تخلیق کی منزل (goal of creation) کیا ہے۔ یعنی پیدا کرنے والے نے کیوں موجودہ دنیا کو پیدا کیا۔ اس تخلیقی عمل کا مقصد کیا ہے، اور یہ تخلیقی سفر آخر کار کہاں تک پہنچنے والا ہے۔ قرآن اور انسانی تاریخ کے مطالعے سے اس کا جو جواب معلوم ہوتا ہے، اس کو یہاں درج کیا جارہا ہے۔
اس سوال کا جواب مختصر طور پر یہ ہے کہ تخلیق کا مرکزی کردار انسان ہے، اور تخلیق کی منزل جنت (Paradise) ہے۔جو کہ انسان کے لیے معیاری دنیا (ideal world) ہے۔آغاز سے اختتام تک یہ ایک لمبا سفر ہے، جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور آخر کار وہ ابدی جنت تک پہنچتا ہے۔ آخری دور کے بارے میں قرآن میں یہ بتایا گیا ہے:یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ (
یہ دوسری دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ موجودہ دنیا میں صالح اور غیر صالح، دونوں ملی جلی حالت میں آباد ہیں۔ اسی کے نتیجے میںیہاں ہمیشہ وہ غیر مطلوب صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، جس کو منفی طور پر پرابلم آف ایول (problem of evil) کہا جاتا ہے۔اگلی دنیا میں دونوں قسم کے انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا۔اس کے بعد زمین ایک اور زمین کی صورت میں ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔
اس واقعہ کو زبور اور قرآن، دونوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (
For evildoers shall be cut off: but those that wait upon the Lord, they shall inherit the earth....the seed of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land, and dwell therein forever. (Psalms,
یہ وارثین ساری نسل انسانی کے صالح افراد ہوں گے، جن میں امت محمدی کے صالح افراد بھی شامل ہیں۔
تخلیق کے ادوار
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے کائنات کو چھ ادوار (periods)کی صورت میں بنایا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں سات بار آیا ہے۔ ان آیتوں میں سے ایک آیت یہ ہے: اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ(
ان آیات میں چھ ایام سے مراد چھ ادوار (six periods) ہیں۔ دور کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کو بیک وقت دفعۃً پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ ان کو اسباب و علل (cause and effect) کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ تخلیق کی یہ صورت اس لیے اختیار کی گئی تاکہ انسان اپنی عقل کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرسکے، اور تخلیق کی حکمت کو اپنے لیے ذہنی تشکیل کا سامان بنا سکے۔
انسانی علوم کے ذریعہ کائنات کا جو مطالعہ کیا گیا ہے،ان کو لے کر اگر ان چھ ادوار کو متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا:
(1) بگ بینگ (big bang)
(2) لٹل بینگ (little bang) یا سولر بینگ (solar bang)
(3) واٹر بینگ (water bang)
(4) پلانٹ بینگ (plant bang)
(5) انیمل بینگ (animal bang)
(6) ہیومن بینگ (human bang)
یہ تاریخ کے چھ معلوم ادوار ہیں۔ سائنسی اندازے کے مطابق چھ ادوار کی یہ مدت تقریبا تیرہ بلین سال ہے۔اس مدت میں موجودہ کائنات عدم سے وجودمیں آئی، اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئےاپنی موجودہ صورت میں بن کر تیار ہوئی۔ اس کے بعد انسان کی جو تاریخ بنی، اور جس طرح وہ مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنا سفر طے کررہی ہے، اس کا مختصر بیان یہاں درج کیا جاتا ہے۔
صراط مستقیم
خالق کی مقرر کردہ ایک صراط مستقیم (right path) ہے، جو اس بات کی ضامن ہے کہ اس پر چلنے والا انسان اپنی مطلوب منزل پر ضرور پہنچے ۔ پیغمبروں کے ذریعہ اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ خالق نے مسلسل طور پر ایسا کیا کہ انسان کے پاس اپنے پیغمبر بھیجے، اور ان کے ذریعہ اپنی کتاب ہدایت بھیجی۔ اس کامقصد یہ تھا کہ انسان درست راستہ (right track) پر چلتا رہے، وہ اس سے بے راہ (derail) نہ ہونے پائے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین کو بھیجا۔ آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جد و جہد کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جس کے ذریعہ بعد کے زمانے میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری ہوگیا۔ اس تاریخی عمل نے وہ مواقع کھولے، جن کے ذریعہ دنیا میں تہذیبی انقلاب (civilizational revolution) آیا۔
مادی تہذیب
موجودہ زمانے میں ہم اپنے آپ کوجس تہذیب کے دور میں پاتے ہیں اس تہذیب کو عام طور پرمغربی تہذیب (western civilization) کہا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک مادی تہذیب (material civilization) ہے۔ یہ مادی تہذیب خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق ایک مقدرتہذیب تھی۔ اس مادی تہذیب کا پیشگی حوالہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ أَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ أَنَّہُ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ ُ (
یہاں آیات سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جو تخلیقی طور پر اس دنیا میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ ’’ہم نشانیاں دکھائیں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کچھ انسانوں کو توفیق دے گا کہ وہ فطرت کے مخفی قوانین (hidden laws of nature) کو دریافت کریں، اور اس طرح دین خداوندی کی تائید (support) کے لیے ایک عقلی بنیاد (rational base)فراہم ہو۔ اس تہذیب نے انسانی دنیا اور مادی دنیا میں چھپی ہوئی جن حقیقتوں کو دریافت کیا ہے، وہ دین خداوندی کی حقانیت کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آباد کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ معرفت (realisation) کا سفر کرے، اور اپنی شخصیت کو اعلی ارتقاء کے درجے تک پہنچائے۔ اس تہذیب نے انسان کے لیے غور و فکر کا ایک نیا فریم ورک (framework) دیا۔ اس نے غورو فکر کے لیے انسان کو نئی معلومات (data) دیا۔ اس نے انسان کو نئے وسائل (resources) دیے۔ یہ تمام چیزیں اس لیے ہیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو زیادہ کامیابی کے ساتھ جاری رکھ سکے، اور اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ مین (self-made man) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔
مخلوق کامل
انسان کو ایک مکمل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو بے شمار صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ مگر یہ صلاحیتیں اس کو بالقوۃ(potential) کی صورت میں دی گئی ہیں۔ ان بالقوۃ صلاحیتوں کو بالفعل (actual) میں بروئے کار لانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود تعمیر کردہ انسان (self-made man) کی صورت میں ڈیولپ (develop)کرے۔ سیلف ڈیولپمنٹ (self development)کے اس عمل (process) میں انسان کومعلوماتی تائید کی ضرورت تھی۔ مادی تہذیب نے فطرت (nature)کی حقیقتوں کو دریافت کرکے انسان کو یہی تائید (support) فراہم کی ہے۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہیں، وہ غیر متعلق سرگرمیاں ہیں۔ یہ گویادرمیانی جدو جہد کے دور کو تکمیل کے دور میں دوبارہ غیر ضروری طور پر زندہ کرنا ہے۔ موجودہ دور سے پہلےدو فریق ہوا کرتے تھے، دوست اور دشمن۔ لیکن اب یہ ثنائیت (dichotomy) بدل چکی ہے۔ اب دنیا میں صرف دوست اور موید (friend and supporter)موجود ہیں۔اب اہل اسلام کا کام تکمیل کے مثبت مواقع کو اویل (avail) کرنا ہے، نہ کہ دور جدو جہد کے واقعات کا غیر ضروری طور پر اعادہ(repeat) کرنا، جس سے مسائل میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں۔
روحانی سماج
تخلیق کا اصل مقصود انسان ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران جو چیزیں وجود میں آئیں، وہ سب صرف اس لیے تھیں کہ انسان اپنے سفر معرفت کو کامیابی کے ساتھ طے کرسکے۔ اس پورے عمل (process) کے ذریعہ جو آخری چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ ایک اعلی درجے کا روحانی سماج (spiritual society) بنے، جو اُس معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہو جس کو جنت (Paradise) کہا گیا ہے۔جنت ایک پر فکٹ دنیا (perfect world) ہے، جو ان انسانوں کی آباد کاری کے لیے بنائی گئی ہے جو اپنے آپ کو اس کا اہل (competent) ثابت کریں۔
دنیا میں انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ وہ آزاد ہے کہ اپنے آپ کو جیسا چاہے، ویسا بنائے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں اعلی معیار کا روحانی سماج نہیں بن سکتا۔ یہاں صرف اعلی معیار کے روحانی افراد بن سکتے ہیں۔ تخلیقی منصوبے کے مطابق جو بات ہونے والی ہے، وہ یہ کہ پوری انسانی تاریخ کے خاتمے پر اعلی درجے کے روحانی افراد کو منتخب کرکے انھیں ابدی جنت میں بسنے کا موقع دیا جائے،اور باقی لوگوں کو چھانٹ کر ان سے الگ کردیا جائے۔
اس اعلیٰ درجے کے روحانی سماج میں کون لوگ شامل ہوں گے، ان کا ذکر قرآن میں چار گروہ کی صورت میں کیا گیا ہے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
اس اعلیٰ سماج کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ حسن رفاقت کا سماج ہوگا۔ وہاں کوئی انسان دوسرے انسان کے لیے کوئی مسئلہ (nuisance) پیدا نہیں کرے گا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا بہترین ساتھی ہوگا۔ ہر انسان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہوگا۔ ہر انسان دوسرے انسان کا سچارفیق ہوگا، کوئی انسان دوسرے انسان کا حریف نہ ہوگا۔ ہر انسان اعلی اخلاقی اقدار (high moral values) کا حامل ہوگا۔ ہرانسان کامل درجے میں سچائی اور دیانتداری (honesty) کی صفات سے متصف ہوگا، وغیرہ۔
اس تخلیق کے مطابق جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے چاہا کہ وہ اعلی درجے کی ایک دنیا بنائے۔ اسی اعلی درجے کی دنیا کا نام جنت (Paradise) ہے۔ اس تخلیق کا نقشہ اس اعتبار سے بنایا گیا جو اعلیٰ درجے کے مطلوب انسان کو وجود میں لانے میں مددگار ہوسکے۔ چوں کہ یہ انسان وہ تھے جو سیلف میڈ مین (self-made man) کے معیار پر پورے اترے۔ اس لیے اس تخلیقی منصوبہ کے مکمل ہونے میں تقریبا تیرہ بلین سال لگے۔ اس تخلیقی مدت کو اس طرح بنایا گیا کہ انسان اپنی عقل (reason) کو استعمال کرکےان کو اپنی تعمیر شخصیت کے لیے استعمال کرسکے۔
دعوت، اکیسویں صدی میں
خالق کی تخلیقی اسکیم (creation plan) ہمیشہ سے ثابت شدہ حقیقت تھی۔ لیکن بیسویں صدی کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آیا ہے۔ جب کہ نظری حقیقتیں، مادی حقائق کی روشنی میں قابل فہم (understandable) بن گئیں۔ مثلا غیب پر ایمان قدیم زمانے میں ایک عقیدہ کی بات تھی۔ موجودہ زمانے میں کوانٹم فزکس (quantum physics) کی دریافت کے بعد یہ صرف نظری بات نہ رہی، بلکہ پرابیبیلٹی (probability) کے درجے میں تقریباً قابل یقین حقیقت بن گئی۔ پرابیبلٹی جدید سائنس کا ایک اہم اصول ہے۔ کہا جاتا ہے:
probabilty is less than certainty but it is more than perhaps
موجودہ زمانے میں جن چیزوں کو سائنسی حقیقت (scientific fact) کہا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ یہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک پرابیبیلٹی کے درجے میںمسلمہ حقیقت بنی ہیں، نہ کہ مشاہدہ کے درجے میں۔ یہی معاملہ مذہبی عقائد یاتصورات کا ہے۔ اِس زمانے میں مذہبی تصورات اسی تسلیم شدہ درجے میں ثابت شدہ بن چکے ہیں، جس درجے میں مسلّمہ سائنسی حقائق ۔
فائنل رول
تخلیقی نقشہ کے مطابق، تاریخِ انسانی میں ایک فائنل رول مقدر ہے۔ یعنی آخرت کے ظہور سے پہلے حقیقت کا ایک آخری اعلان۔ یہ آخری اعلان خدا کی توفیق سے ایک ایسا گروہ انجام دے گا، جو پورے تاریخی پراسس کی آخری پیداوار ہو، جو تخلیقی ارتقا کے آخر میں وجود میں آیاہو، جس پر پوری تاریخ منتہی ہوئی ہو،جو ماضی اور حال کے تمام تاریخی ڈیولپمنٹ (historical development) کا مثبت شعور رکھتا ہو۔
یہ گروہ وہ ہوگا جو کتاب تاریخ کے آخری پیراگراف کو لکھے گا۔ جو اپنے آفاقی شعور کی بنا پر اِس قابل ہوگا کہ انسانیت کے لیے حجت بن جائے۔ جو تمام مواقع (opportunities) کو مثبت طور پراستعمال کرے۔اور پھر خدائی سچائی کا وہ عالمی اعلان کرے، جس کے بعد کوئی انسان بےخبری کا عذر پیش نہ کرسکے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث میں عالمی ادخال کلمہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر، ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، حدیث نمبر 23814)
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے بارے میں قرآن میں یہ آیت آئی ہے:مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا (49:29)۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم ان کو رکوع میں اور سجدہ میں دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی نشانی ان کے چہروں پر ہے سجدہ کے اثر سے، ان کی یہ مثال تورات میں ہے۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے کھیتی، اس نے اپنا انکھوا نکالا، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ اور موٹا ہوا، پھر اپنے تنے پر کھڑا ہوگیا، وہ کسانوں کو بھلا لگتا ہے تاکہ ان سے منکروں کو جلائے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا، اللہ نے ان سے معافی کا اور بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔
اس آیت میں اصحاب رسول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ منکروں پر شدید ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ منکروں پر سخت گیر ہوتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ منکروں کا اثر قبول نہیں کرتے۔ یعنی وہ مضبوط سیرت (strong character) کے لوگ ہیں۔ ان کی یہ صفت ان کو اس کمزوری سے بچاتی ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ30:) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے دین کے معاملے میں خارجی کلچر کا اثر قبول کرلینا۔
پھر اصحاب رسول کی یہ صفت بیان کی کہ وہ آپس میں مہربان ہیں۔ یہ اخلاقی برتاؤکی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد ان کا طاقت ور باہمی اتحاد ہے۔ وہ کسی اختلاف کو شکایت (complaint) کامعاملہ نہیں بناتے، بلکہ اس کو نظر انداز کرکے ، اپنے متحدہ جد و جہد کو پوری طرح باقی رکھتے ہیں۔ کوئی ناموافق بات کبھی ان کے باہمی اتحاد کو توڑنے والی نہیں بنتی۔
اس کے بعد تراھم الخ کا جملہ ہے۔ یہ جملہ ان کی داخلی ربانی حالت کو بتاتا ہے۔ ان کا یہ ربانی مزاج اس بات کا ضامن ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کی رضا والے راستے پر قائم رہیں۔ ان کی داخلی اسپرٹ کبھی کمزور نہ ہونے پائے۔ اصحاب رسول کی صفت پیشگی طورپر تورات میں بتادی گئی تھی۔موجودہ تورات میں اس کے لیے دس ہزار قدوسیوں (ten thousand saints) کا لفظ موجود ہے (استثناء
انجیل کی تمثیل میں اصحاب رسول کا ایک مزید رول یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تاریخ میں ایک زرع یا بیج (seed)ڈالنےکا کام کریں گے، جو آخر کار بڑھ کر ایک مکمل درخت بن جائے گا۔ یہاں تمثیل کی زبان میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اصحاب رسول اپنی غیر معمولی جدو جہد کے ذریعے انسانی زندگی میں ایک تاریخی عمل (historical process) جاری کریں گے، جو آخر کار ایک عظیم انقلاب تک پہنچے گا۔ اس انقلاب کے دو خاص پہلو تھے۔ان دونوں پہلووں کو قرآن میں اختصار کی زبان میں بتایا گیا ہے۔
صحابہ اور تابعین کے اس رول کو قرآن کی درج ذیل آیت کامطالعہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے: الَّذِینَ إِنْ مَکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (
قرآن کی اس آیت میں تمکین فی الارض سے مراد سیاسی استحکام (political stability) ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ اور تابعین کی جماعت کو جب پولیٹکل استحکام ملا تو اس کو انھوں نے انھیں مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ مقاصد تین تھے— عبادت، زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ یہاں ان تینوں سے مراد انفرادی عمل نہیں ہے، بلکہ اجتماعی زندگی میں ان کا نظام قائم کرنا ہے۔
عبادت سے مراد مسجد کا نظام اور حج کا نظام قائم کرنا ہے۔ نیز اس میں دینی تعلیم کا نظام بھی توسیعاً شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی استحکام کو انھوں نے کسی سیاسی نشانہ (political goal) کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اہل ایمان کی دینی زندگی کو منظم صورت میں قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس تنظیم میں زکوۃ کا نظام بھی شامل ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے مراد کوئی سیاسی نظام نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دین کے تقاضوں کو منظم انداز (organised way) میں انجام دینا۔ مثلا قرآن کو محفوظ کرنا، حدیث کی جمع و تدوین، اسلامی فقہ کو مرتب کرنا، اور دوسرے ان غیر سیاسی کاموں کو انجام دینا، جس کے نتیجےمیں بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا ایک منظم دینی ڈھانچہ قائم ہوا۔ اور جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں عملا موجود ہے۔
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجر عظیم ( great reward) سے مرادثوابِ عظیم نہیں ہے، بلکہ نتیجہ عظیم ہے، جو بعد کی تاریخ میں پیش آیا۔اس عظیم نتیجہ کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ (
صحابہ اور تابعین کی کوششوں سے اسلام کا مکمل اظہار ہوا۔ لیکن یہ اظہار روایتی دور (traditional age) کے اعتبار سے تھا۔ اسلام کا ایک اور اظہار ابھی باقی تھا۔ اور وہ تھا عقلی فریم ورک (rational framework) کے مطابق، اسلام کا اظہار۔ اس مقصد کے لیے تاریخ میں ایک نیا انقلاب لانا ضروری تھا۔ یہ انقلاب وہی ہے جو بعد کے دور میں سائنٹفک انقلاب (scientific revolution) کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کو دریافت کرنا۔اور اس کے مطابق، تاریخ میں ایک نیا دور لانا۔ یہ دور عملا وہی ہے جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔
اس دوسرے دور کا آغاز مسلمانوں نے اپنے دور میں کیا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی۔ اس انقلاب کا پراسس مسلم عہد میں شروع ہوا، لیکن اس کی تکمیل بعد کے زمانے میں جدید تہذیب (modern civilization) کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی۔
دوسری قوموں کے ذریعے اس کام کا انجام پانا، احادیث رسول میں پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، ان میں سے ایک روایت یہ ہے: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: وددت أنا قد رأینا إخواننا قالوا:أولسنا إخوانک یا رسول اللہ قال:أنتم أصحابی وإخواننا الذین لم یأتوا بعد (حدیث نمبر
اصحاب رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل ایمان ہیں۔ اور اخوان رسول سے مراد آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں، جو بعد کے زمانے میں ظاہر ہوں گے۔ اصحاب رسول اور اخوان رسول میںسے کوئی افضل یا غیر اٖفضل نہیں ہے۔ دونوں عملاً یکساں درجے کے لوگ ہیں۔ اسلام میں درجہ کا تعلق زمانے سے نہیں ہے، بلکہ تقویٰ سے ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُم (
اس حدیث کی تشریح ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد اللہ بن عمرو؛ أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:مثل أمتی کمثل المطر؛ لا یدرى أولہ خیر أم آخرہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14649)۔عبد اللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی مثال بارش جیسی ہے، نہیں معلوم کہ اس کا اول زیادہ بہتر ہے، یا اس کا آخر۔
اس حدیث رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک تاریخی واقعہ کو بتایا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اظہار دین کا مشن تھا۔ اس مشن کے دو دور تھے۔ پہلا دور یہ تھا کہ اسلامی مشن کے راستے میں رکاوٹوں کو ختم کرکے مواقع (opportunities) کے دروازوں کو کھولنا، اور دوسرا دور یہ تھا کہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال (avail) کرکے اسلام کا عالمی اظہار کرنا۔ پہلے دور کو حدیث میں تمثیل کی زبان میں اول المطر (first period of rain) کہا گیا ہے۔ اور دوسرے دور کو آخر المطر (second period of rain) کہا گیا ہے۔
صحابہ اور تابعین کے زمانے میں قدیم زمانے کی رکاوٹوں کا خاتمہ کیا گیا۔ مثلا شرک کے غلبہ کو ختم کرنا، بادشاہی نظام کو ختم کرنا، تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرنا جس کے نتیجے میں وہ واقعہ پیش آئے جس کو قرآن میں تبیین حق (فصلت:
اظہار دین کا یہ عالمی مشن تاریخ کا سب سے بڑا عالمی مشن تھا۔ اس لیے اللہ نے اس مشن کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے تاریخ میں ایسے حالات پیدا کیے جب کہ غیر اہل دین بھی اس کے موید بن جائیں۔ اللہ رب العالمین کے اس فیصلہ کو حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ عز و جل اسلام کی تائید ضرور ان لوگوں کے ذریعہ کرے گاجو اہل اسلام نہ ہوں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔
اکیسویں صدی عیسوی میں یہ تاریخی عمل (historical process) اپنے نکتہ انتہا (culmination) تک پہنچ چکا ہے۔ اب تمام مواقع آخری حد تک کھل چکے ہیں۔ اب اہل اسلام کا ایک ہی مشن ہے، اور وہ ہے اللہ کے پیغام (قرآن ) کو پورے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کی قابل فہم زبان میں پہنچانا۔ اگر اہل اسلام کسی اور غیر متعلق کام میں اپنے آپ کو مشغول کرتے ہیں تو یہ مشغولیت ان کے لیے اس رُجز (المدثر5:) میں ملوث ہونے کے ہم معنی ہوگی جس کو ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول سنن الترمذی اور دوسری کتب حدیث میں آئی ہے۔ احکام القرآن لابن العربی میں اس کو ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: أول ما خلق اللہ القلم، فقال لہ:اکتب، فکتب ما کان وما یکون إلى یوم الساعة، فہو عندہ فی الذکر فوق عرشہ(احکام القرآن، بیروت، 2003،جلد4، صفحہ420 )۔یعنی اللہ نے پہلی چیز جو پیدا کی ، وہ قلم تھی۔ پھر اللہ نے اس سے کہا کہ لکھ۔ تو اس نے لکھا وہ سب کچھ جو ہوا، یا جو ہوگا قیامت تک۔ پس وہ اللہ کے پاس ذکر میں ہے، اللہ کے عرش کے اوپر۔
اس حدیث میں ’’ماکان وما یکون‘‘ سے مراد کون سے واقعات ہیں۔ تاریخ کے تمام واقعات یا منتخب واقعات۔ تاہم اہل ایمان کے لیے اصل اہمیت ان واقعات کی ہے جو توحید کے مشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کو جاننا اہل توحید کے لیے ضروری ہے۔ تاکہ ان کی رعایت کرتے ہوئےوہ اپنے دعوتی مشن کی صحیح منصوبہ بندی کرسکیں۔ جیسا کہ ایک حدیث رسول میں آیا ہے: وعلی العاقل ان یکون بصیرا بزمانہ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتبار سے انسانی تاریخ کے دو دَور ہیں۔ایک وہ جب کہ دنیا دو قسم کے لوگوں میں بٹی ہوئی تھی— مومن اور کافر یا بلیور (believer)اور نان بلیور (non-believer)۔ مگر بعد کے زمانے میں تاریخ میں جو انقلاب آئے گا۔ اس کے بعد یہ تقسیم ختم ہوجائے گی۔ اب دنیا جن دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہوگی، وہ ہوں گے مومن (believer)اور موید (supporter)۔ بعد کے زمانے میں اس تبدیلی کا ذکر حدیث میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ اللہ عز وجل اسلام کی تائیدضرور ایسے لوگوں سے کرے گا، جو اسلام کا حصہ نہ ہوں گے۔
بعد کے زمانے میں ہونے والی اس تبدیلی کا مطلب یہ ہوگا کہ عملا اب جنگ کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ بعد کے اس دور میں بھی اگر اہل ایمان جہاد کے نام پر جنگ کا سلسلہ جاری رکھیں ، تو یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین کے مویدین سے جنگ کے ہم معنی ہوگا۔
یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں کہا گیا ہے کہ دین سب اللہ کے لیے ہوجائے گا(الانفال
ایک جلد میں موجود انسائیکلوپیڈیا میں سے ایک وہ ہے جس کا نام ہے:
Pears'’ Cyclopaedia , London
اس انسائیکلوپیڈیا میں مانوتھیزم کے آگے لکھا ہوا ہے کہ توحید اس اصول کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا کا وجود ہے۔ خاص توحیدی مذہب عیسائیت ہے:
MONOTHEISM, the doctrine that there exists but one God. The Chief monotheistic religion is Christianity.
یہ انسائیکلوپیڈیا کا وہ اڈیشن ہے جو 1948 میں چھپا تھا۔ پہلے مغربی دنیا میں جو لٹریچر تیار ہوا، اس میں اسی طرح اسلام کو حذف کردیا گیا تھا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے بلاشبہ تمام مذاہب توحید کے مذاہب تھے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج خالص توحیدی مذہب اسلام ہے۔ کیوں کہ دوسرے مذہب اپنی ابتدائی حالت میں باقی نہیں رہے ہیں۔
مغربی علماء نے اب اپنی اس روش پر نظر ثانی شروع کردی ہے۔ چناں چہ 1977 میں شائع ہونے والی ایک انسائیکلوپیڈیاCollins Concise Encyclopedia:میں اس سلسلہ میں لکھا گیا ہےکہ توحید اس عقیدہ کا نام ہے کہ یہاں صرف ایک خدا ہے، جیسا کہ یہودیت اور عیسائیت اور اسلام میں مانا جاتا ہے:
MONOTHEISM, belief that there is only one God, as in Judaism, Christianity, and Islam.
(ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ (
آپ کی تاریخ بتاتی ہے کہ مکہ میں آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن آپ نے مکہ سے ہجرت کرکےقتل و قتال کو عملا ناممکن بنا دیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پرآپ کے مخالفین نے بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا۔ مگر آپ نے اپنے اور فریق مخالف کے درمیان خندق کی صورت میں ایک حاجز (buffer) قائم کردیا۔ حدیبیہ کے موقع پر فریقِ ثانی نے جنگ کی صورت پیدا کردی، لیکن آپ نے یک طرفہ صلح کرکے جنگ کو ہونے سے روک دیا۔ فتح مکہ کے موقع پر جنگ یقینی تھی، لیکن آپ نے خصوصی تدبیر کے ذریعہ اس کو پر امن مارچ (peaceful march) میں بدل دیا، وغیرہ۔
دورِ تائید کا آغاز
قدیم زمانے میں جنگ بہت عام تھی۔ قبائل کے درمیان جنگ، بادشاہوں کے درمیان جنگ، وغیرہ۔ لوگ مسائل کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتے تھے— جنگ کا طریقہ ۔ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو اس معاملے میں ایک صراطِ مستقیم (الفتح 2:) کی طرف رہنمائی کی ۔ یعنی جنگی ٹکراؤ کے بجائے پر امن تدبیر (peaceful management)کے ذریعے مسائل کو حل کرنا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اس تدبیر کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا کہ تاریخ میں نیا دور آگیا۔ یعنی ٹکراؤ کے بجائے تائید کا دور ۔ اس مقصد کے لیے ساتویں صدی عیسوی میں ایک منصوبہ بند عمل کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں انسانی تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ یہ عمل (پراسس) انیسویں صدی میں اپنی تکمیل (culmination) تک پہنچ گیا۔ اس تکمیلی مرحلہ کو ایک لفظ میں جدید تہذیب (modern civilization) کہا جا سکتا ہے۔ جدید تہذیب اسلام کے لیے ایک تائیدی تہذیب (supporting civilization) ہے۔
اس دورِ تائید کو قرآن میں لِیُظْہِرَہُ عَلَى الدِّینِ کُلِّہِ (
1۔ إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (۔ صحیح البخاری ،حدیث نمبر3062)۔
2 ۔ إن اللہ عز وجل لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر
3۔ إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (مسند احمد، حدیث نمبر 20454)۔
4۔ لیؤیدنّ اللہ ہذا الدین بقوم لا خلاق لہم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4517)۔
ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جو اہل دین میں سے نہ ہوں گے۔وہ اس کام کو ڈیو لپمنٹ (development) کے نام سے انجام دیں گے۔ لیکن عملاً ان کی پیدا کردہ دنیا تائیدی معنوں میں پرو اسلام (pro-Islam) بن جائے گی۔
موجودہ زمانےمیں یہ واقعہ کامل طور پر انجام پاچکا ہے۔ وہ چیز جس کو مسلمان عام طور پر اسلامو فوبیا (Islamophobia) کہتے ہیں۔ وہ دراصل پرو اسلام ظاہرہ (pro-Islam phenomenon) ہے۔ لیکن مسلمان اپنی بے خبری کی بنا پر ایک مثبت واقعے کو منفی واقعے کے طور پر لیے ہوئے ہیں۔ اس منفی طرز فکر نے مسلمانوں کو بیک وقت دو نقصان پہنچایاہے۔ ایک یہ کہ وہ دورِ حاضر میں بے جگہ کمیونٹی (displaced)بن گیے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ جدید مواقع (modern opportunities) کو اسلام کے حق میں استعمال کرنے میں عملا ناکام رہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغربی قومیں براہ راست معنوں میں اسلام کے حق میں تائیدی رول انجام دے رہی ہے۔ ایسا ہونا غیر فطری ہے۔ اس قسم کا تائیدی رول کبھی کوئی کمیونٹی کسی دوسری کمیونٹی کے لیے انجام نہیں دیتی۔اصل یہ ہے کہ ’’غیر اہل دین‘‘کا یہ تائیدی رول براہ راست طور پر نہیں، بلکہ بالواسطہ طور پر انجام پایا ہے۔
موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) ہوا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں ایک نیا ظاہرہ وجود میں آیا جس کو کثیر پیداوار (mass production)کا ظاہرہ کہا جاتا ہے۔ نئے صنعتی نظام کے تحت چیزیں اتنی بڑی مقدار میں تیار ہونے لگیں ، جن کی کھپت مقامی طور پر ناممکن تھی۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ کا نیا تصور پیدا ہوا۔ چیزوں کو کمرشیل نظریے کے تحت تیار کیا جانے لگا۔ اس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا، جو قدیم زمانے میں موجود نہ تھا۔ قدیم زمانے میں ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) موجود ہوتا تھا۔ مثلا بادشاہ اور لینڈ لارڈ، وغیرہ۔ صرف یہی لوگ بڑی چیزوں کو حاصل کرسکتے تھے۔ موجودہ زمانے میں جو کمرشیل انقلاب آیا، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ ہر چیز ہر ایک کے لیے (everything for everyone)کا کلچر رائج ہوگیا۔اب ہر چیز ہر ایک کے دسترس میں ہوگئی۔ یہ چیز پہلے کبھی دنیامیں موجود نہ تھی۔
مثلا پہلے زمانے میں کوئی بڑی سواری صرف بادشاہ کے لیے ممکن تھی۔ اب ہر آدمی کار اور ہوائی جہاز استعمال کررہا ہے۔ پہلے زمانےمیں پیغام رساں کبوتر (homing pigeon)کسی بہت بڑے آدمی کے لیے قابل استعمال ہوا کرتی تھی۔ مگر آج ہم ایج آف کمیونی کیشن کے زمانے میں ہیں۔ اب ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کا استعمال کرکےپیغام رسانی کا بڑے سے بڑا مقصد حاصل کرسکے، وغیرہ، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بہت بڑے پیمانے پر انجام پایا۔ یہ گویا مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا زمانہ ہے۔اب ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے بڑے سے بڑا کام انجام دے سکے۔ یہی امکان پوری طرح اہل ایمان کے لیے کھلا ہوا ہے۔ عمومی طور پر پیدا ہونے والا یہ امکان تاریخ کا بالکل نیا ظاہرہ ہے۔یہ نیا ظاہرہ گویاتائید کلچر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے لڑکے شہزادہ سلیم کی شادی میں اس کو چار سو ہاتھی کا تحفہ دیا تھا۔ یہ چار سو ہاتھی دوہد (گجرات) کے گھنے جنگلوں سے حاصل کیے گیے تھے۔ مگر آج گجرات کے اس علاقہ میں نہ کہیں گھنے جنگل نظر آتے ہیں، اور نہ ہاتھی۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتا رہتا ہے۔ ایک جگہ جہاں آج’’جنگل‘‘ نظر آتا ہے، وہاں کل ’’میدان‘‘ نظر آنے لگتا ہے۔ جہاں آج ہاتھیوں کے غول گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہاں جب کل کا سورج نکلتا ہے ہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ وہاں انسان چل پھر رہے ہیں۔
زمانہ کے اس بدلتے ہوئے روپ میں بے شمار نشانیاں ہیں۔ مگر نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، جو ان کی گہرائیوں میں جھانکنے کی بصیرت رکھتے ہوں۔ (ڈائری، 1985)
واپس اوپر جائیں
قتال اور جہاد کا حکم اسلام میں کیا ہے۔ اس معاملے میں فقہاءاسلام کا مسلک سعودی عالم محمد بن ابراہیم التویجری نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں، جہاد اور قتال۔ جہادسے مراد جہاد دعوت ہے اور وہ حسن لذاتہ ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال حسن لغیرہ ہے۔ اس کا مقصدلڑ کر فتنہ کو ختم کرنا ہے۔کیوں کہ اس سے دعوت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (دیکھیے:موسوعة الفقہ الإسلامی، محمد بن إبراہیم التویجری، بیت الافکار الدولیہ، 2009، جلد 5 صفحہ450)۔
اس کا مطلب یہ ہےکہ اسلام میں قتال کا حکم ایک موقت (temporary) حکم ہے اور جہاد کا حکم ایک مستقل حکم۔ قتال فتنہ کو ختم کرنے کے لیے ہے (البقرۃ
قرآن کے مطابق، پیغمبر کا کام انذار و تبشیر (النساء
اصل یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے زمین پر آباد کیا، اور اس کے بعد داعیان توحید کو کھڑا کیا جو ہمیشہ پرامن انداز میںانسان کو اس کا مقصد حیات (purpose of creation) بتاتے رہے۔ مگر بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ دنیا میں جبر (despotism)کا نظام قائم ہوگیا۔ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق یہ مطلوب ہے کہ انسان کے لیے مذہب کے معاملہ میں ہمیشہ آپشن (options) کھلے رہیں۔ لیکن جبر کے تحت یہ آزادی دنیا میں باقی نہ رہی۔ انسان کو پابند کردیا گیا کہ وہ حکمراں کے عقیدہ (belief) کو مانے، ورنہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس صورتِ حال کی بنا پر دنیا سے مذہبی آزادی کا خاتمہ ہوگیااور ساری دنیا میں مذہبی جبر (religious persecution) کا دور قائم ہوگیا۔ یہ صورتِ حال خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف تھی۔ اس لیے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا : وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہ(
قرآن کی اس آیت میں فتنہ سے مراد قدیم مذہبی جبر کا نظام ہے، جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق نہ تھا۔ قرآن نے اپنے پیرؤوں کو یہ حکم دیا کہ ہزاروں سال سے قائم شدہ اس مذہبی جبر کے نظام کو ہر حال میں ختم کردو، خواہ اس کے لیے تم کو جنگ کرنا پڑے۔ اس جنگ کا نشانہ صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ کہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عقیدہ (belief) کے معاملے میں انسان کے لیے تمام آپشن (options) کھل جائیں۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی جبر باقی نہ رہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ یہ آپریشن (operation) شروع ہوا اور انہیں کے زمانہ میں اس آپریشن کا بڑا حصہ انجام پا گیا۔ پہلے قبائلی نظام (tribal system) ختم ہوا۔ اس کے بعد وقت کے دو بڑے ایمپائر ، ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت (Byzantine Empire) کا خاتمہ ہوگیا، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی جبر کے نظام کے دو بڑے مرکز بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد تاریخ میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے مسلسل طور پر تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1789 میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution) کہا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس گویا ختم فتنہ کے عمل (process)کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اب قتال کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب اہل توحید کو صرف پرامن دعوت کا کام کرنا ہے۔
مسلمانوں کی بعد کی تاریخ میں اس معاملے میں ایک فکری تبدیلی پیدا ہوگئی۔ وہ یہ کہ عمومی طور پر قتال و جہاد کو ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بلاشبہ ایک فکری انحراف تھا۔ اس فکری انحراف کی بنا پر یہ نقصان واقع ہوا کہ قتال ایک مستقل عمل کے طورپر مسلمانوں کے درمیان جاری ہوگیا۔ اور دعوت الی اللہ جو اصل مقصود تھا، وہ عملا پس پشت پڑگیا۔ مسلمانوں کے درمیان انحراف کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسان کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بظاہر اگر کچھ لوگ تم کو اپنے دشمن نظر آئیں تو اپنے حسن اخلاق سے ان کو اپنا دوست بناؤ (فصلت:
مسلمانوں کے درمیان یہ صورت حال، بلاشبہ ایک مہلک صورت حال ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی توبہ (النور
واپس اوپر جائیں
قدیم یونانی تہذیب سے لے کر جدید مغربی تہذیب (western civilization) تک تقریباً 100 سو تہذیبیں دنیا میں پائی گئی ہیں۔ مگر جدید مغربی تہذیب ایک منفرد تہذیب ہے۔ بقیہ تمام تہذیبیں سیاسی انقلاب کے تحت وجود میں آئیں۔ جب کہ جدید مغربی تہذیب استثنائی طور پر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کے تحت وجود میں آئی۔ قدیم تہذیبوں کے بانی سیاسی حکمراں ہوا کرتےتھے۔ مگر جدید مغربی تہذیب کو وجود میں لانے والے وہ لوگ ہیں، جن کو سائنسداں (scientists) کہا جاتا ہے۔
تہذیب کی تاریخ میں اسلامی تہذیب یا مسلم تہذیب کا نام بھی آتا ہے۔ مگر باعتبارِ حقیقت یہ درست نہیں۔جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی تہذیب نہ تھی، بلکہ وہ قدیم یونانی یا رومی تہذیب کی توسیع (expansion) تھی:
What is called Islamic civilization was in fact a modified version of Greco-Roman civilization
تہذیب (civilization) کےلیے موجودہ عرب دنیا میں حضارۃ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے دونوں مصادر (sources)، قرآن اور حدیث اس لفظ سے خالی ہیں۔ قرآن و سنت میں اسلامی حضارۃ (civilization) کا تصور موجود نہیں۔ علمائے متقدمین کی کتابوں میں سے کوئی کتاب اسلامی حضارۃ کے موضوع پر پائی نہیں جاتی۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلامی حضارۃ ایک مبتدعانہ تصور ہے ۔اس اصطلاح کا ماخذ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مضاہاۃ (التوبۃ30:) کہا گیا ہے۔
اس موضوع پر مزید غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اسلامی تہذیب کا تصور موجود نہیں ہے۔ البتہ اسلام میں اسلام کی موید تہذیب (supporting civilization) کا تصور موجود ہے۔ یہ تصور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول سے اخذ ہوتا ہے۔ یہ روایت حدیث کی کتابوں میں مختلف الفاظ میں موجود ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: إن اللہ سیؤید ہذا الدین بأقوام لا خلاق لہم (حدیث نمبر 20454)۔یعنی مستقبل میں ضرور ایسا ہوگا کہ اللہ تعالی اس دین کی تائید ایسے لوگوں کے ذریعے کرے گا جن کا (دین میں ) حصہ نہ ہو گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ایک پیشین گوئی (prediction) تھی۔ یہ پیشین گوئی آپ نے ساتویں صدی عیسوی میں کی۔ اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں، جب کہ اس پیشین گوئی کو چودہ سوسال سے زیادہ گزرچکے ہیں۔ یہ لمبی مدت یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ پیغمبرانہ پیشین گوئی یقینی طور پر پوری ہوچکی۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم اس کو دریافت کریں۔ اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی مذکورہ پیشین گوئی اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اس سے بے خبر ہیں تو اس کا سبب صرف تسمیہ (nomenclature) کا فرق ہے۔ یعنی پیشین گوئی ساتویں صدی عیسوی کی زبان میں کی گئی، اب وہ آج کی زبان میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ زبان کے اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو چیز مستقبل (future)کا واقعہ معلوم ہوتی تھی، وہ اب حال (present) کا واقعہ بن چکی ہے۔ یہاں اس سلسلے میں چند مثالیں نقل کی جاتی ہیں، جس سے یہ بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ کے زمانے میں جو قرآن اترا ، اس کی ایک آیت یہ تھی: وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرَ إِلَّا فِی کِتَابٍ مُبِینٍ (
تائید کا معاملہ
اسلامی تہذیب اور مؤید اسلام تہذیب کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر آدمی کے مزاج سے ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصور قدیم زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یہ صرف موجودہ زمانہ میں ابھرا ہے۔ بظاہر یہ مسلم فخر کا ایک معاملہ تھا۔ مگر عملاً وہ غلط فکر کا معاملہ بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں ایک بہت بڑا واقعہ ہوا جو مسلمان کے لیے نہایت مفید معاملہ تھا۔ یہ واقعہ مغربی تہذیب کا معاملہ تھا۔ مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے حدیث کی زبان میں مؤید دین تہذیب تھی۔ وہ مسلمانوں کے لیے ایک عظیم موقع (great opportunity) تھا جس کو استعمال کرکے مسلمان جدید معیار کے مطابق زیادہ مؤثر انداز میں اسلام کی اشاعت کا کام کرسکتے تھے۔ مگر اسلامی تہذیب کے نام پر فخر پسندی کا مزاج مسلمانوں پر اس طرح چھا گیاکہ وہ اس حقیقت کو دریافت ہی نہ کرسکےکہ مغربی تہذیب ان کے دین کے لیے تائید کا درجہ رکھتی ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ کی وجہ سے مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھ لیا گیا۔ جب کہ باعتبارِ حقیقت وہ ایک مرید اسلام تہذیب تھی۔ اس غلط فکر کا نقصان اتنا بڑا ہے کہ شاید پوری مسلم تاریخ میں اتنے بڑے نقصان کا کوئی دوسرا واقعہ نہیں۔
مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے لیے نئے مواقع کھولے تھے۔ ان میں سب سے بڑا موقع یہ تھا کہ وہ اسلام کی عالمی دعوت کے ناتمام (unfinished) منصوبہ کو تکمیل تک پہنچاسکیں۔ اور حدیث کے الفاظ میں اللہ کے کلام کو زمین پر آباد چھوٹے اور بڑے گھر میں داخل کردیں ۔ مگر مسلمان اپنی غلط فکری کی وجہ سے جدید مواقع کو اپنے دین کے حق میں استعمال نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ساتویں صدی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن کا مقصد انسانیت کی اصلاح تھا۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے قرآن میں جن مختلف گروہوں کوایڈریس کیا گیا ہے، وہ عملاً 4 قسم کے گروہ ہیں— یہود، عیسائی، مشرک اور کافر۔ اگر کوئی شخص قرآن کو پڑھے تو وہ پائے گا کہ یہ چاروں گروہ قرآن کی دعوت کے بارے میں منفی (negative) ذہن رکھتےہیں۔ چناں چہ قرآن میں ان کے اوپر سخت تنقید کی گئی ہے۔ حتی کہ بعض اوقات ان کے سخت رد عمل کی بنا پر جنگ کی نوبت آگئی۔
بعد کے زمانے کے مسلمان جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو وہ قرآن میں ان چاروں گروہوںکا ذکر پاتے ہیں۔ کیوں کہ چاروں گروہوں کے بارے میں ان کے عصری رویہ کی بنا پر سخت تبصرے کیے گیے ہیں۔ قرآن کے یہ سخت تبصرے زمانی سبب (age factor) کی بنا پر ہیں۔ لیکن مسلمان غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ طبقات آج بھی باقی ہیں، اور ان کے بارے میں آج بھی ان کا وہی سخت رویہ ہونا چاہیے، جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں تھا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ تمام قوموں کے خلاف لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں۔ کبھی passive sense میں اور کبھی active senseمیں۔ وہ یہود کو مغضوب قوم سمجھتے ہیں، نصاریٰ کو ضالَ قوم سمجھتے ہیں، وہ مفروضہ کافروں کو جہنمی سمجھتے ہیں، اور اس طرح مشرکوں کو اعتقادی معنوں میں سراسر باطل سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہی مزاج (mindset) ہے جس نے ان کو ساری دنیا کا مخالف بنادیا ہے۔ ان کا نشانہ یہ بن گیا ہے کہ تمام قوموں سے لڑ کر ان کو مغلوب کرنا ہےاور ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی اقتدار قائم کرنا ہے۔
مسلمانوں کی یہ سوچ تمام تر ان کی غلط فکری کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی میں عرب یا اطراف عرب میں جو قومیں موجود تھیں، وہ سب بہت پہلے ختم ہوچکیں۔ اب ان کے نام سے جو قومیں دنیا میں موجود ہیں، وہ خواہ نام کے اعتبار سے قدیم ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ جدید ہیں۔
جدید دور ایک اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا دور (age of deconditioning) ہے۔ جدید دور میں نئے افکار خاص طور پر سیکولر ایجوکیشن نے مکمل طور پر لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ آج کا یہودی مختلف یہودی ہے، آج کا عیسائی مختلف عیسائی ہے۔ اس طرح آج کے مشرک مختلف قسم کے مشرک ہیں۔ یہ قومیں اب اتنا زیادہ بدل چکی ہیں کہ ان کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے انھیں دوبارہ دریافت (rediscover) کیا ہو۔
قدیم زمانہ کے اعتبار سے یہ لوگ 4 مختلف قوم تھے۔ لیکن جدید زمانہ کے اعتبار سے یہ سب ایک ہی قوم ہیں۔ سب پر ایک ہی لفظ منطبق ہوتا ہے، اور وہ ہے جدید انسانـ۔ قدیم زمانہ کے انسان کے برعکس جدید دور کے انسان کے اندر اصولی طور پر کٹرپن اور تعصب ختم ہوچکا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں ہم اور وہ (we and they) کا تصور (concept) رائج تھا۔ اب آج کی دنیا میں عمومی طور پرہم اور ہم (we and we) کا conceptرائج ہوچکا ہے۔
اس صورت حال نے قدیم مساوات (equation)کا خاتمہ کردیا ہے۔ قدیم زمانہ میں دوست اور دشمن (friend and enemy) کا تصور پھیلا ہوا تھا۔ اب یہ ثنویت (dichotomy) ختم ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں جس مساوات کا غلبہ ہے، وہ دوست اور مؤید (supporter)کا ہے۔آج کی دنیا میں کوئی کسی کا دشمن نہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی شخص یا تو آپ کا دوست ہوگا اور اگر دوست نہ ہو تو وہ آپ کا مؤید ہوگا۔ گویا جس دور کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب واقعہ بن چکی ہے۔
ان روایتوں میں مستقبل کے جس واقعہ کو دین کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے، وہ حقیقۃً ساری انسانیت کی نسبت سے ہے۔یعنی مستقبل میں ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ دشمنی کا دور اصولی طور پر ختم ہوجائے گا۔ دور کے تقاضے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ اور اگر دوست نہ ہوں گے تو وہ امکانی طور پر ایک دوسرے کے مؤید بن جائیں گے۔
اسلام سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو کلچر رائج تھا، وہ یہ تھا ——جو میرا دوست نہیں، وہ میرا دشمن ہے۔قدیم زمانہ زراعت (agriculture)اور کنگ شپ (kingship) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں ہر ایک کا انٹرسٹ الگ ہوتا تھا۔ گویا کہ وہ زمانہage of differing interest کا زمانہ تھا۔ اُس زمانہ میں باہمی تعلقات کا کلچر وجود میں نہیں آیا تھا۔ لوگ یا تو اپنے اپنے ذاتی دائرے میں رہتے تھے، یا میدان جنگ ( battlefield)میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ گویا کہ اُس زمانہ میں جو رائج ثنائیت (dichotomy)تھی، وہ دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی تھی۔ یہ ثنائی کلچر مستقل طور پر دشمنی اور جنگ کا سبب بنا ہوا تھا۔ اِس ثنائی کلچر کی بنا پر دین حق کی اشاعت عملاً ناممکن بن گئی تھی۔ قدیم زمانہ میں جو مذہبی جبر (religious persecution)رائج ہوا،اس کا سبب یہی تھا۔
اللہ تعالی کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ثنائیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (
یہ نظام تائید (order of mutual support) دنیا میں کس طرح آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام عملاً جمہوریت (democracy) اور صنعتی تہذیب (industrial civilization) کے ذریعہ دنیا میں آچکا ہے۔ اس سیاسی اور صنعتی نظام کے بعد دنیا میں جو دور آیا ہے، وہ تمام تر باہمی مفاد (mutual interest) پر قائم ہے۔ پچھلے زمانہ میں باہمی مفاد کی حیثیت عمومی کلچرکی نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں باہمی مفاد زیادہ ضروری ہوچکا ہے ۔ اس کے بغیر نہ جمہوری سیاست دنیا میں چلائی جاسکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب قائم کی جاسکتی ہے۔
باہمی مفاد کے اس کلچر نے اب اُس چیز کو لوگوں کے لیے ایک مجبوری (compulsion) کا معاملہ بنا دیا ہے، جس کو پہلے صرف اخلاقی چیز سمجھا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دوسروں کو اپنا دشمن قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ جمہوری سیاست چل سکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب وجود میں آسکتی ہے۔
زمانہ کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہ ہوا کہ قدیم طرز کی یہ ثنائیت ایک ناممکن چیز بن گئی۔ اس اضطرار (compulsion) کی بنا پر دور جدید میں ایک نئی ثنائیت قائم ہوگئی۔ یہ نئی ثنائیت دوست اور مؤید (supporter) کے اصول پر قائم ہے، نہ کہ قدیم زمانہ کی دوست اور دشمنی کی ثنائیت پر۔
موجودہ زمانہ کے جو مسلمان دوسری قوموں کو اپنا حریف یا دشمن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے متشددانہ لڑائی کررہے ہیں، وہ مؤید کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ آج بھی دنیا میں وہی یہود ،وہی نصاریٰ، وہی کافراور وہی مشرک ہیں، جو پہلے تھے۔ حالاں کہ اب اصولی طور پر ان تمام گروہوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج یہ تمام گروہ ایک عمومی کلچر کا حصہ بن کر ایک نئے قسم کے گروہ بن گیے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مؤید گروہ (supporter) بن گیے ہیں۔ آج ایک انسان کی شناخت (identity)مذہب پرمبنی نہیں ہے، بلکہ تائیدی کلچر پر مبنی ہے۔
وہ تائیدی دور جس کی پیشین گوئی قرآن و حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب پچھلے ہزار سالہ تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مکمل طور پر نفرت اور تشدد کا خاتمہ کردیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے سیاسی مفاد یااقتصادی مفاد کو باہمی تعلقات (mutual interest) کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے ملی منصوبہ کو باہمی تعلقات (mutual interest) پر قائم کرنا چاہیے، نہ کہ باہمی ٹکراؤ کی بنیاد پر۔
قدیم تاریخ میں انسانوں کے درمیان جو ناپسندیدہ صورتِ حال قائم تھی، ا س کے حل کے لیے تین انتخاب (option) ممکن تھے۔ ایک یہ کہ صورت حال کو بدستور اپنی حالت پر باقی رکھا جائے۔ اس انتخاب میں اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا تھا، اور انسان کو وہ آزادی ملنے والی نہیں تھی، جو خدائی اسکیم (scheme of things) کے مطابق مطلوب تھی۔ یعنی آزادی کے ساتھ اپنے پسندیدہ مذہب یا فکر کو اختیار کرنا۔
دوسرا انتخاب یہ تھا کہ لڑکر اس صورت حال کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، مگر یہ انتخاب بھی غیر مفید تھا۔ کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے، وہ سرے سے قابل عمل ہی نہ تھا۔
تیسرا انتخاب وہ ہے جس کو اختیار کیا گیا، یعنی انسانی تعلقات میں ایسا کلچر رائج کیا گیا، جس میں امن ہر ایک کی ضرورت بن گئی۔ ہر ایک کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ دوسرے کی رعایت (concession) کرتے ہوئے، اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرے، نہ کہ دوسروں سے ٹکراؤ کے ذریعہ۔ یہی وہ حکمت ہے، جو خالق نے اس معاملہ میں اختیار کی۔
ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں اس سلسلہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ معاصر زمانہ کی رعایت سے تھی، وہ ابدی نہ تھی۔ قرآن کی تعلیمات کے دو حصے ہیں۔ ایک آئڈیالوجی (ideology)، اور دوسرا ہے طریقہ کار (method)۔آئڈیا لوجی کا جو حصہ ہے، ناقابل تبدیلی ہے۔ وہ جیسا پہلے تھا، ویسے ہی اب بھی رہے گا۔ لیکن جہاں تک متھڈ کی بات ہے، اس کا تعلق زمانی اسباب (age factor) سے ہے۔ خالق نے زمانی اسباب کے معاملہ میں تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ انسان کی آزادی بھی باقی رہے، اور مسئلہ بھی انسانی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر حل ہوجائے۔
قدیم زمانہ میں زندگی کا جو نظام رائج تھا، اس میں صرف دو چیزوں کی اہمیت ہوتی تھی: زراعت (agriculture) اور بادشاہت (kingship)۔زرعی زمین کا مالک لینڈ لارڈ ہوتا تھا۔ زمین کے معاملہ میں وہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح حکومت کے معاملہ میں ساری حیثیت بادشاہ کی ہوتی تھی۔ اس نظام کے تحت قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں یک طرفہ مفاد (unilateral interest) کا طریقہ رائج تھا۔ اس لیے ہزاروں سال کے درمیان ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔
مسلم عہد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت(Byzantine Empire) کو توڑدیا گیا۔ اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔یہاں تک کہ
اس صورت حال نے پچھلی مساواتوں (equations) کو یکسر بدل دیا۔ اب دنیا میں نئی ثنائیت (dichotomy) وجود میں آئی، تمام انسانی مفادات دو طرفہ بنیاد پر قائم ہوگیے۔ ٹیچر کا مفاد اسٹوڈنٹ سے، اور اسٹوڈنٹ کا مفاد ٹیچر سے۔ بزنس مین کا مفاد کسٹمرسے، اور کسٹمرس کا مفاد بزنس مین سے، پولیٹکل لیڈروں کا مفاد ووٹرس سے اور ووٹرس کا مفاد پولیٹکل لیڈرس سے، وغیرہ۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار وہ دور عمومی طور پر رائج ہوا جس کو حدیث میں تائید کا دور (age of mutual support) کہا گیا ہے۔
اس نئے دور کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (
یہ تاریخ میں خدائی مینجمنٹ (divine management) کا معاملہ تھا۔ قدیم زمانے میں انسانی زندگی دوست اور دشمنی کی ثنائیت (dichotomy) پر قائم تھی۔ تاریخ میں اس نئے انقلاب کے بعد انسانی زندگی میں ایک اور ڈائیکاٹومی قائم ہوئی، جس میں دشمنی کا تصور حذف ہوچکا تھا۔ صرف دو فریق باقی تھے۔ اور وہ تھے، دوست اور موید (supporter)۔
قرآن میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا تھا : وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (
آج دنیا ایک گلوبل ولیج (global village) بن چکی ہے۔ تیز رفتار کمیونی کیشن نے تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ ایک ملک کے دوسرے ملک سے مفادات وابستہ ہوگیے ہیں۔ کسی ملک میں کوئی چیز دستیاب ہے، کسی ملک میں کوئی دوسری چیز دستیاب ہے۔ اس طرح آپسی لین دین بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ بہت بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی تاریخ میں نہیں تھا۔ اس نئے سیناریو (scenario) میں تمام rivalries ختم ہوچکی ہیں۔ اب صرف دوست اور دوست کا equation ہے۔ دوست اور دشمن کا equation ختم ہوچکا ہے۔
اس گلوبل ولیج کی ایک علامت موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر (air travel) ہے۔ قدیم بحری اور بری سفر کے برعکس ہوائی جہاز تمام ملکوں کے اوپر پرواز کرتا ہے، خواہ وہ اپنا ملک ہو یا غیر کا ملک ہو۔ اس کے نتیجہ میں انسانوں کی بنائی ہوئی تمام سرحدیں اپنے آپ ٹوٹ گئیں۔ اب عملاً ہر انسان تمام دنیا کا شہری ہے۔ جبکہ قدیم زمانہ میں کوئی انسان صرف اپنے ملک کا شہری ہوتا تھا۔
ایجوکیشن، جاب، سیاحت، تجارت، وغیرہ کے لیے لوگ بڑی تعداد میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کو ہر طرح کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب سے لوگوں کو آگاکریں، اس کی بھی آزادی ہے۔ اس نظر سے ہم دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آج ساری دنیا ہماری دنیا ہے۔ وہ ساری حد بندیاں ٹوٹ چکی ہیں، جو قدیم دور کا خاصہ تھیں۔ آپ باہر جاکر تعلیم حاصل کریں، بزنس کریں، اپنے مذہب کی پریکٹس کریں، اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ صرف لاء اینڈ آرڈر کے لیے پرابلم بننے کی اجازت نہیں ۔ آپ پرامن (peaceful) رہ کر ہر ملک میں وہ کام کرسکتے ہیں، جو آپ اپنے ملک میں کرسکتے ہیں۔
یہ نیا دور جو تاریخ میں خدائی انتظام (divine management) کے تحت دنیا میں آیا ہے، وہ عین دینِ خداوندی کے حق میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھے۔ وہ ہر قسم کی منفی کارروائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کی منفی کارروائیاں محرومی (deprivation) کے اصول پر قائم تھیں۔ اب امت مسلمہ کو اپنی منصوبہ بندی کو مکمل طو رپر یافت (gain) کے اصول پر قائم کرنا ہے۔ اب امت مسلمہ کے لیے مایوسی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب امت مسلمہ کو کامل امید کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ یہ منصوبہ بندی تمام تر دعوت کے اصول پر قائم ہونی چاہیے، جس کا بنیادی نشانہ ہو قرآن کی عالمی اشاعت۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں سیاسی اقتدار کی اہمیت صرف ایک اعتبار سے ہے، اور وہ ہے پولیٹکل استحکام (political stability)۔ اسی کو قرآن میں تمکین فی الارض (
یہی وجہ ہے کہ دورِ اول میں جب خلافت کی جگہ خاندانی نظام (dynasty) قائم ہوگیا تو صحابہ ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر بعد کے علماء تک عملاًامت کے تمام افراد نے خاندانی نظام حکومت کو قبول کرلیا۔ کیوں کہ اس کے ذریعے سے سماج میں استحکام کا ماحول قائم ہوگیا تھا۔ اس استحکام کی بنا پر اہل ایمان کو موقع ملا کہ وہ دین کے تمام تقاضےپر امن انداز میں پورے کرسکیں۔ مثلاًقرآن کی حفاظت، حدیث کی جمع و تدوین، فقہ کا ارتقاء، مساجد و مدارس کا نظام، عمرہ اور حج کا نظام،اسلامی علوم کی تدوین،وغیرہ۔ یہ سارے کا م پر امن ماحول میں ہزار سال تک جاری رہے۔
بیسویں صدی میں مسلمانوں کے اندر بہت سی تحریکیں اٹھیں۔ ان تمام تحریکوں کااصل نشانہ پولیٹکل اقتدار تھا۔ سب کا کیس ظاہری فرق کے باوجود ایک ہی تھا، اور وہ ہے سیاسی رخ (political orientation) ۔ ان سب کا انجام مشترک طور پر ایک ہی ہوا، اپنے نشانہ کو حاصل کرنے میں ناکامی۔اللہ کی سنت یہ نہیں ہے کہ جو لوگ اسلام کے نشانے کو لے کر اٹھیں، وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہیں۔ نشانہ پورا نہ ہونے کا معاملہ کسی غیر کی سازش کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان بانیان تحریک نے منصوبۂ الٰہی کو نہیں سمجھا، اور خود ساختہ نشانہ لے کر اٹھ گیے۔ ایسی تحریک کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔ یہ تحریکیں بظاہر اب بھی موجود ہیں تو ان سب پر یہ مثال صادق آتی ہے: تاڑ سے گرا اور کھجور میں اٹکا۔ ان تمام تحریکوں نے یہی کیا کہ انھوں نے اپنے نشانے کی غلطی کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ سابق نام کے ساتھ اپنے نئے کام کو جاری رکھا۔ یہ طریقہ دو عملی کا طریقہ ہے، اور دو عملی اسلام میں بلاشبہ غیر مطلوب ہے۔
اس دور کے مسلم بانیانِ تحریک کے ساتھ بظاہر ایک ہی معاملہ پیش آیا۔ ان لوگوں کا فکر پچھلے ہزار سال کے سیاسی حالات میں بنا تھا۔ پچھلے ہزار سال کے دورا ن دنیا میں ہر جگہ پولیٹکل ماڈل کا رواج تھا۔ اس سے ان بانیانِ تحریک کے اندر پولیٹکل مائنڈ سیٹ بنا۔ انھوں نے اپنے اس پولیٹکل مائنڈ سیٹ کو درست سمجھ کر اس کے مطابق تحریک شروع کردی۔ مگر یہ خلاف زمانہ حرکت (anachronism) کا معاملہ تھا۔ اب قدیم دور کا پولیٹکل ماڈل ختم ہوچکا تھا، نئے دور میںصرف ایک ہی ماڈل قابلِ عمل ہے، اور وہ ہے غیرسیاسی (non-political) ماڈل۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانہ جمہوریت (democracy) اور سیکولرزم کا زمانہ ہے۔ سیکولرزم کا مطلب ہے مذہبی ناطرف داری، اور ڈیموکریسی کا مطلب ہے ہر ایک کے لیے مکمل آزادی، ہر ایک کو مواقع کے استعمال کا یکساں حق۔ اس انقلاب سے پہلے مواقع پر صرف بادشاہ کی اجارہ داری (monopoly) ہوا کرتی تھی۔ اب یہ اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ اب نئے حالات میں تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ استعمال ہوچکے ہیں۔ اب صرف ایک ہی چیز کی پابندی ہے، اور وہ ہے تشدد (violence)۔ دورِ جدید کے مسلم بانیان تحریک نے بظاہر اس راز کو نہیں سمجھا، وہ غیر ضروری طور پر اُس چیز کے لیے لڑتے رہے، جو عملا ان کوحاصل ہو چکی تھی۔
حدیث کے مطابق، بعد کے زمانے میں اسلام کا داعی بادشاہ کی طرح (کالملوک على الأسِرّة) سفر کرے گا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2799) ۔یہاں مثل بادشاہ سفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو مواقع قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے خاص سمجھے جاتے ہیں، وہ مواقع عام داعیان اسلام کو حاصل ہو جائیں گے۔ رکاوٹ کے بغیروہ ساری دنیا میں اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیےآزاد ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن و حدیث میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں ایسی پیشین گوئیاں (predictions) موجود ہیں، جو بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو زمانے آنے والا ہے، وہ اسلام کا زمانہ ہوگا۔ مثلا ایک روایت یہ ہے: صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے لیٹےتھے۔ ہم نے کہا کہ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں مانگتے، کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا، تم سے پہلے جو لوگ تھے، ان کا یہ حال تھا کہ آدمی کو پکڑا جاتا، اس کے لیے زمین میں گڈھا کھودا جاتا، پھر اس کو اس میں ڈال دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا تھا اور اس کے سر پر چلایا جاتا تھا، اور اس کو دو ٹکرے کردیا جاتا تھا، اور(کبھی ایسا ہوتا کہ کسی آدمی کے جسم پر)لوہے کی کنگھی کی جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس کے گوشت سے بڑ ھ کر اس کی ہڈی تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر یہ چیز اس کو اس کےدین سے روکنے والی نہیں بنتی تھی۔
پھر آپ نے فرمایا:واللہ لیتمن ہذا الأمر، حتى یسیر الراکب من صنعاء إلى حضرموت، لا یخاف إلا اللہ، والذئب على غنمہ، ولکنکم تستعجلون۔یعنی خدا کی قسم یہ امر تکمیل تک پہنچے گا، یہاں ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا، اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوگا، اوراپنی بکریوں پر بھیڑیے کا،مگر تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6943)۔
یہ قول رسول ایک پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ میں جو اہل دین پر ظلم کیا جاتا تھا ، وہ اسلام کے بعد کی تاریخ میں اللہ کی مدد سے ختم ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قبل از اسلام کا دور، اگر مخالف اسلام دور تھا تو بعد از اسلام کا دور، موافق اسلام کا دور ہوگا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں یہ دور آیا۔ اب اس پیشین گوئی پر تقریبا ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یقینی ہے کہ یہ دور تاریخ میں آچکا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اہل اسلام اس دور کی آمد سے بے خبر ہیں۔
اس عظیم بے خبری کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب،حدیث کے مطابق یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے اکثر لوگوں سے ان کی عقلیں چھن جائیں گی (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔اس بنا پر وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ وہ کسی واقعہ کا صحیح تجزیہ کرکے اس کی حقیقت کو دریافت کریں۔ عقل کیا ہے۔ عقل اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو جان سکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ مصرکے سید قطب مزید تعلیم کے لیے امریکا گیے۔ وہاں وہ تین سال رہے۔ انھوں نے امریکا کے بارے ایک کتاب لکھی۔ کتاب کا عربی نام یہ ہے، امریکا التی رایت:
The America I have seen
یہ کتاب امریکا کی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آدمی وہی رائے قائم کرے گاجو عام طور پر امریکا کے بارے میں عربوں کی رائے ہے۔ عرب عام طور پر امریکاکے بارے میں اپنی رائے، اس الفاظ میں بیان کرتے ہیں: امریکا عدو الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ اس منفی رائے کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ امریکا کو ایک غیرمتعلق پہلو سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ امریکا کو اسرائیل کے زاویہ سے دیکھتے ہیں، وہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ اور جو لوگ امریکا کو اس کے کلچر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ لوگ امریکاکو اباحیت (permissiveness )کا ملک سمجھتے ہیں۔ مگر یہ دونوں پہلو امریکا کے غیر متعلق پہلو ہیں۔ اس کا متعلق پہلو یہ ہے کہ امریکا میں سائنسی تحقیق (scientific research) کاسب سے زیادہ کام ہوا ہے۔ غیر متعلق پہلو سے دیکھنے میں امریکا ایک برا ملک نظر آتا ہے، لیکن اگر متعلق پہلو سے دیکھا جائے تو امریکا انسانیت کا محسن ملک نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں
20 نومبر 2016کو ہمارے ایک ساتھی دہلی ایرپورٹ پر اترے۔ یہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک جگہ کچھ ماڈرن قسم کےنوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھی کے بیگ میں انگریزی ترجمۂ قرآن موجود تھا۔ وہ ان کے قریب گیے، اور ایک نوجوان کو انگریزی ترجمہ ٔ قرآن یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ آپ کے لیے گفٹ ہے۔ نوجوان نے اس کو دیکھا کہ تو وہ خوشی کے ساتھ کہہ اٹھا: واؤ! (wow!)۔ دوسرے نوجوانوں کو جب معلوم ہوا تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم کو بھی واؤ! (wow!) کہنے کا موقع دیجیے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم قرآن کو پڑھیں اور یہ جانیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
یہ واقعہ علامتی طور پر ایک نمائندہ واقعہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے انسان ، مرد اور عورت دونوں اپنی فطرت کے زور پر اس تلاش میں ہیں کہ وہ جانیں کہ اس دنیا کا خالق کون ہے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہمارے لیے اس دنیا میں زندگی کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں ہمیں کیا پیغام دیا ہے۔ یہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ہر مرد اور ہر عورت کے دل کی آواز ہے۔یہ صورت حال کی ایک پکار ہے۔ یہ پکار ان تمام لوگوں کو مخاطب کررہی ہے، جو قرآن کے حامل ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو دنیا کی تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کریں، اور اس کو لوگوں تک پہنچائیں، تاکہ لوگ اپنی قابل فہم زبان (understandable language) میں پڑھ کر جان سکیں کہ قرآن میں ان کے لیے کیا پیغام ہے۔
ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ ترجمۂ قرآن کے چھپےہوئے نسخے رکھے، اور جب بھی کسی مرد یا عورت سے ملاقات ہو تو اس کو وہ ایک اسپریچول گفٹ کے طور پر پیش کرے۔ یہ حاملین قرآن کے لیے اپنی ذمہ داری کو اداکرنے کی ایک ایسی صورت ہے جو ہر ایک کے لیے پوری طرح قابل عمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو تمام انسانوںتک پہنچانا، ہر مسلمان کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے بغیر وہ اللہ کے سامنے بری الذمہ قرار نہیں پاسکتے۔
واپس اوپر جائیں
آج کل کے علماء جب مسلمانوں کے ’’جدید مسائل‘‘ پر لکھتے اور بولتے ہیں تو وہ عام طور پر قدیم فقہاء کے فتاویٰ کا حوالہ دیتے ہیں۔ وہ قدیم فقہی جزئیات کو ڈھونڈ کر نکالتے ہیں۔ وہ ابن تیمیہ اور دوسرے ائمہ کے حوالے دیتے ہیں۔اس قسم کے حوالے بلاشبہ درست نہیں۔ قدیم فقہا کا ذہن مسلم حکمرانی کے دور میں بنا تھا، ان حضرات کے فتاویٰ آج کے حالات میں قابل انطباق (applicable) نہیں۔
قدیم فقہا ء کا ذہن اپنے زمانی حالات کی بنا پر اس طرح بنا تھا کہ وہ ایک طبقہ کو حاکم اور دوسرے طبقہ کو محکوم سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ایک علاقہ کی حیثیت بلاد الکفار کی تھی ، اور دوسرے علاقہ کی حیثیت بلاد المسلمین کی۔ وہ اپنے اس ذہن کی بنا پر دنیا کو دارالاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحوں میں تقسیم کیے ہوئےتھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہمارے علماء انھیں اصطلاحات یا اسی فریم ورک (framework)میں اپنا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس معاملہ میں قدیم علماء کے حوالے پیش کرتے ہیں۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ان جوابات کے باوجود اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا ہے۔ وہ نہ مسلمانوں کے ذہن کو مطمئن کرپاتا، اور نہ اصل مسئلے کو حل کرتا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ اب زمانہ یک سر بدل چکا ہے۔ اب سیکولرزم اور جمہوریت کا زمانہ ہے۔ قدیم طرز کی تقسیم اب قابل عمل نہیں رہی۔ آج کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمہوری انداز میں سوچیں، وہ سیکولر انداز میں اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔ اب اگر بدستور انھوں نے مسلم اور غیر مسلم کے لیے قدیم انداز کی تقسیم کو جاری رکھا تو آج کی دنیا میں ان کی فکر غیرمتعلق (irrelevant) ہوجائے گی۔ آج کے زمانے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کے ذہن کے مطابق ساری دنیا دار الانسان ہے۔ ذاتی عقیدہ اور عبادت کے سوامسلمانوں کو ہر معاملہ میں آفاقی ذہن کے ساتھ رہنا ہوگا، ورنہ وہ لوگوں کی نظر میں آج کے زمانے کے لیے مس فٹ (misfit) قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
امت کےدور زوال کے بارے میں ایک حدیث یہ ہے:تنزع عقول أکثر ذلک الزمان، ویخلف لہ ہباء من الناس لا عقول لہم(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3959)۔ یعنی اُس زمانہ کے اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی اور ذروں کی طرح لوگ باقی رہ جائیں گے، جن کے پاس عقلیں نہ ہوں گی۔
عقل (reason)تو فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ عقل کے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابتدائی نسلوں میں عقل رہے، اور بعد کی نسلوں میں وہ چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا چھننا، عضویاتی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ سمجھ (understanding) کے معنی میں ہے۔ یعنی عقل تو موجود ہوگی، لیکن سمجھداری موجود نہ ہو گی۔ مزید غور وفکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوں میں اجتہادی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے وہ اس قابل نہ رہیں گے کہ حالات کے مطابق شریعت کی تطبیق نو (reapplication) کرکے اپنے حالات کے اعتبار سے اس کی پیروی کریں۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت اجتہاد کا خاتمہ کلی طور پر نہ ہوگا۔ وہ اس معنی میں ہوگا کہ جہاں مجبوری (compulsion) کی صورت حال ہو، وہاں تو وہ اجتہاد پر عمل کریں گے۔ لیکن جہان مجبوری کی صورت حال نہ ہوگی ، وہاں وہ اپنے روایتی ذہن پر قائم رہیں گے، اور اجتہاد نہ کرسکیں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن میں حج کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ (
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاجیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مقامات سے اونٹ پر سفر کرکے مکہ پہنچیں۔ قدیم زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں جب مشینی سواری کا دور آیا تو اب کوئی حاجی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اب بھی سواری کے لیے اونٹ کا استعمال کرے، اور اس طرح مقامات حج تک پہنچے۔ بلکہ اب تمام حاجی یہی کرتے ہیں کہ دور کے مقامات سے وہ ہوائی جہاز پر سفر کرتے ہیں، اور قریب کے مقامات سے کاروں اور بسوں پر۔ حالاں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ علما نے جمع ہو کر یہ فتوی دیا ہو کہ اب زمانہ بدل گیا۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ حیوانی سواری کے بجائے، مشینی سواری پر سفر کرکے مقام حج تک پہنچیں۔
واقعات بتاتے ہیں کہ زمانے کی حالات میں اور بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ تاہم امت کے عوام یا علما اس معاملے میں ایسا نہ کرسکے کہ وہ اجتہاد کریں اور قدیم طریقے کو چھوڑ کر نئے طریقے پر عمل کریں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جدو جہد کا طریقہ بدل گیا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے متشددانہ جدو جہد (violent struggle) کا طریقہ رائج تھا۔ مگر موجودہ زمانے میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ اب متشددانہ جدو جہد کا طریقہ غیر موثر بن گیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ پر امن جدو جہد (peaceful struggle) کے ذریعہ ہر قسم کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ ایسی حالت میں اجتہاد کا تقاضا تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان تشدد کے طریقے کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور امن کے طریقے کو پوری طرح اختیار کر لیں۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
حالاں کہ اس معاملے میں حدیث رسول میں پیشگی طور پر رہنمائی موجود تھی۔ حضرت عائشہ، رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بتاتی ہیں : ما خیر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین، أحدہما أیسر من الآخر، إلا اختار أیسرہما (صحیح مسلم، حدیث نمبر2327)۔ یعنی آپ کو جب بھی دو کاموں میں ایک اختیار کرنا ہوتا، جن میں سے ایک دوسرے سے آسان ہوتا، تو آپ ان دونوں میں سے آسان کام کو اختیار فرماتے۔ یہ ظاہر ہے کہ متشددانہ طریقہ کار کے مقابلے میں پر امن طریقہ کار آسان ہے۔ ایسی حالت میں حدیث رسول کے مطابق مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ متشددانہ طریقہ کار کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف پر امن طریقہ کار پر عمل کریں۔ مگر اجتہاد کے فقدان کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمان ایسا نہ کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ ،وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ مسند الشہاب القضاعی کے الفاظ یہ ہیں: الحکمة ضالة المؤمن، حیثما وجد المؤمن ضالتہ فلیجمعہا إلیہ (حدیث نمبر
حکمت (wisdom) کی بات کیوں مومن کا حق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر حکمت ایک ربانی عطیہ ہے۔ اور جو چیز ربانی عطیہ (divine gift) ہو، وہ کسی کی اجارہ داری (monopoly) نہیںہوسکتی۔ ہر ربانی عطیہ ایک آفاقی نعمت ہے۔ اور آفاقی نعمت میں ہر انسان کا مشترک حصہ ہوتا ہے۔ حکمت سے مراد مادی تخلیقات بھی ہیں، اور حکمت و بصیرت کی باتیں بھی۔ جس طرح سورج اور پانی خالق کا آفاقی عطیہ ہے، اسی طرح قانون فطرت (law of nature) میں تحقیق سے حاصل ہونے والی حقیقتیں بھی آفاقی نعمتیں ہیں۔ وہ ہر انسان کا حصہ ہیں، مومن کابھی اور غیرمومن کا بھی۔ عطیات الٰہی میں تفریق یقینا جائز نہیں۔
عطیات الٰہی کے بارے میں یہ آفاقی نظریہ ایک انقلابی نظریہ ہے۔ وہ انسان کی سوچ کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔مثال کے طور پر وہ محققین جنھوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے فطرت کے قوانین کو دریافت کیا، وہ شخصیتیں بھی پوری انسانیت کا حصہ ہیں۔ اس طرح یہ نظریہ آدمی کے اندر ایک یونیورسل آؤٹ لک (universal outlook) پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد متعصبانہ طرز فکر کی جڑ کٹ جاتی ہے، دوست اور دشمن کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، ہر انسان کو دوسرا انسان اپنا دوست نظر آنےلگتا ہے۔ یہ نظریہ نفرت کاقاتل ہے۔ وہ عالمی محبت کو فروغ دینے والا ہے۔
اس حدیث میں حکمت سے مراد صرف حکمت دین نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہر وہ حکمت ہے، جو درست اور مفید ہو، جو حقیقت واقعہ کے مطابق ہو۔
واپس اوپر جائیں
برادر محترم جناب اقبال لودھیا صاحب، السلام علیکم و رحمۃ اللہ
محمدرفیق لودھیا صاحب کے بارے میں خبر ملی۔ بہت صدمہ ہوا۔ اللہ تعالی مرحوم کو اپنی رحمتوں سے نوازے، اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور پس ماندگان کے لیے ہر قسم کی مدد فرمائے۔ میں آپ سب کے لیے اور پورے خاندان کے لیے بہترین دعا کرتا ہوں۔
آپ کے والد ، نور محمد لودھیا صاحب سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ نیو یارک کے سفر میں ان کے گھر پر جاکر مَیں ان سے ملا تھا۔ وہ جب انڈیا آتے تو مجھ سے ضرور ملتے۔ یہی محمدرفیق لودھیا صاحب کا بھی معمول تھا۔ اس بنا پر آپ کی فیملی سے میرے ذاتی تعلقات ہوگیے تھے۔ میں برابر محمد رفیق لودھیا صاحب کی صحت کے لیے دعا کرتاتھا۔ لیکن اللہ علیم و خبیر انسان کے لیے جس چیز کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے، اس کے لیے اسی کا فیصلہ فرماتا ہے۔ مجھ کو اور آپ کو یہی یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے جو فیصلہ فرمایا ، اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی، اور اسی کے اندر بہتری ہوگی۔ آپ اپنی فیملی کے تمام افراد سے میرا سلام کہیں، اور میرا یہ پیغام سب کو پہنچادیں۔ اس طرح کے معاملات میں واحد صحیح طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے فیصلہ پر راضی رہنا، اور یہ امید رکھنا کہ اللہ نے جو فیصلہ فرمایا ہے، اس میں یقیناً ہمارے لیے بہتری ہوگی۔
یہاں میں آپ کو قرآن کی ایک متعلق آیت یاددلانا چاہتا ہوں، جو ان الفاظ میں آئی ہے:وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِنْ شَیْء (
میں آپ کے لیے اور آپ کے تمام اہل خاندان کے لیے دعا کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ قرآن کی یہ آیت آپ کے لیے اور آپ کی فیملی کے لیے ایک رہنما آیت ثابت ہوگی۔ اللہ تعالی آپ کے لیے اور آپ کی فیملی کے لیے ہر قسم کے خیر کا فیصلہ فرمائے۔
نئی دہلی،
واپس اوپر جائیں
■ دعوت اسلامی کا مطلب میرے نزدیک دعوت الی اللہ ہے۔موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ میرے نزدیک الحادی فکر کا غلبہ ہے۔ اس لیے دعوت اسلامی کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے پہلے ضرورت یہ ہے کہ دنیا سے الحادی فکر کا غلبہ ختم کیا جائے۔
قدیم زمانہ میں مادی مظاہر کو خدا قرار دے کر انسان نے خدا کو چھوڑ دیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں مادی مظاہر کے پیچھے کام کرنے والے سلسلہ اسباب کو خدا قرار دے دیا گیا ہے، اور اسی کا نام الحاد ہے۔ جب تک اس فکری ڈھانچہ کو توڑا نہ جائے کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا۔
■ موجودہ زمانہ کے داعیوں کا اصل مسئلہ وہ ہے جو داخلی ہے۔ وہ ابھی تک دعوت اور قومیت کو اور اسی طرح دعوت اور سیاست کو الگ الگ نہیں کرسکے ہیں۔ جس دن وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں گے، اسی دن ان کے مسائل کے خاتمہ کا آغاز ہوجائے گا۔
■ صحافت یقیناَ اسلامی دعوت کےلیے نہایت اہم ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مسلمان ابھی تک صرف قومی صحافت کو جانتے ہیں، وہ عالمی صحافت کے میدان میں داخل نہیں ہوئے۔ عالمی صحافت کے لیے موضوعیت (objectivity)لازمی طور پر ضروری ہے۔
■ جدید علمی انکشافات کو تفسیر قرآن میں استعمال کرنا میرے نزدیک عین درست ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ معیارِ اصلی قرآن ہو، نہ کہ جدید انکشافات۔ یعنی جدید انکشافات کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، نہ کہ قرآن کو جدید انکشافات کی روشنی میں۔
■ علمی نظریات کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دورِ اول میں جب قرآن نے کہا کہ زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور کرو تو انسان نے اپنی اس وقت کی معلومات کی روشنی میں زمین و آسمان پر غور کیا۔ آج بھی یہی ہوگا کہ انسان اپنی موجودہ معلومات کی روشنی میں آیاتِ کون پر غور کرے گا۔ اس کی وجہ سے نہ پہلے کوئی اعتقادی خرابی پیدا ہوئی، اور نہ آج ہوسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.