ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5027)تم میں اچھا وہ ہے جس نے قرآن کو سیکھا اور قرآن کو سکھایا۔اس حدیث میں تعلیم اور تعلم سے مراد صرف قرآن کے عربی متن کا تعلیم و تعلم نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے۔اس حدیث میں قرآن کے علم کے ساتھ متعلقات قرآن کا علم بھی شامل ہے۔
قرآن کے متعلق علوم سے مراد تمام انسانی علوم ہیں۔ سب سے پہلے اس میں وہ علوم شامل ہیں جن کا حوالہ قرآن میں کسی پہلو سے آیا ہے۔مثلا تاریخ ، ارضیات اور فلکیات ،وغیرہ۔ قرآن معروف معنوں میں علمی کتاب نہیں ہے۔ مگر قرآن میں مختلف علوم کے بارے میں جزئیاتی اشارے موجود ہیں۔ عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان علوم کو بقدرِ ضرورت پڑھے تاکہ وہ قرآن کی علمی تشریح کرسکے۔
قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے ان کو اپنا پیغام دیتا ہے۔ اور پھر حکم دیتا ہے کہ قرآن کا پیغام اس طرح پیش کرو جو ان کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو(النساء
قرآن پر صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ مومن کے اندر قرآن کی صداقت پر یقین ہو۔ یہ یقین اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب کہ قرآن سے متعلق علوم کا مطالعہ کیا جائے۔ اسی طرح جو لوگ قرآن کے مدعو ہیں، ان کے اندر بھی ایک سوچ ہوتی ہے جو پیشگی طور پر ان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ مدعو کے سامنے قرآن کی تعلیم اس طرح پیش کی جائے کہ مدعو کو اس کی صداقت پر یقین ہوجائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالم مدعو کے علوم سے واقفیت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے عن سفیان بن عبد اللہ الثقفی، قال قلت یا رسول اللہ حدثنی بأمر أعتصم بہ، قال قل ربی اللہ ثم استقم، قلت یا رسول اللہ ما أخوف ما تخاف علی، فأخذ بلسان نفسہ، ثم قال ہذا.(سنن الترمذی، حدیث نمبر2410) سفیان بن عبد اللہ الثقفی روایت کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے ایک ایسی بات بتائیےجس کو میں مضبوطی کے ساتھ پکڑ لوں۔ آپ نے فرمایاکہ کہو کہ اللہ میرا رب ہے، اور پھر اس پر قائم ہوجاؤ۔ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول مجھے سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرنا چاہیےجس کا آپ مجھ پر خوف کھاتے۔آپ نے اپنی زبان پکڑی، پھر فرمایا کہ اس سے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے والے کو قول پر استقامت کاحکم دیا۔ قول پر استقامت کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ زندگی میں بار بار ایسے معاملات پیش آئیں گے جو تم کو اپنے قول سے ہٹانے والے ہوں، مگر تم اس سے غیر متاثر رہ کر اپنے قول پر جمے رہنا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ تم ہر ایسی بات کو اللہ کے حوالے کردو، اور اپنے قول کی طرف لوٹ جاؤ۔
قول سے ہٹنے کا سبب زیادہ تر زبان کی بنا پر ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص زبان سے ایسی بات کہہ دیتا ہے جو سننے والے کو بری معلوم ہوتی ہے۔ اس کو غصہ آجاتا ہے، وہ بدلہ لینے کے درپے ہوجاتا ہے، وہ چاہنے لگتا ہے کہ کہنے والے کو نقصان پہنچا کراس کو سبق سکھائے۔ ایسے تمام مواقع پر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ زبان کے شر سے اپنے آپ کو بچائے۔ زبان کا غلط استعمال بات کو بڑھاتا ہے، اور زبان کا صحیح استعمال بات کو ختم کردیتا ہے۔
زندگی میں اکثر بحران (crisis) زبان کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کرائسس منیجمنٹ (crisis management)کا آرٹ سیکھے۔ وہ بحران کو مینیج (manage) کرکے اس کو ابتدا ہی میں ختم کردے۔
واپس اوپر جائیں
جنت صرف عیش کی جگہ نہیں ہے، بلکہ وہ اعلی درجے کی سرگرمیوں کی جگہ ہے۔ انھیں میں سے ایک اعلی سرگرمی وہ ہے جس کو جنت کی مجلسیں کہا جاسکتا ہے۔ اس جنتی سرگرمی کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ (
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا ماحول انتہائی درجے کا پر راحت ماحول ہوگا۔ وہاں جنت میں داخل ہونے والے لوگ آمنے سامنے (face to face) بیٹھیں گے، اور اعلی معرفت کے ماحول میں باہم گفتگو کریں گے۔ یہ باہم گفتگو کرنے والے لوگ وہ ہوں گے، جو دنیا کی زندگی میں اعلی معرفت حاصل کرچکے ہوں۔ جو ذہنی ارتقا (intellectual development) کے بلند درجے پر ہوں گے۔ ان میں سے ہر شخص اعلی درجے کی مجلس میں شرکت کرنے کے لیے کامل معنوں میں تیار شخص (prepared personality) کی حیثیت رکھتا ہوگا۔ یہ جنتی زندگی کا ایک نہایت اعلی تجربہ ہوگا، جو اہل جنت کو حاصل ہوگا۔
جنت کی ان مجالس کا موضوع کلام کیا ہوگا۔ وہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے: وَقِیلَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِین(
واپس اوپر جائیں
اسلام کا ایک اہم اصول ہے جس کو قرآن میں جاہلوں سے اعراض کہا گیا ہے(الاعراف
اس واقعے میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ کے پاس کچھ نصرانی لوگ حبش سے آئے تھے۔ انھوں نے آپ کی باتیں سنیں، پھر انھوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ جب وہ رسول اللہ کی صحبت سے نکلے تو ان کی ملاقات ابوجہل سے ہوگئی۔ ابوجہل نے ان سے کہا کہ تم لوگ بہت احمق ہو، تم لوگوں نے اس شخص کی بات سنی ، اور پھر اس کے مومن بن گئے۔ تم کچھ لوگوں کے نمائندہ بن کر آئے تھے، تم کو اس شخص کے بارے میں تحقیق کرنا چاہیے تھا اور جا کر اپنے لوگوں کو بتانا چاہیے تھا۔ انھوں نےجواب میں اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ قابل غور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اعراض کا فلسفہ نہیں بتایا تھا۔ لیکن انھوں نے خود سے اعراض کے طریقے پر عمل کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان آدمی کے اندر ذہنی بیداری لاتا ہے، آدمی کے اندر وہ چیز پیدا کرتا ہے جس کو تخلیقی فکر (intellectual thinking) کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
علم کی اہمیت کے بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے ومن سلک طریقا یلتمس فیہ علما، سہل اللہ لہ بہ طریقا إلى الجنة(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2699)یعنی جو شخص ایک راستے پر علم کے حصول کے لیے چلے، اللہ اس کے ذریعے اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان کردیتا ہے۔
علم کے راستے پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی سچائی کے حصول کے لیے علمی مطالعہ کا طریقہ اختیار کرے۔ ایسا انسان اگر واقعۃً سچائی کا طالب ہے تو اس کا علمی مطالعہ اس کے یقین کو بڑھائے گا۔ سچائی کے نئے نئے گوشے اس پر کھلیں گے۔ سچائی کو وہ زیادہ گہری سطح پر دریافت کرے گا۔ سچائی پر اس کا یقین مسلسل طور پر بڑھتا چلا جائے گا۔علمی سفر اس کے لیے جنت کا سفر بن جائے گا۔
اس کا علمی مطالعہ اس کے لیے ایک ایسا فکری عمل (intellectual process) بن جائے گا، جو مسلسل طور پر اس کے ذہنی ارتقا میں اضافہ کرے گا۔ اس کی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے گی۔ اس کی سوچ ، اس کی گفتگو، اس کا طرز عمل، ہر چیز میں پاکیزگی آتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ ایک مزکیّٰ شخصیت (طہٰ
علم کا حصول آدمی کے ذہنی افق کو بلند کرتا ہے۔ علم کا حصول آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔ علم آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ معرفت حق کے اعلی درجات تک پہنچے۔ علم آدمی کو اندھیرے سے اجالے میں لاتا ہے، علم آدمی کو محدودیت سے نکالتا ہے، اور اس کو لامحدود فضا میں پہنچا دیتا ہے۔ علم آدمی کے اوپر دانش (wisdom) کے وہ دروازے کھول دیتا ہے، جو کسی اور ذریعے سے آدمی کے اوپر کبھی نہیں کھلتے۔ علم آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے فطری امکانات کو اپنے لیے واقعہ بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث میں سات ایسے انسانوں کا ذکر ہے، جو قیامت کے دن اللہ کے سائے میںجگہ پائیں گے۔ ان میں سے ایک انسان کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے وَرجل قلبہ معلّق فی المساجدِ۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر660)یعنی وہ انسان جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو۔
اس حدیث میں مسجد کا لفظ علامتی معنی میں ہے۔ حقیقت میں اس سے مراد وہ انسان ہے جس نے اللہ کے دین کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنا لیا ہو۔ وہ اللہ رب العالمین کے بارے میں سوچے۔ وہ اپنی زندگی کے ہر موقعے پر اللہ کو یاد کرے۔ اللہ کی عبادت کرنا، اس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہو۔ اس کا بولنا، اس کا کرنا، سب اللہ کے رنگ میں رنگ گیا ہو۔ اللہ کے دین کی دعوت کو اس نے اپنی زندگی کا واحد مشن بنا لیا ہو۔ وہ اللہ کے لیے جینے والا، اور اللہ کے لیے مرنے والا بن جائے۔ اس کا چلنا بھی اللہ کے لیے ہو، اور اس کا رکنا بھی اللہ کےلیے ہو۔
رجل قلبہ معلق فی المساجد میں جو بات کہی گئی ہے، وہ حدیث میں بظاہر مسجد کی نسبت سے کہی گئی ہے، لیکن وہ ایک عام انسانی صفت ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کی کوئی ’’مسجد‘‘ہوتی ہے۔ اس کا دل ہر لمحہ اپنی اس مسجد سے اٹکا ہوا ہوتا ہے۔ وہ کسی لمحہ اپنی اس مسجد سے غافل نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کا ایک مقصود (goal) ہوتا ہے۔ وہ اپنی پوری توانائی کو خرچ کرکے اس مقصود کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسی کے لیے سوچتا ہے، اور وہ اسی کے حصول کے لیے منصوبہ بناتا ہے۔ وہ ہر لمحہ یہ جائزہ لیتا رہتا ہے کہ اس نے اپنے مقصود کے لیے کیا کیا، اور کیا نہیں کیا۔ وہ اپنے اسی مقصود کو لے کر سوتا ہے، اور اپنے اسی مقصود کو لے کر جاگتا ہے۔
یہی معاملہ ایک دین دار آدمی کا ہے۔ دین دار آدمی کا کنسرن (concern) صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے اللہ کی رضا حاصل کرنا، اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو ابدی جنت کا مستحق بنانا۔ اس سے کم کوئی چیز آدمی کو دین دار نہیں بناتی۔
واپس اوپر جائیں
ایمان لانے والوں کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ(
اسلام کا آغاز کلمہ ایمان کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، مگر اللہ کے نزدیک اتنا ہی کافی نہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس لسانی سطح کے ایمان کو عقلی سطح کا ایمان بنائے۔ یہ گویا کلمہ گوئی کے بعد اس کی تکمیل ہے۔ اسی تکمیلی ایمان کو قرآن میں داخل القلب ایمان کہا گیاہے۔ اس آیت میں قلب سے مراد دل (heart) نہیں بلکہ قلب سے مراد ذہن (mind) ہے۔ داخل القلب ایمان کوئی پراسرار واقعہ نہیں، وہ مکمل معنوں میں ایک شعوری ارتقا کا معاملہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ قبول اسلام کے بعد انسان کی زندگی میں ایک فکری عمل (intellectual process) شروع ہوتا ہے جو اس کی آخری عمر تک جاری رہتا ہے ۔وہ قرآن میں تدبر کرتا ہے، وہ سنت رسول کا مطالعہ کرتاہے، وہ اپنے ہر تجربہ اور مشاہدہ پر غور وفکر کرتاہے، وہ زندگی کے تمام معاملات کا تجزیہ (analysis) کرتاہے۔ یہ ایک مسلسل تفکیری عمل ہے، جو شعور کی سطح پر مسلسل جاری رہتاہے۔
اس عمل کو ایک لفظ میں مومنانہ غور وفکر کا عمل کہا جاسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک ارتقا یافتہ ذہن (developed mind) تیار ہوتا ہے۔ اس طرح آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ ہر تجربہ کو اپنے ایمان کی غذا بنالے، وہ ہر کرائسس کو مینیج(manage)کرکے اس کو بے اثر کردے، وہ ہر منفی سوچ کو مثبت سوچ میں تبدیل کرلے، وہ ہر اختلاف پر غور کرکے اپنے اتحاد کو بدستور باقی رکھے۔
واپس اوپر جائیں
مولانا سید سلیمان ندوی (وفات1953) ایک مشہور عالم تھے۔ ان کو کئی قسم کی مصیبتیں پیش آئیں۔ اسی پریشانی کی حالت میں پاکستان میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنے آخری زمانے میں انھوں نے کسی سے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے
اس شعر میں زندگی کی ایک تلخ حقیقت کو بالکل سادہ انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ موجودہ دنیا مسائل کی دنیا ہے۔ یہاں ہر عورت اور ہر مرد کو مسائل کے درمیا ن جینا پڑتا ہے۔ اس بنا پر اکثر لوگ پریشانی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس مسئلے کا آسان فارمولا یہ ہے کہ جب آپ کو اپنی مصیبت یاد آئے تو مذکورہ شعر کو پڑھ لیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ پریشانی کا احساس ختم ہوگیا۔ ذہن کو نارمل بنانے کا یہ نہایت آسان فارمولاہے۔
یہ فارمولا ایک حدیثِ رسول پر مبنی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک واقعہ پیش آیا جس کو غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر مدینہ کے اہل ایمان سخت مشکلات سے دوچار ہوئے۔ قرآن میں اس کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا (
اس موقعہ پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تاریخی جملہ کہا تھا جو ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: اللہم لا عیشَ إلا عیش الآخرہ، فاغفر للأنصار والمہاجرہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر6414۔صحیح مسلم، حدیث نمبر1805) ۔یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں، یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ یہاں تو اسی قسم کے حالات پیش آئیں گے۔اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ اے اللہ ، تو وہاں ہم کو جنت میں داخل فرما۔ یہی اصل کامیابی ہے۔
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ ابن مسعود کا ایک قول طبرانی نے المعجم الکبیر میں نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیںعن عبد اللہ، قال إن من أکبر الذنب أن یقول الرجل لأخیہ اتق اللہ، فیقول علیک نفسک أنت تأمرنی (المعجم الکبیر، حدیث نمبر8587)۔یعنی یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی سے یہ کہے : اللہ سے ڈرو، تو وہ جواب میں کہے: تم اپنی فکر کرو،تم مجھ کو نصیحت کروگے۔یہ جواب صحیح ذہن کی نمائندگی نہیں۔ صحیح ذہن یہ ہے کہ آدمی کو جب نصیحت کی جائے تو وہ سوچ میں پڑجائے۔اور اپنی اصلاح کی فکر کرنے لگے۔ نصیحت کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، لیکن نصیحت کو ہمیشہ نصیحت کے اعتبار سے لینا چاہیے۔ اس اعتبار سے نہیں کہ کرنے والا کون ہے۔
صحابی کے اس قو ل کو توسیعی معنی میں لیا جائے تو وہ اس ذہن پر بھی منطبق ہوتا ہے جو لوگوں کے درمیان اپنے اور غیر کی تفریق میں جیتے ہیں۔ جن کا حال یہ ہے کہ اگر ان سے یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ عام انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ تو وہ جواب دیں گے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کرلیجیے، اس کے بعد غیر مسلموں میں تبلیغ کیجیے گا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق، اس قسم کی تفریق درست نہیں۔ ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے، ان کو وہ ہر موقعہ پر اللہ کا پیغام پہنچائے۔ خواہ یہ لوگ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔یہ پیغام رسانی انسان کے ساتھ خیرخواہی کا تقاضا ہے۔ اور خیر خواہی کے معاملے میں اس قسم کی تفریق درست نہیں۔
پیغام رسانی کی یہ ذمہ داری ہر مسلمان کے اندر انسان دوستی (human-friendly) کامزاج بناتی ہے۔ انسان کی ہمدردی کے لیے اس کا یہ جذبہ ہر حال میں ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اور غیر کی تفریق بے حسی کی علامت ہے۔ ایمان آدمی کو حساس انسان بناتا ہے۔ اور حساس انسان اس قسم کی تفریق کا تحمل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں سب سے زیادہ مطلوب چیز فرد کا تزکیہ ہے، یعنی ربانی تصورِ حیات کے مطابق، ذہنی ارتقا۔ کسی صاحبِ عقیدہ کے اندر جو اعلی صفات مطلوب ہیں، اُن کا اصل ذریعہ یہی ذہنی ارتقا ہے۔ علمی اعتبار سے، ذہنی ارتقا کا ذریعہ قرآن وحدیث کا مطالعہ ہے۔ کوئی آدمی جتنا زیادہ مطالعہ کرے گا، اتنا ہی زیادہ اس کے اندر وہ علمی بنیاد پائی جائے گی جو تزکیہ کے عمل کے لیے ضروری ہے۔
لیکن تزکیہ یا ذہنی ارتقا کے لیے ایک اور چیز مطلوب ہے۔ اس کو نفسیاتی بنیاد کہاجاسکتا ہے۔ اِس نفسیاتی بنیاد کو علماء نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: الإیمان بین الرجاء والخوف ۔ یعنی ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مومن ہمیشہ ایک قسم کے شک (suspicion) کی حالت میں جیتا ہے۔ کبھی وہ اللہ کی رحمت کو یاد کرکے یقین کا تجربہ کرتا ہے اور کبھی وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر شبہہ کی حالت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ ایمانی کیفیت اتنی زیادہ عام ہے کہ صحابہ کا بھی اِس معاملے میں استثنا نہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فطرت کے نقشے کے مطابق، یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آدمی کا ذہنی ارتقا مسلسل طورپر جاری رہے۔ شبہہ کی یہ حالت دراصل ایک قسم کا ذہنی شاک (intellectual shock) ہے، اور نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ذہنی ترقی صرف شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کے ذریعہ ہوتی ہے۔
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسان خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) پر کھڑا ہو۔ اور خود دریافت کردہ حقیقت کے حصول کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان کے اندر مسلسل طورپر سوچ کا عمل (thinking process) جاری رہے۔ اعلىٰ علم و معرفت کے حصول کے لیے ’’میں نہیں جانتا‘‘ کی نفسیات درکار ہے، نہ کہ ’’میں جانتا ہوں‘‘ کی نفسیات۔
واپس اوپر جائیں
کسی شخص کو غلط بتانے کے لیے جب آپ کے پاس کوئی دلیل نہ ہو بلکہ صرف الزام ہو تو سمجھ لیجیے کہ آپ خود غلطی پر ہیں— عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی کے خلاف بولے تو صرف اُس وقت بولے، جب کہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اُس کے پاس کوئی حقیقی دلیل ہو۔ اگر اُس کے پاس حقیقی دلیل نہیں ہے، اور وہ عیب زنی اور الزام تراشی کی زبان میں اپنی بات پیش کررہا ہے تو یہ بلا شبہہ ایک عظیم گناہ ہے۔وہ انسان کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے شخص سے آخرت میں کہا جائے گا کہ تم دوسرے کے خلاف جو الزام لگاتے تھے، اُس کو دلیل سے ثابت کرو اور جب وہ اپنی بات کو دلیل سے ثابت نہ کرسکے گا تو اُس سے کہا جائے گا کہ جو الزام تم نے دوسرے کے اوپر لگایا تھا، اُس کی سخت تر سزا تم خود بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔
عیب زنی اور الزام تراشی کے لیے، صحیح لفظ کردار کشی (character assassination) ہے۔ کسی کے خلاف الزام تراشی کرنا، اُس کو کردار کے اعتبار سے قتل کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ جسمانی قتل سے کم گناہ نہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن پر دوسرے مومن کی تین چیزیں حرام ہیں۔ اُس کا خون، اُس کا مال، اور اُس کی عزت(کل المسلم على المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ)۔صحیح مسلم، رقم الحدیث6706۔ اِس حدیث میں بظاہر مسلم کا لفظ ہے۔ لیکن وسیع تر انطباق کے اعتبار سے، اس کا تعلق ہر انسان ،ہر عورت اور ہر مرد سے ہے۔ جو آدمی اِس بات کو جانتا ہو کہ آخر کار اُس کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، وہ اِس معاملہ میں کانپ اٹھے گا۔ وہ اِس حرام فعل سے، اُس سے بھی زیادہ بچےگا جتنا کہ کوئی شخص سانپ اور بچھو سے بچتا ہے۔
تنقید (criticism) ہر انسان کا ایک جائز حق ہے۔ مگر تنقید کو لازماً مبنی بر دلیل ہونا چاہئے۔ جس تنقید کے ساتھ دلیل شامل نہ ہو، وہ سخت گناہ ہے۔ علمی تنقید بلا شبہہ ایک خیر ہے، مگر غیر علمی تنقید بلاشبہہ ایک شر۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت یہ ہے:قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (
اس آیت کو موجودہ زمانے پر منطبق کیجیے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سوچنے کا ماڈل میڈیا کی بنیاد پر بنا ہے۔ میڈیا ایک بزنس ہے۔ میڈیا کا کام خبروں کو فروخت (sell)کرنا ہے۔ چوں کہ عام طور پر لوگ منفی خبروں کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ سنتے اور پڑھتے ہیں۔ اس لیے میڈیا عملاً منفی خبروں کا میڈیا بن گیا ہے۔ مسلمان روزانہ اسی قسم کی خبروں کو سنتے اور پڑھتے ہیں اور انھیں خبروں کا چرچا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے سوچنے کا ماڈل وہی بن گیا ہے جو میڈیا کا ماڈل ہے۔
یہ ماڈل رب العالمین کے نزدیک بلاشبہ قابلِ رد ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلمان ربانی ماڈل کے مطابق سوچیں۔ ربانی ماڈل، قرآن کے مطابق مبنی بر امن (peace)ماڈل ہے۔ یعنی چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھنا اور امن کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا۔ مگر عملاً موجودہ زمانے کے مسلمان اس سے تقریباخالی ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے صحیح آغاز یہ ہے کہ وہ اپنے سوچنے کے ماڈل کو بدلیں۔ وہ چیزوں کو منفی نظر سے سوچنے کا طریقہ ختم کریں۔ وہ منفی چیزوں میں بھی مثبت پہلو دریافت کریں۔ بظاہر ناموافق باتوں کو بھی وہ موافق زاویۂ نظر سے دیکھیں۔ نفرت ، شکایت، احتجاج ، سازش، جیسے الفاظ کو وہ اپنی ڈکشنری سے نکال دیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، مسلمانوں کو اللہ کی نصرت ملنے والی نہیں۔ کیوں کہ اللہ کی نصرت ان لوگوں پر آتی ہے جو شاکلۂ خویش کے بجائے شاکلۂ رب پر اپنی زندگی کو قائم کریں۔
واپس اوپر جائیں
2 مارچ 2009 کو نئی دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا۔ اِس سیمنار میں جدید تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا موضوع آزادئ اظہار رائے (freedom of expression) تھا۔ اِس موضوع کے تحت، اِس سیمنار میں حسب ذیل سوال پر مذاکرہ ہوا:
Is the Quran subject to rational scrutiny?
سیمنار کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی اس میں شرکت کی۔ میںنے دیکھا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء پرجوش طورپر اِس نظریے کی وکالت کررہے ہیں کہ قرآن کوئی منزَّہ عن الخطاء کتاب (infallible book) نہیں ہے۔ ہم کو یہ حق ہونا چاہئے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پر فکری تنقید کرسکیں۔
اِس مذاکرہ اور اِس قسم کے دوسرے مذاکروں میں شرکت کے بعد میرا احساس یہ ہے کہ لوگ عقل (reason) کا لفظ تو بہت بولتے ہیں، لیکن لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عقل کی حدود کیا ہیں اور عقل کے استعمال سے کیا مراد ہے۔ اصل یہ ہے کہ عقل کے استعمال کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے، ذاتی عقل (personal reason) کے تحت بولنا۔ اور دوسرا ہے، علمی طورپر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں عقل کا استعمال کرنا۔ علمی اعتبار سے ذاتی عقل کی کوئی اہمیت نہیں، عقل کا صرف وہی استعمال درست ہے جو ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر کیاگیا ہو:
One's reason is only the capacity to understand. Reason itself is not an authority. The scientific method in this regard is that if one has some idea, one has to examine it on the basis of scientifically established facts. Only after this, one's idea will be regarded as correct. Otherwise, it is simply personal reason or pure reason. In this sense, reason is of two kinds:
1. Reason verified by scientific facts.
2. Reason unsupported by such verification.
مذکورہ سیمنار میں، میںنے یہ بات کہی تو وہاں کوئی شخص اس کو رد نہ کرسکا۔ تاہم ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی عقل سے کوئی رائے بنائے تو اس کی قدروقیمت کیا ہے۔
What, if any, is the validity of reason unsupported by scientific verification?
میں نے کہا کہ محض ذاتی عقل کی بنیاد پر جورائے قائم کی جائے، وہ دوسروں کے لئے ناقابلِ قبول ہوگی۔ کسی شخص کی ذاتی رائے دوسروں کے لئے اسی وقت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جب کہ وہ ثابت کرے کہ اس کی رائے مسلّمہ علمی بنیاد پر قائم ہے:
Personal reason unsupported by scientific data is invalid. If one wishes to follow his personal reason, he may do so. But he certainly should not expect that others will subscribe to such kind of thought. If you want to convince others you will have to substantiate your personal views on the basis of scientifically established data.
قرآن کی صداقت
میرے تجربے کے مطابق، قرآن کے ذیل میں ریشنل اسکروٹنی (rational scrutiny) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے۔ قرآن کے ذیل میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے ریشنل اسٹڈی (rational study) کا لفظ استعمال کیا جائے۔ قرآن نے اِس معاملے میں مطالعے کا جو اصول مقرر کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک علمی اصول ہے۔اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا (
اِس آیت کے مطابق، قرآن کی صداقت(veracity) کو جاننے کا معیار یہ ہے کہ قرآن کے بیانات کا علمی مسلّمات (scientific facts) سے تقابل کرکے دیکھا جائے۔ اگر دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی صداقت عقلی معیار پر ثابت ہورہی ہے۔ یہی قرآن کے عقلی مطالعے کا واحد طریقہ ہے۔
قرآن کے بیان کا ایک حصہ وہ ہے جس میں زمین وآسمان، یعنی فزیکل ورلڈ(physical world) کے بارے میں کچھ بیانات دیے گیے ہیں۔ یہ موضوع،قرآن اور سائنس کے درمیان مشترک ہے۔ قرآن پر عقلی غور وفکر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مشترک موضوعات میں قرآن نے جو حوالے دئے ہیں، وہ سائنس کے مسلمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا اُس سے ٹکرارہے ہیں۔ راقم الحروف نے اِس حیثیت سے تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ میں نے اپنی دوسری کتابوں (مذہب اور جدید چیلنج، عقلیات اسلام، وغیرہ) میں مثالوں کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ اِن مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔
یہ واقعہ قرآن کی صداقت (veracity) کا ایک عقلی ثبوت ہے۔ مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان کے درست ہونے سے ہم کو یہ قرینہ (probability)ملتا ہے کہ ہم یہ قیاس کرسکیں کہ غیر مشترک موضوعات میں بھی قرآن کے بیانات درست ہیں۔ اِس طریقِ استدلال کو سائنس میں معقول (valid) قرار دیا گیا ہے اور اِس کو استدلال بذریعہ احتمال (argument from probability) کہاجاتا ہے، یعنی معلوم دنیا کے بارے میں قرآن کے بیانات کے درست ثابت ہونے سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ غیر معلوم دنیا کے بارے میں بھی قرآن کے بیانات احتمالی طورپر (probably) درست ہیں۔ اِس اصولِ استدلال کے بارے میں مزید معلومات کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔
Science and the Unseen World by Arthur Eddington
Human Knowledge by Bertrand Russell
علم کی دو قسمیں
عقل کا استعمال کسی خلا میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجودہ دنیا میں ہوتاہے جس دنیاکے اندر ہم زندگی گزارتے ہیں، مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا کی تمام چیزیں ایک قسم کی نہیں ہیں، بلکہ یہاںتنوع (diversity)پایا جاتا ہے۔ چنانچہ فلاسفہ نے علم کی دوقسمیں کی ہیں — چیزوں کا علم(knowledge of things)، سچائی کا علم (knowledge of truths)۔
انسان کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے وہ اِن علوم تک پہنچ سکتا ہے اور وہ عقل (reason) ہے۔ آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے دونوں قسموں کے علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ انسان کےپاس ذاتی طورپر، عقل کے سوا، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں جس سے وہ اِن علوم سے واقفیت حاصل کرسکے۔
تاہم جس طرح علوم کی دو قسمیں ہیں، اُسی طرح عقل کے استعمال کی بھی دو قسمیں ہیں۔ جہاں تک چیزوں کو جاننے کا معاملہ ہے، اُن کے سلسلے میں مشاہدہ (observation) اور تجربہ (experience) کے ذرائع کو استعمال کرنا ممکن ہے، طبیعی علوم (physical sciences) کے مطالعے کا دائرہ چیزیں (things) ہیں، اِس لیے طبیعی علوم میں اصلاً مشاہدہ اور تجربہ کے ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علم کا دوسرا دائرہ، یعنی سچائیوںتک کس طرح پہنچا جائے۔ موجودہ زمانے کے علماءِ سائنس کا اِس پر اتفاق ہے کہ وہ چیز جس کو سچائی کہا جاتا ہے، اُس تک پہنچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ استنباط (inference) ہے، یعنی مشاہداتی حقائق کے حوالے سے، غیرمشاہداتی حقائق کے علم تک پہنچنا۔
بیسویں صدی کے نصف اول تک طبیعی سائنس (physical science) کی دنیا میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ علم وہی ہے جو مشاہداتی ذرائع سے معلوم ہو۔ لیکن علم کا سفر جب عالمِ کبیر (macroworld)سے گزر کر عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچا تو یہ مفروضہ ٹوٹ گیا۔ اب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ استنباط بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مسلّمہ علمی قواعد کی بنیاد پر کیاگیا ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عقلی طریقِ مطالعہ اور اسلامی طریقِ مطالعہ کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ عقلی طریقِ مطالعہ، اسلام کے مطالعے کے لیے بھی اتنا ہی مفید بن جاتا ہے جتنا کہ دوسرے علوم کے لیے۔
اسلام کے عقائد کا تعلق عالمِ غیب (unseen world) سے ہے، اِس لیے بظاہر وہ عقلی مطالعے سے باہر کی چیز معلوم ہوتا ہے، لیکن استنباط کو مستندطریقِ مطالعہ ماننے کے بعد یہ فرق باقی نہیں رہتا۔ مثال کے طورپر وحی (revelation) کو لیجیے۔ اسلام کےمطابق، قرآن وحی پر مبنی ایک کتاب ہے۔ وحی مشاہدے سے باہر کی چیز ہے، اِس بنا پر بیسویں صدی کے نصف اول تک یہ سمجھا جاتا تھاکہ قرآن صرف ایک عقیدے کی کتاب ہے، اس کی صداقت کو عقلی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اب جب کہ استنباطی استدلال کو مستند استدلال سمجھا جاچکا ہے، اب اصولی طورپر یہ فرق باقی نہیں رہا۔
قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو استنباطی اصول کے مطابق، یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کا تعلق ایک ایسے ماخذ (source) سے ہے جو انسانی علم سے ماورا اپناوجود رکھتا ہے۔ اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو قدیم مصر کے فرعون (Pharaoh Ramesses II) کے جسم سے تعلق رکھتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب ’’عظمتِ قرآن‘‘ )
ہر اتوار کو نظام الدین ویسٹ سی پی ایس سنٹر پر ساڑھے دس بجے سے صدر اسلامی مرکز کا خطاب ہوتا ہے۔ یہ خطاب پروگرام میں موجود سامعین کے علاوہ انٹر نیٹ پر لائیو کاسٹ کیا جاتا ہے، جسے مختلف مقامات پر سامعین سنتے ہیں۔ فروری2016 میں ان موضوعات پر خطاب ہوئے:
l تیس سکنڈ کا معاملہ
A Matter of 30 Seconds
| February 7, 2016
l خدا کا منصوبۂ تخلیق
The Creation Plan of God |
February 14, 2016
l خوفِ خدا
Fear of God |
February 21, 2016
lزاویۂ نظر
Angle of Vision
February 28, 2016
ان تمام خطابات کو سننے کے لیے ، اس لنک پر کلک کریں:
http://www.cpsglobal.org/podcast/sunday-lectures
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رأس الحکمة مخافة اللہ (الجامع الصغیر للسیوطی، حدیث نمبر4361) یعنی اللہ کا خوف حکمت کا سرا ہے۔
یہ حدیثِ رسول انسانی فطرت کی ایک حقیقت کو بتاتی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ حکمت (wisdom) کسی کے اندر صرف کتابوں کے مطالعے کے ذریعے نہیں آتی، حکمت کے لیے ایک اور چیز لازمی طورپر ضروری ہے۔ اور وہ اللہ کا خوف ہے۔ خوفِ خدا کے بغیر آدمی صاحبِ علم تو بن سکتا ہے، لیکن وہ صاحبِ حکمت نہیں بن سکتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ حکمت کے لیے معلومات کے علاوہ، ایک اور چیز ضروری ہے اور وہ کامل حقیقت پسندی (realistic approach) ہے۔ کامل حقیقت پسندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی تواضع (modesty) کی اُس آخری حد پر پہنچ چکا ہو جس کو کٹ ٹو سائز (cut to size) کہاجاتا ہےاور کٹ ٹو سائز انسان (man cut to size) کو وجود میں لانے کا راز صرف ایک ہے۔ اور وہ کامل معنوں میں اللہ کا خوف ہے۔
کوئی انسان جب دوسرے انسانوں کے درمیان ہوتا ہے تو ہر انسان اُس کو اپنے ہی جیسا ایک انسان دکھائی دیتا ہے۔ اِس بنا پر کسی انسان کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسرے انسان کو کٹ ٹو سائز انسان بنا سکے۔ یہ واقعہ صرف قادرِ مطلق خدا پر کامل ایمان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کی اِس فطرت کی بنا پر اِس معاملے میں صحیح فارمولا یہ ہے کہ — قادرِ مطلق خدا پر یقین سے انسان کا کٹ ٹو سائز ہونا، کٹ ٹو سائز انسان کے اندر کامل درجے میں حقیقت پسندی کا آنا اور کامل حقیقت کی بنا پر چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ یہی وہ حقیقت پسندانہ سوچ ہے جس کے نتیجے کا نام حکمت (wisdom) ہے۔
کسی انسان کے اندر یہ صفت ہمیشہ خدا کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے، لیکن انسان چوں کہ سماج کے اندر رہتا ہے، اِس لیے اِس صفت کا عملی ظہور انسان کی نسبت سے ہوتا ہے۔ انسان کی نسبت سے اِس صفت کے ظہور ہی کا دوسرا نام حکمت ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (
قرآن کی اس آیت میں اجتماعی زندگی کا ایک اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی شخص کوئی اختلافی بات کہے تو سننے والے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اس کو بدنیتی کا معاملہ سمجھ لے، اور کہنے والے کو برا آدمی سمجھنے لگے۔ اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے کو تحقیق کا معاملہ سمجھا جائے نہ کہ کسی شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے کا معاملہ۔ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا صرف اتمام حجت کے بعدجائز ہے، اس سے پہلے نہیں۔
اصل یہ ہے کہ شکایت یا اختلاف کا سبب اکثر حالات میں بے خبری اور غلط فہمی ہوتا ہے۔ لوگ معاملے کے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی بنا پر ایک مخالفانہ رائے قائم کرلیتے ہیں۔ کسی کے بارے میں اس طرح رائے قائم کرنا درست نہیں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، اتمام حجت سے پہلے تحقیق ہے، اور اتمام حجت کے بعد رائے قائم کرنا۔
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف شکایت ہوجاتی ہے۔ یہ شکایت بڑھتے بڑھتے نفرت بن جاتی ہے، اور نفرت کے بعد مزید برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک دوسرے کو بدنام کرنا، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرنا، ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ لینا۔ اس قسم کی اجتماعی خرابیوں کا سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ تحقیق کے بغیر رائے قائم کرلیتے ہیں، وہ جو کچھ سنتے ہیں، اس کو درست سمجھ لیـتے ہیں۔ اس طریقے کا نتیجہ بے حد سنگین ہے— دنیا میں ندامت اور آخرت میں مواخذہ۔
واپس اوپر جائیں
احادیث میںکثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اذا رأیتم المداحین فاحثوا فی وجوہہم التراب (صحیح مسلم، حدیث نمبر3002) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میںآیا ہے: سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یثنی علی رجلٍ و یطریہ فی مدحہ، فقال أہلکتم او قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، حدیث2663) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔
اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میںایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الأدب المفرد، باب ما جاء فی التمادح)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل، عقرک اللہ(الأدب المفرد، باب ماجاء فی التمادح) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔
حدیث اور آثارکی کتابوںمیں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میںاُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی ۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میںتنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میںہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میںتنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میںچیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس معاملہ کی تفصیل میںنے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاںتک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز ۔ تنقید بلاشبہہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہہ ایک غیر مطلوب چیز۔
تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میںخالص موضوعی انداز میںکسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔
اس کے برعکس تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔
ملّی تعمیر کاکام سب سے پہلے ملّت کے افراد میں
شعور پیدا کرنے کا کام ہے۔ اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ
الرسالہ مشن کو ایک ایک بستی اور ایک ایک گھر میں پہنچایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک اسٹڈی کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ وہ تندرستی کے لیے مفید ہے۔ اِس کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات اور اپنے نشانے کو دوبارہ قائم کرتاہے۔ ایک نئے سائنسی تجزیے میں بتایاگیاہے کہ اگر آدمی کسی قبرستان سے گزرے، تب بھی وہ غیر شعوری طور اُس سے سبق لیتاہے اور اس کے اندر مثبت تبدیلی آتی ہے اور اس کے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ موت کے بارے میں سوچنا خطرناک ہے، اِس سے تخریبی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ موت کی یاد سے تعصب اور تشدد کا جذبہ ابھرتاہے۔
Thinking about death boosts health
Thinking about death can actually be a good thing as an awareness of mortality can improve physical health and help in prioritizing one’s goals and values, as new study has revealed. According to a new analysis of recent scientific studies, even non-conscious thinking about death like walking by a cemetery could prompt positive changes and promote helping others. Past research suggests that thinking about death is destructive and dangerous, fuelling everything from prejudice and greed to violence.
(The Times of India, New Delhi, April 21, 2012, p.
عام طورپر یہ سمجھا جاتاتھا کہ موت کے بارے میں سوچنے سے عمل کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، مگر یہ صرف ایک قیاسی بات تھی۔ اِس مسئلے کا باقاعدہ علمی مطالعہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کے بارے میں سوچنا ایک اچھی عادت ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر صحت مند صفات پیدا ہوتی ہیں۔
قرآن میں آیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
اِس طرح موت کی یاد آدمی کے اندر جلدی کا احساس (sense of urgency) پیدا کرتی ہے۔ آدمی کے اندر یہ محرک (incentive) پیدا ہوتاہے کہ وہ اپنے کام کو جلد پورا کرے، کیوں کہ کچھ معلوم نہیں کہ کب وقت ہوجائے اور کام کرنے کا موقع باقی نہ رہے۔ اِس طرح موت کی یاد آدمی کو منصوبہ بند عمل کرنے پر ابھارتی ہے۔ اور منصوبہ بند عمل بلا شبہہ زندگی میں سب سے بڑی چیز ہے۔
موت کی یاد آدمی کے اندر ذہنی بیداری (intellectual awakening)کی صفت پیدا کرتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو جگاتی ہے۔ موت آدمی کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ ہے۔
اسلامی نظریہ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا فائدہ بے شمار گُنا بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات بتاتا ہے کہ آدمی کی زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی۔ موت کے بعد ایک اور زندگی ہے جو کہ ابدی طورپر قائم رہنے والی ہے۔ آدمی موت سے پہلے کے دور حیات میں جیسا عمل کرے گا، اُسی کے مطابق، وہ موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیاب یا ناکام رہے گا۔ یہ احساس آدمی کے اندر مقصدیت کا شعور پیدا کرتا ہے۔ وہ زیادہ با معنی انداز میں زندگی گزارنے کے قابل بن جاتا ہے۔
عام تصور کے مطابق، موت کی یاد صرف موت کی یاد ہے، یعنی خاتمۂ حیات کی یاد۔ لیکن اسلامی تصورِ حیات کے مطابق، موت کی یاد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بعد از موت دورِ حیات کے لیے تیاری کرے۔ وہ آج کی زندگی کو ایک موقع (opportunity)سمجھے، جب کہ وہ بعد کو آنے والے ابدی دورِ حیات کے لیے عمل کرسکتا ہے۔ یہ تصورِ موت آدمی کو اِس حقیقت کی یاد دلاتاہے— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ اب یہ آدمی کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کامیاب بناتا ہے یا ناکام۔ وہ اِس پہلے اور آخری موقع کو استعمال کرتا ہے یا وہ اُس کو کھو دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میں آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں۔ آپ کی تحریریں مجھ کو مفید معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ دوسروں کا کنٹری بیوشن نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ میرے بارے میں یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ میں جو کچھ کہتاہوں وہ صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ ہے۔ مگر ہمار ے لکھنے والے لوگ رد عمل کی نفسیات کی بنا پرموجودہ زمانے سے بے خبر رہے، عربی داں بھی اور انگریزی داں بھی۔ اس بے خبری کی بنا پر ایسا ہوا کہ انھوں نے جو کچھ لکھا وہ جدید تقاضوں کے لحاظ سے غیر متعلق (irrelevant) تھا، وہ جدید ذہن کو ایڈریس کرنے والا نہ تھا۔
یہ بات میں تین موضوعات کے بارے میں کہتا ہوں — معرفت، دعوت، جدید چیلنج۔ موجودہ زمانے کے لکھنے والوں نے بظاہر اسلام کے ہر پہلو پر کتابیں لکھیں، مگر ان کی کتابیں جدید فکری مستویٰ کے مطابق نہ تھیں۔اگر کسی کو میری بات سے اختلاف ہو تو وہ متعین مثال کی زبان میں بتائےکہ مذکورہ تین موضوعات پر کس مصنف نے کون سی کتاب لکھی ہے۔ کسی اور پہلو سے کس کا کنٹری بیوشن کیا ہے،وہ ایک الگ سوال ہے۔ میری مذکورہ بات سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں۔کسی کتاب کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
دوسرے لفظوں میں یہ کہ بات کو پنٹریٹنگ (penetrating) اسلوب میں کہنا۔یعنی ایسے اسلوب میں جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ اس اصول کا تقاضا ہے کہ بولنے والا بولنے سے پہلے مخاطب کے ذہن کو غیر متعصبانہ انداز میں پڑھے۔ وہ مخاطب کے ذہن کو اس طرح دیکھے جس طرح مخاطب خود اس کو دیکھتا ہے۔ مخاطب کی اس طرح دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ کہنے والا اپنی بات کو اس طرح کہے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی بن جائے۔ اس طرح کے کلام کی دو لازمی شرطیں ہیں، یعنی مخاطب سے کامل واقفیت اور اس سے کامل خیرخواہی۔
واپس اوپر جائیں
اگر کسی سے معاملہ کرتے ہوئے، آپ سے کوئی غلطی ہوجائے۔ اس کے بعد آپ شرمندہ ہوں، اور فوراً یہ کہہ دیں کہ بھائی صاحب، مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھ کو معاف کردیجیے:
Sorry, I was wrong !
اگر آپ ایسا کہیں۔ تو آپ کی طرف سے یہ غلطی پر معافی مانگنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے شخص کے لیےوہ اس کے ضمیر (conscience) کو جگانے کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس کا ضمیر اس سے کہتا ہے کہ دوسرے شخص نے شرافت کا ثبوت دیا ہے۔ تم کو بھی اسی طرح شرافت کا ثبوت دینا چاہیے۔ وہ اگر اپنی غلطی کی معافی مانگ رہا ہے تو تم کو بھی اس کے ساتھ اسی درجے کا کوئی معاملہ کرنا چاہیے۔
غلطی کی معافی مانگنا بظاہر ایک پسپائی کا معاملہ ہے۔ لیکن انسانی نفسیات کے اعتبار سے وہ اقدام کا ایک معاملہ ہے۔ معافی مانگنے والااپنے شرافت کا ثبوت دے کر فریقِ ثانی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ شرافت کا ثبوت دے۔ تاکہ لوگوں کی نظر میں اور خود اپنی نظر میں وہ کم تر ثابت نہ ہو۔
غلطی کرنے کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا، معاملے کو بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس، غلطی کرنے کے بعد غلطی کا اعتراف کرنا معاملےکو ختم کردیتا ہے۔ ایک واقعہ جو انسانوں کے درمیان نفرت کا سبب بن سکتا تھا، وہ دونوں کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیتا ہے۔ آدمی نے غلطی کرکے جو کچھ کھویا تھا، وہ غلطی کا اعتراف کر کے اس سے بہت زیادہ پالیتا ہے۔
غلطی کرنے کے بعد ، اپنی غلطی کی صفائی پیش کرنا یا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا کہ اس کی غلطی ، غلطی نہیں تھی، صرف نادانی کاکام ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی غلطی کرنے کے بعد فوراً اپنی غلطی کومان لے۔ فورا اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرنا ایک موقعے کو کھونے کے ہم معنی ہے، ایک ایسا موقعہ جو دوبارہ کبھی آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توبہ کہا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ میں توبہ کی اصل حقیقت ندامت (repentance) ہے(مسند احمد، حدیث نمبر3568)۔ توبہ کرنے والے کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ (
اس کے مطابق ، توبہ ایک ایسی چیز ہے جس سے سیٔہ (برائی) حسنہ (نیکی) میں بدل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سچے ایمان والے ہوں ،وہ جب غلطی کرتے ہیں تو اس کے بعد ان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ندامت ان کے لیے ایک ذہنی صدمہ (intellectual shock) بن جاتی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک شدید ہل چل پیدا ہوتی ہے۔ اس ذہنی ہل چل کے ذریعے ان کے اندر ایک تخلیقیت (creativity) جاگتی ہے۔ ان کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ، اس عمل (process) کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے— غلطی، اس کے بعد ندامت، اور پھر نتیجۃً ذہنی ارتقا:
mistake + repentance = intellectual development
اجتماعی زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی بات دوسرے شخص کے اندر غصہ پیدا کرتی ہے۔ اس وقت انسان دو امکان (options)کے درمیان رہتا ہے۔ یا وہ فرشتے کی آواز کو سنے اور اس کی پیروی کرے، یا وہ شیطان کی آواز کو سنے اور اس کے پیچھے چلنے لگے۔ فرشتے کی آواز سننے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگتا ہے۔ وہ اپنے اوپر نظر ثانی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح آدمی کے اندر خود احتسابی کا عمل جاگتا ہے، جو باعتبارِ نتیجہ ذہنی ارتقا کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کو وہ حقیقتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں، جو اس سے پہلے اس کے لیے نامعلوم بنی ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں جو شخص رد عمل کا شکار ہوجائے، اس کا وہ حال ہوگا جو قرآن کی ایک آیت میں بیان ہوا ہے (الاعراف
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک کردار کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔ یہ دو آیتیں ہیں، ان کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ یعنی اور ان کو اس شخص کا حال سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں تو وہ ان سے نکل بھاگا۔ پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین کا ہو رہا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کرنے لگا۔ پس اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر بوجھ لادے تب بھی ہانپے اور اگر چھوڑ دے تب بھی ہانپے۔ یہ مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا۔ پس تم یہ احوال ان کو سناؤ تاکہ وہ سوچیں۔(
یہاں آیت سے مراد ربانی رہنمائی ہے اور ہانپنے سے مراد شکایت کا مزاج (complaining mentality)ہے۔جو شخص یا گروہ ربانی رہنمائی سے سبق نہ لے ، وہ ہر حال میں شیطان کا پیرو بن جائے گا۔ ایک صورتِ حال میں ایک قسم کی منفی بات کہے گا اور اگر صورتِ حال بدل جائے تو وہ دوسری قسم کی منفی بات بولنا شروع کردے گا۔مثلا ایک شخص اگر شیطان کے زیر اثر منفی انداز میں سوچنے کا عادی بن جائے ۔تواس کا حال یہ ہوگا کہ اگر اس کو ایک اعتبار سے اچھے حالات ملیں تو وہ غلط تقابل کرکے اس میں شکایت کا ایک پہلو نکال لے گا۔اور اگر حالات بدل جائیں تو وہ دوبارہ اپنے بےاعترافی کے مزاج کی بنا پر ایک اور پہلو شکایت کا نکال لے گا۔ وہ دونوں حالتوں میں منفی بولی بولے گا۔ ایک نوعیت کے حالات ہوں تب بھی، اور دوسرے نوعیت کے حالات ہوں تب بھی۔
اصل یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، زندگی کسی کے لیے بھی مکمل طور پر بے مسئلہ نہیں ہوتی۔ کبھی ایک مسئلہ تو کبھی دوسرا مسئلہ۔ اس معاملے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آدمی اپنی منفی سوچ کو بدلے۔ وہ بظاہر شکایت کے حالات میں بھی مثبت ذہن سے سوچنے کا طریقہ اپنائے،وہ مکمل طور پر مثبت انداز میں سوچنے والا بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
عمر بن عبدلعزیز (وفات
عبادتی امور میں صحابہ کا اختلاف بعد کے زمانے میں مختلف فقہی اسکول کا ذریعہ بن گیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے علماء نے اختلاف کے معاملے میں ترجیح کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی مختلف مسالک میں کسی ایک طریقہ کو راجح اور کسی کو مرجوح قرار دینا۔ اس سے فقہ میں مختلف مدرسے بن گیے۔ اور بالآخر امت کے اندر فقہی تشدد پیدا ہوگیا۔
عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول ایک حدیث پر مبنی ہے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم (جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث نمبر 1760)۔ یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو، تم ہدایت پر رہوگے۔
صحابہ کا اختلاف اساسی امور (basics)میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ جزئی امور(non-basics) میں ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں ہمیشہ تنوع (diversity)مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح کے جزئی امور میں توحد (یکسانیت) تلاش کرنا، غیر فطری ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے جزئی اختلاف کو تنوع پر محمول کیا جائے، ان کو توحد کا موضوع نہ بنایا جائے۔ اس اصول کو اختیار کرنے کی صورت میں امت کے اندر اتحاد باقی رہے گا۔ اس کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کے اندر اختلاف و انتشار پیدا ہوجائے گا۔ ایک امت کئی فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ اختلاف بڑھ کر غلو اور تشدد کی صورت اختیار کرلے گا۔ اسلام کی بعد کے زمانے کی تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں نیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ لیکن صرف نیت کافی نہیں۔ ایک آدمی کے اندر اچھی نیت (good intention) موجود ہو تو وہ بلاشبہ انفرادی زندگی کے اعتبار سےایک کامیاب انسان بن سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی کا سوال ہے۔ اس کی کامیابی کے لیے ایک اور چیز لازمی طور پر ضروری ہے۔ یہ بصیرت (wisdom) ہے۔بصیرت کے بغیر کوئی شخص اجتماعی زندگی کے امتحان میں پورا نہیں اترسکتا۔ خواہ وہ نیت کے اعتبار سے کتنا ہی اچھا انسان ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ بحران کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اجتماعی زندگی میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جس کے اندر بحران کو مینیج کرنے کی صلاحیت (art of crisis management) پائی جاتی ہو۔ اور یہ صفت صرف اسی شخص کے اند رپائی جاتی ہے جو ایک صاحبِ بصیرت انسان ہو۔
اسلام کے ابتدائی دور میں دونوں قسم کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال خالد بن ولید کی ہے۔ وہ اسلامی فوج کے سردار تھے۔ خلیفۂ دوم عمر کے زمانے میں ان کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو عام انسان کو بہت زیادہ برہم کرسکتا ہے۔ لیکن حضرت خالد بن ولید ایک با بصیرت انسان تھے، اس کو انھوں نے یہ کہہ کر اپنے لیے غیر موثر بنادیا: انی لا اقاتل فی سبیل عمر، ولکن اقاتل فی سبیل رب عمر ۔یعنی میں عمر کے راستے میں نہیں لڑتا، بلکہ میں عمر کے رب کے راستے میں لڑتا ہوں۔
دوسری تقابلی مثال سعد بن عبادہ کی ہے۔ سعد بن عبادہ مدینے کے قبیلۂ خزرج کے سردار تھے۔ہجرت سے پہلے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ہجرت کے بعد وہ رسول اللہ کے ساتھی بن گیے۔ مدینے میں اسلام جو تیزی سے پھیلا، اس میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ رسول اللہ کی آخری زندگی تک وہ اسی طرح اپنے حال پر قائم رہے۔ وہ اس وقت بدل گیے، جب کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا مستحق وہ انصار کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت نہیں کی۔ اس کے بعد جب دوسرے مہاجر، عمر بن خطاب خلیفہ منتخب ہوئے تب بھی انھوں نے خلیفۂ دوم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔ وہ اسی حال پر قائم رہے۔ یہاں تک کہ وہ مدینہ میں ایک غیر مطلوب شخص بن گیے۔ اب وہ مدینہ چھوڑ کر شام چلے گیے۔ وہاں ہجرت کے پندرھویں سال ان کی وفات ہوگئی۔
خالد بن ولید اور سعد بن عبادہ دونوں اپنی انفرادی زندگی میں اچھے انسان تھے۔ لیکن دونوں کا دو مختلف انجام ہوا۔ خالد بن ولید کو مرکزی قیادت سے اختلاف ہوا۔ یہ ان کے لیے بحران کا وقت تھا۔ لیکن انھوں نے اپنی بصیرت سے اس بحران کو مینیج کرلیا۔ اس طرح ان کا اختلاف ان کی زندگی میں غیر موثر بن کر رہ گیا۔ اس کے برعکس سعد بن عبادہ کو مرکزی قیادت سے اختلاف ہوا۔ یہ ان کے لیے ایک بحران کا وقت تھا۔ وہ اس بحران کو مینیج نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صحابہ کی جماعت سے کٹ گیے۔
انفرادی زندگی کے مقابلے میں اجتماعی زندگی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ انفرادی زندگی میں دوسروں سے اختلاف کی نوبت نہیں آتی۔ لیکن اجتماعی زندگی میں ہمیشہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اختلاف ایک امتحان (test) ہوتا ہے۔ جس آدمی کے اندر بصیرت (wisdom) کی صلاحیت موجود ہو، وہ اپنی بصیرت سے اس کی حقیقت کو سمجھ لے گا، اور اس کا منفی اثر قبول کرنے سے بچ جائے گا، لیکن جس انسان کے اندر بصیرت (wisdom) کا مادہ موجود نہ ہو، وہ اس بحران (crisis) کو مینیج کرنے میں ناکام رہے گا۔
مینیج نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس آدمی کے ساتھ جو واقعہ پیش آتا ہے ، اس کو وہ غلط معنی میں لے لیتا ہے۔ ایک واقعہ جو فطری اسباب کے تحت پیش آیا، اس کے بارے میں وہ یہ سمجھے گا کہ میری حق تلفی ہوئی، میری قربانیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ مجھ پر دوسروں کو ترجیح دی گئی۔ میں سازش کا شکار ہوا، میری خدمات کونظر انداز کردیا گیا، وغیرہ۔ اس قسم کے خیالات اس کے ذہن پر چھاجائیں گے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت نہ ہوگی کہ وہ معاملے کو صحیح زاویے سے دیکھے، اور اس کے برے اثر سے اپنے آپ کو بچا لے۔
واپس اوپر جائیں
عورت اور مرد کے درمیان دو متضاد نسبتیں ہیں۔اور وہ ہے کامل حیاتیاتی مطابقت کے باوجود کامل حیاتیاتی فرق۔یہ تخلیق کا انوکھا توازن (unique balance) ہے۔اور یہ ایک اہم تمدنی مقصد کے لیے ہے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کی اس حکمت کو شاید کسی نے نہیں سمجھا۔
قرآن میں اس حکمت کو دولفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ (
قدیم تاریخ میں یہ ہوا کہ انسان نے عورت کو مرد کے مقابلے میں کم سمجھا۔ اس بنا پر وہ فطرت کے مطابق، عورت کا صحیح استعمال دریافت نہ کرسکا۔ جدید تہذیب (modern civilization) کے زمانہ میں صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ اختیار کیا گیا۔ مگر یہ جدید نظریہ صرف قدیم نظریہ کا ردعمل (reaction) تھا۔ اس طرح قدیم ذہن اور جدید ذہن، دونوں افراط و تفریط کا شکار ہوئے اور اصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے۔قدیم ذہن کے مطابق، اگر عورت اور مرد کے درمیان صنفی نامساوات (gender inequality) تھی تو جدید ذہن نے بتایا کہ عورت اور مرد کے درمیان صنفی مساوات (gender equality)ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان تکمیلی نسبت (gender complementarity) کا تعلق ہے۔
تخلیقی نقشہ کے مطابق عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔وہ ایک دوسرے کا تکملہ (complement) ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک کے اندر ایک اضافی خصوصیت (additional quality) ہے جس کے ذریعہ دونوں مل کر مقصدِ تخلیق کو پورا کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک شادی شدہ نوجوان نے سوال کیا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان خوشگوار تعلق کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہاکہ اس کا سادہ فارمولا صرف ایک ہے— مرد عورت کے جذباتی مزاج (emotional nature) کو برداشت کرے، اور عورت مردکے بے لچک مزاج (stubborn nature) کو برداشت کرے۔ اس کے بعد، ان شاءاللہ ،ساری عمر دونوں کے درمیان خوشگوار تعلق قائم رہے گا:
A woman should learn to adjust with the stubborn nature of a man, and a man should learn to adjust with the emotional nature of a woman.
عورت اور مرد ،دو متضاد (opposite) صنف نہیں ہیں،بلکہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ (counterpart) ہیں۔ اس بنا پر دونوں کے اندر بعض اضافی خصوصیات رکھی گئی ہیں۔ عورت کے اندر اگر جذبات زیادہ ہیں تو وہ اس کی اضافی خصوصیت ہے، وہ کسی کمی کی بات نہیں ۔ اسی طرح مرد کے اندر اگربے لچک مزاج ہے تو وہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ وہ اس کی اضافی خصوصیت ہے۔ زندگی میں دونوں چیزیں یکساں طور پر ضروری ہیں۔ عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فرق کو تخلیقی نظام (creation plan) کا حصہ سمجھیں۔ اگر دونوں اس حقیقت کو جان لیں تو دونوں کے اندر ایک دوسرے کے اعتراف کا مزاج پیدا ہوگا، نہ کہ شکایت اور ٹکراؤ کا مزاج۔
اپنے جذباتی مزاج کی بنا پر، عورت کے اندر نرمی ہوتی ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ معاملے کو نرمی کے ساتھ سلجھائے۔ اسی طرح مرد کے بے لچک مزاج کا یہ فائدہ ہے کہ جہاں ضرورت ہو کہ معاملے کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ ڈیل (deal)کیا جائے ، وہاں مرد اپنا رول ادا کرے۔ اس طرح عورت اور مرد دونوںکو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے، زندگی کا نظام کامیابی کے ساتھ چلائیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں آیا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیفًا ۔(
ضعف انسان کی ایک ایسی عام صفت ہے کہ اگر انسان سوچے تو وہ ہر لمحہ اس کو یاد کرتا رہے گا ۔ مثلا آپ کھانا کھارہے ہیں، اگر آپ یہ سوچیں کہ میرا معدہ کھانے کو قبول نہ کرے تو میرے لیے میرا کھانا پتھر کی مانند بن جائے گا۔ آپ چیزوں کو دیکھ رہے ہیں ، اب آپ سوچیں کہ میری آنکھ سے اگر بینائی کا خاتمہ ہوجائے تو سورج کی روشنی میں بھی مَیں چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا۔ یہی حال ان تمام چیزوں کا ہے جن کو آدمی روزانہ استعمال کرتا ہے۔ اور جن کی وجہ سے وہ زندہ رہتا ہے اور چلتا پھرتا رہتا ہے اور اپنے سارے کام کرتا ہے۔
انسان کا ضعف اس کے لیے صرف ضعف نہیں ۔ بلکہ وہ اس کے لیے وزڈم (wisdom) کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آدمی اگر اپنے عجز اور ضعف کو سوچے تو اس کے اندر سےبڑائی کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔ وہ پورے معنوں میں متواضع (modest)انسان بن جائے گا۔ اور بلاشبہ تواضع ،انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اسی طرح آدمی اگر اپنے ضعف کو یاد کرے تو وہ کبھی اپنے خالق کی یاد سے غافل نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کا ضعف اس کو یاد دلائے گا کہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اس کو ایک قابلِ اعتماد سہارا درکار ہے۔ اور یہ قابلِ اعتماد سہاراقادرِ مطلق خدا کے سوا کوئی اور نہیں۔
جس آدمی کو اپنے ضعیف ہونے کا زندہ شعور ہو، وہ آخری حدتک حقیقت پسند (realist) انسان بن جائے گا۔ وہ اپنے بارے میں زیادہ اندازہ (overestimation) کا شکار نہ ہوگا۔ اس کے اندر سے سرکشی کا مزاج پوری طرح ختم ہوجائے گا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جس کی نظر ہمیشہ خود اپنی کوتاہیوں پر ہوگی نہ کہ دوسرو ں کی غلطیوں پر۔
واپس اوپر جائیں
آپ جس عورت یا مرد سے ملیں، ہر ایک کو اندر سے غم گین (sad) پائیں گے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے لوگوں کا حقیقت پسند (realist)نہ ہونا۔ لوگ عام طور پر اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ دنیا میں وہ صرف اس چیز کو پاسکتے ہیں جو فطرت کے قانون کے مطابق ان کے لیے ممکن الحصول ہو، فطرت کے قانون کے مطابق جو چیز ان کے لیے ممکن الحصول نہ ہو، وہ ان کو ملنے والی ہی نہیں۔
اس حقیقت سےبے خبری کی بنا پر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ وہ ایسی چیز کے حصول کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں جو حقیقت کے اعتبار سے ان کو ملنے والی ہی نہ تھی۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جانے اور وہ اپنی زندگی کا منصوبہ اس کے مطابق بنائے تو وہ اپنی زندگی کو یقینا زیادہ کار آمد بنا سکتا ہے۔
ہر آدمی کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ یہ دریافت کرے کہ دنیا کا نظام خالق کے مقرر کردہ قانونِ فطرت پر چل رہا ہے۔ یہ قانون کسی کے لیے بھی بدلنے والا نہیں۔ اس لیے ہر آدمی کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ فطرت کے قانون کو دریافت کرے، اور اپنی زندگی کا نقشہ اس کے مطابق بنائے۔ کوئی بھی شخص جو ایسا نہیں کرے گا، اس کے لیے اس دنیا میں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
ایک جرمن مدبر نے درست طور پر کہا ہے کہ — سیاست ممکن کا کھیل ہے۔
Politics is the art of the possible
یہ اصول صرف سیاست کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر معاملے کے لیے ہے۔ جو شخص ایک ایسی چیز کو اپنا نشانہ بنائے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق اس کو ملنے والی نہیں ہے، وہ یقینا ناکام ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے برعکس جو شخص ممکن دائرے میں اپنا منصوبہ بنائے گا، وہ یقینا کامیابی کا مرتبہ حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں
ماہنامہ الرسالہ کا پہلا شمارہ اکتوبر 1976 میں شائع ہوا۔ اس وقت دہلی کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ماہنامہ الرسالہ پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: آپ کا میگزین چلنے والا نہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کا میگزین ایک سجسٹیو (suggestive) میگزین ہوگا۔ جب کہ آج کا انسان صرف ایسے میگزین کو چاہتا ہے جو انفارمیٹیو (informative) میگزین ہو۔ واقعات نے بتایا کہ مذکورہ مسلمان کی رائے درست نہ تھی۔ انھوں نے ثنائی طرز فکر (dichotomous thinking)کے تحت اپنا تبصرہ کیا تھا۔ ان کو شاید یہ معلوم نہ تھا یہاں میگزین کی ایک تیسری صورت بھی ہے، جس پر ان کا تبصرہ منطبق نہیں ہوتا۔ اور وہ ہے وزڈم میگزین (wisdom magazine) ۔ وزڈم میگزین ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے، خواہ وہ کسی بھی زبان میں جاری کیا جائے۔
وزڈم کا مطلب دانش یا حکمت ہے۔ مثلاً ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ انجنیر ہیں۔ اور ایک یوروپین کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے وہ ایک کامیاب انسان ہیں۔ ان کے پاس رہنے کے لیے ذاتی فلیٹ ہے۔ سواری کے لیے کار ہے۔ان کے بچے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کمپنی کی سروس کی بنا پر ہے۔ لیکن گفتگو کے دوران انھوں نے اپنی کمپنی کی شکایت کی ۔ انھوں نے کہا کہ کمپنی میں ایک امتیاز (discrimination) پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ ان کے یہاں انڈین کی تنخواہ کم ہوتی ہے، اور وائٹ یوروپین کی تنخواہ بہت زیادہ۔
میں نے کہا کہ آپ کی شکایت درست نہیں۔ آپ غلط تقابل (wrong comparison) کا شکار ہیں۔ آپ یورپین کمپنی کا تقابل انڈین کمپنی سے کررہے ہیں۔ اس کے بجائے آپ کو ایک انڈین کمپنی کا تقابل دوسری انڈین کمپنی سے کرنا چاہیے۔اگر آپ صحیح تقابل(right comparison) کا طریقہ اختیار کریں تو آپ کی شکایت ختم ہوجائے گی۔ یہ وزڈم کی بات ہے۔ لوگوں کے اندر عام طور پر یہ وزڈم نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ شکایت میں جیتے ہیں۔ ایسے حالت میں لوگوں کو ایک ایسے میگزین کی ضرورت ہے جو ان کے معاملات میں وزڈم کی بات بتائے۔
واپس اوپر جائیں
سوال
2015 سے میں ماہ نامہ الرسالہ کا قاری ہوں۔ آپ کی کتابیں بالخصوص پیغمبر انقلابـــــ، غیر ملکی سفر نامے، وغیرہ کا مطالعہ کرچکا ہوں۔ پوسٹ گریجویشن میں تاریخ خصوصی مضمون ہے۔ ایم اے کے دوران آپ کے مضمون تاریخِ انسانی کے مطالعے سے تاریخ کے متعلق مستفید ہوا۔ عالمی منظر نامے سے واقفیت رکھنے کے لیے Indian Express پڑھتا ہوں۔ انسانی تاریخ کے مختلف مراحل کو ذہن میں رکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کا مشن صلح حدیبیہ پر اتفاق، صبر وضبط کا فارمولا، ہی انسانی زندگی اور اس کی بقاء اور ارتقاء کے لئے لازم ہیں۔اس دور انسانی میں جس میں آپ اور ہم جی رہے ہیں، آپ حالات کی سنگینی سے زیادہ واقف ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ لوگ اسلام کے نام پر، اسلام کو اس طرح پیش کررہے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں،صلح حدیبیہ ماڈل کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ صبر وضبط اپنی جگہ ، ان کی غلط فہمی رفع کرنے کے لئے کس راستے کا انتخاب کیا جائے۔(محمد اسماعیل اشفاق احمد، مسلم پورہ، مالے گاؤں)
جواب
ہمارا لٹریچر پورا کا پورا اسی سوال کا جواب ہے۔ آپ نے ابھی صرف چند کتابیں پڑھیں ہیں، اس لیے آپ کو یہ شک پیدا ہوا۔ اگر آپ تمام کتابیں پڑھیں، اور اسی کے ساتھ ہمارا ماہنامہ الرسالہ (اردو)، اور اسپرٹ آف اسلام (انگریزی) کا مطالعہ جاری رکھیں تو آپ کے تمام سوالات رفع ہو جائیں گے، ان شاء اللہ۔
اصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ وقتی مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ لوگوں کا یہی مزاج ہے جو لوگوں کے اندر ردعمل (reaction) کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ ردعمل کی نفسیات مزید بڑھ کر نفرت کی نفسیات بن جاتی ہے۔ اور نفرت کی نفسیات آخرکار لوگوں کو تشدد تک پہنچادیتی ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ فعال تشدد (active violence) میں مبتلا نہ ہوں تب بھی وہ منفعل تشدد (passive violence)کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں ۔اس نفسیات کا سب سے زیادہ برا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مثبت سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ مثبت سوچ ہی تمام ترقیات کا اصل زینہ ہے۔
سوال
میں الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ یہاں چند سوالوں کی وضاحت مطلوب ہے، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں۔
1- آپ نے اعتدال کے موضوع پر کئی مضامین لکھے ہیں، مگر یہ باہم متضاد معلوم ہوتےہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’دین انسانیت‘‘ میں لکھا ہے کہ:’’معتدل انداز کا تعلق زندگی کےتمام معاملات سے ہے۔ ہر معاملے میں آدمی کو افراط اور تفریط سے بچنا ہے۔ ہر معاملے میں، دوانتہاؤں کے درمیان بین بین والی صورت اختیار کرنا ہے‘‘(صفحہ
2۔ آپ کی کتابوںمیں دعوت پر سب سےزیادہ زور دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دعوت کے علاوہ، ایک مومن پر، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تحت، دین کے دوسرے جو تقاضے ہیں، دین میں اُن کی اہمیت کیا ہے؟ مثلاًنماز، زکوة، حج، والدین کی خدمت، گھر والوں، پڑوسیوں اور دوسرے انسانوں کی نسبت سے عائدہونے والے حقوق وفرائض، وغیرہ۔
3۔ حدیث میں ’’عزل‘‘ کے بارے میں آیا ہے، کیا یہ جائز ہے۔ اِس کے متعلق آپ کی رائےکیا ہے۔(محمد نسیم خاں، لکھنؤ)
جواب
(1) میری پہلی عبارت میں آپ ’’تمام معاملات‘‘کے ساتھ’’عملی‘‘کا اضافہ کر دیں تو آپ کا شبہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ اعتدال کے بارے میں مَیں نے جو بات لکھی ہے، اس کو آپ نے غور سے نہیں پڑھا۔ آپ دوبارہ اس کو غور سے پڑھیے تو آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا۔ میرا اصل نقطہ نظر یہ ہے کہ اعتدال کا تعلق فکری امور سے نہیںہے، بلکہ عملی معاملات سے ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، بلکہ عملا تمام علماء کے درمیان یہ مسئلہ متفق علیہ رہا۔ اگرچہ علماء اس مسئلے کو بتانے کے لیے دوسرے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
(2) میری تحریروں میں دعوت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے فرائض کی نفی نہیں، بلکہ مطلوب صورت کی اہمیت کو بتانا ہے۔ ہماری کتابوں میں دوسرے پہلووں پر بھی لکھا گیا ہے۔ البتہ موقعہ کے لحاظ سے دعوت الی اللہ کے فریضہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آپ ہماری تفسیرِ قرآن ، تذکیر القرآن پڑھیں اس میں آپ کو ہماری ساری باتیں مل جائیں گی۔
(3) عزل کے بارے میں میرا مسلک وہی ہے جو صحیح البخاری کی روایت سے ثابت ہے۔ اس کو آپ پڑھ لیں۔ اس معاملہ میں الگ سے میری کوئی رائے نہیں ہے۔ البخاری کے ان الفاظ پر آپ غور کیجیے: عن جابر رضی اللہ عنہ، قال کنا نعزل والقرآن ینزل۔(حدیث نمبر 2508) ان الفاظ پر غور کرکے آپ خود اپنے سوال کا جواب پاسکتے ہیں۔
سوال
مولانا آپ نے 1 نومبر 2015 کی سنڈے تقریر میں جو فرمایا اس میں سے چند باتوں پر مزید وضاحت مطلوب ہے:
1 ۔ پولٹکس کے ساتھ جب مذہب مل جائے تو تقدس آجاتا ہے، اس کا کیا مطلب ہے۔
2 ۔دین اور سیاست میں جدائی اور دین پرسنل چوائس ہے اور سیاست سماجی قبولیت کی بنیاد پر ہوتا ہے، میں فرق کیا ہے۔
3۔ سیاست میں دین کو کب داخلہ ملے گا، کیا اس وقت جب کہ لوگ اس کے لیے تیار ہوں۔( حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تمل ناڈو)
جواب
1 ۔ پولٹکس جب سیکولر ذہن کے ساتھ چلائی جائے تو وہ ایک دنیوی معاملہ ہوتا ہے۔ اس بنا پر سیکولر پولٹکس میںفیصلے کی بنیاد ہمیشہ عقل ہوتی ہے۔ایسے لوگ ہمیشہ اپنی سرگرمیوں کو نتیجے کے اعتبار سے جانچتے ہیں۔ ان کی سرگرمی اگر مثبت نتیجہ پیدا کرے تو وہ اس پر قائم رہیں گے، اور اگر ان کی سرگرمیاں بے نتیجہ دکھائی دیں تو وہ ان پر از سر نو غور کریں گے۔ وہ اپنی سرگرمیوں کی نئی منصوبہ بندی کریں گے۔ اس کے برعکس، مذہبی ذہن کے لو گ جب پولٹکس اختیار کریں تو اپنے مزاج کی بنا پر ان کے لیے سارا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس بنا پر ان کی پولٹکس،دوسرے مذہبی اعمال کی طر ح مقدس بن جاتی ہے۔ وہ اس پر نظر ثانی نہیں کرتے، خواہ اسی راستے میں وہ تباہ ہوکر رہ جائیں۔ وہ ہلاکت کو شہادت کا درجہ دے کر ہر حال میں اس پر قائم رہتے ہیں۔
2 ۔ سیاست ہمیشہ ایک حریف (rival) پیدا کرتی ہے۔ سیاست سسٹم میں بدلاؤ کا نشانہ دیتی ہے۔ اس بنا پر اول دن سے ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا سیاست پر عملی قبضہ ہے، ان سے ٹکراؤ شروع ہو جاتا ہے۔ اس ٹکراؤ سے بچنے کی عملی صورت یہ ہے کہ سیاست کو عقیدہ کا مسئلہ نہ بنا یا جائے، بلکہ اس کو سماجی انتخاب کا مسئلہ بنادیا جائے۔
3 ۔ مذہب میں عملی سیاست کا داخلہ عقیدہ کی بنیاد پر نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ سماجی حالات کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جیسے سماجی حالات ویسی عملی سیاست۔ ایک حدیث کا مطالعہ کرکے اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے عن عائشةقالت إنما نزل أول ما نزل منہ سورة من المفصل، فیہا ذکر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل أول شیء لا تشربوا الخمر، لقالوا لا ندع الخمر أبدا، ولو نزل لا تزنوا، لقالوا لا ندع الزنا أبدا، لقد نزل بمکة على محمد صلى اللہ علیہ وسلم وإنی لجاریة ألعب{بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْہَى وَأَمَرُّ} [
واپس اوپر جائیں
l ترجمہ کتاب ابھی حال ہی میں صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب آئڈیالوجی آف پیس کا عربی ورزن ’عقیدة السلام‘ کے نام سے سعودی عرب سے شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کو سعودی عرب کے ایک معروف ادارہ ’العبیکان ‘نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا عربی ترجمہ بسام عثمان احمد ابوزید نے کیا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ سے اس کتاب کا پی ڈی ایف ورزن ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
l سی پی ایس کی ایک نئی ٹیم مغربی بنگال کے رسڑا (ضلع ہگلی )میں کچھ مہینوں پہلے بنی ہے۔ کولکاتا ٹیم کےتعاون سے ٹیم نے اپنی ایکٹیوٹی کی شروعات رسڑا میں ایک لائبریری کے افتتاح کے موقع پرکی ۔ اس موقع پر انھوں نےانگلش ترجمہ قرآن ، اسپرٹ آف اسلام وغیرہ، علاقہ کے ڈی ایس پی اور دوسرے پولیس آفیسرس کو پیش کیا۔ سب نے اس گفٹ کو خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
l کناڈا چیپٹر خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا )کی اطلاع کے مطابق، مسٹر عاصم شفیع ، ان کی بیوی مہوش اور دیگر احباب نے کناڈا میں دعوہ ورک شروع کردیا ہے۔ ان لوگوں نے آفیشیل طور پر سی پی ایس کناڈاکے لیے وہاں کی حکومت سے منظوری حاصل کی ہے ۔ اور مذکورہ بینر کے تحت یہ لوگ کناڈا میں مدعو حضرات کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کررہے ہیں۔
l 30 دسمبر 2015 کو سی پی ایس کولکاتا کے مسٹر سیف اللہ مغربی بنگال کے گورنر جناب کیشری ناتھ ترپاٹھی سے ملے اور ان کو صدر اسلامی مرکز کے قرآن کا انگریزی ترجمہ، ایج آف پیس اور اسپرٹ آف اسلام، ٹررزم: اٹس روٹ کاز اینڈ سولوشن (لیفلیٹ)،پیش کیا۔ جناب گورنر صاحب نے مسٹر سیف اللہ کا شکریہ ادا کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس انگلش میں قرآن نہیں تھا۔ وہ اس کو ضرور پڑھیں گے۔گورنر مغربی بنگال کے اے ڈی سی مسٹر سنہاسس دِرگھانگی کو بھی دعوتی لٹریچر پیش کیا گیا۔
l 10دسمبر2015 کو سی پی ایس سہارن پور ٹیم کے ڈاکٹر اسلم صاحب نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’دی ایج آف پیس ، اسپرٹ آف اسلام اور دوسری کتابیں شوبھت یونی ورسٹی (دہلی)کے چیر مین ڈاکٹر شوبھت کمار کو بطور ہدیہ دیا۔ ڈاکٹر شوبھت نے بھی ڈاکٹر اسلم کو گیتا پیش کی اور پیس ہال سہارن پور کو دیکھنے اور صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس موقعے پر ہریانہ کے بی ڈی ایس کالج کے چیئر مین مسٹر روندر رانا اور ڈاکٹر راکیش پنور چیئر مین شکھمبھر کالج بھی موجود تھے۔
l 18-27دسمبر 2015 کو الہٰ آباد میں ایک نیشنل بک فیئر منعقد ہوا اس میں سی پی ایس الہ آباد کے ممبر ابرار صاحب نے محمد اوصاف اور محمد عتیق کے تعاون سے ایک بک اسٹال لگایا۔ اسٹال پر آنے والے زیادتر افراد غیرمسلم تھے جو کہ قرآن لینے کے لیے آئےتھے۔اسی کے ساتھ ان کو معاون لٹریچر بھی دیا گیا۔ ان سے گفتگو کے دوران محسوس ہوا کہ یہ سبھی لوگ صراط مستقیم کے متلاشی ہیں۔ حق کی تلاش انھیں قرآن کی طرف کھینچ لائی ہے۔قرآن کے بعد سب سے زیادہ لوگوں کی خواہش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حالاتِ زندگی کو پڑھنے کی تھی۔ اس دوران \یہ بات پتہ چلی کہ زیادہ تر غیر مسلم حضرات صدراسلامی مرکز اور ان کی کتابوں سے واقف ہیں۔ انھوں نے اپنے گہرے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جیسے اسکالر کی ضرورت ہر دور میں تھی اور ہے۔ انھوں نے مولانا کے لیے دعا بھی کی۔
l 16-18 دسمبر 2015 کو چتنی بھون، ناگپور میں ایک سہ روزہ پرنسپل ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ کانفرنس کا موضوع تھا، ہارمنی تھرو ایجوکیشنــ(Harmony through Education)۔ ناگپور کامپٹی الرسالہ ٹیم کے ممبر جناب ساجد احمد خان نےاس پروگرام میں اپنے کالج کی جانب سے شرکت کی۔ کانفرنس کے آخری دن مہاراشٹر کے وزیر اعلی جناب دیویندر فڈناویس اس میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔اس موقع پرجناب ساجد احمد خان نے وزیر اعلی موصوف کوقرآن کا انگلش ترجمہ اور دی ایج آف پیس دیا۔ اور ان سے یہ درخواست کی کہ مہاراشٹرا کے اردو اسکولوں میں الرسالہ کو سبسکرائب کیا جائے،کیوں کہ اس سے امن شانتی کا سبق ملتا ہے۔ یہ دیکھ کر اس موقع پرموجودتمام لوگ بشمول کنوینر مسز مرینالی دستر نے مائیک کے ذریعہ ان سے قرآن کے لیے فرمائش کی۔جناب ساجد صاحب نے تمام لوگوں کی ریکویسٹ نوٹ کی ۔ ان کو مطلوبہ دعوتی لٹریچر بعد کو انشاء اللہ بھیج دیا جائے گا۔یہاں پر ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس ملاقات کا انتظام پروگرام کے کنوینر مسٹر وجے پھانسکر (ان کا ذکر اس سے پہلے الرسالہ کے خبرنامہ میں آچکا ہے) نےکروایا تھا۔
l دسمبر کی
l مسٹر حمید اللہ حمید، کشمیر نےممبئی اور پونا کا دورہ کیاتھا ۔ وہاں انھوں نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی۔ ان کی دعوتی رپورٹ ملاحظہ ہو۔
2 جنوری 2016 کو پروفیسر سوشیلا بھان اور ڈاکٹر چوپرا سے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ملاقات ہوئی۔ ان کو The Age of Peaceخصوصی طورپر تحفہ میںدی گئی۔ اس پورے سفر میں اعلی تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات کے تاثرات سے پتہ چلا کہ وہ اسلام کو گہرائی کے ساتھ جاننے کے خواہش مند ہیں۔ (حمید اللہ حمید، کشمیر)
l 17-24 جنوری کومغربی بنگال اردو اکیڈمی بک فیئر حاجی محسن اسکوائر میں منعقد ہوا۔کولکاتا سی پی ایس ٹیم نے اس بک فیئر میں اپنا اسٹال لگایا۔ اس کا انتظام ٹیم کے ممبرمحمد عبداللہ، آفتاب عالم، شمیم احمد خان وغیرہ نے سنبھالا۔ انھوںنے بک فیئر میں آنے والوں سے انٹرایکش کیا اور ان کو قرآن اور دوسرے دعوتی لٹریچر دیئے۔
l 20 جنوری 2016 کو ہندستان ٹائمس نے ایک پروگرام فُوار (Fuaar) سہارن پور میں منعقد کیا۔ اس پروگرام کا مقصد تھا کہ غریب ونادار بچوںکو کیسے اس لائق بنایا جائے کہ وہ قوم وملک کی تعمیر وترقی میں اپنا اہم رول ادا کرسکیں۔ اس میں علاقہ کے معروف مفکرین مدعو تھے۔ڈاکٹر اسلم (سی پی ایس، سہارن پورٹیم) نے کہاکہ اس دنیا میں کوئی مفلس اور نادار نہیں۔ اس دنیا میں کچھ لوگ حقیقی استطاعت رکھتے ہیں اور کچھ امکانی استطاعت رکھتےہیں۔ضرورت ہے کہ ہم ان کو ہمت اور حوصلہ دیں کہ وہ اپنے امکان کو حقیقت میں تبدیل کرسکیں۔پروگرام کے اختتام پر قرآن اور دعوہ لٹریچر شرکاء کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
l ناگپورکامپٹی الرسالہ ٹیم کی اطلاع کے مطابق، ٹیم کے ایک ممبر جناب شجاع احمد خان نے اپنے ریٹائرمنٹ کی الوداعی تقریب میں دعوتی کام کیا۔ اس موقع پر انھوں نےانگلش ،ہندی اور مراٹھی میں قرآن کی 200 کاپیاں تمام شرکاء کے درمیان تقسیم کیں۔ جناب موصوف ڈیپارٹمنٹ آف آڈیٹر جنر ل اور ٹیلی گراف سے اکاؤنٹ آفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
l خواجہ کلیم الدین صاحب امریکا کی اطلاع کے مطابق،مسٹرسمیع عزیز یو ایس اے میں سی پی ایس کے نئے ممبر ہیں۔ انھوں نے ہارٹ فورڈ سیمنری سے گریجویٹ کیا ہے۔ اب وہ ایک ڈیڈیکیٹڈ داعی ہیں۔ وہ چرچ میں جاکر اسلام پر لکچر دیتےہیں اور صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمہ قرآن، وہاٹ از اسلام اور دوسرے لٹریچر لوگوں کو دیتےہیں۔
l جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ایک انٹرفیتھ سیمینار ملّت ہال، باری نگر جمشید پور میں منعقد ہوا۔یہاں سی پی ایس ٹیم نے اس میں ایک اسٹال لگایا اور ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے۔ تمام مقررین کودعوتی لٹریچر پر مشتمل ایک ایک گفٹ پیکٹ دیا گیا۔ اس پروگرام میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں یہ نام قابلِ ذکر ہیں، مسٹر لیو جان ڈی سوزا( فادر لوپٹاہال چرچ) مسٹر سردار اندر جیت سنگھ (صدر آل گرودوارا، جمشید پور) پروفیسر چندیشور خان، سابق سینئر اے جی ایم (ٹاٹا موٹرس) کے نام شامل ہیں۔
l 13-26جنوری 2016 چنئی پونگل بک فیئر کا انعقاد ہوا۔ اس بک فیئر میں گڈورڈ بکس چنئی نے حصہ لیا۔ اور آنے والے لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور پیس لٹریچر بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا۔ اس بک فیئر کے دوران یونیورسل پبلیکیشن (Universal Publication) نے صدر اسلامی مرکز کی کتابیں تمل زبان میں ترجمہ کرکے ان کو شائع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔یہ ادارہ تمل زبان میں بڑے پیمانے پر اسلامی کتابیں شائع کرتاہے۔
l 24 جنوری 2016 کو سنٹر فار پیس اینڈ اسپریچولٹی (الہ آباد) کی طرف سے مقامی طور پرایک دعوہ میٹ کا انعقاد ہوا۔ اس میں توفیق احمد ، رجت جی، محمد اوصاف، محمد شعیب اور مولانا ابرار صاحبان نے شرکت کی۔ یہ ایک افتتاحی ملاقات تھی۔ اس کا مقصد تھا کہ دعوتی کام کو کیسے مزید آگے بڑھایا جائے۔اب یہ میٹنگ انشاء اللہ ہر ہفتے ہو گی۔
l مدعو کی جانب سے دعوتی موقع
l کیرلا میں کوٹایم انٹرنیشنل بک فیسٹ کا انعقاد ہوا۔ اس میں پیس سنٹر(کیرلا) نے حصہ لیا۔اس کے ممبران نے بک فیسٹ میں آنے والے شرکاء سے انٹرایکشن کیا اور ان کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے۔ تمام لوگوں کی طرف سے نہایت حوصلہ افزا رسپانس دیکھنے کو ملا۔یہ دس روزہ بک فیر 30 جنوری 2016 کو شروع ہواتھا۔
l 30جنوری 2016 کوماتا سندری کالج فار وومن ( آئی ٹی او، نئی دہلی)نے ایک بڑے پروگرام میں اپنا میگزین اسپیس فار آل (SFA: Space for All) لانچ کیا۔ اس پروگرام میں صدر اسلامی مرکز نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی اور ’یونیورسل کنسرن اینڈ یونیورسل ویلفیر‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔اس کے علاوہ مہمانوںمیں پروفیسر پریم سنگھ چندوماجرا(ایم پی، آنندپور صاحب) ،پروفیسرڈاکٹر جسپال سنگھ (وی سی، پنجابی یونیورسٹی، پٹیالہ) ایس ـترلوچن سنگھ (سابق ممبر آف پارلیمنٹ و سابق چیرمین مائنارٹی کمیشن، گورنمنٹ آف انڈیا) ، وغیرہ تھے۔ ان تمام شرکاء کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیے گئے۔
l دہلی فیلڈ ٹیم مختلف مقامات اور مناسبت سے مسلسل دعوت\ کا کام کررہی ہے ۔ جیسےجے پور لٹریچر فیسٹول،
l I write this email to thank you and your grandfather Maulana Wahiduddin Khan for taking time and filling the questionnaire that I had sent via Mr. Hafiz Iqbal. The inputs given by him were very helpful and not only did it help me gain better understanding but also helped take my dissertation to a higher qualitative level. The very fact that you all took time to fill the questionnaire sent by a nobody such as me speaks volumes of your humility and zest. I find the work done by Maulana Saheb extremely enriching and necessary in today's time. I admire him for his efforts at bringing in peace and right understanding. I wish that one day we see a united world living in peace and harmony though diverse in many ways. I pray for Maulana Saheb’s and your good health and well being. Thanking you. (Lenoy Jose SJ, Satyanilayam, Chennai)
l Thank you very much for sending these impressive videos of Maulana. I am very inspired by Maulana’s speeches, especially his Sunday talks. (Javed Khan)
l From the past couple of days, I am able to experience peace of mind by listening to Maulana's audio and video lectures. (Aamir Bhat, Srinagar)
اردو اور انگلش ویڈیو، آڈیو دیکھنے،سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے ان پیجز پر جائیں:
http://www.cpsglobal.org/videos
http://www.cpsglobal.org/podcasts
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.