قرآن اور عصر جدید
قرآن ساتویں صدی کے ربع اول میں اترا۔ قرآن کا مقصد انسانیت کی اصلاح تھا۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے قرآن میں جن مختلف گروہوں کوایڈریس کیا گیا ہے، وہ عملاً 4 قسم کے گروہ ہیں— یہود، عیسائی، مشرک اور کافر۔ اگر کوئی شخص قرآن کو پڑھے تو وہ پائے گا کہ یہ چاروں گروہ قرآن کی دعوت کے بارے میں منفی (negative) ذہن رکھتےہیں۔ چناں چہ قرآن میں ان کے اوپر سخت تنقید کی گئی ہے۔ حتی کہ بعض اوقات ان کے سخت رد عمل کی بنا پر جنگ کی نوبت آگئی۔
بعد کے زمانے کے مسلمان جب قرآن کو پڑھتے ہیں تو وہ قرآن میں ان چاروں گروہوںکا ذکر پاتے ہیں۔ کیوں کہ چاروں گروہوں کے بارے میں ان کے عصری رویہ کی بنا پر سخت تبصرے کیے گیے ہیں۔ قرآن کے یہ سخت تبصرے زمانی سبب (age factor) کی بنا پر ہیں۔ لیکن مسلمان غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ طبقات آج بھی باقی ہیں، اور ان کے بارے میں آج بھی ان کا وہی سخت رویہ ہونا چاہیے، جو رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں تھا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ تمام قوموں کے خلاف لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں۔ کبھی passive sense میں اور کبھی active senseمیں۔ وہ یہود کو مغضوب قوم سمجھتے ہیں، نصاریٰ کو ضالَ قوم سمجھتے ہیں، وہ مفروضہ کافروں کو جہنمی سمجھتے ہیں، اور اس طرح مشرکوں کو اعتقادی معنوں میں سراسر باطل سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہی مزاج (mindset) ہے جس نے ان کو ساری دنیا کا مخالف بنادیا ہے۔ ان کا نشانہ یہ بن گیا ہے کہ تمام قوموں سے لڑ کر ان کو مغلوب کرنا ہےاور ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی اقتدار قائم کرنا ہے۔
مسلمانوں کی یہ سوچ تمام تر ان کی غلط فکری کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی میں عرب یا اطراف عرب میں جو قومیں موجود تھیں، وہ سب بہت پہلے ختم ہوچکیں۔ اب ان کے نام سے جو قومیں دنیا میں موجود ہیں، وہ خواہ نام کے اعتبار سے قدیم ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ جدید ہیں۔
جدید دور ایک اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا دور (age of deconditioning) ہے۔ جدید دور میں نئے افکار خاص طور پر سیکولر ایجوکیشن نے مکمل طور پر لوگوں کے ذہنوں کو بدل دیا ہے۔ آج کا یہودی مختلف یہودی ہے، آج کا عیسائی مختلف عیسائی ہے۔ اس طرح آج کے مشرک مختلف قسم کے مشرک ہیں۔ یہ قومیں اب اتنا زیادہ بدل چکی ہیں کہ ان کو وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے انھیں دوبارہ دریافت (rediscover) کیا ہو۔
قدیم زمانہ کے اعتبار سے یہ لوگ 4 مختلف قوم تھے۔ لیکن جدید زمانہ کے اعتبار سے یہ سب ایک ہی قوم ہیں۔ سب پر ایک ہی لفظ منطبق ہوتا ہے، اور وہ ہے جدید انسانـ۔ قدیم زمانہ کے انسان کے برعکس جدید دور کے انسان کے اندر اصولی طور پر کٹرپن اور تعصب ختم ہوچکا ہے۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں ہم اور وہ (we and they) کا تصور (concept) رائج تھا۔ اب آج کی دنیا میں عمومی طور پرہم اور ہم (we and we) کا conceptرائج ہوچکا ہے۔
اس صورت حال نے قدیم مساوات (equation)کا خاتمہ کردیا ہے۔ قدیم زمانہ میں دوست اور دشمن (friend and enemy) کا تصور پھیلا ہوا تھا۔ اب یہ ثنویت (dichotomy) ختم ہوچکی ہے۔ آج دنیا میں جس مساوات کا غلبہ ہے، وہ دوست اور مؤید (supporter)کا ہے۔آج کی دنیا میں کوئی کسی کا دشمن نہیں۔ آج کی دنیا میں کوئی شخص یا تو آپ کا دوست ہوگا اور اگر دوست نہ ہو تو وہ آپ کا مؤید ہوگا۔ گویا جس دور کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب واقعہ بن چکی ہے۔
ان روایتوں میں مستقبل کے جس واقعہ کو دین کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے، وہ حقیقۃً ساری انسانیت کی نسبت سے ہے۔یعنی مستقبل میں ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ دشمنی کا دور اصولی طور پر ختم ہوجائے گا۔ دور کے تقاضے کی بنا پر لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوں گے۔ اور اگر دوست نہ ہوں گے تو وہ امکانی طور پر ایک دوسرے کے مؤید بن جائیں گے۔
اسلام سے پہلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو کلچر رائج تھا، وہ یہ تھا ——جو میرا دوست نہیں، وہ میرا دشمن ہے۔قدیم زمانہ زراعت (agriculture)اور کنگ شپ (kingship) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں ہر ایک کا انٹرسٹ الگ ہوتا تھا۔ گویا کہ وہ زمانہage of differing interest کا زمانہ تھا۔ اُس زمانہ میں باہمی تعلقات کا کلچر وجود میں نہیں آیا تھا۔ لوگ یا تو اپنے اپنے ذاتی دائرے میں رہتے تھے، یا میدان جنگ ( battlefield)میں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ گویا کہ اُس زمانہ میں جو رائج ثنائیت (dichotomy)تھی، وہ دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی تھی۔ یہ ثنائی کلچر مستقل طور پر دشمنی اور جنگ کا سبب بنا ہوا تھا۔ اِس ثنائی کلچر کی بنا پر دین حق کی اشاعت عملاً ناممکن بن گئی تھی۔ قدیم زمانہ میں جو مذہبی جبر (religious persecution)رائج ہوا،اس کا سبب یہی تھا۔
اللہ تعالی کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ثنائیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ( 8:39 )۔ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ اس آیت میں خدا کی جس اسکیم کا اعلان کیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ (kingdom of God) قائم کی جائے۔اس آیت میں سیاسی نظریہ کو نہیں بتایا گیا تھا، بلکہ اس میں ایک انسانی نظریہ کو بتایا گیا تھا۔ اور وہ یہ کہ دنیا میں ایک عالمی اصول (universal norm) کے طور پر دوست اور دشمن کی ثنائیت (dichotomy)ختم ہوجائے، اور ایک اور ثنائیت رائج ہوجائے۔ یعنی دوست اور مؤید کی ثنائیت۔یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ بے شک اس دین کی مدد ایسے اقوام کے ذریعہ کرے گا، جو اہل ایمان میں سے نہ ہوں گے۔
یہ نظام تائید (order of mutual support) دنیا میں کس طرح آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظام عملاً جمہوریت (democracy) اور صنعتی تہذیب (industrial civilization) کے ذریعہ دنیا میں آچکا ہے۔ اس سیاسی اور صنعتی نظام کے بعد دنیا میں جو دور آیا ہے، وہ تمام تر باہمی مفاد (mutual interest) پر قائم ہے۔ پچھلے زمانہ میں باہمی مفاد کی حیثیت عمومی کلچرکی نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں باہمی مفاد زیادہ ضروری ہوچکا ہے ۔ اس کے بغیر نہ جمہوری سیاست دنیا میں چلائی جاسکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب قائم کی جاسکتی ہے۔
باہمی مفاد کے اس کلچر نے اب اُس چیز کو لوگوں کے لیے ایک مجبوری (compulsion) کا معاملہ بنا دیا ہے، جس کو پہلے صرف اخلاقی چیز سمجھا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دوسروں کو اپنا دشمن قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں نہ جمہوری سیاست چل سکتی ہے، اور نہ صنعتی تہذیب وجود میں آسکتی ہے۔
زمانہ کی اس تبدیلی کی وجہ سے یہ ہوا کہ قدیم طرز کی یہ ثنائیت ایک ناممکن چیز بن گئی۔ اس اضطرار (compulsion) کی بنا پر دور جدید میں ایک نئی ثنائیت قائم ہوگئی۔ یہ نئی ثنائیت دوست اور مؤید (supporter) کے اصول پر قائم ہے، نہ کہ قدیم زمانہ کی دوست اور دشمنی کی ثنائیت پر۔
موجودہ زمانہ کے جو مسلمان دوسری قوموں کو اپنا حریف یا دشمن سمجھ کر ان سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے متشددانہ لڑائی کررہے ہیں، وہ مؤید کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ وہ اپنے قدیم ذہن کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ آج بھی دنیا میں وہی یہود ،وہی نصاریٰ، وہی کافراور وہی مشرک ہیں، جو پہلے تھے۔ حالاں کہ اب اصولی طور پر ان تمام گروہوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ آج یہ تمام گروہ ایک عمومی کلچر کا حصہ بن کر ایک نئے قسم کے گروہ بن گیے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا مؤید گروہ (supporter) بن گیے ہیں۔ آج ایک انسان کی شناخت (identity)مذہب پرمبنی نہیں ہے، بلکہ تائیدی کلچر پر مبنی ہے۔
وہ تائیدی دور جس کی پیشین گوئی قرآن و حدیث میں کی گئی تھی، وہ اب پچھلے ہزار سالہ تاریخی عمل (historical process) کے ذریعہ دنیا میں عملاً قائم ہوچکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مکمل طور پر نفرت اور تشدد کا خاتمہ کردیں۔ جس طرح دوسرے لوگ اپنے سیاسی مفاد یااقتصادی مفاد کو باہمی تعلقات (mutual interest) کے ذریعہ حاصل کررہے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے ملی منصوبہ کو باہمی تعلقات (mutual interest) پر قائم کرنا چاہیے، نہ کہ باہمی ٹکراؤ کی بنیاد پر۔
قدیم تاریخ میں انسانوں کے درمیان جو ناپسندیدہ صورتِ حال قائم تھی، ا س کے حل کے لیے تین انتخاب (option) ممکن تھے۔ ایک یہ کہ صورت حال کو بدستور اپنی حالت پر باقی رکھا جائے۔ اس انتخاب میں اصل مسئلہ بدستور باقی رہتا تھا، اور انسان کو وہ آزادی ملنے والی نہیں تھی، جو خدائی اسکیم (scheme of things) کے مطابق مطلوب تھی۔ یعنی آزادی کے ساتھ اپنے پسندیدہ مذہب یا فکر کو اختیار کرنا۔
دوسرا انتخاب یہ تھا کہ لڑکر اس صورت حال کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، مگر یہ انتخاب بھی غیر مفید تھا۔ کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے، وہ سرے سے قابل عمل ہی نہ تھا۔
تیسرا انتخاب وہ ہے جس کو اختیار کیا گیا، یعنی انسانی تعلقات میں ایسا کلچر رائج کیا گیا، جس میں امن ہر ایک کی ضرورت بن گئی۔ ہر ایک کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ وہ دوسرے کی رعایت (concession) کرتے ہوئے، اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرے، نہ کہ دوسروں سے ٹکراؤ کے ذریعہ۔ یہی وہ حکمت ہے، جو خالق نے اس معاملہ میں اختیار کی۔
ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں اس سلسلہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ معاصر زمانہ کی رعایت سے تھی، وہ ابدی نہ تھی۔ قرآن کی تعلیمات کے دو حصے ہیں۔ ایک آئڈیالوجی (ideology)، اور دوسرا ہے طریقہ کار (method)۔آئڈیا لوجی کا جو حصہ ہے، ناقابل تبدیلی ہے۔ وہ جیسا پہلے تھا، ویسے ہی اب بھی رہے گا۔ لیکن جہاں تک متھڈ کی بات ہے، اس کا تعلق زمانی اسباب (age factor) سے ہے۔ خالق نے زمانی اسباب کے معاملہ میں تاریخ کو اس طرح مینج (manage) کیا کہ انسان کی آزادی بھی باقی رہے، اور مسئلہ بھی انسانی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر حل ہوجائے۔
قدیم زمانہ میں زندگی کا جو نظام رائج تھا، اس میں صرف دو چیزوں کی اہمیت ہوتی تھی: زراعت (agriculture) اور بادشاہت (kingship)۔زرعی زمین کا مالک لینڈ لارڈ ہوتا تھا۔ زمین کے معاملہ میں وہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اس طرح حکومت کے معاملہ میں ساری حیثیت بادشاہ کی ہوتی تھی۔ اس نظام کے تحت قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں یک طرفہ مفاد (unilateral interest) کا طریقہ رائج تھا۔ اس لیے ہزاروں سال کے درمیان ساری دنیا میں یہی طریقہ رائج تھا۔
مسلم عہد میں آٹھویں صدی عیسوی میں ساسانی سلطنت (Sassanid Empire) اور بازنطینی سلطنت(Byzantine Empire) کو توڑدیا گیا۔ اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوا۔ یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔یہاں تک کہ 17 ویں صدی میں مغربی یورپ میں اس کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد انسانی زندگی میں ایک نیا دور آگیا۔ یہ نیا دور باہمی مفاد کے اصول پر قائم تھا۔ اب دنیا کا نظام مشترک مفاد(common interest) کے اصول پر چلنے لگا۔ جب کہ اس سے پہلے وہ غیر مشترک مفاد (unilateral interest) کے اصول پر چل رہا تھا۔ اس نئے دور میں دوبڑے انقلابات آئے۔ ایک، جمہوریت (democracy) اوردوسرا، صنعتی تہذیب (industrial civilization)۔
اس صورت حال نے پچھلی مساواتوں (equations) کو یکسر بدل دیا۔ اب دنیا میں نئی ثنائیت (dichotomy) وجود میں آئی، تمام انسانی مفادات دو طرفہ بنیاد پر قائم ہوگیے۔ ٹیچر کا مفاد اسٹوڈنٹ سے، اور اسٹوڈنٹ کا مفاد ٹیچر سے۔ بزنس مین کا مفاد کسٹمرسے، اور کسٹمرس کا مفاد بزنس مین سے، پولیٹکل لیڈروں کا مفاد ووٹرس سے اور ووٹرس کا مفاد پولیٹکل لیڈرس سے، وغیرہ۔ اس طرح دنیا میں پہلی بار وہ دور عمومی طور پر رائج ہوا جس کو حدیث میں تائید کا دور (age of mutual support) کہا گیا ہے۔
اس نئے دور کی پیشین گوئی قرآن میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ ( 41:34 )۔یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
یہ تاریخ میں خدائی مینجمنٹ (divine management) کا معاملہ تھا۔ قدیم زمانے میں انسانی زندگی دوست اور دشمنی کی ثنائیت (dichotomy) پر قائم تھی۔ تاریخ میں اس نئے انقلاب کے بعد انسانی زندگی میں ایک اور ڈائیکاٹومی قائم ہوئی، جس میں دشمنی کا تصور حذف ہوچکا تھا۔ صرف دو فریق باقی تھے۔ اور وہ تھے، دوست اور موید (supporter)۔
قرآن میں رسول اور اصحاب رسول کو یہ حکم دیا گیا تھا : وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ ( 8:39 )۔ یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ اس آیت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ساری دنیا میں حکومتِ الٰہیہ قائم ہوجائے، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانی زندگی میں مخاصمانہ تعلقات (relationship based on rivalry) کے بجائے مویدانہ تعلقات (relationship based on support) پر قائم ہوجائے۔ دنیا سے مذہبی استبداد ختم ہوجائے۔
آج دنیا ایک گلوبل ولیج (global village) بن چکی ہے۔ تیز رفتار کمیونی کیشن نے تمام رکاوٹیں دور کردی ہیں۔ ایک ملک کے دوسرے ملک سے مفادات وابستہ ہوگیے ہیں۔ کسی ملک میں کوئی چیز دستیاب ہے، کسی ملک میں کوئی دوسری چیز دستیاب ہے۔ اس طرح آپسی لین دین بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ بہت بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی تاریخ میں نہیں تھا۔ اس نئے سیناریو (scenario) میں تمام rivalries ختم ہوچکی ہیں۔ اب صرف دوست اور دوست کا equation ہے۔ دوست اور دشمن کا equation ختم ہوچکا ہے۔
اس گلوبل ولیج کی ایک علامت موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر (air travel) ہے۔ قدیم بحری اور بری سفر کے برعکس ہوائی جہاز تمام ملکوں کے اوپر پرواز کرتا ہے، خواہ وہ اپنا ملک ہو یا غیر کا ملک ہو۔ اس کے نتیجہ میں انسانوں کی بنائی ہوئی تمام سرحدیں اپنے آپ ٹوٹ گئیں۔ اب عملاً ہر انسان تمام دنیا کا شہری ہے۔ جبکہ قدیم زمانہ میں کوئی انسان صرف اپنے ملک کا شہری ہوتا تھا۔
ایجوکیشن، جاب، سیاحت، تجارت، وغیرہ کے لیے لوگ بڑی تعداد میں ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کو ہر طرح کی آزادی ملی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب سے لوگوں کو آگاکریں، اس کی بھی آزادی ہے۔ اس نظر سے ہم دیکھیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ آج ساری دنیا ہماری دنیا ہے۔ وہ ساری حد بندیاں ٹوٹ چکی ہیں، جو قدیم دور کا خاصہ تھیں۔ آپ باہر جاکر تعلیم حاصل کریں، بزنس کریں، اپنے مذہب کی پریکٹس کریں، اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ صرف لاء اینڈ آرڈر کے لیے پرابلم بننے کی اجازت نہیں ۔ آپ پرامن (peaceful) رہ کر ہر ملک میں وہ کام کرسکتے ہیں، جو آپ اپنے ملک میں کرسکتے ہیں۔
یہ نیا دور جو تاریخ میں خدائی انتظام (divine management) کے تحت دنیا میں آیا ہے، وہ عین دینِ خداوندی کے حق میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھے۔ وہ ہر قسم کی منفی کارروائیوں کو مکمل طور پر چھوڑ دے۔ کیوں کہ امت مسلمہ کی منفی کارروائیاں محرومی (deprivation) کے اصول پر قائم تھیں۔ اب امت مسلمہ کو اپنی منصوبہ بندی کو مکمل طو رپر یافت (gain) کے اصول پر قائم کرنا ہے۔ اب امت مسلمہ کے لیے مایوسی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ اب امت مسلمہ کو کامل امید کی بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ یہ منصوبہ بندی تمام تر دعوت کے اصول پر قائم ہونی چاہیے، جس کا بنیادی نشانہ ہو قرآن کی عالمی اشاعت۔
واپس اوپر جائیں