حج اسلام کی ایک نہایت اہم سالانہ عبادت ہے۔ وہ قمری کلنڈر کے آخری ماہ ذو الحجہ میں ادا کیا جاتاہے۔ حج کی عبادت کے مراسم بیت اللہ (مکہ) میں یا اس کے آس پاس کے مقامات پر ادا کیے جاتے ہیں جو عرب میں واقع ہے۔ اس عبادت کو تمام عبادت کا جامع کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس میںہر قسم کے عبادتی پہلو پائے جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک اجتماعی پہلو بھی ہے۔ حج کی عبادت میں اجتماعیت کا پہلو بہت نمایاں طو پر موجود ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا (1984) میں حج کی تفصیل دیتے ہوئے یہ جملہ لکھاگیا ہے:
About 2,000,000 persons perform the Hajj each year, and the rite serves as a unifying force in Islam by bringing followers of diverse background together in religious celebration. (V.IV, p.
تقریباً دو ملین آدمی ہر سال حج کرتے ہیں اور یہ عبادت مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو ایک مذہبی تقریب میں یکجا کر کے اسلام میں اتحادی طاقت کا کام کرتی ہے۔
قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا(
حج کی عبادت کے لیے ساری دنیا کے مسلمان آتے ہیں۔ ان کی تعداد سالانہ تقریباً 2 ملین ہوجاتی ہے۔ حج کے موسم میں مکہ اور اس کے آس پاس ہر طرف آدمی ہی آدمی دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ان کے حلیے الگ الگ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں آنے کے بعد سب کی سوچ ایک ہوجاتی ہے۔ سب ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ حج کے دوران وہ ان کی تمام توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ اس طرح حج ایک ایسی عبادت بن جاتا ہے جو اپنے تمام اعمال اور تقریبات کے ساتھ انسان کو اجتماعیت اور مرکزیت کا سبق دے رہا ہے۔
حج کی تاریخ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ دونوں ہستیاں وہ ہیں جن کو نہ صرف مسلمان خدا کا پیغمبر مانتے ہیں بلکہ دوسرے بڑے مذاہب کے لوگ بھی ان کو عظیم پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے عمل کو تاریخی طور پر تقدس اور عظمت کا وہ درجہ مل گیا ہے جو دنیا میں کسی دوسرے عمل کو حاصل نہیں۔
حضرت ابراہیم قدیم عراق میں پیدا ہوئے۔ حضرت اسماعیل ان کے صاحبزادے تھے۔ اس وقت عراق ایک شاندار تمدن کا ملک تھا۔ آزر حضرت ابراہیم کے والد اور حضرت اسماعیل کے دادا تھے۔ ان کو عراق کے سرکاری نظام میں اعلیٰ عہد یدار کی حیثیت حاصل تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے لیے عراق میں شاندار ترقی کے اعلیٰ مواقع کھلے ہوئے تھے۔ مگر عراق کے مشرکانہ نظام سے وہ موافقت نہ کرسکے۔ ایک خدا کی پرستش کی خاطر انہوں نے اس علاقہ کو چھوڑ دیا جو کئی خداؤں کی پرستش کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ عراق کے سرسبز ملک کو چھوڑ کر عرب کے خشک صحرا میں چلے گئے جہاں کی سنسان دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ تھی۔ یہاں انہوں نے ایک خدا کے گھر کی تعمیر کی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عمل کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کئی خداؤں کو اپنا مرجع بنانے کے بجائے ایک خدا کو اپنا مرجع بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے بیت اللہ (کعبہ) کی تعمیر کی جو خدائے واحد کی عبادت کا عالمی مرکز ہے۔ یہی مرکز توحید حج کے مراسم کی ادائیگی کا مرکز بھی ہے۔
حج کی عبادت میں جو مراسم ادا کیے جاتے ہیں ان کے بعض پہلوؤں کو دیکھیے۔ حج کے دوران حاجی سب سے زیادہ جو کلمہ بولتا ہے وہ یہ ہے:
لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمة لک والملک، لا شریک لک ۔ ( حاضر ہوں خدایا، میں حاضر ہوں۔ حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے، اور بادشاہی بھی، تیرا کوئی شریک نہیں۔)
حاجی کی زبان سے بار بار یہ الفاظ کہلوا کر تمام لوگوں کے اندر یہ نفسیات پیدا کی جاتی ہے کہ بڑائی صرف ایک اللہ کی ہے۔ اس کے سوا جتنی بڑائیاں ہیں سب اس لیے ہیں کہ وہ سب اسی ایک عظیم تر بڑائی میں گم ہو جائیں۔ یہ احساس اجتماعیت کا سب سے بڑا راز ہے۔ اجتماعیت اور اتحاد ہمیشہ وہاں نہیں ہوتا جہاں ہر آدمی اپنے کو بڑا سمجھ لے۔ اس کے برعکس جہاں تمام لوگ کسی ایک کے حق میں اپنی انفرادی بڑائی سے دست بردار ہو جائیں وہاں اتحاد اور اجتماعیت کے سوا کوئی اور چیز پائی نہیں جاتی ۔ بے اتحادی بڑائیوں کی تقسیم کا نام ہے اور اتحاد بڑائیوں کی وحدت کا۔
اسی طرح حج کا ایک اہم رکن طواف ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جو حج کے موسم میں مکہ میں جمع ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا عملی اقرار ہے کہ آدمی اپنی کوششوں کا مرکز و محور صرف ایک نقطہ کو بنائے گا۔ وہ ایک ہی دائرہ میں حرکت کرے گا۔ یہ عین وہی مرکزیت ہے جو مادی سطح پر نظامِ شمسی میں نظر آتی ہے۔ نظام شمسی کے تمام سیارے ایک ہی سورج کو مرکزی نقطہ بنا کر اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اسی طرح حج یہ سبق دیتا ہے کہ انسان ایک خدا کو اپنا مرجع بنا کر اس کے دائرے میں گھومے۔
اس کے بعد حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ وہ صفا سے مروہ کی طرف جاتا ہے اور پھر مروہ سے صفا کی طرف لوٹتا ہے۔ اس طرح وہ سات چکر لگاتا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں اس بات کا سبق ہے کہ آدمی کی دوڑ دھوپ ایک حد کے اندر بندھی ہوئی ہونی چاہیے۔ اگر آدمی کی دوڑ دھوپ کی کوئی حد نہ ہو تو کوئی ایک طرف بھاگ کر نکل جائے گا اور کوئی دوسری طرف۔ مگر جہاں دوڑ دھوپ کی حد بندی کر دی گئی ہو وہاں ہر آدمی بندھا رہتا ہے۔ وہ بار بار وہیں لوٹ کر آتا ہے جہاں اس کے دوسرے بھائی اپنی سرگرمیاں جاری کیے ہوں۔
یہی حج کے دوسرے تمام مراسم کا حال ہے۔ حج کے تمام مراسم مختلف پہلوؤں سے ایک ہی نشانہ پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ربانی مقناطیس ہے جو ’’لوہے‘‘ کے تمام ٹکڑوں کو ایک نقطہ پر کھینچتے چلا جارہا ہے۔
مختلف ملکوں کے یہ لوگ جب مقامِ حج کے قریب پہنچتے ہیں تو سب کے سب اپنا قومی لباس اتار دیتے ہیں اور سب کے سب ایک ہی مشترک لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہا جاتا ہے۔ احرام باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ بغیر سلی ہوئی ایک سفید چادر نیچے تہمد کی طرح پہن لی جائے اور اسی طرح ایک سفید چادر اوپر سے جسم پر ڈال لی جائے۔ اس طرح لاکھوں انسان ایک ہی وضع اور ایک ہی رنگ کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔
یہ سارے لوگ مختلف مراسم ادا کرتے ہوئے بالآخر عرفات کے وسیع میدان میں اکھٹا ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انسانوں کے تمام فرق اچانک مٹ گیے ہوں۔ انسان اپنے تمام اختلافات کو کھو کر خدائی وحدت میں گم ہوگیے ہیں۔ تمام انسان ایک ہوگیے ہیں جیسے ان کا خدا ایک ہے۔
عرفات کے وسیع میدان میں جب احرام باندھے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں اس وقت کسی بلندی سے دیکھا جائے تو ایسا نظر آئے گا کہ زبان، رنگ، حیثیت، جنسیت کے فرق کے باوجود سب کے سب انسان بالکل ایک ہوگیے ہیں۔ اس وقت مختلف قومیتیں ایک ہی بڑی قومیت میں ضم ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حج اجتماعیت کا اتنا بڑا مظاہرہ ہے کہ اس کی کوئی دوسری مثال غالباً دنیا میں کہیں اور نہیں ملے گی۔
کعبہ مسلمانوں کا قبلۂ عبادت ہے۔ مسلمان ہر روز پانچ وقت اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا ساری دنیا کے مسلمانوں کا عبادتی قبلہ ایک ہی ہے۔ عام حالت میں وہ ایک تصوراتی حقیقت ہوتا ہے۔ مگر حج کے دنوں میں مکہ پہنچ کر وہ ایک آنکھوں دیکھی حقیقت بن جاتا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان یہاں پہنچ کر جب اس کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں تو محسوس طورپر دکھائی دینے لگتا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کا مشترک قبلہ ایک ہی ہے۔
کعبہ ایک چوکور قسم کی عمارت ہے۔ اس عمارت کے چاروں طرف گول دائرہ میں سارے لوگ گھومـتے ہیں جس کو طواف کہا جاتا ہے۔ وہ صف بہ صف ہو کر اس کے گرد گول دائرہ میںلوگوں کو ایک ہونے اور مل کر کام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ ایک آواز پر حرکت کرنے کا عملی مظاہرہ ہیں۔
ایکتا کے اس عظیم تربیتی نظام ہی کا یہ بھی ایک ظاہری پہلو ہے کہ تمام لوگوں سے ان کے انفرادی لباس اُتروا کر سب کو ایک ہی سادہ لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ یہاں بادشاہ اور رعایا کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں مشرقی لباس اور مغربی لباس کے امتیازات فضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ احرام کے مشترک لباس میں تمام لوگ اس طرح نظر آتے ہیں جیسے کہ تمام لوگوں کی صرف ایک حیثیت ہے۔ تمام لوگ صرف ایک خدا کے بندے ہیں۔ اس کے سوا کسی کوکوئی اور حیثیت حاصل نہیں۔
حج کے مقرر ہ مراسم اگرچہ مکہ میں ختم ہو جاتے ہیں مگر بیشتر حاجی حج سے فارغ ہو کر مدینہ بھی جاتے ہیں۔ مدینہ کا قدیم نام یثرب تھا۔ مگر پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس وقت سے اس کا نام مدینۃ النبی (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ مدینہ اسی کااختصار ہے۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی مسجد ہے۔ یہاں آپ کی قبر ہے۔ یہاں آپ کی پیغمبرانہ زندگی کے نشانات بکھرے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں حاجی جب مدینہ پہنچتے ہیں تو یہ ان کے لیے مزید اتحاد اور اجتماعیت کا عظیم سبق بن جاتا ہے۔ یہاں کی مسجد نبوی میں وہ اس یاد کو تازہ کرتے ہیں کہ ان کا رہنما صرف ایک ہے۔ وہ یہاں سے یہ احساس لے کر لوٹتے ہیں کہ ان کے اندر خواہ کتنے ہی جغرافی اور قومی فرق پائے جاتے ہوں، انہیں ایک ہی پیغمبر کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے۔ انہیں ایک مقدس ہستی کو اپنی زندگی کا رہنما بنانا ہے۔ وہ خواہ کتنے ہی زیادہ اور کتنے ہی مختلف ہوں، مگر ان کا خدا بھی ایک ہے اور ان کا پیغمبر بھی ایک۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المزمل میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے:وَاصْبِرْ عَلَى مَا یَقُولُونَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیلًا(
1۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
2۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
3۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔
(محمود حسن دیوبندی)
4۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔
(امین احسن اصلاحی)
5۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے علیحدگی اختیار کیجئے ۔ (عاشق الٰہی)
6۔ اور ان باتوں پر صبر کیے رہیے جو یہ لوگ کہتے ہیں، اور ان سے خوبصورتی کے ساتھ الگ ہوجائیے۔ (عبد الماجد دریابادی)
7۔ اور اے پیغمبر آپ صبر کریں ان باتوں پر جو مخالفین کہتے ہیں اور آپ خوش اسلوبی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ (صوفی عبد الحمید سواتی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently whatever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجرجمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہیے۔ تم کو چاہیےکہ اُن کے معاملہ میں در گزر کرو، اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبتِ الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر کمی (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب 4:) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو، وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو، وہ خدائے رحمٰن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
1۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ قدیم مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما یصرف اللہ عنی من أذى قریش، یسبون ویہجون مذمما، وأنا محمد (سیرت ابن ہشام 1/356)۔ یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالانکہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین (1897-1969) کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
2۔ ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ: لا تدعونی قریش الیوم إلى خطة یسألوننی فیہا صلة الرحم إلا أعطیتہم إیاہا (سیرت ابن ہشام، 2/310)۔ یعنی قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا۔دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک خوش گوار معاملہ بنا لیا۔
پیغمبر اسلام کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالانکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبی تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فو اللہ لقد جاءنا اللہ بک، وإن قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجوہ، فإنہ لیرى أنک قد استلبتہ ملکا (سیرت ابن ہشام، 2/292) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیےجواہر کا تاج تیار کررہے تھے تاکہ وہ اُس کوبادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن اُبی کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
4۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیر برسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ؟ قال:بلى، قال:أو لسنا بالمسلمین؟ قال:بلى، قال:أو لیسوا بالمشرکین؟ قال:بلى، قال:فعلام نعطى الدنیة فی دیننا؟۔ (سیرت ابن ہشام، 2/317)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ ٔامن کرکے معتدل حالات پیدا کیے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
5۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا–——ٹکراؤ کو اَوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ما کان فتح فی الإسلام أعظم من فتح الحدیبیة، ولکن الناس یومئذ قصر رأیہم عما کان بین محمد وربہ، والعباد یعجلون، واللہ تبارک وتعالى لا یعجل کعجلة العباد حتى تبلغ الأمور ما أراد اللہ (مغازی الواقدی، 2/610)۔ یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ معاملہ وہاں تک پہنچ جائے جو اللہ چاہتاہے۔
6۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام، اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارے میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم(
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے توحید کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام۔ یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (دیکھیے، السنن الکبریٰ للبیہقی، 9/199، حدیث نمبر 18275-76)
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (allergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اس قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہیے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی ردِعمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے——کتے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں
صہیب بن سنان الرومی اُن اصحابِ رسول میں سے ہیں جنہوں نے دور اوّل میں اسلام قبول کیا۔ اُن کی پیدائش موصل میں ہوئی۔ اُنہوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی۔ بوقت وفات اُن کی عمر تقریباً ستّر سال تھی۔ اُن سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں۔ اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنا سابق العرب، وصہیب سابق الروم(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7288)۔
صہیب رومی کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے۔ مثلاً طبقات ابن سعد، تاریخ ابن عساکر، وغیرہ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومی ایک اونچے خاندان کے فرد تھے۔ پھر وہ مکہ میں تجارت کرنے لگے۔ انہوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی (کان صھیب قد ربح مالا وفیرا من تجارتہ)۔ سیر اعلام النبلاء، 3/210۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومی نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ اُن کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہوگئی۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان اُن کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے۔ اس کو لے کر ہم تم کومدینہ نہیں جانے دیں گے۔ صہیب رومی نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دوگے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس کے بعد صہیب رومی نے اپنا سارا مال اُن کے حوالہ کردیا(فجعل لہم مالہ أجمع)۔ الطبقات الکبریٰ لابن سعد، 3/227۔
اپنا مال قریش کے حوالہ کرکے صہیب رومی مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کو مکہ کا پورا واقعہ بتایا۔ اُس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا أبا یحیٰ ربح البیع(أے ابو یحیٰ، تمہاری تجارت کامیاب رہی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ربح صھیب، ربح صھیب(صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کامیاب رہی) البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر،
حضرت صہیب رومی کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بے حد اہم ہے۔ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔
مذکورہ واقعہ پر غور کیجئے۔ حضرت صہیب رومی کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے ہر حال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہیے، خواہ اُس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت ِ اسلامی کا مرکز بن رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہیے کہ میںاس تاریخی مہم کو اُس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں۔
صہیب رومی نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقلمندی نہ ہوگی۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اُس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے۔
اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنّی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے، جیسا کہ قانونی عدالت میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا ہے عملی حل(practical solution) ۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبارسے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ بامقصد انسان کا طریقہ۔
عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اُس کا حق کیا ہے۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس کے سوا اُس کا اورکوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بامقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ، کوئی تمہارا کرتا لینا چاہے تو اُس کو اپنا چُغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ اُس نزاع کو ختم کردو، تاکہ مقصد کی طرف تمہارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں۔ مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربّانی حق سے محروم ہوجائے گا۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔ ایک، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے، اور دوسرا، آخرت کی خاطر دنیا کو۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سوئزرلینڈ یورپ کے تقریبًا درمیان میں ہے اس کے چاروں طرف فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا واقع ہیں۔ وہ افغانستان کی طرح ایک محصور ملک (landlocked country) ہے۔ مگر سوئزرلینڈ دو رجدید کا ایک اعلٰی ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ہر طرف امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ جب کہ افغانستان برعکس طورپر ایک ایسا تباہ ملک بنا ہوا ہے جہاں خود افغانیوں کے لئے اتنی کم کشش ہے کہ وہ پہلی فرصت میں بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔اس فرق کا راز ایک لفظ میں استحکام (stability) ہے، اورسماجی اور سیاسی استحکام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔ وہ شعوری ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والا ایک واقعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
اجتہاد کے لفظی معنیٰ ہیں بھر پور کوشش کرنا۔ شریعت میں یہ لفظ اس فکری کوشش کے لئے بولا جاتا ہے جب کہ نئے حالات کے اندر قرآن و سنت کی روشنی میں دین کا از سر نو انطباق (re-application) معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اجتہاد احکام کے استنباط کے سلسلہ میں ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے بار بار ایسی صورتیں پیش آتی ہیں جب کہ دین کی اصل روح کو برقرار رکھتے ہوئے نئے حالات میں ان کا ازسرِنو انطباق تلاش کیا جائے۔
اجتہاد کا یہ عمل اسلام کی تاریخ میں مسلسل جاری رہا ہے، پیغمبر کی زندگی میں بھی اور پیغمبر کی وفات کے بعد بھی ۔ مگر اسلام کی بعد کی صدیوں میں ایسا ہوا کہ بعض اسباب سے اجتہاد کا یہ عمل زیادہ تر جزئی مسائل تک محدود ہو کر رہ گیا۔ کُلّی یا بنیادی نوعیت کے مسائل میں اجتہاد کا یہ عمل حقیقی طورپر جاری ہی نہ ہوسکا۔
اس معاملہ کی ایک مثال وہ ہے جو قرآن کی آیت:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّہ (
اس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں فتنہ ٔ ابن الزبیر کہا جاتا ہے۔ جس زمانہ میں یہ جنگ ہورہی تھی، عبد اللہ بن عمر (وفات
عبد اللہ بن عمر کے اس قول کی مزید تفصیل عمر بن عبد العزیز کے ایک قو ل سے معلوم ہوتی ہے۔ خلیفہ عمر بن عبد العزیز مدینہ میں عبد اللہ بن عمر کی وفات سے
یہ اجتہاد کی وہ مثالیں ہیں جو ایک جلیل القدر صحابی اور ایک جلیل القدر تابعی نے دور اول میں قائم کیں۔ مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں ان کا یہ اجتہاد عملاً رائج نہ ہوسکا۔ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں بدستور جنگ و قتال میں مشغول رہیں، اور آج تک مشغول ہیں۔ وہ حقیقی طورپر دعوت کے میدان میں سرگرم نہ ہوسکیں۔ اگر چہ بعد کی صدیوں میں بھی اسلام مسلسل پھیلتا رہا ہے۔ مگر وہ زیادہ تر اپنی فطری کشش کے زور پرپھیلا ہے، نہ کہ داعیوں اور مبلغوں کی کسی منظم کوشش کے زور پر۔
اصل یہ ہے کہ ضرورت تھی کہ صحابی اور تابعی کے مذکورہ قول کی بنیاد پر ایک مکمل نظریہ تشکیل دیا جائے۔ اس کو ایک آئیڈیا لاجیکل سسٹم کے طورپر جامع انداز میں مرتب کیا جائے۔ مگر بعد کے مسلم علماء یہ کام نہ کرسکے۔ اور بعد کے لوگوں کی یہی کوتاہی اس کا سبب بن گئی کہ بعد کی تاریخ کا سفردعوت کے رخ پر جاری ہونے کے بجائے قتال کے رُخ پر جاری ہوگیا جو بدستور آج تک قائم ہے۔
اس معاملہ کی وضاحت کے لئے ایک متوازی مثال لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:کما تکونون یولى أو یؤمر علیکم (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ تاریخ کو بادشاہ رُخی ہونے کے بجائے عوام رُخی ہونا چاہیے۔ قدیم زمانہ میںتاریخ بادشاہ نامہ ہوا کرتی تھی۔ بادشاہوں کے واقعات کو قلمبند کرنے کا نام تاریخ تھا۔ مذکورہ قولِ رسول میں یہ رہنمائی تھی کہ تاریخ کو وسیع تر معنوں میں پوری انسانیت کے احوال پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ صرف حاکم کے احوال پر۔قولِ رسول میں مذکورہ اشاراتی رہنمائی کے باوجود بعد کی کئی صدیوں تک تاریخ نویسی کا یہ طریقہ عملاً جاری نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ اُس دور میں اسلام کی جو تاریخیں لکھی گئیں وہ بھی قدیم طریقہ کے مطابق، زیادہ تر سیاسی احوال تک محدود رہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ مذکورہ مجتہدانہ اصول کی بنیاد پر تاریخ نویسی کا ایک مکمل فلسفہ تیار نہ کیا جاسکا۔
یہ کام پہلی بار ابن خلدون (وفات
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا جو فکر ہے، اس کی ایک نمائندگی الاخوان المسلمون کے ذریعہ ہوتی ہے۔ الاخوان المسلمون 1920 میں مصر میں قائم کی گئی۔ اس کے ابتدائی لیڈر حسن البناء اور سیدقطب، وغیرہ تھے۔ اس کو غیر معمولی پھیلاؤ حاصل ہوا۔الاخوان المسلمون نے اپنے عقیدہ و عمل کے لیے جو نعرہ اختیار کیا وہ یہ تھا:الإسلام دیننا و الجہاد منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور جہاد ہمارا طریقِ عمل ہے)۔لیکن مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت اخوانی لیڈروں کو یہ جاننا چاہیے تھا کہ ان کے لئے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ وہ ہے جو مبنی بر أمن ہو ، نہ کہ مبنی بر تشدد۔ اس لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ وہ یہ اعلان کریں :الإسلام دیننا والدعوۃ منہجنا (اسلام ہمارا دین ہے اور دعوت ہمارا طریقِ عمل ہے)۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ مگر ان کی تمام قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ ان کا وہ حال ہوا جس کو ایک اسرائیلی پیغمبر نے ان الفاظ میں بتایا تھا: تم نے بہت سابویا پر تھوڑا کاٹا۔ تم کھاتے ہو پر آسودہ نہیں ہوتے۔ تم پیتے ہو پر پیاس نہیں بجھتی۔ تم کپڑے پہنتے ہو پر گرم نہیں ہوتے اور مزدور اپنی مزدوری سوراخ دار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔ (بائبل، حجی،
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ میں مسلم دنیا میںایک گروہ ابھرا ہے جس کو مجاہد یا مجاہدین کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان کو مسلم ہیرو کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان مجاہدین کاتعلق نہ جہاد سے ہے اور نہ اسلام سے۔حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرمانبرداری کے لیے خود اپنے نفس سے جہاد کرے۔ مگر یہ مجاہد لوگ بالکل الٹا کررہے ہیں۔وہ دوسروں کے خلاف تشدد کی کارروائی کرتے ہیں یہاںتک کہ جہاںانہیں کھلے طورپر تشدد کا موقع نہیں ملتا وہاں وہ خودکش بمباری کرکے دوسروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ نام نہاد مجاہد سڑکوں اور راستوں پر landmine بچھا دیتے ہیں اورجب گزرنے والے وہاں سے گزرتے ہیں تو اچانک دھماکہ ہوتا ہے جس میں کتنے ہی مسافر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہ جلسہ گاہ اور تھیٹر ہال میں بم مار کر لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو یرغمال بنا کر سینکڑوں خاندانوں کو سوگوار کر دیتے ہیں۔ وہ بے قصور لوگوں کو مارنے میں یہاں تک جری ہوتے ہیں کہ اس معاملہ میںوہ مسلمان اور غیر مسلمان کافرق بھی نہیں کرتے۔ وہ کسی آبادی یا کسی بھی مجمع یا بلڈنگ میں دھماکہ کرکے ہزاروں لوگوں کو بے قصور مارڈالتے ہیں۔ یہ لوگ اتنے نادان ہیں کہ اس قسم کادھماکہ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سے خدا کو خوش کررہے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے اس فعل سے صرف شیطان کو خوش کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ یا تشدد کسی بھی حال میںجائز نہیں ہے۔ کسی بھی شخص یاگروہ کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ وہ بطور خود ایک نظریہ بنائے اور اُس خود ساختہ نظریہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو درست سمجھتے ہوئے کسی کے خلاف تشدد شروع کردے۔
اسلام میں جنگ اور تشدد کے لیے بہت شدید قسم کی شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ مثلاً جارحیت کے خلاف ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتل (combatant) پر حملہ کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتل (non-combatant) پر حملہ کرنا کسی بھی عذر کی بنا پر جائز نہیں(البقرۃ 190:) ۔ کسی انسان کو قتل کرنا اسلام کے نزدیک انتہائی حد تک ناروا فعل ہے۔
یہاں اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں نقل کی جاتی ہیں جس سے اس معاملہ کی شدت کا اندازہ ہوگا۔ پہلی آیت کا تعلق عام انسان سے ہے۔اس آیت کاترجمہ یہ ہے: اسی سبب ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جوشخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اُس نے سارے آدمیوں کو بچا لیا۔ (
دوسری آیت مومن کے قتل کے بارے میں ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: اور جو شخص کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے تو اُس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (
اس سلسلہ میں ایک حدیث رسول یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اُس کا ترجمہ یہ ہے: خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے۔ خدا کی قسم، وہ مومن نہیں ہے، جس کی بری حرکتوں سے اُس کا پڑوسی امن میں نہ ہو (مسند احمد، حدیث نمبر 27162) ۔ خلاصہ یہ کہ اسلام میں صرف ایک ہی جنگ جائز ہے اور وہ کھلی جارحیت کے خلاف حکومت کے تحت دفاعی جنگ ہے۔ کوئی اور جنگ، مثلاً جارحانہ جنگ، بلا عنوان جنگ، کی اسلام میںاجازت نہیں۔ اس طرح وہ جنگیں بھی اسلام میں جائز نہیں ہیں جن کو پراکسی وار اور گوریلا وار کہا جاتا ہے۔اسلام مکمل معنوں میںامن اور رحمت کا مذہب ہے۔ کسی کے خلاف تشدد کرنا اسلام میںقطعاً جائز نہیں۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ ایک خود ساختہ عذر تراشے اور اُس کے نام پر لوگوں کے خلاف تشدد شروع کردے۔
واپس اوپر جائیں
1947 میں جب ہندستان آزاد ہوا تو اس کے بعدتمام مسلمانوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ نئے ہندستان میں مسلمانوں کے لئے لائن آف ایکشن کیا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس موضوع پر ہزاروں تحریریں سامنے آئیں اور ہزاروں جلسے کیےگئے۔ مگر آج بھی لوگ یہی پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کیا ہونا چاہیے۔
میرے نزدیک یہ مسئلہ لائن آف ایکشن کی غیر موجودگی کا نہیں ہے، بلکہ لائن آف ایکشن کے موجود ہوتے ہوئے اس کو عملاً قبول نہ کرنے کا ہے۔ مسلمانوں کے سامنے بار بار مختلف جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اس سوا ل کا جواب دیا گیا ہے مگر آج تک کسی بھی جوا ب کو مسلمانوں میں عمومی قبولیت کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے 1948 میں لکھنؤ میں مشہور مسلم کنونشن کیا۔ اس موقع پر مولانا آزاد نے جو تقریر کی تھی، وہ آج بھی چھپی ہوئی موجود ہے۔ اپنی اس تقریر میں انہوں نے مسلمانان ہند کے سامنے یہ لائحہ عمل پیش کیا کہ وہ مسلم لیگ کو ختم کر دیں ،اور نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہندستان کے مسلمان فرقہ وارانہ بنیاد پر اپنی ملی پالیسی نہ بنائیں،بلکہ اپنی پالیسی مشترک قومی بنیاد پر بنائیں۔ نمائندگی کے اعتبار سے لکھنؤ کا یہ آل انڈیا مسلم کنونشن نہایت کامیاب تھا۔ مگر اس کے بعد ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان مولانا آزاد کے مشورہ کو اپنی ملی پالیسی کے طورپر اختیار کرلیں۔ ان کی ولولہ انگیز تقریر فضا میں تحلیل ہو کر رہ گئی۔
اسی طرح نہایت دھوم کے ساتھ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (1964) بنی ۔ ملک کے تقریباً تمام مسلم رہنما اس کے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوگئے۔ مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیںنکلا۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے متفقہ طورپر ایک مسلم منشور تیار کرکے شائع کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندستان کے مسلمان اس ملک میں خیر امت کا کردار ادا کریں۔ مگر اس عنوان پر مسلمان عملاً متحرک نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ خود مسلم مجلس مشاورت بے اثر ہوکر رہ گئی۔
یہی معاملہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (1972) کا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بانی قائدین کے زمانہ میں متفقہ طورپر تعمیر ملت اور اصلاح معاشرہ کی تجویز پاس کی۔ اس پر کافی حد تک وہ کام بھی ہوا جس کو پیپر ورک کہا جاتا ہے۔ مگر یہ لائحہ عمل بھی مسلمانوں کے درمیان عملی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔
اس طرح کچھ مسلم قائدین نے 1951میںوہ تحریک شروع کی جو پیام انسانیت کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان خود انسانی اقدار کو اپنائیں اور برادران وطن کو انسانی اقدار کی پیروی کی دعوت دیں۔ مگر جلسوں کی وقتی دھوم دھام کے علاوہ اس کا بھی کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انسانی اقدار کی پیروی کی فضا نہ مسلمانوں میں قائم ہوسکی اور نہ غیر مسلموں میں۔
اسی طرح 1900 میں بابری مسجد کے نام پر جلسہ اور جلوس اور ریلی کے زبردست ہنگامے شروع ہوئے۔ یہ سلسلہ پورے ملک میں جاری ہوگیا۔ اس تحریک کے مسلم لیڈروں نے یہ نعرہ دیا کہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارچ کرکے اجودھیا پہنچیں اور حملہ آور وںکے مقابلہ میں بابری مسجد کی حفاظت کریں۔ مگر اس مقصد کے لئے نہ چھوٹا مارچ ہوا اور نہ بڑا مارچ۔ یہاں تک کہ ’’حملہ آور‘‘ کسی مزاحمت کے بغیر 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بابری مسجد کے ڈھانچہ کو توڑ کر اس کی جگہ ایک عارضی رام مندر (makeshift temple) تعمیر کر دیا۔
اسی طرح کچھ ممتاز مسلم لیڈروں نے یہ لائحہ عمل دیا کہ مسلمان اس ملک میں باعزت زندگی اس طرح حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت کو اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرانے کے لئے استعمال کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنایا:
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگر کانٹوں میںہو خوئے حریری
ہر بار جب اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو وہ وقت آتا ہے جب کہ مسلمان اس لائحۂ عمل کو اختیار کرکے مفروضہ اینٹی مسلم پارٹیوں کو ہرائیں اور مفروضہ پرومسلم پارٹیوں کو جتائیں۔ مگر ہر بار صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اپنے عدم اتحاد کی بنا پر منتشر ہوجاتا ہے۔ مذکورہ سیاسی مقصد حاصل کرنے کے بجائے مسلمان صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ہر الیکشن کے موقع پرتقسیم ہو کرووٹ کی طاقت کو ضائع کردیتے ہیں۔ الیکشن ان کے ووٹوں کا ایک سیاسی قبرستان بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی معاملہ جمعیۃ علماء ہند کا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے تقریباً ہر موقع پر یہ لائحہ عمل پیش کیا ہے کہ مسلمان ایسا طریقِ کار نہ اختیار کریں جس میں ہندو اور مسلم کے درمیان ٹکراؤ کی فضا بنے۔ اس کے بجائے وہ خاموش تدبیر اور تعمیری اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اپنا مسئلہ حل کریں۔ مگر ہر بار یہی ہوا ہے کہ مسلمان جمعیۃ علماء ہند کے بتائے ہوئے اس لائحہ عمل کو اختیار نہیں کر پاتے۔ گویا لائحہ عمل موجود ہے مگر لائحہ عمل کی قبولیت اور پیروی موجود نہیں۔
اس فہرست میں کسی قدر فرق کے ساتھ خود الرسالہ مشن کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت مسلمانوں کے سامنے نہایت واضح اور مدلّل انداز میں 1976 سے یہ لائحہ عمل پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان کا اصلی اور ابدی مشن دعوت ہے۔ اس ملک میں مسلمان اور برادران وطن کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی طرف سے مقرر کیےہوئے اپنے اس فریضہ کو پہچانیں۔ وہ دعوت کے آداب اور دعوت کی حکمتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ملک میں دین حق کی پر امن پیغام رسانی کا کام انجام دیں۔ مگر رُبع صدی سے زیادہ مدت تک مسلسل جدوجہد کے باوجود ابھی تک مسلمانوں کی صرف ایک محدود تعداد ہی نے اس راہ عمل کوعملاً اختیار کیا ہے۔
یہ طویل تجربہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ راہ عمل کی غیر موجودگی نہیںہے بلکہ جذبۂ قبولیت کی غیر موجودگی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے درمیان حقیقی کام کا آغاز صرف یہ نہیں ہوسکتا کہ تقریر یا تحریر کی صورت میں ایک راہِ عمل یا لائن آف ایکشن کا اعلان کردیا جائے۔ موجودہ حالات میں اس کے لیے شعوری تعمیر اور ذہنی بیداری کی ایک مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ پہلے شعوری اعتبار سے لوگوں میںمادّۂ قبولیت پیدا کیجئے، اُس کے بعد ہی راہِ عمل کے اعلان کا کوئی مفید عملی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
آج کل آتنک واد یا دہشت گردی (terrorism) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں اس موضوع پر لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف سامنے نہ آسکی۔ لوگ آتنک واد کی مذمت کرتے ہیں، مگر وہ بتا نہیں پاتے کہ آتنک واد متعین طور پر ہے کیا۔
راقم الحروف نے اس سوال کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، غیر حکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا آتنک واد ہے:
Armed struggle by non-governmental organizations.
اسلام آزادی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ قومی یا سیاسی مقصد کے لیے پُرامن تحریک چلانے کا حق کسی بھی شخص یا جماعت کو حاصل ہے۔ یہ حق اُس کو اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔ اسلام میں ہتھیار کا استعمال یا کسی حقیقی ضرورت کے تحت مسلّح عمل کا حق صرف باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کوحاصل ہے۔ غیرحکومتی تنظیموں (NGOs) کو کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل نہیں ۔
مجرم کو سزا دینا، حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کرنا، اس طرح کے امور جو بین اقوامی اُصول کے مطابق، کسی قائم شدہ حکومت کو مسلّح کارروائی کا حق دیتے ہیں۔ یہی خود اسلام کا اصول بھی ہے۔ اس اُصول کی روشنی میں ٹیررزم کی تعریف یہ ہے — ٹیررزم اُس مسلح کارروائی کا نام ہے جو کسی غیرحکومتی تنظیم نے کی ہو۔ یہ غیر حکومتی تنظیم خواہ کوئی بھی عذر پیش کرے ، وہ ہر حال میں ناقابلِ قبول ہوگا۔ ایک غیر حکومتی تنظیم اگر یہ محسوس کرتی ہے کہ ملک میں کوئی بے انصافی ہوئی ہے یا حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اُس کو صرف یہ حق ہے کہ وہ پُر امن جدوجہد کے دائرہ میں رہـتے ہوئے اپنی کوشش کو جاری کرے۔ وہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہ اختیار کرے۔
کوئی فرد یا کوئی غیر حکومتی تنظیم اگر یہ کہے کہ ہم تو پُر امن عمل چاہتے ہیں مگر فریقِ ثانی پُر امن عمل کے ذریعہ ہمیں ہمارا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کیا کریں۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری حکومت پر ہے، نہ کہ غیر حکومتی تنظیم پر۔ اگر کسی کا یہ احساس ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے تب بھی اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکومت کا کام خود کرنے لگے۔ ایسی حالت میں بھی اُس کے لیے صرف دو میں سے ایک راستہ کا انتخاب ہے—صبر یا پُر امن جدوجہد۔ یعنی یا تو پُر امن عمل کرنا، یا سِرے سے کوئی عمل ہی نہ کرنا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی دہشت گردی یا حکومتی تشدد کا حکم کیا ہے۔ یعنی حکومت اگر غیر مطلوب تشدد کا وہی کام کرے جو کوئی غیر حکومتی تنظیم کرتی ہے تو ایسی حالت میں اُس کا حکم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حکومتی تشدد حکومت کے لیے اپنے حق کا بے جا استعمال ہے، جب کہ غیر حکومتی تنظیم کے لیے تشدد ایک ایسا فعل ہے جس کو کرنے کا اُسے کوئی حق ہی نہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ حق کے بغیر کسی فعل کو کرنا اور حکماً حق رکھتے ہوئے اُس کا بے جا استعمال(misuse) کرنا، دونوں ایک دوسرے سے نوعی طورپر مختلف ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر غیر حکومتی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اُس سے اُس کا جواز پوچھے بغیر تشدد سے باز رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر کوئی باقاعدہ حکومت بے جا تشدد کرتی ہے تو اُس سے کہا جائے گا کہ تم کو چاہیے کہ اپنے حاصل شدہ حق کا صرف جائز استعمال کرو۔ حق کا ناجائز استعمال کرکے حکومت بھی اپنے آپ کو اُسی طرح مجرم بنالیتی ہے جس طرح کوئی غیر حکومتی تنظیم۔
مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ کوئی باضابطہ سرجن اگر جسم کے غلط حصہ پر نشتر چلائے تو وہ اپنے حق کا بے جا استعمال کرنے کا مجرم ہوگا۔ ایک تربیت یافتہ سرجن کو صحیح مقام پر نشتر چلانے کا حق تو ضرور ہے مگر غلط مقام پر نشتر چلانے کا اُس کو کوئی حق نہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک غیر سرجن کسی انسان کے جسم پر نشتر چلانے لگے تو اُس کا ایسا کرنا ہر حال میں غلط ہوگا کیونکہ ایک غیر سرجن کو نہ بظاہر درست مقام پر نشتر چلانے کا حق ہے اور نہ غلط مقام پر۔
واپس اوپر جائیں
یہ
مذکورہ آدمی نے جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ اچانک بگڑ گیا۔ وہ نہایت اشتعال انگیز لہجہ میں ان کو برا بھلا کہنے لگا۔ حتیٰ کہ اس نے کہا کہ راجند ر، تم کیا سمجھتے ہو، میں تم کو گولی مار دوں گا۔ ڈاکٹرشمس الآفاق صاحب اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اب تک بالکل خاموش تھے۔ جب اس آدمی نے راجندر کا نام لیا تو انہوں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ ابھی وہ چپ ہی تھے کہ ان کے ساتھی مسٹر اشوک کمار نے کہا کہ بھائی، تم کو غلط فہمی ہوئی ہے، یہ تو ڈاکٹر شمس الآفاق ہیں۔ اور یہ فلاں سرکاری محکمہ میں افسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اس آدمی کو یقین نہیں آیا۔ شاید اس کے مفروضہ راجندر کی صورت ڈاکٹر صاحب سے کچھ ملتی جلتی تھی۔ اس کی طلب پر ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا آئڈنٹٹی کارڈ نکالا اور اس آدمی کو دکھایا۔ آئڈنٹٹی کارڈ کو دیکھتے ہی وہ ایسا ہوگیا جیسے پھولے ہوئے غبارہ کی ہوا اچانک نکل گئی ہو۔اور پھر وہ سر جھکا کر خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
اس واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے خلاف بُرا برتاؤ کرے تو فوراً اس کو اپنا دشمن نہ سمجھ لیجئے۔ عین ممکن ہے کہ اس کے برے برتاؤ کا سبب اس کی غلط فہمی ہو۔ اگر آپ صبر و اعراض کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس سے نرمی کا معاملہ کریںتو عین ممکن ہے کہ آپ کی صحیح تصویر کو جاننے کے بعد اس کا رویہ بالکل بدل جائے۔ گولی مارنے کی بات کرنے والا آدمی آپ کو پھول کی پیش کش کرنے لگے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ بے صبری کا انداز آدمی کے نفس امارہ کو جگاتا ہے۔ اس کے برعکس صبر کا انداز اس کے نفس لوّامہ کو جگا دیتا ہے۔ نفس امّارہ کا جاگنا آدمی کوآپ کا دشمن بنا دیتا ہے، اور نفس لوّامہ کا جاگنا آدمی کو آپ کا دوست بنا دیتا ہے۔انسانی زندگی میں غلط فہمی پیدا ہونا ایک عام بات ہے۔ کسی بھی شخص کو کسی بھی شخص کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے غلط فہمی پیدا ہونا بذاتِ خود کوئی جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ غلط فہمی پیدا ہونے کے بعد وہ درست رویہ اختیار نہ کرے۔
اگر کسی شخص کو کسی کے خلاف غلط فہمی پیدا ہوجائے تو صرف غلط فہمی کی بنیاد پر اسے مان نہیں لینا چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ معاملہ کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بعد اگر وہ بات غلط ثابت ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اس کو مکمل طورپر اپنے دل سے نکال دے۔ غلط فہمی کی تحقیق سے پہلے اس کا چرچا کرنا سخت گناہ ہے۔ ایک آدمی کسی کے بارے میں تحقیق کے بغیر بھلی بات تو کہہ سکتاہے مگر تحقیق کے بغیر بری بات کہنا سر تا سر حرام ہے۔ ایسی روش پر اللہ کے یہاں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔
خدا کا پسندیدہ معاشرہ وہ ہے جس میں لوگوں کے باہمی تعلقات حسن ظن کی بنیاد پر قائم ہوں۔ کسی کے بارے میں کوئی بری بات معلوم ہو تو تحقیق کے بغیر ہی اس کو رد کر دیا جائے۔ اس قسم کی باتیں براہِ راست طور پر آخرت سے تعلق رکھتی ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی لوگوں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے، خدا آخرت میںاس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ دوسروں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ایک قسم کی عملی دعا ہے۔ ایسا آدمی گویا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ خدایا، میںنے تیرے بندوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا، تو بھی میرے ساتھ بہتر معاملہ فرما، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
چُپ رہنا مکمل معنوں میں ایک ذہنی عمل ہے البتہ جس آدمی کا ذہن جتنا زیادہ بیدار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کا چپ رہنا با معنی ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
بے پردگی اور باپردگی دونوں اپنی حقیقت کے اعتبار سے علامتی الفاظ ہیں۔ باپردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو محفوظ رکھتے ہوئے دنیا میں زندگی گزارے۔ اس کے برعکس،بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائیت کو کھودے، وہ اپنی فطری شناخت کو مٹا کر ایک قسم کی مصنوعی زندگی گذارنے لگے۔
حدیث کی کتابوں میںایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أنہ لعن المتشبہات من النساء بالرجال، والمتشبہین من الرجال بالنساء(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 4097)۔ یعنی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت کریں۔ اسی طرح آپ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کو شناخت (identity) کہا جاتا ہے، مرد اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر عورت کی مانند بن جائے اور عورت اگر اپنی فطری وضع کو چھوڑ کر مرد کی طرح بن جائے تو یہ دونوں ہی اللہ کے یہاں سخت مبغوض ہیں۔ اللہ نے جس کو حیسی وضع کے ساتھ بنایا ہے وہی اُس کی فطری پہچان ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فطری وضع کو کسی حال میں نہ چھوڑ یں۔ وہ فطرت کی وضع پر قائم رہتے ہوئے زندگی گذاریں۔
باپردگی کسی عورت کے لیے اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنی فطری نسائی قدروں کو محفوظ کیے ہوئے ہے۔ وہ قدریں یہ ہیںـــسنجیدگی، پاکدامنی، اصول پسندی، شرافت ،حساسیت، فرائض کی اہمیت، بامقصدیت، وغیرہ۔ اس کے مقابلہ میں بے پردگی اس بات کی علامت ہے کہ عورت اپنی نسائی قدروں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ وہ کھوئی ہوئی قدریں یہ ہیں— غیر سنجیدگی ، اخلاقی بے قیدی، عدم شرافت، بے حسی، فرائض حیات سے بے رغبتی اور بے مقصدیت، وغیرہ۔
پردہ کا مطلب معروف معنوں میں، محض ’’برقعہ‘‘ یا سرپر اسکارف باندھنا نہیں ہے۔ پردہ کسی عورت کے بااصول ہونے کی ایک پہچان ہے۔ ایسی عورت اپنی نسائی شناخت کے ساتھ دوسروں کو بتاتی ہے کہ وہ ایک بامقصد خاتون ہے۔ وہ واجبات حیات کو ہر قیمت پر ادا کرنے والی ہے۔
اصولی اور معیاری اعتبار سے اسلام میں عورت اور مرد کا مقام عمل (workplace) الگ الگ ہے۔ یعنی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح باہر کام کریں۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ باپردہ ہوں اور اُن کا مقام عمل مردوں سے الگ ہو۔
تاہم حالات کے مطابق، اگر یہ ممکن نہ ہو کہ عورت مردوں سے مکمل طورپر الگ رہ کر کام کرے تو معاشی اور سماجی ضرورت کے تحت اس شرط میں رخصت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ ضروری تقاضہ کی بنا پر مقامِ عمل تو پوری طرح الگ نہ ہو مگر پھر بھی یہ ضروری ہوگا کہ عورت باپردہ ہونے کی شرط کو نہ چھوڑے۔ وہ اپنی نسائی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مشترک مقامات عمل پر اپنا کام کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سجدہ اظہار عبودیت کا آخری ماڈل (final model) ہے۔ اس دنیا میں اللہ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ چیونٹی، شیر، دریا، پہاڑ، درخت، انسان، غرض ہر چیز، حتی کہ گھاس بھی اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ بھی کسی چیز کا کوئی اور ماڈل تیار نہ کرسکا۔ اس دنیا کی ہر چیز اتنی مکمل ہے کہ اس کے آگے تکمیل کا کوئی اور درجہ پانا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں۔
یہی معاملہ اسلامی عبادت کا ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم جزء سجدہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ واسجد واقترب (
واپس اوپر جائیں
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اصحاب رسول کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious) چیز ہے، اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ درست نہیں۔ کیوں کہ اس نظریہ میںاس واقعہ کی توجیہہ موجود نہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے، مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔اصل یہ ہے کہ اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے ذہنی ارتقا۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی در اصل اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔
لوگ آپ کی باتوں کو سنتے، وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی، اس لیے اُس کو صحبت رسول سے منسوب کردیا گیا۔تاہم پیغمبر کی باتیں سننا کافی نہیں۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفید بنیں گی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو، جو یکسو ہو کر سُنے، اورپھر نفسیاتی پیچیدگی سے اوپر اٹھ کر اُس کو قبول کرسکے۔ صحابہ میں یہ قبولیت موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ ـتھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں
ہندستان کے ایک مسلمان تاجر ہیں۔ پہلے وہ الرسالہ کے باقاعدہ قاری تھے۔ پھر ایک مسئلہ پر اُن کو شکایت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیشہ مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں اور ہندوؤں کے خلاف کبھی نہیں لکھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ کو ہندوؤں کی طرف سے اس کام کے لئے پیسہ ملتا ہے کہ آپ ہندو— مسلم معاملات میں مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اس قسم کی بات کہہ کر اُنہوں نے الرسالہ کی خریداری بند کردی۔ اُنہوں نے نہ صرف الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا بلکہ وہ اس کے مخالف بن گئے۔
کئی سال بعد
مگر عبرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ مسلم تاجر نے نجی ملاقات میں تو یہ بات کہی لیکن وہ اس بات کو اسٹیج پر کہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نیز اُنہوں نے الرسالہ کی نسبت سے اپنی پچھلی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کا یہی دہرا معیار موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے جو صاحب فہم اور صاحبِ علم افراد ہیں وہ اپنی نجی گفتگو میں ہمیشہ اس قسم کی بات کرتے ہیں مگر وہ پبلک میں اُسے کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس دہرا معیار کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنا معاملہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کیےرہتے ہیں مگر مسلم عوام کو ذہنی گمراہی میں ڈال کر اُنہیں اُس کا انجام بھگتنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اپنا ذاتی مسئلہ تو ہوشیاری کے ساتھ درست کر لیتے ہیں، مگر وہ عوام کو بدستور بے شعوری کی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ وہ اُس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں، اور کبھی ترقی نہ کرسکیں۔ ترقی کے لیے صحیح طریقہ غیر جانبدارانہ انداز میں نصیحت کا طریقہ ہے۔ مگر مسلمانوں میں کوئی غیر جانبدارانہ نصیحت کی بولی بولنے کے لیے تیار نہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات کو میں 1947 سے مسلسل دیکھتا رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کہ مسلمان اپنے مسئلہ کاحل قرآن میںنہیں ڈھونڈتے، وہ دوسروں کی باتیں سُن کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اسلام اُن کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہے۔ اسلام اُن کا قومی کلچر ہے، وہ اُن کا دین نہیں۔ موجودہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اُن کی ملّی پالیسی قرآن سے ماخوذ نہیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کے بیانات، ہیومن رائٹس اور کمیشن کی رپورٹیں، تعلیم یافتہ طبقہ کا اظہار خیال، یہی مسلمانوں کی ذہن سازی کے ذریعے ہیں۔ اُن کا مشترک طریقہ یہ ہے کہ وہ حالات کو قانون اور منطق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب بھی اُنہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خُدا نے اس آگ کو بجھا دیا (المائدۃ
اس اعتبار سے دیکھئے تو دوسروں کا طریقہ آگ بھڑکانے والوں کا ہے ۔جب کہ قرآن کے مطابق، مسلمانوں کا طریقہ آگ بجھانے کا ہونا چاہیے، نہ کہ ایسا طریقہ اختیار کرنا جو آگ کو مزید بھڑکانے کا سبب بن جائے— اس طرح کے معاملات میں قرآن کا طریقہ اصلاحِ خویش کے اصول پر قائم ہے، اور دوسروں کا طریقہ احتساب غیر کے اصول پر۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو دیکھ کر آخرت کی نعمتوں کو یاد کرے۔ مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کے مطابق، دنیا میں گم ہو کر آخرت کو بھول گئے ہیں (الدھر
واپس اوپر جائیں
انڈیا کے سابق وزیر خارجہ مسٹر نٹور سنگھ (پیدائش 1931) اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو، اور جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی اُن کی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ (study room) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں دنیا بھر کی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میںاپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, p.
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتابیں نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے سکے۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ، اور وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک خیالی نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہے— اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اورجانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ او ر ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرہ155-156:)
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہرحال ہونے والا تھا، اور وہ اپنے ٹھیک وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں۔یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایک بار اختلاف کردیں تو اس کے بعد وہ اس پر اس طرح جم جائیں کہ وہ اپنے اختلاف کو کبھی ختم نہ کریں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اختلاف کے ساتھ اعتراف کرنا بھی جانتے ہوں۔ جن کے اختلاف کی ایک حد ہو، ایک حد کے بعد وہ اپنا اختلاف ختم کردیں اور دل میں کوئی شکایت رکھے بغیر فریق ثانی کے ساتھ متحد ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ کا شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آج کسی بھی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں۔ تقریباً ہر آدمی ذہنی تناؤ اور فکری الجھن میں مبتلا ہے۔ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ سامان والا ہو یا بے سروسامان۔ کچھ سال پہلے بنگلور کے ایک کمپیوٹر انجینئر کو اس کی ایک ایجاد پر امریکہ کی ایک کمپنی کی طرف سے 750 ملین ڈالر اچانک مل گئے۔ مگر اس غیر معمولی دولت نے اس کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کردیا۔ یہاں تک کہ صرف ایک سال کے اندر اس کا یہ حال ہوا کہ اس کی نیند ختم ہوگئی اور رات کے وقت وہ نیند کی گولیاں کھا کر سونے لگا۔ موجودہ دنیا کے بیشتر لوگوں کا حال کم وبیش یہی ہے، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔
اس مسئلہ کا عام طور پر دو حل بتایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کماؤ تاکہ زیادہ سے زیادہ راحت کے سامان حاصل کرسکو۔ مگر تجربہ واضح طورپر اس کی تردید کرتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے بے شمار دولت کمائی اور راحت اور آرام کے تمام سامان اپنے پاس اکٹھا کرلئے۔ مگر ان سب کے باوجود وہ سکون اور چین سے محروم رہے یہاں تک کہ مرکر اس دنیا سے چلے گئے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے معیار پسند(perfectionist)ہے۔ جب کہ موجودہ دنیا ہر اعتبار سے غیر معیاری(imperfect) ہے۔اس صورت حال نے انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک تضاد پیدا کردیا ہے۔ اسی تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی انسان ہر قسم کے دنیوی سامان کو حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر چیز اس کو اپنے ذہنی معیار سے کم تر معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے وہ ان کو پاکر بھی مطمئن نہیںہوتا۔بظاہر راحت کے سامان کے درمیان بھی وہ ہمیشہ ایک قسم کے غیر شعوری عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔ فطرت کا یہ قانون ثابت کرتا ہے کہ دنیوی راحت کے سامانوں میں ذہنی سکون تلاش کرنا ایک ایسا بے سود عمل ہے جو کبھی کار آمد بننے والا ہی نہیں۔
دوسرا حل وہ ہے جو خاص طور سے یوگا کے مبلغین کی طرف سے بتایا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے ملک کے اندر اور ملک کے باہر بہت سے میڈیٹیشن سینٹر قائم کیےہیں۔ یہاںدھیان اور میڈیٹیشن کے ذریعہ لوگوں کو ذہنی سکون کی تربیت دی جاتی ہے۔ اُن کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص مراقبہ کے ذریعہ انسانی ذہن میں سوچ کے عمل کو معطّل کر دیا جائے تاکہ وہ پریشانی کو شعوری طور پر محسوس کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ مگر اس قسم کا ذہنی سکون حقیقتاً ذہنی تخدیر(mental anesthesia) کے ہم معنٰی ہے۔ یہ انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو کند کرکے اس کو بے حس حیوان کی سطح پر پہنچا دینا ہے۔ اس قسم کا ذہنی سکون، اگر بالفرض حاصل بھی ہو جائے تب بھی وہ یقینی طور پر غیر مطلوب چیز ہے۔ کیوں کہ جو چیز انسان کی اعلیٰ فکر ی صلاحیت کو دبا دے۔ وہ گویا انسان کو کوما(coma) کی حالت میں پہنچانا ہے۔ ایسا ذہنی سکون انسانی موت ہے ،نہ کہ انسانی زندگی۔
میڈیٹیشن(meditation) کا یہ طریقہ فطرت کے نظام کی تردید ہے۔ فطرت نے انسان کو جو سب سے اعلیٰ چیز دی ہے وہ اس کا دماغ (mind) ہے ۔ فطرت کے نقشے کے مطابق، دماغ کے لئے پریشانیوں کا پیش آنا کوئی برائی کی بات نہیں۔ یہ دراصل زحمت میں رحمت(blessing in disguise) ہے۔ فطرت نے انسان کی ذہنی ترقی کے لئے شاک ٹریٹمنٹ کا طریقہ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں شاک ٹریٹمنٹ کے عمل کو ختم کرنا انسان کی ذہنی ترقی کے دروازہ کو بند کرنا ہے۔ اس اعتبار سے یہ طریقہ فطرت کے نظام کے خلاف ہے اور جو چیز فطرت کے نظام کے خلاف ہو وہ اپنے آپ قابل رد ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ذہنی پریشانی(mental tension) کے مسئلہ کا حل ذہنی پریشانی کو ختم کرنا نہیںہے بلکہ اس کو مینج (manage) کرنا ہے۔ فکری تدبیر کے ذریعہ اس کو اس طرح غیرمؤثر کر دینا ہے کہ وہ عملاً تو انسان کے لئے پیش آئے، مگر وہ انسان کے ذہنی سکون کو برہم (disturb) نہ کرسکے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔ دہلی میں ایک 30 سالہ نوجوان ہیں جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔ ان کو وہاں
One can take away your job. But no one has the power
to take away your destiny.
مذکورہ نوجوان نے اس فارمولا کو پکڑ لیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ملے، اور انہوں نے کہا کہ اب مجھے پوری طرح ذہنی سکون حاصل ہوگیا ہے۔ اب میں اطمینان کے ساتھ سوتا ہوں، اور اطمینان کے ساتھ دن گزارتا ہوں۔ اسی طرح ہر آدمی اپنی ذہنی پریشانی کو مینج کرکے اس کو ڈیفیوز (defuse)کر سکتا ہے۔ وہ ذہنی پریشانیوں کے باوجود ذہنی سکون کی زندگی حاصل کرسکتا ہے، بغیر اس کے کہ وہ اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دماغ اتھاہ صلاحیتوں کا خزانہ ہے۔ تمام ذہنی پریشانیوں کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرسکنا۔ اسی طرح تمام ذہنی پریشانیوں کا حل بھی صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروقت استعمال کرلینا۔
ایک بڑے شہر کے ایک تاجر ہیں۔ اُنہوں نے ایک سامان(production) تیار کیا۔ اس میں انہوں نے پچاس لاکھ روپئے لگا دئیے۔ سامان جب تیار ہوا تو اس کے بعد اچانک مارکیٹ میں اس کا دام بہت گر گیا۔ مجبوراً اُنہیں اپنے سامان کو گودام میں رکھ دینا پڑا۔ اس حادثہ کا اُن پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ راتوں کی نیند غائب ہوگئی۔ وہ اعصابی کمزوری کا شکار ہوگئے۔
اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میںنے انہیں سمجھایا۔ میں نے کہا کہ آپ اس معاملہ کو صرف حال(present) کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنی اس سوچ کو بدلیے اور معاملہ کو مستقبل(future) کے اعتبار سے دیکھنا شروع کر دیجیے۔ آپ سادہ طورپر صرف اتنا کیجیے کہ اس معاملہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دیجیے۔ انہوں نے میری نصیحت پکڑ لی۔ اس کے تقریبا دو سال بعد اُن کا خط آیا جس میں انہوں نے خوشی کے ساتھ لکھا تھا کہ میرا تمام سامان نفع کے ساتھ فروخت ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا انحصار سوچنے کے طریقہ پر ہے۔ اگر آپ ایک طریقہ سے سوچیں تو آپ کا ذہن ایک ڈھنگ کا بنے گا اور اگر آپ دوسرے طریقہ سے سوچیں توآپ کا ذہن دوسرے ڈھنگ پر کام کرنے لگے گا۔ اس طرح ہر مایوسی کو اعتماد میں بدلا جاسکتا ہے اور ہر پست ہمتی کو بلند ہمتی میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میں پیغمبر کو حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے: وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا (
Do great jihad with the great power that is the Quran.
اس سے مزید یہ نکلتاہے کہ نظریہ کی طاقت تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کے ذریعہ جہاد کبیرکا حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی طاقت سیاسی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے:
Ideological power is greater than political power.
واپس اوپر جائیں
■ مسٹرساجد انور (ممبئی) سی پی ایس کے ایک بہت فعال ممبر ہیں۔ ان کی دعوت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ مختلف لوگوں کو سی پی ایس ویب سائٹ (www.cpsglobal.org)کے سبسکرپشن پیج سے منسلک کردیتے ہیں۔ یا سی پی ایس کے واٹس ایپ نمبر (9999944119)سے متصل کردیتے ہیں۔اس طرح ان کو سی پی ایس سے وزڈم کی باتیں ملتی رہتی ہیں، جو ان کے لیے رہنمائی کا کام کرتی ہیں۔ ذیل میں ایک تاثر دیا جارہا ہے، جو ان کے ایک دوست نے ان کو لکھا ہے:
Hello Sajid ji, hope you and your family are doing well. Nowadays I am missing your earlier regular Blogs from Maulana Wahiduddin Khan about a movement based on love, not hate. Are you still getting them regularly?? If so, please share with me. (A Shyamala Murtha, GAIL [India] Limited)
■ صدر اسلامی مرکز کے سوال و جواب پر مبنی مضامین اب سوال و جواب کی مشہور شوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کورا (Quora) پر آنا شروع ہوگئے ہیں (لنک اس خبر نامہ کے آخر میں موجود ہے)۔ اس سلسلہ میںایک تاثر دیا جارہا ہے، جو مسٹر وجئےراج کامت نےکورا پر لکھا ہے:
Absolute joy to see you on Quora, sir! I have been a fan of yours ever since I read your article on the sacred space in The Times of India. Really need more voices of reason and patience on this site, when it comes to providing perspectives on Islam, peace, identity, wars, etc. Big welcome! I have reported your joining on the Quora Indian writers’ forum. Will try my best to socialize your answers as much as possible. (Vijayraj Kamat, speaker, author and life coach)
ثکیرالا میں مسٹر شبیر علی، الرسالہ مشن کو پھیلا رہے ہیں۔ انھوں ایک صاحب کو ملیالم زبان میں ملیالم ترجمۂ قرآن اور کچھ دعوتی لٹریچر بھیجا تھا۔ اس کا تاثرخود مسٹر شبیر علی کےالفاظ میں درج ذیل ہے:
We have received several responses from Keralites after reading the Malayalam translation of Maulana’s What is Islam. Today I received this message from a young educated person: Thank you, I’m really pleased to receive and read this insightful book. It is a small book with comprehensive knowledge about Islam, spirituality and its practice. The presentation, structure of paragraphs and progress of subjects itself prove the scholarly achievements and spirituality of Great Maulana. I guess you have translated this book. Insha Allah, I will get few of these to gift to some of my friends who I believe will benefit from it. Reading this book was a joy and I believe it has increased my faith. I have got 21 Quran translations and am successfully passing on to those who deserve it with prudence. (Shabeer Ali, Kozhikode)
■ آج کے دور میں ہر سنجیدہ انسان قرآن کو پڑھنا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک امریکن عیسائی نن کا تاثر ذیل میںدیا گیا ہے، جو اس بات کے لیے کافی ہے کہ دعوت کا کام ہر پیمانے پر ہونا چاہیے:
I am a Catholic nun and want to study the Quran to understand what Muslim people are truly taught. I firmly believe that violence never brings peace. Thank you for your consideration. Peace and Allah’s Blessings upon your work for peace. (Mary Fisher, Blanco, New Mexico, USA)
■ امریکا میں دعوت کا کام تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خواجہ کلیم الدین صاحب (موبائل 617-960-7156) امریکا اور کناڈا میں سی پی ایس مشن کے تحت دعوتی کام کو پھیلا رہے ہیں۔اس سلسلے میں امریکا سے خواجہ کلیم الدین صاحب لکھتے ہیں:
1. The demand for the Quran has increased manifold with the change of political climate here. Two people, one brother from Florida and one sister from Mississippi, who had requested free Quran online are now working to spread the message of God on their own in their respective areas among their friends and families . (Khaja Kaleemuddin, Pennsylvania, USA)
2. Thank you very much for the beautiful books brother Khaja! I have added these books to my personal library to read and study them. The extra copies, I will distribute to my family! I have distributed about 9 packages of Maulana's books to my coworkers, neighbours, and to several other people in my neighborhood! It’s been a wonderful experience and opportunity spreading the message of God’s creation plan with people! I really enjoy my dawah work, and I acknowledge that I am growing and improving in my faith, spirituality, and building a stronger, closer relationship with God! Presently, I’m in the process of connecting with clinics, hospitals, and community centers to conduct my dawah work by distributing Maulana Wahiduddin Khan’s books! (Yvette Francine Gray, Greenville, Mississippi, USA)
■ ذیل کا تاثر خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا )نے بھیجا ہے، جو ان کو قرآن ملنے پر مس مارلی نےلکھا تھا:
Good morning, I received my package this past Saturday and wanted to thank you very much. The Quran is so beautiful and I didn't expect to be blessed with all the other books. Thank you so much and may Allah bless you! (Marieli Agosto, Texas)
■ دعوت کی راہ میں خدا کی مدد کیسے آتی ہے، اس سلسلے میںدرج ذیل واقعہ کو دیکھیے۔یہ واقعہ مس سیما جلال کے ساتھ پیش آیا جو کہ ڈاکٹر نغمہ صدیقی کی بہن ہیں۔ واضح رہے کہ یہ پوری فیملی اپنے جان اور مال اور وقت سے سی پی ایس کا دعوتی مشن آگے بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔
I went to visit a friend, who had recently lost her husband. She is an elderly lady, in her late sixties. There were other ladies there. Each was trying to give their advice on how to cope with grief. In the discussion, they started mentioning their respective gurus. I also spoke about CPS and Maulana—that he has written books on spirituality and his articles regularly come in the Speaking Tree. At this, my friend replied that she had a book, which was published recently, containing various articles from the Speaking Tree. While she was speaking, I started going through the book to find Maulana’s article. She was saying that we take life for granted. Before she could finish the sentence, I opened a page in the book. This had Maulana’s article titled ‘Taking Life for Granted’. Both of us were amazed. She said: "What just happened was very strange, and she was deeply touched.'' I then gave her the pamphlet The Reality of Life. I had been trying to find an opportunity to give it to her, and through this incident God made it easy. (Seema Jalal, Dubai)
■ مس سیما جلال نے یہ دوسرا تاثر بھی لکھا ہے:
Dear Seema, Allah bless you for gifting to me the precious book titled Quranic Wisdom by Maulana Wahiduddin Khan. Being a slow reader in order to absorb what I am reading, I have read half of the book and have decided to gift this book to known people who have even a little inclination to read for development of their positive spirituality and for my selfish reason of spreading Quranic wisdom in the simplest narrative reflected in our daily life and thereby earn the blessings of Allah. Allah in his kindness provided to me the opportunity to read innumerable commentaries and interpretation of the Quran, listen to the learned and discuss with the knowledgeable in the Quran, Hadith and Islamic jurisprudence mostly from the Middle East and I continue to learn from such reading, listening and interaction. However, the aspect or the theme of the Quran associated with spirituality is a discovery and applicable to daily life. This I intend to share with others through the book. In the age of Whatsapp, the span of attention in reading is limited and perhaps Maulana, in his wisdom, wrote each chapter such that it can be read in ten minutes, which should be acceptable to Whatsapp addicts. I advise you to first make your family read the book and advise to whoever you gift the book to read maximum for thirty minutes or minimum ten minutes daily. May Allah shower His blessings on you and your family and guide all to attain positive spirituality. (Hayat Yar Khan)
■ صدر اسلامی مرکز کی ایک نئی انگریزی کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب صدراسلامی مرکز کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ایک صاحب، مسٹر جیوا بہت متاثر ہوئے ، اور اس کا تامل زبان میں ترجمہ کردیا۔ درج ذیل تاثر سی پی ایس ( تامل ناڈو)کی ٹیم نے دیا ہے، جن کو مسٹر جیوا نے اس سلسلے میں انوائٹ کیا تھا:
As you know, Non-Violence and Peace-Building in Islam has been penned by Maulana few months ago. Its book review appeared in the ‘Sarvodhya’ magazine. After reading that, one Dr. Jeeva called us from Erode, one of the cities of Tamil Nadu. He immediately contacted us to have a copy of the book. We supplied him the book and he was quite impressed with it. We were unaware that he himself later translated this entire book into Tamil and posted the manuscript at our Chennai CPS address. We were very impressed and sought his appointment. By that time, we learned that he is a Gandhian activist and a well-known philanthropist. He has written and translated more than 100 books and devoted his life to setting up hospitals for poor as co-operative societies. CPS members Syed Iqbal Umeri, Khateeb Asrarul Hasan and Faiz Qadiri met Dr. Jeeva at his residence. He welcomed us. He has introduced CPS to many top personalities and writers of Tamil Nadu. He translated Maulana’s book on non-violence within 10 days. We are about to publish the book shortly.
■ الرسالہ جولائی 2017 ری پلاننگ کے موضوع پر ایک اسپیشل نمبر تھا، جس کے ذریعہ صدر اسلامی مرکز نے مسلمانوں کو یہ رہنمائی دی کہ آج کے دور میں ان کو اپنی منصوبہ بندی کو تبدیل کرنا چاہیے۔ الرسالہ کے اس اسپیشل نمبر کو پڑھنے کے بعداندور کے مسٹر شکیل احمد نے درج ذیل تاثر دیاہے:
Al-Risala of July 2017 is the most refined and eye opening issue for one and all. Jazak Allah Maulana for guiding us in the right direction. How intelligently you have collected and placed all respective historical events one after another to enlighten us in respect of current burning issues of Muslim world! When I finished reading it, I cried: “Alas! May God endow our so-called Muslim leaders with the importance of re-planning. They must take a U-turn in all current burning issues.” I felt a thrill within me. I wanted to become a source of forwarding a copy of this issue and distribute it as free gift to all Muslims in my city of Indore, as a free gift. Once again I thank Maulana from the core of my heart for his precious writings and enlightenment and pray to God Almighty to bless him with a long life and good health! (Shakeel Ahmed, Indore)
■ دعوتی دورہ:ممبئی ٹیم تسلسل کے ساتھ دعوتی سفر کررہی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا آنے والا دعوتی سفر سہارنپور، یوپی کا ہوگا۔ یہ دعوۃ میٹ
■ صدر اسلامی مرکز کے انگریزی مضامین اور سوال و جواب کے لیے وزٹ کیجیے:
www.cpsglobal.org
www.alquranmission.org
www.spiritofislam.co.in/spiritnew
www.facebook.com/cpsinternational
www.facebook.com/maulanawkhan
www.quora.com/profile/Maulana-Wahiduddin-Khan-1
https://www.soulveda.com/viewauthor.php?uid=
http://www.speakingtree.in/maulana-wahiduddin-khan
■ ترجمۂ قرآن حاصل کریں: سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ بکس سےترجمۂ قرآن (free of cost) دیا جاتا ہے۔ خواہش مند حضرات درج ذیل لنک پر جاکر فارم پر کرسکتے ہیں۔ ان کو بذریعہ پوسٹ قرآن بھیج دیا جائے گا
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.