ایمان کو سیکھنا
ایک صحابی صحبت رسول کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں:عن جندب، قال:کنا مع نبینا صلى اللہ علیہ وسلم فتیانا حزاورة فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فنزداد بہ إیمانا، فإنکم الیوم تعلمون القرآن قبل الإیمان (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1678)۔ یعنی جندب بن عبداللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم جوانی کی عمر میں تھے۔ پس ہم نے قرآن کا علم حاصل کرنے سے پہلے ایمان سیکھا ، پھر ہم نے قرآن سیکھا تو اس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوگیا۔اور تم لوگ آج قرآن سیکھتے ہو ایمان سے پہلے۔
انٹرنیٹ پر ایک عرب، محمد العبادی نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: تعلم الإیمان قبل القرآن یعنی تہیئة القلب لتلقی تعالیم القرآن والاہتداء بأنوارہ، فہو کتہیئة الأرض حتى تکون صالحة للزرع(ملتقیٰ اہل التفسیر (vb.tafsir.net)، الإیمان قبل القرآن)۔ یعنیـ" ایمان سیکھنا قرآن سے پہلےـ" کا مطلب یہ ہے دل کو تیار (prepare)کرنا، تاکہ وہ اخذ کرسکےقرآن کی تعلیمات کو، اور اس کی روشنی سے ہدایت پاسکے۔ پس وہ ایسا ہے جیسے زمین کو تیار کرنا تاکہ وہ کھیتی کے قابل ہوجائے۔
اس روایت کا مطلب کنڈیشننگ (conditioning) کے اصول سے سمجھ میں آتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ ہر پیدا ہونے والالازمی طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر1385) ۔ ایسی حالت میں ایمان قبول کرنا، اپنے ذہن کے اعتبار سے ایک ایسی چیز کو قبول کرنا ہے جو آدمی کے لیے ایک نئی چیز ہے۔اس لیے ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی نئی چیز کو متاثر ذہن (conditioned mind) کے ساتھ دیکھے، اور اس کو درست طور پر سمجھ نہ سکے۔ ایسی حالت میں ہر آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان سے پہلے ایک پیشگی کام کرے۔ یعنی اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرکے اس کو تیار ذہن (prepared mind) بنائے، تاکہ وہ نئی چیز کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھے، اور بے آمیز صورت میں اس کو لے سکے۔
یہ گویا تطہیر ذہن (purification of the mind) کا معاملہ ہے۔ اس تطہیر کے بغیر کوئی بھی شخص، ایمان کو حقیقی طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس تطہیر کے بغیر اگر وہ ایمان قبول کرتا ہے تو وہ اس کے لیے داخل القلب ایمان (الحجرات 14: ) نہ ہوگا، بلکہ وہ ایمان لپ سروس (lip service) کے طور پر ہوگا، اور لپ سروس والا ایمان شریعت میں معتبر نہیں ۔
تطہیر ذہن کا یہ عمل صرف ابتدائی دور کے کچھ صحابہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اور ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ کوئی بھی شخص جو بعد کے زمانے میں ایمان قبول کرتا ہے، تو اس کو سب سے پہلے اپنے داخل القلب کو مطہّر اور مزکّی بنانا پڑے گا۔ یعنی پوری طرح اپنی ڈی کنڈیشننگ کرنی ہوگی۔ جو شخص اس ابتدائی شرط کو پورا کرے، اسی کا ایمان سچا ایمان ہے۔ جو آدمی اس ابتدائی شرط کو پورا کیے بغیر صرف پیدائش کےطور پر مسلم بن جائے، یا کلمہ کے الفاظ کو زبان سے ادا کرکے اسلام قبول کرلے، اس کا ایمان اللہ کے نزدیک معتبر ایمان نہ ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ یا تو پہلے مرحلے میں یا بعد کے مرحلے میں اپنا محاسبہ کرکےبھر پور طور پر اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ اپنے آپ کو مطہَّر اور مزکیّٰ بنائے۔ اس کے بعد ہی، اس کا ایمان معتبر ہوگا۔ اس کے بعد ہی اس کا ایمان اس کے لیے ہدایت کی روشنی بنے گا۔اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوگا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس آیت کا مصداق بنے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے:یعنی کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندگی دی اور ہم نے اس کو ایک روشنی دی کہ اس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے ( 6:122 )۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ایک پراسس کا معاملہ ہے۔ پہلے آدمی شعوری طور پراس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اب تک بے خبری کی زندگی گزار رہا تھا۔ اندھیرے کے بعد اس پر روشنی کا دروازہ کھلا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرکے اپنی بھرپور ڈی کنڈیشننگ کرتا ہے، اس کے بعدوہ اپنے آپ کو آلودگی سے پاک کرکےوہ ذہن بناتا ہے جس کو شریعت میں مزکی شخصیت کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کو گہرائی کے ساتھ اپنا سکے۔
مبارک لوگ
ایک مشہور حدیث ہے: بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء (صحیح مسلم، حدیث نمبر 145 )۔یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ اجنبی تھا، اور دوبارہ وہ اجنبی ہوجائے گا، جیسا کہ وہ شروع میں تھا۔ پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اجنبی ہوجائیں۔ غریب کا مطلب اجنبی (stranger) ہے۔ اجنبیت کا لفظ ایک تقابلی لفظ ہے۔ یعنی کسی کے مقابلے میں اجنبی ہوجانا۔
ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام قدیم عرب میں آئے۔ اس وقت وہاں بنواسماعیل آباد تھے۔ ابتدءاً وہ لوگ دین ابراہیم پر قائم تھے، مگر ان کی بعد کی نسلوں پر زوال آیا۔ وہ لوگ اب بھی دین ابراہیم کا نام لیتے تھے، لیکن وہ عملا ًاصل ابراہیمی دین پر نہ تھے۔ بعد کے زمانے میں حقیقی ابراہیمی دین ان کے درمیان اجنبی ہوچکا تھا۔وہ دین ابراہیم کے ایک خود ساختہ ورزن (version) کو ابراہیم کا دین سمجھنے لگے تھے۔اس اجنبیت کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حالاں کہ پیغمبر اسلام، ابراہیم علیہ السلام کے اسی دین کو زندہ کررہے تھے، جس کو رسول اللہ کے معاصر عرب اپنے قومی فخر کے طور پر لیے ہوئے تھے۔
مذکورہ حدیث کے مطابق، یہی معاملہ بعد کے زمانے میں دین اسلام کے ساتھ پیش آئے گا۔ یعنی قرآن وسنت والا دین زوال یافتہ مسلمانوں کے درمیان ایک اجنبی دین بن جائے گا۔بظاہر وہ دین محمدی کا نام لیں گے، اور اس پر فخر کریں گے۔ لیکن حقیقی اعتبار سے وہ دین محمدی سے اتنا دور ہوچکے ہوں گے کہ اصل دین محمدی ان کے لیے ایک اجنبی دین کی حیثیت اختیار کرلے گا۔ دین ابراہیمی اور دین محمدی دونوں اپنی اصل کے اعتبار سے خالص توحید کے مذاہب تھے۔ لیکن بعد کے زمانے میں دونوں کے ماننےوالوںپر زوال آئے گا۔ دونوں کے ماننے والے بظاہر دین ابراہیمی اور دین محمدی کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ اتنا زیادہ بگڑ چکے ہوں گے کہ ان کے درمیان اصل دین ابراہیمی اور اصل دین محمدی، دونوں اجنبی دین کی مانند بن جائیں گے۔
"مبارک اجنبی" سے مراد کون لوگ ہیں۔ اس سے مراد وہ افراد ہیں جو اس معاملے کا مطالعہ غیر متعصبانہ طور پرکریں ، جو کھلے ذہن کے ساتھ باتوں کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں، جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے کو اس قابل بنائیں کہ دین محمدی کو اس کی اصل صورت میں پہچان سکیں۔ اس کے بعد وہ بگاڑ کے زمانے میں اصل دین کو دوبارہ دریافت (rediscover) کریں۔ وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے دوبارہ پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو سمجھیں۔ ایسے لوگ اگرچہ لوگوں کے نزدیک اجنبی ہوجائیں گے لیکن اللہ کی نظر میں وہ خوش قسمت لوگ ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑے درجات ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں ایسا ہوا کہ پیغمبر اسلام نے اہل عرب کے سامنے دین ابراہیمی کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کیا (الحج 78: )۔ لیکن قدیم اہل عرب پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ جب کہ وہ خود اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیم کو ماننے والے لوگ ہیں، تو وہ پیغمبر اسلام کے مخالف کیوں ہوگیے۔ یہ روش اہل عرب کی بعد نسلوں کی تھی۔ یعنی اہل عرب (بنو اسماعیل ) کی بعد کی نسل کے اندر دھیرے دھیرے اصل دین ابراہیم کی اسپرٹ ختم ہوگئی۔ ان کے یہاں دین کے نام سے ایک قومی کلچر بن گیا، جس کو بطور خود وہ دین ابراہیم کا نام دینے لگے۔
جب کہ اصل صورت حال یہ تھی کہ آپ ابراہیمی دین ہی کو ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔ ان کی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ اصل دین ابراہیم ان کے یہاں اجنبی دین بن چکا تھا۔ وہ اپنے قومی کلچر کو دین ابراہیم کے نام سے جاننے لگے تھے۔ یہی سبب تھا جس کی بنا پر وہ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گیے۔ حتی کہ آپ کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگیے۔
یہ صورت حال صرف قدیم عربوں کی نہ تھی، بلکہ یہ ایک عمومی تاریخی ظاہرہ ہے، جو ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ ہر قوم میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتداءاً جو چیز ان کے یہاں مذہب کے طور پر ہوتی ہے، وہ بعد کی نسلوں کے لیے ایک قومی کلچر بن جاتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو بعد کی نسلوں کے لیے اصل مذہب ایک اجنبی چیز بن جاتا ہے۔اس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے لوگ اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو دوبارہ اس قابل بنائیں کہ وہ اصل مذہب کو پہچان سکیں۔
اصلاح امت
امت مسلمہ کی اصلاح ایک مستقل موضوع ہے جس پر لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت کچھ بولا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلسل بحث جاری رہتی ہے۔ تاہم اس موضوع پر ایک متعلق روایت ہے جو اس سلسلے میں ایک رہنما روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ روایت وھب ابن کیسان کی ہے جو اعلیٰ درجہ کے فقیہ مانے جاتے ہیں۔ وہ مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہیں انھوںنے تعلیم پائی، اور کئی صحابہ سے ملاقات کی ۔ مثلا ابن عباس، ابوسعید الخدری،جابر بن عبد اللہ ، ابن الزبیر ، اورعمرو بن أبی سلمة، و غیرہ۔ وہ امام مالک (وفات 179: ھ)تبع تابعی ، وغیرہ کے استاد تھے۔ ان کی وفات 127 ھ میںمدینہ میں ہوئی۔
امام مالک اپنے استاد وہب ابن کیسان کے بارے میں کہتے ہیں : کان وہب بن کیسان یقعد إلینا، ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا، قلت لہ: یرید ماذا؟ قال یرید التقى (مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر 783 )۔یعنی وہب ابن کیسان تابعی ہمارے درمیان بیٹھتے، پھر وہ اٹھنے سے پہلے ہمیشہ یہ کہتے : بیشک اس امت کے آخر کی اصلاح اسی طریقے سے ہوگی، جس طریقے سے اس امت کے پہلے کی اصلاح ہوئی۔ راوی نے پوچھاکہ اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے۔ امام مالک نے کہا: اس سے ان کی مراد تقویٰ ہوتی تھی۔
بعد کے زمانے سے مراد زوال کا زمانہ ہے۔ امت کا بعد کا زمانہ خلا کا زمانہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ بھر پور سرگرمیوں کا زمانہ ہوگا۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے پاس اپنے ماضی کی بنیاد پر ایک تاریخ ہوگی، ایک کلچر ہوگا، دین کا ایک تصور ہوگا، وغیرہ۔ اس کے باوجود وہ اصل دین سے دور جاچکے ہوں گے۔ ان کی اصلاح کی صورت صرف یہ ہوگی کہ ان کو پیچھے کی طرف لوٹایا جائے۔ ان کو دوبارہ اس دین پر قائم کیا جائے، جو دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول کے درمیان پایا جاتا تھا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہ پیغمبر کے بعد امت کے درمیان ایک تاریخ بننا شروع ہوگی۔ دھیرے دھیرے وہ وقت آجائے گا، جب کہ لوگ اسلام کا نام لیں گے، لیکن عملاً وہ بعد کے زمانے میں بننے والی تاریخ پر کھڑے ہوں گے۔ اب ان کا ماڈل بعد کو بننے والی تاریخ کا ماڈل ہوگا، نہ کہ رسول اور اصحاب رسول کا ماڈل ۔ ایسی حالت میں ضروری ہوگا کہ لوگ اسلام اور مسلم تاریخ کے درمیان فرق کو دریافت کریں۔ وہ بعد میں بننے والی تاریخ کو حذف کرکے اصل اسلام کو جانیں، اور اس پر دوبارہ قائم ہوجائیں۔ گویا کہ ان کے لیے اسلام دریافت ثانی (rediscovery) کا موضوع بن چکا ہوگا۔ اس دریافت ثانی کے بغیر اصل دین ان کے لیے اجنبی بن چکا ہوگا۔ اس اجنبیت کو دور کرنے کی صورت صرف یہ ہوگی کہ وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں۔
دونوں زمانےکے فرق کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول کا دین مبنی بر تقوی ہوگا، مگر زوال کا دور آنے کے بعد لوگوں کے درمیان ایک ایسا دین رائج ہوجائے گا، جو ایک قسم کا قومی دین ہوگا۔ وہ خدا رخی دین نہ ہوگا، بلکہ وہ قومی رخی دین بن جائے گا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے۔ جس کے مفقود ہونے کی وجہ سے بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے حقیقی دین اجنبی دین بن جائے گا۔ اس روایت کے مطابق ابتدائی دور کے اہل ایمان تقویٰ کا طریقہ اختیار کرکے اصلاح یافتہ بنے تھے۔ بعد کے زمانے کے لوگوں کو بھی یہی کرنا ہوگا کہ وہ اپنی غیر متقیانہ روش کو چھوڑیں ، اور دوبارہ تقویٰ کے طریقے کو اختیار کریں۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ آدمی ایک ایسی روش کو اختیارکرے جو اللہ کے مواخذہ کے تصورپر مبنی ہو، جو اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس پرقائم ہو۔
واپس اوپر جائیں