قرآن کی ہر آیت میں انسان کے لیے ایک رہنمائی ہوتی ہے۔ لیکن اس رہنمائی کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی قرآن کی آیتوں میں تدبر کرے۔ مثلاً قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ الَّذِی آتَیْنَاہُ آیَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِینَ ۔(
قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ خالق نے ہر انسان کو ایک مخصوص کردار (role) کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان اگر اپنے آپ پر غور کرکے اس فطری رول کو دریافت کرے تو اللہ کی نصرت اس کو ملتی ہے۔ فرشتے اس کے اوپر اترنے لگتے ہیں (
اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہوتا ہے جو اپنے فطری رول کو دریافت کرنے میں ناکام رہے۔ ایسے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتاہے،یہاں تک کہ وہ اس کو ایک بھٹکا ہوا انسان بنادیتا ہے۔ قرآن کی اس آیت میں بھٹکنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی فطرت کے نقشے کے مطابق صحیح سمت میں سفر نہ کرے، بلکہ بھٹک کر غلط راہوں میں چلا جائے۔ ایسا انسان اس دنیا میں بظاہر کامیاب دکھائی دے سکتا ہے، لیکن فطرت کے نقشے کے مطابق ،وہ بلاشبہ ایک ناکام انسان ہوگا۔ آخرت کی دنیا میں وہ اس حال میں پہنچے گا کہ وہ وہاں صرف ایک محروم انسان ہوگا۔
یہی وہ انسان ہے جس کا حال قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے: وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیعَةٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَوَجَدَ اللَّہَ عِنْدَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ وَاللَّہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ۔ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کو سمجھنے کے لیے مفسرین نے مختلف علوم کا ذکر کیا ہے، یہ درست ہے۔ لیکن قرآن کو سمجھنے کا ایک اور ذریعہ ہے، جو بلاشبہ سب سے زیادہ اہم ہے، اور وہ تقو ی ہے۔ یہ بات قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ (
تقوی آدمی کے اندر یہ مزاج بناتا ہے کہ وہ ہر چیز کے لیے اللہ سے مدد کا طالب بنے۔ اللہ سے مدد کا طالب ہونا، بیک وقت دعا بھی ہے اور عبادت بھی۔ ایسی دعا سے قرآن فہمی میں بھی مدد ملتی ہے، اور اس کے ذریعے عبادت کا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔
قرآن فہمی کے لیے اللہ سے مدد کی دعا کرنا، بے حد اہم ہے۔یہ گویا کتاب کو سمجھنے کے لیے خود کتاب کے مصنف سے کنسلٹ (consult)کرنا ہے۔ یہ صرف قرآن کی صفت ہے کہ اس کا مصنف ہر لمحہ اور ہر مقام پر کنسلٹ کرنے کے لیے موجود ہے۔ اللہ کی طرف سے ہدایت بلاشبہ ہر انسان کے لیے آتی ہےلیکن یہ ہدایت لفظوں کی صورت میں نہیں آتی، بلکہ وہ انسپریشن (inspiration) کی صورت میں آتی ہے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ آسمانوں کو الہام (
امام ابن تیمیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب قرآن کی کوئی آیت ان کو مشکل نظر آتی تو وہ اللہ سے یہ دعا کرتے: یا معلم ابراہیم علمنی ( إعلام الموقعین عن رب العالمین، لابن قیم، جلد 4، صفحہ
واپس اوپر جائیں
ایک طویل حدیثِ رسول میں دین اسلام کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: قد ترکتکم على البیضاء لیلہا کنہارہا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر
یہاں یہ سوال ہے کہ جب دین صبح کی طرح روشن ہے تو اس میں اختلافات کیسے پیدا ہوجائیں گے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک، اصل دین اور دوسرے، تفصیلاتِ دین۔ دونوں اگرچہ دین کا حصہ ہیں۔ لیکن دونوں کے درمیان نوعیت کے اعتبار سے فرق ہے۔ اصل دین میں توحد مطلوب ہے اور تفصیلاتِ دین میں تعدد۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے تو اختلاف کی برائی پیدا نہ ہوگی۔ جب اس حقیقت کو بھلادیا جائے تو اس کے بعد امت اختلافِ کثیر میں مبتلا ہوجائے گی۔
امورِ اتقافی میں توحد(یکسانیت) مطلوب ہے اور امورِ اختلافی میں تعدد اور توسع ۔ مگر فقہاء اس راز کو سمجھ نہ سکے ، انھوں نے خود ساختہ طور پر اصولِ ترجیح وضع کیا اور اس کے تحت امورِ اختلافی میں بھی توحد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چوں کہ امورِ اختلافی میں توحد ممکن نہ تھا۔ اس لیے عملاً یہ ہوا کہ امت واحدہ امت متفرقہ میں تبدیل ہوگئی۔
مثلا فرض نمازوں میں رکعات کی تعداد کا تعلق اتفاقی حصہ سے ہےاور ہاتھ کیسے باندھا جائے اس کا تعلق اختلافی حصہ سے۔ مگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت میں مسلکی اختلاف واقع ہوا۔ اور اس اختلاف کی بنا پر امت میں غیر ضروری طور پر کئی فرقے بن گیے۔ اس اختلاف نے بڑھتے بڑھتے شدت کی صورت اختیار کرلی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن مستند کتاب ِ ہدایت ہے۔ تبلیغِ قرآن پیغمبر کا مشن بھی ہے اور امت کا مشن بھی۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک متعلق آیت کا مطالعہ کیجیے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ ۔(
قرآن کی اس آیت کے مطابق، امت اپنی دعوتی ذمہ داری کے اعتبار سے نبی کی قائم مقام ہے۔ اللہ نے اپنی آخری کتاب، قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا۔ اس کے بعد ایسے اسباب فراہم کیے کہ قرآن پوری طرح ایک محفوظ کتاب بن گیا۔ اس بنا پر اب دنیا میں کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔ پیغمبر کا دعوتی کام پیغمبر کے بعد اب پیغمبر کی امت کو انجام دینا ہے ۔امت پر فرض ہے کہ وہ قیامت تک تبلیغِ قرآن کے اس مشن کو ہر زمانے کے لوگوں کے درمیان جاری رکھے۔ پیغمبر نے اپنے زمانے کے لوگوں تک براہ راست قرآن کو پہنچایا۔ پیغمبر کے بعد امت کو ہر زمانے میں اپنے معاصر لوگوں تک قرآن پہنچاتے رہنا ہے:
This Quran has been revealed to me so that through it I may warn you, and the Ummah may warn others through this Quran.
قرآن کی تبلیغ ہی دینِ اسلام کا اصل نشانہ ہے۔ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے ، اصحابِ رسول قرآن کو پڑھ کر سناتے تھے، اس لیے ان کو مقری کہا جاتا تھا۔ اب پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ امت کا فرض ہے کہ وہ قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں مطبوعہ صورت میں تیار کرے، اور اس کو ہر قوم کے لوگوں کے درمیان پہنچائے۔گویا کہ پیغمبر کا ہر صحابی قرآن کا مقری تھا، اب امت کے ہر فرد کو قرآن کا ڈسٹری بیوٹر بننا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن (
یہ تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ اور اس حادثہ کو بلاشبہ تاریخ کا سب سے بڑا المیہ (greatest tragedy) کہا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے ریکارڈ کے مطابق ، محفوظ طور پر کہا جاسکتا ہےکہ بیشتر انسان نے دو میں سے ایک غلطی کاارتکاب کیا ۔ یا وہ اپنے کمتر استعمال کا کیس بن گیا اور کسی نےیہ شدید تر غلطی کی کہ اس نے اپنی صلاحیت کا غلط استعمال کیا۔اپنی اعلی صلاحیت کو انسانیت کی تعمیر کے بجائے انسانیت کی تخریب میں لگا دیا۔
دنیا کے فنکار (artist) اپنی تخلیقی صلاحیت کے کمتر استعمال کی مثال ہیں۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا ایک ایسا استعمال کیا جس کو فطرت کے نقشہ کے مطابق، اعلی استعمال کے بجائے ادنیٰ استعمال کہا جاسکتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کی مثال دنیا کے تمام ڈکٹیٹر ہیں۔ ا ن کو فطرت نے غیر معمولی صلاحیت دی تھی۔ لیکن وہ فطرت کی آواز کو سن نہ سکے۔ انھوں نے صرف اپنی اَنا (ego) کو جانا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صرف تخریب کاری کی مثال قائم کرکے دنیا سے چلے گیے۔کامیاب انسان وہ ہے جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنے آپ کواستعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کے مقصد تخلیق کے بارے میںقرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا۔ (
امانت سے مراد یہاں اختیار کی آزادی (freedom of choice) ہے۔کائنات میں یہ آزادی صرف انسان کو حاصل ہے، انسان کے سوا کسی اور مخلوق کو یہ آزادی حاصل نہیں۔ ظلوم اور جہول کا لفظ اس آیت میں باعتبارِ نتیجہ ہے۔ یعنی انسان نے ایڈونچرزم (adventurism) کے تحت اس امانت کو قبول کرلیا، لیکن عملا وہ اس پر پورا نہیں اترے۔ اس بنا پر وہ باعتبار نتیجہ ظالم اور جاہل قرار پائے۔
انسان کو نفسیات کی زبان میں سوچنے والا حیوان (thinking animal)کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے یا غیر انسان۔ سوچ کا صحیح استعمال انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتا ہے، اور سوچ کا غلط استعمال انسان کو ہر اعتبار سے ناکام بنا دیتا ہے۔
انسان کو سوچنے کی صلاحیت اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اس کا صحیح استعمال کرے، وہ تخلیق میں تدبر کرے،وہ تخلیق کی معنویت کو تلاش کرے، وہ تخلیق کی حکمت کو دریافت کرے، وہ تخلیق کے مقصد کو پائے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ یہی تدبر امانت کے صحیح استعمال کا آغاز ہے۔ اسی تدبر میں کامیابی کا نام کامیابی ہے، اور اسی تدبر میں ناکامی کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں آخری حد تک فرض شناسی کا ثبوت دے۔
واپس اوپر جائیں
تالیف قلب کا مطلب ہے دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنا۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں مؤلفۃ القلوب (
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تالیف قلب کی ایک مثال وہ ہے جب کہ ہجرت کے بعد آپ نے اپنی نماز کے لیے کعبہ کے بجائے یہود کے قبلہ کو اپنا قبلہ بنالیا۔ مفسر النسفی نے اپنی تفسیر مدارک التنزیل و حقائق التاویل میں تالیف قلب کی پیغمبرانہ مثال دیتے ہوئے لکھا ہے: روى أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کان یصلی بمکة إلى الکعبة ثم أمر بالصلاة إلى صخرة بیت المقدس بعد الہجرة تألیفاً للیہود ثم حول إلى الکعبة (تفسیر النسفی، بیروت، 1998، جلد 1، البقرۃ آیت
تالیف قلب اسلام کی ایک جامع تعلیم ہے۔ اس کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ مومن کے لیے ہر انسان مدعو ہے۔ اس لیے مومن کو ہر انسان کے ساتھ تالیف قلب کے اصول پر معاملہ کرنا ہے۔ تالیف قلب کا اصول کو ئی وقتی یا محدود اصول نہیں ہے، وہ ہمیشہ کے لیے اہل ایمان سے مطلوب ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدائی زمانے میں سورہ المدثر اتری۔ اس سورہ میں دعوت کا حکم دیتے ہوئےایک اصول یہ دیا گیا کہ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ (
Do good without expecting anything in return
یہود کی تالیف کے لیے یہود کے قبلۂ عبادت کو اپنا قبلہ بنانا،بتاتا ہے کہ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں۔ اس کے لیے مومن کو ہر تدبیر اختیار کرنا جائز ہے۔ شرط اگر ہے تو صرف یہ کہ مومن کی نیت کسی ذاتی مفاد کو حاصل کرنا نہ ہو بلکہ اس کا مقصد صرف یہ ہو کہ مدعو کے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ (soft corner) پیدا ہو، اور وہ کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے۔
پیغمبر اسلام کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر ممکن طریقے سے مدعو کی تالیف قلب کرنے کی کوشش کی۔ مثلا مکی دور میں کعبہ کے اندر بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچانا، کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا بغیر احتجاج کیے ہوئےجب کہ کعبہ کے اندر 360 بت رکھے ہوئے تھے، غزوہ حنین میں آپ کو بڑی تعداد میں مالِ غنیمت حاصل ہوا تھا، آپ نے اس کی بڑی مقدار ان لوگوں کو دے دی جنھوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ایسا آپ نے ان لوگوں کی تالیف قلب کے لیے کیا تھا۔
تالیف قلب کا ایک واقعہ وہ ہے جو حدیبیہ معاہدہ کی بات چیت کے دورا ن پیش آیا۔ حدیبیہ معاہدہ کی بات چیت تقریبا دو ہفتہ تک جاری رہی تھی۔ اس مدت میں تالیف کے مختلف واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہوا کہ قبیلہ بنی کنانہ کا سردار الحلیس بن علقمہ قریش کی طرف سے آپ سے بات چیت کے لیے آرہا ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے کہا کہ یہ قبیلہ قربانی کےاونٹوں کی تعظیم کرتا ہے، وہ اس کو الٰہ کا درجہ دیتا ہے۔ اس لیے تم اس کے استقبال کے لیے اونٹ لے کر نکلو۔ چناں چہ صحابہ نے ایسے ہی کیا ۔ وہ آدمی بہت خوش ہوا۔ اور واپس جاکر قریش کو بہت مثبت رپورٹ دی۔ یہ واقعہ صحیح البخاری حدیث نمبر 2731، اور مسند احمد، حدیث نمبر18928 میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ سیرۃ ابن ہشام، مغازی الواقدی، سیرۃ ابن کثیر،الروض الانف وغیرہ کتب سیرت میں آیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان تالیف قلب کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، بشرطیکہ ان کا یہ فعل خالصۃ دعوت الی اللہ کے لیے ہو۔ اس حدیث کو اگر لفظا لیا جائے تو شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر کوئی مسلم لیڈر ہندستانیوں سے گفت و شنید کر رہا ہو، اور اس درمیان اس کو بتایا جائے کہ ایک ہندو لیڈر اس سے ملنے کے لیے آرہاہے۔ تو اس موقع پرمسلم لیڈر کے لیے یہ کرناجائز ہوگا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو کہے کہ اس ہندو لیڈرکے یہاں گائے کی پوجا کی جاتی ہے، اس لیے تم اس کا اس طرح استقبال کرو کہ اس کے پاس گائے لے کر جاؤ۔ تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہوگا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے مدینہ آئے۔ یہاں انھوں نے مدینہ کی مسجد ِ نبوی کے اندر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کی ۔ روایت کے مطابق انھوں نے اپنی یہ عبادت مشرق کی طرف رخ کرکے کی(فصلوا إلى المشرق) سیرۃ ابن ہشام (1/574) ،جب کہ مدینہ سے کعبہ کا رخ اس سے مختلف تھا۔
ملّی تعمیر کاکام سب سے پہلے ملّت کے افراد میں
شعور پیدا کرنے کا کام ہے۔ اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ
الرسالہ مشن کو ایک ایک بستی اور ایک ایک گھر میں پہنچایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان سے کچھ باتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا۔ اس روایت کا ایک حصہ یہ ہے: وعن شبابہ فیم أبلاہ۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2416)یعنی یہ پوچھا جائے گاکہ اپنی جوانی کا دور اس نے کیسے گزارا۔جوانی کا دور کسی انسان کے لیے اس کی عمر کا سب سے اچھا دور ہے ۔ اس لیے جوانی کے دور کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ سوال ہوگا۔
جوانی کا دور (youth age)کیا ہے۔ وہ صحت کے دور (age of good health) کا دوسرا نام ہے۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے اور صحت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جو آدمی تندرستی سے محروم ہوجائے، وہ گویا ہر چیز سے محروم ہوگیا۔ صحت کا دور کسی انسان کے لیے سب بڑے شکر کا آئٹم ہے۔
ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں ہر عورت اور ہر مرد جوانی اور صحت سے محروم ہو۔ ایسی دنیا گویا ایک بہت بڑا اسپتال ہوگی۔ ایک ایسا اسپتال جہاں کوئی ڈاکٹر یا کوئی نرس موجود نہ ہو۔ جہاں علاج کی سہولتیں(health facilities)نہ پائی جاتی ہوں۔ جہاں ہر ایک علاج کا ضرورت مند ہو لیکن وہاں کوئی معالج موجود نہ ہو۔ ایسی دنیا ایک ناقابل برداشت مصیبت کی جگہ بن جائے گی۔
جوانی کے دور میں ہر انسان کو بھر پور طاقت حاصل رہتی ہے۔ اس لیے جوانی کے دور میں آدمی کو مسائل کا تجربہ نہیں ہوتا۔ جوانی کا دور گویا بے مسئلہ دور ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے اس قیمتی دور پر آدمی نے خالق کے اس عطیہ کا شکر ادا کیا یا نہیں۔جوانی سے اس نے تکبر (arrogance) کی غذا لی یا تواضع (modesty) کی غذا۔وہ دوسروں کے لیے بے مسئلہ بن کر رہا یا بامسئلہ بن کر رہا۔ اس کے ذریعے دنیا کو خیر ملا یا لوگوں کو اس سے شر کا تجربہ ہوا۔ جوانی کی عمر انسان کے لیے اس کی زندگی کا بہترین دور ہے۔ جوانی کی عمر میں آدمی کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ جوانی کا دور عظیم شکر کا دور بھی بن سکتا ہے اور عظیم ناشکری کا دور بھی۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن اللہ إذا أحب قوما ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فلہ السخط (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2396 :) یعنی بے شک بڑا اجر بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اور اللہ جن لوگوں سے محبت کرتا ہے، ان کو وہ آزمائش میں ڈال دیتا ہے، تو جو راضی ہوگیا، اس کے لیے رضا مندی ہے، اور جو ناراض ہوگیا، اس کے لیے ناراضگی ہے۔ اس حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش ایمانی ترقی کا زینہ ہے۔ آزمائش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں ایک ہل چل پیدا ہوتی، اس کی چھپی ہوئی صلاحیتیں جاگتی ہیں، اس کو طرح طرح کے شاک (shock)کا تجربہ ہوتا ہے۔
ان ناخوشگوار تجربات کے دوران جو آدمی منفی نفسیات میں مبتلا ہوجائے،جو نفرت اور غصہ کا شکار ہوجائے، جو شکایت اور جھنجھلاہٹ میں جینے لگے، وہ آزمائش میں ناکام ہوگیا۔ ایسے انسان کو آزمائش سے کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس، جو انسان ذہنی بیداری کے ساتھ جیتا ہو، وہ آزمائش میں اعتدال پر قائم رہے گا،ناخوشگوار تجربہ کے باوجود وہ اپنی مثبت سوچ (positive thinking) کو باقی رکھے گا۔ یہی وہ انسان ہے جس نے آزمائش سے خیر کی غذا حاصل کی۔
آزمائش بظاہر کسی نہ کسی مصیبت کی شکل میں آتی ہے۔جو لوگ مصیبت سے گھبرا اٹھیں، ان کو آزمائش سے شکایت اور مایوسی کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، لیکن جو لوگ آزمائش کو اللہ کے منصوبے کا جزء سمجھیں، وہ آزمائش کا استقبال مثبت ذہن کے ساتھ کریں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آزمائش، ان کے اجر میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔
اللہ کے یہاں انعامات کی کمی نہیں۔ لیکن کسی کو اللہ کا بڑا انعام ہمیشہ اس وقت ملتا ہے، جب کہ وہ اس کے لیے بڑا استحقاق پیدا کرے۔ بڑے استحقاق کا خلاصہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت سوچ پر قائم رکھے۔ کوئی بھی واقعہ اس کی مثبت سوچ کو برہم کرنے والا نہ بنے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق، ہر انسان ہر وقت دو طاقتوں کے درمیان ہوتاہے— فرشتہ اور شیطان۔ ہر موقعے پر فرشتہ اور شیطان دونوں متحرک ہوجاتے ہیں۔فرشتہ کے لیے انسان کے اندر داخلے کا راستہ (entry point) اس کا ضمیر (conscience) ہے۔ شیطان کے لیے انسان کے اندر داخلے کا دروازہ اس کا ایگو (ego) ہے۔ فرشتہ ہر موقع پر آدمی کو صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے برعکس، شیطان ہر موقعے پر انسان کو غلط راستہ دکھاتا ہے۔ انسان جس کی رہنمائی سے متاثر ہوجائے ، اسی کی طرف وہ چل پڑے گا۔
اس معاملے کی ایک تاریخی مثال وہ ہے، جس کا تعلق خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب سے ہے۔ ان کے زمانے میں مدینہ میں ایک نصرانی ابو لو ٔلو ٔ فیروز رہتا تھا۔ اس نے خلیفہ ثانی سے شکایت کی کہ میرا خراج زیادہ ہے۔خلیفہ ثانی نے اس سے خراج کی مقدار پوچھی۔ ابولو ٔلو ٔ فیروز نے بتایا ۔ پھر خلیفہ ثانی نے اس سے آمدنی پوچھی، تو اس نے بتایا۔ تو خلیفہ ثانی نے کہا کہ آمدنی کے لحاظ سے تمھارا خراج زیادہ نہیں ہے۔ ابولولو اس پر غصہ ہو گیا۔ وہ ایک دن فجر کے وقت مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا، اورخنجر مار کر خلیفہ ثانی کو قتل کردیا۔(ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،طبعۃ بیروت: 1979 3/49-50)
خلیفہ ثانی عمر بن خطاب بلاشبہ ایک عادل حکمراں تھے۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں امن اور قسط کا نظام قائم کیا تھا۔ لیکن ابولؤلؤ فیروز نے اتنے بڑے واقعے کو نہیں دیکھا۔ وہ ایک چھوٹے سے واقعہ پر غصہ ہوگیا، یہاں تک کہ اس نے خلیفہ کو قتل کردیا۔ اس وقت اس پر شیطان کا غلبہ ہوگیا تھا۔بڑا واقعہ اس کو چھوٹا نظر آیا، اور چھوٹا واقعہ اس کو بڑا دکھائی دیا۔حتی کہ ایک عادل حکمراں اس کی نظر میں ایک ظالم حکمراں بن گیا۔ اس واقعے میں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے سبق ہے۔ جب بھی کوئی شخص غصہ ہوتو اس کو اس سے بچنا چاہیے کہ وہ معاملے کے بڑے پہلو کو چھوٹا سمجھے، اور معاملے کے چھوٹے پہلو کو بڑا سمجھنے لگے۔ اگر ایسا ہو تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ شیطان کے قبضے میں آگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
زندہ قوم وہ ہے جس کے اندر فطری اوصاف پائے جائیں۔ اور زوال یافتہ قوم وہ ہے جس کے افراد کے اندر دھیرے دھیرے فطری اوصاف ختم ہوجائیں۔ فطری اوصاف سے مراد ہے سچائی، دیانت داری، اصول پسندی، واقعہ کا اعتراف، اور کھلاپن (openness)،وغیرہ۔ اس کے برعکس، جب قوم پر زوال آتا ہے تو اس کے اندر جھوٹ بولنا عام ہوجاتا ہے، اس کے افراد اصول پسند کے بجائے مفاد پرست بن جاتے ہیں۔ زوال یافتہ قوم کے افراد حساسیت سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ حساسیت سے محروم ہوجائیں، ان کے اندر حق و باطل کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ایسے افراد تنگ نظری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
زندہ فرد قابلِ پیشین گوئی کیرکٹر (predictable character) کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، زوال یافتہ قوم کے افراد اس قسم کے کردار سے خالی ہوجاتے ہیں۔ زندہ انسان ہرے بھرے درخت کی مانند ہے، اور غیر زندہ انسان سوکھے درخت کی مانند۔ زندہ درخت ہمیشہ گرو (grow) کرتا رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ دوسروں کو پھول اور پھل اور سایہ جیسی چیزیں دیتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس، سوکھا درخت ان میں سے کوئی چیز دوسروں کو نہیں دیتا۔ وہ ایک ایسا درخت ہے جو دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ یہی حال زندہ انسان اور غیر زندہ انسان کا ہے۔
زندہ انسان دوسرے انسانوں کے لیے ایک سرمایہ (asset) ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر زندہ انسان ایک ایسا انسان ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے ایک بوجھ (liability) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے دوسرے انسانوں کو کچھ نہیں ملتا۔وہ اپنے گھر والوں کے لیے مسئلہ ہے ،اور اپنے سماج کے لیے مسئلہ ہے۔زندہ انسان اپنے سماج کے لیے دینے والا ممبر(giver member) ہوتا ہے۔ اور غیر زندہ انسان وہ ہے جو اپنے سماج کے لیے صرف لینے والا ممبر(taker member) بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
اولاد کی تربیت کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہے: ما نحل والد ولداً من نَحل أفضل من أدب حسن۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر1952)کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔
اس حدیث میں ادب حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability)نہ بنیں بلکہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلا بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنا ہوگا۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش بنائیں، نہ کہ رائٹ(right) کانشش۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔اس کے بعد وہ وقت آیا، جب کہ مکہ کے سرداروں نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں۔ اس وقت پیغمبر اسلام نے اپنے اصحابِ سے فرمایا:أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، او ر وہ مدینہ ہے۔
اس روایت میںجو بات کہی گئی ہے اس کا تعلق فضیلتِ رسول یا فضیلتِ مدینہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں ایک عام سنت الٰہی کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جب کسی انسان کے ساتھ یک طرفہ طور پرظلم کا معاملہ کیا جائے، یا اس سے کوئی چیز ناحق چھین لی جائے تو ایسا شخص اللہ کی نصرتِ خاص کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اللہ ایسے بندے کو اپنی طرف سے اس سے بہت زیادہ دے دیتا ہے جو انسانوں نے اس سے ناحق طور پرچھینا تھا۔
اللہ کا یہ خصوصی عطیہ اس انسان کو ملتا ہے جو اس عطیے کا استحقاق پیدا کرے۔ وہ استحقاق یہ ہے کہ ایسے موقعے پر وہ آخری حد تک بے شکایت انسان بنا رہے۔ اس کی نظر کسی حال میں اللہ رب العالمین سے ہٹنے نہ پائے۔وہ اپنے ظالموں کے لیے دعا کرے، اور خود اپنے لیے ہر حال میںاللہ سے امیدوار بنا رہے۔ جب کوئی انسان اس طرح مثبت رویے کا ثبوت دیتا ہے تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اس کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرتی ہے، ایک ایسی شخصیت جس کے اندر اپنے ظالموں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ ہو، جو منفی تجربہ کے دوران بھی مثبت رویے پر قائم رہے، جو اپنے معاملے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کردے۔جس کا سینہ ہر حال میں ربانی اسپرٹ سے بھرا رہے۔ جو اپنی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہ کرے، بلکہ اپنے تمام معاملے کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردے۔ یہی وہ انسان ہے جس کو اللہ کی طرف سے وہ خصوصی عطیہ دیا جاتا ہے جس کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میں ایک لمبی روایت آئی ہے، جس کا ایک حصہ یہ ہے:لو کان موسى حیا ما وسعہ إلا اتباعی ۔(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر
اصل یہ ہے کہ اوپر مذکور حدیث میں شخصی فضیلت کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں ایک عام اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اتھاریٹی ہمیشہ ناقابلِ تقسیم ہوتی ہے۔ نظم کا تقاضا ہے کہ اتھاریٹی صرف ایک ہو۔ جہاں بھی اتھاریٹی دو یا دو سے زیادہ ہوگی، نظم (discipline) قائم نہ رہے گا۔ حضرت موسی کے زمانے میں دو پیغمبر تھے، موسی اور ہارون۔ لیکن اتھاریٹی کی حیثیت صرف موسی کی تھی، ہارون کو نہ تھی۔ حضرت ہارون کا کام حضرت موسی کی تصدیق کرنا تھا (
تفضیلِ انبیاء کا عقیدہ بلاشبہ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ انبیاء کے درمیان ایک فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ یہ فرق رول کے اعتبار سے ہے، نہ کہ فضیلت کے اعتبار سے۔ اس پہلو سے ہر پیغمبر نمونہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مختلف پیغمبروں کے حالات کا مطالعہ کرے۔ جس پیغمبر میں اس کو اپنے حالات کے اعتبار سے مطابقت ملے ، اس کو وہ اپنا لے۔ یہ پیروی طریقِ کار (method) کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک عقیدہ اور اصولِ دین کا سوال ہے، تمام پیغمبروں کا عقیدہ اور اصول دین ایک تھا۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی کے اندر مختلف حالات کے تحت اس کا ایک مائنڈ سیٹ (mindset)یا ایک ذہنی سانچہ (intellectual mould) بن جاتا ہے۔ آدمی اسی کے مطابق سوچتا ہے، آدمی اسی کے مطابق رائے بناتا ہے۔ حقیقتِ واقعہ خواہ بظاہر کچھ اور ہو، لیکن آدمی کے ذہن میں چیزوں کے بارے میں وہی تصویر بنتی ہے، جو اس کے اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ہو۔
انسان کے بارے میںیہ حقیقت قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (
انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ دنیا میں ہر آدمی ایک سماجی ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔اس ماحول میں ہر وقت روزانہ مختلف قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ انسان خواہ چاہے یا نہ چاہے، وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر انسان کا کیس ایک متاثر ذہن کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ متاثر ذہن دھیرے دھیرے اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ آدمی اسی کو درست سمجھنے لگتا ہے۔
ایسےحالات میں ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ مسلسل طور پر اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ وہ دریافت کرتا رہے کہ کیا چیز فطری ہے۔ اوروہ کیا چیز ہے جس کو اس کے ذہن نےماحول کےاثر سے قبول کر لیا ہے۔ اسی ذہنی کوشش کا نام محاسبہ (introspection) ہے۔ یہی محاسبہ کا عمل وہ چیز ہے جو کسی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ آدمی کے اندر غلط قسم کا ذہنی سانچہ بن جائے، اور وہ اس غلط سانچہ کے زیرِ اثر زندگی گزارنے لگے۔اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسب آپ بن جائے، وہ اپنی نگرانی خود کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے درمیان شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا اس کے لیے حقیقی دنیا(real world) ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا تصوراتی دنیاimaginary world) )ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کی سطح پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کے لیے کوئی حقیقی جگہ باقی نہیں رہتی۔یہ انسان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے نہ کہ دنیا رخی سوچ۔
انسان کو اس معاملہ میں بے راہ روی سے بچانے کے لئے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو مسائل کی دنیا (دار الکبد) بنا دیا۔ یہ مسائل انسان کے لئے اسپیڈ بریکر (speed breaker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس لئے ہیں کہ انسان موجودہ دنیا کو حقیقی دنیا نہ سمجھے بلکہ آخرت کے اعتبار سےاپنی زندگی کی تعمیر کرے۔
زندگی کی یہی حقیقت ہے جس کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیاہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ (
زندگی کےامتحان میں صبر کا رول یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہر صورتِ حال میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ وہ انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ وہ درست راستے سے ہٹ کر کسی اور طرف چل پڑے۔ صبر آدمی کو ہر حال میں اصول کی روش پر قائم رکھتا ہے۔ صبر کے بغیر اس امتحان میں پورا اترنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا ۔ اس وقت اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا ہے۔ یہ عمل بڑھتا رہے گا۔ یہاں تک کہ تاریخ میں ایک نیا دور آجائے، ایک ایسا دور جو اہل ایمان کے لیے پچھلے تمام ادوار سے بہتر حالات والا دور ہوگا۔ اکیسویں صدی اسی تبدیلی کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔
قدیم دور مذہبی جبر کا دور تھا، موجودہ دور مذہبی آزادی کا دور ہے۔ قدیم دور حافظہ اور کتابت کا دور تھا، اب پرنٹنگ پریس کا دور ہے۔ قدیم دور روایتی دور تھا، موجودہ دور سائنسی دور ہے۔ قدیم دور تنگ نظری کا دور تھا، موجودہ دور کھلے پن (openness)کا دور ہے۔ قدیم دور لوکل دعوت کا دور تھا، موجودہ دور ٹکنالوجی کے ذریعے عالمی دعوت کا دور ہے، وغیرہ۔
اسی طرح قدیم دور جنگ اور تشدد کا دور تھا، موجودہ دور امن کا دور ہے۔ قدیم دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی چیز صرف لڑائی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، موجودہ دور میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ایک بڑے مقصد کو مکمل طور پر امن ذریعے سے حاصل کیا جاسکے۔
اس فرق کا سب سے بڑا ظاہرہ دعوت اور تبلیغ کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں دعوت و تبلیغ کا کام پر امن طور پر کرنا ممکن نہیں تھا۔ موجودہ زمانے میں پر امن دعوت کا کام انتہائی حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں دعوت کا کام صرف لوکل طور پر انجام دیا جاسکتا تھا، اب دعوت کا کام عالمی طور پر انجام دیا جا سکتا ہے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں آیا ہے :خیر الأمور أوساطہا۔(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 6175) یعنی معاملات میں درمیانی طریقہ خیر کا طریقہ ہوتا ہے۔ یعنی عملی رعایت کا طریقہ۔ دین میں اعتدال کی بہت اہمیت ہے مگر اعتدال کی اہمیت با اعتبار ابدی اصول نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت عملی حکمت (practical wisdom)کی بنا پر ہے۔ دوسرے الفاظ میںاعتدال کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عملی ضرورت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔
ایک یہ کہ اعتدال کا تعلق عقائد سے نہیں ہے بلکہ معاملات سے ہے۔ اعتدال اصولی معاملات میں نہیں ہوتا بلکہ اعتدال عملی معاملات میں ہوتا ہے۔ جہاںتک اصول یا عقیدہ کامعاملہ ہے، اس میںہمیشہ معیار (ideal) مطلوب ہوتاہے۔ اور معیار کے معاملہ میں سچائی صرف ایک ہوتی ہے۔ اس میں کوئی متوسط راستہ یا غیر متوسط راستہ نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اعتدال کی اہمیت عملی ضرورت کی بنا پر ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان کو فکر کی آزادی حاصل ہے۔ اس بنا پر انسانوں کے درمیان عملی اختلافات پیدا ہوتےہیں۔ ان اختلافات کو ختم کرنا اور سارے انسانوں کوایک طریقہ کا پابند بنانا ممکن نہیںہوتا۔ اس بنا پر یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس طرح کے معاملہ میںاعتدال وتوازن (balance) کا طریقہ اختیارکرو کہ لوگوں کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو اور زندگی کا نظام پرامن انداز میں چلتا رہے۔
اس اعتدال کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے بلکہ عمل سے ہے۔ عقیدہ ہمیشہ ابدی اصول پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں توسط کا سوال نہیں۔ عمل کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ عمل کا تعلق ظاہری فارم سے ہوتا ہے۔ ظاہری فار م میں حالات کی نسبت سے ایڈجسٹمنٹ کیا جاسکتا ہے تاکہ ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو۔
واپس اوپر جائیں
امام مالک (وفات
اس قول کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایک اور بات کو شامل کیا جائے۔ وہ یہ کہ بعد کا زمانہ، بدلا ہوا زمانہ ہوگا۔ اس لیے اس قول سے بعد کے زمانہ میں رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ بعد کے زمانے کے اہل علم یہ دریافت کریں کہ بعد کے زمانے کے حالات کے اعتبار سے اس کا انطباقِ نو (reapplication) کیا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں زمانہ کے فرق کو سمجھا جائے۔ مثلا ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ امت کا دورِ اول تھا۔ اس وقت دنیا میں تشدد کلچر (culture of violence) کا رواج تھا۔ اس لیے اس زمانے کے اہل ایمان کو دفاعی طور پر لڑائی کے میدان میں جانا پڑا۔ موجودہ زمانہ امن کلچر (culture of peace) کا زمانہ ہے۔ اس لیے اب زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی مشن کی منصوبہ بندی پر امن انداز میں کرنی ہوگی۔ اگر اس فرق کو نہ سمجھا جائے تو منصوبہ بندی غلط ہوجائے گی۔ اور غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
امت کی اصلاح بلاشبہ ایک اہم کام ہے۔ لیکن اصلاح کے لیے اٹھنے سے پہلے یہ دریافت کرنا ہوگا کہ حالات کی رعایت سے اصلاح کا موثر طریقہ کیا ہے۔ موثر طریقہ وہ ہے جس کا مثبت انجام برآمد ہو، جو کسی نئے مسئلے کو پیدا کیے بغیر امت کی اصلاح کا کام انجام دے۔ کوئی کام اصلاح کا ٹائٹل دینے سے اصلاح کا کام نہیں بن سکتا۔ اصلاح کا کام وہ ہے جو نتیجہ کے اعتبار سے اصلاح پیدا کرے۔ کسی کام کو جانچنے کا معیار نتیجہ ہے، نہ کہ دعوی۔
واپس اوپر جائیں
تعلق باللہ کے سلسلے میں جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں ، ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ (
قرآن کی اس آیت میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ اللہ پکار کا جواب دیتا ہے۔ لیکن یہ جواب کس صورت میں آتا ہے، اس کا ذکر اس آیت میں نہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت آنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بندے کو داخلی اعتبار سے شرحِ صدر ہوجائے۔
اس شرحِ صدر کو دوسرے الفاظ میں الہام(inspiration) کہا جاسکتا ہے۔ مثلا حضرت آدم کی یہ دعا قرآن میںان الفاظ میں مذکور ہوئی ہے: قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (
واپس اوپر جائیں
تحریک (movement) دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ تحریک جو عوامی بنیاد (popular base) کی بنیاد پر کھڑی ہو۔ یعنی ایک چیز جس کے لیے لوگوں کے اندر پہلے سے جذبہ موجود ہو، اس کے لیے تحریک برپا کرنا۔ ایسی تحریک میں نفسیاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ داعی باخع النفس (
مثلا ریلیف ورک، سوشل ورک، ملی ورک، فلاحی ورک، اور قومی کام ، وغیرہ ۔ یہ وہ کام ہیں جن کا تقاضا ہمیشہ پہلے سے لوگوں کے ذہن میں شدت سے موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اس طرح کے عوامی کام کے لیے لوگوں کو صرف کال (call)دینا کافی ہوتاہے۔ لوگ پکار سنتے ہی اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ اس طرح کے اشو پر جب کوئی جلسہ کیا جائے تو ایسا جلسہ اپنے آپ ایک ’’عظیم الشان جلسہ‘‘ بن جاتا ہے۔
دعوت الی اللہ کا کام اس کے برعکس کام کی مثال ہے۔ دعوت الی اللہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے پیشگی طور پر لوگوں کے اندر جوش و خروش موجود نہیں ہوتا۔ دعوت الی اللہ کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اندر منفی سوچ کو ختم کرے، اور مثبت سوچ کو پیدا کرے۔ وہ لوگوں سے نفرت کے بجائے محبت کرنا سیکھے، وہ لوگوں کے ظلم کو بھلا کر یک طرفہ طور پر ان کا خیر خواہ بنے ۔ کسی دنیوی کشش کے بغیر صرف آخرت کے جذبے کے تحت لوگوں کو اللہ کی طرف پکارنے کے لیے اٹھے۔ وہ ظالم اور مظلوم کی مساوات (equation) کو کامل طور پر چھوڑدے، اور داعی اور مدعو کی مساوات (equation) کو دل سے اختیار کرے۔
دعوت الی اللہ کا یہ کام عوامی ذوق کے خلاف ایک کام ہے۔ اس بنا پر بنی بنائی بھیڑ اس کے لیےکبھی موجود نہیں ہوتی۔ ایسی تحریک کا ساتھ صرف وہ لوگ دیتے ہیں جو تلاشِ حق کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ کہیں ایک جگہ موجود نہیں ہوتے۔ وہ مختلف مقامات پر بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک ٹیم بنانا کسی انسان کے بس میں نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے دعوت الی اللہ کی تحریک اپنے آغاز ہی سے ایک مبنی بر دعاء تحریک بن جاتی ہے۔ داعی کو اول دن سے دعا کو اپنی تحریک کا لازمی جزء بنانا پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ صرف اللہ عالم الغیب ہے جو جانتا ہے کہ حق کے متلاشی افراد کہاں کہاں موجود ہیں۔ وہ اس قسم کے بکھرے ہوئے افراد کو منتخب کرکے ان کو داعی کا ساتھی بنا دیتا ہے۔
ہر تحریک کی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ ہر تحریک اپنی نفسیات کے اعتبار سے تحریک کے داعی کے اندر مخصوص مزاج بناتی ہے۔ مثلاً عوامی تحریک عملا ایک انسان رخی تحریک ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کس طرح وہ بات کہی جائے جو عوام کے اندر جوش خروش پیدا کرے، اور وہ تحریک کی حمایت کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، دعوت کی تحریک ایک خدا رخی تحریک ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ سے نصرت کی دعا کی جائے، زیادہ سے زیادہ اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکارا جائے۔ دعوت کی تحریک میں جو درجہ اللہ کا ہوتا ہے، عوامی تحریکوں میں وہی درجہ عملا ًعوام کا بن جاتا ہے۔ دعوت الی اللہ کے کام میں داعی کا کنسرن (concern)اللہ ہوتا ہے۔ جب کہ عوامی ذوق کا کام کرنے والوں کے لیے خود عوام اس کا کنسرن (concern) بن جاتے ہیں۔
عوامی تحریک کی کامیابی یہ ہے کہ عوام کی بھیڑ اس کے گرد جمع ہوجائے۔ اس کے نام پر بڑے بڑے جلسے ہونے لگیں۔چندا دینے والے اس کے نام پر اپنی جیبیں خالی کردیں۔ اس کے برعکس، دعوت الی اللہ کے کام کی کامیابی یہ ہے کہ وہ وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (
واپس اوپر جائیں
ایک حدیثِ رسول میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:من سن سنة حسنة فعمل بہا، کان لہ أجرہا ومثل أجر من عمل بہا، لا ینقص من أجورہم شیئا، ومن سن سنة سیئة فعمل بہا، کان علیہ وزرہا ووزر من عمل بہا، لا ینقص من أوزارہم شیئ (ابن ماجہ، حدیث نمبر
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ عام لوگوں کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ خواص کی نسبت سے ہے۔ یعنی ایسے اشخاص کی نسبت سے جو لوگوں کے لیے قابل تقلید بن جائیں، اور بعد کے لوگ ان کے نمونے کی پیروی کریں۔ آج کل کی زبان میں ایسے افراد کو ٹرینڈ سیٹر (trendsetter) کہا جاسکتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہےکہ کسی گروہ کے خواص کی ذمے داری بہت زیادہ ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے بہت زیادہ سوچیں۔ کیوں کہ وہ جس کام کو کریںگے، دوسرے لوگ خود بھی ویسے ہی کرنے لگیں گے۔ یہاں تک کہ وہ رواج بڑھتا رہے گا، اور یہ ناممکن ہوجائے گا کہ لوگوں کو اس سے روکا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواص کی ذمے داری عوام کی ذمے داری سے بہت زیادہ ہے۔ہر سماج میں ایسا ہوتا ہے کہ کچھ افراد کو خواص کا درجہ مل جاتا ہے۔ جن کی تقلید دوسرے لوگ کریں۔ ایسے لوگوں کو اپنے عمل کے معاملے میں بےحد محتاط ہونا چاہیے۔اس معاملے میں کوئی عذر ان کے لیے عذر نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں
مومن ایک با اصول انسان ہوتا ہے۔ با اصول زندگی کی بنا پر اس کو جو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اس کو قرآن میں ایمانی آزمائش کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی کچھ آیتوں کے ترجمے یہ ہیں: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالاں کہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تمھارے اگلوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی۔ یاد رکھو، اﷲ کی مدد قریب ہے۔ (
اہل ایمان پر یہ آزمائش بارش کی طرح آسمان سے نہیں آتی، بلکہ روز مرہ کی زندگی میں معمول کے حالات کے تحت آتی ہے۔ مومن کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس آزمائش کو پہچانے اور اس میں صبر کا ثبوت دے تاکہ وہ اللہ کی نظر میں کامیاب ٹھہرے۔
قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ اس لیے یہ آزمائشی حالات اکثر تشدد کی صورت میں پیش آتے تھے۔ اب مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔اب اہل ایمان پر جو آزمائش آئے گی، اس کی صورت مختلف ہوگی۔
موجودہ زمانے میں اہل ایمان پر جو آزمائش آئے گی، وہ زیادہ تر نفسیاتی معنی میں ہوگی۔ یعنی ایسے حالات جو انسان کی ایگو (ego) کو بھڑکائیں، ایسے حالات جو انسان کے اندر نفرت کا جذبہ پیدا کریں، ایسے حالات جو انسان کو حق کے راستے سے دور کرنےوالے ہوں، ایسے حالات جو انسان کو بددل کرنے والے ہوں، وغیرہ۔ اس قسم کے حالات میں انسان کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے بچائے، اور ہر حال میں اپنے آپ کو مثبت سوچ پر قائم رکھے۔
واپس اوپر جائیں
دو پتھروں کو ایک دوسرے سے ٹکرایا جائے تو اس ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ظہور میں آتی ہے، اور وہ چنگاری (sparking) ہے۔ یہی معاملہ انسانی دماغ کا ہے۔ دو دماغ اگر باہم ٹکرائیں تو وہاں بھی ایک تیسری چیز ظہور میں آئےگی۔یہ ایک نیا تصور (new idea) ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو ذہنی ارتقا (intellectual development) کہا جاتا ہے۔ ذہنی ارتقا کبھی پر سکون حالات میں پیدا نہیں ہوتا۔ ذہنی ارتقا ہمیشہ اس وقت وجود میں آتا ہے جب کہ کسی دھماکے سے کسی انسان کے اندر ذہنی طوفان (brainstorming) وجود میں آئے۔
اس معاملے میں فکری اختلاف (dissent) کا بہت بڑا رول ہے۔ دو انسانوں کے درمیان فکری اختلاف ہو اور پھر دونوں کے درمیان انتہائی آبجیکٹیو (objective) انداز میں کھلا تبادلۂ خیال (open discussion) ہو۔ دونوں کسی ریزرویشن کے بغیرخالص علمی انداز میں اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کریں۔ دونوں میں سے کوئی مشتعل نہ ہو، بلکہ دونوں خالص دلائل کی روشنی میں تبادلۂ خیال کریں۔
اس قسم کی گفتگو کو علمی تبادلۂ خیال (scientific discussion) کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی گفتگو اگر کامل غیر جذباتی انداز میں کی جائے تو اس کے بعد ہمیشہ یہ ہوگا کہ ایک تیسرا آئیڈیا ایمرج (emerge) کرے گا جس طرح دو پتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ایمرج (emerge) کرتی ہے۔اس مثبت اختلاف کی شرط صرف یہ ہے کہ دونوں فریقوں میں سے ہر فریق خالص دلائل کی روشنی میں اظہارِ خیال کرے، وہ الزام تراشی کی زبان ہر گز اختیار نہ کرے۔اس قسم کی گفتگو کو قرآن میںمجادلۂ احسن (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب انسان (آدم) کو پیدا کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم انسان کے آگے سجدہ کرو۔ یہ سجدہ، سجدۂ عبادت نہ تھا۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ انسان کو زمین پر آباد کیا جائے گا اور فرشتوں کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ انسان کے ساتھ سپورٹنگ رول اداکریں۔
حضرت نوح نے جب کشتی بنائی تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا : وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا(
فطرت کا یہی اصول انسان اور انسان کے درمیان بھی مطلوب ہے۔ انسان جب کوئی بڑا کام کرتا ہے تویہ کام بہت سے لوگوں کے تعاون سے انجام پاتا ہے۔فطرت کے نظام کے مطابق، اس تعاون میں کسی انسان کا قائدانہ رول ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا سپورٹنگ رول۔انسانی سپورٹ کے بارے میں اس اصول کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (
انسانوں کے درمیان صلاحیتوں کا فرق ہے۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ لوگوں کے درمیان باہمی تعاون وجود میںآئے۔ اگر تمام لوگ یکساں صلاحیت کے ہوں تو تعاون ممکن نہ ہوگا۔ لوگوں کو چاہیے کہ فطرت کے اس نظام کو سمجھیں، اور اپنی صلاحیت کے مطابق اپنا رول ادا کرنے پر راضی ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں
جنت (Paradise) کیا ہے۔ جنت کی سب سے اعلی صفت یہ ہے کہ وہ معرفت خداوندی کا چمنستان ہے۔ موجودہ دنیا بھی دنیائے معرفت ہے اور جنت بھی دنیائے معرفت ۔ مگر فرق یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے مقابلے میں جنت اعلی ترین معرفت کا مقام ہے۔ یہ ابدی بھی ہے اور معیاری معنوں میں دنیائے معرفت بھی۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک متلاشی (seeker) مخلوق ہے۔ انسان اپنے پورے وجود کے اعتبار سے کسی اعلی چیز کو پانا چاہتا ہے۔ یہ اعلیٰ چیز بلاشبہ انسان کا خالق ہے۔ شعوری یا غیرشعوری طور پر انسان کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خالق کو پائے، وہ اپنے خالق کو دریافت کرے، وہ اپنے خالق کی معرفت کے سائے میں زندگی گزارے، وہ ایک ایسی دنیا کو پالے جہاں اس کے اور خالق کے درمیان غیب کا پردہ باقی نہ رہے۔ وہ اپنے خالق کو اسی طرح کامل معنوں میں پالے جس طرح اس کی فطرت اس کو پانا چاہتی ہے۔
انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ خوشی(happiness) کا طالب ہے۔ مگر یہ خوشی اس کو موجودہ دنیا میں نہیں ملتی۔یہ خوشی اپنے کامل معنوں میں جنت میں صرف ان خوش نصیب انسانوں کو ملے گی جو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں۔جنت خدا کے ظہور کا مقام ہے۔ موجودہ دنیا میں بھی خدا اپنے صفات کے ساتھ ظاہر ہے۔ مگر موجودہ دنیا میںانسان کو دیدار الٰہی کا کامل تجربہ نہیں ہوتا ۔ اس کا سبب انسان کی اپنی کوتاہی ہے۔
موجودہ دنیاایک ناقص دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں جنت کی دنیا انتہائی حد تک کامل دنیا ہوگی۔ اس لیے جنت میں اُس اعلی معرفت کا حصول ممکن ہوجائے گا جس کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہ تھا۔ اہل جنت کو صرف جنت میں داخلہ ہی نہیں ملے گا، بلکہ وہ اعلیٰ خصوصیت بھی ملے گی جو ان کو جنت کے اعلی معیار پر صاحبِ معرفت بنادے۔
واپس اوپر جائیں
ہمیشہ سے انسان یہ سوچتا رہا ہے کہ وہ زلزلہ سے پیشگی طور پر آگاہ ہوجائے تاکہ اس سے بچنے کی تدبیر کی جاسکے۔ موجودہ سائنسی دور میں مزید اضافہ کے ساتھ اس معاملے کی تحقیق کی گئی۔ مگر ابھی تک اس معاملے میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ 1970کی دہائی میں سائنس داں یہ سمجھتے تھے کہ وہ زلزلے کی پیشگی علامت کو دریافت کرلیں گے۔ مگر تحقیق میں مسلسل ناکامی کے بعد 1990 کی دہائی میں یہ مان لیا گیا کہ زلزلہ کے آمد کی پیشگی خبر سائنسی طور پر جاننا ناممکن ہے، حتی کہ ایک سکنڈ پہلے بھی نہیں:
In the 1970s, scientists were optimistic that a practical method for predicting earthquakes would soon be found, but by the 1990s continuing failure led many to question whether it was even possible... many others now maintain that earthquake prediction is inherently impossible.
قرآن میں قیامت کو بڑازلزلہ (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں اہل ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ۔ (
میدانِ جنگ (battlefield) کا مسئلہ تو کبھی پیش آ تا ہے ،اور کبھی پیش نہیں آتا ۔ اس آیت کا تعلق اس قسم کے اتفاقی واقعے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق روز مرہ کی زندگی سے ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کو آزادی ملی ہوئی ہے۔ اس بنا پر دنیا ہمیشہ مسائل کا جنگل بنی رہتی ہے۔ ایسی دنیا میں ایک بااصول انسان کے لیے زندگی گزارنا گویا جھاڑی کے درمیان سفر کرنا ہے۔ بااصول انسان اگر حالات سے گھبراجائے تو وہ اپنے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے، مسائل پر صبر کرنا اور اپنے ذہن کو ہمیشہ اصول پر جمائے رکھنا۔
صبر کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام معاملے سے ہے— درست طور پر سوچنا، درست طور پر بولنا، درست طور پر عمل کرنا، لوگوں کے ساتھ تعلقات میں درست رویہ پر قائم رہنا۔ ہر چیز کا تعلق صبر سے ہے۔ صبر کا مطلب عزم سے ہے۔ باعزم انسان وہ ہے جو صابر انسان ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایک باعزم انسان بنے ۔ وہ کسی بھی معاملے میں اپنے عزم کو نہ کھوئے۔
صبر با مقصد انسان کے لیے ایک اعلی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔صبر کے بغیر، بامقصد زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ صبر واحد چیز ہے جوایک بامقصد انسان کو ہر حال میں اپنے مقصد پر قائم رکھتا ہے۔صبر نہیں تو بامقصد زندگی بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی فکری شخصیت کیسے بنی۔ وہ کون عالم یا مفکر ہے جس سے آپ سب سے زیادہ انسپائر (inspire) ہوئے۔ آپ کی فکر کی تشکیل میں سب سے زیادہ اثر کس شخصیت کا ہے۔ میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی مسلم یا غیر مسلم اسکالر یا تھنکر ایسا نہیں ہے جس کے مطالعے سے میری فکر ی شخصیت کی تشکیل ہوئی ہو۔
میری پرورش ابتداء ً فطرت (nature) کے ماحول میں ہوئی۔ اس کے بعد میں نے اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کتابوں کا وسیع مطالعہ کیا۔ یہ مطالعہ غیر متعصبانہ انداز میں تھا۔ میں یہ کہہ سکتاہوں کہ اس مطالعے نے مجھ کو جو سب سے بڑا تحفہ دیا، وہ موضوعی طرز فکر (objective thinking) کا تحفہ تھا۔ اس طرز فکر کو دوسرے الفاظ میں ایز اٹ از تھنکنگ(as it is thinking) کہا جاسکتا ہے۔ مذہبی مطالعہ اور سیکولر مطالعہ، دونوں قسم کے مطالعہ میںیہی اصول میرا رہنما اصول رہا ہے۔ اسی اصول سے میں نے اسلام کو اس کے گہرے معنی کے اعتبار سے سمجھا ۔ اسی اصول کی بنا پر مجھے مغربی فکر (Western thought) کی صحیح معرفت حاصل ہوئی۔
ابتداء ًیہ اصول مجھے مغربی سائنس کے مطالعے سے ملا تھا۔ مزید مطالعے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ یہ اصول ایک حدیث رسول میں نہایت واضح انداز میں موجود ہے۔ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلام نے اپنی دعا میں فرمایا اے اللہ، ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور ہم کو اس کی اتباع کی توفیق دے، اے اللہ، ہمیں باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور ہم کو اس سے بچنے کی توفیق دے۔اور اے اللہ، ہمیں چیزوں کو ویسے ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
میں اپنے تجربے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ موضوعی تفکیر (objective thinking) بے حد مشکل کام ہے۔ اس کو درست طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی کامل معنوں میں اپنی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) کرے۔ یہی حقیقت کو پانے کا اصل سرا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پچھلے زمانے میں کوئی کسی کا دوست ہوتا تھا ، اور کوئی کسی کا دشمن۔ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ اب کوئی نہ کسی کا دوست ہے، اور نہ کوئی کسی کا دشمن۔ اب ہر آدمی پرو سیلف (pro-self) ہے۔ ہر آدمی کا ایک ہی کنسرن (concern) ہے۔ اور وہ اس کا اپنا انٹرسٹ ہے۔ آج کا انسان اپنے انٹرسٹ میں اتنا گم ہے کہ اس کو کسی اور کے خلاف سوچنے کی فرصت نہیں۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا فرق کا سبب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مواقع (opportunities)بہت محدود ہوتے تھے۔ مواقع پر ایک مراعات یافتہ طبقہ (privileged class) کا قبضہ ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں اصولی طور پر یہ صورتِ حال ختم ہوگئی ہے۔ اب تمام مواقع ہر آدمی کے لیے کھل گیے ہیں۔ اس لیے ہر آدمی اپنے انٹرسٹ کے لیے دوڑ رہا ہے۔ ذاتی انٹرسٹ کے اس دوڑ میں کسی کے پاس دوسرے کے خلاف سوچنے کا وقت نہیں۔ کسی کے پاس دوسرے کے خلاف دشمنی اور سازش کرنے کا وقت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دشمنی کا لفظ دور جدید کی ڈکشنری سے عملاً حذف ہوچکا ہے۔ اب اگر کوئی کسی کا دشمن بنتا ہے تو وہ اس وقت بنتا ہے جب کہ اس کو’’پتھر‘‘ مار کر اس کو مشتعل کردیا جائے۔ اگر آپ آبیل مجھے مار کی سیاست اختیار کرکے کسی کے ایگو (ego)کو چھیڑ دیں تو وہ ضرور آپ کو سینگ مارے گا۔ اگر آپ مکمل طور پر پر امن بن جائیں تو کوئی شخص نہ آپ کا دشمن ہوگا، اور نہ کوئی شخص آپ کے خلاف سازش کرے گا۔
ایک حدیث رسول موجودہ زمانے میں مزید اضافہ کے ساتھ صادق آتی ہے: الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ من أیقظھا (کنز العمال، حدیث نمبر 30891) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو جو اس کو جگائے— ہوش مندی کے ساتھ زندگی گزاریے، اور پھر آپ کو کسی سے دشمنی کا تجربہ نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ذوق دہلوی (وفات: 1854)ایک اردو شاعر تھے۔ وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے درباری شاعر تھے۔ بہادر شاہ ظفر نے ان کو خاقانِ ہند کا لقب دیا تھا۔ذوق دہلوی کا ایک شعر یہ ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دردِ دل ایک منفی صفت ہے۔ انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کا مقصد حیات یقینی طور پر کوئی مثبت نشانہ ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے غور کیجیے تو انسان کا نشانہ صرف جنت ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا:
دردِ جنت کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ہر انسان پیدائشی طور پر ایک اعلیٰ زندگی کی تلا ش میں ہوتا ہے۔ مگر وہ اس اعلی زندگی کو پائے بغیر مرجاتا ہے۔ یہ اعلی زندگی، جنت کی زندگی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان طالب جنت کی حیثیت سے اس دنیا میں آتا ہے، لیکن وہ ساری کوشش کے باوجود جنت کو نہیں پاسکتا ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مچھلی کو اگر صحرا (desert) میں ڈال دیا جائے تو وہ وہاں تڑپے گی۔ پھر اگر اس کو پانی میں ڈال دیا جائے تو اس کی تڑپ ختم ہوجائے گی۔ مچھلی اپنی فطرت کے اعتبار سے پانی کی طالب تھی۔ پھر جب اس کو پانی مل گیا تو وہ ایسی ہوگئی، جیسے اس کو سب کچھ مل گیا۔ اس دنیا کے خالق نے جس چیز کو مچھلی کے لیے مقدر کیا ہے، وہ مطلوب انسان کے لیے مقدر نہیں۔ یقینا انسان کے لیے بھی اس کا’’پانی‘‘ مقدر ہے۔ لیکن وہ مستحق انسان کے لیے موت کے بعد کے عرصۂ حیات میں ہے، نہ کہ موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں ۔
لوگوں کو جنت کا علم ہے، لیکن انھیں جنت کا شعوری ادراک نہیں۔ اگر ان کو جنت کا شعوری ادراک ہو تو جنت کے سوا کوئی اور چیز ان کو مطمئن نہ کرے۔
واپس اوپر جائیں
موت لازما ہر انسان پر آتی ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بیمار ہوتا ہے، وہ حادثے کا شکار ہوتا ہے، وہ خرابیٔ صحت کی بنا پر بیڈ ریڈن (bedridden) ہوجاتا ہے۔اور آخر میں پھر مر جاتا ہے۔ مگر کچھ موتیں ایسی ہیں جو اچانک آتی ہیں۔ جیسے انڈیا کے مشہور سائنسداں ڈاکٹر عبدالکلام جو
اچانک موت کا مطلب اچانک پیشی ہے۔اچانک موت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے اچانک مالک یوم الدین کی عدالت میں حاضر کردیا جائے۔ ایک ایسے مقام پر جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے :ما منکم من أحد إلا وسیکلّمہ اللہ یوم القیامة، لیس بین اللہ وبینہ ترجمان (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6539)۔ یعنی تم میں سے ہر ایک سے ضرور اللہ کلام کرے گا، اس طرح کہ اللہ اور انسان کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔
ہر آدمی پر لازما موت کا لمحہ آنے والا ہے۔ خواہ وہ لمحہ اچانک آئے یا تاخیر کے ساتھ آئے۔ یہ تصور انسان کو ہلا دینے والا ہے کہ وہ بے اختیار و مددگار حالت میں ایک دن اپنے آپ کو اس طرح پائے گا کہ ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف اللہ رب العالمین۔ اس پیشی کے بارے میں عمر بن خطاب نے فرمایا: تجہّزوا للعرض الأکبر (الزھد والرقائق لابن المبارک:
بڑی پیشی کے لیے تیاری یہ ہے کہ آدمی اس سوچ کے ساتھ جئے کہ اس کو کوئی ایسی بات نہیں کرنا ہے جو اللہ رب العالمین کی عدالت میں قبول ہونے والی نہ ہو۔ وہ اپنے قول اور اپنے عمل کا اس اعتبار سے نگراں بن جائے ۔وہ اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے۔ وہ شام کو سوئے تو اسی احساس کے ساتھ سوئے ، اور صبح کو جاگے تو اسی احساس کے ساتھ جاگے۔
واپس اوپر جائیں
سازش (conspiracy)منفی کارروائی کی ایک قسم ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے اس کے خلاف خاموش تدبیر کرنا:
Secret planning for some harmful purpose.
یہ طریقہ پوری تاریخ میں جاری رہاہے۔ کسی مشن کے مخالفین ہمیشہ دو طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک ہےکھلے طور پر اس کے خلاف عداوتی کارروائی کرنا۔ اور دوسرا ہے خاموش تدبیر کے ذریعے اس کو زیر کرنے کی کوشش کرنا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دونوں قسم کی مخالفت کی مثالیں ملتی ہیں۔ قدیم مکہ کے قریش نے آپ کے خلاف کھلی دشمنی کی۔قدیم مدینہ کے یہود بھی آپ کے مخالف تھے لیکن انھوں نے اپنی مخالفانہ کارروائیاں خاموش تدبیر کے انداز میں کیں۔
سازش دراصل بزدلانہ مخالفت کا دوسرا نام ہے۔ سازش ہمیشہ وہ لوگ کرتے ہیں جو منافقانہ کردار کے حامل ہوں۔ یعنی اوپر سے بظاہر اچھے بنے رہنا، مگر اندر سے عناد (malice)رکھنا، اور عناد کے جذبے کے تحت خاموش انداز میں منفی تدبیریں کرنا۔ منفی تدبیر کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر اچھا بنا رہے، لیکن اندر سے وہ منصوبہ بند انداز میں معاندانہ کارروائی کرے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سازش کا طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا(
واپس اوپر جائیں
لارڈ کرزن (Lord Curzon) 1899سے 1905تک انڈیا میں برٹش وائسرائے تھے۔ وہ نہایت ذہین آدمی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا برابر (equal)نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اکثر ان کا لوگوں سے جھگڑا (quarrel) ہوجاتا تھا۔اپنی آخری عمر میں لارڈ کرزن شدید قسم کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔وہ مایوسی کی حالت میں لندن میں 20مارچ 1925کو وفات پاگیے۔بوقت وفات ان کی عمر
ذہانت فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے، مگر ذہین آدمی اسی وقت کوئی بڑا کام کرپاتا ہے کہ جب کہ ذہانت کے ساتھ اس کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پائی جائے۔ جس انسان کے اندر ذہانت ہو، مگر اس کے اندر تواضع نہ ہو، وہ اپنے آپ کو درست طور پر استعمال (utilise) نہیں کرپائے گا۔ اس کو دوسروں سے صرف شکایت ہوگی۔ وہ ہر ایک سے نفرت کرنے لگے گا۔ اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر ذہانت کے ساتھ تواضع کی صفت پائی جائے، وہ اس قابل ہوگا کہ اپنی ذہانت کو بھرپور طور پر استعمال کرے۔ وہ دوسروں کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی مفید کام انجام دے۔تواضع وہ ہے جو کہ حقیقی تواضع ہو، نہ کہ ظاہری تواضع۔
ذہانت خالق کی ایک عظیم نعمت ہے، جو کسی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر صرف ذہانت کافی نہیں۔ ذہانت کسی آدمی کو خالق کی طرف سے ملتی ہے، لیکن دوسری ضروری صفات آدمی کو خود اپنی کوشش سے اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً تواضع کی صفت، دوسروں سے سیکھنے کا جذبہ، دوسروں کے لیے خیرخواہ ہونا،دوسروں سے معتدل انداز میں ملنا، ہر ایک کوقابلِ عزت سمجھنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں
شاہ فاروق مصرکی علوی سلطنت کے بادشاہ تھے۔ آخری زمانے میں ان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی۔ 1952میں ان کو تخت سے محروم کرکے اٹلی بھیج دیا گیا۔ جہاں 1965 میں ان کی وفات ہوئی۔ جب ان کی بادشاہت ان سے چھن گئی تو اس وقت انھوں نے ملک چھوڑتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اب دنیا سے بادشاہت کا دور ختم ہوگیا، آئندہ دنیا میں صرف پانچ بادشاہ ہوں گے— چار تاش کا اور ایک برطانیہ کا:
‘The whole world is in revolt, soon there will be only five kings left: the king of spades, the kingof clubs, the king of hearts, the king of diamonds, and the king of England.’
شاہ فاروق کی تخت سے معزولی کو عام طور پر فوجی انقلاب (military coup) کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ عالمی سیاسی انقلاب کا نتیجہ تھا۔ بیسویں صدی عیسوی میں جمہوری انقلاب آیا۔ اس کے بعد شخصی بادشاہت کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ شاہ فاروق عربی زبان کے علاوہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ انھوں نے دورِ حاضر کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ تاریخ کے بارے میںاپنے مطالعہ کے ذریعے جان چکے تھے کہ اب شخصی بادشاہت کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اس واقفیت کی بنا پر انھوں نے اپنی معزولی کو ایک ہونے والا واقعہ سمجھا۔ اس لیے انھوں نے اس کو ایک حقیقت کے طور پر مان لیا۔ اس اعترافِ حقیقت کی بنا پر وہ منفی نفسیات کا شکار ہونے سے بچ گیے۔ انھوں نے اپنی بقیہ عمر جلاوطنی میںپرسکون طور پر گزاری۔
یہی زندگی کا راز ہے۔ زندگی میں آخری طور پر جو چیز باقی رہتی ہے، وہ ہماری آرزوئیں اور خواہشیں نہیں ہیں بلکہ فطرت کا قانون ہے۔ یہ قانون ہر فرد اور گروہ پر یکساں طور پر نافذ ہوتا ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو جان لے تو وہ غصہ اور شکایت اور احتجاج اور تشدد سے اپنے آپ کو بچالے۔
واپس اوپر جائیں
اعراض (avoidance) زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ اعراض کا تعلق دعوتی مشن سے بھی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات سے بھی۔ اعراض کے اصول کو اختیار کیے بغیر اس دنیا میں کوئی بھی کام درست طور پر انجام نہیں دیا جا سکتا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر فرد اور ہر قوم کو خالق کی طرف سے آزادی حاصل ہے۔ ہر آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق اپنی آزادی کا استعمال کرے۔ زندگی کا یہی وہ معاملہ ہے جس کی بنا پر لوگوں کے درمیان اختلافات (differences) پیدا ہوتے ہیں۔ اختلاف اجتماعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔
ایک شخص جس کی زندگی کا ایک مشن ہو، اس کو جاننا چاہیے کہ مشن کا لازمی اصول یہ ہے کہ آدمی اختلافی امور کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا مشن چلائے۔ وہ دوسرے لوگوں سے الجھے بغیر مثبت ذہن کے ساتھ اپنے منصوبے کی تکمیل میں لگا رہے۔
اعراض کے اصول کی اہمیت جتنی دوسرے معاملات میں ہے، اس سے بہت زیادہ دعوت کے معاملے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام اعراض کے بغیر عملاً ممکن نہیں۔ دعوت کا نشانہ لوگوں کو آخرت سے باخبر کرنا ہے۔ اس مشن کو درست طور پر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ داعی کے اندر یکسوئی کا مزاج ہو۔اس کےاندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ اہل دنیا کی طرف سے چھیڑے ہوئے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز (ignore) کرے۔ اور پوری یکسوئی کے ساتھ لوگوں کو آخرت کی طرف پکارتا رہے۔جو لوگ دعوت کانام لیں لیکن وہ اہل دنیا کی طرف سے چھیڑے ہوئے مسائل میں الجھے رہیں، وہ کبھی خدا کے یہاں داعی کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کی کوششیں دنیا میں حبطِ اعمال (
واپس اوپر جائیں
سوال
عام تاثر یہ ہے کہ پوری دنیا کی غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے درپے ہیں، اور مسلم دنیا سازشوں کے نرغے میں ہے۔کیا یہ صحیح ہے، اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا حل کیا ہے۔ ( ایک کشمیری، سری نگر)
جواب
اس قسم کی سوچ بلاشبہ غلط ہے۔ کیوں کہ وہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا کو امتحان کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ اس لیے انسان کو خود خالق نے مکمل آزادی عطا کی ہے۔ اور جب آدمی اپنی آزادی کو استعمال کرے گا تو وہ صرف اپنے انٹرسٹ کو دیکھے گا، وہ دوسرے کے انٹرسٹ کو دیکھ کر اپنا منصوبہ نہیں بنائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کی آزادی دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں دوسرے انسان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ اس قسم کے مسئلے کو چیلنج سمجھے۔ اور دوسرے سے لڑائی یا نفرت کیے بغیر اپنے لیے ترقی کا راستہ نکالے۔
یہ بات قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ ۔ (
کسی کو دشمن بتا کر اس کے خلاف چیخ و پکار کرنا، باعتبار نتیجہ صرف اپنی تباہی میں اضافہ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ ملے ہوئے وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔اس دنیا میں کامیابی کا راز صرف ایک ہےاور وہ ہے— حالات کے مطابق درست منصوبہ بندی۔
سوال
دعوۃ ورک اور سوشل ورک میں فرق کیا ہے،کیا انبیاء نے دعوۃ دورک کے ساتھ سوشل ورک بھی کیا ہے؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمرآباد، تامل ناڈو)
جواب
سوشل ورک انسانی خدمت کے اعتبار سے ایک اچھا کام ہے۔ لیکن سوشل ورک امتِ مسلمہ کا اصل مشن نہیں ۔ سوشل ورک لوگوں کو مسائلِ دنیا سے بچانے کے لیے ہوتا ہے۔ جب کہ پیغمبر کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو مسائلِ آخرت سے بچایا جائے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت پر غور کیجئے جس کا ترجمہ یہ ہے: وہ بلند درجوں والا، عرش کا مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے، تاکہ وہ ملاقات کے دن سے ڈرائے(
دونوں قسم کےکاموں میں جو فرق ہے ، ان میں سے ایک اہم فرق یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام میں داعی کے اندر تعلق باللہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اپنے عمل کے دوران وہ اللہ کو یاد کرتا ہے، اللہ سے دعائیں کرتا ہے، اللہ سے رہنمائی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، سوشل ورک میں تعلق بالناس کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، ساری توجہ انسانوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ دعوت الی اللہ کے کام میں اگر خدا رخی ذہن بنتا ہے تو سوشل ورک میں فطری طور پر انسان رخی ذہن کی پرورش ہوتی ہے۔دعوت الی اللہ کے کام میں اگر فرشتوں کی صحبت حاصل ہوتی ہے تو سوشل ورک میں ساری توجہ کا مرکز انسان بن جاتا ہے۔ دعوت الی اللہ میں مشغول لوگوں کے اندر اگر جنت اور جہنم کا چرچا ہوتا ہے تو سوشل ورک میں مشغول لوگوں کے اندر انسانوں سے متعلق خبروں کا چرچا ہونے لگتا ہے۔دعوت الی اللہ کے کام میں اگر کیفیت (quality) کی اہمیت ہوتی ہے تو سوشل ورک میں ساری اہمیت کمیت (quantity) کی ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
1- اگر دعوت کا کام پرامن انداز میں کیا جائے تو موجودہ دور میں مدعو خود آپ کو بلائے گا۔ اس کی ایک مثال دیکھیے۔4 جون 2015 کوسہارن پور کے ڈی آئی جی جناب ڈاکٹر اشوک کمار راگھو (آئی پی ایس) نے سی پی ایس ٹیم کو اپنے آفس میں انوائٹ کیا۔اس مناسبت سےسی پی ایس (سہارن پور) ٹیم کی محترمہ الپنا تلوار اور سوامی پریم وکرم ، ڈاکٹر ذوالفان،دانش خان اور مز جیوتی ، وغیرہ وہاں گیے۔انھوں نے ڈاکٹر اشوک کمار کو انگلش تذکیر القرآن دیا۔ اورساتھ ہی ان کے سٹاف کے لئے بھی ہندی کا ترجمۂ قرآن دیا۔ بہت ہی اچھے ماحول میں تقریباً ایک گھنٹے تک سائنس آف گاڈ کے ٹاپک پر گفتگو ہوتی رہی جو کہ کافی نتیجہ خیز رہی۔
3- عید الاضحی کے موقع پر
http://www.cpsglobal.org/content/interview-eid-ul-adha-september-25-2015
4- نیشنل میڈیکل کالج (سہارن پور )کی جانب سےکانوڑیوں کے لئے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا-اس موقع پر بیمار کانوڑیوں نے ا پنا علاج کرواتے وقت ہندی قرآن اور صدر اسلامی مرکزکی کتاب ’’ستیہ کی کھوج‘‘حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ کالج کی ایڈمشن کاؤنسلر مسز الکا چودھری اور ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے ان کو صدر اسلامی مرکز کا ہندی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر پیش کیاجن کو ان لوگوں نے بہت ہی خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
5- یکم اکتوبر 2015 تا
http://www.cpsglobal.org/content/law-recovery-october-22-2015
7- چند فلسطینی نوجوانمسجد اقصی اور اس کے اطراف میں سیاحوں اور نان مسلموں کے درمیان صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمہ قرآن اور’’وہاٹ از اسلام‘‘ تقسیم کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ خبر دی ہے کہ’’وہاٹ از اسلام‘‘ کو اسرائیل کے یہودبہت پسند کرتے ہیں۔اور انھوں نے ازخود اس کتاب کا عبرانی زبان میں ترجمہ کیا ہےاور لوگوں کو دینے کے لیے انھوں نے اسے طبع کروایا ہے۔
8- ناگپور کامپٹی الرسالہ ٹیم کے ممبران نے ناگپور کے انگریزی روزنامہ ’دی ہتوادا‘ کے ایڈیٹرجناب وجے پھانسلکار(Vijay Phansilkar) سے ملاقات کی اور ان کو انگلش ترجمۂ قرآن اور دوسری مولانا کی کتابیں پیش کیں۔ ایڈیٹر موصوف نے ان کو بے حدمسرت اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں مولانا کا بہت احترام کرتا ہوں، اور ان سے ممبئی میں ایک بار مل چکا ہوں۔
9- پونا بک فیئر
10- آرین ٹی وی نیوز چینل نے
It is very good to read Maulana Wahiduddin Khan's articles on the true teachings of Islam in The Times of India. (Mr. Mindian)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.