اسلام کا لفظی مطلب اطاعت ہے۔ مگر یہ اطاعت جبری نہیں ہے، بلکہ وہ اختیاری ہے۔ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نےآزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ انسان کو اس دنیا میں اپنے اختیار کو استعمال کرنے کے اعتبار سے کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جس طرح چاہے کرے۔
اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام ایک خود انضباطی نظام (self-imposed discipline) کا نام ہے۔ خالق نے انسان کو پیغمبر کے ذریعےجو دین بھیجا ، اس کی حیثیت رہنما گائڈ کی ہے۔ لیکن فیصلہ پھر بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس رہنما گائڈ کا کام انسان کو صرف یہ بتانا ہےکہ صحیح کیا ہے ،اور غلط کیا ۔ لیکن یہ رہنما گائڈ انسان پر کسی قسم کا جبر قائم نہیں کرتا۔ انسان کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس کی بنا پر اس کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ خلیفہ کا لغوی مطلب ہے بعد کو آنے والا (successor)۔ لیکن مفہوم کے اعتبار سے اس کا مطلب ہے آزاد مخلوق۔ اسی آزادی کے صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
انسان کو آزادی تو حاصل ہے، لیکن اس کو کسی قسم کا اقتدار حاصل نہیں۔ آزادی کے اعتبار سے اس کو بے روک ٹوک آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اقتدار کے اعتبار سے اس کو کسی قسم کی ذاتی طاقت حاصل نہیں۔ یہی وہ فرق ہے، جس کی بنا پر تمام انسان عملاً احساسِ محرومی میں جیتے ہیں۔ کیوں کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے، اس کو حاصل کرنے پر وہ قادر نہیں۔ یہی مقام شیطان کے لیے انسان کے اندر داخلہ کا مقام (entry-point) ہے۔ شیطان اس حقیقت سے باخبر تھا، اسی لیے اس نے آغاز انسانیت میں اللہ رب العالمین سے کہا تھا : وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الحدید کی ایک آیت یہ ہے:لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَیِّناتِ وَأَنْزَلْنا مَعَہُمُ الْکِتابَ وَالْمِیزانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ إِنَّ اللَّہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ (
آیت کے آخری حصہ میں اللہ کی دو صفتوں ، قوی و عزیز (all-strong, almighty) کا ذکر ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں اللہ کی کامل اور جامع نعمتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے یہ آیت بے حد اہمیت کی حامل ہے۔
قرآن کی اس آیت میں انسان کے اوپر اللہ کی دو بڑی نعمتوں کا ذکر ہے۔ ان دو بڑی نعمتوں کے ذریعے انسان کے لیے تمام سعادتوں کے دروازے کھولے گیے ہیں۔ انسان کو دنیا اور آخرت میں ترقی کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سب آیت میں بتا دیا گیا ہے۔ تاکہ انسان غور کرکےان کو سمجھے، اور صحیح اسپرٹ کے ساتھ ان کو اپنے حق میں استعمال کرے۔
قرآن کی اس آیت میں رسول سے مراد پیغمبر (prophet) ہیں۔ بینات سے مراد وہ معجز نشانیاں ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ہیں کہ پیغمبر حقیقی معنوں میں اللہ کا پیغمبر ہے۔ یہ معجز نشانیاں ایسی ہیں جو ہر ذی عقل انسان کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ شخص یقیناً اللہ کا نمائندہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص پیغمبر کا انکار کرتا ہے تو اس کے پاس اپنے انکار کا کوئی جواز (justification) موجود نہیں۔ قسط سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے مقام پر صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ یعنی دنیا میں زندگی گزارنے کا وہ راستہ جو خالق کے نزدیک مقبول راستہ ہے۔
قسط (justice) کے ساتھ یہاں لیقوم کا لفظ آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد کسی فرد کا خود اپنی زندگی میں قسط کا پیرو بننا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی قسط کا جھنڈا اُٹھائے اور سیاسی اقتدار حاصل کرکے قسط کو لوگوں کے اوپر نافذ (implement) کرے۔ نحوی اعتبار سے یہ کہ قسط کا حکم یہاں لازم کے صیغہ میں ہے، وہ متعدی کے صیغہ میں نہیں۔
حدید کا لفظی مطلب لوہا (iron) ہے۔ غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حدید کا لفظ غالباً علامتی طور پر آیا ہے۔ یعنی اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی کہاجاتا ہے۔ٹکنالوجی کی تعریف یہ کی گئی ہے:
The branch of knowledge dealing with engineering or applied sciences.
حدید ایک علامتی لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ تمام معدنیات ہیں جن کو استعمال کرکے موجودہ زمانے کی مشینیں بنتی ہیں، اور ان کو دورِ جدید کی سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (
حقیقت یہ ہے کہ اول المسلمین یا اول من اسلم کی آیات لفظی معنی میں نہیں، بلکہ وہ عزم کے معنی میں ہے۔ یعنی اسپرٹ کے معنی میں۔ یہ اسی اسپرٹ کا اظہار تھا، جس کو انگریزی زبان میں ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔
حقیقت یہ ہےکہ یہ ایک باعزم صاحب مشن کا کلمہ ہے۔ وہ صاحب مشن کے یقین اور عزم کو بتاتا ہے۔ یہ کلمہ صاحب مشن کی اس اسپرٹ کو بتاتا ہے کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے تب بھی میں اس کام کو انجام دوں گا۔ اگر کوئی شخص میرا ساتھی نہ بنے تب بھی میں اس راہ پر چلنا نہیں چھوڑوں گا۔
اس قسم کی عزیمت کی بات کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہیں۔ بلکہ ایسی بات کو اس کی حقیقی اسپرٹ کے معنی میں لینا صحیح ہوگا۔ اسی قسم کی ایک مثال وہ ہے جو خلیفہ اول ابوبکر صدیق نے اس وقت کہی تھی، جب کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد فتنہ پھیل گیا تھا، جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: لما توفی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ارتدت العرب (سنن النسائی، حدیث نمبر3094)۔ اس فتنہ کی شدت کے اعتبار سے حضرت عائشہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔یہاں نہ حضرت عائشہ کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا، اور نہ حضرت ابوبکر کے قول کو لفظی معنی میں لینا درست ہوگا۔ان کا قول یہ ہے:أینقص وأنا حی (جامع الاصول، حدیث نمبر6426)۔ یعنی کیا دین میں کمی کی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔
واپس اوپر جائیں
ایک صحابی صحبت رسول کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں:عن جندب، قال:کنا مع نبینا صلى اللہ علیہ وسلم فتیانا حزاورة فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فنزداد بہ إیمانا، فإنکم الیوم تعلمون القرآن قبل الإیمان (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1678)۔ یعنی جندب بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم جوانی کی عمر میں تھے۔ پس ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ، پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔اور تم لوگ آج قرآن سیکھتے ہو ایمان سے پہلے۔
انٹرنیٹ پر ایک عرب، محمد العبادی نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: تعلم الإیمان قبل القرآن یعنی تہیئة القلب لتلقی تعالیم القرآن والاہتداء بأنوارہ، فہو کتہیئة الأرض حتى تکون صالحة للزرع(ملتقیٰ اہل التفسیر (vb.tafsir.net)، الإیمان قبل القرآن)۔ یعنیـ" ایمان سیکھنا قرآن سے پہلےـ" کا مطلب یہ ہے دل کو تیار (prepare)کرنا، تاکہ وہ اخذ کرسکےقرآن کی تعلیمات کو، اور اس کی روشنی سے ہدایت پاسکے۔ پس وہ ایسا ہے جیسے زمین کو تیار کرنا تاکہ وہ کھیتی کے قابل ہوجائے۔
اس روایت کا مطلب کنڈیشننگ (conditioning) کے اصول سے سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ ہر پیدا ہونے والالازمی طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385) ۔ ایسی حالت میں ایمان قبول کرنا، اپنے ذہن کے اعتبار سے ایک ایسی چیز کو قبول کرنا ہے جو آدمی کے لیے ایک نئی چیز ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی نئی چیز کو متاثر ذہن (conditioned mind) کے ساتھ دیکھے، اور اس کو درست طور پر سمجھ نہ سکے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان سے پہلے ایک پیشگی کام کرے۔ یعنی اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے اس کو تیار ذہن (prepared mind) بنائے، تاکہ وہ نئی چیز کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھے، اور بے آمیز صورت میں اس کو لے سکے۔
یہ گویا تطہیر ذہن (purification of the mind) کا معاملہ ہے۔ اس تطہیر کے بغیر کوئی بھی شخص، ایمان کو حقیقی طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس تطہیر کے بغیر اگر وہ ایمان قبول کرتا ہے تو وہ اس کے لیے داخل القلب ایمان (الحجرات
تطہیر ذہن کا یہ عمل صرف ابتدائی دور کے کچھ صحابہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ کوئی بھی شخص جو بعد کے زمانے میں ایمان قبول کرتا ہے، تو اس کو سب سے پہلے اپنے داخل القلب کو مطہّر اور مزکّی بنانا پڑے گا۔ یعنی پوری طرح اپنی ڈی کنڈیشننگ کرنی ہوگی۔ جو شخص اس ابتدائی شرط کو پورا کرے، اسی کا ایمان سچا ایمان ہے۔ جو آدمی اس ابتدائی شرط کو پورا کیے بغیر صرف پیدائش کےطور پر مسلم بن جائے، یا کلمہ کے الفاظ کو زبان سے ادا کرکے اسلام قبول کرلے، اس کا ایمان اللہ کے نزدیک معتبر ایمان نہ ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ یا تو پہلے مرحلے میں یا بعد کے مرحلے میں اپنا محاسبہ کرکےبھر پور طور پر اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ اپنے آپ کو مطہَّر اور مزکیّٰ بنائے۔ اس کے بعد ہی، اس کا ایمان معتبر ہوگا۔ اس کے بعد ہی اس کا ایمان اس کے لیے ہدایت کی روشنی بنے گا۔اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوگا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس آیت کا مصداق بنے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے:یعنی کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی دی اور ہم نے اس کو ایک روشنی دی کہ اس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے (
حقیقت یہ ہے کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ایک پراسس کا معاملہ ہے۔ پہلے آدمی شعوری طور پراس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اب تک بے خبری کی زندگی گزار رہا تھا۔ اندھیرے کے بعد اس پر روشنی کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرکے اپنی بھرپور ڈی کنڈیشننگ کرتا ہے، اس کے بعدوہ اپنے آپ کو آلودگی سے پاک کرکےوہ ذہن بناتا ہے جس کو شریعت میں مزکی شخصیت کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کو گہرائی کے ساتھ اپنا سکے۔
مبارک لوگ
ایک مشہور حدیث ہے: بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء (صحیح مسلم، حدیث نمبر
ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام قدیم عرب میں آئے۔ اس وقت وہاں بنواسماعیل آباد تھے۔ ابتدءاً وہ لوگ دین ابراہیم پر قائم تھے، مگر ان کی بعد کی نسلوں پر زوال آیا۔ وہ لوگ اب بھی دین ابراہیم کا نام لیتے تھے، لیکن وہ عملا ًاصل ابراہیمی دین پر نہ تھے۔ بعد کے زمانے میں حقیقی ابراہیمی دین ان کے درمیان اجنبی ہوچکا تھا۔وہ دین ابراہیم کے ایک خود ساختہ ورزن (version) کو ابراہیم کا دین سمجھنے لگے تھے۔اس اجنبیت کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حالاں کہ پیغمبر اسلام، ابراہیم علیہ السلام کے اسی دین کو زندہ کررہے تھے، جس کو رسول اللہ کے معاصر عرب اپنے قومی فخر کے طور پر لیے ہوئے تھے۔
مذکورہ حدیث کے مطابق، یہی معاملہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے ساتھ پیش آئے گا۔ یعنی قرآن وسنت والا دین زوال یافتہ مسلمانوں کے درمیان ایک اجنبی دین بن جائے گا۔بظاہر وہ دین محمدی کا نام لیں گے، اور اس پر فخر کریں گے۔ لیکن حقیقی اعتبار سے وہ دین محمدی سے اتنا دور ہوچکے ہوں گے کہ اصل دین محمدی ان کے لیے ایک اجنبی دین کی حیثیت اختیار کرلے گا۔ دین ابراہیمی اور دین محمدی دونوں اپنی اصل کے اعتبار سے خالص توحید کے مذاہب تھے۔ لیکن بعد کے زمانے میں دونوں کے ماننےوالوںپر زوال آئے گا۔ دونوں کے ماننے والے بظاہر دین ابراہیمی اور دین محمدی کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ اتنا زیادہ بگڑ چکے ہوں گے کہ ان کے درمیان اصل دین ابراہیمی اور اصل دین محمدی، دونوں اجنبی دین کی مانند بن جائیں گے۔
"مبارک اجنبی" سے مراد کون لوگ ہیں۔ اس سے مراد وہ افراد ہیں جو اس معاملے کا مطالعہ غیر متعصبانہ طور پرکریں ، جو کھلے ذہن کے ساتھ باتوں کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں، جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے کو اس قابل بنائیں کہ دین محمدی کو اس کی اصل صورت میں پہچان سکیں۔ اس کے بعد وہ بگاڑ کے زمانے میں اصل دین کو دوبارہ دریافت (rediscover) کریں۔ وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے دوبارہ پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو سمجھیں۔ ایسے لوگ اگرچہ لوگوں کے نزدیک اجنبی ہوجائیں گے لیکن اللہ کی نظر میں وہ خوش قسمت لوگ ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑے درجات ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں ایسا ہوا کہ پیغمبر اسلام نے اہل عرب کے سامنے دین ابراہیمی کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کیا (الحج
جب کہ اصل صورت حال یہ تھی کہ آپ ابراہیمی دین ہی کو ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ ان کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ اصل دین ابراہیم ان کے یہاں اجنبی دین بن چکا تھا۔ وہ اپنے قومی کلچر کو دین ابراہیم کے نام سے جاننے لگے تھے۔ یہی سبب تھا جس کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حتی کہ آپ کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگیے۔
یہ صورت حال صرف قدیم عربوں کی نہ تھی، بلکہ یہ ایک عمومی تاریخی ظاہرہ ہے، جو ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ ہر قوم میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتداءاً جو چیز ان کے یہاں مذہب کے طور پر ہوتی ہے، وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک قومی کلچر بن جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بعد کی نسلوں کے لیے اصل مذہب ایک اجنبی چیز بن جاتا ہے۔اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اس قابل بنائیں کہ وہ اصل مذہب کو پہچان سکیں۔
اصلاح امت
امت مسلمہ کی اصلاح ایک مستقل موضوع ہے جس پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کچھ بولا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلسل بحث جاری رہتی ہے۔ تاہم اس موضوع پر ایک متعلق روایت ہے جو اس سلسلے میں ایک رہنما روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ روایت وھب ابن کیسان کی ہے جو اعلیٰ درجہ کے فقیہ مانے جاتے ہیں۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہیں انھوںنے تعلیم پائی، اور کئی صحابہ سے ملاقات کی ۔ مثلا ابن عباس، ابوسعید الخدری،جابر بن عبد اللہ ، ابن الزبیر ، اورعمرو بن أبی سلمة، و غیرہ۔ وہ امام مالک (وفات
امام مالک اپنے استاد وہب ابن کیسان کے بارے میں کہتے ہیں : کان وہب بن کیسان یقعد إلینا، ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا، قلت لہ: یرید ماذا؟ قال یرید التقى (مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر
بعد کے زمانے سے مراد زوال کا زمانہ ہے۔ امت کا بعد کا زمانہ خلا کا زمانہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ بھر پور سرگرمیوں کا زمانہ ہوگا۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے پاس اپنے ماضی کی بنیاد پر ایک تاریخ ہوگی، ایک کلچر ہوگا، دین کا ایک تصور ہوگا، وغیرہ۔ اس کے باوجود وہ اصل دین سے دور جاچکے ہوں گے۔ ان کی اصلاح کی صورت صرف یہ ہوگی کہ ان کو پیچھے کی طرف لوٹایا جائے۔ ان کو دوبارہ اس دین پر قائم کیا جائے، جو دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول کے درمیان پایا جاتا تھا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ پیغمبر کے بعد امت کے درمیان ایک تاریخ بننا شروع ہوگی۔ دھیرے دھیرے وہ وقت آجائے گا، جب کہ لوگ اسلام کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ پر کھڑے ہوں گے۔ اب ان کا ماڈل بعد کو بننے والی تاریخ کا ماڈل ہوگا، نہ کہ رسول اور اصحاب رسول کا ماڈل ۔ ایسی حالت میں ضروری ہوگا کہ لوگ اسلام اور مسلم تاریخ کے درمیان فرق کو دریافت کریں۔ وہ بعد میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے اصل اسلام کو جانیں، اور اس پر دوبارہ قائم ہوجائیں۔ گویا کہ ان کے لیے اسلام دریافت ثانی (rediscovery) کا موضوع بن چکا ہوگا۔ اس دریافت ثانی کے بغیر اصل دین ان کے لیے اجنبی بن چکا ہوگا۔ اس اجنبیت کو دور کرنے کی صورت صرف یہ ہوگی کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں۔
دونوں زمانےکے فرق کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول کا دین مبنی بر تقوی ہوگا، مگر زوال کا دور آنے کے بعد لوگوں کے درمیان ایک ایسا دین رائج ہوجائے گا، جو ایک قسم کا قومی دین ہوگا۔ وہ خدا رخی دین نہ ہوگا، بلکہ وہ قومی رخی دین بن جائے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے۔ جس کے مفقود ہونے کی وجہ سے بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے حقیقی دین اجنبی دین بن جائے گا۔ اس روایت کے مطابق ابتدائی دور کے اہل ایمان تقویٰ کا طریقہ اختیار کرکے اصلاح یافتہ بنے تھے۔ بعد کے زمانے کے لوگوں کو بھی یہی کرنا ہوگا کہ وہ اپنی غیر متقیانہ روش کو چھوڑیں ، اور دوبارہ تقویٰ کے طریقے کو اختیار کریں۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ آدمی ایک ایسی روش کو اختیارکرے جو اللہ کے مواخذہ کے تصورپر مبنی ہو، جو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس پرقائم ہو۔
واپس اوپر جائیں
دو دنیائیں
خالق نے دو دنیائیں بنائیں۔ ایک انسانی دنیا، اور دوسرے مادی دنیا، جس کو علمی زبان میں نیچر (nature) کہا جاتا ہے۔ کائنات کا مطالعہ کرنے والا، ان دونوں دنیاؤں کے درمیان ایک عجیب فرق پاتا ہے۔ انسانی دنیا اسفل سافلین (التین5:) کی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مادی دنیا کے بارے میں خالق کا یہ اعلان ہے کہ لا تری من فطور (الملک3:)۔ دونوں دنیائیں اس طرح ایک دوسرے سے مختلف (different) کیوں ہیں۔
اس کا جواب قرآن میں تلاش کیا جائے ،تو یہ معلوم ہوگا کہ مادی دنیا مسخر دنیا (الجاثیہ
انسان کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (
اس طرح مختلف حالات سے گزرتے ہوئے وہ انسان بنتا ہے جس کو قرآن میں احسن العمل (الملک2:) کہا گیا ہے۔یہی احسن العمل (best in conduct) والے افراد ہیں جن کو منتخب کرکے ابدی جنت میں بسایا جائے گا۔ وہ وہاں خالق کے قرب میں ابدی طور پر اعلیٰ زندگی گزاریں گے۔
دونوں دنیا ؤں کے درمیان جو فرق ہے ،وہ ایک بامعنٰی حکمت پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا ایک امتحانی دنیا (testing ground) ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ غیر معیاری دنیا (perfect world) ہو۔ اگر وہ معیاری دنیا ہو تی تو انسان کو جانچنےکے لیے امتحان گاہ (testing ground) نہیں بن سکتی۔موجودہ دنیا کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے انسان کو یہاںبار بار مسائل (problems) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جو انسان کے لیے یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرےکہ دو انتخابات میں سے کس انتخاب کو وہ لیتا ہے، اور کس انتخاب کو چھوڑدیتا ہے۔ اگر دونوں دنیائیں یکساں طور پر معیاری ہوتیں تو یہاں وہ عمل (process) جاری نہیں ہوسکتا تھا، جہاں انسان کو مختلف قسم کے چیلنج پیش آئیں۔ یہ در اصل دونوں دنیاؤں کا فرق ہے جس کی وجہ سے بار بار یہاں چیلنج کی صورت حال پیش آتی ہے۔
چیلنج کی صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن بار بار ٹریگر (trigger) ہوتا رہتا ہے، انسان کے ذہن میں بار بار برین اسٹارمنگ (brainstorming) ہوتی ہے، انسان کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potential) جاگتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کا ذہن کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہونے پاتا۔ اس کی وجہ سے بار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کو کس رخ پر استعمال کرے،مثبت رخ پر یا منفی رخ پر۔
انسان کے لیے جو مستقبل مقدر کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بنائے۔ یہی ترقی یافتہ شخصیت ہے جس کو قرآن میں مزکّی شخصیت کہا گیا ہے۔ یہ مزکّی شخصیت آسانی کے حالات میں نہیں بن سکتی تھی، وہ صرف مشکل حالات میں بننے والی تھی۔ اس لیے خالق نے کائنات میں یہ بامعنی فرق رکھا۔ مزکّی شخصیت وہ ہے جو خود تیار کردہ شخصیت (self-made personality) ہو۔ یہ وہ انسان ہے جو خود دریا فت کردہ معرفت پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ماسٹر آف سچویشن (master of situation) تھا، نہ کہ سبجکٹ آف سچویشن۔
موجودہ دنیا آخرت کی دنیا کی نرسر ی (nursery)ہے۔ نرسری وہ ابتدائی مقام ہے جہاں چھوٹے پودوں کو اگایا جاتا ہے تاکہ بعد کوان کو بڑے باغ میں نصب کیا جائے:
Nursery: a place where young plants and trees are grown for planting elsewhere.
موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیاہے کہ وہ انسان کے لیے ابتدائی نرسری کا مقام بن سکے۔ اور آخرت کی دنیا میں جنت کو اس طرح معیاری انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کے لیے ہیبیٹاٹ (habitat) بن سکے۔ تاہم اس ہیبیٹاٹ میں ہر انسان کو عمومی بنیاد پر داخل نہیںکیا جائے گا، بلکہ صرف منتخب بنیاد پر داخل کیا جائے گا۔ یعنی ہر انسان کی پچھلی زندگی کے ریکارڈ (record) کو دیکھا جائے گا۔ اس سابقہ ریکارڈ میں جو مرد یا عورت قابل انتخاب قرار پائیں گے، ان کو آخرت کے ہیبیٹاٹ (جنت) میں باعزت طور پر داخلہ کا موقع دیا جائے گا۔
خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق یہی دونوں دنیاؤں کی حیثیت ہے۔ یہ خالق کا اپنی تخلیق کے بارے میں فیصلہ ہے ۔ اس فیصلہ میں کبھی کوئی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ انسان کو اپنے ذاتی عمل کے بارے میں اختیار حاصل ہے، لیکن انسان کو یہ اختیار ہرگز حاصل نہیں کہ وہ خالق کے نقشے میں کوئی تبدیلی کرے یا اس کو قبول کرنے سے انکار کردے۔ انسان کو بہر حال اسی تخلیقی نقشے کے مطابق یا تو اپنے آپ کو کامیاب بنانا ہے یا ہمیشہ کے لیے ناکامی کے گڑھے میں ڈال دینا ہے۔
واپس اوپر جائیں
خود اعتمادی یا الثقۃ بالنفس(self confidence) کی اصطلاح قرآن یا حدیث میں استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بجائے قرآن و حدیث میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ توکل علی اللہ کا لفظ ہے۔ یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک بے حد اہم فرق ہے۔ خود اعتمادی کا لفظ ایک ڈسپٹو (deceptive) لفظ ہے۔ اس سے سارا فوکس اپنی ذات پر چلاجاتا ہے، جس کا نتیجہ فخر (pride) ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ توکل علی اللہ کا لفظ بولیں تو آپ کا سارا فوکس اللہ پر قائم رہے گا، اور اس کے نتیجے میں آپ کے اندر تواضع (modesty) پیدا ہوگی۔
غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ خود اعتمادی کا کام اصلاً صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ خود اعتمادی آپ کو پہلے قدم (first step) کی ہمت دیتا ہے۔ اس کے بعد سارا کام قوانین فطرت کے تحت انجام پاتا ہے، جو کہ خالق نے اس دنیا میں قائم کیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کسی معاملے میں خود اعتمادی کا حصہ ایک فیصد ہے، اور قوانین فطرت کا حصہ ننانوے فیصد۔
خود اعتمادی بظاہر ایک اچھی صفت ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں وہ اکثر مسئلہ پیدا کرنےکا سبب بن جاتی ہے۔ جس آدمی کے اندر خود اعتمادی ہو، وہ اکثر شعوری یا غیر شعوری طور پریہ سمجھ لیتا ہے کہ کام جو ہوا ہے، وہ صرف اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس بنا پر وہ چاہنے لگتا ہے کہ کام کا سارا کریڈٹ صرف اس کو ملے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعیت کا ایک پرابلم ممبر بن جاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کو سارا کریڈٹ نہیں مل رہا ہے تو وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اجتماعی زندگی میںجو رول اس کو ادا کرنا تھا، اس رول کو وہ بخوبی طور پر ادا کرسکے۔اس کے برعکس، توکل علی اللہ یا اعتماد علی اللہ کی نفسیات سے انسان کے اندر ہر قسم کے مثبت اوصاف (positive qualities) پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اجتماعی زندگی کا ایک صحت مند ممبر بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوب رول کو بخوبی طور پر ادا کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ وسیع تر معنوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب کسی انسان کودعویٰ (claim) کی زبان میں بولنے کا حق نہیں ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص دین حق کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس کوصرف یہ کرنا ہوگا کہ وہ مخلصانہ طور پر جس چیز کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھے، اس کے لیے وہ اللہ کی مدد کا طالب بنے، اور دعا کرتے ہوئے اس پر عمل شروع کردے۔ اسی کے ساتھ یہ ضروری ہوگا کہ وہ ہر لمحہ اپنی اصلاح کے لیے تیار رہے۔ جب بھی اس پر واضح ہو کہ فہم دین میں اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ فوراً رجوع کرلے، اور جو دین صحیح اس پر واضح ہوا ہے، دوبارہ اس پر قائم ہوجائے۔
ختم نبوت کا مطلب دعوی کی زبان کا ختم ہونا ہے۔ اب کوئی شخص مدعیانہ زبان بول کر اپنے عمل کا آغاز نہیں کر سکتا۔اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے، لیکن مدعیانہ کلام کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ مثلا اگر کوئی شخص یہ اعلان کرے کہ میں مہدی موعود ہوں یا میں امام زمانہ ہوں تو اس قسم کا دعویٰ اپنے آپ ہی قابل ردّ قرار پائے گا:
prima facie it stands rejected
اگر کسی شخص کو یہ توفیق ملے کہ وہ دین صحیح کو دریافت کرے، اور اخلاص کے ساتھ وہ اس پر قائم ہوجائے تب بھی اس کو یہ حق نہیں کہ وہ دعویٰ کی زبان بولے۔ باعتبار حقیقت اگروہ ایک ہدایت یاب شخص ہے تو اس کا اعلان صرف آخرت کی عدالت میں کیا جائے گا۔ بطور خود کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو نبی کی مانند ہدایت یاب سمجھے۔پیغمبر اسلام نے کہا تھا: أنا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2864)۔ لیکن کسی غیر پیغمبر کو اس طرح کی مدعیانہ زبان میں کلام کرنے کا حق نہیں۔ اب آدمی صرف عمل کا حق رکھتا ہے، دعویٰ کی زبان میں بولنے کا حق کسی کو نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک مومن جس کو اللہ کی دریافت ہوئی ہو، جو کائنات میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھتا ہو، جس کو اس کے تدبر نے متوسم (الحجر
یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا (آل عمران 190-191:)۔ اس حقیقت کو سیرت رسول کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:متواصل الأحزان، دائم الفکرة، لیست لہ راحة، طویل السکت، لا یتکلم فی غیر حاجة (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر3705)۔ یعنی آپ بے حد سنجیدہ اور مسلسل غور و فکر میں رہتے تھے،آپ کے لیے کوئی راحت نہیں تھی، دیر تک خاموش رہتے، بغیر ضرورت بات نہ کرتے۔
یہی وہ مزاج ہے جو کسی انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرتا ہے جس کو تخلیقی فکر (creative thinking) کہا جاتا ہے۔ تخلیقی فکر والا آدمی ہر آن دنیائے حقیقت کا مسافر بنا رہتا ہے۔ وہ ہر لمحہ معرفت کے نئے آئٹم دریافت کرتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی شخصیت ایک ترقی یافتہ شخصیت (developed personality) بن جاتی ہے۔ یہی ذہنی ارتقا کا اعلیٰ درجہ ہے۔ اس ارتقائی سفر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں
آؤٹ سورسنگ ایک جدید تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کمپنی دوسرے کمپنی کے وسائل کو اپنے حق میں استعمال کرے:
Outsourcing means going “out” to find the “source” of what you need.
آؤٹ سورسنگ دراصل استثمار (utilization) کی جدید صورت ہے۔اس لفظ کا باقاعدہ استعمال 1989 میں مغرب میں صنعت و تجارت کے میدان میں شروع ہوا۔ قدیم زمانے میں استثمار کی ایک ہی صورت تھی، اور وہ تھی فوجی استثمار یا سیاسی استثمار۔ یعنی پہلے طاقت کے زور پر دوسروں کے اوپر قبضہ کرنا، اور پھر دوسروں کے وسائل کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔
لیکن موجودہ زمانے میں جدید وسائل کی دریافت نے آؤٹ سورسنگ کے تصور کو بدل دیا ہے۔ اب تنظیم (organization) نے یہ ممکن بنادیا ہے کہ فوجی یا سیاسی طاقت کا استعمال کیے بغیر پر امن منصوبہ بندی کے ذریعہ آؤٹ سورسنگ کا فائدہ بڑے پیمانے پر حاصل کیا جائے۔
موجودہ زمانے میں بڑی بڑی کمپنیاں اس طریقے کو وسیع پیمانے پر استعمال کررہی ہیں۔ لیکن ان کی آؤٹ سورسنگ مادی انٹرسٹ کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آؤٹ سورسنگ کا ایک اور میدان ہے، اور وہ ہے اسپریچول آؤٹ سورسنگ۔ یعنی دوسروں کے قائم کردہ وسائل کو اپنے روحانی اور ذہنی ارتقا کے لیے استعمال کرنا۔
مثلا آپ ہوائی جہاز کو فضا میں اڑتا ہوا دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ آیت یاد آجاتی ہے : وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ (
تجارتی آؤٹ سورسنگ کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس بہت سے ضروری وسائل موجود ہوں۔ ضروری مادی وسائل کے بغیر آپ کسی کے انفراسٹرکچر سے آؤٹ سورسنگ نہیں کرسکتے۔ مگر اسپریچول آؤٹ سورسنگ کے لیے کسی قسم کی کوئی شرط ضروری نہیں۔ اس کے لیے صرف ایک ہی چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے آپ کے اندر ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) کا موجود ہونا۔
اگر آپ کے اندر ارتقا یافتہ ذہن موجود ہو تو آپ کسی قسم کے ظاہری اسباب کے بغیر ہر واقعہ سے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کرسکتے ہیں۔ مادی آؤٹ سورسنگ کی ایک حد ہوتی ہے۔ لیکن اسپریچول آؤٹ سورسنگ کی کوئی حد نہیں۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا میدا ن پوری کائنات ہے۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یونیورسل آؤٹ سورسنگ کے ہم معنی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ موجودہ زمانےکا کمیونی کیشن دوسرے الفاظ میں آؤٹ سورسنگ کے لیے عالمی وسائل کے استعمال کو ممکن بناتا ہے۔ ابتدائی طور پر انسان اپنے سوچنے کی طاقت کو استعمال کرکے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا عمل شروع کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے آس پاس کے وسائل کو اسپریچول آؤٹ سورسنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) اس کو اس مقام تک پہنچاتا ہے کہ وہ ساری کائنات کو اپنے لیے اسپریچول آؤٹ سورسنگ کا ذریعہ بنا لے۔
اسپریچول آؤٹ سورسنگ کی کوئی حد نہیں۔ جہاز کی پرواز کی ایک حد ہوسکتی ہے، لیکن انسان کی ذہنی پرواز کی کوئی حد نہیں۔ اسپریچول آؤٹ سورسنگ میں وہ چیز بھی پوری طرح شامل ہے جس کو دعوتی آؤٹ سورسنگ کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ کے طریقے نے اس کو ممکن بنادیا ہے کہ دعوت کا کام کسی سیاسی طاقت کے بغیر عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
خالق نے انسان کو احسن تقویم (التین4:) کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کے بعد اس کو اسفل سافلین (suffering) میں ڈال دیا۔ یہ معاملہ کسی سزا کے لیے نہیں ہوا، بلکہ رحمت کے لیے ہوا۔ اس لیے کہ انسان کو بے پناہ امکانات (potential) کے ساتھ پیدا کیا گیاہے۔ خالق چاہتا ہے کہ اس کے یہ امکانات واقعہ بنیں۔ اور آزاد انسان کے لیے اپنے امکانات کو واقعہ بنانے کا یہی واحد کورس ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، مصیبت سے آدمی کی حساسیت جاگتی ہے۔ حساسیت سے سوچ پیداہوتی ہے۔ اور پھر سوچ نئی دریافت تک پہنچتی ہے:
suffering produces sensitivity, sensitivity leads to greater thinking, and thinking results into discovery.
مذکورہ معاملہ کو اس زاویہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ سفرنگ (suffering) انسان کے لیے نعمت (blessing) ہے۔ سفرنگ کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے پوٹنشیل (potential) کو واقعہ (actual) بناسکے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے انسان کے فطری امکانات ظہور میں آتے ہیں۔ یہ عمل (process) مین (man) کو سوپر مین (superman) بنانے والا ہے۔
تاریخ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ تاریخ میں جتنے بڑے بڑے آرٹسٹ ہوئے ہیں، وہ سب سفرنگ سے گزر کر آرٹسٹ بنے ہیں۔مثلاً جان ملٹن (–1608-1674)انگلش زبان کا ایک عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ یہ درجہ اس کو اس کی کتاب فردوس گم گشتہ (Paradise Lost) کی وجہ سے ملا۔ یہ کتاب چھ سال میں مکمل ہوئی ۔ اندھا ہوجانے کی وجہ سے وہ خود اپنے ہاتھ سے لکھ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اس کتاب کو املا کرایا:
Milton wrote Paradise Lost entirely through dictation with the help of amanuenses and friends.
واپس اوپر جائیں
اسلام میں زندگی کا جو تصوردیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس دنیا کے بنانے والے نے اس دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ عسر کے ساتھ یُسر موجود رہتا ہے۔ ایک اعتبار سے اگر مشکل ہو تو دوسرے اعتبار سے آسانی بھی یہاں ضرور پائی جائے گی۔ اسی کا نام اسلامی حکمت ہے۔ یعنی اسلامی حکمت (Islamic wisdom)کا مطلب ہےعسر میں یُسر کو دیکھنا۔ اس کا تعلق ایک شخص کی ذاتی زندگی سے بھی ہے، اور پوری ملت کی اجتماعی زندگی سے بھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں ایک سنت وہ ہے جو ہجرت کے بعد کے واقعات سے معلوم ہوتی ہے، اور وہ ہے منفی اسباب کے باوجود مثبت بنیاد پر منصوبہ بنانا۔ ہجرت کے بعدمسلمان زخم خوردہ تھے۔ اُس وقت آپ کے لیے ایک آپشن یہ تھا کہ آپ وکٹمائزڈ کمیونٹی(victimized community) کے جذبات (sentiment) کو لے کر اپنا منصوبہ بناتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ وسیع تر دنیا میں جو مواقع ہیں، ان کو لے کر منصوبہ بنانا۔ پیغمبر اسلام نے پہلے آپشن کو چھوڑا اور دوسرے آپشن کی بنیاد پر اپنا دعوتی منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ پوری طرح کامیاب رہا۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ مسلمانوں کے سامنے یہی دو آپشن تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی بڑائی (political glory) ختم ہوگئی تھی۔ مسلمان اس وقت شکایات (grievances) کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے تھے۔ وہ ایک قسم کی وکٹمائزڈ کمیونٹی بن چکے تھے۔ دوسری طرف ملت کے باہر جو دنیا ہے ، اس میں نہایت بڑے بڑے مواقع کھل گیے ہیں۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شکایتی نفسیات کو لے کر ان کا عملی منصوبہ بنایا جائے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ دورحاضر کے نئے مواقع کی بنیاد پر مسلمانوں کا ملی منصوبہ بنایا جائے۔پہلی قسم کا منصوبہ سنت رسول کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ کبھی کامیاب ہونے والا نہیں، اور دوسرا منصوبہ سنت رسول کے مطابق ہے، اس لیے اس کی کامیابی یقینی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (
قرآن کی اس آیت میں سبیل اللہ کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے۔ اس کا تعلق مخصوص طور پر حالت قتال سے نہیں ہے۔بلکہ یہ حکم عام ہے۔یعنی دینی زندگی اختیار کرنے کے بعد دنیا میں جو مصائب و شدائد پیدا ہوتے ہیں، اس پر انھوں نے استقامت کا طریقہ اختیار کیا۔
صبر کا لفظی مطلب برداشت کرنا ہے۔ دانش مند انسان کے لیےیہ برداشت برائے برداشت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک اسٹراٹیجی (strategy) ہوتی ہے۔ یعنی وقتی صورت حال کو نظر انداز کرتے ہوئے مستقبل کا نقشہ بنانا، وقتی حالات سے اوپر اٹھ کر غیر متاثر ذہن کے ساتھ دوبارہ سوچنا، اور یہ معلوم کرنا کہ پیش آمدہ حالات میں زیادہ موثر عمل کیا ہوسکتا ہے۔ صبر کا مطلب پسپائی نہیں ہے، بلکہ زیادہ بہتر اقدام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک طریق عمل کارگر ثابت نہیں ہوا تو اس کے بعد یہ دریافت کرنا کہ دوسرا زیادہ موثر طریقِ عمل کیا ہوسکتا ہے۔
صبرکی حقیقت یہ ہے کہ آدمی حالات کا شکار (victim)نہ بنے، وہ حالات سے غیر متاثر رہ کر سوچے، وہ رد عمل (reaction) سے اوپر اٹھ کر مثبت ذہن کے ساتھ منصوبہ بندی کرے۔ انسان کی زندگی میں ایسی صورتِ حال بار بار پیش آتی ہے۔انفرادی زندگی میں بھی اوراجتماعی زندگی میں بھی۔ اس طرح کی صورتِ حال میں جو شخص مذکورہ معنوں میں صبر کا ثبوت دے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
نئے زمانے میں جو چیزیں وجود میں آئی ہیں ، ان میں سے ایک جمہوریت (democracy) ہے۔جمہوریت صرف ایک سیاسی نظریہ نہیں، جمہوریت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ جمہوریت نے پہلی بار دنیا میں ہر قسم کی اجارہ داری (monopoly) کومکمل طور پر ختم کردیا۔ جمہوریت کا دور دوسرے الفاظ میں ختم اجارہ داری کا دور (age of demonopolization) ہے۔ جمہوری دور میں ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone) کا نظام رائج ہے۔ جمہوری دور گویامواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔
جمہوریت کو عام طور پر ایک سیاسی نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ عملا یہ رائے درست ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے جمہوریت ایک مکمل کلچر کا نام ہے۔جمہوریت سے پہلے کے دور میں دنیا میں بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ بادشاہت کے نظام کے تحت ہر چیز بادشاہ کی اجارہ داری بنی ہوئی تھی۔ مگر جب لمبی جدوجہد کے بعد بادشاہت کا دور ختم ہوا تو یہ صرف ایک سیاسی واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک وسیع تر معنوں میں پوری زندگی کا معاملہ تھا۔ اس کے بعد مختلف ہم عصر عوامل کی بنا پر ایسا ہوا کہ بادشاہت کے نظام کا خاتمہ ، اجارہ داری کے نظام کے خاتمہ کے ہم معنی بن گیا۔ جمہوریت نے جس طرح سیاسی اجارہ داری کے کلچر کو ختم کیا اسی طرح فطری طور پر ایسا ہوا کہ اجارہ داری کی دوسری قسمیں بھی ختم ہوگئیں۔
اب اکیسویں صدی میں اجارہ داری کا دور عملاً پوری طرح ختم ہوچکا ہے۔ حقوق انسانی کے موجودہ تصور کے مطابق آج ہر چیز ہر انسان کی ہے۔ اس عموم میں صرف ایک استثنا (exception) ہے، اور وہ تشدد (violence) ہے۔ اگر آپ پر امن رہیں تو آج کی دنیا میں ہر دروازہ آپ کے لیےکھلا ہوا ہے، حتی کہ کوئی بھی دروازہ کسی کے لیے بند نہیں۔ الاّ یہ کہ آدمی اپنی غلطی کی بنا پر کسی دروازے کو خود اپنے اوپر بند کرلے۔
واپس اوپر جائیں
سیکولرزم کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک ہے سیکولر فلاسفی، اور دوسری چیز ہے سیکولرپالیسی۔ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔ جو لوگ اِس فرق کو نہ سمجھیں، وہ سیکولرزم کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
سیکولرفلاسفی ابتداء ً اُن لوگوں کے ذہن کی پیداوار تھی جو ملحدانہ سوچ کا شکار تھے۔ مگر بعد کو فلسفے سے الگ ہوکر سیکولرزم، جمہوری نظام کی عملی پالیسی بن گیا۔عملی پالیسی کی حیثیت سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ— مذہبی اُمور کو لوگوں کی انفرادی آزادی کا معاملہ قرار دے دینا، اور مشترک مادّی مفادات کو اسٹیٹ کے دائرے کی چیز سمجھنا۔
قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی کو لوگوں کا ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار دے دیا گیا ہے۔ سیکولر پالیسی دراصل لوگوں کی اِسی مذہبی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ ایک مذہبی گروہ دوسرے مذہبی گروہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ وہ ان کو مذہبی تعذیب(religious persecution) کا شکار بناتا تھا۔ جدید جمہوریت میںاِس کے برعکس، سیکولر پالیسی کو اختیار کیا گیا، یعنی مشترک مادی امور کو ریاست کے دائرے میں رکھنا اور مذہب اور کلچر کے معاملے میں لوگوں کو کامل آزادی عطا کرنا۔
ہر معاشرے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ سیکولر زم ایک عملی پالیسی کی حیثیت سے قیامِ امن کی یہی تدبیر ہے۔ اِسی تدبیر نے موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کو قدیم طرز کی مذہبی لڑائیوں سے بچایا ہے۔ چنانچہ انڈیا سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک سیکولر اسٹیٹ کے اصول کو اختیار کیاگیا۔ اِس کا مطلب مذہبی مخالفت نہیں، بلکہ مذہبی عدم مداخلت ہے۔ چناںچہ اِن ملکوں میں ہر مذہبی گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں جو چیز ممنوع ہے، وہ صرف تشدد ہے، نہ کہ اپنے مذہب پر عمل۔
سیکولر زم کے معاملے میں جو لوگ منفی ذہن رکھتے ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ سیکولر فلاسفی اور سیکولر پالیسی، دونوں کو ایک کرکے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
سیکولرزم کے بارے میں منفی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سیکولر پالیسی کو صرف مشترک مادی امور تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کو مذہبی مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب مخالفِ مذہب حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی کی پابند ہے۔ اِس معاملے میں ساری غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے عدم مداخلت کو مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔
اِس معاملے کا ایک پہلو اور ہے۔ وہ یہ کہ مذہبی آزادی کے اصول میں بیک وقت دو قسم کی آزادی شامل ہے— مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ۔ موجودہ زمانے کے تمام سیکولر ملکوں میں یہ دونوں قسم کی آزادی لوگوں کو مکمل طورپر ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مذہبی گروہ انفرادی طورپر اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مذہبی گروہوں کے درمیان اپنے مذہب کی پُرامن تبلیغ پوری طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ آزادی اِس حد تک حقیقی ہے کہ اِن ملکوں میں بہت سے لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں اور ان پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاً امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ امریکی، اسلامی مذہب کو اختیار کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو سیکولر پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ بَر وقت انفرادی دائرے میں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یہ کوشش کرسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے فکر اور عقیدے کو بدل سکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک آیت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی راہ میں کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔ اس نے تم کو چنا ہے۔ اور اس نے دین کے معاملہ میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ اس سے پہلے اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور اللہ کو مضبوط پکڑو، وہی تمہارا مالک ہے۔ پس کیسا اچھا مالک ہے اور کیسا اچھا مدد گار۔ (الحج
یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف معاصر اہل ایمان سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پوری امت مسلمہ کو خطاب کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں دینی کام کرنا ہے۔ یہ دور پچھلے ادوار کے برعکس تنگی کا دور نہیں ہوگا، بلکہ وہ آسانی کا دور ہوگا۔ اس واقعہ کو قرآن کی ایک اور آیت میں دعا کے اسلوب میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا (
مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ امت مسلمہ کا جہاد (مشن) کیا ہوگا۔ وہ مشن یہ ہوگا کہ پیغمبر کے دعوتی کام کو نسل در نسل قیامت تک جاری رکھنا۔ یہ مشن وہی تھا، جو تمام نبیوں کا مشن تھا، یعنی انذار اور تبشیر کا مشن۔ تاریخ کے پچھلے ادوار میں فتنہ (religious persecution) کی وجہ سے ، پچھلے اہل ایمان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا، جو مکمل طور پر قدیم قسم کی مشکلات سے پاک تھا۔ اکیسویں صدی میں یہ دور اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ اب پیغمبر کے دعوتی مشن کو یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جاسکتا ہے، جب کہ قدیم زمانے میں اس کو عُسر (مشکل) کے حالات میں انجام دینا پڑتا تھا۔
واپس اوپر جائیں
اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ حالات بدلنے کے بعد ابتدائی حکم کی نئی تطبیق (new application) تلاش کی جائے۔ مثلاً جدید طرز کے صنعتی موزوں کے وجود میں آنے کے بعد اس پر قدیم طرز کے جراب کے حکم کو منطبق کرنا، وغیرہ۔
اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ لیکن اس اندیشہ کی بنا پر کبھی اجتہاد کے عمل کو روکا نہیں جائے گا۔ صرف یہ کہا جائے گا کہ اجتہاد کے لئے اخلاصِ نیت کو ضروری قراردیاجائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی مومن اجتہاد کرلے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس پر اس کو دہرا ثواب ملے گا (أصاب فلہ أجران)، اور اگر وہ اخلاص نیت کے باوجود اجتہاد میں غلطی کرجائے تو اس کو اس کے اجتہاد پر ایک ثواب ملے گا (أخطأ فلہ أجر) صحیح البخاری، حدیث نمبر7352۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے معاملہ میں ہمیشہ غلطی کا امکان رہتاہے حتی کہ بڑے بڑے اہل ایمان نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ جب اس پر اجتہاد کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور وہ اپنی رائے کو درست کرلے۔
اجتہاد ایک تعمیری عمل ہے۔ اجتہاد سے لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب اجتہاد کا عمل رک جائے تو یقینی طورپر لوگوں کے اندر ذہنی جمہود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا اور ذہنی جمود بلا شبہہ اسلام میں ایک غیرمطلوب چیز ہے۔ جب کوئی آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اجتہاد کرے تو فطری طورپر ایساہوگاکہ وہ معاملہ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے گا، وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لے گا۔ وہ اس موضوع پر کتابوں کا مطالعہ کرے گا۔ وہ اہلِ علم سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرے گا۔ یہ تمام چیزیں اخلاص نیت میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کا ہونا اخلاص نیت کا ثبوت ہے اور ان چیزوں کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر اخلاص نیت (فکری سنجیدگی)موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں جب ملتِ یہود کا زوال آیا تو اللہ نے ان کے اوپر طاقت ور بندے بھیج دیے (الاسراء 5:)۔یہ واقعہ دوبار ہوا۔ ایک بار
یہود کی زندگی میں یہ تنبیہی دور لمبی مدت تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں یہود کے اندر مذہبی اصلاح تو نہیں آئی۔ کیوں کہ زوال کے دور میں انھوں نے جس قومی کلچر کو مذہب کےنام سے اختیار کر رکھا تھا۔ اسی کو وہ موسوی مذہب سمجھتےتھے۔ البتہ سیکولر معنی کے اعتبار سے ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئی، اور انھوں نے امریکا و یورپ کے ملکوں میں سائنسی تعلیم حاصل کی، اور یہ جانا کہ دورِ جدید کیا ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر معنوں میں وہ جدید معیار کے مطابق ایک ترقی یافتہ قوم بن گیے۔ یہود کی تاریخ کا یہ مثبت پہلو موجودہ اسرائیل میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمان بھی اسی تنزل کے دور سے گزر رہے ہیں، اور دوبارہ ان پر اسی طرح اللہ کی طرف سے تنبیہات آ رہی ہیں، جس طرح یہود کے اوپر آئی تھیں۔ موجودہ زمانہ میں جن چیز وںکو ’’اغیار کا ظلم‘‘ کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اغیار کا ظلم نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے آنے والی تنبیہات ہیں۔ تاکہ مسلمان بیدار ہوں اور دوبارہ اصل دینِ اسلام کی طرف لوٹیں۔
لیکن عملاً دوسری بار بھی یہی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے اندر صحیح معنوں میں دینی بیداری نہیں آرہی ہے۔ کیوں کہ اس وقت ان کے اندر دین اسلام کے نام پر جو قومی کلچر رائج ہے، مسلمانوںنے اسی کو اصل دین محمدی سمجھ لیا ہے۔ اس بنا پر وہ اس کے اوپر شدت کے ساتھ قائم ہیں۔
مگر یہاں مسلمانوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آرہا ہے، جو اس سے پہلے یہود کے ساتھ پیش آیا۔ یعنی ان تنبیہات کے بعد سیکولر بیداری۔ چناں چہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ وہ سیکولر تعلیم کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ وہ جدید دور میں ترقی یافتہ بننےکی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہ صرف سیکولر معنی میں ہے۔ یعنی پروفیشنل تعلیم ، سیکولر میدان میں ترقی، اور دورِ جدید میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش۔
یہ بات ہر جگہ کے مسلمانوں میں نظر آرہی ہے۔ اگر چہ یہ سیکولر احیاء یہود کےمقابلے میں بہت کم ہے۔ یہود موجودہ زمانے میں سیکولر پہلو سے پورے معنوں میں ایک ترقی یافتہ قوم (developed nation) بن چکے ہیں۔ جب کہ مسلمانوں نے ابھی تک اس راہ میں صرف اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دینی شعور کے اعتبار سے ابھی تک ان کے اندر کوئی قابل ذکر احیاء کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم سیکولر اعتبار سے زمانی دباؤ کے نتیجے میں انھوں نے اپنا سفر شروع کردیا ہے، اگرچہ رفتار بہت سست ہے۔
اس معاملے میں اصل غلطی عام مسلمانوں کی نہیں ہے، بلکہ ان کے نام نہاد رہنماؤں کی ہے۔ ان کے رہنما مسلسل طور پر ایک الٹا کام کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے اوپر جو تنبیہات آرہی ہیں، وہ اللہ کی طرف سے برائے اصلاح ہیں۔ لیکن مسلم رہنما اپنی بے شعوری کی بنا پر ان خدائی تنبیہات کو دوسری قوموں کے ظلم کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں۔
وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو یہ باور کرارہے ہیں کہ موجودہ زمانے کی غیر مسلم قومیں تمھاری دشمن ہوگئی ہیں۔ وہ تمھارے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ وہ تم کو ترقی کے راستے سے روکے ہوئے ہیں، وغیرہ۔اس معکوس رہنمائی کے اندر دوہرا نقصان پایا ہے۔ ایک طرف یہ کہ یہ رہنمائی مسلمانوں کے اندر اصلاح کا طاقت ور محرک پیدا ہونے میں مستقل رکاوٹ ہے، اور دوسری طرف یہ کہ وہ اللہ کے منصوبہ (scheme of things) میں خلل کے ہم معنی ہے۔
اس طرح یہ رہنما اللہ کے تخلیقی منصوبہ میں مداخلت (intervention) کے مجرم بن رہے ہیں۔یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب کوئی امت تنزل کا شکار ہو تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے شاک ٹریٹمنٹ کے طور پرتنبیہات آئیں۔ یہ تنبیہات اصلاح کے لیے ہوتی ہیں، لیکن جب ان تنبیہات کو ظلم یا سازش کا نام دیا جائے توان کی تاثیر عملاً ختم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں
لوہارلوہے کو آگ میں ڈال کر تپاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوہا رگرم ہوکر لال ہو جاتا ہے۔ اس وقت لوہار ہتھوڑا مار کر لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بناتا ہے، چپٹا یا گول یا لمبا۔ لوہار اگر لوہے کو گرم کیے بغیر اس پر اپنا ہتھوڑا مارنے لگے تو وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے میں کامیاب نہ ہو۔ اسی سے انگریزی کی مثل بنی ہے کہ لوہے کو اس وقت مارو جب کہ وہ خوب گرم ہو:
To strike the iron when it is hot
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ آدمی کو زندگی میں اکثر کوئی اقدام کرنا پڑتا ہے۔ مگر اقدام سے پہلے ضروری ہے کہ حالات کا بھر پور اندازہ کرلیاجائے۔ اگر حالات پوری طرح تیار ہوں تو اقدام مفید ہوگا، ورنہ وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
لوہاگرم ہونے پر ہتھوڑا مارنے والااپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ جو شخص ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑا مارنے لگے وہ صرف اپنے ہاتھ کو دکھ پہنچائے گا، وہ لوہے کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں
انتہا پسندی (extremism)ایک فطری صفت ہے۔ یہ صفت کسی شخص کے اندر کم ہوتی ہے اور کسی شخص کے اندر زیادہ۔ تاہم انتہا پسندانہ مزاج کا ایک تعمیری پہلو ہے اور دوسرا اس کا تخریبی پہلو۔ اس کا تعمیری پہلو یہ ہے کہ آدمی اصول کےمعاملہ میں سخت حسّاس ہو، وہ دوسروں کے حقوق کے معاملہ میں کمی کو گوارا نہ کرے، وہ حق سے انحراف کو دیکھے تو تڑپ اٹھے۔ وہ اپنی غلطی کو شدید طورپر محسوس کرتاہو۔ وہ اپنی کوتاہی کے معاملہ میں اس سے زیادہ شدید ہوجتنا کہ کوئی شخص دوسروں کی کوتاہی کے معاملہ میں شدید ہوتا ہے۔ یہ انتہا پسندی صحت مند انتہا پسندی ہے۔
انتہا پسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ منفی رخ اختیار کرے۔ وہ اپنے اس جذبہ کی بنا پر دوسروں سے نفرت کرے۔ وہ دوسروں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔ وہ اصلاح کے نام پر جنگ اور قتل شروع کردے۔ یہ انتہا پسندی کی قابلِ اعتراض صورت ہے۔جب انتہا پسندی اس قسم کی منفی صورت اختیار کرلے تو عملاً وہ ایک برائی (evil) بن جاتی ہے، نہ کہ کو ئی خیر(good)۔
حساسیت (sensitivity) انسان کی خاص صفت ہے۔ اس صفت کا تعمیری استعمال دنیا میں بھلائی لاتا ہے۔ اس کے برعکس جب اس صفت کا غلط استعمال ہونے لگے تو دنیا برائی سے بھر جاتی ہے۔ انتہا پسندی کا مزاج ہمیشہ محاسبہ کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ محاسبہ اپنے خلاف ہوناچاہئے۔ اس کے برعکس، اپنی کوتاہیوں سے غافل رہنا اور دوسروں کی کوتاہی پر ان سے لڑائی شروع کردینا، سخت گناہ کی بات ہے۔پہلا کردار اگر ثواب کا موجب ہے تو دوسرا کردار آدمی کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ آخرت میں اس کا سخت مواخذہ کیا جائے۔خالق نے کوئی چیز بے سبب پیدا نہیں کی۔ انتہاپسندانہ فطرت کا بھی ایک مقصد ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اصول پسندی کے معاملے میں سخت محتاط ہو، لیکن اس فطری جذبے کا غلط استعمال کیا جانے لگے تو وہ خدا کے نزدیک ایک گناہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے زوال کے بارے میں پیشین گوئی کے طور پر کہا تھا کہ تم لوگ ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بقدم۔ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں، توتم بھی اس میں گھس جاؤگے (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔
گوہ (Monitor Lizard) کے بل میں گھسنا ایک بے عقلی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اگر اپنے دورِ زوال میں کوئی بے عقلی کا کام کیا ہوتو تم اس کو بھی دہراؤگے۔دورِ زوال میں یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر عقلی غور و فکر کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے زوال یافتہ مزاج کے تحت ایسے کام کرنے لگتے ہیں، جس کا عقل سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ یہود اپنے دور زوال میں ایک فعل کرتے تھےجس کو فَرضی قصُور وار (scapegoat) ٹھہرانا کہا جاتا ہے۔یعنی اپنی غلطی کو فرضی طور پر کسی دوسرے کے اوپر ڈالنا۔ یہود کے حوالے سے اس معاملے کی ایک مثال بائبل ، عہدنامہ قدیم میں اس طرح آئی ہے:
The other goat, the scapegoat chosen by lot to be sent away, will be kept alive, standing before the Lord. When it is sent away to Azazel in the wilderness, the people will be purified and made right with the Lord. (Leviticus 16:10)
فرضی طور پر کسی دوسرے کو قصور وار (scapegoat) ٹھہرانا موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں بہت زیادہ عام ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنی تمام کمیوں اور غلطیوں کے لیے کسی نہ کسی مسلم دشمن کو دریافت کیے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے خود ساختہ طور پر ایک اصطلاح وضع کررکھی ہے، جس کووہ دشمنان اسلام کی سازش کہتے ہیں۔ اسی روش کا دوسرا خود ساختہ نام اسلاموفوبیا (Islamophobia)ہے— اسلاموفوبیا دراصل اسکیپ گوٹ فوبیا (scapegoat) کا دوسرا نام ہے۔ یہ ظاہرہ حدیث رسول کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔
واپس اوپر جائیں
آج کل ہر پڑھا لکھا مسلمان ایک بات بولتا ہے— اس وقت اسلام کا سب سے بڑا کام امیج بلڈنگ ہے، یعنی بگڑی ہوئی تصویر کو درست کرنا۔ یہ کام بذات خود ایک اہم کام ہے۔ لیکن اسلام کی تصویر بگاڑنے والا کون ہے۔ اس سوال کا جواب ہر ایک یہ دے گا کہ مسلم دشمن طاقتیں اسلام کی تصویر کو بگاڑنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ اسلا م کے مخالفین کی سازش (conspiracy)کا نتیجہ ہے۔ ہر لکھنے اور بولنے والا مسلمان اس موضوع پر جب لکھتا یا بولتا ہے تو وہ ہمیشہ اسی قسم کی بات کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کہنے اور لکھنے والے لمبی مدت سے یہ بات بول رہے ہیں، اور لکھ رہے ہیں، لیکن ان کی ساری کوششیں بے نتیجہ ثابت ہورہی ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے اسلام کی تصویر کو درست کرنے میں ایک فی صد بھی کامیابی نہیں ہوئی۔
اس ناکامی کا سبب خود مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ ہے۔ یہ لوگ مفروضہ اسلام دشمنوں کی مفروضہ دشمنانہ باتوں کا انکشاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود مسلمان اسلام کے نام پر غلط کام کرتے ہیں۔ مثلا اپنی قومی لڑائی کو اسلامی جہاد کا نام دینا، وغیرہ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کی تصویر لوگوں کی نظر میں بگڑ گئی ۔ اس لیے اس معاملے میں اصلاحی کوشش کا اصل نشانہ مسلمانوں کو بنانا چاہیے ، نہ کہ مفروضہ اسلام دشمن طاقتوں کو۔
امیج بلڈنگ کا کام اگر دوسروں کے خلاف پروٹسٹ سے شروع کیا جائے تو وہ یقینا بے نتیجہ رہے گا۔ صحیح یہ ہے کہ امیج بلڈنگ کے کام کو خود مسلمانوں سے شروع کیا جائے۔ مثلاً لوگوں کو بتایا جائے کہ اسلام اور مسلمان دونوںکا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔مسلمانوں سے یہ کہا جائے کہ تم جہاد کے نام پر قومی لڑائی کو بند کرو۔ تم رسول اللہ کے خلاف گستاخی کے نام پر قتل کا فتویٰ دینااور احتجاج کرنا بند کرو، وغیرہ۔صحیح طریقہ مسئلہ کو حل کرتا ہے، اور غلط طریقہ مسئلہ میں اضافہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
فطرت کے قانون کے مطابق، انسان اپنی عمر کے تقریبا چالیس سال تک بڑھاپے سے پہلے کے دور میں ہوتا ہے۔ چالیس سال کے بعد اس کے اوپر عملاً بڑھاپے کا دور شروع ہوجاتا ہے، جو قانون فطرت (law of nature) کے تحت کسی بھی وقت اُس کو اِس دنیا سےجدا کردینے والا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
سفینہ بنا رکھیں طوفاں سے پہلے
یہ اصول زیادہ بہتر طور پر انسان کی عمر کے معاملے میں چسپاں (apply) ہوتا ہے۔ یعنی ہر انسان کو چاہیے کہ بڑھاپے سے پہلے کے دورِ حیات میں وہ اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرلے۔ کیوں کہ بڑھاپے کے بعد کے دورِ حیات میں کسی کے لیے یہ موقع باقی نہیں رہتا کہ وہ آخرت کے لیے مطلوب قسم کی تیاری کرسکے۔
تاہم چالیس سال کے بعد کسی انسان کے لیے عمر کا جو دور آتا ہے، وہ اس کی زندگی کا بہترین حصہ ہوتا ہے۔ اس دور میں وہ زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر پختگی (maturity) آجاتی ہے۔ اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) اپنی تکمیل کے دور میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کو ایسے تجربات (experiences) حاصل ہوجاتے ہیں، جو اس کی صحیح طرز فکر کے لیے رہنما بن سکیں۔
چالیس سال کے بعد کسی انسان کی زندگی میں جو دور آتا ہے، وہ اس کے لیے آخرت کی تیاری کا بہترین دور ہوتا ہے۔ اب عملاً وہ فطری انسان (man cut to size)بن چکا ہوتا ہے۔ اب اس کے پاس زیادہ تیار ذہن (prepared mind)ہوتا ہے، جس کی روشنی میں وہ زیادہ درست طور پر اپنے مستقبل کا نقشہ بنا سکے۔چالیس سال کےبعد کی عمر میں زیادہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی بے خطا انداز میں اپنے آپ کو آخرت کے لیے تیار کرسکے— دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کرے، اور غیر دانش مند وہ ہے جو اپنے اس حصۂ عمر کو استعمال کیے بغیرکھودے۔
واپس اوپر جائیں
ہر مسئلے کا یقینی حل ہے، بشرطیکہ مسئلے کو صحیح اصول کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ یہ دریافت کیا جائے کہ جو ہوا اس کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ اکثر حالات میں مسئلے کے حل کا آغاز یہ ہوتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرے کہ اصل غلطی خود اس کی ہے، کسی دوسرے کی نہیں۔
مثلا لَو میرج (love marriage)میں نکاح کے وقت شادی کا معاملہ بظاہر محبت کا معاملہ معلوم ہوتا ہے، لیکن نکاح کے بعد شادی کا معاملہ عملاً ذمہ داری کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے، اور فطرت کے اصول میں کوئی تبدیلی نہیں۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو نکاح کا وہی طریقہ درست ہے جس کو ارینجڈ میرج (arranged marriage)کہا جاتا ہے۔ لَومیرج اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک جذباتی میرج ہے، جس کو غلط طور پر لَو میرج کا نام دے دیا گیا ہے۔ لَومیرج کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں طرفَین کے خاندان کی ذمہ داری عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ اب ذمہ داری کا سارا معاملہ صرف دو ناتجربہ کار نوجوانوں کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لَو میرج بعد کو اکثر ناکام ثابت ہوتی ہے۔
اگر کسی کی لَو میرج پرابلم میرج بن جائے تو اس کے بعد اس کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے مسئلے کا ذمہ دار وہ خود اپنے آپ کو قرار دے، نہ کہ کسی دوسرے کو ۔ ایسا کرنے کے بعد اس کا ذہن صحیح رخ پر کام کرنے لگے گا۔اس کا رویہ حقیقت پسندانہ رویہ بن جائے گا۔ اس کے اندر منفی سوچ باقی نہیں رہے گی۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر اللہ سے قائم ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسا کرے تو امیدہے کہ دھیرے دھیرے اس کے معاملات درست ہوجائیں گے۔
زندگی کبھی جذبات کی بنیاد پر نہیں چلتی، زندگی ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist)نہ بنے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کو جانے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہ جانیں، وہ ہمیشہ شکایت (complaint) میں جئیں گے، وہ اپنی زندگی کو کامیاب زندگی بنانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ اصول ایک فرد کے لیے بھی درست ہے، اور پوری قوم کے لیے بھی درست۔
ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان فطرت کا ایک اصول ہے۔ نکاح کے ذریعہ زوجین کے درمیان ایک خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے قریبی طور پر شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے فکری ساتھی (intellectual partner) بن کر زندگی کا وہ رول ادا کریں، جو خالق کےنقشے کے مطابق ان سے مطلو ب ہے۔
نکاح کا تعلق دو انسانوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ سماج کا ایک مقدس یونٹ بنیں۔ وہ خاندان کی سطح پر پورے سماج کے لیے ایک ماڈل بن جائیں۔ وہ سماج کی تشکیل میں ایک ایسا تعمیری حصہ ادا کریں، جو صرف ایک خاندان کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے تو ہر سماج ایک درست سماج بن جائے گا— یہی سماجی زندگی کی صالح تعمیر کا واحد طریقہ ہے۔
تیاریٔ ذہن یا نفاذِقانون
عرب ویڈیو ٹیپ کو فیدیو تیب (مسجلۃ تلفزیونیۃ) کہتے ہیں۔ عرب سے آئے ایک شخص نے کہا کہ بعض عرب ملکوں میں سنیما ہاؤس پر پابندی لگادی گئی ہے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گھر میں لوگوں نے وی سی آر لگا لیا ہے، اور اس کے اوپر ہر قسم کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا:’’آپ باہر سنیما ہاؤس بند کریں گے تو گھر میں سنیما ہاؤس کھل جائے گا۔‘‘
معاشرہ کا ذہن جب تک تیار نہ کیا گیا ہو تو اوپر سے اصلاحی احکام نافذ کرنے کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
(ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں
اکثر لوگ خود داری اور عزت نفس (self-respect) کی اصطلاح میں سوچتے ہیں۔ اس سوچ کے تحت وہ کئی بار ایسی روش اختیار کرتے ہیں، جو عملا تکبر (arrogance) کے ہم معنی ہوتی ہے۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو اپنے عزت نفس کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہے۔ ایسا نہ کرنے کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ آدمی خود اپنی نگاہوں میں اپنے آپ کو ذلیل کرلے۔ مگر یہ سوچ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔
وہ چیز جس کو عزت نفس کہا جاتا ہے، وہ خود حاصل کردہ (self-attained) چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ دوسروں کی عطاکردہ (externally given) چیز ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی چیز جو آپ کو اسی وقت ملتی ہے، جب کہ دوسرے لوگ آپ کو دینے کے لیے تیار ہوں۔
ایسی حالت میں کوئی شخص اگر اپنی کسی روش کے ذریعہ عزت نفس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایک غیر حقیقی روش اختیار کرتا ہے۔ کیوں کہ جو چیز دوسروں سےملنے والی ہے ،وہ آپ خود سے اپنے لیے حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسا آدمی ایک عمل کرتا ہے، جو اس کے اپنے خیال کے مطابق عزت نفس کے لیے ہوتا ہے، مگروہ عمل دوسروں کی نظر میں تکبر (arrogance) بن جاتا ہے۔ آدمی بطور خود ایک ایسی چیز پانے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کو صرف دوسروں سے ملتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، عزت (respect) کسی کو صرف تواضع (modesty ) کے ذریعہ ملتی ہے، کسی اور تدبیر کے ذریعہ نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:من تواضع للہ رفعہ اللہ (حلیۃ الاولیاء
واپس اوپر جائیں
شکایت ایک نہایت مہلک عادت ہے۔ لیکن اگر آپ با اصول زندگی اختیار کریں تو آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔بے شکایت بننے کا راز کیا ہے۔ اس کا آسان راز یہ ہے کہ آپ ایک آرٹ کو سیکھ لیں۔ اس آرٹ کوایک لفظ میں شکایت کی مثبت توجیہہ (positive explanation of complaint) کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ شکایت کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ یعنی کچھ آپ نے کیا، پھر کچھ دوسرے نے کیا ۔ اس کے بعد وہ واقعہ دونوں کے لیے شکایت کا سبب بن گیا۔ اگر آپ یہ کریں کہ دوسرے کی کوتاہی پر غصہ ہونے سے پہلے اپنی کوتاہی کو دریافت کریں جو فریق ثانی کے منفی رویہ کا سبب بنی۔ تو آپ فوراً بے شکایت (complaint-free) بن جائیں گے۔ اور بے شکایت زندگی یقیناً تمام انسانی خوبیوں کا واحد راز ہے۔
یہ عام مزاج ہے کہ انسان اپنی کوتاہی کو نظر انداز کرتا ہے، اور دوسرے کی کوتاہی کو زیادہ کرکے دیکھتا ہے۔ یہ دوہری سوچ (double thinking) ہے۔ یہی دوہرا مزاج تمام شکایتوںکا اصل سبب ہے۔ اگر انسان یہ کرے کہ وہ دوسرے کو جس نظر سے دیکھتا ہے، اسی نظر سے وہ اپنے آپ کو بھی دیکھنے لگے تو اچانک شکایت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد ہر سماج مثبت سماج بن جائے گا۔
دنیا کے باغ میں کانٹے بھی ہوتے ہیں، اور پھول بھی۔ لیکن باغ کا کلچر یہ ہے کہ کانٹوں کے باوجود پھول بن کر رہو۔ یہی حال انسانی سماج کا بھی ہوجائے گا۔ انسان بھی اسی کلچر کو اختیار کریں گے کہ وہ بظاہر کانٹوں کے باوجود وہ ایک دوسرے کے ساتھ پھول کی مانند بن کر رہیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بے شمار مزید فائدے حاصل ہوں گے۔ سماج کے اندر نفرت اور تشدد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر جگہ تشدد کے بجائے امن دکھائی دے گا۔ ہر سماج ایسا بن جائے گاگویا کہ وہ مردوں اور عورتوں کا ایک زندہ باغ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ابن الاعرابی (وفات
انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ اس بنا پر انسانی دنیا ہمیشہ افکار کا جنگل رہی ہے۔ افکار کے اس جنگل میں انسان کو سوچنا پڑتا ہے، اور یہ جاننا پڑتا ہے کہ اس کی نسبت سے کون سی بات قابل اخذ ہے اور کون سی بات قابل ترک۔ اس بات کو علمی انداز میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حکمت اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی افکار کے ڈھیر میں متعلق کو دریافت کرے، اور غیر متعلق کو چھانٹ کر الگ کردے:
The ability to discover the relevant after sorting out the irrelevant.
مثلا مغربی تہذیب کو لیجیے۔ جدید مغربی تہذیب میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو فطرت کے ابدی قانون پر مبنی ہیں۔ مثلا کشش ارض کا اصول فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس کے مقابلے میں مغربی کلچر ماحول کے اثر سے بنا ہے۔ صاحب فکر آدمی کا کام ہے کہ وہ ان میں تنقیح کرے۔ یعنی خالص کو ردی سے جدا کرکے بیان کرے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے کلام میں وضوح ( clarity) آئے گا۔ اس کو سننے یا پڑھنے والے آدمی کا ذہن ایڈریس ہوگا۔ وہ فیصلہ کرسکے گا کہ وہ درست طور پر کس طرح سوچے، اور درست طور پر کس طرح اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
اس اعتبار سے کلام کی دو قسمیں ہیں۔ منقح کلام اور غیر منقح کلام۔ منقح انداز میں کلام کرنا ، ایک بے حد مشکل کام ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو حکیمانہ طرز فکر کا حامل ہو، وسیع مطالعہ کی بنا پر جس کی پہنچ علوم کے سرے تک ہو گئی ہو۔
واپس اوپر جائیں
ابوتمام الطائی(188 - 231 ھـ)عربی زبان کا ایک مشہور ادیب اور شاعر ہے۔ اس کی پیدائش شام کی ایک بستی جاسم میں ہوئی۔ ایک بار وہ خراسان جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ راستہ میں ہمذان کا علاقہ پڑتا تھا۔ وہاں پر أبو الوفاء ابن سلمة نامی ایک امیر نے ان کو اپنا مہمان بنایا۔ ابھی وہ ہمذان میں ہی تھے کہ شدید برفباری شروع ہوگئی، اور راستہ بند ہوگیا۔ اس موقع پر ابوتمام کو أبو الوفاء ابن سلمة کا کتب خانہ دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ کتب خانہ کافی بڑا تھا۔
اس کتب خانے میں جاہلی اور اسلامی ادوار کے عرب شعرا ء کا کلام موجود تھا۔ ابوتمام نے عرب شعرا کے ان مجموعوں کا مطالعہ شروع کیا،اور ان سے منتخب کرکے پانچ کتابیں تیار کیں۔ ان میں سے ایک دیوان الحماسہ ہے۔ابوتمام کا یہ انتخاب، ابتدائی کلامِ عرب کا ایک اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے۔
Hamasah is considered one of the primary sources of early Arabic poetry.
آدمی کی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی اتفاقی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی کا روٹین معطل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بظاہر ناموافق صورتِ حال ہوتی ہے۔ لیکن اگر آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ کرائسس مینجمنٹ (crisis management)کا فن جانتا ہو تو وہ اپنے وقت کا ایک نیا استعمال دریافت کرسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ نیا استعمال اس کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ بن جائے۔ ایک فارسی ضرب المثل اس طرح ہے:
مشکلى نیست کہ آسان نشود ،مرد باید کہ ہراسان نشود
ہر مشکل آسان ہوسکتی ہے، بشرطیکہ آدمی گھبراہٹ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ کامیاب زندگی کا ایک اعلیٰ اصول ہے۔ آدمی کے حالات ہمیشہ معتدل اور نارمل نہیں ہوتے۔ زندگی میں اکثر کرائسس کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ایسی صورت حال پیش آنے پر اپنے عمل کا نیا منصوبہ بنائے۔ اس طرح وہ اپنے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کرلے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے سوال کیا کہ زندگی میں درست فیصلہ (right decision) کیسے لیا جائے۔میں نے کہا کہ درست فیصلہ مطلق معنوں (absolute sense) میں لینا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درست فیصلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی مستقبل کو جانے۔ چوں کہ انسان مستقبل کو نہیں جانتا ،اس لیے معیاری معنوں میں درست فیصلہ لینا بھی انسان کے لیے ایسے حالات میں عملا ممکن نہیں ہوتا۔
درست فیصلہ نہ لے سکنا ،کوئی عیب کی بات نہیں۔ بلکہ یہ ایک رحمت کی بات ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی مثبت ذہن (positive mind) کے ساتھ جینے والا ہو۔ اگر آپ درست فیصلہ نہ لے سکنے کی بنا پر کسی ناکامی سے دوچار ہوجائیں تو ہر گز غمگین نہ ہوں۔ بلکہ صرف یہ سوچیے کہ میرے فیصلہ میں غلطی کہاں تھی۔ اس طرح آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ معاملے کے مخفی گوشوں کو سمجھ سکیں، اور اپنے معاملے کی زیادہ بہتر منصوبہ بندی کریں۔
یہ مزاج کسی انسان کے لیے بہت مفید ہے۔ کیوں کہ فیصلہ میں غلطی سے اگر کوئی بات بظاہر بگڑ جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ نے پہلے موقع (first chance) کو کھودیا ہے۔ لیکن جب آپ مثبت سوچ پر قائم ہوں تو آپ کا ذہن فورا یہ دریافت کرلے گا کہ یہاں آپ کے لیے دوسرا چانس (second chance) موجود ہے۔ اس طرح آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ دوسرے موقع کو استعمال کرکے بہت جلد اپنے آپ کو کامیاب بنا سکیں، بلکہ شاید پہلے سے زیادہ کامیاب۔
زندگی میں مواقع کبھی محدود نہیں ہوتے۔ مواقع کی تعداد ہمیشہ بے شمار ہوتی ہے۔ آپ اگر ایک موقع کھو دیں تو پیشگی طور پر یہ یقین رکھیے کہ یہاںآپ کے لیے مزید مواقع موجود ہیں، اور ان کو استعمال کرکے از سر نواپنے آپ کو کامیاب بناسکتے ہیں۔ اسی کانام زندگی کی حکمت (wisdom) ہے، اور حکمت ہی کا دوسرانام کامیابی ۔
واپس اوپر جائیں
صحابیٔ رسول عمر و ابن العاص (وفات
موجودہ دنیا میں انسان کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس لیے موجودہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom) ہے۔ دنیا میں پرابلم آف ایول (problem of evil)کا اصل سبب یہی ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر موجودہ دنیا میں کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے معاملے میں کامل خیر کا انتخاب کرے۔ اس دنیا کے لیے پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) یہ ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ اس کے اقدام کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی کے لیے ہمیشہ کمتر برائی (lesser evil) کے انتخاب کا موقع ہوتا ہے۔ ہمیشہ انسان کے سامنے یہ صورت حال ہوتی ہے کہ وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ ایسی حالت میں آدمی کے لیے دانش مندی یہ ہے کہ وہ بڑی برائی سے بچے اور چھوٹی برائی کا انتخاب کرے۔ اس اصول کا تعلق خاندانی زندگی سے بھی ہے، سماج سے بھی ہے اور نیشنل لائف سے بھی ۔ اکثر حالات میںا یسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی غیر دانش مندی کی بنا پر ایسا انتخاب (choice) لے لیتا ہے جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے بڑی برائی (greater evil) کا سبب بن جاتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یا تو اس قسم کے انتخاب کی غلطی نہ کرے یا اگر اس سے ایسی غلطی ہوگئی ہے تو دوسروں کو برا کہنے کے بجائے خود اپنی غلطی کا عتراف کرے۔ اس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ آدمی کا پہلا اقدام اگر غلط ہوگیا تھا تو وہ دوسری بار صحیح اقدام کرے، وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرکے اپنے آپ کو اور دوسروں کو مزید تباہی سے بچالے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان مورخین نے تاریخ مسلمانان لکھی ہے، تاریخ اسلام نہیں۔میرا سوال یہ ہے اگرتاریخ اسلام لکھی جائے تو اس کے موضوعات کیا ہوں گے۔ (محمد زید،دہلی)
سجواب
تاریخ اسلام دراصل تاریخ پیغمبر کا دوسرا نام ہے۔ رسول اللہ نے اپنی زندگی میں جو کام کیے، وہ اسلام کی تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رسول اللہ نے اپنی زندگی میں جو کام نہیں کیے وہ مسلم تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ براہ راست طور پر اسلام کی تاریخ کا حصہ۔یہ بات اگر متعین طور پر کہی جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کی تاریخ وہ ہے جو تاریخ دعوت ہو۔ جوتاریخ مسلم حکومتوں کی تفصیل بیان کرے، اورجس میں مسلمانوں کی سیاسی سرگرمیوں کی تفصیل ہو، وہ اصلا مسلمانوں کی تاریخ کہی جائے گی، نہ کہ اسلام کی تاریخ ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مشن دعوت الی اللہ تھا۔ دعوت الی اللہ کی نسبت سے جو واقعات پیش آئے وہ اسلام کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان واقعات کا ذکرغیر تفصیلی انداز میں قرآن میں موجود ہے۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، بعد کے زمانے میں مسلمانوں میں لڑائیاں ہوئیں۔ انھوں نے سلطنتیں قائم کیں، انھوں نے قلعے اور محلات بنائے، تہذیبی ترقیاں کیں۔ یہ سب بالواسطہ طور پر اسلام کا حصہ ہوسکتے ہیں، لیکن براہ راست طور پر وہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس حقیقت کا احساس مورخ ابن خلدون (وفات1406:) کو بھی تھا۔ انھوں نے اس کمی کی تلافی کے لیے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ہے: کتاب العبر ودیوان المبتدأ والخبر ۔ مگر ان کی یہ کتاب بھی عملاً تاریخ مسلمین بن گئی، وہ تاریخ اسلام نہ بن سکی۔ یہ ضرورت ابھی تک باقی ہے کہ کوئی صاحب علم تمام متعلقہ حوالوں کا از سر نو مطالعہ کرے اور پھر وہ اسلا م کی تاریخ لکھے۔ تاریخ اسلام وہ ہوگی جو پیغمبر اسلام کے مشن کی تاریخ کو بیان کرے۔
واپس اوپر جائیں
1۔
2۔
3۔ ہم سفر نامی سوشل آرگنائزیشن نے ناکور میں ایک سالانہ جشن کا اہتمام کیا۔ یہ ٹاؤن سہارن پور (مغربی یوپی) سے
4۔18 نومبر 2016 کو تنوجا بنگال ہینڈ لوم (A Govt. of W.B. Enterprise) نے برلا اکیڈمی آف آرٹس اینڈ کلچر کے تعاون سے برلا اکیڈمی میں ہینڈ لوم کی ترقی کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس پروگرام کا عنوان ’BALUCHARI Bengal and Beyond‘ تھا۔ اس کا افتتاح مشہور اداکارہ اور ایم پی آف بانکورہ محترمہ من من سین نے کیا۔ محترم سوپن دیب ناتھ مہمان اعزازی تھے۔ ان کے علاوہ اس پروگرام میں کافی تعداد میں اہم شخصیات نے حصہ لیا۔ سی پی ایس ممبر مس شبینہ علی اور شبانہ خاتون نے اس موقع پر لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کیے، ساتھ ہی سی پی ایس کے مقاصد سے لوگوں کو واقف کرایا۔ تمام شرکاء نے بہت خوشی کے ساتھ لٹریچر قبول کیا۔
5۔ قارئین الرسالہ حلقہ ناگپور و کامٹی کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 4 دسمبر 2016، مسجد امان اللہ سیٹھ، مومن پورہ ناگپور میں ہوئی جس میں 8 افراد نے شرکت کی ۔ میٹنگ میں ایک نئے ممبر سید راشد صاحب نے بھی شرکت کی ۔ موصوف اورنگ آباد CPS کے فعال ممبر ہیں ۔فی الحال ملازمت کی وجہ سے ناگپور میں مقیم ہیں ۔ الرسالہ مشن کے تعلق سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نےکہا کہ ’’میں پہلے ملک کی ایک بڑی جماعت سے جڑا ہوا تھا ۔ اس وقت میرے ذہن میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایات بھری ہوئی تھیں ۔ لیکن جب میں نے مولانا وحیدالدین خان صاحب کو پڑھا تو یہ ساری منفی باتیں میرے ذہن سے نکل گئیں ۔ اب میری سوچ مکمل طور پر ایک پازیٹو سوچ بن گئی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ اس میٹنگ میں دیگر کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
6۔ سویڈن کے مسٹر متھیا (Mattias Dahlkvist) صدر اسلامی مرکز کے فکر پر سویڈن کی امیا یونیورسٹی (Umeå University) سے ریسرچ کررہے ہیں۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں وہ دہلی آئے اور تقریباً ایک ہفتہ دہلی میں ان کا قیام رہا۔ اس دوران انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے کئی ملاقاتیں کیں اور اپنی ریسرچ کے لئے ان سےاستفادہ کیا۔
7۔ دورِ جدید کا ایک ظاہرہ بک فیئر بھی ہے۔ اس کے تحت مختلف مقامات پر بک فیئر لگائے جاتے ہیں۔ جہاں بڑی تعداد میں علم دوست حضرات آکر اپنی پسند کی کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ سی پی ایس کی نیشنل و انٹرنیشنل ٹیموں نے اور گڈ ورڈ بکس نے ابھی حال میں مختلف بک فیئرمیں اپنے اسٹال لگائےتھے ۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے:
ث
■ دوحہ (قطر) میں ایک عالمی بک فیئر کا انعقاد 30 نومبر تا 10 دسمبر ہوا۔ اور جدہ بک فیئر
■ 2تا 4 دسمبر 2016 کو کنڑ ساہیتہ سمیلن کا انعقاد رائچور (کرناٹکا) میں ہوا۔ اس کا انعقاد کرناٹکا حکومت نے کیا۔ تقریباً 400 بک اسٹال اور 150 کمرشیل شاپ نے پورے ہندستان سے شرکت کی۔ تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے اس سے استفادہ کیا۔ رائچور ٹیم نے حیدرآباد اور کرناٹک ٹیم کے تعاون سے اپنا اسٹال لگایا۔ اس موقع پرلوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے اسٹال پر آئی اور سی پی ایس مشن میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
■ کوچی (کیرالا)کے ایرناکولم گراؤنڈ میں
■ سی پی ایس (پاکستان) نے کراچی بک فیئر(
■
■
■ کولکاتا کے حاجی محسن اسکوائر میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے اردو کتاب میلہ (
■ دہلی ورلڈ بک فیر(7 تا
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.