انسان کی تلاش
قرآن (سورۃ العصر)کے مطابق، تاریخ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ یعنی انسان ہمیشہ احساسِ محرومی (sense of loss) میں جیتا ہے۔ اس معاملے میں کسی انسان کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ منکرینِ خدااس واقعے کو منفی معنی میں لیتے ہیں۔ وہ اس کوپرابلم آف ایوِل (problem of evil)کہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی قادرِ مطلق خدا ہے تو موجودہ دنیا میں اس قسم کی برائیاں (evils) کیوں۔
یہ زاویۂ نظر (angle of vision) میں فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کو اپنے خود ساختہ زاویۂ نظر (self-styled angle of vision) سے دیکھتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس واقعے کو خالق کے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan)کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی دنیا کی یہ صورتِ حال کوئی مسئلہ نہیں ، بلکہ وہ انسان کے لیے خالق کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے نقشے کے مطابق، موجودہ دنیا انسان کی عارضی قیام گاہ ہے۔ انسان کی اصل اور ابدی قیام گاہ آخرت ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو فل فِل مینٹ (fulfilment) نہ ملے۔ یہ گویا جبر (compulsion) میں ڈال کر انسان کے اندر یہ سوچ پیدا کرنا ہے کہ وہ موجودہ دنیا کو اپنی منزلِ مقصود نہ سمجھے بلکہ اپنی خواہش (desire) کی تکمیل کے لیے وہ ہمیشہ ایک متبادل (alternative)کی تلاش میں رہے۔ اور بطور نتیجہ اخروی جنت کو اپنا منزلِ مقصود بنائے۔
یثرب کی مثال
یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یثرب (مدینہ) کی طرف ہجرت کی صورت میں پیش آیا۔ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن 610 عیسوی میں مکہ میں شروع کیا۔ مکہ میں آپ کو موافق حالات نہیں ملے۔چناں چہ تیرہ سال بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپ کی ہجرت سے پانچ سال قبل یثرب (مدینہ) میںوہ جنگ ہوئی جس کو عرب کی تاریخ میں یومِ بُعاث کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں مدینہ کے دونوں عرب قبائل، اوس اور خزرج کے بڑے بڑے سردار مارے گیے۔
اس جنگ کے بعد اہل مدینہ میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ اپنے لیے ایک متبادل (alternative) کے متلاشی بن گیے۔ انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ محسوس کیا کہ ہمارا قبائلی کلچر ہمارے لیے مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک اور کلچر کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم ایک ایسا فارمولا پالیں، جو ہم کو پرامن طور پر رہنے کے قابل بنائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت عائشہ نے ان الفاظ میں بیان کیا : کان یوم بعاث، یوما قدمہ اللہ لرسولہ صلى اللہ علیہ وسلم(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777:) ۔ یعنی جنگ بعاث کے بعد اہل مدینہ میں ایک نیا ذہن پیدا ہوا ۔ وہ پیغمبر اسلام کی دعوت کو اپنے لیے بہترین متبادل سمجھ کر اس کو قبول کرنے کےلیے تیارہوگیے۔ چناں چہ جب 622 ء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق خاص ابوبکر صدیق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے تو اہل مدینہ نے یہ کہہ کر استقبال کیا: اُدخلا آمنَین مطاعَین (مسند احمد ، حدیث نمبر12234)۔ یعنی آپ دونوں مدینہ میں داخل ہوں امن کے ساتھ ، ہم آپ دونوں کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عملاً ایسا ہی ہوا۔ پر امن اسلام جس کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے، وہ اہل مدینہ کے لیے واقعۃً ایک متبادل (alternative) بن گیا۔ اس کے بعد اہل مدینہ نے وہ عظیم کا م انجام دیا، جس کی بنا پر وہ انصاراللہ (اللہ کے مددگار) کہے گیے۔
پاکستان کی مثال
پاکستان 1947 میں بنا۔ اس کی منزل اس کے اپنے اعلان کے مطابق یہ تھی: پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔ مگر عملاً اس کا نتیجہ برعکس صورت میں نکلا۔ ساٹھ سال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود لوگوں کی نظر میں پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) ہے۔ پاکستان کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک میں امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
پاکستان کو بڑے بڑے لیڈر ملے— محمد اقبال، محمد علی جناح، سید ابو الاعلیٰ مودودی، شبیر احمد عثمانی، وغیرہ۔ پاکستان کے لوگوں نے اپنے ان رہنماؤں کا مکمل ساتھ دیا۔ مگر طوفانی سرگرمیوں کے باوجود نتیجہ کے اعتبار سے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ملا۔ پاکستان بڑی بڑی امیدوں کے ساتھ بنا تھا۔ لیکن نتیجہ دیکھ کر پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنے ملک سے مایوسی ہوئی۔ وہ اپنا ملک چھوڑ کر باہر جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستانی ڈائسپورا (diaspora) کی تعداد تقریبا اسی لاکھ ہے:
According to the Pakistani Government, there are around 8 million Pakistani people living abroad.
اگر پاکستان کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان کا تمام باشعور طبقہ ایک متبادل (alternative) کی تلاش میں ہے۔ وہ ایک ایسے متبادل کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، جو ان کو امن اور ترقی کا راستہ دکھائے، جو اپنے ملک کے بارے میں ان کے خوابوں کی تکمیل بن سکے۔
اس معاملے پر اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان کے سابق صدر جنرل محمد ایوب خاں (وفات 1974 :) نے اس معاملے میں پاکستانی رہنماؤ ں کو ایک نہایت درست اور حقیقت پسندانہ مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی سے کہا تھا کہ وہ پولیٹکل ایکٹوزم (political activism) کا طریقہ چھوڑ دیں۔ وہ اس کے برعکس، ایجوکیشنل ایکٹوزم (educational activism)کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ پاکستان کو جدید معیار کا ایک تعلیم یافتہ معاشرہ بنائیں۔ یہ ایک دانش مندانہ مشورہ تھا۔ کیوں کہ کوئی بھی ترقی ہمیشہ ایک تیار معاشرہ (prepared society) میں ہوتی ہے۔ اور موجودہ زمانے میں تیار معاشرہ بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قوم کو اعلی معیار کی جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ اس ابتدائی تیاری کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں اسی چیز کا فقدان ہے، اور پاکستانیوں کا ضمیر اسی مفقودچیز کی تلاش میں ہے۔
واپس اوپر جائیں