قر\آن میں رمضان کے روزے کا حکم دیتے ہوئے کہاگیا ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روزہ کا فعل اپنے آپ میں ایک نہایت بابرکت فعل ہے، اور رمضان کا مہینہ اتنا مبارک مہینہ ہے کہ جو شخص اِس مہینہ میں روزہ کی نیت سے صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑ دے تو وہ اِس ترک طعام کی بنا پر عظیم ثواب کا مستحق بن جائے گا-اِس کے بجائے آیت میں یہ فرمایا گیا کہ روزہ کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو (لعلکم تتقون)- گویا روزہ کی ایک صورت (form)ہے، اور تقویٰ اُس کی روح (spirit) ہے- روزہ برائے تقویٰ ہے، نہ کہ برائے جوع-
تقوی کا لفظی مطلب ہے بچنا- روزہ سے مراد صرف کھانے اور پینے سے بچنا نہیں ہے بلکہ ہر اس چیز سے بچنا ہے، جس کو شریعت میں ممنوع قرار دیاگیا ہے- گویا کہ روزہ میں ترک طعام برائے ترک طعام نہیں ہے، بلکہ وہ ترک ممنوعات کے لیے تربیت کا ایک کورس ہے- حدیث کے الفاظ میں جو شخص کھانے پینے کا روزہ رکھے، مگر وہ دوسری قابل پرہیز چیزوں سے اپنے آپ کونہ بچائے، اُس کو اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا (لیس لہ من صیامہ إلا الجوع)ابن ماجہ، حدیث : 1380-
دوسرے الفاظ میں یہ کہ رمضان کے مہینہ کا روزہ، اِس بات کی تربیت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction)کی تمام صورتوں سے بچائے- وہ اپنے اندر یکسوئی کا مزاج پیدا کرے- وہ اپنی عادتوں پر کنٹرول کرے، اور پوری طرح بامقصد زندگی گزارنے کی کوشش کرے- ڈسٹریکشن سے اپنے آپ کو بچانا مومن کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد ہی مومن اِس قابل بنتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر متعلق مصروفیتوں سے بچائے، اور بامقصد انداز میں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے-
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسو ل میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ہر عمل کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھتاہے-لیکن روزہ (صوم)میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا- اس عظیم اجر کا سبب یہ بتایا کہ روزہ دار، اللہ کے لئے (لأجل اللہ) اپنی شہوات کو چھوڑ دیتا ہے (مسند احمد، حدیث نمبر: 9714)
اس حدیث کے مطابق، روزہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ترک ممنوعات کی تربیت ہے- زندگی میں ’ترک‘ (چھوڑنے) کی اہمیت بہت زیادہ ہے- حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں اختیار سے زیادہ ’ترک‘ کی اہمیت ہوتی ہے- ’ترک‘ کے آئٹم اگر ننانوے فیصد ہیں تو اختیار کا آئیٹم ایک فی صد ہے- اختیار کے آئٹم کی فہرست بنائی جاسکتی ہے، لیکن ’ترک‘ کے آئٹم کی فہرست بناناممکن نہیں-
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے لئے اختیار ایک کم مشکل کی چیز ہے- اِس کے برعکس ’ترک‘کی مشکل بہت زیادہ ہے- مثلاً حج میں گھر سے نکل کر مکہ کا سفر کرنا، اور حج کے مراسم ادا کرنانسبتاً کم مشکل ہے- اِس کے برعکس، قرآن کی اِس آیت پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے، جس میں کہاگیا ہے : فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (
روزہ اِسی مشکل کام کی تربیت ہے- رمضان میں ایک مہینہ کا روزہ دراصل ایک علامتی ’ترک‘ ہے- رمضان کے مہینہ میں ایک علامتی ’ترک‘ کے ذریعہ لوگوں کے اندر یہ نفسیات جگائی جاتی ہے کہ وہ ترک کی اہمیت کو سمجھیں، وہ ترک کے بارے میں حساس بنیں،وہ ترک کلچر کو اپنی پوری زندگی میں اختیار کریں- اسی ترک کلچر پر لوگوں کو ابھارنے کے لئے یہ فرمایا گیا کہ اس عمل پر اللہ کا بے حساب اجر ہے، جس طرح کلمہ میں إلا اللہ سے پہلے لا إلہ آتا ہے، اسی طرح مطلوب عمل سے پہلے غیر مطلوب اعمال کا درجہ ہے- غیر مطلوب اعمال کو ترک کرنے کے بعد ہی آدمی اس قابل بنتا ہے کہ وہ درست طورپر مطلوب عمل انجام دے سکے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ص کی ایک آیت یہ ہے: کِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰہُ إِلَیْکَ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا۟ ءَایَٰتِہِۦ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا ٱلْأَلْبَٰبِ.(
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی باتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جو قرآن کا مطالعہ تدبر کے ساتھ کرے- صرف لفظی تلاوت کے ذریعہ قرآن کا حق ادا نہیں ہوسکتا- مزید یہ کہ تدبر کے لیے تیارذہن (prepared mind) درکار ہے- جو شخص قرآن کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے- اس کے بعد ہی وہ قرآن کو حقیقی طورپر سمجھ سکے گا- اپنے آپ کو تیار ذہن بنانے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں، ان میں سے ایک ضروری شرط تقویٰ(
قرآن میں عقل کے مترادف کم سے کم چھ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— عقل، فؤاد، لب، قلب، حجر، نُہیٰ- ان کے سوا قرآن میں اور بہت سے الفاظ ہیں، جو بالواسطہ طورپر عقل سے تعلق رکھتے ہیں- مثلاً سمع اور بصر وغیرہ- حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تمام آیتیں عقل پر مبنی ہیں،کچھ آیتیں براہِ راست طورپر اور کچھ آیتیں بالواسطہ طورپر-
مثلاً إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ (
جہاں تک عقل کے بالواسطہ حوالے کی بات ہے، اس سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے- مثلاً قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (
اسی طرح قرآن کی آخری سورہ یہ ہے کہ انسان اور جن کے وسوسہ کے شر سے اپنے آپ کو بچاؤ (الناس)- یہاں ظاہر ہے کہ وسوسہ ایک غیر محسوس چیز ہے- وسوسہ کو چھوکر یا دیکھ کرنہیں جانا جاسکتا، وسوسہ کے شرسے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے عقل کو استعمال کرکے وسوسہ کو دریافت کرے- اِس طرح قرآن کی یہ آیت عقل کے بالواسطہ حوالے کی ایک مثال ہے-
یہی معاملہ قرآن کی تمام آیتوں کا ہے- مثلاً قرآن میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں (
اسی طرح قرآن کی ایک سورہ میں معاہدۂ حدیبیہ کا صراحتاً ذکر کیے بغیر یہ آیت آئی ہے: إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنًا (
قرآن میں کل ایک سو چودہ (
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن معروف معنوں میں کوئی فقہی کتاب یا قانون کی کتاب نہیں ہے- قرآن میں کہیں بھی وہ اسلوب استعمال نہیں کیا گیا ہے جو فقہ کی کتابوں یا قانون کی کتابوں میں اختیار کیا جاتا ہے- قرآن کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن وزڈم کی کتاب (book of wisdom) ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ عاجز انسان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ بات قرآن میں ان الفاظ میں بتائی گئی ہے: أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ (النمل:
جب ایک شخص عاجز (helpless) ہوجائے تو اس وقت اس کے اندر مخصوص کیفیات پیدا ہوتی ہیں، جو عام حالات میں کسی کے اندرپیدا نہیں ہوتیں- اس وقت اس کی داخلی روح (inner soul) آخری حد تک جاگ اٹھتی ہے- اس نفسیاتی حالت کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت آدمی کی زبان پر دعا کے جو کلمات جاری ہوجاتے ہیں، وہ عام قسم کے کلمات نہیں ہوتے، بلکہ وہ ایسے کلمات ہوتے ہیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں- یہی خاص سبب ہے، جس کی بنا پر ایک عاجز انسان کی دعا اللہ کے یہاں قابل قبول قرار پاتی ہے-
قرآن میں اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم مصر کے بادشاہ فرعون نے جب اپنی بیوی آسیہ کے قتل کا حکم دیا تو ان کی زبان سے یہ دعا نکلی: رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (التحریم:
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کےمعمول کے بارے میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: کان النبی صلى اللہ علیہ وسلم یذْکُر اللہ على کل أحیانہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر
اس روایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی دعا اور ذکر کے کچھ کلمات رٹ لے، اور ہر موقع پر ان کو زبان سے دہراتا رہے۔ یہ سنت رسول نہیں ہے۔ سنت رسول کے مطابق ذکر اور دعاایک تکراری عمل نہیں ہے، بلکہ وہ ایک تخلیقی (creative) عمل ہے۔
دسمبر 2014 میں میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، اس کی وجہ سےمجھ کو تقریبا دس دن بستر پر رہنا پڑا۔ اس مدت میں میں اپنی نمازوں کے لئے وضو نہ کر سکا، بلکہ تیمم کر کے نماز ادا کرتا رہا۔اس معاملے پر غور کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ میری یہ نمازیں شاید ناقص نمازیں ہیں، میرا دل بھر آیا۔ اس وقت مجھے ایک عربی مقولہ یاد آیا: العذر عند کرام الناس مقبول (عذر کریم لوگوں کے لئے قابل قبول ہوتا ہے)۔ میں نے کہا کہ یا اللہ، تیرے کریم بندوں کے لئے جو عذر قابل قبول ہوتا ہے، وہ یقینا تیرے لئے مزید اضافہ کے ساتھ قابل قبول ہوگا۔ اس وقت یہ جملہ میری زبان سے نکلا: العذر عند اللہ الکریم مقبول۔ یہ سوچ کر مجھے اللہ کی رحمت یاد آئی، میرا دل اطمینان سے بھر گیا، یہی ہے ہر موقع (occasion) پر اللہ کو یاد کرنا۔ہر موقع پر اللہ کو یادکرنا یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا بیدار ہو کہ ہر واقعہ اس کے لیے ایک ایسا پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference ) بن جائے، جس کے ذریعے وہ اپنے رب کو یاد کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ فصلت میں جنت کی صفت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ (
قرآن کی اس آیت میں اہلِ جنت کی نسبت سے دو لفظ استعمال ہوئے ہیں، ایک اشتہا اور دوسرا طلب- اشتہا کا لفظ عمومی انسانی خواہش کو بتاتا ہے، یعنی عمومی معنوں میں لوگ جن چیزوں کی خواہش رکھتے ہیں، وہ سب وہاں موجود ہوں گی-
طلب کے لفظ میں انفرادی ذوق کی طرف اشارہ کیاگیا ہے- یعنی جنت میں وہ تمام چیزیں بھی ہوں گی، جو عمومی طورپر لوگوں کی پسند کی ہوتی ہیں- اس کے علاوہ جنت میں ہر فرد کے ذاتی ذوق کی تکمیل کا سامان بھی موجود ہوگا-
قرآن کے اس بیان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے افراد تخلیقی ذہن (creative mind) رکھنے والے لوگ ہوں گے- عمومی پسند کے علاوہ ان میں سے ہر فرد کی اپنی ذاتی پسندبھی ہوگی- جنت میں اجتماعی پسند کا سامان بھی ہوگا، اور انفرادی پسند کا سامان بھی- جنت کی یہ صفت، جنت کی قیمت کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے-
گویا کہ جنت کا معاشرہ یکساں قسم کے درختوں کی مانند نہیں ہوگا- بلکہ وہ متنوع قسم کے درختوں کے ایک باغ کی مانند ہوگا- جنت میں یکسانیت (uniformity)کے ساتھ تنوع (diversity) بھی ہوگا- جنت کی یہ صفت جنت کو بہت زیادہ خوبصورت اور بہت زیادہ با معنی بنادے گی- جنت لذتوں کا مقام بھی ہوگا، اور تنوعات کا مقام بھی-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: من قرأ حرفاً من کتاب اللہ فلہ بہ حسنة، والحسنة بعشر امثالہا، لا أقول الم حرف ، الف حرف ولام حرف ومیم حرف (الترمذی، حدیث نمبر: 2910) یعنی جس شخص نے اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف پڑھا تو اس کے لیے اِس کے بدلے میں ایک نیکی ہے، اور ہر نیکی دس گنا تک بڑھتی ہے- میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے-
یہ قولِ رسول ایک لمبی روایت میں بھی آیا ہے، اس میں یہ اضافہ ہےکہ إن ہذا القرآن مادبة اللہ تعالى فتعلموا من مأدبة اللہ ما استطعتم (مجمع الزوائد، حدیث نمبر: 11660) یعنی یہ قرآن ایک ربانی دستر خوان (banquet) ہے، پس تم اس دسترخوان سے سیکھو، جتنا تم سیکھ سکتےہو-
اس حدیث میں جو بات الفاظ کے اعتبار سے کہی گئی ہے، وہ دراصل معنی کے اعتبار سے مطلوب ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں معانی کا خزانہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی شمار نہیں کیا جاسکتا- یہ اسلوب انسان کی زبان میں عام ہے، یعنی کیفیاتی حقیقت (qualitative fact) کو کمیاتی زبان (quantitative language) میں بیان کیاگیا ہے-
مذکورہ حدیث کی یہ شرح قرآن سے ثابت ہے- قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (
قرآن کی یہ آیت واضح طورپر بتاتی ہےکہ قرآن غور وفکر کی کتاب ہے- قرآن کا مدعا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کے الفاظ کو تلاوت کے طورپر دہرائیں، اور پراسرار طورپر اس کا ثواب ان کو ملتا رہے- حقیقت یہ ہے کہ تدبر کے بغیر قرآن کا مقصدِ نزول پورا نہیں ہوسکتا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ آل عمران کی آخری رکوع میں مومن کی تصویر بتائی گئی ہے۔اس رکوع میں کل گیارہ آیتیں ہیں۔ ان آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں ۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔اے ہمارے رب، تو نے جس کو آگ میں ڈالا، اس کو تو نے واقعی رسوا کردیا۔ اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ۔ اے ہمارے رب، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے رب، ہمارے گنا ہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔اے ہمارے رب، تو نے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے کئے ہیں، ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہم کو رسوائی میں نہ ڈال۔ بےشک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔ ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔ پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور وہ لڑے اور مارے گئے، میں ان کی خطائیں ضرور ان سے دور کر دوں گا اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کا بدلہ ہے اللہ کے یہاں اور بہترین بدلہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور ملک کے اندر منکروں کی سرگرمیاں تم کو دھوکے میں نہ ڈالیں ۔ یہ تھوڑا فائدہ ہے۔ پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور وہ کیسابرا ٹھکانا ہے۔ البتہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ، ان کے لئے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کی میزبانی ہوگی اور جو کچھ اللہ کے پاس نیک لوگوں کے لئے ہے، وہی سب سے بہتر ہے۔ اور بےشک اہل کتاب میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کتاب کو بھی مانتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اس کتاب کو بھی مانتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، وہ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور وہ اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچ نہیں دیتے۔ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ جلدحساب لینے والا ہے۔ اے ایمان والو، صبر کرو اورصبر پر قائم رہو اور باہم مربوط رہو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم کامیاب ہوگے۔
آیات 190-192 — ان آیتوں میں مومن کی فکری زندگی کو بتایا گیا ہے۔وہ صبح و شام، رات دن تخلیقِ خداوندی پر غور کرتا ہے۔ اس مسلسل غور و فکر سے اس کو زندگی کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ پکار اٹھتا ہے، خدایا، مجھے آخرت کی ابدی دنیا میں ناکامی سے بچا۔
آیات 193-194 — تخلیقِ خداوندی میں غور وفکر کے نتیجہ میں وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ داعی حق کی بات کو کامل سنجیدگی کے ساتھ سنے۔ وہ تعصب کے تمام پردوں کو پھاڑ کر اس کو پہچان لے۔ وہ کسی تحفظ ذہنی کے بغیر داعی ٔ حق کی پکار پر، اس امید کے ساتھ لبیک کہتا ہے کہ اس کا ایسا کرنا اس کو اللہ کی نصرت کا مستحق بنائے گا۔
آیت
اس کے بعد چار عملی کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہجرت، اخراجِ وطن، اللہ کے راستے میںایذاء، اور قتال۔یہ چار باتیں اپنی شکل کے اعتبار سے مطلق نہیں ہیں، البتہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مطلق ہیں، اور ہر زمانے کے اہل ایمان سے یکساں طور پر مطلوب ہیں۔ رسول کے معاصر اہل ایمان کے لیے اس کا اظہار ان چار صورتوں میں ہوا ہے۔
بعد کے زمانے میں حالات کی نسبت سے ان کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ تاہم ان کی اصل حقیقت قربانی (sacrifice) ہے، اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ہمیشہ مطلوب رہے گی۔ جو ایمان قربانی کے بغیر ہو، وہ ایمان اللہ کے نزدیک مطلوب ایمان نہیں ہے۔ چوں کہ پیغمبر کے معاصر اہل ایمان کے ساتھ یہ چاروں قسم کے تجربات پیش آئے۔ مگر بعد کے اہل ایمان کے لیے زمانے کے اعتبار سےاس کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ان چاروں چیزوں کی اصل حقیقت قربانی کی سطح پر اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہے۔بعد کے زمانے کے اہل ایمان کے لیے بھی یہ شرط موجود رہے گی۔ البتہ حالات کے اعتبار سے اس کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
آیات 196-198 —اس کے بعد انسانوں کے لیے دو مختلف قسم کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو لوگ خدا سے سرکشی کا طریقہ اختیار کریں، ان کے لیے آخرت میں سخت پکڑ ہوگی۔ اس کے برعکس، جو لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کریں وہ آخرت کی ابدی دنیا میں جنت کے باغوں میں جگہ پائیں گے۔
آیت
آیت 200 — اس آیت میں صبر و استقامت کی تاکید کی گئی ہے۔ ایمان کے راستے پر چلنے کے بعد ایسے مواقع بار بارآتے ہیں، جو آدمی کو متزلزل کر سکتے ہیں اور اس کو شبہ میں ڈال سکتے ہیں۔اس طرح کے مواقع پر آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فکر کو پھر سے بیدار کرے۔ وہ غور و فکر کے ذریعے اپنے آپ کو یقین پر قائم رکھے۔ اس طرح اس کے اندر صبرو استقامت آئے گی۔ وہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ بندھا رہے گا۔ اگر کوئی ناپسندیدہ بات پیش آئے گی تو وہ اس کو اپنی ذہنی بیداری کے ذریعے اپنے لیے غیر موثر بنادے گا۔
آخر میں فرمایا اتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ یہ تمام باتوں کا خلاصہ ہے۔مذکورہ تمام افعال صرف اس وقت مطلوب صورت میں انجام دیے جاسکتے ہیں، جب کہ ان کے پیچھے تقوی کی اسپرٹ موجود ہو۔ یہ صرف تقوی ہے جو کسی انسان کی حقیقی فلاح کا ضامن ہے۔ تقوی کے بغیر فلاح کا حصول ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اکثروا ذکر ہادم اللذات، یعنی الموت (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4258)یعنی موت کو بہت زیادہ یادکرو، جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے-
اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کی یاد آدمی کے اندر دنیا رخی سوچ کو منہدم کردیتی ہے اور اُس کے اندر آخرت رخی سوچ پیدا کردیتی ہے- اگر آدمی بار بار موت کو یاد کرے، تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دنیا پسند انسان کے بجائے آخرت پسند انسان بن جائے گا-
اِس حدیث میں لذت کا لفظ اُن تمام چیزوں کے لیے ہے جوآدمی کے لیے کسی چیز کو مرکز توجہ بناتی ہے- اِس لحاظ سے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اِس حقیقت کو بہت زیادہ یاد کرے کہ وہ اِس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ سو سال سے بھی کم مدت میں مرجائے گا تو اُس کا مرکز توجہ بدل جائے گا- وہ اُس دنیا کو زیادہ سے زیادہ اہم سمجھے گا جو موت کے بعد آنے والی ہے، نہ کہ اُس دنیا کو جس میں موت سے پہلے عارضی طورپر زندگی گزار رہاہے-
یہ طرز فکر آدمی کے اندر ایک انقلاب پیدا کردے گا- اُس کی سوچ بدل جائے گی، اُس کا سلوک بدل جائے گا، اُس کے لین دین کا طریقہ بدل جائے گا، اُس کی اخلاقی روش بدل جائے گی، اُس کے روزوشب بدل جائیں گے- یہی مطلب ہے لذتوں کو ڈھانے کا-
حقیقت یہ ہے کہ موت کی یاد آدمی کے اندازِ فکر کو پوری طرح بدل دیتی ہے- جس چیز کو آج کل ’’یہیں اور ابھی‘‘ (right here, right now) کہاجاتا ہے، وہ صرف اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ انسان موت سے غافل ہو- اگر اُس کو موت کی حقیقت کا زندہ شعور ہوجائے تو وہ کبھی اِس قسم کا فارمولا نہ اپنائے- موت کے ہادم اللذات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ موت آدمی کی زندگی کے رخ کو مکمل طورپر بدل دیتی ہے-
واپس اوپر جائیں
عمرو بن میمون التابعی (وفات:
تابعی کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ وقت سے پہلے افطار کر لیتے تھے، یا وہ سحری میں وقت ختم ہونے کے بعد بھی کھاتے رہتے تھے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ صحابہ تکلف سے بَری تھے۔ ان کے اندر زندہ دین داری تھی، نہ کہ روایتی دین داری۔ روایتی دین داری کا مزاج ظواہر میں احتیاط اور مبالغہ کا مزاج ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس، جن لوگوں کے اندر زندہ دین داری ہو، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ اسپرٹ کو اصل سمجھا جائے، نہ کہ فارم کو۔ چناں چہ وہ وقت آتے ہی فورا افطار کرلیتے ہیں، وہ احتیاط کے نام پر پانچ منٹ کا اضافہ نہیںکرتے۔ ا ن کا یہی حال سحری اور دوسرے معاملات میں بھی ہوتا ہے۔
امت پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کے افراد دین کو مکمل طور پر چھوڑ دیں۔ دورِ زوال میں جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ امت کےافرادمیں دین کی اسپرٹ ختم ہوجاتی ہے۔ البتہ دین کے نام پر کچھ ظواہر باقی رہتے ہیں۔ دین کی حقیقت موجود نہیں ہوتی لیکن دین کا فارم (form) ان کے یہاں موجود رہتا ہے۔
انسان کی نفسیات یہ ہے کہ وہ جس چیز کو اہم سمجھے اس میں زیادہ سے زیادہ اعتناء کرے۔ جب امت زندہ ہوتی ہے تو اس کے افراد دین کی اسپرٹ کے معاملے میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں، وہ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں کہ ان کی دینی اسپرٹ میں کمی تو نہیں ہوگئی، اگر وہ اپنی زندگی میں کوئی ایسی چیز دیکھتے ہیں، جو اسپرٹ کے مطابق نہ ہو تو اس پر وہ تڑپ اٹھتے ہیں، اور فورا اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔اس کے برعکس دورِ زوال میں یہ حال ہوتا ہے کہ امت کے افراد ظواہر میں زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں کلمۂ سوا (
موجودہ زمانے میں کلمۂ سوا کے اصول کا انطباقی امکان(applicable scopes) بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔اس کا خاص سبب موجودہ زمانے میں اوپین نیس کا مزاج (spirit of openness) ہے۔ آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ آپ لائبریری کلچر کو استعمال کر کے ہر جگہ اپنے لٹریچرکو مطالعے کی میز پر پہنچادیں، بک فیر کے رواج کو استعمال کر کے اپنی مطبوعات کو ہر شہر اور ہر ٹاؤن میں پہنچادیں، سیمینار اور کانفرنس میں شرکت کر کے ہر طبقے کے لوگوں تک اپنی پہنچ بڑھادیں، سیاحت کلچر کو استعمال کرکے اپنی بات کو عالمی دائرے میں پھیلادیں، تعلیمی اداروں کو استعمال کر کے نوجوانوں کو اپنے مقصد کے مطابق تربیت دیں، بڑے بڑے اخبارات اور ٹی وی کے نیٹ ورک کو اپنے خیالات کی اشاعت کا ذریعہ بنالیں، وغیرہ ۔
مگر ان جدید مواقع کو استعمال کرنے کی ایک لازمی شرط ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنے اورجدید ذہن کے درمیان کلمۂ سوا کو دریافت کریں، اور پھر دانش مندانہ انداز میں اس کو استعمال کریں۔ جدید ذہن کی خاص صفت بے تعصبی ہے۔ جدید ذہن کے نزدیک طبقاتی سوچ (sectarian thinking) شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ذہن کے مطابق موضوعی فکر (objective thinking) کی حیثیت معیاری فکر کی ہے۔ جدید ذہن امن پسند ذہن ہے، وہ نفرت اور تشدد کو ہر حال میں برا سمجھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
کہا جاتا ہے کہ ایک بوڑھی عورت ایک گاؤں میں رہتی تھی- اس کے یہاں ایک مرغا تھا جو اپنی عادت کے مطابق صبح کو بانگ دیتا تھا- بوڑھی عورت یہ سمجھتی تھی کہ گاؤں میں اس کے مرغ کی بانگ سے صبح ہوتی ہے- ایک بار وہ گاؤں والوں سے کسی بات پر غصہ ہوگئی- اس کے بعد اس نے اپنے مرغ کو لیا اور یہ کہتی ہوئی گاؤں سے نکل گئی کہ — اب دیکھیں یہاں کیسے صبح ہوتی ہے-
بظاہر یہ ایک کہانی ہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ انسانوں کے عام مزاج کے مطابق ہے- یہ مزاج اتنا عام ہے کہ شاید کسی بھی شخص کا اس میں استثنا (exception) نہیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کا واقعہ ہے، آپ کے چچا ابو طالب آپ پر ایمان نہیں لائے تھے مگر خاندانی تعلق کی بنا پر وہ آپ کا ساتھ دیتے تھے- آخر عمر میں کہا جانے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں- یہ سن کر قریش کے سردار ابو طالب کے گھر پر جمع ہوئے اور ان کو عار دلایا کہ کیا آپ اپنے باپ عبد المطلب کے دین کوچھوڑ دیںگے- اِس طرح انھوں نے ابو طالب کو رسول اللہ پر ایمان لانے سے روک دیا- قریش کے سردار اپنے اس کارنامے کے بعد جب ابو طالب کے گھر سے واپس ہوئے تو ان کی نفسیات یہ تھی — اب دیکھیں محمد کا مشن کیسے جاری رہتا ہے- مگر تاریخ جانتی ہے کہ قریش کے سرداروں کا خیال کتنا زیادہ بے بنیاد ثابت ہوا-
اس طرح کے واقعات تاریخ میں بار بار پیش آئے ہیں اور اب بھی پیش آرہے ہیں- مگر اس قسم کے نادان لوگوں نے تاریخ کے تجربات سے کوئی سبق نہیں لیا- وہ اب بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ کوئی مشن اپنی داخلی طاقت (inner strength) کے زور پر چلتا ہے نہ کہ کسی انسان کے ساتھ دینے یا ساتھ نہ دینے پر-اس دنیا کو بنانے والے نے دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں نہ کسی کی موافقت سے کسی کا کام بنتا ہے، اور نہ کسی کی مخالفت سے کوئی کام بگڑتا ہے، جو کچھ ہوتا ہے وہ خالق کے مقرر منصوبے کے مطابق ہوتا ہے-موافقت یا مخالفت دونوں صرف ظاہری اسباب ہیں-
واپس اوپر جائیں
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ قرآن ایک مقدس کتاب ہے- اس کو چھونے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے- وضو کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں- قرآن کو چھونے یا اس کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی وضو کرکے اپنے آپ کو پاک کرچکا ہو- لیکن یہ شرط بعد کے زمانے کی پیداوار ہے- دورِ اول میں یا قرآن اور حدیث میں نصّاً اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں-
جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں، وہ اپنے نقطۂ نظرکی تائید میں، قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں: لَا یَمَسُّہُ إلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (
قرآن کی اس آیت کا تعلق مذکورہ مسئلے سے نہیں ہے- اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہو کہ مصحف کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے- قرآن کی اس آیت میں مطہَّر یا پاکیزہ (purified)سے مراد فرشتے ہیں- یعنی اس میں اس واقعے کا ذکر ہے، جس کا تعلق فرشتوں سے ہے- اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی اس آیت میں جس مَسّ کا ذکر ہے اس سے مراد مسِّ مادی نہیں ہے، بلکہ مسِّ معنوی ہے۔
اس آیت کا سیاق بتاتا ہے کہ یہاں اُن فرشتوں کا ذکر ہے، جو قرآن کی وحی لے کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتے تھے، اور آپ کو قرآن پہنچاتے تھے- اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے جس قرآن کی تنزیل کا ذریعہ بنتے تھے، وہ قرآن باعتبار معنی ہوتا تھا نہ کہ قرآن باعتبار مصحف-
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے باوضو ہونے کی بحث کی بنا پر آیت کا اصل مقصود اوجھل ہوگیا ہے- اس آیت میں دراصل یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن ایک عظیم کلام ہے- وہ ایک ایسی کتاب ہے جو اعلی معانی پر مشتمل ہے، وہ رب العالمین کے خصوصی اہتمام کے تحت پیغمبر آخر الزماں پر اتارا گیا ہے- انسان اگر اس کے معانی کی عظمت پر غور کرے تو وہ یہ ماننے پر مجبور ہوجائے گا کہ یہ اللہ کا کلام ہے نہ کہ کسی انسان کا کلام-
واپس اوپر جائیں
امام ابو حنیفہ (وفات 150 ھ) کے پاس ایک شخص آیا اور کہا، میں نے قسم کھائی ہے کہ میںاپنی بیوی سے کلام نہ کروں گا یہاں تک کہ وہ مجھ سے کلام کرے، اور میری بیوی نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ مجھ سے بات نہ کرے گی، یہاں تک کہ میں اس سے بات کروں- امام صاحب نے جواب دیا تم دونوں میں سے کوئی بھی حانث نہیں-
سفیان ثوری (وفات:
امام ابو حنیفہ (اور دوسرے ائمہ فقہ) کی اس قسم کی باتوں کو اجتہاد سمجھا جاتا ہے- مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ جزئی مسائل میں فتوی دینےکا واقعہ ہے- اجتہاد زیادہ بڑے بڑے شرعی امور میں دین کا موقف بتانے کا نام ہے، نہ کہ جزئی نوعیت کے مسائل میں فقہی مسئلہ بتانے کا نام-
اس قسم کے جزئی امور پر فتوی دینے والوں کو مجتہد بلکہ مجتہد مطلق سمجھ لیا گیا - یہ بلا شبہہ اجتہاد کا کمتر اندازہ (underestimation) تھا- یہی وہ چیز ہے جس نے امت سے حقیقی اجتہاد کا خاتمہ کردیا- یہ کہنا درست نہیں کہ بعد کے زمانے میں اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا- صحیح بات یہ ہے کہ اجتہاد کے غلط تصور کی بنا پر اجتہاد کا ذہن ختم ہوگیا، اسی کوتاہی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بڑے بڑے مسائل پیش آئے جو اجتہاد کا تقاضا کرتے تھے لیکن علماء اس سے عاجز ثابت ہوئے کہ وہ ان امور میں اجتہاد کرکے امت کو صحیح رہنمائی دیں-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التوبہ میںایک واقعہ کے ریفرنس میں فطرت کا ایک قانون (
اس معاملے کی ایک جزئی مثال قدیم عرب میںنَسی (intercalation) کا واقعہ ہے-تخلیقی نظام کے مطابق قمری کیلنڈر (lunar calendar)اور شمسی کیلنڈر (solar calendar) کے درمیان ایک سال میں تقریباً بارہ دن کا فرق ہوتا ہے- قدیم زمانے میں عربوں نے نَسی کا طریقہ اختیار کیا- وہ خود ساختہ طورپر ہر سال ایسا کرتے تھے کہ قمری کیلنڈر کے دنوں میں اضافہ کرکے اس کو شمسی کیلنڈر کے مطابق کرلیتے تھے-
یہ طریقہ تخلیقی نظام میں مداخلت کی حیثیت رکھتا تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں جو اصلاحات کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ نے فتح مکہ (8 ھ) کے بعد ایک حکم کے تحت اس طریقے کو ختم کردیا، اور قمری کیلنڈر کو اس کے فطری نقشے پر قائم کردیا- حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو ، خطبۂ حجة الوداع، صحیح البخاری ، حدیث نمبر: 3197، صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1679-
اس طرح کے اصلاحی معاملہ کی زیادہ بڑی مثال وہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ الانفال میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
قرآن کی اِس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد (religious persecution) ہے- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی (religious extremism) کا طریقہ رائج تھا- مزید یہ کہ اس مذہبی انتہا پسندی کو پولٹسائز (politicize)کرکے، اس کے حق میں وقت کے حکمرانوں کی حمایت بھی حاصل کرلی گئی تھی، اس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی نے عملاً مذہبی تشدد (religious persecution) کی صورت اختیار کرلی تھی-
یہ صورت حال خدا کے قائم کردہ تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ مذہب کے معاملے میں تشدد کا طریقہ ختم ہو، اس کے بجائے پورے معنوں میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا طریقہ رائج ہوجائے- تاکہ ہر شخص آزادانہ طورپر اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرسکے-
مذہبی جبر کے خاتمہ کا یہ عمل رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں شروع ہوا- تدریجی عمل (gradual process) کے تحت وہ تاریخ میں سفر کرتا رہا- مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ عمل یورپ میں پہنچا- اہل یوروپ نے اس میں مزید اضافے کئے- یہاں تک کہ مذہبی آزادی کا مطلوب نظام اپنی آخری صورت میں قائم ہوگیا- دنیا میں مذہبی آزادی کا دور لانے کے معاملے میں اہلِ یوروپ کارول تکمیلی رول کی حیثیت رکھتا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کے اس واقعے کو سمجھیں، وہ اہلِ مغرب کے خلاف اپنے منفی ذہن (negative thinking)کو مکمل طورپر ختم کردیں، اس معاملے میں وہ اہلِ مغرب کے کنٹری بیوشن کا اعتراف کریں، وہ اہلِ مغرب سے رقابت کا تعلق ختم کردیں، اور اس کے بجائے دوستی کا طریقہ اختیار کریں، وہ اس معاملے میں اہلِ مغرب کو اپنا محسن سمجھیں-
مسلمانوں کے درمیان جب اس قسم کا مثبت ذہن پیدا ہوگا تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے منفی ذہن کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا، اور دعوت إلی اللہ کا فریضہ بخوبی طورپر انجام پانے لگے گا-مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قومی شکایتوں کو مکمل طورپر ختم کردیں- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ مسلمان خدا کے قائم کردہ فطری نظام کو سمجھیں، اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک طرف حمد خداوندی کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق دنیا انسان کے لیے کبد (
قرآن کے اس بیان کے مطابق، دنیا انسان کے لیے دارالکبد ہے۔ ایسی حالت میں، وہ کس طرح سچا شکر گزار بن کر رہ سکتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ حمد اللہ کی نسبت سے ہے، اور کبد انسان کی نسبت سے۔ انسان سے اصل چیز جو مطلوب ہے، وہ حمد اور شکر ہے۔ دارالکبد میں انسان شکر گزار کیسے بنے۔ اس کا جواب صبر ہے۔ مومن کو انسان کی زیادتیوں پر صبر کرنا ہے تاکہ اس کے اندر شکر کی اسپرٹ باقی رہے، وہ ہرحال میں اپنے رب کے لیے شکر کا رسپانس دیتا رہے۔ دوسروں کے مقابلے میں صبر کرنا کوئی منفی بات نہیں۔ اس میں خود انسان کی اپنی بھلائی چھپی ہوئی ہے۔
جو شخص انسان کی زیادتیوں پر صبر کرے گا اس کے اندر ذہنی انضباط (intellectual discipline) کی صلاحیت پرورش پائے گی۔ اس کے اندر ذہنی بیداری آئے گی۔ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جائے گا۔ اس کی فطرت میں چھپے ہوئے امکانات (potential) اَن فولڈ (unfold) ہونے لگیں گے۔ اس کے اندر گہری سوچ (deep thinking) پیدا ہوگی۔ اس طرح وہ اس قابل ہوجائے گا کہ اعلیٰ معرفت کی سطح پر جینے لگے۔ وہ ایک دانش مندانسان (man of wisdom) بن جائے گا۔
انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کے کبد (مسائل) پر ری ایکٹ (react) کرنے کے بجائے ان کے بارے میں آرٹ آف منیجمنٹ سیکھے۔ یہی وہ واحد قیمت ہے جس کو ادا کرکے انسان اس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق رہے، اور آخرت میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسان کی تخلیق کے بارے میں بتایا گیاہے :لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (
Life is a perpetual conflict between wanting more and receiving less.
انسان کے ساتھ یہ معاملہ اس کی اپنی بھلائی کے لئے کیاگیاہے۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں انسان کے اندر ذہنی کش مکش (intellectual struggle) کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ انسان کی ترقی کے لئے بے حد اہم ہے۔ اس ذہنی کش مکش کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچ جاتا ہے۔ انسان کے اندر مسلسل طورپر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا عمل جاری رہتاہے۔ انسان کی ذہنی بیداری کا سفر کسی مقام پر نہیں رکتا۔ اس اعتبار سے یہ حالت ایک عظیم رحمت کی حیثیت رکھتی ہے۔انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہو۔ یہ انسان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ یہ صفت کبھی ہموار حالات میں پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان عدم تشفی (dissatisfaction) کی صورت حال سے دوچار ہو۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کو تخلیقی انسان بناتی ہے۔
اس معاملے کو قرآن میں انسان کا ابتلاء (test) کہا گیا ہے۔ یہ ابتلاء کسی منفی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ کامل طور پر مثبت معنی میں ہے۔ وہ انسان کی بہتری کے لیے ہے۔ انسان اگر اس حقیقت کو جانے تو وہ ابتلاء کی صورت حال کا مثبت ذہن کے ساتھ استقبال کرے گا۔
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: یا عمر فواللہ، إن لقیک الشیطان بفج قط، إلا أخذ فجا غیر فجک (مسند احمد، حدیث نمبر: 1624 ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر، خدا کی قسم، جب بھی شیطان تم سے کسی راستہ میں ملتا ہے، تو وہ تمھارے راستے کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کرلیتاہے-
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پراسرار (mysterious) بات نہیں ہے، اور نہ وہ ایک شخص کی فضیلت کے معنی میں ہے- حقیقت یہ ہے کہ یہ ہر اس شخص کی بات ہے، جس کو شعوری ایمان حاصل ہو- یہ وہی ایمانی تجربہ ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے- اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ (
قرآن کی اس آیت کے مطابق شیطان سے بچنے کا اصل راز تذکر ہے- تذکر کا مطلب ہے یاد کرنا(to remember) - مگر یہ یاد، سادہ طورپر صرف یاد کے معنی میں نہیں ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اتنا زیادہ باشعور ہو کہ جب شیطان اس کے دل میں کوئی وسوسہ ڈالے، تو وہ فوراً اس کا تجزیہ (analysis) کرکے، اس کو بے اثر بنادے- حضرت عمر اپنی ذہنی بیداری کی بنا پر یہی کام کرتے تھے- دوسرے وہ تمام اہل ایمان بھی یہی کام کریں گے، جن کے اندر ذہنی ارتقا کے نتیجہ میں تجزیہ کی صلاحیت پیداہوچکی ہو- مثلاً اس نوعیت کاایک واقعہ یہ ہے - حضرت عمر خلیفہ کی حیثیت سے مدینہ میں اپنے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے- اتنے میں ایک شخص (عیینہ بن الحصن) آیا- اس نے کہا: یا ابن الخطاب، فواللہ ما تعطینا الجزل ولا تحکم بیننا بالعدل- یعنی اے ابن خطاب، تم ہم کو نہ کچھ دیتے ہو، اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہو- یہ سن کر حضرت عمر کو غصہ آگیا-انھوں نے اس کا قصد کیا (تاکہ اس کو سزا دے)- اس وقت حربن قیس نے کہا، اے امیر المومنین، اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ نادان سے اعراض کرو (
حضرت عمر قرآن کی مذکورہ آیت سن کر کیوں رک گئے- اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے ذہن نے معاملہ پر ازسر نو غور کیا- پہلے وہ عیینہ کو ایک غلط انسان سمجھ کر، اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے- اب انھوں نے ازسرِ نو غور کیا، تو ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ ایک نادان آدمی ہے، اور اس قابل ہے کہ اس سے اعراض کا معاملہ کیا جائے-
اس طرح کے معاملات دوسرے صحابہ اور تابعین کے بارے میں بھی کثرت سے کتابوں میں موجود ہیں- مثلاً ابوذر اور بلال دونوں صحابی تھے- ابو ذر کو کسی بات پر بلا ل پر غصہ آگیا- ان کی زبان سے نکلا، یا ابن السوداء (اے سیاہ فام ماں کے بیٹے)- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا: یا أباذر، إنک إمرء فیک جاہلیة(اے ابوذر، تمھارے اندر ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے)- ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تمھارے بھائی (اخوان) ہیں-یہ سن کر حضرت ابوذر کے اندر ندامت پیدا ہوئی- ان کو محسوس ہوا کہ میں اس معاملہ کو سیاہ فام اور سفید فام کا معاملہ سمجھتا تھا- لیکن حقیقت کے اعتبار سے یہ انسان کا معاملہ ہے- اورا نسان کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں- پہلے اگر شیطان نے ان پر حملہ کیا تھا تو اب تذکر کے نتیجہ میں وہ شیطان کے اثر سے باہر آگئے-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی، وہ عمر کی فضیلت کے طورپر نہ تھی، بلکہ آپ نے ایک شخص کے حوالے سے ایک اصولی بات بتائی- وہ یہ کہ اس دنیا میں ہر انسان شیطانی حملوں کی زد میں ہے- ہر انسان شیطانی وسوسہ کا شکار ہوتا ہے- اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آدمی کا ایمانی شعور اتنا زیادہ بیدار ہو کہ جب بھی شیطان اس کے دل میں کوئی برا خیال ڈالے، تو وہ فوراً اس کا تجزیہ کرکے اپنے آپ کو اس کے اثر سے بچالے- مذکورہ حدیث میں راستہ بدلنے کی جو بات کہی گئی ہے، وہ انسان کی نسبت سے ہے، نہ کہ شیطان کی نسبت سے-
واپس اوپر جائیں
کہاجاتاہے کہ سائنس میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، وہ زیاہ تر اتفاقات کا نتیجہ ہیں- ریسرچ کے دوران کوئی اتفاقی واقعہ پیش آتاہے، اس سے ایک سائنس داں کا ذہن ایک امکان کی طرف منتقل ہوجاتاہے اور پھر اس پر مزید کام کرکے سائنس داں ایک حقیقت تک پہنچتاہے:
The role of chance in science, or luck in science, describes the ways that unexpected discoveries are made. Somewhere between 30% and 50% of all scientific discoveries are in some sense accidental.
Louis Pasteur said: “Luck favours the prepared mind”.
یہ بات جس طرح سائنس کے لیے درست ہے، اُسی طرح وہ دوسری دریافتوں کے لیے بھی درست ہے- مذہب میں بھی ایسے ہی ہوتاہے کہ ایک آدمی، جب اپنے آپ کو مطالعہ اور تدبر کے ذریعہ تیار کرتا ہے تو وہ اِس قابل ہوجاتاہے کہ کسی بات کے ظاہری معنی کے ساتھ اُس کے اندر چھپی ہوئی حکمت کو بھی جان لے- اس معاملہ کو قرآن میںتوسم کہاگیاہے- ایسا آدمی اِس قابل ہوتاہے کہ وہ معمولی باتوںسے غیر معمولی نتیجہ اخذ کرسکے-
اصل اہمیت یہ ہے کہ انسان مطالعہ اور مشاہدہ اور غوروفکر کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے- وہ اپنے اندر اخذ واستنباط کی صلاحیت پیدا کرے- وہ اپنی تفکیری صلاحیت کو مسلسل ترقی دیتا رہے- جو انسان ایسا کرے، وہ ایک تیار ذہن ہے- ایسے انسان کا دماغ، مقناطیس کی مانند ہوجائے گا- جب بھی کوئی ذرۂ معرفت اُس کے سامنے آئے گا، وہ فوراً اُس کو اخذ کرلے گا- یہی وہ انسان ہے، جس کو قرآن میں عارف انسان کہاگیاہے-
اصل یہ ہے کہ آدمی نے اپنے آپ کو مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعے ایک تیار ذہن بنا رکھا ہو۔ جب ایسا ہوگا تو وہ معلوم کے درمیان نامعلوم کو جان لے گا، وہ ظاہر کے درمیان مخفی حقیقت کو دریافت کرلے گا۔
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن شر الناس ذوالوجہین الذی یأتی ہؤلاء بوجہٍ، وہؤلاء بوجہٍ (صحیح البخاری،حدیث نمبر: 7179) یعنی لوگوں میں سب سے برا شخص وہ ہے جو دو چہرے والا ہو، وہ کچھ لوگوں سے ایک چہرہ کے ساتھ ملے اور کچھ سے دوسرے چہرے کے ساتھ-
یہ وہی کردارہے، جس کو دوہرا معیار (double standard) کہاجاتا ہے- کوئی انسان ایسا رویہ کیوں اختیار کرتاہے- اِس کا سبب مفاد پرستی ہے-ایسے شخص کا اصل کنسرن (concern) یہ ہوتاہے کہ اس کا مادی مفاد مجروح نہ ہونے پائے- وہ ہر ایک سے فائدہ حاصل کرسکے- اس مقصد کے لیے وہ یہ طریقہ اختیار کرتاہے کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح بات کرے کہ ہر ایک اُس کو اچھا سمجھے- کسی سے اُس کا بگاڑ نہ ہونے پائے- یہی مزاج اُس آدمی کو دوہرا معیار والا شخص بنادیتاہے-
اِس قسم کا طریقہ اختیار کرنے کے بعد اُس کو یہ وقتی فائدہ تو حاصل ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک کی نظر میںاچھا انسان بن جاتا ہے، لیکن اِس طریقہ کا شدید تر نقصان یہ ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی کا کوئی اصول نہیں ہوتا- اُس کے اندر وہ برائی پیدا ہوجاتی ہے، جس کو بے اصولی کی روش (unprincipled behaviour)کہا جاتاہے- یہی وہ کردار ہے، جس کو شریعت کی زبان میں منافق کہاگیاہے-
منافقانہ روش کادوسرا نقصان یہ ہوتاہے کہ ایسے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا عمل رک جاتا ہے- خالق نے اس کی فطرت میں جو ارتقائی امکانات رکھے ہیں، وہ سب کے سب بند پڑے رہتے ہیں، وہ اپنا ظہور نہیں پاتے- یہاں تک کہ ایسا انسان دھیرے دھیرے حیوان بشکل انسان بن کر رہ جاتا ہے- وہ بظاہر خوبصورت الفاظ بولتا ہے، لیکن وہ اعلی کیریکٹر سے یکسر محروم ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی- تیرہ سال کے بعد آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی- ہجرت کا لفظی مطلب ہے، ایک مقام کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر جانا- اسلام کے دورِ اول کی تاریخ میںہجرت کوئی پراسرار واقعہ نہ تھا- یہ حالات کے پیش نظر ایک تدبیر کا معاملہ تھا، جو نتیجہ کے پہلو سے نہایت کامیاب ہوا-
ہجرت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مقام عمل کو بدلنے کا نام ہے- اسلام کا اصل مشن دعوت الی اللہ ہے- اصولی اعتبار سے اسلام کا مشن ہمیشہ ایک رہے گا- لیکن تدبیر کا تعلق حالات سے ہوتا ہے- اس لئے داعی کو یہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کرے، وہ ہر قسم کی جذباتیت سے الگ ہو کر وقت کی صورت حال کا گہرا جائزہ لے۔ اس کے بعد حالات کے اعتبار سے دعوت کا ایسا منصوبہ بنائے جو اپنے مقصد کے اعتبار سے زیادہ موثر ہونے والا ہو-
تدبیر کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی جدوجہد کے آغاز میں تین سال تک دعوت کا کام انفرادی ملاقاتوں کے انداز میں کیا، یہ ایک تدبیر کا معاملہ تھا- اس زمانے میں کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، آپ نے بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرکے ان کے زائرین کے درمیان پر امن دعوت کا کام کیا- مکہ میں مخالفت بڑھی تو آپ نے اپنے مقام کو بدلا، اور مکہ سے تقریباً تین سو میل دور مدینہ کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا- حدیبیہ کے موقع پر آپ نے ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر مدینہ واپسی کا فیصلہ کیا، وغیرہ-
یہ سب تدبیر کے واقعات تھے- تدبیر دراصل حکیمانہ منصوبہ بندی کا دوسرا نام ہے- دعوت کے لئے نظری اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت توحید کی ہے- اور عملی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت حکیمانہ تدبیر کی- ان دونوں پہلوؤں کی کامل رعایت کا نام کامیاب دعوت ہے-ہجرت اپنے وسیع تر معنی میں اسی حکیمانہ اصول کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
خراسان کے مشہور عالم حدیث ابو القاسم ابراہیم النصر آبادی(وفات:
حج کی عبادت کے دوران آدمی بہت سے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے، لوگوں سے ملنے جلنے کے دوران طرح طرح کے موافق وغیر موافق معاملات پیش آتے ہیں- اس لئے اس کا امکان رہتا ہے کہ حاجی سے اس طرح کی اخلاقی برائیاں سرزد ہوں جس کو قرآن میں فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (البقرة:
یہ معاملہ صرف سفر حج کا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے، روز مرہ کی زندگی میں آدمی روزانہ دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے- اس اجتماعی زندگی کے دوران کبھی وہ کچھ بولتا ہے، کبھی وہ کسی سے کچھ معاملہ کرتا ہے، اس دوران اس کو چاہئے کہ بظاہر اگر وہ انسان سے معاملہ کررہا ہے مگر یہ سوچ کر کہ اس کے پورے قول وعمل کا ریکارڈ فرشتے تیار کررہے ہیں،اور یہ ریکارڈ آخر کار اللہ رب العالمین کے سامنے پیش ہونے والا ہے،جو آدمی اس سوچ کے ساتھ دنیا میں رہے اس کی پوری زندگی درست زندگی بن جائے گی-
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: خیر الأمور أوساطہا (شعب الإیمان للبیہقی، حدیث نمبر 5819) یعنی معاملات میں سب سے اچھا طریقہ، بیچ کا طریقہ ہے- اس حدیث میں امور سے مراد عملی معاملات ہیں، نہ کہ نظریاتی معاملات- جہاں تک نظریہ کی بات ہے، اس میں ہمیشہ توحد مطلوب ہوتا ہے، اور عملی معاملات میں تعدد کا طریقہ درست ہے-
نظریہ کا تعلق آدمی کے یقین سے ہوتاہے- نظریہ کے معاملہ میں ضروری ہے کہ آدمی اس کو یقین کے ساتھ اختیار کرے، اور یقین ہمیشہ اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب کہ آدمی کسی ایک بات کو واحد طور پر درست بات مانے- اگر آدمی کئی باتوں کو یکساں طورپر درست سمجھے، تو اس سے آدمی کے اندر یقین کی کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی، جب کہ سچائی کے ساتھ یقین ضروری ہے- لیکن عملی معاملات کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے- اجتماعی زندگی میں اگر توحد کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے ٹکراؤ پیداہوگا- اس لئے اجتماعی معاملات میں درست بات یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے، کوئی ایسا درمیانی طریقہ اختیار کیا جائے، جس میں ٹکراؤ کے بغیر کام کیا جاسکتا ہو-
جہاں تک عبادت کےطریقے میں اختلاف کا معاملہ ہے، ان میں بھی تعدد کا طریقہ اختیار کیا جائے گا- کیونکہ اصحاب رسول کے یہاں طریقۂ عبادت میں فرق پایا جاتا تھا- اس فرق یا اختلاف کے معاملہ میں فقہاء نے ترجیح کا اصول اختیار کرکے، ایک طریقہ متعین کرنے کی کوشش کی- مگر یہ درست نہیں-
اس معاملہ میں درست بات یہ ہے کہ عبادت کے طریقوں میں صحابہ کے اختلاف کو تنوع (diversity) پر محمول کیا جائے اور صحابہ سے ثابت شدہ ہر طریقہ کو یکساں طورپر درست مانا جائے- ہر ایک کو یہ اختیار ہو کہ وہ جس صحابی کے طریقہ کی چاہے پیروی کرے- جیساکہ حدیث میں آیا ہے : أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم (مشکاة المصابیح، حدیث نمبر6018)-
واپس اوپر جائیں
سیرتِ رسول کی کتابوں میںایک واقعہ آتا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے سفر میں مدینہ سے نکلے، درمیان میں معلوم ہوا کہ فریق مخالف کے ایک سردار ایک فوجی دستہ کے ساتھ مقابل سمت سے آرہے ہیں- آپ نے چاہا کہ دونوں گروہوں میں ٹکراؤ نہ ہو- چنانچہ آپ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: من رجل یخرج بنا على طریق غیرطریقہم التی ہم بہا (ابن ہشام: 4/276) تم میں سے کون شخص ہے جو ہم کو ایک ایسے راستے سے لے جائے جو ان لوگوں کے راستے سے مختلف ہو- حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں ایسا کرسکتاہوں- چنانچہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب اس بدلے ہوئے راستے سے آگے چلے گئے اور دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ پیش نہیں آیا-
اس سے معلوم ہوا کہ ٹکراؤ سے بچنے کے لئے راستہ بدلنا بھی ایک سنت ہے- مثلاً دو جلوس ایک ہی راستے پر آمنے سامنے سے آرہے ہوں تو رسول اللہ کی سنت پر چلنے والا وہ ہے، جو ٹکراؤ سے بچنے کے لئے اپنا راستہ (route) بدل دے-
اسی طرح اگر کسی جگہ دوگروہ ہوں، ان میں سے ایک گروہ سیاست کے راستے پر چل رہا ہوتو دوسرے گروہ کو چاہئے کہ وہ پر امن دعوت کے راستے پر چلے تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ پیش نہ آئے- اسی طرح زندگی کے مختلف راستے ہیں، اور کام کرنے کے مختلف طریقے ہیں- جب بھی ایسا ہو کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں تو دونوں میں سے وہ گروہ پیغمبر کے نمونے پر قائم ہے، جو اپنے طریقے میں ایسی تبدیلی کرے، جس سے دونوں گروہوں کے درمیان ٹکراؤ کا امکان ختم ہوجائے- یہ راستہ بدلنے کی سنت ہے- یہ اجتماعی زندگی میں ٹکراؤ سے بچنے کافطری طریقہ ہے-اس سنت رسول کی حکمت یہ ہے کہ مقصد کی طرف سفر میں کوئی رکاوٹ واقع نہ ہو، اور کسی تاخیر کے بغیر اصل مقصد کی طرف سفر بدستور جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں بہت سی بدعتیں رائج ہیں- بدعت کیا ہے، بدعت دراصل غیر اسلام کو اسلامی بنانے کا دوسرا نام ہے:
Bid‘a: Islamization of non-Islam
بدعت کے نام سے لوگ صرف کچھ معروف بدعتوں کو جانتے ہیں، مگر ان معروف بدعتوں کے سوا اور بھی بہت سی بدعتیں ہیں جوموجودہ زمانے میں شاندار طورپر مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں، جن کو ماڈرن بدعت کہاجاسکتا ہے- ان ماڈرن بدعتوں کا ارتکاب مسٹر اور مولوی دونوں قسم کے لوگ یکساں طورپر کررہے ہیں- بدعت کی کوئی لگی بندھی فہرست نہیں بنائی جاسکتی۔
ماڈرن بدعتیں کیا ہے- وہ ہیں— آؤٹنگ، شاپنگ، فیملی فنکشن، میرج سریمنی، افطار پارٹی، عید ملن، جشن شب قدر، خِطبہ(engagement) سریمنی، نکاح سریمنی، ولیمہ سریمنی، وغیرہ-
بدعت کا لفظی مطلب نئی چیز (innovation) ہے- یعنی دین میں کوئی نئی بات نکالنا- اسلام میں رسول اور اصحاب رسول کو نمونہ (model) کا درجہ حاصل ہے- بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی روش کو اسی ماڈل سے جانچا جائے گا- جو طریقہ رسول اور اصحابِ رسول کے مطابق ہو، وہ سنت ہے، اور جو طریقہ رسول اور اصحاب کے نمونے کے مطابق نہ ہو، وہ بدعت ہےاور بدعت کو حدیث میں ضلالت (صحیح مسلم، حدیث نمبر:
کچھ لوگ جب کسی نئی چیز کو اسلام میں داخل کریں تو ان کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس کے جواز (justification)کے لئے کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیں- ایسے لوگ آیت یا حدیث کی غلط تشریح کرکے اس سے اپنے طریقے کو جائز ثابت کرتے ہیں- یہ طریقہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے، یعنی ایک غلط کام کرنا اور پھر قرآن وحدیث کی غلط تاویل کرکے اس کو صحیح ثابت کرنا-بدعت دراصل نان اسلام کو اسلامائز کرنے کا دوسرا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کا دماغ ایک بے حد پیچیدہ مشین ہے- اس کے مختلف پہلو ہیں- اس کا ایک نازک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی چیز انسان کے لاشعور (unconscious mind) میں داخل ہوجائے تو وہ انسان کے شعور (کانشش مائنڈ) پر غالب آجاتی ہے- ایسی چیز کو انسان بلا ارادہ دہراتا رہتا ہے- اگر وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اس کو روکنا چاہے تو صرف وقتی طورپر شعور اس کے اوپر موثر ہوگا- جیسے ہی شعور میں کوئی دوسری بات آئی فوراً لاشعور اپنا کام کرنے لگے گا-
انسان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت اپنا سخت محاسبہ کرتا رہے- وہ کوشش کرے کہ وہ کسی چیز کا اتنا عادی نہ بنے کہ وہ اس کے لاشعور کا حصہ بن جائے- کیوں کہ ایسا ہوتے ہی وہ انسان کے شعور کی پکڑ سے باہر ہوجائے گا- انسان غلطی کرے گا اور وہ یہ بھی نہ جانے گا کہ وہ غلطی کررہا ہے-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ تم ایسے اعمال سے بچو جن کے کرنے سے تمھارے اعمال حبط ہوجائیں، حالانکہ تم کو اس کا شعور بھی نہ ہو (
لاشعور کے تحت کیا ہوا عمل بھی کیوں قابل مواخذہ ہے، یہ بات نتیجہ کے اعتبار سے کہی گئی ہے- آپ اپنے لاشعور کے تحت غلطی کریں، تب بھی اس کا نتیجہ غلط ہی نکلے گا- ایسا نہیں ہوسکتا کہ لاشعور کے تحت کی ہوئی غلطی اپنا نتیجہ ظاہر نہ کرے- ایسی حالت میں انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر عمل سے پہلے سوچے، اور اس کے بعد عمل کرے-ایسی حالت میں ضروری ہے کہ انسان اپنے عمل کے بارے میں آخری حد تک حساس بن جائے۔
واپس اوپر جائیں
یتیم کی کفالت ایک ایسا عمل ہے جس کو اسلام میں بہت بڑا درجہ دیا گیا ہے۔یتیم کی کفالت آدمی کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔یتیم کی کفالت کے بارے میں کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: عن سہل بن سعد، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: "أنا وکافل الیتیم فی الجنة ہکذا" وقال بإصبعیہ السبابة والوسطى (صحیح البخاری: 6005) یعنی سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا، جنت میں اس طرح قریب ہوں گے، جیسے میرے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یتیم کی کفالت کرے اس کو جنت میں پیغمبرسے قربت کا درجہ ملے گا۔
کَفالت کا مطلب ہے، نان نفقہ کی ذمے داری (to provide support) ۔ یعنی کوئی بچہ یتیم ہوجائے تو اس کی خبر گیری کرنا، اس کی ضروریاتِ زندگی کا ضامن بن جانا، اس کی تعلیم اور اس کے اقتصادیات کا انتظام کرنا، وغیرہ۔
اسلام کے مطابق، یتیم کی کفالت ایک اعلی اخلاقی اصول ہے۔ جب ایک بچہ اپنے فطری سرپرست سے محروم ہوجائےتو اس کے رشتہ داروں اور اس کے جاننے والوں اور حکومت کا یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس کا سہارا بنیں۔وہ اس کو اس قابل بنائیں کہ وہ بڑا ہوکر خود کفیل زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔وہ دوسرے لوگوں کی طرح باعزت زندگی گزارنے لگے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ صرف ایک اخلاق کا معاملہ نہیں ، بلکہ وہ خود اپنے لیے عمل کی زبان میں ایک دعا ہے۔ جس آدمی کو یتیم پر رحم آئے، اور وہ اس کا سپورٹر بن جائے۔ وہ گویا عمل کی زبان میں یہ دعا کر رہا ہے کہ خدایا، آخرت کے دن مَیں اسی طرح ایک تنہا انسان بن جاؤں گا، میرے تمام دنیوی سہارے مجھ سے چھوٹ جائیں گے، اس وقت تو میری مدد فرما، اپنی رحمت کے ذریعے مجھ کو آخرت کے دور میں جنتی زندگی عطا فرما۔ اسلامی عقیدہ کفالت کے معاملے کو ایک ذاتی محرک (incentive)عطا کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ نے اپنے مشن کا آغاز 610 عیسوی میں مکہ میں کیا۔
Ignore the problems, avail the opportunities
اس پیغمبرانہ طریقے کی چند مثالیں یہ ہیں۔ مکی دور میں کعبہ کی عمارت میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان بتوں سے عملاً کوئی تعرض نہیں کیا۔ بلکہ وہاں جو لوگ ملتے تھے ان کو آپ توحید کا پرامن پیغام پیش کرتے رہے۔ قریش نے آپ کے خلاف مقاطعہ (boycott) کا فیصلہ کیا تو آپ نے قریش سے ٹکراؤ نہیں کیا، بلکہ مقاطعہ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے پرامن طور پر شعبِ ابی طالب میں چلے گیے۔ اہل مکہ نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ مکہ چھوڑ دیںتو آپ نے اہل مکہ سے جنگ نہیں کی بلکہ ہجرت کرکے پرامن طور پر مدینہ چلے گیے۔ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے سرداروں نے آپ کو اس سے روکا کہ آپ مکہ جاکر عمرہ کریں، آپ نے اس موقع پر ان سے ٹکراؤ نہیں کیا بلکہ حدیبیہ سے واپس ہوکر مدینہ چلے گیے، وغیرہ۔
اسی کے ساتھ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کچھ اور مثالیں ہیں۔ مثلاًبدر کے موقعے پر آپ نے قریش سے قتال کیا، احد کے موقعے پر آپ نے اہل مکہ سے جنگ کی ، حنین کے موقع پر آپ نے قبیلۂ ہوازن سے جنگی مقابلہ کیا، وغیرہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلم علماء اور مسلم رہنماؤ ں نے کبھی اس سنت رسول پر عمل نہیں کیا۔ انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مسائل کو نظر انداز کریں، اور مواقع کو استعمال کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام کریں۔ گویا بعد کے زمانے میں ہر بار انھوں نے اختیار ایسر (easier option) کے بجائے اختیار اعسر (harder option) کے طریقے پر عمل کیا۔
مثلا موجودہ زمانے میں نوآبادیات (colonialism)کا مسئلہ پیدا ہوا۔ یہاں پر دوبارہ یہ امکان تھا کہ مسلم علماء اور مسلم رہنما ٹکراؤ کے بجائے پرامن دعوت کے طریقے پر عمل کریں، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اسی طرح صہیونیت (Zionism) کا مسئلہ پیدا، اور 1948 میں فلسطین کے نصف حصے پر اسرائیل کی حکومت قائم ہوگئی۔ یہاں بھی مسلم رہنماؤں کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ مسئلے کو نظر انداز کرتے ہوئے پرامن دعوت کا کام کریں۔مگر تمام مسلم رہنما خواہ وہ عرب ہوں یا نان عرب، سب نے متفقہ طور پر اسرائیل کے معاملے میں ٹکراؤکا طریقہ اختیار کیا۔ اس معاملے میں وہ اس انتہا تک پہنچ گیے کہ خود کش بمباری (suicide bombing )کو جائز ٹھہرادیا، وغیرہ۔
اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا سبب وہی ہے جس کو مختلف حدیثوں میں پیشگی طور پر بتادیا گیا تھا۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ بعد کے زمانےمیں انحراف کا شکار ہوجائے گی۔ امت مسلمہ کا یہ بگاڑ اس نوبت تک پہنچ جائے گا کہ اصل دین امت کے اندر غریب (صحیح مسلم، حدیث نمبر
بعد کے زمانے میں پیش آنے والا ظاہرہ اسی صورتِ حال کا نتیجہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں پیش آنے والے حالات کے نتیجے میںامت کے اندر دین کا نشانہ بدل گیا۔ حالات کے زیرِ اثر انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ امتِ مسلمہ کا مشن یہ ہے کہ وہ امت کا سیاسی غلبہ زمین پر قائم کریں۔ وہ ہر جگہ دوسری قوموں کو مغلوب کرکے اپنے آپ کو سیاسی طور پر غالب کریں۔ اس عمل کو انھوں نے اجتہادی خطا کے طور پر خلافت یا اسلامی حکومت کا نام دے دیا۔ حالاں کہ یہ مشن تمام تر ایک قومی مشن تھا۔ اس کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ امت مسلمہ کا مستقل مشن قرآن کے مطابق شہادت علی الناس (
مگر جب ایسا ہوا کہ بعد کے حالات کے نتیجے میں مسلم رہنماؤں نے سیاسی اقتدار کو اپنا نشانہ بنالیاتو اس کے فطری تقاضے کے تحت ایسا ہوا کہ وہ قوموں سے جنگ و قتال کے عمل میں مصروف ہوگیے۔ انھوں نے جہاد کی خودساختہ تشریح کرکے اپنے متشدادانہ طریقۂ کار کو غلط طور پر جہاد کا نام دے دیا۔ حالاں کہ جہاد قرآن میں پرامن جدوجہد کا نام (
مسلم علماء اور مسلم رہنما ؤںکے اندر اگر پیغمبرانہ مزاج ہوتا، اور وہ غیر متاثر ذہن کے تحت قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے تو وہ یقینا جان لیتے کہ پیغمبرِ اسلام کا مستقل مشن صرف ایک تھا، اور وہ پرامن دعوت الی اللہ ۔ پر امن دعوت آپ کی زندگی کا حقیقی حصہ (real part) تھا، اور آپ کی زندگی میں چند بار جو جنگ و قتال کا مرحلہ پیش آیا وہ آپ کی زندگی کا اضافی حصہ (relative part)تھا۔
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب مجھ کو اپنے گھر لے گیے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا گھر مختلف قسم کے سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پورا گھر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور معلوم ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں اتنا زیادہ سامان کیوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بازار جاتا ہوں اور وہاں میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو پسند آجاتی ہے تو میں اس کو خرید لیتا ہوں۔ یہ نظر کی خریداری ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ چیزوں کو دیکھ کر خریدتے ہیں، خواہ وہ ان کے استعمال میں آنے والی ہوں یا نہ ہوں۔
خریداری کی دو قسمیں ہیں— نظر کی خریداری اور ضرورت کی خریداری۔ نظر کی خریداری وہ ہے جو دیکھ کر کی جائے۔اس کے برعکس، ضرورت کی خریداری یہ ہے کہ آپ کو ایک چیز کی ضرورت ہو ، اس کو حاصل کرنے کے ارادے سے آپ گھر سے نکلیں اور جہاں وہ چیز ملتی ہو، وہاں جاکر اس کو خرید لیں۔
نظر کی خریداری دوسرے الفاظ میں بے مقصد خریداری ہے۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مال کی تبذیر (
کسی مرد یا عورت کے پاس جو مال ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہ اللہ کی ایک امانت ہے۔ جو عورت یا مرد مال کومسرفانہ طور پر خرچ کریں، وہ خدا کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں، جس کے لیے آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی۔ مال کو جائز ضرورت پر خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔
اس کے برعکس، اگر مال کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے ایک گناہ بن جاتا ہے۔ مال کو خرچ کرنے کے معاملے میں انسان کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں جو برائیاں (evils) ہیںان سب کا سبب صرف ایک ہے- اور وہ ہے لوگوں میں اَیز اِٹ از تھنکنگ (as it is thinking) کا نہ ہونا- غصہ، نفرت، انتقام، عدم برداشت، تشدد وغیرہ سب کی اصل جڑ یہی ہے- ایز اٹ از تھنکنگ کا مطلب ہے مبنی بر حقیقت سوچ-
غور کیا جائے تو یہی وہ چیز ہے جس کو شیطان کا کلچر (satanic culture) کہاگیا ہے- شیطان یا ابلیس جنوں کا سردار تھا- پیدائش آدم کے وقت اس نے یہ اعتراض اٹھایا کہ خدا نے انسان کو خلیفة الارض بنادیا اور جنات کو کچھ نہیں دیا- یہ انتخابی طرز فکر کی پہلی مثال تھی- جن کو جو اختیارات دیے گئے تھے اس کے لحاظ سے گویا وہ خلیفة الکون تھا- مگر ابلیس نے یہ کیا کہ جو کچھ اس کو ملا ہوا تھا، اس کا اعتراف نہیں کیا، اور جو کچھ انسان کو دیاگیا تھا اسی کا ذکر یک طرفہ طورپر کیا- اسی یک طرفہ طرز فکر سے ساری برائیاں پیداہوئیں- ابلیس کا یہی کلچر آج تک ساری دنیا میں جاری ہے-
سارے انسانوں کی مشترک برائی بتانا ہو تو وہ صرف ایک ہوگی- اوروہ انتخابی سوچ (selective thinking) ہے- ہر عورت اور مرد یہ کرتے ہیں کہ اپنے بارے میں ایک ڈھنگ سے سوچتے ہیں، اور دوسرے کے بارے میں دوسرے ڈھنگ سے- اپنے آپ کو ایک معیار سے جانچتے ہیں، اور دوسرے کو دوسرے معیار سے- اپنی پسند کے لوگوں کا ذکر کرنا ہو تو وہ ان کی صرف اچھائیاں بیان کریں گے، اور اگر ان لوگوں کا ذکر کرنا ہو جو انھیں پسند نہیں ہیں تو ان کی صرف برائیاں بیان کریں گے- ایک قوم کے بارے میں وہ منفی رپورٹنگ (negative reporting) کریں گے، اور دوسری قوم کے بارے میں صرف مثبت رپورٹنگ (positive reporting)- ایک گروہ ان کو ظالم نظر آئے گا اور دوسرا گروہ مظلوم دکھائی دے گا- ایک کے لئے ان کے دل میں صرف نفرت ہوگی، اور دوسرے کے لئے صرف محبت — یہی وہ چیز ہے جس نے لوگوں کو حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) سے محروم کردیا ہے-
واپس اوپر جائیں
انگریز شاعر لارڈ بائرن (وفات: 1824) ایک آزاد پسند شاعر تھا- اس نے غالباً پہلی بار منفعل مزاحمت (passive resistance) کی اصطلاح استعمال کی- اس کے بعد یہ اصطلاح کافی مقبول ہوئی- خود مسلم تحریکوں نے بھی، اس اصطلاح کو ایک پسندیدہ اصطلاح سمجھ کر اختیار کرلیا- مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر جگہ منفعل مزاحمت آخر کار متشددانہ مزاحمت میں تبدیل ہوگئی-
اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب انسان کا غیر مطمئن مزاج (non-stable nature) ہے- یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ ایک چیز کو اپنا نشانہ بنا کر اس کے لیے کوشش شر وع کرے تو وہ اپنے نشانہ کو پانے سے پہلے کبھی مطمئن نہیں ہوتا- خواہ اسی راہ میں وہ اپنے آپ کو تباہ کرلے-
موجودہ زمانے کی مختلف جماعتوں نے سیاسی انقلاب کو اپنا نشانہ بنایا- ابتداءاً انھوںنے کہا کہ ہم اپنی تحریک کو پر امن انداز میں چلائیں گے- پھر جب پرامن طریقہ کار سے نشانہ حاصل نہیں ہوا تو انھوں نے منفعل مزاحمت (passive resistance) کی اصطلاح وضع کی، اور اس کے مطابق کام شروع کیا- پھر انھوں نے دیکھا کہ اِس سے بھی ان کا نشانہ حاصل نہیں ہورہا ہے، تو انھوں نے فعال مزاحمت (active resistance) کا طریقہ اختیار کیا- پھر انھوں نے دیکھا کہ اس سے بھی ان کا نشانہ حاصل نہیں ہورہا ہے تو انھوں نے متشددانہ عمل (violent activism) کا طریقہ اختیار کیا- پھر جب اس سے بھی ان کا نشانہ حاصل نہیںہوا تو وہ انتہا پسندی کی آخری حد تک پہنچ گئے اور مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری (suicide bombing) کرنے لگے، تاکہ اگر وہ دشمن کو مغلوب نہ کرسکیں تو کم ازکم اس کو غیر مستحکم (de-stabilise) کردیں-
کسی تحریک کا نشانہ صرف وہ ہوسکتا ہے جو مثبت نتیجہ تک پہنچے، نہ کہ منفی تباہ کاری تک- کسی تحریک یا اس کے طریقہ کار پر رائے قائم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کو نتیجہ (result) کے اعتبار سے جانچا جائے۔اس معاملے میں کسی اور چیز کو معیار قرار دینا درست نہیں۔
واپس اوپر جائیں
فلسفی یا سائنس داں، جس شخص نے بھی گہرا علمی مطالعہ کیا ہے، آخر میں وہ اس رائے پر پہنچا ہے کہ انسانی علم کی ایک حد ہے- اس حد سے آگے انسان کےلیے جانا ممکن نہیں- مثال کے طورپر فلسفیوں کے درمیان یہ بحث تھی کہ انسان کے وجود کا علمی ثبوت کیا ہے- مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے کہا کہ میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں:
I think therefore I exist.
مگر یہ جواب کافی ثابت نہیں ہوا- کیوں کہ دوبارہ یہ سوال سامنے آیا کہ یہ تو ایک داخلی ثبوت (subjective evidence)ہے نہ کہ موضوعی ثبوت (objective evidence) - داخلی ثبوت کسی شخص کو ذاتی یقین دے سکتا ہے، لیکن دوسرے شخص کے لیے اس میں یقین کا سامان موجود نہیں۔ یہ یک طرفہ ثبوت ہے ،نہ کہ دوطرفہ ثبوت۔
سائنس دانوں نے طبیعیاتی دنیا کا مطالعہ شروع کیا- آخر میں وہ ایٹم تک پہنچے- لیکن ایٹم بھی ٹوٹ گیا اور اس کے بعد جو کچھ تھا وہ ناقابل مشاہدہ تھا، یعنی ایک سائنس داں کے الفاظ میں قیاسی لہریں (waves of probability) - اس کے بعد سائنس داں اس ناقابل حل سوال میں مبتلا ہوگئے کہ ہماری دنیا کا وجود خارجی (objective) ہے یا داخلی (subjective)-
علم کے تمام شعبوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی موجودہ صلاحیت کے ساتھ اس کی آخری حد تک نہیں پہنچ سکتا- ایسی حالت میں یہ سب سے بڑا علم ہے کہ انسان علم کی حد کو جانے- اس حقیقت کا اعتراف نہ کرنابے حد خطرناک ہے- کیوں کہ وہ آدمی کو صرف کنفیوزن (confusion) تک پہنچائے گا، نہ کہ یقین تک- علم کا آخری مطلوب یقین ہے- جو طریق مطالعہ یقین تک پہنچائے وہ علم ہے، اور جو طریق مطالعہ بے یقینی یا کنفیوزن تک پہنچائے، وہ بلا شبہہ بے علمی ہے، خواہ کوئی شخص اس کو علم کادرجہ دیتا ہو-
واپس اوپر جائیں
برطانیہ کے ایک پروفیشنل ڈرائیور نے ایک کتاب لکھی ہے- اِس کتاب میں اُس نے یہ بتایا ہے کہ گاڑی چلانے کے اصول کیا کیا ہیں- اُس نے لکھا ہے کہ اگر آپ ایک روڈ پر اپنی کاردوڑا رہے ہیں، اور اچانک آپ یہ دیکھتے ہیں کہ سائڈ کی لین سے نکل کر ایک گیند روڈ پر آگئی ہے، تو آپ کو جاننا چاہئے کہ اِس گیند کے پیچھے ایک بچہ بھی آرہا ہوگا- اگر آپ اس حقیقت کو نہ جانیں، اور اپنی کاردوڑاتے ہوئے بچے کو کچل دیں تو آپ بچے کی موت سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے- آپ کو بچے کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا- اِس معاملہ میں آپ کا یہ عذر نہیں سنا جائے کہ آپ نے بچے کو نہیں دیکھا تھا-
یہ ایک ایسا اصول ہے، جس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے-اِس کو باخبری کا اصول (principle of awareness) کہاجاسکتاہے- عملی اعتبار سے اِس اصول کی بے حداہمیت ہے- جو شخص اس اصول سے بے خبر ہو، وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ غیر ضروری مسائل سے دوچار رہے گا- اُس کو کبھی سکون حاصل نہ ہوگا- مزید یہ کہ اپنی بے خبری کی بنا پر وہ غلطی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتا رہے گا- اِس اصول کا تعلق خاندانی زندگی سے بھی ہے، اور سماجی زندگی سے بھی- اِس اصول کا تعلق قومی زندگی سے بھی ہے، اور بین اقوامی زندگی سے بھی- آدمی کو چاہئے کہ وہ ایک ہوشمند انسان بنے- اِس دنیا میں بے خبری میں جینا گویا اندھیرے میں جینا ہے- جو لوگ بے خبری میں جیتے ہوں، وہ اندھے انسان قرار دیے جائیں گے- خواہ ان کے سر پر دو روشن آنکھیں موجود ہوں-
جس طرح درخت کی شاخیں ہوتی ہیں، اسی طرح انسانی زندگی میں بھی ہر واقعے کی شاخیں ہوتی ہیں- اگر آدمی واقعے کو جانے اور اُس کی شاخوں کو نہ جانے، تو ایسے آدمی کو جاننے والا نہیں کہاجائے گا- اُس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ جانتا ہے، مگر وہ نہیں جانتا، وہ دیکھتا ہے، مگر وہ نہیں دیکھتا- اُس کو خالق نے دماغ دیاہے، مگر وہ اپنے دماغ سے سوچتا نہیں- وہ ایک نامکمل انسان ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں ایک مکمل انسان-
واپس اوپر جائیں
اجتماعی زندگی (social life) میں باعزت زندگی حاصل کرنے کی ایک لازم شرط ہے- اس شرط کا تعلق 50 فیصد آپ سے ہے اور 50 فیصد دوسروں سے- وہ یہ کہ آپ دوسروں کے لئے یا تو مفید انسان (giver person)بنیں یا آپ دوسروںکے لئے بے مسئلہ انسان (no-problem person) بن جائیں- پہلی صورت زیادہ سے زیادہ شرط کی ہے، اور دوسری صورت کم سے کم شرط کی- ان دو کے سوا کوئی تیسری صورت سماج میں با عزت بننے کی نہیں- جو لوگ تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں ان کو کسی سماج میں اگر جگہ ملے گی تو صرف سماج کے کوڑا خانے میں- سماج کے مطلوب شخص کا درجہ ان کو کبھی ملنے والا نہیں-
اجتماعی زندگی ہمیشہ دو اور لو (give and take) کے اصول پر قائم ہوتی ہے- اس اصول کے مذکورہ دو پہلو ہیں- اگر آپ سماج کو مثبت معنوں میں کچھ دے رہے ہیں تو آپ سماج کے اندر مطلوب انسان کا درجہ پائیں گے، اور اگر آپ اپنی طرف سے سماج کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو آپ کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ آپ د وسروں کے لئے ایک بے مسئلہ انسان بن جائیں- اگر آپ سماج کے ایک دینے والے ممبر ہیں تو آپ سماج کی ترقی میں براہِ راست اضافہ کررہے ہیں، اور اگر آپ سماج کے ایک بے مسئلہ انسان ہیںتب بھی سماج کی ترقی میں آپ کا ایک رول ہے- پہلی صورت میں آپ سماج کی ترقی میں براہِ راست حصہ دار ہیںتو دوسری صورت میں آپ سماج کی ترقی میں بالواسطہ حصہ دارکی حیثیت رکھتے ہیں-
جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ مذکورہ دونوں شرطوں میں سے ایک شرط بھی پوری نہ کریں، وہ سماج کے لئے صرف ایک بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں- ایسے لوگ اگر چہ روایتی قانون کی نظر میں مجرم (criminal) نہیں ہیں لیکن وہ آداب حیات کے پہلو سے یقیناً ایک غیر قانونی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں- دنیا کی قانونی عدالت میں اگر چہ ان کے خلاف کسی سزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا لیکن فطرت کی عدالت میں وہ بلاشبہہ ایک اخلاقی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک مسلم میگزین میں ایک آئٹم ان الفاظ میں چھپا ہوا تھا: ایک استاد نے اپنےطالب علم سے پوچھا، تم شہد کی مکھی سے کیا سیکھ سکتے ہو۔ طالب علم نے جواب دیا: یہی کہ جو چھیڑے اسے ڈنک مارو۔ شہد کی مکھی کا یہ حوالہ درست نہیں۔ شہد کی مکھی میں انسان کے لئے ایک تعمیری سبق ہے، نہ کہ کوئی تخریبی سبق۔
شہد کی مکھی (honey bee) فطرت کا ایک شاہ کار ہے۔ شہد کی مکھی یہ کرتی ہے کہ مسلسل محنت کر کے بے شمار پھولوں سےان کا نکٹر (nectar) نکالتی ہے، اس کے بعدپر امن منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے۔تاکہ انسان کے لئے ایک قیمتی غذا حاصل ہو۔ اس اعتبار سے شہد کی مکھی کا سبق انسان کے لئے یہ ہے کہ تم اپنے سماج کے ایک دینے والے ممبر (giver member) بنو، تم اپنے سماج میں اس طرح تعمیری انداز میں رہو کہ تم سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔
یہ صحیح ہے کہ شہد کی مکھی بعض اوقات انسان کو ڈنک مارتی ہے۔ لیکن شہد کی مکھی کا یہ ڈنک مارنا صرف اپنے بچاؤ کےلئے ہوتا ہے، جب شہد کی مکھی یہ دیکھتی ہے کہ کوئی انسان اس کے چھتے میں مداخلت کر رہا ہے تو وہ اپنے بچاؤ کے لئے ایسے آدمی کو ڈنک مارتی ہے۔شہد کی مکھی کا ڈنک مارنا صرف اپنے دفاع (defence) کے لئے ہوتا ہے۔ شہد کی مکھی کے اندر پیدائشی طور پر کسی کے خلاف کوئی منفی سوچ نہیں۔
انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان کے اندر اَنا (ego) کا جذبہ ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خلاف بات پر بھڑک اٹھتا ہے، اور انتقام (revenge) کے درپے ہو جاتا ہے۔ انسان ایسے موقعے پر انتقامی کارر وائی کرتا ہے، جب کہ انتقام کلچرشہد کی مکھی کی فطرت میں موجود ہی نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ فطرت کے واقعات سے ہمیشہ مثبت سبق (positive lesson) لے، منفی سبق (negative lesson) لینا فطرت کے نظام کے مطابق نہیں۔
واپس اوپر جائیں
-1 12 مارچ 2015 کو پیس سنٹر کیرالہ کی جانب سے آئی ایس ایم کی صوبائی مہم کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابیں تقسیم کی گئیں-
-2 سیماندھرا کے کوسٹل شہر وشاکھا پٹنم میں
-3 سی پی ایس دہلی کی خواتین ٹیم کی ممبران ڈاکٹر نجمہ صدیقی اور ڈاکٹر مسلمہ صدیقی وغیرہ نے خواتین کا ایک اجتماع منعقد کیا- یہ اجتماع صدر اسلامی مرکز کے ویڈیو لکچر سے شروع ہوا- اس کے بعد لوگوں سے ملاقات اور ان سے گفتگو کا سیشنہوا- یہ پروگرام
-4 ابوظبی میں 30 اپریل 2015 کو صدراسلامی مرکز کو ’فروغ امن فورم ‘ (Forum for Promoting Peace in Muslim Societies) کی جانب سے منعقد تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر ’سیدناالحسن بن علی امن ایوارڈ‘ سے نوازا گیا- فورم کے سربراہ شیخ عبد اللہ بن بیّہ نے اس موقع پر کہا کہ مولانا وحید الدین خاں نے اپنی 90 سال کی عمر میں سے70 سال سے زیادہ مدت تک فروغ امن کے لئے کام کیا ہے، تاکہ امن، بھائی چارگی، اعراض اور تسامح کا کلچر پیدا ہو- اس موقع پر ابو ظبی کے وزیر خارجہ شیخ عبد اللہ بن زاید آل نہیان اور جامعة الازہر کے مفتی اعظم دکتور احمد الطیب بھی موجود تھے- اس مناسبت سے صدر اسلامی مرکز نے جو تقریر کی اس کودرج ذیل لنک پر سنا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/content/key-note-address-abu-dhabi-award-ceremony-april-30-2015
-5 پاکستان میں سی پی ایس کا مشن انفرادی طور پر بہت عرصےسے چل رہا تھا۔ جون 2013 میں باقاعدہ طور پر ٹیم کی شکل میں یہاں مشن کا کام شروع ہوا، اور اس وقت کراچی، پشاور، اسلام آباد اور لاہور میں کافی سرگرمی کے ساتھ اس مشن کا پرامن دعوتی کام جاری ہے-اردو ماہنامہ الرسالہ اورانگریزی میگزین اسپرٹ آف اسلام کو یہاں ری پرنٹ کیاجاتا ہے،اور ان کوسماج کے باشعور طبقہ، خاص طور پر مدارس کے طلباء اور تعلیم یافتہ نوجوانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے-اس وقت کراچی کی
-6 ذیل میں کچھ دعوتی تجربات و تاثرات نقل کیے جاتے ہیں:
I have been reading Al-Risala since 1983. I have also associated myself with Al-Quran Mission. I give the translations of the Quran to my non-Muslim friends. Recently, I gifted a set of the Quran in English and Hindi, What is Islam, The Prophet of Peace, The Ideology of Peace, Women between Islam and Western Society, The Purpose of Life, to the library of Delhi Public School, Nagpur. My brother, Mr. M. A. Waheed presented the same set of books to Mr A. K. Nigam, Managing Director, Forest Development Corporation of Maharashtra, Nagpur. (Mohammad Irfan, Kamptee, Nagpur)
I am the Imam of the Islamic Center of Louisville. I have found that the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan is the most beneficial gift for the newcomers to Islam. I would like to personally buy this Quran translation to distribute among people who want to know about Islam, especially those in prison. (Hassan Hussien Qazzaz, Kentucky, USA)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.