ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن ابن عباس، رضی اللہ عنہما، قال:قال رجل: یا رسول اللہ، من أولیاء اللہ؟ قال:الذین إذا رؤوا ذکر اللہ (مسند البزار، حدیث نمبر5034)۔ یعنی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللہ کے رسول، اولیاء اللہ کون ہے، آپ نے فرمایا: وہ لوگ جن کو دیکھا جائے تو اللہ کی یاد آئے۔
اس حدیث رسول میں’’ وہ لوگ جن کو دیکھا جائے‘‘ ـکا مطلب ہے، جب تم ان سے ملو۔ اصل یہ ہے کہ ایک ربانی انسان جب سچائی کو دریافت کرتا ہے، اور وہ اللہ کے خوف و محبت میں جینے والا بن جاتا ہے تو اس کے اندر سنجیدگی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی ہر بات میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔ وہ ہر معاملے کو اللہ کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی، عام انسان سے مختلف زندگی بن جاتی ہے۔ اس کی باتوں میں اللہ کا رنگ پیداہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے، اس میں سننے والوں کے لیے رزق رب موجود ہوتا ہے۔ غیر متعلق باتیں اس کی زبان سے نہیں نکلتیں۔ بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تعلق باللہ کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس بیٹھنے والوں کو اس سے ایسی چیزیں ملنے لگتی ہیں جو دوسروں سے نہیں ملتی۔
محمد بن إسماعیل بن صلاح نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہا ہے: ویحتمل أن المراد أنہم یذکّرون العباد باللہ تعالى(التَّنویر شرح الجامع الصغیرِ، الریاض، 2011، جلد 2، صفحہ
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پر اسرار بات نہیں ہے، بلکہ وہ ایک معلوم صفت ہے جو فطری اسباب کے تحت کسی کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میںآئی ہے: اللہم اہدنی وسدّدنی (صحیح مسلم، حدیث نمبر2725)۔ یعنی اے اللہ ، مجھ کو ہدایت دے اور مجھ کو راہ راست کی طرف رہنمائی فرما۔اس دعا میں اھدنی کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرما۔ اس کے بعد دعا میں دوسرا لفظ سدّدنی ہے۔ یعنی مجھ کو راہ راست کی طرف رہنمائی (show the right way) فرما۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم کی ہدایت کے بعد بھی انسان کو ایک خدائی توفیق کی ضرورت ہے۔ اسی کو یہاں سدّدنی کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور وہ ہے ڈسٹرکشن (distraction) سے بچنا۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں اتباع سبل (الانعام
انسان کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ ہدایت کی صراطِ مستقیم کو اختیار نہ کرسکے۔ انسان کی دوسری گمراہی یہ ہے کہ وہ آغاز میں شاہراہ سے اپنے سفر کو شروع کرے۔ لیکن درمیان میں اس کو شاہراہ کے دائیں یا بائیں ایسی چیزیں ملیں جو اس کے سفر کے رخ کو بدل دیں، وہ شاہراہ سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے غیر متعلق راستوں میں چل پڑے۔ یہ دونوں قسم کا انسان بھٹکا ہوا انسان ہے۔ پہلا انسان اگر سفر کے آغاز میں بھٹکا ہوا تھا، تو دوسرا انسان سفر کے درمیان میں بھٹک کر راہ سے بے راہ ہوگیا۔جس طرح مادی سفر کے لیے ایک شاہراہ ہوتی ہے، اوراسی کے ساتھ شاہراہ کے دونوں طرف چھوٹے راستے بھی۔ اسی طرح سچائی کے سفر کی بھی ایک شاہراہ ہے، اسی کے ساتھ شاہراہ کے دونوں طرف چھوٹے راستے بھی۔ جو آدمی سچائی کی شاہراہ پر چلتا رہے، وہ مطلوب منزل پر پہنچے گا۔اس کے برعکس، جو آدمی چھوٹے راستوں کو اختیار کرے، وہ اپنی منزل سے بھٹک جائے گا۔ اس گمراہی سے بچنے کی صورت صرف یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اللہ سے بھٹکاؤ سے بچنے کی توفیق مانگتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے اندر محبت کا جذبہ فطری طور پر پایا جاتا ہے، وہ نہایت گہرائی کے ساتھ ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ محبت کے جذبے کو اگر خدا کے لیے خالص کیا جائے تو وہ توحید ہے، اور اگر ایسا ہو کہ محبت کا کوئی اور آبجکٹ (object of love) بن جائے تو وہ غلط ہے، اور اسی کا نام شرک ہے۔
قرآن میں اہل ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (
انسان کے لیے سچائی سے انحراف کا سب سے بڑا سبب ڈسٹریکشن (distraction) ہوتا ہے۔ اس معاملے میں محبت کا رول سب سے زیادہ اہم ہے۔ کسی انسان کو اگر اللہ کے سوا کسی اورسے حُب شدید ہو جائے تو وہ انحراف یا ڈسٹریکشن کی ایک صورت ہو گی۔ اور اس قسم کا انحراف یا ڈسٹریکشن کسی انسان کے لیے بے حد سنگین ہے۔ وہ انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتا ہے۔
آدمی کو جس سے حُب شدید ہو اسی کے لحاظ سے اس کی اخلاقیات بنتی ہیں۔ اسی کے لحاظ سے اس کی سوچ بنتی ہے۔ اسی کے لحاظ سے اس کی گفتگو کا انداز متعین ہوتا ہے۔ اسی کے لحاظ سے اس کے معاملات تشکیل پاتے ہیں۔ اسی کے لحاظ سے اس کی زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے۔
ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اس کا جائزہ لیتا رہے کہ اس کے حُب شدید کا جذبہ کس کے لیے ہے۔ اگر اس کے اندر حُب شدید کا جذبہ اللہ کے لیے ہے، تو اس کو شکر کرنا چاہے۔ اور اگر اس کے اندرحُب شدید کا جذبہ اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ اس کی تصحیح کرے۔ اس معاملے میں وہ اپنی اصلاح کرے۔وہ کوشش کرے کہ موت سے پہلےوہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ سے محبت کرنے والا بن جائے۔ اس معاملے میں کوئی انسان تاخیر کا تحمل نہیں کرسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ألہمنی رشدی، وأعذنی من شر نفسی(سنن الترمذی، حدیث نمبر3483)۔ یعنی اے اللہ، مجھ کو صحیح راستے کی ہدایت دے، اور مجھ کو میرے نفس کے شر سے بچا۔رُشد کے معنی ہیں راہ راست، یا ہدایت کا راستہ۔ یعنی وہ راستہ جس پر چل کر انسان کو دنیا اور آخرت کی فلاح حاصل ہوتی ہے۔
یہ راستہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔ ہدایت کے راستے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا، انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس کو یہاں نفس کا شر بتایا گیا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی سچائی کو جانے لیکن غلط تاویل کرکے اس کی صورت کو بدل دے۔
غلط تاویل ہمیشہ نفس کے شر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غلط تاویل کی گنجائش بہت زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ ایک واضح حکم کو بھی غلط تاویل کے ذریعے کچھ سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔مثلا قرآن میں آیا ہے کہ نماز قائم کرو۔اگر انسان کے اندر شر نہ ہو تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ اس کا مطلب سمجھ سکتا ہے، لیکن اگراس کے اندر شر ہو، یعنی اس کی نیت درست نہ ہو تو وہ عجیب و غریب تاویل کرکے اس کا مفہوم کچھ سے کچھ بنادے گا۔ مثلا اقامت صلاۃ کا مطلب ہے اقامت نظام، اقامت صلاۃ کا مطلب ہے سماج میں سدھار لانا، اقامت صلاۃ کا مطلب وہی چیز ہے جس کو اس زمانے میں سوشل سروس کہا جاتا ہے، وغیرہ۔
نفس کے شر سے بچنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ صرف دعا کے الفاظ بولنے سے آدمی نفس کے شر سے بچ نہیں سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں پچاس فیصد آدمی کا اپنا کام ہے، اور بقیہ پچاس فیصد دعا کا کام ہے۔ اس معاملے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی صدق نیت کے ساتھ راہ راست کو دریافت کرے۔ اس کے اندر اس پر عمل کرنے کا سچا جذبہ موجود ہو۔ پھر وہ اللہ سے اس پر استقامت کی دعا کرے۔وہ اللہ سے اس بات کی مدد مانگے کہ شیطان اس پر حاوی نہ ہوجائے۔ وہ شیطان کی تزئین اور اس کے وسوسہ کو پہچانے، اور اپنے آپ کو اس سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں
بن لادن جیسے لوگ اور القاعدہ جیسی تحریکوں کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کے پیچھے وہ عمومی مسلم سائیکی (psyche)ہے جو موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اتنی زیادہ پھیلی ہوئی ہے کہ شاید کوئی مسلمان بھی اس سے خالی نہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ بن لادن کو تمام مسلمانوں کی عالمی سپورٹ حاصل ہوئی۔ اسی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ اسلام کے نام پر اتنی زیادہ جرأت کے ساتھ اپنی تخریبی کارروائیاں جاری کر سکے۔ اگر بن لادن جیسے کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو کہ پوری مسلم ملّت ان کے ساتھ ہے تو وہ اتنے زیادہ بے حوصلہ ہو جائیں گے کہ کسی دشمن کی گولی کے بغیر اپنے آپ ہی ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بن لادن کے ظاہرہ کو سمجھنے کے لیے دور جدید کے مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا۔ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان ایک عمومی احساس شکست میں جی رہے تھے۔ قرآن و حدیث میں وہ پڑھتے تھے کہ اسلام خدا ئے برتر کا دین ہے اور اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا میں غالب ہو کر رہے۔ حدیث میں آیا ہے: الاسلام یعلو ولا یُعلیٰ(سنن الدار قطنی، حدیث نمبر3620)۔ آج کا مسلم مائنڈ یک طرفہ طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام غلبے کا دین ہے۔ اسی کے ساتھ ہر مسلمان اس احساس میں جی رہا ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام مغلوب ہو کر رہ گیا ہے۔
اس عمومی نفسیات کے دوران جب مسلمانوں نے دیکھا کہ بن لادن ان کے مفروضے کے مطابق اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو چیلنج کر رہا ہے۔ حتی کہ انہوں نے دیکھا کہ
اس معاملے میں مسلمانوں کی غلطی کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوتا ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک کم وبیش دنیا کے بڑے حصے پر مسلمانوں کی سلطنت قائم رہی۔ اس زمانے میں مسلمان واحد سپر پاور کی حیثیت رکھتے تھے۔ پھر نشاۃ ثانیہ کے بعد مغربی قوموں کا عروج ہوااور مسلمانوں کی تمام سلطنتیں ختم ہو گئیں۔ مثلاً اسپین میں دولت غرناطہ، ترکی میں عثمانی خلافت، انڈیا میں مغل سلطنت وغیرہ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلم ملکوں کو سیاسی آزادی ملی مگر یہ آزادی دوبارہ اقتصادی غلامی کے ہم معنی بن گئی۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا خاتمہ مسلمانوں کی اس غلط فکری کا آغاز تھا۔اس کا بھیانک Culminationبن لادن جیسے لوگوںکی صورت میں ظاہر ہوا۔ مسلم رہنمائوں نے مسلمانوں کے سیاسی زوال کو اسلام کے کلمے کے زوال کے ہم معنی سمجھ لیا۔ حالانکہ دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہ تھا۔
دور جدید میں مسلم سلطنتوں کا زوال دراصل کچھ مسلم حکمراں خاندانوں (dynasties)کا زوال تھا۔ وہ ہر گز اسلام کا زوال نہ تھا۔ دور جدید میں اسلام کا زوال دراصل نظریۂ اسلام کا زوال ہے۔ یہ واقعہ بلا شبہہ مغربی تہذیب کے عروج کے بعد پیش آیا۔ تاہم اس کا کوئی تعلق مسلم سیاست کے زوال سے نہ تھا۔ اگر اس کا تعلق مسلم سیاست کے زوال سے ہوتا تو اب تک وہ ختم ہو چکا ہوتا۔ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد دوبارہ مسلمانوں کی آزاد سلطنتیں قائم ہوگئیں۔ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی
اصل یہ ہے کہ اسلام کےنظریاتی زوال کا سبب اس سے زیادہ گہرا ہے جو کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔ اس معاملے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں پچھلی تاریخ کی ایک تصویر سامنے رکھنی ہوگی۔ اسی کے بعد ہی اس معاملے کی نوعیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
اسلام کا آغاز 610 عیسوی میں ہوا۔ اسلام توحید کا مذہب تھا۔ جب کہ اُس وقت تقریباً ساری دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ مشرکانہ کلچر ہر ملک میں چھایا ہوا تھا، جس کو وقت کے حکمرانوں کی سیاسی سپورٹ حاصل تھی۔ اُس وقت اسلام کا مقابلہ توحید ورسس شرک کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور اول کے مسلمانوں نے شرک کے مقابلے میں ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ یہاں تک کے شرک کا دَور عملاً ختم ہو گیااور توحید کا دَور شروع ہوگیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دور تقریباً ایک ہزار سال تک چلتا رہا۔ دوبارہ ایسا نہیں ہوا کہ شرک طاقتور ہوکر مذہبِ توحید کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔ مگر قرونِ وسطیٰ میں مغرب کا وہ انقلاب، جس کو نشاۃ ثانیہ کہا جاتا ہے، ایک نئے طاقت ور حریف کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس کا واضح آغاز سولھویں صدی میں ہوا ۔ اور چند صدیوں کے عمل کے بعد اس نے انتہائی طاقت ور حیثیت حاصل کرلی۔
اسلام کا یہ نیا طاقت ور حریف وہ تھا جس کو ایک لفظ میں سائنٹفک الحاد کہا جا سکتا ہے۔ سائنس علمِ فطرت کی حیثیت سے نہ مذہبی تھی اور نہ غیر مذہبی۔ مگر جدید سائنسی دَور میں یورپ میں ایسے مفکرین اٹھے جنہوں نے سائنس کی دریافتوں کو بطور خود الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جدید سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ تمام مذاہب، بشمول اسلام، صرف توہم پرستی کی پیداوار تھے۔ اس موضوع پر پچھلے دوسو سالوں میں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا ٹائٹل اس نوعیت کی تمام کتابوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ٹائٹل تھا:
God is dead
سائنٹفک الحاد نہایت تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ وہ علم کے تمام شعبوں پر چھا گیا۔ اس سائنٹفک الحاد نے بظاہر جدید دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں، وحی کی کوئی حقیقت نہیں، کوئی کتاب مقدس کتاب نہیں، جنت اور جہنم سب محض فرضی کہانیاں ہیں۔
اس جدید فکر کا آغاز سرآئزک نیوٹن (وفات1727) سے ہوا۔ پھر ایک کے بعد ایک ایسے سائنس داں پیدا ہوئے جن کی تحقیقات جدید الحاد کو تقویت دیتی رہیں۔ اگر چہ ان سائنس دانوں میں سے کوئی بھی سائنس دان معروف معنوں میں، منکرِ خدا یا منکرِ مذہب نہیں تھا، مگر ان کی تحقیقات نے بالواسطہ طور پر جو فکر پیدا کیا وہ یہی تھا۔
مثال کے طور پر نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں نے یہ دکھایا کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک پرنسپل آف کازیشن کام کر رہا ہے۔ قدیم تو ہماتی زمانے میں انسان نیچر کو پُراسرار سمجھتا تھا۔ فطرت کے ہر واقعے کے بارے میں وہ یہ گمان کرتا تھا کہ جو ہوا ہے وہ پُراسرار طور پر ہو گیا ہے۔ مگر سائنس نے جب واقعات کے پیچھے اس کا ایک مادّی سبب دریافت کیا تو شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ مان لیا گیا کہ ان کا خالق خدا نہیں ہے بلکہ کچھ اسباب ہیں جو واقعات کی تخلیق کر رہے ہیں۔ چناںچہ جدید ملحد مفکرین کی طرف سے یہ دعویٰ کردیا گیا :
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ الحاد جو علم کے زور پر اٹھا، یہی وہ چیز تھی جس کے بعد وہ صورتِ حال پیدا ہو گئی جس کو کلمۂ اسلام کی مغلوبیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ خدا کے وجود پَر شک کرنے لگے۔ مذہب کی صداقت ان کے نزدیک مشتبہ ہو گئی۔ اسلام ان کو دَور علم سے پہلے کا مذہب دکھائی دینے لگا۔
یہ ایک coincidenceتھاکہ جس زمانے میں مسلم سلطنتوں کو زوال ہوا تقریباً اسی زمانے میں اسلام کی نظریاتی صداقت کو بھی مشتبہہ سمجھا جانے لگا۔ تاہم یہ ایک زمانی اتفاق تھا، ورنہ ایسا ہرگز نہ تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کی بنا پر اسلام کا نظریاتی زوال پیش آگیا ہو۔ مگر اس دَور کے تقریباً تمام مسلم مفکرین اس غلط فہمی کا شکار رہے۔ انہوں نے معاملے کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیے بغیر یہ سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آرہا ہے۔ اس غلط اندازے کی بنا پَر انہوں نے ساری دنیا میں سیاسی جہاد شروع کردیا۔ مسلم ملکوں اور غیر مسلم ملکوں دونوں جگہ پر کوشش کی جانے لگی کہ مسلمان کے سیاسی اقتدار کا دَور دوبارہ واپس لایا جائے۔ ان کا مشترک طورپر یہ خیال تھا کہ جب تک ایسا نہ ہو، اسلام کا کلمہ دوبارہ غالب نہ ہو سکے گا۔ حالاں کہ کلمۂ اسلام کے غلبے سے مراد حق کا نظریاتی غلبہ تھا، جب کہ مسلم اقتدار کا مطلب صرف یہ تھا کہ ایک کمیونٹی یا ایک خاندان کی سیاسی حکومت قائم ہو جائے۔
مگر یہ سوچ سر تا سر بے بنیاد ہے، اور اس کے بے بنیاد ہونے کے لیے یہ ثبوت کافی ہے کہ دو سو سالہ سیاسی جہاد کے باوجود کلمۂ اسلام کا غلبہ ممکن نہ ہو سکا۔ میسور کے سلطان ٹیپو (وفات1799) سے لے کر فلسطین کے یاسر عرفات (وفات 2004) تک دو سو سال کا طویل زمانہ ہے۔ اس مدت میں مسلمانوںنے اپنے خیال کے مطابق غلبۂ اسلام کے لیے اپنے جان و مال کی اتنی زیادہ قربانیاں دی ہیں جو پچھلے چودہ سو سال کی مجموعی قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں، مگر یہ ساری قربانیاں سر تا سر بے سود ہو گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ فائدہ ملا کہ ان کی پچاس سے زیادہ آزاد سلطنتیں بن گئیں، مگر جہاں تک غلبۂ اسلام کا سوال ہے وہ بدستور ایک بے تعبیر خواب بنا ہوا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی مغلوبیت کا معاملہ، اسلام کی نظریاتی مغلوبیت کا معاملہ ہے۔ یہ مغلوبیت اس لیے پیش آئی کہ اسلام کو موجودہ زمانے کی علمی اور نظر یاتی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ اب دوبارہ یہ غلبہ صرف اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ زمانۂ جدید کے معیار کے لحاظ سے وقت کی علمی اور نظریاتی تائید اسلام کے حق میں فراہم کی جائے۔
اسلام کے ابتدائی ظہور کے بعد اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوا، وہ بھی حقیقتاً مسلمانوں کے سیاسی غلبے کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ بھی اسلام کے نظریاتی غلبہ کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خلافتِ عباسیہِ کے دَور میں مسلمانوں نے اس زمانے کے علوم کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے تک علمِ انسانی نے جو لٹریچر تیار کیا تھا، ان کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا، اور پھر بہت بڑے پیمانے پر اُن کا جائزہ لیا گیا۔ ان علوم کی تعلیم کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے ادارے قائم کیے گیے۔ اسی کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ راجر بیکن (وفات1292) جس نے انگلینڈ میں سب سے پہلی یونیورسٹی (کیمبرج یونیورسٹی) قائم کی، وہ قُرطبہ کی مسلم یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا۔
یہ ایک لمبی تاریخ ہے اور اس پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دَور کے مسلمانوں نے اپنے زمانے کے علوم پڑھ کر اسلام کی علمی تشریح کی اور اسلام کی علمی بالا دستی کو دلائل کی زبان میں ثابت کیا۔ حتی کہ اہلِ علم کے لیے اسلام کا نظریہ ایک ایسا نظریہ بن گیا جو پوری طرح ایک علمی مسلّمہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسلام کو ماننا علم کو ماننا تھا، اور اسلام کا انکار کرنا، علم کا انکار کرنا تھا۔
قدیم زمانے میں جن علوم کو ترقی حاصل ہوئی وہ زیادہ تر فلسفیانہ حیثیت رکھتے تھے۔ ان علوم کی بنیاد قدیم یونانی منطق پر قائم تھی۔ جس کو قیاسی منطق (syllogism)کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں نے اس یونانی منطق کو استعمال کر کے اس کو بھر پور طور پر اسلام کا مؤید بنا دیا۔ یہاں تک کہ خالص علمی طور پر کسی کے لیے یہ گنجایش باقی نہ رہی کہ وہ علمی بنیاد پر اسلام کی صداقت کا انکار کرسکے۔
مگر موجودہ زمانے میں جدید سائنس کے ظہور کے بعد پوری صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ جدید سائنس نے قدیم سیاسی منطق کو ڈھا دیا۔ اب ایک نئی منطق ظہور میںآئی، جس کو سائنسی منطق (scientific logic)کہا جاتا ہے۔ قدیم یونانی منطق قیاسات پر قائم تھی، اس کے مقابلے میں جدید سائنسی منطق حقائق پر قائم ہوتی ہے۔ اس فرق نے قدیم دَور کو ختم کردیا۔ اسی کے ساتھ وہ دَوربھی ختم ہوگیا جو اسلامی نظریات کے لیے علمی بنیاد بنا ہوا تھا۔ گویا کہ کلمۂ اسلام کی مغلوبیت کا سبب اس کے حق میں نظریاتی بنیاد(base)کا خاتمہ تھا، نہ کہ کسی سیاسی بنیاد کا خاتمہ۔
دَور جدید میں جب یہ علمی انقلاب آیا تو ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں دوبارہ وہی علمی سرگرمیاں جاری ہوں جو عباسی خلافت کے دَور میں جاری ہوئی تھیں۔ اب ضرورت تھی کہ مسلم علماء جدید افکارکو پڑھ کر ان کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور اسلام کی نظریاتی بنیاد کو ازسرِنو جدید علمی مسلَّمات پر قائم کریں، جیسا کہ دورِ قدیم کے مسلم علماء نے اپنے زمانے میں کیا تھا۔ مگر بَر وقت ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اِس زمانے کے تقریباً تمام علماء نظریاتی اسلام اور مسلم اقتدار کو الگ کر کے نہ دیکھ سکے:
They failed to differentiate between Muslim rule and Islamic ideology.
اسی بے خبری کی بنا پر انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام کو نظریاتی زوال پیش آگیا۔ چناںچہ وہ مغربی قوموں کے خلاف سیاسی لڑائی میں مشغول ہو گیے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہی قومیں مسلمانوںکے سیاسی زوال کا سبب تھیں۔ مگر یہ ایک بھیانک قسم کا غلط اندازہ تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک شخص جو تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے جاہل رہ گیا ہو، اس کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے جسمانی طاقت کا انجکشن دیاجانے لگے۔ حالاں کہ یہ معلوم ہے کہ کوئی شخص صرف جسمانی تندرستی کی بنا پر تعلیم یافتہ نہیں بن سکتا۔
اس معاملے میں مزید غلطی یہ ہوئی کہ مغربی قوموں سے سیاسی نفرت کی وجہ سے مسلم علماء اور رہنما مغرب کی زبان اور مغرب کی سائنس سے بھی نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی نسلیں مغربی تعلیم سے دور رہیں تاکہ ان کا ایمان اور اسلام محفوظ رہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ سادہ طور پر تحفظِ اسلام کا مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ نئی علمی بنیاد فراہم کرنے کا مسئلہ تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ دہرا غلط اندازہ تھا۔ جس نے مسلمانوں کو اس شعور سے محروم کردیا کہ وہ دوبارہ اسلام کے لیے مضـبوط علمی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کر سکیں۔
اسلام عین اسی عالمی قانون کا ایک مظہر ہے، جس کے تحت ساری کائنات چل رہی ہے۔ اسلام فطرت کا دین ہے۔ اس لیے اسلام اسی طرح ہمیشہ زندہ رہتا ہے جس طرح سورج ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ کوئی بدلی وقتی طورپرروشن سورج کو ڈھانپ سکتی ہے۔ لیکن بدلی کے ہٹتے ہی دوبارہ سورج کا روشن چہرہ اسی طرح سامنے آجاتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا۔
سورج کے چہرے سے بدلی کے چھٹنے کا یہ واقعہ خود سائنس میں، اس کے بعد کے دَور میں، پیش آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس اعتبار سے سائنس کے دو دَور ہیں۔ایک دَور البرٹ آئن سٹائن (وفات1955) سے پہلے کا ہے اور دوسرا، البرٹ آئن سٹائن کے بعدکا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک سائنس کی تحقیق اُس دنیا تک محدود تھی جس کو عالمِ کبیر (macroworld)کہا جاتا ہے۔اس زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں اپنے آخری تجزیے میں ایٹم کا مجموعہ ہیں۔ اور ایٹم ایک ایسی چیز ہے جس کو تَولا اور ناپا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر اُ س دَور میں یہ نظریہ بنا کہ حقیقی وجود صرف اسی چیز کا ہے جو توَلی اور ناپی جا سکے۔ جو چیز تَول اور ناپ میں نہ آئے اس کا کوئی حقیقی وجود بھی نہیں۔
مگر آئن سٹائن کے زمانے میں ایک انقلابی واقعہ پیش آیا۔ اس زمانے میں یہ ہوا کہ انسانی علم میکرو ورلڈ (macroworld)سے گزر کر مائکرو ورلڈ (microworld)تک پہنچ گیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم ہماری دنیا کا آخری ذرہ نہیں۔ خود ایٹم بھی ایک مجموعہ ہے، جو الکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنا ہے۔ مگر تحقیق نے بتایا کہ الکٹران، ایٹم کی طرح کوئی مادّی ذرّہ نہیں، بلکہ الکٹران غیر مرئی لہروں (waves)کا نام ہے۔ ان لہروں کو دیکھا نہیں جاسکتا۔ ان کے بارے میں صرف یہ ممکن ہے کہ بالواسطہ اثرات کے ذریعے اُن کے وجود کے بارے میں کچھ اندازسے قائم کیے جاسکیں۔
ایٹم کا لہروں میں تبدیل ہو جانا، سائنس میں ایک بے حد اہم واقعہ تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ استنباط (inference)کو ایک ٹھوس علمی بنیاد حاصل ہوگئی۔ اب یہ مان لیا گیا :
Inferential argument is as valid as direct argument.
منطق میں اس تبدیلی نے سائنس کی دنیا میں انقلاب پیدا کردیا۔ آئن سٹائن سے پہلے تک یہ کہا جاتا تھا کہ مذہب میں صرف سکنڈری آرگمنٹ (secondary argument)ممکن ہے۔ مذہب میں پرائمری آرگمنٹ (primary argument)ممکن نہیں۔ چوں کہ مذہب یا اسلام کے عقائد پر تمام استدلالات استنباطی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور مذکورہ تقسیم میں استنباط ایک سکنڈری استدلال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے مذہب کو ان علوم میں شامل کر لیا گیا تھا جن کو (speculative)سائنسیز کہا جاتا ہے۔
مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد جب منطق میں تبدیلی آئی اور استنباطی استدلال کو عین سائنسی استدلال کا درجہ مل گیا تو اس کے بعد مذہب یا اسلام کی علمی بنیاد میں بھی تبدیلی آگئی۔ اب مذہبی یا استنباطی استدلال کے طریقے کو پرائمری استدلال کا درجہ حاصل ہو گیا، جب کہ اس سے پہلے اس کو صرف سکنڈری استدلال کا درجہ ملا ہوا تھا۔
اب خود علمِ انسانی میں نئے واقعات پیش آنے لگے۔ مثال کے طور پَر سائنس کے دورِ اوّل کے ذہن کو لے کر برطانیہ کے جولین ہکسلے (وفات1975) نے ایک کتاب لکھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ اب انسان کو خداکی ضرورت نہیں، اب انسان خود ہی اپنا سب کچھ بَن سکتا ہے۔ اس کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man Stands Alone
اس کے بعد امریکا کے ڈاکٹر کریسی ماریسن (وفات: 1951) نے ایک اور کتاب چھاپی، جس میں سائنسی حقائق کی روشنی میں دکھایا گیا تھا کہ انسان صرف مخلوق ہے، وہ خدا کا درجہ نہیں لے سکتا۔ اس دوسری کتاب کا ٹائٹل یہ تھا:
Man does not Stand Alone
اس طرح برٹرینڈر سل (وفات1975) نے اپنی کتاب Why I am not a Christian میں لکھا کہ آرگمینٹ فرام ڈزائن(argument from design) خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایک سائنٹفک استدلال ہے۔ مگر ڈارونزم نے اس استدلال کو ڈیسٹرائے کردیا ہے۔ اس کے جواب میں پروفیسر لون Arnold Henry Moore Lunn)، وفات1974ء) نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام تھاThe Revolt Against Reason ۔اِس کتاب میں دکھایا گیا تھا کہ ڈارونزم خود ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ پھر وہ آرگمینٹ فرام ڈزائن کے ثابت شدہ نظریے کو کیسے ڈیسٹرائے کر سکتا ہے۔
علمِ انسانی میں اس تبدیلی کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ اب مذہب اور سائنس کی دوری ختم ہو رہی ہے۔ دونوں ہی علم کے یکساں پہلو ہیں۔ سائنس کے اس دوسرے دَور میں بہت سے اعلیٰ ذہن اُبھرے ، جنہوں نے جدید حقائق کو لے کر بتایا کہ مذہبی صداقتیں اتنی ہی حقیقی ہیں، جتنا کہ مادّی صداقتیں۔
قدیم نیو ٹینین دَور کو پہلا دھکّا اس وقت لگا جب کہ یہ ثابت ہوا کہ روشنی کے بارے میں نیوٹن کی مادی تعبیر (corpuscular theory of light) درست نہ تھی۔ نیوٹن کے نظریے کی غلطی پہلی بار اس وقت ظاہر ہوئی جب علماء نے روشنی کی مادّی تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش انہیں ایتھر (ether)کے عقیدے تک لے گئی، جو بالکل مجہول اور غیر ثابت شدہ عنصر تھا۔ کچھ نسلوں تک یہ عجیب و غریب عقیدہ چلتا رہا۔ روشنی کی مادّی تعبیر ثابت کرنے کے لیے زبردست کوششیں کی گئیں۔
لیکن میکسویل(Maxwell)کے تجربات کی اشاعت کے بعد یہ مشکل ناقابل عبور نظر آنے لگی۔ کیوں کہ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ روشنی ایک برقی مقناطیسی مظہر (electromagnetic phenomenon) ہے۔ یہ خلا بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ دن آیا جب علمائے سائنس پر واضح ہوا کہ نیوٹن کے نظریات میں کوئی چیز مقدس نہیں۔ بہت دنوں کے تذبذب اور بجلی کو مادی (mechanical)ثابت کرنے کی آخری کوششوں کے بعد بالآخر بجلی کو ناقابل تحویل عناصر (irreducible elements)کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔
یہ بظاہر ایک سادہ سی بات ہے۔ مگر در حقیقت یہ بہت معنی خیز فیصلہ ہے۔ نیوٹن کے تصور میں ہم کو سب کچھ اچھی طرح معلوم تھا۔ اس کے مطابق ایک جسم کی کمیت اس کی مقدار مادہ تھی، طاقت کا مسئلہ حرکت سے سمجھ میں آجاتا تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یقین کرلیا گیا تھا کہ ہم اس فطرت کو جانتے ہیں جس کے متعلق ہم کلام کر رہے ہیں۔ مگر بجلی کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی فطرت (nature)ایسی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے۔ اس کو معلوم اصطلاحوں میں تعبیر کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں۔ وہ سب کچھ جو ہم بجلی کے متعلق جانتے ہیں وہ صرف وہ طریقہ ہے جس سے وہ ہمارے پیمائشی آلات کو متاثر کرتی ہے— اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات کس قدر اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وجود (entity)کو طبیعیات میں تسلیم کر لیا گیا جس کے متعلق ہم اس کے ریاضیاتی ڈھانچے کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
اس کے بعد اس نہج پر اس قسم کے اور بھی وجود تسلیم کئے گئے۔ اور یہ مان لیا گیا کہ یہ لامعلوم ہستیاں بھی سائنسی نظریات کے بنانے میں وہی حصہ ادا کرتی ہیں جو قدیم معلوم مادہ ادا کرتا تھا۔ یہ حقیقت قرار پا گیا کہ جہاں تک علم طبیعات کا تعلق ہے، ہم کسی چیز کے اصلی وجود کو نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف اس کے ریاضیاتی ڈھانچے(mathematical structure)کو جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اب اعلیٰ ترین سطح پریہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہمارا یہ خیال کہ ہم اشیاء کو ان کی آخری صورت میں دیکھ سکتے ہیں، محض فریب تھا۔ نہ صرف یہ کہ ہم نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ہم اسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔
پروفیسر اڈنگٹن (Eddington)کے نزدیک ریاضیاتی ڈھانچہ کا علم ہی وہ واحد علم ہے جو طبیعیاتی سائنس ہمیں دے سکتی ہے۔
’’جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوئوں سے قطع نظر، کمیت مادہ، جوہر، وسعت اور مدت وغیرہ، جو خالص طبیعیات کے دائرے کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں، ان کی کیفیت کو جاننا بھی ہمارے لئے ویسا ہی مشکل ہوگیا ہے جیسے غیر مادی چیزوں کی حقیقت کو جاننا۔ موجودہ طبیعیات اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں سے براہ راست واقف ہوسکے۔ ان کی حقیقت ادراک سے باہر ہے۔ ہم ذہنی خاکوں کی مدد سے اندازہ کرتے ہیں۔ مگر ذہن کا کوئی عکس ایک ایسی چیز کی بعینہ نقل نہیں ہو سکتا جو خود ذہن کے اندر موجود نہ ہو۔ اس طرح اپنے حقیقی طریق مطالعہ کے اعتبار سے طبیعیات ان خارج ازادراک خصوصیتوں کا مطالعہ نہیں کرتی بلکہ وہ صرف مطالعہ برآلہ (Pointer-reading) ہے جو ہمارے علم میں آتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مطالعہ عمل کائنات کی بعض خصوصیات کو منعکس کرتا ہے، مگر ہماری اصل معلومات آلاتی مطالعہ سے متعلق ہیں نہ کہ وہ خصوصیات کے بارے میں ہیں۔ آلاتی مطالعہ کو اشیاء کی حقیقی خصوصیات سے وہی نسبت ہے جو ٹیلی فون نمبر کو اس شخص سے جس کا وہ فون نمبر ہے‘‘۔
The Domain of Physical Science - Essay in Science Religion and Reality
یہ واقعہ کہ سائنس صرف ڈھانچہ کی معلومات تک محدود ہے، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت ابھی پورے طور پر معلوم شدہ نہیں ہے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے احساسات یا خدا سے اتصال کا عارفانہ تجربہ اپنا کوئی خارجی جواب (objective counterpart)نہیں رکھتا۔ یہ قطعی ممکن ہے کہ ایسا کوئی جواب خارج میں موجود ہو۔ ہمارے مذہبی اور جمالیاتی احساسات اب محض مظاہر فریب(illusory phenomenon)نہیں کہے جاسکتے جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا۔ نئی سائنسی دنیا میں مذہبی عارف بھی ایک حقیقت کے طور پر رہ سکتا ہے۔
The Limitations of Science (pp. 138-42)
سائنٹفک فلاسفہ نے اس قسم کی تشریحات شروع کردی ہیں۔ مارٹن وائٹ (Morton White) کے الفاظ میں—بیسویں صدی میں فلسفیانہ ذہن رکھنے والے سائنس دانوں نے ایک نئی جنگ (Crusade)کا آغاز کردیا ہے۔ جس میں وہائٹ ہیڈ،ایڈنگٹن اور جینز کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔‘‘(The Age of Analysis, [pp.
He is a heroic thinker who tries to beard the lions of intellectualism, materialism and positivism in their own bristling den.
انگریز ماہر ریاضیات اور فلسفی الفرڈنارتھ وائٹ ہیڈ (وفات1947) کے نزدیک جدید معلومات یہ ثابت کرتی ہیں کہ فطرت بے روح مادہ نہیں، بلکہ زندہ فطرت ہے۔
Nature is Alive (p.
انگریز ماہر فلکیات سرآرتھر اڈنگٹن (وفات1944) نے موجودہ سائنس کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کائنات کا مادہ ایک شئے ذہنی ہے :
The stuff of the world is mind-stuff. (p.
ریاضیاتی طبیعیات کا انگریز عالم سر جیمز جینز (وفات1946) جدید تحقیقات کی تعبیر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ کائنات، مادی کائنات نہیں بلکہ تصوراتی کائنات ہے:
The universe is a universe of thought. (p.
یہ انتہائی مستند سائنس دانوں کے خیالات ہیں جن کا خلاصہ جے ڈبلیو این سولیون کے الفاظ میں یہ ہےکہ کائنات کی آخری ماہیت ذہن ہے{ FR 1537 } :
The ultimate nature of the universe is mental. (p.
یہ ایک عظیم تبدیلی ہے جو پچھلی نصف صدی کے دوران میں سائنس کے اندر ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کا اہم ترین پہلو، جے .ڈبلیو.این. سولیون کے الفاظ میں یہ نہیں ہے کہ تمدنی ترقی کے لئے زیادہ طاقت حاصل ہو گئی ہے۔ بلکہ یہ تبدیلی وہ ہے جو اس کی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں (Metaphysical Foundation)میں واقع ہوتی ہے۔
The Limitations of Science, (pp. 138-50)
برطانیہ کے مشہور ماہر فلکیات اور ریاضی داں سرجیمز جینز (Sir James Jeans)کی کتاب ’’پراسرار کائنات‘‘ غالباً اس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے زیادہ قیمتی مواد ہے۔ اس کتاب میں موصوف خالص سائنسی بحث کے ذریعہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں :
’’جدید طبیعیات کی روشنی میں کائنات مادی تشریح (material representation) کو قبول نہیں کرتی۔ اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اب وہ محض ایک ذہنی تصور (mental concept)ہوکر رہ گئی ہے۔‘‘
The Mysterious Universe, 1948 (p.
جینز کے الفاظ میں:
If the universe is a universe of thought, then its creation must have been an act of thought. (pp. 133-34)
یعنی جب کائنات ایک تصوراتی کائنات ہے تو اس کی تخلیق بھی ایک تصوراتی عمل سے ہونی چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ مادہ کو امواج برق سے تعبیر کرنے کا جدید نظریہ انسانی تخیل کے لئے بالکل ناقابل ادراک ہے۔ چناںچہ کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ لہریں محض امکان کی لہریں (waves of probability)ہوں جن کا کوئی وجود نہ ہو— یہ اور اس طرح کے دوسرے وجود سے سر جیمز جینز اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ کائنات کی حقیقت مادہ نہیں، بلکہ تصور ہے۔ یہ تصور کہاں واقع ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ایک عظیم کائناتی ریاضی داں (mathematical thinker)کے ذہن میں ہے۔ کیونکہ اس کا ڈھانچہ، جو ہمارے علم میں آتا ہے، وہ مکمل طور پرریاضیاتی ڈھانچہ ہے۔ یہاں میں اس کا ایک اقتباس نقل کروں گا:
’’ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ علم کا دریا پچھلے چند سالوں میں ایک نئے رخ پر مڑا ہے۔ تیس سال پہلے ہم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم ایک ایسی حقیقت کے سامنے ہیں جو اپنی نوعیت میں مشینی (mechanical) قسم کی ہے۔ ایسا نظرآتا تھا کہ کائنات ایٹموں کے ایک ایسے بے ترتیب انبار پر مشتمل ہے جو اتفاقی طور پر اکھٹا ہوگئے ہیں اور جن کا کام یہ ہے کہ بےمقصد اور اندھی طاقتوں کے عمل کے تحت، جو کوئی شعور نہیں رکھتیں، کچھ زمانے کے لئے بے معنی رقص کریں جس کے ختم ہونے پر محض ایک مردہ کائنات باقی رہ جائے۔ اس خالص میکانکی دنیا میں، مذکورہ بالا اندھی طاقتوں کے عمل کے دوران میں، زندگی محض اتفاق سے وجود میں آگئی۔ کائنات کا ایک بہت ہی چھوٹا گوشہ یا امکان کے طورپر اس طرح کے کئی گوشے کچھ عرصے کے لئے اتفاقی طور پر ذی شعور ہو گئے ہیں اور یہ بھی ایک بے روح دنیا کو چھوڑ کر بالآخر ایک روز ختم ہو جائیں گے۔ آج ایسے قوی دلائل موجود ہیں جو طبیعی سائنس کو یہ ماننے پر مجبور کرتے ہیں کہ علم کا دریا ایک غیر مشینی حقیقت (non-mechanical reality)کی طرف چلا جارہا ہے۔ کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے خیال(great thought)سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ ذہن (mind) اتفاقاً محض اجنبی کی حیثیت سے اس مادی دنیا میں وارد نہیں ہوگیا ہے۔ اب ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ رہے ہیں کہ ذہن کا عالم مادی کے خالق اور حکمراں کی حیثیت سے استقبال کریں۔ یہ ذہن بلاشبہہ ہمارے شخصی ذہن کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ ایسا ذہن ہے جس نے مادی ایٹم سے انسانی دماغ کی تخلیق کی۔ اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں پہلے سے اس کے ذہن میں موجود تھا۔ جدید علم ہم کو مجبور کرتا ہے کہ ہم دنیا کے بارے میں اپنے خیالات پر نظرثانی کریں جو ہم نے جلدی میں قائم کر لئے تھے—— ہم نے دریافت کر لیا ہے کہ کائنات ایک منصوبہ ساز یا حکمراں (designing or controlling power)کی شہادت دے رہی ہے جو ہمارے شخصی ذہن سے بہت کچھ مشابہ ہے۔ جذبات و احساسات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس طرز پر سوچنے کے اعتبار سے جس کو ہم ریاضیاتی ذہن (Mathematical Mind)کے الفاظ میں ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
The Mysterious Universe. (pp. 136-38)
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں مذکورہ کام جو ہو رہا تھا، اس کو ایک لفظ میں، spiritualization of scienceکہا جا سکتا ہے۔ یہ کام اس وقت اعلیٰ ترین سائنسی دماغ کر رہے تھے۔ مثلاً وائٹ ہیڈ، سرآرتھراڈنگٹن اور سر جیمز جینز، وغیرہ۔ مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعلیٰ دماغ دوبارہ اِس علمی تحریک کو نہ مل سکے، جس کو ہم نے اسپریچولائزیشن آف سائنس کا نام دیا ہے۔
اس کا سبب غالباً عالمی سماج میں وہ نیا ظاہرہ تھا جس کو کنزیومر ازم کہا جاتا ہے۔ کنزیومرازم کی غیر معمولی مقبولیت نے صرف ان چیزوںکو اہمیت دے دی جو مارکٹ ایبل تھیں۔مذکورہ عمل تھیورٹیکل سائنس سے تعلق رکھتا تھا۔ اور تھیوریٹکل سائنس میں کمرشیل ویلو زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام اعلیٰ دماغ ٹکنکل سائنس کے شعبوں میں کام کرنے لگے۔ کیوں کے تمام بڑے بڑے اقتصادی فائدے سائنس کے ٹکنکل شعبوں سے متعلق ہو گئے تھے۔ اس طرح تھیوریٹکل سائنس میں ریسرچ کا کام اپنی آخری تکمیل تک پہونچنے سے پہلے رُک گیا۔ اب ضرورت تھی کے بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کام میں لگیں اور اس کو اس کی آخری تکمیل تک پہونچائیں۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مذہبی حلقے میں اعلیٰ دماغ موجود تھے۔ مگر وہ اِس اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ گیے۔
جدید تہذیب کے ظہور کے بعد اہلِ مذاہب کے لیے یہ نیا مسئلہ پید ا ہوگیا تھا کہ لوگ جدید تعلیم اور جدید افکار سے متاثر ہو کر مذہب کے روایتی عقیدے پر شک کرنے لگے تھے۔ چناںچہ تمام بڑے بڑے مذہبی دماغ اس کے دفاع میں لگ گیے۔ ہندوئوں میں اس زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے مثلاً ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975 ) وغیرہ۔ مگر یہ لوگ ہندو مذہب کی میتھالوجی کے حق میں بطور خود ریشنل پروف فراہم کرنے میں مصروف ہوگیے۔ اسی طرح عیسائیوں میں بڑے بڑے دماغ پیدا ہوئے۔ مثلاً ڈاکٹربلی گراہم، وغیرہ۔ ان لوگوں نے بھی یہی کیا کہ عیسائیت کے روایتی عقائد، تثلیث اور کفاّرہ وغیرہ کو بطور خود عقلی بنیاد فراہم کرنے میں مصروف ہو گیے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے یہاں بھی اسی زمانے میں بڑے بڑے دماغ پیداہوئے مثلاً سید جمال الدین افغانی، وغیرہ۔مگر مسلم اہلِ دماغ ایک اور غلطی میں مبتلا ہو گیے۔ عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں کو سیاسی زوال پیش آگیا۔ چناںچہ مسلمانوں کے تمام اعلیٰ دماغ پولٹکل محاذ پر مصروف ہو گیے۔ کچھ افراد نے پولٹکل لڑائی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ کچھ اور افراد نے اسلام کو پولٹکل انٹرپریٹیشن دینے کو سب سے بڑا کام سمجھ لیا۔ اس طرح یہ ہوا کہ مسلم اہلِ دماغ سیاست کے جنگل میں کھو گیے۔ وہ مذکورہ عمل کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے بڑا کام اعلائے کلمۂ اسلام کا ہے۔ مگر اس کام کے لیے نہ تو مسلّح جہاد کی ضرورت ہے اور نہ اسلام کوپولٹکل ثابت کرنے سے اسلام میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے، اور نہ بن لادن جیسے لوگ اسی معاملے میں کوئی پازیٹیو رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تدبیروں کے غلط ہونے کے لیے یہی کافی ثبوت ہے کہ دوسو سال تک مسلمانوں کی کئی جنریشن ان راہوں میں قربانی دیتی رہی مگر اصل مطلوب مقصد ایک فیصد بھی حاصل نہ ہو سکا۔
اِس پہلو سے موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے حق میں انسانی علم کی بنیاد کھودی ہے۔ یہ علمی بنیاد دوبارہ اس طرح فراہم ہو سکتی ہے کہ اُس عمل کو آخری تکمیل تک پہنچایا جائے، جس کو ہم نے اسپریچویلائزیشن آف سائنس کہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ دماغ اس کام میں اپنے آپ کو وقف کریں آج مسلمانوں کو بن لادن جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ضرورت ہے کہ ان کے اندر وائٹ ہیڈ، آرتھراڈ نگٹن اور جیمز جینز جیسے افراد پیدا ہوں۔ بن لادن جیسے لوگ صرف تخریب کا کام کر سکتے ہیں، جب کہ آج اصل ضرورت یہ ہے کہ مثبت تعمیر کا کام کیا جائے۔ خاص طور پَر علمی اور سائنسی تعمیر۔
قرآن میں یہ خبردی گئی ہے کہ خدا نے انسان کو دنیا کی تمام چیزوں کا علم دے دیا ( وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا)البقرۃ،آیت30۔ انسانی برین کے بارے میں جدید دریافت گویا اس آیت کی تفسیر ہے۔ جدید دریافت بتاتی ہے کہ ہر انسانی برین میںبے شمارپارٹکلس ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو میلین، بلین بلین سے زیادہ پارٹکل۔ یہ کوئی سَینڈ پارٹکل کے مانند نہیں، بلکہ وہ انفارمیشن پارٹکل ہیں۔ ان پارٹکل کے ذریعے گویا خدا نے ہر قسم کی معلومات کو انسانی دماغ میں فیڈ کردیا ہے۔ ان پارٹکل میں فزکل معلومات بھی ہیں اور اسپریچول معلومات بھی۔
موجودہ زمانے میں سائنس دانوں نے کائنات کو دریافت کر کے بے شمار چیزیں بنائی ہیں۔ یہ دریافتیں در اصل دریافتیں نہیں ہیں بلکہ وہ انسانی دماغ میں پہلے سے موجود انھیں انفارمیشن پارٹکلس کی اَن فولڈنگ ہیں۔ اس طرح انسان نے بہت بڑی مقدار میں اپنے دماغ میں فیڈ کی ہوئی فزیکل معلومات کو ان فولڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مگر جہاں تک دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کا تعلق ہے اس کا بڑا حصہ ابھی تک اَن فولڈ نہ ہوسکا۔دماغ میں فیڈ کی ہوئی اسپریچول انفارمیشن کو اَن فولڈ کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم اہلِ دماغ کو یہی کام کرنا ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کو انجام دینے پر اعلائے کلمۂ اسلام کا دروازہ ان کے لیے کھُلے گا۔
***************************************
اپنا گھر ، ٹسٹ گھر
اس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر گھر، ٹسٹ ہاوس ہے۔ اس دنیا میں ہر کار، ٹسٹ کار ہے۔اس دنیا میں ہر پراپرٹی، ٹسٹ پراپرٹی ہے۔اس دنیا میں ہر اولاد، ٹسٹ اولاد ہے۔اس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔مگر آدمی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے،یہاں تک کہ اچانک موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلہ حیات میں داخل ہو جاتا ہے۔اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیز سمجھتا تھا،وہ خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طور پر ملی ہوئی تھیں۔پچھلا دور حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طور پر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔اس سے مستثنی صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو ان کے حسن عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی زندگی میں ابتدائی تقریباً دس سال کو حیاتیاتی اعتبار سے تیاری کا دور (formative period) کہا جاتا ہے۔ اس ابتدائی دورِ حیات میں انسان کی شخصیت کا بڑا حصہ عملا ً بن کر تیار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میںیہ ابتدائی مدت، تربیت کے نقطۂ نظر سے بہت زیادہ اہم ہے۔
پیغمبر اسلام نے اس تربیتی مقصد کے لیے اپنی زندگی میں دو اشخاص کو خصوصی طور پر چنا۔ ایک، علی ابن ابی طالب اور دوسرے، عائشہ بنت ابی بکر۔ دونوں کو آپ نے یہ موقع دیا کہ وہ کم عمری میں آپ کی صحبت میں رہ کر تربیت پائیں، اور وہ چیز حاصل کریں جس کو قرآن(البقرۃ
حکیمانہ تربیت کا یہ مقصد صرف کم عمری میں حاصل کیا جاسکتا تھا۔ آپ نے علی ابن ابی طالب کو اپنی صحبت میں رکھنے کا یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ آپ کم عمری میں ان کےکفیل بن گیے۔عائشہ ایک خاتون تھیں، اس لیے ان کے لیے یہ طریقہ قابلِ عمل نہ تھا۔ چناں چہ آپ نے عائشہ بنت ابی بکر سے کم عمری میں نکاح کرلیا۔ روایات کے مطابق،یہ نکاح اس وقت ہوا جب کہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی، اوررخصتی اس وقت ہوئی جب کہ ان کی عمر نو سال ہو چکی تھی (صحیح البخاری، حدیث نمبر5188) ۔
کچھ لوگوں نے عائشہ کی عمرِ نکاح کے بارے میں تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ مگر یہ ایک غیر ضروری کوشش ہے۔یہ زاویۂ نظرکے فرق کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ اس واقعہ کو نکاح کے زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ تیاری کی مدت (formative period) میں پیغمبرانہ تربیت کا معاملہ ہے۔
نتیجہ اس توجیہہ کی تصدیق کرتا ہے۔ چناں چہ یہ بات علماء کے درمیان ایک ثابت شدہ حقیقت سمجھی جاتی ہے ، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ علی اور عائشہ، دونوں بصیرت اور تفقہ کے اعتبار سے تمام صحابہ میں امتیازی درجہ رکھتے ہیں۔
رسول سے استفادے کی ایک صورت یہ تھی کہ آپ کے اقوال کو محفوظ کرلیا جائے ، اور اس کو لوگوں سے بیان کیا جائے۔ اس معاملہ میں ابو ہریرہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ رسول اللہ کی باتوں کو سن کر اور آپ کے عمل کو دیکھ کر حقائق کا استنباط کیا جائے۔ یہ دوسرا فائدہ صرف متواتر صحبت کے ذریعے حاصل ہوسکتا تھا۔ اس دوسرے مقصد کے لیے علی ابن ابی طالب اور عائشہ بنت ابی بکر کا کم عمری میں انتخاب کیا گیا۔
مثال کے طور پر علی ابن طالب کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے:قیمة کل امرئ ما یحسن (جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 608-9)۔یہ بات ان الفاظ میں کسی حدیث رسول میں نہیں آئی ہے۔ یہ رسول کی صحبت سے مستنبط کی ہوئی ایک حکمت ہے۔ اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کسی انسان کی قدر و قیمت اس اعتبار سے متعین ہوتی ہے کہ وہ اپنے کام کو کتنے امتیاز کے ساتھ انجام دیتا ہے :
The value of a person lies in his excellence .
یہی معاملہ عائشہ بنت ابی بکر کا ہے۔ حضرت عائشہ کے استنباطات مشہور ہیں۔ یہ تمام استنباطات اعلیٰ حکمت کا نمونہ ہیں۔ وہ رسول اللہ کی صحبت سے اخذ کی ہوئی حکمت کی باتیں ہیں۔ مثلا حضرت عائشہ کا یہ حکیمانہ قول :ما خیر النبی صلى اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار أیسرہما(صحیح البخاری، حدیث نمبر6786)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان تر کا انتخاب کرتے تھے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
رسول اللہ سے سنی ہوئی باتوں کو حدیث کہا جاتا ہے۔ علی اور عائشہ کا امتیاز استنباط کے پہلو سے ہے۔ انھوں نے رسول اللہ کی صحبت میں رہ کر حکمت کی باتیں اخذ کیں۔ اور ان کو اپنی زبان میں بیان کیا۔ کم عمری میںان دونوںصاحبان کے لیے صحبت رسول بہت مفید تھی۔ اس صحبت نے ان کے اندر اخذ (grasp) کی طاقت کو بہت بڑھا دیا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام ساتویں صدی عیسوی میں آیا۔ اہل اسلام کی جدو جہد کے نتیجے میں اب دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ روایات میں اس انقلاب کی پیشین گوئی موجود ہے۔ایک روایت کے مطابق پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ہجرة بعد الفتح (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2783)۔ اس حدیث میں ہجرت اور فتح کے الفاظ صرف وقتی معنی میں نہیں ہیں ، بلکہ وہ دور (age) کے معنی میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آئے گا، اب ساتویں صدی کے ماڈل پر کام نہیں ہوگا۔ یعنی اب دعوت ، ہجرت، جہاد کا ماڈل عملاًغیر متعلق ہوگیا ہے۔ اب وہ حالات بدل چکے ہیں جس میں ہجرت اور قتال پیش آیاتھا۔ اب صرف زمانے کی رعایت کے مطابق دعوت الی اللہ کا پرامن کام کرنا ہوگا۔ بقیہ نتائج اپنے آپ حاصل ہوتے رہیں گے۔
اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ کسریٰ ہلاک ہوگیا اب کوئی کسریٰ نہیں، اور قیصر ہلاک ہوگیا اب کوئی قیصر نہیں(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3120)۔ اس میں بھی کسریٰ اور قیصر کے الفاظ علامتی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہنشاہیت کا دور (age of imperialism) ختم ہوگیا۔ اب دنیا میں دوبارہ شہنشاہیت کا دور آنے والا نہیں۔
اس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام کے بعد دنیا سے بادشاہت اور شہنشاہیت کا دور ختم ہوجائے گا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام اور شہنشاہی نظام کی بنا پردینی تحریک کو حکومتی نظام کی طرف سے ایذا رسانی (persecution) کا معاملہ پیش آتا تھا۔ اب دینی تحریک کے لیے ایسا معاملہ پیش آنے والا نہیں۔ اب دینی تحریک کی منصوبہ بندی خالص غیر سیاسی بنیاد پر ہوگی۔ اب دینی تحریک کو شروع سے آخر تک امن کے حالات میں کام کرنے کا موقع ملے گا، نہ کہ تشدد کے حالات میں۔ اب قیامت تک کسی تحریک کے لیے تشدد کے حا لات پیش آنے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عن عبادة بن الصامت الانصاری، بایعنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم على السمع والطاعة، فی منشطنا ومکرہنا، ... وأثرة علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ(صحیح البخاری،حدیث نمبر7056)۔ یعنی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سمع و طاعت پر، پسند پر بھی اور ناپسند پر بھی، اور اس پر کہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور اس پر کہ ہم صاحب امر سے نزاع نہ کریں۔
اس حدیث میں جس معاملے کا ذکر ہے، اس کا تعلق صرف رسول اور صرف اصحابِ رسول سے نہیں ہے۔ وہ ایک عام اجتماعی اصول ہے جس کی پابندی ہر دور میں ضروری ہے۔ کیو ں کہ اس طرح کا معاملہ ہمیشہ اور ہر اجتماع میں پیش آتا ہے۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں انصار اور مہاجرین کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ مگر جب رسول اللہ کی وفات کے بعد خلافت کا دور آیا تو اس اصول کو اختیار کیا گیا کہ الائمۃ من قریش (مقدمہ ابن خلدون،بیروت، 1988، صفحہ
یہ جوہوا، یہ بر بنائے ضرورت تھا، نہ کہ بر بنائے فضیلت۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں اگر کوئی تحریک کتابت اور لیتھو پرنٹنگ کے زمانے میں شروع ہو تو روایتی لوگ تمام کاموں کو انجام دیں گے۔ لیکن تحریک آگے بڑھ کر جب کمپیوٹر اور جدید ٹکنالوجی کے دور میں داخل ہوجائے تو حالات کا تقاضا ہوگا کہ وہ لوگ کام کو سنبھال لیں جولوگ اپنی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے کمپیوٹر اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال کو جانتے ہیں۔ ایسا واقعہ ترجیح (preference) کی بنا پر نہیںہوگا، بلکہ وہ مکمل طور پر ضرورت کی بنا پر ہوگا۔ اس حدیثِ رسول میںاجتماعی اخلاقیات کا ایک اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب ایسا کوئی معاملہ پیش آئے، جو بظاہر ترجیح (preference) کادکھائی دیتا ہو تو اس کو دل کی آمادگی کے ساتھ قبول (accept)کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق، مومن کی بنیادی صفات دو ہیں-اللہ سے حُبّ شدید (
ایک انسان جب اللہ کی عظیم نعمتوں (great blessings) کا شعور حاصل کرتا ہے تو اس کے نتیجے کے طور پر اس کے اندر وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں اللہ سے حُبّ شدید کہا گیا ہے۔ اسی طرح انسان جب اپنے عجز اور اپنی عبدیت کو شعوری طور پر دریافت کرتا ہے تو اس سے وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن میں خشیت شدید یا خوفِ شدید کہا گیا ہے۔
ایمان کی یہ دونوں صفات دراصل معرفت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ معرفت جتنی اعلی درجے کی ہوگی، اتنی ہی اعلی درجے کی صفات آدمی کے اندر پیدا ہوں گی۔ انسان کے اند رکوئی بھی صفت ایک علاحدہ ضمیمہ کے طور پر پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ داخلی شعور کا ایک خارجی اظہار ہوتا ہے۔ ہر ایمانی صفت کے پیچھے گہرے معنوں میں تدبر اور تفکر موجود رہتا ہے۔
ایمانی معرفت کوئی قانونی بات نہیں۔ کسی کو قانونی احکام بتانے سے اس کے اندر معرفت پیدا نہیں ہوگی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کو پہلے مطالعہ کرنے والااور غور وفکر کرنے والا بنایا جائے۔ جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد کسی انسان کے اندر وہ اعلی صفت پیدا ہوگی جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
یہی سچے مومن کو پہچاننے کا واحد معیار ہے۔ یہ معیار جس انسان کے اندر پایا جائے، وہی انسان سچا مومن ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ دونوں صفات نہ پائی جائیں، وہ اللہ کے نزدیک سچا مومن نہیں ، خواہ ظاہر پسند انسانوں کو وہ کتنا ہی بڑا آدمی دکھائی دیتا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن بتایا ہے ، اس کا ایک جزء یہ ہے: أنا الماحی الذی یمحو اللہ بی الکفر(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3532)۔ یعنی میں مٹانے والا ہوں، اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ اس حدیث میں ماحی کا لفظ آیا ہے۔ ماحی کا لفظی مطلب ہے مٹانے والا۔ یہاں مٹانے کا لفظ کسی فوجی معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ تمام تر نظریاتی معنی میں ہے۔ یعنی کفر جس نظریاتی بنیاد (ideological base)پر کھڑا ہے، اس نظریاتی بنیاد کودلائل کے ذریعے بے وزن بنادینا۔ کفر کے عقیدے کو اس کی نظریاتی اساس سے محروم کردینا۔ اس معاملے کا کوئی تعلق جنگ و قتال سے نہیں ہے۔
کفر ایک عقیدہ ہے جو انسان کے دماغ میں بطور ایک فکر کے موجود ہوتا ہے۔ فکر کو جنگ کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ فکر کو صرف جوابی فکرکے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی کوششوں سے عرب میں ایک انقلابی عمل (revolutionary process) جاری ہوا، جو نہایت موثر طور پر پوری تاریخ میں چلتا رہا۔ جیسا کہ حدیث ( البخاری، حدیث نمبر 3062)میں آیاہے۔ اس انقلابی عمل میں سیکولر لوگوںکی تائید بھی ضرور حاصل ہوگی۔ یہاں تک کہ یہ انقلابی عمل اپنی آخری حد تک پہنچ جائے ۔
موجودہ زمانے میں جس چیز کو ماڈرن سویلائزیشن کہا جاتا ہے، وہ اسی انقلابی عمل کی تکمیل ہے۔ اب اکیسویں صدی میں ’’کفر‘‘ اپنی نظریاتی طاقت کو کھوچکا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان کو مکمل معنوں میںمذہبی آزادی حاصل ہے۔ اب وسائل پر کسی کی اجارہ داری (monopoly)نہیں ہے۔ اب تمام مواقع (opportunities) ہر ایک کےلیے کھلے ہوئے ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں رہا کہ وہ اپنے نظریے کو جبراً دوسروں کے اوپرنافذ کرے۔ اب دلیل کی طاقت تمام تر دین حق کو حاصل ہوچکی ہے۔ قدیم زمانے میں ایک اللہ کی عبادت پر بھی روک (العلق:
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام کا ایک مشن تھا۔ اس مشن کو ایک لفظ میں توحید کی آئڈیالوجی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی انسان کو اس کے خدا سے متعارف کرنا۔ خالق اور مخلوق کے درمیان وہ تعلق قائم کرنا جو حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے مطلوب ہے۔یہی توحید ہے، اور کسی انسان کی ابدی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اس توحید پر قائم کرے، وہ ایک سچا موحد بن جائے۔
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔
جو شخص پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئڈیالوجی اور تاریخ کے اس فرق کو بخوبی طور پر جانے۔ اس فرق کو ملحوظ کیے بغیر جو شخص پیغمبر ِ اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرے، وہ یقیناً غلط فہمی کا شکار ہوجائے گا۔ وہ بطورِ خود پیغمبر ِ اسلام کی ایک موضوعی تصویر (objective picture) بنائے گا، مگر یہ تصویر پیغمبر اسلام کی حقیقی تصویر نہ ہوگی، وہ غلط فہمی پر مبنی ایک تصویر ہوگی۔
مثال کے طور پر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کے تین دور ہیں'-دعوت، ہجرت ، جہاد۔ ان تین ادوار کے مجموعے سے جو نقشہ بنے، وہ پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کا مکمل نقشہ ہے۔ مگر یہ تعبیر درست نہیں۔ کیوں کہ دعوت پیغمبر ِ اسلام کی زندگی کا اصل حصہ (real part) ہے، ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) پیغمبرِ اسلام کی زندگی کا صرف اضافی حصہ (relative part)ہے۔ یعنی دعوت کا عمل آپ کے حقیقی مشن کی نسبت سے آپ کی زندگی کا حصہ تھا۔ جب کہ ہجرت اور جہاد(بمعنی قتال) زمانی تاریخ کی نسبت سے آپ کی زندگی کا حصہ بنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اگر زمانی حالات مختلف ہوتے تو دعوت آپ کی زندگی میں ضرور شامل رہتی، لیکن ہجرت اور جہاد (بمعنی قتال) آپ کی زندگی میں شامل نہ ہوتے۔
ساتویں صدی عیسوی میں جب پیغمبر ِ اسلام نے توحید کا مشن شروع کیا تو اس وقت عرب میں قبائلی دور (tribal age) پایا جاتا تھا۔ آج ساری دنیا میں تہذیب (civilization) کا دور آچکا ہے۔ آج اگر کوئی شخص پیغمبر ِ ِاسلام کے مشن کا احیاء (revival) کرےتو پرامن دعوت کا حصہ تو ضرور اس کی تحریک میں موجود ہوگا۔ لیکن آج نہ قدیم طرز کی ہجرت کی ضرورت ہے اور نہ جنگ و قتال کی۔ آج دورِ تہذیب میں زمانی حالات ہر اعتبار سے بدل چکے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص آج کے حالات میں یہ کرے کہ وہ ہجرت اور قتال کے طریقے کو سنت رسول سمجھ کر دہرانے لگے تو یقینا وہ غلطی کرے گا۔ وہ سنت رسول کے نام پر سنت رسول سے انحراف کا مرتکب بن جائے گا۔
کرنے کا اصل کام
بیسویں صدی کے نصف اول میں بیشتر مسلم ممالک مغربی طاقتوں کے زیر اقتدار تھے ، خواہ براہ راست طور پر یا بالواسطہ طور پر ۔ اس کے بعد آزادی کی تحریکیں چلیں ۔ آج یہ تمام مسلم ممالک سیاسی طور پر آزاد ہیں ۔ ان ملکوں کی تعداد تقریبا 60 تک پہنچ چکی ہے ۔ گنتی کے اعتبار سے اقوام متحدہ کے ممبروں میں سب سے زیادہ تعداد مسلم ملکوں کی ہے ۔ اس کے باوجود عالمی سیاسی نقشہ پر مسلمانوں کا کوئی وزن نہیں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں سیاسی اقتدار کی حیثیت ثانوی بن گئی ہے ۔ اب تعلیم اور سائنس اور ٹکنالوجی اور اقتصادیات کی اہمیت ہے ... اس لئے آج کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی مسلم نسلوں کو ان غیر سیاسی شعبوں میں آگے بڑھایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک شخص جب اسلام کو قبول کرتا ہے تو وہ کچھ عقائد کا اقرار کرتا ہے۔ ان میں سے ایک عقیدہ فرشتوں (angels) کا عقیدہ ہے۔ فرشتوں پر عقیدہ رکھنا، مذہب اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہ فرشتے اللہ کے حکم سے ساری دنیا کا نظام چلارہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میںآئی ہے: ما فیہا موضع أربع أصابع إلا وملک واضع جبہتہ ساجداً للہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2312)۔یعنی کائنات میں چار انگل جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں ایک فرشتہ اپنی پیشانی کو جھکائے ہوئےاللہ کے لیے سجدہ کی حالت میں نہیں ۔
بعض روایات میں ساجداًللہ کے بجائے یمجّد اللہ (شرح السنۃ للبغوی، حدیث نمبر4172)کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی اللہ کی تمجید کرتے ہیں۔ حدیث میں سجدہ یا تمجید کا مطلب معروف سجدہ یا تمجید نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے احکام کی کامل تعمیل میں لگا ہونا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے انتظام میں ا تنے زیادہ فرشتے لگے ہوئے ہیں کہ کائنات ان کی تعداد سے بھر گئی ہے۔
کائنات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر لمحہ ایک عمل جاری ہے۔ زمین اور بقیہ کائنات میں مسلسل طور پر انتہائی اعلی درجے کی سرگرمیاں موجود ہیں۔ موجودہ زمانےمیں اکثر سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ کائنات کے اندر ذہین ڈیزائن (intelligent design) پائی جاتی ہے۔ یہ ذہین ڈیزائن صرف موجود نہیں ہے، بلکہ وہ ہر لمحہ متحرک ہے۔ ہرلمحہ اس کے اندر بامعنی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کہکشاؤں کی گردش، شمسی نظام، زمین کے اوپرلائف سپورٹ سسٹم ، وغیرہ ۔ ایسااس کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ کچھ غیرمعمولی طاقتوںکا اس کے اوپر کنٹرول ہو۔ وہ نہایت آئڈیل انداز میں اس کا انتظام کرنے میں مشغول ہوں۔ کائنات میں یہ بے خطا انتظام گویا خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اس کے کچھ انتظام کار ہیں۔ یہ انتظام کارخالق کے حکم سے اس کا معیاری انتظام کرنے میں مشغول ہیں ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں پیغمبروں کامشن بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:إِنَّا أَخْلَصْنَاہُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَى الدَّارِ (
خدا کا خاص کام کیا ہے جس کے لیے وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چنتا ہے۔ وہ ہے آخرت کے گھر کی یاد دہانی۔ پیغمبروں کا خاص مشن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کو اس حقیقت سے باخبر کریں کہ انسان کی اصل منزل آخرت ہے۔ اور انسان کو اسی کی تیاری کرنا چاہیے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور اس دنیا میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ اس کو اس سنگین مسئلہ سے آگاہ کیا جائے۔
پوری تاریخ میں انسان اس سوال پر سوچتا رہا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انسان اپنی پیدا ئش کے اعتبار سے فل فل مینٹ سیکینگ انیمل (fulfilment-seeking animal) ہے۔ لیکن اس دنیا میں کسی بھی شخص کو پورے معنوں میں فل فلمینٹ نہیں ملتا۔ انسان اس زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ وہ ساری عمر تکمیلِ آرزو (fulfilment)کے لیے کوشش کرتا ہے۔ لیکن آخر کار وہ اپنی آرزووں کی تکمیل کے بغیر حسرت کی موت مرجاتا ہے۔
داعی کا مشن اسی سوال کا جواب ہے۔ داعی انسان کو یہ بتاتا ہے کہ تمھاری زندگی کے دو دور ہیں: قبل از موت دور، اور بعد از موت دور۔ جو چیز تم قبل از موت دور میں تلاش کررہے ہو، وہ بعد از موت دور میں رکھی گئی ہے۔موجودہ دورِ حیات تیاری کا مرحلہ ہے، نہ کہ پانے کا مرحلہ۔
واپس اوپر جائیں
جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں، اسی طرح دعوت اور اصلاح دین کے دو الگ الگ شعبے ہیں۔ اگر دعوت عام اور اصلاح امت ، دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو دونوں میں سے کسی کا بھی تقاضا پورا نہیںہوگا۔ جس طرح صلاۃ اور زکاۃ دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو نہ صلاۃ کا تقاضا پورا ہوگا اور نہ زکاۃ کا۔
اصلاح امت دراصل امت کی ایک داخلی ضرورت ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، امت کے اندر ہمیشہ زوال کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امت کی ہر نسل میں احیاء (revival) کا عمل جاری رہے، امت کی ہر نسل میں دین کی اسپرٹ کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے۔ یہ امت کے علماء کا ایک مستقل فریضہ ہے۔ لومۃ لائم (المائدہ
دعوت الی اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں انذار و تبشیر (النساء
دعوت کے دو خاص تقاضا ہیں۔ اس کو قرآن میں ناصح اور امین (الاعراف
واپس اوپر جائیں
مسٹر حمید اللہ حمید، اور ان کے ساتھیوں کی کوشش سے جو کشمیر میں انٹرنیشنل پیس سینٹر بنا ہے، اس کے افتتاحی پروگرام کے تحت آپ لوگ یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے لیے اور آپ کے مشن کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔
مسلمانوں کا مشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ اس اعتبار سے کشمیر کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ کشمیر کی حیثیت ایک ٹورسٹ اسٹیٹ کی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے ساتھ بڑی تعداد میں دوسری قوموں کے لوگ موجود ہیں۔ ہر دن بڑی تعداد میں ٹورسٹ یہاں آتے ہیں۔ یہ سب لوگ آپ کے لیے ایک ذمہ داری ہیں۔ آپ کو یہ کرنا ہے کہ ان سب لوگوں کو اللہ کا پیغام کسی ملاوٹ کے بغیرپہنچائیں۔
آپ میں سے ہر شخص اپنے اندر انسان فرینڈلی بیہیویر (human-friendly behaviour) پیدا کرے۔ انسانوں کی خیر خواہی کے بغیر دعوت کا کام انجام نہیں دیاجا سکتا۔میں آپ کو دعوت کے لیے ایک ٹو پوائنٹ فارمولا (two-point formula) دیتا ہوں۔ آ پ کو یہ کرنا ہے کہ غیر مسلموں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنائیں، اور مسلمانوں کے لیے اسلام کو ان کی ری ڈسکوری بنائیں۔کیوں کہ غیر مسلم اگر اسلام سے بے خبر ہیں تو مسلمان اسلام کے معاملے میں غافل ہو گیے ہیں۔
کشمیر کو سیب کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ سیب کی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ کس طرح نیوٹن نے سیب کے گرنے کو لے کر نیچر کا ایک قانون دریافت کیا۔ سیب کا واقعہ اہل کشمیر کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کریں کہ وہ سیب کے خالق کو دریافت کریں، اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلادیں۔کشمیر کے لوگ امیر کبیر شاہ ہمدان کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ امیر کبیر نے کشمیر میں دعوت کے کام کا آغاز کیا تھا۔ اب کشمیریوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ دعوت کے کام کو اس کے اتمام (culmination) تک پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت حق کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپ نے مکہ کے باشندوں کو صفا پہاڑی کے پاس جمع کیا اور فرمایا کہ اے لوگو، جس طرح تم سوتے ہو اسی طرح تم مروگے۔ اور جس طرح تم جاگتےہو اسی طرح تم دوبارہ اٹھائے جاؤگے۔ اس کے بعد یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا، تمھارا برا ہو، کیا تم نے ہم کو اسی لئے بلایا تھا (تبا لک، ما جمعتنا إلا لہذا)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 4971۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ کے سردار بن کر مدینہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی آپ نے اسی قسم کی تقریر فرمائی۔ اس وقت بھی آپ کے پاس کہنے کی جو سب سے بڑی بات تھی وہ یہ تھی کہ اے لوگو، اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو (اتقوا النار ولو بشق تمرة)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 1417۔
اسلامی مرکز کا مقصد اسی پیغمبرانہ دعوت کو زندہ کرنا ہے۔ لوگ مسائل زندگی کے لئے اٹھتےہیں۔ ہم مسائل موت کے لئےاٹھے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو اس مشن میں ہمارا ساتھ دے۔ لوگوں کو جنگ اور فساد کے شعلے دکھائی دیتےہیں۔ کیا کوئی ہے جس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے دکھائی دیتےہوں تاکہ وہ ہمارا ساتھ دے کر دنیا والوں کو جہنم کے شعلوں سے ڈرائے۔لوگوں کو شہروں کی رونقیں دکھائی دیتی ہیں۔ ہم ان انسانوں کی تلاش میں نکلے ہیں جن کو قبرستان کے ویرانے دکھائی دیں۔ ایسے انسانوں سے دنیا پٹی ہوئی ہے جن کو یہ محرومی بیتاب کئےہوئے ہے کہ ان کو کسی ادارہ میں داخلہ نہیں ملا۔ ہم کو وہ انسان درکار ہیں جن کو یہ غم بدحواس کردے کہ کہیں وہ جنت کے داخلہ سے محروم نہ ہوجائیں۔ لوگ دنیا کی بربادی کا ماتم کررہے ہیں۔ ہم ان انسانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو آخرت کی بربادی کے اندیشے میں دیوانے ہوچکےہوں۔خداکی دنیا میں آج سب کچھ ہو رہا ہے ۔ مگر وہی ایک کام نہیں ہو رہا ہے جو خدا کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ یعنی آنے والے ہولناک دن سے لوگوں کو آگاہ کرنا۔ اگر انسان اس پکار کے لئے نہ اٹھیں تو اسرافیل کا صور اسے پکارے گا۔ مگر آہ، وہ وقت جاگنے کا نہیں ہوگا۔ وہ ہلاکت کا اعلان ہوگا نہ کہ آگاہی کا الارم۔(الرسالہ، جنوری 1984)
واپس اوپر جائیں
موت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات، یعنی الموت (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)یعنی موت کو یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔ موت ایک قسم کا شخصی زلزلہ ہے۔ جس طرح زلزلے کے مقابلے میں آدمی کو کوئی اختیار نہیں ہوتا، اسی طرح موت ایک ایسا یک طرفہ حملہ ہے جس کے مقابلے میں انسان کو مطلق کوئی اختیار نہیں ۔ موت خود اپنے فیصلے کے تحت آتی ہے ، آدمی کو لازماً اس کو اختیار کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ اس کو چاہے یا نہ چاہے۔
سروے کے مطابق، آدمی کی اوسط عمر تقریباً ستر سال ہے۔ مزید یہ کہ کسی انسان کو یہ نہیں معلوم کہ کب اس کا آخری وقت آجائے گا۔ یہ احساس آدمی کے لیے ہر دنیوی لذت کو بے لذت بنا دیتا ہے۔ مال، سیاسی اقتدار، شہرت، وغیرہ ہرچیز اس کو بے معنی معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کی زندگی ایک ایسے انتظار کے ہم معنی بن جاتی ہے جس کے متعلق اس کو کچھ بھی نہیں معلوم کہ اس کا انتظار کس حد پر جا کر ختم ہوگا، وہ آج کہاں ہے اور کل وہ کس مقام پر ہوگا۔
یہ معاملہ معروف لذتوں تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ وہ ہر لذت تک پہنچ جاتا ہے۔ مثلا انسان کا یہ مزاج ہے کہ اگر اس کو کسی سے اختلاف پیدا ہوجائے تووہ اس کی کردار کشی (character assassination) کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس کی تصویر (image)کو بگاڑنا اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ برے انداز میں اس کا چرچا کرنا اس کو اچھا معلوم ہونے لگتا ہے، خواہ اس کی بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد کیوں نہ ہو۔ یہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ موت سے غافل ہے۔ اگر اس کو موت کا زندہ یقین ہو تو وہ اس قسم کی منفی باتوں سے رک جائے گا۔ کیوں کہ وہ سوچے گا کہ موت آتے ہی اس کی منفی باتیں اتنا زیادہ بے وزن ہوجائیں گی کہ کوئی اس کو سننے والا بھی نہ ہوگا۔ حتی کہ اس کے اپنے الفاظ بھی اس کا اپنا ساتھ چھوڑ دیں گے۔
واپس اوپر جائیں
انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعہ شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا (real world) ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا تصوراتی دنیا(imaginary world) ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کی سطح پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔انسان کو اس معاملہ میں بے راہ روی سے بچانے کے لئے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسائل کی دنیا (دار الکبد) بنا دیا۔ یہ مسائل انسان کے لئے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لئے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔نفسیات کے ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ انسان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ اس کے اندر تصوراتی فکر (conceptual thinking) پائی جاتی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ یہ تخلیقی صفت بتاتی ہے کہ انسان سے کیا مطلوب ہے۔ وہ مطلوب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا مقصد تصوراتی فکر کے ذریعے بنائے۔
موجودہ دنیا ایک دکھائی دینے والی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت ایک نہ دکھائی دینے والی دنیا۔ اس واقعہ کے مطابق، یہ عین درست بات ہے کہ انسان موجودہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی دنیا کو اپنا مقصود بنائے۔ انسان تصوراتی فکر کی صفت رکھتا ہے، اس لیے اس کی زندگی کا مقصد بھی تصوراتی اعتبار سے قابلِ دریافت ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
دنیا کی زندگی امتحان (test) کی زندگی ہے۔ یہاں کوئی بھی قانون یا کوئی بھی عدالت انسان کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ ہمیشہ درست رویہ پر قائم رہے۔ انسان کو درست رویہ پر قائم کرنے والی چیز صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کے دل میں یہ احساس بیٹھ جائے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ رب العالمین کی پکڑ سے بچنے والا نہیں ہے۔ اللہ رب العالمین کے مقابلے میں اس کے پا س چھپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ اس کے پاس کوئی بھی ایسی تدبیر نہیں جو اس کے اور اللہ رب العالمین کے درمیان پردہ بن جائے۔ وہ اللہ رب العالمین کے مقابلےمیں مکمل طور پر بے بس ہے۔
یہ سوچ اگر حقیقی معنوں میں کسی انسان کے اندر پیدا ہوجائے تو اس کی پوری شخصیت کے اندر ایک انقلاب آجائے گا۔ اس کی روز و شب کی سرگرمیاں بدل جائیں گی، اس کی سوچ کا انداز بدل جائے گا، اس کا زاویۂ نظر بدل جائے گا، اس کے رائے قائم کرنے کا انداز بدل جائے گا، خیر و شر کے بارے میں اس کا تصور بدل جائے گا، اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی بن جائے گی، اس کی پوری سوچ پر آخرت کی جوابدہی کا تصور چھاجائے گا، وغیرہ۔
اس انقلاب کو قرآن و سنت میں تزکیہ کہا گیا ہے۔ اس مبنی بر تزکیہ سوچ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر ایک نئی شخصیت بننا شروع ہوجائے گی، ایک ایسی شخصیت جس کے اندر اللہ سے محبت ہو، اللہ سے خوف ہو۔ موت سے قبل کی دنیا کے بجائے موت کے بعد کی دنیا کی تعمیر اس کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے گا۔ اس سوچ کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر سے فکری جمود (intellectual stagnation) کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے بجائے اس کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) بیدار ہوجائے گی۔ اس کی ہر صبح نئی صبح ہوگی، اس کا ہر دن نیا دن ہوگا۔ پوری کائنات اس کے لیے فکری غذا بن جائے گی۔ اس کو ایسا محسوس ہوگا، جیسے کہ اس کو فرشتوں کی صحبت حاصل ہوگئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
تجربہ بتاتا ہے کہ کچھ لوگ بظاہر حکمت کی بات کہتے ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ان کی بات ایک غیر حکیمانہ بات ہوتی ہے۔ایسے لوگ بے حد خطرناک ہوتے ہیں۔وہ خوبصورت الفاظ میں ایک ایسی بات کہتے ہیں جو بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ غلط ہوتی ہے۔جو لوگ تجزیہ کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ ایسےلوگوں کی باتوں کو سن کر غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مجھے ایک بار ایک سیمینار میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں مختلف مذاہب کے لوگ بلائے گیے تھے۔ مجھے اسلام پر بولنا تھا۔ مجمع کی رعایت سے میں نے اسلام کی بعض تعلیمات کا ذکر کیا۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان وہاں موجود تھے۔ان کا نظریہ تھا کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات‘‘ ہے۔ پروگرام کے بعد انھوں نے میری تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: آ پ نے اسلام کواس کی ٹوٹیلیٹی (totality) میں پیش نہیں کیا۔
میں نے کہا کہ اسلام ایک دعوتی مشن ہے۔ دعوتی کلام میں بات کو ٹوٹیلیٹی (totality) کے اسلوب میں پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ ہمیشہ اس کو سامع (audience) کی نسبت سے پیش کیا جاتا ہے۔ داعی کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے اسلوب میں کلام کرے جو سامع کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔قرآن میں اس اسلوب کو کلمہ ٔسوا(آل عمران:
گفتگو کا معیار یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی بات کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردے۔ گفتگو کا معیار یہ ہے کہ آدمی جو بات کہے،وہ تجزیہ (rational analysis)کے معیار پر درست ثابت ہو۔ خوبصورت الفاظ اکثر دھوکے میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ خوبصورت الفاظ میں کی گئی تقریر اور تحریر کو صرف سن کر یا پڑھ کر نہ مان لے، بلکہ وہ اس پر غور کرے۔وہ اس کو ہر پہلو سے جانچے۔اہل علم سے اس پر تبادلۂ خیال (discussion) کرے۔ اس کے بعد وہ اس کے بارے میں اپنی رائے بنائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب جو خود دینی مدرسہ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ دینی مدارس میں علم نبوت تو ہے، مگر وہاں نور نبوت نہیں ۔ میں نے کہا کہ کوئی دینی مدرسہ آپ کو صرف علم دین دے سکتا ہے۔ وہ چیز جس کو آپ نورِ نبوت کہتے ہیں، وہ معرفت کی چیز ہے۔ اور معرفت ایک ایسا علم ہے جو خود اپنی دریافت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ کوئی نصاب یا کوئی دینی ادارہ آپ کو معرفت نہیں دے سکتا۔
میں نے کہا کہ موجودہ دینی مدارس کی اصل کمی وہ نہیں ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ بلکہ اصل کمی یہ ہے کہ ان مدارس میں کھلا پن (openness) موجود نہیں ہے۔ اس بنا پر طلبہ کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) اور معرفت یا آپ کے الفاظ میں نورِ نبوت پیدا نہیں ہوتی۔ معرفت تخلیقی فکر کا نتیجہ ہے۔ بند ماحول میں کبھی وہ چیز نہیں پیدا ہوسکتی جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
مدرسے کے نصاب کے ذریعے ایک طالب علم متون (texts) کو پڑھتا ہے۔ مگر کھلاپن (openness) طالب علم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ نصاب کی کتابوں کے باہر جو علمی ذخیرہ ہے، اس سے بھی فائدہ اٹھائے۔ وہ اپنے اندر علمی گہرائی پیدا کرے۔ وہ وسعت نظر کا حامل بنے۔ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرے کہ مدرسے کی حدود سے باہر جو وسیع تر دنیا ہے، اس سے واقفیت حاصل کرے۔ وہ کتابوں کے دائرے سے باہر انسانوں کے دائرے میں داخل ہوجائے۔
یہ ضروری ہے کہ طالب علم اپنے موضوع کے متون سے واقف ہو۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ طالب علم اپنے زمانے کو جانے۔وہ زندگی کے وسیع تر دائرے سے باخبر ہو۔ یہ چیز صرف خارجی مطالعہ سے حاصل ہوسکتی ہے۔ خارجی مطالعہ سے مراد صرف کتابی مطالعہ نہیں ہے، بلکہ دیگر اہل علم سے تبادلۂ خیال کے ذریعے اپنے ذہنی افق کو وسیع کرنا بھی اس میں شامل ہے۔یعنی دینی موضوعات کے علاوہ سیکولر موضوعات سے بقدر ضرورت آشنا ہونا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میں بنیادی طور پر ایک امن پسند انسان ہوں۔ لیکن مجھ کو لوگوں کی غلط باتوں پر سخت غصہ آجاتا ہے۔ اس وقت میں مشتعل ہو کر ایسی باتیں کرنے لگتا ہوں جو میرے عام مزاج کے خلاف ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنی اس عادت پر کس طرح قابو پاؤں۔
میں نے کہا کہ جو آدمی آپ کو مشتعل کرتا ہے، یا آپ کو غصہ دلاتا ہے، وہ آپ کا محسن (benefactor) ہے۔ کیوں کہ جب کوئی شخص آپ کو غصہ دلاتا ہے اور آپ غصہ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت آپ کا مائنڈ طاقت ور انرجی ریلیز کرتا ہے۔ اس کومیں اینگر انرجی (anger energy)کہتا ہوں۔غصہ کے علاوہ کسی اور سبب سے یہ انرجی ریلیز نہیں ہوتی۔ غصہ کے وقت آپ کے اندر ایک نئی طاقت جاگ اٹھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اینگر انرجی کے وقت آدمی جتنا اسٹرانگ ہوجا تا ہے، اتنا اسٹرانگ وہ کبھی کسی تجربے کے وقت نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو اینگر انرجی آپ کا بہت بڑا اثاثہ ہے۔ عام طور پر لوگ اینگر انرجی کو منفی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر اینگر انرجی کو تعمیر کے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اینگر انرجی کی طاقت سے آپ ایک ایسا کام کرسکتے ہیں، جو آپ اِس کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔
آدمی کے اندر جب اینگر انرجی بھڑکتی ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے مین نہیں رہتا بلکہ سوپر مین بن جاتا ہے۔ اس کے اندر ایک نئی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر ایک نیا عزم (determination) جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ نئی طاقت کے ساتھ اپنا کام کرسکے۔ اینگر کا لمحہ آدمی کے اندر چھپی ہوئی بالقوہ (potential)طاقت کو بالفعل (actual) طاقت میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو غصہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا مصداق ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی غصہ کے وقت اپنے آپ کو بھڑکنے سے بچائے، وہ اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
جناب مولانا صاحب یہ میرا تیسرا خط ہے۔ میں نے پچھلے خطوط میں آپ سے عرض کیا تھا کہ میرے واسطے دعا فرمائیں کہ میری دعا خدائے تعالی کے دربار میں قبول ہو۔
میری دعا سو فیصد فطری اور ہر طرح سے واجب اور قابلِ قبول ہے۔ اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ میرے واسطے آپ خدا کے دربار میں دعا گو ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دعا سے میری سب مشکلات دور ہوں گی۔ میری یہ دعا اِسی دنیا میں قبول ہو اور آخرت کے لئے اس کو نہ رکھا جائے۔ میں دنیا میں ہی اس کا ثمرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔
آپ خدا تعالی سے دعا فرمائیں کہ وہ میری مدد کرے اور جلد از جلد میرے سامنے نتیجے ظاہر ہوں۔ میں ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا اور دعا قبول ہونے کی صورت میں دین کی ہر تعلیم پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔( عمر رفیق، سری نگر)
جواب
آپ کی یہ دعا آدابِ دعا کے مطابق نہیں۔ دعا حقیقتاً ایک شخصی عمل ہے۔ یہ تصوردرست نہیں کہ آدمی کسی اور سے اپنے لیے دعا کرنے کے لیے کہے۔ اسلام میں دعا کرنا ہے، اسلام میںدعا کروانا نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دعا کو مشروط دعا نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ سے یہ کہے کہ خدایا، میرے یہ مسائل ہیں، تو میرے لیے وہ فیصلہ فرماجس میں میری دنیا اور آخرت کے لیے خیر ہو۔
انتظار بھی حل ہے
مختلف زبانوں میں جو مثلیں مشہور ہیں وہ دراصل لمبے انسانی تجربات کے بعد بنی ہیں ۔ ان میں سے ہر مثل کامیابی کا ایک یقینی فارمولہ ہے اس طرح کی ایک انگریزی کہاوت یہ ہے-انتظار کرو اور دیکھو:
Wait and see
واپس اوپر جائیں
1۔ 4 مئی 2016 کو ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، حیدرآبادمیں اسلامک سمر کیمپ کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر حیدرآباد ٹیم کے مولانا فیاض الدین عمری اور مولانا عبدالسلام عمری کو افتتاحی جلسہ میں تلاوت قرآن اور تلاوت کی ہوئی آیتوں کے ترجمہ و تشریح کے لیےمدعو کیا گیا تھا۔ ان دونوں نے مذکورہ پروگرام میں شرکت کی اورسامعین کو قرآن کی تلاوت اور اس کا پیغام سنایا۔
2۔ 9مئی 2016 کو ناگپور و کامٹی الرسالہ مشن ٹیم کے ممبران محمد عرفان رشیدی صاحب اور ساجد احمد خان صاحب نے وروڑ، ضلع امراوتی کا دورہ کیا ۔ شہر کی جامع مسجد میں الرسالہ قارئین سے ملاقات ہوئی – اس پروگرام میں تقریباً
3۔ الرسالہ مشن سے وابستہ ڈاکٹر سفینہ تبسم بہت دنوں سے اجمیر میں دعوتی کام کررہی ہیں۔ وہ درگاہ خواجہ معین الدین چشتی، مقامی ہسپتال، اور سی آر پی ایف کیمپ وغیرہ مقامات پر قرآن تقسیم کرتی ہیں۔
4۔
5۔ ترکی سے ملی خبروں کے مطابق، ترکی کی سب سے بڑی مسجد سلیمانیہ میں گڈورڈ بکس کا چھپا ہوا ترجمہ قرآن بڑی تعداد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس مسجد میں ایک دن کے اندر تقریبا دس ہزار سیاح آتے ہیں، جن کے درمیان مسجد میں موجود دعوہ سینٹر دعوہ لٹریچر تقسیم کرتا ہے۔
6۔ خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا کی خبر کے مطابق، صدر اسلامی مرکز کی کتاب، قیامت کا الارم کا پرتگیزی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس وقت نظر ثانی کا کام چل رہا ہے۔
7۔ کشمیر ٹیم جگہ جگہ دعوتی کام کر رہی ہے۔ مثلا 4 مئی کو ایک ٹیم نے مشہور ٹورسٹ ریزورٹ گلمرگ میں سیاحوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
8 ۔مسٹر حمید اللہ حمید کی سربراہی میں کشمیر ٹیم نے بیروہ میں ایک دعوہ سینٹر قائم کیا ہے۔ اس سینٹر کا افتتاحی جلسہ 5 جون 2016 کو کیا گیا، جس میں کشمیر کے دعاۃ شریک ہوئے۔ دہلی ٹیم کی طرف سے مسٹر رجت ملہوترا اور مز نغمہ صدیقی نے پروگرام میں حصہ لیا۔ اس جلسہ میں صدر اسلامی مرکز کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ پیغام اس شمارہ میں شامل ہے۔ ذیل میں مبارک باد کا ایک اور پیغام درج کیا جارہا ہے:
Dear Friend Hamidullah Hamid, Heartiest congratulations and best wishes to you and your entire team on the occasion of the inauguration of International Centre for Peace at Apna Ghar, Beerwa on 5 June 2016. The Centre is dedicated for the development of peace and spirituality. (Pramil Kr Bharat, National Convener, Tyagarchana Shanti Mission(
9۔ فیس بک اور دیگر ویب سائٹس پر موجود صدر اسلامی مرکز کی تقاریر اور آرٹیکلس وغیرہ ، پڑھنے کے بعد قارئین اپنے تاثر کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے کچھ نقل کیے جاتے ہیں:
l •••• ••آپ کی باتیںبڑی حوصلہ افزا ، حقیقت پر مبنی اور پر امید ہیں۔ اس ناامیدی کے دور میں ایسی فضا قائم کرنا از حد ضروری ہے۔اللہ خوب جزا دے۔(حمزہ نعمانی، سعودی عرب)
l •جنوری 2016 کا الرسالہ بہت عمدہ ہے، اور داعی کی تربیت کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔ میرے خیال میں اسلامی مشن کے ہر ایک داعی کو اپنے اندر وہ تمام اوصاف ڈیولپ کرنےہوں گے جن کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت میں عظیم بھلائی عطا فرمائے۔ (طاہر سعید، پنجاب، پاکستان)
l اللہ اکبر، اتنی خوبصورتی، ایک چیز کو سمجھانے میں آج تک نہیں دیکھی۔ (عمران خان، اسلام آباد)
l میں الرسالہ کو پچیس سال سےپڑھتا ہوں۔بہت اچھا اور ایک نئی سوچ و فکر کا یہ ماہنامہ ہے۔ ملت اسلامیہ کو صبر و تحمل سے کام لینے کی دعوت دیتا ہے۔ اس میگزین کو اپنے مطالعہ میں ضرور رکھنا چاہیے۔ (مولانا اظہار حسن ندوی، مقیم حال قطر)۔
l I am a great admirer of Maulana Wahiduddin (b. 1925). Although he had a Muslim religious education, he was always secular, and preached brotherhood between all communities. He is truly a great man. I have met him on a few occasions. In 1992, when the atmosphere was highly charged throughout India due to the Babri Mosque incident, he felt the necessity to convince people of the need to restore peace and amity between the two communities, so that the country might once again tread the path of peace. To fulfill this end, he went on a 15-day Shanti Yatra (peace march) through Maharashtra along with Acharya Muni Sushil Kumar and Swami Chidanand, addressing large groups of people at 35 different places on the way from Mumbai to Nagpur. This Shanti Yatra contributed greatly to the return of peace in the country. It is because of his advocacy of peace on the subcontinent and throughout the world and his espousal of the cause of communal harmony that he is respected by all communities and in every circle of society. Invited to meetings by all religious groups and communities within India and abroad, Maulana Wahiduddin Khan is, in effect, India’s ambassador of communal amity, spreading the universal message of peace, love and harmony. Directly addressing individuals, he has been re-engineering minds in order to develop positive citizens of the world – who can live together peacefully – so that the culture of peace and brotherhood may spread at a universal level. Over decades, he has prepared
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.