پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کے بارے میں فرمایا: شھر یزداد فیہ رزق المومن (صحیح ابن خزیمہ،حدیث نمبر 1887) یعنی رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔یہاں رزق سے مراد مادی رزق نہیںہے، بلکہ معرفت کا رزق ہے۔یہ وہی رزق ہے جس کو قرآن میں رزقِ رب (
اصل یہ ہے کہ روزے کی حالت میں فطری طورپر روزہ دار کی حساسیت بڑھ جاتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے رب کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن کا مطالعہ کرتا ہے۔ روزہ کے دوران وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ زندگی کی حقیقت پر غور کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میںاس کے اندر روحانیت جاگ اٹھتی ہے، اس کی ذہنی بیدار ی میں اضافہ ہوتا ہے، وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اللہ کی باتوں پر غور وفکر کرنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی حقیقتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ حکمت کے ساتھ اپنے اور دین کے تعلق کو سمجھ سکے۔وہ قرآن کی آیتوں کے گہرے معانی کو دریافت کرے۔
رزق کا اضافہ کوئی پراسرار چیز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھے تو اس کا ذہن عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار ہوجاتا ہے، اس کی سوچ میں زیادہ گہرائی آجاتی ہے، وہ اللہ کی باتوں میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے لگتا ہے۔ روزہ دار کے اندر یہ بڑھی ہوئی کیفیت اس کو اس قابل بنادیتی ہے کہ وہ دین کے زیادہ گہرے پہلوؤں کا ادراک کرسکے۔ وہ زیادہ گہرے انداز میں معرفت کا رزق حاصل کرسکے۔
روزہ دار کے لیے رزقِ معرفت میں اضافہ صرف بھوک پیاس کی بنا پر اپنے آپ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ آدمی سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھے۔ اس کا روزہ ، قرآن کے الفاظ میں،تقوی اور شکر کا روزہ بن گیا ہو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں جنت کے بارے میں مختلف آیتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (
قرآن کی اس آیت میں جنت کے بارے میں ما اخفی لھم کے الفاظ آئے ہیں، یعنی کیا چھپا رکھا گیا ہے (which is kept hidden)۔ اخفی ماضی کا صیغہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت آئندہ بننے والی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ قرآن کے نزول کے وقت بنی ہوئی موجود تھی۔ اسی لیے قرآن میں دوسری جگہ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے انسان کے لیے دو دنیائیں بنائی ہیں۔ ایک موجودہ دنیا (planet earth)، اور دوسری وہ دنیا جس کے لیے قرآن اور حدیث میں جنت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا کو ابتلا (آزمائش)کی مصلحت کے تحت بنا یا گیا ہے، اور جنت کو ابدی انعام کی مصلحت کے تحت بنایا گیا ہے۔
قرآن کے مطالعےسے مزید معلوم ہوتا ہے کہ دونوں دنیائیں ایک دوسرے کے مشابہ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
یہاں یہ سوال ہے کہ اس کائناتی تسخیر کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، کائنات کی وسعت لامحدود حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کی رہائش گاہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان اتنی بڑی کائنات کو اپنا رزق بنا ئے۔ پھر اس کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
قرآن کی دوسری آیتوں، مثلاً سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے۔ یہ غور کرنا ، لُبّ (عقل ) کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ کسی جسمانی عمل کے ذریعے۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر عقل سے تدبر کرکے انسان اپنے رب کی کائناتی عبادت کرتا ہے۔
یہ صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں میں تدبر (contemplation) کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں باربار تدبر پر زور دیا گیاہے- قرآن کی سورہ ص میں یہ آیت آئی ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (
قرآن میں بہت کم ایسی باتیں ہیں، جو صراحت کی زبان میں ہیں- زیادہ تر باتیں اُس میں سراغ (clue) کے اسلوب میں ہیں- یعنی اِن آیتوں میں گہرے معانی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے، جو آدمی کے لیے غوروفکر میں رہنمائی دیتے ہیں- یہ اسلوب اِس لیے ہے تاکہ قرآن کے معانی کی دریافت کے ساتھ انسان کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development) کا عمل بھی جاری رہے-
مثلاً قرآن میں بار بار پانی کا ذکر ہے- انسان کے لئے پانی کی اہمیت کو بتایا گیاہے- مگر قرآن میں پانی کے گہرے پہلوؤں کا ذکر نہیں ہے- مثلاً پانی انسان کے لئے بہت سے فوائد کا واحد ذریعہ ہے- طہارت کے لئے اور دوسرے بہت سے فائدوں کے لیے- اِس معاملے میں کوئی بھی چیز پانی کا بدل (substitute)نہیں- مگر قرآن میں اِس حقیقت کو لفظی طورپر نہیں بتایا گیا- مثلاً یہ نہیں کہا گیاہے کہ پانی کا کوئی بدل نہیں (لابَدیل للماء)- پانی کے بارے میں اِس حقیقت کو انسان کے اوپر چھوڑ دیاگیا ہےکہ وہ اِس پر غور کرے، اور پانی کی اِس اہمیت کو دریافت کرکے، خالق کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے اور گہرائی کے ساتھ اُس کا `شکر ادا کرے-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا مات أحدُکم ؛ فقد قامتْ قیامتُہ (کنز العمال: 42123) یعنی جب کسی شخص کی موت آتی ہے تو موت کے بعد ہی اس کی قیامت شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موت خاتمۂ حیات نہیں، بلکہ موت ایک دورِ حیات سے نکل کر دوسرے دورِ حیات میں داخلہ ہے۔ایک دور اور دوسرے دور میں کوئی فاصلہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی ایک تسلسل (continuity) کا نام ہے، موت کا معاملہ صرف منتقلی (transfer) کا ایک معاملہ ہے، یعنی آدمی ایک عالَم سے نکل کر دوسرے عالَم میں پہنچ گیا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا تعمیرِشخصیت (personality building) کا مقام ہے۔ یہاں ہر آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہے۔ یہ شخصیت سازی دو طرح کی ہوتی ہے۔مثبت شخصیت یا منفی شخصیت۔ جو لوگ اس دنیا میں مثبت شخصیت بنائیں گے، وہ موت کے فوراً بعد اپنے آپ کو جنت کے باغوں میں پائیں گے۔اور جو لوگ اپنے اندر منفی شخصیت بنائیں گے، ان کو موت کے بعد جہنم میں جگہ ملے گی۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: إنما القبرُ روضةٌ من ریاضِ الجنةِ أو حفرةٌ من حفرِ النارِ. (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2460)یہ حدیث اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہ ایک اور حدیث کی روشنی میں اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إنما ہی أعمالکم تردُّ إلیکم (حلیۃ الاولیاء: 5/125) یعنی یہ ہر انسان کے اعمال ہیں جو آخرت میں اس کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔
انسان اور اس کے عمل کے درمیان کوئی دوری نہیں ہوتی۔ جہاں انسان ہے وہیں اس کے اعمال بھی موجود ہوتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں انسان کے اعمال بظاہر دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن موت کے بعد فورا وہ ظاہر ہوجائیں گے۔ انسان اپنے آپ کو اچانک اپنے اعمال کے درمیان پائے گا۔ اچھا عمل کرنے والا، اپنے آپ کو اچھے اعمال کے درمیان پائے گا، اور برا عمل کرنے والا اپنے آپ کو برے اعمال کے درمیان پائے گا۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: لا تطرونی، کما أطرت النصارى ابن مریم، فإنما أنا عبدہ، فقولوا عبد اللہ، ورسولہ (صحیح البخاری ، حدیث نمبر 3445)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو، جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا۔ میں تو صرف اللہ کا ایک بندہ ہوں، تم صرف یہ کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔اس طرح کی اور بھی روایتیں حدیث کی کتابوں آئی ہیں۔ ان روایتوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ وہ اپنے پیغمبر کے ساتھ وہ معاملہ نہ کریں جو پچھلی امتوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کیا۔ یعنی پیغمبر کو صرف پیغمبر کے درجے میں رکھیں۔ اس کے ساتھ مبالغہ آمیز مدح خوانی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس نصیحت میں ایک اہم حکمت چھپی ہوئی ہے۔ امت جب پیغمبر کو عبد اور رسول کا درجہ دے تو امت کے اند ر یہ مزاج بنے گا کہ وہ اپنی زندگی میں پیغمبر کی پیروی کرے، وہ اپنے آپ کو پیغمبر کے نمونے پر ڈھالے، وہ ہر معاملے میں اپنے آپ کو ویسا ہی بنائے جیسا کہ پیغمبر نے اپنے آپ کو ہر معاملے میں بنایا۔اطراء کا مطلب ہے مبالغہ آمیز مدح خوانی (to praise highly)۔ امت جب اپنے پیغمبر کے بارے میں اطراء کی روش میں مبتلا ہوجائے تو امت کے افراد کے اندر یہ ذہن بنتا ہے کہ پیغمبر کے بارے میں ہمارا کام یہ ہے کہ اس کی مبالغہ آمیز نعت خوانی کریں۔ اس کے نام کے ساتھ بڑے بڑے القاب شامل کریں۔ پیغمبر کی اسی طرح قصیدہ خوانی کریں ، جس طرح پہلے زمانے میں بادشاہوں کی قصیدہ خوانی کی جاتی تھی۔ اس اطراء کا ایک ظاہرہ یہ ہے کہ امت کے افراد اپنے پیغمبر کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق اگر کوئی شخص پیغمبر کی ذات کےمعاملے میں گستاخی کا کلمہ کہہ دے تو وہ بھڑک اٹھیں گے، اورچاہیں گے کہ ایسے آدمی کو قتل کر ڈالیں۔ ایسے لوگ اپنے پیغمبر کے بارے میں جو کتابیں لکھیں گے ان میں شاعرانہ مبالغہ آرائی تو بہت ہوگی لیکن علمی اور تاریخی مواد ان کے اندر بہت کم پایا جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ(ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3976)۔یعنی آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس کام کو چھوڑدے جس میں کوئی فائدہ نہیں۔
یہ حدیث رسول ہم کو ایک معیار (criterion) دیتی ہے۔ جس کی کی روشنی میں ہم اپنے عمل کو جانچتے رہیں۔ جو عمل عملا نتیجہ خیز ثابت ہو، اس پر قائم رہیں، اور جو عمل بے نتیجہ ثابت ہو اس کو چھوڑ دیں۔
اس حدیث کا تعلق عبادت جیسے معاملات سے نہیں ہے۔ بلکہ ان امور سے ہے جو دنیا میں کسی نتیجے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مثلا دشمن سے قتال کا معاملہ اگر ہمارا کوئی دشمن پایا جائے اور ایسے حالات پیدا ہوں کہ اس کے ساتھ قتال کرنا چاہیے ۔ تب بھی قتال برائے قتال کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ قتال برائے نتیجہ کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر موجودہ زمانے کے مسلمان سو سال سے زیادہ مدت سے جہاد کے نام پر قتال کررہے ہیں، وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف متشددانہ جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، لیکن جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود اس عمل کا مطلوب نتیجہ مسلمانوں کو نہیں ملا۔ اب مذکورہ حدیث کے مطابق، مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ توبۂ جمیع (
یہی اس وقت اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔ تشدد خواہ جہاد کے نام سے کیا جائے، لیکن وہ تشدد ہے۔ اور عملی اعتبار سے اس کا مثبت نتیجہ نہیں نکلنا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ کوئی مطلوب اسلامی عمل نہیں۔ اگر وہ مطلوب اسلامی عمل ہوتا تو اس پر ضرور اللہ کی نصرت نازل ہوتی۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ (
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث دورِ فتنہ کے بارے میں آئی ہے- یہ ایک لمبی حدیث ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے: ثم فتنة الدُّہیماء لا تدع أحداً من ہذہ الأمة إلا لطمتہ لطمة (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: 4244) یعنی آخری زمانے میں فتنہ دہیماء ظاہر ہوگا- وہ اتنا زیادہ عام ہوگا کہ امت کا کوئی بھی شخص نہیں بچے گا جو اِس فتنےکی زد میں نہ آجائے:
It will hit everyone without any exception.
اِس حدیثِ رسول میں دُہیماء کالفظ استعمال ہوا ہے- دہیما کے لیے مشہور عربی لغت لسان العرب میں یہ الفاظ آئے ہیں: الفتنة السوداء المظلمة (12/211)- دہیماء کی تصغیر مبالغہ کے لیے ہے، یعنی فتنۂ دہیماء بہت زیادہ سیاہ اور سخت تاریکی پیدا کرنے والا فتنہ ہوگا- اِس حدیثِ رسول کے مطابق، فتنۂ دہیماء کا زمانہ مکمل تاریکی کا زمانہ (age of total darkness) ہوگا- تاریکی سے مراد فکری تاریکی (intellectual darkness)ہے- دوسرے الفاظ میں، اِس کا مطلب ہے — مکمل فکری کنفیوزن (utter intellectual confusion) ۔
قانونِ فطرت کے مطابق، یہ دور اچانک نہیں آئے گا، بلکہ تدریجی عمل (gradual process) کے تحت آئے گا۔ یہ واقعہ خود امتِ مسلمہ کے اندر پیش آئے گا اور یہ اُس حالت کا ایک ظاہرہ ہوگا جس کو زوالِ امت کہاجاتا ہے- مذکورہ روایت کے الفاظ کے مطابق، فتنۂ دہیماء کی یہ صورتِ حال اصلاً خود امت کے اندر پیش آئے گی، نہ کہ امت کے باہر۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم کو ایک ایسے دینِ بیضا پر چھوڑ رہا ہوں جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں: قد ترکتم على البیضاء، لیلہا کنہارہا (مسند احمد، حدیث نمبر: 17142)۔ مگر بعد کے زمانے میں امت کے اندر بہت زیادہ اختلاف (اختلافا کثیراً) پیدا ہوجائے گا- اِس اختلافِ کثیر سے مراد وہی چیز ہے جس کو مذکورہ حدیث میں فتنۂ دہیماء کہا گیا ہے، یعنی قرآن وحدیث کی تشریح وتعبیر میں اختلافات سے تصورِ دین کا غیر واضح ہوجانا-
اختلاف کا سبب
امت کی بعد کی نسلوں میں فکری اختلاف کا سبب کیا ہے- یہ سبب وہی ہے جو پچھلی امتوں میں پیدا ہوا- پچھلی امتوں کا واقعہ امتِ مسلمہ کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک تاریخی مثال کی حیثیت رکھتا ہے- یہ حقیقت قرآن کی سورہ البینة میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَیِّنَةُ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ (
پچھلی امتوں میں جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ تھا کہ اُن کو اللہ کی کتاب دی گئی تھی، لیکن ان کی بعد کی نسلوں کے درمیان کتاب کی تشریح وتوضیح میں علماء کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے- ان اختلافات کی بنا پر امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی- اختلاف کا یہی واقعہ، فطرت کے قانون کے مطابق، امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں پیش آئے گا- دونوں کا مشترک سبب ایک ہے-
یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ امت کی ابتدائی نسل میںدین اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے زندہ ہوتا ہے- لوگوں پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین اصلاً اسپرٹ کا نام ہے- جہاں تک اس کی ظاہری صورت یا فارم (form) کا تعلق ہے، وہ دین کا ایک اضافی حصہ (relative part) ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ اسپرٹ میں ہمیشہ یکسانیت ہوتی ہے- اِس لیے امت جب تک اسپرٹ والے دین پر قائم ہو، اُس وقت تک اس کا اتحاد باقی رہتا ہے، لیکن بعد کے دور میں زوال کی بنا پر اسپرٹ مفقود ہوجاتی ہے اور لوگ دین کے فارم کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں- چوں کہ فارم میں ہمیشہ اختلاف ہوتا ہے، اِس لیے امت جب زوال کا شکار ہوکر فارم پر قائم ہوجائے تو ہمیشہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں- پہلے اختلاف آتا ہے، پھر فرقہ بندی ہوتی ہے اور پھر مختلف گروہوں کے درمیان تشدد شروع ہوجاتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک حدیثِ رسول میں آیا ہے : لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب (مسند احمد، حدیث نمبر: 22671) یعنی سورہ الفاتحہ کے بغیر کوئی نماز، نماز نہیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحابہ کے زمانے میں بھی لوگوں کو معلوم تھا، لیکن اِس کی بنا پر لوگوں کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا، کیوں کہ اس زمانے میں اسپرٹ بھر پور طورپر زندہ تھی- لوگ سمجھتے تھے کہ اصل چیز یہ ہے کہ حالتِ نماز میں سورہ الفاتحہ کے معانی کی یاد دہانی ہوتی رہے- سرّی نمازوں میں ہر آدمی خود سورہ الفاتحہ پڑھتا تھا اور جہری نمازوں میں ہر آدمی یہ سمجھتا تھا کہ امام کی زبان سے سورہ الفاتحہ کو سن کر قرأتِ فاتحہ کا مقصد نیابتاً حاصل ہوگیا-
لیکن بعد کے زمانے میں جب امت کے اندر زوال آیا اور ساری اہمیت عبادت کے فارم کو دی جانے لگی، اُس وقت اِس حدیث کو لے کر لوگوں کے درمیان زبردست اختلاف پیدا ہوگیا- ایک گروہ نے کہا کہ جہری نمازوں میں سورہ الفاتحہ کی نیابةً ادائیگی کافی ہے- دوسرے گروہ نے کہا کہ نہیں، ہرمصلی کو لازماً اپنی نماز میں ذاتی طورپر سورہ الفاتحہ پڑھنا چاہیے، حتی کہ جہری نمازوں میں جب کہ امام بلند آواز سےقرأت کررہا ہو، تب بھی مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سورہ الفاتحہ پڑھیں، ورنہ ان کی نماز نہیں ہوگی-
قرآن کی مذکورہ آیت (
پیغمبرانہ پیشین گوئی
حضرت علی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ- مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى۔ علماءہم شر من تحت أدیم السماء، من عندھم تخرج الفتنة وفیہم تعود (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 1763) یعنی قریب ہے کہ لوگوں کے اوپر وہ زمانہ آئے جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے اور قرآن کی صرف تحریر باقی رہے۔ ان کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی- اُن کے علماء آسمان کے نیچے سب سے برے لوگ ہوں گے۔ ان سے فتنہ نکلے گا، اور انھیں کی طرف فتنہ لوٹے گا-
اِس حدیث رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں اُس وقت کی پیشین گوئی ہے جب کہ دہیماء کا فتنہ اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہوگا- اُس زمانے میں بظاہر اسلام کے نام پر بڑی بڑی سرگرمیاں دکھائی دیں گی، لیکن اِس سرگرمیوں میں دین کی اصل حقیقت موجود نہ ہوگی۔ قرآن کے نسخے ہر جگہ موجود ہوں گے، لیکن لوگ قرآن کے صرف الفاظ کو جانتے ہوں گے، قرآن کے معانی سے وہ بالکل بے خبر ہوں گے-
امت کا فکری زوال
ایک حدیث رسول میں بتایا گیا ہے کہ: خیر أمتی قرنی،ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3650)- اِس حدیث رسول میں اسلام کے تین ادوار کو خیر کے ادوار کہاگیا ہے- اِن ادوار کو قرونِ ثلاثہ یا قرونِ مشہود لہا بالخیر کہا جاتا ہے- اِن تین ادوار سے مراد ہے— عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین- اِن تین ابتدائی ادوار کی مدت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات (
اِس مسئلے کی مزید تعیین کی جائے تو کہا جائے گا کہ اسلام کے ابتدائی تین ادوا ر میں اسلام کا فکری مرجع تمام تر قرآن تھا- ثانوی مرجع کے طورپر حدیث بھی اِس میں شامل ہے، کیوں کہ حدیث قرآن کی تشریح ہے- حدیث کے بغیر قرآن کو درست طورپر سمجھنا ممکن نہیں- تقریباً سوسال بعد اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جس کو فقہی دور کہا جاسکتا ہے- یہ وہ دور ہے جب کہ ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے علاقے فتح ہوئے اور بتدریج اِس علاقے کے لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے- اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں ایک نیا ظاہرہ پیدا ہوا جس کو عمومی قبولِ اسلام (mass conversion) کہاجاتا ہے- یہ لوگ اسلام سے پہلے مجوسی مذہب یا مسیحی مذہب میں شامل تھے- اِن تمام مذاہب میں اُس وقت سا ری اہمیت صرف فارم (form) کودی جاتی تھی- اِن لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کے تحت وہ یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ اسلام کا فارم کیا ہے- یہی وہ دور ہے جب کہ اسلام کی تاریخ میں وہ شعبہ پیدا ہوا جس کو فقہ کہاجاتاہے-
یہی وہ زمانہ ہے جب کہ حدیثوں کی جمع وتدوین شروع ہوئی- فقہاء نے فارم کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے حدیثوں کو دیکھا۔ احادیث کے ذخیرے میں مختلف صحابہ کی زبان سے یہ بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح عبادت کرتے تھے- فقہا کو معلوم ہوا کہ اِس معاملہ میں صحابہ کی روایتیں مختلف ہیں- مثلاً کسی صحابی کی روایت آمین بالسر کے حق میں تھی تو کسی صحابی کی روایت آمین بالجہر کے حق میں تھی۔ احادیث کے ذخیرے میں اِس طرح کے کثیر اختلافات موجود تھے-
یہیں سے مسلمانوںمیں ایک ڈی ریلمنٹ (derailment) شروع ہوا- فقہاء کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ دین میں اگرچہ اسپرٹ ایک ہے، لیکن فارم میں تنوع (diversity) پایا جاتا ہے، اِس لیے تم جس صحابی کی روایت پر چاہو عمل کرو- البتہ تم کو سب سے زیادہ دھیان اسپرٹ پر دینا چاہیے- لیکن فقہاء نے یہاں بطور خود یہ اصول وضع کیا کہ فارم کے بارے میں مختلف روایتوں میں کوئی ایک ہی روایت درست ہوسکتی ہے، اِس لیے اِس ذہن کے تحت انھوں نے ترجیح کا اصول وضع کیا- وہ بحث ومباحثے کے ذریعے ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقہ کو مرجوح قرار دینے لگے- ترجیح کا یہ اصول سب کو ایک رائے پر جمع نہیں کرسکتا تھا، کیوں کی امام شافعی کے الفاظ میں، ساری بحثوں کے باوجود فریقِ ثانی کے حق میں یہ احتمال باقی رہتا تھا کہ شاید اس کی رائے درست ہو-
دین میں اسپرٹ کے بجائے فارم کو اہمیت دینے کا یہ فقہی طریقہ بعد کے لوگوں کے لیے ایک رجحان ساز (trendsetter) واقعہ بن گیا- اِس کے بعد دینی موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی نہج پر لکھی گئیں- یہ سلسلہ آج تک جاری ہے — دین بیضا کا دینِ غیر بیضا بن جانے کا اصل سبب یہی ہے-
اگر آپ فقہی کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ فقہ میںبظاہر اسلام کی مختلف تعلیمات زیر بحث آتی ہیں، لیکن عملاً تمام فقہی بحثیں اِن تعلیمات کے فارم پر ہوتی ہیں- فقہ کا یہ پیٹرن اصولی بنیادپر نہیں بنا، بلکہ حالات کے زیر اثر (situational factor) بنا ہے-آپ قرآن کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں سارا زور اسلام کی اسپرٹ پر دیا گیا ہے، لیکن فقہ میں ایک شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا واقعہ پیش آیا اور سارا زور اسپرٹ کے بجائے فارم پر دیا جانے لگا-
قرآنی پیٹرن کے بجائے فقہی پیٹرن
اِس کے بعد مزید یہ ہوا کہ فقہ کا یہ اسلوب ، عملاً اہلِ علم کے درمیان عام ہوگیا- بعد کے اہلِ علم نے اِسی پیٹرن کو معیاری پیٹرن کی حیثیت سے اختیار کرلیا- وہ اِسی انداز میں سوچنے لگے اور اِسی انداز پر کتابیں لکھنے لگے- یہ فقہی پیٹرن اتنا زیادہ عام ہوا کہ بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابوں میں شاید کوئی بھی کتاب اِس سے مستثنی نہیں-
مثلاً ابن تیمیہ (وفات: 1328ء) کی کتاب ’الصارم المسلول على شاتم الرسول ‘اِسی نہج کی ایک کتاب ہے- اِس کتاب میں ابن تیمیہ نے شاتمِ رسول کے لیے قتل کی سزا بتائی ہے۔ صرف اِس لیے کہ فقہا نے بعد کے زمانے میں یہ حکم وضع کیا کہ شاتم کو بطور سزا قتل کیا جائے گا (یُقتل حدًّا)۔ حالاں کہ قرآن میں اس حکم کی کوئی اصل موجود نہیں- ابن تیمیہ اگر کتبِ فقہ سے اوپر اٹھ کر اِس موضوع پر قرآن کی اسپرٹ کے مطابق، اِس مسئلے پر غور کرتے تو وہ لکھتے کہ شاتم کی حیثیت ایک مدعو کی ہے، شاتم کو دعوت دیناہے، نہ کہ قتل کرنا- شاتم بظاہر دشمن نظرآتا ہو ، تب بھی اپنی فطرت کے اعتبار سے، وہ ایک انسان ہے- اگر اس کے سامنے اسلام کا دین حکیمانہ انداز میں پیش کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرے اور اس کی دشمنی دوستی میں تبدیل ہوجائے(
اِس طرح کی ایک مثال شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات: 1762ء) کی مشہور کتاب حجة اللہ البالغة ہے- اِس کتاب کا ٹائٹل بظاہر قرآن کی ایک آیت (
معانی کے بجائے الفاظ کی اہمیت
اسلام کو مبنی بر فارم مذہب (form-based religion) قرار دینے کا دوسرا شدید تر نقصان یہ ہوا کہ اسلام میں عقلی توجیہہ (rational interpretation) کا مزاج ختم ہوگیا- قرآن وحدیث کے مطالعے میں ساری اہمیت لفظی تشریح (literal interpretation) کو دی جانے لگی- بعد کے زمانے میں مسلم اہلِ علم نے جو کتابیں لکھیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی نہج پر لکھی گئیں- اِس معاملے میں غالباً صرف ایک کتاب مقدمة ابن خلدون کا استثنا ہے- اِس منہج فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کےاندرعملاً عقلی غوروفکر مکمل طورپر مفقود ہوگیا-
علامہ انور شاہ کشمیری (وفات: 1934ء) برصغیر ہند کے مشہور عالم ہیں- انھوں نے لکھا ہے کہ حدیث (الحلال بیّن والحرام بیّن) کو سمجھنے کے لیے انھوںنے حدیث کی تمام متداول شرحیں دیکھیں، مگر کسی شرح میں انھیں اس حدیث کی کوئی بامعنی وضاحت نہیں ملی- چناں چہ وہ اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: لم یتحصّل عندنا منہ شیء غیر حلّ الألفاظ (فیض الباری على صحیح البخاری: 153/1) یعنی حلِ الفاظ کے سوا مجھے اِس میں کچھ اور نہیں ملا- علامہ انور شاہ کشمیری کا یہ تبصرہ حدیث کی تمام شرحوں پر صادق آتا ہے-
دو مثالیں
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں- اسلام کی تعلیمات میں ایک مسئلہ وہ ہے جس کو خفین پر مسح کا مسئلہ کہاجاتا ہے، یعنی مسافر آدمی اگر وضو کرکے موزوں کے اوپر مسح کرے تو تین دن تک اُس کو وضو کے موقع پر اپنا پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں- اُس کے لیے صرف موزوں کے اوپر مسح کرنا کافی ہوگا- اِس شرعی مسئلے کے بارے میں امام ابو حنیفہ (وفات:
امام ابو حنیفہ کا یہ قول صرف اِس لیے ہے کہ انھوں نے اِس معاملے میں حدیثِ رسول کو محض الفاظ کے اعتبار سے لیا- انھوں نے اِس حدیث رسول پر عقلی اعتبار سےغور نہیں کیا- اگر وہ اِس حکم پر غور کرتے تو وہ کہتے کہ مسح على الخفین وضو کا بدل نہیں ہے، بلکہ وہ وضو کی ایک علامت ہے- آدمی جب موزے کے اوپر مسح کرتا ہے تو وہ علامتی طور پر وضو کے حکم کی تعمیل کرتا ہے،اور جب وہ علامتی ہے تو یہ بات اضافی ہوجاتی ہے کہ پاؤں کی کس سمت سے مسح کیا جائے-
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال ابن قیم الجوزیہ (وفات: 1350ء) کی مشہور کتاب ’طریق الہجرتین وباب السعادتین‘ ہے- اِس کتاب میں مصنف نے ہجرت کی دو تقسیم کی ہے — ایک، اللہ کی طرف ہجرت، یعنی اللہ کی عبادت اور اللہ سے محبت، وغیرہ- دوسرے، رسول کی طرف ہجرت ، یعنی رسول کی سنت کا اتباع-
اسلام میں ہجرت یا مہاجرت صرف ایک چیز کا نام ہے اور وہ صرف ترک وطن (migration)ہے- مصنف نے دو ہجرت کا تصور صرف ایک لفظی بنیاد پر اخذ کیا ہے، وہ یہ کہ صحیح البخاری کی پہلی روایت جو نیت کے بارے میں ہے، اس میںیہ الفاظ آئے ہیں: فمن کانت ہجرتہ إلى اللہ ورسولہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:
اِس اسلوب کا نقصان یہ ہے کہ اس میں وضوح (clarity) کا خاتمہ ہوگیا ہے- اِس کتاب کو پڑھ کر آدمی صحیح طور پر نہ ہجرت کی حکمت کو سمجھ پاتا ہے اور نہ دوسرے مذکورہ اعمال کی حکمت کو- گویاجدید تعلیم کی اصطلاح میں یہ ایک مائنس مارکنگ (minus marking) کا معاملہ ہے جس میں دونوں قسم کے احکام کی گہری معنویت قاری کے ذہن سے حذف ہوجاتی ہے-
بعد کے زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی اسلوب پر لکھی گئیں- اسلام کی ابتدائی تین نسلوں تک لوگوں کے درمیان قرآنی طرز فکر غالب تھا- بعد کو مسلمانوں میں جو دور آیا، اس میں عام طورپر فقہی اسلوب کا غلبہ ہوگیا- تاہم پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے سے پہلے اِس ذہن کی اشاعت صرف محدود پیمانے پر ہوسکتی تھی، کیوں کہ اُس زمانے میں کتابیں مخطوطات (manuscripts) کی شکل میں ہوتی تھیں اور مخطوطات کے ذریعے کسی فکر کی عمومی اشاعت ممکن نہیں تھی- اٹھارھویں صدی عیسوی میں جب پریس کا زمانہ آیا تو اس کے بعد مسلم اہلِ علم کی کتابیں چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں یہ حال ہوا کہ ہر زبان میں اِس قسم کی مطبوعہ کتابیں اتنا زیادہ عام ہوئیں کہ کوئی بھی مسلمان اُس سے بے خبر نہ رہا-
مذکورہ حدیثِ رسول میں جس فتنۂ دہیماء کا ذکر ہے، وہ اصلاً یہی فتنہ ہے، یعنی قرآنی طرز فکر کا خاتمہ اور فقہی طرزِ فکر کی عمومی اشاعت اور پھر دورِ پریس میں اس کا اتنا زیادہ بڑھ جانا کہ کوئی بھی مسلمان اس کی زد سے محفوظ نہ رہے-
فہمِ دین
دینِ اسلام کی بنیاد قرآن پر ہے- قرآن کا صحیح فہم ہی دین کے صحیح فہم کا ضامن ہے- قرآن کو سمجھنے میں اگر غلطی ہوجائےتو دین کو صحیح طورپر سمجھنا ممکن نہ ہوگا- اصحابِ رسول کو دین ِ اسلام میں ماڈل کی حیثیت حاصل ہے اور اصحابِ رسول کی پوری تربیت اسی قرآن کی بنیاد پر ہوئی تھی-
حضرت جندب بن عبد اللہ البجلی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم، ونحن فتیان حزاورة،فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا(ابن ماجہ،حدیث نمبر:
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ قرآن کے مرکزی مضمون (central theme) کو دریافت کیا جائے- قرآن کے مرکزی مضمون کی دریافت ہی وہ چیز ہے جو پوری قرآن کو بامعنی بناتی ہے- جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد مومن کے ذہن میں ایک ربانی پراسس جاری ہوجاتا ہے- اِس کے بعد ایک تدریجی عمل کے ذریعے اس کے اندر اُس شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے جس کو مومن کہا جاتا ہے-
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ انسان کو خالق کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے آگاہ کیا جائے، تاکہ انسان اس کے مطابق، اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کرسکے- اِس تعمیر ِ شخصیت کا آغاز خدا کی معرفت (realization of God) سے ہوتا ہے-
اِس کے بعد آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو اپنی ذات کی نسبت سے، اللہ کا عبادت گزار بننا ہے، اور دوسرے انسانوں کی نسبت سے، اس کو پُرامن دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے- یہی تین چیزیں ہیں جو ایک انسان کے اندر مومنانہ شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں-
وضوح کا مسئلہ
اسلام کے دورِ اول (قرون مشہود لہا بالخیر) میں دین کا یہی تصور غالب تصور کی حیثیت رکھتا تھا- اس کے بعد دھیرے دھیرے اِس میں کمی (erosion) شروع ہوئی اور پھر وہ وقت آیا جب کہ عمومی طور پر دین کا یہ تصورگم ہوگیا- عمر بن عبد العزیز (وفات: 720ء) غالباً اسلام کے دورِاول کے آخری شخص ہیں-
اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا زمانہ وہ ہے جب کہ لوگ بڑے پیمانے پر اسلام قبول کررہے تھے- اس کے نتیجے میں بیت المال میں آنے والے جزیہ کی رقم بہت کم ہوگئی تھی- چنانچہ خراسان کے ایک گورنر جراح بن عبد اللہ نے عمر بن عبد العزیز سے شکایت کی اور کہا کہ مفتوح ممالک میں لوگ کثرت سے اسلام قبول کررہے ہیں- چوں کہ اسلام لانے کے بعد جزیہ ساقط ہوجاتا ہے، اس لیے لوگوں کے بکثرت اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے مملکت کا مالیہ بہت کم ہوگیا ہے- اگر یہی حالت رہی تو خزانہ خالی ہوجائے گا- عمر بن عبد العزیز نے گورنر کو لکھا — — اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا تھا ، ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا تھا- إن اللہ إنما بعث محمداً صلى اللہ علیہ وسلم داعیاً ولم یبعثہ جابیا (البدایة والنہایة: 9/213)
عمر بن عبد العزیز کےزمانے کے ایک اور گورنر عدی بن ارطاة نے اِس طرح کی شکایت کو لے کر خلیفہ کو لکھا — لوگ بڑی تعداد میںاسلام قبول کررہے ہیں- مجھے ڈر ہے کہ اِس کے نتیجے میں حکومت کے مالیہ میں کمی ہوجائے گی (فإن الناس قد کثروا فی الإسلام، خفت أن یقل الخراج)- اِس کا جواب خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اِن الفاظ میں دیا: واللہ لوددتُ أن الناس کلہم أسلموا، حتى نکون أنا وأنت حرّاثَین نأکل من کسب أیدینا (سیرة عمر بن عبد العزیز، لابن الجوزی:
یہ واقعہ بتاتاہے کہ کلام میں وضوح (clarity) کس طرح پیدا ہوتی ہے- کلام میں وضوح کا راز یہ ہے کہ صاحب کلام کے اندر وہ صفت موجود ہو جس کو قرآن میں فرقان (
اِس اعتبار سے، مذکورہ مثال پر غور کیجئے- اِس معاملے کا ایک پہلو یہ تھا کہ کثرتِ اسلام سے حکومت کا مالیہ کم ہورہا تھا- اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ پیغمبر کا اصل مشن یہی تھا کہ لوگوں کو سچائی ملے- خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے دونوں پہلوؤں کو الگ کرکے دیکھا، اس لیے وہ ایک واضح اور درست رائے تک پہنچ گئے-
اِس کے برعکس، ان کے دونوں گورنروں کا حال یہ تھا کہ وہ اِس صلاحیتِ فرقان کا ثبوت نہ دے سکے۔ اِس لیے انھوں نے ایک ایسی بات کہی جس میں وضوح موجود نہ تھا، اُن کے کلام میں مالیاتی پہلو کی اہمیت موجود تھی، لیکن اُن کے کلام میں دعوتی پہلو کی اہمیت مفقود ہوگئی تھی-
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلام میں کس چیز کو اصل اہمیت حاصل ہے- وہ یہی ہے کہ اپنے اندر مومنانہ شخصیت کی تعمیر کی جائے اور دوسروں کو اللہ کا پیغام پہنچایا جائے- معلوم ریکارڈ کے مطابق، اسلام کی بعد کی تاریخ میں دوبارہ کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو اِس حقیقت کا شعور رکھتا ہو اور کھلے طورپر اس کا اظہار کرے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جس کو حدیث میں فتنۂ دہیما کہاگیا ہے، اس کا زمانہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا- اِس کے بعد وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی کامل صورت میں پوری مسلم امت کے درمیان چھا گیا-
دین کی تعبیر میں اختلاف
فتنہ دہیماء کیا ہے- فتنہ دہیماء کوئی پراسرار چیز نہیں- فتنہ دہیماء دراصل یہ ہے کہ قرآن کا مرکزی مضمون لوگوں پر واضح نہ رہے اور لوگ اپنے اپنے مائنڈ سیٹ (mindset) کے تحت قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر کرنے لگیں- اِس کے نتیجے میں افکار اور آرا کا اختلاف اتنا بڑھ جائے کہ اصل حقیقت اس کے اندر گم ہوجائے اور یہ معلوم کرنا سخت دشوار ہوجائے کہ وہ اصل دین کیا ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کی طرف بھیجا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سےتقریباً ایک سو سال بعد اسلام کی جو علمی تاریخ بنی، اس کے موضوعی مطالعہ (objective study)سے بخوبی طورپر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا- عباسی دور میں یہ ہوا کہ دین کی اسپرٹ کے بجائے اس کے فارم کو لے کر ساری بحث ہونے لگی- فارم میں چوں کہ تعدد (diversity)تھا، اِس لیے فطری طورپر لوگوں کی تعبیرات میں بھی تعدد پیداہوگیا- اس کے بعد متن (text) کو لے کر یہ بحثیں شروع ہوئیں کہ کسی لفظ کا کیا مفہوم ہے- الفاظ میں بھی ہمیشہ ایک سے زیادہ مفہوم کی گنجائش ہوتی ہے،اس لیے یہاں بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ معانی کامفہوم متعین کرنے میں کثرت سے اختلافات پیدا ہوگئے-اِس طرح بعد کے زمانےمیں دین کی مختلف تعبیرات کو لے کر الگ الگ گروہ بننے لگے، یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ میں، امتِ مسلمہ
بیسویں صدی عیسوی میںاِس صورت حال میںمزیداضافہ ہوا- یہ زمانہ وہ تھا جب کہ سیکولر نظام کے غلبے کے تحت مسلمانوں کے درمیان مختلف قسم کی تحریکیں برپا ہوئیں اور پریس کی طاقت کے تحت تیزی سے لوگوں کے درمیان پھیلیں- اِس زمانی اثر کے تحت مسلمانوں کےدرمیان بھی مختلف قسم کی تحریکیں اٹھیں اور مختلف قسم کے نظریات کی اشاعت ہونے لگی- اِس طرح فکری اختلافات کا معاملہ اپنی کمیت کے اعتبار سے، بہت زیادہ بڑھ گیا- بیسویں صدی کے آخر میںفتنہ دہیماء کا کلچر اپنی آخری انتہا تک پہنچ گیا- اب یہ حالت ہوگئی کہ اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہے کہ دینِ اسلام اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے تو وہ یقین کے ساتھ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے گا-
فتنہ دہیما یا ذہنی کنفیوزن کایہ معاملہ اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگر کوئی ایسا لٹریچر تیار ہوجو دینِ اسلام کو دوبارہ اس کے صحیح اسلوب میں بیان کرے، تب بھی عملاً وہ زیادہ مفید نہ ہوگا- صحیح لٹریچر کو عملی طورپر مفید بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پچھلے ہزار سال کے دوران لکھی جانے والی کتابوں کو اسلام کے کتب خانے میں کلاسکل لٹریچر (classical literature) کی حیثیت سے محفوظ کردیا جائے- اسلام کی شرح کے اعتبار سے، اس کی مستند حیثیت باقی نہ رہے-
مقصدِ تخلیق
بعد کے دور میں جو فکری کنفیوزن (intellectual confusion) پیدا ہوا، اس کا اصل سبب یہ تھا کہ تعبیرات کے اختلاف کے درمیان یہ حقیقت گم ہوگئی کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of life) کیا ہے- اِس حالتِ انتشار کو ختم کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان کے مقصد تخلیق کو متعین کیا جائے- مقصد تخلیق کے تعین کے بعد ایسا نہیںہوگا کہ اختلافات کا عملاً خاتمہ ہوجائے- جو واقعہ پیش آئے گا، وہ صرف یہ کہ اختلافات کی حیثیت ثانوی (secondary) بن جائے گی۔ اور اختلافات کا ثانوی بن جانا ہی اِس مسئلے کا عمومی حل ہے- اِس کے بعد فطری طورپر یہ ہوگا کہ لوگوں کا ذہنی فوکس بدل جائے گا- لوگوں کی ساری توجہ انسان کے اصل تخلیقی مقصد پر مرتکز ہوجائے گی-
فوکس کے تعدد سے فکری انتشار پیدا ہوتا ہے اور فوکس کے توحد سے فکری اتفاق وجود میں آتا ہے (5 جنوری 2014)
واپس اوپر جائیں
شرح صدر کا مطلب ہے، سینہ کھول دینا۔ عربی میں کہا جاتا ہے: شرح اللہ صدرہ بقبول الخیر فانشرح (اللہ نے اس کے سینے کو حق کی قبولیت کے لیے کھول دیاتو وہ کھل گیا)۔یہ حق کے متلاشی (seeker) کا معاملہ ہے۔ حق کے متلاشی کو جب اللہ کی توفیق سے حق کی دریافت ہوجائے تو اس وقت اس کے دل کی جو مثبت کیفیت ہوتی ہے، اسی کو شرحِ صدر کہا گیا ہے۔
انسان فطری طور پر حق کا متلاشی (seeker of truth) ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ وہ اپنی اور کائنات کی تخلیق کے راز کو سمجھنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ جستجو جب اس حد کو پہنچے کہ سچائی اس کے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) بن جائے تو اس کے بعد فطری طور پراس کو ایک ذہنی سکون (peace of mind) حاصل ہوجا تا ہے۔ اسی واقعہ کو شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سچائی کو دریافت کرنا انسان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہے۔ سچائی کو دریافت کرنے سے پہلے انسان ایک حیوان کی مانند ہوتا ہے۔ سچائی کو دریافت کرنے کے بعد انسان حقیقی معنوں میں انسان بن جاتا ہے۔ سچائی کی دریافت یہ ہے کہ انسان کو اپنے تمام سوالات کے جواب مل جائیں۔ وہ اپنے وجود کی معنویت سے باخبر ہوجائے۔ وہ جان لے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کی منزل کیا ہے۔ وہ راستہ کون سا ہے، جس کو اختیار کرکے وہ اس مقام پر پہنچ سکتا ہے، جو اس کی حقیقی منزل ہے۔
شرح صدر آدمی کو یقین (conviction) عطا کرتا ہے۔ شرح صدر کے بعد آدمی کنفیوزن (confusion) سے باہر آجاتا ہے۔ اس کی سوچ میں وضوح (clarity) پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کا صحیح تجزیہ (right analysis) کر سکے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ چیزوں کو صحیح زاویۂ نظر (right angle) سے دیکھنے لگے۔ شرح صدر کے بعد آدمی اس قابل ہوجا تا ہے کہ وہ اپنے خالق کو دریافت کر لے، اور اسی کے ساتھ اپنے آپ کو بھی۔
واپس اوپر جائیں
آج کل تربیت کے بہت سے طریقے نکلے ہیں— پانچ دن کا مدرسہ، روزانہ ایک آیت، چالیس دن کا چلہ، پندرہ روزہ تربیتی کورس،وغیرہ۔ ان طریقوں کو ایک لفظ میں ٹکنکل طریقہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ طریقے عوامی طور پر کافی مقبول ہیں۔ لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ سب کے سب غیر مفید ہیں۔
ان تمام طریقوں میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ یہ ہے کہ بظاہر دھوم کے باوجودان طریقوں کے ذریعے کوئی انسان بن کر تیار نہیں ہوتا۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی تربیت کبھی بھی مبنی بر روٹین عمل سے نہیں ہوتی۔ تربیت ہمیشہ ذہنی بیداری (intellectual awakening) کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ کسی ٹکنکل طریقہ کو دہرانے سے۔
تربیت یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقیت (creativity) پیدا کی جائے۔ مسلسل ذہنی خوراک کے ذریعے انسان کو ایسا بنایا جائے کہ وہ خود اپنا مربی بن جائے۔ وہ خود اپنا محاسبہ کرے۔ وہ اپنے اندر اصلاح کا عمل جاری کرے۔ وہ خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کو دریافت کرے۔ وہ خود مسلسل طور پر اپنا نگراںبن جائے۔
پیشہ ورانہ تربیت (professional training) کسی دوسرے شخص کے ذریعے ممکن ہے، لیکن دینی تربیت ایک ایسا کام ہے جو ہر آدمی کو خود کرنا پڑتا ہے۔ ہر آدمی کو خود یہ جاننا پڑتا ہے کہ کس موقعے پر اس کو کیا سیکھنا ہے، کس موقعے سے اس کو کیا تربیتی غذا لینا ہے، کس موقعے پر اس کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تربیت ایک دوامی عمل ہے۔ ہر لمحہ اپنے ساتھ تربیت کا ایک موقع لے کر آتا ہے۔ ہر آدمی کو خود یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ تربیت کے اس موقعے کو پہچانے، اور اس کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال کرے۔ تربیت ایک سیلف ٹریننگ (self-training ) کا معاملہ ہے۔ اپنی تربیت آپ وہی شخص کر سکتا ہے، جس کے اندر دو صفت پیدا ہوجائے— محاسبہ اور تفکیر۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں مسلمان عام طور پرشکایت کی نفسیات میں جی رہے ہیں، وہ دوسری قوموں کو غیر بلکہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کے مقررین ومحررین ہمیشہ دوسروں کے خلاف شکایت کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا جواب ہوگا:
Should you ignore Gujarat 2002, Assam, Muzaffarnagar, etc., or the umpteen fake terror cases/encounters or the daily conspiracies of the Sangh Parivar in so many ways that make life difficult for the Muslim community??
مگر اس معاملے میں قرآن کا جواب مختلف ہوگا، اور وہ یہ کہ آپ کو اِس قسم کے منفی واقعات کو نظر اندازہی کرنا ہے۔ آپ کو اپنے مفروضہ دشمن کی نام نہاد سازشوں کو بھلا کر اپنی زندگی کو مثبت بنیاد پر تعمیر کرنا ہے۔ قرآن میںاس طریقے کو صبر واعراض کہاگیا ہے، اور صبر واعراض کے بغیر کوئی قوم اس دنیا میں ہرگز ترقی نہیں کرسکتی۔
اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَیْتُمُونا(
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (آل عمران: 120) یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو ان کی کوئی سازش تم کو نقصان نہ پہنچائے گی- اس کا مطلب ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق اس دنیا میں اصل مسئلہ سازش (conspiracy) کی موجودگی نہیںہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر صبر اور تقوی کی صفت نہ پائی جائے۔ اس لئے سازش کے خلاف شکایت کرنا مکمل طورپر ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ لوگوں کے اندر صبراور تقوی کی صفت پیدا کی جائے تاکہ سازش کرنے والوں کی سازش عملاً موثر نہ ہوسکے۔\
قرآن کی تعلیمات کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کو یہ بتاتا ہے کہ انسان کے بارے میں خالق کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اس تخلیقی منصوبہ کو جانے، اور اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں کا نقشہ بنائے۔ کوئی فرد یا کوئی قوم اگر اس تخلیقی منصوبے کو نظر انداز کرے اور خود اپنے ذہن کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے تو یقینی طورپر اس دنیا میں اس کا منصوبہ ناکام ہوجائے گا۔ یہی حقیقت پسندی ہے، اور اس دنیا میں حقیقت پسندی ہی سب سےبڑا اصول ہے۔
قرآن میں انسان کی پیدائش کی حکمت کو ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (
چیلنج اور مسابقت کا یہ ماحول لازماًدنیا میں رہے گا۔ اس بنا پر یہاںلازماً ایسا ہوگا کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے غیر مطلوب صورت حال (unwanted situation)کا سامنا پیش آئے گا۔ اس صورت حال کے خلاف شکایت کرنا بھی بے فائدہ ہے، اور اس سے لڑنا بھی بے فائدہ۔ کامیابی کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی حکیمانہ تدبیر کے ساتھ اس کا سامنا کرے۔ خالق کے قائم کردہ نظام کے مطابق اس دنیا میں کامیابی کا یہی واحد اصول ہے۔
اسی حکیمانہ روش کا نام صبر و اعراض ہے۔ صبر واعراض دانش مندانہ طریقِ زندگی کا دوسرا نام ہے۔ صبر واعراض اپنی حقیقت کےاعتبار سے اقدام ہے، اگرچہ نادان لوگ اس کو پسپائی سمجھ لیتے ہیں۔صبر واعراض اعلیٰ انسانی اخلاق کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں— توحید اور عدل۔ توحید کا مطلب ہے خالق کو ہر اعتبار سے ایک ماننا۔ کسی بھی اعتبار سےکسی اور کو اس کا شریک (partner)نہ بنانا۔ عدل کا مطلب ہے معاملات میں انصاف (justice) کا طریقہ اختیار کرنا۔ کسی بھی عذر (excuse) کی بنا پر انصاف کے طریقے سے نہ ہٹنا۔ اس انصاف کا تعلق انسان کے قول سے بھی ہے، اور اس کے عمل سے بھی۔
توحید اور عدل دونوں لازم کے معنی میں ہیں، ان میں سے کوئی بھی متعدی کے معنی میں نہیں۔ یعنی دونوں کا تعلق فرد کے رویہ سے ہے۔ فرد سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل معنوں میں موحّد بنے، اس کی آئڈیالوجی مکمل طور پر توحید (oneness of God) پر مبنی ہو ۔ عدل کا مطلب ہے ایک فرد کا انصاف پر قائم ہونا۔ اس کا قول منصفانہ قول ہو، اس کا عمل تمام تر انصاف پر مبنی ہو۔ توحید کا لفظ انسان کے عقیدہ (belief) کو بتاتا ہے، اور عدل کا لفظ انسان کے سماجی رویہ (social behaviour) کو۔
یہ دونوں الفاظ پیروی کے معنی میں ہیں، نہ کہ نفاذ کے معنی میں۔ جس طرح توحید ذاتی طور پر اختیار کرنے کی چیز ہے، وہ دوسروں کے اوپر نافذ (impose) کرنے کی چیز نہیں۔ یہی معاملہ عدل کا بھی ہے۔ عدل کا مطلب بھی یہی ہے کہ آدمی جن انسانوں کے درمیان رہتا ہے، ان کے ساتھ وہ ہمیشہ انصاف کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر حال میں ناانصافی سے بچے۔
اسلامی مشن کا نشانہ فرد (individual) ہے، نہ کہ نظام (system)۔ اسلام کا مقصد انسان کو اسلامائز کرنا ہے ، نہ کہ سسٹم کو اسلامائز کرنا۔ اس دنیا کے خالق نے انسان کو امتحان (test) کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہر آدمی کا یہ امتحان ہے کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے، صحیح طور پر یا غلط طور پر۔ اگر اسلام کی تعلیمات کو طاقت کے ذریعےبزور نافذ کیا جائے تو امتحان کا ماحول ختم ہوجائے گا۔ امتحان کا مقصد صرف اس وقت پورا ہوسکتا ہے، جب کہ لوگوں کو آزادی ہو، اور یہ دیکھا جاسکے کہ انھوں نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا یا غلط استعمال کیا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے جب انسان کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَة (
خلیفہ ایک انسانی زبان کا لفظ ہے۔ انسانی تصور کے مطابق خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کی وفات کے بعد دوسرا انسان اس کی جگہ آکر اس کی قائم مقامی کرے۔ خلیفہ کا یہ مفہوم انسان کے اعتبار سے ہے۔ جب یہ لفظ اللہ کی نسبت سے بولا جائے تو یہاں موت کے بجائے غیب مراد ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ جو غیب میں ہے اس کی نمائندگی شہود میں کرنا۔اس آیت میں خلافت یا نمائندگی سے مراد سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اللہ کا نائب بن کر زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرے۔ یہ خلافت اعلان حق کے معنی میں ہے، نہ کہ تنفیذ احکام کے معنی میں۔ اس اعلان سے مراد وہی چیز ہے، جس کو فرشتوںنے تحمید اور تقدیس (
کائنات میں انسان ایک خصوصی تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں اللہ کی آیات کی تبیین آفاق و انفس (
تحمید و تقدیس سے مراد محض تعریف نہیں ہے، بلکہ کائنات کی سطح پر حقیقت ربانی کا اعلان کرنا ہے، یعنی تخلیق (creation) کو خالق کے خانے میں ڈالنا۔ براہ راست طور پر یہ کام مومن کو انجام دینا ہے، لیکن بالواسطہ طور پر ساری انسانیت کو اس کے حق میں تائیدی رول ادا کرنا ہے، حتی کہ غیر اہل ایمان کو بھی۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں حضرت ابوبکر کو نماز باجماعت کا امام بنایا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے
کسی مشن کا جو بانی ہوتا ہے، وہ فطری طور پر اس کا قائد (leader) بن جاتا ہے۔ اگر یہ قائد اچانک دنیا سے چلا جائے تو مشن کے اندر ایک ناقابلِ تلافی خلا ہوجائے گا۔ لوگ محسوس کریں گے کہ ٹیم بے قائد (leaderless) ہوگئی ہے۔ اس لیے قائد کوچاہئے کہ وہ اپنے آخری زمانے میں خاموشی کے ساتھ اس پہلو سے ٹیم کی تربیت کرے۔ وہ ٹیم کو اس قابل بنائے کہ قائد جب درمیان سے ہٹ جائے تو ٹیم کی اجتماعیت میں کوئی کمزوری نہ پیدا ہو۔ مشن کی سرگرمیاں قائد کے بعد بھی بدستوراسی طرح جاری رہیں، جس طرح وہ قائد کی موجودگی میں جاری تھیں۔
دانش مند قائد کو چاہئے کہ وہ اپنی موجودگی میں اس اعتبار سے ٹیم کو تیار کرے ۔ وہ ٹیم کو بار بار یہ موقع دے کہ وہ قائد کی مقامی غیر موجودگی کے باوجود مشن کی سرگرمیوں کو انجام دے سکے۔ یہ گویا بالواسطہ قیادت کا طریقہ ہے۔ قائد اگر ٹیم کے درمیان موجود ہو تو وہ براہ راست طور پر اس کی قیادت کرے گا۔ اگر وہ ٹیم کے درمیان موجود نہیں ہے تو گویا کہ وہ بالواسطہ طور پر ٹیم کی قیادت کررہا ہے۔ یہ ایک حکیمانہ طریقہ ہے۔ قائد اور ٹیم دونوں کو اس حکمت سے باخبر ہونا چاہئے۔ تربیت ایک شعوری واقعہ کانام ہے، بے شعوری کے ساتھ کسی ٹیم کی تربیت نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب برطانیہ سے اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
آج میں نے مئی 2015 کا اردو الرسالہ انٹرنیٹ پر پڑھنا شروع کیا تو میری نظرایک مضمون ’’مدعو داعی کے دروازے پر‘‘ (صفحہ
یہ صرف ایک شہر کی بات نہیں ہے۔ یہی معاملہ پوری دنیا کا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمان تقریبا ہر ملک میں بسے ہوئے ہیں۔ ہر جگہ بڑی تعدا د میں سیاح (tourist) آتے ہیں۔ اس طرح ساری دنیا میں مسلمانوں کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنی دعوتی ذمے داری کو اداکریں، اور اللہ کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچائیں۔
اس دعوتی ذمے داری کو ادا کرنے کی سب سے آسان صورت یہ ہے کہ ہر مسلمان قرآن کا ترجمہ اور اسلامی لٹریچر اپنے بیگ میں رکھے۔ ہر بار جب اس کا سامنا کسی انسان سے ہو تو وہ اس کو قرآن کا ترجمہ اور اسلامی لٹریچر پیش کرے۔ اس معاملے میں اسلامی لٹریچر کی حیثیت سپورٹنگ لٹریچر کی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق میں یکسانیت (uniformity) نہیں رکھی گئی ہے۔ بلکہ انسانوں کی تخلیق تفاوت (disparity) کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ یعنی کسی انسان کے اندر ایک خصوصیت، اور دوسرے انسان کے اندر دوسری خصوصیت ۔ اس تفاوت کی ایک حکمت ہے۔ اس تفاوت کا مقصددنیا میں انسان کی اجتماعی زندگی کو باہمی انحصار (interdependence) کے اصول پر قائم کرنا ہے۔ یعنی ایک کا کام دوسرے پر منحصر ہونا۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ اجتماعی زندگی میں مل جل کر رہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے رقیب (rival) نہ بنیں، بلکہ وہ ایک دوسرے کے معاون (supporter) بن کر زندگی گزاریں۔
باہمی انحصار کا یہ معاملہ کسی محدود معنی میں نہیں ہے۔ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔ حتی کہ اس میں سیاست اور حکومت بھی شامل ہے۔ ایسی حالت میں سیاسی اپوزیشن (political opposition) کی پالیسی فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اس کے بجائے جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ سیاسی معاونت (political cooperation) کا مزاج۔ یعنی اگر ایک شخص کو پولیٹیکل اتھاریٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے تو دوسرے لوگ اس سے اس کی اتھاریٹی کو چھیننے کی کوشش نہ کریں، بلکہ اس کی اتھاریٹی کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کا معاملہ کریں، نہ کہ رقابت کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں دعوت الی اللہ کے کام کو تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ تجارت کا یہ معاملہ داعی اور مدعو کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ تشبیہ نہایت بامعنی ہے۔ تجارت کا اصول یہ ہے کہ تاجر اپنے گاہک کے ساتھ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) روش اختیار کرے۔ ٹھیک یہی اصول کامیاب دعوت الی اللہ کا بھی ہے۔ حقیقی داعی وہ ہے جو اپنے مدعو کے ساتھ مدعو فرینڈلی روش اختیار کرے۔دعوت صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ دعوت ایک خیر خواہانہ عمل کا نام ہے۔ دعوت کی کامیابی کے لئے لازمی طور پر ضروری ہے کہ داعی اپنے مدعو کے لئے یک طرفہ طور پر خیرخواہ ہو۔ وہ شکایت کے اسباب کے باوجود کامل طور پر بے شکایت ہوجائے۔
دعوت الی اللہ اہل ایمان کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ دعوت الی اللہ گویا خاتم النبیین کی جانشینی ہے۔دعوت الی اللہ کا کا م کیے بغیر کسی مومن کے لیے پیغمبر کا امتی ہونا مشتبہ ہوجاتا ہے۔دعوت الی اللہ کا مطلب پیغمبر کی غیر موجودگی میں پیغمبر کی ذمہ داری کو نیابتاً ادا کرنا ہے۔ یہ بعد کی انسانی نسلوں کے لیے پیغمبرانہ ذمے داری کی ادائیگی ہے۔یہ گویا پیغمبر کے بعد پیغمبر کی جانشینی ہے۔
پیغمبر نے دعوت کا کام کامل نصح (خیرخواہی) کے ساتھ انجام دیا۔ یہی بعد کے زمانے کے داعیوں کو کرنا ہے۔ دعوت کا کام درست طور پر اسی وقت انجام دیا جاسکتا ہے، جب کہ داعی کے اندر مدعو کے لیے خیرخواہی کی اسپرٹ پائی جاتی ہو۔ داعی کے اندر اگر مدعو کے لیے خیرخواہی موجود نہ ہو تو وہ مدعو کی نظر میں ایک پروفیشن بن جائے گا۔ اور پروفیشن کے طور پر کیا ہوا کام کبھی مدعو کے لیے موثر (effective) نہیں ہوسکتا۔ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ داعی کامل طور پر بے شکایت ہو۔ اس کے دل میں مدعو کے لیے منفی جذبات نہ پائے جاتے ہوں۔ مدعو کی طرف سے اگر کوئی تکلیف یا دل آزاری کا معاملہ پیش آئے تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ یک طرفہ طور پر مدعو کے لیے اپنی خیرخواہی کو برقرار رکھے۔ داعی کو اپنے دعوتی عمل کا اجر اللہ سے لینا ہے نہ کہ انسان سے۔ داعی کے اندر اگر یہ ذہن موجود ہو تو مدعو کے بارے میں اس کی خیرخواہی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک شاعر نے لکھا:
ہے داد کے قابل میری تجرید تصور کرتا ہوں تجھے غیر کی محفل سے جدا یاد
تجریدِ تصور کا مطلب ہے فکری یکسوئی(detached thinking)۔ یعنی غیر متعلق باتوں سے اپنے کو الگ کرکے صرف مطلوب بات پر دھیان دینا۔ یہ انسان کی ایک امتیازی صفت ہے۔ یہ صفت جس طرح دنیا کے معاملے میں مطلوب ہے، اسی طرح وہ دین کے معاملے میںبھی صحتِ فکر کے لیے مطلوب ہے۔ جو شخص اس صفت کا حامل ہو ، اس کے اندر وہ چیز پائی جائے گی جس کو صحتِ فکر کہا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ معاشرہ میں جس بات کا چرچا ہو، لوگ اسی کو لے کر اظہارِ رائے کرنے لگتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے اندر متاثر ذہن بنتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں غزوات پیش آئے۔ اس لیے معاشرے میںغزوات کا چرچا ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں سیرت پر جو کتابیں لکھی گئیں وہ سب غزواتی پیٹرن پر لکھی گئیں۔ اس کے بعد جب ماس کنورژن (mass conversion) ہوا تو لوگ دینی مسائل جاننے کی کوشش کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرے میں مسائل کا چرچا کرنے لگا۔ چناں چہ فقہ کی کتابیں مسائل کے پیٹرن میں لکھی جانے لگیں۔ اس کے بعد سیاسی حکومتوں کا دور شروع ہوا تومعاشرے میں سیاست کا چرچا ہونے لگا۔ اب تاریخ کی کتابیں سیاسی پیٹرن پر لکھی جانے لگیں۔ اس کے بعد جب نوآبادیات کا دور آیا تو مسلمانوں کے اندر قابض طاقتوں کے خلاف چرچا ہونے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جو کتابیں لکھی گئیں، وہ سب رد عمل یا منفی سوچ کے پیٹرن پر لکھی گئیں۔ موجودہ زمانہ میڈیا کا زمانہ ہے۔ میڈیا ہاٹ نیوز (hot news) کی انڈسٹری ہے۔ اس لیے اب ہر مجلس میں اور ہر اجتماع میں یہی پیٹرن رائج ہوگیا ہے۔
ایسی حالت میں کسی مومن کے اندر صحیح اسلامی فکر کا بننا صرف اس وقت ممکن ہے جب کہ اس کے اندر تجریدی تصور کی صلاحیت ہو۔ وہ گردو پیش کے چرچا سے اوپر اٹھ کر خود اپنی سوچ کے تحت اپنی رائے بنائے۔ وہ اپنے اندر، غیر متاثر ذہن کی تشکیل کرے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانہ میں نظری اور عملی اعتبار سے بہت سی تبدیلیاں وقوع میں آئی ہیں۔ اس بنا پر موجودہ زمانہ کو نیا زمانہ کہاجاتا ہے- بیسویں صدی اس نئے زمانہ کا نقطۂ انتہا ہے۔ اس زمانہ میں ایک نیا ظاہرہ پیدا ہوا جس کو جدید ذہن (modern mind) کہاجاتا ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر یہ ضرورت پیش آئی کہ جدید ذہن کے لئے اسلام کو قابل فہم (understandable) بنایا جائے۔اس مقصد کے لیے مسلم اہلِ علم نے مختلف زبانوں میں کئی کتابیں تیار کیں۔انہی میں سے ایک مشہور کتاب ڈاکٹر محمد اقبال (وفات: 1938) کی ہے، جو خاص اسی موضوع پر لکھی گئی ہے- یہ کتاب اس موضوع پر مصنف کے انگریزی خطبات کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
مگر عجیب بات ہے کہ یہ کتاب اپنے قاری کو کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں دیتی- کتاب کے مضامین اتنے زیادہ غیر واضح ہیں کہ کوئی شخص یہ نہیں بتاسکتا کہ اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے- حتى کہ کتاب کا ٹائٹل (The Reconstruction of Religious Thought in Islam) خود بھی ایک غیر واضح ٹائٹل ہے- اردو میں اس کا ترجمہ یہ ہوگا — الہیاتی افکار کی تشکیل جدید۔ مگر یہ ٹائٹل نہ انگریزی میں قابلِ فہم ہے اور نہ اردو ترجمہ میں قابلِ فہم۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی مذکورہ کتاب میں یہ کنفیوزن کیوں پایا جاتا ہے۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ بلکہ اس کا ایک معلوم سبب ہے۔ اس معلوم سبب کو لے کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آسانی کے ساتھ مذکورہ کتاب کے مندرجات میں کنفیوزن کا سبب دریافت کیا جاسکتا ہے-حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال اصلاً ایک فلسفی آدمی ـتھے۔ انھوں نے قدیم فلسفہ کو بطور سبجیکٹ پڑھا تھا اور اس کا مطالعہ کیا تھا۔ اس تعلیمی پس منظر کی بنا پر ان کے ذہن میں جو ماڈل بنا وہ فلسفیانہ ماڈل تھا۔ وہ چیزوں کو اپنے اسی فلسفیانہ ماڈل کی روشنی میں دیکھتے تھے۔ وہ اپنے مخصوص شاکلہ کی بنا پر ہر چیز کو اسی فلسفیانہ ماڈل میں ڈھالتے رہے۔ مگر فلسفیانہ ماڈل ایک انسان ساز (man-made) ماڈل ہے جب کہ اسلام اس معنی میں کوئی فلسفیانہ مذہب نہیں۔ اسلام فطرت خداوندی پر مبنی ایک مذہب ہے۔
اسلام کی آئیڈیالوجی اور اس کی تعلیمات فطرت خداوندی کے اصولوں پر مبنی ہیں- اس حقیقت کا اعلان قرآن میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے: فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا (
ڈاکٹر محمد اقبال کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فلسفیانہ ماڈل کو شعوری یا غیر شعوری طورپر معیاری ماڈل سمجھ لیا اوراسی فلسفیانہ ماڈل کے مطابق اسلام کی تشریح کرنے لگے۔ چونکہ فطرت کا ماڈل الگ ہے اور فلسفہ کا ماڈل الگ۔ اس فرق کی بنا پر اقبال کے بیانات میں کنفیوزن پیدا ہوگیا۔
اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال نے قرآن کے جنت اور جہنم کے تصور کو واضح کرنے کی کوشش کی تو جنت اور جہنم کو اپنے اختیار کردہ فلسفیانہ ماڈل میں ڈھال دیا۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے کہ جنت اورجہنم احوال ہیں، وہ مقامات نہیں:\
Heaven and Hell are states, not localities.
اقبال کے اس بیان میں ایک فطری حقیقت کو فلسفیانہ ماڈل میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک عدم مطابقت کا معاملہ ہے۔ اسی عدم مطابقت نے اقبال کے بیان میں کنفیوزن پیدا کردیا۔
اِس نوعیت کی ایک اور مثال حال میں سامنے آئی ہے۔ ایک معاصر مسلم دانشور جنھوں نے اعلی تعلیم حاصل کی، وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بخوبی دستگاہ رکھتے ہیں- انھوں نے اپنے بیان کے مطابق ستر سال سے زیادہ مد\ت تک اسلامیات کا مطالعہ کیا ہے۔ایک سیمینار میں انھوں نے اِس موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا۔ یہ مقالہ ایک مسلم میگزین میں چھپا ہے۔ اور اس کا عنوان یہ ہے:
علم: اسلامائزیشن سے تخلیق کی طرف
یہ عنوان بالکل غیر واضح عنوان ہے۔ اسی طرح اِس مقالے کے بیانات میں بھی وضوح (clarity) موجود نہیں۔ میںنے کئی تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کا مقالہ پڑھوایا اور پوچھا کہ اس کا خلاصہ کیا ہے۔ ہر ایک کا جواب یہ تھا کہ ہم کو اِس میں کنفیوزن کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔
مصنف نے اپنے اس مقالے میں کہا ہے کہ آج ہم کو تخلیق ِ علم (knowledge creation) کی ضرورت ہے۔ لیکن پورے مقالے میں انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے نزدیک تخلیق علم کی تعریف (definition) کیا ہے۔ قاری پورے مقالے کو اس طرح پڑھتا ہے کہ اس میں ’’تخلیق علم‘‘ کا لفظ تو بار بار استعمال ہوا ہے، لیکن قاری کو نہیں معلوم کہ اس اصطلاح کا واقعی مفہوم کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تخلیق علم کوئی معروف اصطلاح نہیں۔ جاپان کے ایک شخص نے غالباً پہلی بار تخلیق ِ علم کی اصطلاح وضع کی۔ وہ اس کو کمپنی کے معاملات کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، لیکن خود اس جاپانی شخص کے ذہن میں بظاہر اس اصطلاح کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا۔ چنانچہ یہ اصطلاح اپنے عدم وضوع کی بنا پر عمومی طورپر مقبول نہ ہوسکی۔اس موضوع پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی جدید وضاحت کے لیے جو کام مطلوب ہے، وہ نہ ’’ری کانسٹرکشن‘‘کا کام ہے اور نہ ’’تخلیقِ علم‘‘ کا کام۔ یہ وہی کام ہے جس کے لیے حدیث میں اجتہاد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جدید ذہن کو ایڈریس کرنے کے لیے آج جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہی اجتہاد ہے، نہ کہ ری کانسٹرکشن اور تخلیق ِ علم۔
اجتہاد کیا ہے۔ اجتہاد دراصل تطبیقِ نو (reapplication) کا دوسرا نام ہے۔ قرآن اور حدیث میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے زمانی ہیں، لیکن تطبیق کے اعتبار سے وہ ابدی ہیں۔ اِس حقیقت کو دریافت کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ اِس معاملے کی وضاحت کے لیے یہاں قرآن سے کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں:
1۔ قرآن کی سورہ العنکبوت میں ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے:قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ (
قرآن کی اِس آیت میں ’’سیر فی الأرض‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ آیت ساتویں صدی کے نصف اول میں اتری، جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ نہیں آیا تھا۔اِسی طرح اس وقت قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کے بارے میں کتابیں مرتب نہیں ہوئی تھیں۔ اب یہ سب کچھ ہوچکا ہے۔ اِس لیے قرآن کی اِس آیت کی تفسیر اِس طرح کی جائے گی کہ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرو اور اس سے سبق حاصل کرو۔ اِس مطالعے سے معلوم ہوگا کہ ہر قوم عروج کے بعد زوال کا شکار ہوتی ہے، یہ تاریخی ظاہرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تاریخ کو کنٹرول کرنے والا انسان نہیں، بلکہ ایک اور بالاتر عامل ہے جو انسانی تاریخ کو کنٹرول کررہا ہے۔
2۔ اِسی طرح قرآن کی ایک اور آیت یہ ہے: وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً ۚ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (
قرآن کی اِس آیت میں جو اصول اختیار کیاگیا ہے، اس کا ایک مفہوم وہ ہے جو آیت کے زمانہ نزول کے اعتبار سے ہے۔ اِسی کے ساتھ اِس آیت کا ایک وسیع تر مفہوم بھی ہے۔ اِس وسیع تر مفہوم کی روشنی میں آیت کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن کی اِس آیت کے الفاظ موجودہ حالات کے اعتبار سے پوری طرح قابلِ انطباق (applicable) ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ کہ آیت میں خیل، بغال، حمیر کے الفاظ علامتی طورپر قدیم زمانے کے ورلڈآف نیچر (world of nature) کو بتاتے ہیں۔ اِسی طرح یخلق مالا تعلمون کے الفاظ بعد کے زمانے میں ظہور میں آنے والے ورلڈ آف ٹکنالوجی (world of technology) کو بتارہے ہیں۔
3۔ موجودہ زمانہ میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان میں متفقہ طور پر، سب سے بڑا مسئلہ وہ ہے جس کو ماحولیاتی مسئلہ (ecological problem) کہا جاتا ہے۔ بے شمار دماغ اس مسئلہ پر کام کررہے ہیں۔ مگر ابھی تک اس کا حل دریافت نہ ہوسکا- قرآن میں اس سلسلہ میں ایک آیت موجود ہے جو بتاتی ہے کہ اس معاملہ میں صحیح طرز فکر (right way of thinking)کیا ہے-
قرآن کی سورہ الروم میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُم بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ(
اِس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دورِ صنعت کے اس ظاہرہ کا ذکر ہے جس کو صنعتی کثافت (industrial pollution) کہاجاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ فضا اور سمندر دونوں مہلک آلودگی (harmful pollution) کا کیس بن گئے ہیں۔
قرآن کی آیت کے مطابق یہ مسئلہ تمام تر انسانی ساخت کا مسئلہ (man-made problem) ہے- لعلہم یرجعون کا لفظ بتاتا ہے کہ اس مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ انسان فطری طرز زندگی (natural lifestyle) کی طرف واپس جائے جس کو چھوڑنے کی وجہ سے یہ مسئلے پیدا ہوئے ہیں۔
اجتہاد ایک ضرورت
اجتہاد اصلاً کوئی زمانی ضرورت نہیں، بلکہ وہ ایک فطری ضرورت ہے۔ چنانچہ خود رسول اور اصحابِ رسول کے زمانہ میں بار بار اجتہاد کا عمل کیا گیا۔ اسی طرح آج بھی اجتہاد کیا جائے گا- اجتہاد کے عمل کے لئے نہ کسی نئی اصطلاح کی ضرورت ہے اور نہ کسی نئے منہج کووضع کرنے کی ضرورت۔
موجودہ زمانہ میں اسلام کے موضوع پر بڑی تعداد میں کتابیں لکھی اور چھاپی گئ ہیں۔ ان میں سے جو کتاب کسی معلوماتی موضوع پر ہوتی ہے وہ تو قاری کے لئے قابلِ فہم ہوتی ہے۔ لیکن جو کتابیں اسلام کی توضیح وتعبیر کے مو ضوع پر لکھی گئی ہیں وہ تقریباً سب کی سب کنفیوزن کا شکار ہیں۔ قاری ان کتابوں کو پڑھتا ہے لیکن وہ اس طرح ان کو ختم کرتا ہے کہ ان کے ذریعہ قاری کو کوئی بصیرت حاصل نہیںہوتی-
اس کنفیوزن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تمام حضرات اپنے تجزیہ (analysis) میں ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنے کے اصول (principle of differentiation) نہیں جانتے ہیں- وہ اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر سوچتے ہیں اور اس فرق کو ملحوظ رکھے بغیر لکھتے ہیں۔ اس اصول کو قرآن میں فرقان (
مثلاً تفکیر کے موضوع پر کلام کرتے ہوئے مبنی بر قلب مراقبہ (heart-based meditation) اور مبنی بر ذہن تفکیر (mind-based contemplation) کے فرق کو نہ سمجھنا- فرد (individual) کی اصلاح اور سماجی نظام (social system)کی تعمیر کے درمیان فرق کو ملحوظ نہ رکھنا۔ مسائل دنیا اور مسائل آخرت کے تقاضوں کے درمیان جو نوعی فرق ہے، اس کو سمجھے بغیر اس موضوع پر اظہار خیال کرنا۔ طبیعیاتی سائنس کے موضوع اور انسانیات (humanities)کے موضوع کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اس سے گہری واقفیت کے بغیر ان موضوعات پر لکھنا اور بولنا، وغیرہ-
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ فرقان (principle of differentiation) کو نہ جانتے ہوں ان کو صرف معلوماتی موضوع پر لکھنا اور بولنا چاہئے- ان کو ہر گز تفکیری موضوع پر کلام نہیں کرنا چاہئے- ایسا کرکے وہ اپنے قاری کو صرف کنفیوزن دیں گے وہ اپنے قاری کو واضح رہنمائی دینے سے قاصر رہیں گے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مسلم دانشور کا مسئلہ بھی وہی ہے جو ان سے پہلے ڈاکٹرمحمداقبال کا مسئلہ تھا۔ دونوں ایک ہی مسئلہ کا شکار ہوئے۔ یعنی اپنے خود ساختہ ماڈل کی بنا پر مسئلہ کو غلط رخ (wrong angle) سےدیکھنا۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے انسان ساز فلسفیانہ ماڈل کو لے کر اسلام کو سمجھنا چاہا جو اصلاً فطرت خداوندی پر مبنی تھا- اس عدم مطابقت کی بنا پر ڈاکٹر محمد اقبال اس مسئلہ کی صحیح تشریح وتعبیر کرنے میں ناکام رہے۔
مذکورہ مسلم دانشور کا کیس یہ ہے کہ وہ اصلاً علم اقتصادیات (economics) کے آدمی ہیں۔ اقتصادیات کا علم انسانی زندگی کے نظامی پہلو (infrastructural aspect) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دوبارہ ایک انسان ساز علم ہے۔ اس بنا پر مذکورہ مسلم دانشور کا ذہن مبنی بر نظام ذہن بن گیا۔وہ اسلام کی تعبیر اپنےنظامی ماڈل کی روشنی میں کرنے لگے۔ جب کہ اسلام کا ماڈل مختلف تھا- علم الاقتصاد کے تحت جو ماڈل بنتا ہے، وہ مبنی بر نظام ماڈل (system-based model) ہے، جب کہ اسلام ایک مبنی برفرد مذہب ہے۔ اسلام کا ماڈل مبنی بر فرد ماڈل (individual-based model) ہے- اس عدم مطابقت کی بنا پر مذکورہ مسلم دانشور اس مسئلہ کی صحیح تعبیر وتشریح میں ناکام رہے۔
اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ مذکورہ مسلم دانشورنے لکھا ہے کہ نیورو سائنس (neuroscience) کے نئے ابھرتے ہوئے ماہرین شاید اس معاملہ میں ہماری مدد کرسکیں۔ مگر یہ بات زیر بحث مسئلہ سے بالکل غیر متعلق (irrelevant) ہے- نیورو سائنس کیا ہے- نیورو سائنس انسان کےاعصابی نظام کے سائنسی مطالعہ کا نام ہے:
"Neuroscience is the scientific study of the nervous system"
زیر بحث مسئلہ کا تعلق مسائل حیات کی توجیہہ (explanation) سے ہے۔ اور یہ ایک معلوم بات ہےکہ سائنس کا کام توجیہہ کرنا نہیں ہے بلکہ صرف فطرت کے عمل کو دریافت کرنا ہے:
Neuroscience deals with the functioning of the mind.
زیر بحث مسئلہ سے انسانی ذہن کا تعلق واضح ہے لیکن یہاں جو مسئلہ ہے وہ مائنڈ کے فکری انطباق کا مسئلہ ہے نہ یہ کہ ذہن فزیکل معنوں میں کس طرح عمل کرتاہے۔
It is a question of the application of the mind, not the functioning of the mind.
مذکورہ مسلم دانشورکے مقالہ میں کنفیوزن کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تعلیم کے زمانے میں موصوف کا سبجیکٹ معاشیات (economics)تھا۔ انھوں نے اسی سبجکٹ میں اعلی تعلیم حاصل کی اور اپنی پوری زندگی اسی سبجکٹ کا مطالعہ کرتے رہے۔ جیسا کہ معلوم ہے معاشیات ایک ایسا سبجکٹ ہے جس میں نظام (system)کے پہلو سے زندگی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ ہوا کہ موصوف کے ذہن میں نظامی ماڈل (system-based model) بن گیا۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر نظامی ماڈل کو معیاری ماڈل سمجھنے لگے۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے اسی ذاتی شاکلہ کی بنیاد پر اسلام کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے چاہا کہ وہ اسلام کو ایک نظامی ماڈل (system-based model) میں ڈھال دیں۔مگر اصل حقیقت یہ تھی کہ اسلام ایک مبنی بر فرد ماڈل تھا، نہ کہ مبنی بر نظام ماڈل۔ اس فرق کو نہ جاننے کی بنا پر ان کے افکار میں کنفیوزن پیدا ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں
ونسٹن چرچل (Winston Churchill) قدیم برٹش ایمپائر کے وزیراعظم تھے، جس کا ایک حصہ انڈیا تھا۔ اس زمانے میں انڈیا میں فریڈم موومنٹ چل رہی تھی۔ چرچل نے انڈیا کو فریڈم دینے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ میں برٹش گورنمنٹ کا فرسٹ منسٹر اس لیے نہیں بنا ہوں کہ میں برٹش ایمپائر کے خاتمے کی صدارت کروں:
I have not become the king's First Minister in order to preside over the liquidation of the British Empire.
ونسٹن چرچل برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی ( Conservative Party) کے لیڈر تھے۔ برطانیہ کی ایک اور پارٹی تھی، لیبر پارٹی (Labour Party)۔ اس کے لیڈر کلیمنٹ اٹلی (Clement Attlee) تھے۔ 1945 کے الیکشن میں لیبر پارٹی جیت گئی، اور اس کے لیڈر کلیمنٹ اٹلی برطانیہ کے پرائم منسٹر بنے۔ ان کی حکومت کے تحت 1947 کو برطانیہ نے انڈیا کو آزادی دے دی۔
Today, India is free
ونسٹن چرچل اس معاملے میں صرف ایک بات جانتے تھے۔ انڈیا پر برٹش رول کو برقرار رکھنا۔ لیکن کلیمنٹ اٹلی نے دیکھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں، اور انڈیا پر برٹش رول قائم نہیں رہ سکتا۔ چناں چہ انھوں نے اس معاملے میں ایک متبادل (alternative) تلاش کیا۔ وہ یہ کہ انڈیا کو پولٹیکل آزادی دینا اور اپنے اقتصادی مفادات (economic interest) کو باقی رکھنا۔ چناںچہ ایسا ہی ہوا۔ 1947 میں برطانیہ نے انڈیا کو سیاسی آزادی دے دی، اور اس کے بعد لمبے عرصے تک وہ انڈیا کی اقتصادیات کا سب سے بڑا پارٹنر بنا رہا۔
1947 سے پہلے انڈیا میں جو سیاسی حالات بنے تھے، وہ بتارہے تھے کہ اب نوآبادیاتی نظام کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اب انڈیا میں برٹش حکومت جاری نہیں رہ سکتی۔ ان حالات میں برطانیہ کے مدبرین نے یہ دریافت کیا کہ یہاں ہمارے لیے ایک متبادل (alternative) موجود ہے۔ اور وہ ہے— انڈیا کو سیاسی آزادی دینا، اور اس کے بعد انڈیا میں اپنے اقتصادی مفادات کو محفوظ رکھنا۔ چناں چہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ 1947 کے بعد لمبی مدت تک برطانیہ کے اقتصادی مفادات بڑی حد تک محفوظ رہے۔ برطانیہ نے جو کچھ سیاسی میدان میں کھویا تھا، اس کو دوبارہ اس نے اقتصادی میدان میں حاصل کرلیا۔یہی دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔
جب بھی آپ دیکھیں کہ ایک فارمولا (formula )کام نہیں کر رہا ہے تو سوچئے، بہت جلد آپ دریافت کریں گے کہ یہاں ایک متبادل فارمولا (alternative formula) موجود ہے، جس کے ذریعے آپ اپنی کامیابی کا تسلسل قائم رکھ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
اسٹیٹس مین (یکم ستمبر 1967) کی ایک رپورٹ کو بہت کم اخباروں نے اہمیت دی- یہ ایک امریکی خاتون ڈاکٹر سارہ سی- گڈ شنسکی (Sarah C. Gudschinsky)کی ہندستان میں آمد کی اطلاع تھی- دراصل بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ مشنری خاتون کس عظیم مگر خاموش ادارہ کی رکن ہیں اور کس خاص مقصد کے تحت ہندستان آئی ہیں-
ڈاکٹر گڈشنسکی اوکلاہوما یونیورسٹی میں سمرانسٹی ٹیوٹ آف لنگسٹکس (اختصار SIL)کی فیکلٹی کی ممبر ہیں- اس مسیحی ادارہ نے تبلیغ کی دنیا میں ایک بالکل نیا میدان کھولا ہے— وہ اپنے کام کا آغاز ان قدیم قبائل میں کرتے ہیں جو نہایت پس ماندہ ہیں اور جن کی بولیاں ابھی تک پڑھنے لکھنے کی زبانیں نہیں بنی ہیں-
یہ نہایت متمدن اوراعلی تعلیم یافتہ لوگ دنیا کی انتہائی غیر مہذب قوموں میں جاکر برسہا برس رہتے ہیں، ان کی بولیوں کوسیکھتے ہیں،پھر ان کے حروف تہجی بناتے ہیں، قواعد مرتب کرتے ہیں، نصابی کتابیں لکھتے ہیں، پریس قائم کرتے ہیں اور اس طرح ان کی زبانوں کو تحریری زبان بنا کر اور ان میں کتابیں تیار کرکے انھیں پڑھانا شروع کرتے ہیں- ان کی نصابی کتب میں بائبل کاترجمہ بھی ضروری جزو ہوتا ہے-
یہ ان کی خدمت کے لئے ان کی بستیوں میں جدید طرز کے اسپتال کھولتے ہیں- اس تعلیم اور اخلاقی اثر کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب یہ قبائل تعلیم یافتہ ہوجاتے ہیں تووہ صرف تعلیم یافتہ نہیں ہوتے بلکہ اسی کے ساتھ عیسائی مذہب کو بھی قبول کرچکے ہوتے ہیں-
اس ادارہ کا سب سے زیادہ نمایاں کام پیرو کے وسیع جنگلوں میںہورہا ہے جہاں کثرت سے قدیم وحشی قبائل بستے ہیں اور جن کے درمیان رابطہ کا ذریعہ صرف ہوائی جہاز اورکشتیاں ہیں- یہ مسیحی مبلّغین ان لق ودق جنگلوں کے اوپر ہوائی جہاز سے اڑتےہیں اور ریڈیو اور ٹرانسمیٹر لے کر عین وحشی قبائل کی بستیوں میں اتر جاتے ہیں جو نہ صرف مہذب انسانوں کے جانی دشمن ہیں بلکہ ان کی بولیاں اتنی مختلف ہیں کہ مہینوں تک ان کو سیکھنے کی صبر آزما جدوجہد کئے بغیر ان سے کوئی بات بھی نہیں کی جاسکتی-
یہ جدوجہد تقریباً آدھی صدی سے جاری ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان گھنے جنگلوں کے اندر اسکول، اسپتال، گرجا ، ہوائی میدان، ریڈیو اسٹیشن اور نہیں معلوم کیا کیا قائم ہیں اور تیرہ مختلف زبانیں بولنے والے وحشی قبائل کی بہت بڑی تعداد مہذب اور تعلیم یافتہ ہو کر عیسائی ہوچکی ہے- یہ کام جو ابتداء ً شمالی امریکہ کے جنگلوں میں شروع کیا گیا تھا، اب دنیا کے اٹھارہ ملکوں میں پھیلا ہوا ہے-ہندستان میں بھی مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش میں دو ایسے ادارے قائم کئے جارہے ہیں اور یہی اس وقت ڈاکٹر گڈ شنسکی کی یہاں آمد کا باعث ہے-
غور کیجئے— آج کی زندہ قومیں کتنی اونچی سطح سے کام کررہی ہیں- انھوں نے اپنے عمل اور جدوجہد کے ذریعہ دنیا سے زندگی کا حق وصول کیا ہے- اس کے برعکس ہمارا کیا حال ہے- ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ سطحی تدبیروں اور جذباتی تقریروں سے سارا میدان فتح ہوجائے گا-
(ہفت روزہ الجمعیة،
واپس اوپر جائیں
1- چھٹمل پور(سہارن پور) میں 5 مئی 2015 کوایک شادی کے موقع پرصدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچر کو لوگوں کے درمیان تقسم کیا گیا۔ اس موقع پر ضلع میرٹھ کے پولیس آفیسر بی آر پندیر (B. R. Pundeer) موجود تھے۔انھوں نےیہ دعوتی لٹریچر خود بھی لیا اور دوسروں کو دیا-اس دعوتی لٹریچر کو سہارن پور کی سی پی ایس ٹیم نے اسپانسر کیا تھا-(ڈاکٹرمحمد اسلم خان، سہارنپور)۔
2- تمل ناڈو کے نیل گری ضلع کے کُنّورمیں ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ (حیدر آباد) کی طرف سے
3- یونیسیف (UNICEF) کی چائلڈ پروٹیکشن اسپیشلسٹ مزڈورا(Dora Giusti) نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔یہ انٹرویو بچوں کے خلاف ہونے والے تشددکی روک تھام کے سلسلے میں تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس سلسلے میں انھیں مفید مشوروں سے نوازا۔یہ ملاقات 6 جون 2015 کو ہوئی۔ آخر میں انھیں انگلش ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ بطور تحفہ دیا گیا، جسے انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔
4- الہ آباد میں ترجمہ قرآن ڈسٹریبیوشن کا کام اکتوبر 2013 سے ہورہا ہے۔بطور خاص تعلیم یافتہ افراد کے اجتماعات میں قرآن ڈسٹریبوشن کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ مثلاً غوث گرل میموریل کالج اور حمیدیہ گرلس ڈگری کالج میں الوداعیہ تقریب کے موقع پر طلباءنے اپنے اساتذہ اوراپنے سینئرس کو ترجمہ قرآن کے نسخے ہدیہ کیے- اسی طرح خواتین کے اجتماع کے موقع پر قرآن کے نسخے تقسیم کیے گئے۔ اہل حدیث کے ایک پروگرام میں غیر مسلموں کے درمیان ترجمہ قرآن تقسیم کیا گیا، تمام حضرات نے شکریہ کے ساتھ اس کو قبول کیااور اپنی خوشی کا اظہار کیا- (محمدابرار نرالا، الہ آباد)
5- الحمدللہ الرسالہ مشن کا دعوتی کام برما میں کافی عرصہ سے ہورہا ہے۔جناب عبد العزیز صاحب اور مولانا شوکت صاحب ایک ٹیم کے ساتھ مل کر یہ دعوتی کام انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوںصدر اسلامی مرکز کی کتاب ’احیاء اسلام‘ کا برمی زبان میں ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ یہ ترجمہ مسٹر جاوید انصاری نے کیا ہے۔اس کے علاوہ پچھلے تین سال سے مستقل طور پرالرسالہ کی کاپیاں وہاں جارہی ہیں-
6- یروشلم (اسرائیل) اور اس کے آس پاس کے علاقہ میں پوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کے درمیان دعوتی کام کافی منظم انداز میں ہورہا ہے-چند فلسطینی نوجوانوں نے ’دار السلام برائے تعارف اسلام‘ (DAR AS-SALAM FOR INTRODUCING ISLAM)کے نام سے2013 میں ایک آرگنائزیشن قائم کیا، اور اس کے تحت یہ لوگ اسرائیل میں دعوت کا کام پر امن انداز میں کر رہے ہیں۔یہ لوگ سیاحوں کے درمیان صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمۂ قرآن اوران کی کتاب ’وہاٹ از اسلام‘ تقسیم کرتے ہیں-
7- ذیل میں چند دعوتی تجربات و تاثرات دیئے جارہے ہیں:
آپ کی کتابوں کے مطالعے سے مجھے کافی فائدہ ہوا ہے- ایک وقت جب کہ میں پریشانیوں میں مبتلا تھا، آپ کی کتاب ’رازِ حیات‘ کے مطالعہ سے مجھے کافی ہمت اور حوصلہ ملا ، اور ایک نئی طاقت وقوت کے ساتھ زندگی کی جدوجہد کے لئے میں نے خود کو دوبارہ تیار کیا- (عرفان احمد، کینیا)
میری لینڈ، امریکا سے مز گل زیبا احمد لکھتی ہیں:
Maulana Saheb, I was introduced to your mission in 2004 while I was still in Pakistan. Although I had read other writers before, it was you who introduced me to what Islam demands from us. Since then I have involved myself in dawah work. I use your literature for dawah work and am very thankful to God for this. I always keep copies of the Quran translation and supporting material with me. I share these with people whenever I get a chance. In the USA, we have started holding spiritual classes for women every Saturday. Apart from this, since January 2015, I have been giving a class to my two young nieces and their friend every Sunday at our local public library. They all are around 12 years old. They enjoy reading Spirit of Islam the most. Some of their feedback is given below:
After reading this book, my life has changed drastically. I love how this book explains the meaning of the Quran in scientific and current ways. This book is short and easy to read, but it has a lot of lessons. I have learnt the importance of prayer, peace, and patience. After reading, I’ve realized why Islam is peaceful. (Maira Usman, USA)
Spirit of Islam benefited me by helping me learn about honesty, the importance of not denying the truth, respecting others, and treating everyone equally. (Sara Amin and Vaniya Khan, USA)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.