The Final Role of Muslim Ummah
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی تاریخ میں دو بڑے رول مقدر ہیں۔ ایک وہ رول جو اصحاب رسول کے ذریعہ انجام پایا۔ دوسرا وہ رول جس کے لیے حدیث میں اخوان رسول (مسند احمد، حدیث نمبر 12579) کے الفاظ آئے ہیں۔ تاریخ میں کوئی بڑا رول ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوتا ہے۔ اصحاب رسول کا رول اس تاریخ کا نقطۂ انتہا تھا، جو پیغمبر ابراہیم کے ذریعہ قدیم مکہ میں ساڑھے چار ہزار سال پہلے شروع ہوا، اور ساتویں صدی عیسوی میں اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچا۔ اصحابِ رسول وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اس لمبے تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ پیدا ہونے والے حالات کو اپنی غیر معمولی جد و جہد کے ذریعہ اویل (avail) کیا۔
رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ تاریخ کا دوسرا عمل (process) شروع ہوا۔ یہ دوسرا تاریخی عمل مختلف حالات سے گزرتا ہوا، بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ انتہا تک پہنچا۔ ماڈرن سیویلائزیشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی تکمیلی مرحلہ کا نام ہے۔ وہ تکمیلی مرحلہ جس میں توحید کے مشن کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آفاق و انفس کی آیات (فصلت
مواقع کو پہچاننے میں ناکامی
بیسویں صدی میں وہ وقت پوری طرح آچکا تھا، جب کہ امت مسلمہ سے مطلوب تھا کہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو پہچانیں، اور نئے مواقع کو اویل کرتے ہوئے اس کام کو انجام دیں، جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی سطح پر اعلیٰ تبیین حق (فصلت
یہ حادثہ اس طرح پیش آئے گا کہ جو مغربی قومیں حدیث کے الفاظ میں موید دین بن کر ابھریں گی، ان کے ساتھ ایک اور اتفاقی پہلو شامل ہوگا۔ وہ یہ کہ یہ مغربی قومیں ایک طرف موید دین تہذیب لے کر ظاہر ہوں گی، لیکن اسی کے ساتھ ان کی دوسری حیثیت یہ ہوگی کہ وہ اس سیاسی کلچر کی حامل ہوں گی، جس کو نو آبادیاتی نظام(colonialism) کہا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام ایک اتفاقی سبب (chance factor) کی بنا پر اس تائیدی تہذیب کا حصہ ہوگا۔ مگر مسلم رہنما دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی پالیسی (delinking policy) اختیار نہ کرسکیں گے، اور سیاسی اختلاف کی بنا پر خود تائیدی تہذیب کے دشمن بن جائیں گے۔ مسلمانوں کایہ مزاج اتنا زیادہ بڑھے گا کہ امت کا کوئی فرد اس کی زد میں آنےسے محفوظ نہ رہے گا۔
اس کیفیت کو اگر نئے اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اس کو ویسٹو فوبیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی مغربی قومیں تھیں، جنھوں نے ایک طرف ماڈرن تہذیب کو وجود دیا، اور دوسری طرف یہی وہ قومیں تھیں، جو بعد کو نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers) کے نام سے ابھریں۔ انھوں نے ایک کے بعد ایک تمام مسلم سلطنتوں کو ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان عمومی پیمانے پر سیاسی محرومی کا شکار ہوگئے۔ قدیم زمانے میں اس طرح کا واقعہ مقامی خبر (local event) بن کر رہ جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں جدید میڈیا کی بنا پر یہ سیاسی واقعہ اتنا پھیلا کہ کوئی مسلمان اس "حادثہ" سے بے خبر نہ رہا۔ چنانچہ ہر مسلم مرد اور عورت مغرب سے متنفر ہوگیا۔
اگر مسلم رہنما بروقت ڈی لنکنگ (delinking)کی حکمت کو اختیار کرتے، جیسا کہ اسلام کے دور اول میں پیغمبر اسلام نے کیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ کے اصنام اور ان کے لیے روزانہ اکٹھا ہونے والے زائرین (audience) کو ایک دوسرے سے الگ کیا تھا۔ اس طرح آپ نے ایسا دانش مندانہ طریقہ اختیار کیا، جو آخر کار فتح مبین (الفتح 1:) کا باب بن گیا۔ اگر وقت کے مسلم رہنما اس ڈی لنکنگ پالیسی کو اختیار کرتے تو مسلم امت عمومی نفرت کے فتنہ سے بچ جاتی، اور مغربی تہذیب کے ذریعہ پیدا ہونے والے تائیدی مواقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کرکے اس کارنامے کو انجام دیتی جس کو ایک برٹش مورخ ای ای کلیٹ (Ernest Edward Kellett) نے پیغمبر اسلام کی نسبت سے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے ناموافق حالات کا مقابلہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure. (A Short History of Religions by E.E. Kellet, pp. 331-32, Middlesex)
ویسٹو فوبیا
نفرتِ مغرب کے اس عمومی فتنے کو اگر ایک نیا نام دیا جائے تو وہ شاید ویسٹوفوبیا (westophobia) ہوگا ۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوںکا سب سے زیادہ عام مائنڈ سیٹ (mindset) ہے۔ یعنی مغربی قوموں کو اپنا دشمن سمجھنا، اور ان سے نفرت کرنا۔ نفرتِ مغرب کا یہ مزاج ابتداءاً نوآبادیات (colonialism) کے پس منظر میں پیدا ہوا۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام مزاج بن گیا۔ حتی کہ آج مسلم قوم کا مطلب یہ بن گیا کہ اپنے سوا دوسری تمام قوموں سے نفرت کرنا۔ مسلمانوں کے درمیان اس نفرت کلچر (culture of hate)کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ اللہ نےایسے اسباب پیدا کیے کہ مغربی قوموں نے وہ رول ادا کیا، جس کو حدیث میں تائید دین کہا گیا ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640) ۔ صلیبی جنگوںکے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مغربی قومیں جنگ کے میدان سے ہٹ کر تسخیر فطرت کے میدان میں آگئیں ۔یعنی انھوں نے فطرت کے ان اسرار کو دریافت کرنا شروع کیا ،جن کو قرآن میں آیات (signs) کہا گیا ہے۔ اس معاملے کی پیشین گوئی قرآن میں کردی گئی تھی۔ قرآن میں یہ بتایا گیا تھا کہ مستقبل میں ایسا ہوگا کہ آفاق و انفس کی نشانیاں بڑے پیمانے پر ظاہر ہوں گی، اور وہ حق کی اعلیٰ تبیین کا رول انجام دیں گی(فصلت
مسلمان جس مغرب سے متنفر ہوگئے تھے، وہ وہی مویدِ دین تھے جن کی پیشین گوئی حدیث میں کردی گئی تھی۔ مگر نفرت کی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان خود اپنے حامیوں سے بے خبر ہوگئے۔مسلمانوں کے اندر مغرب کے خلاف نفرت کلچر (anti-West culture) کا مزاج اتنا زیادہ بڑھا کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں سکے کہ اہل مغرب وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں پیشگی طور پردین کے مؤیدین کہا گیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ایک لفظ میں ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر یہ ویسٹوفوبیا اتنا زیادہ بڑھا ہواہے کہ مسلمان صرف نفرتِ مغرب کو جانتے ہیں، وہ تائید مغرب سے بالکل بے خبر ہیں۔شاید آج کی دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملے گا، جو اس ویسٹوفوبیا یا مغرب سے نفرت کا شکار نہ ہوا ہو۔
اس کے نتیجہ کے طور پر یہ ہوا کہ مسلمان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی محرومی کے شکار ہوگئے۔ موجودہ زمانے میں ویسٹوفوبیا کی بنا پر مسلمانوں کو دو بڑے نقصان اٹھانے پڑے۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس سے بڑی کوئی محرومی مسلم امت کے لیے نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا دعوتی مخاطب نہ بنا سکے۔ کیوں کہ نفرت اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جہاں نفرت ہوگی، وہاں دعوت کا ذہن نہیں ہوگا، اور جہاں دعوت کا ذہن ہوگا، وہاں نفرت کی نفسیات ختم ہوجائے گی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ مغرب جدید تہذیب کا چیمپین تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان مغرب سے متنفر ہونے کی بناپر جدید تہذیب سے متنفر ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے ذریعہ جو نئے مواقع (opportunities) کھلے تھے، وہ مسلمانوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔ اس بنا پر مسلمان موجودہ زمانے میں ایک پچھڑاہوا گروہ (backward community) بن کر رہ گئے۔
امت مسلمہ کی ذمہ داری
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میںآئی ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (
یہ حدیث رسول پیشگی خبر کی زبان میں یہ بتارہی ہے کہ آخری دور میں امت کا فائنل رول کیا ہوگا۔ وہ رول یہ ہوگا کہ امت اپنے زمانے کےاعتبار سے ایک عالمی منصوبہ بندی کرے، اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے کلام (word of God) کو دنیا کے ہرگوشے میں پہنچادے۔ یہاں تک کہ کوئی عورت یا مرد اس سے بے خبر نہ رہے۔
اس حدیث میں کلمۃ الاسلام سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ہر انسان تک پہنچانا کسی پر اسرار طریقے پر نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ دوسرے واقعات کی طرح اسباب کے ذریعے ہوگا۔ بعد کے دور میں ایسے اسباب انسان کے دسترس میں آئیں گے، جن کو استعمال کرکے امت خدا کی کتاب کو تمام انسانوں تک پہنچادے ۔ قرآن کو سارے عالم تک پہنچانا ایک ایسا مشن ہے، جو امت مسلمہ صرف اپنی طاقت سے نہیں کرسکتی۔ اس لیے اللہ نے تاریخ کو اس طرح مینج (manage)کیا کہ دوسری قومیں بھی اس تاریخی مشن میں تائیدی رول (supporting role) ادا کریں۔ یہی بات مذکورہ حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔ یعنی اللہ ضرور اس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں فاجر انسان سے مراد سیکولر انسان ہے۔ یعنی مستقبل میں ایسے لوگ اٹھیں گے، جو بظاہر اپنے مادی محرکات (commercial interest)کے تحت ایک عمل کریں گے۔ مگر یہ اسباب عملاً اہل دین کے لیے سپورٹر بن جائیں گے۔
اس حدیث میں سیکولر مؤید (supporter) سے مراد وہی واقعہ ہے، جس کو موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ایک واقعہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک مادی تہذیب ہے۔ اس نے اپنے مادی مقاصد کے لیے بہت سے نئے اسباب پیدا کیے۔ مگر یہ اسباب امکانی طور پر (potentially) قرآن کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن گئے۔
مغربی تہذیب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ دنیا کا جغرافیہ پوری طرح ایک معلوم واقعہ بن گیا۔ مذہبی آزادی موجودہ زمانے میں انسان کا ایک مسلمہ حق (accepted right) بن گئی۔ موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور الیکٹرانک کمیو نی کیشن جیسی چیزیں وجود میں آئیں، جن کے ذریعے پہلی بار عالمی ابلاغ (global communication)ممکن ہوگیا۔ لائبریری کلچراور کانفرنس کلچرجیسی چیزیں آخری حد تک عام ہوگئیں۔ سیاحت (tourism) کا ظاہرہ وجود میں آیا، جس کی صورت میں گویا مدعو خود داعی کے دروازے تک پہنچ گیا۔ لوگوں میں کھلا پن (openness)کا مزاج پیدا ہوا، جس کی بنا پر لوگ غیر متعصبانہ انداز میں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے، وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح کے اسباب اہل دین کے لیے تائید (support) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اہل دین ان کو استعمال کرکے قرآن کے اعلان اور پیغمبر ِ اسلام کی پیشین گوئی کو واقعہ بنادیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اہل دین ہر قسم کے منفی خیالات کو چھوڑ کر اٹھیں اور خالص مثبت ذہن کے تحت قرآن کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں۔ تاکہ انسان اس خدائی ہدایت سے رہنمائی لے کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکے۔ اکیسویں صدی میں قرآن کی عالمی تبلیغ کا مطلوب مشن آخری حد تک ممکن ہوچکا ہے۔ اس امکان کو واقعہ بنانے کی شرط صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو مکمل طور پر ختم کردے۔ وہ پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے، تمام قوموں تک قرآن کا پیغام پہنچادے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر حق کا متلاشی ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے زور پر حق کا طالب بنا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی غلط سوچ کے تحت نفرت اور تشدد کے کلچر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کلچر نے داعی اور مدعو کے درمیان دوری کا ماحول قائم کردیا ہے۔ امت مسلمہ پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر نفرت اور تشدد کے موجودہ کلچر کو ختم کردے، اور پوری طرح امن کا ماحول قائم کردے۔ اس کے بعد فطری طور پر ایسا ہوگا کہ قرآن کا پیغام ہر جگہ پہنچنے لگے گا۔ آج امت مسلمہ کو یہ کرنا ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کے کلچر کو ختم کرکے امن کلچر کو اپنائے، اور دعوت کی پر امن پلاننگ (peaceful planning)کرے، اور خالص پرامن انداز میں سارے عالم تک اللہ کے پیغام کو پہنچادے۔ یہی امت مسلمہ کا فائنل رول ہوگا۔ اسی دعوتی رول کی ادائیگی کے نتیجے میں امت مسلمہ کو دوبارہ وہ سرفرازی حاصل ہوگی جس کا تاریخ کو انتظار ہے۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں، اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔یہ تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین خداوندی کے لیےپوری طرح ایک موافق تہذیب ہے۔تاہم ہر دوسری چیز کی طرح اس تہذیب کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس تہذیب کے غیر متعلق پہلو (irrelevant part) کو نظر انداز کرکے اس کے متعلق پہلو (relevant part) کو دیکھا جائے۔
اس مادی تہذیب کا بالواسطہ حوالہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے، وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ ُ (
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realization) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلی ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) فراہم کیں۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اہل دین کے لیےتائیدی عنصر (supporting factor)کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھے، وہ اپنے آپ کومطلوبِ الٰہی کے مطابقـ ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
سائنس کی شہادت
انسان کی تخلیق کا مقصد قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (
انسان ایک صاحب ارادہ مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے کہ انسان کے اندر تصوراتی سوچ (conceptual thinking) کی صلاحیت ہے۔ انسان کے لیے معرفت کا تعین اسی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس اعتبار سے انسان کے لیے معرفت کا معیار خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) ہے۔ یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچنے کی طاقت (thinking power) کو ڈیولپ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس قابل ہوجائے کہ وہ سیلف ڈسکوری کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرلے۔
اس دریافت کے دو درجے ہیں۔ پہلا درجہ ہے کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا، اور دوسرا درجہ ہے سائنس کی سطح پر اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ پچھلے ہزارو ں سال سے انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے کامن سنس کو بے آمیز انداز میں استعمال کرے۔ وہ اپنی فطرت کو پوری طرح بیدار کرے۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ وہ کامن سنس کی سطح پر اپنے خالق کی شعوری معرفت حاصل کرلے۔ اس دریافت کی صرف ایک شرط تھی، اور وہ ہے ایمانداری (honesty)۔ اگر آدمی کامل ایمانداری کی سطح پر جینے والا ہو تو یقینی طور پر کامن سنس اس کے لیے اپنے خالق کی دریافت کے لیے کافی ہوجائے گی۔
معرفت کی دوسری سطح ، سائنٹفک معرفت ہے۔ یعنی فطرت (nature) میں چھپی ہوئی آیات (signs) کو جاننا، اور ان کی مدد سے اپنے خالق کی عقلی معرفت (rational realization)تک پہنچنا۔ سائنٹفک معرفت کے لیے ضروری تھا کہ آدمی کے پاس غور و فکر کے لیے سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ مجرد عقلی غور و فکر کے ذریعہ سائنٹفک معرفت کا حصول ممکن نہیں۔ سائنٹفک معرفت تک پہنچناکسی کے لیےصرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سائنس کا سپورٹنگ ڈیٹا موجود ہو۔ اس سائنٹفک ڈیٹا کے حصول کا واحد ذریعہ قوانین فطرت (laws of nature) کا علم ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کو قوانین فطرت کا علم حاصل نہ تھا۔ اس لیے خالق کی سائنسی معرفت بھی انسان کے لیے ممکن نہ ہوسکی۔
خالق کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو مینج کرتا ہے، یعنی انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انسان کو منصوبۂ تخلیق کے مطابق مطلوب حالت تک پہنچاتا ہے۔ خالق اپنا یہ کام انسانی آزادی کو منسوخ کیے بغیر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک بے حد پیچیدہ کام ہے، اور اس کو خالق کائنات ہی اپنی بر تر طاقت کے ذریعہ انجام دے سکتا ہے۔ ہمارا کام اس منصوبۂ خداوندی کو سمجھنا ہے، نہ کہ اس کے کورس کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ کیوں کہ وہ ممکن ہی نہیں۔
قرآن کے ذریعہ اللہ تعالی نے بار بار اہل ایمان کو یہ بتایا تھا کہ کائنات انسان کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ تم ان تسخیری قوانین کو دریافت کرو، تاکہ تم معرفت کے اس درجے تک پہنچ سکو، جس کو سائنسی معرفت کہا جاتا ہے۔ مگر اہل ایمان اس کام کو کرنےمیںعاجز ثابت ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اس کام کے لیے ایک اور قوم کو کھڑا کیا (محمد
اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (وفات1642:ء) کو فادر آف ماڈرن سائنس (the father of modern science) کہاجاتاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہی وہ پہلا سائنس داں تھا جس سے ماڈرن سائنس کا سفر باقاعدہ صورت میں شروع ہوا۔ یہ عمل تقریباً چار سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ بیسویں صدی میں انسان کو وہ تمام سائنٹفک ڈیٹا حاصل ہوگئے، جو خالق کو سائنسی سطح یا ریشنل لیول پر دریافت کے لیے ضروری تھے۔
اللہ نے جس عالم کو تخلیق کیا، اس کے ہر جزء پر خالق کی شہادت ثبت (stamped) ہے۔ پھر اس نے اس علم سے فرشتوں کو واقف کرایا۔ اس کے بعد اس نے اس حقیقت کو چھپے طور پر (hidden form)اس کائنات میں رکھ دی، جس کو انسان خود سے دریافت کرسکتا تھا۔ یہی وہ چھپی حقیقت ہے جودریافت کے بعد ماڈرن سائنس کےنام سے جانی جاتی ہے۔
اہل اسلام کا کنٹری بیوشن
اب اہل ایمان کے لیے جو کرنے کا کام تھا ، وہ یہ تھا کہ وہ سائنٹفک معلومات کو اسلام کے لیے استعمال کریں۔وہ سائنٹفک معلومات (scientific knowledge) کو استعمال کرکے اپنی معرفت کو نئی مطلوب سطح تک پہنچا دیں، اور دوسروں کے لیے بھی اس معاملے میں رہنمائی کا رول ادا کریں۔ مگر تاریخ دیکھتی ہے کہ اہل اسلام اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ بیسویں صدی کے پورے دور میں پوری مسلم دنیا میں بظاہر ایک شخص بھی نظر نہیں آتا جس کو اس کام کا واضح شعور ہو، اور اس نے اس کام کو مطلوب صورت میں انجام دیا ہو۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان اس عظیم امکان سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ انھوں نے اس حقیقت کو جانا ہی نہیں کہ اللہ نے تاریخ کو مینج کرکے اس درجہ تک پہنچایا ہے کہ فطرت میں چھپی ہوئی آیات اللہ (signs of God) دریافت ہوکر سامنے آگئی ہیں۔ اس دریافت کا کام اہل مغرب نے نہایت اعلیٰ سطح پر انجام دے دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اس سائنسی دریافت کوبھر پور طور پر دین خداوندی کی تائید کے لیے استعمال کریں۔ اس معاملے میں اب عملاً مسلمانوں کا کام بنیادی طور پر سیکنڈری ہے، نہ کہ پرائمری۔
اس معاملے میں غالباًامت کی سطح پر مسلمانوں کے کسی براہ راست کنٹری بیوشن کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ بظاہر چند افراد نے اس موضوع پر کچھ کام کیا ہے، لیکن وہ اصل مطلوب کی حیثیت سے کوئی قابل ذکر کام نہیں نظر آتا ہے۔ البتہ کچھ مسلم مترجمین نے مسیحی اہل علم کی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں، جو یقینا اس معاملے میں اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب وہ ہے جو چالیس مغربی سائنس دانوں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب انگریزی میں مندرجہ ذیل ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe (G. P. Putnam's Sons, 1958)
یہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968)۔راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا، وہ پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپی ۔ یہ
مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بلاشبہ قابل قدر کام کیا ہے۔ انھوںنے اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالے اور کتابیں شائع کی ہیں، جو بلاشبہ ہمارے لیے تائیدی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام یہاں لکھے جاتے ہیں:
The Intelligent Universe by Fred Hoyle, (Holt, Rinehart, and Winston, 1984)
The Cosmic Detective: Exploring the Mysteries of Our Universe by Mani Bhaumik, Mani (Penguin Books India, 2008)
Science And The Unseen World by Arthur Stanley Eddington (Kessinger Publishing, 2004)
New Proofs for the Existence of God: Contributions of Contemporary Physics and Philosophy by Robert J. Spitzer, (2010)
How to Know God Exists: Scientific Proof of God, by Sr Ray Comfort (2008)
اس معاملے کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اس بے خبری کا سبب وہی عمومی فتنہ تھا جس کو حدیث میں فتنۃ الدہیما ء (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر4242) کہا گیا ہے۔ فتنۃ الدُہیماء سے مراد نفرتِ مغرب کا عمومی فتنہ ہے۔ اس فتنہ کو زیادہ صحیح طور پر ویسٹو فوبیا (westophobia) کہا جاسکتا ہے۔ یہ پوری اسلامی تاریخ کی سب سے زیادہ تعجب خیز حقیقت ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب سائنسی ترقی کے ذریعہ اعلیٰ معرفت کا دروازہ کھولا تو مسلمان اس حقیقت سے پوری طرح بے خبر ہو کر رہ گئے۔
حدیث میں آیا ہے :حبک الشیء یعمی ویصم (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 5130)۔ اس قول کو توسیع دے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغضک الشیء یعمی ویصم یعنی تمھارا کسی چیز سے نفرت کرنا تم کو اندھا اور بہرا بنادیتا ہے۔موجود ہ زمانے کے مسلمانوں میں بعض سیاسی اسباب سے اہل مغرب سے نفرت پیدا ہو گئی۔ اس بغض کے نتیجہ میں وہ اہل مغرب کے کنٹری بیوشن کو مثبت طور پر جاننے سے محروم ہوگئے۔ انھوں نے حالات کے دباؤ کے تحت مغربی تہذیب سے مادی فائدہ اٹھایا، لیکن وہ مغربی تہذیب کے اس پہلو سے بے خبر ہوگئے کہ مغربی تہذیب حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔ اس عمومی نفرت کا سب سے بڑا نقصان خود مسلمانوں کو ہوا۔ کیوں کہ اس بنا پر وہ اپنے اس اہم رول سے بے خبر ہوگئے کہ مغرب کی دریافت کردہ تائیدات کو لے کر وہ اسلام کی تبیین اعلیٰ عقلی سطح پر کرسکیں، اور اس طرح وہ اہم رول ادا کرسکیں جس کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔
حق کیا ہے
حق کیا ہے۔ حق اصلاً توحید کا دوسرا نام ہے۔ اس کے مقابلے میںجو چیز باطل ہے، وہ اصلاً شرک ہے۔ شرک یہ ہے کہ آدمی خالق کو چھوڑ کر مخلوقات کی پرستش کرنے لگے،یعنی فطرت کی پرستش (nature worship) ۔ خالق بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔ اس لیے انسان نے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش شروع کردی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو(
مظاہر فطرت (nature) دکھائی دینے والی چیزیں ہیں۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستارے انسان کو نمایاں نظر آتے تھے، ان کے بارے میں انسان کے اندر استعجاب (sense of awe) پیدا ہوا۔ اس استعجاب کے تحت انسان نے ان کو برتر سمجھ کر پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح قدیم زمانے میں مظاہر فطرت کو معبود مان کر ان کی پرستش کا کلچر دنیا میں رائج ہوا۔ یہ صورت حال پوری تاریخ میں برابر جاری رہی۔ خدا کے پیغمبر مسلسل طور پر خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئے کہ مخلوق کو چھوڑو، اور خالق کی عبادت کرو۔ مگر انسان ایسا نہ کرسکا۔ اسلام نے خالق کی پرستش کے اس کلچر کا آغاز کیا، اوراس کے بعد ماڈرن سائنس نےاس عمل کی تکمیل کی۔ماڈرن سائنس نے مشاہداتی سطح پر مظاہر فطرت کو معبودیت کے مقام سے ہٹا کر مخلوق کے مقام پر پہنچادیا ۔
یہ عمل سترھویں صدی عیسوی میں اٹلی کے سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کی ریسرچ کے ذریعہ شروع ہوا، جب کہ گلیلیو گلیلی نےمشاہداتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ زمین شمسی نظام کا سینٹر نہیں ہے، بلکہ وہ سورج کا ایک سیارہ (satellite) ہے۔ اس کے بعد 1969 میںنیل آرم اسٹرانگ ( 1930-2012– ) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا۔ اس نے بتایا کہ چاند کوئی روشن چیز نہیں، وہ بے نور پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی اپنی نہیں، وہ سورج کے ریفلیکشن سے چمکتا ہے۔ اس کے بعد انسان نے بڑی بڑی رصدگاہیں بنائیں، اور بڑے پیمانے پر ریسرچ کیا۔ اس کے ذریعہ حتمی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ ستارے جو آسمان میں نظر آتے ہیں، وہ سب کے سب آگ کے ٹکڑے ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس طرح سائنسی ریسرچ نے مشاہداتی بنیاد پر یہ بتایا کہ خلا (space) میں جتنے بھی اجسام (bodies) ہیں، وہ سب کے سب یا تو آگ کے انگارے ہیں، یا پتھر کے ٹکڑے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ مظاہر فطرت کی معبودیت کا تصور تمام تر توہم پرستی (superstition) کی بنیاد پر قائم تھا۔ سائنس نے توہم پرستی کے دور کو مکمل طور پر ختم کردیا۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مظاہر پرستی کا دور علمی طور پر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن میں آفاق کی آیات کے ذریعے بتائی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں انفس کی نشانیوں کے ذریعہ حق کی تبیین ہوگی۔انفس سے مراد انسان ہے ۔ آیاتِ انسان سے کس طرح حق کی تبیین ہوتی ہے۔ اس کا اشارہ ایک حدیث میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6227)۔ یعنی اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک ایسا وجود ہے جس کا مطالعہ کرکے خالق کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ انسان کے اندر وہ تمام صلاحتیں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں، جو خالق کے اندر اعلیٰ سطح پر موجود ہیں۔ کائنات پوری کی پوری ایک مادی کائنات ہے۔ مگر کائنات کے اندر ایک ہستی ایسی پائی جاتی ہے، جس کو انسان کہا جاتاہے۔ انسان کے اندر دماغ (Mind) ہے، انسان دیکھنے اور سننے کی صلاحیت رکھتاہے، وہ اپنے ارادے سے کام کرتا ہے، انسان واحد مخلوق ہے جس کے اندر مَیں (I) کا شعور پایا جاتاہے، وغیرہ۔ غالباً اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ (
I think, therefore, I am
اس اصول کی توسیع کرتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ میں ہوں اس لیے خدا بھی موجود ہے:
I am, therefore, God is
اکیسویں صدی
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبیلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت کے درجہ تک پہنچ گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
Probability is less than certainty, but more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبیلٹی کے درجے میںمسلمہ حقیقت بنی ہیں، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں، جس درجے میں مسلّمہ سائنسی حقائق ۔
اہل علم کی شہادت
زیر نظر موضوع سے متعلق قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: شَہِدَ اللَّہُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (
اللہ شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی الہ نہیں— اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے ہر جزء پر خالق کی اسٹیمپ (stamp) لگی ہوئی ہے۔ تخلیق (creation) کا مطالعہ باعتبار حقیقت خالق کے عمل (act) کا مطالعہ ہے۔ تاہم اس معاملے میںسائنس کے آغاز پر ایک نا موافق حادثہ پیش آیا۔ وہ سائنٹفک کمیونٹی اور کرشچن چرچ کے درمیان ٹکراؤ تھا۔ اس کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science by John William Draper (1874)
یہ تصادم سائنٹفک کمیونٹی اور کرسچن چرچ کے درمیان تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ سائنٹفک کمیونٹی نے نیچر کے مطالعہ (باعتبار حقیقت تخلیق کےمطالعہ) میں تخلیق اور خالق کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ وہ تخلیق کا مطالعہ خالق کے ریفرنس کے بغیر کرنے لگے۔ اس طرح سائنس بظاہر ایک سیکولر سبجکٹ بن گیا۔ حالاں کہ باعتبار حقیقت وہ مکمل طور پر ایک مذہبی سبجکٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔
اس کے بعد دوسری غلطی مسلم علماء نے کی۔ انھوںنے سائنس کو ایک مادی سبجکٹ کا درجہ دے دیا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ حالاں کہ مسلم علماء کو کرنا یہ تھا کہ وہ اس ڈی لنکنگ کو ختم کردیں۔ وہ دنیا کو یہ بتائیں کہ سائنس جس مطالعے کو نیچر کا مطالعہ کہہ رہی ہے، وہ در اصل تخلیق کا مطالعہ ہے، اور تخلیق کا مطالعہ اپنے آپ تخلیق کے خالق کامطالعہ ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں اولو العلم سے مراددین کے علماء نہیں ہیں، بلکہ طبیعیاتی سائنس کے علماء ہیں۔اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا۔ اس کو سائنس کا دور (age of science) کہا جاتا ہے۔ اس دور میں خالص عقلی اصولوں کی روشنی میں مادی دنیا کا مطالعہ شروع ہوا۔ یہ مطالعہ تیزی سے بڑھا، یہاں تک کہ سائنس سب سے بڑا علمی شعبہ بن گیا۔ اس سائنسی مطالعے نے فطرت کے بہت سے وہ اسرار دریافت کیے، جو اب تک غیر دریافت شدہ حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ یہ دریافتیں تخلیقی دنیا سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس بنا پر ان کا تعلق براہ راست طور پرخالق کی معرفت سے تھا۔
سائنسی علوم کا مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی معرفت کا مطالعہ تھا۔ مگر سائنسدانوں نے اس مطالعے کو مکمل طور پر ایک سیکولر سبجکٹ کے طور پر کیا۔ تقریباً چار سو سال کے سائنسی مطالعے کے نتیجے میں جو سائنسی معلومات انسان کے علم میں آئی ہیں، وہ سب کی سب معرفت خداوندی کا دفتر ہیں۔ لیکن سائنسی دریافتوںکا یہ پہلو ابھی تک چھپا ہوا تھا۔ اس معاملے میں اب اہل اسلام کا رول یہ ہےکہ وہ اس کے ریفرنس(reference) کو بدلیں۔علوم فطرت کی جو دریافتیں اب تک سیکولر دریافتوں کی حیثیت سے سمجھی جاتی رہی ہیں، ان کو رب العالمین کی دریافت کا درجہ دے دیں۔ وہ سائنس کو اسلام کے علم کلام کی حیثیت سے لوگوں کے سامنےلائیں۔ان دریافتوں کی بنیاد پر وہ اسلام کا نیا علم کلام مدون کریں۔
سائنس سے معرفت تک
سائنس کیا ہے۔ سائنس در اصل ایک منظم علم کا نام ہے۔ سائنس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کا مطالعہ موضوعی طور پر ثابت شدہ اصولوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے:
Science: the systematized knowledge of nature and the physical world.
کائنات کی حقیقت کے بارے میں انسان ہمیشہ غور و فکر کرتا رہا ہے۔ سب سے پہلے روایتی عقائد کی روشنی میں ، اس کے بعد فلسفیانہ طرز فکر کی روشنی میں، اور پھر سائنس کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں۔سائنس کا موضوع کائنات (physical world) کا مطالعہ ہے۔ تقریبا چار سو سال کے مطالعے کے ذریعے سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے، وہ استنباط (inference) کے اصول پر خالق کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔ لیکن غالباً کسی سائنسداں نے کھلے طور پر خدا کے وجود کا اقرار نہیں کیا ہے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ البرٹ آئن سٹائن(1879-1955) کی طرح ان کا کیس کھلے طور پر خدا کے انکار (atheism)کا کیس نہیں ہے، بلکہ ان کا کیس لا ادری (agnosticism) کا کیس ہے۔
طبیعیاتی سائنس کے میدان میں پچھلی چار صدیوں میں تین انقلابی ڈیولپمنٹ پیش آئے ہیں۔ اول، برٹش سائنس داں نیوٹن کا مفروضہ کہ کائنات کی بنیادی تعمیر ی اینٹ مادہ ہے۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے آغاز میں جرمن سائنس داں آئن سٹائن کا یہ نظریہ سامنے آیا کہ کائنات کی تعمیری اینٹ توانائی ہے، اور اب آخر میں ہم امریکن سائنس داں ڈیوڈ بام کے نظریاتی دور میں ہیں، جب کہ سائنس دانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد یہ مان رہی ہے کہ کائنات کی بنیادی تعمیری اینٹ شعور ہے۔ یہ تبدیلیاں لازمی طور پر ایک نئے فلسفے کو جنم دیتی ہیں، جب کہ فلسفہ مادیت سے گزر کر روحانیت تک پہنچ گیا ہے:
In the realm of the physical science, we have had three major paradigm shifts in the last four centuries. First, we had the Newtonian hypothesis that matter was the basic building block of the universe. In the early twentieth century, this gave way to the Einsteinian paradigm of energy being the basic building block. And the latest is the David Bohm era when more and more scientists are accepting consciousness to be the basic building block. These shifts have had inevitable consequences for the New Age philosophy, which has moved away from the philosophy of crass materialism to that of spirituality.
وہ دور جس کو سائنسی دور کہا جاتا ہے، اس کا آغاز تقریبا سو سال پہلے مغربی یورپ میں ہوا۔ دھیرے دھیرے عمومی طور پر یہ تاثر بن گیا کہ سائنس حقیقت کو جاننے کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ جو بات سائنس سے ثابت ہوجائے، وہی حقیقت ہے، جو بات سائنسی اصولوں کے ذریعہ ثابت نہ ہو، وہ حقیقت بھی نہیں۔ابتدائی صدیوں میں سائنس خالص مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔ چوں کہ مذہبی حقیقتیں مادی معیار استدلال پر بظاہر ثابت نہیں ہوتی تھیں، اس لیے مذہبی حقیقتوں کو غیر علمی قرار دے دیا گیا۔ لیکن علم کا دریا مسلسل آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب کہ خود سائنس مادی علم کے بجائے عملاً غیر مادی علم کے ہم معنی بن گیا۔
پچھلی صدیوں کی علمی تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے ارتقا کے ذریعے پہلی بار استدلال کی ایسی علمی بنیاد وجود میں آئی جو عالمی طور پر مسلمہ علمی استدلال کی حیثیت رکھتی تھی، پھر اس میں مزید ارتقا ہوا، اور آخر کار سائنس ایک ایسا علم بن گیا جو مسلمہ عقلی بنیاد پر یہ ثابت کر رہا تھا کہ کائنات ایک بالاتر شعور کی کار فرمائی ہے۔ ایک سائنس داں نے کہا ہے — کائنات کا مادہ ایک ذہن ہے:
The stuff of the world is mind-stuff (Eddington)
مشہور سائنس داں ڈاکٹر اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے :
There is a “grand design” to the universe, but it has nothing to do with God. Science is coming close to “The Theory of Everything,” and when it does, we will know the grand design. (Catherine Giordano: Here’s Why Stephen Hawking Says There Is No God [www.owlcation.com])
وہ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں :
One can’t prove that God doesn’t exist, but science makes God unnecessary.
(www.en.wikipedia.org/wiki/The_Grand_Design_(book)
کوانٹم فزکس کے نظریے کو اگر اس معاملے پر منطبق کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے :
Probably, there is a God
یہ خالص سائنس کا موقف ہے۔ لیکن جہاں انسان کے وجدان (intuition) کا تعلق ہے۔ اس کی سطح پر خدا کا وجود اتنا ہی یقینی ہے، جتنا کہ انسا ن کا وجود۔
سائنس اور عقیدۂ خدا
1927 میں بلجیم کے ایک سائنس داں جارجز لیمٹری (Georges Lemaitre) نے بگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ پیش کیا۔اِس نظریے پر مزید تحقیق ہوتی رہی، یہاں تک کہ اِس کی حیثیت ایک مسلّمہ واقعہ کی ہوگئی۔ آخر کار 1965 میں بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن (background radiation) کی دریافت ہوئی۔ اِس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بالائی خلا میں لہر دار سطح (ripples) پائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی شکل میں ہونے والے انفجار کی باقیات ہیں۔ اِن لہروں کو دیکھ کر ایک امریکی سائنس داں جویل پرائمیک (Joel Primack) نے کہا تھا کہ — یہ لہریں خدا کے ہاتھ کی تحریر ہیں:
The ripples are no less than the handwriting of God.
جارج اسموٹ 1945 میں پیداہوا۔ وہ ایک امریکی سائنس داں ہے۔ اس نے 2006 میں فزکس کا نوبل پرائز حاصل کیا۔ یہ انعام اُن کو ’کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر، کے لیے کام کرنے پر دیاگیا۔ 1992 میں جارج اسموٹ نے یہ اعلان کیا کہ بالائی خلا میں لہردار سطحیںپائی جاتی ہیں۔ یہ بگ بینگ کی باقیات ہیں۔ اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کیا تھا — — یہ خدا کے چہرے کو دیکھنے کے مانند ہے:
George Fitzgerald Smoot III (born February 20, 1945) is an American astrophysicist and cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006 for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was "like seeing the face of God". (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000)
جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک عظیم ذہن (mind) کی کار فرمائی ہے۔ کائنات کے اندر جو معنویت ہے، جو منصوبہ بندی ہے، جو بے نقص ڈزائن ہے، وہ حیرت انگیز طور پر ایک اعلیٰ ذہن کے وجود کو بتاتا ہے۔ کائنات میں ان گنت چیزیں ہیں۔ لیکن ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر ہے۔ کائنات میں حسابی درستگی اتنے زیادہ اعلیٰ معیار پر پائی جاتی ہے کہ ایک سائنس داں نے کہا کہ کائنات ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind)کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے۔اس موضوع پر اب بہت زیادہ لٹریچر تیار ہوچکا ہے، جس کو انٹرنیٹ پر یا لائبریری میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن ہونے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا سولر سسٹم جس میں ہماری زمین واقع ہے، وہ ایک بڑی کہکشاں (galaxy)کا ایک حصہ ہے۔ لیکن ہمارا شمسی نظام کہکشاں کے بیچ میں نہیں ہے، بلکہ اس کے کنارے واقع ہے۔ اس بنا پر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم محفوظ طور پر زمین پر زندگی گزاریں، اور یہاں تہذیب (culture) کی تعمیر کریں:
The centre of the galaxy is a very dangerous place. Being in the outskirts of the galaxy, we can live safely from the hectic activities at the centre.
اس حکیمانہ واقعہ کا اشارہ قرآن میں موجود تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ اس کی تفصیلات معلوم ہوئیں، جو گویا قرآن کے اجمالی بیان کی تفسیر ہے۔جب علم کا دریا یہاں تک پہنچ جائے تو اس کے بعد صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ اس دریافت کردہ شعور یا اس ذہن کو مذہبی اصطلاح کے مطابق، خدا (God) کا نام دے دیا جائے۔
بے نقص کائنات
کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص (zero-defect)کائنات ہے۔قرآن میں کائنات کے اس پہلو کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےَ ۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: یعنی جس نے بنائے سات آسمان درجہ بدرجہ، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے (ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُور) ۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی (
قرآن کی اس آیت میں کائنات کوبے فطور (flawless) کہا گیا ہے ۔ جس وقت قرآن میں یہ آیت اتری، اس وقت انسان کو معلوم نہ تھا کہ کائنات ایک بے نقص کائنات ہے۔ انسان سورج چاند کو دیکھتا تھا، سمندروں اور پہاڑوں کو دیکھتا تھا۔ اس سے اس کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا تھا۔ اس سے کائنات کی پرستش (nature worship) کا تصور پیدا ہوا۔ خالق کا جو اصل مقصود تھا، وہ یہ تھا کہ انسان کائنات کے بے فطور (flawless) پہلو کو جانے ، اور اس طرح خالق کی قدرت کو دریافت کرے۔ مگر ہزاروں سال تک کائنات کا یہ پہلو غیردریافت شدہ بنا رہا۔
پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان سائنس کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، انھوں نے پہلی بار انسا ن کو بتایا کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔ کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔ اب سائنسداں عام طور پر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ حتی کہ اب یہ ایک باقاعدہ موضوع بن گیا ہے، جس پر بہت سی کتابیں اور رسالے شائع کیے جارہے ہیں۔
نیوٹن کے زمانے میں کائنات کو ایک میکینیکل کائنات کہا جاتا تھا۔ لیکن مزید ریسرچ سے یہ نظریہ غلط ثابت ہوگیا۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جو ریسرچ ہوئی ہے، اس سے اب یہ بات تقریباً واقعہ (fact) بن چکی ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننے کے بعد یہ معاملہ ایک لفظی مسئلہ بن جاتا ہے۔ کائنات کو ذہین کائنات ماننا دوسرے لفظوں میں یہ ماننا ہے کہ یہ کائنات ایک ذہین خالق کی تخلیق ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور مفہوم نہیں ہوسکتا۔ اس موضوع پر غالباً پہلی باقاعدہ کتاب فریڈ ہائل (Fred Hoyel) کی تھی، جس کا نام تھا ذہین کائنات:
The Intelligent Universe: A New View of Creation and Evolution (1983)
مگر اب ذہین ڈزائن کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں اورمقالے چھپ چکے ہیں۔ ان کتابوں اور مقالات کو کسی بڑی لائبریری میں یا انٹر نیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
کائنات کی توجیہہ
طبیعیات کے جدیدمطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً
یہ انوکھے واقعات کیسے پیش آئے۔ اتفاق (accident) جیسے الفاظ اس کی توجیہہ نہیں کرسکتے۔ یہ ایک بے حد بامعنی واقعہ تھا اور صرف ایک بامعنی توجیہہ (meaningful explanation) ہی اِس واقعے کی تشریح کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کی دریافتوں نے انسان کو معرفتِ الٰہی کے عین دروازے تک پہنچا دیا ہے۔ اب صرف اتنا ہی باقی ہے کہ لفظی طورپر اس کا اعتراف کرلیا جائے۔
Universe Origins: Giant Boost for Big Bang Theory
London: An international team of astrophysicists has discovered the signal left in the sky by the super-rapid expansion of space that would have occurred fractions of a second after everything came into being following the Big Bang. Announcing their finding over a global press call, scientists from Harvard Smithsonian Centre for Astrophysics said researchers from the BICEP2 (Background Imaging of Cosmic Extragalactic Polarization) collaboration have found this first direct evidence for this cosmic inflation, a theory pioneered by Prof Alan Guth among others. Almost 14 billion years ago the universe burst into existence in an extraordinary event that initiated the Big Bang, they said. It has been theorized that in the first fleeting fraction of a second the universe expanded exponentially in what is described as the first tremors of the Big Bang, stretching far beyond the view of our best telescopes. Their data also represents the first images of gravitational waves or ripples in space-time. The team analysed their data for more than three years in an effort to rule out any errors.They also considered whether dust in our galaxy could produce the observed pattern, but the data suggest this is highly unlikely. Harvard theorist Avi Loeb said this work offers new insights into some of our most basic questions: Why do we exist?? How did the universe begin??? These results not only offer strong evidence for inflation, they also tell us when inflation took place and how powerful the process was. These ground breaking results came from observations by the BICEP2 telescope of the cosmic microwave background a faint glow left over from the Big Bang. (The Times of India, New Delhi, March 19, 2014, p.
کائنات کی معنویت
سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے۔ فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کے پیچھے ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)کام کر رہا ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہہ بن جاتاہے۔
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات انسان کے لیےایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان جیسی مخلوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا آپس میں بے حد مربوط ہیں، اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی کوئی ہ ممکن نہیں۔
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں۔ سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن تخلیق کے مطالعے میں خالق (Creator) کا مطالعہ اپنے آپ شامل ہے، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا۔ سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کی دریافت کے ہم معنی بن گئیں، جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘ (signs of God) کہاگیا ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت عملاً ایک بامعنی خالق کے وجود کی دریافت ہے۔
Fine-Tuning in the Universe: "There is plenty of good scientific evidence that our universe began about 14 billion years ago, in a Big Bang of enormously high density and temperature, long before planets, stars and even atoms existed. But what came before [The physicist Lawrence ] Krauss in his book discusses the current thinking of physicists that our entire universe could have emerged from a jitter in the amorphous haze of the subatomic world called the quantum foam, in which energy and matter can materialize out of nothing. Krauss’s punch line is that we do not need God to create the universe. The quantum foam can do it quite nicely all on its own. Aczel asks the obvious question: But where did the quantum foam come from? Where did the quantum laws come from? Hasn’t Krauss simply passed the buck? Legitimate questions. But ones we will probably never be able to answer. "...[The fine-tuning problem] For the past 50 years or so, physicists have become more and more aware that various fundamental parameters of our universe appear to be fine-tuned to allow the emergence of life — not only life as we know it but life of any kind. For example, if the nuclear force were slightly stronger than it is, then all of the hydrogen atoms in the infant universe would have fused with other hydrogen atoms to make helium, and there would be no hydrogen left. No hydrogen means no water. On the other hand, if the nuclear force were substantially weaker than it is, then the complex atoms needed for biology could not hold together. In another, even more striking example, if the "cosmic dark energyـ", discovered by scientists 15 years ago, were a little denser than it actually is, our universe would have expanded so rapidly that matter could never have pulled itself together to form stars. And if the dark energy were a little smaller, the universe would have collapsed long before stars had time to form. Atoms are made in stars. Without stars there would be no atoms and no life. So, the question is: Why? Why do these parameters lie in the narrow range that allows life. (Book: ‘Why Science Does Not Disprove God’ by mathematician Amir D. Aczel, who is currently researcher in the history of science at Boston University. The above are excerpts taken from a review on the book by physicist Alan Lightman for The Washington Post, April 11, 2014)
انسان کی مسلسل حفاظت
قرآن میں انسان کے بارے میںایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قُلْ مَنْ یَکْلَؤُکُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُعْرِضُونَ (
سب سے پہلے زمین کی جسامت کولیجئے ،اگراس کاحجم کم یازیادہ ہوتاتواس پرزندگی محال ہوجاتی۔ مثلًاکرۂ زمین،اگرچاند اتناچھوٹاہوتا،یعنی اس کاقطرموجودہ قطرکی نسبت سے ایک چوتھائی
قرآن کی سائنسی تفسیر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں خود تخلیق کے اعتبار سے ایسی کھلی شہادت موجود ہیں، جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب کہ قرآن نازل ہوا، یہ آیت ایک پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر اب یہ آیت سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکی ہے۔ اس سائنسی دریافت کا معروف نام بگ بینگ (Big Bang) ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پہلی بار اس حقیقت کی دریافت ہوئی، اور پھر سائنسداں اس دریافت کی مزید تحقیق کرتے رہے، یہاں تک کہ اب بگ بینگ کا واقعہ سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔
اس دریافت کے مطابق، تقریبا تیرہ بلین سال پہلے خلا میں ایک بہت بڑا کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال میں وہ تمام پارٹکل (particle)موجود تھے، جن کے مجموعے سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس کاسمک بال میں ایک زبردست انفجار (explosion) ہوا۔ اس انفجار کے بعد ایک لمبی مدت کے دوران وہ پوری دنیا بنی، جس کو آج ہم کائنات کے نام سے جانتے ہیں۔بگ بینگ کا نظریہ اب ایک سائنسی واقعہ (scientific fact) کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس موضوع پر ہر انسائیکلوپیڈیا میں مواد موجود ہے۔ اس کے بارے میں بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں بطور مثال صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے:
Big Bang: The Origin of the Universe by Simon Singh (Harper Collins, 2005)
الہامی علم کی ضرورت
اللہ تعالی نے پیغمبروں کے ذریعہ انسان کی ہدایت کا ا نتظام کیا۔ پیغمبروں پر وحی آتی تھی، اور پھر وہ لوگوں کو اس علم سے واقف کراتے تھے۔ پیغمبرانہ رہنمائی کی ضرورت کیوں ہے۔ اس کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا تھا :وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا (
اس آیت میں روح سے مراد وحی ہے۔ اس آیت میں وحی کی ضرورت پر یہ دلیل دی گئی ہے کہ انسان کو تھوڑا علم دیا گیا ہے، وہ خود سے اپنی ہدایت کو دریافت نہیں کرسکتا۔ اس لیے وحی کے ذریعہ اس کو ہدایت نامہ بھیجا جاتا ہے، تاکہ وہ کامل رہنمائی کی روشنی میں دنیا میں اپنی زندگی گزار سکے۔ قرآن کا یہ بیان بظاہر صرف ایک بیان (statement) ہے۔ اس بیان کی عقلی تفسیر نزول قرآن کے وقت موجود نہ تھی۔ بعد کو جب سائنس کا علم وجود میں آیا، اور زندگی اور کائنات کے بارے میں سائنسی مطالعہ شروع ہوا تو ابتداء ًانسان نے سمجھا کہ اب ہمیں پیغمبرانہ ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اب انسان خود اپنے علوم کے ذریعہ اپنے لیےکامل رہنمائی کو دریافت کرسکتا ہے۔ یہی وہ ذہن تھا، جس کے تحت برٹش فلسفی جولین ہکسلے (Julian Huxley) نے ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone (1941)
مگر کئی سو سال کی تحقیق کے بعد خود سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا کہ سائنس کے ذریعہ انسان کے لیے کامل ہدایت نامہ دریافت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا:
The Limitations Of Science by J.W.N. Sullivan ( 1973)
اس کتاب میں مصنف نے تجزیہ کرکے بتایا ہے کہ سائنس کی محدودیت ہے۔ سائنس سچائی کا صرف جزئی علم دے سکتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
اس تجربے کے بعد اب انسان مجبور ہے کہ وہ پیغمبر کی اہمیت کو تسلیم کرے، اور یہ مانے کہ اس معاملے میںپیغمبر کے سوااس کے پاس کوئی اور بدل نہیں ہے۔
جنت انسان کا اصلی ہیبیٹاٹ (habitat)
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک ایسی دنیا کا طالب ہے، جہاں وہ پر امن (peaceful) انداز میں رہ سکے۔ انسان کی پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ ایک ایسی دنیا کی تلاش میں رہا ہے۔ لیکن عملاً وہ اس دنیا کو کبھی پا نہ سکا۔ موجودہ زمانے میں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوا کہ انسان مکمل تہذیب (civilization) کو وجود میں لائے۔ چناں چہ ساری کوششوں کے بعدیہ ممکن ہوگیا کہ انسان ایک کامل تہذیب کو وجود میں لائے۔ مگر جب یہ تہذیب عملاً بن چکی تو معلوم ہوا کہ وہ انسان کے لیے صرف ایک ناقص تہذیب ہے۔ قرآن کا یہ بیان تجرباتی سطح پر ایک ثابت شدہ واقعہ بن گیا :وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (
پہلے زمانے میں انسان صرف ضرورت (necessity) پر زندگی گزارتا تھا۔ پھر سہولت (comfort) کا دور آیا۔ اس کے بعد تہذیب نے لگزری (luxury) کے بے شمار سامان انسان کے لیے فراہم کردیے۔ لیکن کوئی بھی چیز انسان کے لیے ذہنی سکون (peace of mind) کا ذریعہ نہ بن سکا۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک آئڈیل دنیا (perfect world) کی تلاش میں ہے۔ مگر تجربے نے یہ بتایا کہ موجودہ دنیا کی محدودیت کی بنا پر یہاں کامل دنیا کی تعمیر ممکن نہیں۔ عام تصور کے مطابق، تہذیب کا یہ سفر ابھی جاری تھا۔ امریکا کے رائٹر الوین ٹافلر (Alvin Toffler) نے ایک کتاب چھاپی۔ اس کتاب کا ٹائٹل تھا:
Future Shock (1970)
اس کتاب میں انھوںنے یہ پیشین گوئی کی کہ انڈسٹریل ایج(industrial age)اب سپر انڈسٹریل ایج (super-industrial age)کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مستقبل میں ایک نئی ترقی یافتہ دنیا وجود میں آئے گی، جب کہ انسان کے لیے اس کی طلب کو حاصل کرنا ممکن ہوجائے۔ لیکن اس کے بعد ہی سائنسدانوں نے یہ دریافت کیا کہ موجودہ زمین اپنے کاؤنٹ ڈاؤن (countdown)کے آخری مرحلے میں پہنچ رہی ہے۔ا کیسویں صدی کے آخر تک موجودہ زمین انسان کے لیے قابل رہائش (habitable) نہیں رہے گی۔ اس دریافت کے بعد اب یہ ناممکن ہوگیا کہ زمین کی بنیاد پر کوئی جنت جیسی اعلیٰ دنیا تعمیر کی جاسکے۔
مشہور برطانی سائنسداں، اسٹیفن ہاکنگ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ اب انسان کو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اسپیس کالونی (space colony) بنانا چاہیے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تجویز ایک سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں۔
اسی طرح سائنس نے دریافت کیا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک کامل دنیا کا متلاشی ہے، لیکن موجودہ دنیا میں یہ کامل دنیا بننا ممکن نہیں۔ یہ دریافت بالواسطہ طور پر جنت جیسی ایک دنیا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ کیوں کہ جس دنیا میں ہر چیز اپنے فائنل ماڈل پر پائی جاتی ہو، وہاں جنت جیسی ایک دنیا کا ہونا، اپنے آپ میں ایک ثابت شدہ بات ہے۔ جنت اگر دکھائی نہیں دیتی تو اس کو نہ دکھائی دینے والی دنیا میں موجود ہونا چاہیے۔ جنت انسان کی طلب کا مطلوب ہے، اور کائنات کا مطالعہ جس بامعنی دنیا (meaningful world) کی نشاندہی کررہا ہے، اس میں علمی طور پر یہ ناممکن ہے کہ طلب تو پائی جائے، لیکن مطلوب موجود نہ ہو۔ یہ دریافت جنت کی موجودگی کا ایک استنباطی ثبوت (inferential proof) ہے۔
سائنس کا نظریاتی کنٹری بیوشن
اسلام کے لیے سائنس کا ایک کنٹری بیوشن وہ ہے جس کو نظریاتی کنٹری بیو شن کہا جاسکتا ہے۔ پچھلے تمام زمانوں میں قوموں کے اندر توہماتی طرز فکر کا رواج تھا۔ لوگوں کے اندر مبنی بر حقیقت سوچ موجود نہ تھی۔ توہماتی عقائد کے تحت لوگ طرح طرح کی بے بنیاد رائیں بنائے ہوئے تھے۔
اس کی ایک مثال گرہن کا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آسمان میں سورج گرہن یا چاند گرہن کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس معاملے میں لوگ توہماتی عقیدہ بنائے ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر اس قسم کا ایک واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آیا تھا۔ یہ سورج گرہن تھا، جو 10 ہجری میں پیش آیا تھا۔اسی تاریخ کو پیغمبر اسلام کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ قدیم زمانے میں یہ مانا جاتا تھا کہ گرہن اس وقت پڑتا ہے، جب زمین پر کوئی سنگین واقعہ پیش آئے۔ چناں چہ مدینہ کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چوں کہ آج پیغمبر کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے، اس لیے یہ گرہن پڑا ہے۔
پیغمبر اسلام کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مدینہ کی مسجد میں اکٹھا کرکے ایک خطبہ دیا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں(آیتان من آیات اللہ)، ان کو نہ کسی کی موت سے گرہن لگتا ہے، اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ کو یاد کرو (صحیح البخاری، حدیث نمبر
پیغمبر اسلام نے اپنے اس خطاب میں گرہن کو خدا کی ایک نشانی (sign of God) بتایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرہن کا واقعہ کسی زمینی حادثہ کی بنا پر پیش نہیں آتا۔ بلکہ وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے ابدی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی مطالعہ کے تحت متعین طو رپر یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گرہن کا واقعہ کیوں پیش آتا ہے:
An eclipse is a well-calculated alignment of three moving bodies of different sizes in the vast space at a particular point in time.
یہی معاملہ شرک کا ہے۔ شرک نام ہے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی پرستش کرنا۔ اسی کو انیمزم (animism) کہا جاتاہے۔ انیمزم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہےفوق الفطری طاقت میں یقین رکھنا جو مادی کائنات کو آرگنائز کرتے ہیںاور زندگی دیتے ہیں:
The belief in a supernatural power that organizes and animates the material universe.
شرک دراصل تمام تر توہمات پر مبنی ایک عقیدہ ہے۔ اسی فکرکے تحت قدیم دنیا میں فطرت کی پرستش (nature worship) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ فطرت کے تمام مظاہر انسان کے لیے پرستش کا موضوع (subject) بن گئے۔ مثلا سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت ،وغیرہ۔قدیم زمانے میں پوری دنیا میں شرک چھایا ہوا تھا۔ اسلام کا مشن یہ تھا کہ اس توہماتی عقیدہ کا غلبہ ختم کردیا جائے۔ اصولی طور پر اسلامی تحریک نے اس کو انجام دیا۔ اسلام نے اعلان کیا کہ اس قسم کا عقیدہ ایک بے بنیاد عقیدہ ہے۔یہاں تک کہ دنیا میں شرک کا عقیدہ علمی طورپر ایک بے بنیاد عقیدہ بن کر رہ گیا۔
اس معاملے میں سائنس کا کنٹری بیوشن بہت اہم تھا۔ سائنس کا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے مشاہداتی سطح (demonstrative level)پر ثابت کیا کہ یہ ایک غیر عقلی اور ایک بے اصل عقیدہ ہے۔ سائنس نے مشاہداتی سطح پر یہ ثابت کیا کہ پوری مادی دنیا ایٹم کا مجموعہ ہے، اور ایٹم کائنات کی مادی اکائی ہے۔ ایٹم نہ کوئی جاندار چیز ہے، اور نہ اس کے اندر کوئی فوق الفطری طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور انسان قدیم زمانے سے چاند کی پرستش کرتا تھا، کیوں کہ اس نے اس کو خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔ سائنس نے پہلے یہ ثابت کیا کہ چاند کوئی روشن کرہ نہیں، بلکہ وہ غیر روشن پتھروں کا ملبہ ہے۔ اس کی روشنی سورج کی روشنی کا ریفلیکشن ہے۔ یہ نظریہ 20 جولائی 1969 کو آخری طور پر بے بنیاد ثابت ہوگیا، جب کہ امریکی اسٹرانومر نیل آرم اسٹرانگ (1930-2012) خلائی سفر کرکے چاند کی سطح پر پہنچا، اور اس پر اپنا قدم رکھ دیا۔
20جولائی1969 کی رات کو راقم الحروف کو کسی وجہ سے ایک اخبار کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت خبریں آرہی تھیں کہ کس طرح انسان چاند کی سطح پر پہنچ گیا۔ میری ملاقات ایک نیوز ایڈیٹر سے ہوئی۔ انھوں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے نہایت جوش کے ساتھ کہا کہ تھریلنگ خبریں آرہی ہیں۔ میرے دماغ میں آیا کہ یہ تھریلنگ خبریں نہیں ہیں، بلکہ ایک عجیب حقیقت کے اعلان کی خبریں ہیں، وہ یہ کہ چاند کوئی دیوتا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بے جان مادہ ہے۔ یہ در اصل چاند کا خالق ہے جو چاند کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے ہے۔ آج شرک کا عقیدہ اصولی اعتبار سے آخری طور پر باطل ہو کر رہ گیا ہے۔
اہل ایمان، اہل تائید
پیغمبر اسلام کو اللہ نے اپنا آخری نبی (الاحزاب 40:)بنا کر بھیجا۔ نبی کی حیثیت سے آپ دنیا میں
پیغمبر اسلام کے بعد آپ کی تبلیغ کے تحت آپ کے اصحاب کی جماعت (ٹیم) بنی۔ پھر یہ مقدر کردیا گیا کہ اصحاب رسول کے بعد متبعین رسول ہر دور میں پیدا ہوں، اور وہ پیغمبر کی رہنمائی کو ہمیشہ تاریخ کے ہر دور میں جاری رکھیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اہل ایمان کہا جاتا ہے۔
یہ کام بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا کام تھا۔ اہل ایمان شاید اس کام کو تنہا انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے اللہ نے ان کے ساتھ اہل تائید کا گروہ کھڑا کردیا۔ یہ گروہ ہر دور میں اپنا تائیدی رول ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن بعد کے زمانہ میں تائید کا یہ کام بہت زیادہ بڑا بننے والا تھا۔ تائید کا یہ کام درحقیقت اہل ایمان کو مادی بنیاد فراہم کرنے کے ہم معنی تھا۔ اہل ایمان شاید اپنی آخرت پسندی کی بنا پر اس مادی بنیاد کو بطور خود بنانے کے قابل نہ تھے۔ اس لیے بعد کے دور میں تائید کے اس کام کے لیے زیادہ بڑے درجے کا اہتمام کیا گیا۔ اہل ایمان کے لیے دوسروں کی طرف سے یہی تائید کا معاملہ تھا، جس کو پیغمبر نے پیشگی طور پر بتا دیا تھا۔ پیشین گوئی کی یہ روایات حدیث کی اکثر کتابوں میں مستند طور پر موجود ہیں۔
اہل ایمان کے لیے دوسروں کی تائید کا یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے اللہ نے پوری تاریخ کو مینج (manage) کیا۔
قوانین فطرت کی دریافت کے میدان میں اہل مغرب مکمل طور پر کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار ترقی کا نیا دور پیدا کردیا، جس کو مغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔اپنی ان کامیابیوں کے ذریعہ اہل مغرب فطری طور پرپوری دنیا کے قائد (leader) بن گئے۔ سیاسی معنوں میں نہیں، بلکہ غیر سیاسی معنوں میں۔ اہل مغرب کی ترقی مذہبی ترقی نہیں تھی، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے سیکولر ترقی تھی۔ اس ترقی میں فطری طور پر ہر قوم کو حصہ ملا، اور اہل ایمان کو بھی۔ اس طرح ایسا ہوا کہ اہل ایمان کو کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر اہل مغرب کی سیکولر تائید (secular support) مل گئی۔ اس طرح اہل ایمان اس قابل ہوگئے کہ وہ دور جدید میں پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو دوبارہ غیر سیاسی طور پر قائم کرسکیں، جس کو وہ پچھلی تاریخ میں سیاسی طور پر قائم کیے ہوئے تھے۔
اہل مغرب کی یہ سیکولر تہذیب بھی تاریخ کا وہ انقلابی واقعہ ہے جس کو حدیث میں غیر اقوام کے ذریعہ اہل اسلام کی تائید (support) قرار دیا گیا ہے(المعجم الکبیر، حدیث نمبر 4640)۔ اہل مغرب نے پیغمبر اسلام کے دین کی تائید میں جو کارنامے انجام دیے، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی فہرست بنانا مشکل ہے۔ مثلاً اہل مغرب کے ذریعہ لائے ہوئے انقلاب کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ اہل اسلام کو عالمی مواصلات (global communication) کا عظیم تحفہ ملا۔
اہل مغرب نے ہوائی جہاز رانی (aviation) کا عالمی نظام قائم کرکے اسلامی دعوت کو ایک نئے دور میں پہنچادیا۔ اہل مغرب نے عرب دنیا کے نیچے موجود پٹرول کو دریافت کیا، اور پھر اس کو کمرشیلائز کرکے اہل اسلام کو ایک نئی طاقتور معاشی بنیاد فراہم کردی۔ اہل مغرب نے پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ کے تجربات کے بعد اقوام متحدہ (UNO) قائم کیا، جس کے ذریعہ پہلی بار ایسا ہوا کہ عالمی امن کے تصور نے یونیورسل نارم (universal norm) کی حیثیت اختیار کرلی۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بارجمہوریت (democracy) کا نظام قائم کیا، جس نے تاریخ میں پہلی بار پولٹیکل پاور اور مواقع (opportunities) کو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اب پولیٹکل رولر کے پاس صرف ایڈمنسٹریشن کا شعبہ رہ گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام شعبے ہر انسان کے لیے آزادانہ طور پر کھل گیے۔ اس طرح اہل اسلام کو موقع مل گیا کہ وہ بلاروک ٹوک دینِ خداوندی کی اشاعت کی عالمی منصوبہ بندی کرسکیں۔ وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ اپنا نان پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کرسکیں۔
اہل مغرب نے تاریخ میں پہلی بار پرنٹنگ پریس کا پورا نظام قائم کیا، جو اسلامی مشن کے لیے عین مطلوب حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ قرآن کے لیے سارے عالم کے لیے نذیر ہے(الفرقان1:)۔ مگر اس نشانہ کو قابل حصول نشانہ اہل مغرب نے اپنی تہذیب (civilization) کے ذریعہ بنایا۔ قرآن میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے اظہار کو تبیین حق کا سب سے بڑا واقعہ بتایا گیا تھا (فصلت
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے : الحکمة ضالة المؤمن، حیثما وجد المؤمن ضالتہ فلیجمعہا إلیہ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر
مغربی اقوام، دوست اقوام
نزول قرآن کے زمانے میں انسانی تاریخ جس مرحلے میں تھی، اس کے لحاظ سے اہل ایمان کو یہ فارمولا بتایا گیا کہ اگر کوئی بظاہرتم کو دشمن نظر آئے تو اس کے ساتھ تم ردعمل کا سلوک نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر حسن سلوک کا طریقہ اختیار کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن تمھارا دوست بن جائے گا(فصلت
مغربی اقوام نے غیر معمولی کوشش کے ذریعہ جو مادی تہذیب برپا کی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے پوری طرح مؤید اسلام تہذیب ہے۔ مغربی اقوام کا مؤید اسلام ہونا، عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اس امکان کو جانیں، اور اس کو اویل (avail) کریں۔
اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تمثیل کے ذریعہ حقیقتوں کو واضح کرتا ہے (البقرۃ
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) سے پہلے جاپان میں امریکوفوبیا (Americophobia) کا غلبہ تھا۔ جاپانی قوم بطور خود امریکا کو اپنا دشمن سمجھتی تھی۔ جاپان کا امریکی فوبیا اتنا بڑھا کہ غالباً تاریخ میں پہلی بار جاپانی نوجوانوں نے امریکا کے خلاف خود کش بمباری کا طریقہ اختیار کیا۔ انھوں نے 1941 میں امریکا کے بحری اڈہ (پرل ہاربر) کو خود کش بمباری کے ذریعہ تباہ کردیا۔ اس کے بعد امریکا میں انتقامی جذبہ بھڑکا۔ انھوں نے 1945 میں جاپان کے دو شہروں(ہیروشیما، ناگاساکی) پر ایٹم بم گرائے۔ یہ اتنا شدید حملہ تھا کہ اس کے بعد جاپان کے لیے لڑائی کا آپشن (option) باقی نہ رہا۔
تاہم مختلف اسباب کے تحت جاپانی قوم نے اپنے آپ کو منفی رد عمل (reaction) سے بچایا۔انھوں نے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچا تو وہ اس دریافت تک پہنچے کہ امریکا نہ کسی کا دشمن ہے، نہ کسی کا دوست۔ امریکا کا فارمولاصرف ایک ہے، اور وہ اس کا سیلف انٹرسٹ ہے۔ چناں چہ امریکا میں کہا جاتا ہے:
The business of America is business
چناں چہ جاپان نے یہ فیصلہ کیا کہ امریکا کو اپنا دوست ملک بنالیں تو امریکا بھی ہمیں اپنا دوست ملک بنالے گا۔ اس کے بعد جاپان نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے امریکا سے نزاع کی پالیسی کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا۔ اس پالیسی نے جاپان کو یہ موقع دیا کہ وہ امریکا کے سپورٹ سے اپنی قومی ترقی کا سفر نہایت تیزی کے ساتھ جاری کرسکے۔ یہ پالیسی کامیاب رہی۔ یہاں تک کہ
یہ تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) اہل اسلام کی رہنمائی کے لیے ابھرا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ذہن کو مکمل طور پر ختم کردیں۔ وہ دل سے مغرب کو اپنا دوست قرار دیں۔ اگر مسلمان ایسا کرسکیں تو بہت جلد دنیا یہ واقعہ دیکھے گی کہ مسلمان دیگر اقوام کی تائید سے دنیا کے نقشے پر ایک نئی قوم بن کر ابھری ہے، جنگجو قوم نہیں بلکہ پرامن قوم کی حیثیت سے۔ پھر وہ واقعہ عالمی سطح پر پیش آئے گا، جس کا تاریخ کو لمبی مدت سے انتظار ہے۔ یعنی وہ واقعہ جس کی پیشین گوئی ساتویں صدی کے ربع اول میں قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی تھی:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (
ملت مسلمہ کی غفلت
سائنس (physical science) اپنی حقیقت کے اعتبار سے گویا اسلام کا علم کلام تھا۔ یہ اسلامی علم کلام کو قیاسی فلسفہ کے بجائے برہانیات پر قائم کرنا تھا، یعنی دلائل عقلیہ کی بنیاد پر۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ سائنس کو سیکولر گروہ نے ہائی جیک کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مسلمان اپنی منفی سوچ کی بنا پر سائنس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ وہ انتہائی بے بنیاد طور پر مغرب کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ یہاں تک کہ سائنس کے بھی۔ اگر مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بر وقت اپنا رول ادا کرتا تو سائنس ربانی حقیقتوں کی دریافت کا علم بن جاتا۔ مگر مسلمانوں کی کوتاہی کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
اس معاملے میں ایک واقعہ یہاں بطور مثال نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ عنایت اللہ خاں مشرقی (1888-1963) نے بیان کیا ہے۔ عنایت اللہ خان مشرقی اعلیٰ تعلیم کے لیےانگلینڈ گئے تھے۔ وہاں انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میںتعلیم حاصل کی۔ جس زمانے میں وہ وہاں تھے، اس وقت سر جیمز جینس کیمبرج یونیورسٹی میں اپلائڈ ریاضیات ( applied mathematics) کے پروفیسر تھے۔ عنایت اللہ خاں مشرقی نے سر جیمز جینس کے ساتھ اپنے طالب علمی کے زمانے کے ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میںکیا ہے:
’’1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس(James Jeans) پرنظرپڑی جوبغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے، ’’تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھاہے،سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیںعبادت کے لئے جارہاہے ،یہ کیا؟میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لئے رک گئے اورپھرمیری طرف متوجہ ہوکرفرمایا’’آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘چنانچہ میںشام کو ان کی رہائش گاہ پہنچاٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں’’سرجیمزتمہارے منتظر ہیں‘‘ اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی،پروفیسرصاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے ،کہنے لگے’’تمہاراسوال کیاتھا‘‘ اورمیرے جواب کاانتظارکئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیزنظام، بے انتہا پہنائیوں اورفاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیزباہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲکی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں ،اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے ،اورآوازلرزرہی تھی، فرمانے لگے ’’عنایت اﷲ خاں!جب میںخداکے تخلیقی کارناموں پرنظرڈالتاہوں تومیری تمام ہستی کاہرذرہ میراہم نوابن جاتاہے ،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے،کہوعنایت اﷲ خاں!تمہاری سمجھ میںآیاکہ میں گرجے کیوں جاتاہوں۔‘‘
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا َیں نے کہا’’جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں ، فرمایا ’’ضرور‘‘ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ (
یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے:’’کیاکہا،اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز،بہت عجیب، یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی،محمد کوکس نے بتائی،کیاقرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ،محمد ان پڑھ تھا ،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہوسکتی ، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی،بہت خوب ،بہت عجیب۔ (نقوش شخصیات نمبر،صفحات9۔1208)
اصل یہ ہے کہ سائنسی علوم کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences ) کہا جاتا ہے۔اس لیے کہ سائنسی علوم تمام تر ریاضیات (mathematics) پر مبنی ہوتے ہیں۔ یورپ میں جب سائنسی علوم پھیلے تو اس کے نتیجے میں اہل یورپ کے درمیان مبنی بر واقعیت سوچ (exact thinking) پیدا ہوئی۔ یہ طرز فکر اسلام اور قرآن کے عین موافق تھا۔ اس طرز فکر کی بنا پر اہل یورپ اسلام اور قرآن کی دعوت کے لیے بہترین مدعو بن گئے۔ اس وقت اگر اہل یورپ کو اسلام اور قرآن کی دعوت پہنچائی جاتی تو یقینی طور پر وہ اسلام اور قرآن کے لیے نہایت مثبت جواب (positive response) دیتے۔ مثالیں بتاتی ہیں کہ یورپ کے بہت سے افراد نے اس قسم کا رسپانس دیا۔ مگر عین اسی زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان نفرت مغرب کی نفسیات میں مبتلا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں وہ اس دعوتی امکان کو اویل کرنے کےلیے ناکام ثابت ہوگئے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو مغربی سائنس بلاشبہ اسلام کے لیے ایک تائیدی سائنس (supporting science) بن جاتا۔
اسی قسم کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بیا ن کیا ہے۔ انھوں نے یہ واقعہ مضامین رشید میں نقل کیا ہے:
18 ءیا 19ء کا واقعہ ہے۔ یونین میں ام الالسنہ عربی پر خواجہ کمال الدین (1870-1932) کی اردو میںتقریر تھی۔ انھوں نے بڑی قابلیت اور اعتماد کے ساتھ تقریر شروع کی۔ مولانا سہیل کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ سردیوں کا زمانہ تھا، مولانا کو احباب اسپتال لائے تھے۔ یونین میں مجمع دیکھا تو کہا مولانا تکلیف نہ ہو تو ذرا تقریرسنتے چلیں۔ مولانا نے کہا اچھی بات ہے، لیکن آنکھوں میں تکلیف زیادہ ہے، جلد اٹھ آئیں گے۔ سب لوگ یونین میں آئے۔ مولانا سر سے پاؤں تک بڑے وزنی لبادے میں ملفوف تھے، سر پر اونی کنٹوپ تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اور اس پر ہرے رنگ کا چھجا (شیڈ) لگا ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش دو گھنٹے تک تقریر کی۔ حاضرین محو حیرت تھے۔ تقریر ختم ہوئی تو وائس پریسیڈنٹ نے اعلان کیا کہ مولانا سہیل، فاضل مقرر کا طلبائے کالج کی طرف سے شکریہ ادا کریں گے۔ مولانا کے خلاف سازش کامیاب ہوئی۔ دوستوں اور ساتھیوں نے مولانا کو ہاتھوں ہاتھ ڈائس پر پہنچادیا۔ مولانا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، میز کے پاس کھڑے کیے گئے۔ تھوڑی سی ناک، اس سے ذرا بڑی اور ہاتھ کی صرف انگلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ مولانا نے بےتکلف تقریر شروع کردی، اس اعتماد سے گویا تمام عمر اسی مبحث پر تیاری کی تھی۔ جو لوگ یونین کے مجمع سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ اچھے مقرر کے بعد کسی اور کی تقریر سننے کے لیے کوئی نہیں ٹھیرتا، اور صدر کا شکریہ بھی اسی بدنظمی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ مولانا نے بھی ام الالسنہ عربی پر تقریر شروع کی۔ پون گھنٹہ تک تقریر کی، نئے نئے پہلوؤں سے موضوع پر روشنی ڈالی، نئی نئی مثالیں پیش کیں۔ تقریر اس درجہ دلنشیں اور کہیں کہیں اتنا شگفتہ بنادیا کہ خواجہ صاحب نے بے اختیار ہو کر مولانا کو گلے لگا لیا، اور فرمایا تمھارے ایسا جامع کمالات ساتھ کام کرنے والا مل جائے تو اسلام کا جھنڈا یورپ کی سب سے بلند چوٹی پر نصب کردوں۔ (مضامین رشید،علی گڑھ،1964 صفحہ
مولانا اقبال احمد سہیل (1884-1955) اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ لیکن اس زمانے کے دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی انگریز سے اور یورپ سے نفرت کرتے تھے۔ ان کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ اس بنا پر وہ خواجہ کمال الدین کی پیش کش کی اہمیت کو سمجھ نہ سکے۔ تعلیم کے بعد وہ علی گڑھ سے اعظم گڑھ چلے گئے، اور وہاں ضلع کی عدالت میں پریکٹس کرنے لگے۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔
امت کا انقلابی رول
قدیم زمانے میں امت محمدی کا رول یہ تھا کہ وہ دنیا سے شرک کاخاتمہ کرے۔ شرک یعنی بت پرستی کا خاتمہ کس اعتبار سے مطلوب تھا۔ بت پرستی کے کلچرکےاعتبار سے نہیں ،بلکہ اس کی فکری اساس (intellectual base) کے اعتبار سے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال کے نتیجے میں لوگوں نے یہ تصور قائم کرلیا تھا کہ نیچر (مظاہر فطرت) کے اندر خدائی صفات (divinity) موجود ہے۔ یہی شرک کی فکری اساس تھی۔ قرآن ایک توحید کی کتاب ہے، جو شرک کے تصور کا بے بنیاد ہونا ثابت کرتا ہے۔ امت محمدی نے قرآن کی مدد سے یہ کیا کہ نیچر اور خدائی، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ (detach) کردیا۔ اس کے بعد افکار کی دنیا میں رکاوٹ کا خاتمہ ہوگیا، اور پھر فطری طور پر ہر قسم کی ترقیوں کا دروازہ کھل گیا۔
اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں۔ تقریباً پانچ سو سال کے عمل کےدوران ایک نئی فکری گمراہی وجود میں آئی ہے، یعنی الحادی فکر کا ظاہرہ۔ موجودہ زمانے میں مغرب کی قیادت میں سائنس کا علم وجود میں آیا، یعنی نیچر (فطرت) کے مطالعے کا علم۔ اس کے نتیجے میں وہ قوانین دریافت ہوئے جو نیچر میں ابتدائے تخلیق سے چھپے ہوئے تھے۔ پھرانسان کو ٹکنالوجی (technology) کا علم ہوا، جس سے پانچ سو سال پہلے کا انسان بالکل بے خبر تھا۔
سائنسی علم کیا ہے۔ یہ تخلیق (creation) میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ سائنس کے آغاز میں ایسے اسباب پیش آئے کہ انسان نے دوبارہ ایک غلطی کی۔ اس نے فکری طور پر خالق کو تخلیق سے الگ کردیا۔ انسان نے تخلیق (creation)کا نہایت وسیع مطالعہ کیا۔ لیکن یہ سارا مطالعہ خالق کے حوالےکے بغیر تھا۔ اس کے نتیجے میں علم کی دنیا میں ایک نئی برائی پیدا ہوئی، اور وہ تھی خالق (Creator) کو تخلیق (creation) سے الگ (detach) کردینا۔ اب امت محمدی کے اہل علم حضرات کا یہ کام ہے کہ وہ اس غلطی کی تصحیح کریں۔ وہ دنیا کو بتائیں کہ تخلیق کوئی الگ چیز نہیں ہے، وہ خالق کےتخلیقی عمل کا نتیجہ ہے۔
یہ ایک اہم تاریخی رول ہے، جو موجودہ زمانے میں مذہبی طبقے کے لیے مقدر ہے۔ مسیحی اہل علم نے اس عمل کا آغاز کردیا ہے۔ مسیحی اہل علم نے اس موضوع پر بڑی تعدادمیں کتابیں اور مقالے تیار کرکے شائع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم کتاب وہ ہے، جو سائنس کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چالیس امریکن سائنس دانوں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ وہ کتاب یہ ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe, edited by John Clover Monsma (G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
دوبارہ امت محمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس فتنۂ الحاد کی فکری اساس کو بے بنیاد ثابت کریں۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قرآن کے ذریعہ اس فتنۂ الحاد کا خاتمہ کریں، جیسا کہ اس سے پہلے انھوں نے قرآن کی مدد سے فتنۂ شرک کا خاتمہ کیا تھا۔ اس معاملے میں ان کو مسیحی اہل علم کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انھوں نے اس موضوع پر بقدر ضرورت ابتدائی کام انجام دے دیا ہے۔ اب امت محمدی کا کام یہ ہے کہ وہ اس کام کو تکمیل تک پہنچائے، اور اسی کے ساتھ ہر زبان میں قرآن کے ترجمہ کو تیار کرکے تمام انسانوں کے لیے اس کی رسائی ممکن بنادے۔
شہادت اعظم
حدیث رسول کے مطابق، تاریخ کے آخری دور میں امت مسلمہ کا ایک فائنل رول ہوگا، جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیا ہے،یعنی مبنی بر حجت دعوت حق کی ادائیگی۔ غالباً یہ شہادت اعظم وہی چیز ہے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت
حجت (evidence) کیا ہے۔ حجت ہونا اس بات سے متعین ہوتا ہے کہ اس کا دلیل ہونا فریق ثانی کے نزدیک ثابت شدہ ہو۔ جو حجت فریق ثانی کے نزدیک مسلّم نہ ہو، وہ فریقین کے درمیان دلیل نہیں بن سکتی۔ دعوت کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانوں میں دعوت کے حق میں جو دلائل دیے گیے، وہ عملاً یک طرفہ تھے۔ یعنی داعی کے نزدیک وہ مسلّم تھے، لیکن مدعو کے نزدیک وہ مسلّم نہ تھے۔
بعد کے زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ دعوت کے حق میں ایک ایسی دلیل استعمال کی جائے جو داعی اور مدعو دونوں کے درمیان یکساں طور پر مسلّم ہو۔ مثلاً سائنٹفک دور سے پہلے جب داعی یہ کہتا تھا کہ رب السموات والارض صرف ایک ہے۔ تو یہ ایک یک طرفہ بیان ہوتا تھا۔ دوسرے فریق کے لیے موقع تھا کہ چاہے وہ اس بیان کو مانے یا نہ مانے۔ مگر آج یہ بیان کہ رب السموات والارض یک طرفہ عقیدہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ طور پر ثابت شدہ یونیورسل فیکٹ کی بات ہے۔ آج سائنٹفک مطالعے نے یہ بتایا ہے کہ پوری یونیورس ایک ہی قانون کے تحت عمل کررہی ہے۔ اس کو ایک سائنسداں نے واحد ڈور کا نظریہ (single-string theory) کہا ہے۔
یہی وہ منصوبۂ الٰہی ہے جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (
اس طرح تاریخ میں پہلی بار فطرت کی ایسی عالمی حقیقتیں دریافت ہوئیں ، جو ہر انسان کے لیے ناقابل انکار بن گئیں۔ اس بنا پر پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دوطرفہ مسلّمات کی بنیاد پر لوگوں کو حق کا پیغام دیا جائے۔اس طرح کی سائنسی دریافتوں کے نتیجے میں اب علمی اعتبار سے انسان کے لیے صرف توحید کا آپشن باقی رہا ہے۔ شرک یا انکار خدا کا آپشن اب انسان کے لیے موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے ہیومنزم (humanism) کے آپشن کا دعوی کیا ہے، جس کا مطلب ہے:
The transfer of seat from God to man
مگر یہ صرف ایک دعوی ہے، جس کے پیچھے کوئی علمی دلیل موجود نہیں۔ برٹش فلسفی جولین ہکسلے اسی قسم کے مدعیوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، جس کا ٹائٹل ہے:
Man Stands Alone by Julian Huxley (Harper, 1941, pp.
اس کتاب کا موضوع اس کے ٹائٹل سے ظاہر ہے۔ اس کتاب کے جواب میں ایک امریکی سائنٹسٹ نے ایک مدلل کتاب تیار کرکے شائع کی۔ وہ کتاب یہ ہے:
Man Does Not Stand Alone by Abraham Cressy Morrison (Fleming H. Revell Company, 1944, pp.
حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن سائنس نے خالص دلیل کی سطح پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے، اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں فریق بننے کو تیار نہیں۔ سائنٹفک کمیونٹی اس معاملے میں ان ڈفرنٹ (indifferent) رہنا چاہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ناسا کے ایک سائنسداں کو اس وجہ سے جاب سے نکال دیا گیا کہ وہ کائنات میں انٹلیجنٹ ڈیزائن کو مانتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ زندگی اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کو نظریہ ارتقا سے حل نہیں کیا جاسکتا:
Nasa of America sued by scientist 'sacked for belief in intelligent design': Life is too complex to have developed through evolution alone. (www.telegraph.co.uk. [accessed: 25.01.2018])
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے بارے میں جو سائنٹفک دریافتیں ہوئی ہیں، انھوںنے حقیقت خداوندی کو اب ایک ثابت شدہ واقعہ بنا دیا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ کوئی ان حقائق کو لے کر کھڑا ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ رول صرف اور صرف امت مسلمہ کے لیے مقدر ہے، جس کو قرآن میں امت وسط کہا گیا ہے(البقرۃ
٭ ٭ ٭٭ ٭ ٭
اسلام اصلاً ایک آئڈیا لوجی کا نام ہے۔ جب دلائل کی تائید اسلام کے حق میں ہو، تو اسلام کو غالب سمجھا جائے گا۔ دلائل کی یہ تائید پہلے بھی اسلام کے حق میں تھی، اور اب سائنسی حقائق کے ظہور کے بعد مزید اضافے کے ساتھ دلائل کی یہ تائید اسلام کو حاصل ہوچکی ہے۔اب جو سوال ہے، وہ صرف مسلمانوں کی اپنی ذمے داری کا ہے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.