قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اس سورہ میں ایک خصوصی اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے۔ اس سورہ میںسب سے پہلے نتیجہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ان چیزوں کا ذکر ہے، جو کسی انسان کو اس نتیجہ تک پہنچانے والی ہیں۔اس سورہ میںپہلی بات تکذیبِ دین ہے۔ یعنی روز جزاء (Day of Judgement)کو نہ ماننا ۔ جو لوگ دنیا میں اس طرح زندگی گزاریں، جیسے حیوان زندگی گزارتا ہے تو وہ اپنے عمل سے اس بات کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا ایک بے مقصد دنیا ہے۔ وہ کسی مقصد کے بغیر شروع ہوئی، اور کسی مقصد تک پہنچے بغیر ختم ہوجائے گی۔ ایسے لوگوں کے لیے آخری انجام ویل ہے۔ یعنی تباہ کن ناکامی۔
ایسے لوگوں کی ظاہری علامت کیا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ایسے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر پاتے جن کو وہ اپنے مقابلے میں بے زور سمجھتے ہوں۔ مثلا یتیم اور نادار لوگ۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں، اس کو صرف وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے لیے ان کی کمائی میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ وہ اگر بظاہر دین دار ہوں، تب بھی ان کی دین داری صرف کچھ ظواہر کے معنی میں ہوتی ہے۔ ان کی دین داری دین کی حقیقی اسپرٹ سے خالی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے معمولی درجہ میں بھی دینے والے نہیں بنتے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول 10 ھ کو مدینہ میں ہوئی۔ وفات سے چند مہینہ پہلے 9 ھ میں آپ نے مکہ جاکر حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے اپنی امت کو آخری ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ , وسنة نبیہ (موطا الامام مالک، حدیث نمبر1874) ۔یعنی میں نے تمھارے درمیان دو امر چھوڑے ہیں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے، اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت۔
ملا علی قاری نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں امر کا مطلب بتایا ہے حَکَم (بیروت، 2002،1/269 )۔ حکم کا مطلب ہے فیصلہ کرنے والا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امر سے مراد معیار (criterion) ہے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود موجود نہ ہوں گے، اس وقت امت کو یہ کرنا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ قرآن اور سنت میں اس مسئلے کا جواب تلاش کرے، اور جو جواب قرآن و سنت میں ملے ، اس کو کسی عذر کے بغیر قبول کرلے۔ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب کوئی گروہ ان کو اپنا دشمن نظر آئے تو فوراً اس کے خلاف لڑنا شروع کردیں۔ بلکہ انھیں اس کا جواب قرآن و سنت میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں قرآن میں اس کی واضح رہنمائی ملے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (
اس آیت کے مطابق، کوئی گروہ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پیدائشی طور پر ہر گروہ مسلمانوں کے لیے امکانی دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مسلمانوں کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو بالفعل (actual) دوست بنائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
انسان اپنے خالق کا بہترین آرٹ ہے۔ کوئی آرٹسٹ ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ ایک بہترین آرٹ کی تخلیق کرے، اور پھر اس کو کوڑا خانے میں ڈال دے۔ یہ اسلوب کی بات ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے انسان کے لیے نہایت اعلی انجام مقدر ہے۔ مگر انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے خود سے اپنے آپ کو کوڑے کے ڈھیر میں ڈال دیا۔
انسان کے بارے میں یہ حقیقت قرآن کی ایک اور سورہ میں اس طرح آئی ہے۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اور ان کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں تو وہ ان سے نکل بھاگا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں۔ (الانعام 175-176 :)۔
دونوں آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے تخلیق کے اعتبار سے بہترین ساخت (mould) کے ساتھ پیداکیا۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کو آزادی بھی عطا کردی۔ یہ انسان کے لیے ایک مزید عطیہ تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال کرکے اپنے آپ کو اس درجے تک پہنچائے جو اس کے لیے تخلیق کے اعتبار سے مقدر تھا۔ مگر انسان کی اکثریت نے تخلیق کی اس حکمت کو نہیں سمجھا، اور اپنے آپ کو خود سے تباہ کرلیا۔
تاہم آیتوں کا مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ خالق کی عنایت سے انسان کے لیےامکان ختم نہیں ہوا، وہ اس کےلیےبدستور باقی ہے۔ انسان کے لیے یہ امکان باقی ہے کہ اگر اس نے پہلا موقع (first chance) کھودیا ہے تو اپنی زندگی کی نئی منصوبہ بندی (re-planning) کرکے ، وہ دوسرا موقع (second chance) کو اویل (avail) کرسکتا ہے۔ یہ مزید موقع انسان کے لیے اس وقت تک باقی رہے گا جب تک وہ اس دنیا میں زندہ موجود ہو۔
نیا منصوبہ کیا ہے۔ نیا منصوبہ اپنی غلطی کے اعتراف سے شروع ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنے ذہن کو بیدار کرے، وہ یہ دریافت کرے کہ اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے، کس موڑ پر اس نے پہلے موقع کو کھودیا ہے۔ اس دریافت کے بعد یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ انسان حالات کا دوبارہ اندازہ کرے، وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو از سر نو دریافت کرے۔ اس کے بعد وہ پوری سنجیدگی کےساتھ اپنی زندگی کا نیا نقشہ بنائے گا۔
جو مرد یا عورت ایسا کریں، ان کے لیے فطرت کا قانون پوری طرح معاون بن جائے گا۔ ایسے عورت اور مرد دیکھیں گے کہ بہت جلد انھوں نے اپنی چھوٹی ہوئی بس (Missed Bus)کو پالیا ہے۔ جو دنیا پہلے بظاہر ان کی دشمن نظر آتی تھی، وہ اب پوری طرح ان کی دوست بن گئی ہے۔
زندگی میں نئی منصوبہ بندی (re-planning) ہمیشہ ممکن ہوتی ہے۔ یہاں ہمیشہ یہ ممکن ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کرے، اور بہت جلد وہ اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ (sincere) ہو۔ وہ شکایت کی نفسیات سے پوری طرح پاک ہو،وہ اپنی ماضی کی غلطی کو دوبارہ نہ دہرائے، وہ تواضع (modesty) کا طریقہ اختیارکرے، نہ کہ کبر (arrogance) کا طریقہ۔ وہ اپنی غلطی کو ماننے کے لیے ہر وقت تیار رہے۔ جو عورت یا مرد اس کردا ر کا ثبو ت دیں ، ان کو کوئی چیز کامیابی کی منزل تک پہنچنے سے روکنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
جس شخص کا ذہن بگڑا ہوا ہو، اس کے سامنے سچائی آتی ہے تو وہ اس کے مقابلے میں دحض کا معاملہ کرتا ہے۔ یعنی حق کی آواز کو دبانا۔قرآن میں اس معاملہ کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ وَیُجَادِلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنْذِرُوا ہُزُوًا (
رسول کو مبشر اور منذر بنا کر بھیجنے کا مطلب ہے، دلیل کے ساتھ بھیجنا۔ اللہ کا رسول اپنی بات کو دلائل کی زبان میں پیش کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی غیر سنجیدگی کی بنا پر رسول کی بات کو ماننا نہیں چاہتے، وہ اس کے مقابلے میں دحض کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے استہزاء کے زبان میں اس کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک بے حد غلط کردار ہے۔ یہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔
اصل یہ ہےکہ حق کی دعوت ہمیشہ انسانی فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر آدمی سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو وہ حق کو اپنی فطرت کے مطابق پاکر اس کو قبول کرلے گا۔ لیکن وہ ظلم اور علو کی بنا پر ایسا نہیں کرتا۔ یہی بات قرآن کی اس آیت میں کہی گئی ہے: وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا (
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من ستر مسلما سترہ اللہ فی الدنیا والآخرة(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2544)۔ یعنی جس نے کسی مسلم کے عیب کو چھپایا تو اللہ اس کے عیب کو چھپائے گا، دنیا میںاور آخرت میں۔
اس حدیث میں اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ کسی عیب کو اس کی بدنامی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کواس انسان کی امیج بگاڑنے کے لیے غیر متعلق لوگوں سےبیان کیا جائے۔مگر جہاں تک اصلاح کا تعلق ہے۔ وہ ہر مومن کا فریضہ ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے: المؤمن مرآة المؤمن (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4918)۔یعنی ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہوتا ہے۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے عیب کو چھپادیا جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عیب کو خود عیب والے شخص سے ہمدردی کے انداز میں بتایا جائے۔ آدمی کی امیج کو بگاڑنے کے لیے غیر متعلق لوگوں سے اس کو بیان کرنا ایک ناجائز فعل ہے۔
اگر آپ کو کسی شخص کا عیب معلوم ہو تو آپ کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ یا تو اس کو اپنے دل میں رکھیں، کسی سے اس کو بیان نہ کریں، یا متعلق شخص سے ملیں اور ہمدردی اور اصلاح کے جذبے کے تحت اس کو بتائیں۔ یہ طریقہ سماج کے اندر تعمیری ماحول پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
اس کے برعکس، اگر آپ یہ کریں کہ دوسرے آدمی کے عیب کو کرید کر معلوم کریں اور پھر اس کو اِدھر اُدھر بیان کریں تو یہ قرآن کے الفاظ میں اشاعت فاحشہ (النور: 19) ہے۔ اشاعت فاحشہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو موجودہ زمانے میں کردار کشی (character assassination)کہا جاتا ہے۔ اگر آدمی کو کسی سے اختلاف ہو تو وہ دلیل کی زبان میں اس کا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن شخصی عیب کو لے کر لوگوں میں اس کو بدنام کرنا ، اس کی سماجی تصویر کو بگاڑنا، منافقت کی پہچان ہے۔
واپس اوپر جائیں
اصلاح امت کا سوال ہمیشہ نبوت کے دور کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اصلاحِ امت کا مطلب ہے----- امت کی بعد کی نسلوں میں جب زوال آجائے تو زوال یافتہ لوگوں کو پیغمبر کے دور کی طرف لوٹانا۔ گویا اصلاح امت کا مقصد ہے: بعد کے دور پیدا ہونے والے امت کے افرادکو نبوت کے دور کی طرف واپس لے جانا۔ یہی بات امام مالک نے اپنے استاد ، وہب ابن کیسان کے حوالے سے ان الفاظ میں کہی ہے: إنہ لا یصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح أولہا، قلت لہ:یرید ماذا؟ قال یرید التقى (مسند الموطا للجوہری، حدیث نمبر
قرآن میں اصحابِ رسول کی صفت اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّار (
ان آیات میں کچھ امتوں کے حوالے سے فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔ جب ایک امت اپنے دورِ عروج میں ہو تو وہ اپنے اصولوں میں اتنی پختہ ہوتی ہے کہ وہ ماحول کا اثر قبول کیے بغیر اپنے دینی اصول پر قائم رہتی ہے۔ اس کے برعکس، جب کسی امت پر زوال کا دور آجائے تو اس کے اندر اصول پسندی کا مزاج باقی نہیں رہتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میںماحول کا اثر قبول کرنے لگتی ہے۔
امتوں کے اندر بگاڑ کا سبب یہی ہے۔ کسی امت پر جب زوال کا یہ دور آجائے تو اس کے مصلحین کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ امت کے احوال کا گہرا مطالعہ کرکے اس کی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ بگاڑ کے اصل سبب (root cause) کو دریافت کرکے حقیقت پسندانہ انداز میں اس کے اصلاح کی منصوبہ بندی کریں۔
موجودہ زمانہ ایک ایسا زمانہ تھا جب کہ کمیونزم اور سوشلزم اور ڈیماکریسی کا بہت چرچا ہوا۔ اس کے علم بردار سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے انداز میں زندگی کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس کے اثر سے موجودہ زمانہ میں مضاہات (imitation)کی ایک نئی صورت وجود میں آئی۔ مسلم مفکرین اسلام کی تعبیر سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) کی صورت میں کرنے لگے۔مثلا انھوں نے یہ کیا کہ قرآن میں جو احکام لازم کے صیغے میں دیے گیے تھے ،ان کو متعدی کے صیغے میں تبدیل کردیا۔ یعنی کتاب اللہ میں جو احکام انفرادی پیروی کے معنی میں دیے گیے تھے، ان کو وہ بذریعہ طاقت نفاذ (enforcement) کی اصطلاحوں میں بیان کرنے لگے، وغیرہ۔
فعل لازم کو فعل متعدی بنانے کی یہ غلطی باعتبارِ نتیجہ امت کے اندر مختلف قسم کی برائیوں کا سبب بن گئی۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت میں سیاسی انتہاپسندی (political extremism) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ لوگ اتھاریٹی سے ٹکراؤ کرنے لگے۔ تاکہ وہ اپنے مطلوبہ نظام کو نافذ کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں امت دوگروہوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد امت کےاندر وہ چیز پیدا ہوئی جس کو ریڈیکلائزیشن (radicalization)کہا جاتا ہے۔
فطرت کے قانون کے مطابق، یہ سیاسی انتہاپسندی (political extremism) مکمل طور پر بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر جو مایوسی پیدا ہوئی ، اس کا انجام ایک شدید تر برائی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور وہ خود کش بمباری (suicide bombing) ہے۔ خود کش بمباری کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر مفروضہ دشمن کو مغلوب نہ کرسکو تو اپنی جان دے کر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرو۔
اصلاح امت اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کام میں ہر وقت یہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی افراط یا تفریط کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے، اور پھراس کا کام اصلاح کے بجائے بگاڑ کا سبب بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں ہیں جو امت مسلمہ کے دور زوال کے بارے میں بطور پیشین گوئی آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: إن أول ما یکفأ - یعنی فی الإسلام - کما یکفأ الإناء یعنی الخمر . فقیل:کیف یا رسول اللہ وقد بین اللہ فیہا ما بین؟ قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:یسمونہا بغیر اسمہا فیستحلونہا (سنن الدارمی، حدیث نمبر 2145)۔ عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سب سے پہلے جس کام کو(اسلام میں) اوندھا کردیا جائے گا جیسے برتن اوندھا کردیا جاتا ہے، وہ شراب ہوگی۔ پوچھا گیا اے خدا کے رسول ، ایسا کیوں کر ہوگا جب کہ شراب کے متعلق اللہ احکام بیان کرچکا ہے جو سب پر ظاہر ہیں ؟ آپ نے کہا: لوگ اس کا نام بدل دیں گے پھر اس کو حلال قرار دے لیں گے۔
اس حدیث میں خمر کا لفظ علامت کے طور پر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امت مسلمہ پر زوال کا دور آئے گا تو وہ ہر معاملہ میں اسلام کو معنی ً(اسپرٹ کے اعتبار سے)چھوڑدیں گے، لیکن لفظاََ اس کو پوری طرح پکڑے رہیں گے۔ اس طرح وہ ایک ایسا کام کریں گے جس کو غیر اسلام کو اسلامائز کرنا(Islamisation of non-Islam)کہا جاسکتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ دورِ زوال میں امت ایسا نہیں کرے گی کہ وہ اسلام کو چھوڑدے۔ بلکہ یہ ہوگا کہ امت عملاً دوسری قوموں کی طرح ایک قوم بن جائے گی۔ لیکن امت کے لوگ اپنی قومی سرگرمیوں کے لیےایسے الفاظ بولیں گے، جو بظاہر اسلامی ڈکشنری کا حصہ معلوم ہوں لیکن حقیقت کے اعتبار سےوہ قومی ڈکشنری کا حصہ ہوں گے۔
مثلا ًوہ اپنی قوم کو امت کے لفظ سے موسوم کریں، وہ اپنی قومی لڑائی کو جہاد کا نام دیں گے، وہ قومی سرگرمیوں کو اسلامی سرگرمیوں کا نام دیں گے، وہ اپنی قومی سیاست کو اسلامی خلافت کہیں گے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم أنہ قال: ما رأیت مثل النار نام ہاربہا، ولا رأیت مثل الجنة نام طالبہا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان جہنم جیسی غیر مطلوب چیز سے بھاگ نہیں پاتا۔ اور کیوں ایسا ہے کہ انسان جنت جیسی مطلب چیز کو اپنی منزل نہیں بنا پاتا۔ اس کا سبب غفلت (الروم: 7)ہے۔یہ غفلت ظاہر بینی کے مزاج کی بنا پر ہوتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی سوچ بیدار نہیں ہوتی۔ اس ذہنی عدم بیداری کی بنا پر آدمی ان حقائق سے بے خبر رہتا ہے، جن سے اس کو بہت سے زیادہ باخبر ہونا چاہیے۔
زندگی کی حقیقت کے اعتبار سے انسان کو سب سے زیادہ یہ سوچنا چاہیے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan)کے مطابق، زندگی کو کامیاب بنانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ زندگی کو کامیاب کرنے کا نہیں۔ اس معاملے میں انسان کے لیے کوئی اختیار (option) موجود نہیں۔
خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، کامیاب وہ ہے جو موجودہ دنیامیں اپنی زندگی کی مدت پوری کرنے کے بعد آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے۔ اس برعکس ناکامی یہ ہے کہ آدمی جب موجودہ دنیا میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آخرت میں پہنچے تو وہاں یہ پائے کہ جہنم کے فرشتے اس کو گرفتار کرنے کے لیے موجود ہیں۔ یہی کسی انسان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس مسئلہ سے بے خبری کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہی وہ حقیقت ہےجس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص انداز میںبیان کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اس سورہ میں المدثر سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس سورہ میں پیغمبر کو یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا پیغمبرانہ مشن کیا ہے۔ اور یہ کہ مشن کے آداب کیا ہیں۔ اس کے مطابق، پیغمبر کا اصل مشن انذار ہے۔ انذار کا لفظی مطلب ہے، ڈرانا یا ہوشیار کرنا۔یعنی لوگوں کو خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan of the Creator) سے آگاہ کرنا۔ ہر نبی کا اصل مشن یہی ہوتا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن بھی یہی تھا۔
آدابِ دعوت میں بنیادی چیز وہ ہے جس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۔ یعنی اور گندگی کو چھوڑدے۔مفسرین نے لغت کا اعتبار کرتے ہوئے یہاں رُجز کوبت (اصنام) کےمعنی میں لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاںاصنام کو چھوڑنے سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد اصنام پرستی نہیں ہے ،بلکہ اصنام کی موجودگی ہے۔ اصنام کی یہ موجودگی کعبہ کے اندر تھی۔ اس زمانے میں مکہ کے اوپر مشرک لوگوں کا غلبہ تھا۔ انھوں نے اپنے ذوق کے مطابق، کعبہ کی عمارت میں بت رکھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان کی تعدادتقریباً 360 تک پہنچ گئی۔ یہ بت عرب میں پھیلے ہوئے مختلف قبائل کے بت تھے۔ ان بتوں کی وجہ سے عرب کے قبائل سال بھر وہاں آتے رہتے تھے۔ تاکہ وہ اپنے بتوں کی پوجا کریں۔ اس طرح کعبہ عرب میں اجتماع کا ایک مستقل مرکز بن گیا تھا۔
والرجزفاھجرمیں فاھجردراصل فاعرض کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اصنام پرستی کو چھوڑدے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ میں اصنا م کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر انداز کرو۔ تاکہ دعوت کا مشن کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ یہ گویا دعوتی طریقہ کار کا ایک کامیاب فارمولا تھا۔ یعنی بتوں کی موجودگی کے مسئلے کو نظرانداز کرو، اور ان بتوں کی وجہ سے کعبہ کےپاس جو مجمع اکٹھا ہوتا ہے، اس کو اپنے مشن کے لیےبطور آڈینس (audience) استعمال کرو۔
قرآن فہمی کے لیے سببِ نزول نہایت اہم ہے۔ ایک سببِ نزول وہ ہے جو لفظی طور پرکسی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا سببِ نزول وہ ہے جو تاریخی حالات کے مطالعے سے دریافت ہوتا ہے۔ تاریخی حالات کے اعتبار سے اس آیت کا سبب نزول متعین کیا جائے تو وہ پیغمبر ِ اسلام کے عمل سے مستنبط ہوگا۔ وہ یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس زمانے میں آپ یہ کرتے تھے کہ کعبہ کے پاس جمع ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے اور کعبہ میں اصنام کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے،ان کو قرآن کی آیتیں سناکر ان کے سامنے اسلام پیش کرتے۔ سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:عرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن (سیرت ابن ہشام، 1/428)۔
پیغمبر اسلام کا یہ طریقہ ایک دعوتی اصول کی انتہائی مثال ہے۔ یعنی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو بھرپور طور پر استعمال کرنا۔ دعوت کا موضوع ہمیشہ اور ہر زمانے میں ایک رہے گا۔ لیکن مسائل کی صورتیں بدلتی رہیں گی۔ قدیم زمانے میںاگر یہ مسئلہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کےاندر بت رکھ دیے گیےتھے تو موجودہ زمانےمیں حالات کے اعتبار سے مسائل مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثلا کسی دنیوی یا سیاسی مقصد کے لیے لوگوں کا ایک مقام پر اکٹھا ہونا۔ ایسے موقعہ پر اگر کوئی غیر دینی فعل کیا جارہا ہے تو داعی کو چاہیے کہ وہ اس کو نظر انداز کرے، اور وہاں پہنچ کر لوگوں کو حق کا پیغام دے۔خواہ زبانی طور پر یا لٹریچر کی تقسیم کے ذریعے۔ داعی کی توجہ ہمیشہ دعوت کے مواقع (opportunities) پر ہونی چاہیے، نہ کہ دعوت کے مسائل (problems)پر۔ یہ حکمتِ دعوت ہے۔اس حکمت کو اختیار کیے بغیر دعوت کا کام موثر طور پر نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: ما نحل والد ولدہ نحلا أفضل من أدب حسن(مسند احمد، حدیث نمبر16710)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے سب سے اچھا تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کو اچھے ادب کا تحفہ دے۔
ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرز فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا، جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
نصیحت کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے فقہی زبان میں نصیحت کرنا، اور دوسرا ہے، نفسیات کی زبان میں نصیحت کرنا۔ فقہی زبان اوامر اور نواہی (do’s and don’ts) کی زبان ہوتی ہے۔ اس میں صرف حکم کی زبان ہوتی ہے۔ یعنی یہ کرو اور وہ نہ کرو۔اس طرح کی زبان ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو پہلے سے عمل کے لیے تیار ہوں۔ لیکن جو آدمی پہلے سے عمل کے لیے تیار نہ ہو اس کی اصلاح کے لیے امر و نہی کی زبان کافی نہیں ہوسکتی۔ایسے آدمی کے لیے وہ زبان مفید ہے جس کو نفسیات کی زبان کہا جاتاہے۔
نفسیات کی زبان کیا ہے۔یہ وہی زبان ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
امر و نہی کی زبان صرف ایسے شخص کے لیے کارآمد ہے جو پہلے سے آپ کی بات کو مانے ہوئے ہو۔ اس کے برعکس، دوسرے قسم کی زبان ہر ایک کے لیے مفید ہے۔ جو شخص اس بات کو پہلے سے مانتا ہواس کے اندر آپ کی بات کی صداقت پر مزید یقین پیدا ہوجائے۔ اور جو شخص آپ کی بات کو پہلے سے نہ مانتا ہو، وہ اس پر غور کرے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ اس کو دل سے ماننے والا بن جائے۔ امر و نہی کی زبان فقہی کلام کے لیے درست ہے۔ لیکن دعوت و اصلاح کے میدان میں صرف وہی کلام مفید ہے جو نفسیاتی اسلوب میں کہا گیا ہو، جو آدمی کے عقل کو ایڈریس کرنے والا ہو، جس کو سن کر آدمی کا دل گواہی دے کہ وہ واقعۃ ایک بر حق کلام ہے۔
واپس اوپر جائیں
استدراک کا لفظی مطلب ہے، غلطی کی اصلاح کرنا (to make right)۔ حضرت عائشہ کی بہت سی روایتیں ہیں جن کو استدراک کہا جاتاہے۔ ان روایتوں میں حضرت عائشہ نےکسی راوی کی روایت کی تصحیح کی ہے۔ راوی نے کوئی بات رسول اللہ سے منسوب کی تو عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ نے یہ بات اس طرح نہیں کہی تھی، بلکہ اس طرح کہی تھی۔ حضرت عائشہ کے اس طرح کے اقوال کو استدراکات عائشہ کہا جاتا ہے۔
اس موضوع پرعلماء حدیث نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ایک مشہور کتاب یہ ہے:عین الاصابہ فی استدراک عائشۃ علی الصحابہ للسیوطی(مکتبة العلم القاہرة 1409 ھـ)۔ مصنف نے اس کتاب میں حضرت عائشہ کے
یہ صرف عائشہ اور ایک راوی کے درمیان مکالمےکا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس سے ایک اصول اخذ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام میں عورت اور مردکے درمیان درجہ کے اعتبار سےکوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اگر اپنے آپ کو علم و عقل کے اعتبار سےتیار کرے تو وہ معاملات میں مردوں کی رہنمائی کرسکتی ہے۔وہ زندگی میںقائدانہ رول ادا کرسکتی ہے۔ایسی عورت شادی شدہ زندگی میں اپنے رفیق حیات کے لیےایک سرمایہ (asset) ہے۔
واپس اوپر جائیں
زوجین کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لا یفرک مؤمن مؤمنة، إن کرہ منہا خلقا رضی منہا آخر (صحیح مسلم ، حدیث نمبر1469 :)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔
یہ شوہر اور بیوی کے تعلقات کے بارے میں ایک دانش مندانہ نصیحت ہے۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مرد یا عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا ساتھی اس کی پسند کے مطابق نہیں تو اس کی یہ رائے غلط مطالعے کی بنا پر ہوگی۔ کیوں کہ عورت اور مرد دونوں میں مختلف قسم کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ فورا فیصلہ نہ کرے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دونوں دریافت کریں گے کہ اپنے ساتھی کے اندر اگر ایک بات ایسی تھی جو اس کی پسند کے مطابق نہ تھی، تو ٹھیک اسی وقت اس کے ساتھی کے اندر ایک اور صفت موجود تھی، جو اس کی پسند کے عین مطابق تھی۔
عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔ اگر دونوں کاگ فوری طور پر ایک دوسرے میں فٹ نہ ہورہے ہوں تو دونوں کو چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو جلد ہی وہ دریافت کریں گے کہ دونوں کی طرف سے یہ بے خبری کی بات تھی۔ باخبر ہوتے ہی دونوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ ان کی اپنی غلطی تھی۔ ورنہ فطرت کے نظام کے مطابق دونوں ایک دوسرے کے لیے درست کاگ وھیل کی مانند بنائے گیے تھے۔ خالق نے کسی کو بے کار نہیں بنایا۔ ہر عورت اور مرد اس لیے پیدا کیے گیے ہیں کہ وہ دونوں مل کر زندگی میں ایک مفید رول ادا کریں۔ فطرت کے اس نقشے کو جاننے کی کوشش کیجیے اور پھر آپ کو کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
18 نومبر 2015 کو انڈیا کے باہر کے ایک ملک سے ایک مسلم نوجوان کا فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ آج میری شادی ہونے والی ہے۔ آپ میرے لئے اور میری ہونے والی بیوی کے لئے دعا کریں۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں سب سے بہتر بات وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النکاح من سنتی(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846 ) ۔ نکاح میری سنت ہے۔ یعنی نکاح ایک سنت رسول ہے۔ لیکن گہرے معنی کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح اللہ کی ایک سنت ہے۔ یعنی نکاح کا طریقہ خدا کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) کے مطابق ہے۔ اس لئے نکاح کو اس کے وسیع تر معنی میں لینا چاہئے۔ نکاح کرنے والے کو یہ سمجھنا کہ وہ وسیع تر معنی میں خدا کے نقشۂ تخلیق کا ایک حصہ بن رہاہے۔
موجودہ حالت یہ ہے کہ نکاح کے دونوں پارٹنر نکاح کو اپنے اپنے مائنڈ سٹ (mindset) کے مطابق لیتےہیں۔ اگر وہ حقیقت پسند ہوں تو وہ نکاح کو خدا کے مائنڈ سٹ کے مطابق لیں گے اور پھر ان کی شادی شدہ زندگی درست لائن پر چلنے لگے گی۔ اور پھر ان کی زندگی کے تمام معاملات فطرت کے نقشے پر قائم ہوجائیں گے۔ اور زندگی کو فطرت کے نقشے پر چلانا یہی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔
موجودہ زمانے میں عورت اور مرد کے معاملے میں سب سے بڑا نظریہ عورت اور مرد کے مساوات (gender equality)کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس معاملے کا کلیدی اصول صنفی مساوات نہیں ہے بلکہ صنفی رفاقت ہے۔ نکاح کے ذریعےایسا نہیں ہوتا کہ دو مساوی صنفیں یکجا ہوجائیں۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں رکھنے والی صنفیں یکجا ہوجاتی ہیں۔ یہ فطری تقسیم کا معاملہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں باہمی رفاقت سے زندگی کا نظام زیادہ بہتر طور پر چلا سکیں۔ یہ معاملہ گاڑی جیسا ہے۔ گاڑی ہمیشہ دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اسی طرح فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام بھی دو افراد کی شرکت پر چلتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک نوجوان شوہر اور بیوی میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو نصیحت کیجیے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو صرف ایک نصیحت کروں گا۔ وہ یہ کہ آپ شکایت (complaint) کو اپنے لیے حرام سمجھیے۔ انھوں نے کہا کہ شکایت کو آپ اتنا زیادہ برا کیوں بتاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شکایت کلچر (complaint culture) ایک شیطانی کلچر ہے۔ سب سے پہلا شخص جس نے شکایت کا طریقہ ایجاد کیا، وہ شیطان کا سردار ابلیس تھا۔ اس نے خالق سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میں انسان سے زیادہ افضل تھا، لیکن تو نے مجھ کو چھوڑ کر انسان کو خلیفہ بنا دیا۔
شیطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دشمنی کا یہ کام وہ کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کے اندر شکایت پیدا ہوئی، تو وہ اس کے اندر شکایت کو اکٹیویٹ(activate) کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ شکایت کی نفسیات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ انسان شکایت سے مغلوب ہوجاتا ہے، شکایت اس کی شخصیت کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔
اگر آپ پتھر کا ایک ٹکرا اپنی جیب میں رکھ لیں تو وہ جیسا آج ہے، ویسا ہی سوسال تک رہے گا۔ لیکن شکایت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ شکایت ہمیشہ گرو (grow) کرتی ہے۔ وہ برابر بڑھتی رہتی ہے۔ شکایت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شکایت جب ایک بار آگئی تو وہ بڑھ کر نفرت بنے گی، وہ انتقام کی صورت اختیار کرلے گی۔ پھر بڑھتے بڑھتے وہ تشدد کا مزاج پیدا کرے گی۔ یہاں تک کہ آدمی جنگ کے لیے تیار ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف وہ خود کش بمباری (suicide bombing) کی آخری حد تک پہنچ جائے گا۔شکایت بظاہر صرف ایک برائی ہے، لیکن شکایت بڑھتے بڑھتے ہزار برائی بن جاتی ہے۔ شکایت انسان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے ایک قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے خالق نے انسان کو زوجین (pair) کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا نصف ثانی (counterpart) ہیں۔ دونوں شادی شدہ زندگی کی صورت میں مل کر تخلیقی منصوبہ کو پورا کریں۔ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا کاگ (cog) بن کر زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ طے کریں۔ دونوں ایک دوسرے کا تکمیلی حصہ (complement) بنیں۔
اس حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون (peace of mind) کا ذریعہ ہیں۔ خالق نے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے محبت رکھی ہے، تاکہ یہ مشترک سفر حسن رفاقت کے ساتھ انجام پائے۔
عورت اور مرد کو یہ سکون ابتدائی طور پر ایک دوسرے کا رفیق حیات (life partner) بننے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ اعلی صورت میں یہ سکون دونوں کو ذہنی سطح پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون دونوں کو اس وقت ملتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partner) بن جائیں۔دونوں مسلسل طور پر ایک دوسرے سے فکری تبادلۂ خیال کرتے رہیں۔
اگر آپ پتھر کے دو ٹکروں کو ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اس کے بعد وہاں ایک چنگاری نکلے گی۔ یہ اسپارکنگ (sparking)فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو دونوں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ایمرج (emerge) کرتی ہے۔یہ اصول جس طرح مادی دنیا کے لیےہے،اسی طرح وہ انسانی دنیا کے لیے ہے۔
عورت اور مرد کو نکاح کی صورت میں یکجا کرنےسے یہی مقصود ہے۔خالق کی منشا یہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد دونوں مسلسل طور پر ساتھ رہیں۔ دونوں زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال (exchange) کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ عمل کرتے رہیں جس کو میوچول لرننگ (mutual learning) کہا جاتا ہے۔ اس طرح نکاح کی زندگی دونوں کےلیے ایک سنہری موقع ہے کہ دونوں اپنے لیے ایک انٹلکچول پارٹنر پالیں۔ اور دونوں باہمی تعاون سے اپنے آپ کو فکری اعتبار سے زیادہ ارتقا یافتہ انسان بنائیں۔
یہ بلاشبہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ لیکن اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا دونوں کے لیے اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں اس امکان سے باخبر ہوں، اور دونوں اپنے آپ کو اس باہمی استفادے کے لیے تیار رکھیں۔ اس معاملہ کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کھلا تبادلہ خیال (open exchange)ہو، اور تبادلۂ خیال کے لیےہمیشہ اعلی موضوعات کو اختیار کیا جائے۔
قرآن میں زوجین کے باہمی تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (
Man or woman, you are members one of another.
عورت اور مرد دونوں بلاشبہ ایک دوسرے کےلیے بہترین پارٹنر ہیں۔ لیکن یہ بات امکان کے اعتبار سے ہے۔ دونوں کے لیے پھر بھی یہ کام باقی رہتا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے اس امکان کو واقعہ بنائیں۔ وہ عملا اپنے آپ کو اس پارٹنر شپ کا اہل ثابت کریں۔
بھوپال (مدھیہ پردیش) میں الرسالہ اور مطبوعاتِ الرسالہ کے لئے رابطہ قائم کریں:
Shahid Mohd Khan (Yashika Books)
Imami Gate Bus Stop, Imami Gate
Bhopal-462 001, M.P.
Mob: 9300908081
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: والذی نفسی بیدہ لو أخطأتم حتى تملأ خطایاکم ما بین السماء والأرض، ثم استغفرتم اللہَ لغفر لکم، والذی نفسی بیدہ لو لم تخطئوا لجاء اللہ بقوم یخطئون، ثم یستغفرون اللہ، فیغفر لہم (حدیث نمبر13493)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم اتنے گناہ کرو کہ تمہارے گناہوں سے زمین و آسمان کے درمیان کی فضا (space)بھر جائے، پھر تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو تو وہ تم کو ضرور معاف کر دے گا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کرے ، پھر وہ اللہ سے معافی مانگےتواللہ اس کو معاف کر دے گا۔
اصل یہ ہے کہ کسی دینی عمل کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے اس کا کمیاتی پہلو (quantitative aspect)، دوسرا ہے اس کا کیفیاتی پہلو (qualitative aspect)۔ کسی عمل کا جو کمیاتی پہلو ہے، وہ اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ انسان جب اس دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میں جاتا ہے تو اس کے پاس اس کے عمل کا صرف کیفیاتی پہلو ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آخرت کی دنیا میں اللہ تعالی کسی آدمی کے عمل کے کیفیاتی پہلو کو دیکھے گا ، نہ کہ اس کے عمل کےکمیاتی پہلو کو۔
عمل کے اس کیفیاتی پہلو کو قرآن میں قلب سلیم (الشعراء
یہ حدیث اور اس طرح کی دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل کے ظاہری مقدار کے مقابلے میں استغفار کا پہلو زیادہ اہمیت والا پہلو ہے۔خطا کی مقدار خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، اگر آدمی استغفار کا ثبوت دیتا ہے تو اللہ کی طرف سے وعدہ ہے کہ وہ اس کو آخرت میں بخش دے گا۔خطا کے بعد استغفار کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی حساسیت (sensitivity) اگر زندہ ہو تو غلطی کرنے کے بعد اس کے اندر شدید طور پر ندامت (repentance) کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ اس کو اپنے گناہ پر بہت زیادہ شرمندگی ہوتی ہے۔ وہ مزید اضافہ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ تڑپتے ہوئے دل کے ساتھ اللہ سے مغفرت کا طالب بن جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی خطاکار کے لیے اللہ کی رحمت کے نزول کا سبب بن جاتی ہے۔
آدمی اگر خطا نہ کرے تو اندیشہ ہے کہ اس کے اندر عُجب(pride)کا جذبہ پیدا ہوجائے۔لیکن جب اس سے کوئی خطا سرزد ہوتی ہے تو اس کے بعد اس کے اندر شرمندگی کی کیفیت جاگ اٹھتی ہے۔ احساس خطا کی بنا پر وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ بن جاتا ہے۔ اس کی تواضع (modesty) میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ انکساری کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب بن جاتا ہے۔ اس طرح خطا کا احساس آدمی کے اندر ایک نئی شخصیت بیدار کردیتا ہے۔
خطا سے پہلے اگر وہ سادہ الفاظ میں دعا کرتا تھا، تو اب اس کی دعا آنسوؤں کی زبان میں ہونے لگتی ہے۔ خطا سے پہلے اگر اس کی نفسیات یہ ہوتی تھی کہ میں بھی کچھ ہوں تو اب اس کی نفسیات یہ بن جاتی ہے کہ میں کچھ بھی نہیں۔ خطا سے پہلے اگر اس کو اپنے عمل پر اعتماد ہوتا تھا تو اس کا احساس یہ بن جاتا ہے کہ میرا معاملہ تمام تر اللہ کے اوپر منحصر ہے۔ اللہ اگر مجھے معاف کردے تو مجھ کو جنت نصیب ہوسکتی ہے۔ اور اگر اللہ معاف نہ کرے تو مجھ کو جنت ملنے والی نہیں۔
اس طرح خطا کا احساس آدمی کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر میں بہت زیادہ معاون بن جاتا ہے۔ خطا کا احساس آدمی کے اندر اس شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو اس کو جنت میں داخلے کا مستحق بنادے۔خطا کا احساس آدمی کو انسانِ اصلی (man cut to size) بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
علمی سفر کا ایک اصول قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ (
علمی سفر عام طور پر اس طرح شروع ہوتا ہے کہ آدمی کے ذہن میں ایک نکتہ (point) آتا ہے۔ وہ چاہتا ہےکہ اس کی تفصیل معلوم کرے۔ اس ذہن کے تحت آدمی اس نکتہ کی علمی تحقیق شروع کردیتا ہے۔ مگر جلد ہی اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس تحقیق کےلیے ضروری ڈیٹا (data) اس کے پاس موجود نہیں۔بظاہر یہ امید نہیں کہ وہ اس معاملہ میں کسی قابل اعتماد رائے تک پہنچ سکتا ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کے لیے زیادہ ضروری یہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کو بچائے، وہ اپنے وقت کو کسی اور علمی سفر کے لیے استعمال کرے، جس کے لیے اس کے پاس ضروری مواد موجود ہو۔
مثلا آپ اس حدیث کو پڑھیں، جس میں ایک صحابی،أبو زید الأنصاری روایت کرتے ہیں : صلى بنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صلاة الصبح، ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظہر، ثم نزل فصلى الظہر، ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر، ثم نزل فصلى العصر، فصعد المنبر فخطبنا حتى غابت الشمس، فحدثنا بما کان وما ہو کائن (صحیح مسلم، حدیث نمبر 5149۔مسند احمد، حدیث نمبر22888 )۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے، اور آپ نے خطبہ دیا، یہاں تک کہ ظہر کی نمازکا وقت آگیا، پھر آپ اترے، اور آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوگیے، پھر آپ نے خطبہ دیا یہاں تک عصر کی نماز کا وقت آگیا، آپ اترے اور آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے، آپ نے خطبہ دیا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، آپ نے بیان کیا وہ سب کچھ جو ہوا ہے، اور وہ سب کچھ جو ہونے والا ہے۔
اس حدیث رسول کو پڑھ کر اگر آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں پوری انسانی تاریخ کا کلنڈر بیان کردیا۔ اس کے بعد آپ اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کی کوشش میں لگ جائیں ۔ لیکن جلد ہی آپ کو محسوس ہوگاکہ اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کے لیے آپ کے پاس ضروری مواد (material) موجود نہیں ہے، نہ احادیث میں اور نہ تاریخ کی کتابوں میں۔ ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ اپنی کوشش کو موقوف کردیں۔ آپ ہرگز ایسا نہ کریں کہ ساری عمر اس عالمی کلنڈر کو مرتب کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ لیکن آخر میں آپ کو معلوم ہو کہ اس قسم کا کلنڈر مرتب کرنا عملاً ممکن ہی نہ تھا۔
زندگی کے حکیمانہ اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ آدمی کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے عملی امکان کا جائزہ لے۔ اگر اس کو نظر آئے کہ اس کا منصوبہ عملی طور پر ایک ممکن منصوبہ ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کے لیے کوشش کرے۔ اور اگر ایسا نہ ہو ۔ یعنی آپ کو نظر آئے کہ ضروری معلومات یا ضروری وسائل کی عدم موجودگی کی بنا پر آپ کا منصوبہ واقعہ بننے والا نہیں۔ تو دانش مندی یہ ہے کہ ایسے منصوبے کو فورا چھوڑ دیا جائے۔ ایسے منصوبے کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھنا صرف وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اور وقت کو ضائع کرنا، بلاشبہ کوئی کرنے کا کام نہیں۔
اس اصول کا تعلق آدمی کی انفرادی زندگی سے بھی ہے اور قومی زندگی سے بھی۔اس کا تعلق علمی تحقیق سے بھی ہے اور دوسری نوعیت کے کاموں سے بھی۔ کام کا یہ پہلو اگر آغاز میں غیر واضح ہو، لیکن کام شروع کرنے کے بعد جلد ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کام قابل عمل ہے یا نہیں۔ وہ صرف ایک شخصی تخیل ہے یا عملی اعتبار سے قابل حصول نشانہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جنت کو اتنی گہرائی کے ساتھ دریافت کریں کہ اسی دنیا میں ان کو جنت کا تعارف حاصل ہوجائے(محمد 6:)۔ قرآن کے مطابق، جنت کی دنیا موجودہ دنیا کے متشابہ (similar) ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا کو دیکھ کر اس کے ذریعے جنت کی پہچان حاصل کریں۔ ان کے لیے جنت اسی دنیا میں ایک دریافت کردہ جنت بن جائے۔جب کوئی شخص جنت کو اس طرح دریافت کرے گا تو فطری طور پر وہ آخری حد تک جنت کا مشتاق بن جائے گا۔اس حقیقت کو سامنے رکھ کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام دنیا کے مسلمان نفرت اور شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات اتنا زیادہ عام ہے کہ مسلمانو ںکے ہر طبقہ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں کے درمیان یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔
مسلمانوںکا یہ منفی ذہن (negative mind) بظاہر دوسروں کے خلاف ہے۔ مگر عملی نتیجہ کے اعتبار سے خود اپنے خلاف ہے۔ وہ مسلمانوں کے اندرسے اس مثبت نفسیات (الفجر:
مسلمانوں کی موجودہ نفسیات ، اللہ رب العالمین کے منصوبۂ تخلیق کے خلاف ہے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ مسلمان موجودہ دنیا میں جنت کی جھلک(glimps) دیکھے۔ تاکہ وہ حقیقی جنت کو یاد کرے، اور اس کا طالب بن جائے۔ مگر مسلمانوں کا موجودہ مزاج ایسی شخصیت کی تخلیق میں رکاوٹ ہے۔ ایسا انسان نفرت اور جھنجھلاہٹ میں جیے گا۔ اور نفر ت و جھنجھلاہٹ والا ذہن جنت جیسی نعمت کی یاد میں جینے والا نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں
ایک مشہور اردو ماہنامہ میں ایک شائع شدہ مقالہ نظر سے گزرا۔ اس کا عنوان یہ تھا: عصر حاضر اور جہاد۔اس مقالہ کے شروع کی سطریں یہ ہیں: مسلمانوں کی ذلت و مظلومیت سے بھرپور تڑپادینے کی حد تک تکلیف دہ تاریخ کے پس منظر سے جہادی تنظیمیں بر آمد ہوئی ہیں۔ بڑی حد تک یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آزاد تنظیموں کے ذریعہ (ان کے نزدیک) جہاد کا یہ سلسلہ گزشتہ صدی میں افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوا اور اب اس کا نقطۂ عروج داعش وغیرہ کی شکل میں موجود ہے۔ (ستمبر 2016)
یہ انداز فکر کسی ایک مسلم رائٹر کا نہیں ہے، بلکہ یہی انداز فکر موجودہ زمانے کے تقریباًتمام مسلم مقررین و محررین کا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمان جو متشددانہ کارروائیاں کررہے ہیں، ان کو یہ تمام لوگ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مفروضہ مظالم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مگر سوچنےکی بات یہ ہے کہ اس قسم کے شدائد رسول اور اصحاب رسول کے ساتھ زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آئے۔ ان شدائد میںسے کا ایک حوالہ قرآن میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
إِذْ جَاءُوکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّہِ الظُّنُونَا ۔ ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا (
اس طرح کے شدید حالات کے باوجود رسول اور اصحاب رسول نے کبھی ردعمل (reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ یک طرفہ طور پر صبر (patience) کی روش پر قائم رہے ،اورکامل مثبت بنیادوں پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی (planning) کی۔ اس کا نتیجہ اسلام کے دورِ اول میں عظیم کامیابی کی صورت میں نکلا۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اس سنت رسول کو چھوڑ دیا۔ انھوںنے مثبت منصوبہ بندی کے بجائے ردعمل کے تحت منفی سرگرمیوں کا طریقہ اختیار کر لیا۔ آج تمام دنیا کے مسلمان اسی قسم کی سرگرمیوںمیںمشغول ہیں ۔ مسلمانوں کے تقریباً تمام مقرر ین و محررین موجودہ زمانے میں یہی ایک کام کررہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ایک مہلک بدعت ہے۔ مسلمان جب تک اس مہلک بدعت کو نہ چھوڑیں ، انھیں ہر گز کوئی کامیابی ملنے والی نہیں۔ خواہ ان کی مفروضہ قربانیوں کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے۔
رد عمل کے مزاج کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کی سوچ، منفی سوچ (negative thinking) بن جاتی ہے۔ انسان نفرت اور شکایت میں جینے لگتا ہے۔ اس قسم کی سوچ کا ہلاکت خیز نتیجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر فکری ارتقا (intellectual development) کا عمل رک جاتا ہے۔ اس کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ درست بنیادوں پر سوچے، اور درست بنیادوں پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مسلم امۃ اگریہ چاہتی ہے کہ اس کی موجودہ صورت حال میں تبدیلی آئے تو وہ صرف ایک تدبیر سے آسکتی ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان اپنی تمام موجودہ منفی سرگرمیوں کو یک طرفہ طور پر ختم کردیں، اور انسان کے نصح (خیرخواہی) کے جذبے کے تحت مثبت بنیادوں پر دعوت الی اللہ کاپرامن کام کریں۔اس کے سوا کوئی اور چیز مسلمانوں کے لیے فلاح اور نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
اس دنیا میں کوئی بھی کامیابی صرف دانش مندانہ منصوبہ بندی (wise planning) کے ذریعہ ہوسکتی ہے۔ مفروضہ مظالم کے خلاف فریاد کا کوئی نتیجہ اس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔ یہ دنیا فطرت کے محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ فطرت کے اس قانون کو جاننا اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ قرآن کی زبان میں مسلمانوں کے لیے یہ توبۂ جمیع (النور:
واپس اوپر جائیں
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت سے اب تک مختلف زبانوں میں بے شمار مضامین اس موضوع پر لکھے گیے ہیں۔ لیکن ہر مضمون قاری کو صرف منفی سبق (negative lesson) دیتا ہے۔ میرے علم کے مطابق اس موضوع پر اب تک کسی مسلمان نےکوئی ایسا مضمون نہیں لکھا جو کسی مسلمان کو مثبت سبق دے۔ دوسرے لفظوں میں اس معاملے میں غیر متعلق کا خوب چرچا ہے، لیکن متعلق کا کوئی چرچا نہیں۔
اس معاملے میں مثبت طور پر متعلق بات کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ تمام لوگ بابری مسجد کے انہدام کو آغاز (beginning) سمجھتے تھے۔ لیکن عملا یہ ہوا کہ بابری مسجد کا انہدام اس معاملے میں فل اسٹاپ (full stop) بن گیا۔ ایسا کیوں ہوا۔ اس معاملے میں وزڈم کی بات یہ ہے کہ اس سوال کا جواب معلوم کیا جائے۔
اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی میں جب بھی کوئی زیادہ بڑے قسم کا بھیانک واقعہ پیش آتا ہے تو وہ ہمیشہ انسانی ضمیر کو شدت کے ساتھ جگا دیتا ہے۔ انسان چیزوں کو نتیجہ کی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بھیانک واقعہ کے بعد ایک مانع عمل (deterrent factor) وجود میں آجاتا ہے۔ یہ مانع عمل ایک ایسا ماحول بناتا ہے، جو خاموش زبان میں یہ پیغام دیتا ہے — اس طرح کے منفی عمل پر اب فل اسٹاپ لگاؤ، اس معاملہ میں ہم مزید کاما لگانے کا تحمل نہیں کرسکتے۔
اس طرح کی مثالیں تاریخ میں بہت سی ملتی ہیں۔ اسی لیے زیادہ بھیانک واقعہ تاریخ میں دوبارہ دہرایا نہیں جاتا۔ مثلاًصلیبی جنگ (Crusades) دوبارہ نہیں ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ کوئی عالمی جنگ نہیں ہوئی۔ایک بار ایٹم بم گرانے کے بعد دوبارہ ایٹم بم نہیں گرایا گیا، وغیرہ۔ بابری مسجد کا انہدام بھی اسی قسم کا ایک بھیانک واقعہ تھا۔ اس کے بعد انسانی ضمیر حرکت میں آگیا۔ اور بابری مسجد جیسے واقعہ کے اعادہ کو ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادیا گیا۔
واپس اوپر جائیں
دوسری عالمی جنگ 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد امریکا نے جاپان کے جزیرہ اوکی ناوا (Okinawa) کو اپنا آرمی بیس بنالیا۔ 2013 کی رپورٹ کے مطابق، اوکی ناوا میں امریکا کے آرمی اسٹاف کی تعداد حسب ذیل ہے:
There are approximately 50,000 U.S. military personnel stationed in Japan, along with approximately 40,000 dependents of military personnel and another 5,500 American civilians employed there by the United States Department of Defense.
جاپان نے امریکا کی فوجوں کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ جاپان نے امریکی فوج کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے، ایجوکیشن اور انڈسٹری ، وغیرہ کے میدان میں اپنے ڈیولپمنٹ کا کام شروع کردیا۔ آج امریکا کی فوجیں بدستور جاپان میں موجود ہیں ، لیکن اس کے باوجود جاپان کو اپنی پالیسی کا یہ نتیجہ ملا کہ وہ اس وقت دنیا کی عظیم اقتصادی طاقت (economic superpower) بنا ہوا ہے۔
دوسری تقابلی مثال ریاست جموںوکشمیر کی ہے۔ انڈیا 1947 میں آزاد ہوا۔ اس کے بعد وہاں جو حالات پیدا ہوئے، اس کے تحت اُس وقت کے مہاراجہ کشمیرکی طلب پر انڈیا کی آرمی کشمیر میں داخل ہوگئی۔ ایک اندازہ کے مطابق اِس وقت کشمیر میں انڈیا کی تقریباً چھ لاکھ آرمی موجود ہے۔
کشمیریوں نے اپنے لیڈروں کی رہنمائی میں انڈیا کی آرمی کے خلاف پرتشدد تحریک شروع کردی۔ وہ چاہتے تھے کہ انڈیا کی آرمی کشمیر سے واپس جائے۔ آرمی تو واپس نہیں ہوئی، لیکن اس مدت میں کشمیر یوںکو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا: ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری ہلاک ہوگیے،کشمیر کی اقتصادی ترقی رک گئی، کشمیرکا تعلیمی نظام تباہ ہوگیا، کشمیر کے ترقیاتی امکانات غیر استعمال شدہ رہ گیے، مثلاً فروٹس(fruits) کی تجارت، سیاحت (tourism industry) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، وغیرہ۔ مزید یہ کہ پوری کشمیری قوم منفی قوم بن گئی۔ جب کہ ترقی ہمیشہ مثبت بنیادوں پر ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
اللہ رب العالمین کے قوانین میں سے ایک قانون وہ ہے جو اپنے بندے کی مدد کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (
اس معاملے کو میں اپنے ایک ذاتی واقعہ سے بیان کروں گا۔ میری پیدا ئش یوپی کے ایک گاؤں میں ہوئی۔ میرے گھر میں بڑا آنگن تھا۔ اس میں کچھ درخت اُگے ہوئے تھے۔ میں نے چاہا کہ میں اپنے آنگن میں آم کا ایک درخت لگاؤں ۔ یہ میری نوجوانی کی عمر کا زمانہ تھا۔ میں نے اپنی ناپختہ سوچ کے تحت یہ چاہا کہ میرے گھر میں اچانک ایک بڑا درخت نظر آنے لگے۔
گھر کے باہر ہمارا ایک آم کا باغ تھا۔ اس میں ایک درخت تھا، جو چند سال میں بڑھ کر قد آدم کے برابر ہوچکا تھا۔ میں نے چاہا کہ اس درخت کو میں اپنے گھر کے آنگن میں نصب کروں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دس سال کی فطری مدت حذف کرکے ایک دن میں بڑا درخت میرے آنگن میں دکھائی دینے لگے۔
میں نے چند مزدور لگادیے، وہ باغ میں دن بھر کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شام میں وہ درخت کو ایک چارپائی پر اٹھا کر لائے، اور میرے گھر کے آنگن میں اس کو نصب کردیا۔ میں بہت خوش تھا کہ میں نے دس سال کی فطری مدت کو ایک دن میں حاصل کرلیا ہے۔ مگر صبح کو جب میں اٹھا تو درخت کے پتے مرجھا چکے تھے۔ چند دن کے بعد درخت پوری طرح سوکھ گیا۔
اپنے آنگن کے بارے میں میرا خواب واقعہ نہ بن سکا۔ آنگن میں دوسرے درخت بدستور ہرے بھرے کھڑے تھے، لیکن میرا لگایا ہوا آم کا درخت سوکھ کر چند دن کے اندر ختم ہوگیا۔ اس واقعہ سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ اس دنیا کے لیے فطرت کا قانون یہ ہے کہ یہاں کوئی کام دو طاقتوں کے اشتراک سے کامیاب ہو۔ یعنی انسان کا عمل اور قانون فطرت کی معاونت۔ اس دنیا میں انسان کا کوئی منصوبہ کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہے۔ دندانہ دار پہیہ ہمیشہ دوپہیوں کے مشترک عمل سے چلتا ہے۔ اگر ایک پہیہ عمل نہ کرے تو دوسرے پہیے کے چلنے سے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا۔ مثلا آپ کو زرعی پیداوار حاصل کرنا ہے تو آپ کو اپنا دانہ زرخیر زمین (soil)میں ڈالنا ہوگا، اس کے بعد زمین کے تعاون سے آپ کو سر سبز فصل حاصل ہوگی۔
یہی قانون زندگی کے دوسرے معاملات کا ہے۔ مثلا آپ اسلامی مشن کو اپنا مشن بناتے ہیں، اور افراد کی ایک ٹیم اس کی پشت پر جمع کرتے ہیں تو ٹیم کے ہر فرد کو شعوری طور یہ جاننا ہوگا کہ اس کی اپنی کوشش اسی وقت باآور ہوسکتی ہے، جب کہ اس کے دوسرے ممبر پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔
مثلا اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے کسی بات پر شکایت ہوجاتی ہے۔ ایک شخص کو کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کو نظر انداز کیا گیا، یا اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ ایک شخص کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی اور کو اس کے اوپر ترجیح دے دی گئی، وغیرہ۔
ایسے ہر موقعے پر ٹیم کے افراد کو یہ جاننا چاہیے کہ جس واقعے کو لے کر وہ منفی (negative) ہورہے ہیں، وہ در اصل اجتماعی کلچر کی بنا پر ہورہا ہے، نہ کہ ان کو بالقصد نظر انداز کرنے کی بنا پر۔ اور یہ اجتماعی کلچر دراصل فطرت کا قانون ہے جو خود خالق نے بنایا ہے۔ جس گروہ کے افراد اس سوچ کے تحت کام کریں، ان کو اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔ انھوں نے فطرت کے قانون کو تسلیم کرتے ہوئے گویا کہ اللہ کی مدد کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ بھی ان کی مدد پر آجائے گا اور ان کی کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجائے گی، جتنا کہ رات کے بعد سورج کا نکلنا۔
کوئی انسان یا کوئی گروہ جب ایک سچے مشن کے لیے کام کرتا ہے تو خالق کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ،فطرت کا قانون ا س کی مدد پر آجاتا ہے۔ اسی واقعہ کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے — اگر تم اللہ کی نصرت کروگے تو اللہ بھی ضرور تمھاری نصرت کرے گا، اور تمھاری کامیابی کو یقینی بنادے گا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان نکاح کو ایک مقدس حیثیت حاصل ہے۔ اس کو ہر حال میں باقی رکھنا چاہیے۔ تاہم چوں کہ یہ تعلق دو غیر خونی رشتوں کے درمیان ہوتا ہے،اس لیے بعض اوقات طرفین کے درمیان اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان اختلافات کی حیثیت حتمی نہیں ہوتی ، وہ یقینی طور پر قابل حل ہوتے ہیں۔ اس لیے طرفین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچیں، اور برتر شرعی مصالح کو ملحوظ رکھتے ہوئے، آپس میں نباہ (adjustment) کے طریقے پر عمل کریں۔
لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ طلاق کا طریقہ عملا ًناگزیر ہوجائے۔ اس معاملے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: أبغض الحلال إلى اللہ تعالى الطلاق (سنن ابو داوود، حدیث نمبر2178) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق اگرچہ اسلام میں جائز ہے، لیکن اللہ کے نزدیک طلاق کی حیثیت ایک مبغوض فعل کی ہے۔
نکاح خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے طرفین کو چاہیے کہ وہ جب نکاح کرلیں تو ہر حال میں اس کو نباہنے کی کوشش کریں۔ طلاق کا ارادہ صرف اس وقت کریں، جب کہ غیر معمولی حالات پیدا ہوچکے ہوں۔
قرآن میں طلاق کا طریقہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ(
ابتدائی دور میں نکاح و طلاق کا یہی طریقہ اہل اسلام میں رائج تھا۔اوراگر اتفاقی طور پر کسی شخص نے تین طلاق کا لفظ بول دیا تو اس کو غصہ پر محمول کرکے رجوع کا موقعہ دیا جاتا تھا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں ایسا ہوا کہ اس قسم کے واقعات زیادہ ہونے لگے۔ لوگ اپنی بیوی کے خلاف اظہار غضب کے طور پر کہنے لگےکہ تم کو طلاق، تم کو طلاق، تم کوطلاق۔ یعنی ایک مجلس میں تین طلاق دینے کی تعداد بڑھ گئی۔
حضرت عمر نے یہ حالت دیکھ کر ایک نیا فیصلہ فرمایا۔ انھوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین طلاق قرار دے کر فریقین کے درمیان علاحدگی کرادی۔ یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: عن ابن عباس، قال:کان الطلاق على عہد رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، وأبی بکر، وسنتین من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لہم فیہ أناة، فلو أمضیناہ علیہم، فأمضاہ علیہم (صحیح مسلم ، حدیث نمبر1472)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور دور خلافت عمر کے ابتدائی دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھی ۔ عمر بن خطاب نے کہا کہ لوگوں کو جس امر میں مہلت دی گئی تھی اس میں انھوں نےجلدی شروع کردی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا ۔چناں چہ انہوں نے تین طلاق ہی واقع ہوجانے کا حکم دے دیا۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ ایسا کرنے والے مردوں کو کوڑے مارکر سخت سزا دیا کرتے تھے(إذا أتی برجل طلق امرأتہ ثلاثا أوجع ظہرہ [سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر
اب جہاں تک طلاق کے معاملے میں شرعی حکم کا تعلق ہے، وہ ہمیشہ کے لیے وہی رہے گا، جو قرآن میں مذکور ہے۔ البتہ اگر کوئی حاکم وقتی حالات کی بنا پر دوبارہ حضرت عمر کے طریقے کو اختیار کرنا چاہے تو وہ عارضی طور پر اس کو اختیارکرسکتا ہے۔ مگر غیر حاکم کو اس معاملے میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن انسان کے قدم نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا جائے۔ ان میں سے ایک یہ ہے: وعن شبابہ فیما أبلاہ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1648)یعنی جوانی کے بارے میں کہ اس کو کس کام میں بِتایا۔شباب کا زمانہ (youth age)وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کی طاقت پوری طرح زندہ ہوتی ہے۔ وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ جس کام کو چاہے کر ڈالے۔شباب کا زمانہ دو کمزوریوں کے درمیان ہوتا ہے۔ پہلے بچپن اور اس کے بعد بڑھاپا۔ کسی آدمی کے لیےجوانی کا زمانہ ہی حقیقی معنوں میں عمل کا زمانہ ہوتا ہے۔ شباب کے زمانے کے پہلے بھی کمزوری ہے، اور بعد کو بھی کمزوری ہے۔ جس آدمی نے شباب کے زمانے کو ضائع کیا، اس نے گویا اپنی عمر کو ضائع کردیا۔
کسی آدمی کے لیے شباب کا زمانہ سب سے بڑی نعمت کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شباب کے زمانے کے بارے میں قیامت میں زیادہ سخت پوچھ ہوگی۔ شباب کا زمانہ کسی آدمی کی عمر کا سب سے بہتر حصہ ہوتا ہے۔ شباب کے زمانے میں آدمی جو کچھ کرسکتا ہے، اس کا کرنا آدمی کے لیے نہ شباب سے پہلے ممکن ہوتا ہے اور نہ شباب کے بعد۔
لیکن شباب کے زمانے کا ایک مائنس پہلو ہے۔ وہ یہ کہ شباب کا زمانہ آدمی کے لیے پختگی (maturity) سے پہلے کا زمانہ ہے۔ شباب کے زمانے میں آدمی انرجی کے اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن تجربہ اور ذہنی ارتقا کے اعتبار سے وہ ابھی اپنے غیر ارتقا یافتہ دور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ سب سے زیادہ غلطی اپنے اس دور میں کرتے ہیں جس کو شباب کا دور کہا جاتا ہے۔ اس پہلو کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے شباب کے زمانے میں بہت زیادہ محتاط (cautious) ہو۔ وہ جو رائے قائم کرے بہت زیادہ سوچ سمجھ کر رائے قائم کرے، اور جو کام کرے اس کا منصوبہ بہت زیادہ غور و فکر کے بعد بنائے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی نسبت سے قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ وہ تربیت کے ذریعہ انسان کو متوازن شخصیت (balanced personality) بنائے۔ اس مقصد کے لیے قرآن نے انسان کو ایک تربیتی اصول ان الفاظ میں دیا ہے:لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ ٍ (
خالق کے منصوبہ کے مطابق، یہی انسان کی مطلوب شخصیت ہے۔ یہ شخصیت صرف تجربات کے درمیان بنتی ہے۔مطالعہ سے آدمی کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن تجربہ آدمی کی شخصیت میں تموّج پیدا کرتا ہے۔ تجربات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ تجربات آدمی کے ذہن کو جگاتے ہیں۔ یہ تجربات آدمی کی شخصیت کے غیر متحرک گوشوں کو متحرک بناتے ہیں۔ تجربات آدمی کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تجربہ کے ذریعہ انسان، کامل انسان بنتا ہے۔ نظری علم (theoretical knowledge) آدمی کو معلومات دے سکتی ہے لیکن کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صرف نظری علم کافی نہیں۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ حقائق کی بنیاد پر سوچے اور اپنے عمل کی دانش مندانہ منصوبہ بندی (wise planning) کرسکے۔ یہ صفت کسی انسان کے اندر تجربات کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔
متوازن شخصیت کسی کو پیدائشی طور پر نہیں ملتی۔ متوازن شخصیت مطالعہ اور تجربہ کے ذریعہ تیار ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حقیقت کی بنیاد پر سوچے ۔ وہ حقیقت کی بنیاد پر اپنی عقلی تربیت کرے۔وہ موضوعی سوچ (objective thinking) کے ذریعے اپنے آپ کو ایک پختہ شخصیت (mature personality) بنائے۔ یہ خود تعمیری (self preparation)کا ایک کورس ہے۔ اسی خود تعمیری عمل کے کورس سے گزرکر وہ انسان بنتا ہے جواعلیٰ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان ایک ذی حیات مخلوق ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، موجودہ دنیا میں تقریبا ایک ٹریلین (one trillion) کی تعداد میں ذی حیات اشیاء پائی جاتی ہیں۔ان تمام ذی حیات چیزوں میں انسان ایک خصوصی حیثیت رکھتا ہے۔ بقیہ تمام اشیاء کامل طور پر قانون فطرت (law of nature) کی پابند ہیں۔ پوری دنیا میں انسان ایک واحد مخلوق ہے، جس کو کامل آزادی ملی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے عمل کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی امتیازی صفت کو قرآن میں خلافت (البقرۃ: 30) اور امانت (الاحزاب
دوسری ذی حیات اشیاء کے برعکس، انسان کو اپنی زندگی میں ایک امتیازی عمل کا نمونہ پیش کرنا ہے۔ اس کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہوناہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت صحیح راستہ (right path) پر چلنا ہے، اس کو خود اپنے ارادے کے تحت سیلف کنٹرول (self control) کی زندگی گزارنا ہے، اس کو خود اپنے فیصلہ کے تحت اطاعت (submission) کی زندگی اختیار کرنا ہے۔یہی انسان کا امتیاز ہے۔ مگر ہر عطیہ کے ساتھ ہمیشہ ایک ذمہ داری شامل رہتی ہے۔ چناں چہ انسان کے امتیاز کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو امتحان (test) کہا جاتا ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ آزادی کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے۔ آزادی کے باوجود وہ اللہ کا فرمانبردار بن جائے۔ آزادی کے باوجود وہ اپنے آپ کو سرکشی اور بے راہ روی سے بچائے۔ وہ خود دریافت کردہ سچائی پر کھڑا ہو، اور خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا طریقہ اختیار کرے۔ اسی خود انضباطی کے روش کو قرآن میں اور حدیث میں لوجہہ اللہ اور لاجل اللہ کہا گیا ہے۔ یہ عمل جو انسان سے مقصود ہے، وہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر خالق نے سب سے بڑا انعام مقدر کیا ہے۔ ایک ایسا انعام جو کسی بھی دوسری مخلوق کو ملنےوالا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پختگی یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر قابو پالے اور اختلافات کو تشدد اور تخریب کے بغیر دور کرسکے۔ پختگی تحمل اور برداشت کا نام ہے اور اس صلاحیت کا کہ وقتی خوشی کو دیر طلب مقاصد کے لیے قربان کردیا جائے۔ پختگی اس استعداد کا نام ہے کہ کسی تلخی کے بغیر، ناخوش گوار اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیاجائے۔ پختگی انکساری کا نام ہے۔ ایک پختہ شخص یہ کہنے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ ’’میں غلطی پر تھا‘‘۔ پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پُر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا۔
Maturity is the ability to control anger and settle differences without violence or destruction. Maturity is patience, the willingness to give up immediate pleasure in favour of the long-term gain. Maturity is the capacity to face unpleasantness and disappointment without becoming bitter. Maturity is humility. A mature person is able to say, “I was wrong”. Maturity is the ability to live in peace with things we cannot change.
پختگی در اصل حقیقت واقعہ کے اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ وہ ساری صفتیں جن کو پختگی کہا جاتا ہے وہ سب حقیقت واقعہ کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ حقیقت واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جانے کہ کہاں اس کی حد ختم ہوتی ہے اور کہاں سے دوسری طاقتوں کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کے لیے ممکن ہے۔ اور وہ کیا چیز ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں۔حقیقتِ واقعہ کا اعتراف آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اقدام سے پہلے اُس کے انجام کو سوچے، وہ اپنے عمل کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کرے۔
حقیقت واقعہ کا اعتراف آدمی کے اندر یہ بصیرت پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرے۔ وہ یہ جانے کہ کیا چیز اُس کے لیے قابلِ حصول ہے اور کیا چیز اُس کے لیے قابل حصول نہیں۔ پختہ انسان ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور بالفرض اگر وہ کسی معاملہ میںکامیاب نہ ہو تو وہ اپنی ناکامی سے سبق لے کر اپنے آپ کو زیادہ صاحب بصیرت بنا لیتاہے، اور اسی کے ساتھ زیادہ طاقتوربھی۔ پختگی کسی انسان کی نہایت اعلیٰ صفت ہے۔
پختہ (mature)کی تعریف ڈکشنری میںاس طرح کی گئی ہے—کہ ایک وجود جس کا نشو ونما پوری طرح ہوا ہو، وہ اپنی ترقی کے کمال تک پہنچا ہو:
A being full-grown, or fully developed
ایک درخت کی پختگی یہ ہے کہ وہ ابتدائی درجہ سے شروع ہو کر پھول اور پھل کے آخری درجہ تک پہنچ جائے، وہ ہر اعتبار سے ایک مکمل درخت بن جائے۔ اسی طرح انسان کی پختگی یہ ہے کہ وہ اپنی عقلی صلاحیت کے اعتبار سے آخری درجۂ کمال تک پہنچ جائے۔
تاہم انسان کی پختگی کا تعلق صرف حیاتیات یا نفسیات سے نہیں ہے بلکہ اُس کا گہرا تعلق علم سے ہے۔ جو آدمی اپنے علم کو بڑھائے، جوتجربات سے سبق سیکھے، جو دنیا سے معرفت کا رزق لے کر اپنے ذہنی وجودکو مکمل کرے، وہ گویا پختگی کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچا۔
پختہ انسان صاحبِ بصیرت انسان ہوتا ہے۔ پختہ انسان اس حیثیت میں ہوتا ہے کہ وہ معاملات میں صحیح رائے قائم کرے۔ غیر پختہ انسان خوش فہمیوں میں جیتا ہے اور پختہ انسان حقائق میں۔ غیر پختہ انسان جذباتی فیصلہ کرتا ہے اور پختہ انسان جذبات سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے بناتا ہے۔ غیر پختہ انسان کا اقدام جلد بازی کا اقدام ہوتا ہے اور پختہ انسان کا اقدام سوچا سمجھا ہوا اقدام۔ غیرپختہ انسان کا طریقہ لڑائی بھڑائی کا طریقہ ہوتا ہے اور پختہ انسان کا طریقہ صبر اور تحمل کا طریقہ۔ غیرپختہ انسان متشددانہ طریقِ کار میںیقین رکھتا ہے اور پختہ انسان پُر امن طریقِ کار میں۔
غیر پختہ انسان اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ اپنی غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس کے برعکس پختہ انسان جب کوئی غلطی کرتا ہے تو فوراً ہی وہ کھلے دل سے اس کا اعتراف کرلیتا ہے۔ غلطی کا یہ اعتراف اُس کے لیے اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ سے سبق سیکھے۔ وہ اپنی شخصیت کو بہتر سے بہتر بناتا رہے۔ اُس کا ذہنی ارتقاء کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں
حساسیت (sensitivity)ایک انسانی صفت ہے۔ حساسیت انسان کے لیے خالق کا ایک تحفہ ہے۔ حساسیت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی بات کو زیادہ شدت کے ساتھ پکڑتا ہے۔ جو آدمی زیادہ حساس ہو، وہ کسی پوائنٹ کو زیادہ شدت کے ساتھ اخذ کرتا ہے:
A highly sensitive person can grasp a point with greater intensity.
حساسیت کسی انسان کے لیے بلاشبہ ایک مفید صفت ہے۔ مگر حساسیت کو مفید بنانا، صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو حساسیت کو کنٹرول میں رکھنے کا آرٹ جانتا ہو۔جو آدمی اپنی حساسیت پر کنٹرول کرنا نہ جانے، اس کی حساسیت اس کے لیے ایک منفی حساسیت بن جائےگی۔ اس کے برعکس جو آدمی اپنی حساسیت کو کنٹرول میں رکھے، اس کی حساسیت اس کے لیے ایک نعمت بن جائے گی۔
انسان کی زندگی میں بہت سے ناپسندیدہ واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ ناپسندیدہ واقعات آدمی کی حساسیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ خالق نے آدمی کے اندر حساسیت کی صفت کیوں رکھی ہے۔ حساسیت کی صفت آدمی کے اندر اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہونے سے بچائے،وہ اس کی قوت تمییز (power of differentiation) کو مردہ نہ ہونے دے۔
جس آدمی کے اندر حساسیت نہ ہو، وہ چیزوں کے صرف سطحی پہلو (superficial aspect) کو جانے گا۔ وہ چیزوں کے زیادہ گہرے پہلو سے بے خبر رہے گا۔ حساسیت فطری طور پر ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ہوتی ہے۔ لیکن حساسیت کے بے جااستعمال سے آدمی اپنی حساسیت کو غیر موثر (ineffective) بنا لیتا ہے۔ وہ انسان کی صورت میں حیوان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
نومبر 2015 کے الرسالہ کے صفحہ
جواب
اسلام میں سوال کے بجائے تدبراور تفکر پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت خضر کے ساتھ حضرت موسی جب سفر پر روانہ ہوئے تو حضرت خضر نے حضرت موسی سے کہا : فَلَا تَسْأَلْنِی عَنْ شَیْء (
اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سوال سے منع کرتے تھے (مسند احمد، حدیث نمبر18232)۔ سوال کی کثرت سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی سوال نہ کرے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی پہلے سوال کے تقاضے کو پورا کرے۔ اس کے بعد وہ سوال کرے۔
اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کرنے سے پہلے آدمی خود غور وفکر کرے۔ اس طرح اس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کا فائدہ حاصل ہوگا۔ اللہ تعالی نے انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیت پیدا کی ہے۔ یہ صلاحیت غور وفکر سے بڑھتی ہے۔ اپنے ذہن کو ترقی دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی مطالعہ اور غور وفکر سے اپنے ذہن کو تیار کرتا رہے۔ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اخذ (grasp)کی صلاحیت پیدا کرے۔ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ کوئی شخص اس کے سوال کا جواب دے تو وہ اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کرسکے۔ حقیقی سائل وہ ہے جو جواب کو سن کر اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرسکتا ہو۔
مذکورہ حدیث کا مطلب اگر لفظ بدل کربیا ن کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— سوال کیوں کرتے ہو۔ اگر تمھارے ذہن میں کوئی سوال آیا ہے تو پہلے خود اپنے ذہن کو استعمال کرکے اس کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ سوال کو صرف سوال نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنی ذہنی ارتقا کا ذریعہ بناؤ۔ بات کو سن کر فورا سوال کرنا، عجلت پسند ی کی علامت ہے۔ بات کو سن کر پہلے غور وفکر کرنا چاہیے۔ اگر غور وفکر سے وہ بات تک نہ پہنچے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ذہن کو تیار کرنے میں کمی کی ہے۔ اس کی توجہ اس پر دینا چاہیے کہ وہ اپنے ذہن کو مزید تیار کرنے کی کوشش کرے۔
یانگون (برما)میں ماہ نامہ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ (اردو، انگلش )کے لیے رابطہ قائم فرمائیں:
U SOE WIN (Advocate)
No.
Yangon, Myanmar, +95- 5169518
جمشید پور (جھارکھنڈ)میں ماہ نامہ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کے لیے رابطہ قائم فرمائیں:
Ayaz Ahmad
Holding- Sae'ban, Gulzar Bagh Colony,
Near Amar Jyoti School, Chapal Pul, Pardeeh, Jamshedpur, Jharkhand
Pin: 831022, Mob. No. 9199248371, 903196239
واپس اوپر جائیں
دور جدید ، موید اسلام
سیلف پروگرامر
مدعو آپ کے دروازے پر:وشنو موہن آشرم (چنئی)کےسرپرست شری ہری پرشاد اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لئے آئے۔ ان کی ملاقات کا مقصد تھا صدر اسلامی مرکز کو اپنے یہاں پیس پر ہونے والے پروگرام کے لیے دعوت دینا۔ دوران ملاقات مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ اور تمام لوگوں کو انگریزی ترجمہ قرآن اور دیگر امن پر مبنی کتابیں دی گئیں۔ یہ ملاقات
ث
عالمی دَورِ دعوت:صدر اسلامی مرکز کی انگلش کتاب ’وہاٹ از اسلام‘ اور عربی کتاب ’المنہج الربانی فی الدعوة إلى اللہ‘ کا ترجمہ پرتگیزی زبان میں ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں مولانا کے انگلش اور عربی مضامین کا بھی ترجمہ پرتگیز زبان میں ہوا ہے۔اس کے علاوہ پشتو زبان میں بھی کچھ کتابوں اور لیف لیٹ کا ترجمہ ہوچکا ہے، جیسے مذہب اور سائنس، پیغمبر انقلاب، اللہ اکبر، سفر آخرت۔ اور امن عالم،اپنی تعمیر آپ، بااصول زندگی، مسلمان کی اصل حیثیت۔ ملیالم زبان میں کچھ کتابوں کا ترجمہ ہوچکا ہے، جیسے وہاٹ از اسلام، یکساں سول کوڈ، امن کلچر (منتخب مضامین) وغیرہ۔ نیز صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور انگلش کتاب ’واٹ از اسلام‘ چائنیز زبان میں پاکستان سے شائع ہوچکا ہے۔ یہ خاص طورپر پاکستان میں مقیم چینی لوگوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔
ث
دورِ تائید : سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم کو رادھا ہری مندر میں منعقد ہونے والی ایک میٹنگ میں مدعو کیاگیا تھا۔ ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے اس میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ۔ اس موقع پر ان سے دیگر سوالات کے علاوہ سی پی ایس مشن کے بارے میں بھی سوالات کیے گیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم (انسان) زمین پر دو مقصد سے بھیجے گئے ہیں۔ ایک، تو خدا کی عبادت اور دوسرے، حق کی دریافت جو کہ کائنات میں چھپی ہوئی ہے اور اس کو لوگوں تک پہنچانا۔ مسجد، مندر گرودوارے اور چرچ اس کام کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔ اس لیے سی پی ایس نے یہ کام اپنے ذمے لیا ہے اور اس کو پیس ہال (سہارن پور) میں انفرادی ذہن سازی کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ یہ پروگرام
ث سی پی ایس کے ممبر اور روشنی آئی بینک کے چیئر مین ڈاکٹر اشوک جین کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ وہ سی پی ایس کا لٹریچر پڑھتے ہیں اور دوسروں میں تقسیم بھی کرتےہیں۔ ان کو ایم این سی کی جانب سے نیتر رتنا ایوارڈ سے سرفراز بھی کیا جاچکا ہے۔ انھوں نے اپنی ماں کی آنکھ بطور عطیہ آئی بینک میں جمع کردیں۔
ث
دعوت بذریعہ سیاحت:\ 4 اگست 2016 سے 2 ستمبر 2016 تک روزانہ الرسالہ مشن گیا (بہار) کے ممبر ان نے حاجیوں کی روانگی کے موقع پر گیا ائرپورٹ پر اعلى تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم، اسٹاف اور نان اسٹاف کے درمیان بڑی تعداد میں انگلش، ہندی اور اردو ترجمہ قرآن کے علاوہ اسپرٹ آف اسلام، دی ایج آف پیس، وہاٹ از اسلام وغیرہ تقسیم کیا۔ اس کار خیر کو جنا ب عظیم الدین ضیفی اور مجاہد حسین اوراکرام الدین صاحبان وغیرہ نےانجام دیا ۔ اس کے علاوہ بودھ گیا(Bodh Gaya)میںایک معروف بک شاپ کو دعوہ ورک کے لیے سنٹر بنایاگیا ہے۔یہ دکان محمد شہاب الدین صاحب کی ہے۔یہاں روزانہ بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح کتابوں کے لیے آتے رہتے ہیں۔چناں چہ اس شاپ کے ذریعہ غیرملکی سیاحوں میں بڑی تعداد میں انگلش دعوہ لٹریچر جیسے قرآن، دی ایج آف پیس، اسپرٹ آف اسلام، وہاٹ از اسلام، وغیرہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن کے سلسلہ میںغیر مسلموں کی دلچسپی کو دیکھ مالک دکان محمد شہاب الدین صاحب نے بھی دعوہ ورک کرنے کا عزم کیا ہے۔ نیز مستقبل قریب میں بودھ گیا میں ایک بڑا میلہ لگنے والا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح شرکت کریں گے۔ یہاں اسٹال لگایا جائے گا۔
تزکیہ و تربیت : علماء کی ایک ٹیم مولانا سید اقبال احمد عمری اور مولانا سید فیاض الدین عمری کی قیادت میں سی پی ایس مشن سے جڑی ہوئی ہے۔
ث مہاراشٹرا کی سی پی ایس ٹیم نے دہلی کا دورہ کیا۔ یہاں ان کا قیام 8۔9 اکتوبر 2016 کو رہا۔ اس درمیان انھوں نے صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کیا اور دہلی سی پی ایس ممبران سے اپنے دعوہ تجربات شیئر کیے، اور ایک نئے دعوتی عزم کے ساتھ وہ لوگ واپس لوٹے۔
آپ کا مشن، آپ میں تبدیلی:
ث I would like to express my views on Al-Risala magazine. First of all, my close friend Mr. M.A. Naeem, M.A., B.Ed., introduced Al-Risala to me in 1976. The magazine impressed me very much and since then I have been its regular reader. The magazine made me a different man compared to what I was earlier. It has made me Akhirat-oriented. I have now started bothering very much about my Akhirat. I explain to my children the different topics published in the magazine. I am deeply impressed regarding your explanation of Akhirat and as well as this world, for Muslims in particular and entire humanity in general. Apart from Al-Risala I have read number of your books to quench my thirst for knowledge of Akhirah. When I was in service, I purchased your books Muhammed: A Prophet for all Humanity and Islam the Creator of Modern Age, and distributed it in my office among my seniors and subordinates to make them aware of Islam and the Prophet. I am doing it now also. I am very much influenced by your writings as they are based on the Quran and Sunnah with concrete proof. I have heard your lectures in Hyderabad thrice. Your lectures are full of knowledge of both science and religion, which impressed me a lot. You are presenting religion in a scientific way which cannot be found among other Islamic scholars. Your writings are unique. What I have written is not an exaggeration, rather it has come from my heart. (Abdul Wahab, Hyderabad, India)
ث Al-Risala issue of Oct 2016 is totally different from the regular ones . It is extremely eyeopening for every reader. I cried out when I finished reading this issue. I found that Maulana has tried his utmost in every article to inculcate its indepth meaning, th]e importance of contemplation, the secrets of result-oriented work, the concept of freedom, the difference between real and relative aspects of things, understanding Islamization of individual and socio-political system, practical wisdom of respective aspect, and most importantly the difference between debate and dawah. Maulana has been able to understand and present the true and qualitative picture of religion. He has correctly explained the Creation Plan of God. May God accept his exhaustive work and bless us to spread His message to all mankind. I am thrilled to freely distribute this issue of Al-Risala in my town. Thanks a lot and I pray for Maulana’s good health and long life. (Shakeel Ahmed, Indore, MP)
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.