زوج یا ہیبیٹاٹ
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (
We have created everything in pairs so that perhaps you may take heed.
قرآن کی اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے، جوتذکُّر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت لینا۔ اس سے واضح ہے کہ اس آیت کا خطاب انسان سے ہے۔ وہ انسان سے کہہ رہی ہے کہ تم تخلیق پر غور کرو، اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زوج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب کے لیے یہاں ان کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔ مثلاً گردش کرتے ہوئے ستاروں کے لیے وسیع خلا (vast space)، نباتات کے لیے موافق زمین (soil)، حیوانات کے لیے جنگل ، مچھلیکے لیے پانی، وغیرہ۔ اس طرح کائنات میںموجود ہر مخلوق کے لیے اس کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔
مگر یہاں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ، اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ انسان کو ایسی دنیا ملی ہے، جہاں وہ زندہ رہ سکے، لیکن انسان کو ایسی دنیا حاصل نہیں جہاں اس کے لیے ہر اعتبار سے فل فِل مینٹ (fulfilment) کا سامان موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماہیٔ بے آب (fish without water)کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔ اس کو کبھی اپنے وجود کا زوج (habitat) حاصل نہیں ہوتا۔ انسان اس فرق پر غور کرے تو وہ جنت کو دریافت کرے گا، اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح کرے گا جو اس کو جنت کی منزل تک پہنچانے والا ہو۔ جنت کی دریافت تخلیق کی حکمت کی دریافت ہے۔یہی مطلب ہےقرآن کی اس آیت کا کہ فَفِرُّوا إِلَى اللَّہِ (
واپس اوپر جائیں
قرآن و حدیث میں کئی ایسی آیتیں اور حدیثیں ہیں جو بندوں کے لیے امید کا سر چشمہ ہیں۔ ان میں سےچند حوالے یہ ہیں۔ اس قسم کی ایک آیت قرآن میں یہ ہے :قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
اس آیت کے بارے میں علی ابن ابی طالب کہتے ہیں: ما فی القرآن آیة أوسع من ہذہ الآیة۔ یعنی قرآن میں اس سےزیادہ گنجائش والی کوئی اور آیت نہیں ۔عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں: ہذہ أرجى آیة فی القرآن ۔یعنی یہ قرآن کی سب سے زیادہ امید والی آیت ہے۔ عبد اللہ ابن عباس ایک اور آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ قرآن میں سب سے زیادہ امید والی آیت (أرجى آیة فی القرآن) ہے۔ وہ آیت یہ ہے: وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَى ظُلْمِہِمْ(
اس مضمون کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة رضی اللہ عنہ، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے جب مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نےاپنی کتاب میں لکھا۔ یہ کتاب اللہ کے پاس عرش کے اوپر ہے۔(اس میں اللہ نے یہ لکھا ہے) :میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔
اس طرح کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں، جن سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت رحم و درگزر کا معاملہ کرنے والا ہے۔ یہ بات اللہ رب العالمین کی شان کے مطابق ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس لیے اللہ کی شان رحمت کا تقاضا تھا کہ انسان کے ساتھ وہ زیادہ سے زیادہ عفو ودرگزر کا معاملہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک جو چیز سب سے زیادہ ناقابل معافی ہے، وہ سرکشی ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: لا یدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر (صحیح مسلم، حدیث نمبر
اصل یہ ہے کہ جب ایک شخص کے اندر تواضع (modesty) پائی جائےتو غلطی کرنے کے بعد وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ عجز سے بھری ہوئی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں انکساری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ برتری کے جذبے سے مکمل طور پر خالی ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ ایک نئی شخصیت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ پورے معنوں میں ایک مزکّی انسان بن جاتا ہے۔ یہ تبدیلی جو اس کی شخصیت کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہی در اصل وہ چیز ہے، جو اس کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ اس سے عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے، اس کو جنت میں داخلہ دیا جائے۔
جنت اس کے لیے ہے جو جنتی کردار والی شخصیت لے کر آخرت میں پہنچے۔ جنت سے محرومی اور جنت کا ملنا ، دونوں کا تعلق کردار (character)سے ہے۔یہی وہ اصل چیز ہے جو کسی انسان کےلیے آخرت میں کامیابی یا ناکامی کا سبب ہے۔ جنت سے محرومی بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہوگی، اور جنت کا پانا بھی معلوم اسباب کی بنا پر ہے ۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت سنن ابی داؤد (کتاب الجہاد) اور مسند امام احمد میںآئی ہے۔ البخاری کے الفاظ یہ ہیں:عجِب اللہ من قوم یدخلون الجنة فی السلاسل(صحیح البخاری، حدیث نمبر3010) ۔یعنی اللہ ان پر متعجب ہوتا ہے جو جنت میں زنجیروں میں (بندھے ہوئے) داخل ہوں گے۔ بعض دوسری روایتوں میں یقادوناور یساقون کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی وہ کھینچتے ہوئے اور ہانکتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔
اس حدیث میں کچھ اہل ایمان کے ساتھ جس معاملہ کا ذکر ہے وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ یہاں زنجیر کا لفظ دراصل مجبور کن حالات (compulsive situation) کی تعبیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ایسے مجبورانہ حالات پیش آئیں گے کہ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ رہے گا کہ وہ خدا پرستی اور آخرت پسندی کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح گویا بندھے بندھے جنت میں پہنچ جائیں۔
یہ خوش قسمتی اُن افراد کے حصہ میں آئے گی جن کے دل میں اخلاص اور حسن نیت کی چنگاری موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے دل میں اس قسم کی استعداد دیکھے گا اُن کی قدر افزائی اس طرح کرے گا کہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کردے گا جو اُنہیں طوعاً و کرہاً خدا پرستانہ اعمال کی طرف لے جانے والے ہوں۔مصیبت کا جنتی زنجیر بن جانا اُس شخص کے حصہ میںآتا ہے جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبت کے وقت اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مصیبت جس کے دل کو اس طرح نرم کرے کہ وہ اللہ کی یاد کرنے والا بن جائے— مصیبت اگر لوگوں کے اندر فریاد اورشکایت کا ذہن بنائے تو مصیبت صرف تباہی ہے،اور اگر مصیبت لوگوں کے اندر محاسبۂ خویش کاذہن پیدا کرے تو وہ اُن کے لیے رحمت کا سبب بن جائے گی۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ایک ان الفاظ میںآئی ہے: ما أمرت بتشیید المساجد۔ قال ابن عباس: لتزخرفنہا کما زخرفت الیہود والنصارى (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر
یہ پیشین گوئی موجودہ زمانہ میں ایک واقعہ بن چکی ہے، اورہر ملک میںاس کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں بھی کچھ مسلمان آبادہیں وہاں عالی شان مسجدیں بنائی جارہی ہیں۔ کہیں قصر نما، کہیں قلعہ نما، اور کہیں تاج محل نما۔ شاندار مساجد تعمیر کرنے کا یہ کام امریکہ اور یورپ میں مزید اضافہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں وہاں زیادہ بہتر ٹکنیکی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ عالیشان مسجدیں بنانے کو اسلام میںکیوں ناپسند کیا گیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسجدوں کی عالیشان تعمیرات امت کے روحانی زوال کی علامت ہیں۔ کیوں کہ جب روح (اسپرٹ) ختم ہوتی ہے تو اس کی تلافی کے لیے مظاہر میںاضافہ ہوجاتاہے۔
عالیشان مسجدوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نمود ونمائش والی دینداری کی علامت ہیں۔ شاندار عمارتوں میںنمود ونمائش کے جذبہ کو بے حد تسکین ملتی ہے وہ شکست خوردہ نفسیات کے لئے عظمت و فخر کی تسکین کا سامان ہیں۔موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی عام نفسیات یہ ہے کہ انہوں نے پولٹیکل گلوری کو کھو دیا ہے۔ ایسی حالت میں درودیوار کی عظمت انہیں یہ فرضی تسکین دیتی ہے کہ اب بھی انہوں نے زمین پر اپنی عظمت کا نشان قائم کررکھا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ خیر، ولیس ذاک لأحد إلا للمؤمن، إن أصابتہ سراء شکر، فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء، صبر فکان خیرا لہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔
مومنانہ روش یہ ہے کہ آدمی کو خوشی ملے تو اُس کا سینہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے، اور اگر اُس کو تکلیف کا تجربہ ہو تو وہ اُس کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر اُ س پر راضی رہے۔اس کے برعکس، غیر مومنانہ روش یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو خوشی ملے تو وہ اُس پر فخر کرے، اور اگر اُس کو تکلیف پہنچے تو وہ مایوسی کا شکار ہوجائے۔ یہ مطلوب روش نہیں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اس طرح تنبیہ کی گئی ہے: پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اُس کا رب اُس کو آزماتا ہے اور اُس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اُس کو آزماتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتاہے تو وہ کہتاہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کردیا۔ (الفجر
موجودہ دنیا میں اصل اہمیت یہ نہیں ہے کہ آدمی نے بظاہر کس حال میں زندگی گزاری، اچھے حال میں یا بُرے حال میں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی جس حال میں بھی ہو اُس سے وہ تعلق باللہ کی غذا لے سکے۔ زندگی کا ہر تجربہ اُس کو اللہ سے قریب کرنے والا ثابت ہو۔ اُس کی روح ہر صورتِ حال سے ربّانی غذا لیتی رہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھ سکے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلائے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا رہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلائے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کردے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرض علی ربی لیجعل لی بطحاء مکة ذہبا. فقلت: لا، یا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما، أو نحو ذلک، فإذا جعت تضرعت إلیک وذکرتک، وإذا شبعت حمدتک وشکرتک(مسند احمد، حدیث نمبر 22190)۔ یعنی اللہ نے مجھے یہ پیشکش کی کہ تمہارے لیے مکہ کی وادی کو سونابنا دیا جائے۔ میںنے کہا کہ اے میرے رب، نہیں۔ بلکہ میں چاہتاہوں کہ میں ایک دن سیر ہوکر کھاؤں اورایک دن بھوکا رہوں۔ پھرجب مجھے بھوک لگے تو میں تجھ سے تضرع کروں اورتجھ کو یاد کروں اور جب مجھے سیری حاصل ہو تو میں تیری حمد کروں اور تیرا شکر کروں۔
ایمانی کیفیات کاتعلق براہ راست طورپر حالات سے ہے۔ زندگی میں جب بھی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو اس کے لحاظ سے مومن کے لیے ایمانی کیفیات کا سرمایہ موجود رہتا ہے۔ جس طرح احوال کی بہت سی قسمیں ہیں اسی طرح ایمانی کیفیات کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور ہر قسم میںاُس کے مطابق، آدمی کے اندر ایمانی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔موجودہ دنیا میں آدمی کو امتحان کے لیے رکھا گیا ہے۔ اسی لیے یہاں ہر عورت اور مرد کے ساتھ طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ایسا اسی لیے ہوتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون اپنی جانچ پرپورا اُترا اور کون اس میںناکام ہوگیا۔
آرام کی حالت ہو یا تکلیف کی حالت ہو، دونوں حالتیں اضافی ہیں۔ دونوں حالتوں میںاصل اہمیت یہ ہے کہ اُس وقت کسی عورت یا مرد سے جومطلوب رویہ درکار تھا، اس کا ثبوت اُس نے دیا یا نہیں دیا۔ اصل اہمیت حالات کے مقابلہ میںردعمل کی ہے، نہ کہ خود حالات کی۔یہ حقیقت جس عورت اور مرد پر واضح ہوجائے، اُس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اُس کی نظر آرام اور تکلیف پر نہ ہوگی بلکہ اس بات پر ہوگی کہ ملے ہوئے حالات میں اس نے کس قسم کے رد عمل کا ثبوت دیا۔ شکر کا یا ناشکری کا، صبر کا یا بے صبری کا۔ ایسے لوگ ہر حال میں اپنا احتساب کریںگے، نہ کہ خارجی حالات کا شکوہ کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک لمبی روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے: ألا إنی أوتیت الکتاب ومثلہ معہ، ألا إنی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ، ألا یوشک رجل ینثنی شبعانا على أریکتہ یقول:علیکم بالقرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ، وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ(مسند احمد، حدیث نمبر17174)۔یعنی سن لو، بیشک مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔ بیشک مجھے قرآن دیا گیاہے اور اسی کے ساتھ اس کے مثل۔سن لو ، قریب ہے کہ ایک آسودہ آدمی اپنے تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھا، کہے گا کہ تمہارے لیے قرآن کافی ہے، پس تم اس میں جو حلال پاؤ تو اسے حلال سمجھو اور جو اس میں تم حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو ۔
اس حدیث میں مثل سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں حکمت (البقرۃ
مذکورہ روایت میں پانچ الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ پانچوں الفاظ ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ مسلسل طور پر تدبر اور تفکر میں رہتے تھے۔ حُزن سے مراد غم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کامل سنجیدگی (total seriousness) ہے۔ یعنی ہر وقت انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچتےرہنا۔
مثلا ًقرآن کی
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر عربی زبان سے بخوبی واقف ہو، اور وہ قرآن کو پڑھے تو قرآن کے متن کے سطور (lines)میں جو بات ہے، اس کو وہ جان لے گا۔ لیکن قرآن کے جو عمیق معانی ہیں، وہ متن کے بین السطور (between the lines) ہیں۔ ان عمیق معانی کو جاننے کا ذریعہ صرف تدبر ہے۔ اگر آدمی حقیقی معنوں میںسنجیدہ اور ہدایت کا طالب ہوتے ہوئے قرآن میں غور و فکر کرے تو وہ قرآن کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔ وہ متن قرآن کے اندر چھپی ہوئی حکمت کی دریافت تک پہنچ جائے گا۔
مثلا ً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کو مشن کے معاملے میں صراط مستقیم کی ہدایت (الفتح2:) ملی۔قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ ہدایت کہیں الفاظ (وحی متلو)کی صورت میں نہیں ملے گی۔ پھر رسول اللہ کو اس ہدایت کی معرفت کیسے ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معرفت آپ کو تدبر کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہدایت یہ تھی — وکٹمائزڈ کمیونٹی (victimized community) کے جذبات (sentiments) کو لے کر اپنی پلاننگ نہ کرنا، بلکہ وسیع تر دنیا میں جو مواقع (opportunities) ہیں، ا ن کو لے کر اپنے عمل کا پلان بنانا۔
واپس اوپر جائیں
توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (
قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔ اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ (
یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔
واپس اوپر جائیں
سن چھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فریق مخالف سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدے کی دفعات طے ہوگئیں، اور ان کو کاغذ پرلکھا جانےلگا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کو لکھاتے ہوئے کہا: اکتب یا علی، ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔ فریق ثانی کے لیڈر نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ آپ محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبد اللہ لکھیے، جو کہ ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہے۔آپ نے بلابحث کہا: امح یا علی، اللہم إنک تعلم أنی رسولک،امح یا علی واکتب، ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔یعنی اے علی، اس کو مٹادو۔ اے اللہ ، تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں۔ اے علی، مٹادو اور لکھو، یہ وہ (دفعات) ہیں جن پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کیا۔ اس کے بعد صلح کا معاہدہ طے پاگیا، اور آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ واپس آگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ بلاشبہ اللہ کی رہنمائی کے مطابق تھا۔ اللہ کی رہنمائی کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ سورہ الفتح میں اس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا (
منصوبہ بندی کایہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں اہل ایمان یہ چاہتے ہیں کہ ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ قرآن کا پیغام ساری دنیا میں کھلے طور پر پہنچائیں۔ لیکن بار بار ایک رکاوٹ پیش آتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کا انسان ، اظہار رائے کی آزادی (freedom of expression) کو انسان کا ایک مطلق حق (absolute right)سمجھتا ہے، اور اس کو وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حق کے اس استعمال کا دائرہ کبھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں آزادانہ اظہارِ خیال کرتا ہے، اور اس کو اپنا ناقابلِ تنسیخ حق سمجھتا ہے۔ مسلمان اس طرح کے واقعات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کو شتمِ رسول (blasphemy) قرار دے کر چاہتے ہیں کہ شاتم کو قتل کردیں۔ آج کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کی یہ روش قابل قبول نہیں۔ چناں چہ اس پر سخت نزاع شروع ہوجاتی ہے۔ اور دعوتِ اسلام کا کام جیو پرڈائز (jeopardize) ہوجاتا ہے۔
شتم رسول (blasphemy) پر ہنگامہ کرنا یا شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا، اصولاً اسلام کےخلاف ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا رسول کے کسی قول میں یہ حکم موجود نہیں۔ تاہم بالفرض اگر کسی کا اصرار ہو کہ یہ اسلام کا ایک حکم ہے تب بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا مکمل طور پر چھوڑدیں۔ تاکہ دعوتِ اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
رسول کا رسول ہونا بلاشبہ اسلام کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ پھر بھی رسول اور اصحابِ رسول نے رسول اللہ کے لفظ کو کا غذ سے مٹادیا۔ اسی سنت پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدل دیں تاکہ اسلام کا پر امن مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔ اسی روش کا نام حکمت (wisdom) ہے۔ حکمت، اسلام کا ایک لازمی اصول ہے۔ حکمت کے بغیر اسلام کا مشن کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔
٭ ٭ ٭٭٭٭ ٭ ٭ ٭٭
میرا عام تجربہ ہے کہ اسکالر لوگوں میںفکری ارتقاء مسلسل جاری رہتا ہے، جب کہ مذہبی لوگوں میںاس طرح فکری ارتقاء نہیں ہوتا۔ مذہبی طبقہ کے لوگ عام طورپر ذہنی ٹھہراؤ کا شکار رہتے ہیں۔ میںاکثر سوچتا رہا ہوں کہ ا س کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سیکولر لوگوں میںمسلسل فری ڈائلاگ جاری رہتاہے جب کہ مذہبی لوگوں میں فری ڈائلاگ کاعمل جاری نہیںہوتا۔
واپس اوپر جائیں
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold J. Toynbee)نے بارہ جلدوں میں ایک کتاب تیار کی ہے، جو دنیا کی انیس تہذیبوں ( 19 world civilizations) کا مطالعہ ہے۔ اس کی آخری جلد 1961 ء میں چھپی۔تاہم یہ کتاب انسانی تاریخ کا جزئی مطالعہ ہے۔ ایک ایسی کتاب کی ضرورت باقی ہے ، جو انسانی تاریخ کی جامع تعبیر (comprehensive interpretation of history) پیش کرے۔
میں نے اس موضوع کا مطالعہ کیا ہے۔ میرےمطالعہ کے مطابق، یہ موضوع ایک مشکل موضوع ہے۔ کیوں کہ ٹائن بی جیسے مؤرخین کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ تاریخ کے معلوم ریکارڈ کی بنیاد پر تاریخ کی ایک موضوعی تصویر پیش کرے۔ لیکن تعبیر (interpretation) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کیوں کہ یہ موضوع تجزیاتی مطالعہ (analytical study) کا موضوع ہے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ مصنف تاریخی معلومات کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرکے اس کی بامعنی تعبیر پیش کرے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، معلوم تاریخ چھ ادوار (periods) میں تقسیم ہوتی ہے:
1۔ مادی دنیا (material world) ، بگ بینگ (big bang) سے لے کر اب تک۔
2۔ شمسی نظام (solar system) ، جس کے اندر آخر کار انسانی دنیا بنی۔
3۔ انسانی تاریخ (human history)
4 ۔ پیغمبرانہ مشن(prophetic mission)
5 ۔ تہذیبی تائید (civilizational support)
6۔ آخری اعلان (final call)، یعنی انسان کے ایک دورِ حیات کا خاتمہ اور اس کے دوسرے دورِ حیات کا آغاز۔
رب العالمین نے تقریباً تیرہ بلین سال پہلے موجودہ کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے اس نے پارٹیکلس (particles) یعنی اجزاءِ کائنات کی تخلیق کی۔ پارٹیکلس کا یہ مجموعہ ابتداءمیں ایک عظیم کاسمک بال (cosmic ball) کی صورت میں خلا میں ظاہر ہوا۔ پھر اس کاسمک بال میں انفجار (explosion )ہوا۔ اس کے بعد تمام ستارے اور کہکشائیں (galaxies) وجود میں آئیں۔
دوسرے مرحلہ میں شمسی نظام بنا۔ پھر شمسی نظام کا ایک سیارہ زمین (planet earth)اپنی موجودہ شکل میں وجود میں آیا۔ اس سیارۂ زمین پر پانی، نباتات ، اور حیوانات وجود میں آئے۔ انسان اس زمین پر آباد ہوا۔ پھر انسانوں کے درمیان ایسے ربّانی افراد پیدا ہوئےجنھوں نے خدا کی خصوصی رہنمائی میں دنیا میں پیغمبرانہ مشن جاری کیا۔
ختم نبوت کے بعد تاریخ کا اگلا دورآیا۔ اس دور میں صلیبی جنگوں (1096-1487)کا سلسلہ چلا۔ اس درمیان ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے تحت سائنسی ترقیاں شروع ہوئیں۔ یہاں تک کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ اس تہذیب نے انسان کے اوپر ترقی کے وہ دروازے کھولے جواگرچہ بالقوہ طور پر ہمیشہ سے موجود تھے، لیکن بالفعل طور پروہ بند پڑے ہوئےتھے۔یہ تہذیب بظاہر ایک سیکولر تہذیب تھی، لیکن عملاً وہ پیغمبرانہ مشن کے موافق (pro-prophetic mission) تہذیب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس تہذیب نے فطرت کے جو راز دریافت کیے، ان کو قرآن میں آفاق و انفس کا اظہار (فصلت
جس خدا نے کائنات کی تخلیق کی۔ اسی خدا نے اپنی کتاب ،قرآن کو انسان کے پاس بھیجا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تخلیق کے بارے میں خالق کا منصوبہ کیا ہے۔ اس منصوبہ کے مطابق، موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی ہے کہ یہاں انسان آزادانہ طور پر اپنا عمل کرے۔ انسان اپنے آپ کو ربانی شخصیت (Rabbani Personality) کی صورت میں ڈیولپ کرے۔
انسانی تاریخ کی بامعنی تعبیر (meaningful interpretation)میں صرف ایک چیز لوگوں کے لیے رکاوٹ بنتی ہے۔ وہ یہ کہ اکثر لوگ اپنے خود ساختہ معیار (self-styled criterion) سے انسانی تاریخ کو جانچتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسانی تاریخ کو خالق کے مقرر کردہ معیار کی روشنی میں دیکھا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں پوری تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جائے گی۔
اصل یہ ہے کہ انسانی دنیا اور مادی دنیا میں ایک بنیادی فرق ہے۔ مادی دنیا فطرت کے لازمی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اس لیے فطرت کو سمجھنے کا ایک معلوم حتمی معیار موجود ہے۔ اس معیار کو برطانی سائنسداں نیوٹن نے فطرت کے مطالعہ پر کامیابی کے ساتھ منطبق کیا، اس کا انطباق (application) درست ثابت ہوا۔ لیکن انھیں قوانین کو کمیونزم کے بانی کارل مارکس نے انسانی تاریخ پر منطبق کرنا چاہا تو وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔خالق نے انسان کو استثنائی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کی آزادی عطا کی ہے۔ اس بنا پر انسانی تاریخ کا واحد غیر متغیر نقشہ نہیں بن سکتا۔ انسانی تاریخ کے مطالعے میں یہ کرنا ہوگا کہ اس کے متعلق حصہ (relevant part)کو غیر متعلق حصہ (irrelevant part) سے الگ کیا جائے۔ یعنی تاریخ کے مختلف اجزاء کو سارٹ آؤٹ (sort out)کرکے دیکھا جائے، غیر متعلق اجزاء کو الگ کرکے متعلق اجزاء کی روشنی میں انسانی تاریخ کی تصویر بنائی جائے۔ اس عمل کے بغیر تاریخ کی بامعنی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔
قرآن کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ دنیا اس لیے بنائی گئی تاکہ انسان فطرت کے قوانین کا مطالعہ کرے، اور ایک تہذیب وجود میں لائے۔ یہ کام اکیسویں صدی میں اپنی تکمیل تک پہنچ چکا۔ اب دوسرا کام یہ ہے کہ آلاءاللہ (الرحمٰن
واپس اوپر جائیں
دین کے احکام ممکن طور پر دو قسم کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ جو قابل تنسیخ ہوں، اور دوسرا وہ جن کو منسوخ تو نہ کیا جاسکتا ہو، لیکن ان کو وقتی طور پر موقوف کرنا درست ہو۔ کسی شرعی حکم کو منسوخ (abrogate) کرنا ایک ا صولی معاملہ ہے۔ اور اصولی معاملہ میں تغیر کا حق صرف شارع کو ہے۔ اور جہاں تک موقوف (suspend) کرنے کا معاملہ ہے، وہ ایک اجتہادی معاملہ ہے، اور امت کے علماء دلائل شرعیہ کے ذریعہ بطور اجتہاد ایسا کرسکتے ہیں۔
ہجرت کے بعد وقتی طور پر قبلۂ یہود کو قبلۂ مسلمین قرار دے دیا گیا، لیکن بعد کو یہ حکم متروک ہوگیا (البقرۃ: 143-144)، اور کعبہ ابدی طور پر اہل اسلام کا قبلہ قرار پایا۔ اب کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس حکم میں تغیر کرے۔کسی حکم کو موقوف قرار دینے کا معاملہ ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ مثلاً اعداد قوت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ اس سےمراد تیر اندازی ہے۔ رسول اللہ نے قرآن کی آیت پڑھی: وأعدوا لہم ما استطعتم من قوة[
کسی حکم کو منسوخ قرار دینے کا اختیار صرف شارع کو ہے، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول کو ۔ اس کےبرعکس، جہاں تک موقوف قرار دینے کا معاملہ ہے، یہ ایک اجتہادی فعل ہے۔ امت کے علماء کو یہ حق ہے کہ وہ قانونِ ضرورت (law of necessity)کے تحت کسی حکم کو وقتی طور پر موقوف قرار دے دیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصحاب رسول کے زمانے میں اہل فتنہ سے قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکم چوں کہ شریعت کے متن میں موجود ہے، اس لیے کوئی شخص اس کو منسوخ نہیں قرار دے سکتا، البتہ ضرورت شرعیہ کے تحت بطور اجتہاد اس حکم کو موقوف قرار دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
کسی لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے، اور ایک اس کا اصطلاحی مفہوم۔ جب ایک لفظ ایک مخصوص اصطلاح (term) کے معنی میں بولا جانے لگے تو اس لفظ کو اس کے مخصوص اصطلاحی مفہوم ہی میں استعمال کیا جائے گا۔ کسی اور معنی میں اس کو استعمال کرنا درست نہ ہوگا۔ یہ اصول مذہب کے شعبوں میں بھی ہے اور سیکولر شعبوں میں بھی۔
اسلام میں رسول اور صحابی اور کافرکے الفاظ، اصطلاحی الفاظ کی حیثیت رکھتےہیں۔ اب ان کو ان الفاظ کے اصطلاحی معنی ہی میں استعمال کیا جائے گا، کسی اور معنی میں ان کا استعمال درست نہ ہوگا۔ اسلام میں رسول ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ اصطلاح کے اعتبار سے اس کا مفہوم ہے فرستادۂ خدا (messenger of God)۔ صحابی سے مراد رسول اللہ کا وہ معاصر انسان ہے جس نے براہ راست آپ سے دین کو پایا ہو، اور اس کو اخلاص کے ساتھ اپنا لیا ۔
اسی طرح اسلام میں کافر بھی ایک اصطلاحی لفظ ہے۔کافر کا لغوی مفہوم ہے انکار کرنے والا۔ مگر اصطلاحی اعتبار سے اس کا مطلب ہے منکر رسول۔ یعنی رسول اللہ کا وہ معاصر انسان جس نے براہ راست رسول سے دین کو پایا لیکن اس نے اس کا اعتراف نہیں کیا، بلکہ وہ اس کا منکر بن گیا۔ اس اعتبار سے اسلام میں کافر کا مطلب ہے، معاصر منکر رسول ۔
کافر کوئی قومی لقب نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو مسلمان نہ ہو وہ کافر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلاً ہر آدمی ایک انسان ہے۔ دنیاوی تعلقات کے اعتبار سے ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں۔ فرق کا تعلق اللہ رب العالمین سے ہے۔ قیامت میں اللہ رب العالمین کسی انسان کو جو درجہ دے، وہی اس کا درجہ ہے۔ دنیا کی زندگی میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود کسی کو غیر قوم یا کافر قوم کہے۔ کافر کے لفظ کا رواجی استعمال، ہم اور غیر (we and they) کا تصور پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ اسلام کے مطابق، صحیح تعلق وہ ہے جو ہم اور ہم (we and we) کے تصور پر قائم ہو۔
واپس اوپر جائیں
جدید تعلیم یافتہ طبقہ اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ انسانی تاریخ کی لیے پیغمبر اسلام کی دین (contribution)کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ آپ کی دین خاص طور پر دو چیزیں ہیں— موحدانہ تصور خدا(monotheistic concept of God)، عملی آئڈیلزم (practical idealism)۔ یہ دونوں چیزیں انسانی ترقی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مگر تاریخ میں یہ دونوں چیزیں مفقود رہیں۔ انسان ہمیشہ سے خدا کو مانتا تھا، لیکن وہ خدا کے ساتھ مشرکانہ تصورات کو ملائے ہوئے تھا، وہ خالص توحید پر قائم نہ تھا۔ پیغمبر اسلام نے انسان کوبے آمیز توحید پر قائم کیا۔ یہ بلاشبہ انسان کے لیے پیغمبر اسلام کا سب بڑا نظریاتی تحفہ تھا۔ کیوں کہ یہ صرف خالص توحید ہے جس کے ذریعہ خدا کا تصور صحیح بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
دوسری چیز عملی آئڈیلزم (practical idealism) ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آئڈیلزم کو چاہنے والا بنا رہا۔ لیکن آئڈیلزم عملی طور پر کبھی انسان کو حاصل نہ ہوسکی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان نے اس راز کو نہیں جانا کہ اگر چہ وہ پیدائشی طور پر معیار پسند ہے۔ لیکن مختلف اسباب سے اس دنیا میں عملاً آئڈیلزم کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ انسان خوداپنے آپ کو معیار پسند (idealist) بنا سکتاہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں اس قسم کے معیار کا حصول ممکن نہیں۔ اس لیے اجتماعی زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی عملی آئڈیلزم پر راضی ہوجائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول کو نہ صرف بتایا بلکہ اپنی عملی زندگی میں اس کا کامل نمونہ بھی قائم کردیا۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اس اصول کا عملی نمونہ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگرچہ آپ کو کامل یقین تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ لیکن معاہدۂ حدیبیہ کے وقت جب فریق مخالف نے اصرار کیا کہ معاہدہ کے متن سے محمد رسول اللہ کا لفظ نکال دیا جائے، اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھا جائے تو آپ فوراً اس پر راضی ہوگئے۔ آپ کی یہ رضامندی عملی آئڈیلزم کی بنیاد پر تھی، نہ کہ خالص آئڈیلزم کی بنیاد پر۔
واپس اوپر جائیں
تخلیق کے قانون کے مطابق، موت ہر عورت اور ہر مرد پر آتی ہے۔ موت کیا ہے۔ موت یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے مکمل طور پر جدا ہوجائے، اور اس دنیا میں پہنچ جائے جس کو آخرت کہا جاتا ہے۔یہ آخرت کی دنیا کیا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی دنیا ہے۔ وہاں وَالْأَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِلَّہِ (الانفطار
اللہ کا تصور یہ ہے کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ وہ تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ انسان پر جب موت آتی ہے تو اس کے لیے یہ ایک ایسے سفر کی طرف جانا ہوتا ہے، جہاں اس کی ملاقات اللہ رب العالمین سے ہونے والی ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو معبود کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا۔ جب معبود رحمان و رحیم ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اور رب کی یہ ملاقات یقیناً ایک پُرامید ملاقات ہوگی۔ یہاں بندہ اپنے رب کی طرف سے وہ چیز پائے گا، جس کی امید وہ ایک مہربان رب سے کیے ہوئے تھا۔
ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:أنا عند ظن عبدی بی (مسند احمد، حدیث نمبر 9076)۔ یعنی میںبندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ رب العالمین ایک رحیم و کریم رب ہے، اس کی مہربانیاں ہر مخلوق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ایسا انسان ضرور یہ بھی مانے گا کہ جب اس کی ملاقات اللہ سے ہوگی تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے رب کے سامنے کھڑا ہوا پائے گا، جو تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔بندے کا یہ احساس اس کو ضرور یہ یقین دے گا کہ میرا رب ایک مہربان رب ہے، وہ ضرور میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرے گا۔ یہ یقین کسی بندے کے لیے اس کی موت کو ایک مثبت موت بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ:إن ناسا من الأنصار سألوا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فأعطاہم، ثم سألوہ، فأعطاہم، ثم سألوہ، فأعطاہم حتى نفد ما عندہ، فقال: ما یکون عندی من خیر فلن أدخرہ عنکم، ومن یستعفف یعفہ اللہ، ومن یستغن یغنہ اللہ ومن یتصبر یصبرہ اللہ، وما أعطی أحد عطاء خیرا وأوسع من الصبر (صحیح البخاری، حدیث نمبر1469)۔ یعنی انصار کے کچھ لوگوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ نے ان کو دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا، انھوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دے دیا۔ یہاں تک کہ جو کچھ تھا آپ کے پاس وہ ختم ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا میرے پاس جو کچھ بھی مال ہوگا، میں تم سے بچا نہیں رکھوں گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے جو شخص غنا کا طریقہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے غنا میں اضافہ کرے گا اور جو شخص صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کرے گا اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور کشادہ نعمت نہیں ملی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی دوسرے سے مانگ کر حاصل کرلے۔ لیکن اس سے زیادہ اعلی طریقہ یہ ہے کہ آدمی محنت کرے، اور خود اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔اس دنیا میں محنت کے ذریعہ پانے کے مواقع ہر ایک کے لیےکھلے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اس کو وہ اپنی محنت کے ذریعہ حاصل کرے۔
محنت کے ذریعہ حاصل کرنا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ بہت سے مزید فوائد کا ذریعہ ہے۔ آدمی جب ذاتی محنت سے حاصل کرنا چاہتا ہے، تو وہ اپنی سوچ میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ منصوبہ بندی کا طریقہ دریافت کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سنجیدہ بناتا ہے۔ وہ اپنے شکر کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے اندر ذہنی ارتقا کے عمل کو جاری کرتا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
امت کےدور زوال کے بارے میں ایک پیشین گوئی حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔الفاظ یہ ہیں:تنزع عقول أکثر ذلک الزمان، ویخلف لہ ہباء من الناس لا عقول لہم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور ذروں کی طرح لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہان مجبوری کی صورت حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کے حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم امت کے عوام یا علماء اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد (violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر مؤثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاتی ہیں : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقۂ کار کے مقابلے میں پر امن طریقۂ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقۂ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقۂ کار پر عمل کریں۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
تمام پیغمبروں کےآخر میں اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ حضرت علی، رسول اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جو بھی آپ کو پہلی بار دیکھتا مرعوب ہوجاتا۔ جو ساتھ بیٹھتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا۔(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3638)
ایک حدیث (جامع الاصول، حدیث نمبر9317)میں ہے رسول اللہ فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے 9 باتوں کا حکم دیا ہے:
1۔ کھلے اورچھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔
2۔ غصہ میں ہوں یا خوشی میں ہمیشہ انصاف کی بات کہوں۔
3۔ محتاجی اور امیری میں دونوں حالتوں میں اعتدال پر قائم رہوں۔
4۔ جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں۔
5۔ جو مجھے محروم کرے میں اس کو دوں۔
6۔ جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں۔
7۔ اور میری خاموشی غور وفکر کی خاموشی ہو۔
8۔ میرا بولنا یادِ الٰہی کا بولنا ہو۔
9۔ میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقل مند شخص کے لئے لازم ہے کہ اس پر کچھ گھڑیاں گزریں۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے باتیں کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ اپنی ذات کا محاسبہ کرے۔ ایسی گھڑی جب کہ وہ خدا کی تخلیق میں غور کررہا ہو اور ایسی گھڑی جب کہ وہ کھانےپینے کی ضرورتوں کے لئے وقت نکالے۔ (ابن حبان، حدیث نمبر
حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ان کے گھر میں تھے، آپ نے خادمہ کو بلایا، اس نے آنے میں دیر کردی۔ آپ کے چہرے پر غصہ ظاہر ہوگیا۔ اُم سلمہ نے پردے کے پیچھے جاکر دیکھا تو خادمہ کو کھیلتے ہوئے پایا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ نے خادمہ کو مخاطب کرتےہوئے فرمایا: اگر قیامت کے دن مجھے بدلہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں تجھ کو اس مسواک سے مارتا (لولا خشیة القود یوم القیامة، لأوجعتک بہذا السواک)۔الادب المفرد للبخاری، حدیث نمبر
بدر کی جنگ 2 ہجری میں ہوئی ۔ جو لوگ قیدی بن کر آئے وہ رسول اللہ کے بدترین دشمن تھے مگر آپ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ اِن قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو تھا۔ وہ اپنی شاعری سے رسول اللہ کے بارے میں گستاخانہ تقریر کرتا تھا۔ حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ اس کے سامنے والے دانت توڑ دیے جائیںتاکہ آئندہ یہ تقریر نہ کرسکے۔ لیکن آپ نے فرمایا: اگر میں ایسا کروں تو خدا میرا چہرہ بگاڑ دے گا اگرچہ میں خدا کا رسول ہوں ( لا أمثل بہ فیمثل اللہ بی وإن کنت نبیا)۔سیرۃ ابن ہشام، 1/649
حسن بصری تابعی نے ایک بار اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہا: میں نے 70 بدری صحابیوں کو دیکھا ہے۔ ان کا لباس زیادہ تر صوف کا ہوتا تھا۔ اگر تم ان کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں (مجانین)۔اور اگر وہ تم کو دیکھتے تو کہتے کہ ان کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (ما لہؤلاء من خلاق)۔اور اگر وہ تمھارے بروں کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ حساب کے دن پر یقین نہیں رکھتے (ما یؤمن ہؤلاء بیوم الحساب)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،
عبد اللہ بن مسعود کہتےہیں کہ اصحابِ رسول اس امت کے بہترین لوگ تھے وہ بہت اچھے دل والے، بہت گہرے علم والے اور تکلفات سے دور تھے(کانوا خیر ہذہ الأمة، أبرہا قلوبا، وأعمقہا علما، وأقلہا تکلفا)۔حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 1/305۔ رسول اور اصحاب رسول کی یہ زندگی اختیاری زندگی تھی، وہ کسی مجبوری کی بنا پر نہ تھی۔ یہی طریقہ بعد کے لوگوں کے لیے بھی نمونہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
تہذیب (civilization) کیا ہے۔ تہذیب ایک جدید اصطلاح ہے۔ اس سے مراد سوشل ترقی کا وہ اسٹیج ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہو۔
Civilization is an advanced stage of human society, where people live with a reasonable degree of organization and comfort and can think about things like art and education.
کلچر ایک قومی ظاہرہ ہے۔ اس کے مقابلے میں تہذیب ایک عمومی انسانی ظاہرہ ۔ تاریخ میں بہت سی تہذیبیں شمار کی جاتی ہیں۔ لیکن مبنی بر فطرت ظاہرہ کے اعتبار سے ایک ہی واقعہ ہے جس کو تہذیب کہا جاسکتا ہے، اور وہ مغربی تہذیب (western civilization) ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنی حقیقت کے اعتبار سے قومی کلچر تھیں، نہ کہ کامل معنوں میں تہذیب۔اس سلسلے میں ایک امریکی مصنف کی کتاب بہت مشہور ہوئی:
Samuel P. Huntington: The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (1996)
اس کتاب کا ٹائٹل میرے نزدیک کنفیوزن پیدا کرتا ہے۔ مصنف نے کتاب کا ٹائٹل تہذیبوں کا تصادم بنایا ہے۔ مگر کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کا موضوع اپنی حقیقت کے اعتبار سے قومی انٹرسٹ ہے، نہ کہ تہذیبوں کا تصادم۔
مغربی تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے مغربی تہذیب نہیں ہے، بلکہ وہ ایک مبنی بر فطرت تہذیب ہے۔ اس اعتبار سے وہ پوری انسانیت کا مشترک سرمایہ ہے۔ کچھ مقامی اثرات کی بنا پر اس کو مغربی تہذیب کہا جاتا ہے۔ لیکن مقامی اثرات کو حذف کرکے دیکھا جائے تو وہ بلاشبہ ایک انسانی تہذیب ہے۔ ہر گروہ اس میں برابر کا حصہ دار ہے۔ حتیٰ کہ مسلم گروہ بھی۔ اضافی پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جائے تو مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کہنا بجا طور پر درست ہوگا۔دوسری تہذیبیں پولیٹکل اقتدار کے تحت بنیں۔ اس کے برعکس، مغربی تہذیب بنیادی طور پراس وقت بنی جب کہ غیرپولیٹکل سائنسدانوں نے کائنات کے فطری قوانین (laws of nature)کو دریافت کیا۔
قرآن کی ایک متعلق آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہ ُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون (
تسخیر کا مطلب ہے تابع بنا نا (to subject)۔ تابع کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو جس طرح چاہے اپنی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ مثلا گھوڑا اور بیل میں پیدائشی طور پر یہ صفت ہے کہ انسان جب ان کو اپنا تابع بنا کر کوئی خدمت لینا چاہے تو وہ بآسانی انسان کی خدمت میں لگ جاتے ہیں۔ یہی حال تمام ان چیزوں کا ہے جو ہمارے آس پاس اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
اس کی دوسری مثال ٹکنالوجی ہے۔ ٹکنالوجی گھوڑے کی طرح خارجی دنیا میں پیشگی طور پر موجود نہ تھی۔ وہ انسان کے لیے ایک ایسی چیز تھی، جس کو وہ دریافت کرے۔ اس کے بعد ہی وہ انسان کے لیے قابل استعمال بنتی ہے۔ انسان نے اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ دوسرا کام کیا ۔ اس نے ٹکنالوجی کی مختلف صورتوں کو دریافت کیا، اور پھر تجربہ کے ذریعہ ان کو اپنے لیے قابل استعمال بنایا۔
اس اعتبار سے پوری کائنات انسان کے لیے ایک مسخر کائنات ہے۔ کچھ چیزیں براہ راست طور پر انسان کے قبضہ قدرت میں ہیں، مثلا گھوڑا۔ اور کچھ چیزیں بالواسطہ طور پر انسان کے لیے قابل استعمال ہیں، مثلا موٹر کار اور ہوائی جہاز، وغیرہ۔ اس اعتبار سے پوری دنیا کو معاون انسان دنیا کہا جاسکتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
کامل آرام یا کامل خوشی کسی کو اس دنیا میں نہیں مل سکتی ،
کامل مسرت صرف آخرت ہی میں ممکن ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک تعلیم یہ ہے کہ دعوت حق کا کام مثبت انداز میں کیا جائے، منفی انداز میں نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی مندرجہ ذیل آیت کا مطالعہ کیجیے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ (
قرآن کی یہ آیت جب اتری تو اولاً اس کا خطاب اصحاب رسول سے تھا۔ حدیث و سیرت کے ذخیرے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ اس زمانے کے غیر مسلموں سے سبّ و شتم کی زبان بولتے تھے۔ سبّ و شتم کا لفظ یہاں شناعت کے اعتبار سے آیا ہے، نہ کہ واقعہ کے اعتبار سے۔ اصل میں جو واقعہ ہوا تھا ، وہ یہ کہ بعض صحابی نے غیر احسن مجادلہ کی زبان میں بعض یہود سے گفتگو کی۔ مثلا ایک یہودی نے کہا کہ موسی تمام عالم سے افضل ہیں۔اس کو سن کر ایک صحابی نے کہا کہ محمد تمام اہل عالم سے افضل ہیں۔ یہ بات بڑھی، یہاں تک کہ صحابی نے یہودی کو ماردیا۔
مذکورہ آیت میں اہل ایمان کو اسی قسم کے غیر احسن مجادلہ سے روکا گیا ہے۔ کیوں کہ جب بھی غیر احسن انداز میں مجادلہ کیا جائے گا تو اس کا رد عمل (reaction) ہوگا۔ اس اصول کی روشنی میں تردیدی انداز دعوت ، یقینی طور پر غیر اسلامی انداز دعوت ہے۔ کیوں کہ اگر آپ ردّ عیسائیت اور ردّیہودیت کے اسلوب میں کتابیں لکھیں گے، تو دوسرا فریق بھی ردّ اسلام کے انداز میں کتابیں لکھے گا۔ تردیدی اسلوب کا ردّعمل ہمیشہ تردیدی اسلوب کی صورت میںظاہر ہوتا ہے۔
تردیدی اسلوب کی کوئی حد نہیں۔ تردیدی اسلوب جس طرح دوسرےمذاہب کے خلاف ممکن ہے، ٹھیک اسی طرح وہ اسلام کے خلاف بھی ممکن ہے۔ یہ اسلوب کی بات ہے، نہ کہ حق و ناحق کی بات۔ موجودہ زمانہ میں مناظرہ (debate) کا طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے اسی سبّ و شتم کا طریقہ ہے۔ دعوت کا موثر اسلوب صرف مثبت اسلوب ہے، تردیدی اسلوب ہرگز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سائنسی دریافت کے مطابق، تقریباً تیرہ بلین سال پہلے خلا (space)میں ایک دھماکہ ہوا۔ اس کو بگ بینگ کہا جاتا ہے۔اس دھماکے کے بعد ہماری دنیا کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک منصوبہ بند پراسس (well-calculated planning) کے تحت پوری کائنات وجود میں آئی۔ کہکشائیں (galaxy) وجود میں آئیں، شمسی نظام (solar system) بنا، سیارۂ ارض کی تخلیق ہوئی، پانی ، ہوا، سبزہ اور حیوانات وجود میں آئے۔آخر میں انسان کی آبادی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ موجودہ آباد دنیا وجود میں آئی۔
دنیا میں پیش آنے والے ان واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا کی تخلیق ایک منصوبہ بند انداز میں ہوئی۔ دنیا کے آغاز سے لے کر اب تک جو باتیں پیش آرہی ہیں، وہ سب اس منصوبہ بند تخلیق کی تائید کرتی ہیں۔ اس کے سوا اس ظاہرے کی کوئی اور توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کے اعتبار سے دنیا کا انجام کیا ہے۔ قرآن اس واقعہ کو جاننے کا مستند ذریعہ ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو ابتلا (الملک 2:)کے لیے پیدا کیا۔ یعنی ایک تربیتی کورس سے گزار کر ایسے لوگوں کو جاننا جوقابل انتخاب ہوں۔ آخر میں اللہ رب العالمین ایسے لوگوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر ان کو منتخب کرے گا، اور ان کو آخرت کی ابدی جنت میں داخل کرے گا۔ جنت میں داخلہ کسی اور بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ صرف اس بنیاد پر ہوگا کہ آدمی نےاپنی آزادی کا غلط استعمال کیا یا صحیح استعمال کیا۔ اس نے اپنے قول و عمل سے اپنے اندر جو شخصیت تعمیر کی، وہ جنت میں رہنے کے قابل ہے، یا اس میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے لیے پرابلم پرسن بنے، یا وہ لوگوں کے درمیان پر امن طور پر رہے۔ اسی حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2840) ۔ یعنی جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کی مانند ہوں ۔
واپس اوپر جائیں
اللہ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ رب العالمین ہے۔ربً یربًُ کا مطلب عربی زبان میں ہوتا ہے:إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام (المفردات فی غریب القرآ ن للراغب الأصفہانى، رب)۔ یعنی کسی چیز کو درجہ بدرجہ ترقی دے کر اس کوکمال تک پہنچانا۔ رب العالمین کی اس صفت کا اظہار مادی کائنات میں بھی ہوا ہے، اور انسانی تاریخ میں بھی۔
قرآن میں سات بار یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں (ستۃ ایام) میں پیدا کیا ۔ چھ دنوں سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں۔ قرآن سے یا سائنس سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ چھ ادوار سے مراد کیا ہے ۔ لیکن قیاسی طور پر اس کا ایک نقشہ بیان کیا جاسکتا ہے۔
1 - مادی کائنات کا غالبا پہلا دور وہ ہے جس کو قرآن میں اشارۃ رتق اور فتق (الانبیاء30:) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دریافت ہونے والےاس عظیم کائناتی واقعہ کو فریڈ ہائل ( Fred Hoyle) نےبگ بینگ کا نام دیا ہے۔ اس کے مطابق کائنات اپنے آغاز میں ایک بہت بڑے ایٹم (super atom) کی شکل میں خلا میں پیدا ہوا۔ پھر اس گولے میں ایک دھماکہ ہوا ۔ جس کے بعد اس گولہ کے تمام پارٹیکل وسیع خلا میں پھیل گئے اور دھیرے دھیرے موجودہ کائنات بنی۔
2 - دوسرا دور غالبا وہ ہے جس کو امریکی سائنسداں اَلَن بوس ( Alan Boss) نے لٹل بینگ کا نام دیا ہے۔یہ دور وہ ہے جو شمسی نظام (Solar System) سے شروع ہوا۔ یہ شمسی نظام ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ اس سے مراد وہ پوری دنیا ہے جس کو شمسی نظام کہا جاتا ہے۔اسی نظام کے اندر ہماری زمین (planet earth) واقع ہے۔
3 - مادی دنیا میں غالباًپیش آنے والا تیسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ کہا جاسکتا ہے۔ زمین کی فضا میں پائی جانے والی دو گیسوں کی ترکیب سے سیال پانی وجود میں آیا۔ جو زندگی کے تمام اقسام کی اصل ہے۔
4 - مادی کائنات کا چوتھا واقعہ وہ ہے جس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین کی سطح پر ہرقسم کی ہریالی وجود میں آئی۔ اور زمین کا خشک کرہ ہر قسم کی ہریالی کے وجود میں آنے سے سر سبز و شاداب ہوگیا۔
5 - اس کے بعد زمین پر وہ واقعہ وجود میں آیا جس کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔اس کے بعد زمین پر ہر قسم کے حیوانات وجود میں آئے، مثلاً مچھلی ، چڑیا، ہر قسم کے چوپائے، اور کیڑے مکوڑے، وغیرہ۔ایک اندازہ کے مطابق زمین پر زندہ انواع کی تقریبا 8.7 ملین قسمیں ہیں۔
6 - اس سلسلے میں وہ آخری واقعہ پیش آیا جس کو ہیومن بینگ (human bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی انسان کا پیدا ہونا، اور انسانی نسلوں کا زمین کے اوپر آباد ہونا۔ انسانی دور زمین کا آخری دور ہے ۔اس کے بعد جو دور آئے گا، وہ آخرت کا ابدی دور ہوگا۔
انسانی تاریخ
یہی معاملہ انسان کے ساتھ پیش آیا۔ اللہ رب العالمین جس طرح عالم مادی کی ربوبیت کررہا ہے، اسی طرح وہ انسانی تاریخ کو بھی مینج (manage) کر رہا ہے۔ تاکہ وہ درست سمت میں سفر کرتے ہوئے اپنی آخری مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی تاریخ کے سفر کے بنیادی طور پر چھ مراحل ہیں۔ یہ تاریخ انسانِ اول آدم سے شروع ہوئی، اور اب اکیسویں صدی میں وہ غالباً اپنے سفر کے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ یہ مراحل ممکن طور پر حسب ذیل ہیں — انبیاء کا دور، ابراہیمی منصوبے کا دور، خاتم النبیین کا دور، امت مسلمہ کا دور، مغربی اقوام کا دور،فائنل دور۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے اس کو سیارۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس طرح انسان کی تاریخ بننا شروع ہوئی۔ تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق،انسان کی آخری منزل جنت (Paradise) ہے۔ جنت گویا انسان کا ابدی ہیبیٹاٹ (eternal habitat) ہے۔ جنت وہ آفاقی جگہ ہے جہاں وہ لوگ ابدی طور پرر ہیں گے، جو موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو جنت کے لیے اہل (competent) ثابت کریں۔
تخلیقی منصوبہ کے مطابق، انسان کی زندگی دوادوار میں تقسیم ہے۔ موت سے پہلی کی دنیا اور موت کے بعد کی دنیا۔ موت سے پہلے کی دنیاگویا ایک تربیت گاہ (nursery) کی حیثیت رکھتی ہے، اور موت کے بعد کی دنیا اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ (habitat)ہے۔ جہاں اس کو کامل فل فِلمینٹ (fulfilment) کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ موجودہ دنیا انتخاب کی دنیا (selection ground) ہے، اور بعد کی دنیا وہ ہے جہاں منتخب افراد اپنے آئڈیل کے مطابق ابدی طور پر زندگی گزاریں گے۔
رہنمائی کا انتظام
اس تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان کے لیے ایک رہنمائی (guidance) کی ضرورت تھی۔ تاکہ یہاں پیدا ہونے والے عورت اور مرد صحیح راہ (right path) پر چلیں، اور غلط راہوں میں بھٹکنے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اس کے لیے خالق نے ہر نوعیت کا انتظام فرمایا۔ جولوگ اس انتظام سے رہنمائی لیتے ہوئے زندگی گزاریں، وہ یقینی طور پر غلط سمتوں میں بھٹکنے سے بچیں گے، اور اپنی زندگی کو فلاح کی زندگی بنانے میں کامیاب رہیں گے۔
رہنمائی کے معاملے میں خالق نے مختلف سطحوں پر اعلیٰ انتظام کیا ہے۔پہلی سطح فطرت کی سطح ہے۔ فطرت کی سطح پر انسان کو پیدائشی طور پر نیک اور بد کی تمیز(الشمس8:) عطا فرمائی ہے۔ انسان اگر اپنے شعور کو زندہ رکھے تو یقینا فطرت کی رہنمائی اس کے لیے کافی ہوجائے گی۔
دوسرا مرحلہ ارد گرد کی کائنات ہے۔ہمارے گرد و پیش جو مادی کائنات ہے، اس میں خالق نے ہر اچھی بات کے مادی نمونے (material illustrations) رکھ دیے ہیں۔ آدمی کا شعور اگر بیدار ہو تووہ اپنے گرد و پیش کی دنیا میں ہر دن اپنے لیے خاموش رہنمائی پاسکتا ہے۔
رہنمائی کی تیسری سطح یہ ہے کہ خالق نے ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اپنے پیغمبر بھیجے، جو لوگوں کو ان کی اپنی قابل فہم زبان میںفلاح کا راستہ بتاتے رہے۔ ساتویں صدی میں خالق نے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور ان کے ذریعہ سے رہنمائی کی مستند کتاب (authentic book) بھیج دی۔ پیغمبر آخر الزمان کے بعد یہ رہنمائی اس طرح جاری ہے کہ ایک طرف قرآن اور پیغمبر کا اسوہ لفظی رہنمائی کی صورت میں موجود ہے۔ اور دوسری طرف اللہ کی توفیق سے زندہ رہنما برابر اٹھ رہے ہیں۔
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إن اللہ یبعث لہذہ الأمة على رأس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4292)۔ یعنی بے شک اللہ اس امت کے لیےہر سو سال کے سرے پر ایسے افراد بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید (revival) کرتے رہیں گے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیغمبر کی آمد کا سلسلہ شخصی معنوں میں ختم ہوجائے گا، مگراس وقت بھی پیغمبرانہ رہنمائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ امت میں ایسے اہل علم افراد پیدا ہوتے رہیں گے جو اللہ کی توفیق سے امت اور عام انسانوں کو خدائی سچائی سے باخبر کرتے رہیں ۔ ان مجددین اور ان کے ساتھیوں کی درست کارکردگی کی یہ ضمانت ہوگی کہ لوگوں کو ہمیشہ یہ موقع حاصل رہے کہ ایسے ہر فرد کے کام کو قرآن و سنت کی روشنی میں جانچیں ، اور صرف اس رہنمائی کو قبول کریں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہو۔ جو رہنمائی قرآن و سنت کے معیار (criterion) پر نہ اترے اس کو رد کردیا جائے۔
اس تشریح کے مطابق ، انسانی تاریخ کا یہ سفر اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرکے وہ عمل کریں جو آخرت میں ان کے کام آنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر عورت اور مرد جو اس دنیا میں آتے ہیں، وہ فطری طور پر بہت سی خواہشات (desires) لے کر آتے ہیں۔ ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ ان خواہشوں کی تکمیل کرے، لیکن ہر انسان آخر میں محسوس کرتا ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود وہ فل فلمنٹ (fulfilment) سے محروم رہا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انسان کو اس کا اپناہیبٹاٹ (habitat) نہیں ملا۔
انسان دیکھتا ہے کہ اس دنیا میں چڑیوں کو ان کا ہیبٹاٹ ملا ہوا ہے، مچھلیوں کو ان کاہیبٹاٹ ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان اپنے ہیبٹاٹ سے محروم ہے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ ایک مکمل کائنات ہے۔اس دنیا میں ہر طرف کامل ڈیزائن (design) ہے، اس دنیا میں ہر طرف اعلی منصوبہ ہے، اس دنیا میں ہر طرف ذہانت کے نمونے ہیں۔ مگر انسان کا ہیبٹاٹ وسیع دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اس معاملے کو دیکھ کر ایک سائنسداں نے کہا تھاکہ بظاہر انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے، جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی:
It appears that the world was not made for him
انسان کا ہیبٹاٹ بظاہر اس دنیا میں ایک گم شدہ آئٹم (missing item) ہے۔ اب اگر آپ اس نظر سے قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دریافت کریں گے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو اس گم شدہ آئٹم کی نشاندہی کررہی ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو قرآن کے علمی مطالعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب عظمت قرآن، صفحات
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ سیارۂ ارض (planet earth) میں وہ تمام آئٹم موجود ہیں، جن کی خواہش انسان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ مگر یہ تمام خواہشیں غیر کامل حالت میں ہیں، کوئی بھی خواہش یہاں کامل حالت میں موجود نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے، اور وہاں کی تمام اعلیٰ چیزوں کا تجربہ کریں گے، تو وہ کہیں گےکہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو دنیا میں ملا تھا، اور جنت دنیا کی متشابہ (similar) ہوگی(البقرۃ:
اس پورے معاملے پر غور کیجیے تو آپ یہ دریافت کریں گے — خالق نے انسا ن کو ایک مکمل وجود کی حیثیت سے پیدا کیا اور اس کو موجودہ زمین پر بسایا۔ مگر انسان اور اس زمین کے اندر ایک عدم مطابقت تھی۔ وہ یہ کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے فل فلمنٹ چاہتا تھا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کو کوئی بھی چیز کامل فل فلمنٹ کے درجے میں حاصل نہیں ہے۔ اس دنیا میں جو چیزیں انسان کو ملتی ہیں، وہ صرف بقدر ضرورت ملتی ہیں۔ وہ انسان کو بقدر فل فلمنٹ نہیں حاصل ہوتیں۔ اس محرومی کی بنا پر انسان اس دنیا میں ماہی ٔ بے آب (fish without water) کی طرح تڑپتا ہے، اور اسی حال میں مرکر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
مطالعے کے مطابق، موجودہ کائنات ایک مکمل کائنات ہے، اس میں کوئی نقص موجود نہیں۔ قرآن (الملک3:)بھی دعویٰ کی زبان میں کہتا ہے کہ اگر تم اس کائنات کا مطالعہ کرو تو تم پاؤگے کہ یہ ایک بے نقص کائنات (flawless universe) ہے۔ آپ کا مطالعہ ایک طرف یہ بتائے گا کہ موجودہ دنیا میں بظاہر انسانی تقاضے کے تمام آئٹم موجود ہیں، مگر یہ تمام آئٹم یہاںنامکمل حالت میں ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے باوجود انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو اپنے فطری تقاضوں کاکامل فل فلمنٹ نہیں ملا۔ قرآن کی روشنی میں آپ کا مطالعہ بتائے گاکہ انسان کا اصل ھیبٹاٹ تو موت کے بعد دوسری زندگی میں ہے، جو ابدی بھی ہے اور کامل بھی۔ موجودہ دنیا میں خالق نے بطور رحمت خاص ایساکیا ہے کہ انسان کے اصل ہیبٹاٹ کا ایک تعارفی ماڈل (introductory model) رکھ دیا ہے۔ تاکہ انسان موت سے پہلے کے دورِ حیات میں موت کے بعد آنے والے دورِ حیات کا ابتدائی تعارف حاصل کرسکے، اور پھر اس کے مطابق اپنی ابدی زندگی کی تعمیر کرے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کی تاریخ ، اپنے آغاز کے بعد تقریباً ہزار سال تک smoothly چلتی رہی۔ اٹھارویں صدی عیسوی سے اس میں خلل واقع ہوا۔ اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حدیث کے الفاظ میں مسلمانوں کے اندر سیف (sword) داخل ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں سارا معاملہ جیوپرڈائز (jeopardize)ہوگیا۔ یہ سلسلہ اکیسویں صدی کے فرسٹ کوارٹر تک جاری ہے۔
امام مالک نے اپنے استاد صالح بن کیسان کے حوالے سے کہا تھا کہ اس امت کا آخری حصہ بھی اسی طریقہ کو follow کرنے سے درست ہوگا جس طریقے کو follow کرنے سے اس کا ابتدائی حصہ درست ہوا تھا (مسند الموطا للجوہری، اثر نمبر
یہ منہج السلف کیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عہد رسالت کے بعد اسلامی تاریخ میں عہد خلافت آیا۔ یہ دور اسلام میں گولڈن پیریڈ تھا۔ یہ دور تقریباً چالیس سال تک جاری رہا۔ یہ دور شوریٰ (الشوریٰ
ایک اعتبار سے یہی منہج السلف تھا۔ سلف نے ایسا کیوں کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ خاندانی حکومت کے تحت ایک چیز قائم ہوگئی جو عملاً حکومت کا اصل مقصد ہے۔ اس مقصد کو قرآن میں تمکین فی الارض(الحج
خاندانی نظام حکومت کے تحت جب سیاسی استحکام قائم ہوا تو پیس(peace) اور نارملسی (normalcy) قائم ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں تمام دینی کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہونے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ قرآن محفوظ ہوا، حدیث کی جمع و تدوین ہوئی، فقہ سے متعلق سارے کام انجام پائے، اسلامی علوم کی تمام بنیادی کتابیں لکھی گئیں۔ مسجد اور مدرسہ اور حج کا نظام قائم ہوا۔ اسلام کی دعوت و اشاعت مسلسل طور پر جاری رہی، وغیرہ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد اسلام میںملوکیت آگئی، ان کا کہنا بلاشبہ غلط ہے۔ اس لیے کہ مسئلہ ظاہری ڈھانچے کا نہیں ہے، بلکہ معنوی پہلو کا ہے۔ حکومت سے اصل مقصود کسی ظاہری ڈھانچے کو قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ استحکام (stability) قائم کرنا ہے۔ کیوں کہ جب استحکام کی حالت قائم ہوجائے تو ہر قسم کا تعمیری کام کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کو قائم ہونے والا وہ دور جس کو خاندانی دور حکومت کہا جاتا ہے، تمام علمائے سلف نے قبول کرلیا، بلکہ اسی زمانے میں یہ مسئلہ بنا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔
اسلام میں اصل اہمیت مقصد کی ہے، نہ کہ ڈھانچے کی۔ ڈھانچہ خواہ کوئی بھی ہو، اگر شریعت کا مقصد حاصل ہورہا ہے تو اس ڈھانچے کو درست کہا جائے گا۔مقاصد شریعت کی فہرست میں خودساختہ اضافہ کرکے اگر کوئی شخص کہے کہ شریعت کا فلاں مقصد حاصل نہیں ہورہا ہے تو یہ نظام ملوکیت کا نظام ہے، نہ کہ اسلام کا مطلوب نظام ۔ تو اس کا ایسا کہنا قابل قبول نہ ہوگا۔ کیوں کہ مقاصد شریعت میں استنباطی اضافہ کرنا، بذات خود ناقابل قبول ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ناریل کا درخت پورا کا پورا ایک عجیب قسم کا قدرتی کارخانہ ہے۔ اس کی ہر چیز مفید اور کار آمد ہے۔ ناریل کے درخت کی صفات اگر بیان کی جائیں تو پورا سفرنامہ اسی سے بھر جائے۔ ناریل کے جس خول کے اندر اس کا پانی رہتا ہے اس کی پیکنگ حیرت انگیز حد تک بامعنٰی ہوتی ہے۔ کئی تہہ کے اندر یہ پانی ہوتا ہے۔ اس کے اوپر کا خول نہایت سخت ہوتا ہے۔ وہ بہت مشکل سے ٹوٹتا ہے۔ مگر اس نہایت سخت خول کے سرے پر حیرت انگیز طورپر ایک نرم سوراخ ہوتا ہے جو نہایت آسانی سے کھل جاتا ہے اور اس کے ذریعہ پانی نکال کر پیا جاسکتاہے۔ یہ سوراخ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک عاقل اور باشعور ہستی ہے۔ اس سوراخ میںجو حکمت ہے وہ باشعور خالق کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں
جو اہل ایمان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر تھے، جن کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام سے ملاقات کریں، اور براہ راست طور پر آپ سے دین کی تعلیم حاصل کریں، ان کو صحابہ یا اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ اصحاب رسول کا یہ گروہ زیادہ تر قدیم عرب سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کی تعداد عورت اور مرد کو ملا کرتقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ معلوم طور پر ابو الطفیل عامر بن واثلہ کنانی آخری صحابی رسول تھے ۔ ان کی وفات غالباً 100 ھـ میں مکہ میںہوئی۔
تاہم پیغمبر اسلام کی ایک توسیعی صحبت (extended companionship)وہ ہے، جس کو نظریاتی صحبت کہا جاسکتا ہے۔ صحبت کی یہ نسبت بعد کےز مانے میں بھی بدستور جاری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو محمد بن عبد اللہ کو رسول کی حیثیت سے دوبارہ دریافت کریں۔ جو آپ کی سنت کو اور آپ کے مشن کو اپنی زندگی میں کامل طور پر اپنائیں۔ یہ معاملہ ان کے لیے اتنا بڑا کنسرن (concern)بن جائے کہ وہ ہمیشہ اس سوچ میں رہیں کہ رسول اللہ کا طریقہ حقیقۃً کیا تھا، آپ نے اپنا مشن کس طرح چلایا۔ جو لوگ پیغمبر اسلام کو اس طرح اپنا کنسرن بنائیں، اور اپنی سوچ میں پیغمبر اسلام کو شامل کریں، وہ گویا کہ فکری اور نظری اعتبار سے رسول اللہ کی صحبت میں جی رہے ہیں۔ وہ آج بھی رسول اللہ کے فیض سے اپنا حصہ پارہے ہیں۔ وہ گویا کہ پیغمبر کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اس کو دیکھ رہے ہیں، وہ گویا کہ پیغمبر کی صحبت میں نہ ہوتے ہوئے بھی پیغمبر کی صحبت کا فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ نظریاتی معنوں میں اصحاب رسول کے گروہ میں شامل ہوئے۔
عملی معنوں میں صحبت رسول کی نسبت صرف ان لوگوں کو ملی جو آپ کے ہم زمانہ تھے۔ لیکن نظریاتی معنوں میں صحبت رسول کی نسبت ان شاء اللہ ان لوگوں کو بھی ملے گی، جو پیغمبر اسلام کو اپنا کنسرن بنائیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مطالعہ اور غور وفکر کے ذریعے پیغمبر کو دوبارہ دریافت کریں گے، اور نظریاتی معنوں میں وہ صحابیٔ رسول قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
عبداللہ بن وابصہ العبسی اپنے باپ سے اپنے دادا کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں ہماری قیام گاہ پر منیٰ میںآئے۔ ہم جمرۂ اولیٰ پر مسجد الخیف کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ اپنے اونٹ پر تھے اور اپنے پیچھے زید بن حارثہ کو بٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے ہم کو توحید کی طرف دعوت دی۔ خدا کی قسم، ہم نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا اور ہم نے اچھا نہیں کیا۔ہم آپ کے بارے میں سن چکے تھے اور یہ بھی سن چکے تھے کہ آپ حج کے موسم میں لوگوں کو اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پاس کھڑے ہوکر ہمیں دعوت دیتے رہے اور ہم چپ چاپ سنتے رہے۔اس وقت ہمارے ساتھ میسرہ بن مسروق العبسی بھی تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگرہم اس آدمی کی تصدیق کریں اور اس کو لے جاکر اپنے قافلہ کے بیچ ٹھہرائیں تو یہ بڑا اہم فیصلہ ہوگا۔ خدا کی قسم، اس کا دین غالب ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ قبیلہ کے لوگوں نے کہا کہ اس کو چھوڑو، تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جس کو ہم میں سے کوئی ماننے والا نہیں۔
یہ بات سن کر رسول اللہ میسرہ کے بارے میں پُر امید ہوگئے۔ آپ نے ان سے مزید گفتگو کی۔ میسرہ نے جواب دیا کہ آپ کا کلام کتنا اچھا اور کتنا روشن کلام ہے۔ لیکن اگرمیں اس کو مان لوں تو میری قوم میری مخالف ہوجائے گی۔ اور آدمی ہمیشہ اپنی قوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ قوم اگر مدد نہ کرے تو دشمنوں سے مدد کی کیا امید کی جاسکتی ہے ۔( السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،
سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی قوم کی روش کے خلاف ایک روش اختیار کرے۔ وہ اپنی قوم کے عام مزاج کے خلاف کام کرے۔ وہ ایسی بات کہے جو قوم کے وقار سے ٹکراتی ہو۔ وہ ایسی پالیسی کی تبلیغ کرے جو قومی پالیسی سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ایساآدمی اپنی قوم سے کٹ جاتاہے۔ وہ خود اپنوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
جب کوئی بات آدمی کی پسند کے خلاف پیش آتی ہے تو ایسے موقع پر لوگ فوراً ردّ عمل (reaction) کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ غلطی پر غلطی کا اضافہ ہے۔ جب آپ ناپسندیدہ بات پر ردّعمل (reaction) کا اظہار کریں تو اس کے بعد ہمیشہ جوابی ردّعمل پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح ردّ عمل کا سلسلہ قائم ہوجاتا ہے۔ یعنی چین ری ایکشن (chain reaction) ۔ اجتماعی زندگی میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آپ ہر قیمت پر چین ری ایکشن سے اپنے آپ کو بچائیں، اور پھر آپ کی زندگی پرسکون زندگی بن جائے گی۔
یہ ایک حکمت کی بات ہے۔ اس حکمت کا تعلق فرد کی زندگی سے بھی ہے، اور اجتماع کی زندگی سے بھی۔ خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو پہلی غلطی سے نہیں بچاتے، اور جب آپ پہلی غلطی کردیں تو اس کے بعد لازماً دوسری غلطی وجود میں آئے گی، اور پھر ایسا ہوگا کہ چین ری ایکشن کا سلسلہ قائم ہوجائے گا۔ جو صرف تباہی کی حد پر جاکر ختم ہوگا۔
مسلم قومیں تقریباً دو سو سال سے نفرت اور تشدد کا شکار ہیں۔ اس کا سبب کوئی خارجی دشمن نہیں ہے، بلکہ خود مسلم قوموں میں اعلیٰ حکمت (high wisdom) کی کمی ہے۔ ہر جگہ یہی ہورہا ہے کہ لوگ پہلی غلطی کرکے چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت پیدا کردیتے ہیں، اور جب چین ری ایکشن ایک بار وجود میں آجائے تو اس کے بعد وہ نان اسٹاپ جاری رہتا ہے۔ چین ری ایکشن کو پہلے مرحلے میں روک دیجیے، تو اس کے بعد سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوجائے گا، لیکن اگر آپ ایسا نہ کریں تو اس کے بعد لازماً یہی ہوگا کہ چین ری ایکشن شروع ہوجائے گا، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ حتی کہ اگر لوگ عملی طور پر اس کے قابل نہ رہیں تو وہ سوچ کی سطح پر اس برائی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آخری تباہی سے پہلے کبھی یہ برائی ختم نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ایک مصنف نے لکھا ہے— وقت اور سمجھ دونوں اکثر ایک ساتھ نہیں آتے۔ جب وقت آتا ہے تو سمجھ نہیں ہوتی ہے، اور جب سمجھ آتی ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں تاکہ وقت آئے تو آپ اس وقت کو استعمال کرنا جانیں۔یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ قابل عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیشگی طور پر باتوں کو سمجھ نہیں سکتا، وہ تجربہ کے ذریعہ سیکھتا ہے۔ یعنی نقصان پہلے آتا ہے، اور عقل اس کے بعد آتی ہے۔ پہلے آدمی کچھ کھوتا ہے، اس کے بعد وہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو پانے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ انسان پہلے اپنے اندازہ(assessment) کی غلطی کا تجربہ کرتا ہے، اور اس کے بعد وہ اس فن کو جانتا ہے کہ صحیح اندازہ کا اصول کیا ہے۔
اس لیے موجودہ دنیا میں کامیابی کاراز یہ نہیں ہے کہ آدمی غلطی نہ کرے۔ بلکہ کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی سے سبق حاصل کرے۔اس اعتبار سے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی نے اگر پہلے موقع کو کھویا ہے تو وہ اپنا نیا منصوبہ زیادہ بہتر انداز پر بنائے تاکہ وہ دوسرے موقع کو نہ کھوئے۔ اسی اصول کا نام پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان پہلے موقع کو ضرور کھوتا ہے۔ دانش مند آدمی وہ ہے جو پہلے کھونے سے تجربہ حاصل کرے اور پھرزیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ وہ دوسرے موقع کو حاصل (avail)کرسکے۔
وزڈم کی دو صورتیں ہیں۔ آئڈیل وزڈم (ideal wisdom) اور پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)۔ آئڈیل وزڈم اپنی ذات کے لیے درست ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں آئڈیل وزڈم قابل حصول نہیں۔ اس لیے زندگی کے لیے صحیح اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کے معاملے میں آئڈیل وزڈم کو اپنائے، لیکن جب معاملہ اجتماعی زندگی کا ہو تو وہ پریکٹکل وزڈم پر راضی ہوجائے— صبر دراصل اسی پریکٹکل وزڈم کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
ٹرگر (trigger)گن کا ایک پرزہ ہے، جس کو دبانے سے گن (gun)کا نظام نہایت تیزی کے ساتھ متحرک ہوجاتا ہے۔ اسی سے اس کا استعمال ذہن کے لیے ہونے لگا۔یعنی فلاں واقعہ نے آدمی کے مائنڈ کو ٹرگر کردیا۔ انسا ن کے اندر بڑی سوچ یا انقلابی سوچ ہمیشہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ اس کا ذہن (mind) کسی واقعہ سے ٹرگر ہوجائے۔
مائنڈ ہر آدمی کے پاس ہوتا ہے، لیکن ہر آدمی کا مائنڈ ٹرگر نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مائنڈ کے ٹرگر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا ذہن تیارذہن (prepared mind) ہو۔ جس آدمی کے اندر تیار مائنڈ ہو، اسی کے ساتھ یہ واقعہ ہو گا کہ کسی تجربہ کے پیش آنے پر اس کا مائنڈ ٹرگر ہوجائے، اور اس کے اثر سے وہ کوئی بڑا کام کرڈالے۔
مثال کے طور پر مہاتما گاندھی 1893 میں بحری سفر کرکے بمبئی سے ساؤتھ افریقہ پہنچے۔ اس وقت ساؤتھ افریقہ میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ سخت سردی کے موسم میںرات کےوقت ان کو پیٹرمارتسبرگ( Pietermaritzburg) اسٹیشن پر زبردستی اتاردیا گیا۔ اِس واقعہ سے مہاتما گاندھی کا مائنڈ ٹرگر ہوگیا۔ انھوں نے خود لکھا ہے کہ اس واقعہ نے میری زندگی کا اگلا کورس متعین کردیا۔ چناں چہ وہ انڈیا واپس آئے، اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں انقلابی رول ادا کیا۔
آدمی کوئی بڑا کام اس وقت کر پاتا ہے جب کہ اس کا مائنڈ ٹرگر ہوجائے۔ لیکن مائنڈ کا ٹرگر ہونا، ایک ایسا واقعہ ہے جو صرف ایک تیار ذہن کے ساتھ پیش آتا ہے۔ جس آدمی کا ذہن تیار ذہن نہ ہو ، اس کو تجربات پیش آئیں گے لیکن اس کا مائنڈ ٹرگر نہ ہوگا۔ اس بنا پر وہ کوئی بڑا کام بھی نہ کرسکے گا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو زندگی میں چیلنج کا پیش آنا ایک رحمت معلوم ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ذہنی ارتقا (intellectual development) ہر آدمی کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ذہنی ارتقا کے بغیر آدمی عملاً حیوانیت کی سطح پر رہتا ہے۔ وہ انسانیت کے اعلی درجے تک نہیں پہنچتا۔ ذہنی ارتقا کا معیار کیا ہے۔ ذہنی ارتقا کا معیار یہ ہے کہ آدمی کے اندر علمی مزاج (scientific temper) پیدا ہوجائے۔ وہ چیزوں کی صحت کو اپنے ذوق سے پہچان سکے۔
اصل یہ ہے کہ فزیکل سائنس میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ریاضی کے اصول پر کسی چیزکی صحت کو معلوم کیا جاسکے۔ لیکن علوم انسانی (humanities) میں چیزوں کو جانچنے کے لیے اس قسم کا کوئی حتمی معیار ممکن نہیں ہوتا۔ یہاں کسی اہل علم کے لیے جو چیز فیصلہ کن بنتی ہے وہ آخری طور پر اس کا اپنا سائنٹفک ٹمپر ہوتا ہے:
There are no established methods for determining the truth or falsity of a non-factual claim.
آدمی اگر سچے معنوں میں طالب حق ہو ، اور وہ غیر متعصبانہ انداز میں باقاعدہ طور پر زیر بحث موضوع کا مطالعہ کرے تو اس کے اندر وہ ذوق پیدا ہوجائے گا جس کو فرقان (criterion) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے اعلی ذوق کی بنا پر یہ پہچان لے گا کہ حقیقی (factual) کیا ہے، اور غیر حقیقی (non-factual) کیا ہے۔ اسی پہچان کو سائنٹفک ٹمپر کہا جاتا ہے۔
ایسا آدمی ہمیشہ متعلقہ موضوع کا مطالعہ کرے گا، لیکن اکثر حالات میں اس کامطالعہ صرف اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اپنے اعلیٰ ذوق کی بنا پر اس نے جو رائے درست سمجھی تھی، وہ باعتبار حقیقت بھی درست ہے۔ کوئی علمی کام کرنے کے لیے آدمی کے اندر اس قسم کا سائنٹفک ٹمپر ضروری ہے۔ یہ علمی ذوق آدمی کے لیے اس کے مطالعے میں اس کا رہنما بن جاتا ہے۔ وہ اپنے اس داخلی ذوق کی بنا پر فکری بھٹکاؤ سے بچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
■ بہار اردو اکادمی، پٹنہ کے کانفرنس ہال میں20 مئی 2017 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس کا عنوان تھا: قومی اتحاد، اور ہماری ذمہ داری۔ اس موضوع پر مسٹر ابو الحکم دانیال صاحب (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجیکٹو اسٹڈیز، بہار و جھار کھنڈ، رابطہ نمبر 9852208744) نے خطاب کیا، اور سوال و جواب بھی ہوا۔ پروگرام کے بعد تمام شرکاء کو ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ بہار و جھارکھنڈ میں الرسالہ مشن سے وابستہ ہونے کے لے مذکورہ نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
■ دور درشن چینل کےنمائندہ مسٹر مالک اشترنے صدر اسلامی مرکز کا
■ جمشید پور کی سی پی ایس ٹیم نے 30 مئی 2017 کو جے آر ڈی ٹا ٹا اسٹیڈیم کا دورہ کیا، اور وہاں پر موجود کوچ، کھلاڑی اور دیگر لوگوں کو ترجمۂ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر دیے گئے۔ تمام لوگوں نے شکریہ ادا کیا۔
■
■ کوڈلور (تامل ناڈو) کےایک مقام منگلم پٹائی میں مسلم ہائی اسکول ہے۔ اس کےپرنسپل مسٹر اوتھیراپتی (Uthirapathi) ایک ہندو ہیں۔ انھوں نے2 جون 2017 کو اپنے طلبہ کو ساتھ لے کر قصبہ کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد گڈورڈ بکس سے چھپا ہوا تامل ترجمۂ قرآن اور دیگر تامل لیف لیٹس نمازیوں کے درمیان تقسیم کیا۔
■ خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کی کوششوں سے 7 جون 2017 کو مشرقی امریکا کے شہر لاس ویگاس میں 2500 اسپینش ترجمۂ قرآن اور 3000 انگلش ترجمۂ قرآن کی کاپیاںپہنچائی گئیں۔یہ شہر گیمبلنگ کے لیے مشہور ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب نےایک مقامی مسجد الحراء کے امام ڈاکٹر روح الامین صاحب اور مسٹر جمی وہائٹ ہیڈ (عہدہ میئر کے مسلم امیدوار) سے ملاقات کرکے ان کو اس پر راضی کیا کہ وہ وہاں قرآن کی تقسیم کو یقینی بنائیں۔
■ 20 تا
■ 2 جولائی 2017 کو انڈین ینگ مسلم سوشل گروپ (اسماعیل پورہ، کامٹی)نے میمن ہال میں عید ملن کا انعقاد کیا تھا۔ اس تقریب میں مسٹر چندر شیکھر کرشنا راؤباونکولے (انرجی و ایکسائزوزیر، حکومت مہاراشٹر) کو مہمان خصوصی کے طور پرمدعو کیا گیا تھا۔ جناب ایم اے وحید (سی پی ایس ممبرناگپور و کامٹی ) نے ان کومراٹھی قرآن اور مراٹھی زبان میں دوسرے دعوتی لٹریچر پیش کئے۔ انھوں نے ان کو بہت ہی خوشی کے ساتھ قبول کیا، اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب مجھے اتنا قیمتی تحفہ ملا ہے۔ میں انھیں پہلی فرصت میں فلائٹ کے اندر پڑھوں گا۔
■ 8 اور 9 جولائی 2017 کو سی پی ایس ( ممبئی) نےسی پی ایس علماء ٹیم کے ساتھ امراوتی اور وروڈ کا دعوتی دورہ کیا۔ اس درمیان مختلف لوگوں سے دعوتی ملاقاتیں ہوئیں، اور ایک اسکول میں ٹیچروں کے ساتھ ایک پروگرام ہوا۔
■ 10 جولائی 2017 کی ڈاکٹر حسین مڈور (کیرلا) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ وہ صدر اسلامی مرکز کی تحریرں کو پڑھتے ہیں اور کافی متاثر ہیں۔ موصوف اس سے پہلے صدر اسلامی مرکزکو کیرالا بلاکر اپنے پروگرام میں ان کی میزبانی کرچکے ہیں۔
■
■
■
■ افغان ایمبسی نے اپنے ماہانہ نیوز لیٹر میں درج بالا خبر کو شائع کیا تو نیشنل ہیرالڈ کے رپورٹر مسٹر دھیریا مہیشوری نے ذیل کا ای میل لکھا اور صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹر ویو لیا:
I am trying to do a feature story on Maulana Sb's efforts in helping tackle radicalisation in Afghanistan. I have been informed that the Afghanistan government wants Maulana Sb to be involved with the youth of the country and guide them in the right direction. I was hoping to meet him sometime early next week and be able to get a bit of background on the development. I believe he has extensive experience in helping the youth of Kashmir. But Afghanistan, with its various tribal factions, may present a different challenge altogether. I would like to explore how he plans on going about this new venture of his. It would be much appreciated if I could be connected to him. Looking forward to hearing from you. (Dhairya Maheshwari, National Herald, New Delhi)
■
■ کشمیر میں ناسازگار حالات کے باوجود حمید اللہ حمید اور ڈاکٹر مسعود صاحبان کی سرکردگی میں دعوتی کوششیں جاری ہیں۔
■
■
■ مز فرح ایمان، صوفیہ یونیورسٹی (Sophia University) اٹلی، سے اسلام اور عیسائیت میں انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ اپنی پی ایچ ڈی کے لئے وہ جن اسکالرس کا مطالعہ کررہی ہیں، ان میں صدراسلامی مرکز بھی ہیں۔
■ 5 اگست 2017 کو ٹائمس آف انڈیا نے کوکیلابین دھیروبھائی امبانی ہاسپٹل (ممبئی)کے اشتراک سے ہاسپٹل میںآرگن ڈونیشن کے موضوع پر ایک سمینار کا انعقاد کیا۔ اس میں سی پی ایس دہلی کی ممبر مس ماریہ خان نے اسلام کی نمائندگی کی ، اوراسلام میں آرگن ڈونیشن کی اہمیت پر ایک لکچر دیا۔ یہ پروگرام لائیو ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ اس پروگرام میں ممبئی سی پی ایس ٹیم بھی شریک ہوئی، اور شرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن و دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
■ مس ڈیزی خان (امریکا) نے مسلمانوں میں شدت پسندی کو ختم کرنے کی غرض سے ایک کتاب:وائزاپ (Wiseup) کے نام سے ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے 60 علماء کے مضامین شامل کئے ہیں۔ ان میں صدر اسلامی مرکز کا مضمون ‘ہو از پرافٹ محمد؟’ بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں وہ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے 6 اگست 2017 کو نظام الدین ویسٹ آئی تھیں۔ یہاں انھوں نے مسلمانوں کے اندر موجود تشدد پسندی کو ختم کرنے پر گفتگو کی۔ آخر میں ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ سی پی ایس سہارنپور (رابطہ نمبر 9997153735)نے 6 اگست 2017 کوعلی گڑھ ہندو مہا سبھا آفس کا دورہ کیا، اور اس کے ذمہ داران بشمول چیئر پرسن مس پوجا سے ملاقات کرکے ان کو ترجمۂ قرآن، اسپرٹ آف اسلام، ریالٹی آف لائف اور دوسری کتابیں تحفہ میں دیں۔ ان لوگوں نے بہت خوشی سے یہ تحفہ قبول کیا ۔
■ 8 تا 10 اگست 2017 کو ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ (حیدرآباد) نے سہ روزہ بین المذاہب مکالمے کا انعقاد کیا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے مدعو تھے۔ سی پی ایس حیدرآباد نے اس میں اسلام کی نمائندگی کی۔ تقریر کے بعد ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے گیے۔ شرکاء میں موجود فادر فرانسس (چٹاگانگ، بنگلہ دیش) صدر اسلامی مرکز کی تحریر سے کافی متاثر ہیں۔ انھوں نے امن اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے والی کتابوں کی فرمائش کی تاکہ ان کا مقامی زبان میں ترجمہ کرکے ان کو برما اور بنگلہ دیش کے تشدد زدہ علاقوں میں پھیلایا جائے۔
■
■
■ مسٹر آر بی گپتا، چارج مین، آرڈیننس فیکٹری، ناگپور، کو اتفاقاً قرآن کا ایک میسج ، جس میں اخلاق کی تعلیم کا حکم تھا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے ناگپور ٹیم کے مسٹر سہیل انجم سے یہ درخواست کی کہ ان کو ہندی ترجمۂ قرآن دیا جائے تاکہ وہ ان کو پڑھیں۔ ان کو ترجمہ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر بطور تحفہ دیا گیا، جس کا انھوں نے تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔(مسٹر عرفان رشیدی، ناگپور)
■ برما سے ملنے والی خبروں کے مطابق، حافظ شوکت صاحب برما کے اندر دعوتی مہم میں کافی سرگرم ہیں ،انہوں نے اپنے ذاتی خرچ ،دولاکھ کیات (برمی کرنسی)کی لاگت سے گاڈ ارائزز کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا ہے ، اور اب یہ کتاب پریس میںجانے والی ہے۔ پازیٹو تھنکر فورم، بنگلورو سے ہرماہ ان کواسپرٹ آف اسلام کی 40کاپیاں اور الرسالہ کی 30 کاپیاں جارہی ہیں ۔جنا ب عبدالعزیز (وکیل صاحب) کےنگرانی میں یہ سارا کام چل رہا ہے۔(محمد عبد اللہ برمی، پازیٹو تھنکر فورم، بنگلورو)
■ My husband is currently incarcerated and the institution he is in is in need of Quran. They have a population of about 40-50 individuals practicing Islam. We would greatly appreciate if you can make available to them as many Quran copies as possible. You can send them to the Chaplain at: Institution Chaplain Lin, ASP Fort Grant Unit,
■ Recently I met a gentleman on a flight to Mumbai. He was seated next to me on the plane. During the flight, I offered the Quran and a pamphlet titled The Purpose of Life to him. He graciously accepted them and when he saw Maulana Wahiduddin Khan’s name on the pamphlet, he said he reads his writings in the Speaking Tree column of The Times of India. He said the Maulana was very different from other religious scholars. His writings, he said, were rational, liberal and had a holistic perspective. I told him about the Maulana’s foundation, the Center for Peace and Spirituality, and about our activities at the foundation. He wished us his best wishes for our good endeavour! (Sufia Khan, New Delhi)
■ Maulana Sahib, Jazakallah for a great lecture on the topic Realization of God. I learned from you that we need to be honest, sincere and serious to be able to find God. This is self-discovered truth. God is the Designer of this great universe and we should be able to perceive God from His creations (sun, galaxy, and earth and the precise structure of objects and the interconnecting processes). When we realize all this mind-boggling reality through deep contemplation, then God becomes our sole concern and then we can say,“God, please grant me a home near you!” (Kouser Izhar, New Jersey, US)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.