عید الاضحی حضرت اسماعیل بن ابراہیم کی قربانی کی یادگار ہے۔ اس قربانی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ ۔ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْآخِرِینَ (
قرآن کی اس آیت میں چھڑانے سے مراد وہی واقعہ ہے جو عملا پیش آیا۔ یعنی حضرت اسماعیل کو جسمانی ذبح کے بجائے، اس بات کے لیے قبول کرلیا گیا کہ وہ توحید کے مشن میں ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy)کے کورس سے اپنے آپ کو گزاریں، اور اس کے بعد ایک نئی نسل تیار کریں۔ یہ منصوبۂ الٰہی بلاشبہ ایک عظیم امتحان کا معاملہ تھا۔ ہر سال جو عید الاضحی منائی جاتی ہے ، وہ اس لیے ہے کہ بعد کے اہل ایمان اس دن یہ عہد کریں کہ وہ آئندہ اس قربانی کو جاری رکھیں گے۔ تاکہ توحید کا مشن ابراہیمی پیٹرن پر قیامت تک جاری رہے۔
بعد کے زمانے میں اس پیٹرن کو دہرانے کا معاملہ باعتبار صورت نہیں ہوگا، بلکہ باعتبارِ حقیقت ہوگا۔ مثلا موجودہ زمانے میں تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد خاندانی تعمیر میں کام آئے۔ لیکن حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کا نمونہ بتاتا ہے کہ ہر خاندان اپنے نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے تیار کرے کہ وہ توحید کا مشن اپنے زمانے کے حالات میں ہمیشہ جاری رکھیں۔ یہ منصوبہ ہر حال میں جاری رکھنا ہے، خواہ اس کے لیے جو بھی قربانی ادا کرنا پڑے۔ عید الاضحی کا دن تیوہار کا دن نہیں ہے، بلکہ وہ مذکورہ معنوں میں عہد کا ایک دن ہے۔
قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ تم دو، تاکہ جو کچھ تمھارے باہر ہےوہ تم کو مل سکے۔ قربانی اس بات کا سبق ہے کہ اگر تم کچھ پانا چاہتے ہو تو کھونے کا حوصلہ پیدا کرو۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس بن مالک قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم :لایستقیم إیمان عبد حتى یستقیم قلبہ (مسند احمد، حدیث نمبر13048)۔ انس بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا قلب درست نہ ہو۔
اس حدیث میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عقل (reason) ہے۔کسی آدمی کو ایمان اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ وہ کلمۂ توحید کا اقرار کرے۔ مگر ایمان کی درستگی ، بالفاظ دیگر ایمان کی تکمیل صرف اس وقت ہوسکتی ہے، جب کہ آدمی اپنے ایمان کو اس طرح ترقی دے کہ وہ اس کی عقل کو پوری طرح مطمئن کرنے والا ایمان بن جائے۔ایمان صرف کلمہ کی ادائیگی والا ایمان نہ رہے، بلکہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں پوری طرح شامل ہوجائے۔
ایمان جب فکری عمل کا حصہ بن جائے تو وہ انسان کی پوری شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسے آدمی کا زاویۂ نظر (angle of vision) بدل جاتا ہے۔ اس کی سوچ ، خدا رخی سوچ (God-oriented thinking)بن جاتی ہے۔ دینی اصطلاح میں اس معاملے کو تزکیہ کہا جاتا ہے۔ تزکیہ دراصل ذہنی ارتقا کا دوسرا نام ہے۔
انسان کی شخصیت اس کی سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ سوچ کا تعلق آدمی کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ جب ایمان سوچ پر مبنی ایمان بن جائے تو آدمی اسی سوچ کے مطابق ہر چیز کا تجزیہ کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق، کسی چیز کو رد اور کسی چیز کو قبول کرتا ہے۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ اس کے صبح و شام اسی کے مطابق گزرنے لگتے ہیں۔ اس کی پوری زندگی اسی کے تابع بن جاتی ہے۔ آپ اپنی سوچ کو درست کیجیے، اور آپ کی پوری زندگی درست ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:عن أبی ہریرة، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم، قال:یدخل الجنة أقوام، أفئدتہم مثل أفئدة الطیر(صحیح مسلم، حدیث نمبر2840) یعنی جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے، جن کے دل چڑیوں کے دل کے مانند ہوں گے۔
چڑیا کی مثال یہاں بہت بامعنی ہے۔ اس کی تشریح قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے جس میں اہل جنت کے بارے میں بتایا گیا ہے :وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ (
چڑیا اللہ کی انوکھی مخلوق ہے۔چڑیا ایک ایسی مخلوق ہے جس کا دل مکمل طور پر حسد اور بغض سے خالی ہوتا ہے۔ چڑیا کا دل منفی جذبات سے پاک ہوتا ہے۔ چڑیا نفرت اور حسد جیسے جذبات سے نا آشنا ہوتی ہے۔ چڑیا کا دل ردعمل (reaction) کی نفسیات سےناآشنا ہوتا ہے۔اس اعتبار سے چڑیا اہل جنت کی مثال بن گئی ہے۔ اہل جنت اپنے ذہنی اور روحانی ارتقا کی بنا پر ایسے انسان ہوں گے جو ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہوں۔ ان کی نظر میں ہر جنتی انسان ان کے حقیقی بھائی کی مانند ہوگا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی شرط کیا ہے۔ جنت ایک ایسی معیاری سوسائٹی ہوگی۔ جہاں صرف وہ لوگ داخلہ پائیں گے، جنھوں نے دنیا کی زندگی میں یہ ثبوت دیا تھا کہ وہ جنتی معاشرہ کی اعلی شرطوں پر پورا اتررہے ہیں۔ وہ اپنی سوچ اور اپنے عمل کے اعتبار سے مثبت انسان ہیں۔ وہ اس اعلی سوسائٹی میں رہنے کے قابل ہیں جو تاریخ کے ان منتخب افراد کی سوسائٹی ہوگی جن کو نبی، اور صادق، اورصالح اور، حق کی گواہی دینے والے (النساء
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اللہ کی صفت کو بتاتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:کَتَبَ عَلَى نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ (
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے قانون کےمطابق سازش کا وجود کبھی ختم نہ ہوگا ۔البتہ دانشمندانہ روش کے ذریعہ دوسروں کی سازش کو اپنے لئے بے اثر بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کو یہ شکایت ہے کہ پولیس آپ کے خلاف ہے اور وہ آپ پر گولی چلاتی ہے تو اس معاملہ کا مطالعہ کیجئے۔ گہرے مطالعہ کے ذریعہ آپ دریافت کریں گے کہ پولیس کبھی ایسا نہیں کرتی کہ وہ خود سے آپ کے اوپر گولی چلائے۔ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر ماریں گے اس کے بعد پولیس جوابی کارروائی کے طورپر آپ کے اوپر گولی چلائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ آپ بے صبر ہو کر پولیس کو پتھر نہ ماریں۔اس کے بعد یقیناًپولیس آپ پر گولی بھی نہیں چلائے گی۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:فوالذی نفسی بیدہ، لا یؤمن أحدکم حتى أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ وزاد فی روایۃ:والناس أجمعین(صحیح البخاری، حدیث نمبر
اس حدیث میں محبت رسول سے مراد کیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے:قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (
پیغمبرِ اسلام نے یہ بات مدینہ میں اس وقت فرمائی تھی، جب کہ بیرونی حملہ کی بنا پرجنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کچھ لوگ ، اپنے والدین، اپنے اولاد، اپنے رشتے داروں، اور اپنے خاندان، اورمال، اور تجارت،جائدادسےمحبت کی بنا پر یہ چاہنے لگے تھے کہ ان کو جنگ میں شرکت نہ کرنا پڑے۔ان حالات میں سورہ التوبہ کی آیت نمبر
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت کی زندگی میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔(
قرآن کی اس آیت میںاُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین (planet earth) ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے فُل فِل منٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک تحقیقاتی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ہم پیدائشی طور پر خدا میں عقیدہ رکھنے والی مخلوق ہیں۔ (we are born believers) انسان کی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک برتر ہستی کا تصور اس کے اندر فطری طور پر موجودہے۔ یہ تصور اتنا قوی ہے کہ کوئی بھی تربیت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو نفسیات کے ایک عالم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
Belief in God is hardwired in our brain
یہ تحقیق ٹائمس آن لائن میں چھپی ہے، جس کو نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا، نے اپنے شمارہ 8 ستمبر 2009 نے نقل کیا ہے۔مگر ماہرین کی رپورٹ میں غلط طور پر انسان کی اس خصوصیت کو نظریہ ارتقا سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ انسان کے ذہن کی یہ پروگرامنگ بذریعہ ارتقا ہوئی ہے، تاکہ اپنے اس عقیدہ کی بنا پر انسان جہد للبقا ءکے عمل میں زیادہ بہتر مواقع پاسکے:
Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance of survival.
یہ سرتاسر ایک غیر منطقی بات ہے۔ تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر فوق الطبیعی عقیدہ (supernatural belief)موجود ہوتا ہے۔ کوئی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ مگر یہ بات سر تاسر غیر ثابت شدہ ہے کہ یہ عقیدہ کسی مفروضہ ارتقا (evolution) کے ذریعے انسان کے اندر خود بخود پیدا ہوا ہے۔
موجودہ زمانے میں مختلف شعبوں میں علمی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ہر شعبے کے تحقیقاتی نتائج اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر ایک بر تر ہستی کا عقیدہ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ذہن ہر انسان کو کسی نہ کسی پہلو سے مذہبی بنا دیتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ بظاہر ملحد (atheist) سمجھے جاتے ہیں، ان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں بھی یہ تصور موجود ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توبہ کہا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں توبہ کی اصل حقیقت ندامت (repentance) ہے(مسند احمد، حدیث نمبر3568:)۔ توبہ کرنے والے کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (
اس کے مطابق ، توبہ ایک ایسی چیز ہے جس سے سیٔہ (برائی) حسنہ (نیکی) میں بدل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سچے ایمان والے ہوں ،وہ جب غلطی کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ندامت ان کے لیے ایک ذہنی صدمہ (intellectual shock) بن جاتی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک شدید ہل چل پیدا ہوتی ہے۔ اس ذہنی ہل چل کے ذریعے ان کے اندر ایک تخلیقیت (creativity) جاگتی ہے۔ ان کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ، اس عمل (process) کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— غلطی، اس کے بعد ندامت، اور پھر نتیجۃً ذہنی ارتقا:
Mistake + repentance = intellectual development
اجتماعی زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص کے اندر غصہ پیدا کرتی ہے۔ اس وقت انسان دو امکان (options)کے درمیان رہتا ہے۔ یا وہ فرشتے کی آواز کو سنے اور اس کی پیروی کرے، یا وہ شیطان کی آواز کو سنے اور اس کے پیچھے چلنے لگے۔ فرشتے کی آواز سننے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگتا ہے۔ وہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح آدمی کے اندر خود احتسابی کا عمل جاگتا ہے، جو باعتبارِ نتیجہ ذہنی ارتقا کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کو وہ حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں، جو اس سے پہلے اس کے لیے لامعلوم بنی ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں جو شخص رد عمل کا شکار ہوجائے، اس کا وہ حال ہوگا جو قرآن کی اس آیت میں بیان ہوا ہے (الاعراف
واپس اوپر جائیں
مالک ابن انس(وفات
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول ابتداء ً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بتایا، پھر صحابہ سے یہ بات تابعین کو ملی ، پھر تابعین سے یہ بات تبع تابعین تک پہنچی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کی صداقت میں کوئی شک نہیں۔
اب غور کیجیے کہ امت مسلمہ کا اول کیا تھا، اور اس کا آخر کیا ۔ امت مسلمہ کا اول دور وہ تھا جب کہ اس کے اندر قرآن پڑھا اور پڑھایا جاتا تھا۔ حدیث اور سنت کا چرچا تھا۔ صحابہ اور تابعین کی مجلسیں جگہ جگہ قائم تھیں۔ یہ تھا امت کا دورِ اول۔ اس دور کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ امت کا وہ آئڈیل دور ہے جب کہ اسلام اپنی اصل حالت پر قائم تھا۔
اس کے بعد وہ دور آیا جب کہ امت کے اندر ایک اور چیزکا اضافہ ہوا۔ اور وہ بعد کو بننے والی تاریخ تھی۔ اس تاریخ میں وہ تمام اجزاء موجود تھے، جو کسی قوم کی تاریخ میں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں سیاسی اقتدار تھا، جنگ تھی، قومی تصورات تھے، فاتح اور مفتوح (ruler and ruled)کے مساوات (equation)،ہمسایہ قوموں سے تعلقات، وغیرہ۔
اس معاملےکو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دورِ اول مبنی بر دعوت دور تھا۔ اور بعد کا دور مبنی بر سیاست دور بن گیا۔ پہلے دور میں اہل ایمان اصولی اسلام پر قائم تھے، بعد کے دور میں وہ ایک قومی مذہب پر قائم ہوگیے۔ یہی اس معاملے کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین، وانتحال المبطلین، وتأویل الجاہلین (شرح مشکل الآثار، حدیث نمبر3884:)۔ یعنی اس علم کے حامل ہر نسل میں اس کے عادل لوگ ہوں گے، جو غلو کرنے والوں کی تحریف سے اس کو محفوظ رکھیں گے،اہل باطل کے انحراف سے اس کو پاک رکھیں گے، اور کم علم لوگوں کی غلط تاویلات سے اس کوبچائیں گے۔
اس حدیث رسول میں امت کے اہل علم کی ایک ذمہ داری بتائی گئی ہے۔ ہر دور میں امت کے اہل علم کا یہ فریضہ ہوگا کہ وہ گہرے مطالعہ کے ذریعہ غلوپسندوں (extremists)کی غلطیوں کو دریافت کریں ، اور انتہاپسندانہ تصور دین کے مقابلے میں صحیح تصور دین کو پیش کریں۔ وہ دین سے انحراف کو جانیں ، اور منحرفانہ تشریح کے بجائے درست تشریح لوگوں کو دوبارہ بتائیں۔ وہ کم علم لوگوں کی قرآن و سنت کی غلط تاویل کو بولیں، اور درست تاویل کو دوبارہ قائم کریں۔
پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت پر مبنی جو دین امت کو دیا، اس کا متن تو محفوظ ہے۔ اور ہمیشہ محفوظ رہے گا، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں جو لوگ امت کا حصہ بنیں گے، وہ اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) اور زمانی افکار کی بنا پر اصل دین سے انحراف میں مبتلا ہوجائیں گے۔ وہ بظاہر قرآن و سنت کا نام لیں گے۔ لیکن ان کی باتوں میں غیر اہل دین کا فکر شامل ہوجائےگا۔ اس لیے ہر دور میں ضرورت ہوگی کہ امت کے اندر ایسے صالح اہل علم پیدا ہوں جو اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں زندہ کرتے رہیں۔یہ حدیث رسول اس عمل کو بتاتی ہے، جس کے ذریعے امت میں دین کے صحیح تصور کا تسلسل قائم رہے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت عملی اعتبار سے ہر گمراہی سے بچی رہے گی۔ یہ بات فکری اور نظریاتی اعتبار سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام کا متن (text) محفوظ ہےاسی طرح اسلام کا درست تصور بھی ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ ابن مسعود کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:أنہ کان یقول فی خطبتہ :خیر الزاد التقوى ورأس الحکمة مخافة اللہ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر
حکمت (wisdom) کا تعلق خوف خدا سے کیا ہے۔ وہ باعتبار نتیجہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ خوف خدا آدمی کو انسانِ حقیقی (man cut to size) بناتا ہے۔ جو انسان ایسا انسان بن جائے اس کے اندر فطری طور پر تواضع (modesty) پیدا ہوتی ہے۔ اور تواضع ہر قسم کی خوبیوں کا سر چشمہ ہے۔ تواضع آدمی کوپورے معنوں میں حقیقت پسند بنادیتی ہے۔اور جو آدمی حقیقت پسند ہو، وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ غیر دانش مندانہ طریقہ اختیار کرے۔ دانائی (wisdom) اس صلاحیت کانام ہے کہ آدمی کسی معاملے میں غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
آدمی کے اندر اگر تواضع نہ ہو تو وہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں فیصلہ کرے گا۔ لیکن جس آدمی کے اندر تواضع ہو ، وہ انتہائی سنجیدہ ہوجائے گا۔ وہ اس کا تحمل نہ کرسکے گا کہ متعلق اور غیر متعلق یا نتیجہ خیز اور بے نتیجہ یا قابلِ عمل اور ناقابلِ عمل کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے۔ وہ جذباتی انداز میں سوچے، اور اندھا دھند طریقہ پر فیصلہ کرے۔ خوفِ خدا سے خالی انسان، غیر ذمہ دار انسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر خوفِ خدا ہو وہ انتہائی حد تک ذمہ دار انسان بن جا ئے گا۔ یہ احساسِ ذمہ داری اس کو ایک دانش مند انسان بنادے گی۔اس بنا پر اللہ سے ڈرنے والا انسان ایک دانش مند انسان ہوتا ہے۔
صاحب حکمت وہ ہے جو چیزوں کے بارے میں ایز اٹ از (as it is) انداز میں سوچ سکے، وہ کسی ملاوٹ کے بغیر چیزوں کے بارے میں بے لاگ رائے قائم کرے۔ یہی انسان حکمت والا انسان ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:بدأ الإسلام غریبا، وسیعود کما بدأ غریبا، فطوبى للغرباء(صحیح مسلم، حدیث نمبر
یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ مسلمان اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں مختلف طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول کے الفاظ یہ : یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763:) ۔یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر وہ زمانہ آئے جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے، اورقرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے، اس وقت ان کی مسجدیں بظاہر بھری ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔
کسی امت پر عروج کے بعد زوال کا آنا، قانونِ فطرت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ اس واقعہ میں ایک بڑی رحمت ہے - یہ لوگوں کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ دوبارہ دورِ اول والےایمان کا تجربہ کریں۔ وہ دوبارہ خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں۔ اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ وقت وہ ہوتا ہے جب کہ ایک طرف یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیےاسلام کو ان کی دریافت (discovery) بنایا جائے، اور دوسری طرف داخلی اعتبار سے یہ کرنا ہے کہ لوگوں کے لیے اسلام کو دریافت نو (re-discovery) بنایا جائے۔اسلام کی اصل بنیاد معرفت پر ہے۔ معرفت کے بغیر اسلام ایک ظاہری ڈھانچہ بن جائے گا۔ جس کی کوئی قیمت اللہ کے نزدیک نہ ہوگی۔ معرفت سے مراد داخلی اسپرٹ(spirit) ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن (سورۃ العصر)کے مطابق، تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ یعنی انسان ہمیشہ احساسِ محرومی (sense of loss) میں جیتا ہے۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ منکرینِ خدااس واقعے کو منفی معنی میں لیتے ہیں۔ وہ اس کوپرابلم آف ایوِل (problem of evil)کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی قادرِ مطلق خدا ہے تو موجودہ دنیا میں اس قسم کی برائیاں (evils) کیوں۔
یہ زاویۂ نظر (angle of vision) میں فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کو اپنے خود ساختہ زاویۂ نظر (self-styled angle of vision) سے دیکھتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس واقعے کو خالق کے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan)کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی دنیا کی یہ صورتِ حال کوئی مسئلہ نہیں ، بلکہ وہ انسان کے لیے خالق کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، موجودہ دنیا انسان کی عارضی قیام گاہ ہے۔ انسان کی اصل اور ابدی قیام گاہ آخرت ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو فل فِل مینٹ (fulfilment) نہ ملے۔ یہ گویا جبر (compulsion) میں ڈال کر انسان کے اندر یہ سوچ پیدا کرنا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو اپنی منزلِ مقصود نہ سمجھے بلکہ اپنی خواہش (desire) کی تکمیل کے لیے وہ ہمیشہ ایک متبادل (alternative)کی تلاش میں رہے۔ اور بطور نتیجہ اخروی جنت کو اپنا منزلِ مقصود بنائے۔
یثرب کی مثال
یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ مکہ میں آپ کو موافق حالات نہیں ملے۔چناں چہ تیرہ سال بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کی ہجرت سے پانچ سال قبل یثرب (مدینہ) میںوہ جنگ ہوئی جس کو عرب کی تاریخ میں یومِ بُعاث کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مدینہ کے دونوں عرب قبائل، اوس اور خزرج کے بڑے بڑے سردار مارے گیے۔
اس جنگ کے بعد اہل مدینہ میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ اپنے لیے ایک متبادل (alternative) کے متلاشی بن گیے۔ انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا کہ ہمارا قبائلی کلچر ہمارے لیے مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک اور کلچر کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم ایک ایسا فارمولا پالیں، جو ہم کو پرامن طور پر رہنے کے قابل بنائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا : کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777:) ۔ یعنی جنگ بعاث کے بعد اہل مدینہ میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ۔ وہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو اپنے لیے بہترین متبادل سمجھ کر اس کو قبول کرنے کےلیے تیارہوگیے۔ چناں چہ جب
تاریخ بتاتی ہے کہ عملاً ایسا ہی ہوا۔ پر امن اسلام جس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے، وہ اہل مدینہ کے لیے واقعۃً ایک متبادل (alternative) بن گیا۔ اس کے بعد اہل مدینہ نے وہ عظیم کا م انجام دیا، جس کی بنا پر وہ انصاراللہ (اللہ کے مددگار) کہے گیے۔
پاکستان کی مثال
پاکستان 1947 میں بنا۔ اس کی منزل اس کے اپنے اعلان کے مطابق یہ تھی: پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ مگر عملاً اس کا نتیجہ برعکس صورت میں نکلا۔ ساٹھ سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود لوگوں کی نظر میں پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) ہے۔ پاکستان کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک میں امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
پاکستان کو بڑے بڑے لیڈر ملے— محمد اقبال، محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی، شبیر احمد عثمانی، وغیرہ۔ پاکستان کے لوگوں نے اپنے ان رہنماؤں کا مکمل ساتھ دیا۔ مگر طوفانی سرگرمیوں کے باوجود نتیجہ کے اعتبار سے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ملا۔ پاکستان بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ بنا تھا۔ لیکن نتیجہ دیکھ کر پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے ملک سے مایوسی ہوئی۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستانی ڈائسپورا (diaspora) کی تعداد تقریبا اسی لاکھ ہے:
According to the Pakistani Government, there are around 8 million Pakistani people living abroad.
اگر پاکستان کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا تمام باشعور طبقہ ایک متبادل (alternative) کی تلاش میں ہے۔ وہ ایک ایسے متبادل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ان کو امن اور ترقی کا راستہ دکھائے، جو اپنے ملک کے بارے میں ان کے خوابوں کی تکمیل بن سکے۔
اس معاملے پر اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خاں (وفات 1974 :) نے اس معاملے میں پاکستانی رہنماؤ ں کو ایک نہایت درست اور حقیقت پسندانہ مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی سے کہا تھا کہ وہ پولیٹکل ایکٹوزم (political activism) کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ اس کے برعکس، ایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ پاکستان کو جدید معیار کا ایک تعلیم یافتہ معاشرہ بنائیں۔ یہ ایک دانش مندانہ مشورہ تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی ترقی ہمیشہ ایک تیار معاشرہ (prepared society) میں ہوتی ہے۔ اور موجودہ زمانے میں تیار معاشرہ بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قوم کو اعلی معیار کی جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اس ابتدائی تیاری کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں اسی چیز کا فقدان ہے، اور پاکستانیوں کا ضمیر اسی مفقودچیز کی تلاش میں ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن ایک الہامی کتاب (revealed book) ہے۔ قرآن واحد مستند آسمانی صحیفہ ہے۔ قرآن خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو جاننے کا واحد ذریعہ ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو پڑھنا، ہر آدمی کی لازمی ذمہ داری ہے۔ جو شخص قرآن کو پڑھے بغیر مرجائے، وہ گویابے خبری کی زندگی جیا اور بے خبری کی موت مرگیا۔
قرآن کی اہمیت کا تقاضا تھا کہ اس کی حفاظت کا کامل اہتمام کیا جائے۔ امت نے قرآن کی حفاظت کا یہ کام بلا شبہ آخری حد تک انجام دیا ہے۔ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ اللہ کا بھیجا ہوا وہی قرآن ہےجو فرشتہ جبریل کے ذریعے لفظی طور پر اتارا گیا، اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لفظی طور پر اخذ کرکے امت کو دیا ۔
یہ قرآن کے عربی متن کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ مگر جہاں تک قرآن کے معانی کی اشاعت کا تعلق ہے، وہ ایک ایسا کام ہے جس کو کرنا ابھی باقی ہے۔ عربی متن بلاشبہ محفوظ ہے، اور وہ پرنٹنگ پریس کے زمانے میں بے شمار تعداد میں چھپ کر ہر گھر اور ہر ادارے میں پہنچ چکا ہے۔ لیکن دنیا کی بڑی آبادی ابھی اس سے بے خبر ہے کہ قرآن میں اس کو جو پیغام دیا گیا ہے، وہ پیغام کیا ہے۔
قرآن کے مطابق، اللہ کی یہ سنت ہے کہ اس کا پیغام ہر قوم کو اس کی اپنی زبان میں پہنچے(ابراہیم4:)۔ مگر قرآن کے معاملے میں ابھی تک یہ کام مکمل صورت میں نہیں ہوا ہے۔امت کی یہ لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کی ہر زندہ زبان میں قرآن کا قابلِ فہم ترجمہ تیارکرے، او ر پیس فل طریقۂ کار کے ذریعے اس کو لوگوں تک پہنچائے۔ جو لوگ اس ذمہ داری کو انجام دیں، وہ بلاشبہ اللہ کی اس نصرت کے مستحق قرار پائیں گے جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ ۔(
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے موقع پر کہا تھا : انا النبی لا کذب (صحیح البخاری، حدیث نمبر2864)۔ یعنی میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ یہ محض دعوی کی زبان نہیں تھی، بلکہ وہ ایک حقیقت واقعہ کا اعلان تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہےجس کا ذکر قرآن (المنافقون1 :)میں موجود ہے۔ اسی طرح جبریل فرشتہ نے ظاہر ہو کر براہ راست طور پر کہا تھا:یا محمد أبشر! فإنک نبی ہذہ الأمة (سیرۃ ابن کثیر، بیروت، 1976، 1/407)۔ یعنی اے محمد ، بشارت ہو، کیوں کہ تم بلاشبہ اس امت کے نبی ہو۔
مگر کسی غیر نبی کو دین کے معاملے میں اس طرح دعوی کی زبان بولنا جائز نہیں۔ کوئی اور شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں مہدی ہوں، میں مسیح موعود ہوں، میں مجدد ہوں، وغیرہ۔ حتی کہ کسی شخص کو یہ حق بھی نہیں کہ وہ کہے کہ میری توبہ، توبہ نصوح ہے، میرا حج، حج مبرور ہے، میں ایک نجات یافتہ انسان ہوں، وغیرہ۔اس قسم کے کلام کا حق صرف اللہ رب العالمین کو ہے۔ کوئی شخص اس قسم کی بات کہے تو وہ بلاشبہ ایک ایسی بات ہوگی، جس کا حق اللہ نے کسی کو نہیں دیا۔
دین کے بارے میں اس طرح کا کلام صرف اللہ عالم الغیب کے لیے سزاوار ہے، اور یہ واقعہ دنیا میں بھی ہونے والا نہیں، یہ صرف آخرت میںہوگا ، جب کہ اللہ رب العالمین اپنے علم کے مطابق، ہر عورت اور مرد کے لیےیہ اعلان کرے گا کہ اس کا درجہ دین میں کیا تھا، اور آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانے والا ہے۔
اس طرح کے دینی معاملے میں خواب یا کشف کا بھی ہرگزکوئی اعتبار نہیں۔ اگر کوئی شخص اس قسم کاکوئی خواب دیکھے یا کسی دوسرے شخص کو اس کے بارے اس نوعیت کا کوئی خواب نظر آئے تو وہ بھی خواب دیکھنے والے کا ایک شخصی معاملہ ہوگا، ایسا خواب ہرگز دوسرو ں کے لیے کوئی حجت نہیں۔ دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے،نہ کہ کسی انسان کے قول پر۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین، وإنما أنا قاسم واللہ یعطی (صحیح البخاری، حدیث نمبر
دین میں گہری سمجھ کسی کو بلاشبہ اللہ کی توفیق سے ملتی ہے، لیکن اس توفیق کی ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنے آپ کو وعایہ (container) بنائے۔ وہ اپنے ذہن کی اس طرح تربیت کرے کہ وہ چیزوں کو اس کے صحیح رخ سے لے، وہ چیزوں کو غلط رخ سے لینے والا نہ بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم ایک نعمت ہے جو ہر لمحہ خدا کی طرف سے انسانوں کے اوپر آتی رہتی ہے، لیکن اس نعمت کو وہی انسان اخذ کرپاتا ہے، جس نے پہلے سے اپنے آپ کو اخذ کرنے والا بنایا ہو۔
یہ وہ انسان ہے جو لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ وہ لوگوں کی باتوں سے کوئی برا اثر نہ لے، وہ منفی تجربات کے باوجود اپنے مثبت مزاج کو باقی رکھے۔ اخلاقی برائیاں ہمیشہ سماجی تعلقات کے دوران پیدا ہوتی ہیں۔ سماجی تعلقات کے دوران کوئی انسان اپنے مثبت ذہن کی بنا پر گہری فہم تک پہنچ جاتا ہے، اور کوئی شخص اپنے منفی ذہن کی بناپرحقیقت کے فہم سے دور ہوجاتا ہے۔
خیرکا عطیہ ہمیشہ اللہ کی طرف سے آتا ہے، لیکن اخذ کی صلاحیت وہ چیز ہے جس کوانسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ جس انسان نے اپنے اندر اخذ کی صلاحیت پیدا کرلی، اس کو ضرور اللہ کی طرف سے خیر کی نعمت ملے گی، اور جس انسان نے اپنے اندر مطلوب صلاحیت پیدا نہیں کی ، اس کو کبھی خیر کی نعمت ملنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مغفرت کے بارے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
اس طرح کی آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کے دو درجے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عمل صالح کرے اور وہ ذَنب (sin)سے بچا ہوا ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ آدمی ایمان قبول کرکے اسلامی زندگی گزارے، لیکن اسی کے ساتھ وہ کبھی ذَنب میں بھی مبتلا ہوجائے۔ پہلاآدمی وہ ہے جس نے فرسٹ چانس (first chance) کو اَوِیل کیا۔
دوسری قسم کے مومن کا کیس سکنڈ چانس (second chance) کو اویل (avail) کرنے کا کیس ہے۔ اور یہ توبہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ یعنی آدمی ایمان کے باوجودکبھی گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ پھر اس کو انتباہ ہو، وہ توبہ کرے، اور ندامت (repentance) کے احساس کے ساتھ اللہ سے معافی مانگے۔ یہ دوسرا شخص بھی اللہ کی رحمت میں اپنا حصہ پائے گا۔ اس کا کیس اللہ کے قانون کے مطابق، سکنڈ چانس کو اَوِیل کرنے کا کیس ہوگا۔
اللہ کے قانون کے مطابق، توبہ خود بھی ایک عمل صالح ہے۔ توبہ یہ ہےکہ گناہ کرنے کے بعد آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے، اس کے اندر ندامت کا جذبہ پیدا ہو، غلطی اس کے احساس کو جگائے، وہ نئی اسپرٹ کے ساتھ اللہ کی طرف دوڑ پڑے، اس کا مردہ ایمان دوبارہ زندہ ایمان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانےمیں اسلام کی دعوت اور اشاعت کے لیے کافی کام ہورہا ہے۔ لیکن ایک میدان ابھی تک باقی ہے، اور وہ ہے:
To present Islam at the modern intellectual level
یعنی آج کے فکری مستوی پر اسلام کوقابل فہم ( understandable) بنانا۔ دعوت کا کام میرے نزدیک صرف تبلیغ کاکام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ مدعو کے لیے اسلام کو قابل فہم (understandable) بنایا جائے۔ اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ اسلام کو اس اسلوب میں پیش کیا جائے، جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ دعوت کے بارے میںاسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا(النساء
یہ کام وقت کا سب سے بڑا کام ہے۔ مگر اس کام کو موثر طور پر کرنے کے لیے ایک قربانی درکار ہے۔ وہ یہ کہ داعی کوالٹی (quality) کو کام سمجھے ، نہ کہ کوانٹٹی (quantity) کو۔ اگر آپ جدید دور کے چند آدمی کو اسلام کی سچائی پر مطمئن کرسکیں تو بلاشبہ یہ آپ کے لیے بہت بڑا rewardable کام ہوگا۔
دعوت کا معیار قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مدعو کے پاس اس کے بعد کوئی حجت یا عذر باقی نہ رہے(النساء
واپس اوپر جائیں
مورخ ابن اثیر نےاپنی کتاب میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو یمن بھیجا۔ اس سے پہلے آپ نے خالد بن ولید کو ان کے درمیان بھیجا تھا تاکہ وہ ان کو اسلام کی طرف بلائیں، مگر انھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہا۔ اس کے بعد آپ نے علی ابن ابی طالب کو بھیجا۔ اور ان کو یہ ہدایت دی کہ وہ اہل یمن کو خالد اور ان کے ساتھی کے نقصان کا تاوان اداکریں(وأمرہ أن یعقل خالدا ومن شاء من أصحابہ)۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔پھر انھوں نے اہل یمن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد قبیلۂ ہمدان کے تمام لوگوں نے ایک ہی دن میںاسلام قبول کرلیا۔ انھوں نے یہ واقعہ لکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ اہل ہمدان پر سلامتی ہو۔ایسا آپ نے تین بار کہا۔ پھراسی طرح دیگر اہل یمن نے اسلام قبول کرلیا۔اس واقعے کی خبرانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھ کر بھیجی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر کے طور پر اللہ تعالی کو سجدہ کیا۔ (الکامل فی التاریخ، جلد2، صفحہ300، بیروت ، 1979)
خالد بن الولید عسکری مزاج کے آدمی تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر انھوں نے اہل یمن کے ساتھ سختی کا معاملہ کیا۔ رسول اللہ نے اس رویہ کو درست نہیں قرار دیا۔ بلکہ اس کی تلافی کا انتظام فرمایا۔ تلافی کے معاملے کا مثبت اثر ہوا۔ اہل یمن کا دل نرم ہوگیا۔ انھوں نے پہلے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن اب انھوں نے اسلام کی قبولیت کا اعلان کردیا۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک ایسا کام ہے جو ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کو پرامن انداز میں انجام دیا جائے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے، مدعو کی طرف سے اگر کوئی ناموافق رویہ سامنے آئے تو مدعو کے ساتھ یک طرفہ نرمی کا معاملہ کیا جائے،مدعو کے مقابلے میں ہمیشہ مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی پہلی آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین(الفاتحہ1:) ہے۔ یعنی اللہ یکساں طور پر تمام انسانوں کا رب ہے۔ وہ صرف مسلم قوم کا رب نہیں۔ قرآن کو آپ پڑھیں تو آپ کو ملے گا کہ قرآن کا خطاب ایک عالمی خطاب ہے۔ چناں چہ قرآن میں آپ کو ملے گا کہ أیہا الناس، أیہاالإنسان ، یا بنی آدم جیسے الفاظ استعمال کیے گیے ہیں۔
کسی امت میں یہ نفسیات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کا تصور گھٹ کر قومی مذہب کا تصور بن جائے۔ اس وقت امت کے اندر یہ ذہن بن جاتا ہے کہ ہم مسلم ہیں ، اور بقیہ لوگ کافر ہیں۔ اس وقت حق وباطل کا معیار یہ بن جاتا ہے کہ آدمی قومی اعتبار سے کس گروہ سے وابستہ ہے۔ ایک گروہ سے وابستگی دین دار ہونے کی علامت ہوتی ہے، اور دوسرے گروہ سے وابستگی بے دینی کی علامت۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ دین ایک قومی کلچر بن جائے، نہ کہ خداوند عالم کا بھیجا ہوا دین۔
جب کسی قوم پر زوال کا یہ وقت آتا ہے تو اس وقت سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسلام کا آفاقی تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اب لوگوں کے اندر یہ جذبہ نہیں ہوتا کہ وہ اسلام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ بلکہ اس وقت لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ بن جاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے تصورِدین کی حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ ہر گروہ اپنے گروہی مسلک کو حق سمجھتا ہے۔ اس طرح مذہبی تعصب کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جس کے بعد لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دین کا نام موجود ہوتا ہے، لیکن دین کی حقیقت غائب ہوجاتی ہے۔
جب زوال کا یہ دور آتا ہے تو ظاہری چیزوں کی دھوم بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ظاہری چیزوں کی دھوم دیکھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ دین زندہ ہے۔ حالاں کہ اسپرٹ کے اعتبار سے دین کا کوئی وجود نہیں ہوتا، جب کہ اسپرٹ ہی دین کی اصل حقیقت ہے۔
واپس اوپر جائیں
روایات میں آیا ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ کو غم کی حالت میں دیکھا تو انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، آپ پربڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے (قد شبت) ۔ آپ نے فرمایا : شیبتی ہود واخواتہا (البحر الزخار، حدیث نمبر
دعوت کی ذمہ داری خدائی پیغام رسانی کی ذمہ داری ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ یہ کام کامل حد تک بے آمیز طریقہ سے کیا جائے۔ اس میں کسی بھی قسم کے قومی یا مادی یا سیاسی پہلو کی آمیزش نہ کی جائے۔ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کا یہی وہ پہلو ہے جس نےرسول اللہ کو اتنا غم گین بنا دیا کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ آپ قبل از وقت بوڑھے ہوگئے ہیں۔
دعوتی ذمہ داری کے اس پہلو کا ذکر قرآن میں مختلف انداز سے آیا ہے۔ یہاں اس سلسلے میں قرآن کے دو حصوں کا ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
1۔ پس تم جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم ہوا ہے اور وہ بھی جنھوں نے تمھارے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔اور ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا، ورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مدد گار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پائو گے۔ (
2۔ اور قریب تھا کہ یہ لوگ فتنہ میں ڈال کر تم کو اس سے ہٹادیں جو ہم نے تم پر وحی کی ہے، تاکہ تم اس کے سوا ہماری طرف غلط بات منسوب کرو اور تب وہ تم کو اپنا دوست بنالیتے۔ اور اگر ہم نے تم کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ جھک پڑو۔ پھر ہم تم کو زندگی اور موت دونوں کا دہرا (عذاب) چکھاتے۔ اس کے بعد تم ہمارے مقابلہ میں اپنا کوئی مدد گار نہ پاتے۔ (
قرآن وحدیث کے متعلق حوالوں پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبل از بڑھاپے کا سبب صرف ایک تھا۔ اور وہ یہ احساس تھا کہ دعوت الی اللہ کا کام اللہ رب العالمین کی نمائندگی کا کام ہے۔ اس کام کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کو آخری حد تک بے آمیزحالت کے ساتھ انجام دیا جائے، کوئی دوسرا پہلو اس میں ہرگز شامل نہ کیا جائے۔
سورہ ہود کی آیات میں رسول اللہ کے ساتھ دیگر اہلِ ایمان کو بھی شامل کیا گیا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طورپر یہ وارننگ ہے کہ: وَلَا تَرْکَنُوا إِلَى الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ (
اصل یہ ہے کہ داعی اپنا دعوتی کام کسی خالی جزیرے میں نہیں کرتا، بلکہ وہ اس کام کو عوام کے درمیان انجام دیتا ہے۔ اس بنا پر دعوت کے عمل کے دوران مختلف قسم کے تقاضے باربار سامنے آتے ہیں۔مثلاً قومی تقاضا،گر وہی تقاضا ، مادی تقاضا، سیاسی تقاضا، وغیرہ۔ اس قسم کے تقاضے بار بار یہ دعوت دیتے ہیں کہ داعی ان کی رعایت کرے۔ تاکہ دعوت کا کام بلا رکاوٹ انجام دیا جاسکے۔ لیکن اللہ کی منشا یہ ہوتی ہے کہ خدائی تقاضے کے سوا کسی بھی تقاضے کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے، بلکہ تمام تر خدائی تقاضے کو اہمیت دیتے ہوئے دعوت کا کام اپنی خالص اور بے آمیز صورت میں جاری رکھا جائے۔ دعوت إلی اللہ کی یہ شرط دعوت کے کام کو ایک ایسا گراں بار کام بنادیتی ہے کہ داعی سے اس کا سکون چھن جائے اور وہ لوگوں کو قبل از وقت بوڑھا نظر آنے لگے۔دعوت کا کام ایک خالص حق کا کام ہے۔ اس معاملے میں خدائی تقاضا (divine consideration)کے سوا کسی اور تقاضے (consideration)کی رعایت جائز نہیں۔ دعوت کے کام کو بظاہر انسان انجام دیتا ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دعوت کا کام ایک خدائی کام ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ دعوت کے کام کو انتہائی حد تک پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب سے الفاظ کی زبان میں سوال کرتا ہے، لیکن اس کا رب اس کا جواب حالات کی زبان میں دیتا ہے۔ ان حالات کو الفاظ کی زبان دینا خود انسان کا اپنا کام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خالص مومنانہ ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کرے۔ اس کو یقینا اپنے سوال کا خدائی جواب مل جائے گا، کبھی فوراً اور کبھی دیر میں۔
سنت اللہ کے مطابق، اللہ کا جواب کسی غیر پیغمبر پر لفظوں میں نہیں آتا۔ بلکہ وہ حالات کی زبان میں آتا ہے۔ کبھی خود اپنے حالات کے ذریعے، کبھی دوسروں کے حالات کے ذریعے۔ یہ جواب انسان کو کان سے سنائی نہیں دیتا، البتہ عقل کے استعمال کے ذریعے وہ اس کو جان لیتا ہے۔ اللہ کے اس طریقہ میں انسان کے لیے بہت بڑی رحمت ہے۔ اگر اللہ کا جواب الفاظ کی صورت میں آئے تو وہ انسان کے لیے سخت مواخذے کا ذریعہ بن جائے گا۔ حالات کی زبان میں آنے کی بنا پر وہ انسان کے لیے اجتہاد کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ انسان کے لیے یہ گنجائش ہوتی ہے کہ اگر وہ اس کو سمجھنے میں غلطی کرے تو اس کا معاملہ اجتہادی خطا کا معاملہ بن جائے۔
اللہ کا جو جواب انسان کے پاس اس طرح آتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ آدمی متعصبانہ فکر (biased thinking) سے پاک ہو۔ وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، اور کھلے طور پران کے بارے میں اپنی رائے بنائے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن میں تم سے پہلے کے حالات کا ذکر ہے اور اس میں تمہارے بعد کے حالات کا بیان ہے ( سنن الترمذی، حدیث نمبر2906)۔قرآن میں ماضی اور مستقبل کا حوالہ کس لئے ہے۔ وہ اس لئے ہے تاکہ اہلِ ایمان تاریخ کے بارےمیں خدا کےمنصوبہ (scheme of things) کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے عمل کی درست منصوبہ بندی (right planning) کریں۔ یہی سب سے بڑی حکمت (wisdom) ہے۔ اور یہ حکمت تدبر (غور وفکر) کے ذریعہ سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن اور تاریخ میں غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اپنے پیغمبر پر ہدایت نازل فرمائی۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک عمل (process) شروع ہوا۔ پہلے قرآن کو محفوظ کیاگیا۔ اسی کے ساتھ حدیث اورعلوم اسلامی کی تدوین ہوئی۔ یہ کام کئی سو سال تک مسلم اقتدار کےتحت جاری رہا۔ یہاں تک کہ قرآن اور قرآنی علوم پوری طرح محفوظ ہوگئے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نظام غیر سیاسی دائرہ میں قائم ہوگیا۔
ظہور اسلام کے تقریباً ہزار سال بعد سیکولر تہذیب کے ذریعہ تائید دین کا دور شروع ہوا۔ اس عمل کے دوران دنیا میں ایک موافق اسلام دور آیا۔ اس دور میں ہر قسم کے وہ فکری اور عملی مواقع دستیاب ہوگئے جو اسلام کے عالمی دعوتی مشن کی تکمیل کے لئے ضروری تھے۔ بیسویں صدی میں یہ منصوبہ اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب دنیا میں نظری اور عملی دونوں اعتبار سے کامل طورپر وہ مواقع پیدا ہوچکے ہیں جو اسلام کو اس نشانہ کی تکمیل کے لئے ضروری تھے جن کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا(
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:اختلاف أمتی رحمة (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر
اختلاف (difference)کسی گروہ کا مسئلہ نہیں، اختلاف ایک فطری امر ہے۔ انسانوں کے درمیان ہمیشہ اختلافات ہوتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی اور سیکولر اعتبار سے بھی۔ کوئی سماج کبھی رائے کے اختلاف سے خالی نہیں ہوتا۔
رائے کے اختلاف کو اگر فطری درجہ میں رکھا جائے تو وہ لوگوں کے لیے ایک رحمت (blessing) ثابت ہوگا۔ صحیح یہ ہے کہ اختلاف پیش آنے پر تحمل کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع بنایا جائے۔ ایسا کرنے سے اختلاف لوگوں کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس سے لوگوں کی تخلیقیت (creativity)میں اضافہ ہوگا۔درست طور پر کہا جاتا ہے کہ جہاں لوگ ایک ہی انداز میں سوچیں، وہاں لوگوں کے اندر بلند فکری نہیں ہوگی:
Where everyone thinks alike, no one thinks very much
رائے کا اختلاف ہر زمانے میں امت کے اندر موجود رہا ہے۔ رائے کا اختلاف مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب کہ کوئی گروہ اختلاف میں غلو کا طریقہ اختیار کرے۔غلو کے بغیر اختلاف ایک رحمت ہے۔ جب کہ غلو کے ساتھ اختلاف ایک فتنہ بن جاتا ہے۔ مثلاامت میں ہمیشہ عقائد کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا رہا، اسی طرح فقہی مسائل میں بھی ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ یہ اختلاف کبھی مسئلہ نہیں بنا۔ البتہ بعض اوقات جب کسی گروہ نے اختلاف کو غلو کے درجے تک پہنچایا تو اختلاف مسئلہ بن گیا۔
واپس اوپر جائیں
پرسکون زندگی کا راز کم پر راضی ہونا ہے نہ کہ زیادہ کی تلاش میں رہنا۔ کم کی حد ہے لیکن زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے ایسا ہوتا ہے کہ کم پر راضی ہونے والے کو پرسکون زندگی مل سکتی ہے لیکن زیادہ کی تلاش کرنے والا کبھی پرسکون زندگی حاصل نہیں کرسکتا۔مذہب کی اصطلاح میں کم پر راضی ہونے کا نام ’’قناعت ہے اور زیادہ کی تلاش میں رہنے کا نام ’’حرص ‘‘۔ ان ہی دو لفظوں میں زندگی کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔
جو آدمی اس حقیقت کو جان لے وہی عارف ہے اور جو آدمی اس حقیقت سے بے خبر رہے وہی وہ انسان ہے جس کو اس دنیا میں معرفت حاصل نہیں ہوئی۔پر سکون زندگی در اصل اعتراف حقیقت (acceptance of reality) کا دوسرا نام ہے۔ آپ حالات کے اعتبار سے جن حقائق کے درمیان ہیں، اگر آپ ان حقائق (realities) کو جانیں اور ان کے مطابق اپنے عمل کا نقشہ بنائیں تو یقیناً آپ کامیاب رہیں گے۔ اس کے برعکس، اگر آپ صرف اپنی خواہشوں کو جانتے ہوں ، اگر آپ کو صرف اپنی تمناؤ ں کا علم ہو تو آپ حقائق سے بے خبر ہوجائیں گے۔ ایسی حالت میں آپ کی منصوبہ بندی مبنی بر حقیقت منصبوبہ بندی نہ ہوگی۔ ایسی منصوبہ بندی کا لازمی نتیجہ صرف ناکامی ہے۔
اگر آپ کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ نہ ہو اور اس بنا پر آپ ایسے راستے پر چل پڑیں جو حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہو تو اس کے بعد دوسری غلطی ہر گز مت کیجیے۔ یعنی اپنی ناکامی کا الزام دوسرے پر ڈال کر کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان بلند کرنا۔ زندگی میں ہمیشہ نیا منصوبہ بنانا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن نیا منصوبہ صرف وہ لوگ بنا سکتے ہیں جو شکایت اور احتجاج کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوں۔ اگر آپ زندگی میں ناکام رہیں تو ہمیشہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیے۔ کسی تاخیر کے بغیر یہ اعتراف کیجیے کہ آپ نے غلطی کی ہے۔ غلطی کا اعتراف نئی کامیابی کا دروازہ کھولتا ہے۔ اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا، آدمی کو اس رسک (risk) میں مبتلا کردیتا ہے کہ وہ کبھی کامیابی سے دوچار نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:کفى بالمرء کذبا أن یحدّث بکل ما سمع (صحیح مسلم، حدیث نمبر 5)یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ جس بات کو سنے ، اس کو وہ اسی طرح لوگوں سےبیان کرنے لگے۔ اس حدیثِ رسول میں بات کےغیر مطلوب طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بات کا مطلوب طریقہ کیا ہے۔
یہ مطلوب طریقہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر
انسان کی سب سے بڑی صفت سنجیدگی (sincerity)ہے۔ جس صفت کو مذہبی زبان میں تقوی کہا جاتا ہے، اسی صفت کا دوسرا نام سنجیدگی ہے۔ ایک سنجیدہ انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بات کو سنے تو وہ بلا تحقیق اس کو بیان کرنے لگے۔ سنجیدہ انسان کے اندر جو مزاج بنتا ہے، وہ مزاج اس طرح بات کرنے میں ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ بات آدمی کی پہچان ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالے جو اس کی پہچان کو بگاڑنے والی ہو۔
اگر کہی ہوئی بات ایک اچھی بات ہوتو اس کو بلا تحقیق دہرانے میں کوئی ہرج نہیں ۔ لیکن اگر کہی ہوئی بات ایک ایسی بات ہے جو کسی شخص کی تصویر (image) کو مشتبہ کرنے والی ہےتو ایسی بات کو تحقیق کے بغیر ہر گز بیان نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
آج کل مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے متفقہ طور پر ایک ہی بات بول رہے ہیں ۔ وہ یہ کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہیں، ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ باتیں اتنی زیادہ کہی جارہی ہیں کہ ان کو سننا اور پڑھنا میرے جیسے انسان کے لیے ایک سزا کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کے مطابق ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ باتیں کسی سازشی قوم کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ خود مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے کی بے دانشی کو ثابت کرتی ہیں۔
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہیں:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (
قرآن کی اس آیت کے مطابق، مسلمانوں کے لیے اصل کام دوسروں کے خلاف شکایت کرنا نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو عباد اللہ بنانا ہے۔ مسلمانوں کے جو لکھنے اور بولنے والے لوگ ہیں، ان سب کو یہ چاہیے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ عبادا للہ کی شرطیں کیا ہیں، اور مسلمانوں کو ان شرطوں کے مطابق عبادا للہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں
عام طور پر لوگ سازش کے خلاف شکایت کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سازش کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ اس کے خلاف احتجاج(protest) کیا جائے، اس کے خلاف جوابی کارروائی کی جائے۔مگر قرآن میں سازش کے مسئلے کا جو حل بتایا گیا ہے، وہ اس قسم کا رد عمل (reaction) نہیں ہے، بلکہ وہ صرف پرامن تدبیر ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (
کید (evil scheme)کیا ہے۔ وہ دراصل کسی انسان یا قوم کا اپنی آزادی کا غلط استعمال (misuse) کرنا ہے۔ آزادی انسان کو خالق کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ انسان کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا قوم آپ کے نزدیک اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو آپ اس سے اس کی آزادی کو چھین نہیں سکتے۔ اس لیے آپ کے لیے صرف ایک موقع ہے۔ وہ یہ کہ حالات سے ٹکراؤ کرنے کے بجائے حالات کو پر امن طور پر مینج (manage)کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے سوا ہر کوشش بے فائدہ ہے۔ وہ کسی کو اس کے مطلوب انجام تک پہنچانے والی نہیں ۔
سازش یا مخالفانہ تدبیر کو آپ اپنی جوابی تدبیر سے غیر موثر بناسکتے ہیں۔ مگر اس کو ختم کرنا آپ کے لیے کسی حال میں ممکن نہیں۔ اس دنیا میں ہر ایک کو اپنا امتحان دیناہے ۔ یہ امتحان صرف آزادانہ ماحول میں ہوسکتا ہے۔ یہ معاملہ کسی قوم کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ براہ راست خالقِ کائنات کا معاملہ ہے۔ اور کون ہے جو خالق کائنات کے مقرر کیے ہوئے کورس کا خاتمہ کرسکے۔یہ اعلان کرنا کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے، فلاں قوم ہمارے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم اسلاموفوبیا میں مبتلا ہے، یہ سب بے حقیقت الفاظ میں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز کا گواہ ہے۔ (
قرآن کی اس آیت میں سنریہمکا لفظ ہے۔ اس میں متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔یعنی ہم دکھائیں گے۔ لیکن یہ اسلوب کی بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے کچھ بندوں کو کھڑا کرے گا، وہ زمین و آسمان میں تحقیق کریں گے۔ پھر وہ تحقیق کے ذریعے ایسی علمی حقیقتیں دریافت کریں گے جوعقلی بنیاد (rational ground) پر اسلام کی صداقت کو ثابت شدہ بنانے والے ہوں۔
فطرت کے قانون کے مطابق زندگی کا نظام باہمی وابستگی (interdependence) یا باہمی تعاون کے اصول پر قائم ہے۔ اس دنیا میںدینی واقعات بھی اسی اصول پرظاہر ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اللہ اس دین کی تائید فاجر انسان (سیکولر انسان) کے ذریعے بھی کرے گا۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)جس واقعہ کو قرآن میں متکلم کے صیغہ میں بیان کیا گیا تھا، اس کو حدیث میں غائب کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے تفہیمِ قرآن میں حدیث کا رول معلوم ہوتا ہے۔ حدیث قرآن کے اجمال کو مفصل کرتی ہے۔ حدیث قرآن کے اصولی بیان کو تعین کی زبان میں واضح کرتی ہے۔ تمام ترقیاں ، خواہ وہ دینی ہوں یا سیکولر، وہ ہمیشہ اسی باہمی وابستگی کے اصول پر انجام پاتی ہیں۔ مثلاً اسلام نے جمہوریت کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل فرانس میں ہوئی۔ اسلام نے مذہبی رکاوٹوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل جدید تہذیب کے ذریعے ہوئی۔ اسلام نے انسانی غلامی کے خاتمے کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل امریکا میں ہوئی۔ اسلام نے سائنسی دور کا آغاز کیا لیکن اس کی تکمیل مغربی دنیا میں ہوئی، وغیرہ۔ آغاز کے بعد تکمیل کا یہ کام تاریخی عمل (historical process)کے ذریعے انجام تک پہنچا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداود، سنن الترمذی، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: ما رأیت من ناقصات عقل ودین أذہب للب الرجل الحازم من إحداکن۔ (حدیث نمبر
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کے درمیان تخلیقی فرق رکھا گیا ہے۔ مگر یہ فرق رتبہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ رول کے اعتبار سے ہے۔ کیوں کہ سماج میں عورت اور مرد کا رول تخلیقی نقشے کے مطابق ایک درجے میں الگ الگ ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان ان کے رول کے مطابق فرق رکھا گیا ہے۔
اسلام کی تعلیم کےمطابق، عورت اور مرد کے درمیان رتبہ (status) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، دونوں یکساں طور پر آدم کی اولاد ہیں۔ لیکن سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سماج کا ہر کام نہ ہر مرد کرسکتا ہے، اور نہ ہر عورت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت یا ہر مرد کو اس کی صلاحیت یا استعداد کے اعتبار سے کام دیا جائے۔ اس طرح ہر کام معیاری درجے میں انجام پائے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی کام میں لگا دیا جائے تو کوئی بھی کام اعلی صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بنا پر اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کار کے اصول کو اختیار کیا گیا ہے، نہ کہ یکسانیت کار کے اصول کو۔تاریخ کے ہر دور میں عملاً عورت اور مرد کے درمیان یہ اصول اختیار کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم رائٹر کا مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون انڈیا کے مسلم مسائل کے بارے میں ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیںکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمان اس ملک میں امتیاز کا سامنا کررہے ہیں،ملازمتوں میں اور داخلوں میں، نیز فرقہ وارانہ تشدد کے وقت:
There is no denying that Muslims face discrimination in jobs and admissions and also communal violence.
عام طور پر مسلمانوںکا لکھنے اور بولنے والا طبقہ اسی قسم کی بات لکھتا اور بولتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ مسلمانوں کی خدمت نہیں کررہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں باعتبار نتیجہ حوصلہ شکنی کی باتیں ہیں۔ جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر صورتِ حال میں ہمیشہ ایسی بات کہی جائے جو حوصلہ افزائی کے ہم معنی ہو۔
امتیاز (discrimination) کیا ہے۔ وہ ایک فطری صورتِ حال کو منفی اصطلاح میں بیان کرنا ہے۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے جس چیز کو امتیاز کہتے ہیں، وہ دراصل چیلنج کی صورتِ حال ہے۔ یہ دنیا کا قانون ہے کہ یہاں ہمیشہ اجتماعی زندگی میںچیلنج اور مسابقت کی صورتِ حال قائم رہتی ہے۔ اس کی بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ پیچھے ہوجاتے ہیں۔مگر یہ ایک وقتی صورتِ حال ہے، وہ مستقل طور پر قائم رہنے والی نہیں۔
انسان کبھی اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے۔ اس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کے اندر داعیہ (incentive) جاگتا ہے۔ وہ عام حالات کے مقابلے میں زیادہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے والا پیچھے ہوجاتا ہے، اور پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ عمل ہر سماج میں اور ہمیشہ جاری رہتا ہے۔یہ فطرت کا ایک قانون ہے، اورکوئی بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے قانون کو بدل دے۔مثال کے طور اس ملک میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ڈاکٹر عبد الکلام جب پیدا ہوئے تو وہ ایک پچھڑے ہوئے انسان تھے، مگر بعد کے زمانے میںلوگوں نے دیکھا کہ وہ دونوں افراد اگلی صف میں جگہ حاصل کرچکے تھے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے یا ناجائز۔ میں نے کہا کہ مادرِ وطن کو جائز- ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی (extremism) ہے کہ ہر چیز کو جائز- ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے۔ اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔
ایک شخص (وابصۃالاسدی) رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے تمام سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ استفتِ قلبک (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔ جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor)کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسقط الراس، مقامِ پیدائش (home land)، برتھ پلیس (birth place) ، وغیرہ کہا جاتا ہے۔
اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔ بلکہ اس کو معروف مفہوم کے اعتبار سے لیا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں
لوگوں کو موت کا علم ہے، لیکن انھیں موت کا شعوری ادراک نہیں۔ وہ موت کو جانتے ہیں ، لیکن انھوں نے یقین کے درجے میں موت کو دریافت نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ایسی زندگی گزاررہے ہیں جیسے کہ موت ان کے لیے آنے والی نہیں۔ موت کسی انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ بھیانک واقعہ ہے۔ لوگ اگر شعوری طور پر اس حقیقت کو جانیں تو ان کی ساری توجہ موت کی طرف ہوجائے گی۔ موت سے پہلے کی زندگی ان کے لیے صرف ایک ذمے داری بن جائے گی، اور موت کے بعد کا معاملہ ان کے لیےسب سے زیادہ اہم معاملہ بن جائے گا۔
موت کے معاملے میں اس عمومی غفلت کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہر لمحہ طرح طرح کے حالات پیش آتے ہیں۔ یہ حالات انسان کو ہر لمحہ اپنی طرف مشغول کیے رہتے ہیں۔ اس کی زندگی ایک ڈسٹریکٹید (distracted) زندگی بن جاتی ہے۔ اس بنا پر انسان کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ موت کے بارے میں سوچے۔ موت کے بارے میں سوچنا صرف اس انسان کے لیے ممکن ہے جو اپنے آپ کو ڈسٹرکشن سے بچائے۔ چوں کہ انسان ایسا نہیں کرتا اس لیے موت کے بارے میں اس کی غفلت بھی ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بارے میں انسان کی غفلت صرف اس وقت ختم ہوتی ہے جب اس کے سامنے موت کا فرشتہ آکر کھڑا ہوجائے، موت کے فرشتے کے سوا کوئی اور چیز اس کو دکھائی نہ دے۔انسان کی یہی مشغول زندگی اس کے لیے موت کو صرف ایک دور کی خبر بنادیتی ہے، موت اس کی زندگی میں یقین کا درجہ حاصل نہیں کرتی۔ ہر آدمی موت سے اس طرح دوچار ہوتا ہے کہ وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن کو کچھ دیر کے لیے مشغولیت سے خالی کرے۔ وہ یکسوئی کے ساتھ موت کو یاد کرے۔ موت کے بارے میں جو آیتیں یا حدیثیں آئی ہیں، ان کا مطالعہ کرے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جو انسان کو موت کے بارے میں حقیقت شناس بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں کوئی آیت (نشانی) ہوتی ہے۔اہل عقل کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں سے سبق لے۔ نشانیوں سے سبق لینا یہی تزکیہ یا شخصیت کی تعمیر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ مثلا آپ ایک باغ میں ہیں، وہاں شہد کی ایک مکھی آتی ہے۔ وہ پھولوں پر بیٹھتی ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ پھولوں کا نکٹر (nectar) لیتی ہے اور پھر وہ اڑجاتی ہے۔
اس واقعے میں بہت بڑی نشانی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نشانی خود پھول کا جزء ہے۔ یعنی جس طرح پھول کے اندر رنگ اور مہک ہے، اسی طرح اس کے اندر نشانی بھی اس کے ایک لازمی حصے کے طور پر موجود ہے۔ یہ نشانی انسان کے ذہن کے اندر ہوتی ہے ،نہ کہ پھول کے اندر۔ آپ کے اندر اگر سوچنےکی صلاحیت ہے تو آپ سوچ کر اس نشانی کو اخذ کریں گے۔ اور اگر آپ کے اند رسوچنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ نشانی بھی آپ کے لیے ایک غیر موجود چیز بن جائے گی۔
اگر آپ کا ذہن ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ اور مکھی کو دیکھ کر آپ سوچنا شروع کردیں تو آپ مکھی کے حوالے سے اپنے لیےایک عظیم حقیقت کو دریافت کریں گے۔ وہ یہ کہ جس طرح پھولوں میں نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح دنیا کی چیزوں میں نصیحت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے۔ نصیحت کا یہ پہلو مادی اعتبار سے چیزوں کا جزء نہیں ہوتا۔ لیکن آپ اپنے عقل کو استعمال کرکے اس کو دریافت کرسکتے ہیں۔ مثلا شہد کی مکھی جب باغ میں آئی تو اس وقت باغ میں بہت سی چیزیں موجود تھیں— گھاس ، مٹی، لکڑی ، کانٹا ، کیڑے مکوڑے ،وغیرہ۔ لیکن مکھی نے ان تمام چیزوں کو یکسر نظر انداز کیا۔ اس نے صرف ایک کام کیا۔ وہ تھا نکٹر کو لینا اور پھروہاں سے اڑجانا۔ اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کے لیے نصیحت ہے۔وہ یہ کہ زندگی میں بہت سے منفی پہلو ہوتے ہیں، تم کو چاہیے کہ منفی پہلو کو نظر انداز کرو، اور مثبت پہلو کو لے کر اپنی زندگی کی تعمیر کرو۔
واپس اوپر جائیں
زندگی کے بیشتر معاملات انسان کے لیے پوری طرح کلیر (clear) نہیں ہوتے۔ اکثر حالات میںا نسان ففٹی ففٹی کے درمیان ہوتا ہے۔ یعنی ففٹی پرسنٹ ہاں ، اور ففٹی پرسنٹ نہیں۔ ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہو جو اس کی اس بے یقینی کی حالت کو ختم کرے، اور اس کو یقین کے ساتھ فیصلہ تک پہنچنے کا راستہ دکھائے۔ ایک دانش مند اور تجربہ کار (advisor) کا یہی رول ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس قسم کا مشیر نرمی کی زبان نہیں بولتا، بلکہ وہ شدت اور تاکید کی زبان بولتا ہے۔ دانش مند مشیر اگر نرمی کی زبان بولے تو زیر مشورہ آدمی جہاں پہلے تھا، وہیں بدستور باقی رہے گا۔ لیکن دانش مند مشیر جب زور و تاکید کے ساتھ ایک بات کہتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیرِ مشورہ شخص کا ذہن ہل جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ففٹی ففٹی کی جو مساوات (equation) تھی وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ بے یقینیت (uncertainty) کی حالت
زندگی کے اسی مسئلے کی بنا پر ہر زمانے میں گرو یا مرشد کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کے لیے ایکسپرٹ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ کسی کو گرو یا مرشد بنانا عملی ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے مقابلے میں افضل حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاملہ عملی ضرورت کی بنا پر ہے ، نہ کہ تقدس یا افضلیت کی بنا پر۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں بعض افراد اپنے تجربہ یا اپنے علم کی بنا پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ فطری طور پر اپنے سماج میں ممتاز حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر لوگ حسد کے جذبے سے خالی ہوں تو بآسانی ایسا ہوگا کہ ایسے افراد گرو یا مرشد کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ حسد کا جذبہ اعتراف (acknowledgement) کی راہ میں مانع بن جاتا ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں اصل ضرورت یہ ہے کہ لوگوں کو حسد کے جذبے سے پاک بنایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
نئی منصوبہ بندی (re-planning) ہمیشہ یک طرفہ بنیاد (unilateral base)پر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے نئی منصوبہ بندی عملاً ایک قربانی (sacrifice) کا عمل بن جاتا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کے لیے انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ ردّ عمل (reaction) سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ کسی چیز کو وقار (prestige) کا مسئلہ نہ بنائے۔ وہ پیچھے ہٹنے کو اسی طرح قبول کرے جس طرح وہ اقدام کو قبول کئے ہوئے تھا۔ وہ کامل طورپر غیر جانب دارانہ انداز سے سوچے اور حقیقتِ واقعہ کی بنیاد پر ایک فیصلہ لے۔ وہ ہار اور جیت کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر اپنی راہِ عمل متعین کرے۔ یہی نئی منصوبہ بندی ہے اور اس قسم کی منصوبہ بندی قربانی کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں حدیبیہ پالیسی اسی قسم کی ایک نئی منصوبہ بندی تھی۔ مگر مسلمان بعد کے زمانے میں اپنے رسول کے اس اسوہ کو بھول گئے۔حدیبیہ پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ نئے حالات کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اہل ایمان کو نئے حالات سے سابقہ پیش آیا۔ اب ضرورت تھی کہ اپنی جدو جہد کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کےلیے نیا نقشہ کار بنایا جائے۔
نیا نقشہ کار بنانے کے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ صورت حال کو خالص غیر جذباتی انداز میں دیکھا جائے۔’’دشمن‘‘ اور’’سازش‘‘ جیسی اصطلاحات کو ترک کرکے از سر نو غور کیا جائے۔ اور تمام لوگوں کو انسان سمجھ کر ان سے معاملہ کیا جائے۔ اس قسم کا غیر متعصبانہ ذہن نئی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے۔ پیغمبر اسلام اگر ہجرت کے بعد یہ اعلان کرتے کہ مکہ والے ہمارے دشمن ہیں تو آپ وہ اعلیٰ منصوبہ نہ بناسکتے جس کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔جو لوگ دشمنی اور سازش کی اصطلاح میں سوچیں ، وہ اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ ان کا ذہن ماضی کے حالات میں اٹکا ہوا ہے۔ ایسے لوگ نئے امکانات کو سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ اس بنا پر وہ وقت کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بھی نہ بنا سکیں گے۔جو لوگ حالات کےمطابق درست منصوبہ بندی نہ کرسکیں، ان کے حصے میں صرف بے فائدہ شکایت آئے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
انسانی کلام کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جس موضوع پر کلام کرے، اس کی پوری معرفت اس کو حاصل ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ معرفت کے بغیر آدمی لکھنا اور بولنا شروع کردے۔ پہلی صورت میں انسان کے کلام میں وضوح (clarity) ہوگی۔ اس کے برعکس، دوسری صورت میں انسان کا کلام وضوح (clarity) سے خالی ہوگا، اس کا کلام کنفیوژن کا کلام ہوگا۔
مثلا اگر آپ ایک عمارت میں ہیں۔ یہ عمارت ایک عبادت خانہ کی عمارت ہے۔ اب اگر آپ کو یہ معرفت حاصل ہو کہ یہ بلڈنگ عبادت خانہ ہے۔ تو اس کے بارے میں آپ کا کلام ایک واضح کلام ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس بلڈنگ کو کچھ اور سمجھ لیںتو اس کے بارے میں آپ کا کلام کنفیوژن سے بھرا ہواکلام بن جائے گا۔
آپ کو اگر تقریر یا تحریر کے میدان میں کوئی رول ادا کرنا ہے تو آپ کو چاہیے کہ سب سے پہلے متعین موضوع کا گہرا مطالعہ کریں۔ اس موضوع کے بارے میں اتنی معلومات حاصل کریں کہ آپ معرفت کے درجے میں اس موضوع کو سمجھنے لگیں۔ معرفت کے بغیر کلام کرناصرف وقت ضائع کرنا ہے، اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔ کیوں کہ ایسی صورت میں آپ موضوع کا حق ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اور سننے یا پڑھنے والوں کو کوئی فکری غذا دینے میں ناکام رہیں گے۔
معرفت کیا چیز ہے۔ وہ اس مشہور قصے سے معلوم ہوتی ہے، جو سات آدمی اور ہاتھی کے عنوان سے مشہور ہے۔اس قصےمیں سات اندھے آدمیوں نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہاتھی کیا ہے۔ ان میں سے ہر شخص یہ بتانے میں ناکام رہا تھا کہ ہاتھی واقعۃًکیا چیز ہے۔ یہی انجام اس مقرر یا محرر کا ہوگا جو معرفت کے بغیر بولنا اور لکھنا شروع کردے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے بولنے اور لکھنے کی شرط کو پورا کرے۔ اس کے بعد وہ بولنا یا لکھنا شروع کرے۔ اس معاملے میں شرط پورا کرنا یہی ہے کہ معرفت کے درجے میں موضوع پر درک حاصل کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ دس سال پہلے میں آپ سے ملا تھا۔ اس وقت میں ایک مسئلے سے دوچار تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اس کو کس طرح حل کروں۔ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا: مسئلے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔ میں نے آپ کے اس مشورہ کو پکڑلیا۔ اور آج میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا نہ صرف مسئلہ حل ہوا، بلکہ اس کے بعد میرے لیے ترقی کا نیا دروازہ کھل گیا۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً ردعمل (reaction) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات کے تحت وہ منفی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، البتہ وہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتو اپنے آپ کو ردعمل کی نفسیات سے بچائیے۔ پختگی (maturity) کا ثبوت دیتے ہوئے صرف یہ کیجیے کہ معاملے کو انتظار کے خانے میں ڈال دیجیے۔
اصل یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق ، حالات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ آدمی اگر جلد بازی میں حالات کو نہ بگاڑے تو عین ممکن ہے کہ حالات کا رخ اس کے موافق ہوجائے اور جو مسئلہ پہلےناقابلِ حل بناہوا تھا، وہ خود حالات کی تبدیلی کے نتیجے میں آسانی کے ساتھ حل ہوجائے۔
جس چیز کو زمانہ کہا جاتا ہے، وہ دراصل انسانی تاریخ ہے۔ انسانی تاریخ نہ کسی کی دوست ہے اور نہ کسی کی دشمن۔ انسانی تاریخ فطرت کی شاہراہ پر چل رہی ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو سمجھے، اور اس کےمطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ اگر کسی کے اندر اس معاملے میں گہری بصیرت نہ ہو تو اس کے لیے دوسرا آپشن (option) یہ ہے کہ وہ اللہ کی مدد کا طالب بنتے ہوئےاپنے آپ کو حالات کے رخ پر ڈال دے۔ وہ ہرگز ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے۔یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
حکمت، دانائی اور وزڈم (wisdom) تینوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ وزڈم مسلمہ طور پر سب سے بڑی انسانی صفت ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وزڈم کی کوئی واضح تعریف (definition) ڈکشنری میں موجود نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وزڈم کوئی انڈیپنڈنٹ آئٹم نہیں۔ وزڈم دراصل پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کا دوسرا نام ہے۔ وزڈم دراصل اِس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی کسی مسئلہ کے متعلق اور غیر متعلق پہلو کو سمجھے اور غیر متعلق کو الگ کرکے متعلق کو دریافت کرسکے:
Wisdom is the ability to discover the relevant by sorting out the irrelevant.
اس بات کو ایک مفکر نے اس طرح بیان کیا ہے — دانش مند انسان وہ ہے جو چیزوں کے اضافی پہلو کو جانے:
A wise man is one who knows the relative aspect of things.
عام طورپر لوگ چیزوں کو صحیح اور غلط کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ ان کو جو چیز صحیح (right) نظر آئے اس کو لینا چاہتے ہیں اور جو بظاہر غلط (wrong) دکھائی دے اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ وزڈم نہیں ہے۔ وزڈم یہ ہے کہ آدمی چیزوں کو بہ اعتبار نتیجہ دیکھے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لئے انتخاب اکثر گڈ (good)اور بیڈ (bad)کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ کم برائی (lesser evil) اور بڑی برائی (greater evil) کے درمیان ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی زیادہ بڑی برائی کے مقابلے میں کم برائی کا انتخاب کرے، اسی کا نام وزڈم ہے۔
معلومات اور وزڈم ایک چیز نہیں۔ اگر کسی انسان کے پاس بہت زیادہ معلومات ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ وزڈم یا حکمت کا بھی مالک ہے۔ معلومات کا تعلق حافظہ (memory) سے ہے۔ جس آدمی کا حافظہ اچھا ہو، اس کی یادداشت میں بہت زیادہ باتیں محفوظ رہتی ہیں۔ لیکن وزڈم کا زیادہ تعلق قوت تجزیہ (power of analysis) سے ہے۔
واپس اوپر جائیں
مشہور صحابیٔ رسول حضرت علی بن ابی طالب کا قول ہے: الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوگیا، وہی بہتر ہے۔
Whatever happened, happened for the good.
حضرت علی کا یہ قول فطرت کے قانو ن کو بتاتا ہے۔وہ یہ کہ دنیا میں مواقع کی تعداد بے شمار ہے۔ اگر ایک موقع کھوجائے تو آدمی کے اندر محرومی کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو یہ امید کرنا چاہیے کہ ایک موقع کھونے کے بعد جلد ہی اس کو دوسرا موقع مل جائے گا، اس طرح اس کی زندگی کا سفر رکے بغیر جاری رہے گا۔
یہ صرف ایک قول نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک عام قانون ہے۔ یہ مومن و غیر مومن سب کے لیے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو دھیان میں رکھے تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا۔ وہ ہر ناکامی کو وقتی سمجھے گا۔ ہر ناکامی کے بعد وہ ا پنی کوشش کو جاری رکھے گا، یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ بات کوئی پراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک معلوم قانون ہے۔
خالق نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ کچھ مواقع ایسے ہیں، جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ مواقع ایسے ہیں، جو موجود رہتے ہیں لیکن وہ ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ پر امید رہے۔ وہ ناموافق حالات میں بھی مواقع کی تلاش جاری رکھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر یہ استعداد پیدا کرے کہ وہ مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرسکے، مواقع جس ہنر (skill) کا تقاضا کریں، وہ ہنر اپنے اندر پیدا کریں۔
مواقع کو وہی لوگ کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جن کے اندر مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ضروری لیاقت موجود ہو۔ لیاقت کے بغیر مواقع کا کامیاب استعمال ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ماہنامہ الرسالہ 1976 میں جاری ہوا۔ یہ غالبا دنیا کا واحد ماہنامہ ہے جو صرف ایک شخص کی تحریروں پر نکلتا ہے۔ ایک شخص کی زبان ، اور ایک شخص کے فکر (thought) کے سوا کسی دوسرے کا کوئی ڈائرکٹ کنٹری بیوشن اس میں نہیں ہوتا۔
کچھ سالوں سے مَیں الرسالہ کے مضامین اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتا ،بلکہ میں الرسالہ کے مضامین کوڈکٹیٹ (dictate) کرتا ہوں۔ پہلے یہ تھا کہ کوئی صاحب اس کو ہاتھ سے لکھتے، پھر اس کو کاتب کے حوالے کیا جاتا، پھر تصحیح مراحل سے گزر کو وہ مطبوعہ الرسالہ کی صورت میںلوگوں کے سامنے آتا۔
لیکن اب جدید ٹکنالوجی نے اس معاملے کوبہت آسان بنادیا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ میں مضمون کے الفاظ بولتاہوں اور کوئی صاحب فوراً کے فوراً اس کو ٹائپ کرتے ہیں۔ اس درمیان میں کسی ریفرنس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی ٹائپ کرنے والے صاحب فوراً کے فوراً کمپیوٹرمیں موجود ڈیجیٹل لائبریری یا انٹرنیٹ سے نکال دیتے ہیں، اور اس کو مضمون میں اسی وقت شامل کردیا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ٹکنالوجی اللہ تعالی کی عجیب نعمت ہے۔ مذکورہ بات اس نعمت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں، جب کہ ٹکنالوجی کی مدد سے الرسالہ مشن کو عالمی سطح پر چلایا جارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے مادہ (matter) کو حکم دے دیا ہے کہ تم انسان کی ہدایت پرچلو۔ انسان کی ہدایت پر اس کی آواز کو یہاں سے وہاں پہنچاؤ۔ اس کی ہدایت پر اس کے تمام معاملات کو انجام دو۔ میری پیدائش 1925 میں ہوئی۔ اس لحاظ سے مجھے ذاتی طور پر یہ تجربہ ہے کہ قدیم زمانے میں کیا تھا اور موجودہ زمانے میں کیا ہے۔ اس بنا پر میرے لیے موجودہ زمانے کی ہر چیز شکر کا آئٹم بن جاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث ہے: اللہم إنی أسألک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا(مسند احمد، حدیث نمبر 26602) میرا سوال یہ ہے کہ علم نافع اور غیر نافع کا معیار کیا ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری)
جواب
نافع ہونے کا دو معیار ہے۔ دنیا کے اعتبار سے نافع ہونا، اور آخرت کے اعتبار سے نافع ہونا۔ مگر زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد معروف معنوں میں علم دنیااور علم دین نہیں ہے۔ بلکہ اس کا خطاب خود صاحب علم سے ہے۔ کسی علم کا نافع یا غیر نافع ہونا ، اس پر منحصر ہےکہ صاحب علم اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ گویا نافعیت کا معیار علم کا استعمال ہے، نہ کہ خود علم۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا علم بھی غیر نافع بن جاتا ہے کہ اگر اس کو دنیوی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تعلم علما مما یبتغى بہ وجہ اللہ عز وجل لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضا من الدنیا، لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا (سنن ابوداوود، حدیث نمبر3664) یعنی جس نے ایسا علم سیکھاجس سے اللہ کی رضا حاصل کی جاتی ہے، مگر اس نے یہ علم صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے سیکھا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ اصل یہ ہے کہ ہر علم ایک کار آمد علم ہے۔ اس کا استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔اس لحاظ سے اصل اہمیت استعمال کی ہے ، نہ کہ علم کے قسم کی۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: انما الاعمال بالنیات (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1)یعنی عمل کا دار ومدار نیت پر ہے۔ آخرت کی نیت سے حاصل کیا ہوا علم نافع ہے، اور دنیاکی نیت سے حاصل کیا ہوا علم غیرنافع ہے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.