تاریخ ساز قربانی
جدید اثری تحقیقات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش 2160 ق م میں ہوئی۔ 175 سال کی عمر پاکر آپ نے 1985 ق م میںانتقال فرمایا۔ آپ دریائے فرات کے کنارے واقع قدیم شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ اس علاقہ کو پرانے زمانے میں بابل کہاجاتا تھا، اب اس کو عراق کہتےہیں۔
حضرت ابراہیم کی قوم سورج، چاند اور ستاروں کو پوجتی تھی۔ چنانچہ اس نے اس قسم کے تقریباً 5 ہزار خدا بنا رکھے تھے۔ ان میں سورج اور چاند سب سے بڑے تھے مگر حضرت ابراہیم کو اپنی قوم کے دین سے رغبت نہ ہوسکی۔ انسانی بستیوں کے بگڑے ہوئے ماحول میں اپنے لئے کشش نہ پاکر آپ بستی سے باہر نکل جاتے اور تنہائیوں میں زمین و آسمان کےنظام پر غور کرتے۔ ماحول کے فکری دباؤ سے آزاد ہو کر جب آپ سوچتے تو آپ پر نئی حقیقتوں کے دروازے کھلتے ہوئے نظر آتے۔ آپ آسمان میں یہ منظر دیکھتے کہ چاند چمکتا ہےاور پھر ماند پڑ جاتا ہے۔ ستارے نکلتے ہیں اور پھر ڈوب جاتے ہیں۔ سورج روشن ہوتاہے اور پھر رات کی تاریکی میں چھپ جاتاہے۔ ان واقعات پر غور کرنے کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ چیزیں جو عروج وزوال کے قانون میں بندھی ہوئی ہیں وہ خدا نہیں ہوسکتیں۔ خدا تو وہی ہوسکتاہے جو عروج وزوال کی حد بندیوں سے اوپر ہو۔
یہ آپ کی ایثار وقربانی سے بھری ہوئی زندگی میں پہلا ’’ایثار تھا۔ جوانی کی عمر میں آدمی تفریحات میں رہنا پسند کرتا ہے مگر آپ نے خاموش تنہائیوں کو اپنا دوست بنایا۔ اس زمانہ کو آدمی بے فکری میں گزار دیتاہے مگر اس کو آپ نے سنجیدہ سوچ بچار کی بے قراری کے حوالے کردیا۔ اس عمر کو پہنچ کر آدمی مادی لذتوں اور دنیوی ترقیوں کی طرف دوڑتا ہے مگر آپ نے اپنی بہترین گھڑیوں کو حقیقت کی تلاش میں لگا دیا۔ آدمی کے لئے سب سے آسان طریقہ یہ ہوتاہے کہ اپنے آباء واجداد کے مذہب پر چل پڑے مگر آپ نے ایک انقلابی انسان کی طرح رواج کو چھوڑ کر سچائی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’جو ہورہا ہے کےمقابلہ میں آپ نے ’’جو ہونا چاہئے کو ترجیح دی— یہ بہت بڑا نفسیاتی ایثار تھا۔ ماحول کے خلاف کسی سچائی کو اختیار کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتاہے کہ آدمی اس کے سوا سب کچھ چھوڑنے پر اپنے کو راضی کرلے۔ جب آپ نے یہ فیصلہ کیا تو اللہ نے اس کو اس طرح قبول فرمایا کہ آپ پر سچائی کی معرفت کےدروازے کھول دئے اور آپ کو اپنی پیغمبری کے لئے چن لیا۔ یہ خدائی کام آپ کے سپرد ہوا کہ آپ اپنے وقت کے انسانوں کو اصل حقیقت سے آگاہ کردیں۔
اس کے بعد آپ کے ایثار کا دوسرا شدید ترین دور شروع ہوتا ہے۔ آپ کےزمانہ کا حکمراں نمرود (ارنمو) خدائی بادشاہ بن کر لوگوں کے اوپر حکومت کرتا تھا۔ اس زمانہ کے دوسرے بادشاہوں کی طرح نمرود نے عوام میں یہ عقیدہ بٹھا رکھا تھا کہ اس کو حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل ہے۔ وہ کہتا تھا کہ سورج سب سے بڑا معبود ہے اور نمرود کا خاندان اس معبود کا دنیوی مظہر ہے۔ سورج جس طرح ’’آسمانوں پر‘‘ حکومت کررہا ہے اسی طرح سورج کی اولاد ہونے کی وجہ سے اس کو یہ حق ہے کہ وہ زمین پر بسنے والوں کا حاکم بنے۔
اس اعتبار سے سورج چاند کی پرستش، اس زمانہ میں محض ایک مذہبی عقیدہ نہ تھی بلکہ وہ اس وقت کی سیاست کی اعتقادی بنیاد بھی تھی۔ موجودہ زمانہ کی سیاست کی نظریاتی بنیاد عوامی حاکمیت ہے، اُس زمانہ کی سیاست کی نظریاتی بنیاد خدائی حق حکمرانی تھا اور یہ خدائی حق حکمرانی اس شاہی خاندان کے لئے مخصوص سمجھا جاتا تھا جو مفروضہ معبود کی نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ حضرت ابراہیم کا گھرانا اس نظام میں خاص اہمیت رکھتا تھا کیوں کہ آپ کا باپ آذر (Terah) اس زمانہ کے بت سازی کے ’’کارخانہ‘‘ کا مالک تھا اور شاہی بت خانہ میںافسر اعلی کادرجہ رکھتا تھا۔ وقت کے سیاسی نظام میں اس کو بہت اونچی سیاسی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا عہدہ اس زمانہ کے لحاظ سے تقریباً وہی تھا جو آج کل کسی ایسی سیاسی پارٹی کے صدر کا ہوتا ہے جو کسی ملک میں حکمراں پارٹی کی حیثیت رکھتی ہو۔
ان حالات میں حضرت ابراہیم کے لئے بنا بنایا کامیابی کا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کی جگہ لیں، وہ قائم شدہ نظام کا ساتھ دے کر اس میں اونچا مقام حاصل کرلیں۔ مگر آپ نے دوبارہ ایثار وقربانی کے راستہ پر چلنے کافیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنے باپ آزر سے صاف لفظوں میں کہا: کیا تم ستاروں کو خدا مانتے ہو اور ان کی شکلیں بنا کر ان کو پوجتے ہو۔ یہ ایک کھلی ہوئی گمراہی ہے جس میں مَیں تم کو اور تمھاری قوم کو دیکھ رہا ہوں ( 6:74 )۔
حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کے ستارہ پرستی کے نظام سے اپنے باپ کی طرح موافقت نہیں کی بلکہ وہ اس کے خلاف داعی اور مصلح بن کر کھڑے ہوگئے ۔ جس نظام میں اعلی ترین عہدہ ان کا انتظار کررہا تھا وہ خود اس نظام کو بدلنے کے علم بردار بن گئے۔ انھوں نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ناحق کو مان کر اس کے ڈھانچے میں عزت اور ترقی کے خواب دیکھیں بلکہ ناحق کی تردید اور حق کا اعلان کرنے کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گھر سے نکال دئے گئے۔ قوم میں حقیر سمجھے جانے لگے۔ خود بادشاہ وقت بھی آپ کا دشمن بن گیا۔ کیوں کہ آپ کی تحریک، اس وقت کے حالات میں بادشاہ کو اس کی سیاسی زمین سے محروم کرنے کے ہم معنی تھی۔
چلتے ہوئے نظام سے بغاوت ہمیشہ اس قیمت پر ہوتی ہے کہ اس نظام کے اندر آدمی ہر قسم کے مواقع سے محروم ہوجائے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم کے اس فیصلہ نے آپ کی پوری زندگی کو ایثار وقربانی کی زندگی بنادیا۔آپ گھر سے بے گھر کئے گئے۔ خاندانی جائداد میں آپ کا کوئی حصہ نہ رہا۔ باپ کی جانشینی کے لئے آپ نا اہل قرار پائے۔ وقت کے سماج میں آپ کی حیثیت ایک اجنبی انسان کی ہوگئی۔ اُر کی تقریباً تین لاکھ کی آبادی میں کوئی آپ کا ساتھی نہ رہا۔ وقت کی حکومت آپ کو خطرہ کی نظر سے دیکھنے لگی- کیونکہ آپ اس کے پھیلائے ہوئے اِس توہماتی عقیدہ کی تردید کرتے تھے کہ سورج چاند خدائی ہستیاں ہیں اور اُن کی طرف سے کسی کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ زمین پر لوگوں کا بادشاہ بن جائے۔
حضرت ابراہیم نے پرسکون زندگی کے اوپر مصیبت کی زندگی کو ترجیح دی۔ انھوں نے عوام کے درمیان مقبولیت کے مقابلہ میں عوام کے درمیان اجنبی بن جانے کو پسندکرلیا۔ وہ عہدہ اور جائداد کو چھوڑ کر خالی ہاتھ ہوجانے پر قانع ہوگئے۔ بادشاہ وقت کے دربار میں معزز کرسی پر بیٹھنے کے بجائے انھوں نے یہ خطرہ مول لیا کہ بادشاہ کی نظر میں وہ معتوب ہوجائیں اور حکومت کی طرف سے ان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ قوم کے اندر بے عزت کئے گئے۔ پھر آپ کو آگ میں ڈال دیاگیا جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ اس کے بعد آپ کو مجبور کیا گیاکہ آپ عراق کو چھوڑ دیں اور ملک کے باہر چلے جائیں۔
یہاں سے آپ کی زندگی میں ایثار وقربانی کا ایک اور شدید تر مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ ملک کے معزز ترین خاندان کا ایک فرد اس طرح بے سروسامانی کی حالت میں اپنے وطن سے نکلاکہ اس کے ساتھ صرف اس کی بیوی سارہ تھی اور اس کا بھتیجا لوط۔ تین آدمیوں کا یہ مختصر قافلہ خانہ بدوشوں کی طرح دریائے فرات کے کنارےکنارے سفر کرتاہوا حاران پہنچا۔ پھر بحر ابیض کے ساحلی علاقوں سے گزرتا ہوا شام اور فلسطین اور مصر تک چلا گیا- مگر ان مقامات کے لوگ بھی اسی قسم کے غیر خدائی معبودوں کو ماننے والے تھے جن کو نہ ماننے کے جرم میں آپ کو اپنے وطن سے نکلنا پڑا- آخر اللہ کی طرف سےآپ کو یہ حکم ہوا کہ تم حجاز کے بے آب وگیاہ علاقہ میں جاؤ۔ وہاں پتھروں اور خشک پہاڑوں کے درمیان خدا کا ایک گھر بناؤ۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم جب مکہ آئے تو اس وقت وہاں نہ کوئی آدمی تھا اور نہ پانی (لیس یومئذ بمکة احد ولیس بہا ماء۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر:3364) وقت کے انسانوں نے خدا کو چھوڑ کر خود اپنے بنائے ہوئے معبودوں کی پرستش شروع کردی تھی۔ تاہم پتھر اور پہاڑ اب بھی اپنی اصل فطری حالت پر باقی تھے۔ اس فطرت کے ماحول میں آپ کو خدا کا گھر بنانے کا حکم ہوا تاکہ کوئی بندہ جو خالص خدا کی عبادت کرنا چاہے وہ یہاں آکر خدا کی عبادت کرے۔ اب حضرت ابراہیم بحر قلزم کے ساحلی علاقوں سے گزرتے ہوئے موجودہ مکہ کے مقام پر پہنچے اور یہاں بیت اللہ کی تعمیر کی۔ وہ شخص جو عزت اور خوش حالی کی گود میں پیدا ہوا تھا اُس نے حق کی خاطر تنہائی، مسافرت اور تنگ ودشوار زندگی کو اپنے لئے اختیار کرلیا۔
حضرت ابراہیم 75 سال کی عمر میں عراق سے نکلے تھے۔ 10 سال کی مسافرانہ زندگی کے بعد 2074 ق م میں آپ کے یہاں ایک لڑکا پیداہوا جس کا نام آپ نے اسماعیل رکھا (اسماعیل کے معنی سمیع اللہ کے ہیں) اس وقت آپ کی عمر 86 سال تھی۔ بڑھاپے کی اولاد یوں بھی آدمی کو عزیز ہوتی ہے۔ اور آپ کا حال تو یہ تھا کہ تمام دوستوں اور رشتہ داروں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور اب آپ تمام تر اپنے بیوی بچے کے سہارے پر رہ گئے ـتھے۔ ایسی حالت میں ہونہار لڑکا آپ کو کتنا زیادہ محبوب ہوگا۔ مگر بیٹا جب بڑا ہوا اور آپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو ایثار وقربانی کا ایک اورکڑا امتحان سامنے آگیا۔ خدا کی طرف سے حکم ہوا کہ اپنے آخری سہارے سے بھی دست بردار ہوجاؤ، اپنے بیٹے کو ہماری راہ میں قربان کردو۔ تورات کے بیان کے مطابق جب قربانی کا حکم ہواتو اس وقت آپ کے فرزند کی عمر 13 سال تھی۔
حضرت ابراہیم سوسال کی عمر کو پہنچ گئے تھے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ خواب کو عام طورپر ایک تمثیلی چیز سمجھا جاتاہے۔ آپ اس کو کسی تعبیری مفہوم میں لے سکتے تھے۔ مگر یہ حضرت ابراہیم کے ایثار وقربانی کے جذبہ کی انتہا تھی کہ آپ نے خواب کی کوئی تاویل نہ کی۔ آپ اس خوا ب کو اس کی اصلی صورت میں زیر عمل لانے کے لئے تیار ہوگئے- مَروہ پہاڑی کے مقام پر تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ پیش آیا جس کو دیکھنے کے لئے زمین وآسمان رک گئے۔ بوڑھا باپ اپنے محبوب بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہا تھا۔ تاہم اللہ تعالی نے عین وقت پر مداخلت کرکے حضرت اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچا لیا- آسمان سے آواز آئی کہ بس تم نے تسلیم ووفاداری کا آخری ثبوت دے دیا۔ بیٹے کے بدلے میں اللہ نے آپ کی طرف سے مینڈھے کی قربانی قبول کرلی۔ اس کے بعد یہ طریقہ مستقل طورپر تمام خدا پرستوں کے لئے مقرر کردیاگیا۔ حکم ہوا کہ آدمی اپنی قربانی کے علامتی فدیہ کے طورپر ہر سال انھیں تاریخوں میں جانور ذبح کرے جن تاریخوں میں حضرت ابراہیم خدا کےحکم کی تعمیل میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔
حضرت ابراہیم کو جو خواب دکھایا گیا اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ آپ اپنے عزیز بیٹے کو دعوت توحید کے مرکز (بیت اللہ) کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ اسی غرض سے حکم ہوا تھا کہ اسماعیل اور ان کی والدہ کو لے جاکر مکہ کی خشک اور سنسان زمین پر بسا دو۔ مگر اس بات کو چھری سے ذبح کرنے کی صورت میں ممثّل کیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ دین کی خدمت کوئی معمولی چیز نہیں ہے، یہ اپنےآپ کو جیتے جی ذبح کرنا ہے۔ ’’ذبح‘‘ ایثار وقربانی کی آخری انتہا ہے اور ایثار وقربانی کی آخری انتہا پر پہنچ کر ہی آدمی اس قابل ہوتاہے کہ وہ خدا کے دین کی خدمت کرسکے۔
حضرت ابراہیم کا ایثار صرف یہ نہ تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کو خدا کی راہ میں قربان کردیا- بیٹے کی قربانی تو ایثار وقربانی کے لمبے سلسلے کی صرف آخری صورت تھی۔ آپ کا ایثار یہ تھا کہ ایسے وقت میں جب کہ لوگ صرف دکھائی دینے والے خداؤں کے لیے اپنی محبتیں اور عقیدتیں وقف کررہے تھے، آپ نے نہ دکھائی دینے والے خدا کو اپنی محبت وعقیدت کا مرکز بنایا۔ ایسے حالات میں جب کہ ناحق ہر طرح کے مادی دلائل کے زور پر اپنی اہمیت ثابت کررہا تھا، آپ نے ایک ایسے حق کو پہچانا اور اس کو قبول کرلیا جس کی تائید میں صرف ذہنی دلائل قائم ہوسکے تھے۔ ایسی فضا میں جب کہ باطل کے ساتھ مصالحت کرنے میں آپ کے لئے عزت وترقی کےدروازے کھلےہوئے تھے، آپ نے محض سچائی کی خاطر ایک ایسے غیر مصالحانہ راستہ کو اختیار کرلیا جس میں سختیوں اور مشکلات کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایسے ماحول میں جب کہ لوگ متمدن شہروں میںاقامت کو پسند کررہے تھے، آپ نے ایک خشک بیابان میں لے جاکر اپنے گھر والوں کو بسا دیا۔
یہ سب کچھ غیر معمولی ایثار وقربانی کے جذبہ کے تحت ہوا۔ ایثار وقربانی کی نفسیات کے بغیر ان میں سے کوئی کام بھی نہیں ہوسکتا تھا — خدا پرست بننا اپنے کو ذبح کرنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو شخص اپنے کو ذبح کرنے پر تیار نہ ہو وہ خدا پرست بھی نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں