قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (
اصل یہ ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ہیں، ان سب کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ ہر چیز انسان کے لیے عملاً ایک سبق بن گئی ہے۔ تمام چیزیں روحانی حقیقتوں (spiritual realities) کی مادی تمثیلات (material illustrations) ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان سے نصیحت لے، اور اپنے آپ کو خدا کے راستے پر قائم رکھے۔
مثلاً وسیع خلا میں ستاروں کی گردش اس بات کی تمثیل ہے کہ اجتماعی زندگی میں لوگوں کو اپنی سرگرمیاں اس طرح جاری کرنا چاہیے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ پیش نہ آئے۔ گلاب کا درخت بتاتا ہے کہ اگر تم کانٹوں کے پڑوس میں ہو، تب بھی تم پھول بن کر رہنا سیکھو۔ ہرا بھرا درخت بتاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو جمود (stagnation) سے بچاؤ، بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو ترقی دیتے رہو۔
شہد کی مکھی اس معاملے میں ایک انوکھی مثال ہے۔ شہد کی مکھی پہاڑوں اور جنگلوں میں اڑتی ہے۔ وہاں مختلف قسم کی چیزیں ہیں، لیکن شہد کی مکھی صرف پھول پر جاکر بیٹھ جاتی ہے، اور پھر خاموشی کے ساتھ پھول سے اس کانکٹر (nectar) نکالتی ہے، اور اڑ جاتی ہے۔
اس طرح کی ایک مثال دودھ دینے والے جانور ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کو انسان گھاس اور درخت کی پتیاں کھلاتا ہے۔ لیکن دودھ دینے والے جانور انسان کو اس کے بدلے میں جو چیز لوٹاتے ہیں، وہ دودھ ہے۔ اس طرح دودھ دینے والے جانور یہ سبق دے رہے ہیںکہ دوسرا شخص تم کو خواہ ’’گھاس ‘‘ دے، مگر تم اس کو اس کے جواب میں دودھ کا تحفہ لوٹاؤ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ہدایت یافتہ لوگوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھنے والے(البقرۃ: 3) ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق ، ہدایت یافتہ لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھنے والے بن جائیں۔یہاں ایمان سے مراد لفظی اقرار نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو غیب کے اوپر پورا یقین حاصل ہوجائے۔
یہ یقین کسی آدمی کو کس طرح حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ آدمی اس معاملے میں مطالعہ اور تدبر کا طریقہ اختیار کرے۔ اس موضوع پر اس کا سنجیدہ غور وفکر اتنا بڑھا ہوا ہو کہ وہ اس کے نزدیک یقینی علم کا درجہ حاصل کرلے۔گویا کہ ایمان بالغیب ایک عمل (process) کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے۔ آدمی پہلے غیبی حقیقت کو دریافت کرتا ہے۔ پھر یہ دریافت ترقی کرکے اس کے لیے یقین کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کو وہ اعلیٰ معرفت حاصل ہوتی ہے، جس کو ایمان بالغیب کہا گیا ہے۔
ایمان کسی قسم کے تلفظِ کلمہ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ گہرے تدبر کے ذریعہ حاصل ہونے والی معرفت کا نام ہے۔ جب کوئی آدمی اس معرفت کے درجے تک پہنچتا ہے تو غیب اس کے لیے شہود بن جاتا ہے۔ وہ تخلیق میں خالق کو دریافت کرلیتا ہے۔ جب کسی آدمی کو یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ جان لیتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اس مقصد تخلیق کے مطابق اس کو دنیا میں کس طرح کی زندگی گزارنا ہے۔ اس کی ذمہ داریا ں کیا ہیں، اور اس کے حقوق کیا ۔ وہ زندگی کی معنویت کو بھی جان لیتا ہے، اور موت کی معنویت کو بھی۔ اس کو دنیا اور آخرت دونوں کی حقیقت کا گہرا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ اس معرفت (realization) کے نتیجے میں جو انسان بنتا ہے، اسی انسان کا نام مومن ہے۔ مومن ایک تخلیقی انسان (creative person) ہوتا ہے، اس سے کم کسی چیز کو مومن یا ایمان سمجھنا ، مومن اور ایمان دونوں کا کم تر اندازہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ جنت کا طالب بنے۔ وہ آخری حد تک جنت کا خواہش مند بن جائے۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ما رأیت مثل الجنة، نام طالبہا (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر1638) ۔ یعنی میں نے جنت کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی کہ اس کا طلب گار سوتا رہے۔
انسان کا ہیبیٹیٹ (habitat) جنت ہے۔ انسان کو حقیقی خوشی صرف جنت میں مل سکتی ہے۔ مگر جنت موجودہ آنکھوں سےانسان کو دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے انسان جنت کا طالب بننے کے بجائے دنیا کا طالب بن جاتا ہے۔ بچپن کا دور انسان کے لیے بےخبری کا دور ہے۔ جوانی کی عمر میں وہ غیب کی جنت کے بجائے، شہود کی جنت کو اپنا مقصود بنا لیتا ہے۔ بڑھاپے کی عمر میں یہ ہونا چاہیے کہ انسان اپنی عمر بھر کی غلطیوں کی تلافی کرے، اور حقیقی معنوں میں جنت کا طالب بن جائے۔ مگر یہاں بھی وہ اس سے محروم رہتا ہے۔
بڑھاپے کی عمر ایک ایسی عمر ہے، جب کہ انسان کے اندر سے امنگ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر پہلے کی طرح جوش و جذبہ باقی نہیں رہتا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے جو انسان ہو لیکن وہ جوش و خروش کی صفت سے خالی ہو۔ انسان کی یہ حالت دوبارہ بڑھاپے کی عمر میں بھی اس کو جنت کا طالب بننے سے محروم کردیتی ہے۔ اس کی ساری توجہ اس میںلگ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے۔ اپنی بقیہ عمر کو کسی نہ کسی طرح گزار دے۔
یہی تقریباً ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہرانسان اپنی فطرت کے اعتبار سے اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ جنت کا طالب بنے۔ وہ جنت کو اپنا منزل مقصود بنائے، لیکن مختلف اسباب سے وہ اپنی پوری عمر غفلت میں گزار دیتا ہے۔ وہ اپنی عمر کے پہلے حصے میں بھی جنت سے غافل رہتا ہے، اور اپنی عمر کے آخری حصہ میں بھی۔
واپس اوپر جائیں
جنت ہر انسان کے لیے ایک معلوم چیزہے۔ ہر انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے معیار پسند (perfectionist) ہوتا ہے۔ اپنے اس پیدائشی مزاج کی بنا پر ہر آدمی اپنی پسند کی دنیا (desired world) کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن ہر انسان آخرکار اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ اس کی پسند کی دنیا یہاں موجود نہیں ۔
انسان کی فطرت اور خارجی دنیا کے درمیان یہ عدم مطابقت (disparity) ایک سراغ (clue) ہے۔ آدمی اگر اس سراغ پر غور کرے تو وہ یقینا اس دنیا میں ایک دریافت تک پہنچے گا۔ وہ یہ ہے کہ خالق کی تخلیق جب پوری کائنات میں مکمل ہے۔ تو انسان کی زندگی میں یہ خلل (flaw) کیوں۔ یہی دریافت جنت میں داخلے کا آغاز ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان دریافت کے درجے میں جنت میں داخل ہوتا ہے،اور آخرت میں وہ واقعہ کے درجے میں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
جنت اس انسان کے لیے ہے جو شعور کے اعتبار سے اتنا زیادہ ترقی یافتہ ہو کہ وہ اسی دنیا میں جنت کی معرفت حاصل کرلے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (
جنت کامل معنوں میں ایک مثبت دنیا (positive world) ہے۔ جنت کی معرفت کی پہچان یہ ہے کہ آدمی مکمل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) کا حامل بن جائے۔ دوسرے انسانوں کے لیے کسی بھی درجے میں اس کے اندر نفرت کا جذبہ باقی نہ رہے۔ وہ جتنا زیادہ حریص اپنے خیرکے لیے ہے، اتنا ہی زیادہ حریص وہ دوسروں کے خیر کے لیے بن جائے۔منفی سوچ (negative thinking) جہنمی کلچر کی پہچان ہے، اور مثبت سوچ جنتی کلچر کی پہچان ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (
دین اسلام کی حفاظت کوئی فضیلت کی بات نہیں ہے، بلکہ اس کی حفاظت ضرورت کی بات ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی تھے۔ آپ کے بعد اللہ کوئی نبی بھیجنے والا نہیں۔ اس واقعہ کا تقاضا تھا کہ دین اسلام کو ایک محفوظ دین بنا دیا جائے۔ کیوں کہ اللہ کا دین اللہ کے نبی کے ذریعہ آنے والی ہدایت کو جاننے کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ پیغمبر کی غیر موجودگی میں اللہ کا دین پیغمبر کا بدل ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ نے جب ختم نبوت کا فیصلہ فرمایا تو اسی وقت یہ بھی فیصلہ فرمادیا کہ آخری نبی کے ذریعہ بھیجا جانے والا دین ہمیشہ اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بعد کے انسانوں کے لیے صراط مستقیم کو جاننے کا کوئی مستند ذریعہ موجود نہ ہوتا۔
اس صورت حال کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی حامل امت سے ہے۔ دین محفوظ ہونے کے باوجود یہ ضرورت باقی ہے کہ کوئی انسانی گروہ ہو، جو ہر دور میں دین کی اشاعت کا کام کرتا رہے۔یہ گروہ امت مسلمہ ہے، جس کو پرامن دعوت الی اللہ کا یہ کام بلاتوقف قیامت تک انجام دینا ہے۔ معاملے کا یہ پہلو امت مسلمہ کی ذمہ داری کو بڑھادیتا ہے۔ یعنی امت مسلمہ کو بعد کے زمانے میں دعوت کا وہی کام انجام دینا ہے، جو پیغمبر نے اپنے زمانے میں انجام دیا ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے فرقان (قرآن) کو اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ سارے عالم کے لئے آگاہ کرنے والا بنے (
یہ گویا ایک چین ڈسٹری بیوشن (chain distribution) کا معاملہ ہے۔ قرآن رسول کے ذریعہ صحابہ تک پہنچے، صحابہ تابعین تک پہنچائیں، تابعین تبع تابعین تک پہنچائیں۔ اس طرح اہلِ ایمان کی ہر نسل اپنے ہم زمانہ لوگوں تک پہنچاتی رہے۔ یہاں تک کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں تک قرآن پہنچ جائے۔موجودہ زمانہ کے مسلمان عام طورپر شکایت کی بولی بولتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف سازش کررہے ہیں۔ یہ ساری باتیں غیر متعلق ہیں۔ اہلِ ایمان پر فرض ہےکہ وہ اس قسم کی منفی باتوں کو چھوڑ دیں۔ وہ ہر شکایت کو اللہ کے حوالے کردیں اور اپنے آپ کو مکمل طورپر قرآن کی اشاعت کے کام میں لگا دیں۔ اصحابِ رسول اپنے زمانہ میں قرآن کے مقری بنے ہوئے تھے۔ اب پرنٹنگ پریس کے زمانہ میں ہر مسلمان کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر بن جانا چاہئے۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ ہر مسلمان اپنے ساتھ مطبوعہ قرآن کے نسخے رکھے اور جس سے ملاقات ہو اس کو یہ کہہ کر پیش کردےThis is a divine gift for you:
قرآن کو لوگوں کی قابل فہم زبان میں پھیلانا امت مسلمہ کا ایک لازمی فریضہ ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی کے بغیر امت مسلمہ کا امت مسلمہ ہونا مشتبہ ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی دوسرا عمل امت مسلمہ کے لیے اس فریضے کا بدل نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میں کوئی بھی عذر (excuse)اللہ رب العالمین کے یہاں قابل قبول ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِینَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِینَ (
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوشش کرنے سے انسان کے لیے راستے کھلتے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی دین کے نام پر کوئی کوشش شروع کرے اور کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوکہ اس کی کوشش عملاً نتیجہ خیز نہیں ہورہی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے پورے معاملے پر نظر ثانی (rethinking) کرے۔ اگر وہ کھلے ذہن کے ساتھ ایسا کرے ، تو یقینا اس کو یہ رہنمائی ملے گی کہ وہ کون سا زیادہ موثر طریقہ ہے جو زیادہ نتیجہ خیز بن سکتا ہے۔ جو ایسا نہ کرے اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ آخر کار ایک بند گلی (blind alley) میں پھنس کر رہ جائے ۔ ایسے لوگوں کا ماضی بھی برباد اور مستقبل بھی برباد۔
موجودہ زمانے میں تمام مسلمانوں کا حال یہی ہوا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے نو آبادیاتی نظام (colonialism) کے خلاف مسلح جدو جہدکی۔ لیکن یہ جدوجہد نتیجہ کے اعتبار سے مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔ اسی طرح انھوں نےفلسطین میں اسرائیل کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ کشمیر میں انھوں نے اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ اسی طرح ہر ملک میں انھوں نے کسی کو اپنا دشمن فرض کیا، اور اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف پر شور تحریکیں چلائیں۔ لیکن ہر ملک میں ان کی تحریکیں ، باعتبار نتیجہ کامل طور پرناکام ثابت ہوئیں۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق مسلمان اگر چاہتے کہ اللہ کی طرف سے کارگر رہنمائی آئے تو ان کو اپنی تحریکوں پر نظرثانی کرنا ہوگا۔ یہ نظرثانی ان کے لیے جہاد برائے خدا (Jihad for the sake of God) ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
انسان ہمیشہ سے اس کا طالب رہا ہے کہ اس کو لمبی عمر حاصل ہو۔ اسی لیے اس موضوع پر ہمیشہ سب سے زیادہ ریسرچ کی گئی ہے۔ بادشاہ لوگ قدیم زمانے میں علم طب کی بہت زیادہ سرپرستی کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ علم طب ان کو لمبی عمر دے سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں میڈیکل سائنس کے شعبے میں سب سے زیادہ ریسرچ اسی موضوع پر ہورہی ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ اس کو لمبی عمر (longevity) حاصل ہو۔ مگر اس شعبے میں انسان کواب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل مسئلہ لمبی زندگی کا نہیں ہے، بلکہ زندگی کی کوالٹی (quality) کا ہے۔ بالفرض انسان کو لمبی عمر مل جائے، اور زندگی کی کوالٹی میں بہتری نہ ہو تو لمبی عمر کا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ حالت میں لمبی عمر انسان کے لیےصرف اس کے مسائل میں اضافہ کرے گی، وہ اس کے مسائل کو حل کرنے والی نہیں ۔
اصل یہ ہے کہ انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ بچہ ہوتا ہے، پھر وہ نوجوانی کی عمر میں پہنچتا ہے۔ پھر وہ جوان ہوتا ہے۔ پھر وہ ادھیڑ عمر میں پہنچتا ہے، اس کے بعد وہ بوڑھا ہوجاتا ہے، اور اس کے بعد وہ بستر پر پڑجاتا ہے۔ اس مدت میں انسان مسلسل طور پر مختلف مسائل کی زد میں رہتا ہے: بیماری، حادثہ، بڑھاپا، وغیرہ۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ زندگی کی کوالٹی بڑھانے کا ہے، نہ کہ عمر کو لمبا کرنے کا۔
انسان اپنی زندگی میں جن مسائل سے دوچار ہوتا ہے،ان کا تعلق جسمانی زوال (degeneration) اور ڈی این اے (DNA) سے ہے۔ سائنٹفک ریسرچ کے مطابق، انسان کی پوری زندگی ڈی این اے سے کنٹرول ہوتی ہے، اور ڈی این اے ایک ایسی چیز ہے، جس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ انسان پر بہرحال موت آتی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ موت کے بعد کی زندگی میں انسان اسی قانونِ حیات کا موضوع بنا رہے، جس کا موضوع وہ موت سے پہلے کی عمر میں ہوتا ہے، تو انسان کو نہ موت سے پہلے کی زندگی میں سکون حاصل ہوگا، اور نہ موت کے بعد کی زندگی میں۔
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اصل مسئلہ لمبی عمر کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ایک نیا جسم حاصل ہوجائے، جوجسمانی زوال سے پاک ہو۔ موجودہ جسمانی وجود کےرہتے ہوئے، لمبی عمر کا کوئی فائدہ نہ موت سے پہلے کے عرصہ حیات میں ہے، اور نہ موت کے بعد کے عرصہ حیات میں۔
اس مسئلے کا حل وہ ہے جس کو قرآن میں خلق جدید (ابراہیم 19:، فاطر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کی زبان سے شکر کا ایک کلمہ ان الفاظ میں نکلے گا: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (
جنت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من مات من أہل الجنة من صغیر أو کبیر یردون بنی ثلاثین فی الجنة لا یزیدون علیہا أبدا(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2562)۔ یعنی اہل جنت میں سے ہر شخص کی عمر تیس سال کردی جائے گی۔ خواہ موت کے وقت وہ اس سے زیادہ کا ہو یا کم کا۔ ان کی عمر اس سے زیادہ کبھی نہیں ہوگی۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں انسان کو اس کا وہ مطلوب مل جائے گا، جو وہ چاہتا تھا، لیکن وہ اُس کو اِس دنیا میں نہیں ملا۔ یعنی ہمیشہ کے لیے جوانی کی عمر۔ انسان صرف جوانی کی عمر میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ بھرپور زندگی گزار سکے۔ جوانی کی عمر ہر انسان کی سب سے زیادہ مطلوب عمر ہے۔ انسا ن کا یہ مطلوب موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں اس کو نہیں ملتا، لیکن موت کے بعد کے عرصہ حیات میں اس کو یہ مطلوب اعلیٰ صورت میں حاصل ہوجائے گا۔
جنت کے بارے میںایک لمبی حدیث آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے: إذا صار أہل الجنة إلى الجنة ..... أتی بالموت حتى یجعل بین الجنة والنار، ثم یذبح، ثم ینادی مناد: یا أہل الجنة لا موت..... فیزداد أہل الجنة فرحا إلى فرحہم (صحیح مسلم، حدیث نمبر2850)۔ یعنی جب جنت والے جنت کی طرف چلے جائیں گے .....تو موت کو جنت اور دوزخ کے درمیان لایا جائے گا پھر اسے ذبح کیا جائے گا پھر ایک پکارنے والا پکارے گا اے جنت والو اب موت نہیں ہے..... اس سے اہل جنت کی خوشی میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔
انسان پیدائشی طور پر ایک مطلوب دنیا کا تصور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی ساری امنگیں، اور اس کی ساری دوڑ دھوپ موجودہ دنیا میں اس مطلوب کو حاصل کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ وہ مختلف چیزوں کے بارے میں یہ رائے بناتا ہے کہ وہ مل جائے تو اس کی مطلوب دنیا اس کو حاصل ہوجائے گی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان نے پوری کوشش کی ، اور اس کے بعد اس چیز کو پالیا جس کو وہ پانا چاہتا تھا، تاہم آخر میں اس نے دیکھا کہ بظاہر مطلوب کو پانے کے باوجود اس کو خوشی حاصل نہ ہوسکی۔ مثلا ً اس نے مال حاصل کرنا چاہا، اور لمبی کوشش کے بعد اس نے مال حاصل کرلیا، لیکن مال اس کو اس کی مطلوب خوشی نہ دے سکا۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے سیاسی اقتدار کو اپنا نشانہ بنایا، اور آخرکار سیاسی اقتدار حاصل کرلیا، لیکن اب اس کو معلوم ہوا کہ سیاسی اقتدار اس کو وہ چیز نہیں دے رہا ہے جو اس کا اصل مطلوب تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کی کامیابی صرف یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو اور پھر جنت کو پالے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کو حقیقی خوشی دینے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اس سوال کا جواب ایک اور آیت بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (
The world is a perpetual battleground between good and evil forces.
لیکن تخلیقی منصوبہ کے مطابق زیادہ صحیح بات یہ ہے — دنیا انسان اور ابلیس کے درمیان مسلسل مقابلہ آرائی کا میدان ہے۔
The world is a perpetual battleground between man and Satan.
قرآن کے مطابق موجودہ دنیا امتحان گاہ (testing ground) ہے۔ اس امتحان میں ایک طرف ابلیس اور اس کا لشکر ہے جو مسلسل طورپر یہ کوشش کررہا ہے کہ انسان کو خدا کے راستہ سے ہٹا کر نفس کے راستہ پر ڈال دے۔ اب جو انسان خدا کے راستہ کو چھوڑ کر اپنے نفس کے راستے پر چلنے لگے وہ شیطان کے مقابلہ میں ہار گیا۔ اس کے برعکس جو انسان ذہنی بیداری کا ثبوت دے، جو شیطان کے بہکاوے کے باوجود خدا کے راستہ پرچلتا رہے اس نے شیطان کے مقابلہ میں جیت حاصل کی۔
ہار جیت کا یہ معاملہ اسی موجودہ دنیا میں پیش آتا ہے۔ قیامت کےدن صرف اس کا اظہار ہوگا۔ مثلاً آپ کو کسی نے مشتعل کردیا۔ اب اگر آپ امن پر قائم رہے تو آپ جیت گئے اور اگر آپ بھڑک کر تشدد پر اتر آئے تو آپ ہار گئے۔ اگر آپ کو کسی کی بات بری لگ گئی اور آپ نے اس کو نظر انداز کردیا تو آپ جیت گئےاور اگر آپ غصہ ہو کر اس سے نفرت کرنے لگے تو آپ ہار گئے۔ اگر مقابلہ کی اس دنیا میں آپ پیچھے ہوگئے، آپ نے اپنے پچھڑے پن کا ذمہ دار خود کو بتایا تو آپ جیت گئے اور اگر آپ نے پچھڑے پن کا سبب یہ قرار دیا کہ ایسا دوسروں کی سازش (conspiracy) کی بنا پر ہوا تو آپ ہار گئے۔ اگر کسی نے آپ کے اوپر حملہ کرنا چاہا ا ور آپ نے اس کو مینیج (manage)کیااور جنگ کی نوبت نہ آنے دی تو آپ جیت گئے اور اگر آپ ردّ عمل (reaction)کا شکار ہوکر اس سے لڑنے لگے تو آپ ہار گئے۔
انسان اور ابلیس کے درمیان یہ جنگ ساری عمر جاری رہتی ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جس کے بارےمیں انسان کو سب سے زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ ان مواقع پر جو شخص جیت گیا، آخرت میں وہ فرشتوں کی صحبت میں جگہ پائے گا۔ اور جو شخص شیطان کے بہکاوے کا شکار ہوجائے، اس کا وہ انجام ہوگا جو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے۔ اللہ نے ابلیس سےخطاب کرتے ہوئے کہا تھا: لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَأَمْلَأَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ أَجْمَعِینَ (
ت ت ت ت ت ت ت
موجودہ دنیا میں آدمی خواہ کچھ بھی حاصل کرلے لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے اس میں غم کا پہلو شامل رہتا ہے— جسمانی تکلیف، نفسیاتی پریشانی، کھونے کا اندیشہ، حادثہ، بیماری، تکان(boredom) ، تشنۂ تکمیل خواہش (unfulfilled desire)، بڑھاپا، موت، مستقبل کا اندیشہ، ملی ہوئی چیزوں کا امپرفکٹ (imperfect) ہونا، عدم یقین (uncertainty)، آدمی کی محدودیت(limitations)، نتیجہ پر کنٹرول نہ ہونا، دوسروں کا خوف، تردد (tension) ، وغیرہ۔
ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں
اسلام مکمل ضابطۂ حیات (complete system of life)ہے— یہ بات درست بھی ہے اور نادرست بھی۔ اگر اس بات کو اختیاری پیروی (following) کے معنی میں لیا جائے تو بلاشبہ وہ درست ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کو نفاذ(enforcement) کے معنی میں لیا جائے تو یقینا وہ ایک نادرست بیان ہے، جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
مثلا قرآن میں ہے : یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا (
اسی طرح مثلاً قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا(
اسی طرح قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ (
اسلام کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ حاکمانہ طاقت سے کوئی سیاسی اور سماجی نظام قائم کیا جائے، جس میں لوگوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اپنی زندگیوں میں صرف دینِ خداوند ی کی اطاعت کریں، ان کو اس سے انحراف کی اجازت نہ ہو۔ اس کے برعکس، اسلام کا نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اللہ سے محبت کریں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اس اسپرٹ کو قرآن میں الربانیۃ (آل عمران
اسلام کی تعلیم کے مطابق، موجودہ دنیا دار الامتحان (الملک2:)ہے، وہ دار النفاذ (place of enforcement)نہیں ۔موجودہ دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test)لیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو اللہ کے مقرر کردہ صراطِ مستقیم پر چلنے میں استعمال کرتا ہے یا اس سے انحراف کرنے میں۔ امتحان کی اسی مصلحت کی بنا پر موجودہ دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ تاکہ جو چاہے مانے، اور جو چاہے انکار کرے ۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر(
اس لیے قرآن میں ایک اصولی حکم کے طور پرفرمایا: لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِنْ بِاللَّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (
قرآن میں انسان کے بارے میں خالق کا تخلیقی نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا ۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا (
خالق کے اس تخلیقی نقشے کے مطابق، ہر عورت اور مرد کو اس کے خالق نے مکمل آزادی دی ہے۔ اس کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے مطابق سوچے اور اس پر عمل کرے۔ یہ تخلیقی نقشہ فطری طور پر ہر ایک کے لیے آزادی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے مطابق، ضابطۂ حیات مکمل ہو یا غیر مکمل۔ ہر حال میں وہ انسان کے لیے فریڈم آف چوائس کا معاملہ ہے ، نہ کہ کسی اور کی طرف سے جبری نفاذ (compulsory imposition)کا معاملہ ۔ جبری نفاذ کا تصور اس معاملے میں تخلیق کے نظام میں مداخلت کے ہم معنی ہے۔ جو خلاف فطرت ہونے کی بنا پرکبھی ورک (work) کرنے والا نہیں۔
معکوس نتیجہ
مکمل ضابطۂ حیات کے نظریہ کا نتیجہ ہمیشہ معکوس صورت میں نکلے گا۔ مکمل ضابطہ عملاً نامکمل ضابطہ بن کر رہ جائے گا۔ اسلام جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے خیرخواہی کا مذہب ہے، وہ عملاً نفرت اور دشمنی کا مذہب بن کر رہ جائے گا۔
جب آپ کہیں کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات (complete system of life) ہے، تو فوراً ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ نظام (system) پر عملاً ہمیشہ کسی گروہ کا قبضہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق جو قانون یا جو طریقۂ حیات پسند کرتا ہے، اس کو وہ رائج کیے ہوئے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کا ذہن فوراً یہ سوچتا ہے کہ مکمل ضابطۂ حیات کو عملاً رائج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے نظام پر اس کا مکمل کنٹرول ہو۔ یہی کام اس کو پہلا کام نظر آتا ہے۔
پھر اس کو دکھائی دیتا ہے کہ اس مکمل کنٹرول کے لیے ضروری ہے کہ ’’حکومت کی باگیں‘‘ کسی اور کے قبضہ میں نہ ہوں، بلکہ خود اس کے قبضہ میں ہوں۔ یہاں سے یہ ذہن بنتا ہے کہ اگر اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر رائج کرنا ہے تو ہم کو زندگی کے نظام پر مکمل غلبہ حاصل کرنا ہوگا۔
اس طرح ذہن کی توجہ تمام تر اس طرف چلی جاتی ہے کہ ’’اقتدار کی باگیں‘‘ کسی اور کے ہاتھ میں نہ ہوں بلکہ آپ کے ہاتھ میں ہوں۔ پھر فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ یہی تصور آدمی کے دماغ پر پوری طرح چھاجاتا ہے۔ پھر فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ذات کا تصور پہلے ثانوی درجہ (secondary position) میں چلا جاتا ہے اور پھر بالآخر رفتہ رفتہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ذات کا معاملہ ایک رسمی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ذہن پر جو چیز چھا جاتی ہے وہ نظام (system) کو بدلنا ہے ، نہ کہ اپنی ذات کو بدلنا۔ اس اعتبار سے اگر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مکمل ضابطۂ حیات کا نظریہ عملاً معکوس نتیجہ کا سبب بن جاتا ہے۔ یعنی اس نظریہ کے نتیجہ میں جو چیز ملتی ہے وہ نفرت اور تشدد کا ماحول ہے، جہاں تک نظام زندگی کا تعلق ہے، وہ نہ مکمل معنوں میں حاصل ہوتا اور نہ نامکمل معنوں میں۔ حقیقت یہ ہے کہ مکمل ضابطہ حیات کا تصور کہنے کے اعتبار سے بظاہر جتنا خوبصورت معلوم ہوتا ہے، عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ اتنا ہی زیادہ غلط ہے۔
مکمل ضابطہ، نامکمل اسلام
میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ عرب سے ہوئی۔ وہ اسلام کی انقلابی تعبیر سے متاثر تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا: اسلام دین کامل وشامل۔ یعنی اسلام ایک کامل اورجامع دینی نظام ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ پسندیدہ نقطۂ نظر ہے۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کچھ اور کہیںگے:
Islam is a complete system of life.
اس قسم کی تعبیر بظاہر اسلام کی جامع تعبیر ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ اسلام کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ اس تعبیر کے مطابق اسلام صرف ایک قسم کا مینول بن جاتا ہے۔ مینول خواہ کتنا ہی زیادہ جامع ہو وہ انسان کے صرف جزئی پہلو کا احاطہ(cover)کرے گا۔ مینول خواہ کتنا ہی زیادہ کامل ہو وہ روبوٹ (robot) کے لئے کامل ہوسکتا ہے۔ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ کوئی بھی مینول انسان کے صرف فزیکل پہلو (physical aspect) کو کور (cover) کرتا ہے، وہ انسان کے عظیم تر انٹلکچول پہلو (intellectual aspect)کا احاطہ نہیں کرتا ۔
صحیح یہ ہے کہ اسلام فزیکل معنوں میں کامل مینول نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک مسلسل تفکیری عمل (continuous thinking process) کے معنی میں مکمل عمل ہے۔ اسلام یہ ہے کہ وہ آدمی کے ذہن (mind) کے لئے ایک فکری طوفان (intellectual storm) بن جائے، وہ آدمی کے اندر مسلسل تفکیری عمل (continuous thinking process) جاری کردے۔وہ آدمی کے اندر ایسی تخلیقیت (creativity) پیدا کردے کہ وہ ہر لمحہ معرفت کے آئٹم دریافت کرتا رہے۔ اس کی شخصیت کو مسلسل طورپر ربانیت کی غذا (divine food) ملتی رہے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے:
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (
قرآن کے اس بیان کے مطابق اہل ایمان اُولو الالباب (people of understanding) ہوتے ہیں۔ وہ اپنےاردگرد کی دنیا پر مسلسل طور پر غور کرتے ہیں۔ وہ خدا کی تخلیق میں خدا کی نشانیاں (signs) دریافت کرتے رہتے ہیں۔ ان کا بیدار ذہن فطرت (nature) کے ہر تجربہ میں معرفت کے آئٹم کو دریافت کرتا رہتاہے۔ ان انکشافات کے درمیان اُن کو مسلسل طورپرتخلیق کی معنویت دریافت ہوتی رہتی ہے۔ اس ذہنی عمل (intellectual process) کے نتیجہ میں ان کے اندر وہ ترقی یافتہ شخصیت بن جاتی ہے جس کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت کہاگیا ہے(طہ
مثال کے طورپر دن کی سرگرمیوں سے فارغ ہوکر آپ اپنے بستر پر لیٹے۔ اس وقت آپ کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگ اٹھا۔ آپ اپنے گزرے ہوئے دن پر سوچنے لگے۔ آپ نے دریافت کیا کہ آج کے دن آپ نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اب صحیح کام پر آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اورغلط کام پر آپ کے اندر ندامت (repentance)کا جذبہ جاگ اٹھا۔ رات کی نماز ادا کرنے کے بعد بستر پر جانے سے پہلے آپ نے اللہ سے معافی مانگی اور یہ عہد کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں دہرائیں گے ۔
اس طرح سوچتے ہوئے آپ سو گئے۔ پھر آپ صبح کو اٹھے اور فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے آفس گئے۔ یہاں آپ پر مختلف قسم کے تجربات گزرے۔ ہر تجربہ میں آپ کو کوئی ربانی غذاملی۔ مثلاً آپ نے کسی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔بعیدمواصلات (distant communication) کے اس تجربے کے دوران آپ نے دریافت کیا کہ اللہ نے مادّہ (matter)کو انسان کے لئے اس طرح مسخر کردیا ہے کہ مادہ انسان کے حکم پر اس کے تمام کام انجام دے۔
اس کے بعد آپ اپنے کمرہ سے باہر نکلے اور اپنے گھر کے بیرونی حصہ میں بیٹھ گئے۔ یہاں آپ نے دیکھا کہ سورج بلند ہو کر اپنی روشنی آپ تک پہنچا رہا ہے۔ ہوائیں آپ کو آکسیجن سپلائی کررہی ہیں۔ بادل سمندر کے نمکین پانی کو ڈی سالینیٹ(desalinate) کرکے آپ کو میٹھا پانی پہنچا رہے ہیں۔زمین کی مٹی(soil) آپ کے لئے مختلف خوراک اگا رہی ہے، وغیرہ۔
اس منظر کو دیکھ کر آپ کا ذہن ٹریگر (trigger) ہوا۔ آپ مزید سوچنے لگے کہ روڈ پر کاریں دوڑ رہی ہیں۔ اسی طرح آپ کے چاروں طرف مذکورہ قسم کی فطری سرگرمیاں (natural activities) جاری ہیں۔آپ نے سوچا کہ روڈ پر جو سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں اس کے پیچھے ہیومن مائنڈ (human mind) کی پلاننگ کام کررہی ہے۔ پھر فطرت کی دنیا(world of nature) میں جو بامعنی سرگرمیاں مسلسل طورپر جاری ہیں ان کے پیچھے بھی یقیناً کسی ذہن کی پلاننگ کام کررہی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے آپ دریافت کرتے ہیں کہ عالم فطرت کی سرگرمیوں کے پیچھے بھی یقینا کوئی برتر ذہن (Super Mind) ہے، جو سارے معاملات کو نہایت صحت کے ساتھ کنٹرول کررہا ہے۔ یہ سوچ آپ کو خالق تک پہنچاتی ہے اور خالق کے بارے میں آپ کے یقین میں بہت زیادہ اضافہ کردیتی ہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کس معنی میں مکمل دین ہے۔ وہ محدود طورپر مینول (manual) کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ ربّانیت کے معنی میں ہائی تھنکنگ (high thinking) کا ایک معاملہ ہے۔ جو ہر لمحہ مومن کی شخصیت میں ایمانی اضافہ کرتا رہتا ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت
موجودہ دنیا میں ہر انسان کے لیے مسائل بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع بھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ یہ کیجیے کہ مسائل کو نظر انداز کیجیے اور مواقع کو تلاش کرکے ان کو اپنے لیے استعمال کیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ مثال کے طور پر ہماری فضا میں ہوا موجود ہے، جو ہماری زندگی کے لیے بے حد مفید ہے۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں فضائی آلودگی بھی موجود ہے۔ ہوا خالق کا عطیہ ہے۔ اس کے مقابلے میں فضائی آلودگی انسان کا اضافہ۔ ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو نظر انداز کرکے ہوا کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح ہم کو چاہیے کہ ہم مسائل کو نظر انداز کریں، اور مواقع کو تلاش کرکے، ان کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے : إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (
مگرموجودہ زمانے میں کچھ مسلم رہنماؤں نے حکم کا مطلب سیاسی حکم یا سیاسی اقتدار لے لیا۔ اس طرح مسلمانوں کا مشن یہ قرار پایا کہ وہ تمام انسانوں کے اوپر خدا کی سیاسی حکومت قائم کریں۔ چوں کہ عملاً سارے انسانوں کے درمیان خدا کی یا اسلام کی سیاسی حکومت قائم نہ تھی، اس لیے اہل اسلام کا پہلا نشانہ یہ قرار پایا کہ وہ موجود اربابِ حکومت سے ٹکراؤ کرکے ان کو سیاسی اقتدار سے بےدخل کریں تاکہ تمام قوموں کے اوپر خدا کی سیاسی حکومت قائم کی جاسکے۔
’’حکم اللہ کا‘‘ کے عقیدے کا تقاضا یہ تھا کہ اہل ایمان ہر لمحہ تواضع کی نفسیات میں جئیں، وہ ہروقت اپنے آپ کو اللہ کا بندہ سمجھ کر زندگی گزاریں، وہ اپنے ہر قول اور فعل میں اللہ کو یاد رکھیں، ان کا ہر رویہ عہد وانصاف کا رویہ ہو،وہ ہمیشہ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جوابدہ (accountable) سمجھیں، ان کی زندگی پوری کی پوری اللہ کے رنگ میں رنگ جائے۔
لیکن حکم کی سیاسی تعبیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اہل اقتدار کے مقابلے میں سیاسی اپوزیشن (political opposition) کا رول ادا کرنے لگے۔ کچھ مسلمان فکری اپوزیشن کے اعتبار سے اور کچھ مسلمان عملی اپوزیشن کے اعتبار سے۔ یہ بات اسلام کے نام پر غیر اسلام کو اختیار کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو مسلمانوں کو اسلام کے نام پر اسلام سے دور کردینے والا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے نفرت اور تشدد کے سوا کچھ اور چیز نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
امت پر جب زوال کا دور آئے گا تو قانون دفع ( البقرۃ:
اس حدیث میں عدل سے مراد عدل کا عملی نظام نہیں ہے۔ اسی طرح ظلم سے مراد ظلم کا عملی نظام نہیں ہے۔ بلکہ عدل سے مراد عدل کی بات ہےاور ظلم سے مراد ظلم کی بات ۔ اِسی طرح ارض سے مراد ساری زمین (globe) نہیں ، بلکہ ارض سے مراد ارض مسلم ہے۔ یعنی مسلم دنیا میں جب ہر طرف بےعقلی کی باتیں ہونے لگیں گی تو وہ لوگوں کو ہر پہلو سے عقل کی بات بتائے گا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے، نہ کہ عملی اعتبار سے مسلم دنیا کو بتائے گا کہ عقل کے مطابق سوچنا کیا ہے اورعقل کے مطابق کرنا کیا ہے۔ یہ انسان کوئی حکومت نہیں قائم کرے گا بلکہ وہ ایک نظریاتی دور لائے گا۔
ان پیشین گوئیوں کو سمجھنے میں ایک رکاوٹ یہ پیش آئی ہے کہ ان نصوص کو سیاسی حکومت کے معنی میں لے لیاگیا ہے۔ سیاسی حکومت توقائم نہیں ہوئی،اس لیے ایسی آیات اور احادیث لوگوں کے لیے ناقابل فہم بنی ہوئی ہیں۔ ایسی آیتوں اور حدیثوں کو غیر سیاسی معنی میں لیا جائے تو فوراً اس کا مطلب قابل فہم ہوجاتا ہے۔ تاہم اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کونظریاتی معنی میں لینے کا مطلب مکمل معنوں میں نظریاتی انقلاب نہیں ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز کامل معنوں میں پیش نہیں آتی، ہر بات محدود معنی میں پیش آتی ہے۔ یہ ذہن بھی لوگوں کے لیے ایسے نصوص کو سمجھنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ان نصوص میں مستقبل کے بارے میں نہایت اہم بات کہی گئی ہے۔ لیکن ان نصوص کو سمجھنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ ان کو غیر سیاسی معنی میں لیا جائے۔ مزید یہ کہ ان کو محدود معنی میں لیا جائے، نہ کہ کامل معنی میں۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی سیاسی تاریخ کے بارے میں ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إذا ہلک کسرى، فلا کسرى بعدہ، وإذا ہلک قیصر، فلا قیصر بعدہ۔ ( مسند احمد، حدیث نمبر10502)۔ یعنی جب کسری ہلاک ہوگا توا سکے بعد کوئی اور کسری نہ ہوگا، اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہوگا۔
جیسا کہ معلوم ہے عرب کی سرحد پر اس زمانے میں دو بڑی سلطنتیں قائم تھیں۔ ایک ساسانی سلطنت اور دوسری بازنطینی سلطنت۔ مسلم خلافت کے زمانے میں ان دونوں سلطنتوں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ ہوا۔ اس ٹکراؤ کے بعد دونوں سلطنتیں ختم ہوگئیں۔ اور پھر اس کے بعد اس نام کی کوئی سلطنت موجود نہ رہی۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ معاملہ کا مطلب یہ نہ تھا کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی سلطنت قائم کی جائے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف ایک دور کو ختم کرکے دوسرے دور کو لانا تھا۔ اور یہ واقعہ پوری طرح عمل میں آگیا۔ قیصر و کسری کی سلطنت کا خاتمہ قدیم طرز کی بادشاہت کا خاتمہ بن گیا۔ جو ساری دنیا میں جبر کانظام قائم کرنے کا ذریعہ تھیں ۔ اسی لیے اس قسم کی بادشاہت کو ڈسپوٹزم (despotism) کہا جاتا ہے۔
مگر یہ سیاسی نظام اچانک ختم نہیں ہوسکتا تھا۔ فطر ت کے قانون کے مطابق صرف یہ ممکن تھا کہ وہ تدریجی طور پر ختم ہو۔ چناں چہ ان سلطنتوں کےخاتمہ کے بعد ایک نیا عمل (process) جاری ہوا، جو آخر کار جبری بادشاہت کو ختم کرنےکا ذریعہ بن گیا۔اس خاتمہ کا مطلب حکومت پر قبضہ کرنا نہیںتھا، بلکہ یہ تھا کہ دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آئے، اور پرامن دعوت کا کام پوری طرح ممکن ہوجائے۔ اکیسویں صدی اسی نئے دور کی صدی ہے۔ اب مسلمانوں کو کسی سے جنگ نہیں کرنا ہے۔ بلکہ تمام قوموں میں پر امن دعوت کا کام انجام دینا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مشہور عالم کی تقریر مدارس کے طلبہ کے سامنے ہوئی۔ اس میں انھوں نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا: علوم کے سرے پکڑیے۔ ان کی تقریر میں تعینات کی زبان میں یہ واضح نہیں تھا کہ علوم کے سرے کا مطلب کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک خطابت (rhetoric ) ہے، نہ کہ کوئی واضح رہنمائی۔
حقیقت یہ ہےکہ اصل بات علوم کے سرے پکڑنے کی نہیں ہے، بلکہ علوم کی معرفت حاصل کرنے کی ہے۔ کسی شعبۂ علم کی معلومات حاصل کرنا آسان ہے۔ لیکن اس کی گہری معرفت ایک مشکل کام ہے۔ معلومات متعلق کتابوں کے حوالے سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ لیکن معرفت کے لیے ضروری ہے کہ اس پر غیر متعصبانہ انداز میں غور کیا جائے،ا ور کھلے انداز میں رائے قائم کی جائے۔
علم کی معرفت کے معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر علم میں مختلف قسم کے پہلو شامل رہتے ہیں۔ اس لیے کسی علم کے بارے میں درست رائے قائم کرنےکے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی کے اندر معلومات کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرنے کی صلاحیت ہو۔ وہ متفرق چیزوں کو سارٹ آؤٹ کرکے متعلق (relevant) کو غیر متعلق (irrelevant) سے الگ کرسکے۔ اس لیے علوم کی معرفت کے معاملے میں اصل اہمیت علوم کا سرا پکڑنے کی نہیں ہے، بلکہ ضرورت یہ ہے کہ آدمی کے اندریہ ذہن پیدا کیا جائے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت(acute sense) آ جائے کہ وہ متعلق کو غیر متعلق سے الگ کرکے دیکھ سکے۔
مثلا انڈیا کی کسی ریاست میں الیکشن ہو، اور وہاں ایک پارٹی کی جیت ہوجائے تو اس طرح کے معاملے میں انسان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ کیا چیز ہے جس کی حیثیت وقتی ظاہرے کی ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو بالآخرپریویل (prevail) کرے گی، اور پھر وہ مستقل اور غیر مستقل کو ایک دوسرے سے الگ کر کے اپنی رائے قائم کرے۔
دنیا کا نظام ابدی حقائق پر مبنی ہے، نہ کہ وقتی قسم کی باتوں پر۔ اس سلسلے میںایک درست انگریزی مقولہ ہے جس میں اسی فطری قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ — اس دنیامیں ہمیشہ سچائی کو بقا ملتی ہے:
let truth prevail
کسی آدمی کے دانش مند ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو جانے، جو کہ ایک اٹل قانون ہے، اور کبھی بدلنے والا نہیں ہے۔ اس فطری قانون کو جاننے کے بعد جو رائے بنے گی، وہ ایک دانش مندانہ رائے ہوگی، اور اس فطری قانون کو جانے بغیر جو رائے بنے، وہ ایک سطحی رائے ہوگی۔ جو گریمر کے اعتبار سے تو صحیح ہوسکتی ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سےایسی رائے کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔
مثال کے طور پر انڈیا جیسا ایک ملک ہو یا امریکا جیسا ایک ملک۔ دونوں جمہوریت کے زمانے کے ملک ہیں۔ دونوں میں الیکشن کے ذریعہ کوئی فرد حکومت کا عہدہ حاصل کرتا ہے۔ مگر اس عہدیدار کی کارکردگی کی مدت صرف چند سال تک محدود ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ قدیم زمانے کی طرح مطلق العنان بادشاہ (despotic king) نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک متفقہ دستور (constitution) کا پابند ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا منتخب صدر یا وزیر اعظم خواہ بولنے کے لیے کچھ بھی بولے، لیکن عملاً جو چیز ملک میں قائم ہوگی، وہ دستور اور جمہوریت ہے، نہ کہ کسی وقتی عہدیدار کا ایک قول ۔
اس طرح کے موضوعات پر جو لوگ لکھیں یا بولیں، ان کو زندگی کے اس قانون کو جاننا چاہیے، اور اسی قانون کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر وہ اس محکم قانون کو جانے بغیر لکھیں یا بولیں تو ان کے لکھنے اور بولنے کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ ایسی بات کو جو شخص لکھے، وہ اپنے وقت کو ضائع کررہا ہے، اور جو پڑھے، وہ بھی اپنے وقت کو ضائع کررہا ہے۔آدمی کو چاہیے کہ وہ صرف ایسی بات لکھے یا بولے جو حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز ہو۔ ورنہ ایسی بات لکھنے یا بولنے سے باز رہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2317)۔
واپس اوپر جائیں
عن ابن عباس، قال: لَمَّا مَشَوْا إلى أبی طالبٍ وکلَّموہُ وہُمْ أَشرافُ قومِہِ عُتْبةُ بنُ ربیعةَ وشیبَةُ بنُ رَبیعةَ وأبو جَہلِ بنُ ہِشامٍ وأمیَّةُ بنُ خَلَفٍ وأبو سُفیانَ بنُ حربٍ فی رجالٍ من أشرافِہمْ فقالوا یا أبا طالبٍ إنَّکَ منَّا حیثُ قدْ علِمتَ وقدْ حضَرَکَ ما تَرى وتَخَوَّفْنا علیکَ وقد علِمتَ الَّذی بینَنا وبینَ ابنِ أخیکَ فادْعُہُ فخُذْ لنا مِنہُ وَخُذْ لہ منَّا لیَکُفَّ عنَّا ولِنَکُفَّ عنہُ ولِیدَعَنا ودینَنا ولِندَعَہُ ودینَہُ فبعثَ إلیہِ أبو طالبٍ فجاءہُ فقالَ یا ابنَ أخی ہؤلاءِ أشرافُ قومِکَ قد اجتمعوا إلیک لیُعطوکَ ولیأخُذوا منکَ قال فقال رسولُ اللَّہِ صلَّى اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ یا عَمِّ کلمةٌ واحِدَةٌ تُعطونَہا تملِکونَ بہا العَرَبَ وتَدینُ لَکُم بہا العَجَمُ (البدایة والنہایة
کچھ لوگوں نے اس روایت کا یہ مطلب نکالا ہے کہ امت مسلمہ کا یہ نصب العین ہے کہ وہ ساری دنیا میںاسلام کی حکومت قائم کریں۔ مگر اس روایت کا سیاست اور حکومت سےکوئی تعلق نہیں۔ اس روایت میں کلمہ (word)کی بات کہی گئی ہے نہ کہ حکومت قائم کرنے کی ۔ کلمہ کا مطلب وہی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ideology کہا جاتا ہے۔اس روایت میں کلمہ کی عالمی توسیع سے مراد یہ ہے کہ اسلام کی آئڈیالوجی ساری دنیا تک پھیلے گی۔ کوئی قلعہ یا کوئی دیوار اس کی توسیع میں رکاوٹ نہ بن سکیں گے۔ اس بات کو ایک اور حدیث میں ان الفاظ میں بیان گیا گیا ہے:لیبلغن ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین (مسند احمد، حدیث نمبر16957)۔ یعنی یہ دین ہر اس جگہ تک پہنچ کر رہے گا جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں۔ اور اللہ کوئی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں چھوڑے گا جہاں اس دین کو داخل نہ کر دے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ دین کی عالمی اشاعت کا کام کیا جائے۔ مگر جن لوگوں نے ان احادیث کو سیاسی معنی میں لے لیا، وہ غیر ضروری طور پر دنیا سے نظری یا عملی جنگ چھیڑے ہوئےہیں۔
واپس اوپر جائیں
جہاد کا لفظ جُہد سے بنا ہے ۔ ا س کا معنی ہےکوشش (struggle)۔ کسی تعمیری مقصد کے لیے بھرپور کوشش کرنے کو عربی زبان میں جہد یا جہاد کہا جاتا ہے۔ جہاد یا جہد کا لفظ اصلاً پر امن جدو جہد کے لیے آتا ہے۔ اس لفظ کا براہ راست طور پر جنگ و قتال سے کوئی تعلق نہیں ۔جہاد میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے، یعنی کامل جدو جہد (utmost struggle) ۔
قرآن میں جہاد کا مادہ
حدیث میں بھی جہاد کا یہی مفہوم آیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:الجہاد ماض منذ بعثنی اللہ إلى أن یقاتل آخر أمتی الدجال، لا یبطلہ جور جائر، ولا عدل عادل(سنن ابو داوود، حدیث نمبر2532)۔ یعنی جہاد جاری ہے اس وقت سے جب کہ اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا، اس وقت تک ، جب تک کہ میری امت کا آخری حصہ دجال سے قتال کرے گا۔ ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل اس کو موقوف نہیں کرے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جہاد کواگر قتال کے معنی میں لیا جائے تو یہ بات قابل فہم نہ ہوگی ۔ کیوں کہ ظالم کے ساتھ قتال کا تو جوازہوسکتا ہے لیکن عادل کے ساتھ قتال کا کوئی جواز نہیں۔ اس بنا پر یہاں جہاد کو ایسی پرامن کوشش کے معنی میں لیا جائے گا جو ہر حال میں جاری رہےگا۔ اور اس سے مراد پرامن دعوتی جہاد کی کوشش ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاد ایک ایسی پرامن جدو جہد ہے جو ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہتی ہے۔ اس سے مراد دعوت اور اصلاح کی جدو جہد ہے۔ دعوت عمومی دائرے میں ، اور اصلاح امتِ مسلمہ کے دائرے میں۔ یہ پرامن جہاد ایک ایسی ضرورت ہے جو نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ حال اس کو ساقط کرنے والی نہیں۔
اس کے برعکس ،قتال ایک وقتی چیز ہے۔ قتال کی ضرورت ہمیشہ دفاع (defence) کے وقت پیش آتی ہے۔ جب فریقِ مخالف کی طرف سے قتال روک دیا جائے تو اہل اسلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ خود سے کسی کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ اس سلسلے میں قرآن میں واضح آیتیں موجود ہیں۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ (
اس آیت کے پہلے حصے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اہل اسلام صرف ان کے ساتھ جنگ کرسکتے ہیں، جو ان کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ آیت کے دوسرے حصّے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل اسلام کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خود اپنی طرف سے جنگ کا آغاز کریں۔ جہاد بمعنی قتال کے بارے میں فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جہاد بمعنی قتال بذاتِ خود مقصود نہیں ہے، بلکہ کسی اور مقصد کے لیے بطور وسیلہ مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تین اقوال نقل کیے جاتے ہیں:
1۔ ینقسم الجہاد فی سبیل اللہ إلى قسمین:الأول جہاد الدعوة إلى اللہ بین الناس....وہذا أعظم أنواع الجہاد، وأعظم من قام بہ الأنبیاء والرسل، وہو جہاد حسن لذاتہ، وہو مقصد بعثة الأنبیاء والرسل....الثانی القتال فی سبیل اللہ ....وہذا الجہاد حسن لغیرہ(موسوعۃ الفقہ الاسلامی، محمد بن إبراہیم بن عبد اللہ التویجری،5/449-50)۔ یعنی جہاد کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ،لوگوں کے درمیان دعوت الی اللہ کا جہاد.... یہ سب سے اعلی درجہ کا جہاد ہے، اور انبیاء کے کاموں میں سب سے اعلی کام ۔ یہ جہاد بذات خود حسن ہے۔ انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا مقصد یہی ہے.... دوسرا، قتال فی سبیل اللہ ہے....یہ جہاد (بمعنی القتال) برائے جہاد مطلوب نہیں ، بلکہ وہ ایک اور مقصد کے لیے بطور وسیلہ مطلوب ہوتا ہے۔
2 ۔ مسجد نبوی کے سابق مدرس عطیہ محمد سالم (وفات1999:)لکھتے ہیں: الجہاد وسیلة ولیس غایة....أن القتال فی الإسلام لیس غایة لذاتہ، ولکنہ وسیلة للوصول إلى غایة(شرح الأربعین النوویة، درس نمبر
3 ۔ القتال مما یدل على أنہ غیر مقصود فی ذاتہ وإنما ہو مقصود لغیرہ(محمد بن عبد السلام الأنصاری،القتال لیس غایة الجہاد [www.assakina.com])۔یعنی قتال شریعت میں بذاتِ خود مطلوب نہیں ہے، بلکہ وہ کسی اور مقصد کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں: أما حین تکون تلک الغایات یمکن التوصل إلیہا بغیر القتال فلا شک أنہ حینئذ یعتبر الإقدام علیہ غیر مأمور بہ۔یعنی ایسے مقاصد جن کا حصول قتال کے بغیر ممکن ہو ، تو یقیناً اس وقت ا قدام (جنگ)کرنا ایساہوگا، جس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بمعنی پرامن دعوت بلاانقطاع ہر حال میں جاری رہتا ہے۔ لیکن قتال صرف اس وقت ہے جب کہ فریق ثانی کی جارحیت کی وجہ سے اس کی ضرورت پیش آجائے۔
ت ت ت ت ت ت ت
انسان کو استثنائی ذہن دیاگیا اور پھر اس کو آزادی عطا کی گئی۔ اس کا مقصد یہ تھاکہ انسان اپنے ذہن کو استعمال کرے، اور پھر وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑا ہو۔ مخلوقات سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد ہے۔ پوری کائنات اللہ رب العالمین کی مجبورانہ حمد کررہی ہے۔ مگر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے، آزادانہ طورپر خدائی سچائی کو دریافت کرے، اور کسی جبر کے بغیر اس پر کھڑا ہو۔
ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن ثوبان قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:عصابتان من أمتی أحرزہما اللہ من النار:عصابة تغزو الہند، وعصابة تکون مع عیسى ابن مریم علیہما السلام (سنن النسائی، حدیث نمبر 3175، مسند احمد، حدیث نمبر 22396)۔ یعنی ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ ہیں، جن کو اللہ نے آگ سے بچا لیا ہے۔ ایک گروہ جو ہند کا غزوہ کرے، اور دوسرا گروہ وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔
غزوہ کا لفظی مطلب ہے قصد کرنا، ارادہ کرنا ۔غزوہ کا لفظ اصل میں پرامن سفر کے معنی میں ہے۔ البتہ دوسرے الفاظ کی طرح ’’غزوہ‘‘ میں بھی استعمال کے اعتبار سے معانی کا اضافہ ہوجاتاہے۔ جیسے اردو میں’’چلنا ‘‘ اصلاً پرامن سفر کے لیے ہے۔ لیکن اگر یہ کہاجائے کہ ہم دشمن سے مقابلہ کے لیے چلے، تو یہاں چلنا برائے جنگ ہوجائے گا۔
حدیث میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کا کوئی گروہ ہندوستانی علاقے میں اسلام کی اشاعت کے لیے سفر کرکے آئے گا۔ مثلاً ساتویں صدی عیسوی کے آخر میں ابتدائی مسلمانوں کے ایک قافلہ کا سفر کرکے جنوبی ہند (مالا بار) میں آنا، اور یہاں اسلام کی اشاعت کا کام کر نا، یا عباسی دور میں صوفیاء کی جماعت کا ایران کے علاقے سے چل کر ہندوستان کے علاقے میں آنا، اور یہاں اسلام کی پر امن اشاعت کرنا۔ اس حدیث ِرسول میں جنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ اس حدیث کے حوالے سے ہندوستان میں جنگ چھیڑنے کا کوئی جواز نہیں۔
عیسیٰ ابن مریم کے حوالہ میں نہ جنگ کا ذکر ہے، اور نہ ہندوستان کا ۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کسی علاقے میں عیسیٰ ابن مریم کا دعوتی مشن شروع ہوگا، اور امت مسلمہ کا ایک گروہ اس پر امن مشن کا ساتھ دے گا۔
واپس اوپر جائیں
عرب میں اسلام سے پہلے جو زمانہ تھا، اس کو جاہلیت کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ جاہلیت کے لفظی معنی ہیں بے خبری (ignorance)۔ بلاشبہ یہ لوگ توحید سے بے خبر تھے، لیکن ان کے اندر اعلی درجے کی انسانی صفت موجود تھی۔ واقعات بتاتے ہیں کہ عربوں میں انسانی اخلاق اور انسانی شرافت اعلیٰ درجے میں موجود تھی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک بار پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صفا کے پاس تھے۔ وہاں ابوجہل (عمرو بن ہشام) آیا۔ اس نے آپ کو بہت زیادہ برا بھلا کہا۔ ایک عورت اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ پیغمبر اسلام نے کچھ نہیں کہا، آپ خاموشی کے ساتھ وہاں سے چلے گیے۔اس کے بعد آپ کے چچا، حمزہ بن عبد المطلب وہاں آئے۔ مذکورہ عورت نے حمزہ کو یہ قصہ بتایا، اور کہا کہ تھوڑی دیر پہلے اگر تم وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ تمھارے بھتیجے کو ابوجہل نے کتنا زیادہ برا بھلا کہا ۔ حمزہ کو غصہ آگیا۔ اس وقت ان کے پاس لوہے کی کمان تھی۔ وہ ابوجہل کے پاس گیے، اور اس کو اتنے زور سے مارا کہ خون بہنے لگا۔ یہ دیکھ کر ابوجہل کےقبیلہ بنو مخزوم کے لوگ اٹھے، انھوں نے چاہا کہ حمزہ سے اپنے سردار کا انتقام لے۔ لیکن ابوجہل نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو روک دیا: حمزہ کو چھوڑ دو، کیوں کہ میں نے ان کے بھتیجے کو بہت زیادہ برا بھلا کہہ دیا تھا ( قد سببت ابن أخیہ سبا قبیحا)۔ سیرۃ ابن ہشام 1/292
ابو جہل نے اسلام قبول نہیں کیا،لیکن اس کے اندر عرب کردار بھرپور طور پر موجود تھا۔ اسی عرب کردار کی وجہ سےاس نے اس وقت ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ دیکھا کہ اگر حمزہ نے مجھ کو مارا تو میں نے بھی حمزہ کے بھتیجےمحمد کو بہت زیادہ برا بھلا کہا تھا۔ یہ ایک مثال ہےجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں کا قومی کردار کیا تھا۔ ان کے اندر اعلیٰ انسانی اوصاف موجود تھے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:خیارہم فی الجاہلیة خیارہم فی الإسلام، إذا فقہوا (صحیح البخاری، حدیث نمبر3353)۔
واپس اوپر جائیں
دعوتی اسلوب کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِینَ (
جدال احسن سے مراد ناصحانہ اسلوب میں دعوت ہے۔ یعنی ایسا اسلوب جو مدعو فرینڈلی ہو، جو مخاطب شخص یا گروہ کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی پر مبنی ہو، جو پورے معنوں میں متواضعانہ اسلوب میں ہو، جو ایسے حکیمانہ اسلوب میں ہو جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ ایسا اسلوب جس میں کوئی شخصی برتری یا قومی فخر کا پہلو نہ پایا جاتا ہو۔ جو دعا کی اسپرٹ سے بھرا ہوا ہو۔جس میں داعی ہر لمحہ یہ سوچتا ہو کہ اس کے منھ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو خدا کے یہاںاس کی پکڑ کا سبب بن جائے۔جو مکمل معنوں میں ذمہ داری کے احساس سے بھرا ہوا ہو۔
اس کے برعکس جدال غیر احسن وہ ہے جو خود ساختہ طریقے پر مبنی ہو، جس میں دعوت کے لیے مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا جائے۔ جس کا نشانہ یہ ہو کہ مخاطب کو کم تر دکھا یاجائے اور اپنے آپ کو برتر ثابت کیا جائے۔ جو سنجیدگی اور متانت سے خالی ہو۔ جس کو سن کر حاضرین تالیاں بجائیں، اور اپنے لیے قومی فخر کی غذا حاصل کریں۔
دعوت کے کام کو دعوت الی اللہ کا کام بتایا گیا ہے۔ دعوت کا درست کام وہ ہے جس کے اندر نصح اور خیر خواہی (الاعراف
واپس اوپر جائیں
ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:وعلى العاقل أن یکون بصیرا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
مثلاً قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (
مجتہد جب ان دونوں پہلوؤں سے بخوبی واقفیت حاصل کرے گا تو وہ امت مسلمہ کو یہ رہنمائی دے گا کہ اب زمانہ اس اعتبار سے پوری طرح بدل چکا ہے۔ اب اسلام کے خلاف کوئی فتنہ دنیامیں باقی نہیں ۔ اس لیے اب اہل اسلام کو قتال نہیں کرنا ہے، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کرنا ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام کو پر امن طور پر انجام دیا جائے۔ اس معاملے میں ان کی منصوبہ بندی پوری طرح امن پر مبنی ہونا چاہیے۔
اب موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کا کام تو بدستور امت مسلمہ پر فرض ہے، لیکن طریق دعوت اب مکمل طور پر پر امن بن چکا ہے۔ اب نئے زمانے میں یہ ممکن ہوگیاہے کہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر اشاعت اسلام اور دعوت الی اللہ کاکام بھرپور طور پر انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
مسلمانوں کے اندر ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو مسلکی اختلاف کہا جاتا ہے۔ مسلکی اختلافات کی بنا پر فرقے بن گیے ہیں، اور ان فرقوں کی درمیان تشدد عام ہوگیا ہے، کبھی فکری تشدد اور کبھی عملی تشدد۔مسلکی اختلافات کی حقیقت کیا ہے۔ یہ سب کے سب جزئی اختلافات ہیں۔ یہ در اصل غلو (extremism) ہے جس نے ان اختلافات کو مسئلہ بنا دیا، ورنہ یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔
بعد کو ماس کنورزن (mass conversion)کے زمانے میں جب یہ جزئی اختلافات ظاہر ہوئے ، اس وقت بعض علماء نے کہا کہ یہ جزئی اختلافات ہیں۔یہ اختلافات حقیقت میں تنوع کی مثال ہیں، نہ کہ فرق کی مثال۔ اورتنوع کے معاملے میں ہمیشہ تعدد (diversity) ہوتی ہے۔ یعنی یہ مسلک بھی درست اور وہ مسلک بھی درست۔
کچھ دوسرے علماء نے اس کو نہیں مانا، انھوں نے ان اختلافات کو توحد کے معیار سے جانچنا شروع کردیا۔ انھوں نے کہا کہ الحق لایتعدد۔ انھوں نے جزئیات کو حق اور ناحق کا مسئلہ بنا دیا۔ یہیں سے یہ ہوا کہ جواختلافِ تنوع تھا، وہ اختلافِ تفرق کے ہم معنی بن گیا، اور بڑھتے بڑھتے ایسا ہوگیا گویا کہ یہ مختلف مسالک نہیں ہیں، بلکہ مختلف مذاہب ہیں۔
حقیقت یہ ہے زندگی میں ہمیشہ اختلاف بمعنی فرق ہوتا ہے۔ اس قسم کا اختلاف بذات خود کوئی برائی نہیں ہے۔ اختلاف کو پرامن گفت و شنید کا موضوع بنایا جائے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن جب اختلاف کو حق اور ناحق کا مسئلہ بنادیا جائے تو اس وقت اختلاف عملاً برائی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے فرقہ بندی آتی ہے، اس کے بعد تکفیر آتی ہے، اور پھر لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دوسری چیزوں کی طرح مذہب میں بھی کلیات اور جزئیات ہوتے ہیں۔ کلیات توحد کا موضوع ہیں، اورجزئیات تعدد کا موضوع۔یعنی کلیات میں صرف ایک ہی مسلک درست ہوتا ہے، جب کہ جزئیات میں ایک سے زیادہ مسلک درست ہوسکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن ایک ہے، اور سنت رسول ایک ہے، پھر علما کے درمیان اختلافات کیوں۔ یہ اعتراض درست نہیں۔اصل یہ ہے کہ اختلافات جزئی مسائل میں ہیں۔ اور جزئی مسائل میں کبھی یکسانیت نہیں ہوتی ، جزئی مسائل میں ہمیشہ تعدد ہوتا ہے۔ یعنی یہ کرلو تب بھی ٹھیک ، اور وہ کرلو تب بھی ٹھیک۔
جہاں تک کلی مسائل کا تعلق ہے، ان میں اصلاً کوئی اختلاف نہیں۔کلی مسائل میں ہمیشہ یکسانیت ہوتی ہے۔ کلی مسائل میں اگر اختلاف ہے تو وہ غلط تعبیر کی بنا پر ہے، نہ کہ صحیح تفسیر کی بنا پر۔ کلی مسائل میں یہ معلوم کرنا کہ کون سا نقطہ نظر صحیح ہے اور کون سا غلط، نہایت آسان ہے۔ آپ متعین اصولوں کی روشنی میں غور و فکرکیجیے، آپ نہایت آسانی سے معلوم کرلیں گے کہ کون سی تشریح درست ہے اور کون سی تشریح درست نہیں۔
مثلا قرآن میں ہے: اعْدِلُوا (المائدۃ8:)۔اس آیت کو لے کر اگر کوئی شخص سیاسی تفسیر کرے، اوریہ کہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ عدل کا نظام قائم کریں، اور خلاف عدل نظام کو توڑ دیں۔آپ تدبر کے ذریعہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ قرآن کی یہ تفسیر درست نہیں۔ کیوں کہ اعدلوا ایک لازم کا صیغہ ہے۔ یعنی اس کا مطلب ہے، انصاف پر چلو، یا عدل کی پیروی کرو۔ مگر اس کوغلط طور پر متعدی کے معنی میں لے لیا گیا ہے۔ یعنی آیت میں جس عدل کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، اس کو بدل کر اس معنی میں لےلیا گیا کہ اس دنیا میں عدل کا نظام قائم کرو۔
اس تشریح سے معلوم ہوتا ہےکہ آیت یا حدیث کے ذیل میں صحیح اور غلط کو معلوم کرنا نہایت آسان ہے۔ آپ کھلے ذہن کے تحت قرآن یا حدیث کا مطالعہ کیجیے ، لغت اور نحو و صرف کے اصولوں کے مطابق اس کو سمجھنے کی کوشش کیجیے تو آپ آسانی کے ساتھ اس کے اصل مفہوم تک پہنچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
اگر سچائی اور جھوٹ کے بارے میں حساسیت اور عمل کی پابندی اور حکم الہی میں حساسیت کولے کر سوچا جائے تو خوارج کا نام آتا ہے۔ پھر کیوں ان کو مین اسٹریم مسلمانوں سےخارج کیا گیا۔کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ عمل کرنے کے ساتھ ساتھ سختی سے عمل کروانے میں بھی حساس تھے۔ اس کی صحیح توجیہ کیا ہوسکتی ہے۔(حافظ سید اقبال عمری، چنئی)
خوارج کا فرقہ پہلی صدی ہجری میں حضرت علی کے زمانے میں ابھرا۔ یہ لوگ پہلے حضرت علی کے گروہ میں شامل تھے۔ پھر حضرت علی سے اختلاف کرکے وہ باہر نکل گیے۔ اس بنا پر ان کو خوارج کہا جاتا ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو الشراۃ کہتے تھے۔ یعنی اللہ کے دین کی خاطر اپنے آپ کو بیچنے والے۔ یہ لوگ اسی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے، جن کو قرآن میں اَعراب (الحجرات
خوار ج کا کیس یہ نہیں تھا کہ وہ حساس تھے۔ جائز حساسیت وہ ہے جو پر امن حساسیت ہو۔ ایسی حساسیت جو اپنے مخالفین کو قابل قتل سمجھے، وہ حساسیت نہیں ہے، بلکہ غیر مطلوب غلو ہے۔ ایسے لوگ بلاشبہ ناحق پر ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے اسلام کا خودساختہ معیار قائم کیا۔ جس کا ان کو حق نہیں تھا۔ خوارج اسلام میں وہ پہلے لوگ ہیں جنھوں نے اسلام میں تھاٹ کرائم (thought crime)کا نظریہ داخل کیا۔ اس قسم کا انتہاپسندانہ عقیدہ رکھنے والوں کا کیس حساسیت کا کیس نہیں ہے، وہ خدا کے دین کو بدلنے کا کیس ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنے عقیدے کو اپنے دل میں رکھیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن اگر وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ کریں ، اور اپنے مخالفین کو گردن زدنی قرار دے کر ان کو مارنے لگیں تو وہ اسلام کے اعتبار سے مجرم قرار پائیں گے۔
خوارج کا کیس دراصل سیاسی اختلافات سے پیدا ہونے والا ایک شدید مسئلہ ہے۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں جب مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہوا تو مسلمانوں میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔ یہ اختلاف پہلے صرف اختلاف کے درجے میں تھا،اس کی ایک علامت سعد بن عبادہ کا معاملہ ہے، جن کو اگرچہ اختلاف تھا۔ مگر وہ پرامن دائرے میں تھا۔ بعد کو اس اختلافات میں شدت آئی ، اور عملی ٹکراؤ شروع ہوگیا۔اس دور میں ہر گروہ نے اپنے نظریے کو مشَدّد (مضبوط) کرنے کے لیے، اس کو اسلامائز کرنا شروع کیا۔ یعنی اسلامی تعلیمات سے ان کو درست ثابت کرنا۔
اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر شدت پسند فرقے پیدا ہوئے۔ شیعہ گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ علی ابن ابی طالب کے سوا بقیہ تینوں خلفاء کی خلافت غیر قانونی (unlawful) ہے۔ خوارج نے علی ابن ابی طالب کی تکفیر کی، وغیرہ ۔ یہی غلو ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غلو ابتدائی طور پر بظاہر بے ضرر انداز میں شروع ہوتا ہے۔ لیکن بڑھتے بڑھتے وہ خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے پورے مسلم سماج میں انارکی ، نفرت، باہمی قتل جیسی برائیاں داخل ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام میں اس ظاہرے کو نہایت برا مانا گیا ہے۔ حتی کہ اگر وہ اپنے عقیدے کو عملی صورت دینا شروع کریں تو قائم شدہ حکومت کو یہ حق ہوگا کہ یا تو وہ ان سے پر امن بات چیز کریں، جیسا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کیا، او ر اگر پر امن بات چیت کافی نہ ہو تو حکومت کو یہ بھی حق ہے کہ و ہ سخت کارروائی کرکے ان کا خاتمہ کردے، جیسا کہ حجاج بن یوسف نے کیا۔ موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے حکومت کو عقیدہ کا درجہ دیا، وہ عملا ًدور جدید کے خوارج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت میں ایک کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ(
نجویٰ کا لفظی مطلب سرگوشی (whisper) ہے۔ لیکن یہاں وسیع تر معنی میں اس سے مراد انسانی کلام ہے۔ اس آیت میں اس انسانی کلام کو خیر سے خالی کلام کہا گیا ہے، جو معنویت سے خالی ہو۔ جس میں الفاظ تو بہت ہوں لیکن اس میں معانی کا خزانہ (content) موجود نہ ہو۔ کلام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ کلام جو گہرے غور وفکر اور ذمہ داری کے احساس کے تحت بولا جائے۔ ایسا کلام بامعنی کلام ہوگا۔ اس سے سننے والے کو حکمت (wisdom) ملے گی۔ اس کے اندر زیر بحث مسئلے کا صحیح تجزیہ ہوگا۔ وہ کلام برائے کلام کا مصداق نہ ہوگا، بلکہ کلام برائے خیر کا مصداق ہوگا۔ ایسا کلام بلاشبہ ایک مطلوب کلام ہے۔ وہ بولنے والے کے لیے بھی سعادت کا ذریعہ ہے، اور سننے والےکے لیے بھی سعادت کا ذریعہ۔
دوسرا کلام وہ ہے جس میں الفاظ کی کثرت ہو لیکن معانی کی قلت۔ جس سے آدمی کو کوئی حکمت کی بات معلوم نہ ہو۔ جو کلام برائے کلام کا مصداق ہو۔ جس کو سننے کے بعد آدمی کو کوئی ٹیک اوے (take away) نہ ملے۔
کلام ایک امانت ہے۔ بولنے والے کو چاہیے کہ وہ بولنے سے پہلے سوچے اور بولنے کے بعد اپنا محاسبہ کرے۔کلام ایک اعلی انسانی سرگرمی ہے۔ کلام کو اس کے تقاضے کے مطابق ہونا چاہیے۔ مطلوب کلام وہ ہے جس کو پیش کرنے سے پہلے بولنے والے نے اس پر ضروری غور و فکر کیا ہو۔ جس کو بولنے سے پہلے بولنے والے نے ضروری ہوم ورک (homework) کیا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایمان کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِکَ لَہُمُ الْأَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُونَ (
ظلم کے اصل معنی ہے مجاوزة الحق او مجاوزة الحدیعنی حق یا حد سے تجاوز کرنا ۔ مثلا ً ایمان باللہ کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ کچھ ہستیاں اللہ سے خصوصی قربت رکھتی ہیں، اور ان کی بات اللہ کے یہاں مانی جاتی ہے۔ لیکن اس آیت میں ایمان کے ساتھ ملاوٹ کا لفظ نہایت وسیع معنی میں ہے۔ اس میں ہر وہ چیز آسکتی ہے جو عقیدہ توحید سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔
توحید میں یہ ملاوٹ زیادہ تر مضاہات (التوبۃ30:)کی بنا پر ہوتی ہے، اور مضاہات کا مطلب ہے نقل کرنا (to imitate)۔ یہ مضاہات ہمیشہ ماحول کے اثر سے ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے سیکولر حلقوںمیں سیاسی فکر کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے ، اس بنا پر موجودہ زمانے میں سیاسی مضاہات کا ایک ظاہرہ پیدا ہوگیا ہے۔قرآن میں حُکم (یوسف40:)کا لفظ فوق فطری حکم کے معنی میں آیا ہے۔ مگر مضاہات کرکے کچھ مسلمانوں نے اس کو سیاسی حکم کے معنی میں لے لیا، اور اس سے ان لوگوں نے یہ مطلب نکالا کہ مسلمانوں کا مشن زمین پر خدا کی سیاسی حکومت قائم کرنا ہے۔ یہ مضاہات عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے۔
یہ مضاہات جس کو قرآن میں ظلم کہا گیا ہے، اس کی کوئی ایک صورت نہیں ہے۔ ہر زمانے میں اس کی نئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مضاہات کو پہچانیں، اور اہل اسلام کو اس سے باخبر کریں۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:رأس الحکمة مخافة اللہ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر730)۔ یعنی حکمت کا سرا اللہ کا خوف ہے۔ حکمت سے مراد وہی چیز ہے جس کو وزڈم کہاجاتا ہے۔ یہاں یہ سوال ہے کہ اللہ کے خوف سےانسان کے اندر وزڈم کی صفت کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ خوفِ خدا اور وزڈم میں کیا تعلق ہے۔ اس حدیث رسول میں جاننے کی جو بات ہے وہ یہی ہے۔
وزڈم کیا ہے۔ وزڈم یہ ہے کہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ کسی معاملے کے غیر متعلق پہلوؤں (irrelevant aspects)سے الگ ہوکر سوچے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ معاملے کے بارے میں پوری طرح موضوعی رائے (objective opinion) تک پہنچ جائے۔ وہ معاملے کےبارے میں ایز اٹ از (as it is) انداز میں سوچ سکے۔ اس صلاحیت کی بنا پر آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ معاملے کے بارے میں وہی رائے قائم کرے، جو از روئے واقعہ ہونا چاہیے۔ اس عین درست رائے کا نام وزڈم ہے۔
انسان عام طور پر مختلف قسم کے غیر متعلق اثرات کے تحت سوچتا ہے۔ مثلاً غصہ ، نفرت، احساس برتری، جذباتیت، انانیت، وغیرہ ۔ یہ چیزیں آدمی کی رائےکو متاثر رائے (biased opinion) بنادیتی ہیں۔ اس طرح کی غیر درست سوچ آدمی کو غیر حکیمانہ سوچ والا انسان بنادیتی ہے۔
اگر واقعی معنی میں کسی کے اندر اللہ کا خوف ہو تو وہ آدمی کی شخصیت کو نہایت گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر ایک فکری انقلاب پیدا کردیتا ہے۔ اللہ کا خوف آدمی کے اندر نہایت گہرائی کے ساتھ اپنا محاسبہ آپ (introspection) کا مزاج پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح خوف خدا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر تمام غیر متعلق عوامل ختم ہوجاتے ہیں۔ اور وہ پورے معنوں میں انسانِ اصلی (man cut-to-size) بن جاتا ہے۔ ایسا انسان اپنی فطرت پر قائم ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں حکمت (wisdom)کہا گیا ہے۔
یہی وہ صفت ہے جس کا ثبوت اصحاب رسول نے صلح حدیبیہ کے وقت دیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: إِذْ جَعَلَ الَّذِینَ کَفَرُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْحَمِیَّةَ حَمِیَّةَ الْجَاہِلِیَّةِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ سَکِینَتَہُ عَلَى رَسُولِہِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَةَ التَّقْوَى وَکَانُوا أَحَقَّ بِہَا وَأَہْلَہَا وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا (
While those who deny the truth made it a prestige issue [ in their hearts ], the bigotry of the days of ignorance, God sent His tranquility down on to His Messenger and believers and firmly established in them the principle of righteousness, for they were indeed better entitled to it and more worthy of it. God has full knowledge of all things.
صلح حدیبیہ کا معاملہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میں پیش آیا، وہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ فریق ثانی نے اپنے بگڑے ہوئے مزاج کی بنا پر اس کو اپنے لیے عزت کا سوال بنا لیا۔ اس بنا پر وہ اس معاملے میں بے حد جذباتی ہوگیے۔ اس کے برعکس ، اصحاب رسول کے اندر متقیانہ مزاج تھا۔انھوں نے اپنے تحمل کو باقی رکھا۔ اس بنا پر وہ اس قابل ہوگیے کہ وہ اس معاملے کو خالص عقل (wisdom) کے تحت سوچیں۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوف خدا سے کس طرح آدمی کے اندر وزڈم کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت
خدا کے دین میں ذمہ داری بقدر استطاعت کا اصول ہے۔ استطاعت سے زیادہ کا مکلّف بنانا
اللہ کا طریقہ نہیں۔ یہ اصول فرد (individual) کے لئے بھی ہے، اور سوسائٹی کے لئے بھی۔
واپس اوپر جائیں
صحابی رسول عمیر بن حبیب بن خماشہ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:من لا یرضى بالقلیل مما یأتی بہ السفیہ یرضى بالکثیر (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 2258) ۔ یعنی جو شخص نادان کی طرف سے پیش آنے والے چھوٹے شر پر راضی نہ ہوگا، اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔
اس قولِ صحابی میں اجتماعی زندگی کی ایک حکمت کو بتایا گیا ہے۔ اجتماعی زندگی کبھی یکساں نہیں ہوتی۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے کی طرف سے ایسا تجربہ پیش آئے گا جو اس کی مرضی کے خلاف ہوگا، ایسے موقع پر صحیح طریقہ یہ ہے کہ اعراض کیا جائے، نہ کہ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔
اگر آپ ایسے موقعے پر ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو وہ ہمیشہ چین ری ایکشن (chain reaction) کا سبب بنے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ ہمیشہ خارجی مسائل میں الجھے رہیں گے، اور کبھی اپنے منصوبے کے مطابق موثر عمل شروع نہ کرسکیں گے۔دوسروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے آپ کو خود اپنے کام میں استعمال نہیں کیا، بلکہ اس کو دوسروں کی مخالفت میں ضائع کردیا۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں اوائڈنس (avoidance) کا طریقہ۔ اس طرح کے معاملے میں یہی واحد طریقہ قابل عمل ہے، کوئی دوسرا طریقہ اس معاملہ میں ورک (work) کرنے والا نہیں۔ جب آدمی دوسرے کی طرف سے پیش آنے والے ناخوش گوار تجربے پر اعراض کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اس کے لیے ایک پرو سیلف (pro-self) طریقہ ہوتا ہے۔ اس طرح وہ خود اپنے وقت اور اپنی انرجی (energy)کو بچاتا ہے، تاکہ اس کو وہ خود اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں
(مہاتما گاندھی کے ڈیڑھ سو سالہ تقریب کی مناسبت سے سیواگرام آشرم، واردھا کے لیے صدر اسلامی مرکز نےیہ پیغام دیا ہے)
مہاتما گاندھی کو انڈیا کے لوگ اپنا آدرش مانتے ہیں۔ یہ آدرش کس معنی میں ہے۔ دو لفظ میں وہ یہ ہے — سادہ زندگی، اونچی سوچ (simple living, high thinking)۔
مہاتما گاندھی کی سادہ زندگی کو سارے لوگ جانتے ہیں۔ مثلاً وہ دھوتی پہنتے تھے۔ لیکن ان کی دھوتی بہت زیادہ سادہ ہوتی تھی۔ دھوتی کی اسٹنڈرڈ لمبائی 4.5 میٹر ہوتی ہے۔ لیکن مہاتما گاندھی اس کے آدھے سائز کی دھوتی پہنتے تھے۔ اسی طرح مہاتما گاندھی کا طریقہ ہر معاملے میں سادہ ہوتا تھا۔ مہاتما گاندھی نے انڈیا کے لوگوں کے لیے جو لائف اسٹائل چھوڑا ہے ، وہ آخری حد تک سادہ تھا۔
مہاتما گاندھی کی زندگی کا دوسرا اصول یہ تھا کہ ری ایکشن کو اوائڈ کرتے ہوئے امن کا طریقہ اختیار کرنا۔ مہاتما گاندھی ساؤتھ افریقہ میں قانون کی پریکٹس کرتے تھے۔1893 میں ان کو ساؤتھ افریقہ کے Pietermaritzburgریلوے اسٹیشن پر ٹھنڈی رات میں جبراً ٹرین سے باہر نکال دیا گیا، جب کہ ان کے پاس فرسٹ کلاس کا ٹکٹ تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب کہ ساؤتھ افریقہ میں برٹش رول قائم تھا۔1915 میں مہاتما گاندھی ساؤتھ افریقہ چھوڑ کر انڈیا آئے۔ اس کے بعد یہاںبرٹش رول کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کی۔ لیکن انھوں نےاپنی تحریک تمام تر اہنسا (non-violence) کی بنیاد پر چلائی۔ گویا کہ ساؤتھ افریقہ میں برٹش رول کے زمانے میں ان کے اوپر تشدد (violence)کیا گیا۔ لیکن انڈیا میں انھوں نے برٹش رول کے خلاف جو تحریک چلائی وہ مکمل طور پر اہنسا (non-violence)پر مبنی تھی۔ مہاتما گاندھی کا آدرش واد انھیں دو اصولوں پر مبنی تھا — سادگی اور اخلاقی بلندی۔ یہی مہاتما گاندھی کا پیغام ہے۔ ان کی روح پکار رہی ہے کہ اگر انڈیا میں ترقی کا دور لانا ہے تو ہم کو مہاتما گاندھی کے دو اصولوں کو اپنانا ہے۔ ایک یہ کہ ہم ذاتی زندگی میں مکمل طور پر سادگی کا طریقہ اختیار کریں، اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی قومی جدو جہد میں جو بھی تحریک چلائیں وہ مکمل طور پر امن (peace) پر مبنی ہو۔ کسی حال میں ہم تشدد کا طریقہ اختیار نہ کریں۔
نئی دہلی،
واپس اوپر جائیں
دنیا کی زندگی میں انسان کو طرح طرح کی مصیبتیں (sufferings) پیش آتی ہیں۔ فلسفی لوگ اس کو پرابلم آف ایول (Problem of Evil) کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا اگر قادرِ مطلق ہے تو دنیا میں مختلف قسم کی سفرِنگ کیوں۔ مگر یہ سفرِنگ کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ چیلنج (challenge) کا مسئلہ ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مصیبت نہیں ہے ، بلکہ وہ مطالبۂ عمل ہے۔اس مسئلے کو انسانی ذہن سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ اس کو خالق کے اپنے منصوبۂ تخلیق (creation plan) کی نسبت سے دیکھنا چاہیے۔
خالق کے منصوبے کے مطابق، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کی صفت پیدا کرے۔ اور تخلیقی فکر کی صفت کبھی نارمل حالات میں پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ایسے حالات میں پیدا ہوتی ہے، جہاں انسان کو بار بار شاک (shock) کا تجربہ ہو۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو امکانی صلاحیتوں (potentials) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ یہ بالقوۃ صلاحیتیں، اپنے آپ ظہور میں نہیں آتیں۔ اس معاملے میں خالق نے شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کا اصول رکھا۔ یہ صلاحیتیں شاک ٹریٹمنٹ کے ذریعہ بیدار ہوتی ہیں۔ اگر شاک ٹریٹمنٹ نہ ہو تو یہ صلاحیتیں خفتہ (dormant) حالت میں پڑی رہیں گی۔ انسان اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے میں ناکام رہے گا۔
فطرت کا یہ اصول سیکولر لوگوںکے لیے بھی ہے اور مذہبی لوگوں کے لیے بھی۔ اس معاملے میں کسی گروہ کا کوئی استثنا نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوںکے ساتھ شاک ٹریٹمنٹ کا معاملہ ہوا، انھوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں۔ اس کے برعکس، جن کولوگوں کے ساتھ شاک ٹریٹمنٹ کا معاملہ نہیں ہوا، وہ بڑی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔یہ فطرت کاایک اٹل قانون ہے، وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
سوال
خلافت کے معاملے میں صرف مولانا مودودی اور سید قطب کی وجہ سے اتنی تبدیلی آئی ہے یا یہ شروع سے رہا ہے کہ خلافت کو امت نے اپنا مشن سمجھا ۔تقریباً تمام مسالک فکر کے حاملین کو پڑھنے اور سننے سے ایسا لگتا ہےکہ خلافت ہمارا مشن ہے۔ لیکن مولانا، آپ کو پڑھنے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ خلافت ہمارا بالکل مشن نہیںہے۔آخرکیا وجہ ہے، وضاحت کریں۔(سراج احمد ندوی، ممبئی)
جواب
امت مسلمہ کا مشن خلافت کا نظام قائم کرنا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک مبتدعانہ تصور ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے کبھی کسی نے یہ بات نہیں کہی۔ بیسویں صدی میں یہ تصور مسلمانوں کے اندر بطور مضاھات (التوبۃ 30)آیا۔ بیسویں صدی میںکمیونسٹ تحریک کے زیر اثر’’نظام قائم کرو‘‘ کا نظریہ پھیل گیا۔ اسی سے مسلمانوں میں یہ ذہن بنا کہ خلافت کا نظام قائم کرو۔
قرآن میں کہیںبھی یہ حکم نہیں آیا ہے کہ اے مسلمانو، تمھارا فرض ہے کہ تم زمین پر خلافت کا نظام قائم کرو۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حکم اترا ، وہ یہ تھا کہ تم لوگوں کو دعوت دو، ان کے اوپر انذار و تبشیر کرو۔ قرآن میں کوئی حکم ان الفاظ میں نہیں آٰیا ہے کہ یا محمد اقم دولۃ الاسلام، یا محمد نفذ الشریعۃ الاسلامیۃ۔ اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ خلافت کا نظام قائم کریں، ان کو سب سےپہلے اس مضمون کا کوئی حکم قرآن کے حوالے سے بتانا چاہیے۔
سارے لوگوں کا ایک بات بولنا کوئی ثبوت نہیں کہ ان کا کہنا صحیح ہے۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان، منفی بولی بول رہے ہیں۔ حالاں کہ اسلام میں منفی بولی بولنا جائز نہیں۔ تمام مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ یہ سوچ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔بے شمار مسلمان باہمی قتل اور خود کش بمباری میں مشغول ہیں ۔حالاں کہ ایسا فعل سراسر اسلام میں حرام ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ قرآن و حدیث کو دیکھیں ، نہ کہ اس کو کہ لوگ کیا بات بول رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
اسلاموفوبیا نہیں:امریکا کے نو منتخب صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کےمعاون اسٹیو بَنین (Steve Bannon) کی جانب سے خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس، امریکا) کو یہ درخواست ملی کہ انھیں انگریزی قرآن چاہیے۔ یہ درخواست انھیں سی پی ایس ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) کے ذریعہ ملی۔ خواجہ کلیم الدین صاحب نے انھیں، انگریزی تفسیر، ترجمہ قرآن، لیڈنگ اسپریچول لائف، دی ایج آف پیس، پرافٹ آف پیس وغیرہ پوسٹ کر دیاہے۔
دعوتی دورہ: ممبئی سی پی ایس ٹیم کے پروگرام کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ مختلف علاقوں کا وقتاً فوقتاً دعوتی دورہ کرتے رہتے ہیں۔اسی کے تحت جنوری کی
■ ممبئی ٹیم کے تعلق سے ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ
دعوہ فرینڈلی دنیا:کولکاتا کے مشہور وکٹوریہ میموریل ہال میں ٹاٹا اسٹیل کولکاتا لٹریری میٹ کا انعقاد
■ جئے پور، راجستھان میں ہر سال لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد ہواکرتا ہے، جس میں ملک و بیرون ملک کی علمی، ادبی، اور دیگر فنون کی دنیا سے تعلق رکھنے والی ہستیاں شریک ہوتی ہیں۔ بڑی تعداد میں علم و فن کے شائقین بھی آتے ہیں۔ اس سال یہ فیسٹیول19 تا
■ 3 تا 19 جنوری 2017 کے درمیان بدھ گیا، بہار میں بدھ مت کا کال چکر میلہ لگتا ہے۔ اس میں ہرسال پوری دنیا سے ہزاروں کی تعداد میں مقامی و بیرونی سیاح آتے ہیں۔ مانو وکاس کلیان سمیتی (گیا) نے اس سال یہاں بڑی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن کے علاوہ اردو، ہندی، فرنچ، جرمن، چائنیز، اور اسپینش ترجمہ قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے، جو تقسیم قرآن کا سن کر اس کو تلاش کرتے ہوئے وہاں تک پہنچے، اور شکریہ کے ساتھ ترجمہ قرآن و دیگر لٹریچر حاصل کیا۔ جن لوگوں نے اس میں حصہ لیا وہ یہ ہیں، عظیم الدین ضیفی، محمد ارمان، مجاہد حسین، قصیب رضا، محمد شہاب الدین وغیرہ۔ نیز یہ کہ گیا ٹیم (موبائل نمبر9931625297)انڈیا کے اندر بذریعہ پوسٹ لوگوں کو قرآن پہنچاتی ہے۔
مدعو آپ کے دروازے پر: سی پی ایس دہلی نے آئی آئی سی میں ایک انٹر فیتھ پروگرام منعقدکیا ۔ یہ پروگرام بون (جرمنی) کی این جی او Der Missionszentrale der Franziskaner کے ممبران کے لیے تھا، جو ہر سال انڈیا آتے ہیں، اورصدر اسلامی مرکز کی تقریر سنتے ہیں، سی پی ایس کے ممبران ان سے انٹرایکشن کرتے ہیں۔ انٹر ایکشن سے پہلے وہ مسجد میں جاکر نماز کا طریقہ دیکھتے ہیں، اور اسلام کی باتیں سنتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں کو جرمن زبان میں ترجمہ قرآن و دیگر انگریزی کتابیں دی گئیں۔یہ پروگرام
دنیا قرآن کی تلاش میں:کولکاتا کے QUEST مال میں
‘ 'Oh, Wow, Quran, I would love to read it’!'
کتاب میلہ :جنوری کی
مواقع کا استعمال: ہری دوار میں 10 فروری 2017 کوایک شادی کا پروگرام ہوا۔ یہ شادی مشہور فزیشین اور بی جے پی لیڈر ڈاکٹر پہل سینی کی بیٹی کی تھی۔ اس مناسبت سے ان کو ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر بطور گفٹ دیا گیا۔ اس کے علاوہ شادی میں شریک دیگر مہمانوں کو بھی ترجمہ قرآن اور دیگر لٹریچر دیا گیا۔ یہ دعوتی کام سہارن پور ٹیم کے ڈاکٹر اسلم خان نے انجام دیا۔
■
روشنی کی کرن:افغانستان سے ملی خبر کے مطابق، وہاں نوجوانوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی ہے۔
قرآن کی عالمی اشاعت : ذیل میں دعوتی فکر رکھنے والے ایک نوجوان کا تجربہ بیان کیا جارہا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں الرسالہ مشن ، یعنی قرآن کو گھر گھرمیں پہنچانے کی تحریک پھیلتی جارہی ہےـ:
I had two experiences I would like to share with everyone. A few months back I was in New York and had taken a room in a youth hostel. There was a common place in the building where we can have breakfast and one morning I noticed an European girl with Maulana’s translation of the Quran. I went over to her and asked her about it. She said someone had given it to her at Times Square. A few days back, I was in Jamshedpur. There is bookstore run there by a 90-year old man. He told me he had been following Maulana as far back as he could remember and had been selling Al-Risala since its very first edition. He had a lot of other nice things to say as well. Maulana's work and influence has genuinely reached across the world. From India to New York, I can feel the mission working everytime I step into a bookstore and find Maulana's work. Congratulations to all of you! (Asad Pervez, New Delhi)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.