نماز کے مسائل میں سے ایک مسئلہ وہ ہے جس کو قرأت فاتحہ خلف الامام کہا جاتا ہے۔ یعنی نماز کے وقت امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔ اس مسئلے پر فقہ کی کتابوں میں بہت زیادہ بحثیں ملتی ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قاری کے اندر روحِ فاتحہ (spirit of fatiha) موجود ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ روح فاتحہ کے اہمیت اتنی ہے، جتنا کہ نماز کے لئےنیت۔ ایک فقہی مسئلہ یہ کہ نیت کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
مگر یہی بات روح (spirit) کی ہے۔ جب ایک شخص نماز میں کہتا ہے کہ الحمد للہ رب العالمین تو باعتبارنیت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نمازی اللہ رب العالمین کی حمد میں سرشار ہے، اور اس کی یہ سرشاری لفظوں کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے۔
سورہ فاتحہ کے معانی پر غور کیجیے۔ اس سورہ کی سات آیتوں میں پوری ایمانی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اس میں رب العالمین کی نعمتوں پر شکر کا بیان ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اللہ قیامت میں سب کے اعمال کی بنیاد پر ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بندے کے اندر عبادت اور استعانت کی اسپرٹ موجزن ہونا چاہیے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ ہدایت کو دینے والا صرف اللہ ہے، اور انسان کو اسی سے ہدایت کا طالب ہونا چاہیے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہدایت پانے والے لوگ اس دنیا میں انعام یافتہ ہیں۔ اور جن کو اللہ کی طرف سے ہدایت کی توفیق نہ ملے، ایسے لوگ وہ ہیں جو اللہ کے غضب کا مستحق قرار پائے۔
یہ وہ تعلیمات ہیں جو سورہ فاتحہ میں دی گئی ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ لاصلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب(مسند احمد، حدیث نمبر: 22671)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سچا نمازی وہ ہے جس کے اندر سورہ فاتحہ کی یہ روح پائی جائے۔نمازی کو چاہیے کہ وہ اسی روح فاتحہ کے ساتھ نماز ادا کرے۔جو نماز اس روح فاتحہ سے خالی ہو وہ نماز، نماز نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رب سے ملی ہوئی نعمتوں کو دعوت کا موضوع بناؤ۔خدا کی نعمت کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر لوگوں کے سامنے دعوت الی اللہ کا چرچا کرو۔انفرادی (particular) واقعے کو جنرلائز (generalize) کر کے اس کو سب کے لئے سبق کا ذریعہ بنادو۔
اس معاملے کی مزید وضاحت کی جائے تو کائناتی سطح پر ملی نعمتیں بھی اس میں شامل ہو جائیں گی۔جب ایک شخص صبح کے وقت سورج کو نکلتا ہوا دیکھے تو اس کو نعمتِ الٰہی کا ایک عجیب احساس ہوگا۔ جب وہ تازہ ہوا میں سانس لے اور آکسیجن جیسی نعمت کو اپنے اندر داخل کرے تو اس کو اللہ کی ایک انوکھی نعمت کا تجربہ ہوگا۔ایک شخص جب پانی کاگلاس ہاتھ میں لے، اور اس کو پی کر اپنی پیاس بجھائے تو اللہ کی ایک انوکھی نعمت کی دریافت کرے گا۔ ان ربانی نعمتوں کو دریافت کرنا اور ان کو دعوت کا موضوع بنانا، یہی تحدیث نعمت ہے۔
نعمت کی تحدیث کا مطلب ہے ، نعمت کی چرچا کرنا۔ مگریہ سادہ بات نہیں۔تحدیثِ نعمت سے پہلے نعمت کی معرفت ہے، اور نعمت کی معرفت سے پہلے اس کے بارے میں غورو فکر کرنا ہے۔ غور و فکر سے پہلے سنجیدگی کی شرط ہے۔ آدمی پہلے سنجیدہ بنتا ہے، اس کے بعد وہ حقیقتوں پر غور کرتا ہے، اس کے بعد اس کو خالق کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کا سینہ نعمتوں پر شکر سے بھر جاتا ہے۔اس کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے۔ یعنی دوسروں سے اس کا چرچا کرنا، دوسروں کو اپنے احساس میں شریک کرنا، دوسروں کو خالق کی معرفت میں جینے والا بنانا، دوسروں کو اس قابل بنانا کہ وہ آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أحبوا اللہ لما یغذوکم من نِعَمِہ وأحبونی بحب اللہ وأحبوا أہل بیتی لحبی (سنن الترمذی ، حدیث نمبر3789)۔ یعنی اللہ سے محبت کرو، اس بنا پر کہ وہ تم کو اپنی نعمتوں سے غذا عطا کرتا ہے، اور مجھ سے محبت کرو اللہ سے محبت کی بنا پر، اور میرے اہل بیت سے محبت کرو میری وجہ سے۔اس حدیث میں تین محبتوں کا ذکر ہے۔ پہلی محبت ہے اللہ کی نعمتوں کی بنا پر اللہ سے محبت کرنا۔ یہاں غذا صرف خوراک کے معنی میں نہیںہے، بلکہ ہر قسم کے عطیات الہی کے معنی میں ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کو دریافت کرے۔ ان نعمتوں پر غور و فکر کرے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا باربار چرچا کرے۔ اس طرح فطری طور پر ایسا ہوگا کہ اس کے اندر اللہ سے حُبّ شدید (strong affection) پیدا ہوجائے گا۔ انسان اللہ کو کچھ نہیں دے سکتا۔ انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اللہ کے عطیات کا گہرا اعتراف کرے۔ اسی گہرے اعتراف کا نام حُبّ الہی ہے۔
اللہ کے لیے پیغمبر سے محبت کرنا یہ ہے کہ پیغمبر کے اس معاملے کو گہرائی کے ساتھ دریافت کرنا کہ پیغمبر کے ذریعے ہم کو وہ ہدایت ملی جو ہم کسی اور طریقے سے حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ دریافت جتنی زیادہ شدید ہوگی، اتنی ہی زیادہ آدمی کے اندر پیغمبر خدا کے ساتھ محبت پیدا ہوجائے گی۔
پیغمبر کے اہل بیت سے محبت اس لیے ہے کہ اہل بیت نے پیغمبر کے مشن میں مکمل طور پر ساتھ دیا۔ کسی تکلیف یا شکایت کو انھوں نے عذر نہیں بنایا۔ وہ یک طرفہ وفاداری کے ساتھ پیغمبر سے جڑے رہے۔
محبت کی یہ تینوں قسمیں ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اللہ سے محبت کے بعد فطری طور پر پیغمبر سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور پیغمبر سے محبت کے بعد فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ پیغمبر کے اہل بیت سے آدمی کے اندرمحبت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ پیغمبر کو اپنے مشن میں طرح طرح کے مشکل حالات پیش آئے، مگر اہل بیت کے تعلق میں کوئی کمی نہیں آئی۔
واپس اوپر جائیں
انسان ایک بہترین مخلوق کی حیثیت سے دنیا میں آتا ہے۔ اس کے بعد اس کو مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں— نقصان، بیماری، حادثات، بڑھاپا اور آخر میں موت۔ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے، وہ اگر اس کا حق (right) ہو تو کبھی اس کو زوال یا محرومی کا تجربہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے، وہ بطور حق نہیں ملتا۔ پھر اس پانے، اور بظاہر کھونے کی توجیہہ کیا ہے۔
قرآن کے مطابق ،یہ پانا بطور ابتلاء (test) ہوتا ہے، یعنی مختلف احوال میں ڈال کر یہ دیکھا جائے کہ لوگوں میں احسن العمل (
اس لحاظ سے انسانی زندگی کے دو دَور ہیں۔ پہلا دور ، عارضی مدت کا دور، دوسرا دور ابدی حیات کا دور۔پہلے دور میں جو افراد کوالیفائی کریں گے، وہ ابدی دور حیات کے لئے منتخب کیے جائیں گے، اور جو لوگ کوالیفائی نہیں کریں گے، خالق کی عدالت میں ان کا انجام وہ ہوگا، جس کو بائبل میں الفضۃ المرفوضہ (rejected silver) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد منتخب افراد پر مبنی معاشرہ بنے گا، جہاں وہ ابدی طور پرجنتی ماحول میں زندگی گزاریں گے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت کے ابدی معاشرہ میں جگہ پانے والے لوگ کہیں گے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک پیغمبر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے مصیبت کے وقت کہا: إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَى اللَّہِ (
یہ ایک حکمت کی بات ہے۔ مسئلہ کو اپنے اوپر لینے سے غم کا مزاج بنتا ہے۔ اس کے برعکس، جب مسئلہ کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردیا جائے تو اس وقت آدمی کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوتی ہے، جس کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — میں نے اپنے معاملے کو تیرے حوالے کردیا تو ہی اس معاملے کے پہلووں کو بہتر جانتا ہے:
سپردم بتو ما یۂ خویش را تو دانی حسابِ کم و بیش را
اس فارمولے کو غم کرنے کے بجائے دعا کرنا کہا جاسکتا ہے۔ یہ بلاشبہ کسی شخص کے لیے زندگی کا سب سے اچھا اصول ہے۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ایسے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، جو اس کو غمگین بنادینے والے ہوں۔ ایسے حالات میں عام طور پرایسا ہوتا ہے کہ لوگ یا شکایت کرتے ہیں، یا غم کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس معاملے کا سب سے اچھا حل یہ ہے کہ مسئلے کو اپنے اوپر نہ لیا جائے، بلکہ اللہ رب العالمین کے حوالے کردیا جائے۔ اس طرح کے معاملے میں آدمی کے بس میں صرف افسوس ہے، مگر اللہ رب العالمین سارے معاملات پر پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ وہ معاملات کو جس طرح چاہے کنٹرول کرے۔ وہ حالات کو دعا کرنے والے کے موافق بنادے۔ ایسی حالت میں یہی روش حقیقت پسندانہ روش ہے کہ معاملے کو اپنے اوپر لینے کے بجائے، اس کو اللہ رب العالمین کے حوالے کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام ساتویں صدی عیسوی میں آیا۔ اہل اسلام کی جدو جہد کے نتیجے میں اب دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ روایات میں اس انقلاب کی پیشین گوئی موجود ہے۔ایک روایت کے مطابق پیغمبر ِاسلام صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا ہجرة بعد الفتح (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2783)۔ اس حدیث میں ہجرت اور فتح کے الفاظ صرف وقتی معنی میں نہیں ہیں ، بلکہ وہ دور (age) کے معنی میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آئے گا، اب ساتویں صدی کے ماڈل پر کام نہیں ہوگا۔ یعنی اب دعوت ، ہجرت، جہاد کا ماڈل عملاًغیر متعلق ہوگیا ہے۔ اب وہ حالات بدل چکے ہیں جس میں ہجرت اور قتال پیش آیاتھا۔ اب صرف زمانے کی رعایت کے مطابق دعوت الی اللہ کا پرامن کام کرنا ہوگا۔ بقیہ نتائج اپنے آپ حاصل ہوتے رہیں گے۔
اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ کسریٰ ہلاک ہوگیا اب کوئی کسریٰ نہیں، اور قیصر ہلاک ہوگیا اب کوئی قیصر نہیں(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3120)۔ اس میں بھی کسریٰ اور قیصر کے الفاظ علامتی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شہنشاہیت کا دور (age of imperialism)ختم ہوگیا۔ اب دنیا میں دوبارہ شہنشاہیت کا دور آنے والا نہیں۔
اس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام کے بعد دنیا سے بادشاہت اور شہنشاہیت کا دور ختم ہوجائے گا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام اور شہنشاہی نظام کی بنا پردینی تحریک کو حکومتی نظام کی طرف سے ایذا رسانی (persecution) کا معاملہ پیش آتا تھا۔ اب دینی تحریک کے لیے ایسا معاملہ پیش آنے والا نہیں۔ اب دینی تحریک کی منصوبہ بندی خالص غیر سیاسی بنیاد پر ہوگی۔ اب دینی تحریک کو شروع سے آخر تک امن کے حالات میں کام کرنے کا موقع ملے گا نہ کہ تشدد کے حالات میں، اب قیامت تک کسی تحریک کے لیے تشدد کے حا لات پیش آنے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اُمی ہونے کا مطلب لوگ unlettered لیتےہیں- مگر یہ ناکافی ہے- رسول اللہ کے بارے میں آتاہے : کان طویل الصمت (مسند احمد: 20810)- یعنی آپ دیر تک چپ رہتے تھے۔مگر یہ چپ رہنا صرف چپ رہنا نہیں تھا- کیوں کہ ایک حدیث میں ہے کہ مجھ کو 9باتوں کا حکم دیاگیا ہے۔ ان میں سے ایک ہے:أن یکون صمتی فکراً(جامع الاصول:9317 )- یعنی میری خاموشی سوچنا ہو- اسی طرح ایک صحابی آپ کے بارے میں کہتے ہیں:متواصل الاحزان دائم الفکرة (المعجم الکبیر:
کتاب کے مطالعہ سے آپ کو انفارمیشن ملتی ہے-مگر غور وفکر کرنےسے تخلیقی فکر آتی ہے۔ غوروفکر کے ذریعہ آدمی معلومات کا تجربہ کرتا ہے۔ غوروفکر کے درمیان اس کی ذہنی صلاحیت ارتقا کرتی رہتی ہے۔ غوروفکر کے ذریعہ آدمی کا potential ان فولڈ (unfold)ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ پیغمبر اسلام منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح محفوظ تھے۔ یہ صفت بھی آپ کے لئے ذہنی ارتقا کا ذریعہ تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ مجھے قرآن دیاگیا ومثلہ معہ (مسند احمد: 17174)۔ یہ قرآن کے ساتھ مثل قرآن کیاہے۔ یہ تدبر اور تفکر کے ذریعہ ذہنی ارتقا ہے۔رسول اللہ کا کیس، ریموٹ کنٹرول کا کیس نہیں تھا۔رسول کا امی ہونا بھی ایک سنت ہے۔ یعنی مطالعہ کتاب کے علاوہ دوسرے ذرائع سے اپنا ذہنی ارتقا کرنا۔ مطالعہ کتب سے آدمی اگر ایک فی صد جانتا ہے تو تدبر اور تفکر کے ذریعہ
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اگلی آیت میں فرمایا کہ اپنے رب کی نعمت کو بیان کرو۔ یہ آیت سائل کے مطلب کو واضح کردیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ طالب حق سے پوری خیرخواہی کے ساتھ ملو۔ طالب حق کے ساتھ ہمدردی کا طریقہ اختیار کرو۔ طالب حق کو دین کی تعلیم اور دین کی حکمت بیان کرو۔ طالب حق سے اس انداز میں گفتگو کرو جو اس کے ذہن کو ایڈریس کرنے والاہو۔ قرآن کی یہ آیت حکیمانہ دعوت کی اہمیت کو بتاتی ہے۔
جب کوئی حق کا متلاشی آپ کے پاس آئے تو وہ ایسے سوالات کر سکتا ہے، جو آپ کے لیے نامانوس سوالات ہوں۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہیے کہ وہ سائل کی بات سنجیدگی کے ساتھ سنے اور خیر خواہی کے ساتھ اس کا جواب دے۔ وہ سائل کو حقیر نہ سمجھے، وہ سائل کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کرے۔ اوراگر وہ خود جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تو وہ اس کو مشورہ دے کہ تم فلاں فلاں کتاب کا مطالعہ کرو۔ اسی کے ساتھ آدمی کو چاہیے کہ وہ خود سائل کے لیے دعا کرے۔ اور سائل کو بھی بتائے کہ سوال کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی ہدایت کے لیے اللہ سے دعا کرے۔
اگر آپ کے پاس سچائی ہے تو وہ آپ کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ اس امانت کو اللہ کے بندوں تک پہنچائیں۔آپ کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ آپ سائل کو کچھ نہ کچھ جواب دے دیں۔ بلکہ آپ کا جواب ایسا ہونا چاہیے جو سائل کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔سوال کرنا بھی ذمے داری ہے، اور سوال کا جواب دینا بھی ذمے داری ہے۔
واپس اوپر جائیں
آخرت کا عقیدہ، اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ آخرت پر عقیدہ کے بغیرکوئی شخص مومن نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص یہ کہے کہ میں خدا کومانتا ہوں، میں رسول کو مانتا ہوں، لیکن میں آخرت کے عقیدے کو نہیں مانتا توایسے شخص کو مومن اور مسلم قرار نہیں دیا جائے گا۔
آخرت کا عقیدہ صرف لفظی اقرار کا نام نہیں ہے۔آخرت کا عقیدہ ایک زندہ یقین کا نام ہے۔آخرت کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان نے زندگی کی حقیقت پر غور کیا۔ اس نے شعوری طور پرآخرت کی حقیقت کو دریافت کیا،اور پھرآخرت اس کے لئے اس کے زندہ ایمان (living faith)کا حصہ بن گئی۔ آخرت کا زندہ یقین اس پر اس طرح چھایا کہ اس کی زندگی ہر اعتبار سے آخرت رخی زندگی (Akhirat-oriented life) بن گئی۔ یہی وہ شخص ہے جو آخرت پر ایمان لانے والا ہے۔
آخرت پر عقیدے کا مطلب ہے— جسمانی اعتبار سے دنیا میں رہتے ہوئے، فکر کے اعتبار سے آخرت میں پہنچ جانا۔ دکھائی دینے والی دنیا میں رہتے ہوئے، نہ دکھائی دینے والی دنیامیں جینے والا بن جانا۔ موجودہ دنیا انسان کے لئے ایک معلوم دنیا ہے۔ یہاں رہتے ہوئے آدمی ہر لمحہ اس کو دیکھتا ہے، اس کا عملاً تجربہ کرتا ہے، وہ اس دنیا میں زندگی گزارتا ہے، اورسوکر صبح کودوبارہ اسی دنیا میں واپس آجاتا ہے۔ موجودہ دنیا ہر وقت اس کو اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے۔
ایسی حالت میںآخرت پر زندہ یقین صرف اس شخص کو حاصل ہوگا، جو اپنے آپ کو سوچ کی سطح پر اتنا زیادہ اٹھائے کہ وہ عملاً آخرت میں نہ رہتے ہوئے سوچ کی سطح پر آخرت میں پہنچ جائے، وہ ہر دن اپنی کنڈیشننگ کو توڑتا رہے، وہ ہر صبح و شام آخرت پر اپنے عقیدے کی تجدید کرتا رہے، وہ اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking)کی صلاحیت پیدا کرے۔یہی وہ انسان ہے جو آخرت کا مومن قرار پائے گا، اور یہی وہ انسان ہے جس کے لئے آخرت میں ابدی جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
برٹش فلسفی برٹرینڈ رسل ایک غیر مذہبی (nonbeliever) انسان تھا۔ اسی طرح جرمن سائنس داں البرٹ آئنسٹائن ایک غیر مذہبی انسان تھا۔ مگر دونوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ منکر خدا (atheists) ہیں۔ دونوں نے کہا کہ ان کا کیس agnosticism کا کیس ہے۔ یعنی دونوں نے خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ صرف یہ کہا کہ وہ اس معاملے میں اثباتی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہی حال تمام غیر مذہبی لوگوں کا ہمیشہ رہا ہے۔
خدا کے وجود کے بارے میں ایک موقف وہ ہے جس کو غیر علمی موقف کہنا صحیح ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو صاف لفظوں میں خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کیس یہ ہے کہ وہ علم کے حدود کو نہیں جانتے، اس لیے وہ اپنی خواہش کے مطابق کچھ بھی بولتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کا قول علمی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہے۔
دوسرا کیس ان لوگوں کا ہے جنھوں نے علوم کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ انسانی علم کی حد کیا ہے۔ یہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ خدا ہم کو دکھائی نہیں دیتا تو وہ خدا کے وجود کے بارے میں شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے علمی ذوق کے بنا پر انکار کے الفاظ نہیں بولتے۔ وہ صرف یہ کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ خدا ہے یا نہیں۔
دونوں قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں: پہلی قسم کے لوگ بھی اور دوسری قسم کے لوگ بھی۔ پچھلے زمانے میں پہلی قسم کے لوگوں کو ملحد کہا جاتا تھا، اور دوسری قسم کے لوگوں کو لاادریہ۔ موجودہ زمانے میں پہلی قسم کے لوگوں کو اتھیسٹ (atheist) کہا جاتا ہے، اور دوسری قسم کے لوگوں کو اگناسٹک (agnostic) کہا جاتا ہے۔ اس موضوع کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے راقم الحروف کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، مذہب اور جدید چیلنج، اور اسلام اور عصر حاضر۔ان کے علاوہ اظہار دین کا مطالعہ بھی اس سلسلے میںمفید ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: التأنی من اللہ، والعجلة من الشیطان (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر : 4058)۔ یعنی غور و فکر کرنا اللہ کی طرف سے ہے، اور جلد بازی کرنا شیطان کی طرف سے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی معاملہ پیش آنے پر انسان تأنی کا طریقہ اختیار کرے، اور غور و فکر کرکے اپنی روش متعین کرے۔ تو وہ اللہ کی نصرت کے تحت ہوتا ہے، اور اگر وہ معاملہ پیش آنے کے وقت رد عمل کا طریقہ یا جلد بازی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کا عمل شیطان کے زیر اثر ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ طرح طرح کے معاملات پیش آتے ہیں۔ ایسی موقعے پر انسان کے لیے رسپانس (response) کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے عاجلانہ اقدام کا طریقہ۔ ایسا طریقہ ہمیشہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی پہلے ٹھنڈے ذہن کے ساتھ سوچے، پھر حالات کا جائزہ لے کر اپنے عمل کا رخ متعین کرے۔ یہ صابرانہ منصوبہ بندی کا طریقہ ہے۔ اس طریقے میں انسان کو اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے، اور وہ کامیابی کی منزل تک پہنچتا ہے۔
آدمی کو اس کے خالق نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے۔ ا ٓدمی سوچ کر کسی چیز کے لیے مثبت اور منفی پہلو کو جان سکتا ہے۔وہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کسی عمل کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اگر آدمی ایسا کرے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ اپنے خداداد ذہن کو اپنی حالت پر قائم رکھے، وہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ تمام پہلوؤں پر غور کرے تو یقینا وہ جان لے گا کہ اس وقت مجھے کیا کرنا ہے، اور کیا نہیں کرنا ہے۔ ایسے آدمی کو اللہ کی مدد حاصل ہوگی، اور وہ اللہ کی مدد سے کامیاب ہوجائے گا۔
اس کے برعکس کیس اس انسان کا ہے، جس کے ساتھ کوئی ناموافق معاملہ پیش آئے تو وہ بھڑک اٹھے، وہ جذباتی ردعمل کے تحت جوابی کارروائی شروع کردے۔ ایسا آدمی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس کی کارروائی میں حالات کا اندازہ شامل نہ ہوگا۔ایسے انسان کو فطرت کے نظام کی تائید حاصل نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم مجلہ (اپریل 2015)میں ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس کا عنوان تھا: عالم اسلام انتہاپسندی کے نرغے میں۔اس مضمون میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ مذہب کے معاملے میں وہ انتہاپسندی (extremism) کو چھوڑدیں۔ جس نے ماضی میں بھی مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اور آج بھی اس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصانات ہورہے ہیں۔ ایک طرف مجلے میں مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی تھی، دوسری طرف اسی مجلہ میں ایک اور مضمون کے تحت درج ہے :گستاخان یورپ گاہے گاہے کائنات کی سب سے عظیم و افضل ہستی کی شان اقدس میں گستاخی کی جسارت کرکے دنیا میں سب سے زیادہ بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں اور پھر اس کو آزادیٔ اظہار ِرائے کے نام سے جاری رکھنے پر اصرار بھی کرتے ہیں۔
موجودہ زمانے کے علماء اوررہنماؤں کا عام مزاج یہی ہے۔ ایک طرف وہ بظاہر مسلمانوں کواسلام کے نام پر امن پسندی کی تلقین کریں گے، دوسری طرف وہ یہ کریں گے کہ جدید دور کے تقاضے کے تحت کوئی شخص اگر اسلام کے موضوع پر کوئی اختلافی اظہار رائے کرے تو اس کو" ـپیغمبر ِ اقدس" کی شان میں ناروا گستاخی کہہ کر مسلمانوںکواپنے مذہب کےمعاملے بے حد حساس (sensitive) بنائیں گے۔ حالاں کہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دنیا میں خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق ہر انسان کو آزادی حاصل ہے۔ اس لیے اگر آپ مسلمانوں کو امن پسند بنا نا چاہتے ہیں تو ان کو حساسیت کی خوراک دینا چھوڑ دیجیے، اور اگر آپ حساسیت کی خوراک دینا نہیں چھوڑسکتے تو مسلمانوں کو امن پسندی کی تلقین بھی مت کیجیے۔ کیوں کہ امن کا ماحول ہمیشہ صبر و تحمل کی قیمت ادا کرنے کے بعد قائم ہوتا ہے۔ جو لوگ اختلافی معاملات میں صبر تحمل کی روش اختیار نہ کرسکیں، وہ اگر امن پسندی کی بات کہتے ہیں تو وہ قرآن کے الفاظ میں ، ایک ایسے عمل کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، جس کو انھوں نے کیا ہی نہیں(
یہ ایک دوطرفہ رویہ ہے۔ اس دوطرفہ رویہ کے بارے میں قدیم یہود کو تنبیہ کرتے ہوئے قرآن میں یہ اعلان کیا گیا تھا: کیا تم کتابِ الٰہی کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو (
قرآن کا یہ اعلان موجودہ زمانے کے مسلم علماء اور رہنماؤں پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ وہ ایک طرف اسلام کے نام پر مسلمانوں کو امن کی تلقین کریں گے، اسی کے ساتھ وہ دوسری قوموں کی زیادتیوں کا مبالغہ آمیز تذکرہ کرکے مسلمانوں کو مسلسل طور پر مشتعل کریں گے۔ اور جب اس کا منفی نتیجہ سامنے آئے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسا دوسری قوموں کی سازش کی وجہ سے ہورہا ہے۔ یہ دوہرا روش قرآن کے مطابق لوگوں کو خدا کی پکڑ کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ خدا کے انعام کا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ایک قوم پسند گروہ بن گیے ہیں۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق امت مسلمہ ایک داعی گروہ کا نام ہے لیکن دورِ زوال کے نتیجے میں موجودہ زمانے کے مسلمانو ں کا مزاج یہ بن گیا ہے — میری قوم، خوا ہ صحیح ہو یا غلط:
my community, right or wrong
مسلمانوں کے اندر اگر داعیانہ ذہن موجود ہو تو وہ دوسری قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے، نہ کہ حریف اور رقیب۔ وہ یہ جانیں گے کہ مدعو قوم کے مقابلے میں داعی کی روش ردعمل پر مبنی نہیں ہوتی، بلکہ یک طرفہ صبر پر مبنی ہوتی ہے۔ داعی اگر مدعو کے مقابلے میں رد عمل کا طریقہ اختیار کرے تو قرآن کے الفاظ میں وہ رجز (
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اظہارِ اختلاف کو بطورِ خود رسول کی شان میں گستاخی کا عنوان دے رکھا ہے، یہ سر تا سر بے بنیاد بات ہے ۔ مسلمانوں کے اندر اگر مثبت ذہن ہوتو وہ اظہارِ اختلاف کو تبادلۂ خیال (discussion) کا موضوع بنائیں گے۔ وہ ایسے لوگوں کے لیے مثبت انداز میں لٹریچر تیار کریں گے۔ وہ اظہارِ اختلاف کو دعوت کے مواقع میں تبدیل کردیں گے۔ یہ دنیا اس کے لیے ہے جو منفی تجربے کو مثبت فکر میں تبدیل کرسکے۔
واپس اوپر جائیں
عن ابن عباس. قال: لما مشوا إلى أبی طالب وکلموہ- وہم أشراف قومہ عتبة بن ربیعة، وشیبة بن ربیعة، وأبو جہل بن ہشام، وأمیة بن خلف، وأبو سفیان بن حرب، فی رجال من أشرافہم- فقالوا: یا أبا طالب إنک منا حیث قد علمت، وقد حضرک ما ترى وتخوفنا علیک وقد علمت الذی بیننا وبین ابن أخیک فادعہ فخذ لنا منہ وخذلہ منا لیکف عنا ولنکف عنہ، ولیدعنا ودیننا ولندعہ ودینہ. فبعث إلیہ أبو طالب فجاءہ فقال: یا ابن أخی ہؤلاء أشراف قومک قد اجتمعوا إلیک لیعطوک ولیأخذوا منک. قال فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: یا عم کلمة واحدة تعطونہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم. (البدایة والنہایة:
کچھ لوگوں نےاس حدیث کا یہ مطلب نکالا کہ اسلامی حکومت قائم کرو حالانکہ اس حدیث کا سیاست اور حکومت سےکوئی تعلق نہیں۔ اس حدیث میں کلمہ کی بات کہی گئی ہے نہ کہ حکومت کی۔ کلمہ کا مطلب وہی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ideology کہا جاتا ہے۔
اس حدیث میں دراصل آئڈیالوجی کی طاقت کو بتایا گیا ہے۔ قبائلی دور (tribal age) میں لوگ سمجھتے تھے کہ تلوار سب سے بڑی طاقت ہے۔رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ تمھاری یہ سوچ غلط ہے۔ تم کو آئڈیالوجی کی طاقت معلوم نہیں، اس لیے تم ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے ہو۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عملا ایسا ہی ہوا۔ اسلام کی آئڈیالوجی توحید کی آئڈیالوجی ہے۔ قدیم زمانے میں اسلام اپنی اسی آئڈیالوجی کی طاقت سے پھیلتا رہا۔ موجودہ زمانے میں جب کہ مسلمان اس احساس میں جی رہے ہیں کہ سیاسی خلافت ختم ہوگئی۔ مگر عین اسی وقت ساری دنیا میں اسلام اپنی آئڈیالوجی کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ ہر جگہ لوگ اسلام کی آئڈیالوجی میں سچائی کو دریافت کرتے ہیں۔ اور پھر اسلام کے حلقہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔آئڈیالوجی انسان کو مسخر کرتی ہے، اور جب انسان مسخر ہوجائیں تو کوئی اور چیز تسخیر کے لیے باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں
ربیعہ بن عباد الدیلی روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ کو ذوالمجاز کے سوق میں دیکھا۔ آپ لوگوں کے پاس جاتے اوران سے کہتے: یا أیہا الناس قولوا: لا إلہ إلا اللہ، تفلحوا (مسند احمد: 16023)۔ اس روایت کو لے کر بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعوت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے مل کر ان کو کلمہ پڑھنے کے لیے کہا جائے۔اس کے علاوہ دعوت کا کوئی اور اسلوب درست نہیں ہو سکتا۔
اگر دعوت کا یہی واحد اسلوب تھا تو قرآن میں یقینا اس کو بتایا گیا ہوتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں ایسی کوئی ہدایت موجود نہیں۔ البتہ قرآن کے مطالعے سے اس سلسلے میں کئی اسلوب ملتے ہیں۔ مثلاً یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِر (
اصولی طور پر دعوت کا صرف ایک اسلوب ہے، اور وہ قرآن کی ایک آیت میںاس طرح بتایا گیا ہے: قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا (
دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ مدعو کے اوپر اتمام حجت ہوجائے: لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ(
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر3 میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (آل عمران:
قرآن میں کہیں بھی پیغمبر اسلام کے علاوہ کسی اور نبی کے قتال کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے یہاں قتال کو لفظی معنی میں لینا درست نہ ہوگا۔ ہر زبان میں یہ اسلوب ہے کہ شدید جدو جہد کے لیے جنگ کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں بھی۔
مشہور عربی لغت لسان العرب میںقرآن وحدیث سے متعدد مثالیں پیش کرنے کے بعد بتایا ہے کہ قتال ہمیشہ جنگ کے معنی میں نہیں آتا (ولیس کل قتال بمعنی القتل)۔تفصیل کے لیےملاحظہ ہولسان العرب ، طبعہ بیروت 11/549۔
مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کے اوپر جو مصیبتیں پڑیں، ان پر وہ نہ وہن میں مبتلا ہوئے، نہ ضعف میں اور نہ استکانت میں۔ یہ تینوں الفاظ تقریبا ہم معنی ہیں۔ یعنی انھوں نے مصیبت کے وقت کمزوری نہیں دکھائی۔ زبان کا یہ اسلوب ہے کہ تاکید کے لیے ہم معنی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثلا یہ کہنا کہ صبر و تحمل اور برداشت کا طریقہ اختیار کرو۔
اللہ کی پسند والی زندگی اختیار کرنا ہمیشہ طرح طرح کے مسائل کا سبب بنتا ہے۔ یہ مسائل کبھی آدمی کو پست ہمت بنادیتے ہیں۔ایسے موقعے پر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو پست ہمتی سے بچائے، اور اس کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ وہ مسائل کو اللہ کے خانے میں ڈال دے، اور دعاؤ ں کے سائے میں اپنی زندگی گزارتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گوئی یہ فرمایا تھا کہ بعد کے زمانے میں امت میں فتنہ (اختلاف و جنگ)کا دور آئے گا۔ اس وقت مخلص اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: یوشک أن یکون خیر مال المسلم غنم یتبع بہا شعف الجبال ومواقع القطر، یفر بدینہ من الفتن (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7088)۔ یعنی قریب ہے کہ وہ وقت آئے جب کہ مومن کا سب سے اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کروہ پہاڑوںکے اوپر چلاجائے، اور گوشہ کے مقامات میں چلاجائے۔ اور وہاں اپنے کو فتنے سے بچالے۔
اس حدیث میں غنم کا لفظ علامتی طور پر آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امت میں اختلاف بڑھ جائے، اور لوگوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوجائے تو سچے صاحب ایمان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے لیے کوئی ایسا گوشہ حیات تلاش کرلے، جہاں وہ اختلاف و ٹکراؤ سے دور رہ کر زندگی گزارے اور اسی حال میں مرجائے۔
اختلاف اگر مثبت اختلاف کے معنی میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن جب اختلاف کی صورت یہ ہو کہ لوگ ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کرنے لگیں، اس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہوجائے، حتی کہ جنگ و قتال کی نوبت آجائے توبلاشبہ وہ برا ہے۔ اس وقت کسی شخص کے لیے نجات کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو باہمی ٹکراؤ سے الگ تھلگ کرلے، وہ ذاتی اصلاح کے دائرے میں اپنے کو سمیٹ لے۔
حدیث میں آیاہے: اختلاف امتی رحمۃ (المقاصد الحسنۃ :
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کافی مشہور ہے۔ یہ روایت صحاح ستہ میں موجود نہیں،البتہ وہ دوسری کتب حدیث میں پائی جاتی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: خیرُ الأمورِ أوساطُہا (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر7176)۔دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: خیرُ الأمورِ أوسَطُہا(جامع الاصول: 10/130)۔ یعنی معاملات میں بہتر طریقہ درمیانی طریقہ (middle path)ہے۔
اس روایت میں خیر الامور کا لفظ ہے ، لیکن اکثر لوگوں نے اس کی توسیع کرکے اس کو خیر الافکار کے معنی میں لے لیا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ یہ روایت عملی معاملات کے لیے ہے، وہ فکری معاملات کے لیے نہیں ۔ مثلا نفل نمازوں یا نفل روزوں کے بارے میں کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو اس سے کہا جائے کہ تم درمیانی طریقہ یا اعتدال کا طریقہ اختیار کرو، نہ بہت کم نہ بہت زیادہ۔ اسی طرح انفاق کے معاملے میں کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو اس سے بھی یہی کہا جائے گا کہ اعتدال کے ساتھ انفاق کرو۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (
اصل یہ ہے کہ عملی معاملات میں اعتدال کا طریقہ حکمت کا طریقہ ہے۔ اس کے برعکس فکری معاملات میں اعتدال کا طریقہ شبہ نفاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ فکری معاملات میں وضوح (clarity)، اور یقین (conviction) مطلوب ہوتا ہے۔ اگر اعتدال کے طریقے کو فکر تک وسیع کیا جائے تو لوگوں کے ذہنوں میں یقین بھی ختم ہوجائے گا، اوروضوح بھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 4میں ایک اجتماعی حکم کو بیان کیا گیاہے۔اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جب ان کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ اس کو رسول تک یا اپنے ذمہ دار اصحاب تک پہنچا تے تو ان میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں ، وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اﷲ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔ (النساء:
اس آیت کا ابتدائی مفہوم یہ ہے کہ جنگ اور امن کے حالات کا تعلق حکومت کے ذمہ داروں سے ہوتا ہے، اس لیے اس نوعیت کی کوئی بات ہوتو لوگوں کو چاہیے کہ اس کو حکومت کے ذمہ داروں تک پہنچائیں، تاکہ وہ اس کے بارے میں صحیح کارروائی کر سکیں۔
قرآن کی اس آیت سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی شخص کو کسی معاملے سے متعلق کوئی بات کہنا ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ بات کو اس سے کہے جس کا اس معاملے سے تعلق ہے۔ متعلق اشخاص سے بات کہنا سماج میں اصلاح پیدا کرتا ہے۔ اور بات کو غیر متعلق اشخاص سے کہنا سماج میں فساد پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
خاص طور پر جب کوئی منفی بات یا شکایت کی بات ہو تو ایسی بات کو غیر متعلق اشخاص سے بیان کرنانہایت بری عادت ہے۔ کسی آدمی کے پاس اگر ایسی کوئی بات ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو اپنے دل میں رکھے اور سب سے پہلے متعلق شخص سے مل کر اس کی وضاحت معلوم کرے۔ یہی طریقہ صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
سماج میں اکثر خرابیاں بات سے پیدا ہوتی ہیں۔ لوگو ں کا عام مزاج یہ ہے کہ جب ان کو کوئی بری بات معلوم ہو تو وہ فورا اس کا چرچا شروع کردیتے ہیں۔ یہ چرچا عام طور پر غیر متعلق اشخاص کے درمیان کیا جاتا ہے۔ متعلق شخص سے سنجیدہ انداز میں گفتگو کرنا ہی اس معاملے میں واحد صحیح طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک اجتماعی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِی الْأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انسان یا کوئی گروہ اگر سماج میں ایسی سرگرمی جاری کرے جس کے نتیجے میںلوگ قتل کیے جائیں اور لوگوں کی معاشیات تباہ ہوں تو یہ ایک ایسا فعل ہے جو اللہ کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے۔ایسی کسی سرگرمی پر اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ ایسی سرگرمی کرنے والے لوگ اللہ کے غضب کے مستحق ہیں، ان کو اللہ کی مدد ہرگز ملنے والی نہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں تباہی کی تاریخ بنائیں گے نہ کہ تعمیر کی تاریخ۔
اس سے معلوم ہوا کہ اجتماعی سرگرمی میں صحیح اور غلط کا معیار کیا ہے۔ وہ معیار یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں وہی سرگرمی درست ہے، جو سماج میں مثبت قدروں (positive values) کو فروغ دے، جس سے لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں، جس سے سماج کے ہر طبقے کو فائدہ پہنچے۔اس کے برعکس، جو سماجی سرگرمی سماج کے اندر نفرت اور تشدد پیدا کرے، جس سے لوگوں کی معاشیات تباہ ہوں ، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں۔ ایسی سرگرمی بلاشبہ اللہ کے نزدیک صرف برائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سماجی زندگی میں کسی سرگرمی کا معیار ، اس کا نتیجہ (result) ہے۔ لیڈر کے اوپر فرض ہے کہ اگر وہ دیکھے کہ اس کی سرگرمی سے برا نتیجہ نکل رہا ہے ، لوگوں کی معاشیات تباہ ہورہی ہیں، اور لوگ قتل کیے جارہے ہیں،تو فورا اس کو اعلان کرنا چاہیے کہ ہماری سرگرمی اللہ کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہے۔ ہم اس کو فورا ختم کرتے ہیں، اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہماری غلطی کے لیے ہم کومعاف فرمائے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن علی بن أبی طالب، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:الإیمان معرفة بالقلب، وقول باللسان، وعمل بالأرکان (سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر
جس طرح بیج سے پورا درخت نکلتا ہے، یہی معاملہ اسلام کا ہے۔ اسلام کا آغاز معرفت (realization of God) سے ہوتا ہے۔ معرفت جب آدمی کے شعور کا حصہ بن جاتی ہے، تو اسی کا نام ایمان ہے۔ معرفت جب یقین (conviction) بن کر آدمی کی زبان پر جاری ہوجائے تو اسی کا نام لسانی اقرار ہے۔ معرفت جب آدمی کے عمل میں ڈھل جائے تو اسی کا نام ارکانِ دین کی عملی پیروی کرنا ہے۔ جس طرح بیج کے اندر پورا درخت ہوتا ہے، اسی طرح معرفت کے اندر پورا اسلام موجود ہوتا ہے۔
معرفت ابتدائی طور پر انسان کے لاشعور (unconscious mind) میں موجود ہوتی ہے۔ پھر آدمی جب غور وفکر کرتا ہے تو معرفت ان فولڈ (unfold) ہونے لگتی ہے۔ قرآن میں تدبر اور کائنات میں غور وفکر کے ذریعے معرفت اپنے ارتقائی درجےتک پہنچتی ہے۔ اسلام کی بعد کی تاریخ میں معرفت کا تصور حذف ہوگیا۔ علم کلام بظاہر معرفت کا علم تھا، لیکن متکلمین نے علم کلام کو یونانیات پر مبنی کردیا۔ اس لیے علم کلام حقیقی معنوں میں معرفت کا علم نہ بن سکا۔ صوفیا نے بظاہر معرفت کو اپنا موضوع بنایا۔ لیکن انھوں نے یہ غلطی کی کہ معرفت کو تدبر (contemplation)یعنی عقلی غور و فکر پر مبنی قرار نہیں دیا، بلکہ انھوں نے مراقبہ (meditation) کو معرفت کا سر چشمہ سمجھ لیا۔ یعنی جوچیز عقل کے ذریعے ملنے والی تھی، اس کو دل (heart) میں تلاش کرنے لگے۔ معرفت دل کے اندر موجود ہی نہ تھی، اس لیےصوفیا کو حقیقی معرفت نہیں ملی۔اس طرح متکلمین بھی معرفت سے محروم ہوگیے اور صوفیا بھی۔یہی معاملہ فقہ کے ساتھ پیش آیا جو معرفت کے بجائے ظواہر احکام کا موضوع بن کر رہ گئی۔
واپس اوپر جائیں
علماء کے درمیان قدیم زمانے سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ ایمان میں عمل داخل ہے یا نہیں- پچھلی صدیوں میں اِس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر متعلق بحث ہے- اِس بحث کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- یہ بحث ایک حدیثِ رسول کی بنا پر پیدا ہوئی ہے جس میں یہ کہاگیا ہے : مَن قال لا إلہ إلا اللہ، دخل الجنة(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر
اِس حدیث کے ظاہر کو لے کر یہ رائے قائم کرلی گئی کہ قول یا زبان سے کلمہ پڑھنے کا نام ایمان ہے، اور جو شخص زبان سے کلمہ پڑھ لے، وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا-
حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا معاملہ ایک اساسی معاملہ ہے- ایمان کے معاملے میں صحیح رائے وہی ہے جو دوسری آیتوں اور حدیثوں کو سامنے رکھ کر کی گئی ہو- اِس حیثیت سے جب ایمان کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے بیج (seed)کی مانند ہے۔ جس طرح ایک بیج کے اندر پورا درخت امکانی طور پر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح ایمان کے اندر پورا اسلامی عمل بھی امکانی طور پر موجود ہوتا ہے۔
ایمان کا بیج پورا درخت کس طرح بنتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ تدبر اور تفکر کے ذریعے۔ مومن وہ ہے جو معرفت کا حریص ہو۔ جو قرآن و سنت کا مطالعہ کرے، جو خدا کی تخلیق میں مسلسل طور پر غور کرے۔ جو شخص اس طرح کی مومنانہ زندگی اختیار کرتا ہے، اس کا ایمان درخت کی مانند ہر وقت بڑھتا رہتا ہے۔ اس طرح کا عمل اس کے ایمان کو ایک تخلیقی ایمان (creative faith)بنادیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر دن اس کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر دن اس کے یقین میں اضافہ ہوتا ہے، ہر دن اس کے تعلق باللہ میں اضافہ ہوتا ہے، ہر دن اس کے تزکیہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اضافہ مسلسل طور پر جاری رہتا ہے۔ موت کے سوا کوئی چیز نہیں جو اس عمل کوروک دے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان جتنا زیادہ قوی ہوگا، اتنا ہی انسان کی عملی زندگی میں اس کا اظہار ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب جو ایک ٹاؤن میں رہتے ہیں، وہ دہلی آکر مجھ سے ملے۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کے مشن سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے مقام پر چلیں، وہاں دو دن ٹھہریں۔ ہم وہاں آپ کی تقریر کرائیں گے، اس کے علاوہ لوگ آپ سے ملاقات کریںگے اور ہمارے یہاں کام بڑھے گا۔
میںنے کہا کہ روایتی طورپر آپ لوگ کام کا ایک ہی پیٹرن جانتے ہیں، اور وہ ہے کسی عالم یا کسی بزرگ کو اپنے یہاں لے جانا، اور چند دن ان کو اپنے مقام پر ٹھہرا کر تقریر اور ملاقات کا پروگرام بنانا۔ عام زبان میں اس کو دورہ کہا جاتا ہے۔ مگر زیادہ مفید بات یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ اس معاملے میںایک سنت رسول کو زندہ کریں۔پھر میںنے کہا کہ رسول اللہ کی زندگی کے واقعات، سیرت اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان میں جو پیٹرن ملتاہے وہ دورہ والا پیٹرن نہیںہے۔ اس کا پیٹرن یہ ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس آتا ہے، وہ آپ کی باتیں سنتا ہے اور قرآن کو سن کر اس کو یاد کرلیتاہے۔ پھر وہ اپنے مقام پر واپس جاتاہے۔ وہاں کے لوگوں کو وہ قرآن سناتا ہے اور رسول اللہ سے سیکھی ہوئی باتوں کو بتاتا ہے۔
اسی پیٹرن سے اس زمانہ میں رسول اللہ کا مشن پورے عرب میں پھیل گیا۔ دعوت کے اس پیٹرن کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہلِ ایمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں ۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا اور واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے۔ (
پھر میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ اِس زمانہ میں اس پیٹرن کو زیادہ بڑے پیمانہ پر استعمال کرنا ممکن ہوگیا ہے-آپ اس پیٹرن کی اہمیت کو سمجھئے اور اس کے مطابق کام کیجئے۔پھر میں نے کہا کہ ہم اس پیٹرن کو موجودہ زمانہ میں زندہ کررہے ہیں۔ ہم قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں تیار کرکے چھاپ رہے ہیں۔ آپ قرآن کے ان ترجموں کو ہر جگہ لوگوں کے درمیان پھیلائیے۔ اس کے علاوہ ہم نے جدید ضرورت کے مطابق بڑی تعداد میںاسلامی کتابیں تیار کی ہیں۔ یہ گویا سپورٹنگ لٹریچر ہے۔ آپ ان مطبوعہ کتابوں کو ہر جگہ آسانی کے ساتھ پھیلا سکتےہیں۔ یہی دعوت کا پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اس طریقہ کو استعمال کرکےآپ مشن میں اپنا حصہ ادا کرسکتے ہیں۔
اس پیغمبرانہ طریقے میں مزید بہت سے فائدے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ وہ ہے جس کوذاتی شرکت (personal involvement) کہا جاسکتا ہے۔ اس طریقے میں یہ ہوگا کہ آپ منصوبہ بندی (planning)کریں گے۔ آپ لوگوں سے ملیں گے۔ لوگوں کے ساتھ آپ کا انٹرایکشن ہوگا۔ آپ کو نئے نئے تجربات پیش آئیں گے۔ آپ کی دعوہ اسپرٹ میں اضافہ ہوگا۔ لوگوں کے ساتھ آپ کا تعلق بڑھے گا۔ آپ حالات سے باخبر ہوتے چلے جائیں گے۔آپ کا دعوتی کام تنظیم (organization) کی صورت اختیار کرلے گا۔
اس طریقے میں بہت زیادہ فائدے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کو مختلف قسم کے تجربات پیش آتے ہیں جو آپ کی تربیت کا ذریعہ ہیں۔ آپ کے ساتھ ایسے مواقع پیش آتے ہیں جو آپ کے اندر دعوت کی کیفیت کو ابھارتے ہیں۔ حالات کے تقاضے کے تحت، آپ محسوس کرتے ہیں کہ مجھے اپنا مطالعہ بڑھانا چاہیے۔اس عمل کے دوران، آپ انسان کی رعایت کرنا سیکھتے ہیں۔ آپ جب ایک عالم یا ایک بزرگ کو بلاکر ان سے تقریر کرواتے ہیں تو وہ صرف ایک کام ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ مذکورہ پیغمبرانہ سنت پر عمل کریں تو آپ کا دعوتی کام ہزار پہلووں والا کام بن جائے گا۔
پیغمبرانہ سنت کے مطابق عمل کرنے سے آپ کے عمل کا فائدہ دگنا ہوجاتا ہے۔ وہ آپ کے لیے بھی مفید ہوتا ہے، اور مدعو کے لیے بھی۔ آپ کے لیے اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں اضافہ ہوتا ہے۔ مدعو کے لیے یہ فائدہ کہ وہ زیادہ بہتر طور پر مشن کے بارے میں واقفیت حاصل کرتا ہے، وہ زیادہ غور و فکر کے ساتھ مشن کے بارے اپنے رویے کا تعین کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والاطبقہ اکثر یہ لکھتا اور بولتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز (discrimination) کا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ بات سرتاسر خلافِ واقعہ ہے۔ مزید یہ کہ یہ ابلیس کی سنت ہے۔ جولوگ امتیاز کی بولی بولتے ہیں، وہ عملاً ابلیس کی پیروی کررہے ہیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے پہلے جنات کو پیدا کیا گیا(
حقیقت یہ ہے کہ امتیاز (discrimination) کچھ لوگوں کا خود ساختہ لفظ ہے۔حقیقت کے اعتبار سےاس دنیا میں امتیاز کا کوئی وجود نہیں۔ جس چیز کو امتیاز کہا جاتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سےنااہلی (incompetence) کا معاملہ ہے۔ آدمی اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے ساتھ امتیاز کا معاملہ کیا گیا۔
جب بھی کسی انسان کے دل میں اس قسم کی شکایت پیدا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو الزام دینے کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ خود اپنے بارے میں سوچے۔ اگر وہ غیر جانبدارانہ طور پر اپنے بارے میں سوچے گا تو وہ جان لے گا کہ یہ دراصل میری اپنی کمزوری تھی جس کی مجھے قیمت دینی پڑی۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ میں اپنی کمزوری کو دور کروں۔ اس کے بعد مجھے کسی سے امتیاز کی شکایت نہ ہوگی۔
اجتماعی زندگی میں دوسرے کی شکایت کرنا یا دوسرے پر الزام دینا صرف اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ کیوں کہ اس دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ہے، جو اس طرح کی شکایت یا الزام کا مصداق ہو۔ آدمی کو چاہیے کہ اس طرح کی صورت پیش آئے تو وہ فوراً اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنی کوتاہی کو دریافت کرے، اور اپنی کوتاہی کی تلافی میں لگ جائے۔ یہی بات اسلام کے مطابق ہے، اور یہی بات عقل کے مطابق بھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اہل جنت کا یہ کلمہ، ایک بہت معنی خیز کلمہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون سی دنیا ہے، جو انسان جیسی مخلوق کے لئےخوشیوں کی دنیا بن سکتی ہے۔یہ وہ دنیا ہے جو حزَن (pain) سے خالی ہو۔انسان بے حد حساس مخلوق ہے۔ حزَن کا معمولی ساتجربہ بھی انسان کو بے چین کردیتا ہے۔ انسان کو رہنے کے لئے ایک ایسا محل مل جائےجس میں بظاہر آرام کے تمام سامان موجود ہوں لیکن اسی کے ساتھ اس میں رہنے والےانسان کو کوئی حزَن لاحق ہو۔ مثلا، اس کے ایک دانت میں درد پیدا ہوجائے تو انسان اتنا بے چین ہوجائے گا کہ محل میں موجود آرام و راحت کے تمام سامان اس کے لئے بے معنیٰ ہو جائیں گے۔انسان جیسی مخلوق کے لئے صرف وہ دنیاخوشی کی دنیا بن سکتی ہے، جو حزَن سے مکمل طور پر پاک ہو۔
انسان کی نسبت سے قرآن کا یہ بیان کامل معنوںایک مبنی بر واقعہ بیان (factual statement) ہے۔اتنا زیادہ مبنی بر واقعہ بیان کسی انسان کے لئے ممکن نہیں۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بیان اس بات کا ایک ثبوت ہےکہ قرآن ایک ایسی ہستی کی کتاب ہے جو تمام حقائق سے کامل واقفیت رکھتا ہے۔
مزید یہ کہ ایک ایسی دنیا بنانا جو کامل معنوں میں انسان کے تخلیقی ساخت سے مطابقت رکھتی ہو، ایک ایسا کام ہے جو صرف رب العالمین کے لئے ممکن ہے۔یعنی ایک ایسا رب جو پورے معنوں میں عالمی اختیارات کا مالک ہو۔ اس طرح یہ آیت خدا کےوجود کا ایک ناقابلِ انکار ثبوت ہے، اور اس بات کا ثبوت بھی کہ قرآن، رب العالمین کا کلام ہے، وہ کسی انسان کا کلام نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ حالات بدلنے کے بعد ابتدائی حکم کی نئی تطبیق (new application) تلاش کی جائے۔ مثلاً جدید طرز کے صنعتی موزہ (socks)کے وجود میں آنے کے بعد اس پر قدیم طرز کے جراب کے حکم کو منطبق کرنا۔
اجتہاد صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ لیکن اس اندیشہ کی بنا پر کبھی اجتہاد کے عمل کو روکا نہیں جائے گا۔ صرف یہ کیا جائے گا کہ اجتہاد کے لئے اخلاص نیت کی شرط پر زور دیاجائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی مومن اجتہاد کرے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس پر اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ اور اگر وہ اخلاص نیت کے باوجود اجتہاد میں غلطی کرجائے تو اس کو اس کے اجتہاد پر ایک ثواب ملے گا۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کے معاملہ میں ہمیشہ غلطی کا امکان رہتاہے حتی کہ بڑے بڑے اہل ایمان نے بھی غلطیاں کی ہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ جب اس پر اجتہاد کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ کھلے طورپر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور وہ اپنی رائے کو درست کرلے۔
اجتہاد ایک تعمیری عمل ہے۔ اجتہاد سے لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking)پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب اجتہاد کا عمل رک جائے تو یقینی طورپر لوگوں کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا ،اور ذہنی جمود بلا شبہہ اسلام میں ایک غیرمطلوب چیز ہے۔ جب کوئی آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اجتہاد کرے تو فطری طورپر ایساہوگاکہ وہ معاملہ پر گہرائی کے ساتھ غور کرے گا، وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لے گا۔ وہ اس موضوع پر کتابوں کا مطالعہ کرے گا۔ وہ اہلِ علم سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کرے گا۔ یہ تمام چیزیں اخلاص نیت میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کا ہونا اخلاص نیت کا ثبوت ہے اور ان چیزوں کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی کے اندر اخلاص نیت موجود نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث میں اس طرح بتائی گئی ہے کہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قتل کیا ہے۔ قتل یہ ہے کہ کسی زندہ انسان پر حملہ کرکے اس کا خاتمہ کردیا جائے۔ یہ معاملہ ایک فرد کے ساتھ کیا جائے تو اس کو قتل کہا جاتا ہے، اور یہی معاملہ جب زیادہ بڑے پیمانے پر کیا جائے تو وہ جنگ ہے۔ قتل ہو یا جنگ، وہ ہر حال میں برائی کے افعال ہیں۔ کسی انسان کو مارنا، ایک ایسا فعل ہے، جو اس قابل ہے کہ مارنے والے کو سب سے زیادہ سخت سزا دی جائے۔
ہر انسان خدا کی تخلیق ہے۔ ہر انسان کو اس کے خالق نے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ دنیا میں آزادی کے ساتھ زندگی گزارے اور خالق نے اس کو جس امکان (potential) کے ساتھ پیدا کیا ہے اس کو وہ اپنی محنت سے واقعہ (actual) بنائے۔
حقیقت یہ ہے ہر انسان خالق کا ایک منصوبہ (plan) ہے۔ ایسی حالت میں انسان کو قتل کرنا، گویا خالق کے منصوبے کو قتل کرنا ہے۔ وہ خالق کے منصوبے کو ناکام بنانے کے ہم معنی ہے۔جنگ بظاہر انسان کے خلاف ہوتی ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہر جنگ خالق کے خلاف جنگ ہے۔
جنگ کا آغاز نفرت سے ہوتا ہے۔ نفرت بڑھ کر تشدد بن جاتی ہے۔ تشدد جب زیادہ بڑے پیمانے پر کیا جائے، اسی کا نام جنگ ہے۔ تشدد کلچر اپنے آغاز میں بھی غلط ہے، اور اپنے انجام میں بھی غلط۔ کوئی بھی منطق (logic) تشدد اور خوں ریزی کو ہرگز جائز ثابت کرنے والی نہیں ۔
ایک درخت زمین سے نکلے اور ہری بھری شاخوں کے ساتھ پروان چڑھنے لگے تو وہ خالق کے منصوبے کا ایک جز ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسے ایک پودے یا درخت کو کاٹ دے تو اس نے بلاشبہ ایک ناقابلِ معافی جرم کیا، اس نے ایک تخلیقی منصوبے کو پورا ہونے سے پہلے ختم کردیا۔ انسان بھی خالق کا ایک زندہ درخت ہے۔ انسان کے لیے خالق کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ زمین میں پھیلے یہاں تک کہ وہ باغ بن جائے۔ ایسی حالت میں جو شخص خدا کے باغ پر ہتھیار چلاتا ہے، وہ خود اپنے اوپر ہتھیا ر چلاتا ہے۔ ایسا انسان اپنے پر تشدد عمل سے خدا کے فیصلے کو بدلنا چاہتا ہے، مگر خالق کا فیصلہ کبھی بدلنے والا نہیں۔
خالق کا منشا ہے کہ یہ دنیا انسانوں کا ہرا بھرا باغ بن جائے۔ اس باغ کا ہر درخت پھول اور پھل دے کر دنیا کی ترقی میں اضافہ کرے ، ہر انسان اپنے پوٹنشل (potential) کو ایکچول (actual) بنا کر خالق کے منصوبے کی تکمیل کرے۔ ہر انسان تہذیب (سویلائزیشن )کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرے۔ ہر انسان دنیا میں آزادانہ عمل کرکے خود کچھ پائے، اور اپنے پائے ہوئے کو اگلی نسلوں کی طرف منتقل کرے۔ ہر انسان تاریخ کا ایک صحت مند حصہ (healthy part) بن جائے۔ مگر تشدد کلچر (culture of violence) اس پوری خدائی اسکیم کو برباد کردینے والا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تشدد (violence) سب سے بڑا جرم ہے۔ ایسے مجرمین کے لیے بلاشبہ خدا کے یہاں سخت عذاب ہے۔ کوئی بھی خود ساختہ نظریہ تشدد کے مجرمین کو جنت میں پہنچانے والا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد پسند انسان دنیا میں کانٹے دار جھاڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے انسانوں کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ کاٹے جائیں اوران کو ہمیشہ کے لیےکائنات کے کوڑا خانہ میںپھینک دیا جائے۔
امن (peace) تعمیر کا عمل ہے، اس کے مقابلے میں جنگ تخریب کا عمل ہے۔ امن پسند انسان کے لیے خدا کے یہاں ابدی آرام گاہ ہے۔ اور تشدد پسند انسان کے لیے خدا کے یہاں ابدی قید خانہ۔
انسان اس دنیا میں آزاد ہے، لیکن اس کی آزادی محدود آزادی ہے۔ اس کی آزادی اس لیے ہے کہ وہ اس کو خالق کے منصوبے کے مطابق استعمال کرے۔ مگر جو شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے، وہ اپنے عمل سے صرف یہ ثابت کررہا ہے کہ وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کو آزادی دی جائے، وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس کو عقل دی جائے، جس کے ذریعے وہ اچھے برے کو سمجھ سکتا تھا، اور اپنی زندگی کی درست تشکیل کرسکتا تھا۔
ایسی حالت میں جو انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے وہ اپنے آپ کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو جانور (animal) سے بھی زیادہ بری صورت میں اٹھایا جائے۔ اگلے دورِ حیات میں وہ صرف محرومی کی زندگی گزارے، اگلے دورِ حیات میں اس کا حال یہ ہو کہ وہ پکارے، لیکن کوئی اس کی پکارکا جواب دینے والا موجود نہ ہو، وہ مدد کے لیے آواز دے، لیکن وہاں کوئی اس کی مدد کرنے والا موجود نہ ہو۔
کسی شخص کا انسان کی حیثیت سے پیدا ہونا خالق کا ایک انوکھا انعام ہے۔ مزید یہ کہ وہ خالق کی طرف سے ایک خوش خبری ہے۔ اس بات کی خوش خبری کہ اگر تم نے اپنی موجودہ زندگی کو خالق کے نقشے کے مطابق گزارا، اگر تم نے تشدد کے بجائے امن کو اپنا طریق حیات بنایا تو اگلے دورِ حیات میں تم کو خالق کی مزید عنایات حاصل ہوں گی۔ آج تم انسان (man)کی حیثیت سے پیدا کیے گیے ہو۔ لیکن اگلے دور حیات میں خالق تم پریہ انعام کرے گا کہ وہ تم کو فوق البشر (superman) کا درجہ دے دے گا۔ موجودہ دورِ حیات میں تم نے سب کچھ کرکے بھی بربادی کے سوا کچھ اور نہیں پایا تھا، لیکن اگلے دورِ حیات میں تم خالق کی ایسی نعمتوں کو پالوگے جس کا اس سے پہلے تم نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں
مصلح یا مجدد کا جب ذکر ہوتا ہے، تو اکثر لوگ اس کے ذاتی کمالات کو بیان کرنے لگتے ہیں۔ قدیم زمانے سے چوں کہ دنیا میں شخصیت پرستی (cult of individual) کا طریقہ رائج رہا ہے۔ اس لیے یہ طریقہ معیار بن گیا ہے۔ مصلح یا مجدد کا بیان لوگ اس طرح کرتے ہیں، جیسے کہ ایک فرد کے شخصی کمالات کو بیان کرنا ہی اس کا اصل طریقہ ہے۔ چناں چہ اکثر لوگ مصلح یا مجدد کا بیان اس طرح کرتےہیں، جیسے کہ وہ اس کی قصیدہ خوانی کررہے ہیں۔
مگر یہ طریقہ درست نہیں۔ مصلح یا مجدد کا کام یہ ہے کہ وہ حدیث کے الفاظ میں بصیرِ زمانہ ہو، وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مصلح یا مجدد اس بات کا حامل ہے یا نہیں۔ اگر وہ اس بات کا حامل نہ ہو تو مصلح یا مجدد کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ تم سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کے مطابق بناؤ۔
مصلح یا مجدد کا کام مفتی کے کام سے مختلف ہے۔ مفتی کا کام یہ ہے کہ وہ مسئلہ پوچھنے والے کو مسئلہ بیان کردے۔ لیکن مصلح یا مجدد کی ذمے داری اس سے زیادہ ہے۔ مصلح یا مجدد کو سب سے پہلے اپنے کو دین کا عالم بنانا ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو زمانے سے باخبر کرے تاکہ اس کی رہنمائی میں زمانے کی رعایت شامل ہو۔ جس آدمی کی رہنمائی میں زمانے کی رعایت شامل نہ ہو، وہ مصلح یا مجدد کا درجہ پانے کے قابل نہیں۔
دین ہمیشہ کے لیے ایک ہے۔ لیکن زمانی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ دین کی ابدی تعلیمات کو اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ لوگوں کو اپنے حسب حال دکھائی دے۔ اگر دین کو اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ لوگوں کو زمانی تقاضوں کے مطابق نظر نہ آئے تو وہ لوگوں کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گا۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر یہ شوق پیدا نہ ہوگا کہ وہ اس کی پیروی کریں۔ اور اپنی زندگیوںکو اس کے مطابق بنائیں۔
واپس اوپر جائیں
قدرت کا نظام فرق (difference) کے اصول پر قائم ہے- ہر انسان ایک الگ قسم کی امتیازی صفت (distinctive quality) لے کر پیدا ہوتاہے۔ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی اس امتیازی صفت کو دریافت کرے۔ دریافت کرنے کا یہ کام انسان کو خود کرنا پڑتاہے۔ ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس معاملہ میں ذاتی دریافت (self discovery) پر کھڑا ہو۔
ذاتی دریافت کے اس عمل میں سب سے بڑا معاون عنصر (supporting element)یہ ہے کہ انسانی سماج کو مبنی بر میرٹ (merit-based society) بنایا جائے- انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے ماحول میں اس کو مختلف قسم کے کام نظر آتے ہیں ۔ وہ مختلف تجربے کرتا ہے۔ اس تجربہ کے دوران اس کو اشارہ ملتا ہے کہ فلاں کام کو میں زیادہ اچھا کرسکتا ہوں۔ یہ اشارہ اس کے لئے اس بات کا ایک طاقت ور محرک (strong incentive)بن جاتاہے کہ وہ اپنی دریافت کردہ امتیازی صفت کو اپنے عمل کا نشانہ بنائے۔ اس طرح مبنی بر میرٹ سماج میں اپنے آپ ایک خاموش عمل شروع ہوجاتاہے۔ یہ آٹومیٹک چینلائزیشن (automatic channelization)کاعمل ہے۔
اگر آدمی سنجیدہ ہو، اور دوسروں کی شکایت کرنے کے بجائے اپنا محاسبہ (introspection) کرنا جانتا ہو تو وہ نہایت آسانی سے یہ دریافت کرلے گا کہ اس کے لیے زندگی کی جدوجہد میں سفر کرنے کی سمت کیا ہے۔ مثلا ایک آدمی نے بزنس شروع کیا اس میں اس نے دیکھا کہ وہ زیادہ کامیاب نہیں ہورہا ہے، تو اس کو یہ جاننا چاہیے کہ اس کے لیے اپنی صلاحیت کے لحاظ سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ بزنس کے بجائے سروس کے میدان میں چلاجائے۔ اگر آدمی اس طرح اپنا راستہ متعین کرے تو وہ یقینا اپنے لیے اپنے موافق زندگی کی تعمیر میں کامیاب ہوجائے گا۔آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنا آزادانہ جائزہ لیتا رہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو دریافت کرے گا اور اپنے آپ کو سماج کا صحت مند ممبر بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں
انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفت اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چناں چہ قدیم زمانے میں معرفت اعلیٰ تک پہنچنے کے لئے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔
اللہ کی معرفت اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقینا معرفت اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگیے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
حضرت یوسف ایک اسرائیلی پیغمبر تھے۔ان کو مصر کے بادشاہ نے یہ موقع دیا کہ وہ پورے ملک کے خزائن ارض (یوسف:
Only with regard to the throne, will I be greater than you. (Genesis 41:40)
حضرت یوسف نے بادشاہ کی اس شرط کو مان لیا، اور وہ اپنی آخر عمر تک ملک مصر کے مواقع کو آزادانہ طور پر استعمال کرتے رہے۔ موجودہ زمانے میں بھی یہ موقع مزید اضافے کے ساتھ حاصل ہے۔ موجودہ زمانے میں چالیس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں۔ ہر ملک کے مسلم حکمراں زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے خلاف اینٹی گورنمنٹ تحریک نہ چلاؤ اور پھر ملک کے تمام مواقع تمہارے لئے آزادانہ طور پر کھلے رہیں گے۔تم تمام غیر سیاسی میدانوں میں عمل کرنے کے لیے آزاد ہو۔
مگر موجودہ زمانے میں یہ امکان غیر استعمال شدہ رہ گیا۔ کسی مسلم ملک میں بھی اس موقع کو استعمال نہ کیا جاسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما حضرت یوسف کی اس پیغمبرانہ سنت پر عمل نہ کر سکے۔اس کے برعکس ان مسلم رہنماؤں نے ہر مسلم ملک میں یہ کیا کہ وہ حکومت کے حریف بن گیے۔ انھوں نے اینٹی گورنمنٹ سرگرمیاں شروع کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ملک کے حکمراںاپنے دفاع کے طور پر مسلم رہنماؤں کے خلاف ہوگیے۔ ہر مسلم ملک میں مسلم تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ مسلم ملکوں میں دعوت اور تعلیم جیسے میدانوں میں کام کے غیر معمولی مواقع تھے۔ مگر یہ مواقع غیر استعمال شدہ رہ گیے۔مسلم رہنماؤں پر لازم تھا کہ وہ اپنا محاسبہ کرتے، وہ اپنی غلطی کو دریافت کرتے۔ لیکن انھوں نے برعکس طور پر یہ اعلان کیا کہ یہ مسلم حکمراں اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ اب ہر مسلم ملک میں مسلمانوں کے دو گروہ بن گیے۔ حکومتی گروہ اور غیر حکومتی گروہ۔دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور تشدد کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
واپس اوپر جائیں
زندگی میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ انسان کے لئے سپریم چیز کیا ہے۔ میں اپنے تجربے کے مطابق کہہ سکتا ہوں کہ کسی انسان کے لئے سپریم چیز پیس آف مائنڈ ہے۔ کسی انسان کے لئے سپریم چیز نہ تو دولت ہے، نہ شہرت (fame) ہے، نہ پاور ہے، اور نہ پاپولیریٹی (popularity) ۔ کسی انسان کے لئے سپریم دریافت وہی چیز ہوسکتی ہے جو اس کو فل فل مینٹ (fulfilment) دے۔ اور تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پیس آف مائنڈ کے سوا کوئی اور چیز انسان کو فل فل مینٹ نہیں دیتی۔
پیس آف مائنڈ کی یہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پیس آف مائنڈ انسان کی نیچر کے مطابق ہے۔ انسان اپنے نیچر کے مطابق یہ چاہتا ہے کہ وہ آخری حد تک اپنے آپ کو مطمئن بنا سکے۔ مگر کسی انسان کو اطمینان صرف داخلی اچیومینٹ (achievement)پر ہوسکتا ہے، خارجی اچیومینٹ پر نہیں۔ اسی داخلی یافت کا دوسرا نام انٹلکچول ڈیولپمینٹ یا اسپریچول ڈیولپمینٹ ہے۔ امریکی دولت مند بل گیٹس (Bill Gates)نے دولت کے بارے میں اپنے تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا:
Once you get beyond a million dollars, it's the same hamburger.
بل گیٹس نےجو بات دولت کے بارےمیں کہی ہے، وہی بات ہر خارجی اچیومینٹ کے لئے درست ہے۔ یہ خارجی اچیومینٹ خواہ دولت ہو، یا بزنس ہو، یا فیم ہو، یا پولٹیکل پاور ہو، یا اور کوئی مادی چیز ہو۔ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ پیس آف مائنڈ کا فارمولا دریافت کرے۔ اور یہ مقصد صرف انٹلکچول ڈیولپمنٹ کے ذریعہ حاصل ہوسکتاہے- یعنی اسٹڈی اور contemplation کے ذریعہ۔ میں ذاتی طورپر اسپریچول ڈیولپمینٹ کو بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اسپریچول ڈیولپمینٹ ایک مائنڈ بیسڈ ڈسپلن (mind-based discipline) ہے، نہ کہ ہارٹ بیسڈ ڈسپلن (heart-based discipline)۔ مبنی بر قلب میڈیٹیشن (meditation)آدمی کو وجد (ecstasy) تک پہنچا سکتا ہے۔ جب کہ مبنی برذہن میڈیٹیشن آدمی کو انٹلیکچول ڈیولپمینٹ تک پہنچاتا ہے، اور انٹلیکچول ڈیولپمینٹ ہی پیس آف مائنڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک سائنسی قیاس کے مطابق، کائنات میں ہماری دنیا جیسی دو دنیا ئیں ہیں۔ ایک پازیٹو ورلڈ اور دوسری نیگیٹو ورلڈ۔ یہی قانون ِ فطرت (law of nature) کا تقاضا ہے۔ جس طرح پازیٹو پارٹیکل اور نیگیٹو پارٹیکل کے بغیر ایٹم (atom) کا وجود نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ایک دنیا کے وجود کے لیے دوسری دنیاکا وجود بھی ضروری ہے۔
یہ سائنسی قیاس ہر انسان کا ایک ذاتی تجربہ ہے۔ ہر انسان اپنے ذاتی تجربے کے تحت ایک دنیا پر یقین رکھتا ہے جو بظاہر اس کو دکھائی دیتی ہے، اور جس کے اندروہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔یہ دنیا وہ ہے جہاں وہ روزانہ صبح اور شام کے مناظر دیکھتا ہے۔ جس کے اندر وہ اپنی تمام سرگرمیاں جاری کرتا ہے۔ جس کو وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے، اور اپنے کان سے سنتا ہے، اور جہاںوہ روزانہ اپنے پاؤں سے چلتا ہے۔
اسی کے ساتھ ہر انسان ایک اور دنیا کا تصور اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے۔ ایک ایسی دنیا جو موجودہ دنیا کے مقابلے میں معیاری دنیا (perfect world) ہوگی، جہاں اس کی تمام خواہشیں ((desiresپوری ہوں گی۔ جہاں اس کو کامل فل فلمینٹ (total fulfilment) ملے گا۔ ہر انسان پیدائشی طور پر پرفکشنسٹ ہوتا ہے۔ اپنے داخلی مزاج کے مطابق وہ اس معیاری دنیا کو پانا چاہتا ہے، مگر کوئی بھی شخص اپنی اس تلاش کا جواب نہیں پاتا، اور اس پر موت کا وقت آجاتا ہے۔ اس طرح ہر انسان کے ذہن میں ایک دنیا وہ ہے جس کو عملاً وہ پائے ہوئے ہے، اور دوسری دنیا وہ ہے جس کو وہ پانا چاہتا ہے، لیکن اس کو پانے میں وہ کامیاب نہیں ہوتا ہے۔
انسان کا یہ ذہن ہر ایک کے لیے اس بات کا ایک داخلی ثبوت ہے کہ یہاں دو دنیائیں موجود ہیں۔ ایک دنیا وہ جس کو وہ حال میں پارہا ہے، اور دوسری دنیا وہ جس کو وہ موت کے بعد مستقبل میں پائے گا۔ پہلی دنیا ہر ایک کا عملی تجربہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری دنیا وہ ہے جو ہر ایک کے ذہن میں بسی ہوئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
انتہا پسندی (extremism)ایک فطری صفت ہے۔ یہ صفت کسی شخص کے اندر کم ہوتی ہے اور کسی شخص کے اندر زیادہ۔ تاہم انتہا پسندانہ مزاج کا ایک تعمیری پہلو ہے اور دوسرا اس کا تخریبی پہلو۔ اس کا تعمیری پہلو یہ ہے کہ آدمی اصول کےمعاملہ میں سخت حسّاس ہو، وہ دوسروں کے حقوق کے معاملہ میں کمی کو گوارا نہ کرے، وہ حق سے انحراف کو دیکھے تو تڑپ اٹھے۔ وہ اپنی غلطی کو شدید طورپر محسوس کرتاہو۔ وہ اپنی کوتاہی کے معاملہ میں اس سے زیادہ شدید ہوجتنا کہ کوئی شخص دوسروں کی کوتاہی کے معاملہ میں شدید ہوتا ہے۔ یہ انتہا پسندی صحت مند انتہا پسندی ہے۔
انتہا پسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ منفی رخ اختیار کرلے۔ آدمی اپنے اس جذبہ کی بنا پر دوسروں سے نفرت کرنے لگے۔ وہ دوسروں سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائے۔ وہ اصلاح کے نام پر جنگ اور قتل شروع کردے۔ یہ انتہا پسندی کی قابلِ اعتراض صورت ہے۔جب انتہا پسندی اس قسم کی منفی صورت اختیار کرلے تو وہ عملاً ایک برائی (evil) بن جاتی ہے، نہ کہ کو ئی خیر(good)-
حساسیت (sensitivity) انسان کی خاص صفت ہے۔ اس صفت کا تعمیری استعمال دنیا میں بھلائی کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس، جب اس صفت کا غلط استعمال ہونے لگے تو دنیا برائی سے بھر جائے گی۔
انتہا پسندی کا مزاج ہمیشہ محاسبہ کا مزاج پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ محاسبہ اپنے خلاف ہوناچاہئے۔ اس کے برعکس، اپنی کوتاہیوں سے غافل رہنا اور دوسروں کی کوتاہی پر ان سے لڑائی شروع کردینا سخت گناہ ہے۔ پہلا کردار اگر ثواب کا موجب ہے تو دوسرا کردار آدمی کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس کا سخت مواخذہ کیا جائے۔
انتہاپسندی ایک فطری صفت ہے، جس طرح اعتدال پسندی ایک فطری صفت ہے۔ انتہاپسندی اس وقت برائی بن جاتی ہے، جب کہ اس کو عقل کے بجائے جذبات کے تابع کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
کچھ باتیں ایسی ہیں جو معافی سے ختم ہوجاتی ہیں۔ مثلا کسی کو غصہ آگیا، اور غصے میں اس نے کوئی سخت بات کہہ دی، پھر اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا، اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی۔ یہ وہ بات ہے، جو معافی سے ختم ہوجاتی ہے۔
دوسری بات وہ ہے جو اس وقت ختم ہوتی ہے، جب کہ آدمی اپنی رائے بدل لینے کا اعلان کرے۔ مثلا ایک شخص آپ کے بارے میں یہ کہے کہ آپ اسلام دشمن کے ایجنٹ ہیں، اور اس سے آپ کو پیسہ ملتا ہے، یہ بات صرف اس وقت ختم ہوگی جب کہ کہنے والا اپنی غلطی کا اعتراف کرے، اور اعلان کے ساتھ یہ کہے کہ میں نے جو کہا تھا، وہ صحیح نہیں تھا۔
وقتی جذبے کے تحت کوئی غلط بات منھ سے نکل جائے ۔ پھر آدمی کو اس پر شرمندگی ہو، اور وہ صاحب معاملہ سے معافی مانگ لے۔ یہ معافی کا کیس ہوگا۔ صاحب معاملہ کو چاہیے کہ وہ معافی مانگنے کے بعد اس کو معاف کردے۔ وہ دل میں اس کے خلاف کدورت نہ رکھے۔
لیکن جو غلطی سوچی سمجھی رائے کے تحت ہو۔ وہ اس وقت تک قابل معافی نہیں ، جب تک آدمی کا یہ حال نہ ہوجائے کہ وہ اپنی رائے کی غلطی دل سے مان لے۔ وہ سچے اعتراف کے جذبے کے تحت، صاحب معاملہ سے معافی کی درخواست کرے۔ ایسی حالت میں اس کی بات قابل معافی قرار پائے گی۔ اس کے بعد دونوں فریقوں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اس بات کے برے اثرات سے اپنے دل کو پاک کرلیں۔
معافی مانگنا اور معافی قبول کرنا دونوں عبادت کے افعال ہیں۔معافی مانگنے والا معافی کے بعد ایسا ہوجاتا ہے گویا کہ اس نے غلطی نہیں کی تھی۔ اورمعافی مانگنے کے بعد معاف کرنے والے کو اس بات کاکریڈٹ ملتا ہے کہ اس کا دل نفرت و عداوت سے خالی ہے۔اس کے دل میں انسان کے لیے خیرخواہی ہے، نہ کہ نفرت اور انتقام۔
واپس اوپر جائیں
گفتگو کے دو طریقے ہیں۔ایک یہ کہ گفتگو کے وقت جب دوسرا شخص آپ سے کوئی سوال کرے تو اس موضوع سے متعلق جو باتیں آپ کے دماغ میں موجودہوں، ان سب کو آپ شروع سے آخر تک دہرانے لگیں۔ یہ طریقہ آدابِ گفتگو کے خلاف ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ گفتگو کے آداب کو نہیں جانتا۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ سامنے والے کی بات سنیں، اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ سائل کیا بات جاننا چاہتا ہے۔ اور پھر وہی بات بولیں، جو سائل آپ سے سننا چاہتا ہے۔ یہ گفتگو کا صحیح طریقہ ہے۔ اسی قسم کی گفتگو کامیاب گفتگو ہے، اور اسی قسم کی گفتگو نتیجہ خیز گفتگو ہے۔
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ گفتگو کے وقت وہ اپنے آپ میں جیتے ہیں۔ وہ دوسرے کی بات سننے سے زیادہ اپنی بات میں مشغول رہتے ہیں۔ ایسے لوگ جب بولتے ہیں تو سننے والے کو ان کی بات سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
صحیح یہ ہے کہ آپ دوسرے کی بات کو خالی الذہن ہوکر سنیں، غیر جانب دارانہ انداز میں دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، دوسرے کی بات کو دوسرے کے ذہن سے سنیں نہ کہ خود اپنے ذہن سے۔ جو شخص ایسا کرے، وہی صحیح معنوں میں گفتگو کا طریقہ جانتا ہے۔
گفتگو خالق کی ایک عظیم نعمت ہے۔ انسان کے سوا دوسری کسی مخلوق کو یہ نعمت حاصل نہیں۔ پہاڑ اور سمندر کے درمیان کبھی گفتگو نہیں ہوتی۔ دو جانوروں کے درمیان کبھی تبادلۂ خیال نہیں ہوتا۔ یہ صرف انسان ہے جو کہنے اور سننے کی طاقت رکھتا ہے، اور بامعنی انداز میں تبادلۂ خیال کرتا ہے۔ اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ آدمی اپنے اندر درست کلام کی صلاحیت پیدا کرے۔گفتگو کے وقت وہ اس اسپرٹ کے ساتھ گفتگو کرے کہ وہ دوسروں سے کچھ سیکھے اور خود دوسروں کو کچھ دینے کے قابل بات دے۔ وہ صاحب تعلیم بھی ہو اور صاحب تعلّم بھی۔ایسے آدمی کی گفتگو بھی ایک عبادت ہے۔
واپس اوپر جائیں
ابوعبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری (وفات
یہ کوئی فضیلت یا علمی کمال کی بات نہیں، بلکہ وہ ایک فطری حقیقت ہے۔ جو کہ افادہ اور استفادہ کی صورت میں دونوں فریق کو حاصل ہوتا ہے۔ افادہ کا مطلب دوسرے کو فائدہ پہنچانا، جس کو تعلیم کہا جاتا ہے۔ اور استفادہ کا مطلب تعلم(learning) ہے۔یعنی دوسرے سے سیکھنا۔
اصل یہ ہے کہ دو انسان آپس میں سنجیدہ گفتگو کریں، دونوں کے درمیان کھلا ماحول ہو، دونوں کو یہ موقع ہو کہ وہ اپنی بات کو کسی تحفظ (reservation) کے بغیر دوسرے سے کہیں تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ دو نقطۂ نظر کےدرمیان ٹکراؤ سے معاملے کا ایک تیسرا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس طرح دونوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ گفتگو کو اپنے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بنائیں، دونوں ایک دوسرے سے سیکھیں بھی اور سکھائیں بھی ۔
دو یا چند انسانوں کے درمیان تبادلۂ خیال (exchange) بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ ہمیشہ ہر فریق کے لیے فائدے کا سبب بنتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ تبادلہ خیال کے دونوں فریق سنجیدہ ہوں۔ وہ صحیح معنوں میں سچائی کے طالب ہوں۔ ان کے اندر یہ مزاج ہو کہ وہ نہ تعریف سے خوش ہوں اور نہ وہ تنقید کو برا مانیں۔ وہ کسی بات کو بات کے لحاظ سے دیکھیں، نہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے۔ وہ تعصب سے خالی ہوکر اپنی بات کہیں اور دوسرے کی بات سنیں۔ ان کے اندر یہ مزاج نہ ہو کہ اپنی بات کو ہر حال میں صحیح ثابت کرنا ہے، اور دوسرے کی بات کو ہر حال میں رد کرنا ہے۔
واپس اوپر جائیں
مشہور صحابیٔ رسول حضرت علی بن ابی طالب کا قول ہے: الخیر فیما وقع۔ یعنی جو ہوگیا، وہی بہتر ہے۔
Whatever happened, happened for the good.
حضرت علی کا یہ قول فطرت کے قانو ن کو بتاتا ہے۔وہ یہ کہ دنیا میں مواقع کی تعداد بے شمار ہے۔ اگر ایک موقع کھوجائے تو آدمی کے اندر محرومی کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کو یہ امید کرنا چاہیے کہ ایک موقع کھونے کے بعد جلد ہی اس کو دوسرا موقع مل جائے گا، اس طرح اس کی زندگی کا سفر رکے بغیر جاری رہے گا۔
یہ صرف ایک قول نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک عام قانون ہے۔ یہ مومن و غیر مومن سب کے لیے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو دھیان میں رکھے تو وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا۔ وہ ہر ناکامی کو وقتی سمجھے گا۔ ہر ناکامی کے بعد وہ ا پنی کوشش کو جاری رکھے گا، یہاں تک کہ وہ کامیاب ہوجائے گا۔ یہ بات کوئی پراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک معلوم قانون ہے۔
خالق نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ کچھ مواقع ایسے ہیں، جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ اور زیادہ مواقع ایسے ہیں، جو موجود رہتے ہیں لیکن وہ ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ پر امید رہے۔ وہ ناموافق حالات میں بھی مواقع کی تلاش جاری رکھے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر یہ استعداد پیدا کرے کہ وہ مواقع کو اپنے حق میں استعمال کرسکے، مواقع جس ہنر (skill) کا تقاضا کریں، وہ ہنر اپنے اندر پیدا کریں۔
مواقع کو وہی لوگ کامیابی کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں، جن کے اندر مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ضروری لیاقت موجود ہو۔ لیاقت کے بغیر مواقع کا کامیاب استعمال ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ جب کسی سےاپنی پسند کی بات سنتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں، اور اگر وہ اس سے اپنی پسند کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں بُری رائے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ طریقہ آدابِ ملاقات کے خلاف ہے۔ملاقات کا مقصد ایک انسانی مطالعہ ہے، نہ کہ لوگوں کے بارے میں اچھی رائے یا بُری رائے قائم کرنا۔
ہر انسان ایک کامل انسان ہے۔ وہ اپنی ذات میں پوری نوعِ انسانی کا نمائندہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کا رد عمل گویا پوری انسانیت کا رد عمل ہے۔ ہر انسان کا مطالعہ گویا پوری انسانیت کا مطالعہ ہے۔ ایک انسان کو جان لینا گویا پوری نوعِ انسانی کو جان لینا ہے۔
اس اعتبار سے ہر انسان گویاانسانیت کی ایک لائبریری ہے۔ اگر آپ کے اندر غیر جانبدارانہ سوچ ہے، اگر آپ تعصب سے خالی ہو کر انسان کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو ہر انسان آپ کے لئے پوری انسانیت کے مطالعے کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ ایک انسان کو دریافت کر کے تمام انسانوں کو دریافت کر لیں گے، حتی کہ آپ کا محدود خاندان وسیع تر معنوں میں انسانیت کی ایک لائبریری بن جائے گا۔
ہر انسان کبھی خوش ہوتا ہے، کبھی غمگین ہوتا ہے، کبھی وہ مثبت ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور کبھی منفی ردعمل کا اظہار۔ اسی طرح وعدہ پورا کرنا اور وعدہ پورا نہ کرنا، شکایت کو درگزر کرنا اور درگزر نہ کرنا، دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرنااور بددیانتی کے ساتھ معاملہ کرنا،صدق بیانی کرنا اور کذب بیانی کرنا، مدلل اختلاف کرنا اور الزام تراشی کرنا،قابلِ پیشین گوئی کردار کا حامل ہونا اور ناقابلِ پیشین گوئی کردار کا نمونہ بن جا نا، وغیرہ۔ اس طرح کا ہر معاملہ بظاہر ایک انسان کی طرف سے پیش آتا ہے، لیکن وسیع تر معنوں میں وہ تمام انسانوں کے سلوک کو بتاتا ہے۔اگرآپ کے اندر گہرا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہو تو آپ ایک فرد کے اندر تمام افراد کو دیکھیں گے۔ آپ ایک خاندان کے اندر پوری انسانیت کے معاملےکو دریافت کرلیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے اندر بصیرت (wisdom)کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں
زندگی کی دو قسمیں ہیں۔ ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے وہ خالق کی طرف سے ایک منفرد صلاحیت (unique quality) کو لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر انسان ایک غیر معمولی دماغ (mind) لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کے لئےیہ ممکن ہوتا ہے کہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور دانش مندانہ پلاننگ کے تحت اپنے پوٹینشل (potential) کو واقعہ (actual) بنائے۔ ہر آدمی کامیابی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے ذہن کو استعمال کرے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تائیدی نظام (supporting system) کہا جاسکتا ہے۔ فطرت کے مطابق یہ ہونا چاہئے کہ سماج کا نظام مکمل طور پر میرٹ (merit) کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ مبنی بر میرٹ سماج (merit-based society) کے اندر فطری طور پر ایک عمل قائم ہو جاتا ہے، جس کو آٹومیٹک چینلائزیشن (automatic channelization) کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل (process) کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آخر کار اپنی استثنائی خصوصیت کو دریافت کر لیتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اس بات کا طاقتور محرک پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں امتیازی درجہ حاصل کرے۔ یہ داخلی اسپرٹ اپنا کام کرتی ہے۔ آدمی نے اگر غلط چائس (choice) لے لیا ہے تو وہ اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے چائس کو بدلےاور اس چائس کو لے جس میںوہ اکسل (excel) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس داخلی اسپرٹ کے ساتھ سماج کے اندر مبنی بر میرٹ نظام شامل ہوجائے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنے اس خصوصی رول کو پالیتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا تھا۔انسان اگرچہ پیدا کرنے والے کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہر انسان کویہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تعمیر آپ کرے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو سیلف میڈ مین (self-made man ) بنائے۔
واپس اوپر جائیں
2- کولکاتا کے تین یوتھ مزشرمشتا، مز اننیا اور مسٹردنیش نے پیغمبر اسلام کی زندگی پر مشتمل فلم’دی میسیج‘ دیکھی۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد اسلام اور قرآن کے بارے میں جاننے کا ان کوشوق پیدا۔ تو انھوں نےکولکاتا سی پی ایس ٹیم کی ایک ممبر مز شبینہ علی سےترجمہ قرآن کے لیے درخواست کیا ۔ ان کی درخواست پر
8- ذیل میں چند دعوتی تجربات و تاثرات دیئے جارہے ہیں:
Maulana Sb, thank you for enriching our present life and the life Hereafter with your Sunday lectures. Every lecture provides us with wisdom and insight. May God bless you with good health. (Naseer Uddin, Hyderabad, India)
سی پی ایس الہ آباد کے سنٹر پر مستقل طور پر مسلم جماعتوں کے ممبران اور کارکن آتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک کالج کے پروفیسر بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب ترجمہ قرآن ڈسٹری بیوشن کے ساتھ مولانا کی کتابوں کو بھی لوگوں کے درمیان عام کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان کتابوںکے مطالعہ کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ مسلم جماعتوں کے کارکنان میں معرفت الہی کی کمی ہے،جس کوصدر اسلامی مرکز کی کتابیں خاص طورسے ’’کتاب معرفت‘‘ کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے۔ (محمد ابرار نرالا، الہ آباد)
مَیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں تھا کہ ایک نوجوان طالب علم میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے پوچھا: ’’(رمضان میں پڑھنے کے لیے)مجھے پاکٹ سائز عربی قرآن چاہئے، یہ کہاں مل سکتا ہے؟‘‘۔ اس وقت میں نے اس کو ترجمہ قرآن دیا اور اس کے دوستوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے مزید ترجمۂ قرآن کی کچھ کاپیاں دیں۔ (محمد انس، دہلی)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.