہوتا ہے، یا غلط نشانہ (goal) کی وجہ سے ، یا غلط تدبیر کی وجہ سے۔ غلط نشانہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ایسی چیز کو نشانہ بنائے جو باعتبار حالات اس کے لیے قابل حصول (achievable) ہی نہ ہو، مثلاً عالمی حکومت ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے بھی اپنے لیے عالمی گورنمنٹ کا نشانہ اختیارکیا، وہ ہمیشہ ناکام رہا۔ دوسری چیز، غلط تدبیر ہے۔ مثلاً اس دنیا میں ہمیشہ کوئی کامیابی پر امن طریقہ کار کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، متشددانہ طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں جو شخص بھی متشددانہ طریقہ اختیار کرے گا، خواہ بطور خود وہ اس کو کتنا ہی درست سمجھتا ہو، وہ لازمی طور پر ناکامی سے دوچار ہوگا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کبھی امانی کی بنیاد پر کوئی منصوبہ نہ بنائے، نہ انفرادی سطح پر اور نہ قومی سطح پر۔ جو شخص بھی ایسا کرے گا، وہ لازماً ناکام ہوگا، خواہ اس نے بطور خود اس کے لیے کتنے ہی زیادہ خوبصورت الفاظ وضع کیے ہوں۔
واپس اوپر جائیں
ایک سروے میں یہ پوچھا گیا کہ دور جدید کی سب سے اہم ایجاد کیا ہے ۔ ایک مغربی انسان نے اس کے جواب میں کہا کہ سائفن (siphon) ۔ سائفن اس ٹکنیک کا نام ہے جو واش روم میں کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر اس کی گندگی کو پوری طرح صاف کردیتا ہے:
Siphon: a tube used to convey liquid upwards from a reservoir and then down to a lower level of its own accord. Once the liquid has been forced into the tube, typically by suction or immersion, flow continues unaided.
سائفن صفائی کی ایک سادہ ٹکنیک ہے۔ لیکن پوری تاریخ میں کوئی حیوان اس کو دریافت نہ کرسکا۔ دور جدید میں جب عقل کا آزادانہ استعمال شروع ہوا تو انسان نے دور بین اور خوردبین سے لے کر سائفن تک بے شمار چیزیں دریافت کیں۔ ماڈرن تہذیب کو وجود میں لانے کا کام تقریباً تمام تر اہل مغرب نے انجام دیا ہے۔ اس معاملے پر غور کرتے ہوئے راقم الحروف نے یہ سمجھا ہے کہ اس معاملے میں اللہ تعالی نے تقسیم کار کا اصول اختیار فرمایا ہے۔ یعنی دین حق کی اشاعت کا کام اہل اسلام کی ذمہ داری قرار دیا، اور اہل مغرب کو اس معاملے میں، حدیث کے الفاظ میں تائید کا رول عطا فرمایا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔
دین خداوندی کی اشاعت کے معاملے میں اہل اسلام کا رول براہ راست رول ہے،اور اہل مغرب کا رول بالواسطہ رول۔ مگر بعض اسباب سے مسلمانوںنے اہل مغرب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، اور ان کے خلاف مسلح یا غیر مسلح جنگ چھیڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین کی دعوت و اشاعت کا کام انجام پانے سے رہ گیا۔ دین کی دعوت و اشاعت کے لیے جن مادی چیزوں کی ضرورت تھی، ان سب کو اہل مغرب نے جدید صنعت اور جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ فراہم کیا۔ اب اہل اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل مغرب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان ذرائع کو دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما:کتاب اللہ وسنة نبیہ(موطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔ اس قولِ رسول سے یہ ثابت ہوا کہ مصدر شریعت صرف دوہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس تعداد میں اضافہ کرکے ان کو تین یا چار بنالے۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں دین کے بارے میں یہی تصور پایا جاتا تھا۔ اس زمانے میں یہی دو چیزیں مصادر شریعت کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لیکن عباسی خلافت کے زمانے میں فقہاء کا دور آیا۔ اس وقت یہ مان لیا گیا کہ قرآن و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر شریعت بھی ہے، اور وہ مسلم علماء کا اجماع ہے۔فقہاء کے اس اضافے کو عام طور پر مسلمانوں کے درمیان تسلیم کرلیا گیا۔علماء کے اجماع کو مصدر شریعت کا درجہ دینا، کلی طور پر غلط نہ تھا۔ تاہم اس اجماع کی حیثیت صرف وقتی معنی میں تھی، نہ کہ ابدی معنی میں۔ یعنی اگر مسلمانوں کے درمیان ایک مسئلہ پیدا ہو، اس پر کوئی واضح حکم پہلے سے موجود نہ ہو تو وہ علماءکی مجلس میں زیر بحث آئے گا۔ اس مباحثے کے بعد اگر علما ءکے اتفاق رائے سے ایک بات طے ہوجائے تو اس کو اجماع امت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن شریعت کے ابدی مصدر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک پیش آمدہ مسئلہ میں وقتی اعتبار سےشریعت کےعملی موقف کو متعین کرنے کے لیے۔
یہ پیش آمدہ مسئلے کا ایک وقتی حل ہے، وہ شریعت اسلامی کا ابدی حصہ نہیں۔ پیش آمدہ مسئلےمیں اس قسم کے’’اجماع یا اتفاق رائے‘‘ کو وقتی معنی میں قابل اتباع سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ گنجائش یقیناً باقی رہے گی کہ بعد کو نئے حالات میں علماء کوئی نیا فیصلہ دیں ۔ اس معاملے میں علماء کسی’’سابق اجماع‘‘کے پابند نہ ہوں گے۔گویا کہ اس قسم کا اجماع پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کی ایک وقتی تدبیر ہے ، نہ یہ کہ اس کوہمیشہ کے لیے شریعت کا ایک مستقل مصدر (source)مان لیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
اجتہاد کا لفظی مطلب ہےپوری کوشش کرنا (to strive)۔ اجتہاد کا لفظ حدیث کی دو روایتوں میں آیا ہے۔ان دونوں حدیثوں میں اجتہاد کا مطلب ہے، کسی معاملہ میں امر شرعی معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ قرآن میں اس کے ہم معنی لفظ استنباط (النساء
اجتہاد یا استنباط کی کوئی لازمی شرط (condition)نہیں ہے۔ ہر آدمی اجتہاد اور استنباط کا عمل کرسکتا ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ کسی اجتہاد یا استنباط کو مطلق نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کو نظر ثانی کا موضوع (subject to re-examination) سمجھا جائے۔ حدیث میں آیا ہے : إذا حکم الحاکم فاجتہد ثم أصاب فلہ أجران، وإذا حکم فاجتہد ثم أخطأ فلہ أجر(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7352)۔ یعنی جب کوئی حاکم فیصلہ دے اور وہ اجتہاد کرے اور اس کا وہ حکم درست ہو تو اس کو دوہرا اجر ملے گااور اگر اس نے کوئی ایسا حکم دیا جس میں اس نے اجتہاد کیا لیکن وہ خطا کر گیا تو اس کو ایک اجر ملے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا اجتہاد مطلق اجتہاد نہیں ہے۔ ہر شخص کا اجتہاد نظر ثانی کا موضوع (subject to re-examination) ہے۔اجتہاد کے حق ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر کسی کے اجتہاد کو جانچا نہیں جائے گا۔ بلکہ اس اعتبار سے جانچا جائے گا کہ بحث و تحقیق کے بعد اس کا اجتہاد درست ثابت ہوا ہےیا وہ ایک غلط اجتہاد تھا۔ اجتہادی خطا پر ایک اجر کا وعدہ ، یہ معنی رکھتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کسی حال میں بند نہیں۔ بلکہ جو دروازہ بند ہے، وہ صرف یہ کہ کسی کے اجتہاد کو تنقید سے بالاتر سمجھ لیا جائے، اور یہ عقیدہ بنا لیا جائے کہ فلاں شخص امام برحق یا مجتہد مطلق ہے، اور اس کے اجتہاد کو کسی مزید تحقیق کے بغیر تسلیم کرنا چاہیے۔ گویا کہ خود اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہے، بلکہ نبی کے سوا کسی اور کو مطلق شارع سمجھنے کا دروازہ بند ہے۔
واپس اوپر جائیں
دین کے احکام ممکن طور پر دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو قابل تنسیخ ہوں، اور دوسرا وہ جن کو منسوخ تو نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کو وقتی طور پر موقوف کرنا درست ہو۔ کسی شرعی حکم کو منسوخ (abrogate) کرنا ایک ا صولی معاملہ ہے۔ اور اصولی معاملہ میں تغیر کا حق صرف شارع کو ہے، اور جہاں تک موقوف (suspend) کرنے کا معاملہ ہے، وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے، اور امت کے علماء دلائل شرعیہ کے ذریعہ بطور اجتہاد ایسا کرسکتے ہیں۔مثلاً رسول اللہ کے مدنی دور میں وقتی طور پر قبلۂ یہود کو قبلہ مسلمین قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کو یہ حکم متروک ہوگیا (البقرۃ: 143-144)۔ یعنی کعبہ ابدی طور پر اہل اسلام کا قبلہ قرار پایا۔ اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس حکم میں تغیر کرے۔
کسی حکم کو موقوف قرار دینے کا معاملہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ مثلاً اعداد قوت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد تیر اندازی ہے۔پیغمبر اسلام نے قرآن (
کسی حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار صرف شارع کو ہے، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کو ، اور جہاں تک موقوف قرار دینے کا معاملہ ہے، یہ ایک اجتہادی فعل ہے۔ امت کے علماء کو یہ حق ہے کہ وہ قانون ضرورت (law of necessity)کے تحت کسی حکم کو وقتی طور پر موقوف قرار دے دیں۔
اسی کی ایک مثال یہ ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اہل فتنہ سے قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم چوں کہ شریعت کے متن میں موجود ہے، اس لیے کوئی شخص اس کو منسوخ نہیں قرار دے سکتا، البتہ ضرورت شرعیہ کے تحت بطور اجتہاد اس حکم کو موقوف قرار دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوبِکُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ (
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی خود ساختہ نظریہ کے تحت شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے آپ کو اسپیشل سمجھنے لگتا ہے۔ کبھی نسل کی بنیاد پر، کبھی مذہب کی بنیاد پر، کبھی کلچر کی بنیاد پر، کبھی اپنے علاقے کی بنیاد پر، کبھی کسی اور بنیاد پر۔ جو لوگ اس طرح اپنے آپ کو اسپیشل سمجھ لیں، وہ عملاً ایک قسم کے ذہنی شکنجہ (intellectual trap) میں پھنس جاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان کے اندر تخلیقی سوچ ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سے اوپر سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں نظر ثانی کریں۔ اپنی غلطی کو ماننا ان کے مزاج میں باقی نہیں رہتا۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کے اپنے رہنما ، رہنمائے اعظم بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے اہل علم کو مفکر اعظم سمجھ لیتے ہیں۔ ان کی اپنی شخصیتیں، عہد ساز شخصیتوں کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھ لیتے ہیں کہ غلطی دوسروں کی ہے، نہ کہ ہماری۔ ایسے لوگ موضوعی سوچ (objective thinking) سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ اس قابل نہیں رہتے کہ وہ اپنے معاملات کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی (realistic planning) کریں۔ ترقی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ لوگوں میں خود اپنے آپ پر تنقید (self criticism) کا مزاج ہو، اور ایسے لوگوں میں یہ مزاج مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ تعریف کرنے والے کو اپنا دوست اور تنقید کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی اس کمزوری سے باہر آئیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک سے زیادہ بار اتباع ملت ابراہیم کا حکم دیا گیاہے۔ یہ ملت ابراہیم کیا ہے؟ براہ کرم واضح کریں(ایک قاری الرسالہ، لکھنؤ)۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو ہم ملت ابراہیم یا ابراہیمی ملت کہتے ہیں، وہ وہی ہے جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں تین بڑے آسمانی مذاہب ہیں — دین یہود، دین نصاریٰ، اور دین محمد۔ان تینوں مذاہب کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم تھے۔اسی لیے حضرت ابراہیم کوقرآن میں امام الناس (البقرۃ،
حضرت ابراہیم تقریباًچار ہزار سال پہلے قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔حضرت ابراہیم ایک صاحب کتاب پیغمبر تھے(الاعلیٰ،
حضرت محمد نے اسی بارے میں یہ کہا کہ میں اسی دین کو لے کر آیا ہوں جس دین کو لے کر حضرت ابراہیم آئے تھے(النحل،
واپس اوپر جائیں
خدا اپنی ذات کے اعتبار سے انسان کو دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار سے وہ مکمل طور پر دکھائی دینےوالی حقیقت ہے۔ جو لوگ خدا کو اس کی صفات کے اعتبار سے دیکھ لیں، وہی آنکھ والے لوگ ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ یہ کہیں کہ خدا کو اپنی ذات کے اعتبار سے ہمیں دکھاؤ، وہ بلاشبہ اندھے لوگ ہیں۔وہ بظاہر آنکھ والے لوگ ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بے آنکھ والے ہیں۔ کیوں کہ وہ عقل رکھتے ہوئے اپنی عقل کو استعمال نہیں کرسکے۔ وہ اپنی ظاہری آنکھ کو تو کھولتے ہیں، لیکن وہ اپنی عقل کی آنکھ کو بند رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ بات ہر حقیقت سے زیادہ بڑی حقیقت بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے میںجس چیز کو سائنس کہا جاتا ہے، وہ کیا ہے۔ سائنس انسان کی عقلی آنکھ ہے۔ اس عقلی آنکھ نے موجودہ زمانے میں انسان کو وہ چیزیں دکھادی ہیں، جس کو اس سے پہلے انسان نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب انسان اس قابل ہوچکا ہے کہ وہ عالم اصغر (micro world) کو مائکرو اسکوپ کے ذریعہ دیکھے۔ جب کہ اس سے پہلے وہ انسا ن کے لیے مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ تھا۔ اسی طرح انسان کے لیے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ عالم کبیر (macro world)کو عقل کی آنکھ سے دیکھے۔ وہ ٹیلسکوپ کے ذریعہ ایسی چیزوں کو دیکھ سکے، جو پہلے اس کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔
آج مائکرواسکوپ نے ان چیزوں کو انسان کے لیے قابل مشاہدہ بنادیا ہے، جو پچھلے زمانے میں ناقابل مشاہدہ سمجھی جاتی تھیں۔ اسی طرح ٹیلسکوپ نے وہ چیزیں انسان کو دکھادی ہیں، جو پچھلے زمانے میں انسان کے لیے ناقابل مشاہدہ بنی ہوئی تھیں۔ یہ واقعہ ایک سراغ (clue)کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سراغ بتاتا ہے کہ یہ معاملہ خدا کو نہ دیکھنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ اپنی عقل کے کم تر استعمال کا ہے۔ اگر انسان اپنی عقل کا بر تر استعمال جان لے تو خدا اس کے لیے مشاہدہ کے درجے میں قابل دریافت بن جائے گا۔ وہ خدا کو اس طرح جان لےگا جیسے کہ وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سن 6 ہجری کے آخر میں مکہ کے لیڈروں سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ جو حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ عام طور پر حدیبیہ کو غزوۃ الحدیبیہ کہاجاتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ کیوں کہ حدیبیہ کے موقع پر فریقین کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس، جو ہوا وہ یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان باہمی امن کا معاہدہ ہوا۔
الحدیبیہ عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے، جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیانی مقام پر واقع ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےایک پروگرام کے تحت یہاں دوہفتہ قیام کیا۔ یہاں آپ نے مکہ کے لیڈروں سے گفت و شنید (negotiation) کی۔ اس کے بعد فریقَین کے درمیان دس سال کے لیےایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) ہوا۔ اس معاہدہ کی تکمیل کے بعد مدینہ پہنچنے سے پہلے وہ سورہ نازل ہوئی جو الفتح کے نام سے قرآن میں شامل ہے۔ اس سورہ میں حدیبیہ کے واقعہ کو فتح مبین (clear victory) بتایا گیا ہے۔
جب حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، اس وقت اہل اسلام کو کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی۔ صرف یہ ہوا تھا کہ فریقَین کے درمیان امن کا معاہدہ ( peace treaty)عمل میں آیا تھا۔ ایسی حالت میں اس واقعہ کو فتح مبین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لفظ حال کی نسبت سے نہیں، بلکہ مستقبل کی نسبت سے تھا۔ اس اعتبار سے فتح مبین کا مطلب گویا فاتحانہ منصوبہ (victorious planning) کے ہم معنی ہے۔ رسول اللہ کی سنتوں میں سےایک اہم سنت وہ ہے جس کو فاتحانہ منصوبہ بندی کہا جاسکتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب مدینہ سے نکلے تھے، مکہ جانے کے لیے ۔ لیکن وہ معاہدہ کے مطابق حدیبیہ سے واپس مدینہ آگیے۔ اس لحاظ سےحدیبیہ کا واقعہ بظاہر ایک پسپائی کا واقعہ تھا۔ پھر اس کو فتح مبین کیوں کہا گیا۔ وہ اس لیے تھا کہ حدیبیہ کی بظاہر پسپائی اپنے نتیجے کے اعتبار سے فتح مبین تھی۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ لیل کا حکم دیتے ہوئے قرآن میں یہ آیات آئی ہیں:وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا ۔ إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیلًا۔ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلًا (
اس آیت میں أشد وطأ کا لفظ قیامِ لیل کی نسبت سے آیا ہے۔ یعنی اس سے نفس روندا جاتا ہے، اور اقوم قیلا کا تعلق فہم کلام سے ہے۔ یعنی اس سے آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ کلام کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکے۔یہ بات بظاہر پیغمبر اسلام کے بارے میں آئی ہے۔ تاہم پیغمبر کی اتباع کے اعتبار سے اس کا تعلق پوری امت سے ہے۔ اس میں پیغمبر کے حوالے سے پوری امت کے لیے رزق کا سامان موجود ہے۔
قرآن کی اس آیت میں وطأ شدید کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام رات کے وقت دیر تک کھڑے ہوکر عبادت کرتے تھے، اس سے آپ کو شدید بوجھ پڑتا تھا، گویا کہ آپ کا جسم روندا جارہا ہے۔ اس وطأ شدید کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے آپ کے اندر قول اقوم کی صلاحیت پیدا ہوتی تھی۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جسمانی تعب آدمی کے لیے ایک قسم کا زحمت میں رحمت (blessing in disguise) ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی سوچ بیدار ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کے دماغ کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت جاگتی ہے۔ غالباً اس وطأ شدید میں دوسرے وہ دینی اعمال بھی شامل ہیں، جن میں آدمی کو شدید تعب کا تجربہ ہو۔ جو گویا آدمی کی شخصیت کو روند ڈالے۔ جس میں آدمی کا یہ حال ہو کہ اس کی شخصیت گویا چکی کے دو پاٹ کے درمیان پس گئی ہے۔ اگر ایسا ہو تو وہ آدمی کے اندر اعلیٰ فہم کی صلاحیت پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
جہاد بمعنی قتال ایک خصوصی حکم ہے۔ جہاد بمعنی قتال کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب کہ مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہو، اور اس کی سرحدوں پر کھلی جارحیت کی جائے۔ اس وقت ذمہ داران سلطنت کی طرف سے جارح سے گفت و شنید کی جائے گی۔ اگر گفت و شنید ناکام ہوجائے تو بقدر ضرورت مسلمانوں کی طرف سے منظم دفاع کیا جائے گا۔ یہی شرعی جہاد ہے۔ اس دفاع کے معاملے میں افراد کا کوئی آزادانہ رول نہیںہے۔ افراد کو صرف یہ کرنا ہے کہ امیر سلطنت کے حکم کے مطابق، دفاع میں منظم حصہ لیں۔ یہاں اس سلسلے میں ایک حوالہ درج کیا جاتا ہے۔
ابو محمد موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن محمدبن قدامہ المقدسی حنبلی (1147-1223 ء) محدث، فقہ حنبلی کے عالم اور قاضی اور مفکر تھے۔انھوں نےفقہ حنبلی کے فقہی مسائل پر بیشتر کتب تصنیف کیں ۔ وہ حنابلہ کے عظیم فقہاء میں سے ایک ہیں۔ ابن قدامہ کی تصنیف المغنی کا شمار فقہ حنبلی کی بنیادی کتابوں میںہوتا ہے۔
اس کتاب کا ایک باب ہے: فصل وأمر الجہاد موکول إلى الإمام واجتہادہ۔ اس باب کے تحت مصنف لکھتے ہیں: وَأَمْرُ الْجِہَادِ مَوْکُولٌ إلَى الْإِمَامِ وَاجْتِہَادِہِ، وَیَلْزَمُ الرَّعِیَّةَ طَاعَتُہُ فِیمَا یَرَاہُ مِنْ ذَلِکَ (المغنی، 9/202/7423)۔ یعنی جہاد اور اس کے اجتہاد کا معاملہ امام کے ذمہ (assigned)ہے، اور رعیت پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں جو حاکم کی رائے ہو، اس کی اطاعت کرے۔
جہاد بمعنی قتال ایک منظم دفاعی امر ہے۔ جہاد کو شروع کرنا، اور اس کو ختم کرنا، دونوں باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ اس معاملے میں افراد کا رول صرف حاکم کی اطاعت ہے، نہ کہ بطور خود جارح کے خلاف کوئی کارروائی کرنا۔ نماز بغیر امیر کے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جہاد بمعنی قتال امیر کے بغیر سر تاسر ناجائز ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کا ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
اس آیت میں قول بلیغ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی تفسیر میںقاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی (وفات1810ء)نے لکھا ہے: ای فى حق أنفسہم قَوْلًا بَلِیغاً یبلغ صمیم قلوبہم بالتأثیر (تفسیر المظہری،
اس سے معلوم ہوا کہ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو سے خطاب کرنے سے پہلے مدعو کے ذہن کا مطالعہ کرے۔ وہ جانے کہ مدعو کا مائنڈ سٹ (mindset)کیا ہے، اور پھر مدعو کے مائنڈ سٹ کے مطابق، دعوت کا اسلوب اختیار کرے۔ دعوت یک طرفہ اعلان (one-sided announcement) کا نام نہیں ، بلکہ وہ ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ مدعو کے لیے قابلِ فہم (understandable) انداز کو سمجھے، پھر اس کے بعد اپنے آپ کو اس کے مطابق تیار کرے۔
مثلاً زمانہ اگر بدل جائے، اور مدعو اگر نئے اسلوب میں سوچنے والا بن گیا ہو تو اس کو قدیم طرز کے متروک اسلوب میں خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب طرز نہ ہوگا۔مدعو اگر حقائق کی زبان میں سوچنے والا ہو تو اس کو قیاس و مثال کے ذریعہ خطاب کرنا، دعوت کا مطلوب انداز نہ ہوگا۔ مدعو اگر عقلی تجزیہ (rational analysis) کے انداز میں سوچتا ہو تو اس کو جذباتی انداز میں کلام کرنا ، مطلوب اسلوب کلام نہ ہوگا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین کی ایک صفت خلاق علیم ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: أَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلَى وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیمُ (
اس آیت میں جس طرح خلّاق (the Great Creator) آیا ہے، اسی طرح اس میں علیم سے مراد علّام (the Great Knower) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ رب العالمین خلّاق اور علّام ہے۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات اپنے آپ میں ا س کا ثبوت ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی ایک آیت میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (
رتق کا مطلب ہے منضم الاجزاء (joined together)، اور فتق کا مطلب ہےپھاڑنا (to tear apart)۔ اس آیت کی ابتدا میں أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا (کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا ) کے الفاظ آئے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ رتق اور فتق کا یہ واقعہ انسان کے لیے مشاہدہ کے درجے میں ایک معلوم واقعہ ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں علمی طور پر ایک معلوم واقعہ بن چکا ہے۔ جس کو عام زبان میں بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔سائنسی دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا واقعہ تقریبا تیرہ بلین سال پہلے خلا (space) میں پیش آیا۔ اس واقعہ کی جو تفصیلات سائنس نے دریافت کی ہے، وہ قرآن کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔
اس دریافت کے مطابق، بگ بینگ کا فلکیاتی واقعہ حیرت انگیز طور پر اس بات کا سائنسی ثبوت ہے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا خلّاق بھی ہے اور علّام بھی۔ یعنی وہ عظیم خالق بھی ہے اور عظیم جاننے والا بھی۔ کائنات کا پیدا کرنے والا اگر خلًاق (بڑا پیدا کرنے والا) اور علّام (بڑا علم والا) نہ ہو تو کائنات کا وجود میں آنا ہی ناممکن ہوجاتا۔ خلّاق اور علّام کے الفاظ صرف پیدائش کی خبر نہیں ہے، بلکہ وہ پیدائش کے واقعہ کی دلیل بھی ہے۔
سائنس نے جس کائناتی واقعہ کو دریافت کیا ہے، وہ یہ ہے کہ تقریبا تیرہ بلین سال پہلے اچانک خلا میں ایک بہت بڑا ایٹم ظاہر ہوا اس سوپر ایٹم (super atom)کے اندر وہ تمام پارٹکل موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ پھر اچانک اس سوپر ایٹم میں بہت بڑا دھماکہ ہوا۔ اس عظیم دھماکے کے بعد سوپر ایٹم کے تمام پارٹکل غیر معمولی تیزی کے ساتھ خلا میں دوڑنے لگے۔ان کی رفتار (speed)بے حد تیز تھی۔ اگر پارٹکل کا یہ انتشار اسی تیزی کے ساتھ جاری رہتا تو موجودہ کائنات کا بننا ناممکن تھا۔ کیوں کہ اس کے تمام پارٹکل بے حد تیزی کے ساتھ خلا میں منتشر ہوجاتے۔ ان کا اجتماع ناممکن ہوجاتا۔ اس لیے کائنات کا بننا بھی ناممکن ہوجاتا۔
سائنسی دریافت بتاتی ہے کہ سوپر ایٹم کے پھٹنے کے بعد کچھ سیکنڈوں کے اندر پارٹکل کے انتشار کی رفتار اچانک کم ہوگئی۔ رفتار کا یہ کم ہوجانا بے حد اہم تھا۔ کیوں کہ اسی کی وجہ سے منتشر پارٹکل دوبارہ مجتمع ہونے لگے، اور ان کے اجتماع سے تمام ستارے اور کہکشائیں، اور شمسی نظام، وغیرہ، وجود میں آئے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس ہستی نے سوپر ایٹم میں یہ انفجار برپا کیا، وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کے ساتھ سب سے بڑا جاننے والا بھی تھا۔ اس واقعہ کا اس کےخالق کو پیشگی علم تھا۔ اس علم کے مطابق اس نے اس معاملے کی پلاننگ کی۔ سیکنڈ کے فریکشن میں ہونے والے اس واقعہ کا اس کو پیشگی علم نہ ہوتا تو ساری پلاننگ عبث ہوجاتی، اور کائنات کاوجود میں آنا ناممکن ہوجاتا۔ یہ سائنسی دریافت رب العالمین کے خلّاق وعلّام ہونے کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں
عام طو رپر یہ سمجھا جاتاہے کہ مسجد کی تعمیر ایک ابدی تعمیر ہے۔ جس مقام پر ایک بار مسجد بن جائے ، وہاں وہ مسجد ہمیشہ قائم رہے گی، اُس کا وہا ں سے ہٹانا جائز نہیں ۔ مسجد کے بارے میں یہ مسئلہ اسلام کے بعد کے زمانے میں عباسی دور میں کچھ فقہا نے وضع کیا۔ لیکن قرآن یا حدیث میں مسجد کے بارے میں ایسا کوئی مسئلہ ہرگز موجود نہیں۔موجودہ زمانے کے بعض علما نے اس مسئلہ کو اجتہادی مسئلہ بتایا ہے۔ یعنی ضرورت کے تحت مسجد کو اس کے سابق مقام سے ہٹایا جاسکتا ہے، او ر اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ حنبلی فقہ واضح طور پر اس مسئلے کی تائید کرتی ہے۔
مشہور حنبلی عالم ابن قدامہ (1147-1223ء) نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے : ولو جاز جعل أسفل المسجد سقایة وحوانیت لہذہ الحاجة، لجاز تخریب المسجد وجعلہ سقایة وحوانیت ویجعل بدلہ مسجدا فی موضع آخر(المغنی لابن قدامہ،
اسلام میں مسجد کی عمارت کا مسئلہ ضرورت کی بنیاد پر ہے، نہ کہ تقدس کی بنیاد پر۔ جدید دورمیں جب سٹی پلاننگ کا زمانہ آیا تو مسلم شہروں مثلاً مکہ ،مدینہ ،وغیرہ، میں بڑی تعداد میں قدیم مسجدیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل (relocate)کی گئیں۔ کیوں کہ یہ قدیم مسجدیں سٹی پلاننگ (city planning) میں رکاوٹ ثابت ہورہی تھیں۔ مثلاً اگر ایک مسجد بلال کے نام پر کہیں واقع تھی، تو اسی نام سے دوسری مسجد پہلے مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ پر بنا دی گئی، اور مسجد کے مقام پر شہری منصوبہ کے مطابق نئی تعمیر کی گئی۔مسجد کی عمارت بلاشبہ ایک قابل احترام عمارت ہے۔ لیکن ضرورت کے تحت کسی مسجد کی عمارت کے مقام کو تبدیل کرنا بلاشبہ جائز ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی ایک کمزوری ہے ———غیر ثابت شدہ بات کا چرچا کرنا۔ یعنی سنی ہوئی بات کو بلاتحقیق لوگوں سے بیان کرنا۔ اللہ کی نظر میں یہ عادت اتنی زیادہ غلط ہے کہ اس کو اشاعت فاحشہ (النور،
سماجی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ طرح طرح کی خبریں پھیلتی ہیں۔ لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی ایسی بات سنتے ہیں تو وہ فوراً ہی ا س کا چرچا شروع کردیتے ہیں۔ یہ نہایت غیرذمہ دارانہ طریقہ ہے۔ سنی ہوئی بات کو بلا تحقیق بیان کرنا، ایک ایسا فعل ہے جو آدمی کے لیے ایک بڑی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس طرح کے معاملے میں آدمی کے لیے صرف دواختیار (options) ہیں۔ ایک یہ کہ خبر کو سن کر اس کو نظر انداز کردیا جائے، اور اپنے کام میں لگا رہے۔ اگر آدمی ایسا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اس کے لیے نہ دنیا میں اس کی پکڑ ہے، اور نہ آخرت میں ۔
لیکن اگر وہ سنی ہوئی خبر کو بطور واقعہ تسلیم کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے انتہائی طور پر ضروری ہے کہ وہ مستند ذرائع سے اس کی تحقیق کرے، اس وقت تک اس خبر کو نہ مانے جب تک ناقابل تردید شواہد سے اس کی تصدیق نہ ہوچکی ہو۔
بے بنیاد خبر کو پھیلانا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا براہ راست تعلق خود آپ کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اگر آپ خبر کو بلاتحقیق بیان کریں تو اس سے آپ کے اندر کمزور شخصیت (weak personality) بنے گی، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقت ہے۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر اس مزاج کو بننے نہ دیں۔
واپس اوپر جائیں
آج کا نوجوان
پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS) میں’’یک روزہ بک فیر‘‘کا پروگرام تھا۔ ہمارے ایک ساتھی، مسٹر طارق بدر نے وہاں بک اسٹال لگایا۔ یہ بک اسٹال بہت زیادہ کامیاب رہا۔مسٹر طارق بدر نے بک فیر کے اختتام پر اپنا تاثر ان الفاظ میں لکھا ہے:
LUMS Book Fair is going great. Students are taking copies of the English Quran and giving such comments: “I was looking for it”, ـ“I need it” and “Can I have one for my friend”. An important learning I had was that today we need to work among the youth, as they are pure seekers and want to understand the true religion. Unfortunately, all other Islamic literature does not address their minds. How our stock of 350 English Qurans finished was a great surprise and students’ excitement after receiving their free copies was unbelievable. Another book which was sold in good amount was Leading A Spiritual Life. Let’s pray that we spread this message to all universities here. We are thankful for Affan, who is doing PhD from LUMS and is part of our team.This was his initiative.
برٹش دور میں جب غیر منقسم انڈیا میں ماڈرن ایجوکیشن کا آغاز ہوا تو تقریباً تمام مذہبی طبقہ، اور اسلامی تحریکیں ان کے خلاف ہو گئیں۔ اکبر الہ آبادی نے اس تعلیم کے بارے میں کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
سید ابوالاعلی مودودی نے اس زمانے میں کالج اور یونیورسٹی کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ تعلیم گاہیں نہیں ہیں، بلکہ وہ قتل گاہیں ہیں۔ یہی حال تقریباً تمام ان لوگوں کا تھا، جو اسلام پسند کہے جاتے تھے، اور احیائے اسلام کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے۔ مگر تجربے نے بتایا کہ یہ تعلیم ہمارے نوجوانوں کے لیے ڈی کنڈیشننگ کا ذریعہ تھی۔ اس تعلیمی نظام میں جو لوگ پڑھ کر نکلے، وہ ’’قتل ‘‘ نہیں ہوئے، بلکہ جدید تعلیم نے ان کے اندر نئی اسلامی بیداری پیدا کردی— وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سیکولر تعلیم یافتہ لوگوں پر فتوی لگانے کے بجائے، ان کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا لٹریچر تیا ر کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
خوف کی نفسیات
بیسویں صدی عیسوی مسلم دنیا کے لیے تحریکوں کی صدی (the century of milli activities) ہے۔ اس پوری صدی کے اندر مسلم دنیا کے ہر حصے میں کوئی نہ کوئی بڑا مسلم رہنما سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ ان تحریکوں کا خلاصہ کیا جائے تو سب کا قدر مشترک ایک ہوگا۔ وہ ہے خوف کی نفسیات۔ ہر مسلم رہنما کسی نہ کسی دشمن کے خوف کو لے کر مسلمانوں کو اس کے خلاف عمل پر ابھاررہا تھا۔کہیں نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف، کہیں اسرائیل کے خلاف، کہیں ہندو اکثریت کے خلاف، کہیں ظالم قوم کے خلاف، کہیں مغربی طاقتوں کے خلاف، کہیں صہیونیت کے خلاف، وغیرہ۔
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ لوگوں کو محبت انسانی کے اوپر اٹھایا جائے تو کبھی ایسی تحریک کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، جو لیڈر لوگوں کو خوف کی نفسیات پر ابھارے، اس کے جھنڈے کے نیچے بےشمار لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنے خالق و منعم کا خوف پیدائشی طور پر موجود ہے۔ انسان فطری طور پر اس احساس میں جیتا ہے کہ جس خالق نے ہم کو تمام نعمتیں دی ہیں، اگر وہ ان نعمتوں کو چھین لے تو ہمارا کیا انجام ہوگا۔ یہ نفسیات انسان کے اندر خالق کی نسبت سے رکھی گئی ہے، تاکہ ہر انسان ذمہ دار انسان بن کر دنیا میں رہے۔ مگر غیردانش مند لیڈر اپنے انٹرسٹ کے لیے اس نفسیات کو مفروضہ انسانی دشمنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانی تاریخ ایک عظیم نقصان سے دو چار ہورہی ہے۔ خوف کی نفسیات جو انسان کے اندر خدا کی نسبت سے رکھی گئی تھی، وہ انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگی۔ جس نفسیات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان کے اندر خدا رخی مزاج بنے، وہ انسان کے خلاف منفی مزاج پیدا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ انسان خالق سے ڈرے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر یہ نفسیات جاگتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان درست آدمی بنائے۔ اس کے برعکس، جب یہ نفسیات انسان کی نسبت سے استعمال ہونے لگے تو ہر آدمی دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے ٹائٹل الگ الگ تھے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے سب کا نشانہ ایک تھا— مسلمانوں کی سیاسی عظمت کو دوبارہ زندہ کرنا۔ ان میں سے کسی تحریک کا ٹائٹل حکومت الہیہ تھا اور کسی کا اقامت دین، کسی کا ٹائٹل امامت کبریٰ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت اسلامیہ، کسی کا ٹائٹل اسلامی نظام تھا اور کسی کا ٹائٹل اسلامی عدل، کسی کا ٹائٹل تہذیب اسلامی کا احیا تھا اور کسی کا ٹائٹل امت کی نشاۃ ثانیہ، کسی کا ٹائٹل شریعت کا نفاذ تھا اور کسی کا ٹائٹل خلافت علیٰ منہاج النبوۃ، وغیرہ۔ لیکن اگر ان کو عملی سرگرمیوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر ایک دین کے نام پر سیاسی سرگرمیوں میں مبتلا نظر آئے گا۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کو لمبے عرصے تک سیاسی عظمت حاصل ہوئی۔ حالات نے ان کو موقع دیا کہ وہ زمین کے بڑے حصے میں اپنا ایمپائر قائم کرلیں۔ اس کے بعد جب جدید دور آیا تو دوبارہ حالات کے تقاضے کے تحت ان کی سلطنتیں ٹوٹ گئیں، اور دھیرے دھیرے ہر جگہ جمہوری سلطنتیں قائم ہوگئیں۔
یہ سیاسی واقعہ جو پیش آیا، وہ قرآن میں بیان کردہ اس قانون کے تحت ہوا :وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ َ (
واپس اوپر جائیں
فطرت کا ایک اصول قرآن میں ان الفاظ میں بیا ن کیا گیاہے: سَیَجْعَلُ اللَّہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا (
اس اصول کے اندر ایک حکمت چھپی ہوئی ہے۔ جب آدمی کے اوپر مشکل حالات آتے ہیں، تو اس کے ذہن میں ایک دباؤ (pressure) پیدا ہوتا ہے۔ اس دباؤ کے تحت وہ زیادہ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ معاملے کے نئے نئے پہلو اس کی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ مشکل سے پہلے اگر وہ ایک غیر تخلیقی ذہن تھا، تو مشکل کے بعد وہ ایک تخلیقی ذہن (creative mind) بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ اہلیت کے ساتھ صورت حال کا سامنا کرے۔وہ زیادہ بہتر طور پر مواقع (opportunities) کو دریافت کرسکے۔
اس اصول کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ گھر کی زندگی، سماج کی زندگی، اور وسیع تر معنوں میں قومی اور بین اقوامی زندگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشکل کی حیثیت انسانی زندگی میں معلّم کی ہے۔ کسی نے درست طور پر کہا ہے کہ مشکل انسان کو انسان بناتی ہے:
It is not ease but effort, not facility but difficulty that makes men.
فطرت کا نظام اس طرح بنا ہے کہ انسان کو کبھی اپنی مرضی کے مطابق بالکل آسان حالات نہ ملیں ، اس کو مشکلات کی جھاڑیوں سے گزرنا پڑے۔ یہ صورت حال انسان کی شخصیت کی تعمیر کرنے کے لیے ہے۔ یہ صورتِ حال ایک انسان کو غیر پختہ شخصیت (immature personality)کے بجائے پختہ شخصیت (mature personality)بنا دیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ختم نبو ت کا عقیدہ فضیلت کا عقیدہ نہیں ہے۔ اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ عدد (number) کی تکمیل کا نام نہیں ہے۔ ختم نبوت کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت باعتبار رہنمائی قیامت تک جاری رہے گی۔ نبوت محمدی کا تسلسل باعتبار رہنمائی غیرمنقطع طور پر اور مسلسل طور پر قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ تسلسل ختم نبوت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر پیغمبرانہ رہنمائی کا تسلسل ٹوٹ جائے تو اللہ کے قانون کے مطابق نئے پیغمبر کا آنا لازم ہوجائے گا، اور اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں ۔
البتہ ایک چیز کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی، اور وہ ہے مخاطب کی نسبت سے پیغمبرانہ رہنمائی کی تفہیم۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ لوگوں کا فکری اسلوب بدلتا رہتا ہے۔اس بنا پر ضرورت ہوتی ہے کہ ہر زمانہ کے مخاطبین کے لیے پیغمبرانہ رہنمائی کو قابل فہم بنایا جائے تاکہ ان کا ذہن ایڈریس ہو۔ یہ کام تفہیم و تشریح کا کام ہے، نہ کہ کسی قسم کے اضافہ کا کام ۔
مثال کے طور پر پیغمبرانہ ہدایت میں ایک تصور توبہ (repentance) کاہے۔ توبہ کا لفظی مطلب ہےلوٹنا، رجوع کرنا۔ دوسرے لفظوں میںپٹری سے اترنے (derailment) کے بعد دوبارہ پٹری پر واپس لانا۔ اگر کوئی شخص اس معاملے کو ان الفاظ میں بیان کرے کہ توبہ کا مطلب ہےفرسٹ چانس کھوئے جانے کے بعد سیکنڈ چانس کو اویل (avail) کرنا۔ تو یہ ایک تفہیم کے اسلوب کی بات ہو گی۔اس کا مقصد یہ ہوگا کہ مخاطب کا ذہن ایڈریس ہو، اور اس کے اندر عمل کی آمادگی پیدا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ کسی گم شدہ کڑی سے لوگوں کودوبارہ باخبر کیا جائے۔
یہی دین کی تجدید ہے۔ تجدید کا مطلب ہے نیا کرنا۔ نیا کرنے کا یہ عمل ریفارمیشن (reformation) کا عمل ہے ۔ یہ دین کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔ تجدید دین سے مراد تفہیم دین کی تجدید ہے، نہ کہ خود دین کی تجدید۔
واپس اوپر جائیں
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر دوسرے کے خلاف بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اکثر آدمی’’وہ‘‘ کی زبان بولتا ہے۔ مگر جو بات وہ کہتا ہے، وہ عملاً ’’میں‘‘ کی زبان میں ہوتی ہے۔ یعنی آدمی ایک ایسی بات کہتا ہے، جس میں اس کی زد بظاہر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دوسرے کے خلاف ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اس کے اپنے خلاف ہوتی ہے۔
ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملے میں انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی نے بولنے سے پہلے کیا سوچا۔ اس کی کون سی سوچ تھی، جس کے تحت اس کی زبان سے وہ الفاظ نکلے جن میں اس نے کوئی بات کہی تھی۔ اسی بات کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہا ہے: کجا میں نماید، کجا میں زند۔
یعنی تیر چلانے والا بظاہر کسی اور طرف نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ اپنے تیر سے جس کو مارنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور ہوتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آدمی جب بھی کوئی بات کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ سوچتا ہے۔ سوچنا پہلے ہوتا ہے، اور بولنا اس کے بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات جو آدمی بولتا ہے، اس کے ذریعہ وہ خود اپنا کردار بنا رہا ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ ہر بولنا ایک عمل ہے۔ بولنے کے دوران آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے، مثبت تعمیر یا منفی تعمیر، کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر۔
ہر عورت اور مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مثبت بنیاد پر تعمیر وہ ہے جس میں انسان کی نفسیات یا تو اللہ رب العالمین سے تعلق کی بنیاد پر بن رہی ہو، یا انسان سے محبت کی بنیاد پر۔ تعمیر خویش کی یہی اصل بنیادیں ہیں۔ آدمی کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنی تعمیر کررہا ہے یا انسان سے خیر خواہی کی بنیاد پر۔ ہر عورت اور ہر مرد کو انھیں دو بنیادوں پر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
منفی تجربہ (negative experience) صرف منفی تجربہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک صدمہ (shock)ہے۔ صدمہ کا تجربہ انسانی ذہن کے لیے ایک فکری طوفان (storm) کے ہم معنی ہوتا ہے، کبھی چھوٹا اسٹارم اور کبھی بڑا اسٹارم۔ منفی تجربہ کے وقت انسان کے ذہن میں طوفان (storm) پیدا ہوتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک توانائی (energy) کے اخراج (release) کا واقعہ ہے۔ یہ صدمہ انسان کے لیے مطلق معنوں میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
اگر آپ اس صدماتی انرجی (shocking energy) کو مثبت رخ پر موڑ سکیں تو ہر صدمہ آپ کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ کے سوچنے کی طاقت، آپ کے تجزیہ (analysis)کی طاقت کچھ بڑھ جائے گی۔ آپ کا ذہن غیر تخلیقی ذہن سے بڑھ کر تخلیقی ذہن (creative mind) ہوجائے گا۔ آپ کے ذہن کی ایسی کھڑکیاں کھل جائیں گی، جو اس سے پہلے بند پڑی تھیں۔آپ کسی بھی وقت اس حقیقت کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کسی سے ایک بات کہی۔ وہ آدمی آپ کی بات کو سن کر غصہ ہوگیا۔ اس نے آپ کو اس کا سخت جواب دیا۔ اس وقت آپ جوابی غصہ نہ کریں، اور ٹھنڈے طریقے سے مثبت انداز میں غور کریں۔ آپ بہت جلد محسوس کریں گے کہ آپ کی قوت تفکیر بڑھ گئی ہے۔ آپ کے ذہن میں نئے نئے پوائنٹ آرہے ہیں۔ آپ کی بات خود آپ کے لیے زیادہ قابل فہم بن رہی ہے۔ آپ کے ذہن کی تخلیقیت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جب بھی آپ کو کسی بات سے صدمہ پہنچے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ آپ چپ ہوجایئے۔ آپ ری ایکشن کے بجائے، خاموشی کا طریقہ اختیار کیجیے۔ آپ ایک شخص پر سوچنے کے بجائے اصل ایشو پر سوچنا شروع کردیجیے، اور پھر جلد آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے آپ کی سوچ کے بند دروازے اچانک کھل گئے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
زندگی میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ (learning spirit) ہو۔ جس آدمی کے اندر سیکھنے کا جذبہ ہو، وہ برابر ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) کبھی رکتا نہیں۔اس کے ذہنی سفر میںہمیشہ کاما (comma) آتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ(full stop)۔ ذہنی سفر میں رکاوٹ صرف ایک چیز سے آتی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کے اندر غلطی کے اعتراف کا مادہ نہ پایا جائے۔ اپنی غلطی کا اعتراف آدمی کے ارتقائی سفر کو برابر جاری رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ کہنے کی ہمت نہ ہو کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong)، وہ کبھی ذہنی ارتقا کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کی کھڑکیاں ہمیشہ کھلی رکھے۔ وہ ہر لمحہ نئی چیز سیکھنے کا طالب بنا ہوا ہو۔ اس قسم کی طلب آدمی کو ذہنی ترقی کے سفر میں آگے بڑھاتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب آدمی کے اندر سیکھنے کی یہ طلب باقی نہ رہے تو اس کے اندر جمود (stagnation)پیدا ہوجاتا ہے۔ بظاہر وہ زندہ ہوتا ہے، لیکن اس کی زندگی ایک قسم کی حیوانی زندگی بن جاتی ہے، نہ کہ صحیح معنوںمیں انسان کی زندگی۔
جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کے ذہنی ارتقا کا سفر بلاروک ٹوک برابر جاری رہے۔ ا س کو اپنے ذہن کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس کو اسپرٹ آف لرننگ میں جینا چاہیے۔ اس کو کسی نئی بات کو لینے میں کبھی ہچکچانا نہیں چاہیے۔ خواہ وہ بات اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
اسپرٹ آف لرننگ کی ایک پہچان یہ ہے کہ آدمی کم بولے اور زیادہ سنے ۔ وہ مونو لاگ (monologue) نہ ہو، بلکہ وہ ڈائیلاگر (dialoguer) ہو۔ وہ جب کوئی نئی بات سنے تو وہ اس کو رد کرنے کے جذبے سے نہ سنے، بلکہ اس کو سننے کے بعد وہ اس پرکھلے ذہن کے ساتھ غور کرے۔ ایسے آدمی کی پہچان یہ ہے کہ وہ بولے کم ، اور سوچے زیادہ۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں ایک نیا فتنہ پیدا ہوا ہے، جس کو اسٹیج کا فتنہ کہا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر شاندار شخصیت ہو، جو اچھا بولنے کی صلاحیت رکھتاہو، جو لوگوں کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو، جو عوام پسند لہجہ میں بول سکے، اس کو فوراً اسٹیج مل جاتا ہے۔ اسٹیج ملتے ہی آدمی کی انا (ego) بوسٹ (boost) ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ واپس لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
اسٹیج ایکٹوزم کے بظاہر دوسرے بہت سے فائدے ہیں— عوامی مقبولیت، ہر جگہ پذیرائی،ہر قسم کے دنیوی ساز و سامان، وغیرہ۔ یہ چیزیں اس کے اندر مصنوعی شخصیت بنانے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی میں کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ جب یہ درجہ آجائے تو اس کے اندر محاسبہ کا ذہن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں درست راستے پر ہوں۔ مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں۔
جو آدمی مین آف اسٹیج (man of stage)بن جائے، وہ بظاہر کامیاب نظر آتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ ناکام انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر تنقید سننے کامزاج ختم ہوجاتاہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ تخلیقی فکر(creative thinking) کے قابل نہیں رہتا۔ وہ صرف آج (today) میں جینے لگتا ہے، کل (tomorrow) کی سوچ اس کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے اندر جینے لگتا ہے، خود اپنے آپ میں جینا کیا ہے، وہ اس سے نا آشنا ہوجاتاہے۔
ایسا آدمی بظاہر پاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک محروم انسان ہوتا ہے۔ اس کو ہر جگہ انسانوںکی بھیڑ ملنے لگتی ہے، لیکن فرشتوں کی صحبت اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ مادی اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن روحانی (spiritual) اعتبار سے وہ ایک خالی انسان ہوتا ہے۔ وہ بظاہر سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔
واپس اوپر جائیں
اگر آپ ایک بائیسکل خریدنے کے لیے بازار میں جائیں، تو اس کی ایک قیمت ہے۔ وہ ضروری قیمت ادا کیے بغیر وہ بائیسکل آپ کو نہیں ملے گی۔ اسی طرح موٹر کار کی ایک قیمت ہے۔ اگر آپ موٹر کار خریدنا چاہتے ہوں۔ لیکن آپ کی جیب میں ا س کی ضروری قیمت نہ ہو، تو کوئی بازار آپ کو موٹر کار دینے والا نہیں۔
اسی طرح مشن کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک مشن لے کر اٹھیںتو صرف بڑے بڑے الفاظ بولنے سے آپ مین آف مشن نہیں بن سکتے۔ مشن ایک بے حد سنجیدہ منصوبہ ہے۔ مشن کی صرف ایک قیمت ہوتی ہے۔ اور وہ ہے، مشن کو ترجیح (priority) کی سطح پر اختیار کرنا۔ اگر آپ ایک مشن شروع کریں۔ لیکن آپ نے اس کو اپنی واحد ترجیح نہ بنایا ہو،بلکہ عملاً آپ اولاد کو اپنی ترجیح بنائے ہوئے ہوں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ مشن کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ ساگ سبزی کی دکان کھولنا، اس سے بہتر ہے کہ ایسا آدمی مین آف مشن بننے کا دعویٰ کرے۔
یونیورسٹی کے ایک استاد نے کہا کہ ہم لوگ حیوان کاسب (earning animal) ہیں۔ ہم لوگوں کا کنسرن تو صرف پرسنل انٹرسٹ ہوتا ہے، لیکن ہم لوگ غلط طور پر اپنے آپ کو علم کا کیس بتاتے ہیں۔ یہ منافقت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کچھ اور بنے، لیکن وہ منافق نہ بنے۔ لوگ عام طور پر حرام و حلال کو جانتے ہیں۔ لیکن اس کے سوا ایک اور چیز ہے، جس کو نفسیات کی اصطلاح میں کمزور شخصیت (weak personality) کہا جاتا ہے، اس کو کوئی نہیں جانتا۔ کمزور شخصیت اور منافق شخصیت میں صرف نام کے اعتبار سے فرق ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ کی نظر میں کمزور شخصیت والا انسان بھی وہی درجہ رکھتا ہے، جو منافق انسان کا درجہ ہوتا ہے۔اعلیٰ انسان وہ ہے جس کے قول اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل انسان ہو۔
واپس اوپر جائیں
ہر شادی کامیاب شادی ہے، کوئی شادی ناکام شادی نہیں۔ شرط یہ ہے کہ آدمی فطرت کے قانون کو جانے، اور اس کو اپنی شادی شدہ زندگی میں استعمال کرے، خواہ یہ قانون اس کی مرضی کے مطابق ہو یا اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی خالق نے پیدا کیا ہے، اور خالق کا اعلان ہے کہ وہ ہر انسان کو احسن تقویم (التین،
اسی فطری حقیقت کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز ہے۔ مرد اور عورت دونوں اگر اس حقیقت کو جانیں تو وہ دریافت کریں گے کہ شتیّٰ (اختلاف) کا یہ معاملہ فطرت کی زبان میں ایک پیغام دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ لوگ فطرت سے ٹکرانے کے بجائے اس سے موافقت کریں۔ وہ اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیارنہ کریں، بلکہ مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کریں:
They have to adopt the art of difference management in this regard
اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ سر تاسر بے فائدہ ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص فطرت کے قانون سے لڑ کر جیت نہیں سکتا۔ جب ٹکراؤ انسان اور فطرت کے قانون کے درمیان ہو تو ہار ہمیشہ انسان کو ہوگی، فطرت کے قانون کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان فطری طور پر باہمت (adventurist) پیدا ہوا ہے۔ اگر آدمی ہمت والا نہ ہو تو وہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کوئی کام اپنی زندگی میں نہیں کرپائے گا۔ فطرت (nature) آدمی کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی کام میں لگائے۔ وہ کچھ کرنے والا بنے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید کام میں لگائے۔
اس جذبہ کی بنا پر آدمی فطری طور پر ایڈونچرسٹ (adventurist) بن جاتا ہے۔ وہ اقدام کا طریقہ اختیارکرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈونچرزم بہت آسانی سے مس ایڈوینچرزم بن جاتی ہے، اور پھرآدمی کے حصہ میں فائدہ کے بجائے نقصان آتا ہے۔ ایڈونچر اور مس ایڈونچر کے درمیان ایک باریک لائن (thin line) ہے، جو ایک دوسرے کو جدا کرتی ہے۔وہ یہ کہ ایڈونچرزم ہمیشہ ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) ہونا چاہیے، نہ کہ محض جوش کے تحت کیا ہوا اقدام عمل ۔ جوش کے تحت کیا ہوا اقدام ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، اور ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) اقدام ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جوش کے ساتھ عقل بھی ہو۔ وہ اقدام کے جذبے کے تحت یہ بھی جانے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ کیا چیز اس کے بس کی ہے، اور کیا چیز عملاً اس کے بس سے باہر ہے۔ کسی بھی کام میں پیشگی طور پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے ممکن العمل (possible) ہے، اور کیا چیز نہیں۔
کسی آدمی کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرے، جو اس کے بس کا کام ہو۔ جو کام اس کے بس کا نہ ہو، اس کو کرنے سےبہتر ہے کہ آدمی سرے سے کام ہی نہ کرے۔ کام نہ کرنے سے جو چیز پیش آتی ہے، وہ صرف کمی ہے۔ لیکن جوش کے تحت کود پڑنا، اس سے زیادہ غلط ہے، اور وہ ہے —ناقابل تلافی نقصان ۔
واپس اوپر جائیں
سوال
ایک سوال یہ ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں جبکہ مسلمان فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور ہر فرقہ اپنے کو حق پر ہونے کا دعوٰی کرتا ہے ہمیں کس منہج پر چلنا چاہیے؟ (محمد عمر خالد)
جواب
اس سوال کا جواب راقم الحروف کی کتاب تجدید دین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً اس سوال کا جواب درج کیا جاتا ہے۔فرقہ بندی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب مبنی برفارم انتہا پسندی ہے۔ دین، مثلاً نماز کا ایک فارم ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اسپرٹ ایک ہے، اور وہ ہمیشہ ایک رہے گی۔ یہ اسپرٹ تقویٰ اور خشوع ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: التقوى ہاہنا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2564)۔ یعنی تقویٰ دل میں ہے۔ اسی طرح قرآن میں آیا ہے: الَّذِینَ ہُمْ فِی صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ (
اس کے برعکس، فارم میں تعدد ہے۔ یعنی روایتوں میں کسی عبادت کے کئی فارم بتائے گئے ہیں۔ یہ تعدد سب کے سب جزئی امور میں ہیں۔ اس لیے فارم میں زور دینے سے ہمیشہ تعدد پیدا ہوجائے گا۔ اس بنا پر فارم کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس معاملے میں تنوع کو درست سمجھا جائے۔ مثلاً کوئی شخص نمازمیں آمین بالسر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست، اور کوئی شخص نماز میں آمین بالجہر کا طریقہ اختیار کرے تب بھی درست۔
فرقہ بندی فارم پر زور دینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کوئی ایک فارم کو درست سمجھتا ہے، کوئی دوسرے فارم کو ۔ اس طرح عبادت کے کئی طریقے بن جاتے ہیں۔ اس لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ عبادت کے معاملے میں بنیادی فارم میں توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے، اور عبادت کے فروعی اجزاء میں تنوع کا طریقہ۔مثلاً نماز کی رکعت میں توحد، اور حالت قیام میں ہاتھ باندھنے میں تنوع۔
سوال
کسی کی تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، اور تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد،تامل ناڈو)
جواب
تعبیر کی غلطی کو واضح کرنا، زیر بحث موضوع کا علمی تجزیہ ہے۔ اس کے برعکس، تکفیر و تفسیق کا حکم لگانا، تنقیص کا فعل ہے۔ پہلی صورت میں زیر بحث موضوع کا علمی پہلو واضح ہوتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں عملاً کسی شخص کی شخصی عیب زنی کا فعل انجام پاتا ہے۔ پہلی صورت علمی ارتقا کا ذریعہ ہے، اور دوسری صورت کا حاصل صرف یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف نفرت کے جذبات کو فروغ ملے۔
مثلاً اٰیک شخص جہاد کے موضوع پر ایک مضمون شائع کرتا ہے،ا ور اس میں لکھتا ہے کہ جہاد بمعنی قتال حسن لغیرہ ہے، حسن لذاتہ نہیں۔ یعنی وہ کوئی عقیدہ کا مسئلہ نہیں، وہ ایک طریقہ کار (method) کا مسئلہ ہے۔ جہاد بمعنی قتال صرف ضرورت (necessity)کے تحت مطلوب ہوتاہے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ بذات خود کوئی دینی فریضہ ہے ۔ اس نقطہ نظر پر کوئی شخص قرآن و حدیث کی روشنی میں تنقید کرے ، اور علمی زبان میں اس کے صحت یا سقم کو واضح کرے تو وہ ایک جائز فعل ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایک شخص اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنٹ ہے، وہ مسلمانوں کو فریضۂ جہاد سے ہٹانا چاہتا ہے۔ تو یہ صرف تنقیص یا الزام تراشی ہوگی۔ ایسی تنقید بلاشبہ ایک ناجائز فعل ہے۔ اسلام میں اس کا کوئی جواز نہیں۔
اگر آپ کو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کچھ غلط لکھا یا کہا ہے تو آپ صرف یہ کیجیے کہ اس کی غلطی کو علمی طور پر واضح کیجیے۔ کیوں کہ اگر آپ الزام تراشی یا تنقیص کی زبان بولیں تو وہ سب و شتم ہوگا، جو اسلام میں جائز نہیں— حقیقت پسندانسان وہ ہے جو باتوں کو دلائل کے اعتبار سے دیکھے۔ جو بات دلائل سے درست ثابت ہو اس کو مانے، اور جو بات دلائل سے درست ثابت نہ ہو اس کو رد کردے۔
واپس اوپر جائیں
■ ویب سائٹ: صدر اسلامی مرکز نے
www.peaceandspiritualityintamil.com
www.peaceandspiritualityinkannada.com
ث کتاب میلہ : سی پی ایس کی مختلف ٹیموں نے نیشنل اور انٹرنیشنل پیمانے پرمنعقد ہونے والے بک فیرس میں حصہ لیا اور زائرین کے درمیان ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچرتقسیم کیا۔ مثلاً سی پی ایس چنئی نے گڈورڈ بکس کی جانب سے کولمبو بک فیر (
Lahore Book Fair 2018, ended this Monday. It was a great success and our sale was doubled compared to last year. This simply shows that our readers’ base has been established. Most of the readers were bringing their friends and recommending to them Maulana's books they have read.This made our work very easy. Two important things to mention: first, this success is related to Quran distribution. With one of our team member's contribution we sold Quran copies at Rs. 300. This news spread like wild fire, and we received many calls from people who wanted to buy and give it as a gift. The sale was so rapid that we had to stop it as we were afraid that our stock would finish. Even small English and Urdu translations of the Quran were finished. Second, one of our readers from Qasoor requested to distribute 200 copies of Kitab-e-Marefat for free, which was also very helpful to introduce Maulana's literature to new readers.The previous book fair in Karachi and this one gave us confidence that this literature is the need of the time and with God’s help we will be able to show to people the true face of Islam. Our mission is to make Maulana's Tazkeerul Quran and other books reach every home in Pakistan. Two of our readers also contributed for giving stall charges and asked their children to volunteer with us in the next book fair. There were lots of interesting incidents about how readers were coming to our stall and sharing their stories of how these books had changed their lives. How these people approached us and got connected to us was miraculous. Apart from Saifullah and Abdul Latif Sb’s hard work and dedication, it was Mrs. Saifullah’s tireless efforts that were behind this success. One scholar at the book fair said that now most of the ulema had already accepted Maulana’s approach. Another interesting incident was that when I saw a lady standing away from our stall, I invited her and told her about Maulana's books. She was happy and told me that articles from Maualna's books on personality development were shared during their Dars at Jamat-e-Islami. I was very surprised to hear that. (Tariq Badar, CPS Pakistan)
ث خواتین کا رول : مس شبینہ علی کولکاتا سی پی ایس کی نہات متحرک خاتون ممبر ہیں۔ وہ کولکاتا شہر میں ہونے والے مختلف پروگراموں میں جاکر وہاں موجود لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیتی ہیں۔ مثلاً 4 ستمبر 2017 کو راما کرشنا مشن انسٹی ٹیوٹ آف کلچر(کولکاتا) میں یونیسکو(UNESCO) کے تعاون سے ہونے والا پروگرام ، جس کا عنوان تھا :عالمی مفاہمت برائے انسانی اتحاد۔ خواتین کے ذریعہ جو دعوتی کام ہو رہا ہے، اس کی نسبت سے یہ سمندر میں تیرتے ہوئے آئس برگ کا ٹپ (tip of the iceberg)ہے ۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت دعوت کو پھیلانے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد لگی ہوئی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر فریدہ خانم (چیر پرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی)، انھوں نے سی پی ایس کے مشن کو اردو سے انگریزی زبان میں منتقل کیا ہے، اور حالیہ دنوں میں آپ نے جو پروگرام اٹینڈ کیے وہ یہ ہیں: انڈیا انٹرنیشنل سینٹر، نئی دہلی میں
Concept, Principles and Practice of Non-violence at the individual and the societal level in major religious faiths.
ان کے علاوہ جو خواتین اس دعوتی مشن کو آگے لے جارہی ہیں ، وہ یہ ہیں: ڈاکٹر مسلمہ صدیقی، ڈاکٹر سعدیہ خان، ڈاکٹر نغمہ صدیقی، ڈاکٹر نجمہ صدیقی، مز ماریہ خان، مز راضیہ صدیقی، مز صوفیہ خان، مز استتھی ملہوترا، مز آنکھی چٹرجی، مز حمامہ فرقان ( دہلی)، مز شماز انصاری (میرٹھ)، مز سارہ فاطمہ، (انگلش میگزین اسپرٹ آف اسلام، بنگلور)، مز مظہر النساء، مز فاطمہ اسریٰ (بنگلور)، مز صالحہ پروین (ہاسن)، مز قرۃ العین (کشمیر)، مز عصمت خانم، مز شیاما دیوی، مز سلطانہ بیگم ، ڈاکٹر سفینہ تبسم (سہارن پور، یوپی)، مز شبانہ خاتون، مز یاسمین مہتاب (کولکاتا) مز امۃ المعز بشریٰ (سعودی عربیہ)، مسز نسیم نصرت (تھانہ، ممبئی)، مز ثمینہ خان(بودھن، مہاراشٹر)،مز مسعودہ خاتون (پٹنہ)، مز فوزیہ خان (پھلواری،بہار)، ڈاکٹر عالیہ، ڈاکٹر فوزیہ، مسز اختر، مز سلمی عون، مز شبانہ انصاری (پاکستان)، مز گل زیبا احمد(میری لینڈ ،امریکا)، مز کوثر اظہار(نیو جرسی، امریکا)، مز بشری کوثر (پیٹس برگ، امریکا)مز ایویٹ فرانسین گرے ([Yuvette Francine Gray]مسی سپی، امریکا)، مسزفرحانہ طاہر،مسز نصیرہ یونس، مز شہناز علوی ، (ٹکساس، امریکا)،اشرف النساء کلیم (پنسلوانیا، امریکا)، ڈاکٹر حنا (یوکے)، مزسیما جلال (دبئی)۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو خود براہ راست دعوتی کام نہیں کرتی ہیں، لیکن فیملی میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کو وہ بھر پور طور پر سپورٹ کرتی ہیں، ان میں ایک اہم نام مز زرین خان (اہلیہ ڈاکٹر ثانی اثنین خان) کا ہے۔
■ کولکاتا ٹیم کا دعوتی دورہ
ث دعوہ میٹ
■ ملاء قوم میں دعوت: ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور)، سی پی ایس کے بہت ہی متحرک داعی ہیں۔ کوئی بھی موقع ہو وہ دعوتی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً
■ بہار اور جھارکھنڈ سے ملی خبر کے مطابق،
■ بہار کا گیا ضلع بدھ مذہب کے ماننے والوں کا مرکز ہے۔ اس لیے وہاںپوری دنیا کے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہاں الرسالہ مشن سے تعلق رکھنے والے دعاۃ مانو کلیان سمیتی (Mobile: 8122773742)نامی این جی او کے ذریعہ دعوتی کام کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً انھوں نے
■ جناب ثناء اللہ صاحب اکولہ (Mobile: 9579733042) سے لکھتے ہیں کہ 18 جنوری 2018 کو میری دکان میں دو ہندو بھا ئی آئے۔ میرے کاریگر گنیش والوکر نےان دونوں کو مراٹھی ترجمہ ٔقرآن اور دیگر کتابیں دیں، اور ان سے پندرہ منٹ تک بات کی۔ دوران گفتگو گنیش نے ان سے کہا کہ قرآن کو کسی لیکھک (مصنف)کی کتاب سمجھ کر مت پڑھنا ،اگر تم اس کو کسی لیکھک کی کتاب سمجھ کر پڑھوگے تو تم اس کو نہیں سمجھو گے اور اگر تم اس کو ایشور کی کتاب سمجھ کر پڑھوگے تو تم کو یہ کتاب سمجھ میں آئے گی۔ ان لوگوں نے یہ کتابیں بڑے شوق سے حاصل کی۔ اسی طرح
■ ناگپور و کامٹی CPS ٹیم کے ایک ممبر محمد اکرم صاحب ( Mobile: 8983218667) اکثر سفر کرتے ہیں اور اس دوران وہ دعوہ ورک بھی کرتے ہیں۔ بروز بدھ، مورخہ
■ I have completed reading Maulana’s Mutala-e-Seerat. By the Grace of Allah, I understood as to why Allah asked us to follow the Prophet's life pattern. A Muslim can never feel that he has no purpose to live at any point of time, as there is a continuous task of self-purification and the task of sharing the message with others until his death. My conviction for both the tasks has increased many folds. My conviction about the Hereafter and Islam as the true revealed religion of God Almighty is also getting deeper. All these years, I was reading only those kinds of books that contained dos and don’ts, but after reading this book, I felt that being a born Muslim, knowing some history about Islam is not enough for true conviction or belief. Maulana's way of writing is God’s greatest blessing for this generation. Spirit of Islam, the English Magazine, also has articles which are also very inspirational for personality development. (Mrs. Asra, Bangalore)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.