مغربی نو آبادیات (colonialism) کا زمانہ سولہویں صدی سے بیسویں صدی کے نصف اول تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نوآبادیاتی نظام پہلے زمانے کی شہنشاہیت سے مختلف تھا۔ اصل یہ ہے کہ جدید صنعت کے ظہور کے بعد یورپ میں ماس پروڈکشن (mass production) کا زمانہ آیا۔ اب ضرورت ہوئی کہ اس فاضل پیداوار کے لیے بیرونی مارکیٹ حاصل کی جائے۔ اس طرح فاضل پیداوار کی کھپت کے لیے نوآبادیاتی نظام کا دور شروع ہوا۔ نوآبادیاتی نظام میں فوج کشی قدیم رواج کے زیر اثر آئی۔ ورنہ نوآبادیات کا فوج کشی سے براہ راست تعلق نہ تھا۔
نو آبادیاتی نظام کو فوج سے وابستہ کرنے کی بنا پر ایشیا اور افریقہ میںنو آبادیات کی زیر حکم ریاستوں میں اس کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا۔بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ظاہر ہوگیا کہ نوآبادیات اور سیاسی اقتدار دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اب مغرب میں نئی سوچ پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ نو آبادیات کو سیاسی اقتدار سے ڈی لنک (de-link) کردیا جائے۔ چنانچہ فرانس نے ڈیگال کے زمانے میں افریقہ میں اپنی نوآبادیات کا یک طرفہ طور پر خاتمہ کردیا۔ اسی طرح برطانیہ نے ایشیا میں اپنی نوآبادیاتی حکومتوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔
اس کے بعد مغربی قوموں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ری پلاننگ کی۔ اس نئی پلاننگ کا طریقہ آؤٹ سورسنگ پر مبنی تھا۔یعنی آؤٹ سائڈ ریسورسنگ (outside resourcing) کا طریقہ۔ قدیم نوآبادیاتی نظام میں جو مقصد فوج سے لیا گیا تھا۔ اب وہ مقصد ٹکنالوجی اور تنظیم (organization) سے لیا جانے لگا۔ یہ طریقہ بہت کامیاب رہا۔ قدیم زمانے میں فوج کے ذریعہ جو تجارتی مقاصد حاصل کیے جاتے تھے، اب اس کی جگہ آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ اس سے بہت زیادہ تجارتی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں۔ اب تمام صنعتی ممالک اسی اصول پر اپنی تجارتوں کو ساری دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنا بزنس ایمپائر (business empire) قائم کر رکھا ہے۔
اس معاملے میں مسلم قومیں آخری حد تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ قدیم زمانے میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں۔ نیا دور آیا تو ان کی حکومتیں فطری طور پرختم ہوگئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں میں رد عمل (reaction) پیدا ہوا۔ انھوں نے جہاد کے نام پر ساری دنیا میں لڑائی شروع کردی۔ یہاں تک کہ وہ سوسائڈ بمبنگ کی انتہائی حد تک پہنچ گیے۔ لیکن تقریباً دوسو سال کی قربانیوں کے باوجود انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا، وہ قدیم سیاسی نظام کو واپس لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمان اس معاملے میں اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔
یہ ری پلاننگ پوری طرح نان پولٹکل (non-political) ری پلاننگ ہوگی۔ قدیم زمانے میں اگر مسلمانوں نے اپنی حکومتیں قائم کی تھیں تو اب انھیں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ موقع حاصل ہے کہ وہ پر امن دائرے میں اپنا ایک غیر سیاسی ایمپائر قائم کرسکیں۔ موجودہ زمانے میں جو نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ قدیم زمانے کے مواقع کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔ ان جدید مواقع کو استعمال کرنا انتہائی حد تک ممکن ہے۔ اس کی شرط صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد (violence) کے ہر طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں۔
قدیم زمانے میں جو اہمیت فوجی طاقت کو حاصل ہوتی تھی، وہ اہمیت اب تنظیم کو حاصل ہوچکی ہے۔اب مسلمانوں کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی تنظیم کے ذریعے اپنے کام کی ری پلاننگ کریں۔ وہ ایک امن پسند قوم کی طرح نئے مواقع کے حصول کی منصوبہ بندی کریں۔ اس نئی منصوبہ بندی میں ان کا ایک بڑا آئٹم قرآن کو عالمی سطح پر پھیلانا ہوگا۔ قرآن کے تراجم اگر دنیا کی تمام زبانوں میں تیار کیے جائیں، اور ان کو پر امن انداز میں ساری دنیا میں پھیلایا جائے تو یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا کام ہوگا جو تمام بڑے کاموں کے مقابلے میں زیادہ بڑا کام بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتح مبین (الفتح 1:) کے واقعہ کو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ مسلمان ری پلاننگ کے آرٹ کو جانیں، اور اس کو دانش مندی کے ساتھ پر امن انداز میں رو بہ عمل لائیں۔
واپس اوپر جائیں
برٹش ایمپائر (British Empire)کی ایک عظیم تاریخ ہے، اپنے عروج کے زمانے میں وہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ برطانی ایمپائر میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا:
It had been said that the sun never sets on the British flag.
آخری زمانے میں قانون فطرت کے تحت برٹش ایمپائر میں کمزوری آئی ۔ لیکن برٹش ایمپائر کے سیاسی ذمہ داران اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ برٹش ایمپائرکا خاتمہ کریں۔ برطانیہ کے پرائم منسٹر ونسٹن چرچل (1874-1965)نے کہا تھا کہ میں اس سیٹ پر اس لیے نہیں آیاہوں کہ میں برطانی سلطنت کے خاتمے کی صدارت کروں:
I have not become the King's First Minister in order to preside over the liquidation of the British Empire.
مگر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد برطانیہ کی فوجی طاقت کمزور ہوگئی۔ بظاہر یہ ممکن نہیں رہا کہ برطانیہ اپنے ایمپائر کو باقی رکھے۔ اس وقت برطانیہ میں ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کا نام فیبین سوسائٹی (Fabian Society)تھا۔ اس تحریک کا ایک مقصد ڈی کلونائز ( decolonize)کرنا۔
فیبین سوسائٹی کے ایک ممبر لارڈ اٹلی(Clement Richard Attlee, 1883-1967) ونسٹن چرچل کے بعد برطانیہ کے پرائم منسٹر بنے۔ لارڈ اٹلی نے بے لاگ طور پر صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انڈیا اور دیگر ممالک کو یک طرفہ طور پر آزاد کردیا جائے۔ اسی کے مطابق انڈیا 1947 میں برطانیہ کے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوا۔
برٹش ایمپائر برطانیہ کے لیے ایک قومی عظمت کا معاملہ تھا۔ برطانیہ کے لیے لوگ اپنی اس قومی عظمت پر فخر کرتے تھے۔ مگر جب حالات بدل گیے تو برطانیہ کے لوگوں نے یو ٹرن (u-turn) لیا۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں ماضی کی عظمت سے باہر نکلنا ہے، اور حالات کے مطابق اپنے قومی تعمیر کی ری پلاننگ کرنا ہے۔ چنانچہ لارڈ اٹلی کی لیڈر شپ میں انھوں نےایسا ہی کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے لوگ اپنی قومی ترقی کو نئی بنیاد پر قائم رکھنے میں کامیاب ہوگیے۔
اسی قسم کی سیاسی صورت حال موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی ہے۔ مسلمانوں نے بعد کے زمانے میں دنیا کے بڑے رقبے میں اپنا سیاسی ایمپائر قائم کرلیا۔ پھر مسلم ملت میں زوال کا دور آیا۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ ان کی سیاسی عظمت (political glory) کا خاتمہ ہوگیا۔
اس کا سبب تمام تر داخلی تھا، مگر مسلمانوں نے اس کو عملی طور پر قبول (accept) نہیں کیا۔ وہ اس کی ذمہ داری دوسروں کے اوپر ڈالتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر منفی سوچ (negative thinking) آگئی۔ وہ اپنی سابقہ پولیٹکل عظمت کو واپس لانے کی کوششیں کرنے لگے۔ مگر یہ ایک غیر حقیقی منصوبہ تھا، جو آخری حد تک ناکام رہا۔
مسلمانوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں جینا مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور حال کے اوپر دوبارہ اپنے قومی عمل کی ری پلاننگ کریں۔ قدیم زمانے میںمسلم ایمپائر جن حالات کے تحت قائم ہوئے تھے، وہ حالات اب ختم ہوچکے ہیں۔ اب نہ مسلمانوں کے لیے اور نہ کسی اور قوم کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ قدیم طرز کا پولیٹکل ایمپائر دنیا میں قائم کریں۔اس معاملے میں مسلمان اگر حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں ،تو وہ نئے حالات کے امکان کو دریافت کرلیں گے۔ اس کے بعد ان کے لیے یہ ممکن ہو جائے گا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو دوبارہ نئے عنوان سے حاصل کرلیں۔
کسی قوم کے لیے عروج و زوال کا واقعہ سبق کے لیے ہوتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے زوال کے واقعہ کو سبق کے معنی میں لیا، اس بنا پر ان کو بہت جلد معلوم ہوگیا کہ یہ وقت ان کے لیے ری پلاننگ کا ہے۔ مسلمان عملاً اس راز سے بے خبر رہے، اس لیے زوال کے بعد اپنی قومی ترقی کی ری پلاننگ کے لیے وہ حقیقت پسندانہ منصوبہ بنانے میں ناکام رہے۔ یہی سبب ہے موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ناکامی کا۔
واپس اوپر جائیں
جرمنی، اڈولف ہٹلر کی قیادت میں دوسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا پارٹنر تھا۔ یہ جنگ 1939 سے 1945 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پچاس ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ دوسرے نقصانات اس سے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ (ایسٹ جرمنی ) کھودیا تھا۔ دوسرے عظیم نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
جنگ کے خاتمے کے بعد جرمنی نے ری پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا۔ پہلی پلاننگ کے زمانے میں ہٹلر جرمنی کا رہنما تھا تو دوسری پلاننگ کے زمانے میں جرمنی نے اپنے مشہور اسٹیٹس مین (statesman) بسمارک (Otto von Bismarck [1815-1898] )کی فکرکو اپنا رہنما بنایا۔ بسمارک نے کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا فن ہے:
Politics is the art of the possible. (St. Petersburgische Zeitung, Aug 11, 1867 [www.shmoop.com])
جرمنی کے اہل دماغ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ دریافت کیا کہ ان کی پہلی پلاننگ ناممکن (impossible) پر مبنی تھی۔ اب انھیں ممکن (possible) کی بنیاد پر نیا منصوبہ بنانا چاہیے۔ بعد از جنگ کے زمانےمیں جرمنی نے اسی اصول پر کام کیا۔ اس نے اپنی توجہ جنگ سے ہٹا کر پرامن ترقی پر مرتکز کردیا۔ خصوصا سائنس اور صنعت کے میدان میں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ خاص طور پر پرنٹنگ مشین کے معاملے میں اس نے ساری دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جرمنی کی ری پلاننگ کامیاب رہی۔ جرمنی ربع صدی کےعرصے میں یورپ کا نمبر ایک صنعتی ملک بن گیا۔ اب اس کی اقتصادیات پورے یورپ میں سب سے زیادہ مستحکم اقتصادیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ جرمنی کی یہ ترقی ایک لفظ میں ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرنے سے حاصل ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ میں جرمنی نے اپنے ملک کے ایک بڑے رقبے کو کھودیا تھا۔ لیکن جنگ کے بعد مبنی بر امن ری پلاننگ کے نتیجے میں جرمنی نے دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کو حاصل کرلیا۔ یہ معجزاتی واقعہ 1990 میں پیش آیا۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے جرمنی کا نشانہ ہٹلر کی قیادت میں یہ تھا کہ جرمنی پورے یورپ کا پولٹکل ماسٹر (political master) بنے۔ اس نشانہ میں جرمنی کو مکمل ناکامی ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی نے یہ قابل عمل نشانہ بنایا کہ وہ جرمنی کے صرف باقیماندہ حصہ (remnant part of Germany) کو پرامن انداز میں ڈیولپ کرے۔ جرمنی کا پہلا نشانہ مکمل طور پر ناکام ہوا تھا، لیکن جرمنی کا دوسرا نشانہ ری پلاننگ کے بعد مکمل طور پر کامیاب رہا۔
جرمنی کے اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں زمینی علاقہ (territory) کی اہمیت اضافی (relative) بن چکی ہے۔آدمی کے پاس اگر چھوٹا علاقہ ہو، تب بھی وہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی میں دو چیزوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ ایک ہے بہتر کمیونی کیشن (communication)، اور دوسری ہے بہتر تنظیم (organization) ۔
جدید جرمنی نے صرف یہ نہیں کیا ہے کہ اس نے خود کو اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے یہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کیا ہے۔ اس بات کا ماڈل پیش کیا ہے کہ کس طرح نقصان کے باوجود دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس سے مختلف مثال کچھ مسلم ملکوں کی ہے۔ وہ اپنےخیال کے مطابق اپنےکھوئے ہوئے علاقےکی بازیابی کے لیے لمبی مدت سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مگر انھیں کوئی بھی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کو چاہیے کہ وہ جرمنی کی مثال سے سبق لیں، اور اپنے ملے ہوئے علاقے کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کریں، اور جدید امکانات کو استعمال کرتے ہوئے، دوبارہ بڑی کامیابی حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں جاپان اس کا سرگرم ممبر تھا۔ اس نے بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ لیکن جب 1945 میں امریکا کی طرف سےجاپان پر دو ایٹم بم گرائے گیے، اور اس کے نتیجے میں جاپان کے دو بڑے شہروں ، ہیروشیما اور ناگاساکی میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ یہ جاپان کے لیے مکمل شکست کا واقعہ تھا۔ مگر
جنگ کے بعد جاپان کے مدبروں نے پورے معاملے پر ازسر نو غور کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگ میں اپنی پوری طاقت لگانے کے باوجود ، اور جان و مال کی قربانیاں دینے کے باجودہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بعد ان کے اندر نئی سوچ پیدا ہوئی،انھوں نے دریافت کیا کہ اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی صرف امن کی طاقت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ تشدد کا طریقہ بربادی تو لاسکتا ہے، لیکن وہ کوئی ترقی لانے والا نہیں۔
اس کے بعد اس وقت کے جاپانی حکمراں ہیرو ہیٹو (Hirohito) نے ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ جاپان کی دوبارہ ترقی کے لیے ہمیں ناقابل برداشت کو برداشت کرنا ہے، تاکہ ہم جاپان کو ایک ترقی یافتہ نیشن بنا سکیں:
The time has come to bear the unbearable
دو ایٹم بموں کی تباہی کی بنا پر جاپانی قوم اس وقت انتقام میں مبتلا تھی۔ لیکن جاپان کے کچھ دانشور اٹھے۔ انھوں نے یہ کہہ کر جاپانی قوم کو ٹھنڈا کیا کہ امریکا نے اگر 1945 میں ہمارے دو شہر ، ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا ہے تو اس سے پہلے 1941میں ہم خودکش بمباری کے ذریعہ امریکا کے بحری مرکز پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس حادثے کو بھلاؤ، اور جاپان کی نئی تعمیر کرو۔
اس کے بعد جاپان نے اپنی قومی تعمیر کی ری پلاننگ کی ۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ انھوں نے فوجی میدان کو چھوڑ دیا، اورپچیس سال تک صرف سائنسی تعلیم اور صنعت پر زور دیا جاتا رہا۔ اس نئی پلاننگ کی تفصیلات کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس نئی پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ جاپان شکست کے کھنڈر سے نکل کر دوبارہ ایک فاتح ملک بن گیا۔
جاپان کے لیڈروں نے جس طرح اپنے ملک کی ری پلاننگ کی۔ اس میں مسلم رہنماؤں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ مسلم علاقوں میں بھی کسی نہ کسی طور پر اسی قسم کے ناموافق حالات موجود ہیں۔ مسلم ممالک کے لیے بھی یہی امکان ہے کہ وہ ری پلاننگ کے اصول کو اختیار کرکے دوبارہ اعلیٰ ترقی حاصل کرے۔
مثال کے طور پر فلسطین کے معاملے میں جب بَالفور کا فیصلہ (Balfour Declaration) سامنے آیا تو اس وقت مسلم رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ بالفور ڈیکلریشن کے تحت فلسطین کے آدھے حصے کو یہود کو دےدیا گیا ہے، تو ہم کو چاہیے کہ ہم اس کو قبول کریں۔ کیوں کہ اس سے پہلے ہم صدیوں تک پورے فلسطین پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے تھے۔ اب اگر یہود کو موقع مل رہا ہے تو یہ قانونِ فطرت (آل عمران140:)کے تحت ہورہا ہے،اس میں ناانصافی کی کوئی بات نہیں۔ مسلم رہنماؤں نے اگر اس قسم کا فیصلہ کیا ہوتا تو یقیناً آج فلسطین کی تاریخ مختلف ہوتی۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے اسلام کی قدیم تاریخ میں بھی نمونے موجود ہیں، اور سیکولر قوموں کی تاریخ میں بھی ۔ انسانی تاریخ ہر قسم کے نمونے سے بھری ہوئی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ بے آمیز ذہن کے ساتھ کیا جائے۔ غیر متاثر ذہن کے ساتھ پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کچھ دروازے اگر بند ہوئے ہیں تو دوسرے دروازے پوری طرح کھلے ہوئے ہیں۔ اگر حالات کو سمجھ کر ری پلاننگ کی جائے تو یقیناً مستقبل کی نئی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ماضی کی ناکامیوں کو بھلایا جائے، اور مستقبل کے امکانات کو لےکر اپنےعمل کا منصوبہ بنایاجائے۔
واپس اوپر جائیں
مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839) مشہور سکھ راجا تھے۔ان کی حکومت ایک بڑے رقبےپر پھیلی ہوئی تھی۔
The geographical reach of the Sikh Empire under Ranjit Singh included all lands north of Sutlej river, and south of high valleys in the northwestern Himalayas. The major towns in the Empire included Srinagar, Attock, Peshawar, Bannu, Rawalpindi, Jammu, Gujrat, Sialkot, Kangra, Amritsar, Lahore and Multan.
سکھ کمیونٹی کے درمیان خالصہ تحریک کا آغاز برٹش پیریڈ میں ہوا۔ اس کا مقصد تھا مہاراجا رنجیت سنگھ کی پولیٹکل گلوری کو واپس لانا۔ ملک کی تقسیم کے بعداس کا دائرہ محدود ہوگیا۔ مگر 1979 میں خالصتان نیشنل موومنٹ کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا۔ اس کے بعد سکھ دانشوروں نے محسوس کیا کہ ان کی خالصہ تحریک کاؤنٹر پروڈیکٹو (counter-productive)ثابت ہورہی ہے۔ بظاہر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں ۔ اس سے سکھ کمیونٹی کے دانشوروں میں نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے اندر وہی ذہن پیدا کیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور کو گزری ہوئی تاریخ کا حصہ قرار دینا، اور نئے حالات کے تحت اپنے عمل کی ری پلاننگ کرنا۔
کچھ سکھ دانشوروں نے اپنی کمیونٹی کو بتایا کہ انڈیا کی آزادی(1947) کے بعد سکھ کمیونٹی نے انڈیا میں کافی ترقی کی ہے۔ انڈیا میں ان کی تعداد صرف دو فیصد ہے، مگر عملاً وہ انڈیا کی بیس فیصد (20%) اقتصادیات (economy) کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس کے بعد خالصہ تحریک کے لیڈر سردار جگجیت سنگ چوہان (وفات2007:) اپنی کمیونٹی میں غیر مقبول شخصیت بن گیے۔ اب سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے ری پلاننگ کے ذہن کے تحت عمل کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اب پنجاب انڈیا کے خوشحال ریاستوں میں سے ایک ہے۔
سکھ کمیونٹی کی یہ مثال فلسطین اور کشمیر پر پوری طورح منطبق ہوتی ہے۔ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان اس تجربے سے سبق لیں، اور اپنی قومی جدو جہدکی ری پلاننگ کریں تو بلاشبہ وہ ایک نئی تاریخ بنا سکتے ہیں۔ دونوں علاقوں میں ترقی کے غیر معمولی مواقع موجود ہیں، جو غیر حقیقت پسندانہ مزاج کی بنا پر ناقابل استعمال پڑے ہوئے ہیں۔ اگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ری پلاننگ کے راز کو جانیں تو وہ بلاشبہ اپنے لیے ایک عظیم مستقبل پیدا کرسکتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں نہ صرف کشمیر اور فلسطین بلکہ تمام دنیا کے مسلمان منفی سوچ میں جی رہے ہیں۔وہ دوسروں کو ظالم اور اپنے کو مظلوم سمجھتے ہیں۔ اس ذہن کی بنا پر ان کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) کا ڈیولپمنٹ نہیں ہوا۔ وہ اپنی ماضی کی گلوری کو جانتے ہیں، لیکن وہ حال کے مواقع سے بے خبر ہیں۔ وہ شکایت کلچر کو جانتے ہیں، لیکن وہ مبنی بر حقیقت منصوبہ بند ی سے واقف نہیں۔ ان کی سوچ اپنے مفروضہ ظالموں کی شکایت پر قائم ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو مظلومیت کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس منفی سوچ سے باہر آئیں تو وہ دریافت کریں گے کہ فیصلے کی جو بنیاد زمانے نے فراہم کی ہے، وہ عین ان کے حق میں ہے۔
آج کا زمانہ پوری طرح ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ لیکن مسلمان گزرے ہوئےماضی کے دور میں جی رہے ہیں۔ وہ عملاً تاریخ کے قیدی (prisoners of history) بنے ہوئے ہیں۔ یہی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے، اور اسی کی اصلاح سے ان کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لکھنؤ کے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974)مسلم مجلس مشاورت کے تاسیسی صدر تھے۔ انھوں نے ایک روزنامہ اردو اخبارنکالا تھا، قائد۔ اس میں انھوں نے اپنےایک مضمون میں لکھا تھا کہ مسلم صحافت ایک احتجاجی صحافت (protestant journalism) ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ زمانے کی پوری صحافت پر صادق آتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کو اس کے بجائے تخلیقی صحافت (creative journalism) کو وجود میں لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ آج کی دنیا میںاپنے لیے کوئی نیا دور پیدا کرسکتے ہیں۔ شکایت اور احتجاج کے ذریعہ انھیں کچھ ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
غلط تقابل
ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ کچھ مسلمانوں کو اگر کہا جائے کہ آج کل مسلمان بہت زیادہ انسانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ عالمی جنگوں میں بے شمار آدمی قتل کیے گیے، ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، وغیرہ۔ یہ کہہ کر گویا وہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل کا جواز دیتے ہیں۔ مولانا اس میں مغالطہ کیا ہے، واضح کریں۔ (ایک قاری الرسالہ، دہلی)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک غلط تقابل (wrong comparison)ہے۔ اس معاملے میں دیکھنے کی اصل بات یہ ہے کہ فرسٹ ولڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں جو قومیں شریک تھیں، انھوں نے جنگوں کے تجربے کےبعد کیا کیا۔ اس معاملے میں ان کا آخری نمونہ قابل اعتبار ہے، نہ کہ درمیان کا نمونہ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ جو قومیں فرسٹ ورلڈ وار اور سکنڈ ورلڈ وار میں شامل تھیں ، تجربے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان جنگوں میں انھوں نے صرف نقصان اٹھایا، جنگ کا طریقہ ان کے لیے پورے معنوں میں کاؤنٹر پرڈیکٹو ثابت ہوا۔ اس تجربے کے بعد ان قوموں کے قائدین نے دوبارہ غور کیا۔ انھوں نے پورے معاملے کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس کے بعد حقیقت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو ری پلاننگ کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ انھوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا، اور مکمل معنوں میں امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ برطانیہ نے یہ کیا کہ اپنی عظیم سلطنت (empire) کو خود اپنے اختیار سے ختم کردیا، اور اپنی سلطنت کو صرف برطانیہ تک محدود کرلیا۔ فرانس نے اپنی افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ جرمنی نے یہ کیا کہ ایسٹ جرمنی کو چھوڑ کر ویسٹ جرمنی کی تعمیر و ترقی میں لگ گیے۔ جاپان نے مکمل طور پر جنگ اور تشدد کا طریقہ چھوڑ دیا، اور جاپان کی پر امن ترقی میں مصروف ہوگیے، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایسا ہوا کہ انھوں نے ہر قسم کی قربانی کے باوجود صرف کھویا، ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا۔ اب حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی یو ٹرن (U-Turn) لیں۔ وہ جنگ اور تشدد کے طریقہ کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور پر امن انداز اختیار کرتے ہوئے، اپنی تعمیر و ترقی میں لگ جائیں۔ یہی تاریخ کا تقاضا ہے، اور یہی اسلام کا تقاضا بھی۔
نصیحت کا اصول یہ ہے کہ دوسروں کے عمل سے تجربہ (experience) حاصل کیا جائے۔ دوسروں کے تجربے سے جو چیز باعتبار نتیجہ ہلاکت ثابت ہوئی ہو، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور ان کے تجربے سے جو مفید سبق حاصل ہوتا ہو، اس کو لے لیا جائے۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کا یا تو حوالہ نہ دیا جائے، یا اگر حوالہ دینا ہے تو اس کے مفید پہلو کا حوالہ دیا جائے، اور وہ یہ ہے کے جنگ کے منفی تجربے سے سبق لینا، اور جنگ کا طریقہ چھوڑ کر پر امن تعمیر کا طریقہ اختیار کرنا۔
دوسروں کی غلطیوں سے اپنے لیے جواز (justification) نکالنا سخت قسم کی بے دانشی ہے۔ اگر آپ اپنے مفروضہ دشمن کی گردن کاٹیں ، اور کہیں کہ فلاں لوگوں نے بھی لوگوں کی گردنیں کاٹی تھی، تو یہ ایک سرکشی کی بات ہوگی۔ دوسروں کا تجربہ سبق لینے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ اپنی غلطی کو جائز ٹھہرانے کے لیے۔اس سلسلے میںصحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کا ایک حکیمانہ قول ان الفاظ میں آیا ہے:السعید من وعظ بغیرہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2645)۔ یعنی سعید وہ ہے جو دوسروں سے اپنے لیے نصیحت حاصل کرے۔ دوسروں کی نقل کرنا، نادانی ہے، اور دوسروں سے مفید نصیحت لینا، دانش مندی۔
* * ** * * * * * * * * * ** * * * * *
اگر آپ ایک ملین ڈالر خرچ کرکے ایک بید کی چھڑی حاصل کریں تو یہ پانا نہیں ہوگا، وہ کھونے کی بدترین شکل ہوگی۔ کوئی بڑا اقدام صرف اس وقت بڑا ہے جب کہ وہ نتیجہ خیز بھی ہو۔ جو اقدام بظاہر بڑا ہو، مگر نتیجہ کے اعتبار سے چھوٹا ہو، وہ اقدام نہیں بلکہ خودکشی کی چھلانگ ہے۔ ا س سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (سفرنامہ، غیرملکی اسفار، صفحہ
واپس اوپر جائیں
جدید دور ایک مؤید اسلام دور ہے۔ یہ دور اگرچہ عام طور پر مغرب کی طرف منسوب ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری انسانیت کی مجموعی کوشش سے یہ دور ظہور میں آیا ہے۔ تاہم مغربی قوموں کا حصہ اس دَور کو لانے میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری قومیں اگر اس عمل (process) کا حصہ ہیں، تو مغربی دنیا اس کے نقطۂ انتہا کا مقام ۔
یہ دور جس کا نمایاں پہلو جدید تہذیب (modern civilization) ہے، اس نے قدیم روایتی دور کو یکسر بدل دیا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک نیا دور ہے۔ یہ وہی دور ہے جس کی پیشین گوئی پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں واضح طور پر کردی تھی۔ اس سلسلے میں ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ان لوگوں کے ذریعہ کرے گا جو اہل اسلام میں سے نہ ہوں گے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کی تحریک پچھلے زمانے میں روایتی بنیاد پر چلتی تھی۔ لیکن فطرت (nature) کےاندر خالق نے اپنے عظیم کلمات چھپا دیے تھے۔ خالق کو مطلوب تھا کہ یہ کلمات دریافت کیے جائیں، اور ان کو کتابوں کی صورت میں مدون کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی صداقت کو مبرہن کرنے کے لیے سائنٹفک فریم ورک (scientific framework) حاصل ہو، اور اعلیٰ سطح پر دین خداوندی کی معرفت ممکن ہوجائے۔ جدید تہذیب کے بعد اکیسویں صدی میں یہ امکان پوری طرح واقعہ بن چکا ہے۔یہی وہ واقعہ ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میںکی گئی تھی: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ (
یہ دور امکانی طور پر ظہور اسلام کا دور ہے۔ یہ دور گلیلیو گلیلی (1564-1642)کی تحقیقات سے شروع ہوا، اور اب اسٹیفن ہاکنگ (پیدائش 1942:) کی تحقیقات کے ساتھ وہ اپنی تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دریافت کردہ حقائق کو لے کر خدا کے دین کو تبیین کامل کے درجے تک پہنچادیا جائے۔ اسی کے ساتھ کمیونی کیشن کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئےخالق کے پیغام کو زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں پہنچادیا جائے ۔جیسا کہ پیغمبر نے پیشین گوئی کی ہے:لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر23814)۔
اسلام ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہا ہے۔ کوئی دور اس واقعہ سے خالی نہیں۔ لیکن اسلام کے ظہور کا ایک اور درجہ تھا، جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت
اس نشانے کی تکمیل کے لیے تمام اسباب مہیا ہوچکےہیں۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ منفی سوچ سے باہر آئے، جس کو قرآن میں الرجز (المدثر5:) کہا گیا ہے۔جدید مواقع کو اسلام کے ظہور ِثانی کے لیے استعمال کرنا، انھیں لوگوں کے لیے ممکن ہے جو پوری طرح منفی سوچ (negative thinking) سے پاک ہوں، اور اعلیٰ درجے کی مثبت سوچ (positive thinking) کے حامل بن چکے ہوں۔ یہ کام ایک انتہائی مثبت کام ہے، اور کامل درجے کی مثبت سوچ کی صفت رکھنے والے ہی اس کو انجام دے سکتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو دورِ جدید کو ایک موید اسلام دور کی حیثیت سے دریافت کریں، اور اپنے عمل کی ری پلاننگ کے تحت اس امکان کو واقعہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں
پلاننگ(planning) کا مطلب ہے منصوبہ بند انداز میں کام کرنا۔ محنت کے ساتھ جب تنظیم (organization) کو شامل کیا جائے تو اسی کا نام منصوبہ بندی ہے۔ قدیم تصور یہ تھا کہ کامیابی کے لیے محنت (hard work) سب سے اہم ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں ایک مزید پہلو کا اضافہ کیا ہے، اور وہ تنظیم ہے۔ اس تصور کے مطابق پلاننگ کا مطلب ہے منظم انداز میں کسی کام کے لیے اپنی محنت صرف کرنا۔
ری پلاننگ (re-planning) گویا پلاننگ پلس (planning plus) کا دوسرا نام ہے۔ ری پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے منصوبہ میں تجربات کا اضافہ کرنا، اور نئی معلومات کی روشنی میں از سر نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا۔ اس طریق کار کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ پہلے منصوبہ میں جو مقصد حاصل نہ ہوا ہو، اس مقصد کو دوبارہ بہتر انداز میںمنظم کرکے از سر نو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ری پلاننگ کا طریقہ ہر معاملے میں قابل انطباق (applicable)ہے۔ اسی طرح اسلامی عمل کے معاملے میں بھی یہ طریقہ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ہارون الرشید عباسی سلطنت کا پانچواں خلیفہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار وہ بغداد میں اپنے محل کے اوپر اپنی ملکہ زبیدہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ فضا میں بادل کا ایک ٹکڑا ا ڑتا ہوا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر اس نے کہا:امطری حیث شئت، فسیاتینی خراجک ۔ جہاں چاہے جاکر برس، تیرا خراج میرے پاس ہی آئے گا۔
ہارون الرشید کی یہ بات قدیم زمانے میں ایک بامعنیٰ بات ہوسکتی تھی، مگر آج اس کی معنویت ختم ہوچکی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس سلسلے میںکئی نئی باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ مثلاً قدیم زمانہ مبنی بر زمین زراعت (land-based agriculture) کا زمانہ تھا، اب مبنی بر ٹکنالوجی صنعت کا زمانہ ہے۔ قدیم زمانے کی سیاست شخصی اقتدارپر مبنی ہوا کرتی تھی، اب سیاست جمہوریت پر مبنی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میںصرف اقتدار کے محدود دائرے سے خراج لینا ممکن ہوتا تھا۔ اب مکمل آزادی کا زمانہ ہے، اب آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ ساری دنیا سے ’’خراج‘‘ لینا ممکن ہوگیا ہے۔
اس فرق کی بنا پر اب ممکن ہوگیا ہے کہ کسی مقصد کا منصوبہ عالمی سطح پر بنایا جائے بغیر اس کے کہ عالمی سطح پر سیاسی اقتدار حاصل ہو۔اس فرق نے مشن کے تصور میں بنیادی بھی فرق پیدا کردیا ہے۔اگر آپ ایک عالمی مشن چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے ماڈرن ٹکنالوجی پر مبنی پر امن تنظیم۔مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعوتی مکتوب ایران کے بادشاہ کسریٰ کے نام بھیجا۔ اس مکتوب کو لے کر کسریٰ کے پاس جانے والے ایک صحابی تھے، جن کا نام عبد اللہ بن حذافہ تھا۔ اس مکتوب کا متن یہ تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من محمد رسول اللہ إلى کسرى عظیم فارس، سلام على من اتبع الہدى، وآمَنَ باللہ ورسولہ وشَہِد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأن محمد اعبدہ ورسولہ، وأدعوک بدُعاء اللہ، فإنی أنا رسول اللہ إلى الناس کافة لأنذر من کان حیا ویحق القول على الکافرین۔ فإن تُسلم تَسلَم وإن أبیت فإن إثم المجوس علیک (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 4/306)۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایران کے قدیم بادشاہ کو جب یہ مکتوب دیا گیا تو وہ غصہ میں آگیا، اور اس کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ یہ واقعہ قدیم زمانے کے مروجہ کلچر کی بنا پر ہوا۔ آج اگر کسی تحریک کا سربراہ اس قسم کا خط کسی حکمراں کو بھیجے تو وہ سربراہ جواب میں اس کا اکنولجمنٹ (acknowledgement) بھیجے گا، اور متعلقہ مکتوب اس کے دفتر میں محفوظ کردیا جائے گا۔
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلامی مشن کی ری پلاننگ کی جائے۔ جدید حقائق کی روشنی میں اس کا منصوبہ بنایا جائے۔ اب کسی صاحب مشن کو نہ کسی شکایت کی ضرورت ہے، نہ کسی پروٹسٹ کی۔ اب صرف یہ ضرورت ہے کہ آدمی زمانے کی تبدیلی کو سمجھے ، اور اس کی رعایت کرتے ہوئے ، اسلامی مشن کی پر امن ری پلاننگ کرے۔ اسی تبدیل شدہ لائحہ عمل کا نام ری پلاننگ ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسانی تاریخ کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِیبَةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِی کِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَى اللَّہِ یَسِیرٌ ۔ لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ (
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو تاریخی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، وہ فطرت کے قوانین کے بنا پر ہوتی ہیں۔ اس کا سبب کسی کی دشمنی یا کسی کی سازش نہیں ہوتا۔ اس لیے جب کسی قوم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کا صحیح رسپانس یہ نہیں ہے کہ کھوئی ہوئی چیز پر غم کیا جائے۔ بلکہ اس کا صحیح رسپانس ہے ہونے والے واقعے کو فطرت کے خانے میں ڈالنا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انسان کے اندر صحیح سوچ جاگے گی۔ وہ حقیقت واقعہ کا بے لاگ جائزہ لے گا۔ اس طرح وہ اس قابل بن جائے گا کہ وہ اپنے معاملے کی ری پلاننگ کرے، اور کھوئی ہوئی چیز کو نئے عنوان سے از سر نو حاصل کرلے۔
پیغمبر اسلام کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ احد کی جنگ میں آپ کے ساتھیوں کو شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی غم میں نہیں پڑے، بلکہ انھوں نےسارے معاملے پر از سر نو سوچنا شروع کیا ۔ اس طرح ان کے اندر یہ سوچ ابھری کہ وہ جنگ کے میدان کو چھوڑ دیں۔ وہ یہ کریں کہ ہر قیمت پر فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم ہوجائے، اور پھر امن کے اصولوں پر اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔ حدیبیہ کا معاہدہ جو سن 6 ہجری میں پیش آیا، وہ گویا اسی قسم کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔ یہ اسٹراٹیجی کامیاب ہوئی، اور بہت کم مدت میں اہل اسلام کو مزید جنگ کیے بغیر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہی وقت دوبارہ اہل اسلام پر آگیا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس احساس میں مبتلا ہیں کہ وہ فریق ثانی کے مقابلے میں شکست کھا چکے ہیں۔ اس احساس نے ان کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں خود کش بمباری جیسے واقعات اسی قسم کی مایوسی کے تحت پیدا شدہ فرسٹریشن کا نتیجہ ہیں۔
اکیسویں صدی میں مسلمانوںکو یہ موقع ہے کہ وہ حدیبیہ کی تاریخ کو دوبارہ نئے عنوان کے ساتھ دہرائیں، اور دوبارہ فتح مبین (الفتح 1:) کی تاریخ کو دہرائیں۔ یہ دوسری فتح مبین بلاشبہ ممکن ہے، لیکن سیاسی معنی میں نہیں ، بلکہ غیر سیاسی معنی میں۔موجودہ زمانے میں صلح حدیبیہ جیسے حالات زیادہ بڑے پیمانے پر وقوع میں آگیے ہیں۔ قدیم زمانے میں جو مواقع محدود طور پر دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے، اب وہ یونیورسل نارم (universal norm)بن چکے ہیں۔ اب وہ مواقع خود عالمی حالات کے ذریعہ پیداہوچکے ہیں۔ اب اس کی ضرورت نہیں ہے کہ گفت و شنید کے ذریعے کوئی حدیبیہ جیسا متعین معاہدہ کیا جائے۔ اب وہ تمام چیزیں مستقل طور پر عملاً حاصل ہوچکی ہیں، جو قدیم زمانے میں دس سالہ معاہدہ کے ذریعہ محدود طور پر حاصل ہوئے تھے۔
معاہدۂ حدیبیہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ اہل اسلام کو آزادانہ طور پر اپنا پرامن دعوتی مشن جاری کرنے کا موقع مل جائے۔ اب اقوام متحدہ (UNO) میں تمام قوموں کے مشترک معاہدہ کے تحت ہر قسم کی آزادی کا حق حاصل ہوچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان تشدد کو چھوڑ دیں، اور پر امن طریقہ کار کے ذریعہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔
اب کسی قوم کو اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ پچھلے زمانے میں جو کام سیاسی اقتدار کے ذریعہ ہوتا تھا، اب وہ تنظیم (organization) کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے فوج کشی کرنی پڑتی تھی ، اب وہ کام کمیونی کیشن کے ذریعہ انجام دنیا ممکن ہوگیاہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے کسی بادشاہ کا تخت چھیننا پڑتا تھا، اب وہ سب کچھ یونیورسل نارم کے تحت پر امن طریقہ کار کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہو گیا ہے۔ پہلے زمانے میں جس کام کے لیے اپنا سیاسی رقبہ (political area) بڑھانا پڑتا تھا، اب ا س کو ایک کمپیو ٹرائزڈ آفس میں بیٹھ کر آؤٹ سورسنگ کے ذریعہ انجام دینا ممکن ہوگیا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
خالق نے جب آدم (پہلے انسان) کو پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں بسایا۔ مگر آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے۔ انھوں نے منع کرنے کے باوجود شجر ممنوعہ (forbidden tree) کا پھل کھا لیا۔ اس کے بعد ان کو اور ان کی بیوی ، دونوں کو جنت سے نکلنا پڑا۔ پھر دونوں کے اندر توبہ (repentance) کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ خالق سے معافی کے طالب ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے لیے یہ مقدر کیا گیا کہ اگر وہ ایمان اور عمل صالح کا ثبوت دیں تو ان کو جنت میں دوبارہ داخلہ (re-entry) ملے گی۔
اس کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ ابتدائی منصوبہ کے مطابق جنت تمام انسانوں کے لےعمومی طور پر مقدر کی گئی تھی۔ لیکن جب آدم اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اور انھوں نے وہ کام کیا جس سے انھیں منع کیا گیا تھا، تو خالق نے انسان کے بارے میں دوسرا اصول مقرر کیا۔ یہ اصول انتخاب (selection) کی بنیاد پر تھا۔ یعنی پہلے اگر ہر مرد اور ہر عورت کے لیے جنت کا حصول ممکن تھا ، تو اب یہ اصول قرار پایا کہ جو عورت اور مرد امتحان (test) میں پورے اتریں۔ ان کا انتخاب کرکے ان کو جنت میں داخلہ دیا جائے، اور جو لوگ امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ ہمیشہ کے لیے جنت سے محروم قرار پائیں گے۔ یہ واقعہ انسان کے لیے ایک ابدی سبق تھا۔ اب انسان کے لیے کامیابی کا راستہ صرف یہ تھا کہ اگر اس کا پہلا منصوبہ کام (work) نہ کرے تو وہ کسی غیر متعلق مشغولیت میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ وہ صرف ایک کام کرے— حالات کا ازسر نو جائزہ لینا، اور اپنے عمل کو نئے منصوبہ کے تحت دوبارہ مرتب کرنا۔
یہ واقعہ انسانی تاریخ کے آغاز میں پیش آیا۔ اس طرح خالق نے انسان کو یہ سبق دیا کہ دنیا کے حالات میں باربار ایسا ہوگا کہ تم کسی نہ کسی سبب سے پہلے موقع (1st chance) کو کھودو گے۔ اس وقت تمھیں منفی سوچ میں مبتلا نہیں ہونا ہے، بلکہ حاصل شدہ تجربے کی روشنی میں تم کو اپنے کام کی ری پلاننگ (re-planning) کرنا ہے۔ یہی تمھارے لیے اس دنیا میں کامیابی کاراستہ ہے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہاں انسان کے لیے حالات ہمیشہ موافق نہیں رہتے۔ اس دنیا میں انسان کو ناموافق حالات میں راستہ بناتے ہوئے اپنا سفر کرنا ہے۔ یہ اصول سب کےلیے ہے۔ خوا ہ وہ مذہبی ہو یا سیکولر، وہ طاقت ور ہو یا کمزور ۔ یہ حالات ہمیشہ ہر شخص، اور ہر گروہ کے لیے پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کو ایسا نہیں کرنا ہے کہ وہ کسی اور کو ذمہ دار قرار دے کر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان پربا کرے۔ شکایت اور احتجاج کا طریقہ اس دنیا میں صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی جب یہ دیکھے کہ اس کا پہلا منصوبہ کامیاب نہیں ہوا تو وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار قرار دینے میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ بلکہ خود اپنے حالات کا بے لاگ اندازہ کرتے ہوئے اپنے عمل کے لیے نیا منصوبہ بنائے۔
کامیاب ری پلاننگ کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرے۔ وہ ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اس حقیقت کو مانے کہ اس کی ناکامی کا سبب خود اس کے اپنے اندر تھا۔ حالات کا وہ صحیح اندازہ نہ کرسکا۔ اس لیے اب صرف یہ کرنا ہے کہ وہ حالات کا دوبارہ صحیح اندازہ (re-assessment) کرے، اور اس کی روشنی میں حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔
زندگی کے لیے ری پلاننگ کا اصول ایک ابدی اصول ہے۔ وہ اول دن کے لیے بھی تھا، اور بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ جب تک انسان کو اس دنیا میں آزادی حاصل ہے، اور جب تک اسباب اپنی جگہ قائم ہیں، ہر اک کو اسی اصول پر اپنا کام کرنا ہوگا۔ جو لوگ اس اصول پر کام کریں، وہ اس دنیا میں کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ اس اصول کی پیروی نہ کریں، وہ یقینی طور پر اس دنیا میں کامیابی سے محروم رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین نے انسان کو پیدا کرکے کرۂ ارض (planet earth) پر آباد کیا۔ اس کو ہر قسم کے مواقع فراہم کیے۔ اور پھر اس کو پوری آزادی دے دی۔ اب یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ خوا ہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو ابدی کامیابی کا مستحق بنائے ، اور اگر وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرتا ہے تو اس کے لیے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ابدی ناکامی کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
اللہ رب العالمین نے انسان کو عقل دی۔ اس کے اندر حق اور باطل کی تمیز رکھی۔ اس کے بعد خالق نے یہ انتظام کیا کہ ہر قوم میں اور ہر ہر علاقے میں اپنے رسول بھیجے۔ جو انسان کو اس کی اپنی قابل فہم زبان میں حق اور ناحق کا علم دیتے تھے۔ پیغمبروںنے یہ کام اعلیٰ اتمام حجت کی سطح پر انجام دیا۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ پیغمبروں کی دعوت کا غیر مطلوب جواب دیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: یَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ َیَسْتَہْزِؤوْنَ (
اللہ رب العالمین کو اپنے نقشۂ تخلیق (creation plan) کے مطابق یہ منظور نہیں تھا کہ وہ انسان کی آزادی کا خاتمہ کردے۔ اس لیے اس نے یہ کیا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، ہدایت کا ایک نیا نقشہ بنایا۔ اس نئے نقشے کی تکمیل کے لیے اللہ رب العالمین نے ابراہیم اور ان کی ذریت کو چنا۔ جن کا زمانہ 2324-1850 ق م کے درمیان ہے۔ یہ گویا رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی ری پلاننگ کا معاملہ تھا۔
پیغمبر ابراہیم قدیم عراق میں پیداہوئے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا۔ لیکن قدیم عراق کے باشندے جو اس وقت شرک پر قائم تھے، پیغمبر ابراہیم کی پیروی پر راضی نہ ہوسکے۔ آخرکار پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبہ کے مطابق عراق کو چھوڑ دیا۔ وہ اُس صحرائی علاقے میں آکر آباد ہوئے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ انھوں نے اس صحرائی علاقہ میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو آباد کردیا۔ جب کہ اس وقت وہاں صحرا کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس نئی منصوبہ بندی کو ایک لفظ میں صحرائی منصوبہ بندی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ یہ صحرائی ماحول اگرچہ انسانی آبادی کے لیے انتہائی حد تک غیر موافق تھا۔ مگر نئی پلاننگ کے لیے یہ سب سے زیادہ موزوں علاقہ تھا۔ اس صحرائی ماحول میں فطری طور پر ایسا ہوا کہ ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی، جو تمدن کے اثرات سے دور تھی، اور فطرت کے ماحول کے سوا کوئی اور چیز اس پر اثر انداز ہونے کے لیے موجود نہ تھی۔ فطرت کے اس ماحول میں اسماعیل ابن ابراہیم نے ایک قبیلہ میں شادی کی، اور پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہاں ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی۔ اس صحرائی منصوبہ بندی کا ذکر حدیث میں ایک طویل روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر3364)کے تحت کیا گیا ہے۔ یہ ابراہیمی سنت ایک منصوبے کے بعد دوسرا منصوبہ بنانے کا معاملہ تھا۔ اس کے ذریعہ یہ مطلوب تھا کہ ایک نئی جاندار نسل تیار ہو، جو اپنی فطرت پر قائم ہو، اور اس بنا پر وہ سچائی کے پیغام کو آسانی کے ساتھ سمجھ جائے، اور اس کو اختیار کرلے۔یہی وہ نسل ہے جس کے اندر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ وہ لوگ جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے، وہ سب اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
توقع کے مطابق یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ رسول اور اصحاب رسول نے دعوتی جدو جہد کے ذریعہ ایک گروہ تیار کیا۔ اس گروہ نے توحید کی بنیاد پر کام کرکے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس گروہ نے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہلی بار انسانی تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جس نے تاریخ کو بدل دیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک طرف دورِ شرک کا خاتمہ ہوا۔ اسی کے ساتھ دوسری طرف اس کے نتیجے میں نیچر میں آزادانہ تحقیق کا مزاج پیدا ہوا، اس کے بعدتاریخ میں وہ دور آیا جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ تاریخ میں یہ انقلاب ری پلاننگ کے ذریعہ ظہور میں آیا۔
واپس اوپر جائیں
ہجرت مدینہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ یعنی شرک کی آئڈیالوجی کے بجائے دنیا میں توحید کی آئڈیالوجی کو ظہور میں لانا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت مکہ میں شرک کا کلچر تھا۔ مشرک سرداروں کو ہر اعتبار سے غلبہ کا مقام ملا ہوا تھا۔ تیرہ سال کی مخالفت کے بعد آخر کار انھوں نے رسول اللہ کوعملاً الٹی میٹم دے دیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ سے چلے جائیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔
پیغمبر اسلام کےلیے یہ ایک بحران (crisis)کا لمحہ تھا۔ مگر آپ نے رد عمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حالات کا بے لاگ جائزہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ آپ خاموشی سے مکہ چھوڑ دیں، اور یثرب چلے جائیں۔ جو کہ قدیم عرب کے تین بڑے شہروں میں سے ایک تھا، اور مکہ سے تقریبا 500 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔پیغمبر اسلام نے جب مکہ کو چھوڑنےکا فیصلہ کیا۔ اس وقت آپ نےاپنے اصحاب سے ایک بات کہی تھی۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر1871)اور صحیح مسلم (حدیث نمبر1382)کے مشترک الفاظ یہ ہیں:أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة ۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھاجائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیثِ رسول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں باعتبار معنی ہجرت مدینہ سے مراد مشن کی ری پلاننگ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نےمدینہ پہنچ کر مکہ والوں کے خلاف کسی قسم کی منفی روش اختیار نہیں کی۔ بلکہ مکہ والوں کے سلوک کو بھلا کر انتہائی مثبت انداز میں اپنے مشن کی نئی منصوبہ بندی کی۔ تفصیل کے لیےملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں،پیغمبر انقلاب اور سیرت رسول۔
مثلا ً عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کی طرف کثرت سے دعوتی وفود بھیجنا ، عرب کے باہر ملوک و سلاطین کے نام دعوتی خطوط بھیجنا۔ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کرنا، قریش نے یک طرفہ طور پر حملہ کرکے آپ کو جنگ میں الجھانا چاہا، لیکن آپ نے دانش مندی کے ساتھ ان کو مینج کیا، اوران کے حملوں کو جھڑپ (skirmish) بنادیا، وغیرہ۔ یہ سب آپ نے اس لیے کیا تاکہ مشن کی ری پلاننگ کے لیے آپ نےجو عمل (process)جاری کیا تھا، وہ بلارکاوٹ جاری رہے۔
پیغمبر اسلام کی اپنے مشن کی یہ ری پلاننگ پوری طرح کامیاب رہی۔ ہجرت کے آٹھویں سال یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ مکہ میں کسی جنگ کے بغیر آپ کو دوبارہ فاتحانہ داخلہ مل گیا۔ یہ واقعہ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے کہ جب آپ کو مکہ پر غلبہ حاصل ہوگیا اور مکہ کے سردار آپ کے پاس لائے گیے۔ یہ لوگ بین اقوامی اصطلاح کے مطابق جنگی مجرمین (prisoners of war) تھے۔ مگر آپ نے ان کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی، بلکہ یہ کہہ کر سب کو چھوڑ دیا :أقول کما قال یوسف:لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وہو أرحم الراحمین [
قدیم مکہ کے سردار یہ جانتے تھے کہ ان کا کیس ظلم کا کیس ہے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے ان سب کو یک طرفہ طور پر معاف کردیا ۔ اس سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان سرداروں میں ندامت کا جذبہ فطری طور پر پیدا ہوگیا، اور وہ پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گیے۔ اس کے برعکس، اگر آپ ان سے انتقام کا معاملہ کرتے تو یقیناً ان کے اندر جوابی انتقام کا ذہن پیدا ہوتا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان انتقام در انتقام (chain reaction) کا ماحول قائم ہوجاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ قانون اسباب کے مطابق پیغمبر اسلام کا پرامن مشن اپنے پہلے ہی تجربے میںغیر ضروری مشکلات کا شکار ہوجاتا۔ مگر اس اعلیٰ سلوک کی بنا پر پیغمبر کا مشن بلاتوقف (non-stop) جاری رہا۔
واپس اوپر جائیں
رسول اور اصحاب رسول نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ کو چھوڑ دیا، اور مدینہ کو اپنا مرکز عمل بنا لیا۔ لیکن مکہ کےسرداروں کو یہ بات منظور نہ تھی۔ اب انھوں نے یہ کوشش شروع کی کہ مدینہ پر حملہ کرکے نبوت کے مشن کا خاتمہ کردے۔ اس کے نتیجے میں چند غزوات پیش آئے۔ مثلا ً غزوۂ بدر، غزوۂ احد، وغیرہ۔ ان حملوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کو جاری رکھیں۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ ہجرت کے چھٹے سال آپ نے یہ اعلان کیا کہ آپ عمر ہ کے لیے مکہ جائیں گے۔ ایک ہزار چار سو صحابی اس سفر میں آپ کے ساتھ شامل ہوگیے۔ یہ قافلہ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچا جو مدینہ اور مکہ کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔مکہ کے سرداروں کو خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے کچھ لوگوں کو بھیجا کہ وہ محمد اور آپ کے اصحاب کو روکیں، اور یہ بتائیں کہ ہم مکہ میں آپ کا داخلہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے بعد حدیبیہ کے مقام دونوں فریقوں کے درمیان گفت و شنید شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دو ہفتہ جاری رہی۔ اس گفت و شنید کے نتیجہ میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaibiyah Agreement)کہاجاتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں فریق اس پر راضی ہوئے کہ ان کے درمیان دس سال تک کوئی لڑائی نہیں ہوگی۔ اس طرح یہ معاہدہ گویا دس سال کے لیے ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اس معاہدہ کے تحت پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پر امن حالات میں اپنے مشن کی منصوبہ بندی کریں، جو آخر کار قرآن کے الفاظ میں فتح مبین (الفتح 1:) تک پہنچا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ یقیناً فتح مبین (clear victory) کا معاہدہ تھا۔ لیکن یہ معاہدۂ امن کس طرح واقعہ بنا۔ وہ اس وقت واقعہ بنا جب کہ پیغمبر اسلام نےفریق ثانی کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلیا۔
فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لینے کی آخری حد یہ تھی کہ جب معاہدہ لکھا جانے لگا تو اس پر یہ الفاظ لکھے گیے:ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔ فریق ثانی کے نمائندہ نے اعتراض کیا کہ ہم آپ کو رسول نہیں مانتے ، آپ لکھیے محمد بن عبد اللہ ۔ پیغمبر اسلام نے اس مطالبہ کو بلابحث مان لیا، اور حکم دیا کہ معاہدہ کے کاغذ پر لکھا جائے:امح یا علی واکتب:ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر3187) ۔
معاہدہ حدیبیہ کے بعد حالات میں انقلابی تبدیلی ہوئی۔ یہاں تک کہ دوسال کے اندر مکہ جنگ کے بغیر فتح ہوگیا— معاہدۂ حدیبیہ اس حقیقت کا اعلان ہے کہ اگر تم فتح چاہتے ہو تو پہلے اپنی شکست کو تسلیم کرو، اگر تم آگے بڑھنا چاہتے ہو تو پہلے پیچھے ہٹنے پر راضی ہوجاؤ، اگر تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ کا ٹائٹل صفحۂ عالم پر لکھا جائے تو بوقت ضرورت تم اس کو کاغذ پر مٹانے کے لیے راضی ہوجاؤ۔
پریکٹکل وزڈم کا ایک حکیمانہ اصول ہے، جس کو وقت حاصل کرنے کی تدبیر (buying-time strategy) کہا جاسکتا ہے۔ حدیبیہ میں قیام امن کے لیے فریقِ ثانی کی شرطوں کویک طرفہ طور پر مان لینا گویا یہی تدبیر تھی۔ یہ تدبیر موثر ثابت ہوئی، اور اس کے بعد بہت کم مدت میں عرب میں ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا۔ یہ واقعہ بھی باعتبارِ حقیقت ری پلاننگ کا ایک واقعہ تھا۔
قدیم زمانے میں ناجنگ معاہدہ عظیم قربانی کے بعد وقتی طور پر حاصل ہوا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ صورت حال ایک یونیورسل نارم (universal norm) کے طور پر دنیا میں قائم ہوچکی ہے۔ 1945میں اقوامِ متحدہ (UNO) کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اتفاقِ رائے سے یہ مان لیا ہے کہ ہر ایک کو پر امن عمل کی کلی آزادی حاصل ہوگی۔ کوئی قوم دوسری قوم پر حملہ نہیںکرے گی۔ کسی کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے کےلیے اس پر جبر کرے۔ اب تشدد (violence) اصولی طور پر ایک مجرمانہ فعل بن چکا ہے۔بشرطیکہ انسان پوری طرح امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
واپس اوپر جائیں
ری پلاننگ ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ پلاننگ کے دوران کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو پلاننگ کے عمل (process) میں رکاوٹ ڈالنے والا ہو۔ تاکہ پلاننگ کا عمل بلاتوقف (non-stop) چلتا رہے۔
اس کی ایک مثال کعبہ کی تعمیر کامسئلہ ہے۔ کعبہ کی تعمیرِ اول پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل نے تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح میں مکہ میں کی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ مکہ میں تیز بارش ہوئی ، اس کی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ اس وقت مکہ پر مشرکین کا غلبہ تھا۔ انھوں نے5 ویں صدی عیسوی میں کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ اہل مکہ نے کسی سبب کے تحت کعبہ کی تعمیر ثانی کے وقت اس کو چھوٹا کردیا۔ انھوں نےاس کے ایک حصے کو غیر مسقف حالت میں کھلا چھوڑدیا، جو کہ ابھی تک اسی طرح موجود ہے۔ کعبہ کےابراہیمی نقشے کے مطابق، کعبہ ایک مستطیل (rectangle) صورت کا تھا۔ تعمیر نو کے وقت قریش کے لوگوں نے کعبہ کو چوکور بنادیا۔جب کہ اس سے پہلے وہ مستطیل تھا۔اس کے کچھ حصے کو انھوں کھلا چھوڑ دیا، جس کو اب حطیم کہا جاتا ہے۔کعبہ کے مقابلے میں حطیم کا ایریا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
کعبہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال لعائشة:الم تری أن قومک لما بنوا الکعبة اقتصروا عن قواعد إبراہیم؟، فقلت:یا رسول اللہ، ألا تردہا على قواعد إبراہیم؟ قال:لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت (صحیح البخاری، حدیث نمبر1583)۔ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عائشہ سے فرمایا کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جب کعبہ کی عمارت بنائی، تو ابراہیم کی بنیاد سے اسے چھوٹا کردیا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ پھر آپ اس کو قواعد ابراہیمی کے مطابق کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہاری قوم کا کفر کا زمانہ ابھی حال ہی میں نہ گزرا ہوتا تو میں ایسا کردیتا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی توجیہ ابن حجر العسقلانی نے ان الفاظ میں کی ہے: رعایةً لقلوب قریش (فتح الباری، 3/457) ۔یعنی قریش کے قلوب کی رعایت میں ایسا کیا۔
اصل یہ ہے کہ مذہب کے معاملے میں لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ جب کسی مذہبی یادگار پر لمبی مدت گزرجائے تو لوگوں کی نظر میں وہ مقدس بن جاتی ہے۔ اس میں ادنیٰ تغیر کو وہ برداشت نہیں کرتے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اگر کعبہ کی عمارت میں تغیر کرتے تو اندیشہ تھا کہ لوگ اس کا تحمل نہ کرسکیں گے، اور اس کا منفی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عرب میں توحید کا دین قائم کرنے کا جو عمل جاری ہے، وہ درمیان میں جپرڈائز (jeopardize) ہوجائے گا، اور اصل مشن کو سخت نقصان پہنچے گا۔
اسلام میں رعایتِ عوام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتی مشن کے دوران ہمیشہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant) کے درمیان فرق کیا۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ ایک غیر اہم چیز کی خاطر آپ اہم کو نظر انداز کردیں۔ آپ کے سامنے ہمیشہ اصل نشانہ ہوتا تھا، اور جو چیز اصل نشانے کی نسبت سے غیر اہم ہو، اس کو آپ ہمیشہ نظر انداز کرکے اصل نشانے پر قائم رہتے تھے۔ یہ اصول ایک دائمی اصول ہے، اور اسی اصول کا نام وزڈم ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف نے وزڈم کی یہ تعریف دریافت کی ہے:
Wisdom is the ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
ڈاکٹر مائکل ہارٹ (Dr. Michael H Hart) نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100) میں بتایا ہے کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے۔ آپ کی اس عظیم کامیابی کا راز یہی تھا۔ آپ نے اپنے مشن میں ہمیشہ اس وزڈم کو اختیار کیا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں شورائی سیاست کا نظام اختیار کیا گیاہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت (democracy) کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسی اصول کی بنیاد پر خلافت کا نظام قائم ہوا۔ مگر تقریباً تیس سال کے بعد لوگوں کو محسوس ہوا کہ خلافت کا نظام عملاً ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ سیاست میں اصل چیز استحکام (stability) ہے۔ مگر خلافت کے نظام کے تحت استحکام کا یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا۔ چناں چہ چوتھے خلیفہ علی ابن طالب کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا، اور بعد کی تمام صدیوں میں عملاً مسلمانوں کے درمیان یہی نظام رائج رہا۔
خاندانی بادشاہت کا نظام جب شروع ہوا، اس وقت صحابہ اور تابعین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بعد محدثین ، فقہا ء، اور علماء متقدمین کا دور آیا۔ ان تمام لوگوں نے عملاً اس سیاسی تبدیلی کو قبول کرلیا۔ اس کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اسلام میں سیاست کا اصل مقصود سماجی استحکام (social stability) ہے۔ یہ استحکام خلافت کے نظام کے تحت حاصل نہیں ہورہا تھا۔ لیکن خاندانی حکومت کے تحت وہ حاصل ہوگیا۔ اس لیے پریکٹکل وزڈم کے اصول پر اس کو قبول کرلیا گیا۔
یہ بھی ری پلاننگ کا ایک کیس تھا۔ اسلام کے پہلےدور میں خلافت کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ خلافت کا نظام ورک (work) نہیں کررہا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پچھلی تاریخ کے نتیجے میں لوگوں کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ حاکم کے بعد حاکم کی اولاد کو حقِ حکومت (right to rule)حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت تک یہ رواج ختم نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پرکٹکل وزڈم کا تقاضا تھا کہ خاندانی حکومت کے نظام کو اختیار کرلیا جائے۔ تاکہ کم از کم سیاسی استحکام (political stability) کا مقصد حاصل ہوجائے۔ اس لیے عملی سبب (practical reason)، نہ کہ نظری سبب (theoretical reason) کے تحت خاندانی سیاست کا نظام اختیار کر لیا گیا۔ یہ ری پلاننگ کی ایک مثال ہے ۔تاریخ کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اس معاملے میں دورِ اول میں لیا ہوا ری پلاننگ کا فیصلہ باعتبارِ حقیقت بالکل درست تھا۔
ری پلاننگ کے معاملے کا تعلق اصول (principle) سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق طریق کار (method) سے ہے۔ طریقِ کار کبھی مطلق (absolute) نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تعین ہمیشہ عملی افادیت (pragmatism) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ کی مشہور روایت ہے : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما ( صحیح مسلم ،حدیث نمبر 2327)۔ یہاں ایسر کا لفظی مطلب ہے آسان۔ یہاںآسان طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جو با آسانی قابل عمل ہو۔یعنی وہ طریقہ جو کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ کرے، جس پر غیر نزاعی (non-controversial)انداز میں عمل کرنا ممکن ہو۔
اس حدیث سے کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ منصوبہ پوری طرح قابل عمل ہو۔ وہ کوئی نزاع پیدا کرنے والا نہ ہو۔ وہ ایک نتیجہ خیز طریقہ کار ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کہنے میں تو وہ ایک خوبصورت بات معلوم ہو، لیکن جب اس کو عمل میں لایا جائے تو وہ صرف مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلےمنصوبہ میں اس تجربے کا موقع ہوتا ہے کہ کیا چیز قابل عمل (workable) ہے، اور کیا چیز قابل عمل نہیں۔اس لحاظ سے دوسرے منصوبہ کا فائدہ یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے اپنے کو بچایا جائے،ا ور صرف نتیجہ خیز پہلووں کو سامنے رکھ کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔ تاکہ پہلا منصوبہ اگر بے نتیجہ ثابت ہوا تھا تو دوسرا منصوبہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ جو مقصد اگر پہلے منصوبہ میں نہیں ملا تھا تو اس کو دوسرے منصوبہ کے تحت حاصل کر لیا جائے۔
اس کے مطابق یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پہلے منصوبہ کے وقت غلطی قابل معافی ہوسکتی ہے۔ لیکن دوسرے منصوبہ کے وقت غلطی قابل معافی نہیں۔ اس اعتبار سے دوسرے منصوبہ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو شروع کیا جائے۔ غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر دوسری منصوبہ بندی سرے سے منصوبہ بندی ہی نہیں، بلکہ وہ نقصان میں اضافہ کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں
تاتاری حملے کا واقعہ
تیرھویں صدی میں وسط ایشیا(Central Asia) میں خوارزم کی حکومت تھی۔ منگول سردار چنگیز خاں نے اپنا سفیر سلطان علاءالدین شاہ کے دربار میں بھیجا۔سلطان نے کسی غلط فہمی کی بنا پر تاتاری سفیر کو قتل کردیا۔اس کے بعد چنگیز خان کا غصہ بھڑک اٹھا۔ اس نے قبائل کی فوج کے ساتھ مسلم سلطنت پر حملہ کردیا، اور اس کے پوتے ہلاکو خاں نے تکمیل تک پہنچایا۔ اور سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم دنیا کو تاراج کردیا۔
مورخ ابن اثیر نے اس واقعہ کو مسلم تاریخ کا سب سے بھیانک واقعہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں جوابی کارروائی کا ذہن ابھرا۔ سیاسی سرگرمیاں تیزہو گئیں۔ یہاں تک کہ 1260 میں عین جالوت کی لڑائی پیش آئی۔اس لڑائی سے اس وقت کے مسلمانوں کو جزئی فائدہ ہوا، لیکن وہ تاتاریوں کو مسلم دنیا سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا میں یہ کہا جانے لگا : من حدثکم أن التتر انہزموا وأسروا فلا تصدقوہ (الکامل فی التاریخ، 10/353) ۔ یعنی جو تم سے بیان کرے کہ تاتاری شکست کھاگیے اور قید کرلیے گیے تو اس کی تصدیق نہ کرو۔
اس زمانے میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا، جو شعوری اعتبار سے مسلمانوں کو ری پلاننگ کا پیغام دے۔ تاہم حالات کا دباؤ (pressure) بھی ایک معلم ہوتا ہے۔ چنانچہ حالات کا معلم ظاہر ہوا، اور ایسے اسباب پیدا ہوئے ، جن کے نتیجے میں اس زمانے کےمسلمانوں میں ایک نیا خاموش عمل (process) جاری ہوگیا۔ یہ عمل اگرچہ بظاہر حالات کا نتیجہ تھا، لیکن عملا ًوہ وہی چیز بن گیا جس کو ہم نے ری پلاننگ کہا ہے۔ یعنی بے فائدہ جنگ کو چھوڑ کر پر امن دعوت کا طریقہ اختیار کرنا۔
اس موضوع پر برٹش مصنف ٹی ڈبلیو آرنلڈ (–1864-1930) نے گہری تحقیق کی ہے۔ طویل تحقیق کے بعد انھوں نے ایک کتاب لکھی، جو
پروفیسر آرنلڈ نے اپنی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کس طرح حالات کے دباؤ کے تحت اس وقت کے مسلمانوں میں عملا ًایک نیا ذہن ابھرا۔ یہ مسلح جنگ کے بجائے پر امن دعوت کا ذہن تھا۔ پر امن دعوت کا کام بڑے پیمانے پر تاتاریوں کے درمیان ہونے لگا۔جو آخر کار اس درجے تک پہنچا کہ منگولوں (تاتاریوں) کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فلپ کے ہٹی(Philip K Hitti) نے اپنی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:
The religion of the Moslems had conquered where their arms had failed. (1970, p.
پروفیسر حتی کی بات کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — مسلمانوں کی پہلی پلاننگ جہاں ناکام ہوگئی تھی، اس کی دوسری پلاننگ نے وہاں کامیابی حاصل کرلی۔ یہ دوسرا پراسس اس واقعہ سے شروع ہوا جس کو پروفیسر آرنلڈ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
This prince, Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. “Yes,” replied the Shaykh, “if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.” Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was “faith.” The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, “Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little; and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.” Later he accepted Islam. (London, 1913, pp. 180-81)
واپس اوپر جائیں
ایودھیا (انڈیا) میں1528-29ءمیں ایک مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد مغل بادشاہ بابر کے گورنر میر باقی نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بنا پر اس کا نام بابری مسجد رکھا گیا تھا۔اس مسجد کے بارے میں اول دن سے ہندووں کو یہ شکایت تھی کہ وہ رام چبوترہ کی زمین پر بنائی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ مسجد اول دن سے متنازعہ مسجد تھی۔ اس مسجد کے معاملے میں ہندؤوں کے درمیان ناراضگی پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آزادیٔ ہند (1947) کے بعد بی جے پی کی ایک تحریک کے دوران ا س کو ڈھا دیا گیا۔ یہ واقعہ 6 دسمبر 1992 کو پیش آیا۔ اس کے بعد مسجد کی جگہ ایک عارضی مندر (makeshift temple) بنا دیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں پر شور تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام مسلم رہنماؤں کا یہ متفقہ مطالبہ تھا کہ بابری مسجد کو دوبارہ اس کے سابقہ جگہ پر بنایا جائے۔ راقم الحروف نے محسوس کیا کہ یہ مطالبہ عملا ًایک ناممکن چیز کا مطالبہ ہے۔ اب مسلمانوں کو ایک ایسی چیز کا مطالبہ کرنا چاہیے جو نئے حالات میں قابل عمل مطالبہ ہو۔ چنانچہ میں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان بابری مسجد کے ری لوکیشن (relocate) پر راضی ہوجائیں۔ ہندو سائڈ نے اس تجویز کو فوراً مان لیا۔ مگر انڈیا کی مسلم قیادت ، باریش قیادت اور بےریش قیادت، دونوں نے متفقہ طور پر اس کو نامنظور کردیا، اوروہ اس مطالبے پر مصر رہے کہ بابری مسجد کو دوبارہ وہیں بنا یا جائے، جہاں وہ پہلے تھی۔ یہ مطالبہ جدید حالات کے اعتبار سے قطعی طور پر ناقابل عمل تھا۔ چنانچہ تقریباً
اگرمسلم رہنماؤں کو ری پلاننگ کی اہمیت معلوم ہوتی تو وہ فوراَری لوکیشن کی تجویز کو مان لیتے ، اور اب تک وہاں کسی قریبی علاقے میں دوبارہ بابری مسجد کے نام پر ایک اسلامک سینٹر بن چکا ہوتا۔ مسجد کو ری لوکیٹ کرنے کا طریقہ عالم عرب عام طور پر اختیار کیا جا چکا ہے۔ پھر انڈیا کے مسلم رہنماؤں کےلیے یہ کیوں قابل قبول نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عرب دنیا میں کمپلشن (compulsion) کی بنا پر کوئی دوسرا آپشن (option) موجود نہ تھا، جب کہ انڈیا میں آزادی کی بنا پر کوئی جبر موجود نہ تھا، اور مسلم رہنماؤں کو شعوری طور پر یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ری پلاننگ بھی اسلام کا ایک مسلمہ اصول ہے۔
اس معاملے میں خود پیغمبر اسلام کے زمانے کی ایک رہنما مثال موجود تھی۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کی نبوت سے پہلے قدیم مکہ میں شدید بارش ہوئی ، اور اس بنا پر کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت قدیم مکہ کے مشرک سرداروں نے کعبہ کی عمارت از سر نو بنائی۔ مگر کسی وجہ سے انھوں نے ایسا کیا کہ کعبہ کے رقبہ کے ایک تہائی حصہ کو غیر مسقف حالت میں چھوڑ دیا، اور بقیہ حصہ میں کعبہ کی موجودہ عمارت بنا دی۔ یہ غیر مسقف رقبہ بدستور سابق حالت میں موجود ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تو خود کعبہ کی موجودہ عمارت گویا کہ ری لوکیشن کی ایک مثال ہے۔ کعبہ کی قدیم عمارت جو حضرت ابراہیم نے بنائی تھی، وہ لمبی عمارت تھی۔ جب کہ کعبہ کی موجودہ عمارت ایک چوکور عمارت ہے۔ یہ گویا کعبہ کی عمارت کو ری لوکیٹ کرنے کی ایک مثال ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اس ری لوکیشن کو عملاً تسلیم کرلیا۔ انھوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کعبہ کو دوبارہ اس کی قدیم بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔
ری لوکیشن کا مطلب یہ ہے کہ ایک بلڈنگ کو اس کی جگہ بدل کر نئی جگہ پر اسی ساخت کے مطابق بنادیا جائے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں نے جگہ جگہ مسجدیں بنا لی تھیں۔ بیسویں صدی میں جب عربوں کے پاس تیل کی دولت آئی تو انھوں نے اپنے شہروں کو پلاننگ سٹی کے انداز میں ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ اس تعمیری منصوبہ میں جگہ جگہ مسجدیں حائل ہورہی تھیں۔ تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسجدوں کو ری لوکیٹ کرکے شہری منصوبہ کی تکمیل کی جائے۔ یہ منصوبہ علماء کے فتویٰ کے مطابق تھا۔ چنانچہ عرب ملکوں میں بڑی تعداد میں مسجدیں ری لوکیٹ کی گئیں، اور ہر جگہ کے علماء نے اس کو ایک درست عمل کے طور پر تسلیم کرلیا۔ عرب دنیا کی یہ نظیر کافی تھی کہ ہندوستان میں بھی اس کو اختیار کرلیا جائے۔ مگر ہندوستانی علماء کےعدم اتفاق کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں
دعوت الی اللہ اسلام کا اہم ترین مشن ہے۔ دعوت کے دو دور ہیں۔ آغاز سے ظہور سائنس تک، ظہور سائنس کے بعد اکیسویں صدی تک۔ جدید سائنس سے پہلے دعوت اسلام کا کام استدلال کے اعتبار سے معجزہ (miracle) کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اس کو قرآن میں بینات (الحدید
ماڈرن سائنس کوئی اجنبی چیز نہیں۔ یہ دراصل فطرت (nature) کے اندر چھپے ہوئے حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے۔ فطرت میں یہ مخفی دلائل اسی لیے رکھ دیے گیے تھے کہ وقت آنے پر ان کو دریافت کرکے دعوت کےحق میں استدلالی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اب آخری طور پر وہ زمانہ آگیا ہے، جب کہ اس استدلالی بنیاد کو دعوت حق کے لیے استعمال کرکے دعوت حق کا وہ اعلیٰ استدلالی کام انجام دیا جائے جس کو حدیث میں شہادت اعظم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر2938) کہا گیاہے۔
موجودہ زمانے میں سائنسی دلائل کی بنیاد پر دعوت کےاس کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ راقم الحروف نے اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا ، اور درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں اس موضوع پر لکھی۔ ان میں سے ایک مذہب اور جدید چیلنج ہے جو پہلی بار 1966 میں چھپی تھی۔ اس کتاب کا ترجمہ اکثر بڑی بڑی زبانوںمیں ہوچکا ہے۔ مثلا عربی میں الاسلام یتحدی (1970)، اور انگریزی میں گاڈارائزز (1988) ،وغیرہ۔اس موضوع پر مسیحی علماء نے کافی کام کیا ہے۔ مثلا چالیس امریکی سائنسدانوں کے مقالات پر مشتمل ایک کتاب چھپی ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe
یہ کتاب پہلی بار 1958 میں امریکا سے چھپی ہے۔ اس کے بعد اس کتاب کا عربی ترجمہ اللہ یتجلی فی عصر العلم (1987، مصر ) کے نام سے چھپا۔ اس موضوع پر ایک اور قابل ذکر کتاب قرآن بائبل اورسائنس (The Bible, the Quran, and Science)ہے۔ یہ کتاب اولاًڈاکٹر ماریس بوکائی نے فرانسیسی زبان میں تیار کی ۔اس کے بعد اس کتاب کا ترجمہ انگریزی و دیگر زبانوں میں ہوا۔عربی زبان میںاس کتاب کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ اس کا ٹائٹل ہے :التوراة والإنجیل والقرآن والعلم(بیروت، 1407ھ) —تاہم اس کام کی تکمیل کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، وہ ہم کو ایک نیا فریم ورک (framework) دے رہی ہیں۔ اس فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کےمسلمہ علمی معیار پر ثابت شدہ بنایا جا سکے۔
جدید سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام کا علم کلام ہے۔ جدید سائنس نے وہ ڈیٹا (data) فراہم کردیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات کو وقت کے مسلمہ معیار کی بنیاد پر پیش کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جدید سائنسی دور قرآن کی ایک آیت کی پیشین گوئی کا واقعہ بننا ہے۔ وہ آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (
قرآن کی اس آیت میں آفاق و انفس کی نشانیوں کے ظہور سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں سائنسی مطالعہ کے ذریعہ فطرت کے قوانین (laws of nature) دریافت ہوں گے، اور ان دریافتوں کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی حقیقتوں کو اعلیٰ عقلی معیار پر ثابت شدہ بنایا جاسکے۔دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی حقیقتوں کی دریافت ہو گی، جن کی بنیاد پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ اسلامی علم کلام کو وقت کے مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر مدوّن کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:الکلمة الحکمة ضالة المؤمن، فحیث وجدہا فہو أحق بہا (سنن الترمذی، حدیث نمبر2687)۔ یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے، وہ جہاں اس کو پائے اس کو لے لے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکمت کی بات کوئی مذہبی عقیدے کی بات نہیں ۔ ہر انسان اس کو کہیں سے بھی لے سکتا ہے، اور اس کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ تعلیم بہت زیادہ اہم ہے۔ اس سے ری پلاننگ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے لیے ری پلاننگ کا وقت آئے تو وہ اپنے اور غیر میں کوئی فرق نہ کرے۔ وہ ہر حکمت کو خود اپنی چیز سمجھے۔ وہ ہر حکمت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے عمل کی ری پلاننگ کرے۔
ری پلاننگ کے اصول کو پیشگی طور پر متعین نہیں کیا جاسکتا۔ ری پلاننگ ہمیشہ بدلے ہوئے حالات میں کی جاتی ہے۔ اور بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ فہم و بصیرت سے ہے۔ ہر آدمی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے حالات کا بے لاگ جائزہ لے۔ وہ فطرت کے اٹل اصولوں کی معنویت کو دوبارہ دریافت کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ وہ فطرت کے نظام میں کوئی خلل ڈالے بغیر اپنے مقصد کی تکمیل کرسکے۔
اس اصول کی مثال خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود ہے۔ہجرت کے پانچویں سال جب کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں تھے، آپ کو معلوم ہوا کہ قریش کے لیڈر تمام عرب سےبارہ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ آپ نے اپنےاصحاب کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ لڑائی کے بغیر اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ آپ کے ساتھیوں میں ایک سلمان فارسی تھے، جو ایران سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جب بادشاہ لوگ جنگ کو اوائڈ (avoid) کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔اس طرح فریقَین کے درمیان ایک بفر (buffer) قائم ہوجاتا ہے، اور دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی۔ پیغمبر اسلام نے اس کو پسند کیا، اور رات دن کی کوشش سے مدینہ کے ایک طرف جو کھلا ہوا تھا، لمبی خندق کھود دی۔اس طرح فریقین کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ کیوں کہ اس سے پہلے فریقین کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کی نوبت آجاتی تھی۔ جنگ کو ٹالنے کا یہ طریقہ جو اس وقت اختیار کیا گیا، وہ اس بات کی مثال تھی کہ دوسرے کے طریقے کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی درست ہے جتنا کہ خود اپنے مقرر کیے ہوئے طریقے پر عمل کرنا۔ کامیابی حاصل کرنےکے لیے دونوں طریقے یکساں طور پراہم ہیں۔
اس سلسلے کی ایک مثال وہ ہے جس کا اشارہ قرآن کی ایک آیت میں ملتا ہے۔ وہ آیت یہ ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا أَنْصَارَ اللَّہِ کَمَا قَالَ عِیسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّینَ مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللَّہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّہِ (
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریین (مسیحیوں ) نے جو طریقہ اختیار کیا، اس طریقے میں اللہ کی مدد آتی ہے، اور اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ مسیحی لوگوں کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے پرنٹنگ پریس کے زمانے کو پہچانا، اور بائبل کا ترجمہ مختلف زبانوں میں تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا۔
صحابہ کے دور میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ صحابہ قرآن کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اب ضرورت ہے کہ مسیحی پیٹرن پر قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائیں،اور ان کو چھاپ کر ساری دنیا میں پہنچادیا جائے۔ گویا کہ اصحاب رسول مقری آف قرآن بنے تھے، اب ہمیں ڈسٹری بیوٹر آف قرآن بننا ہے— یہ اشاعت قرآن کے معاملے میں ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔
واپس اوپر جائیں
دور جدید کے مسلمانوںکا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت بڑے پیمانے پر اس ذہنیت کا شکار ہیں ، جس کو اناکرونزم(anachronism) کہا جاتا ہے، یعنی خلاف زمانہ حرکت۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو ماضی سے کام کا جو ماڈل وراثتی طور پر ملا ہے ، وہ ابھی تک اس سے باہر نہیں آئے۔ وہ زمانے سے بے خبری کی بنا پر قدیم ماڈل کو جدید دور میں دہرارہے ہیں۔ مگر یہ طریقہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں۔
مثلا قدیم زمانے میں اصلاح کے لیے فتویٰ کی زبان رائج تھی۔ آج کے علماء بدستور اسی ماڈل کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر وہ تکفیر کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ جس کو غلط سمجھتے ہیں ، اس کے خلاف کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں، اور اس کو قابل گردن زدنی ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ حالاں کہ اب کسی بھی درجے میں ان طریقوں سے کوئی اصلاح ہونے والی نہیں۔ یہ زمانہ عقلی استدلال (rational argument) کا زمانہ ہے۔ اب آج کے لوگوں کے لیے صرف عقلی استدلال مؤثر ہوسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں فتویٰ کی زبان ورک (work) کرنے والی نہیں۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمان بڑے پیمانے پر اسلامی مقصد حاصل کرنے لیےجہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں چلارہے ہیں۔ حالاں کہ اب وہ زمانہ ختم ہوچکا ہے جب کہ تشدد کا طریقہ مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موجودہ زمانے میں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کے لیےامن کا طریقہ پوری طرح کافی ہے۔اسی طرح مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام کی اشاعت کے نام پر مناظرہ (debate) کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں مناظرہ کا طریقہ ایک متروک طریقہ بن چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کام کے لیے ڈسکشن اور ڈائلاگ کی اہمیت ہے، نہ کہ ڈیبیٹ کی۔
اسی طرح بہت سےمسلم رہنما امت کی ترقی کے لیے احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت کے ماڈل پر کام کررہے ہیں، مگران کو معلوم نہیں کہ صحافت اور قیادت کے لیے یہ ماڈل اب آخری حد تک بے اثر ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانے میں احتجاجی صحافت اور احتجاجی قیادت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے وہ کوئی کام ہی نہیں، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما امت کے کاز (cause)کے لیے کام کرنے اٹھے، وہ صرف اپنے داخلی جذبہ کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے باقاعدہ مطالعے کے ذریعہ یہ جاننے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ موجودہ زمانہ کیا ہے، اور موجودہ زمانے میں کوئی کام موثر طور پر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک کتاب کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔اس کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West (1965, pp 132)
مسلم رہنماؤں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ دورِ جدید کو دشمن اسلام دور سمجھتے ہیں۔ یہ سرتاسر بے بنیاد بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دور جدید پورے معنوں میں ایک موافق اسلام دور ہے۔ وہ اس حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ غیر مسلم قومیں اسلام کی مؤید (supporter) بن جائیں گی (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
یہ خود اللہ رب العالمین کے منصوبے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے ظہور سے تقریبا ًڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کےذریعہ ایک منصوبہ جاری کیا گیا تھا۔ جس کو مبنی بر صحرا منصوبہ (desert-based planning) کہا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعہ عرب میں ایک ٹیم تیار ہوئی۔ یہ ٹیم موافق اسلام ٹیم تھی۔ اس ٹیم پر عمل کرکے پیغمبر اسلام نے اصحاب رسول کو تیار کیا، جن کو قرآن میں خیر امت (آل عمران
واپس اوپر جائیں
صلیبی جنگیں (Crusades)تاریخ کا ایک طویل جنگی سلسلہ تھا ، جو
صلیبی جنگوں کے موقع پر تقریبا ًپورے مسیحی یورپ نے مل کر حملہ کیا، تاکہ وہ اس مقدس علاقے کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے سکیں۔ مگر متحدہ کوشش کے باوجود اس محاذ پر ان کو کامل شکست ہوئی۔ اس واقعے کو مورخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) قرار دیا ہے۔
مگر تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد مغرب کی مسیحی قوموں نےہار نہیں مانی، بلکہ ان کے اندر ایک مثبت اسپرٹ جاگ اٹھی۔ انھوں نے صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد اپنے میدان عمل کو بدل دیا، اور جنگ کے میدان کے بجائے پر امن تحقیق کو اپنا میدان بنا لیا۔ ایک مبصر نے اس کو اسپریچول کروسیڈس(spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔
اس پر امن کروسیڈس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے مسیحی اہل علم تاریخ میں ایک نیا دور لانے میں کامیاب ہوگیے۔ یہ وہی دور ہے جس کو scientific age کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی ساری توجہ فطرت (nature)کی تحقیق پر لگا دی۔ اس کے نتیجے میں فطرت کے اندر چھپی ہوئی ٹکنالوجی پہلی بار انسان کے علم میں آئی۔ اسلام نے اعلان کیا تھا کہ نیچر پرستش کا موضوع نہیں ہے، بلکہ وہ تحقیق کا موضوع ہے (الجاثیۃ
مسیحی یورپ کا یہ عمل ری پلاننگ کی ایک مثال ہے۔ مسیحی یورپ نے پہلے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ جنگ کی طاقت سے ارض مقدس پر قبضہ حاصل کریں۔ دو سوسال کی جنگ کے بعد جب یہ منصوبہ ناکام ہوگیا تو ان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ وہ جنگ کے میدان کے بجائے پرامن میدان میں اپنی کوشش صرف کریں۔ یہ ری پلاننگ کامیاب رہی، اور چند سوسال کی مدت میں صرف یہ نہیں ہوا کہ ایک نیا سیاسی دور وجود میں آگیا، بلکہ یہ ہوا کہ مسیحی یورپ نے نئے وسائل کے استعمال سے دوبارہ اس غلبہ کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کرلیا ، جو سیاسی میدان میں ناکامی سے کھویا گیا تھا۔
اس علاقے کے مسلم رہنما اُس وقت اپنے معاملے کی ری پلاننگ نہ کرسکے، 1947 میں جب فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی، اور اس میں فلسطین کا نصف حصہ عربوں کو دیاگیا ۔ عرب رہنما کے لیے بھی یہ ایک ری پلاننگ کا وقت تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے پچھلے سیاسی مائنڈ سیٹ کو توڑیں، اور نئے حالات کے لحاظ سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقیناً آج فلسطین میں ایک طاقت ور سلطنت قائم ہوتی۔ فلسطین کا جو علاقہ عربوں کے قبضے میں دیا گیا تھا، وہ فلسطین کا سب سے زیادہ اہم علاقہ تھا۔ نیز شام اور عراق اوراردن اور مصر پہلے ہی سے ان کے قبضے میں تھے۔
یہ پورا علاقہ ایک تاریخی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ عالمی سیاحت کے لیے بہت زیادہ ٹورسٹ اٹریکشن (tourist attraction) رکھتاہے۔ اگر اس علاقے میں امن قائم رہتا تو سیاحت کی انڈسٹری بہت زیادہ فروغ پاتی۔ اس سے عربوں کو نہ صرف اقتصادیات کے اعتبار سے غیر معمولی فائدے حاصل ہوتے، بلکہ سیاحوں کی آمد و رفت سے اس علاقے میں دعوتی مشن کا کام بھی بہت بڑے پیمانے پر ہوسکتا تھا۔ مگر ری پلاننگ کی اہمیت کو نہ جاننے کی وجہ سے یہ عظیم موقع استعمال نہ ہوسکا۔حسن البناء اور ان کے ساتھیوں نے 1947 میں قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا تھا۔ اس میں ان کا نعرہ تھا،لبیک یا فلسطین ۔ اگر وہ دانش مندی سے کام لیتے تو وہ لبیک ایہا الناس کے نعرے کے ساتھ اس علاقے میں داخل ہوتے، اور یہاں اسلام اور مسلمانوں کا نیا مستقبل تعمیر کرسکتے تھے۔ مگر یہ عظیم موقع استعمال ہونے سے رہ گیا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ رب العالمین اہل اسلام کے لیےدوسری قوموں کے ذریعہ تائید (support) فراہم کرےگا(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔اس حدیث رسول کا ایک پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی دوسری قوموں یا سیکولر لوگوں کے ذریعے ایسے ماڈل (model) سیٹ کرےگا، جو اہل اسلام کے لیے اپنے دینی مشن میں رہنما بن سکیں ۔ غور کیا جائے تو تاریخ میں بار بار ایسے واقعات پیش آئے ہیں ۔ انھیں میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو ویٹیکن ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
قدیم یورپ میں مسیحی پوپ کو پورے یورپ کے لیے بے تاج بادشاہ (uncrowned king) کا درجہ حاصل تھا۔ سترھویں صدی میں حالات بدلے، اور دھیرے دھیرے پوپ نے اپنا اقتدار کھودیا۔اب پوپ کے لیے دو کے درمیان انتخاب (option)کا معاملہ تھا۔ یا تو پولٹکل رول کی حیثیت سےپوپ کا عہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، یا کسی نان پولٹکل سطح پر پوپ کا ٹائٹل باقی رکھا جائے۔غور وفکر کے بعد مسیحی ذمہ دار ان دوسری حیثیت پر راضی ہوگیے۔یہ واقعہ مسولینی کے زمانے میں ہوا۔ 1929 میں مسیحی پوپ اور اٹلی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس کو لیٹرن ٹریٹی(Lateran Treaty) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق، اٹلی کی دارالسلطنت روم میں پوپ کو ایک محدود علاقہ دے دیا گیا، جس کا رقبہ تقریبا ایک سو دس ایکڑ تھا۔یہ علاقہ پہلے سے مسیحی لوگوں کے پاس تھا۔ اب اس کو ایک با اقتدار اسٹیٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ پوپ نے اس علاقے کو ڈیولپ کیا، اور اب وہ مسیحیت کےلیے روحانی کنگڈم (spiritual kingdom) کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ اپنا کام کررہا ہے۔
لیٹرن معاہدے کے ذریعہ مسیحی قوم کو یہ موقع مل گیا کہ وہ پوپ ڈم (Popedom)کے خاتمے کے باوجود پوپ کا ٹائٹل بدستور باقی رکھیں۔ وہ پوپ کے نام سے بدستور ساری دنیا میں اپنی مذہبی تنظیم (religious organization) قائم کریں۔ وہ ایک مرکزی اتھارٹی کے تحت ساری دنیا میں منظم طور پر اپنے مذہب کا کام کرسکیں۔ یہ وہی حکمت تھی جس کو قرآن میں احدی الحسنیین (التوبۃ
موجودہ زمانے میں مسلمان اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محرومی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ زمانی حقائق سے بے خبری کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بار بار یہ موقع ملا کہ وہ’’ویٹیکن ماڈل‘‘ کے مطابق اپنے لیے دوسرا بہتر (second best) حاصل کرلیں۔ لیکن مسلمانوں کے رہنما اپنی غیر دانشمندی کی بنا پر اس موقع کو اویل (avail) نہ کرسکے۔ مثلاً بیسویں صدی کے ربع اول میں جب یہ واضح ہو گیا کہ عثمانی خلافت کا سیاسی ادارہ باقی نہیں رہ سکتا۔ تو مسلم رہنماؤں کے لیے یہ موقع تھا کہ گفت و شنید کے ذریعہ وہ دوسرے بہتر (second best) پر راضی ہوجائیں ۔ یعنی خلافت کے نام سے ترکی کے کسی علاقہ ، مثلاً قسطنطنیہ کے ایک محدود رقبہ کو حاصل کرلیں، اور وہاں ویٹیکن جیسا ایک ادارہ بنا کر خلیفہ کے ٹائٹل کو بدستور باقی رکھیں۔یہ مسلم رہنماؤں کے لیے اپنے مسئلے کی ری پلاننگ کا ایک موقع تھا۔ مگر اس وقت کے مسلم رہنما اِس معاملے میںحقیقت شناسی کا ثبوت نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت کا ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔
اسی طرح 1952 میںجب مصر کےشاہ فاروق کی حکومت ختم ہوئی، اور مصر میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ تو اس وقت الاخوان المسلمون کومصر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت میںوزارت تعلیم (Education Ministry) کی پیش کش کی، مگر الاخوان المسلمون کے رہنماؤں نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے 1962 میں جماعت اسلامی پاکستان کو یہ پیش کش کی کہ پاکستان میں ایک بین اقوامی یونیورسٹی قائم کی جائے، اور اس کا مکمل چارج جماعت اسلامی پاکستان کو دے دیا جائے۔ مگر جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ داران نے اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہ سب ری پلاننگ میں ناکامی کا معاملہ ہے، اور یہی ناکامی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی اصل ذمہ دار ہے۔
واپس اوپر جائیں
عرب مسلمان آٹھویں صدی عیسوی میں اسپین میں داخل ہوئے۔ یہاں انھوں نے اسپین کے ایک حصے میں اپنی حکومت قائم کی۔ اسپین کے اس حصے کو الاندلس کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت نشیب و فراز کے ساتھ تقریباً آٹھ سوسال تک جاری رہی۔ آخری دور میں عرب مسلمانوں کے خلاف سیاسی ردّعمل ہوا۔ ایک خونی جنگ کے بعد عرب مسلمان اسپین سے مکمل طور پر نکال دیے گیے۔
مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اسپین کی قدیم تاریخ میں پہلے عرب مسلمانوں کو حملہ آور (invader) کی حیثیت سے لکھا گیا تھا۔ مگر اب اسپین میںنئی تاریخ لکھی گئی ہے، جو عرب دور کے اسپین کو خود اسپین کی تاریخ کا ایک حصہ قرار دیتی ہے۔اس نئے دور کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ اسپین کے ساحل پر عرب رولر عبدالرحمن الداخل کا اسٹیچو دوبارہ نصب کیا گیا ہے، جو تلوار لیے ہوئے بظاہر فاتح کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ یہ اسٹیچو 1984 میں تیار کیا گیا تھا:
Abd al-Rahman I landed at Almunecar in al-Andalus, to the east of Malaga, in September 755. The statue was created in 1984.
اسپین میں یہ انقلاب کیسے آیا۔ اصل یہ ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی میں سیاسی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں سیاسی حکمرانی کے ساتھ کوئی مثبت تصور موجود نہیں ہوتا تھا۔ مگر بیسویں صدی میں صورت حال مکمل طور پر بدل گئی۔ اب جدید حالات کے تحت دنیا میں ایک نئی صنعت وجود میں آئی، جس کو ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ ٹورسٹ انڈسٹری ملکوں کے لیے اقتصادیا ت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسپین میں مسلم عہد کی تاریخی یادگاریں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ان کو دیکھنے کے لیے ساری دنیا کے سیاح وہاں آنے لگے۔ اس کے بعد اسپین کی حکومت کو معلوم ہوا کہ اس کے ملک میں اقتصادیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ موجود ہے، اور وہ ہے مسلم عہد حکومت کی تاریخی عمارتیں۔ اسپین کی حکومت نے ان تمام مقامات کی جدید کاری (renovation) کا کام بڑے پیمانے پرکیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسپین دنیا کی سیاحت انڈسٹری کے نقشے میں نمبر دو ملک بن گیا ، اور اس کی اقتصادی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ حتی کہ ایک پس ماندہ ملک ایک خوشحال ملک بن گیا۔
یہ کرشمہ ری پلاننگ کا کرشمہ تھا۔اسپین کے رہنماؤں نے وقت کی تبدیلی کو سمجھا، اور اس کے مطابق ازسر نو اپنا نقشہ بنایا۔ اس معاملے میں اقتصادی مفادات کی بنا پر اسپین کی متعصبانہ پالیسی بالکل ختم ہوگئی۔ یہاں تک کہ اب یہ حال ہے کہ اسپین میں دوبارہ مسلمان آباد ہورہے ہیں، وہاں مسجدیں بنا رہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں اسپین کے باشندوں میں اسلام کی اشاعت ہورہی ہے۔ آج اسپین میں مسلمانوں کو ویلکم (welcome) کیا جار ہا۔ جب کہ اس سے پہلے مسلمان وہاں غیر مطلوب (unwanted) بن گیے تھے۔
اسپین کی اس ری پلاننگ میں مسلم دنیا کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اسی طرح کی ری پلاننگ کے مواقع مصر میں، پاکستان میں، فلسطین میں ، کشمیر میں، اور دوسرے مسلم علاقوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ اگر مسلمان دورِ جدید کے اس ظاہرہ کو دریافت کرسکیں تو آج کی دنیا ان کے لیے موافق دنیا بن جائے گی، جس کو اب تک وہ ایک ناموافق دنیا سمجھے ہوئے ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اسپین کے نام سے صرف الحمراء، اور قرطبہ جیسی یادگار کو جانتے ہیں۔ مگر اسپین میں مسلمانوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بڑی چیز موجود ہے، اور وہ ہے ایک انقلابی پیغام — وقت کے حقائق کو سمجھو، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی ری پلاننگ کرو۔ اس کے بعد اچانک تم دیکھو گے کہ ساری دنیا میں ایک نیا دور آگیا ہے، امیدوں اور مواقع کا دور۔
اسپین کے لیے نئے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا دروازہ اس وقت کھلا، جب کہ انھوں نے اپنی منفی سوچ کو بدل دیا۔ جن مسلمانوں کو وہ پہلے اپنا دشمن سمجھتے تھے، ان کو انھوں نے اپنے دوست کی حیثیت سے دریافت کیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ آج کی دنیا ان کی اپنی دنیا ہے، وہ کسی اور کی دنیا نہیں ۔ آج کی دنیا میں وہ اسلام کی تاریخ کو نئے عنوان سے رقم کرسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
دور جدید میں امت مسلمہ کا مسئلہ، اس کے احیاء کا مسئلہ تھا۔ اس مقصد کے لیے مسلم جدو جہد کی تاریخ غالباً 1799 سے شروع ہوتی ہے جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو برٹش فوج سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوگیے۔ یہ جدو جہد اکیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ مگر جان و مال کی بے شمار قربانیوں کے باوجود نتیجہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوا۔ یعنی فائدہ تو کچھ نہیں ہوا، البتہ نقصان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس ناکام تجربے کا تقاضا یہ ہے کہ اب مسلمان توبۂ جمیع (النور
مسلمانوں کی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ثابت شدہ ناکام تجربوں کو دوبارہ نئے نئے نام کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔ مثلا ًمغرب میں رہنےوالے مسلمانوں کا اسلاموفوبیاکا نظریہ، مصر میں الاخوان المسلمون کی اسٹریٹ ایکٹوزم، فلسطین والوں کی خودکش بمباری (suicide bombing)، پاکستان کی پراکسی وار (proxy war) ، کشمیریوں کا پتھر مارنا (stone pelting)، انڈیا کے مسلمانوں کی احتجاجی صحافت (protestant journalism)، ایران کی اسلام دشمنوں کی دریافت، افغانستان کا طالبانائزیشن (talibanization)، وغیرہ۔ یہ سب ناکام تجربات کو بے فائدہ دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں:
It is a futile repetition of a failed strategy.
امت کا نیا مستقبل صرف نئی اور مثبت بنیاد پر کی ہوئی منصوبہ بندی کے ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، اور نئی منصوبہ بندی کا پراسس (process) صرف اس اعتراف کے بعد شروع ہوتا ہے کہ اب تک ہم غلطی پر تھے (we were wrong)۔غلطی کو مانے بغیر نئے مستقبل کی بات کرنا، ایسا ہے جیسے پودا لگائے بغیر ہرے بھرے باغ کا انتظار کرنا ۔
واپس اوپر جائیں
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.