عید اضحی کے موقع پر اہل ایمان جانور کی قربانی دیتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یا رسول اللہ ما ہذہ الأضاحی؟ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ نے جواب دیا: سنة أبیکم إبراہیم۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3127) یعنی تمہارے باپ ابراہیم کا طریقہ۔
حضرت ابراہیم کا طریقہ کیا تھا۔ وہ صرف یہ نہیں تھا کہ انھوں نے ایک مینڈھے کو پکڑا اور اس کو ذبح کردیا۔ مینڈھے کا ذبیحہ ایک فدیہ کا معاملہ تھا۔حضرت ابراہیم کا زمانہ ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔
اللہ کے منصوبے کے تحت وہ عراق کے زرخیر علاقے سے نکلے، اور اپنی بیوی ہاجرہ، اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لاکر عرب کے صحرا میں بسادیا۔ یہ گویا ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy) کا معاملہ تھا۔ یعنی صحرائی ماحول میں تربیت دے کر ایک نئی نسل بنانا جو پیغمبرانہ مشن کی حامل بنے۔گویا عید اضحی کی قربانی خود اپنی قربانی ہے۔ جانور کی قربانی صرف فدیہ (
اس اعتبار سے غور کیا جائے تو عید اضحی کا دن وہ دن ہے جب کہ ہر مسلمان کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ قربانی کی سطح پر اپنے آپ کواللہ کے مشن کے لیے وقف کرے گا۔ وہ اس پر امن دعوتی مشن کے لیے اپنے آپ کو بھرپور طور پر لگائے گا۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو اس مشن میں خرچ کرے گا۔
عید اضحی کی قربانی در اصل اس بات کا عزم ہے کہ اہل ایمان دوبارہ ابراہیمی تاریخ کو دہرائیں گے۔ پیغمبر کے دعوتی مشن کو زندہ کرنے کے لیے دوبارہ وہ سب کچھ کریں گے جس کا کرنا حالات کے لحاظ سے ضروری ہو۔ اپنی اولاد کے لیے ان کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوگی کہ وہ پیغمبرانہ مشن میں اپنا رول اداکریں، وہ دورِ جدید کے’’ اسماعیل اور ہاجرہ‘‘ بنیں ۔
واپس اوپر جائیں
جدید اثری تحقیقات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش 2160 ق م میں ہوئی۔
حضرت ابراہیم کی قوم سورج، چاند اور ستاروں کو پوجتی تھی۔ چنانچہ اس نے اس قسم کے تقریباً 5 ہزار خدا بنا رکھے تھے۔ ان میں سورج اور چاند سب سے بڑے تھے مگر حضرت ابراہیم کو اپنی قوم کے دین سے رغبت نہ ہوسکی۔ انسانی بستیوں کے بگڑے ہوئے ماحول میں اپنے لئے کشش نہ پاکر آپ بستی سے باہر نکل جاتے اور تنہائیوں میں زمین و آسمان کےنظام پر غور کرتے۔ ماحول کے فکری دباؤ سے آزاد ہو کر جب آپ سوچتے تو آپ پر نئی حقیقتوں کے دروازے کھلتے ہوئے نظر آتے۔ آپ آسمان میں یہ منظر دیکھتے کہ چاند چمکتا ہےاور پھر ماند پڑ جاتا ہے۔ ستارے نکلتے ہیں اور پھر ڈوب جاتے ہیں۔ سورج روشن ہوتاہے اور پھر رات کی تاریکی میں چھپ جاتاہے۔ ان واقعات پر غور کرنے کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ چیزیں جو عروج وزوال کے قانون میں بندھی ہوئی ہیں وہ خدا نہیں ہوسکتیں۔ خدا تو وہی ہوسکتاہے جو عروج وزوال کی حد بندیوں سے اوپر ہو۔
یہ آپ کی ایثار وقربانی سے بھری ہوئی زندگی میں پہلا ’’ایثار تھا۔ جوانی کی عمر میں آدمی تفریحات میں رہنا پسند کرتا ہے مگر آپ نے خاموش تنہائیوں کو اپنا دوست بنایا۔ اس زمانہ کو آدمی بے فکری میں گزار دیتاہے مگر اس کو آپ نے سنجیدہ سوچ بچار کی بے قراری کے حوالے کردیا۔ اس عمر کو پہنچ کر آدمی مادی لذتوں اور دنیوی ترقیوں کی طرف دوڑتا ہے مگر آپ نے اپنی بہترین گھڑیوں کو حقیقت کی تلاش میں لگا دیا۔ آدمی کے لئے سب سے آسان طریقہ یہ ہوتاہے کہ اپنے آباء واجداد کے مذہب پر چل پڑے مگر آپ نے ایک انقلابی انسان کی طرح رواج کو چھوڑ کر سچائی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’جو ہورہا ہے کےمقابلہ میں آپ نے ’’جو ہونا چاہئے کو ترجیح دی— یہ بہت بڑا نفسیاتی ایثار تھا۔ ماحول کے خلاف کسی سچائی کو اختیار کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتاہے کہ آدمی اس کے سوا سب کچھ چھوڑنے پر اپنے کو راضی کرلے۔ جب آپ نے یہ فیصلہ کیا تو اللہ نے اس کو اس طرح قبول فرمایا کہ آپ پر سچائی کی معرفت کےدروازے کھول دئے اور آپ کو اپنی پیغمبری کے لئے چن لیا۔ یہ خدائی کام آپ کے سپرد ہوا کہ آپ اپنے وقت کے انسانوں کو اصل حقیقت سے آگاہ کردیں۔
اس کے بعد آپ کے ایثار کا دوسرا شدید ترین دور شروع ہوتا ہے۔ آپ کےزمانہ کا حکمراں نمرود (ارنمو) خدائی بادشاہ بن کر لوگوں کے اوپر حکومت کرتا تھا۔ اس زمانہ کے دوسرے بادشاہوں کی طرح نمرود نے عوام میں یہ عقیدہ بٹھا رکھا تھا کہ اس کو حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ سورج سب سے بڑا معبود ہے اور نمرود کا خاندان اس معبود کا دنیوی مظہر ہے۔ سورج جس طرح ’’آسمانوں پر‘‘ حکومت کررہا ہے اسی طرح سورج کی اولاد ہونے کی وجہ سے اس کو یہ حق ہے کہ وہ زمین پر بسنے والوں کا حاکم بنے۔
اس اعتبار سے سورج چاند کی پرستش، اس زمانہ میں محض ایک مذہبی عقیدہ نہ تھی بلکہ وہ اس وقت کی سیاست کی اعتقادی بنیاد بھی تھی۔ موجودہ زمانہ کی سیاست کی نظریاتی بنیاد عوامی حاکمیت ہے، اُس زمانہ کی سیاست کی نظریاتی بنیاد خدائی حق حکمرانی تھا اور یہ خدائی حق حکمرانی اس شاہی خاندان کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا جو مفروضہ معبود کی نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ حضرت ابراہیم کا گھرانا اس نظام میں خاص اہمیت رکھتا تھا کیوں کہ آپ کا باپ آذر (Terah) اس زمانہ کے بت سازی کے ’’کارخانہ‘‘ کا مالک تھا اور شاہی بت خانہ میںافسر اعلی کادرجہ رکھتا تھا۔ وقت کے سیاسی نظام میں اس کو بہت اونچی سیاسی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا عہدہ اس زمانہ کے لحاظ سے تقریباً وہی تھا جو آج کل کسی ایسی سیاسی پارٹی کے صدر کا ہوتا ہے جو کسی ملک میں حکمراں پارٹی کی حیثیت رکھتی ہو۔
ان حالات میں حضرت ابراہیم کے لئے بنا بنایا کامیابی کا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کی جگہ لیں، وہ قائم شدہ نظام کا ساتھ دے کر اس میں اونچا مقام حاصل کرلیں۔ مگر آپ نے دوبارہ ایثار وقربانی کے راستہ پر چلنے کافیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنے باپ آزر سے صاف لفظوں میں کہا: کیا تم ستاروں کو خدا مانتے ہو اور ان کی شکلیں بنا کر ان کو پوجتے ہو۔ یہ ایک کھلی ہوئی گمراہی ہے جس میں مَیں تم کو اور تمھاری قوم کو دیکھ رہا ہوں (
حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کے ستارہ پرستی کے نظام سے اپنے باپ کی طرح موافقت نہیں کی بلکہ وہ اس کے خلاف داعی اور مصلح بن کر کھڑے ہوگئے ۔ جس نظام میں اعلی ترین عہدہ ان کا انتظار کررہا تھا وہ خود اس نظام کو بدلنے کے علم بردار بن گئے۔ انھوں نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ناحق کو مان کر اس کے ڈھانچے میں عزت اور ترقی کے خواب دیکھیں بلکہ ناحق کی تردید اور حق کا اعلان کرنے کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گھر سے نکال دئے گئے۔ قوم میں حقیر سمجھے جانے لگے۔ خود بادشاہ وقت بھی آپ کا دشمن بن گیا۔ کیوں کہ آپ کی تحریک، اس وقت کے حالات میں بادشاہ کو اس کی سیاسی زمین سے محروم کرنے کے ہم معنی تھی۔
چلتے ہوئے نظام سے بغاوت ہمیشہ اس قیمت پر ہوتی ہے کہ اس نظام کے اندر آدمی ہر قسم کے مواقع سے محروم ہوجائے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم کے اس فیصلہ نے آپ کی پوری زندگی کو ایثار وقربانی کی زندگی بنادیا۔آپ گھر سے بے گھر کئے گئے۔ خاندانی جائداد میں آپ کا کوئی حصہ نہ رہا۔ باپ کی جانشینی کے لئے آپ نا اہل قرار پائے۔ وقت کے سماج میں آپ کی حیثیت ایک اجنبی انسان کی ہوگئی۔ اُر کی تقریباً تین لاکھ کی آبادی میں کوئی آپ کا ساتھی نہ رہا۔ وقت کی حکومت آپ کو خطرہ کی نظر سے دیکھنے لگی- کیونکہ آپ اس کے پھیلائے ہوئے اِس توہماتی عقیدہ کی تردید کرتے تھے کہ سورج چاند خدائی ہستیاں ہیں اور اُن کی طرف سے کسی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ زمین پر لوگوں کا بادشاہ بن جائے۔
حضرت ابراہیم نے پرسکون زندگی کے اوپر مصیبت کی زندگی کو ترجیح دی۔ انھوں نے عوام کے درمیان مقبولیت کے مقابلہ میں عوام کے درمیان اجنبی بن جانے کو پسندکرلیا۔ وہ عہدہ اور جائداد کو چھوڑ کر خالی ہاتھ ہوجانے پر قانع ہوگئے۔ بادشاہ وقت کے دربار میں معزز کرسی پر بیٹھنے کے بجائے انھوں نے یہ خطرہ مول لیا کہ بادشاہ کی نظر میں وہ معتوب ہوجائیں اور حکومت کی طرف سے ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ قوم کے اندر بے عزت کئے گئے۔ پھر آپ کو آگ میں ڈال دیاگیا جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ اس کے بعد آپ کو مجبور کیا گیاکہ آپ عراق کو چھوڑ دیں اور ملک کے باہر چلے جائیں۔
یہاں سے آپ کی زندگی میں ایثار وقربانی کا ایک اور شدید تر مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ملک کے معزز ترین خاندان کا ایک فرد اس طرح بے سروسامانی کی حالت میں اپنے وطن سے نکلاکہ اس کے ساتھ صرف اس کی بیوی سارہ تھی اور اس کا بھتیجا لوط۔ تین آدمیوں کا یہ مختصر قافلہ خانہ بدوشوں کی طرح دریائے فرات کے کنارےکنارے سفر کرتاہوا حاران پہنچا۔ پھر بحر ابیض کے ساحلی علاقوں سے گزرتا ہوا شام اور فلسطین اور مصر تک چلا گیا- مگر ان مقامات کے لوگ بھی اسی قسم کے غیر خدائی معبودوں کو ماننے والے تھے جن کو نہ ماننے کے جرم میں آپ کو اپنے وطن سے نکلنا پڑا- آخر اللہ کی طرف سےآپ کو یہ حکم ہوا کہ تم حجاز کے بے آب وگیاہ علاقہ میں جاؤ۔ وہاں پتھروں اور خشک پہاڑوں کے درمیان خدا کا ایک گھر بناؤ۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم جب مکہ آئے تو اس وقت وہاں نہ کوئی آدمی تھا اور نہ پانی (لیس یومئذ بمکة احد ولیس بہا ماء۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر:3364) وقت کے انسانوں نے خدا کو چھوڑ کر خود اپنے بنائے ہوئے معبودوں کی پرستش شروع کردی تھی۔ تاہم پتھر اور پہاڑ اب بھی اپنی اصل فطری حالت پر باقی تھے۔ اس فطرت کے ماحول میں آپ کو خدا کا گھر بنانے کا حکم ہوا تاکہ کوئی بندہ جو خالص خدا کی عبادت کرنا چاہے وہ یہاں آکر خدا کی عبادت کرے۔ اب حضرت ابراہیم بحر قلزم کے ساحلی علاقوں سے گزرتے ہوئے موجودہ مکہ کے مقام پر پہنچے اور یہاں بیت اللہ کی تعمیر کی۔ وہ شخص جو عزت اور خوش حالی کی گود میں پیدا ہوا تھا اُس نے حق کی خاطر تنہائی، مسافرت اور تنگ ودشوار زندگی کو اپنے لئے اختیار کرلیا۔
حضرت ابراہیم
حضرت ابراہیم سوسال کی عمر کو پہنچ گئے تھے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ خواب کو عام طورپر ایک تمثیلی چیز سمجھا جاتاہے۔ آپ اس کو کسی تعبیری مفہوم میں لے سکتے تھے۔ مگر یہ حضرت ابراہیم کے ایثار وقربانی کے جذبہ کی انتہا تھی کہ آپ نے خواب کی کوئی تاویل نہ کی۔ آپ اس خوا ب کو اس کی اصلی صورت میں زیر عمل لانے کے لئے تیار ہوگئے- مَروہ پہاڑی کے مقام پر تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ پیش آیا جس کو دیکھنے کے لئے زمین وآسمان رک گئے۔ بوڑھا باپ اپنے محبوب بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا تھا۔ تاہم اللہ تعالی نے عین وقت پر مداخلت کرکے حضرت اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا- آسمان سے آواز آئی کہ بس تم نے تسلیم ووفاداری کا آخری ثبوت دے دیا۔ بیٹے کے بدلے میں اللہ نے آپ کی طرف سے مینڈھے کی قربانی قبول کرلی۔ اس کے بعد یہ طریقہ مستقل طورپر تمام خدا پرستوں کے لئے مقرر کردیاگیا۔ حکم ہوا کہ آدمی اپنی قربانی کے علامتی فدیہ کے طورپر ہر سال انھیں تاریخوں میں جانور ذبح کرے جن تاریخوں میں حضرت ابراہیم خدا کےحکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔
حضرت ابراہیم کو جو خواب دکھایا گیا اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ آپ اپنے عزیز بیٹے کو دعوت توحید کے مرکز (بیت اللہ) کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ اسی غرض سے حکم ہوا تھا کہ اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے جاکر مکہ کی خشک اور سنسان زمین پر بسا دو۔ مگر اس بات کو چھری سے ذبح کرنے کی صورت میں ممثّل کیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ دین کی خدمت کوئی معمولی چیز نہیں ہے، یہ اپنےآپ کو جیتے جی ذبح کرنا ہے۔ ’’ذبح‘‘ ایثار وقربانی کی آخری انتہا ہے اور ایثار وقربانی کی آخری انتہا پر پہنچ کر ہی آدمی اس قابل ہوتاہے کہ وہ خدا کے دین کی خدمت کرسکے۔
حضرت ابراہیم کا ایثار صرف یہ نہ تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کردیا- بیٹے کی قربانی تو ایثار وقربانی کے لمبے سلسلے کی صرف آخری صورت تھی۔ آپ کا ایثار یہ تھا کہ ایسے وقت میں جب کہ لوگ صرف دکھائی دینے والے خداؤں کے لیے اپنی محبتیں اور عقیدتیں وقف کررہے تھے، آپ نے نہ دکھائی دینے والے خدا کو اپنی محبت وعقیدت کا مرکز بنایا۔ ایسے حالات میں جب کہ ناحق ہر طرح کے مادی دلائل کے زور پر اپنی اہمیت ثابت کررہا تھا، آپ نے ایک ایسے حق کو پہچانا اور اس کو قبول کرلیا جس کی تائید میں صرف ذہنی دلائل قائم ہوسکے تھے۔ ایسی فضا میں جب کہ باطل کے ساتھ مصالحت کرنے میں آپ کے لئے عزت وترقی کےدروازے کھلےہوئے تھے، آپ نے محض سچائی کی خاطر ایک ایسے غیر مصالحانہ راستہ کو اختیار کرلیا جس میں سختیوں اور مشکلات کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسے ماحول میں جب کہ لوگ متمدن شہروں میںاقامت کو پسند کررہے تھے، آپ نے ایک خشک بیابان میں لے جاکر اپنے گھر والوں کو بسا دیا۔
یہ سب کچھ غیر معمولی ایثار وقربانی کے جذبہ کے تحت ہوا۔ ایثار وقربانی کی نفسیات کے بغیر ان میں سے کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا تھا — خدا پرست بننا اپنے کو ذبح کرنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو شخص اپنے کو ذبح کرنے پر تیار نہ ہو وہ خدا پرست بھی نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2میں حج کا حکم آیا ہے، اس سلسلۂ کلام کی ایک آیت یہ ہے: فَإِذَا قَضَیْتُمْ مَنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللَّہَ کَذِکْرِکُمْ آبَاءَکُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِکْرًا(البقرۃ: 200)۔ پھر جب تم اپنے حج کے مناسک پورے کرلو تو اﷲ کو یاد کرو جس طرح تم پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
حج کے مناسک کی ادائیگی کے بعد زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کلماتِ ذکر کا بکثرت ورد کیا جائے۔ بلکہ اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی حج کی ابراہیمی سنت کی ادائیگی کے ذریعے جو اسپرٹ تم نے اپنے اندر پیدا کی ہے اس کو لے کر دنیا میں پھیل جاؤ اور اللہ کے پیغام کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچادو۔اور ہر سال حج کے بعد یہی دعوتی کام کرتے رہو۔
حج کے بعد کے عمل سے مراد دعوت یعنی تمام انسانوں کو خدا کے کریشن پلان سے آگاہ کرنا ہے۔ اس تفسیر کا ماخذ خود سنت رسول ہے۔ روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ حجۃ الوداع کا فریضہ ادا کیا۔ پھرحج سے واپسی کے بعد آپ مدینہ آئے وہاں آپ نے ایک مفصل خطاب میں اپنے اصحاب کو یہ پیغام دیا: إن اللہ بعثنی رحمة وکافة(للناس)، فأدوا عنی یرحمکم اللہ، ولاتختلفوا علی کما اختلف الحواریون على عیسى بن مریم (سیرت ابن ہشام: 2/607)۔ بیشک اللہ نے مجھے بھیجا ہے رحمت بنا کر اور تمام انسانوں کے لیے، تو تم میری طرف سے لوگوں کو پہنچادو، اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے، اور تم میرے ساتھ اختلاف نہ کرو جیسا عیسی بن مریم کے حواریوں نے کیا ۔
امت مسلمہ کا مشن دعوت الی اللہ ہے۔ حج کا مقصد یہ ہے کہ امت کے افراد ہر سال مکہ کے تاریخی مقام پر مجتمع ہوں، یہاں وہ مختلف اعمال کے علامتی اعادہ کے ذریعے پیغمبر کی دعوتی سنت کو یاد کریں۔ اور پھر دعوت الی اللہ کی اسپرٹ کو لے کر دنیا میں پھیل جائیں، جیسا کہ اصحابِ رسول اس دعوتی مقصد کے لیے دنیا میں پھیلے تھے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن اس لئے بھیجا گیاکہ وہ سارے عالم کے لئے نذیر (warner)بنے۔ ساری قوموں کے لئے نذیر بننا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ قرآن کو ان کی اپنی قابل فہم زبان میں ترجمہ کرکے ان کو پہنچایا جائے۔ یہ اصول خود قرآن سے ان الفاظ میں معلوم ہوتا ہے — پیغمبر کو قوم کی اپنی زبان میں بھیجنا۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ (
یہ اللہ کی ایک سنت ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پچھلے زمانے میں خدا قوموں کو خود ان کی اپنی زبان میں ہدایت بھیجے، اور بعد کے زمانے میں ساری قوموں کو صرف عربی زبان میں ہدایت بھیجے۔ یہ غیرفطری بھی ہے اور اللہ کی سنت کے خلاف بھی۔اس لیے اب امت کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو تمام قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کرکے ان قوموں تک پہنچائے۔ اس کے بغیر قوموں پر اللہ کی حجت تمام نہیں ہوسکتی۔ پرنٹنگ پریس کے دور میں ایسا کرنا پوری طرح ممکن ہوگیا ہے۔موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس اور کمیونی کیشن کا سب سے بڑا استعمال یہی ہے۔
مسلمانوں نے عربی زبان میں تو قرآن کے بے شمار نسخے چھاپ کر ہر جگہ پھیلادیے ہیں۔ لیکن یہ کام کرنا ابھی تک باقی ہے کہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں قرآن کا قابل فہم ترجمہ تیار کیا جائے، اور اس کو ہر انسان تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ یہاں تک کہ کوئی انسان اس سے بے خبر نہ رہے۔موجودہ زمانے میں یہ کام پوری طرح ممکن ہوچکا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اس کی اہمیت کا شعور پیدا ہوجائے۔ امت مسلمہ کا اصل فریضہ شہادت علی الناس یا دعوت الی اللہ ہے۔ اس کام کی ادائیگی امت مسلمہ پر اسی طرح فرض ہے جس طرح اس پر نماز اور روزہ فرض ہے۔ یہ فریضہ،فرض عین کی مانند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلم فرد کو اس کام کی ادائیگی میں اپنا حصہ لازماً ادا کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں
انڈیا کے سابق پریسڈنٹ ڈاکٹر عبدالکلام
ڈاکٹر کلام بمشکل پانچ منٹ بول پائے تھے۔ اس کے بعد اچانک ان کی زبان بند ہوگئی، اور وہ اسٹیج پر گر پڑے۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے اعلان کیا کہ ڈاکٹر کلام کی موت واقع ہوچکی ہے۔ لکچر کا آخری جملہ جو ان کی زبان سے نکلا، وہ یہ تھا:
It is the destiny of our nation that an Indian brain requires an acknowledgment from a foreign...
موت لازما ہر انسان پر آتی ہے۔ تاہم عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موت کسی آدمی پر اس طرح آتی ہے کہ وہ بیمار ہوجائے، یا اس کو کوئی حادثہ پیش آجائے، یا وہ بوڑھا ہو کر مرے۔ لیکن خالق کبھی ایسا کرتا ہے کہ انسان کی موت اچانک آجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ نہ کوئی آخری وصیت کرسکتا، اور نہ وہ اپنا درد دوسروں سے بیان کرسکتا۔ وہ بالکل نارمل حالت میں ہوتا ہے کہ اچانک اس کی آواز بند ہوجاتی ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ مر چکا ہے۔
کسی شخص پراچانک موت اس لیے آتی ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر سبق لیں،وہ بے خبری کی زندگی نہ گزاریں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک صحابی رسول عبد اللہ ابن عمر نے ان الفاظ میں بیان کیا: إذا أمسیت فلا تنتظر الصباح، وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6416) جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اہل جنت کا یہ کلمہ، ایک بہت معنی خیز کلمہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دنیا ہے، جو انسان جیسی مخلوق کے لئےخوشیوں کی دنیا بن سکتی ہے۔یہ وہ دنیا ہے جو حزَن (pain) سے خالی ہو۔انسان بے حد حساس مخلوق ہے۔ حزَن کا معمولی ساتجربہ بھی انسان کو بے چین کردیتا ہے۔ انسان کو رہنے کے لئے ایک ایسا محل مل جائےجس میں بظاہر آرام کے تمام سامان موجود ہوں لیکن اسی کے ساتھ اس میں رہنے والےانسان کو کوئی حزَن لاحق ہو۔ مثلا، اس کے ایک دانت میں درد پیدا ہوجائے تو انسان اتنا بے چین ہوجائے گا کہ محل میں موجود آرام و راحت کے تمام سامان اس کے لئے بے معنیٰ ہو جائیں گے۔انسان جیسی مخلوق کے لئے صرف وہ دنیاخوشی کی دنیا بن سکتی ہے، جو حزَن سے مکمل طور پر پاک ہو۔
انسان کی نسبت سے یہ بیان ایک بے حد مبنی بر واقعہ بیان (factual statement) ہے۔قرآن کا یہ بیان کامل معنوں میں ایک مبنی بر واقعہ بیان ہے۔اتنا زیادہ مبنی بر واقعہ بیان کسی انسان کے لئے ممکن نہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بیان اس بات کا ایک ثبوت ہےکہ قرآن ایک ایسی ہستی کی کتاب ہے جو تمام حقائق سے کامل واقفیت رکھتا ہے۔
مزید یہ کہ ایک ایسی دنیا بنانا جو کامل معنوں میں انسان کے تخلیقی ساخت سے مطابقت رکھتی ہو، ایک ایسا کام ہے جو صرف رب العالمین کے لئے ممکن ہے۔یعنی ایک ایسا رب جو پورے معنوں میں عالمی اختیارات کا مالک ہو۔ اس طرح یہ آیت خدا کےوجود کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت ہے، اور اس بات کا ثبوت بھی کہ قرآن، رب العالمین کا کلام ہے، وہ کسی انسان کا کلام نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا۔ اس سے پہلے لمبی مدت تک آپ کا حال یہ تھا کہ آپ متلاشی (seeker) بنے ہوئے تھے۔ نبوت ملنے سے پہلےآخری زمانے میں آ پ کا معمول یہ تھا کہ آپ مکہ کے قریب ایک پہاڑ کے غار (cave) میں چلے جاتے تھے، جس کا نام غارِ حرا تھا۔ اس غار میں آپ مراقبہ (meditation) نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ وہاں مسلسل طور پر غور و فکر (contemplation) میں مشغول رہتے تھے۔ غارِ حرا کے اسی قیام کے آخری دن آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ غارِحرا پیغمبرِ اسلام کی ایک سنت ہے۔ یہ سنت بتاتی ہے کہ سچے انسان کی زندگی کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے۔ قرآن میں اس معاملے کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَى (
حقیقی مفکروہ ہے جو حراء جیسے مرحلے سے گزر کر مفکر بنے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ تقریبا تمام وہ لوگ جو مفکر (thinker) سمجھے جاتے ہیں، وہ اس تفکیری مرحلہ (thinking process) سے گزر کر مفکرنہیں بنے، بلکہ وہ اپنے قریبی حالات کےزیر اثر مفکربنے۔ اپنی نوعیت کےاعتبار سے یہ معاملہ مذہبی مفکرین کا بھی ہے اور سیکولر مفکرین کا بھی۔
سیکولر مفکرین کی ایک نمایاں مثال کمیونسٹ مفکرکارل مارکس (وفات: 1883) کی ہے۔ اس کا فکر اپنے زمانے کے صنعتی مسائل کے تحت بنا۔یہ فکرٹکراؤ کے اصول پر مبنی تھا۔جس کو خود اس نے جدلیاتی فکر (dialectical interpretation of history)کا نام دیا ہے۔یہی معاملہ ان افراد کا بھی ہے جو مذہب کے دائرے میں مفکرسمجھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھی تقریبا سب کے سب ردعمل کی پیداوار تھے۔
اسلام کی لٹریری تاریخ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ عباسی دور میں ترجموں کے ذریعے یونانی علوم کا چرچا ہوا۔ اس وقت کچھ مسلم اسکالر اس کے ردّ کے لیے کھڑے ہوگیے۔ ان کو مفکرکا درجہ دے دیا گیا۔ پھر تیرہویں صدی عیسوی میں تاتاریوں کے حملہ کا حادثہ پیش آیا تو بہت سے مسلم اسکالر اس کے ردعمل میں لکھنے اور بولنے لگے۔ وہ بھی مسلمانوں کے درمیا ن مفکرقرار پائے۔ اسی طرح کچھ مسلم اسکالر نے فِرقِ باطلہ کے خلاف تردیدی محاذ کھول دیا تو مسلمانوں نے ان کو بھی مفکرکا درجہ دے دیا،وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں یہی معاملہ مزید اضافے کے ساتھ پیش آیا ہے۔ موجودہ زمانے میں کچھ مسلم رہنماء صہیونیت کے خلاف سرگرمی دکھارہے ہیں، اور کچھ لوگ استشراق کے خلاف۔ کچھ مسلمان نوآبادیات کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، اور کچھ مغربی تہذیب کے خلاف۔کچھ لوگ سیکولر حکومتوں کو زیر کرنے میں مشغول ہیں، اور کچھ لوگ مفروضہ ظالموں کے خلاف سرگرم ہیں، وغیرہ۔ یہ تمام لوگ مسلمانوں کے درمیان مفکرکا درجہ پائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ نہ تفکیر ہےاور نہ ایسا کرنےوالوں کو مفکرکا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الحمد للہ رب العالمین۔ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی تفکیر کو مبنی بر حمد تفکیر ہونا چاہیے۔ اسلام کی تفکیر وہ ہے جو رب العالمین کی تلاش سے شروع ہو، پھر وہ معرفت تک پہنچے۔ یہ تفکیر اپنے آغاز سے لے کر اپنے انجام تک مکمل طور پر ایک مثبت تفکیر(positive thinking) ہے۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر پاک تفکیر ہے۔ جو لوگ اس تفکیری شرط پر پورا اتریں، وہی حقیقی معنوں میں وہ لوگ ہیں جن کو مفکرکا درجہ دیا جائے۔
اس کے برعکس، دوسرے لوگ وہ ہیں جن کی تفکیر مبنی بر عداوت تفکیر ہو۔ عداوت شیطان کا کلچر ہے۔شیطان چاہتا ہے کہ انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف عداوت کے جذبات (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِ حراء میں جانا کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انسانی حالات سے الگ ہوکر فطرت کی دنیا میں تدبر کرنا۔ انسان کے بجائے خدائی آیات (signs)میں غور کرنا۔ وقتی حالات سے اوپر اٹھ کر ابدی حقیقتوں میں غور کرنا۔ یہی سوچ درست سوچ ہے۔ جولوگ اس طرح تدبر اور تفکر کریں، اور اس کے نتیجے میں اعلیٰ حقیقتوں کو دریافت کریں، وہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں مفکر کہے جانے کے مستحق ہیں۔
اس کے برعکس، وہ لوگ جن کی سوچ انسانی حالات میں پھنسی ہوئی ہو، جو انسان کے پیدا کردہ مسائل میں سوچتے ہوں، جن کا ذہن سیاسی حالات اور اخباری رپورٹوں میں الجھا ہوا ہو ۔، ایسے لوگوں کی سوچ وہ سوچ نہیں جس کو قرآن میں تدبر کہا گیا ہے۔
ایسے لوگوں کی تفکیر ہمیشہ ردعمل کی تفکیر ہوتی ہے۔ دونوں قسم کی تفکیر کی پہچان یہ ہے کہ صحیح تفکیر ہمیشہ مثبت تفکیر ہوگی، اس میں کسی کے خلاف نفرت کا شائبہ نہیں پایا جائے گا۔ اس کے برعکس، ردعمل کی تفکیر ہمیشہ منفی تفکیر (negative thinking)ہوتی ہے۔ایسے مفکرین ہمیشہ ظلم اور سازش کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان اشتعال پیدا ہو۔ اور پھر یہ اشتعال بڑھتے بڑھتے متشددانہ ٹکراؤ تک پہنچ جائے۔
سچا مفکراپنی مثبت سوچ کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ منفی حالات میں بھی مثبت بات کہے۔ مثلا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیغمبرانہ مشن کے تیرہویں سال مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ یہ ہجرت ظلم اور تشدد کے درمیان مجبورانہ طور پر ہوئی تھی۔ مگر جب آپ
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 2 میں زندگی کی ایک حقیقت ان الفاظ میںبیان ہوئی ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُونَ (البقرۃ: 155-57)۔ یعنی اور ہم تم کو ضرور آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔
دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے مختلف قسم کی مصیبتیں آتی ہیں۔یہ مصیبتیں بلاسبب نہیں ہوتیں۔ ان کی بہت بڑی حکمت ہے۔ یہ مصیبتیں انسان کو کٹ ٹو سائز (cut to size) بناتی ہیں۔ اور کٹ ٹو سائز ہونا انسان کی اصلاح کا سب سے بڑا راز ہے۔
کٹ ٹو سائز ہونا آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ انسان سے بڑائی کا جذبہ چھین لیتا ہے۔ وہ انسان کے اندر تواضع (modesty) کی صفت پیدا کرتا ہے۔وہ انسان کو ایگوئسٹ (egoist) بننے سے بچاتا ہے۔
کٹ ٹو سائز ہونا انسان کو انسانِ اصلی بناتا ہے۔انسان کو اس کی فطری حالت پر واپس لاتا ہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ اوصاف پیدا ہوجائیں، اس کو ایک کامیاب انسان بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کٹ ٹو سائز ہونے سے پہلے انسان ایک مصنوعی انسان ہوتا ہے۔ کٹ ٹو سائز ہونے کے بعد انسان ایک حقیقی انسان بن جاتا ہے۔اور جو انسان حقیقی انسان بن جائے اس کے لیے فطرت کے قانون کے مطابق ،خیر کےتمام دروازے اس طرح کھل جاتے ہیں کہ کوئی دروازہ اس کے اوپر بند نہیں رہتا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
کچھ لوگوں نےقرآن کے اس چیلنج کو لفظی معنی میں لے لیا۔ انھوں نے قرآن کا لفظی جواب دینے کی کوشش کی۔ مثلا ایرانی ادیب عبداللہ ابن مقفع (وفات:
تاریخ میں بار بار قرآن کی مثل آئڈیالوجی تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس میں مکمل ناکامی ہوئی۔ مثلا خالق کا بدل (alternative) وضع کرنا، قرآن کے بیان کردہ تخلیقی منصوبہ (creation plan)کے مقابلے میں دوسرا منصوبہ وضع کرنا، وحی (revelation)کا بدل وضع کرنا، اخروی جنت کے بجائے دنیوی جنت تعمیر کرنا، کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(
واپس اوپر جائیں
اگر آدمی ایک چیز کے کھونے پر صبر کرلے تو اس کے بعد وہ اس سے زیادہ بڑی چیز پالیتا ہے جس کے کھونے پر اس نے صبر کیا تھا— یہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ آدمی جب صبر کرتا ہے تو اس کا صبر ایک ایسی چیز پر ہوتا ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق پیش آئی تھی، جس میں آدمی کو کوئی اختیار نہیں۔ اس طرح صبر کا مطلب یہ ہے کہ نہ ملنے والی چیز پر محرومی کو بطور واقعہ تسلیم کرنا، اور ملنے والی چیز کے حصول کےلیے اپنی کوشش کو جاری رکھنا۔
صبر (patience) کوئی بے عملی کا واقعہ نہیں۔ بلکہ صبر ایک عظیم عمل ہے۔ صبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو وہ اس پر افسوس کرکے اپنا وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ اس کو بھلادے۔ یہی صابرانہ روش ہے۔ اس صابرانہ روش کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی بقیہ وقت کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہے کہ نئے عزم کے ساتھ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے۔ وہ نئے مواقع (opportunities)کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرے۔ کھونے کے بعد بھی اس کے پاس جو کچھ بچا ہے اس کو منظم انداز میں کام میں لانے کی کوشش کرے۔ وہ گزرے ہوئے ناخوشگوار واقعے کو اپنے لیے ایک تجربہ بنا لے۔ وہ اس سے سبق سیکھے اور آئندہ زیادہ بہتر انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔
پرانا مقولہ ہے کہ صبرتلخ است ولیکن بر شیریں دارد (صبر کڑوا ہے، لیکن اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے)۔ دنیا کا قانون یہ ہے کہ بےصبری ہمیشہ آدمی کے نقصان میں مزید اضافہ کرے۔ اور صبر آدمی کو اس قابل بنائے کہ وہ ایک چانس کو کھونے کے بعد وہ دوسرے چانس کو نہ کھوئے، وہ دوسرے چانس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اس نقصان کی تلافی کرلے۔اس دنیا کے بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ مواقع سے بھری ہوئی ہے۔ ایک موقع کو کھونا، کبھی خاتمہ کے ہم معنی نہیں ہوتا، بلکہ وہ نئے موقع کو دریافت کرکے اس کو استعمال کرنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
Pakistanis in Diaspora
پاکستان 1947 میں بنا۔ اس کے بانیوں کا خواب تھا— پاکستان کو ایک علاحدہ مسلم اسٹیٹ (separate Muslim state) بنانا۔ مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ پاکستان بننے کے بعد وہاں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ پاکستانی مسلمان بڑی تعداد میں پاکستان کو چھوڑ کر باہر کے ملکوں میں جانے لگے۔یہاں تک کہ پاکستانی مسلمانوں کی پاکستان سے باہر ایک بڑی کمیونٹی وجود میں آگئی۔ اس کمیونٹی کو پاکستانیز ان ڈائسپورا (Pakistanis in Diaspora) کہا جاسکتا ہے۔ان کی مجموعی تعداد تقریبا 8 ملین ہے:
There are around eight million Pakistani people living abroad.
یہ کوئی اتفاقی بات نہیں، یہ جو ہوا، یہ اللہ کے منصوبہ کے تحت ہوا۔ پاکستانی قوم ایک زندہ قوم ہے۔ اللہ کو یہ منظور ہوا کہ وہ پاکستانی قوم کو ایک زیادہ بڑے مشن کے لیے استعمال کرے۔ وہ تھاساری دنیا میں پاکستانیوں کوپر امن خدائی سفیر (ambassadors of God) بنانا، پاکستانیو ں کو یہ دعوتی رول دینا کہ وہ اللہ کے پیغام کو ساری دنیا کے لوگوں تک پہنچائیں۔
یہ گویا باعتبار ِ صورت صحابہ کی تاریخ کا ایک اعادہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا۔ تیرہ سال بعد آپ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے۔ ہجرت سے پہلے آپ نے کہا تھا : أمرت بقریة تأکل القرى، یقولون یثرب، وہی المدینة ۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871) یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سادہ طور پر مدینہ کی فضیلت کا بیان نہ تھا۔ یہ دراصل ایک عالمی دعوتی عمل (process) کی پیشین گوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہجرت کے بعد مدینہ اسلام کا دعوتی مرکز بنے گا۔ اس کے بعد یہاں سے ایک منصوبہ بند دعوتی عمل شروع ہوگا جو آخر کار پوری آباد دنیا کا احاطہ کرلے گا۔
اسلام کا دعوتی عمل مکہ میں شروع ہوا، پھر مدینہ اس کا مرکز بنا۔ اس کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئےاہل ایمان کی تعداد بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نبوت کے
اس اجتماع کے موقعہ پر پیغمبر اسلام نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھاکہ اللہ نے مجھ کو سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے ،تم میرے پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچادو۔ پیغمبر اسلام کے اس ارشادسے اصحاب رسول کو عمل کاایک نشانہ (target) مل گیا۔ وہ عرب سے نکل کر مختلف ملکوں میں پھیل گیے۔
اس کی ایک مثال میں نے ایک سفر کے دوران قبرص (Cyprus)میں دیکھی ، جو کہ ایسٹرن میڈیٹیرینن سی میں واقع ہے۔ یہاں سمندر کے ساحلی شہر لارناکہ (Larnaca) کے مقام پر ایک صحابیہ ام حرام بنت ملحان (وفات
حجۃ الوداع کے بعد جو صحابہ عرب سے نکل کر دوسرے ملکوں میں پھیل گیے، وہ گویا صحابہ اِن ڈائسپورا (Sahaba in Diaspora) تھے۔ انھوں نے ہر ملک میں پر امن دعوہ ورک کیا۔ اسی طرح جو پاکستانی مسلمان اس وقت ڈائسپورا میں ہیں، اگر وہ ہر ملک میں پرامن دعوہ ورک کریں تو ان شاء اللہ ان کواللہ کی توفیق سے اس جیسا درجہ مل سکتا ہے جو اسلام کے دور اول میں صحابہ ان ڈائسپورا کے لیے مقدر ہوا تھا۔
موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس اور کمیونی کیشن کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں دعوت کا کام بہت آسان ہوچکا ہے۔ اور وہ ہے پر امن انداز میں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں ڈسٹری بیوٹ کرنا، اور اسی کے ساتھ سپورٹنگ لٹریچر کو لوگوں تک پہنچانا۔
واپس اوپر جائیں
عَنْ عَمْرٓو بْن یَحْیَى، عَنْ أَبِیہ، عَنْ جَدِّہِ قَالَ:کُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَإِذَا خَرَجَ، مَشَیْنَا مَعَہُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِیُّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ: أَخَرَجَ إِلَیْکُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ قُلْنَا: لَا، بَعْدُ. فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُمْنَا إِلَیْہِ جَمِیعًا، فَقَالَ لَہُ أَبُو مُوسَى: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّی رَأَیْتُ فِی الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْکَرْتُہُ وَلَمْ أَرَ - وَالْحَمْدُ لِلَّہِ - إِلَّا خَیْرًا. قَالَ: فَمَا ہُوَ؟ فَقَالَ: إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاہُ. قَالَ: رَأَیْتُ فِی الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا یَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِی کُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ، وَفِی أَیْدِیہِمْ حصًا، فَیَقُولُ: کَبِّرُوا مِائَةً، فَیُکَبِّرُونَ مِائَةً، فَیَقُولُ: ہَلِّلُوا مِائَةً، فَیُہَلِّلُونَ مِائَةً، وَیَقُولُ: سَبِّحُوا مِائَةً، فَیُسَبِّحُونَ مِائَةً، قَالَ: فَمَاذَا قُلْتَ لَہُمْ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَہُمْ شَیْئًا انْتِظَارَ رَأْیِکَ أَوِ انْتظارَ أَمْرِکَ. قَالَ: «أَفَلَا أَمَرْتَہُمْ أَنْ یَعُدُّوا سَیِّئَاتِہِمْ، وَضَمِنْتَ لَہُمْ أَنْ لَا یَضِیعَ مِنْ حَسَنَاتِہِمْ»، ثُمَّ مَضَى وَمَضَیْنَا مَعَہُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْکَ الْحِلَقِ، فَوَقَفَ عَلَیْہِمْ، فَقَالَ: «مَا ہَذَا الَّذِی أَرَاکُمْ تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حصًا نَعُدُّ بِہِ التَّکْبِیرَ وَالتَّہْلِیلَ وَالتَّسْبِیحَ. قَالَ: «فَعُدُّوا سَیِّئَاتِکُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا یَضِیعَ مِنْ حَسَنَاتِکُمْ شَیْءٌ وَیْحَکُمْ یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ ہَلَکَتَکُمْ ہَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِیِّکُمْ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَہَذِہِ ثِیَابُہُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِیَتُہُ لَمْ تُکْسَرْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، إِنَّکُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ ہِیَ أَہْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ. قَالُوا: وَاللَّہِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ. قَالَ: «وَکَمْ مِنْ مُرِیدٍ لِلْخَیْرِ لَنْ یُصِیبَہُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ» قَوْمًا یَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ "، وَایْمُ اللَّہِ مَا أَدْرِی لَعَلَّ أَکْثَرَہُمْ مِنْکُمْ، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْہُمْ. (سنن الدارمی، حدیث نمبر: 210)ترجمہ کے لیے دیکھیں تجدید دین صفحہ نمبر 45-46۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عمل بظاہر خیر ہو تب بھی وہ خیر نہیں ہے۔ کسی عمل کے خیر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ فارم اور اسپرٹ دونوں اعتبار سے سنت رسول کے مطابق ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: یَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِی، مَالِی، إِنَّمَا لَہُ مِنْ مَالِہِ ثَلَاثٌ: مَا أَکَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى، وَمَا سِوَى ذَلِکَ فَہُوَ ذَاہِبٌ، وَتَارِکُہُ لِلنَّاسِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2959) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال۔ حالاں کہ اُس کے مال میں اس کے لئے صرف تین چیزیں ہیں —جو اس نے کھایا اور ختم کردیا یا جو اس نے پہنا اور بوسیدہ کردیا یا جو اس نے صدقہ کیا اور وہ اس کے لئے ذخیرۂ آخرت بن گیا۔ اس کے سوا جو ہے، وہ بہرحال چلاجانے والاہے اور وہ اس کو لوگوں کے لئے چھوڑدینے والا ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے، اوروہ دنیا میںزندگی گزارتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے پاس کچھ سامان حیات ہے جو بظاہر اس کا اپنا ہے۔ وہ کوئی معاشی کام کرتا ہے جس کے ذریعے وہ کچھ مال کماتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ مال میری کمائی ہے۔ مال یا مال کے ذریعے حاصل کی ہوئی چیزوں کے بارے میں اس کا یہ ذہن بنتا ہے کہ یہ تمام چیزیں میری اپنی ہیں،میں ان کا مالک ہوں، مجھے حق ہے کہ میں جس طرح چاہوں ان کو استعمال کروں۔لیکن موت آدمی کے اس خیال کی مکمل تردید کردیتی ہے۔ موت بتاتی ہے کہ آدمی کے پاس کوئی بھی چیز اس کی ذاتی چیز نہیں، اس کی کوئی بھی ملکیت اس کے پاس ہمیشہ ساتھ رہنے والی نہیں۔ موت آدمی کو اس کے مال اور اس کے تمام اسباب سے جدا کردیتی ہے۔ موت کے بعد آدمی اچانک اکیلا ہوجاتا ہے۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جو آدمی اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہ اپنے مال کو یا اپنے اسباب کو اس طرح استعمال کرے گا جو موت کے بعد کی زندگی میں اس کے کام آنے والا ہو۔ اس حقیقت کو جانے بغیر اس کی زندگی دنیا رخی زندگی ہوتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے بعد اس کی زندگی آخرت رخی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ سب سے بڑی حقیقت ہے جو ہر آدمی کو جاننا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ضعیف (
ربط کے بغیر اپنے رب سے ملاقات کا یہ تجربہ بلاشبہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑا تجربہ ہے۔ یہ تجربہ ہر انسان کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے۔براہ راست ربط کے بغیر ملاقات قدیم زمانے میں ایک بعید چیز معلوم ہوتی تھی۔ مگر موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن کی ترقی نے اس معاملے کو انسان کے لیے قابلِ فہم بنادیا ہے۔موجودہ کمیونی کیشن گویا براہ راست ربط کے بغیر ملاقات کا ایک مظاہرہ (demonstration)ہے۔خدا سے انسان کا یہی ربط نفسیات کی سطح پر ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ قدیم زمانہ میں جو پیغمبر آئے ان پر وقت کے ارباب اقتدار نے ظلم کیا۔ اس کو کچھ لوگوں نے سیاسی ظلم کے معنی میں لے لیا اور کہا کہ اصل یہ ہے کہ پیغمبر اپنے وقت کے سیاسی اقتدار پر قبضہ کرکے نیا نظام بنانا چاہتے تھے ۔ یہ ارباب اقتدار کے لئے ایک سیاسی خطرہ تھا اس لئے انھوں نے پیغمبروں پر ظلم کیا۔
اس معاملہ کی یہ تفسیر بالکل بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبروں کے ساتھ جو ظلم کیاگیا وہ مشرکانہ ظلم تھا نہ کہ سیاسی ظلم۔ یہ بات قرآن سے ثابت ہے۔ مثلا قرآن میں کہاگیا ہے : وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِاللَّہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ(
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مذہبی عدم رواداری (religious intolerance) کا کلچر قائم تھا۔ اس بنا پر پیغمبر جب ایک نئے مذہب کی تبلیغ کرتاتومروجہ مذہب کے ذمے دار پیغمبر کے خلاف تشدد کرنے لگتے۔ یہ تشدد تمام تر مذہبی تشدد تھا، اس کا کوئی تعلق سیاست اور حکومت سے نہ تھا۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو پیغمبراسلام کے علاوہ دوسرے تمام پیغمبروں نے صرف پرامن دعوت کا کام کیا ہے۔ کسی نے زمین پر حکومت قائم نہیں کی۔حالاں کہ اگر پیغمبروں کا مشن سیاسی ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ کی مدد سے ان کو زمین پر سیاسی غلبہ حاصل ہو۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ قرآن میں پیغمبروں کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: کَتَبَ اللَّہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی (
واپس اوپر جائیں
اسلام ساتویں صدی عیسوی میں آیا۔ اہل اسلام کی جدو جہد کے نتیجے میں اب دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ روایات میں اس انقلاب کی پیشین گوئی موجود ہے۔ایک روایت کے مطابق پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ہجرة بعد الفتح (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2783)۔ اس حدیث میں ہجرت اور فتح کے الفاظ صرف وقتی معنی میں نہیں ہیں ، بلکہ وہ دور (age) کے معنی میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آئے گا، اب ساتویں صدی کے ماڈل پر کام نہیں ہوگا۔ یعنی اب ہجرت اور جہاد کا ماڈل عملاًغیر متعلق ہوگیا ہے۔ اب وہ حالات بدل چکے ہیں جس میں ہجرت اور قتال پیش آیاتھا۔ اب صرف زمانے کی رعایت کے مطابق دعوت الی اللہ کا پرامن کام کرنا ہوگا۔ بقیہ نتائج اپنے آپ حاصل ہوتے رہیں گے۔
اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ کسریٰ ہلاک ہوگیا اب کوئی کسریٰ نہیں، اور قیصر ہلاک ہوگیا اب کوئی قیصر نہیں(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3120)۔ اس میں بھی کسریٰ اور قیصر کے الفاظ علامتی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہنشاہیت کا دور (age of imperialism)ختم ہوگیا۔ اب دنیا میں دوبارہ شہنشاہیت کا دور آنے والا نہیں۔
اس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام کے بعد دنیا سے بادشاہت اور شہنشاہیت کا دور ختم ہوجائے گا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام اور شہنشاہی نظام کی بنا پردینی تحریک کو حکومتی نظام کی طرف سے ایذا رسانی (persecution) کا معاملہ پیش آتا تھا۔ اب دینی تحریک کے لیے ایسا معاملہ پیش آنے والا نہیں۔ اب دینی تحریک کی منصوبہ بندی خالص غیر سیاسی بنیاد پر ہوگی۔ اب دینی تحریک کو شروع سے آخر تک امن کے حالات میں کام کرنے کا موقع ملے گا نہ کہ تشدد کے حالات میں، اب قیامت تک کسی تحریک کے لیے تشدد کے حا لات پیش آنے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: ألا إنَّ الدنیا ملعونةٌ ملعونٌ ما فیہا، إلا ذکرُ اللہِ وما والاہُ، وعالمٌ، أو متعلمٌ(سنن الترمذی، حدیث نمبر : 2322)۔ دنیا ملعون ہے، اس کے اندر جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یادکے اور وہ چیز جو اللہ سے قریب کرنے والی ہو، اور جاننے والا، اور سیکھنے والا۔
اس حدیث میں ملعون کا مطلب بے قیمت (valueless) ہونا ہے۔ یہ بات آخرت کے مقابلے میں کہی گئی ہے۔ اسلامی تصور کے مطابق اصل اہمیت آخرت کی ہے۔اس نسبت سے دنیا کی کامیابی بھی بے قیمت ہے، اور یہاں کی ناکامی بھی بے قیمت۔ دنیا کی کامیابی اور ناکامی میں حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
دنیا کے کسی واقعے یا کسی تجربے کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ اس کو آخرت کے اعتبار سے جانچا جائے۔جانچنے کے اس معیار کو ایک لفظ میں معرفت کہا جاسکتا ہے۔دنیا میں انسان کے ساتھ جو تجربہ گزرے، وہ خواہ مثبت تجربہ ہو یا منفی تجربہ، وہ اس وقت باقیمت ہے جب کہ وہ انسان کی معرفتِ خدا میں اضافہ کرنے والا ہو۔جو تجربہ معرفت میں اضافہ نہ کرے، اس کی کوئی قیمت نہیں۔
دنیا کا ہر تجربہ اپنے اندر معرفت کا ایک پہلو رکھتا ہے۔آدمی کوچاہئے کہ وہ دنیا کے ہر تجربے میں معرفت کے اس پہلو کو دریافت کرے، وہ مسلسل طور پر اپنے علمِ الٰہی کو بڑھاتا رہے۔دنیا کا ہر واقعہ باعتبارِ حقیقت اس لئے ہوتا ہے کہ وہ انسان کے اندر معرفت کے سفر کو مسلسل طور پر جاری رکھے۔ دنیا کی زندگی کو جانچنے کا معیار یہ نہیں ہے کہ آدمی نے مادی طور پر کیا کھویا اور کیا پایا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں معرفت کا سفر جاری ہے یا نہیں۔اگر آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا بیدار ہو کہ دنیا کے نشیب و فرا ز کے باوجود معرفت کا سفراس کے ذہن میں مثبت طور پر جاری ہے تو ایسا انسان ایک کامیاب انسان ہے۔حدیث میں عالم کا لفظ معرفت کی دریافت کرنے والے کے معنی میں ہے، اور متعلم وہ ہے جو معرفت کی دریافت میں لگا ہوا ہو۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن قلوب بنی آدم کلہا بین إصبعین من أصابع الرحمن، کقلب واحد، یصرّفہ حیث یشاء (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2654)یعنی بنی آدم کے دل سب کے سب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوںکے درمیان ہیں، ایک دل کی طرح، اللہ انسان کے دل کو پھیردیتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔
اس حدیث میں انسانی زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اللہ جب کسی کام کو انجام دینا چاہتا ہے تو وہ انسانوں کے دل میں یا کسی ایک انسان کے دل میںوہ بات ڈال دیتا ہے، جو اس وقت مطلوب ہے۔اس طرح انسان داخلی تحریک کے تحت حرکت میں آجاتا ہے۔ اور پھر وہ کام انجام پاجاتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو محسوس ہو کہ فلاں شخص یا فلاں لوگ اس کے راستے میں رکاوٹ ہیں، تو وہ انسان سے ٹکراؤ نہ کرے، کیوں کہ اصل مسئلہ اللہ کا ہے نہ کہ انسان کا۔ اس کو چاہیے کہ بظاہر انسان کا مسئلہ ہو تب بھی وہ اس کو اللہ سے مانگے، وہ اس کے لیے اللہ سے دعا کرے۔ اگر اللہ چاہے گا تو وہ متعلق انسان کے دل کو پھیر دے گا۔ اور وہ متحرک ہوکر ضروری کام انجام دے دے گا۔
اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ اگر معاملہ بظاہر انسان سے ہو تب بھی اس کو اللہ کا معاملہ سمجھنا چاہیے، اور اس کی تکمیل کے لیے اللہ سے مدد مانگنا چاہیے۔اگر اللہ چاہے گا تو وہ دخل دے کر کام بنادے گا، اور اگر اللہ کی مرضی نہ ہوگی تو کوئی بھی سرگرمی یا ہنگامہ آرائی کام بنانے والی نہیں۔ اللہ کا طریقہ خاموشی کے ساتھ مینج (manage) کرنے کا طریقہ ہے۔ اللہ کا یہ عمل بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن وہ ضرور اپنا عمل کرتا ہے۔ اگر انسان کی دعا اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق ہوتو اللہ اس کو ضرور پوری کرے گا۔ بشرطیکہ انسان اپنے غلط کارروائی کے ذریعے معاملے کو بگاڑ نہ دے۔ اس معاملے میں انسان کو صبر کو ثبوت دینا ہوگا۔ جو کہ قبولیت دعا کی لازمی شرط ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِّنْہُ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ(
ایک انسان اگر کسی بلند مقام پر کھڑا ہو کر اپنے چاروں طرف دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھے اور نہ دکھائی دینے والی چیزوں کو سوچے تو وہ کہہ اٹھے گا کہ خدایا، اس دنیا میں تو نے سب کچھ مجھے بلااستحقاق اور بلا طلب دے دیا۔ یہ سوچ اس کو آخرت کی یاددلائے گی، اور پھر وہ کہہ اٹھے گا خدایا، آخرت میں بھی تو میرے ساتھ اسی طرح رحمت کا معاملہ فرما۔ تو مجھ کو بلاحساب جنت میں داخل کردے۔
انسان کے اندر اگر ایمانی بیداری ہو، اور اس کے اندر اعلی درجے کا ایمانی شعور پیداہوجائے تو اس کو بار بار اس طرح کا تجربہ ہوگا۔ وہ اپنے اندر خالق کو دریافت کرے گا۔ وہ کائنات کی ہرچیز میں رب السموات والأرض کا مشاہدہ کرے گا۔ ہر تجربہ اس کے لیے ربانی تجربہ بن جائے گا۔ انہی ربانی تجربات کے درمیان وہ جنتی شخصیت بنتی ہے جس کو مزکیّٰ شخصیت (purified soul) کہاجاتا ہے۔ جنت کسی کو کسی خارجی چیز پر نہیں ملے گی، بلکہ خود اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کے ذریعہ ملے گی۔ ربانی شخصیت کی تعمیر کا یہ معاملہ پوری زندگی کا معاملہ ہے۔ ایمانی شعور پیدا ہونے کے بعدوہ انسان کے اندر ساری عمر جاری رہتاہے، یہاں تک کہ انسان اپنی عمر پوری کرکے اپنے رب سے جاملتا ہے۔
قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز اللہ کا ذکر ہے۔ ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگلیوں پر یا تسبیح کے دانوں پر اللہ کے لفظ کا ورد کیا جاتا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تصور آدمی کے ذہن میں اس طرح سما جائے کہ وہ انسان کے فکری عمل (thinking process) میں شامل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من تواضع للہ درجة رفعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی علیین، ومن تکبر على اللہ درجة، وضعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی أسفل السافلین (مسند احمد، حدیث نمبر11724)۔یعنی جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی ایک درجہ تو اللہ اس کو ایک درجہ بلند کرتاہے ، یہاں تک کہ اس کو علیین میں پہنچا دیتا ہے۔ اورجس نے اللہ کے مقابلے میں کبر کی روش اختیار کی ایک درجہ تو اس کو اللہ ایک درجہ نیچے کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیتا ہے۔
یہ کو ئی پر اسرار بات نہیں بلکہ وہ اس دنیا کے لیےاللہ کا ایک مقرر کردہ فطرت کا قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص تواضع (modesty) کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کے اندر وہ اوصاف پیدا ہونے لگتے ہیں جو کہ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی بڑا کام انجام دے۔ لیکن بڑا کام انجام دینے کے لیے ہمیشہ اعلی صفات درکار ہوتی ہیں۔ جس کو قرآن میں خُلْق عظیم (
فطرت کے قانون کے مطابق ایسے انسان کو ہر قسم کی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس کبر پسند انسان اللہ کا غیر مطلوب انسان ہے۔ایسے انسان کو اللہ کی مدد حاصل نہیں ہوتی۔ اس کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے۔ اور جس انسان کا ساتھی شیطان بن جائےاس کے لیے خدا کی دنیا میں ذلت اور ناکامی کے سوا کچھ اور مقدرنہیں۔لوگ عام طور پر اپنی ذات میں جیتے ہیں، ایسے لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے۔ بڑا کام کرنے والا وہ شخص ہے جو اپنی ذات کے باہر جینے والا بن گیا ہو، جو دینے والا بن کر جیے، نہ کہ صرف لینے والابن کر۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میرے ملنے والوں میں ایک شخص ہے جو بہت اچھی باتیں کرتا تھا۔ پھر اس کے کہنے پر میں نے اس کو بزنس شروع کرنےکے لیےکچھ رقم دے دی۔ اس کا بزنس کامیاب ہوگیا۔ لیکن اب وہ مجھ سے بات نہیں کرتا۔ رقم کی واپسی کا بھی کوئی ذکر نہیں کرتا۔ میں نے کہا کہ یہ تو عام بات ہے جس کے ساتھ بھی آپ کوئی اچھاسلوک کریں گے وہ بعد کو آپ کے لئے اجنبی جیسا بن جائے گا۔
عطیہ کے بارے میں انسان کا یہ عام مزاج ہے۔ عطیہ پانے سے پہلے وہ عطیہ کو دوسرے کی چیز سمجھتا ہے، مگر عطیہ پانے کے بعدوہ اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لیتاہے۔ انسان کے اس مزاج کی وجہ سے بے اعترافی کا کلچر ہر سماج میں پایا جاتا ہے۔
انسان جب انسان کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے تو وہ اس کا عادی بن جاتا ہے۔ پھر انسان کے ساتھ اس کی ناشکری خالق کے ساتھ ناشکری تک پہنچ جاتی ہے۔ خالق کی طرف سے انسان کو اتنی زیادہ چیزیں ملی ہوئی ہیں کہ ان کی گنتی نہیں ۔ چونکہ یہ چیزیں انسان کو پیدا ہونے کے بعد اپنے آپ مل جاتی ہیں اس لئے اپنے عام مزاج کے مطابق انسان یہ کرتاہے کہ ملی ہوئی چیز کو وہ اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لیتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان چیزوں کو خالق کا عطیہ نہیں سمجھتا بلکہ ان کو اپنی محنت سےحاصل کی ہوئی چیز سمجھتا ہے۔
انسان کا یہی مزاج ہے جس کی وجہ سے وہ انسان کے عطیات کا اعتراف نہیں کرتا۔ اسی طرح وہ خالق کے برتر عطیات کا بھی اعتراف نہیں کرتا۔ وہ انسان کے بارےمیں بھی ناشکری کا معاملہ کرتاہے اور خالق کے معاملہ میں بھی ناشکری کا معاملہ ۔ یہ بے حد خطرناک بات ہے۔ شکر (acknowledgment) سب سے بڑی نیکی ہے۔ یہ نیکی انسان کی نسبت سے بھی مطلوب ہے، اور خدا کی نسبت سے بھی۔ جو آدمی اس نیکی سے خالی ہو، وہ یقینا دوسری نیکیوں سے بھی خالی ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
تحریر کے دو طریقے ہیں— بیانیہ اسلوب، اور تجزیاتی اسلوب۔ بیانیہ اسلوب یہ ہے کہ آدمی ایسی بات کہے جو اس کے اپنے ذہن کی بات ہو، لیکن اس کے ذہن کے باہر اس کاکوئی واقعاتی مصداق موجود نہ ہو۔ مثلا یہ کہنا کہ مغرب میں استشراق نوآبادیاتی حکومتوں کو تقویت پہنچانے کے لیے پیدا ہوا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کے ساتھ ضروری دلیل شامل نہیں۔
تجزیاتی اسلوب یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ مستشرقین کا تصور ہر لحاظ سے مختلف تھا۔ اس کے لحاظ سے انھوں نے چیزوں کا مطالعہ کیا۔ مثلا وہ سمجھتے تھے کہ مذہب ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon)ہے۔ اپنے اس تصور کے مطابق انھوں نے مذہب کی باتوں کی توجیہہ بیان کی۔ یہ تصور مسلم علماء کے تصور کے خلاف تھا۔ مسلم علماء اس پر مشتعل ہوگیے۔ مگر مسلم علماء کے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ مستشرقین کے مذہبی تصور کا تجزیہ دلائل کی زبان میں کرتے۔ اس کے برعکس، وہ اس قسم کی الزامی باتیں کہنے لگے کہ استشراق اہل مغرب کی سازش ہے۔
مسلم اہل قلم نے استشراق کے خلاف بہت سی کتابیں شائع کی ہیں۔ مگر راقم الحروف کے علم کے مطابق یہ کتابیں ردعمل کی مثالیں ہیں، ان میں سے کوئی بھی کتاب غالباً علمی تجزیہ کی مثال نہیں۔
جدید استشراق دراصل سائنٹفک نقطۂ نظر کے تحت پیدا ہوا۔ سائنسی طریقِ مطالعہ میں چیزوں کو معلوم ظواہر کے اعتبار سے آبجیکٹیو (objective) طورپر جانچا جاتا ہے۔ اس طریقِ مطالعہ میں یہ بات خارج از بحث ہے کہ چیزوں کو وحی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس طریقِ بحث نے علماء کو استشراق کے بارے میں منفی سوچ میں مبتلا کردیا ہے۔ مگر منفی سوچ کے تحت استشراق کے خلاف بیانات دینا بے فائدہ ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے استشراق کا تجزیہ علمی حقائق کی بنیاد پر کیا جائے۔ اس زمانے میں تجزیاتی اسلوب کی قیمت ہے، بیانیہ اسلوب کی اس زمانے میں کوئی قیمت نہیں۔ بیانیہ اسلوب میں لکھی ہوئی چیزیں صرف ردی کی ٹوکری میں جگہ پاتی ہیں۔
واپس اوپر جائیں
مشن کا تصور پہلے ایک انسان کےدماغ میں پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ انسان اس کو عملاً شروع کرتاہے، لیکن کسی مشن کی کامیابی اس کے بغیر نہیں ہوتی کہ بہت سے لوگ اس کا ساتھ دیں۔ ان ساتھ دینے والوں کو بلاشرط صاحب مشن کا ساتھ دینا چاہئے۔ اگر ان کا مزاج مشروط ساتھ دینے والا ہو تو وہ پوری طرح مشن میں اپنا حصہ ادا نہیں کرسکیں گے۔ کسی نہ کسی مقام پر وہ کوئی شکایت یاکوئی عذر (excuse)لے کر صاحب مشن کا ساتھ چھوڑ دیںگے۔
بلا شرط صاحب مشن کا ساتھ دینا کوئی شخصیت پرستی (personality cult) کا معاملہ نہیں۔ وہ شعوری ارتقا کا معاملہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ دو انسانوں کی فکری سطح (wavelength) ایک ہوجائے۔ جب ایسا ہوجائے تو انسان ذہنی اعتبار سے اس درجے میں پہنچ جاتا ہے کہ اس کی فکر الگ نہ ہو۔ اس قسم کے افراد جب کسی مشن کے گرد اکٹھاہوں اسی وقت وہ مشن کامیاب ہوتاہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ(
یہ ایک کامل اتحاد کا معاملہ ہے۔ اس قسم کا اتحاد صرف اس وقت پیدا ہوتاہے جب کہ صاحب مشن اور مشن کے ساتھیوں کی فکری سطح پوری طرح ایک ہوگئی ہو۔اس کامل اتحاد کا تعلق میدان جنگ سے بھی ہے اور اس حالت سے بھی ہے جب کہ جنگ نہ ہورہی ہو، بلکہ پر امن انداز میں اسلام کا کام کیا جارہا ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کو ئی بڑا کام ایک شخص نہیں کر سکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے افراد کے درمیان کامل اتحاد ضروری ہے۔ یہ اتحاد خود ایک عظیم عبادت ہے۔ اس عبادت میںکوئی شخص صرف اس وقت پورا اترسکتا ہے، جب کہ وہ شعوری پختگی کے درجے تک پہنچ چکا ہو۔ وہ ایک معاملہ اور دوسرے معاملے کے درمیا ن فرق کرنا جانتا ہو۔
واپس اوپر جائیں
ایک مشہور جماعت کے بانی اپنی ایک کتاب میں دین کا مفہوم بتاتے ہوئےلکھتےہیں: دین کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو زمانۂ حال میں اسٹیٹ کے معنی ہیں، لوگوں کا کسی بالاتر اقتدار کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کرنا ، یہ اسٹیٹ ہے، یہی دین کا مفہوم بھی ہے۔ (مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش، حصۂ سوم)
اس اقتباس کا علمی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں دین کی تشریح بھی درست نہیں، اور اسٹیٹ کی تشریح بھی درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ادبی جملہ ہے، وہ دین اور اسٹیٹ کے بارے میں کوئی علمی بیان نہیں۔
لفظ دین کا مطلب اصلا وہی ہے جس کو مذہب (religion) کہا جاتا ہے۔ دین کا لفظ جب اسلام کے لیے بولا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انسان کے لیے خدا کی وہ ہدایت جو محفوظ حالت میں آج تک موجود ہے۔دین کے لفظ میں اصولی اعتبار سے سیاست کا مفہوم شامل نہیں۔
اسٹیٹ کا مطلب ریاست ہے۔ اسٹیٹ ایک اجتماعی ہیئت ہے۔ علمی اعتبار سے اسٹیٹ کے چار اجزاء ہوتے ہیں— آبادی، رقبہ، اقتدار، حکومت:
population, territory, sovereignty, government
جدید تصور کے مطابق، ریاست ایک مستقل (permanent)چیز ہے، اور حکومت (government) ایک وقتی چیز ۔ جمہوریت کےنظام میں حکومت کسی شخص یا خاندان کی اجارہ داری نہیں، وہ ہر چند سال کے بعد الیکشن کے ذریعے بدلتی رہتی ہے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں حکومت کا تعلق انتظامیہ (administration) سے ہوتا ہے۔بقیہ شعبے اصولا آزادشعبے ہیں۔ مثلا تعلیم اور اقتصادیات، وغیرہ۔انھیں آزاد شعبوں میں دعوت کا کام بھی شامل ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے: عبد اللہ ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ کہ عمر بن خطاب نے مدینہ کی مسجد کے دروازے پر دیکھا کہ ایک شخص ریشم کا کپڑا ( حلة سیراء)بیچ رہا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اس کو خرید لیں، اور اس کو آپ جمعہ کےدن اور وفود کی آمد کے موقع پر پہنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جو لوگ اس طرح کا کپڑا پہنیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے کپڑے آئے، آپ نے اس میں سے ایک کپڑا عمر بن خطاب کو دے دیا۔ عمر نے کہا اے خدا کے رسول یہ آپ مجھ کو پہننے کے لیے دے رہے ہیں۔حالاں کہ اس سے پہلے آپ نے اس طرح کے کپڑے کے بارے میںکہا تھا جو کہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں نے یہ کپڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ تم خود اس کو پہنو۔ تو عمر بن خطاب نے یہ کپڑا اپنے بھا ئی کو پہننے کے لیے دے دیا، جو اس وقت مکہ میں شرک کے مذہب پر تھا، اس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا ( أخا لہ بمکة مشرکا)۔صحیح البخاری، حدیث نمبر
یہاں یہ سوال ہے کہ ریشم کا ایک کپڑا جو مومن کے لیے پہننا درست نہ تھا، وہ مشرک کو کیوں دے دیا گیا۔ اس کا سبب تالیفِ قلب تھا۔یعنی مشرک کے دل کو نرم کرنا۔ چناں چہ کہا جاتا ہے کہ بعد کو وہ مشرک اسلام میں داخل ہوگیا۔ تالیف قلب کا معاملہ حال کے اعتبار سے نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ مستقبل کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ تالیف قلب کے معاملے میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ شخص آج کیسا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر اس سے تالیف قلب کا معاملہ کیا جائے تو کل وہ کیسا ہوسکتا ہے۔ تالیف قلب کا اصول مبنی بر مستقبل اصول ہے، نہ کہ مبنی بر حال اصول۔مزید یہ کہ تالیف قلب کے مقصد کے لیے کسی کو کچھ سامان دیا جائے تو وہ اس کی اپنی پسند کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ دینے والے کی پسند کے مطابق۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو تالیف قلب کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔ مثلا ً ایک مومن کو خود اپنے لیے سادہ کپڑا پسند ہوسکتا ہے، لیکن جب کسی شخص کو تالیف کے لیے کپڑا دینا ہو تو اس کو اچھا کپڑا دیا جائے گا نہ کہ سادہ کپڑا۔
واپس اوپر جائیں
حروف مقطعات قرآن کی
حروفِ مقطعات کا مطلب الگ الگ حروف (disjointed letters)ہیں۔یہ حروف وہی ہیں جو حروفِ تہجی (alphabets) کے لیٹرہوتے ہیں۔ہر زبان کے الفاظ حروفِ تہجی کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ حروفِ مقطعات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کسی ملکوتی زبان یا ملااعلی کی زبان میں نہیں ہے، بلکہ وہ انسانی زبان میں ہے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے وہی اسلوب اختیار کیا جائے گا، جو انسانی زبان کو سمجھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مثلا قرآن میں آیا ہے : وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ (
یہ اسلوب انسانی زبان میں عام ہے۔ مثلا ریلیف ورک تیزی سے ہورہا ہو تو اس کو کہا جاتا ہے کہ ریلیف کا کام جنگی پیمانے پر (on a war footing) انجام دیا جارہا ہے، وغیرہ۔اس طرح کی بہت سی مثالیں قرآن میں ہیں۔ قرآن کی اس قسم کی آیتوں کو اسی وقت صحیح طور پر سمجھا جاسکتا ہے، جب کہ اس کو زبان کے عام اسلوب کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
حروفِ مقطعات کا مطلب اشارے کی زبان میں یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، لیکن وہ انسان کے لیے اترا ہے۔ اس لیے قرآن کا اسلوب وہی ہے جو انسانی کلام کا اسلوب ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ (
واپس اوپر جائیں
انسان کی شخصیت کی تعمیر کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے، صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: کل الناس یغدو فبایع نفسہ فمعتقہا أو موبقہا (صحیح مسلم، حدیث نمبر
اس حدیث میں تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ حقیقت وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ کا عمل (process of conditioning)کہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے خارجی حالات سے اثر قبول کرنا۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی جو اس دنیا میں پیدا ہوتاہے، وہ ایک ماحول کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے صبح و شام اس ماحول کے اندر گزارتا ہے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے ماحول کا اثر قبول کرتا رہتا ہے۔ اس طرح ہر عورت اور ہرمرد کی شخصیت کی تعمیر ایک خارجی ماحول کے اندر ہوتی ہے۔ اس عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اس طرح بن کر تیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماحول کی پیداوار (product of his environment) بن جاتا ہے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے اپنے بارے میں دو قسم کے اختیار (options) ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کواپنے ماحول کے حوالے کردے۔ اس کے قریبی حالات اس کو جیسا بنائیں ویسا ہی وہ بنتا چلا جائے۔ اس کے قریبی حالات اگر اس کے اندر منفی شخصیت کی تعمیرکر رہے ہوں تو وہ اس سے متاثر ہوتا رہے، یہاں تک کہ وہ ایک منفی ذہن والا انسان بن جائے۔ یہ وہ انسان ہے جس نے اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ اس کے برعکس، دوسرا انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو بیدار کرے، وہ اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرے، وہ ذہنی اعتبار سے اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ وہ چیزوں کا آزادانہ تجزیہ کرسکے، وہ غیر متاثر انداز میں چیزوں کی قدر و قیمت متعین کرنا ((evaluationسیکھ لے۔ ایسا آدمی تاثر پذیری سے بچ جائے گا۔ وہ اپنے اندر ایک آزاد شخصیت بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کی تعلیم کے مطابق، موجودہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موت کے بعد آخرت کی دنیا میں پہنچے، جہاں لوگوں کو ان کے عمل کے مطابق یا جنت میں جگہ ملے گی یا جہنم میں۔
اس تعلیم کے مطابق ، جنت اور جہنم دونوں زندہ حقیقتیں ہیں۔ دونوں اسی طرح ایک زندہ واقعہ ہیں، جس طرح تاج محل ایک زندہ واقعہ ہے، یا لال قلعہ ایک زندہ واقعہ ہے۔ اسلام جب لوگوں کے اندر اپنی اسپرٹ کے ساتھ زندہ ہوتو اسلام کو ماننے والا ہر آدمی جنت اور جہنم کو حقیقی واقعہ سمجھتا ہے۔ اس کے اندر جنت کا زندہ اشتیاق موجود ہوتا ہے، اور جہنم کا زندہ خوف۔
مگر جب امت پر زوال کا دور آجائے، اس وقت امت کے افراد میں جنت اور جہنم کا زندہ تصور موجود نہیں رہتا۔ اس کے افرادرسمی عقیدے کے طور پر جنت اور جہنم کو مانتے ہیں، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا کہ جنت ان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا ہوا ہو، اور جہنم کا خوف ان کے سینے میں ایک زلزلہ بن کر سمایا ہوا ہو۔ ان کا حال عملاً وہی ہوجاتا ہے جو حیوانات کا حال ہوتا ہے۔ حیوانات کے اندر نہ جنت کا شوق ہوتا ہے، اور نہ جہنم کا خوف۔ یہی حال زوال یافتہ لوگوں کا ہوجاتا ہے۔ وہ رسمی عقیدے کے طور پر جنت اور جہنم کو مانتے ہیں، لیکن زندہ عقیدے کے طور پر جنت اور جہنم ان کے ذہن کا جزء نہیں ہوتا۔
قرآن میں ہے : وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
قرآن کی اس آیت کا ایک شان نزول تفسیروں میں بیان ہوا ہے۔ اس کی روشنی میں غور کیا جائے تو آیت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض سنی ہوئی خبر پر کبھی رائے قائم کرنا نہیں چاہیے، بلکہ ہمیشہ اس کی تحقیق کرنا چاہیے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں سخت اندیشہ ہے کہ آدمی کسی شدید غلطی کا شکار ہوجائے گا۔ حتی کہ ایسی غلطی بھی جس کی تلافی بعد کو ممکن نہ ہو۔
دوسروں کے بارے میںسنی ہوئی خبر اگر مثبت نوعیت کی ہو تو اس کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر کسی کے بارے میں سنی ہوئی خبر منفی نوعیت کی ہو تو ایسی خبر کو صرف سن کر کبھی نہیں ماننا چاہیے۔منفی نوعیت کی خبر کو سن کر آدمی اگر کوئی منفی رائے بنالے تب بھی غلط ہے۔ اور اگر وہ اس قسم کی سنی ہوئی خبر کی بنا پر کوئی عملی کارروائی کرنے لگے تو اس کا ایسا کرنا سخت گناہ ہوگا۔
کسی واقعے کی صحیح رپورٹنگ کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ واقعے کی صحیح نوعیت کو سمجھ نہیں پاتے اور نادانی کے ساتھ غلط صورت میں اس کودوسروں سے بیان کرنے لگتے ہیں۔
منفی خبر کو سن کر دوسروں کے درمیان اس کا چرچا کرنا، جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ایسا آدمی اپنے آپ کو اس رسک (risk) میں مبتلا کرتا ہے کہ اس کو آخرت میں مقعد صدق (seat of truth) پر بیٹھنے کی جگہ نہ ملے،وہ مقعد کذب کے سوا کہیں اور اپنے لیے جگہ نہ پائے۔
واپس اوپر جائیں
سوانح عمری (biography)لکھنا ایک مشکل آرٹ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں آدمی یاتو اپنی سوانح عمری خود لکھتا ہے جسے خود نوشت سوانح عمری (autobiography) کہا جاتا ہے۔ جیسے برٹش فلاسفر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell) کی خود نوشت سوانح عمری جو کہ پہلی بار 1967 میں شائع ہوئی۔ یا پھر کسی کی سوانح عمری ایسا شخص لکھتا ہے جو خود اعلی درجہ کی علمی صلاحیت رکھتا ہو۔ مثلا برٹش رائٹر سیموئل جانسن (Samuel Johnson) کی سوانح عمری جس کو جیمس باسویل (James Boswell) نے لکھا جو مسلمہ طور پر اعلی درجہ کی علمی صلاحیت رکھتا تھا۔یہ سوانح عمری پہلی بار 1791 میں چھپی۔
غیر ترقی یافتہ ملکوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ غیر ترقی یافتہ ملکوں میں اب تک چیز وں کا اسٹینڈرڈائزیشن (standardization) نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح یہاں سوانح عمری کا بھی کوئی اسٹینڈرڈ قائم نہیں ہوا ۔ کوئی بھی شخص کسی کی سوانح عمری لکھ کر چھاپ دیتا ہے جس کا کوئی علمی درجہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کی غیر معیاری سوانح عمری لکھنا غیر ترقی یافتہ ملکوں میں عام ہے جس کا عملا کوئی فائدہ نہیں۔
غیر معیاری سوانح عمری لکھنا اس شخص پر ظلم ہے جس شخص کے نام پر یہ سوانح عمری لکھی اور چھاپی گئی ہے۔ ایسی ہر سوانح عمری صاحب سوانح کا ناقص تعارف ہے۔ اس طرح کا ناقص تعارف کرنا اتنا ہی غلط ہے، جتنا کہ کسی سے بے بنیاد بات منسوب کرنا۔ جو لوگ ایسی سوانح عمری لکھیں وہ یہ رسک (risk) لیتے ہیں کہ علم کی عدالت میں ان سے پوچھا جائے کہ جو کام تمھارے کرنے کا نہیں تھا وہ کام تم نے کیوںانجام دیا۔
لوگ اس بات کو جانتے ہیںکہ اگر ایک شخص کو نماز کے مسائل معلوم نہیں تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ نمازِ باجماعت کی امامت کرے۔ لیکن لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ جس شخص کو تصنیف کے مسائل معلوم نہیں اس کو کسی علمی موضوع پر ہرگز تصنیف نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن (الملک: 3) میں چیلنج کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی تخلیق میں کوئی فطور (flaw)نہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی کوشش کرے، وہ کائنات میں کسی قسم کے فطور کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ یہ در اصل تخلیق کے حوالے سے خالق کی صفت کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا خالق آخری حد تک ایک کامل ہستی ہے۔
خدا جب کامل ہے تو اس کا عطیہ کبھی غیر کامل نہیں ہوسکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ خدا انسان کو عارضی زندگی دے لیکن ابدی زندگی سے اس کو محروم رکھے۔ وہ انسان کو خواہش (desire) دے، لیکن وہ اس کو فل فلِمینٹ (fulfillment)سے محروم رکھے۔ وہ انسان کو غم دے لیکن وہ اس کو خوشی سے محروم رکھے۔ وہ انسان کو نقصان کا تجربہ کرائے لیکن وہ اس کو یافت کے تجربے سے محروم رکھے۔وہ انسان کو معیار پسند (idealist) بنائے لیکن آئڈیل ورلڈ (ideal world) سےوہ اس کو محروم رکھے۔ وہ انسان کو مستقبل بیں بنائے لیکن وہ اس کو مستقبل سے محروم رکھے۔
تخلیق میں اس قسم کا فرق ہونا، خدا کی کاملیت کے خلاف ہے۔ اور یہ بلاشبہ ناممکن ہے کہ خدا کی کاملیت میںکوئی غیر کامل پہلو موجود ہو۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے لیے خدا کا عطیہ کبھی غیر کامل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے استحقاق (deservation) میں کوئی کمی ہو تو خدا اپنی رحمت سے اس کو پورا کردیتا ہے۔ وہ انسان کی عملی کوتاہی کی تلافی اپنی رحمت کے ذریعے کردیتا ہے۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے : أنا عند ظن عبدی بی (صحیح البخاری، حدیث نمبر7405) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل کی کمی کو دیکھ کر مایوس نہ ہو، بلکہ وہ خدا کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے دعا کرے کہ اے خدا تو میرے ساتھ میرے عمل کے مطابق فیصلہ نہ فرما، بلکہ تومیرے ساتھ اپنی رحمت کے مطابق فیصلہ فرما۔
واپس اوپر جائیں
سادگی (simplicity) کی اہمیت دین میں بہت زیادہ ہے۔ سادگی کا ضد تکلف ہے۔ جہاں سادگی ہوگی وہاں فرشتے ہوں گے۔ فرشتوں کی موجودگی سے وہاں روحانیت کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ وہاں غیر ضروری باتیں نہیں ہوں گی۔ وہاں کسی قسم کی منفی سوچ (negative thinking) نہیں پائی جائے گی۔ وہاں لوگوں کے لیے اللہ کے معاملے میں خشیت کی اسپرٹ ہوگی، اور انسان کے معاملے میں خیرخواہی کی اسپرٹ۔
اس کے برعکس طریقہ تکلف کا طریقہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں : نہینا عن التکلف (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7293) ۔ یعنی ہم کو تکلف سے منع کیا گیاہے۔ تکلف کا مطلب غیر ضروری اہتمام ہے۔ سادگی یہ ہے کہ چیزوں میں بقدرِ ضرورت پر اکتفا کیا جائے۔ اس کے برعکس، تکلف یہ ہے کہ ضرورت کے ساتھ ان چیزوں کو بھی شامل کیا جائے جو انسان کی حقیقی ضرورت سےزیادہ ہیں۔جہاں سادگی ہوگی وہاں بناوٹ نہ ہوگی، اور جہاں بناوٹ ہوگی وہاں سادگی نہیں ہو گی۔سادگی اور تکلف دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
تکلف کا ماحول روحانیت کا قاتل ہے۔ جہاں تکلف ہوگا وہاں شیطان کو گھسنے کا موقع مل جائے گا۔ شیطان کے اثر سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بدل جائے گا۔ لوگ ان چیزوں کے بارے میں حساس (sensitive) ہوجائیں گے، جن کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ لوگوں کی بات چیت میں سنجیدگی نہیں پائی جائے گی۔ لوگوں کے اندر شکر اور اعتراف کا ماحول نہ ہوگا۔ لوگ اہم اور غیر اہم کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہوجائیں گے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے اندر خدا اور آخرت کا مزاج باقی نہ رہے گا۔ فارم کے اعتبار سے ان کے یہاں بظاہر سب کچھ ہوگا، لیکن اسپرٹ کے اعتبار سے جو چیزیں مطلوب ہیں ، وہ ان کے یہاں مفقود ہوجائیں گی۔سادگی انسان کو خدا سے قریب کرتی ہے، اور تکلف انسان کو خدا سے دور کردیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
آبسیشن (obsession) کا لفظ عام طورپر negative معنی میں لیا جاتاہے۔ مثلا کوئی شخص اپنے فخر کے obsession میں جینے لگے، وغیرہ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ obsession کی دو قسمیں ہیں— wrong obsession اور right obsession۔ جس طرح ایسا ہوتا ہے کہ غلط obsession آدمی کے اوپر چھا جاتا ہے اور وہ right thinking کے قابل نہیں رہتا، اِسی طرح right obsession بھی صحیح موقف کو متعین کرنے کے سلسلہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
right obsession کی ایک مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی پچھلی ہزار سال کی تاریخ میں ایک بات بہت بار دہرائی گئی کہ قرآن وسنت کا اتباع کرو، قرآن وسنت کا اتباع کرو۔ اس طرح قرآن وسنت کا اتباع مسلمانوں کے لیے ایک obsession بن گیا۔ بظاہر یہ ایک right obsession تھا۔ مگر ہزار سال کے دوران ٹریڈیشنل فریم ورک کی بنا پر وہ لوگوں کو right نظر آتا رہا۔ مگر 20 ویں صدی میں جب زمانہ بدلا اور سائنٹفک فریم ورک کا دور آگیا تو مسلم ذہنوں کا یہ آبسیشن دور جدید میں عملاً غیرمتعلق (irrelevant) ہوگیا-اس دور میں جو مسلم رہنما اٹھےوہ بدستور قرآن وسنت کی اتباع پر زور دیتے رہے، لیکن وہ یہ سمجھ نہ سکے کہ اب نئے فریم ورک کا زمانہ آگیا ہے- اب قرآن وسنت کے ساتھ اجتہاد کا اضافہ کرنا ہوگا تب آدمی قدیم آبسیشن سے باہر آکر صحیح انداز میں سوچنے کے قابل ہوگا۔
روایتی طرز فکر کے مطابق انسان صرف ایک ڈائی کاٹومی (dichotomy)میں سوچتا تھا- صحیح اور غلط، right or wrong - مگر موجودہ زمانہ میں یہ ڈائی کاٹومی بدل گئی ہے- اب ایک تیسری چیز وجود میں آئی، وہ تھی حالات کے اعتبار سے غیر متعلق (irrelevant) ہونا۔ قرآن وسنت کی ڈائی کاٹومی بذات خود صحیح تھی۔ مگر یہ آبسیشن موجودہ زمانہ میںغیر متعلق (irrelevant) بن گیا۔ کیوں کہ اب نئے حالات میں قرآن وسنت کا ٹریڈیشنل تصور ناکافی ہوگیا۔ اب ضروری تھا کہ قرآن وسنت میں اجتہاد کا اضافہ کرکے اسلام کو دوبارہ نئے حالات کے مطابق متعلق (relevant) بنایا جائے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں بعض اسباب سے عالمی سطح پر اسلام کی امیج (تصویر) یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ یہ بلاشبہ غلط ہے۔ اس بنا پر اس وقت پہلا کام یہ ہے کہ اسلام کی امیج کو درست کیا جائے۔ امیج کو درست کرنے کا یہ کام موثر طور پر لٹریچر کے ذریعے ہوسکتا ہے۔اس مقصد کے لیے ادارہ الرسالہ نے مختلف مضامین اور کتابیں شائع کی ہیں۔ ان میں سے چار کتابیں یہ ہیں:
1. Quranic Wisdom. (pp.
2. Islam and World Peace. (pp. 200)
3. The Prophet of Peace. (pp.
4. The Age of Peace. (pp.
ان کتابوں میں سے پہلی کتاب ، قرآنک وزڈم یہ بتاتی ہے کہ قرآن تمام تر ایک امن کی کتاب ہے۔ دوسری کتاب، اسلام اینڈ ورلڈ پیس یہ بتاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات تمام تر امن پر مبنی ہیں۔ تیسری کتاب، دی پرافٹ آف پیس یہ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک امن کے پیغمبر تھے۔ چوتھی کتاب، دی ایج آف پیس یہ بتاتی ہے کہ موجودہ زمانہ مکمل طور پر امن کا زمانہ ہے۔ اب جنگ کیے بغیر صرف پرامن طریقِ کار کے ذریعے ہر مقصد کامیابی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اب آپ کو یہ کرنا ہے کہ ان کتابوں کو ساری دنیا میں فلڈ (flood) کردیں۔ ان کتابوں کو اس طرح پھیلائیں کہ وہ تمام لوگوں تک پہنچ جائیں۔ ان کتابوں کو اس طرح پھیلانا اسلامی دعوت کے کام کے لیے ان شاءاللہ ایک فتح باب ثابت ہوگا۔
جو لوگ ان کتابوں کو عالمی سطح پر پھیلانا چاہیں، ان کو ان شاء اللہ ادارہ الرسالہ کی طرف سے ضروری مدد دی جائے گی۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ خط یا ٹیلیفون کے ذریعے ادارہ سے ربط قائم کریں۔ یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے، اس میں ہر شخص کو اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لینا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
الرسالہ مئی 2015 کے صفحہ
مطلب یہ ہے کہ انسان انفراسٹرکچر کی رعایت کے ساتھ اپنی آزادی کا استعمال بنا روک ٹوک کرتا رہے گا اور کرسکتا ہے۔ اس میں اللہ کا کوئی active رول نہیں ہے، یعنی انسان کی دنیوی زندگی میں اللہ کی کوئی مداخلت نہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہماری فلاں ضرورت پوری کردے، ہمیں تندرست کردے، ہمارے قرضے ادا کروادے، وغیرہ۔ آپ کے مطابق اس قسم کی دعا کا کوئی مطلب نہیں، کیوں کہ اللہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔ بس انفراسٹرکچر کی رعایت کے ساتھ جو چاہیں آپ کرسکتے ہیں۔ اللہ کا رول قیامت کے بعد شروع ہوگا۔ کیا آپ کے مضمون کا یہی مطلب ہے۔ (ایڈووکیٹ مرزا ابرار بیگ، بھوپال)
جواب
الرسالہ کے مضمون میں جو بات کہی گئی ہے وہ عموم کے اعتبار سے ہے۔ عموم کے اعتبار سے اس دنیا میں انسان کا معاملہ یہی ہے۔ لیکن دعا کا معاملہ ایک استثنائی معاملہ ہے۔ دعا اگر اللہ کے نزدیک قابل قبول ہو تو اللہ ایسا کرتا ہے کہ وہ مداخلت کرکے انسان کی دعاپوری کردے۔
یہ بات ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں آئی ہے: لاَ یَرُدُّ القَضَاءَ إِلاَّ الدُّعَاءُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2139)یعنی قضا کو لوٹانے والی کوئی چیز نہیں سوادعا کے۔ اس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی دعا اگر اللہ کے نزدیک قابل قبول دعا ہو تو اللہ ایسا کرتا ہے کہ وہ حالات میں مداخلت کرکے اس کو دعا کرنے والے انسان کے لیے موافق بنادے۔
واپس اوپر جائیں
1- 21 جون 2015 کو ڈاکٹر حافظ منیر الدین احمد مقیم حال لندن صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ انھوں نے دعوت اور قرآن کی اشاعت کے متعلق گفتگو کی۔ موصوف نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب تعبیر کی غلطی کے متعلق اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا، اور کتاب کے مضمون سے مکمل اتفاق کا اظہار کیا۔اور کہا کہ مغرب کے مسلم نوجوانوں کے درمیان الرسالہ مشن کو فروغ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
2- برٹش نیوزپیپرفائنانشیل ٹائمس کی ،بیورو چیف جیوتسنا سنگھ نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو صدر اسلامی مرکز کے دفتر C-29 میں ہوا۔انٹرویو کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
7- سی پی ایس کی کولکاتا ٹیم نے للت میموریل ہوسٹل آف آر جی کار میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل کے ایم بی بی ایس کے طلباء کے ساتھ ایک انٹر ایکٹیو سیشن کا انعقاد کیا۔ یہ پروگرام عید ملن کے موقع پر آرگنائز کیا گیا تھا۔اس پروگرام میں ایک سو سے زیادہ طلبا نے شرکت کی۔]تمام شرکاء کو ترجمہ قرآن اور اسپرٹ آف اسلام بطور اسپریچول گفٹ دیئے گئے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان دوسرے دعوتی لٹریچر بھی تقسیم کیے گیے۔اس موقع پرجاتیہ ساہتیہ پرکاشن ٹرسٹ کے فاؤنڈر سکریٹری مسٹر شکتی موئے داس (شاعر، صحافی اور شنکری اسکالر) بھی موجود تھے- انھوںنے اس موقع پر لوگوں سے خطاب کیا۔
9- ذیل میں ایک دعوتی تاثر نقل کیا جارہا ہے:
I am writing to you to inform you that I have received the copy of the Quran that you had sent for me. Thank you so much for this wonderful gift. It helps me to understand the true meaning of the word of God. I love Hazrat Mawlana Wahiduddin Khan. I have watched his videos on the internet. I know he is a man of God. I always pray to God to give him more knowledge and wisdom to convey the word of God to mankind. I want to be one of his followers. (Ruben J. Barcala, The Philippines)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.