قرآن کی سورہ نمبر
قرآن، کتابِ تدبر ہے۔ قرآن کی بیشتر آیتوں میں یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کی کتاب میں تدبر کرو، زمین و آسمان میں تدبر کرو، کائنات میں پھیلی ہوئی آیتوں (signs) میں تدبر کرو۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، ان کے بارے میں قرآن میں سخت تنبیہہ آئی ہے،مثلا فرمایا:لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (
تدبر(contemplation) کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں اور خدا کی تخلیق میں حکمت کے پہلو چھپے ہوئے ہیں، غور کرکے حکمت کے ان پہلوؤںکو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کرنا، یہ تدبر کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔تدبر اور تفکر کی اہمیت ا تنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر آدمی، حیوان کی مانند بن جاتا ہے۔انسان وہی ہے جس کے اندر تدبر کی صفت موجود ہو۔
تدبر کرکے معانی کی دریافت کرناکیا ہے۔ اس کوقرآن میں ایک مادی تمثیل کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ تمثیل یہ ہے:وَأَوْحَى رَبُّکَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ۔ ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (
قرآن کی اس آیت میں ایک مادی مثال کی صورت میں تدبر کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔شہد کی مکھی کا کام یہ ہے کہ وہ پھولوں سے اس کا نِکٹر، اکسٹریکٹ (extract) کرے،اور پھر ان کو جمع کرکے شہد بنائے۔ شہد کی مکھی جو اپنے چھتے سے نکلتی ہے تو اس کو بظاہر غیر شہد کےطویل جنگل کے درمیان لمبا سفر کرنا پڑتا ہے۔وہ نہایت ہنر مندی کے ساتھ ایسا کرتی ہے کہ دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے پھول کے پاس پہنچتی ہے۔ پھول کے اندر بہت کم مقدار میں ایک میٹھا رس موجود ہوتا ہے، جس کو نِکٹر (nectar) کہتے ہیں۔ وہ ہر پھول سے صرف اس کے نِکٹر کو لیتی ہے، اور اس کے بعد اپنے چھتے کی طرف چلی جاتی ہے۔
یہی تدبر ہے۔ انسان کو جس دنیا میں جینا پڑتا ہے، وہ گویا ایک عالمی جنگل ہے، اس جنگل میں ہر جگہ حکمت و معرفت کا نِکٹر (nectar) چھپا ہوا ہے، تدبر کی صفت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔ وہ غور و فکر کرکے حکمت و معرفت کے چھپے ہوئے نکٹر کو دریافت کرے، اور اس کے ذریعے اپنے آپ کو وہ انسان بنائے، جس کو صاحبِ معرفت انسان (realized person) کہا جاتا ہے۔جو آدمی تدبر کی اس صلاحیت سے خالی ہو، اس کے لئے یہ دنیا جھاڑ جھنکارکی مانند ہو گی۔تدبر کی صفت انسان کو انسان بناتی ہے، اور تدبر سے محرومی انسان کو حیوان بنادیتی ہے۔موجودہ زمانے کا وہ ظاہرہ جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔ اس تہذیب کے بے شمار اجزا ہیں۔بظاہر یہ بھی ایک وسیع جنگل کی مانند ہے۔ جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت نہ ہو، وہ اس تہذیب کو ایک جنگل کی صورت میں دیکھیں گے۔ اور جن لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں تدبر کی صلاحیت ہو،وہ شہد کی مکھی کی مانندتہذیب کے اس جنگل میں حکمت کا نِکٹر دریافت کرلیں گے، اور پھران کو دکھائی دے گا کہ جدید تہذیب اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی ایک نعمت ہے، وہ دینِ حق کے لئےایک عظیم مؤید (supporter) کی حیثیت رکھتی ہے۔
جن لوگوں کے اندر تدبر کی صلاحیت نہ ہو، ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تہذیب برائی کا ایک جنگل ہے۔ اس میں الحاد (atheism)ہے، اس میں برہنگی (nudity) ہے، اس میں انارکی (anarchy)ہے، اس میں کرپشن (corruption) ہے، اس میں اکسپلائٹیشن (exploitation) ہے، اس میں لادینی کلچر ہے، وغیرہ۔ یہ کہہ کر وہ اس تہذیب کے دشمن ہو جائیں گے۔ لیکن جن لوگوں کا ذہن بیدار ہو، جن کو تدبر کی صلاحیت ملی ہو، وہ غور و فکر کرکے اس تہذیب میں چھپے ہوئےحکمت و معرفت کے نِکٹر کو دریافت کریں گے۔ اور پھر ان کو نظر آئے گا کہ یہ تہذیب ایک خدائی نصرت ہے، جس کے ظہور کے لئے اللہ نے مغرب کے سیکولر لوگوں کو استعمال کیا ۔
اصحابِ تدبر کو نظر آئے گا کہ اس تہذیب کے ذریعے سائنس وجود میں آئی، اور سائنسی دریافتوں کی بنا پر خدا کی کتاب کے بہت سے اشارے قابلِ فہم بن گئے، اس تہذیب کے ذریعے یہ ہوا کہ فکری آزادی انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق (right) قرار پایا، اس تہذیب کے ذریعے پہلی بار پرنٹنگ پریس اور کمیونی کیشن کا دور آیا، جس نے دین کی تبلیغ کے لئے عالمی امکانات کھول دیے، اس تہذیب کے ذریعے پہلی بار تمام قوموں نے متفقہ طور پر امن (peace) کو ایک یونیورسل اصول (universal norm) کی حیثیت دے دی،اس تہذیب کی وجہ سے پہلی بار دنیا میں کھلا پن (openness) کا دور آیا جس نے ہمیشہ کے لئے مذہبی جبر (religious persecution ) کا خاتمہ کردیا۔
تدبر دین کا خلاصہ ہے، تدبر حکمت کے خزانوں کو کھولتا ہے، تدبر انسان کے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تدبر کے ذریعے آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ جھاڑ جھنکار کے جنگل کو باغ کی صورت میں دیکھے۔ وہ منفی واقعات کو مثبت تجربے میں تبدیل کرسکے، وہ غیب میں چھپی ہوئی معرفت کو دریافت کرلے۔ تدبر انسان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ تدبر کے ساتھ انسان، انسان ہے، اور تدبر کے بغیر وہ انسان کی صورت میں صرف حیوان ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں کل تقریبا 6600 آیتیں ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں بہت کم ایسی آیتیں ہیں جواحکام سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن کی بیشتر آیتیں وہ ہیں جن میںاللہ کی تخلیقات کا بیان ہے۔ جن کو قرآن میں آیات اللہ، کلمات اللہ، آلاء اللہ جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ اللہ کی نشانیوں پر غور کرو، اور ان سے معرفت کا رزق حاصل کرو۔قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الفاتحہ 1:)۔ قرآن کا پورا مجموعہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔
اس مطالعے کے مطابق قرآن احکام کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ معرفت کی کتاب ہے۔بعد کے زمانے میں قرآن کے مطالعے کے معاملے میں سب سے بڑا انحراف یہ ہوا کہ قرآن کی یہ خصوصیت علمائے امت کے ذہن سے اوجھل ہوگئی۔ وہ قرآن کو ایک کتابِ احکام کے طور پر دیکھنے لگے۔ جب کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کو بتایا گیا ہے۔اصل حقیقت کے اعتبار سے قرآن کی حیثیت کتابِ معرفت کی ہے،لیکن امت کے بعد کے زمانے میں قرآن کو کتاب احکام کی حیثیت دے دی گئی — امت کے تمام بگاڑ کا اصل سبب یہی انحراف ہے۔یہ انحراف عباسی دور میں قرآن کے فقہی مطالعے کی صورت میں پیدا ہوا۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ قرآن کو فقہی احکام کے ماخذ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔بیسویں صدی کا یہ واقعہ اسی ذہن کی توسیع ہے ۔ اس دور میں ایسے علماء اور مفکرین پیدا ہوئے، جو قرآن کونظام (system) کے ماخذ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے مطالعے کا نقطۂ آغاز (starting point) بدل گیا۔
یہ وہی ظاہرہ ہے جس کو حدیث میں اتباع یہود (البخاری، حدیث نمبر 3456) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس حدیث میں یہود کا اتباع سے مراد، زوال یافتہ امت کا اتباع ہے۔دورِ زوال میں یہود کے علماء نے موسوی دین کو موسوی شریعت کی حیثیت دے دی۔تورات اور تالمود کے حوالے سے ا نھوں نےایک مجموعہ ٔ احکام تیار کیا ، اور دین موسیٰ کے نام پر اسی کا چرچا کرنے لگے۔چنانچہ بعد کے زمانے میں یہودیت کا جوورزن (version) تیار ہوا وہ تمام ترقوانین (laws) پر مبنی تھا۔یہودیت کے اس ورزن میںمعرفت اور دعوت جیسی چیزیں تمام تر حذف ہوگئیں۔یہی واقعہ امت مسلمہ کے درمیان پیش آیا۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے علماء اور رہنماکے یہاں جس دین کا چرچا ہے، اس میں معرفت اور دعوت جیسی اصل تعلیمات حذف ہوگئی ہیں، اس کے بجائے سارا زور قوانین اور احکام پر دیا جارہا ہے، جس کو بطور خود وہ اسلامی نظام کا نام دیتے ہیں۔ اسلام کو بطور سیاسی اور سماجی نظام پیش کرنا ، ان کا واحد نشانہ بن گیا ہے، اور معرفت اور دعوت جیسی چیزیں ان کے یہاں بھی اسی طرح حذف ہوگئی ہیں، جس طرح وہ اس سے پہلے یہود کے یہاں حذف ہوگئی تھیں۔
اس انحراف کو پولیٹیکل انٹرپریٹیشن آف اسلام یا مبنی بر نظام اسلام (system-based Islam) کہا جا سکتا ہے۔اس تصور دین کا نتیجہ ہے کہ امت میں ایک ابدی قسم کے ٹکڑاؤ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ یہ ٹکڑاؤابتدائی طور پردوسروں کو اپنا حریف (rival) سمجھنے کی صورت میں شروع ہوتا ہے، اور پھر بڑھ کر تشدد اور جنگ اور خود کش بمباری تک پہنچ جاتا ہے۔قرآن کو اگر کتابِ معرفت کے طور پر لیا جائے تواس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ قرآن کی آیتوں میں تدبر کرو، قرآن کے ذریعے خالق کی معرفت حاصل کرو، اور پھر خالق کی معرفت میں جینے والے بن جاؤ،یعنی وہ انسان جس کو قرآن میں ربانی انسان (آل عمران
قرآن و سنت کے مطالعے کا یہی غلط اسلوب ہے جس نے عملاً دین اسلام کو دین یہود بنا دیا۔ دین اسلام کا اصل نشانہ کامل معنوں میں ایک پر امن نشانہ تھا۔ اس نشانے کا مرکزی تصور اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ پر مبنی پر امن کلچر وجود میں لانا ہے۔ لیکن دورِ زوال کی یہودیت کی اتباع کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سیاست کا موضوع بن گیا۔لوگ اسلام کے سیاسی نظام کو قائم کرنے کے نام پر دوسری قوموں سے لڑنے لگے۔اور جب لڑائی کے باوجود مفروضہ سیاسی نظام قائم نہیں ہوا تو انھوں نے فتوی دیا کہ خود کش بمباری (suicide bombing) کے ذریعے مفروضہ باطل نظام کو ڈی اسٹبلائز (destabilize) کیاجائے۔ یہ فتویٰ سراسر غلط فتوی تھا۔ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خودکشی یقینی طور پر ایک حرام فعل تھا۔ خود کشی کے ذریعے مرنے والا شخص ابدی طور پر جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔البخاری کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے کے ایک مسلمان نے ایک غزوہ میں شرکت کی ۔ وہ مخالفین اسلام کے مقابلے میں لڑا، اور بظاہر بڑے بڑے جہادی کارنامے انجام دیے، مگر آخر میں زخموں کی تاب نہ لاکر خودکشی کرکے اپنا خاتمہ کرلیا۔اس خودکشی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنہ من أھل النار (البخاری، حدیث نمبر 2898 )۔ پیغمبرِ اسلام کے یہ الفاظ ہر اس شخص پر صادق آتے ہیں، جو خود کشی کرکے اپنے آپ کو ہلاک کرے۔کوئی شخص اگر اسلامی مفاد کے نام پر خودکشی کرے تب بھی وہ اس معاملے میںمستثنی نہیں قرار پائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں تحریک (movement) صرف دو مقصد کے لئے چلائی جائے گی، ایک معرفت اور دوسرے دعوت۔کسی اسلامی تحریک کا پہلا نشانہ یہ ہوگا کہ ایسے افراد پیدا ہوں جو معرفتِ رب میں جینے والے ہوں، جو الحمد للہ کلچر کو اپنی ذاتی زندگی میں اختیار کریں۔ اسی عمل کے نتیجے میں وہ شخصیت بنتی ہے جس کو قرآن میں مزکیٰ شخصیت (طہ
واپس اوپر جائیں
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے لئے ابتلاء (test) کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر سورہ البقرۃ میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن (
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں جس ابتلا کا ذکر ہے، وہ ابتلاء بقدر شیٔ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس سے مراد ابتلاء عام ہے جو ہر پیدا ہونے والے انسان کو ضرور پیش آتا ہے۔ اس ابتلاء عام میں کسی کا کوئی استثناء (exception)نہیں۔
دوسرا ابتلاء وہ ہے جس کو ابتلاء خاص کہا جاسکتا ہے۔ اس ابتلاء کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر
اس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی ایک اور آیت سے ملتی ہے، یہ آیت اصحابِ رسول کی دعا کی صورت میں قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا (
اس معاملے کو غزوۂ احزاب کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ غزوۂ احزاب جو 5 ھ میں ہوا تھا، اس میں اہل توحید اور اہل شرک کے درمیان ایک لمبی خندق کھودی گئی تھی۔ اس خندق کی بنا پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک حاجب (buffer)قائم ہو گیا، جس نے دونوں کے درمیان جنگ کے امکان کو ختم کردیا۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ (UNO)کی عالمی تنظیم نے زیادہ بڑے پیمانے پر ایک حاجب (buffer) قائم کردیا ہے، جس نے تاریخ میں پہلی بار اس کو ممکن بنادیا ہے کہ توحید کا مشن عالمی سطح پر پر امن انداز میں چلایا جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان کسی ٹکڑاؤ کی نوبت نہ آئے۔
آزادی نہ کہ اختیار
اس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے، مگر اس کو اختیار حاصل نہیں— انسان اگر اس حقیقت کو سمجھ لے تو وہ کبھی سرکشی نہ کرے۔
ایک شخص کسی کو بے عزت کرنے کے لیے اپنی زبان کھول سکتا ہے، مگر کسی کا بے عزت ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خود خدا اس کے لیے بےعزتی کا فیصلہ نہ کرے۔ ایک شخص کسی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا سکتا ہے۔ مگر وہ اس وقت تک کسی کو قتل نہیں کرسکتا جب تک اسی شخص کے ہاتھ سے اس کی موت مقدر نہ کردی گئی ہو۔ ایک شخص کسی کی جائداد پر قبضہ کرنے کی سازش کرسکتا، مگر اس کی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک خدا اپنی کسی مصلحت کے تحت اس کے حق میں ایسا فیصلہ نہ کردے۔(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ اپنی پوری عمر اسی مشن کے لیے پُرامن طور پر کام کرتے رہے۔ توحید (oneness of God) کا عقیدہ، اسلام میں کلیدی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔توحید گویا اسلام کے درخت کا بیج (seed) ہے۔ جس آدمی کو توحید کی معرفت ہوجائے اس آدمی کی پوری زندگی صبغۃ اللہ (البقرۃ :
پیغمبر ِ اسلام نے
مگربعد کے زمانےکے علماء نے شعوری یا غیر شعوری طور پر، اس فرق کو ملحوظ نہ رکھا۔ مثلا آپ کے مکی دور میں کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے، رسول اللہ نے بتوں کے مسئلے پر قریش سے ٹکراؤ نہیں کیا۔ بلکہ آپ نے یہی کیا کہ بتوں کی موجودگی کو عملا نظر انداز کرتے ہوئےلوگوں کے سامنے پر امن طور پر قرآن کا پیغام پہنچاتے رہے۔بعد کے علماء نے اس حکمت کو نہیں سمجھا، وہ مسئلہ (problem) کو نشانہ بناکر اس سے لڑتے رہے۔انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ پرابلم کو نظر انداز کرکے پرامن دعوت کا کام کریں۔
اسی قسم کی ایک مثال صلح حدیبیہ (Hudaybiya Agreement)ہے ۔ صلح حدیبیہ پیغمبرِ اسلام کی ایک سنت ہے۔ یہ سنت بتاتی ہے کہ فریقِ ثانی کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے، ان سے صلح کرلو، تاکہ دعوت کے مواقع تمھارے لیے کھل جائیں۔ دورِجدید کے علماء کے لیے باربار حدیبیہ جیسی صورت پیش آئی، لیکن انھوں نے اس معاملے میں اِس پیغمبرانہ سنت پر عمل نہیں کیا۔ موجودہ زمانے میں نو آبادیات (colonialism)اور صہیونیت (Zionism)اس کی واضح مثالیں ہیں۔
لیکن یہی علماء رسول اللہ کی سنت جہاد کو دھوم کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ وہ غیر متعلق دلائل اور خود ساختہ تعبیرات کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ جہاد (بمعنی قتال) کی سنت سب سے بڑی سنت ہے۔ اس پر ہمیں ہر حال میں عمل کرناہے، خواہ ہمارے لوگ قتل کیے جائیں، اور ہماری جائدادوں کو تباہ کیا جائے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔کیا وجہ ہے کہ یہ علماء سنت کعبہ اور سنت حدیبیہ کو یک سر چھوڑے ہوئے ہیں، لیکن سنت جہاد (بمعنی قتال ) کو ہر قیمت پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حتی کی اس معاملے میں انھوں نے خودکش بمباری (suicide bombing) تک کو جائز کر رکھا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں علماء اور مسلم رہنما ؤں کے ذہن سے اسلام کا دعوتی مشن حذف ہوگیا۔ اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے۔ بقیہ تمام چیزیں اسی مشن کی نسبت سے اسلام کا حصہ بنتی ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے کے علماء دعوت کے فریضہ سے عملاً بے خبر ہوگیے۔ اسی بے خبری کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کی بعد کی لٹریری تاریخ (literary history)میںکوئی قابلِ ذکر کتاب دعوت الی اللہ کے موضوع پرموجود نہیں۔ فقہائے اسلام میں سے کسی فقیہ نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھی۔ الغزالی ، ابن تیمیہ، عزالدین عبد السلام سے لے کر شاہ ولی اللہ دہلوی تک کسی نے بھی دعوت الی اللہ کے موضوع پر معلوم طور پرکوئی کتاب نہیں لکھی۔ جب کہ پوری لٹریری تاریخ میں تقریبا ہر شخص جہاد و قتال کے موضوع پر لکھتا اور بولتا رہا ہے۔
اس عمومی غفلت کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بعد کے دور کے تقریبا تمام علماء اور فقہاء، اسلام کے مشن کے بارے میں عمومی سطح پر ایک اجتہادی خطا کا شکار ہوگیے۔ وہ یہ کہ انھوں دعوت کواسلام کانشانہ سمجھنے کے بجائے، امتِ مسلمہ کے سیاسی غلبہ کو اسلام کا نشانہ سمجھ لیا۔ دعوت الی اللہ کا نشانہ پر امن جدو جہد کا مزاج بناتا ہے۔ جب کہ سیاسی غلبہ کا نشانہ جنگ و قتال کو امت مسلمہ کا نشانہ بنادیتا ہے۔ یہ نشانہ بلاشبہ پیغمبر کے نشانے کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسان پیدائشی طور پر خود پسند (egoist by birth) ہے۔ وہ دنیا کو اپنی پسند کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے۔دوسرے کا اعتراف کرنا انسان کے مزاج کے خلاف ہے۔انسان کی یہی وہ صفت ہے، جس سے مختلف قسم کے سماجی ٹکراؤ (social conflict ) پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سماجی ٹکراؤ جب تشدد کی حد تک پہنچ جائے تو اسی کو جنگ کہا جاتا ہے۔انسان کے اسی مزاج کی بنا پرتاریخ میں ہمیشہ ٹکراؤ کا ماحول قائم رہا ہے، نفرت، تشدد، جنگ سب اسی کی مختلف صورتیں ہیں۔
اس اعتبار سے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر جنگ کے تین دور ہیں، سیاسی جنگ (political war)، طبقاتی جنگ (class war)اور نظریاتی جنگ (ideological war)۔ قدیم تاریخ کا لمبا دور سیاسی لڑائیوں کا دور ہے۔یہ سیاسی لڑائیاں بنیادی طور پر زمینی علاقہ (territory) پر قبضہ کے لئے ہوتی تھیں۔انیسویں صدی میںکمیونزم (communism) کے عنوان کے تحت جنگ کی نئی صورت پیدا ہوئی ۔کمیونسٹ مفکرین نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر قسم کی برائی کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ سماجی تقسیم ہے۔اس تقسیم کو ختم کرکے بے طبقاتی سماج (classless society) بنادی جائے توایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جو ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہوگا۔یہ نظریہ لوگوں کے درمیان کافی مقبول ہوا، یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی کو یہ موقع ملا کہ وہ 1917 میں روس میں اپنی پہلی حکومت قائم کریں۔ جس نے بعد کو توسیع پاکر ایک سوپر پاور کی صورت اختیار کر لی، جس کوسوویت روس کہا جاتا تھا۔اس کے بعد دنیا میں مسلسل قسم کےدو متحارب بلاک (warring blocks )بن گئے۔ایک کی نمائندگی سوویت روس کر رہا تھا، اور دوسرے کی نمائندگی یو ایس اے (USA)۔ دو بڑی طاقتوں کا یہ ٹکراؤ 1991 میں ختم ہوا، جب کہ سویت یونین ٹوٹ گیا۔
سوویت یونین کے خاتمہ کے ساتھ عملا طبقاتی جنگ کا خاتمہ بھی ہوگیا۔ لیکن کمیونسٹ تحریک کے اثر سے ایک نیا فکری دور پیدا ہوا، جس کو نظریاتی جنگ کا دور کہا جاسکتا ہے۔نظریاتی جنگ کا یہ دورعمومی طور پر مقبول نہ ہو سکا لیکن بیسویں صدی کے مسلمانوں میں اس کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس صدی میں کچھ ایسے مسلم مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کی۔یہ سیاسی فکر عرب اور نان عرب ، دونوں علاقوں میں تیزی سے پھیل گیا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system ) ہے۔ امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نظام کوساری دنیا میں قائم کریں۔اسلامی نظام کے سوا جو نظام دنیا میں رائج ہے، وہ طاغوتی نظام ہے۔امت مسلمہ کا نصب العین یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس طاغوتی نظام کی تمام صورتوں کا خاتمہ کریں، اوراس کی جگہ عملاساری دنیا میں اسلام کا نظام قائم کردیں۔
بیسویں صدی میںاس مقصد کے تحت عرب دنیا اور غیر عرب دنیا میں بڑی بڑی تحریکیں اٹھیں، ان تحریکوں نے پہلے لٹریچر کے ذریعے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔جب انھوں نے دیکھا کہ لٹریچر کے ذریعے غالب قوتوں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے تو انھوں نے الیکشن کے ذریعے ان قوتوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی ، مگر وہ الیکشن کے ذریعےبھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے غالب طاقتوںکے خلاف متشددانہ جنگ شروع کردی۔ مگر یہاں بھی ان کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔عظیم قربانیوں کے باوجود ان کے لئے یہ ممکن نہ ہوسکا کہ وہ غالب طاقتوں کو اقتدار سے ہٹائیں، اور اپنا سیاسی غلبہ قائم کرکے عالمی اسلامی حکومت کی طرف اپنا مارچ شروع کردیں۔
اس ناکامی کے بعد ان کے اندر ایک تیسرا مہلک دور شروع ہوا، جس کو عام طور پر خود کش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے، یعنی خود کو ہلاک کرکے اپنے مفروضہ دشمن کے زور کو توڑنا، اور اس کو ڈی اسٹیبلائز (de-stabilize) کرنا۔اسلام کے نام پر نظریاتی جنگ کا یہی وہ دور ہے جو اکیسویں صدی میں جاری ہے۔اس دور کی ایک مثال
یہاں یہ سوال ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ عملی ناکامی کے باوجود ختم کیوں نہیں ہوا، جیسا کہ دوسرے نظریات عملی طور پر ناممکن ثابت ہونے کے بعد ختم ہوگئے۔کیوں ایسا ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ عملا ناکام ہونے کے باجود بدستور جاری ہے۔اُس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والوں نے اپنی اس تعبیر کو عقیدہ کا مسئلہ بنا دیا۔ قدیم تاریخ میں جنگ ہمیشہ دنیاوی نشانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ ان کا دنیاوی نشانہ ناقابل حصول بن چکا ہے۔ جمہوریت (democracy)، اور اقوام متحدہ (UNO) نے عملا اس کو ناممکن بنا دیاکہ کوئی قوم دوسری قوم کے علاقہ (territory) پر مستقل قبضہ قائم کرسکے، تو اس کے بعد عملا سیاسی جنگ کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اسی طرح پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ نے ثابت کردیا کہ انسانوں کی طبقاتی تقسیم صرف ایک مفروضہ ہے، وہ کوئی قابلِ عمل نظریہ نہیں تو اس کے بعد کمیونزم کی عالمی تنظیم (کمیونسٹ انٹرنیشنل)ایک ناقابل عمل نظریہ کی حیثیت سے ختم ہوگیا، اور اسی کے ساتھ طبقاتی جنگ کا نظریہ بھی ۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا نظریہ پیش کرنے والوں کے نزدیک اسلام ایک مکمل نظام صرف اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ان کے نزدیک ایک متبادل سوشیو پولیٹیکل سسٹم ہے۔ بلکہ اسی کے اوپر اہل ایمان کی ابدی نجات کا انحصار ہے، یعنی ان کو کامیاب بنانے کے لئے یہی واحد نصب العین ہے۔ یعنی اگر وہ اسلام کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے قائم کرنے کی کوشش کریں تو ان کے لئے آخرت میں ابدی جنت ہے، اور اگر وہ ایسا نہ کریں توان کے لئے ابدی جہنم۔اسلام کی اس سیاسی تعبیر کے مطابق اہل ایمان کے لئے صرف دو میں سے ایک کا آپشن (option ) رہ گیا، یا تو اسلام کے عالمی نظام کو عملا قائم کر ڈالنا، یا اس نشانے کو حاصل کرنے کے لئے وہ غیر مختتم طور پر ٹکراؤ کو جاری رکھیں۔باعتبار عقیدہ ان دو کےسوا کوئی تیسرا آپشن ان کے لئے ممکن نہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کے مطابق یہ معاملہ جنگ ورسس آیڈیالوجی کا معاملہ ہے، وہ جنگ ورسس جنگ کا معاملہ نہیں۔ آپ جنگ کرکے ان کو ہلاک کرسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد جو لوگ بچیں گے، وہ بدستور اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کیوںکہ ان کے نزدیک اس مقدس جنگ میں ہلاک ہوناجنت میںفوری داخلہ (instant entry) کا معاملہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں ہلاکت کا معاملہ۔اپنے عقیدے کے اعتبار سے وہ سمجھتے ہیں کہ ہلاک کرنے والوں نے ان کو ہلاک نہیں کیا، بلکہ شہید کا درجہ دے کر ان کی منزل مقصود، جنت میں پہنچا دیا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن اسلام کا مستند ٹیکسٹ ہے۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا مقصد فرد کا ارتقا ہے، اور فرد کا ارتقا صرف امن کے حالات میں ممکن ہو تا ہے۔مثلاقرآن میں ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ(
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنے اندر امن پسند شخصیت کی تعمیر کرے۔ اسلام کے لئے امن صرف ایک مجرد تصور نہیں، بلکہ اس کے ساتھ عذاب اور ثواب کا قانون جڑا ہوا ہے۔ یعنی جو فرد اپنے اندر امن پسند شخصیت بنائے اس کے لئے آخرت میں ابدی ثواب، دارالسلام (یونس
اسلام کی یہ تعلیم امن پسندی کے ساتھ لزوم (compulsion) کا تصور شامل کر دیتی ہے۔ امن کے ساتھ سزا و جزا کے تصور کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امن کی خلاف ورزی پر لازمی سزا (inescapable punishment) ہے اور امن کا طریقہ اختیار کرنے پر لازمی انعام (guaranteed reward) ۔ ان دونوں انجام کا تعلق آخرت کی ابدی دنیا سے ہے، یعنی سزا بھی ابدی اور انعام بھی ابدی۔دنیا کےکسی قانونی نظام میں ابدیت کا یہ تصور شامل نہیں ہے، اس لئے دنیا کے کسی قانونی نظام میں امن پسندی کے لئے وہ طاقت ور محرک (strong incentive) موجودنہیں جو اسلام کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا لفظی مطلب ہے سرنڈر کرنا(to surrender)۔ یہ سرنڈر تمام تر سلف چائس (self choice) پر مبنی ہوتا ہے۔ یعنی ایک شخص کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر ذاتی فیصلہ کے تحت اسلام کو اپنا چائس بناتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کا مطلب ہے حقیقتِ واقعہ کو دریافت کرکے اس کو ماننا۔
Islam means the acceptance of reality.
قرآن میں بار بار اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں، یہ ہر آدمی کے ذاتی چائس کا معاملہ ہے۔ مثلا اس معاملہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَکْفُرْ(
حقیقتِ واقعہ کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنےذاتی مطالعہ اور آزادانہ غور و فکر کے ذریعہ اسلام کی آئڈیالوجی کو شعوری طور پر دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اس کے اندر ذہنی بھونچال پیدا کرتی ہے۔ پھر ایک حقیقت واقعہ کے طور پر وہ اس کا اعتراف کرتا ہے، اور اپنی زندگی کو اس حقیقت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ یہ سب کچھ اول سے آخر تک آزادانہ ذاتی فیصلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس پہلو سے یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اسلام اعترافِ حقیقت (acceptance of reality) کا نام ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں تشدد (violence) کا کوئی مقام نہیں۔ اسلام اور تشدد دونوں متضاد چیز یںہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس حقیقت کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام سر تا سر پیروی (following) کا مذہب ہے، نہ کہ نفاذ (implementation) کا مذہب۔ جو لوگ اسلام کے نام پر تشدد کرتے ہیں، وہ غلط طور پر پیروی کے لفظ کو نفاذ کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ مثلا قرآن میں کہا گیا کہ اے لوگو، تم توحید کے پیرو (follower) بنو۔ قرآن کی یہ بات لازم کے صیغہ ( intransitive verb) میں ہے۔ اور لازم کے صیغہ میں اس کو لینے کی صورت میں اس میں کسی اعتبار سے بھی تشدد کا کوئی پہلو شامل نہیں ہوتا۔ لیکن جب قرآن کی اس تعلیم کو لازم کے صیغہ میں لینے کے بجائے اس کو بدل کر متعدی کے صیغہ(transitive verb) میں لیا جائے تو قرآن کی یہ پر امن تعلیم عملا مبنی بر تشدد تعلیم بن جائے گی۔ یعنی اس کا مطلب یہ بن جائے گاکہ توحید کو طاقت کے زور پر نافذ کرو، لوگوں سے لڑ کر ان کو موحد بناؤ۔
امن (peace) اور تشدد (violence) دونوں کی حیثیت نظریہ کی نہیں ہے، بلکہ طریقہ (method) کی ہے۔امن بھی ایک طریقہ ہے اور تشدد بھی ایک طریقہ۔ یہ دراصل نشانہ (target) ہے، جو کسی آئیڈیالوجی کو پرامن آیڈیالوجی یا پر تشدد آیڈیالوجی بناتا ہے۔اگر آپ کا نشانہ یہ ہو کہ لوگ ایک دوسرے سے محبت کریں تو آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے امن کا طریقہ اختیار کریں گے۔ کیوں کہ محبت صرف پر امن نصیحت کے ذریعہ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کا نشانہ سیاسی اقتدار (political rule) قائم کرنا ہے تو آپ تشدد کا طریقہ اختیار کریں گے۔ کیوں کہ لوگوں کے اوپر سیاسی اقتدار صرف طاقت کے ذریعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
خبرنامہ الرسالہ مشن کی دعوتی سرگرمیوں کا ریکارڈ ہے۔ اس لیے مشن کے تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے تاثرات یا اہم دعوتی سرگرمیوں کا ریکارڈ ضروری تفصیل کے ساتھ روانہ فرمائیں، مثلاً تاریخ، مقام، اہم شخصیت کے ساتھ انٹریکشن کی صورت میں اس کا مکمل نام اور تعارف، دعوتی کام کی نوعیت کی وضاحت، کسی ادارے میں پروگرام کی صورت میں ادارے کا نام اور پروگرام کا موضوع،وغیر ہ، تاکہ اس کو خبرنامہ کے تحت شامل کیا جاسکے۔تفصیلات بذریعہ ای میل یا واٹس ایپ پر روانہ فرمائیں:
[email protected], Whatsapp. +91-9999944119
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول 10 ھ کو مدینہ میں ہوئی۔ وفات سے چند مہینہ پہلے 9 ھ میں آپ نے حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر آپ نے امت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا تھا:ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما:کتاب اللہ وسنة نبیہ (موطا امام مالک، حدیث نمبر1874) ۔یعنی میں نے تمھارے درمیان دو امر چھوڑے ہیں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہوگے، اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت۔ملا علی قاری نے امر کا مطلب بتایا ہے حَکَم (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، بیروت، 2002،1/269)۔ یعنی فیصلہ کرنے والا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امر سے مراد معیار (criterion) ہے۔ بعد کے زمانے میں جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود موجود نہ ہوں گے، اس وقت امت کو یہ کرنا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے تو وہ قرآن اور سنت میں اس مسئلے کا جواب تلاش کرے، اور جو جواب قرآن و سنت میں ملے ، اس کو کسی عذر کے بغیر قبول کرلے۔
مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب کوئی گروہ ان کو اپنا دشمن نظر آئے تو فواً اس کے خلاف لڑنا شروع کردے۔ بلکہ انھیں اس کا جواب قرآن و سنت میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں قرآن میں اس کی واضح رہنمائی ملے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت کا ترجمہ یہ ہے: بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (
اس آیت کے مطابق، کوئی گروہ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پیدائشی طور پر ہر گروہ مسلمانوں کے لیے امکانی دوست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں مسلمانوں کی منصوبہ بندی یہ ہونا چاہیے کہ وہ بالقوۃ (potential) دوست کو بالفعل (actual) دوست بنائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک بار میں امریکا کے سفر پر تھا۔ وہاں مجھے سینٹ پال چرچ کے ایک پروگرام میں انوائٹ کیا گیا۔ میں نے اسلام اور امن کے موضوع پر تقریر کی۔ تقریر کے خاتمہ پر ایک مسیحی اسکالر نے سوال کیا کہ مسیحیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت کرو:
Love your enemy (Matthew 5:44)
انھوں نے کہا کہ آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت بتا سکتے ہیں، جس میں اسی قسم کی مثبت تعلیم دی گئی ہو۔ میں نے کہا کہ ہاں ایسی آیت موجود ہے۔ پھر میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ۔ (
میں نے کہا کہ دشمن سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان سے محبت کرو، خواہ بظاہر وہ تم کو اپنا دشمن نظر آتا ہو۔قرآن میں مزید یہ اضافہ ہے کہ دشمن سے اگر تم برا سلوک کرو تو اس کا نتیجہ منفی ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اس کے برعکس، اگر تم اپنے دشمن سے اچھا سلوک کرو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن کا ضمیر بیدا ر ہوگا، وہ تمھارے ساتھ اپنے تعلق کو درست کر لےگا۔مزید یہ کہ اگر دشمن کے رویہ کے بنا پر تمھارے اندر منفی ردعمل پیدا ہوتو اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھو، اور اپنے آپ کو ہر حال میں یک طرفہ حسنِ سلوک کے اصول پر قائم رکھو۔
یہی اسلام کی اصل تعلیم ہے۔اسلام میں اجتماعی تعلق کو صبر کے اصول پر قائم کیا گیا ہے۔ صبر کا مطلب ہے،یک طرفہ حسنِ سلوک۔ یعنی فریقِ ثانی کی طرف سے اگر برا سلوک کیا جائے تب بھی یک طرفہ طور پر اس کے ساتھ اچھے سلوک کا معاملہ کرنا۔
اس تعلیم کے مطابق اسلام میںتشدد کے لئے کوئی عذر، معقول عذر نہیں۔اسلام کی تعلیم کے مطابق اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ ہر حال میں دوسروں کے ساتھ پر امن روش اختیار کرے۔وہ کسی بھی چیز کو عذر بنا کر تشدد کا رویہ اختیار نہ کرے۔اسلام کے مطابق تشدد کی شریعت شیطان کی شریعت ہے،تشدد کی شریعت اسلام کی شریعت نہیں۔اس دنیا میں انسان کو آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر ہر انسان بشمول مسلم کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ نزاع کے موقع پرامن کا طریقہ چھوڑ کر تشدد کا طریقہ اختیار کرے، لیکن خدا کے قانون کے مطابق اس کا ایسا کرنا اپنی آزادی کا غلط استعمال ہوگا،اور آزادی کا غلط استعمال اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں۔ خواہ آزادی کا یہ غلط استعمال مسلم نے کیا ہو یا غیر مسلم نے۔تشدد کا ہر طریقہ اللہ کی دی ہوئی آزادی کا غلط استعمال ہے۔ اجتماعی معاملات میں کسی انسان کے لئے صرف ایک آپشن (option) ہے، اور وہ امن کا آپشن ہے۔اسلام کے مطابق تشدد کوئی آپشن ہی نہیں۔
محبت کا معاملہ صرف اخلاق کا معاملہ نہیں۔ محبت کا تعلق براہِ راست خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے ہے۔ انسان کے بارے میں اس کے خالق کا جو منصوبہ ہے، وہ صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے، جب کہ انسانوں کے درمیان نارمل تعلق قائم ہوں۔ نارمل تعلق کے ماحول میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ہر انسان فطرت کی سطح پر اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکے۔کسی انسان کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ کہہ سکے کہ فلاں عذر کی بنا پر اس کواپنی شخصیت کی تعمیر کا موقع نہیں ملا۔تشدد لوگوں کو عذر کا موقع دیتا ہے۔اس کے برعکس، امن کا ماحول لوگوں کے لئے یہ امکان ختم کردیتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے مواخذہ کے وقت کوئی عذر پیش کر سکے۔
ذمہ دار کون (Who is to blame?)
موجودہ زمانے میں مسلمان تشدد (terrorism) کے جن واقعات میں ملوث ہیں، ان کے بارے میں ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات تو رد عمل (reaction) کے طور پر ہو رہے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف جو نا انصافی کی جارہی ہےاس کا فطری نتیجہ ہے کہ مسلمان کے اندر ردعمل کی نفسیات پیدا ہو۔ اور یہ ردعمل بڑھتے بڑھتے تشدد ، حتی کہ خود کش بمباری تک پہنچ جائے۔ مثلا فلسطین میں اسرائیل عربوں پر ظلم کر رہا ہے، ایسی حالت میںعربوں کے اندر اس کا ردعمل پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔
یہ دلیل سر تا سر غیر اسلامی ہے۔اسلام میں رد عمل (reaction) کا کوئی تصور موجود نہیں۔اس طرح کے نزاعی معاملات میں اسلام کی تعلیمات صبر کے اصول پر قائم ہیں۔قرآن کے بالکل شروع میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس میں پیغمبر کو یہ حکم دیا گیا : وَلِرَبِّکَ فَاصْبرِ (
صبر کوئی بے عملی کی تعلیم نہیں۔ صبر کا مطلب ہےاللہ کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت کرنا۔اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔اس آزادی میں واضح طور پر آزادی کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔جس چیز کو ایک فریق ظلم کہتا ہے، وہ دوسرے فریق کے لئے اپنی خداد اد آزادی کا غلط استعمال ہے۔ ایسی حالت میں ظلم کے خلاف شکایت یا احتجاج کرناانسان کے خلاف شکایت یا احتجاج نہیں ہے، بلکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔اور جب معاملہ خدا کے تخلیقی منصوبے کا ہو تو انسان کے لئے اس کے خلاف پروٹیسٹ کا آپشن نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں انسان کے لئے ایک ہی آپشن ہے، اور وہ ہےمبنی بر صبر پلاننگ۔یعنی ری ایکشن کے بغیر پر امن طور پر حالات کو مینیج (manage)کرنا، تشدد کے بغیر پر امن انداز میں معاملے کا حل تلاش کرنا۔
آخرت وہ دنیا ہے جہاں صرف امر حق میں قیمت ہو، امر غیر حق جہاں بے قیمت ہوکر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا رول ماڈل عملی اعتبار سے توسع کے اصول پر مبنی ہے، نہ کہ توحد کے اصول پر۔ یعنی اسلام کے رول ماڈل کے دو پہلو ہیں۔ ایک، فرد کے اعتبار سے، اور دوسرا، مجتمع (society) کے اعتبار سے۔اسلام کے رول ماڈل کو فکری اعتبار سے سمجھنے کے لئے، یہ اصول بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس اصول کو سامنے رکھ کر اسلام کے رول ماڈل کو متعین کیا جائے تو اس کا تعین نہایت آسان ہوگا۔اس کے برعکس، اس اصول کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو اسلام کے رول ماڈل کو سمجھنا آخری حد تک مشکل بن جاتا ہے۔ اسلام کا رول ماڈل فرد کی نسبت سے ذاتی اختیار (individual choice) پرمبنی ہے۔ اس کے مقابلے میں اجتماعی اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل اجتماعی اختیار (social choice) پر مبنی ہے۔ اسلا م کے رول ماڈل کے بارے میں یہ تفریق بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔
فرد کے اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل یہ ہے کہ ہر فرد مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعہ اسلام کے آئڈیل کو دریافت کرے، اور اپنی ذات کو اس آئڈیل کے مطابق بنائے۔ مثلا عقیدہ کے بارے میں کامل توحید، رسالت کے بارے میں پیغمبر ِ اسلام کو خاتم النبیین سمجھنا، وغیرہ۔ کسی فرد کا واحد نشانہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ فرد کے بارے میں اسلام کی بتائی ہوئی تعلیمات کو اپنی ذاتی زندگی کے لئے واحد معیار سمجھے ، اور اپنے آپ کو ذاتی اعتبار سے کامل طور پر اس معیار کے مطابق بنانے کی کوشش کرے۔
اسلام کے رول ماڈل کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اجتماعی زندگی (social life) سے تعلق رکھتا ہے۔ سوشل لائف کے بارے میں اسلام کا رول ماڈل کسی واحد فارم پر مبنی نہیں ہے، بلکہ وہ پریکٹیکل وزڈم (practical wisdom) پر مبنی ہے، یعنی کسی وقت خاص میں جو اجتماعی ماڈل عمومی طور پر لوگوں کے لئے قابلِ قبول (acceptable)ہو، اس پر اجتماعی نظام کی تشکیل کرنا۔ گویا اسلام کی تعلیم کے مطابق فرد کے لئے نظریاتی اعتبار سے ایک غیر متغیر معیاری ماڈل ہے۔ اس کے برعکس، اجتماعی زندگی کے لئےاس طرح کا واحد غیر متغیر ماڈل نہیں۔ فرد کے معاملے میں اسلام کا رول ماڈل معیار پر مبنی ہے، اور اجتماعی زندگی کے اعتبار سے اسلام کا رول ماڈل معاشرے کے وسع (acceptability) پر مبنی ہے۔ اسلام کے رول ماڈل کے بارے میں اس دوگونہ اصول کو ماننے کے بعد ہر قسم کے ٹکڑاؤ کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ کسی شخص کو اپنی ذات کے معاملے میں کامل اختیار حاصل ہے۔ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں، بلانزاع ، اپنے اختیار کردہ ماڈل کو اختیار کرسکتا ہے۔
ٹکڑاؤ اور تشدد کی تمام صورتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں، جب کہ اجتماعی زندگی میں توسع کے بجائے توحد کے اصول کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیوں کہ فطرت کے نظام کے مطابق ہر انسان کو کامل آزادی حاصل ہے۔ جب ایسا کیا جائے کہ اجتماعی زندگی کے لئےہر حال میں ایک ناقابل تغیر ماڈل کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے تو لازمی طور پر ایک گروہ کا دوسرے گروہ سے ٹکڑاؤ پیدا ہوجائے گا۔مثلا حاکم (ruler) اور غیر حاکم (ruled) کے درمیان۔ اجتماعی زندگی کے بارے میں اس اصول کو قرآن میںأَمْرُہُمْ شُورَى بَیْنَہُمْ (
فرد کے معاملے میں معیار پسندی اور اجتماعی زندگی کے معاملے میں جمہوریت کا طریقہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ اس طریقہ کو غلط طورپر ویٹیکنائزیشن (Vaticanization)یا مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ طریقہ مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت کے اعتراف (acceptance of reality) کا طریقہ ہے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے انسانی سماج میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔اس کے مقابلے میں دوسرا طریقہ عملا ناقابلِ عمل طریقہ ہے۔ کیوں کہ مذہب اور سیاست کو ایک کرنے کے نام پر سماج میں ابدی ٹکڑاؤ کا ماحول قائم کرنے کے مترادف ہے۔ ایک ایسا ٹکڑاؤ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ویٹیکنزم اپنی حقیقت کے اعتبار سے ناممکن کے مقابلے میں ممکن کا آپشن لینے کا نام ہے، نہ کہ مذہب اور سیاست کی علاحدگی کا نام۔
مشن کی حیثیت سے اسلام کا نشانہ فرد ہے ، نہ کہ سسٹم۔ایک لفظ میں اسلامی مشن کا نشانہ فرد کا اسلامائزیشن ہے، سسٹم کو اسلامائز کرنا اسلام کا نشانہ نہیں۔زندگی کے بارے میں اسلام کی اسکیم (scheme of things) یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی شخصیت کا ارتقا کر کے اپنے آپ کو جنتی انسان بنائے۔اسی نشانے کی بنا پر اسلام میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ سماج کو شوریٰ کے اصول پر مبنی قرار دیا گیا، یعنی سماجی حقائق (social realities) کی بنیاد پر ۔
سماج میں فطرت کے اصول کے مطابق ہمیشہ مفادات کا ٹکڑاؤ پایا جاتا ہے، سماج میں اگر ایسا ہو کہ ایک گروہ اپنے سسٹم کو معیار کی حیثیت دے کر اسی کی بنیاد پر پورے سماج کی تشکیل کرنا چاہے تو لازما مختلف گروہوں کے درمیان ٹکڑاؤ پیش آئے گا۔ یہ ٹکڑاؤ بڑھ کر نفرت اور تشدد کی صورت اختیار کر لے گی، اور پھر یہ ٹکڑاؤ کبھی ختم نہ ہوگا۔سسٹم کو کسی وحدانی اصول پر قائم کیا جائے توسماج میں کبھی امن قائم ہونے والا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے نشانے کے مطابق جنتی شخصیت کی تعمیر صرف امن کے حالات میں بنتی ہے، نفرت اور تشدد کے حالات میں نہیں۔
اس بنا پر اجتماعی سسٹم کے معاملے میں اسلام نے پریکٹیکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول کو اختیار کیا ہے۔ یعنی ایسی پالیسی اختیار کرنا ، جو سماجی امن کی یقینی ضمانت ہو۔اس قسم کی یقینی ضمانت صرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ سماج کے معاملہ میں ایڈجسٹمنٹ کا اصول اختیار کیا جائے۔اسلام کی ابتدائی تاریخ میں حدیبیہ اگریمنٹ اسی قسم کے ایڈجسٹمنٹ کی ایک مثال ہے۔ اس وقت پیغمبر ِ اسلام نے یک طرفہ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر فریقِ ثانی سے امن کا معاہدہ کر لیا، اور پھر اس کے بعدفطری طورپرسماج میں وہ معتدل ماحول قائم ہوگیا، جس کے اندر اسلام کا اصل مشن (Islamization of the individual) کا عمل (process) کامیابی کے ساتھ جاری رکھا جاسکے۔
اس معاملے کو سمجھنا اس وقت زیادہ آسان ہوجا تا ہے جب کہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے کہ اسلام کا مشن پر امن دعوت کا مشن ہے،اسلام کا مشن کسی پولیٹیکل سسٹم کو نافذ کرنے کا مشن نہیں۔ اسلام کا دعوتی مشن صرف اس وقت کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے، جب کہ سماج میں اعتدال کا ماحول ہو۔ اور اعتدال کا ماحول قائم کرنے کی واحد صورت صرف یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے معاملے میں فرق کیا جائے۔ فرد کے معاملہ میں آئڈیل کا اصول اختیار کیا جائے، اور سوشیو-پولیٹیکل سسٹم (socio-political system) کے معاملہ میں جمہوریت کا اصول۔
حقیقت، نہ کہ ظواہر
کعبہ کے اوپر غلاف اوڑھانے کا رواج قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کعبہ کے اوپرپہلا غلاف خود حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اوڑھایا تھا۔ اگر چہ یہ بات تاریخی معیار پر ثابت شدہ نہیں۔
قریش اپنے دور میں کعبہ کو غلاف اوڑھاتے رہے۔ فتح مکہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا موقع نہیں تھا۔ بعد کو جب مکہ فتح ہوا، اس وقت رسول صلی اللہ علیہ کے لیے موقع تھا کہ آپ کعبہ پر نیا غلاف ڈالیں۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔فتح مکہ کے بعد بھی آپ نے اسی غلاف کو باقی رکھا جو قریش (بالفاظ دیگر مشرکین)نے کعبہ کو اوڑھایا تھا۔
اس کے بعد ایسا ہوا کہ ایک عرب خاتون کعبہ کوخوشبو دینے کے لیے کسی خوشبودار چیز کی دھونی دے رہی تھی۔ اس دھونی دینے کے عمل کے دوران کعبہ کے غلاف کو آگ لگ گئی اور وہ جل گیا۔ اس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی کپڑے کا ایک غلاف اس کے اوپر اوڑھایا۔ آپ کے بعد خلفاء کے درمیان اس کی سنت جاری رہی۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اسلام میں حقیقت کی اہمیت ہے، نہ کہ ظواہر کی۔(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ترکتُ فیکم أمرینِ لن تضلّوا ما تَمَسّکتم بہما (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر1874 )۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے۔اس حدیث میں تمسک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تمسک کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑنا (holding fast)۔ یہی امت کے افراد کی اصل ذمے داری ہے۔امت محمدی کے ہر فرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ دین کو دریافت کرے،وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے اپنی معرفت کی تکمیل کرے، اور اس طرح اپنے آپ کو پوری طرح دین کا پیرو بنالے۔امت کے افراد جب تک تمسک بالکتاب والسنہ کے اس اصول کو پکڑے رہیں گے، وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔
اس کے برعکس جب ایسا ہو کہ امت اس تعلیم کو لازم کے صیغہ ( intransitive verb) میں لینے کے بجائے متعدی کے صیغہ ( transitive verb) میں لینے لگے، یعنی متمسک بنو کے بجائے متمسک بناؤ۔ تو اس کے بعد ضلالت کا آغاز ہو جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دین کی پیروی اختیار کرو کا نظریہ لوگوں کو ہدایت پر قائم کرتا ہے، اور دین کی تنفیذ کرو کا نظریہ لوگوں کو ضلالت کے راستے میں ڈال دیتا ہے۔موجودہ زمانے میں امت کے اندر جو تشدد پیدا ہوا اس کا سبب یہی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ ایسے مسلم رہنما اٹھے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) پیش کی ۔ انھوں نے قرآن و سنت کی خود ساختہ تشریح کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے۔ اور امت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کو مکمل اعتبار سے زمین پر نافذ کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جو دین مبنی بر فرد دین تھا، اس کو مبنی بر نظام (system-based) بنادیا۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی۔ جب بھی آپ دین کو پیروی کے بجائے تنفیذ کا موضوع بنائیں گے تو فوراً تشدد شروع ہوجائے گا۔کیوں کہ یہاں پہلے سے کچھ لوگ ہوں گے جو تنفیذ کے اداروں پر قابض ہوں گے۔ اب آپ کا ذہن یہ کہے گا کہ مجھے ان قابض افراد کو ہٹانا ہے، ان کو قوتِ نافذہ کے مقام سے ہٹائے بغیر میں اپنی پسند کا نظام نافذ نہیں کرسکتا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے لئے دنیا اپنے اور غیر (we and they) میں تقسیم ہوگئی۔اس طرح امت کے اندر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے کا مزاج پیدا ہوا۔وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اس طرح اسلام کی سیاسی تعبیر ابتداءاً ایک نظریے کی حیثیت رکھتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے وہ عملاًایک متشددانہ نظریہ بن گئی۔اس کے نتیجے میں مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہوگئی۔ اور جب جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو امت کے اندر نفرت کا ایک پورا جنگل اُگ آیا۔فطری طور پر وہ اپنی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو شکست دینے کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہوگئے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔ اسی نفرت کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو خود کش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔ خودکش بمباری بلاشبہ ایک حرام فعل ہے، لیکن لوگوں نے اس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دے کر جائز کرلیا۔قرآن و سنت کے مطابق جو فعل جہنم میں لے جانے والا تھا، اس کو خودساختہ طور پر یہ حیثیت دے دی کہ وہ ان کو سیدھا جنت میں لے جانے والا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم تشدد (Muslim militancy) پیدا ہوا، وہ اسی سیاسی تعبیر دین کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ موجودہ مسلم تشدد کو جوابی تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کو ختم کرنے کے لئے جوابی آیڈیالوجی درکار ہے۔جوابی تشدد ان کو صرف ہلاک کر سکتا ہے، مگر اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ شہید ہوکر جنت میں جارہے ہیں۔ یعنی پرتشدد کارروائی کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے خاتمے کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طاقت ور دلیل کے ذریعے بتایا جائے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر ایک باطل تعبیر ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ مسلم تشدد کو ختم کرنے کے لئے ایک نظریاتی مہم درکار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کا خاتمہ کرنے والی نہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دورِ آخر میں امت کے اندر ایک بے حد خطرناک فتنہ پیدا ہوگا، یہ ایک دجالیت کا فتنہ ہوگا۔دجالیت سے مراد یہی پرفریب تعبیرِ دین ہے۔ اس نظریے کو دجالی فتنہ اس لئے کہا گیا کہ اس باطل نظریے کو ایسے خوشنما الفاظ میں پیش کیا جائے گا کہ لوگ اس کو باطل سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجالیت سے مراد دجالی نظریہ ہے۔ وہ دجالی نظریہ یہ ہے کہ اسلام کو مکمل نظام کا خوبصورت نام دے کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالاجائے، اور اس طرح لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ اسلام ذاتی پیروی کا دین نہیں ہے بلکہ وہ انقلابی دین ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کو زمین پر مکمل معنوں میں نافذ کیا جائے۔
اس طرح اسلام معرفت کا دین نہ رہا بلکہ وہ جنگ کا دین بن گیا۔یہی دجالیت موجودہ زمانے میں مسلم تشدد کا اصل سبب ہے۔ اس تشدد کو صرف اس وقت ختم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ لوگوں کو دلیل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مکمل نظام کا نظریہ ایک پرفریب دجالی نظریہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس دجالی نظریے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوا کہ امت سے دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ اصل دینی تصور کے مطابق امت مسلمہ داعی ہے اور دوسری قومیں مدعو ۔ اب داعی اور مدعو کے بجائے حریف اور دشمن کی نسبت قائم ہو گئی۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ امت کا اصل مشن دعوت الی اللہ عملاً حذف ہوگیا۔ کیوں کہ دعوت کے لئے نصح (خیرخواہی) کا ذہن درکار ہے۔ دشمنی اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المدثر اسلام کے ابتدائی زمانے میں اتری۔ اس میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے انذار کا حکم دیا گیا۔انذار سے مراد وہی چیز ہے، جس کو دعوت الی اللہ کہا جاتا ہے۔ اس حکم کے ساتھ اس کا طریقہ (method) بھی بتادیا گیا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ رُجز کے معاملے کو نظر انداز کرتے ہوئے دعوت کا کام کرو(دیکھیے سورہ المدثر، آیات
رُجز کے لفظی معنی گندگی کے ہیں۔ قرآن میں دوسرے مقام پر اس مفہوم کے لئے رِجس (
اس کی وضاحت پیغمبر کی عملی تاریخ سے ہوتی ہے۔ پیغمبر نے عرب میں دعوت الی اللہ کا کام کیا۔ اس وقت وہاں مختلف قسم کی برائیاں موجود تھیں۔ مثلا کعبہ میں 360 بتوں کی موجودگی، مکہ کے لوگوں کا شراب پینا، وغیرہ۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برائیوں کو جانا ، مگر اُن سےعملی ٹکڑاؤ نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے یہ کیا کہ وقت کی برائیوں سے ٹکڑاؤ نہ کرتے ہوئے، پر امن انداز میں اپنا دعوتی مشن جاری کیا۔ پیغمبرِ اسلام کا عملی نمونہ قرآن کی آیت کی تفسیر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ — قوم کی عملی برائیوں سے اعراض کرو، اور مثبت ذہن کے ساتھ پرامن دعوت کا کام کرو۔
سورہ المدثر کی یہ آیت اسلامی مشن کا ایک اہم اصول بتاتی ہے۔وہ یہ کہ اسلامی مشن کا طریقِ کار کیا ہونا چاہئے۔یہ طریقِ کار اس اصول پر مبنی ہے کہ وقت کی عملی برائیوں سے اعراض کرنا ، اور اسلام کی آئڈیالوجی کی پرامن اندازمیں اشاعت کرنا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس کو اختیار کرنے کے بعد اہل ایمان کو اللہ کی نصرت ملتی ہے۔ اگر اس اصول کو اختیار نہ کیا جائے تو ایسے لوگوں کو کبھی اللہ کی نصرت ملنے والی نہیں۔
موجودہ زمانے میں اس اصول کے انطباق (application) کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے، جتنا کہ اس کی اہمیت اسلام کے دورِ اول میں تھی۔ اصل یہ ہےکہ انسان کو خالق نے مکمل آزادی دی ہے۔ اس آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر ہر زمانے میں سماجی اور سیاسی برائیاں لازماً موجود رہتی ہیں۔سماجی اور سیاسی برائیوں سے پاک ماحول اس دنیا میں کبھی ممکن نہیں۔ایسی حالت میں داعی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ سماجی اور سیاسی برائیوں سے اعراض کرتے ہوئے ، مواقع کو دریافت کرنا، اور ان مواقع کا استعمال کرتے ہوئے، پر امن طور پر دعوتی مشن جاری کرنا۔
مثلاً انڈیا میںاکثریتی فرقہ ایسی کارروائیاں کرتا ہے، جس پر یہاں کے مسلمان برہم ہوتے ہیں، اور ٹکڑاؤ کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ سرتاسر غلط ہے۔ پیغمبر کی سنت کے مطابق صحیح طریقہ یہ ہے کہ اکثریتی فرقہ کی ناموافق باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں پرامن دعوت کا کام کیا جائے۔انڈیا کے مسلمان اس پیغمبرانہ سنت کو اختیار نہ کرسکے۔ اس لئے یہاں کے مسلمانوں کا مزاج منفی ہوگیا، اور اس کی قیمت یہ دینی پڑی کہ مسلمان اس ملک میں دعوت الی اللہ کا مطلوب فریضہ انجام دینے سے محروم رہے۔
اسی طرح اُس دنیا کا معاملہ ہے، جس کو سیکولر دنیا کہا جاتا ہے۔سیکولر لوگ فریڈم آف اکسپریشن (freedom of expression) میں یقین رکھتے ہیں۔ اس بنا پر وہ ہر معاملے میں آزادانہ طور پر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔یہ آزادانہ اظہارِ رائے کبھی پیغمبرِ اسلام کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ مسلمان اس پر مشتعل ہوجاتے ہیں، اور اس کو شتم ِرسول (blasphemy)کا نام دے کر اس کے خلاف لڑنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی اس روش کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ ان کےاور سیکولر طبقے کے درمیان معتدل تعلق قائم نہیں ہوتا۔ اس بنا پر مسلمان، سیکولر لوگوں کے درمیان وہ کام نہیں کر پاتے، جو ان کے اوپر فرض کے درجے میں ضروری ہے۔ یعنی دعوت الی اللہ۔
یہی معاملہ مغربی قوموں کا ہے۔ مغربی قوموں میں جو کلچر رائج ہوا ہے، وہ مسلمانوں کو اسلامی اقدار کے خلاف نظر آتا ہے۔ اس بنا پر مسلمان مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ نفرت ان کو مثبت سوچ (positive thinking) سے محروم کردیتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمان اور مغربی قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا معتدل رشتہ قائم نہیں ہوتا۔ اس بناپر یہ ہوتا ہے کہ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلے میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یہی معاملہ امریکا کا ہے۔ہر قوم کی طرح امریکا کے اپنے قومی مفادات ہیں۔امریکا اپنے قومی مفاد کے تحت اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔اس واقعے کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ امریکا کو عدو الاسلام رقم واحد کہتے ہیں۔ یعنی امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک (enemy number one) ہے۔ اس منفی ذہن کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمان امریکا کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیے ہوئے ہیں۔وہ امریکا سے معتدل تعلق قائم نہ کرسکے۔اس کا یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے کہ وہ امریکا کو ایک مدعو ملک کا درجہ نہیں دے سکے۔وہ امریکا کے اوپر اپنے دعوتی فریضے کو انجام دینے سے محروم رہے۔
سورہ المدثر میں جس پیغمبرانہ اصول کو بتایا گیا، وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایک نامعلوم اصول بنا ہوا ہے۔مسلم علماء اور مسلم رہنما کبھی اس اصول کو دریافت نہ کرسکے کہ اسلام کے مشن کے لئے ضروری ہے کہ رُجز کو اوائڈ کرتے ہوئے، پرامن انداز میں اسلامی مشن کو جاری کیا جائے۔اس اصول سے بے خبری کی بنا پر مسلمان یہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی رُجز کو دیکھ کر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جس کا آخری نتیجہ تشدد اور ٹکڑاؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پیغمبرانہ سنت کے مطابق یہ ایک بےحد سنگین غلطی ہے۔ اس کے نقصانات اتنے زیادہ ہیںکہ جن کی کوئی گنتی نہیں۔ اس انحراف میں دنیا کی بھی تباہی ہے، اور آخرت کی بھی ۔
رُجز کا ظاہرہ، دراصل آزادی کے غلط استعمال کا ظاہرہ ہے۔ انسان کو یہ آزادی خود خالق نے دی ہے۔ اس آزادی کے غلط استعمال پر خالق آخرت میںیقیناً ان کی گرفت کرے گا،لیکن کسی اور کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادی کے غلط استعمال کے حوالے سے لوگوں کے اوپرداروغہ بن جائے۔ایسا کرنا خدا کے دائرہ (domain) میں داخل ہونا ہے۔ اور کسی مخلوق کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ خدا کے دائرہ میں داخل ہوجائے۔ ایسا کرنا خود اپنے آپ کو مجرم کے مقام پر کھڑا کرنا ہے۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ناکامی ہے، اور آخرت میں شدید مواخذے کا اندیشہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اہل ایمان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ گفتگو میں جدال احسن کا طریقہ اختیار کریں(النحل،
مخاصمانہ مناظرہ (aggressive debate) کیسے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ایک معلوم تاریخی سبب ہے۔ مخاصمانہ مناظرہ دراصل ایک دعوتی امکان کے غلط استعمال سے پیداہوتا ہے۔ اس دعوتی امکان کو اگر قرآن کی تعلیم کے مطابق نصح (خیرخواہی) کےانداز میں استعمال کیاجائے تو پر امن دعوہ ورک وجود میں آتا ہے۔ اور اگر اس امکان کا غلط استعمال کیا جائے تو اس سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو مخاصمانہ مناظرہ (aggressive debate) کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ خاتم النبیین سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مختلف پیغمبر بھیجے۔ مثلا حضرت عیسی اور حضرت موسی، وغیرہ۔ ان پیغمبروں کے اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل کی تاکہ وہ انسانوں کے لیے ان کی دنیا کی زندگی میں رہنما کتاب (guide book) بنے۔ مگر قدیم زمانہ میں پرنٹنگ پریس نہ ہونے کی بنا پر یہ خدائی کتابیں اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہیں، ان کے متن (text) میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہوگئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی زمین پر کوئی ایسی کتاب باقی نہ رہی جس کے ذریعہ انسان اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، اور یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God)کے مطابق انسان کا مقصد حیات (purpose of life) کیا ہے۔ اس وقت اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا آخری رسول (the Final Prophet) دنیا میں بھیجے۔ اور اس کے اوپر ساتویں صدی کے ربع اول میں اپنی وہ کتاب اتارے جس کو آج ہم قرآن کےنام سے جانتے ہیں۔
قرآن کے بعد چوں کہ کوئی اور پیغمبر آنے والا نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی اہتمام کیا کہ قرآن کامل طور پر محفوظ کتاب کی حیثیت سے باقی رہے، قرآن کے متن (text)میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی ہرگز ہونے نہ پائے۔ اس مقصد کے لیے ابتدائی زمانہ ، صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے اہل ایمان نے اس معاملہ میں مکمل کوششیں کیں۔
انھوں نے قرآن کو ایک طرف مکمل طور پر یاد کرکےاپنے ذہن میں محفوظ کرلیا، اور روزانہ تلاوت کی صورت میں اس کو اپنے ذہن میں پختہ کرتے رہے۔ دوسری طرف ایسے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جنھوں نے کتابت کے فن کو سیکھا، اور قدیم زمانہ کے کاغذ پر لکھ کر قرآن کی کتابت شدہ جلدیں (copies) تیار کیں، اور ان کو بڑے پیمانے پر اس وقت کی دنیا میں پھیلادیا۔ یہ گویا حفاظت قرآن کا یک دہرا انتظام (double system of preservation) تھا، جو قرآن کی کامل حفاظت کا ضامن تھا۔
ساتویں صدی سے لے کر
قرآن کی صورت میں خدا کے ہدایت نامہ کا ایک محفوظ ورزن (version) وجود میں آنے کے بعد عملاً مذہبی دنیا میں یہ صورت حال ہوگئی کہ ایک طرف محفوظ قرآن تھا، اور دوسری طرف غیر محفوظ بائبل(اور دوسری مذہبی کتابیں)۔ قرآن میں کوئی ایک بھی غلطی موجود نہ تھی۔ جب کہ بائبل میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف قسم کی غلطیاں موجود تھیں۔ اس تقابل (comparison)کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف قرآن تھا۔ جس کا کیس حفاظت کی بنا پر ایک طاقت ور (strong) کیس تھا۔ اور دوسری طرف بائبل تھی، جس کا کیس عدم حفاظت کی بنا پر ایک کمزور (weak) کیس تھا۔ قرآن میںکسی قسم کی غلطی نکالنا انسان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ دوسری طرف بائبل کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی شخص جو بائبل کو پڑھے، تو وہ اس کے متن (text ) کے اندر بآسانی طرح طرح کی غلطیوں کی نشاندہی کرسکتا تھا۔ دونوں کتابوں میں فرق کی یہی صورت حال ہے، جس نے بعد کے زمانہ میں مذہبی دنیا میں ایک نیا ظاہرہ پیدا کیا، جس کو مناظرہ (debate) کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ نے مسلم دنیا میں کچھ لوگوں کو یہ موقع دیا کہ وہ بائبل کا مطالعہ کرکے بائبل کی غلطیاں نکالیں اور اس کا تقابل قرآن سے کرکے اسٹیج پر لفظی پہلوانی کا کرتب دکھائیں، اور عوام میں سستی شہرت (cheap popularity)حاصل کریں۔
مناظرہ بازی کلچر (debate culture) ابتداءاً 8 ویں صدی میں شروع ہوا۔ انیسویں صدی کے حالات میں اس کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہوا۔اس زمانے میں انڈیا میں محمد رحمت اللہ کیرانوی (1818-1891)پیدا ہوئے۔ انھوں نے عیسائیوں سےمناظرہ کے موضوع پر اظہارالحق نامی کتاب لکھی ۔ یہ کتاب اس موضوع پربہت مشہور ہوئی۔ اس کے بعد مذہبی آزادی اور میڈیا کا زمانہ آیا تو مناظرہ بازی کلچر اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔ اب ایسے مناظر (debater) پیدا ہوئے جو جدید کمیونی کیشن کی مدد سے ساری دنیا میں دیکھے اور سنے جانے لگے۔
خاتم النبیین کے بعد ایک نیا عمل (process) شروع ہوا، جس کے نتیجہ میں وہ زمانہ آیا جب کہ مذہبی دنیا میں ایک طرف محفوظ قرآن تھا اور دوسری طرف غیر محفوظ بائبل۔ یہ فرق (disparity) دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ایک عظیم تحفہ تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ جدال احسن کے طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے، قرآن کو ساری دنیا میں پھیلادیں۔ یہ گویا قرآن کے لیے بلامقابلہ کامیابی (unopposed victory) کا معاملہ تھا۔ دعوت کی شرط نصح (خیر خواہی ) اور امن (peace) کو اختیار کرتے ہوئے، یہ ممکن ہو گیا کہ اللہ کا کلام دنیا کے ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ مگر عین اس وقت شیطان نے ایک منفی تدبیر کرکے سارے ماحول کو خراب کردیا۔ اب غیر سنجیدہ قسم کے مناظر اٹھے، انھوں نے یہ کیا کہ دوسری مذہبی کتابوں کی کمیاں اور خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ ان لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی بھیڑ اکٹھا کریں، اور للکارنے والے انداز میں دوسرے مذہب کی کمیاں اور خامیاں بتائیں اور اپنے مذہب کی برتری کو establishکریں۔اس طریقے میں مناظر کو ذاتی شہرت ملتی تھی، لیکن مثبت دعوت کے امکانات پوری طرح ختم ہوجاتے تھے۔
قرآن کے مطابق، دعوت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایسے اسلوب میں بیان کیا جائے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو (النساء
مناظر (debater) کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسری مذہبی کتابوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کو سن کو مسلمان خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔ اس قسم کاا نداز سخت گناہ کی بات ہے۔ استہزاء ایک ایسی چیز ہے جو بہت آسان ہے۔ آپ کسی بھی چیز کا استہزاء کرسکتے ہیں، حتی کہ خود قرآن کا بھی۔ یہ بات قرآن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے۔ قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آیَاتِنَا شَیْئًا اتَّخَذَہَا ہُزُوًا أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُہِینٌ (
When he learns something of Our revelations, he derides them: for such there will be humiliating torment.
یہاں یہ سوال ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے، جو غلطیوں سے پوری طرح پاک ہے۔ پھر انسان اس کے اندر استہزاء کے قابل آیتیں کیسے پاتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ استہزاء کہیں باہر نہیں ہوتا، بلکہ وہ آدمی کے مائنڈ میں موجود ہوتا ہے۔ استہزاء ایک غیر سنجیدہ (non-serious) آدمی کی صفت ہے۔ جو آدمی غیر سنجیدہ ہو، اس کا دماغ مواخذہ (accountability) کے احساس سے خالی ہوتا ہے۔ وہ اپنے غیر سنجیدہ مزاج کی بنا پر کسی بھی کتاب میں استہزاء کے آئٹم پالیتا ہے۔ حتی کہ خود قرآن میں بھی۔ ایسے لوگ گویا استہزاء کے تاجر ہیں۔ وہ ہر چیز میں استہزاء کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ اور اسٹیج پر لوگوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے ایسی تقریریں کرتے ہیں، جن کو سن کر لوگ تالیاں بجائیں۔
اس معاملہ کی متوازی مثال سے یہ حقیقت مزید واضح ہوتی ہے۔ مثلا صحافت (journalism) کو لیجیے۔ صحافت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تعمیری شعبہ ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک مثبت ذریعہ (positive medium) ہے۔ مگر کچھ لوگ جو سنجیدگی کا مزاج نہ رکھتے ہوں، وہ صحافت کو ایک منفی شعبہ بنادیتے ہیں۔ یہ نگیٹیو شعبہ وہی ہے، جس کو زرد صحافت (yellow journalism) کہا جاتا ہے۔ ا س قسم کے صحافی سیلیکٹو نیوز کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ نیوز ورلڈ سے ایسے آئٹم منتخب کرتے ہیں، جن کو سنسنی خیز (sensational) معنی پہنائے جاسکیں۔ اور پھر اس کو اپنے بزنس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہی کام مناظر کرتا ہے۔ وہ زیر تنقید مذہبی کتاب سے منتخب (selective) آئٹم لیتا ہے، وہ گڈ (good) آئٹم کو چھوڑ کر ایسے آئٹم لیتا ہے جس کو منفی معنی دیا جاسکے۔ مثلا بائبل میں بہت سی مثبت تعلیمات ہیں، مگر مناظر اس طرح کی آیتوں کو نظر انداز کرکے ایسے آئٹم ڈھونڈ کر نکالے گا، جس کو استہزاء کا موضوع بنایاجاسکے، اور پھر اس کو استہزاء کے انداز میں بیان کرے گا، جس کو سن کر دوسرے مذہب کے لوگ تومشتعل ہوں، مگر مسلمان اس کو سن کرتالیاں بجائیں۔ اس کو قرآن میں استہزائی کردار کہا گیا ہے۔
قرآن کا طریقہ تالیف قلب کا طریقہ ہے (التوبہ60:)۔ یعنی دل کو نرم کرنے کا طریقہ (softening of the heart) ۔ تالیف قلب کے طریقہ میں مخاطب کے عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کہی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، مناظرہ (debate) میں ایسا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جو کھلی تحقیر (public humiliation) کے ہم معنی ہو۔ چناں چہ ایسا طریقہ باعتبار نتیجہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوتا ہے۔ یعنی اسلام کے نام پر لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنا، لوگوں کے اندر ایسا ذہن بنانا جو اسلام کا مطالعہ objective طور پر کرنے کےقابل نہ رہے۔
دعوت کا تقاضا یہ ہے کہ داعی کے اندرمدعو کےلیے ہمدردانہ ذہن موجود ہو۔ جب تک مدعو کو یہ یقین نہ ہو کہ متکلم اس کا آخری حد تک خیر خواہ ہے، اس وقت تک اس کے اندر سنجیدہ انداز میں داعی کی بات سننے کے لیے آمادگی نہیں ہوگی۔رسول اللہ کا رویہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ تالیف قلب کے اصول پر قائم ہوتا تھا۔ اور آپ اپنے اصحاب کو اسی بات کی تلقین کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک بار اپنے اصحاب کو دعوت کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا: بشروا ولا تنفروا، ویسروا ولا تعسروا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔ تم کلام کرتے ہوئے لوگوں کو بشارت دو، ان کو متنفر نہ کرو۔ تم ان کے لیےآسانی پیدا کرو، مشکل پیدا نہ کرو ۔
جو مسلمان مناظرہ (debate) کرتے ہیں، وہ اپنے کام کو اسلام کی دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ مگر یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں دعوت کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، وہ سراسر غیر مناظرانہ انداز کا طریقہ ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم مصر میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی اور حضرت ہارون کو اس وقت کے بادشاہ مصر، فرعون کے دربار میں بھیجا تو دونوں کو ان الفاظ میں ہدایت دی: اذْہَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَى ۔ فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَى (
قول لین(kind word) ایک جامع لفظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مدعو کی روش سے قطع نظر ، یک طرفہ طور پر اس کے ساتھ نرم گفتاری کا انداز اختیار کرنا ہے۔ یہ نرم گفتاری دل سے ہونا چاہیے ، نہ کہ لپ سروس (lip service) کے طور پر۔ داعی کے اندر حقیقی معنوں میں نرم گفتاری اسی وقت آتی ہے۔ جب کہ وہ دل سے مدعو کا خیر خواہ ہو۔ پھر جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہے،داعی کے اندر نرم گفتاری کا یہ انداز یک طرفہ ہونا چاہیے۔ مدعو خواہ سخت کلامی کا انداز اختیار کرے، پھر بھی داعی کو نرم کلامی کی روش پر قائم رہنا چاہیے۔
یہ مسلم مناظرین جو مناظرہ کااسٹیج قائم کرتے ہیں، اور بائبل (اور دوسری مذہبی کتابوں ) کے خلاف فاتحانہ تقریریں کرکے مسلم عوام کو خوش کرتے ہیں، یہ ان کا کوئی ذاتی کمال نہیں۔ یہ دراصل قرآن کے مقابلے میں دوسری مذہبی کتابوں میں تحریف کا نتیجہ ہے۔ یہ تحریف ہم کو موقع دیتی ہے، کہ ہم قرآن کی دعوت کو انتہائی خیر خواہی کے انداز میں پیش کریں۔ اس کے برعکس، اس صورتِ حال کو لے کر مناظرہ کی مجلسیں قائم کرنا، ایک قسم کا مذہبی استحصال (exploitation)ہے، جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول نہیں۔
سچائی کا معیار
ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ فلاں شخص بہت سچا ہے۔ حضرت عمر نے کہا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے، یا کیا تم نے اس کو کسی معاملے میں امین بنایا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: پھر تم اس کی تعریف نہ کرو، کیوں کہ تم کو اس کے بارہ میں کوئی علم نہیں۔
حضرت عمر کے اس قول کے مطابق، آدمی کی سچائی کا معیار وضو اور نماز جیسے اعمال نہیں ہیں۔ وضو اور نماز بلاشبہ اہم ہیں۔ مگر وہ کسی کی سچائی کا براہ راست ثبوت نہیں۔سچائی کا براہ راست ثبوت یہ ہے کہ عملی تجربات پر آدمی پورا اترے۔ جب آدمی کچھ لوگوں کے ساتھ سفر کرتا ہے، جب اس کو کوئی امانت سونپی جاتی ہے۔ اس وقت اس کا عمل بتاتا ہے کہ وہ فی الواقع کیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
دانش مند آدمی ہمیشہ مستقبل کا انجام دیکھ کر اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس معنی میں ایک فارسی شاعر کا شعر ہے کہ آدمی ایسا کام کیوں کرے، جس کا نتیجہ بعد کو شرمندگی کی صورت میں نکلے:
کجا کار کند عاقل کہ بعد آید پشیمانی
ایک مرتبہ میری بات ایک کمپنی کے مینیجر سے ہورہی تھی۔ میں نے کہا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے محنت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ مینیجر نے کہا کہ یہ پرانے زمانے کا اصول ہے۔ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں کامیابی کے لیے آدمی کے اندر پروفیشنل مہارت (professional expertise) ضروری ہے۔ مینیجر کی اس بات کو لے کر میں سوچنے لگا تو مجھے ایک بہت بڑی حقیقت دریافت ہوئی۔ میں نے سوچا کہ موجودہ دنیا میں کچھ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن آخرت کا دور ایک مختلف دور ہوگا۔ جو لوگ آخرت کے دور میں اس طرح داخل ہوں کہ انھوں نے اپنے آپ کو وہاں کے تقاضوں کے مطابق تیار نہ کیا ہو تو وہ وہاں کامل طور پر بے جگہ ہوجائیں گے۔ ان کو آخرت کے دور حیات میں حسرت کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوگا۔
مثلا جو لوگ برتری کی تقریر کرنے کے ماہر ہوں، وہ لوگ آخرت کی دنیا میں بے زبان (speechless) ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہاں صرف ایک ہی زبان کی قیمت ہوگی، اور وہ ہے تواضع (modesty) کی زبان۔جو لوگ غیر خدا کی بڑائی میں جیتے ہوں، وہ آخرت کے دور میں بالکل بے قیمت ہوجائیں گے۔ کیوں کہ آخرت کے دور میں صرف ان لوگوں کو مقام ملے گا، جو خدا کی بڑائی میں جینے والے ہوں۔ جو لوگ نفرت (hate)کے الفاظ بولنے کے ماہر ہوں، وہ آخرت کے دور میں اپنی قیمت کھودیں گے۔ کیوں کہ آخرت میں محبت انسانی کا کلچر ہوگا، نہ کہ نفرت انسانی کا کلچر۔اس فرق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں جو لوگ بڑے دکھائی دیتے ہیں، وہ کل آنے والی دنیا کے دور حیات میں آخری حد تک چھوٹے دکھا ئی دینے لگیں گے۔
واپس اوپر جائیں
ہر انسان کو اپنی زندگی میں تین قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔جو آدمی ان تجربات پر غور کرے، وہ زندگی کی حقیقت کو دریافت کر لے گا۔وہ اپنی زندگی کی درست منصوبہ بندی میں کامیاب رہے گا، وہ جان لے گا کہ زندگی کاآغاز کیا ہے اور زندگی کا انجام کیا ۔ہر انسان کو زندگی ایک دینے والے کی طرف سے ملتی ہے،لیکن زندگی کی منصوبہ بندی (planning) ہر آدمی کو خود کرنا ہے۔ اور درست منصوبہ بندی کا راز یہی ہے کہ آدمی اپنی زندگی کی حقیقت کو جانے۔
پہلا تجربہ ، اس کا اپنا وجود (existence) ہے۔ یعنی اس کا عدم سے وجود میں آنا۔ ایک شخص جو یکم جنوری کو پیدا ہوا، یکم دسمبر کو اس کا وجود نہ تھا۔ آدمی کا غیر موجود سے موجود ہوجانا، یہ پہلا انوکھا واقعہ ہے، جو آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ سوچنے کا یہ عمل اس کو اس حقیقت تک پہنچاتا ہے کہ یہاں ایک خالق ہے، اور میں اس کی مخلوق ہوں۔ اپنی پیدا ئش سے صرف ایک سال پہلے میں اپنے وجود سے مکمل طور پر بے خبر تھا۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ میں اپنے کو پیداکرلوں۔ یہ حقیقت ہر انسان کے لیے اپنے خالق کی معرفت کا ذریعہ ہے۔
دوسرا تجربہ یہ ہے کہ آدمی جب پیدا ہوکر موجودہ زمین (planet earth)پر اپنے آپ کو پاتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر یہ دریافت کرتا ہے کہ موجودہ دنیا اس کے لیے ایک کسٹم میڈ ورلڈ ہے۔ اس کے لیے زمین پر وہ تمام چیزیں موجود ہیں، جو اس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تجربہ آدمی کو بتاتا ہے کہ اس کا جو خالق ہے، وہی اس کا رازق بھی ہے۔ جو اس کو پیدا کرنے والا ہے، وہی اس کو سب کچھ دینے والا بھی ہے۔
اس کے بعد تیسرا تجربہ آدمی کو یہ پیش آتا ہے کہ اس دنیا میں ایک محدود مدت ، مثلا اسّی سال جینے کے بعد وہ مرجاتا ہے۔ موت اس دنیامیںایک ایسا تجربہ ہے جو ہر آدمی کے ساتھ لازما پیش آتا ہے۔ جس طرح پہلا اور دوسرا تجربہ آدمی کے لیے دومثبت تجربات ہیں، اسی طرح تیسرا تجربہ بھی اس کے لیے بلاشبہ ایک مثبت تجربہ ہے۔ پچھلے تجربات کے دوران آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے لیےاِس دنیا میں سب کچھ ہے، لیکن اس کا ہیبیٹیٹ (habitat) یہاں موجود نہیں ہے۔ یہ تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ وہ ایک سفر ہے جو انسان کو نان ہیبیٹیٹ سے ہیبیٹیٹ تک پہنچانے والا ہے۔
اس حقیقت حیات کی دریافت انسا ن کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔ یہ دریافت آدمی کو یہ استحقاق عطا کرتی ہے کہ وہ اپنے ابدی ہیبیٹیٹ (habitat) میں داخلہ پائے جس کو جنت کہا گیا ہے۔ یہ دریافت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ حقیقت واقعہ کے مطابق اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ زندگی کی گاڑی ایسی سمت میں نہ دوڑائے، جس کے آخر میں کھڈ کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
تجربہ ہر آدمی کو پیش آتا ہے۔ تجربہ گویا زندگی کا عملی مطالعہ ہے۔ لائبریری کا مطالعہ آپ کو نظری حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ لیکن اگر آپ اپنے تجربات کا گہرا مطالعہ کرسکیں تو آپ کا تجربہ آپ کے لیے حقیقت حیات کی معرفت کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ اس قابل بن جائیں گے کہ حقیقت واقعہ کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بنائیں۔ اور زندگی کی صحیح شاہراہ پر اپنا سفر شروع کرسکیں۔ جو لوگ ایسا کرسکیں، وہی ا س دنیا میں اعلی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
ہر آدمی جو پیدا ہوکر اس دنیا میں آتا ہے، وہ تمناؤں اور حوصلوں کی ایک دنیااپنے ساتھ لاتا ہے۔ لیکن صرف تمناؤں کے پیچھے دوڑنا کوئی عقل مندی نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اپنی تمنا اور خارجی حقیقت کے درمیان مطابقت تلاش کرے۔ اور اس کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ جو آدمی اپنی حوصلوں کو جانے لیکن وہ خارجی حقائق سے بے خبر ہو، وہ کبھی اعلیٰ کامیابی کی منزل تک پہنچنے والا نہیں۔ زندگی کا معاملہ کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہے۔ گاگ وھیل کبھی ایک کاگ پر نہیں چلتی۔ اس کے لیے دونوں کاگ کی حرکت ضروری ہے۔ اسی طرح زندگی کبھی یک طرفہ بنیاد پر سفر نہیں کرتی۔ زندگی کے کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا ذاتی کاگ فطرت کے خارجی کاگ کے ساتھ مطابقت کرے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث میں آیا ہے :خیر الأمور أوساطہا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر6176)۔ یعنی معاملات میں بہترین روش درمیانی روش ہے۔ دین میں اعتدال کی بہت اہمیت ہے، مگر اعتدال کی اہمیت با اعتبار ابدی اصول نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی حکمت (practical wisdom)کی بنا پر ہے۔ دوسرے الفاظ میںاعتدال کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ عملی ضرورت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔
ایک یہ کہ اعتدال کا تعلق عقائد سے نہیں ہے بلکہ معاملات سے ہے۔ اعتدال اصولی معاملات میں نہیں ہوتا بلکہ اعتدال عملی معاملات میں ہوتا ہے۔ جہاںتک اصول یا عقیدہ کا معاملہ ہے اس میںہمیشہ معیار (ideal) مطلوب ہوتاہے۔ اور معیار کے معاملہ میں سچائی صرف ایک ہوتی ہے۔ اس میں کوئی متوسط راستہ یا غیر متوسط راستہ نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اعتدال کی اہمیت عملی ضرورت کی بنا پر ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کو فکر کی آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر انسانوں کے درمیان عملی اختلافات پیدا ہوتےہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنا اور سارے انسانوں کوایک طریقہ کا پابند بنانا ممکن نہیںہوتا۔ اس بنا پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملہ میںاعتدال وتوازن (balance) کا طریقہ اختیارکرو کہ لوگوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو اور زندگی کا نظام پرامن انداز میں چلتا رہے۔
عقیدہ کا معاملہ ہمیشہ ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ عقیدہ کے معاملے میں آدمی اپنے ذاتی فیصلہ کے مطابق ایک اصول کو اختیار کرسکتا ہے۔ لیکن عملی معاملہ ایک اجتماعی معاملہ ہوتا ہے۔ عملی معاملہ ہمیشہ کئی افراد سے متعلق ہوجاتا ہے۔ اس لیے زندگی گزارنے کے لیےکامیاب فارمولا یہ ہے کہ آدمی اپنے عقیدہ کے معاملہ آئڈیلسٹ (idealist)بنے، اور اجتماعی زندگی میں لوگوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے پریگمیٹک (pragmatic) بن جائے۔ اس طرح زندگی کا دونوں پہلو پرامن طور پر چلتا رہے گا۔انفرادی زندگی معیار پسندی کے اصول پر، اور اجتماعی زندگی لوگوں کے رعایت کے اصول پر۔
واپس اوپر جائیں
1۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ سی پی ایس مشن کے تحت تامل اور ملیالم زبان میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ اور حال ہی میں صدر اسلامی مرکز نے ان دونوں تراجم قرآن کا اجراء کیا ہے۔ یہ دونوں ترجمے بالترتیب تامل ناڈو اور کیرالہ ٹیم نے تیار کیے ہیں۔ ان کو بالترتیب ان سینٹروں، تامل ناڈو(09790853944)، کیرالا (08129538666)کے علاوہ گڈورڈ بکس دہلی سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
2۔ خواتین دعاۃ: الرسالہ مشن کی توسیع اور ترقی میں بہت بڑا ہاتھ خواتین کا ہے۔ حال کے دنوں میں خواتین نے جو دعوتی کام کیا۔ ان میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
18 جون 2016 کو دہلی سی پی ایس ٹیم کی مز نغمہ صدیقی اور مسٹرفراز خان نے’ریلیجس کواگسسٹینس اینڈ رسپکٹ فار ڈائورسٹی‘ (Religious Coexistence and Respect for Diversity)کے عنوان پر ایک بین مذاہب کانفرنس میں شرکت کی۔ اس پروگرام کا انعقاد لوٹس ٹمپل (نئی دہلی) میں کیا گیا تھا۔ جن اہم شخصیات نے اس پروگرام میں شرکت کی، ان میں سے کچھ یہ ہیں پدم شری ڈاکٹر جے ایس راجپوت( سابق ڈائرکٹر این سی ای آر ٹی )، ڈاکٹر مارکنڈے رائے (اقوام متحدہ)، پروفیسر ہیما راگھون، پروفیسر طاہر محمود سابق چیئر مین نیشنل مائنارٹی کمیشن، وغیرہ ۔ سی پی ایس ٹیم کی جانب سے آخر میں انگریزی ترجمہ قرآن، ایج آف پیس، قرآنک وزڈم شرکاء کے درمیان تقسیم کیے گیے۔
سی پی ایس پاکستان کی ممبر مس شبینہ ادیب تذکیر القرآن پر مبنی ہفتہ واری قرآن کلاس چلارہی ہیں۔ اب تک انھوں نے قرآن کی ساتویں سورہ ترجمہ کے ساتھ مکمل کرلیا ہے۔ حال میں ہوئے کلاس میں انھوں نے تذکیر القرآن سے خاص پوائنٹ بتائے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ دلیل خدا کی نمائندہ ہے۔ دلیل کے آگے نہ جھکنا تکبر ہے اور تکبر خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے، وغیرہ۔
مس سیما جلال یو اے ای ، بطور خاص دبئی میں سرگرمی سے دعوتی کام کررہی ہیں۔ ان کی نگرانی میں وہاں کے ہوٹلوں اور سیاحتی مراکز میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن بڑے پیمانے پر سیاحوں کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن دبئی اوقاف سےمنظور شدہ (approved)ہے۔
19 جولائی 2016 کو آل انڈیا ماڑواری مہیلا سمیتی کی جانب سے ویزن 2016 کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے افتتاحی پروگرام میں کولکاتا سی پی ایس ٹیم کی مس شبینہ علی نے شرکت کی اور تمام حاضرین کو انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر دیا۔ جن لوگوں کو یہ اسپریچول گفٹ دیا، ان میں قابل ذکر نام یہ ہیں۔ انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سورو گانگولی کی اہلیہ مس ڈونا گانگولی ، مسٹر بشمبھر نیوار (ڈائرکٹر تازہ ٹی وی)، اور مس آشا مہیشوری، آنریری سکریٹری مہیلا سمیتی، وغیرہ۔ ان تمام لوگوں نے اس مشن کو سراہا اور بہت ہی خوشی کے ساتھ دعوتی تحفہ قبول کیا۔
خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کی اطلاع کے مطابق، اریلا اسٹراس ،ٹیکساس میں رہائش پذیر ایک خاتون ہیں۔ وہ اپنے علاقے میں قرآن تقسیم کرتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:
Here we are setting up our table for guests to look at the Quran during Ramadan. We open up our home for our neighbors to come over and get a copy of the Quran to learn about Islam. Due to my being home bound for health reasons this is my contribution to help others learn. (Ariella S, Texas, USA)
30 جولائی 2016 کو مسلمانوں کے ایک قدیم ادارہ انجمن حمایت اسلام چنئی کی
2جولائی 2016کو ہوٹل دی رائل پلازا، نئی دہلی میں ترکی کی این جی او، انڈیا لاگ فاؤنڈیشن نے سرودھرم سمواد کے اشتراک سے ایک انٹرفیتھ افطار پارٹی کا انعقاد کیا ۔ اس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز کا پیغام لوگوں کو پڑھ کر سنایا گیا۔ سی پی ایس ممبر ماریہ خان نے ’’تشدد کے خاتمہ میں مذہب کے رول‘‘کےعنوان پر ایک خطاب کیا۔ آخر میں شرکاء کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
6 جولائی 2016 کو تبت ہاؤس میں دلائی لاما کی
3۔ دبئی میں مصر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ وہ سی پی ایس دبئی سے قرآن لے جاتے ہیں اور اپنے کسٹمر میں اس کو تقسیم کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں وہ بہت زیادہ سرگرم ہوگئے اور عام دنوں سے زیادہ قرآن رمضان میں تقسیم کیا۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گفتگو کے دوران اپنے کسٹمر کو اسلام کا تعارف کراتے ہیں اور پھر ان کو قرآن پیش کرتے ہیں۔
4۔ دبئی میں واقع فائیو اسٹار ہوٹل جُمَیرا نے صدر اسلامی مرکز کے انگلش ترجمہ قرآن کی 130 کاپیاں حاصل کیں تاکہ وہ انھیں اپنے ہوٹل کے کمروں میں آنے والے کسٹمرس کے لیے رکھ سکیں۔
5۔ گیا سے ملنے والی خبر کے مطابق، گیامیں جناب عظیم الدین ضیفی اور مختار احمد اور مجاہد حسین وغیرہ برادران وطن اور آنے والے سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کررہے ہیں۔ یہ مختلف مقامات پر جاکر ان کو ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیتے ہیں۔ جسے تمام لوگ خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
6۔ چنئی کے لوئلا کالج میں انٹرنیشنل برادر ہڈ پر ایک پروگرام کیا گیا۔ یہ پروگرام 3جون 2016کو ہوا تھا۔اس میں چنئی ٹیم کی طرف سے مولانا اقبال احمد عمری اور مولانا اسرارالحسن عمری نے شرکت کی اور شرکاء پروگرام کے درمیان انگریزی ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر تقسیم کیا۔
7۔ پاکستان میں الرسالہ مشن کا کام اب منظم انداز میں ہونے لگا ہے۔ اسی کے تحت
8۔
9۔ یکم جولائی تا 10 جولائی 2016 کو مرکزی حکومت کے شعبہ نیویلی لیجینیٹ کارپوریشن لمیٹیڈ (the Neyveli lignite corporation Ltd)کے تحت انیسویں کتاب میلے کا انعقاد ہوا۔ اس میں گڈورڈبکس چنئی (Chennai Goodword Books) نے شرکت کی۔ گڈورڈ کے اسٹال پر کافی تعداد میں لوگ آئے اور دوسری کتابوں کے علاوہ بڑی تعداد میں دعوتی لٹریچر حاصل کیا۔
10۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.