قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اس کو رمضان کے مہینے میں اُتارا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ چنانچہ امت میں قدیم زمانے سے یہ رواج ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآن کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ قرآن کایہ مطالعہ اگر سمجھ کر کیا جائے تو اس سے غیر معمولی دینی فائدہ حاصل ہوگا۔رمضان میں قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جاتی ہے۔ رمضان میں رات کے وقت تراویح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ یہ گویاحالت قیام میں قرآن کا اجتماعی مطالعہ ہے۔نیز اعتکاف اس لیے ہے کہ رمضان کے مہینے میں آدمی کچھ دن ایسے گزارے ، جب کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کے مطالعے میں مشغول رہے۔
ایک شخص روزہ رکھ کر قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ اس دوران وہ اس آیت تک پہنچتاہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ (
روزہ قرآن کے مطالعے کی تحریک ہے۔روزہ آدمی کو قرآن سے وابستہ کرتا ہے۔ روزہ آدمی کو اس مقصد کے لیے یکسو کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآ ن کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ روزہ دارگویا اپنے آپ کو قرآن کے مطالعے کے لیے فارغ کرتا ہے۔ روزہ کے مہینے میں آدمی کے اندر جو نفسیات بنتی ہے، وہ قرآن فہمی کے لیے خصوصی طور پر مفید ہے۔اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ روزہ کا مہینہ آدمی کو قرآن سے قریب کرنے کا مہینہ ہے۔ ر`وزے کامقصد یہ ہے کہ آدمی تقوی کی اسپرٹ کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
شب قدر (لیلۃ القدر) رمضان کے مہینے کی آخری عشرے میں کسی طاق رات کو آتی ہے۔ شب قدر کو پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ رمضان کی جس رات کو آئے ، وہ اپنے آپ روزے دار کو حاصل جائے۔بلکہ اس کے لیے تیاری ضروری ہے۔ شب قدرکی برکت صرف اس انسان کو ملے گی جو تیار شخصیت کے ساتھ اس میں داخل ہو۔
شب قدر کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر
On that night, the angels and the Spirit come down by the permission of their Lord with His decrees for all matters, ; it is all peace.
قرآن کی اس آیت کے مطابق ، شب قدر امن کی رات (night of peace) ہے۔ شب قدر کے بارے میں قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ تیار شخصیت (prepared personality) کون ہے جس کو فطرت کے قانون کے مطابق اس رات کی برکتوں میں حصہ ملے گا۔
یہ شخصیت پر امن شخصیت (peaceful personality) ہے۔ یعنی وہ شخصیت جس کو حقیقت کی دریافت اس طرح ہوئی ہو کہ وہ پورے معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) والاانسان بن گیا ہو۔ اس کی معرفت نے اس کے اندر خلق عظیم (القلم4 )کی صفت پیدا کردی ہو۔ اس کے نتیجے میں اس کا حال یہ ہوجائے کہ اس کے دل میں دوسروں کے لیے محبت اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہ ہو۔ وہ تشدد پسند انسان کے بجائے امن پسند انسان بن گیا ہو۔ وہ ردعمل (reaction) کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہو۔ یہی وہ انسان ہے جس کو شب قدر کی برکتیں حاصل ہوں گی۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قیل لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم أی الناس أفضل؟ قال کل مخموم القلب، صدوق اللسان ، قالوا صدوق اللسان، نعرفہ، فما مخموم القلب؟ قال ہو التقی النقی، لا إثم فیہ، ولا بغی، ولا غل، ولا حسد(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4216)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں افضل انسان کون ہے، آپ نے جواب دیا: وہ انسان جو مخموم القلب ہو، اور صدوق اللسان ہو۔ لوگوں نے کہا کہ صدوق اللسان (سچ بولنے والا) ہم جانتے ہیں، پس مخموم القلب کیا ہے۔ آپ نے جواب دیا: یہ وہ انسان ہے جس کے اندر تقوی ہو، جوپاکباز ہو، جس کے اندر گناہ گاری نہ ہو، جس کے اندر سرکشی نہ ہو، جس کے اندر کینہ نہ ہو، جس کے اندر حسد نہ ہو۔ مخموم القلب کون ہے، اس کو اگر بدلے ہوئے الفاظ میں بتایا جائے تو وہ مثبت انسان (positive person) ہوگا۔ یعنی مخموم القلب انسان وہ ہے جو منفی سوچ (negative thinking)سے خالی ہو، جو مخالف حالات کے درمیان مثبت سوچ کے ساتھ جینے والا انسان ہو۔ جس کے دل میں ہر ایک کے لیے صرف مثبت جذبات پائے جاتے ہوں۔
ایسا انسان اپنے سماج کا بے مسئلہ انسان ہوگا۔ یہی وہ انسان ہے جو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے اہل انسان ہے۔ اس کے دل میں ہر ایک کے لیے خیر خواہی ہوگی۔ اور خیر خواہی (well-wishing) کی صفت کے بغیر کوئی شخص دعوت الی اللہ کا کام انجام نہیں دے سکتا ۔ داعی صرف وہ انسان بن سکتا ہے جو انسان دوست (human-friendly) انسان ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مدعو کی طرف سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی ناخوشگوار بات پیش آتی ہے جو داعی کو منفی انسان بنادے۔ اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کا حامل ہو، وہ رد عمل کی نفسیات سے پوری طرح پاک ہو۔ اس کے دل میں ہر ایک کے لیے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہوں۔ جو انسان اس قسم کی مثبت شخصیت کا حامل نہ ہو، وہ کبھی دعوت الی اللہ کا کام مطلوب انداز میں انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں
خدا کے نقشۂ تخلیق کےمطابق ، انسان امانت الٰہی کا امین ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا بیان یہ ہے ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے(
امانت کا لفظی مطلب ٹرسٹ (trust) ہے۔ انسان کو جو امتیازی صفات دی گئی ہیں، وہ اس کے پاس بطور امانت ہیں۔حدیث میں آیا ہے خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6227)۔ یعنی اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ جو صفتیں (attributes) خالق کے اندر کمال کے درجے میں پائی جاتی ہیں ، وہ انسان کو شمّہ (iota) کے بقدر عطا کی گئی ہیں۔
ان صفات کے ساتھ انسان کوکامل اختیار دیا گیا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ بلکہ اس کو جائز حدود کے اندر استعمال کرے۔ جائز حدود کے اندر آزادی کو استعمال کرنے والے کے لیے ابدی زندگی میں جنت کا انعام ہے۔ اور جو شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے، اس کے لیے جہنم کی سزا ہے۔
اس سلسلہ ٔبیان کا آخری حصہ یہ ہے: وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مطلوب عمل سے مراد معیاری عمل نہیں ہے۔ انسان اپنی بشری کمزوری کی بنا پر ضرور غلطیاں کرے گا۔ اس لیے نجاتِ آخرت کا معیار غلطی سے پاک ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ غلطی کرنے کے بعدانسان کے اندر ندامت (repentance) کا شدید جذبہ پیدا ہو۔ وہ دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ وہ اپنی غلطی کا سچا اعتراف کرکے اللہ سے معافی کا طالب ہو۔یہی وہ انسان ہے جس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔
واپس اوپر جائیں
سورہ الزمر کی ایک آیت ہے، جس کے بارے میں صحابی عبد اللہ ابن عمر نے کہا : ہذہ أرجى آیة فی القرآن (تفسیر القرطبی )۔ یعنی یہ قرآن کی سب سے زیادہ پر امید آیت ہے۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (
اپنے آپ پر زیادتی ( to commit excesses against one’s own soul) ایک عام لفظ ہے۔ اس میں ہر قسم کی غلطیاں شامل ہیں۔ حدیث میں آیا ہے : کل بنی آدم خطاء (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4251)۔ مگر اسی کے ساتھ انسان کے اندر ضمیر (conscience) ہے۔ انسان اپنی خواہش کے تحت غلطی کرتا ہے، لیکن اس کے بعد اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ اور اس کو شدت کے ساتھ ملامت کرتا ہے کہ اب تمھارا انجام کیا ہوگا۔
یہ احساسِ خطا اکثر آدمی کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔ مگر یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ غلطی کے ارتکاب کے بعد مایوسی کے بجائےاللہ کے سامنے مغفرت کا طالب بنے۔وہ زیادہ سے زیادہ دعا کرے، اور اللہ کی طرف زیادہ سے زیادہ رجوع کرے۔
طلبِ مغفرت کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک نفسیاتی طوفان کا معاملہ ہے۔ طلبِ مغفرت آدمی کی روحانیت کو جگاتی ہے۔ طلبِ مغفرت سے آدمی کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر شخصیت کے ارتقاء (personality development) کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ یہ عمل (process) اگر بھر پور طور پر جاری رہے تو اس کا نتیجہ قرآن کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے سیئات حسنات میں بدل جاتے ہیں(الفرقان70)۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:إذا أراد اللہ بالأمیر خیرا جعل لہ وزیر صدق، إن نسی ذکرہ، وإن ذکر أعانہ، وإذا أراد اللہ بہ غیر ذلک جعل لہ وزیر سوء، إن نسی لم یذکرہ، وإن ذکر لم یعنہ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر2932)یعنی اللہ جب کسی حاکم کے ساتھ خیر چاہتا ہے تو اس کو ایک سچا وزیر دے دیتا ہے، اگر حاکم بھولے تو وہ اس کو یاد دلائے، اور جب وہ یاد دلائے تو وہ اس کی مدد کرے۔ اور جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ اس سے مختلف معاملہ کرتا ہے تو وہ اس کو ایک برا وزیر دے دیتا ہے، اگر حاکم بھولے تو وہ اس کو یاد نہ دلائے، اور اگر وہ یاد دلائے تو وہ اس کی مدد نہ کرے۔
اس حدیث میں حاکم اور وزیر کی مثال کے ذریعے مشیر کی اہمیت کو بتایاگیا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ رسمی یا غیر رسمی طور پر کچھ دوست اور مشیر ہوتے ہیں۔ یہ مشیر اگر سچے ہیں تو وہ ہمیشہ خیر خواہی والا مشورہ دیں گے، اور اگر مشیر سچے نہیں ہیں تو وہ ایسے مشورہ دیں گے جن سے آدمی کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں۔ لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں ہے، بلکہ دو طرفہ ہے۔ دوست یا مشیر کا سچا ہونا یا سچا نہ ہونا ، اس کا تعلق پچاس فیصد خود آدمی سے ہے۔ آدمی اگر خوشامد پسند ہو تو اس کے ارد گرد جھوٹے دوست اور جھوٹے مشیر جمع ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگر آدمی حقیقت پسند ہو تو اس کے دوست اور مشیر بھی سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوں گے۔
آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ اس کے پاس سچے دوست اور سچے مشیر ہوں۔ ایسے لوگ آدمی کی طاقت ہیں۔ وہ اس کو خیر کا مشورہ دیں گے، شر سے بچائیں گے۔لیکن یہ آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس معاملے میں وہ نہایت باشعور ہو تاکہ اس کے اردگرد صرف خیر پسند افراد اکٹھا ہوں۔اس معاملے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ آدمی کے اندر تنقید کو سننے کا مزاج ہو، وہ انسان کی قدر کرنا جانتا ہو۔ وہ خوشامد سے خوش ہونے والا، اور تنقید کو برا ماننے والا نہ ہو۔ جس آدمی کے اندر یہ صفت ہو، اس کے گرد یقینا اچھے لوگ جمع ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کا مقتضی صرف دو ہے۔ داخلی طور پر یہ کہ ہر مسلم تقویٰ کی زندگی اختیار کرے۔ خارجی طور پراہل اسلام کا مشن، دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے پیغامِ رحمت کو پر امن انداز میں تمام انسانوں تک پہنچانا۔ اس معاملے میں سیاسی اقتدار کا اصل رول سماج میں موافق حالات قائم کرنا ہے۔ اور امت کے افراد اور امت کے اداروں کا رول یہ ہے کہ وہ پر امن منصوبہ بندی کے ذریعے ساری دنیا میں دعوت و اشاعت کا وہ کام انجام دیں جو پیغمبروں نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔
دین کے اس تصور کی روشنی میں جو نقشہ بنتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہر مومن اپنے آپ کو دین حق سے باخبر کرے۔ اس بات کو حدیث میں ان الفاظ میں بیا ن کیاگیا ہے: طلب العلم فریضة على کل مسلم (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر
قرآن وحدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکومت کی تخت پر غیر مسلم حکمراں ہو ۔اور وہ مذکورہ معنوں میں اہل اسلام کے لیے موید (supporter) بن سکتا ہو تو غیر مسلم حکمراں بھی اہل ایمان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ اسی اصول کے تحت یوسف علیہ السلام نے اپنے زمانے کے غیرمسلم حکمراں کو قبول کیا تھا۔ اور اسی اصول کے مطابق مکی دور میں کچھ صحابہ نے حبش کے غیر مسلم حکمراں کو قبول کیا تھا۔ جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پرمکہ سے ہجرت کرکے حبش گیےاور وہاںدس سال سے زیادہ عرصے تک مقیم رہے۔موجودہ زمانے کی سیکولر حکومت بھی عین اسی تصور کے مطابق ہے۔اس لیے موجودہ زمانے کی سیکولر حکومت بھی مسلمانوں کے لیےقابلِ قبول ہونا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانہ مواقع (opportunities) کی موناپلی (monopoly) کا زمانہ تھا۔ اس لیے قدیم زمانے میں صرف ایک ہی قسم کا ایمپائر بن سکتا تھا۔ اور وہ پولیٹکل ایمپائر تھا۔ قدیم زمانے میں جتنے ایمپائر بنے وہ سب کے سب سیاسی ایمپائر تھے۔ موجودہ زمانہ خاتمۂ اجارہ داری (de-monopolization) کا زمانہ ہے۔ اس سےسارے مواقع ہر ایک کے لیے کھل گیے۔ اس بنا پر یہ ممکن ہو گیا کہ کوئی بھی شخص یا گروپ خالص پرامن طریقۂ کار کے ذریعے اپنا ایمپائر کھڑا کر سکے۔
اس نئے امکان کو ابھی تک زیادہ تر سیکولر لوگوں نے استعمال کیا ہے۔ نئے مواقع سے فائدہ اٹھاکر انھوں نے اپنے اپنے ایمپائر بنا لیے ہیں۔ مثلا ایجوکیشنل ایمپائر، انڈسٹریل ایمپائر، انسٹی ٹیوشنل ایمپائر (institutional empire)، وغیرہ۔
مگر مذہب کےمعاملے میں اس امکان کو استعمال کرنے کا میدان ابھی تک خالی ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذہب کے میدان میں اس امکان کو استعمال کرنے کا سب سے بڑا میدان یہ ہے کہ قرآن ایمپائر بنایا جائے۔ امکان (potential) کے اعتبار سے قرآن ایمپائر آج بھی موجود ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس امکان کو عمل کی صورت میں کھڑا کیا جائے۔
پولیٹکل ایمپائر کے لیے ضرورت ہوتی تھی کہ بہت سے ملکوں میں ایک بادشاہ کی حکومت قائم ہو۔ مگر موجودہ زمانے میں قرآن ایمپائر بنانے کے لیے کسی بڑے زمینی رقبے کی ضرورت نہیں، آج چھوٹے زمینی رقبہ میں بھی قرآن ایمپائر بنایا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن (communication) اور دوسرے عالمی وسائل نے ٹکنالوجی کو ہر دوسری چیز کا بدل بنادیا ہے۔ ا ٓج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک چھوٹے مرکز کو جدید وسائل کے استعمال سے عالمی سطح کا قرآن ایمپائر بنادیا جائے۔ قرآن کا مختلف زبان میں ترجمہ خود اتنا بڑا کام ہے کہ اس کی بنیاد پر ایک اعلی درجے کا قرآن ایمپائر کھڑا کیا جاسکے۔
واپس اوپر جائیں
سورہ یوسف قرآن کی
حضرت یوسف اللہ کے ایک پیغمبر تھے لیکن ان کے ساتھ بہت انوکھے واقعات پیش آئے۔ وہ ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کی معاش تھی بکریاں پالنا، ان کو چرانا اور ان کے دودھ پر گزارا کرنا۔ پھر ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا کہ خود ان کے بھائیوں نےان کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ وہ کنویں میں کچھ دن بے یارومددگار پڑے رہے۔ پھر ایک قافلہ نے ان کو کنویں سے نکالا اور مصرلے جاکر وہاں کے بازار میںان کو بیچ دیا۔ اس کے بعد وہ غلام بن کر ایک گھر میں رہے۔ وہاں ان پر ایک الزام لگایا گیا۔ پھر وہ جیل میں ڈال دئے گئے جس میں وہ کئی سال تک رہے۔ ان تمام سخت مراحل کے بعد وہ وقت آیا جب کہ ان پر اللہ کی نصرت آئی۔
حضرت یوسف کو کبھی جنگ وقتال کا مرحلہ پیش نہیں آیا۔ ان پر جو سختیاں گزریں وہ سب غیر جنگی حالات میں گزریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سورہ کے آخر میں نصرت سے پہلے جن سخت حالات کا ذکر ہے ان کا تعلق جنگ وقتال سے نہیں ہے بلکہ عام حالات میں پیش آنے والے واقعات سے ہے۔ یہ واقعات ہر سچے انسان کی زندگی میں مختلف صورتوں میں پیش آتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے۔یہ دراصل اس لئےہے کہ انسان اللہ کی نصرت کا آخذ (recipient) بنے۔مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی کا کیس سچائی کا کیس ہے تو اس کو ضرور اللہ کی مدد آتی ہے۔ خواہ وہ مایوسی کی سطح پر پہنچنے کے بعد آئے۔
واپس اوپر جائیں
بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن گہرائی کے ساتھ غور کیاجائے تو بیماری میں بھی ایک عظیم مثبت پہلو موجود ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کرنے کے لیے اس کے گھر جاتے تو آپ بیمار سے کہتے: لا بأسَ، طَہور إن شاء اللہ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5656)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، یہ پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔
محدث ابن حجر نے اس حدیث کی بابت لکھا ہے :إن شاءاللہ یدل على أن قولہ طہور، دعاء لا خبر۔ یعنی یہاںان شاء اللہ کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ کا یہ قول خبر نہیں ہے بلکہ وہ دعاء ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کا یہ قول دعاء کی صورت میں ایک خبر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیمار کے اندر مثبت سوچ پیدا ہو، بیماری کے باوجود وہ مایوس نہ ہو۔ اس دعاءمیں انسان کے لیے تسکین کا ایک پہلو موجود ہے۔ اس لیے کہ بیماری کے بعد اکثر انسان کو شفا حاصل ہوتی ہے (
نقصان کے بعد تلافی یا بازیابی کا یہ اصول ہر قسم کے نقصان پر صادق آتا ہے، مالی نقصان ، سیاسی نقصان، وغیرہ۔ اس بنا پر انسان کے لیے اس دنیا میں کسی بھی حال میں شکایت کا موقع نہیں (no place for complaint)۔ انسان کے لیے اس قانون کی اہمیت بہت زیادہ تھی ، اس لیے انسان کے لیے اس معاملے کو بیماری یا حادثہ وغیرہ کی صورت میں ذاتی تجربہ (personal experience) کی حیثیت دے دی گئی۔
تلافی مافات کے اس اصول کا تعلق جس طرح فرد کے لیے ہے، اسی طرح وہ قوم کے لیے بھی ہے۔ ایک قوم زوال کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔ ایک تہذیب ختم ہوجائے تو اس کے بعد دوبارہ اس کا احیاء (revival) کیا جاسکتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آدمی بیماری میں مبتلا ہو،پھر وہ عیادت کرنے والوں کے سامنے اس کا شکوہ نہ کرے تواس کے لیے جنت لکھ دی جاتی ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر8801)
عیادت کرنے والوں سے شکایت نہ کرنے پر جنت ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو آدمی شکایت نہ کرے تو اس کو اپنے آپ جنت حاصل ہو جائےگی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر شکایتی نفسیات سے گہری سوچ پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس کے مطابق اس کے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو جنت کا مستحق قرار دیا جائے۔
کسی نقصان پراس کی تلافی کا اصول ایک اہم فطری اصول ہے۔ مستحق شخص کو یہ تلافی لازماً حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو چیز کھوئی گئی ہے وہی چیز اس کو دوبارہ مل جائے۔ یہ تلافی اکثر کسی متبادل صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس متبادل تلافی کو پہچانے۔ مثلا یہ ہوسکتا ہے کہ اس کا نقصان تو مالی نوعیت کا ہو، لیکن تلافی کے طور پر اس کو جو چیز ملے وہ نفسیاتی ہو۔ یعنی سبق کی صورت میں یا ذہنی ارتقا کی صورت میں، یا روحانی ترقی کی صورت میں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ نقصان تو دنیا میں ہو لیکن اس کی تلافی آخرت میں کی جائے۔
انسان کا تمام معاملہ سوچ پر مبنی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی ردعمل (reaction) کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیش آئے تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور کرے۔ وہ منفی واقعہ میں مثبت واقعہ کو دریافت کرنے کی کو شش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کو قانونِ فطرت کی تائید حاصل ہوگی۔ وہ منفی واقعہ میں مثبت پہلو کو دریافت کرلے گا۔ اور اس طرح وہ اپنے آپ کو مایوسی سے بچانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مایوسی ایک غیر فطری چیز ہے، وہ کوئی فطری چیز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
شیطان کس طرح انسان کو بہکاتا ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی معمولی بات کو زیادہ بڑھا چڑھا کر انسان کو دکھانا۔ نظر انداز کرنے والی بات کو اس طرح سنگین صورت میں پیش کرنا کہ انسان کو غصہ آجائے، اور وہ ایسا کام کرنے لگے جو اس کو نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی ایک مثال خلیفۂ دوم عمر بن خطاب کا واقعہ ہے۔ عمر بن خطاب بلاشبہ ایک عادل خلیفہ تھے۔ لیکن مدینہ کے ایک شخص ابولولوفیروز کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک معمولی واقعہ تھا، مگر شیطان نے ابولولو کو اتنا زیادہ بھڑکایا کہ اس نے سازش کرکے عمر بن خطاب کو قتل کردیا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بے حد چوکنا رہے۔ جب بھی کوئی منفی بات اس کے ذہن میں آئے تو وہ اس کو شیطان کی بات سمجھے ۔وہ ایسی بات کو فوراً اپنے ذہن سے نکال دے۔ وہ اس بات کا تجزیہ کرکے اس کو اپنے ذہن میں غیر موثر بنادے۔
ہر عورت اور مرد کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اتنا ہوش مند بنے کہ شیطان اس کو بہکانا چاہے لیکن وہ اس کو بہکانے میں کامیاب نہ ہو۔ اس معاملے میںقرآن کی ایک متعلق آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو لوگ ڈر رکھتے ہیں جب کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انھیں چھو جاتا ہے تو وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور پھر اسی وقت ان کو سوجھ آ جاتی ہے۔(الاعراف
موجودہ دنیا میں کوئی شخص، نفس اور شیطان کے حملوں سے خالی نہیں رہ سکتا۔ ایسے موقع پر جو چیز آدمی کو بچاتی ہے وہ صرف اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کو بے حد حساس بنادیتا ہے۔ یہی حساسیت موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کی سب سے بڑی ڈھال ہے۔ جب بھی آدمی کے اندر کوئی غلط خیال آتا ہے یا کسی قسم کی منفی نفسیات ابھرتی ہے تو اس کی حساسیت فورا اس کو بتادیتی ہے کہ وہ پھسل گیا ہے۔ ایک لمحہ کی غفلت کے بعد اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، اور وہ اللہ سے معافی مانگتے ہوئے دوبارہ اپنے کو درست کرلیتا ہے— حساسیت آدمی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جب کہ بے حسی آدمی کو شیطان کے مقابلے میں غیر محفوظ بنادیتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں:عن ابن عمر، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم :’’ المؤمن الذی یخالط الناس، ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من الذی لا یخالطہم، ولا یصبر على أذاہم‘‘۔ قال :حجاج :’’خیر من الذی لا یخالطہم‘‘ (حدیث نمبر 5022)۔ یعنی عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ مومن جو لوگوں سے مخالطت کرتا ہے، اور ان کی اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اجر میں اس سے زیادہ ہے جو مخالطت نہیں کرتا، اور لوگوں کی اذیت پر صبر نہیں کرتا۔ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں، وہ بہتر ہے ان سے جو لوگوں سےمخالطت نہ کرے۔
مخالطت کا مطلب ملنا جلنا (social intercourse) ہے۔ جو شخص اپنے آپ میں جینے والا ہو، اس کو لوگوں کی طرف سے کوئی اذیت نہیں پیش آئے گی۔ لیکن جو شخص لوگوں کے درمیان رہے، لوگوں کے ساتھ اس کا انٹر ایکشن ہوتا ہو، لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات پیش آئیں، ایسے آدمی کو فطری طور پر دوسروں کی طرف سے چھوٹی یا بڑی اذیت پیش آئے گی۔ تنہائی کی زندگی گزارنے والے کے مقابلے میں مخالطت کی زندگی گزارنے والا افضل کیوں ہوتا ہے۔
اس کا سبب فطرت کا ایک اصول ہے۔ فطری نظام کے تحت ہر آدمی بے پناہ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ صلاحیتیں اس کے اندر بالقوۃ (potential) کے طور پر ہوتی ہیں۔ اس بالقوۃ کو بالفعل (actual) بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو شاک کا تجربہ پیش آئے۔ فطرت کا نظام شاکنگ ٹریٹمنٹ (shocking treatment) کے اصول پر قائم ہے۔ جو آدمی شاک کو سہے، اس کے فطری امکانات ان فولڈ (unfold) ہوتے رہتے ہیں، اس کا ذہنی ارتقا (intellectual development) ہوتا رہے گا۔ اس کے برعکس، جو شخص صدمہ (shock) کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہیں ہوگا۔ وہ جیسا پیدا ہوا تھا، ویسے ہی مرجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہاکہ آپ مجھ کو ایک جامع نصیحت کیجیے، جس کا تعلق دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح سے ہو۔ میں نے کہا کہ قرآن کی روشنی میں میرا جواب یہ ہے کہ صبر کا طریقہ اختیار کیجیے۔ اور پھر آپ اللہ کی توفیق سے دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک مستقل خدائی گائڈ موجود ہے۔ یہ انسان کا ضمیر (conscience) ہے ۔ انسان کا ضمیر ایک بے خطا رہنما ہے۔ وہ ہمیشہ انسان کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ انسان کے اندر مختلف قسم کی خواہشیں ( desires) ہیں۔ قرآن میں ضمیر کو نفس لوامہ کہا گیا ہے، اور خواہشوں کو نفس امارہ۔
انسان کا ضمیر ہر موقعہ پر اس کو صحیح رہنمائی دیتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی خواہشیں انسان کو اپنی طرف کھیچنے لگتی ہیں۔ اس طرح ضمیر اورخواہش کے درمیا ن ایک ٹکراؤپیدا ہوجاتا ہے۔ اس ٹکراؤ میں اکثر خواہش غالب آتی ہے اور انسان ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرکے خواہش کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ یہ واقعہ دنیا کے معاملات میں بھی پیش آتا ہے اور آخرت کے معاملات میں بھی۔
اس نازک وقت میں جو چیز انسان کے کام آتی ہے، وہ صبر ہے۔ انسان اگر صبر کا ثبوت دے تو وہ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرے گا۔ اس طرح وہ اس میں کامیاب ہوجائے گا کہ وہ صراطِ مستقیم سے انحراف ( deviate)نہ کرے۔ اور ضمیر کی آواز پر چلتے ہوئے ، اپنا سفر صحیح سمت میں جاری رکھے۔یہاں تک کہ وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے۔اسی لیے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ صبر پر انسان کو سب سے زیادہ انعام دیاجاتا ہے(الزمر10 )۔
عملی اعتبار سے زندگی میں سلبی صفت کی اہمیت ایجابی صفت سے بھی زیادہ ہے۔ جو آدمی صرف کرنا جانے اور رکنا نہ جانے، وہ کبھی اپنی زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ زندگی کا معاملہ موٹر کارکے معاملہ جیسا ہے۔ موٹر کار میں اگر بریک نہ ہوتو خواہ موٹر کار کتنی ہی اچھی ہو، وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔موٹر کار میں جو اہمیت بریک کی ہے،وہی اہمیت زندگی میں صبر کی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: لَتُنْقَضَنَّ عُرى الإسلام عُروة عروة، فکلما انتقضت عروة تَشبّث الناس بالتی تلیہا، وأولہن نقضا الْحُکْمُ وآخرہن الصلاة۔ (مسند احمد، حدیث نمبر22160) یعنی اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے توڑ دی جائیں گی۔ جب بھی کوئی ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی سے چمٹ جائیں گے، اور ان کڑیوں میں سے پہلی کڑی جو ٹوٹے گی وہ حُکم ہوگا، اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی وہ نماز ہوگی۔
اس حدیث میںایک تمثیل کے ذریعے امت کے زوال کی حالت بتائی گئی ہے۔ زوال کا آغاز حُکم کے خاتمے سے ہوتا ہے۔ حُکم کا مطلب حکمت (wisdom) ہے۔ یہاں حکمت کا لفظ عام معنی میں نہیں بلکہ دینی معنی میں ہے۔ یعنی امت کے افراد میں حکمتِ دنیا تو باقی رہتی ہے لیکن حکمتِ دینی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ نماز سے مراد ، نماز کی صورت (form)نہیں بلکہ نماز کی اسپرٹ ہے۔ زوال کے زمانے میں لوگ بظاہر نماز کا اہتمام تو کرتے ہیں لیکن عملاًوہ فارم کی نماز ہوتی ہے نہ کہ اسپرٹ کی نماز۔
حکم اور صلاۃ دونوں کے خاتمے کا سبب ایک ہوتا ہے۔ اور وہ ہے دین کی حقیقت گم ہوجانا، اور اس کا صرف کلچر کی سطح پر باقی رہنا۔ حکم سے مراد دین کی سمجھ ہے۔زوال کے زمانے میں یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا تعلق زیادہ سے زیادہ اپنے دنیوی معاملات سے ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر یہ ہوتا ہے دین کے بارے میں لوگوں کی حساسیت پہلے کم ہوتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہے۔ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے دنیوی معاملات میں مشغول رہتے ہیں۔ اس مشغولیت کے بنا پر عملا یہ ہوتا ہے کہ دین کی حساسیت صرف وہ لوگ زندہ رکھ پاتے ہیں جو عملی مشغولیت کے باوجود فکری طور پر بیدار ہوں اوربالقصد سوچ کی سطح پر دین کی اسپرٹ کو باقی رکھیں۔ اس کے برعکس اگر ایسا نہ ہوتواس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر سے دین کی سمجھ ختم ہوجاتی ہے، اور لوگ بے روح فارم کو دین سمجھ لیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
پرنٹنگ پریس 1440 ءمیں ایجاد ہوا۔ ا س کا موجد جرمنی کا گوٹن برگ (Johannes Gutenberg) ہے۔ مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس زیادہ دیر میں عام ہوا۔ 1727ء میں ترکی میں ابراہیم متفرقہ نے پرنٹنگ پریس قائم کیا۔پریس کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہ تھا..... (مگراس وقت کے) بااقتدار علماء نے اسے ــ’’بدعت‘‘ تصور کیا، شیخ الاسلام نے فتوی دیا کہ (اس پر) مذہبی کتابوں کا چھاپنا شرعاً ممنوع ہے۔ (اشخاص و افکار، ضیاء الحسن فاروقی، ص
حرمت کے فتووں کا رواج اصحابِ رسول کے زمانے میں موجود نہ تھا۔ بعد کے زمانے میں جب امت میں زوال آیا تو علماء تقلید کی روش پر قائم ہوچکے تھے۔ وہ ہر نئی چیز کو توحش کی نظر سے دیکھنے لگے۔ وہ ہر نئی چیز کو شریعت کے خلاف سمجھنے لگے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ حرمت کے فتووں کا رواج عام ہوا۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
’’حرمت کی شریعت‘‘ کے اس رواج کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب زمانے سے بے خبری (unawareness) ہے۔ بعد کے زمانے میں علماء اپنے وقت کی علمی ترقیوں سے بے خبر ہوگیے۔ اس بنا پر وہ ہر نئی چیز کو غلط سمجھنے لگے۔ اگر یہ علماء جدید حالات سے واقف ہوں، اگر وہ وقت کے علمی معیار پر نئے مسائل کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں تو وہ نئے حالات کا مطالعہ کریں گے۔ وہ علمی انداز میں اس کا تجزیہ کریں گے۔ اور پھر وقت کی علمی سطح پر اس کی نوعیت کو بیان کریں گے۔ وہ تکفیر کی زبان استعمال کرنے کے بجائےعلمی تجزیہ کی زبان استعمال کریں گے۔ بلکہ وہ نئے پیدا شدہ حالات کو اپنے ذہنی ارتقا کے لیے فکری خوراک بنا لیں گے۔ مگر بد قسمتی سے بعد کے زمانے کے مسلم علماء اس اہلیت کا ثبوت نہ دے سکے۔ ہر چیز جو ان کی سمجھ میں نہیں آئی، اس پر وہ منفی ردعمل کا اظہار کرنے لگے۔ یہ ذہنی جمود کی حالت ہے۔ اور ذہنی جمود کی حالت اسلام میں مطلوب نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مشہور صحابی انس بن مالک کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے :شج النبی صلى اللہ علیہ وسلم یوم أحد، فقال:’’کیف یفلح قوم شجوا نبیہم؟‘‘. فنزلت:لیس لک من الأمر شیء۔(صحیح مسلم حدیث نمبر1791)۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوگیے۔ اس وقت آپ نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی، جو اپنے نبی کو زخمی کرے۔ اس پر قرآن میں یہ آیت اتری ، تم کو اس معاملےمیں کوئی دخل نہیں ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ داعی کا اخلاق کیا ہونا چاہیے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ یکطرفہ اخلاقیات کا طریقہ اختیار کرے۔ یعنی مدعو کے سلوک پر کوئی شکایت نہ کرنا۔ شکایت اور احتجاج سے پوری طرح اوپر اٹھ جانا، ہر حال میں ردعمل کی نفسیات سے کامل طور پر پاک ہونا۔
داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہوتا ہے۔ یہی خیر خواہی کی اسپرٹ داعی کے اندر وہ اخلاقیات پیدا کرتی ہے جو داعی کو کامل طور پر ایک بے شکایت انسان بنا دیتی ہے۔ داعی کے اندر یک طرفہ اخلاقیات کی یہ صفت لازمی طور پر ضروری ہے۔ داعی اگر اس کردار کا حامل نہ ہو تو وہ کبھی دعوت الی اللہ کا کام نہیں کرسکتا۔
دعوت سے مراد دعوت الی اللہ ہے۔ داعی اپنا دعوتی کام اللہ کے لیے کرتا ہے۔ وہ اپنے عمل کے لیے اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے۔ مدعو کا رویہ خواہ کچھ ہو، داعی ہر تجربے کو اللہ کی نسبت سے دیکھتا ہے۔ داعی کے اندر اگر ردعمل کا مزاج پیدا ہوجائے ، وہ اپنے مدعو سے ٹکراؤ شروع کردے تو اس کی دعوت ، وہ دعوت نہ ہوگی جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دعوت کے ذریعے انسان کے اوپر حجت تمام ہو۔ اس کو یہ کہنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے۔ داعی کے اندر یکطرفہ اخلاقیات کا مقصد یہ ہے کہ مدعو کے لیے کسی قسم کا عذر باقی نہ رہے،مدعو کے ساتھ آخرت میں جو معاملہ کیا جائے وہ ہر اعتبار سے ایک جائز معاملہ ہو۔
واپس اوپر جائیں
غلطی کرنے کے بعد اکثر لوگ دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ غلطی کی صفائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ غلطی کرنے کے بعد یہ دریافت کیا جائے کہ غلطی کیوں ہوئی۔ غلطی کی صفائی پیش کرنے والے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جہاں وہ پہلے تھا، وہیں وہ بعد کو بھی باقی رہتا ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کا سبب دریافت کرنے والے کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کو دوبارہ دہرانے سے بچ جاتا ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :عن أنس، قال :قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: کل بنی آدم خطاء، وخیر الخطائین التوابون (ابن ماجہ، حدیث نمبر 4251)۔ یعنی ہر انسان غلطی کرنے والا ہے، اور سب سے اچھا غلطی کرنے والا وہ ہے جو غلطی کے بعد توبہ کرے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے پاس کلی علم نہیں۔ اس بنا پر انسان ہمیشہ غلط رائے قائم کرتا ہے۔ اس کے منصوبہ میں ہمیشہ غلطیاں ہوتی ہیں۔ انسان کی خوبی یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے۔ انسان کی خوبی یہ ہے کہ کسی وجہ سےغلطی کرنے کے بعد جب اس پر اپنی غلطی ظاہر ہوجائے تو وہ فوراً رجوع کرے، وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ، اپنے عمل کو مطابقِ حقیقت بنائے۔ وہ کھلے طور پر اعتراف کرے کہ اس سے پہلے اس سے غلطی ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنی رائے کو بدلتا ہے، اور زیادہ درست انداز میں اپنے کام کا نقشہ بناتا ہے۔
جو آدمی اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، اس کی قیمت اس کو یہ دینی پڑے گی کہ وہ بدستور اپنی غلط روش پر قائم رہے۔ اس طرح وہ ایک طرف یقین سے محروم ہوجائے گا۔ کیوں کہ ایک بات کو درست نہ سمجھتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے گا۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ اس کا عمل نتیجہ خیز ثابت نہ ہوگا، اس کا منصوبہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ کوئی خارجی سازش نہیں۔ ا ن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ دورِ حاضر سے بے خبر ہوگیے ہیں۔ مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ دورِ حاضر ان کے لیے مسائل کا دور (age of problems)ہے۔ مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ موجودہ زمانہ مسلمانوں کے لیے مواقع کا زمانہ (age of opportunities)ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلى العاقل أن یکون بصیرًا بزمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
اکثر تعلیم یافتہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکا اسلام دشمن ہے۔ اس نظریہ کو عام طور پر اسلاموفوبیا (Islamophobia)کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بات مکمل طور پر بے بنیاد ہے۔ کوئی بھی شخص امریکا کا سفر کرے، تو وہ پائے گا کہ وہاں کے مسلمان خوب ترقی کر رہے ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں مسجدیں اور اسلامی سینٹر قائم ہیں۔ مذہبی اعتبار سے وہاں مسلمانوں کو کوئی بھی رکاوٹ نہیں۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ خود مسلمان امریکو فوبیا (Americophobia) میں مبتلا ہیں، نہ کہ امریکا اسلامو فوبیا میں۔
موجودہ زمانے کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اس میں متعصبانہ فکر کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ جدید دور کا کلچر تمام تر ایک ہی اصول پر قائم ہے۔ اور وہ ہے مسابقت (competition)۔ مغربی دنیا کا فارمولا ایک لفظ میں یہ ہےcompete or perish
مسلمان اپنی روایتی سوچ کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان کے خلاف سازش کرتا ہے، مغرب میں ان کے خلاف تعصب کیا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ مسلمان صرف ایک کام کریں۔ وہ یہ ہے کہ وہ جدید تعلیم میں امتیازی درجہ حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول میں ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ألہمنی رشدی، وأعذنی من شر نفسی(سنن الترمذی، حدیث نمبر3483)۔ یعنی اے اللہ، مجھ کو صحیح راستے کی ہدایت دے، اور مجھ کو میرے نفس کے شر سے بچا۔رُشد کے معنی ہیں راہ راست، یا ہدایت کا راستہ۔ یعنی وہ راستہ جس پر چل کر انسان کو دنیا اور آخرت کی فلاح حاصل ہوتی ہے۔
یہ راستہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔ ہدایت کے راستے کو جاننا اور اس پر عمل کرنا، انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس کو یہاں نفس کا شر بتایا گیا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی سچائی کو جانے لیکن غلط تاویل کرکے اس کی صورت کو بدل دے۔
غلط تاویل ہمیشہ نفس کے شر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غلط تاویل کی گنجائش بہت زیادہ ہے ۔ یہاں تک کہ ایک واضح حکم کو بھی غلط تاویل کے ذریعے کچھ سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔مثلا قرآن میں آیا ہے کہ نماز قائم کرو۔اگر انسان کے اندر شر نہ ہو تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ اس کا مطلب سمجھ سکتا ہے، لیکن اگراس کے اندر شر ہو، یعنی اس کی نیت درست نہ ہو تو وہ عجیب و غریب تاویل کرکے اس کا مفہوم کچھ سے کچھ بنادے گا۔ مثلا اقامت صلاۃ کا مطلب ہے اقامت نظام، اقامت صلاۃ کا مطلب ہے سماج میں سدھار لانا، اقامت صلاۃ کا مطلب وہی چیز ہے جس کو اس زمانے میں سوشل سروس کہا جاتا ہے، وغیرہ۔ نفس کے شر سے بچنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ صرف دعا کے الفاظ بولنے سے آدمی نفس کے شر سے بچ نہیں سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ اس معاملے میں پچاس فیصد آدمی کا اپنا کام ہے، اور بقیہ پچاس فیصد دعا کا کام ہے۔ اس معاملے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی صدق نیت کے ساتھ راہ راست کو دریافت کرے۔ اس کے اندر اس پر عمل کرنے کا سچا جذبہ موجود ہو۔ پھر وہ اللہ سے اس پر استقامت کی دعا کرے۔وہ اللہ سے اس بات کی مدد مانگے کہ شیطان اس پر حاوی نہ ہوجائے۔ وہ شیطان کی تزئین اور اس کے وسوسہ کو پہچانے، اور اپنے آپ کو اس سے بچائے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت ابتدائی دور میں آپ کے لیے قرآن میں جو ہدایات نازل ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی: وَالرُّجْزَ فَاہْجُر (
قدیم مکہ میں رُجز کو چھوڑنے کا مطلب کیا تھا۔ اس کو پیغمبر اسلام کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— مکہ میں اگر چہ تمھارے لیے ناموافق حالات ہیں، مگر تم اس معاملے میں حکیمانہ طریقہ اختیار کرو، اور چیزوں کو غلط زاویۂ نظر (wrong angle) سے دیکھنا چھوڑ دو۔
اس معاملے کی ایک مثال سورہ نمبر
اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میںلوگوں نے مقدس کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھ دیے تھے۔ یہ بظاہر ایک اشتعال انگیز بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اس پر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ نے وقتی طور پر اس کو نظر انداز کیا۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کی بنا پر وہاں ہر روز مشرکین کا جو اجتماع ہوتا تھا، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کیا۔ آپ خاموشی کے ساتھ وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن سناتے۔ روایات میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرت ابن ھشام، مصر 1955، 1/428)۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیم (
اسلام ایک مشن ہے، پرامن دعوتی مشن۔ باعتبارِ حقیقت یہ مشن پوری طرح پرامن اور غیر سیاسی مشن ہے۔ لیکن کسی ماحول میں جب اس مشن کے لیے کام کیا جائے تو کچھ لوگ نظریاتی بنیاد پر اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اس طرح داعی اور مدعو کے درمیان عملاً نزاع (controversy)کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے موقعے پر مدعو کی طرف سے داعی کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ قرآنی تعلیم اسی طرح کی نزاعی صورتِ حال کے بارے میں ہے۔
اس طرح کی صورتِ حال میں داعی کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہرگز اپنے کلام میں منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ بلکہ وہ یک طرفہ طور پر مثبت رسپانس (positive response)کی روش پر قائم رہیں۔ داعی اگر اپنے آپ کو منفی ردعمل سے بچائے، مکمل طور پر دونوں کے درمیان اعتدال کی فضا قائم رہے، تو فطرت اپنا کام کرے گی۔ فطری پراسس کے تحت مدعو کی نفسیات بدلنا شروع ہو جائے گی، یہاں تک کہ یہ واقعہ پیش آئے گا کہ جو شخص بظاہر مخالف نظر آرہا تھا، وہ داعی کا حامی اور موافق بن جائے گا۔ منفی ردعمل مدعو کی ایگو (ego) کو بھڑکاتا ہے، مثبت رسپانس اس کو معتدل بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
کسی بات کا جواب اگر مشتعل ہوکر دیا جائے تو اس کا نتیجہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر آدمی سخت بات سنے مگر وہ اپنے اعتدال کو نہ کھوئے، بلکہ اشتعال کے بغیر جواب دے تو نتیجہ معجزاتی طور پر موافق صورت میں نکلے گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ اشتعال انگیز جواب سے سننے والے کی انا بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غیر ضروری طور پر دشمن بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر معتدل انداز میں جواب دیا جائے تو سننے والے کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ اور گفتگو فطری انداز میں ہونے لگتی ہے۔ پیدائشی طور پر ہر آدمی آپ کا دوست ہے۔ اس کے بعد آپ کا رویہ یا تو اس کی دوستی کو باقی رکھتا ہے یا اس کو دشمن بنا دیتا ہے۔ اس نوعیت کی ایک تاریخی مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔
تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل (Mongols)نے عباسی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلب تک مسلم سلطنت پر قبضہ کرلیا۔ اس کے کچھ سال بعد یہ معجزاتی واقعہ ہوا کہ تاتاری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اسلام کے دشمن اسلام کے خادم بن گیے۔
اس تاریخی واقعہ پر پروفیسر ٹی ڈوبلیو آرنلڈ(Thomas Walker Arnold,
[1864-1930])نے ریسرچ کی ہے۔ ان کی کتاب دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے باب ‘Spread of Islam among the Mongols’ کے تحت اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
اس زمانے میں تاتاری لوگ مسلمانوں کو سخت حقیر سمجھنے لگے تھے۔ اس دور کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک دن تاتاری شہزادہ تغلق تیمور خاں نے ایک ایرانی مسلمان، شیخ جمال الدین کو دیکھا۔ اس نے نفرت کے ساتھ کہا کہ تم اچھے یا میرا کتا اچھا۔ شیخ جمال الدین نے اس کو سن کر معتدل انداز میں جواب دیا، اگر میرا خاتمہ ایمان پر ہوا تو میں اچھا۔ اور اگر میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا تو تمھارا کتا اچھا۔یہ جواب سن کر شہزادہ کا غصہ ختم ہوگیا۔ اور اس نے شیخ کے ساتھ اچھا برتاؤ شروع کردیا۔ پروفیسر آرنلڈ نے اس واقعہ کواپنی کتاب میں ان الفاظ میں نقل کیا ہے:
Tūqluq Timūr Khān (1347-1363), is said to have owed his conversion to a holy man from Bukhārā, by the name Shaykh Jamāl al-Dīn. This Shaykh, in company with a number of travellers, had unwittingly trespassed on the game-preserves of the prince, who ordered them to be bound hand and foot and brought before him. In reply to his angry question, how they had dared interfere with his hunting, the Shaykh pleaded that they were strangers and were quite unaware that they were trespassing on forbidden ground. Learning that they were Persians, the prince said that a dog was worth more than a Persian. “Yes,” replied the Shaykh, “if we had not the true faith, we should indeed be worse than the dogs.” Struck with his reply, the Khan ordered this bold Persian to be brought before him on his return from hunting, and taking him aside asked him to explain what he meant by these words and what was “faith”. The Shaykh then set before him the doctrines of Islam with such fervour and zeal that the heart of the Khān that before had been hard as a stone was melted like wax, and so terrible a picture did the holy man draw of the state of unbelief, that the prince was convinced of the blindness of his own errors, but said, “Were I now to make profession of the faith of Islam, I should not be able to lead my subjects into the true path. But bear with me a little and when I have entered into the possession of the kingdom of my forefathers, come to me again.” (London, 1913, p.
شیخ جمال الدین سے ملاقات کے بعد کچھ اور واقعات پیش آئے یہاں تک کہ تغلق تیمور خاں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد اس نے حکمت کے ساتھ لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتایا۔ یہاں تک کہ تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ شیخ جمال الدین کا مشتعل جواب تاریخ کو دوسرا رخ دے دیتا۔ لیکن ان کے معتدل جواب نے تاریخ کو صحیح رخ پر ڈال دیا۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مدینہ کے لوگوں نے بہت جلد آپ کو اپنا قائد تسلیم کرلیا۔ اس کا راز یہ تھا کہ آپ کی ہجرت سے تقریبا پانچ سال پہلے مدینہ (یثرب) کے دو قبائل ، اوس اور خزرج کے درمیان جنگ ہوئی۔ جو جنگ بعاث کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں دونوں قبیلوں کے بڑے بڑےسردار مارے گئے۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: کان یوم بعاث، یوما قَدمہ اللہ لرسولہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3777) ۔ یعنی آپ کی ہجرت سے پہلے جنگ بعاث کا ہونا، یہ اللہ کی طرف سے آپ کی ایک مدد تھی۔
اس جملہ کی شرح کرتے ہوئےشارحین نے لکھا ہے : لو کان صنادیدہم أحیاء لما انقادوا لرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم حبا للریاسة (عمدۃ القاری للعینی، بیروت،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتِ حال کو سمجھا، اور نہایت حکمت کے ساتھ اس کو استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف سرداروں کا ماراجانا کافی نہ تھا، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچنے کے بعد نہایت حکمت کا طریقہ اختیار فرمائیں۔ تاکہ کوئی نیا مسئلہ پیدا نہ ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل ایمان کے لیے موافق حالات ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ مگر صرف حالات کا پیدا ہونا کافی نہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم قائدین ان حالات کو سمجھیں، اور پیدا شدہ مواقع کو حکمت کے ساتھ استعمال (avail) کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکیمانہ طریقہ بھی اہل ایمان کے لیے ایک سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک نوجوان انڈیا میں پیدا ہوئے۔ انڈیا میں انھوں نے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم میں ان کو اعلیٰ درجے کی ڈگری ملی۔ پھر وہ یوروپ چلے گیے۔ اب وہ یوروپ کے ایک ترقی یافتہ شہر میں آرام و آسائش کی زندگی گزارہے ہیں۔ اس نوجوان کی بہن ابھی انڈیا میں رہتی ہے۔ بھائی سے ٹیلیفون پر بہن کی بات ہوئی۔ بہن نے بے تکلفی کے انداز میں کہا کہ تم انڈیا واپس آجاؤ۔ یہ سن کر بھائی نے جواب دیا— کیا میں پاگل ہوں۔
مذکورہ بھائی ابھی جوانی کی عمر میں ہیں۔ یورپ کے شہر میں وہ اچھی صحت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کو ابھی زندگی کے گہرے مسائل کا تجربہ نہیں۔ اگر وہ جانتے کہ ان کی جوانی اور صحت ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح وہ بھی ایک دن بوڑھے اور ضعیف ہوجائیںگے۔ اس کے بعد زندگی ان کے لیے اسی طرح ایک بوجھ (burden) بن جائے گی جس طرح دوسرے بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے بن جاتی ہے تو وہ اس قسم کا جواب نہ دیتے۔ اس واقعے کو سن کر مجھے ایک حدیث رسول زیادہ واضح طور پر سمجھ میں آئی۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیںعن ابن عباس أن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال:البرَکة مع أکابرکم (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
اس حدیث میں اکابر کا لفظ پر اسرار بزرگی کے معنی میں نہیں ۔ بلکہ یہ لفظ زندگی کی ایک فطری حقیقت کو بتاتا ہے۔ اکابر کا لفظ یہاں معمر اشخاص (seniors) کے معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ افراد جو صحیح زندگی گزاریں اور پھر وہ زیادہ عمر تک پہنچ جائیں۔ تو فطری طور پر وہ زیادہ اہل دانش (man of wisdom) بن جاتے ہیں۔ ان کی باتیں سننے والے اور ان کے ساتھ بیٹھنے والے کو ان سے حکمت و دانائی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
معمر (senior) آدمی کو چند اضافی مواقع مل جاتے ہیں۔ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ زیادہ مدت تک علم سیکھے، وہ زیادہ مدت تک زندگی کا تجربہ حاصل کرے۔ اسی کے ساتھ بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کی بنا پر اس کو زندگی کے شدائد (difficulties) کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر سنجیدگی اور تواضع (modesty) آجاتی ہے۔ یہ صفت اس کو زندگی کے ایسے پہلووں سے آگاہ کرتی ہے جس سے جوان لوگ بالکل بے خبر رہتے ہیں۔
معمر (senior) انسان اگر فطری زندگی گزارے تو اپنی عمر کے آخری حصے میں اس کے اندر ایسی دانش (wisdom)پیدا ہوجاتی ہے جو جوانی کے عمر میں آدمی کے اندر نہیں ہوتی۔ وہ ایسی بصیرت افروز باتیں کرنے لگتا ہے جس سے کم عمر انسانوں کی باتیں خالی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے انسان کی باتوں میں زیادہ خیر اور زیادہ برکت (نفع بخشی) شامل ہوجاتی ہے۔
آدمی جب پیدا ہوتا ہے اور پھر بچپن سے جوانی کی عمر تک پہنچتا ہے توپہلے مرحلۂ حیات میں اس کو بجلی جیسی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے اندر عزم ہوتا ہے۔ وہ حوصلہ مندانہ انداز میں زندگی کی سرگرمیوں میں شریک ہوتا ہے۔ یہ حالات اس کے اندر ایک پراعتماد شخصیت بنا دیتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں سب کچھ ہوں۔ میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لیے ایک زندگی کی تعمیر کرسکتاہوں۔
مگر دھیرے دھیرے اس کی عمر بڑھتی ہے۔ وہ ایجنگ (ageing)کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی۔ اس کا حافظہ اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح وہ پہلے کام کرتا تھا۔ اس کا دماغ ، اور اس کی آنکھ ، اور اس کے کان ، اور دوسرے اعضا اگرچہ بظاہر پہلے کی طرح ہیں، لیکن ہر ایک میں کمزوری آچکی ہے۔
یہ وہ دور ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرنے لگتی ہے۔ وہ ایک حقیقت شناس انسان بن جاتا ہے۔ پہلے اگر وہ بے احتیاطی کے فیصلےکرتا تھا تو اب وہ اپنے فیصلوں میں زیادہ محتاط بن جاتا ہے۔ یہی وہ دورِ حیات ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
رتن سنگھ (پیدائش 1927) اردو کے ایک مشہور ادیب ہیں۔ ایک گفتگو کے دوران ان کے انٹرویور ڈاکٹرریحانہ سلطانہ نے ان سے پوچھا، آپ اپنی نمائندہ کہانی کس کہانی کو مانتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، نمائندہ کہانی تو ابھی مجھے لکھنی ہے۔ کب سرسوتی مہربان ہوجائے، کہہ نہیں سکتا۔ (ماہنامہ اردو دنیا، دہلی، اکتوبر2015، صفحہ 9) نوبیل انعام یافتہ رابندر ٹیگور نے اپنی کتاب گیتانجلی میںاپنے بارے میں لکھا ہے : ساری عمر بینا کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی، جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گاسکا۔
یہ احساس تقریبا ہر ادیب اور صاحبِ قلم کے یہاں پایا جاتا ہے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر آئڈلسٹ (idealist) ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے آئڈیل کو لفظوں میں ڈھال سکے، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا سبب ایک فطری تضاد ہے جس سے ہر انسان زندگی میں دوچار رہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت سے وہ خود تومعیار پسند مزاج لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن اپنے خیال کےاظہار کے لیے اس کے پاس جو الفاظ ہوتے ہیں، وہ معیار سے کمتر ہوتے ہیں۔ اس تضاد کی بنا پر ہر باذوق انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ عملاً ایک تشنگی میں جیتا ہے، اور آخرکار اسی تشنگی میں مرجاتا ہے ۔
انسان کی اس تشنگی کے پورا ہونے کا مقام صرف جنت ہے۔ یہ تشنگی اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ انسان اس پر سنجیدگی کے ساتھ سوچے، جو آدمی حقیقی معنوں میں متلاشی (seeker) بن کر اس پر غور کرے گا، وہ ضرور اس کا جواب پالے گا۔ اور پھر اس کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس چیز کو اپنی تلاش کی منزل بنائے— انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے جنت کا طالب ہے۔ انسان طالب ہے، اور جنت اس کا مطلوب۔ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو جانے، اور اس کو اپنا منزل مقصود بنائے۔
واپس اوپر جائیں
منافقت (hypocrisy) ایک عام انسانی کردار ہے۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر دہرا معیار (duplicity) کا انداز پایا جاتا ہو۔ ایسا آدمی دو چہرے والا (double-faced) آدمی ہوتا ہے۔ و ہ گفتگو میں اپنے آپ کو جیسا ظاہر کرتا ہے، اندر سے وہ ویسا نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگوں کو حضرت مسیح نے ’’سفیدی پھری ہوئی قبروں‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ یعنی اندر سے تو وہ تاریک کردار کا آدمی ہے مگر باہر سے وہ اپنے آپ کو صاف ستھرا بنائے ہوئے ہے۔
عربی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ’نافق الیربوع ‘ یعنی جنگلی چوہا سوراخ میں داخل ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹا چوہا ہے جو اپنے آپ کو بل میں چھپائے رہتا ہے۔ یہی حال منافق انسان کا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو مصنوعی الفاظ بول کر چھپائے رہتا ہے۔ حالاں کہ اس کی اصل شخصیت اس کے بول سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔
منافق انسان دنیوی پہلو سے بھی ناقابل اعتبار ہوتا ہے، اور دینی پہلو سے بھی ناقابل اعتبار۔ ایسا آدمی اگر چہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح چھپائے رکھے لیکن دوسرے انسان کہیں نہ کہیں اس کو پہچان لیتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں اس کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔
منافق انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قابل پیشین گوئی کردار (predictable character)کا حامل نہیں ہوتا۔ایسے انسان کے اوپر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ زبان سے کچھ اور بولتا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں بظاہر اچھا نظر آتا ہے لیکن اپنے حقیقی کردار کے اعتبار سے وہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منافق آدمی حیوان سے بھی کم تر درجے کا آدمی ہے۔ اس لیے کہ حیوان اپنے کردار کو چھپاتا نہیں، جب کہ منافق ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا اصل کردار لوگوں کی نظروں سے چھپارہے۔
واپس اوپر جائیں
خوشی ہر آدمی چاہتا ہے۔ لیکن مطلوب خوشی کسی کو نہیں ملتی۔ چنانچہ خوشی عملا ایک ناقابل حصول چیز بنی ہوئی ہے۔ برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل نے خوشی (happiness)کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں خوشی کسی کے لیے قابلِ حصول نہیں۔ اس معاملے میں اسلام نے ایک فطری فارمولا اختیار کیا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے اطمینانِ قلب انسان کو صرف اللہ کی یاد (الرعد
ذہنی اطمینان یہ ہے کہ آدمی صورتِ حال کی معقول توجیہہ دریافت کرسکے۔ مثلا آپ ٹرین پکڑنے کے لیے اسٹیشن گیے۔ آپ اسٹیشن پر ٹرین کے مقرر وقت کے مطابق جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ٹرین دو گھنٹہ لیٹ ہے۔ اگر آپ کو لیٹ ہونے کا سبب معلوم نہ ہوتو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ ٹرین کے لیٹ ہونے کا واقعی سبب کیا ہے۔ تو آپ مطمئن ہوجائیں گے اور ذہنی سکون کے ساتھ ٹرین کی آمد کا انتظار کریں گے۔
خالق نےموجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے اور آخرت کو انعام کے لیے۔ اس لیے موجودہ دنیا میں مادی لذت کسی کو پورے معنوں میں نہیں مل سکتی۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ آدمی صورتِ حال کی توجیہہ کرکے ذہنی اطمینان حاصل کر لے۔ اسلام کے مطابق خوشی کا فارمولا یہی ہے۔ مادی لذت کے معاملے میں آپ یہ کیجیے کہ ملے ہوئے پر قناعت کیجیے۔ اور نہ ملے ہوئے کو آخرت کے خانے میں ڈال دیجیے۔ اس طرح آپ کا ذہن آزاد ہوجائے گااور واقعات کی صحیح توجیہہ کر کے آپ ذہنی اطمینان حاصل کر لیں گے۔ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق خوشی کے حصول کا یہی قابلِ عمل فارمولا ہے۔
واپس اوپر جائیں
امریکی خاتون جرنلسٹ این لینڈرس(Esther Pauline, alias Ann Landers ) 1918 میں پیدا ہوئیں، 2002 میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے درست طور پر کہا ہے — پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ پر امن طور پر رہ سکیں جن کوآپ بدل نہیں سکتے:
Maturity is the ability to live in peace with those whom we cannot change.
یہ بلاشبہ ایک دانش مندی کی بات ہے۔ اس بات کو مزید معنوی اضافہ کے ساتھ اس طرح کہا جاسکتا ہے— پختگی اس صلاحیت کا نام ہے کہ آدمی اپنے منصوبہ کو ان حالات کے مطابق دوبارہ بنا سکے، جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Maturity is the ability to reset your plan according to the situation you cannot change.
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے عمل کے لیے ایک منصوبہ (plan) بناتا ہے۔ مگر تجربے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کا منصوبہ اصولی طور پر بظاہر درست ہونے کے باوجودعملی اعتبار سے ورکیبل (workable) نہ تھا۔
اس تجربے کے بعد آدمی دوبارہ اپنے مقصد کے لیے نیا منصوبہ بناتا ہے، ایسا منصوبہ جو حالات کے مطابق، زیادہ قابل عمل ہو۔ تجربے کی روشنی میں دوبارہ سوچنا اور اور زیادہ قابل عمل انداز میں اپنا منصوبہ بنانا بلاشبہ دانشمندی ہے۔
کامیاب منصوبہ کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ منصوبہ بنانے والے کے نزدیک درست منصوبہ ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طور پر ضروری ہے کہ وہ حالات کے مطابق، ورکیبل (workable) بھی ہو۔ تجربے کے بعدآدمی کو جب محسوس ہو کہ اس کا منصوبہ قابلِ عمل نہ تھا تو اس کو فوراً اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
ترقی یافتہ قومیں (developed nations) میں میرٹ کلچر (merit culture) رائج ہے۔ غیر ترقی یافتہ قوموں (underdeveloped nations) میں تعلقات کلچر کواہم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ربانی معاشرہ وہ ہے جہاں تزکیہ کلچر پایا جائے۔ میرٹ کلچر کے ماحول میں ساری اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص کتنا زیادہ لائق (competent) ہے۔ ایسے ماحول میں لائق آدمی کو جگہ ملتی ہے، اور جو شخص لائق نہ ہو، اس کو رد کردیا جاتا ہے۔
جس معاشرہ میں تعلقات کلچر کا رواج ہو، وہاں یہ حال ہوتا ہے کہ ہر آدمی ذمہ داروں سے تعلق (contact) بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کو اپنی ذاتی استعداد بڑھانے کی فکر نہیں ہوتی، البتہ وہ رات دن اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ ذمہ داروں سے خوب تعلق قائم کرے۔ اس کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ تعلقات سے کام بنتے ہیں ، نہ کہ ذاتی استعداد سے۔
ربانی معاشرہ ان دونوں سے مختلف ہوتا ہے۔ ربانی معاشرہ میں ہر ایک کا کنسرن (concern) تزکیہ ہوتا ہے۔ یعنی اپنی اصلاح، اپنے آپ کو اس قابل بنانا کہ وہ اللہ کی عنایتوں کا مستحق قرار پائے، اپنے اندر وہ شخصیت بنانا جس کو شریعت میں مزکیّ شخصیت کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ شخصیت جس کو آخرت میں جنت میں داخلہ کے لیے منتخب کیا جائے۔
دوسرے معاشروں میں لوگوں کی توجہ کا مرکز انسان ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو انسان کی نسبت سے لائق بنانا یا انسان کی نسبت سے اپنے آپ کو قابل قبول بنانا۔ اس کے برعکس، ربانی معاشرہ میں انسان کی توجہ کا مرکز تمام تر صرف اللہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرہ میں انسان اپنے آپ کو اس نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس نظر سے اس کا رب اس کو دیکھے گا۔ ایسے معاشرہ میں انسان اپنی کامیابی کو آخرت کے اعتبار سے جانچتا ہے، نہ کہ دنیا کے اعتبار سے۔ ایسے معاشرہ میں انسان کا تصور یہ ہوتا ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جس کو جنت میں داخلہ ملے، اور ناکام انسان وہ ہے جو جنت میں داخلہ سے محروم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
امن (peace) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرےگا، وہ ناکام ہوکر رہ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہوسکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولادریافت کریں، جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہوجائے۔ یہ فارمولاصرف ایک ہے۔اور وہ ہے اصولِ اعراض (principle of avoidance)۔ یعنی ٹکراؤ سے ہٹ کرکے اپنا سفر طے کرنا۔
اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہاہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit)پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سےاختیار کرنا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کی قیادت میں صدام حسین کے خلاف عرا ق کی جنگ ہوئی۔ یہ جنگ 2003 سے 2009 تک جاری رہی۔ اس جنگ میں بظاہر امریکا کو جیت ہوئی۔ لیکن اس کے بعد اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (ISIS) کی صورت میں ایک شدید تر مسئلہ پیدا ہوگیا۔ سابق برطانی وزیر اعظم ٹونی بلیر جو اس جنگ میں بطور حلیف شریک تھے، انھوں نے اس جنگ کو ایک غلطی قرار دیا ہے :
Iraq war contributed to rise of IS: Britain’s former PM Tony Blair has apologised for mistake made over the Iraq war and said there were '“elements of truth” to claims that the 2003 US-led invasion was the principle cause of the rise of IS. (The Times of India, New Delhi, October 26, 2015, p.
اس معاملے میںزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ عراق وار انتخاب کی غلطی کا ایک کیس تھا۔ اس جنگ میں امریکا اور برطانیہ کے چار ہزار سے زیادہ فوجی مارے گیے۔ اس جنگ کا خرچ تقریبا تین ٹریلین ڈالر تھا۔ لیکن نتیجہ برعکس صورت میں نکلا، خلیج کا مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگیا۔
اصل یہ ہے کہ جنگ کی نفسیات کے مطابق ، جنگ کا خاتمہ اس طرح نہیں ہوتا کہ ایک فریق دوسرے فریق کو ہرادے۔ عملا یہ ہوتا ہے کہ ہارا ہوا فریق اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس کے اندر انتقام (revenge) کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے۔ منفی ردعمل کا یہ جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر اس کے اندر جوابی جنگ کی طاقت نہ ہو تو وہ خود کش بمباری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کر لیتا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ہلاک کر کے فریقِ ثانی کو نقصان پہنچانا۔ جنگ کوئی انتخاب (choice) نہیں۔ صحیح انتخاب یہ ہے کہ جنگی صورتِ حال کو پر امن طور پر مینج کرنے کی کوشش کی جائے۔اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر اتنا طاقت ور بنایا جائے کہ خود مثبت تعمیر فتح کے لیے کافی ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسانی زندگی کے ایک پہلو کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا (
انسان کو سماجی حیوان (social animal) کہا جاتا ہے۔ حیوانوں کے اندر سماجی تعلقات نہیں ہوتے۔ جب کہ انسانوں کے درمیان سماجی تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ سماجی تعلقات دو طریقہ سے قائم ہوتے ہیں۔ ایک ، خونی رشتہ (blood relationship)کے ذریعے، اور دوسرے، ازدواجی تعلقات (wedlock) کے ذریعے۔ یہ دونوں چیزیں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ انسان کی اسی فطرت کی بنا پر سماج (society) بنتا ہے، اور اسی کی ترقی سے تہذیب وجود میں آتی ہے۔ انسانوں کے درمیان اگر سماج نہ ہو تو تہذیب کا وجود بھی نہ ہوگا۔
انسان کو اللہ تعالی نے جن امتیازی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا ہے، ان میں سے ایک اہم صفت وہ ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیا ن کی گئی ہے۔ انسان کے اندر فطری طور پر رشتے کے مذکورہ اسباب موجود نہ ہوں تو انسانوں کے درمیان سماج نہیں بنے گا۔ اور اگر سماج نہ بنے تو انسانوں کے اندر اجتماعیت وجود میں نہ آئے گی۔ انسان بھی اسی طرح جنگلوں میں رہے گا، جس طرح حیوانات جنگلوں میں رہتے ہیں۔
جنگل میں حیوانات رہتے ہیں لیکن ان کے درمیان سماجی نوعیت کا کوئی نظام نہیں ہوتا۔ سماجی تعلقات صرف انسان کی صفت ہے۔ سماجی تعلقات کی بے حد اہمیت ہے۔ اسی سماجی تعلقات کی وجہ سے انسانی زندگی کی تمام ترقیاں ہوتی ہیں۔ حتی کہ تہذیب اسی سماجی زندگی کا ایک اعلی اظہار ہے۔ سماجی تعلقات نہ ہوں تو انسانی زندگی بھی حیوانی زندگی بن کر رہ جائے گی۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ شادی سے پہلے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا ہوائی جہاز فضا میں اڑ رہا ہے۔ مگر شادی کے بعد ایسا معلوم ہواجیسےکہ میرا جہاز کریش (crash) ہوگیا، اور میں جہاز کے ساتھ زمین پر گرپڑا ۔
یہ ایک شخص کی بات نہیں۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے معاملے میں اکثر لوگوں کا احساس کم و بیش یہی ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی ہوتی ہے۔ بچپن سے شادی کی عمر تک وہ اپنے خونی رشتوں کے درمیان رہتی ہے۔ اس بنا پر اس کو اپنے خونی رشتوں سے خصوصی لگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب کہ شادی کے بعد اس کو اپنے سسرالی رشتوں (in laws) کے ساتھ رہنا پڑتا ہے۔عورت ، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنے آپ کو اس فرق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرپاتی۔ اس سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اور شادی عملاً، پرابلم میرج (problem marriage) بن جاتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ سسرالی رشتوں اور غیر سسرالی رشتوں کا فرق ختم ہو۔ یہ ایک فطری فرق ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا۔ اس مسئلے کا عملی حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی شعوری طور پر یہ جان لے کہ وہ ایک فطری مسئلہ سے دوچار ہے۔ جس کووہ ختم نہیں کرسکتا۔ آدمی اگر شعوری طور پر اس بات کو جان لے تو اس کے اندر ایڈجسمنٹ (adjustment)کا مزاج پیدا ہوگا۔ اس کے اندر یہ سوچ بیدا رہوجائے گی— جس مسئلے کو میں بدل نہیں سکتا اس کو مجھے نبھانا چاہیے، اس کے ساتھ مجھے ایڈجسٹ کرکے رہنا چاہیے۔اس فرق کا ایک مثبت پہلو ہے۔ یہ فرق آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation)سے بچاتا ہے۔ اس بنا پر آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک طالب علم نے ادب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ۔ اس نے اپنی یہ کتاب ایک اسکالر کو یہ کہہ کر پیش کی کہ یہ میری پہلی تخلیق ہے ۔ اسکالر نے کتاب دیکھ کر کہاکہ یہ ایک غیر ادیب کی ادبی تخلیق ہے۔اسی طرح ایک شخص نے ایک غیر علمی کتاب لکھی اور اس کو شائع کیا۔ ایک عالم نے کتاب دیکھنے کے بعد تعجب سے کہا: ایک غیر مصنف نے تصنیف تیار کی ہے۔
یہ کلچر غیر ترقی یافتہ ملکوں میںبہت عام ہے۔ یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک غیر امام، امام بن جاتا ہے۔ ایک غیر لیڈر، لیڈر بن جاتا ہے۔ ایک غیر عالم، عالم بن جاتا ہے۔ ایک غیر ڈاکٹر، ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ ایک غیر مصنف، مصنف بن جاتا ہے۔ ایک غیر صحافی، صحافی بن جاتا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی صورتِ حال کو دیکھ کر ان ملکوں میں ایک مثل عام ہے— نیم حکیم خطرۂ جان، نیم ملا خطرۂ ایمان۔
میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ مجھے آپ کی کتابیں بہت پسند ہیں۔ میں بھی اسی طرح کی کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس سلسلے میں مشورہ دیجیے۔ میں نے کہا :آپ بیس سال عربی کتابیں پڑھیے۔ بیس سال انگریزی کتابیں پڑھیے۔ بیس سال لکھنے کی مشق کیجیے۔ اس کے بعد آپ کو لکھنا آجائے گا۔
کسی کام کو اچھی طرح انجام دینے کے لیے لمبی مدت تک تیاری کرناضروری ہوتا ہے۔ بغیر لمبی مدت کی تیاری کے کوئی شخص قابلِ ذکر کام انجام نہیں دے سکتا۔اس حقیقت کوالطاف حسین حالی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق رکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں
علی ابن ابی طالب کا ایک قول ہے قیمۃ کل امرء ما یحسن(جامع بیان العلم، حدیث نمبر
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن بہت ضروری ہے۔ ریزرویشن کے بغیر وہ اس ملک میں ترقی نہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ انڈیا ہو یا کوئی دوسرا ملک، ہر جگہ فطرت کا ایک ہی اٹل قانون ہے۔ اس قانون کے مطابق، ریزرویشن کسی کمیونٹی کے لیے ترقی کا ذریعہ نہیں۔
ریزرویشن، برعکس طور پر، ترقی میں رکاوٹ ہے۔ ریزرویشن آدمی کے اندر کامپٹیشن کی اسپرٹ ختم کردیتا ہے۔ ریزرویشن کے ذریعے کسی کو کوئی معمولی فائدہ تو مل سکتا ہے۔ لیکن ریزرویشن کے ذریعے بڑی ترقی نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ کسی کو فیور نہ دیں تو آپ اس کو زیادہ بڑی چیز دیتے ہیں۔ اور وہ محنت کا محرک (incentive) ہے۔
فیور نہ ملنے کی وجہ آدمی کےاندریہ سوچ جاگتی ہے کہ مجھے کسی کی مہربانی سے کچھ ملنے والا نہیں۔ اس بنا پر میرے لیے ایک ہی صورت ہے۔ وہ یہ کہ محنت کرکے میں میرٹ (merit) میں آنے کی کوشش کروں۔ یہ سوچ اس کے اندر محنت کے حق میں ایک کمپلشن (compulsion)پیدا کرتی ہے۔ اس کی سوئی ہوئی طاقتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ پہلے اگر وہ مین (man)تھا تو اب وہ سوپر مین (superman)بن جاتا ہے۔ اور آخر کار بڑی کامیابی تک پہنچ جاتا ہے۔
محنت کے ذریعے آگے بڑھنے والے انسان کے اندر اور بھی کئی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے اندر خود اعتمادی (self-confidence) پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی (realistic approach)آتی ہے۔ اس کے اندر شکایت کی نفسیات ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے اچھی مثال قائم کرتا ہے۔ وہ وقت اور مال دونوں کے استعمال کے معاملے میں سخت محتاط ہوجاتا ہے۔ وہ سماج کا ایک دینے والا(giver) ممبر بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
عبداللہ اینڈ کمپنی لمیٹیڈ ایک سگریٹ ساز کمپنی تھی جو 1902 میں لندن میں قائم ہوئی۔ وہ سگار اور سگریٹ بناتی تھی۔ اس کمپنی کا ایک سگریٹ جس کا نام عبد اللہ تھا، بہت مقبول ہوا۔ اس مقبولیت کا راز یہ ہے کہ کمپنی کے کچھ آدمی مشہور برٹش رائٹر جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) (وفات1950) کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ ہماری سگریٹ کے بارے میں کچھ لکھ دیجئے۔ برنارڈ شا نے کہا: میں اسموکنگ کے خلاف ہوں، میں کیسے اس کے بارے میں لکھوں۔ کمپنی والوں نے کہا کہ آپ یہی بات لکھ دیجئے۔ برنارڈ شا غصہ ہوگیا۔ اس نے غصے میں ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر یہ الفاظ لکھ دیئے:
“Don't smoke, even Abdulla”,
کمپنی والوں نے برنارڈ شا کے الفاظ اخبار میں چھاپ دیئے۔ جب لوگوں نے برنارڈ شا کا یہ ریمارک پڑھا تو عبداللہ سگریٹ کے بارے میں ان کا شوق بڑھ گیا۔ سگریٹ کی دکانوں پر عبد اللہ سگریٹ خریدنے والوں کی بھیڑ لگ گئی۔ یہاں تک کہ عبد اللہ سگریٹ اس زمانے کا سب سے زیادہ بکنے والا سگریٹ بن گیا، کمپنی والوں نے اس سے بہت پیسہ کمایا۔
اگر بولنا الٹا نتیجہ پیدا کرنے والا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ وہ چپ رہے۔ کبھی خاموشی کے ذریعے وہ مقصد زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے جس مقصد کو انسان بول کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اصل چیز نتیجہ ہے نہ کہ بولنا۔
اس دنیا میں جس طرح بولنا ضروری ہے، اسی طرح چپ رہنا بھی ضروری ہے۔ یہ آدمی کی دانش مندی کا امتحان ہے کہ وہ یہ جانے کہ کب اس کو بولنا ہے اور کب اس کو بولنے سے رک جانا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حالات کا جائزہ لے ، وہ نتیجہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ عمل وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔
واپس اوپر جائیں
سوال
غیبت اور تنقید میں کیا فرق ہے، اس کی وضاحت فرمائیں ۔(شہنواز ظفر، دہلی)
جواب
غیبت کا حکم قرآن کی سورہ الحجرات آیت نمبر
غیبت کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے: آدمی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جو اگر اسے معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے۔ یہ غیبت کی درست تعریف ہے۔ لیکن تنقید (criticism) کا معاملہ اس سے الگ ہے۔ غیبت اور تنقید کو ہم معنی سمجھنا صحیح نہیں۔
غیبت کی اصل پیٹھ کے پیچھے برائی کرنا (backbiting) ہے۔ یہ بلاشبہ ایک اخلاقی برائی ہے۔ اور قرآن و حدیث میں جس چیز کو برا بتایا گیا ہے وہ یہی غیر اخلاقی عادت ہے۔ کسی کی برائی اگر اس کے سامنے کی جائے تو اس آدمی کو موقع ہوتا ہے کہ وہ اس کی وضاحت کرے۔ آدمی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کرنا اس لیے غلط ہے کہ اس کی وضاحت کرنے کے لیے وہ وہاں موجود نہیں ہوتا۔
غیبت ایک اخلاقی برائی ہے۔ اس کے مقابلے میں تنقید ایک علمی ضرورت ہے۔ اس اعتبار سے تنقید کا زیادہ درست لفظ تجزیہ (analysis) ہے ۔ تجزیہ ایک ایسی علمی ضرورت ہے جس کے بغیر علم کا ارتقاء نہیں ہوسکتا۔ تنقید کو غیبت کے ہم معنی سمجھنا اور اس پر پابندی لگانا علمی ترقی اور ذہنی ڈیولپمنٹ (intellectual development) کو ختم کردیتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے، وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) ہے۔علمی تنقید کا تعلق کسی شخص کی ذاتی برائی بیان کرنا نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ معلوم حقائق (known facts) کی بنیاد پر کسی کے نقطہ نظر کا صحت و سقم بیان کرنا۔
شخصی برائی اور علمی تجزیہ کے درمیان یہ فرق ہے کہ شخصی برائی کا صحیح یا غلط ہونا صرف وہی آدمی جان سکتا ہے جس کی ذات کے بارے میں برائی کی گئی ہو۔ اس کی ذات کے باہر ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کی ذات کے بارے میں جو کچھ کہاگیا ہے وہ درست ہے یانہیں۔ اسی لیے شخصی برائی (غیبت) کی یہ لازمی شرط ہے کہ اس کو جب بیان کیا جائے تو وہاں خود وہ شخص موجود ہو جس کی ذات کے بارے میں برائی بیان کی گئی ہے۔
تجزیاتی تنقید (critical analysis) کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔تجزیاتی تنقید ہمیشہ معلوم حقائق (known facts)کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں ہمیشہ خارجی ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ریکارڈ سے تقابل کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کی تنقید درست تھی یا غلط۔
مثلا اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ منافق ہے۔ تو یہ قول ایک سبجکٹیو (subjective) قول ہوگا۔ اس قول کی تحقیق کرنے کے لیے کوئی خارجی مواد نہیں ملے گا۔ اس لیے اس طرح کے بیان کے لیے ضروری ہے کہ متعلق شخص وہاں موجود ہو تاکہ وہ ایسے کسی قول کی خود سے وضاحت کرسکے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کسی کے بارے میں یہ کہیں کہ اس نے اپنی فلاں مطبوعہ کتاب میں فلاں واقعہ کی تعریف غلط لکھی ہے، توہر شخص کو یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ اس مطبوعہ کتاب کو حاصل کرے اور تاریخی ریکارڈ سے تقابل کرکے اس بیان کا صحیح یا غلط ہونا معلوم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شخص کی ذات کے بارے میں تنقیص ناجائز ہے۔ اور کسی شخص کی بات کا علمی تجزیہ کرنا عین جائز ہے۔
واپس اوپر جائیں
1۔ ابھی حا ل میں صدر اسلامی مرکز کے ترجمہ قرآن کو فرنچ زبان میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے شائع کیا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں تک زیادہ سے زیادہ قرآن کو پہنچانا ہے۔اس فرنچ ترجمہ کومز شہناز بنبیکٹا نے صدر اسلامی مرکز کے ترجمہ قرآن (انگلش) سے تیار کیا ہے۔ وہ پیرس (فرانس) میں رہتی ہیں۔
2۔ ندوة المجاہدین (کیرلا) کے اسٹیٹ جنرل سکریٹری جناب صلاح الدین مدنی نے صدر اسلامی مرکز کے امن کے موضوع پر منتخب انگریزی مضامین کو ملیالم زبان میں“Samathanathintey Samskaram” یعنی ’کلچر آف پیس‘ کے نام سے ریلیز کیا۔اس موقع پر سیاسی پارٹی کے لیڈران بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ مسٹر شبیر علی ، چیپٹر ہیڈ کیرالا ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کے پیس مشن کا تعارف کرایا اور تمام شرکاء کے درمیان ملیالم زبان میں دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
3۔
4۔
5۔
6۔ گڈ ورڈ بکس (Goodword Books)نے مختلف انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کی ۔ جیسےمسقط بک فئیر، عمان، چائنا بک فیر، دبئی بک فیسٹیول وغیرہ۔ ان تمام بک فیئر میں آنے والے لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
7۔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ حال ہی میںشمالی کشمیر میں تعینات فوجیوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے 400 ترجمہ قرآن بھیجے گئےاور 100 ترجمہ قرآن ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے ججوں اور وکلاء کے لئے بھیجے گئے۔اس کے علاوہ ہوٹلوں کے ذریعہ سیاحوں کے درمیان بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ جناب عبد السلام حمید نجار (منیجرہوٹل دار السلام، سری نگر) ہوٹل میں آنے والے لوگوں کو ترجمہ قرآن پیش کرتے ہیں۔ اور 100 کاپیاں پنجاب ہوٹل (سری نگر) میں سیاحوں کے لئے رکھی گئی ہیں۔نیز سری نگر کے دیگر ہوٹلوں میں بھی انگلش ترجمہ قرآن سیاحوں کے لئے رکھےگئے۔ واضح ہو کہ کشمیر میں آنے والے سیاحوں کی اکثریت یورپ کی ہوتی ہے۔ جن کے درمیان یہ کام کشمیر ٹیم کے تعاون سے انجام دیا جارہا ہے۔(مسٹر حمید اللہ حمید، کشمیر)۔
8۔
9۔ صدر اسلامی مرکز نے 20مارچ 2016 کے اپنے سنڈے خطاب میں اسوہ رسول پر خطاب کیا۔ اس خطاب کا پس منظر یہ تھا کہ لاہور میں سی پی ایس پاکستان نے ایک سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ اس مناسبت سےسی پی ایس پاکستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 ممبران مختلف علاقوں سے لاہور میں اکٹھا ہوئے تھے۔ انھوں نے اجتماعی طور پر صدر اسلامی مرکز کا خطاب سنا اور سی پی ایس کے پیغام کو پاکستانی عوام تک پہنچانے کے عہد کی تجدید کی۔
10۔ پاکستان سے موصول ہونے والی ایک اور خبرکے مطابق،
ذیل میں کچھ تاثرات دیے جارہے ہیں
l میں نے ایک صاحب کو انگلش ترجمہ قرآن گفٹ کیا۔ وہ چند سکنڈ میری طرف دیکھتے رہے پھرانھوں نے کہا کہ میں نے سعودی عرب میں 5سال سے زیادہ کام کیا ہے۔ وہاں پر کسی نے مجھ کو قرآن کی ایک بھی کاپی نہیں دی تاکہ میں اس کو سمجھ سکوں۔ انھوں نے کچھ مزید نسخے مانگے تاکہ وہ انھیں اپنے احباب کو دے سکیں۔ وہ اب بھی میرے رابطے میں ہیں۔(نغمہ صدیقی، نئی دہلی)
l آپ کی کتابوں نے میری پوری زندگی کو بدل دیا ہے۔ اللہ آپ کو آخرت میں نوازے۔(جاوید اقبال، ویسٹ بنگال)
l سی پی ایس کی طرف سے پوری دنیا میں مسلم اور غیر مسلم حضرات کو ترجمہ قرآن پوسٹ کے ذریعے ارسال کیا جاتا ہے۔ ترجمہ قرآن کی کاپی موصول ہونے کے بعد ایک صاحب نے اپنے گہرے تاثر اور شکریہ کا پیغام ان الفاظ میں بھیجا ہے
Dear Team CPS, I am very pleased to see that this copy of the Holy Book has been delivered to me via post. It is a great pleasure for me to have this wonderful book. And the best thing is that it has translation along with it. Now I can easily understand the Holy Quran without any difficulties. May God bless you for such a wonderful job you are doing. Thank you. (Abdul Muizz)
l امریکا میں خواجہ کلیم الدین صاحب نے ایک جیل میں انگلش ترجمہ قرآن بھیجا تھا ۔ اس پر درج ذیل ای میل موصول ہوئی:
May Allah reward you for sending copies of the Quran! It is a great help in dawah. (Khalil Abdul Khabir, Chaplain, Onondaga Correctional Facility, New York)
l بنگلور ٹیم نے کرشچن انٹرفیتھ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اس پر بنگلور ٹیم کو شکریہ کا درج ذیل خط موصول ہوا:
Dear Madam Fathima Sarah, Thank you so much for your presentation at our Indian Theological Meeting. You have presented a very refreshing and inspiring vision of Islam with much clarity and conviction. All our participants appreciated your presentation. Ultimately, what God wants from us is to live as authentic humans and relate with one another as humans and bring glory to God. May God bless you for all your good works! (Fr Jacob Parappally,
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.