قرآن کی سورہ البقرة میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ(
اذن کے لفظی معنی اجازت کے ہوتے ہیں- یہ لفظ یہاں کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فطرت کے قانون (law of nature) کے معنی میں ہے- فطرت کا یہ قانون کیا ہے- فطرت کا یہ قانون وہی ہے جس کو صبر کے لفظ میں بیان کیاگیا ہے- یہاں صبر کا مطلب یہ ہےکہ اگر اقلیتی گروہ منفی ردّ عمل میں مبتلا نہ ہو تو وہ اِس قابل ہوتاہے کہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنے سے بڑے گروہ پر سبقت لے جائے-اصل یہ ہے کہ جب کوئی گروہ اقلیت (minority)میں ہوتا ہے تو اُس کو اکثریتی گروہ (majority)کی طرف سے مسلسل چیلنج کا سامنا پیش آتاہے- یہ صورت حال، اقلیتی گروہ کو تخلیقی گروہ (creative group) بنادیتی ہے- اِس طرح اُس کاشعور جاگتا ہے- وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ عمل کے نئے نئے میدان تلاش کرے- وہ اپنے ذرائع کو زیادہ بہتر طورپر استعمال کرے- وہ اپنے آپ کو اور زیادہ تیار کرسکے- وہ اپنے عمل کی زیادہ دور رس منصوبہ بندی (planning) کرے۔ اِس طرح اُس کا اقلیت میںہونا اُس کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا سبب بن جاتا ہے- وہ اکثریت سے زیادہ محنت کرنے لگتا ہے- اور آخر کار اکثریت سے زیادہ ترقی حاصل کرلیتا ہے- یہ اکثریت اور اقلیت کا مسئلہ نہیں، یہ فطرت کا ایک قانون ہے جو ہمیشہ اور ہر زمانے میں جاری رہتاہے- دوقوموں کے درمیان بھی، اور ایک قوم کے اندر داخلی طورپر بھی، حتی کہ دو افراد کے درمیان بھی- اس کا تقاضا ہے کہ آدمی کسی بھی صورت حال میں منفی سوچ میں مبتلا نہ ہو- وہ ہمیشہ صرف ایک کام کرے- فطرت کے قانون کو دریافت کرنا، اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنانا، یہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے- دوسرا ہر طریقہ صرف تباہی میں اضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ کامیابی تک پہنچانے والا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اہلِ ایمان کو حکم دیاگیا ہے کہ وہ اپنے حسن سلوک کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنائیں-اس کے فوراً بعد یہ الفاظ آئے ہیں: وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ ط اِنَّہُ ہَوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(
اِس سیاق (context)میں، وسوسہ شیطان کا مطلب صاف طورپر یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ جب حسن سلوک کرنے کا معاملہ پیش آئے اور تمھارا دل کسی شک میں پڑے یا کوئی تم کو فرضی اندیشہ بتا کر اس راہ سے ہٹانا چاہے، اس وقت تم اِس قسم کے خیال کو شیطان کا وسوسہ سمجھو اور شیطان کو اپنے سے دور بھگا کر اس معاملے میں اسلام کے اصول پر قائم رہو- اِس سیاقِ کلام میں، وسوسۂ شیطان کا مطلب ہے — دشمن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے طریقے پر شبہہ ڈالنا-
مثال کے طورپر اگر ایسا ہو کہ کسی کو یہ طریقہ بتایا جائے کہ تم جس کو اپنا دشمن سمجھتے ہو، اس کی دشمنی سے بچنے کا قرآنی طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے دشمن کے ساتھ اچھا سلوک کرو- اس کے بعد اگر وہ شخص یہ کہے کہ ایسا کرنے سے دشمن اور زیادہ جری ہوجائے گا، وہ ہمارے خلاف اور بھی زیادہ دشمنی کرے گا تو ایسا کرنا یقینی طورپر شیطان کا وسوسہ ہے- ایسا بول عقل کا بول نہیں ہے، بلکہ شیطان کا بول ہے- جو لوگ ایسا کہیں وہ اس کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ شیطان کے فریب میں آگئے ہیں-
برے سلوک کے جواب میں اچھا سلوک کرنا محض ایک اخلاقی بات نہیں- وہ فطرت کے قانون کے مطابق ایک کارگر تدبیر ہے- یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب اس کے ساتھ جوابی طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ یک طرفہ طورپر حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے تو اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے، وہ ندامت میں مبتلا ہوکر اپنی اصلاح آپ کرلیتا ہے-
واپس اوپر جائیں
قال ابن عمر لعائشة: أخبرینا بأعجب شیء رأیتہ من رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فبکت وقالت: کلّ أمرہ کان عجباً (الترغیب والترہیب:
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تخلیقی فکر (creative thinking)کا معاملہ تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کامل درجے میں تخلیقی ذہن (creative mind) کی صفت رکھتے تھے- آپ کی اس صفت نے آپ کو اس قابل بنا دیا تھا کہ آپ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھ سکیں- آپ چیزوں میں نئے پہلو کی نشاندہی کریں- آپ چیزوں کو نئے زاویے سے دیکھیں، اور دوسروں کو اسے بتائیں-
یہ تخلیقی فکر دراصل تدبر اور تفکر کا نتیجہ ہوتا ہے- آپ کی صفات کے بارے میں ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: کان ہو طویل الصمت دائم الفکر متواتر الأحزان (تاریخ دمشق لابن عساکر: 3/337)یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک خاموش رہتے تھے، آپ ہمیشہ غوروفکر میں رہتے تھے، آپ مسلسل طورپر غم کی کیفیت میں ہوتے تھے-
اس روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت معلوم ہوتی ہے، یعنی مسلسل طورپر غور وفکر (contemplation)کی حالت میں رہنا- غوروفکر کا یہ معاملہ صرف خصائص نبوی کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ رسول اللہ کی ایک قابلِ تقلید سنت کا معاملہ ہے- اس غور وفکر سے آدمی کے اندر گہرائی آتی ہے- یہ فکری گہرائی آدمی کے اندر وہ صفت پیدا کرتی ہے، جس کو تخلیقی فکر کہاجاتا ہے- ایسا آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ چیزوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ دریافت کرے، وہ چیزوں کے نئے پہلو سے لوگوں کو باخبر کرے-
واپس اوپر جائیں
دین میں سب سے زیادہ اہمیت معرفتِ الٰہی (realization of God) کی ہے- معرفت کوئی جامد چیز نہیں- معرفت مسلسل طورپر ایک اضافہ پذیر چیز ہے- اس کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (
آل انڈیا ریڈیو پر ہر گھنٹہ خبریں آتی ہیں- درمیان میں دوسرے پروگرام بھی آتے رہتے ہیں- ایک دن میں نے ریڈیو کھولا تو ایک گانے والا ایک گیت گارہا تھا، اس گیت کی ایک لائن یہ تھی:
برباد میں یہاں ہوں، آباد تو کہاں ہے
یہ الفاظ سن کر میرا دل تڑپ اٹھا- مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے انسان درد کی حالت میں ہے اور وہ اپنے رب کو پکار رہا ہے- انسان اپنے خالق سے کہہ رہا ہے کہ تو نے پیدا کرکے مجھے ایک ایسی دنیا میں ڈال دیا جو میرا ہیبی ٹیٹ (habitat)نہ تھا- اس دنیا میں درخت کو اس کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے، مچھلی کو اس کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے، حیوانات کو ان کا ہیبی ٹیٹ ملا ہوا ہے- چنانچہ بقیہ دنیا میں احساس محرومی کا کوئی وجود نہیں-محرومی کا احساس صرف انسان کا تجربہ ہے- انسان کو پیدا ہونے کے بعد مسلسل طورپر احساس محرومی (sense of unfulfillment) میں جینا پڑتا ہے- وہ ذہنی سکون سے محروم رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجاتاہے-
یہ سوچتے ہوئے مجھے قرآن کی سورہ التین یاد آئی- اس سورہ پر غور کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا انسان سے یہ کہہ رہا ہے کہ اے انسان، تیری یہ حالت اس لئے ہے کہ تو نے میرے کریشن پلان (creation plan)کو نہیں سمجھا- اگر تو میرے تخلیقی منصوبے کو دریافت کرتا تو تو یہ جان لیتا کہ میں نے تیرے لئے ایک اجر غیر ممنون (unending reward) تیار کررکھا ہے- اس دریافت کے بعد تو یہ کرتا کہ اپنی ساری توجہ اپنے آپ کو اس انعام کا مستحق بنانے میں لگا دیتا-
واپس اوپر جائیں
حضرت ابراہیم ایک پیغمبر تھے- ان کا زمانہ ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- ان کی ایک دعا وہ ہے جو انھوں نے تعمیر کعبہ کے وقت قدیم مکہ میں کی تھی- قرآن کے مطابق ان کے الفاظ یہ تھے: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ(
اس ابراہیمی دعا کا ذکر بائبل میں اس طرح آیا ہے — (اور خداوند نے کہا) ابراہام سے یقیناً ایک بڑی اور زبردست قوم پیدا ہوگی اور زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی:
(And the Lord said) since Abraham shall surely become a great and mighty nation, and all the nations of the earth shall be blessed in him. (Genesis 18: 18)
تاریخی پس منظر کو شامل کرکے غور کیا جائے تو اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر ابراہیم تک بہت سے پیغمبر آئے تاکہ وہ امر حق کا اعلان کریں، لیکن اس پوری مدت میں یہ خدائی مشن ایک انفرادی مشن بن کر رہ گیا- اب اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ امت (team) کی سطح پر اس کو انجام دیا جائے- حضرت ابراہیم کے زمانے میں ایک عمل (process) شروع ہوا- اس کے بعد ابراہیم اور اسماعیل اور ہاجرہ کی قربانیوں سے ایک نسل (بنو اسماعیل) تیار ہوئی، جس کے اندر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے- ان کی دعوتی کوشش سے بنو اسماعیل میں ایک مطلوب ٹیم بنی، جس کو ایک حدیث میں العصابة (مسند احمد:
یہ روایتی دور (traditional age) کی بات تھی- اب سائنسی دور (scientific age) کے تحت نئے دعوتی مواقع پیدا ہوئے ہیں- اب دوبارہ ایک العصابہ کی ضرورت ہے جو جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے نئے دور میں امرِ حق کا اظہار کرے-
واپس اوپر جائیں
سچا رہنما کون ہے، امت ِ موسیٰ کے حوالے سے قرآن میں اس کا جواب ان الفاظ میں دیاگیا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَىِٕمَّةً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ (
اس بالواسطہ تقرری کا درجہ ان لوگوں کو ملتاہے، جو صبر کا ثبوت دیں- اصل یہ ہے کہ رہنما دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک وہ ہیں جو حالات کے رد عمل کے تحت (out of reaction) رہنمائی کے لیے کھڑے ہوجائیں- دوسری قسم ان لوگوں کی ہے، جو صابرانہ منصوبہ بندی (patient planning)کے تحت رہنمائی کے لیے اٹھیں- یہ دوسری قسم کے لوگ اللہ کے نزدیک درست رہنما ہیں، ان کو اللہ کی طرف سے قبولیت (acceptance)حاصل ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ ایسے رہنماؤں کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کیاگیا- امت کی رہنمائی کا معاملہ اصولی طورپر نظریہ کا معاملہ ہے، اور عملی طور پر وہ حالات کا معاملہ ہے۔ حالات کا رخ انسان کی آزادی اور مسابقت (competition) سے تعلق رکھتا ہے- خارجی حالات کبھی اہلِ اسلام کے موافق نہیں ہوتے- حقیقت یہ ہے کہ رہنمائی نام ہے، ناموافق حالات میں اپنے لیے موافق راستہ تلاش کرنا-ایسی حالت میں رہنما ہمیشہ دوانتخاب (options) کے درمیان ہوتا ہے- ایک یہ کہ حالات کے خلاف رد عمل (reaction) کرتےہوئے کچھ جوابی سرگرمی شروع کردینا - ایسے لوگ اللہ کے نزدیک غیر مطلوب رہنما ہیں، وہ کبھی اللہ کے نزدیک ربانی امام کا درجہ نہیں پاسکتے- دوسرے رہنما وہ ہیں جو صابرانہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے عمل کا تعین کریں- یہی وہ لوگ ہیںجو اللہ کے نزدیک ربانی امام کا درجہ پائیں گے-
واپس اوپر جائیں
لی کوان یئو (Lee Kuan Yew) سنگاپور کے فاؤنڈر پرائم منسٹر تھے۔ وہ
آج سنگاپور میں ہر طرف ڈیولپمنٹ کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔سنگاپور کے ایک تعلیم یافتہ باشندے نے ایک اخباری رپورٹرسے بات چیت کے دوران کہا کہ جو لوگ یہاں مسٹر لی کی یادگار (monument) دیکھنا چاہتے ہیں، سنگاپور کے لوگ فخر کے ساتھ ان سے کہیں گے کہ اپنے چاروں طرف دیکھو، سنگاپور کا ہر گوشہ مسٹر لی کی روشن یادگار ہے۔
“To those who seek Lee Kuan Yew’s monument, Singaporeans can reply proudly: Look around you.” (The Times of India, Delhi, March 30, 2015, p.
سنگاپور کی ترقی جدید تاریخ کا ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس ترقی کو عام طور پر لوگ ایک شخص کا کارنامہ بتاتے ہیں، یعنی سنگاپور کے پہلے وزیراعظم کا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بڑا کارنامہ ایک انسان کا شخصی کارنامہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک انسان کی اختیار کردہ درست پالیسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسٹرلی ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے۔انھوں نے اپنے مطالعے کے ذریعے ممکن (possible) اور ناممکن (impossible) کے فرق کو جانا۔ انھوں نےاس حقیقت کو دریافت کیا کہ سنگاپور کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی نیشنل پالیسی کو مثبت بنیادوں پر قائم کرے۔ سنگاپور نہ ملیشیا سے ٹکراؤ کرے، نہ وسائل کے مفقود ہونے کی شکایت کرے۔ نہ یہ کرے کہ کسی سازش (conspiracy) کودریافت کرکے اپنے مفروضہ دشمن کے ظلم کاتحریری اور تقریری پروپیگنڈہ کرے۔
مسٹر لی نے اس قسم کی کسی منفی سوچ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ سنگاپور کے دستیاب وسائل (available resource )کو دانش مندانہ پلاننگ کے ذریعے ڈیولپ کرنا شروع کیا۔ انھوں نے کسی غیر حاصل شدہ کو حاصل کرنے پر ایک دن بھی ضائع نہیں کیا۔ انھوں نے صرف حاصل شدہ کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنایا نہ کہ غیر حاصل شدہ کی بنیاد پر۔
اس پالیسی کا نام مثبت پالیسی ہے۔ یہی مثبت پالیسی تھی جس نے مسٹر لی کو یہ موقع دیا کہ وہ مختصر مدت میں ڈیولپمنٹ کا ایک ایسا کارنامہ انجام دیں، جس کی مثال کسی اور ملک میں مشکل سے ملےگی۔
یہ دنیا فطرت کے قانون کے مطابق چل رہی ہے۔ خواہ فرد کا معاملہ ہو یا قوم کا معاملہ، ہر ایک کے لیے ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ فطرت کے اس ابدی قانون کودریافت کرے اور اس کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ جس طرح اس دنیا کا خالق خدا ہے، اسی طرح دنیا کا نظام بھی خالق کے منصوبے کے مطابق چل رہا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں خالق کا مقرر کردہ قانون یہ ہےکہ فطری طور پر جو مواقع آدمی کو حاصل ہیں، ان کودریافت کرکے انھیں ترقی دینا، نہ کہ غیر حاصل شدہ مواقع کے لیے بے فائدہ پروٹسٹ کرنا۔
سنگاپور نسبتاً ایک چھوٹا جزیرہ ہے،اس کی حیثیت صرف ایک سٹی اسٹیٹ کی ہے۔ اس اعتبار سے سنگاپور کا بظاہر سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ سنگاپور کا رقبہ بڑھایا جائے۔ لیکن سنگاپور کے دانش مند لیڈر نے اس حقیقت کو جانا کہ موجودہ زمانہ نئے امکانات کا زمانہ ہے۔موجودہ زمانے میں اگر آپ کے پاس محدود رقبۂ زمین ہے تو آپ ملٹی اسٹوری بلڈنگ کے ذریعے عمودی توسیع (vertical growth) کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس صرف ایک مقامی آفس ہے تو آپ ماڈرن کمیونی کیشن کے ذریعے اس کی پہنچ کو سارے عالم تک وسیع کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس اپنے ملک میں تجارت کے مواقع کم ہیں تو آپ سی پورٹ اور ایرپورٹ کے ذریعے اپنی تجارت کو عالمی دائرے میں پھیلاسکتے ہیں، وغیرہ ۔ سنگاپور کے دانش مند لیڈر نے نئے امکانات کو دریافت کیا اور ان کو بھر پور طور پر استعمال کیا ،اوردنیا نے دیکھا کہ محدود مدت کے اندر سنگاپور ایک اعلیٰ ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔
اسی کے ساتھ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہونے کی بنا پر صرف یہ کررہے ہیں کہ انھوں نے دوسری قوموں کو اپنا دشمن فرض کر رکھا ہے۔ وہ اپنی طاقت دوسری قوموں سے لڑنے میں ضائع کررہے ہیں۔ وہ دوسروں سے صرف نفرت کرتے ہیں۔ حالاں کہ اگر وہ نئے امکانات کوجانتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ نئے حالات نے دوسروں کو ان کا مددگار بنادیا ہے۔وہ دوسروں کا سپورٹ لے کر اپنے آپ کو اعلی ترقی کے منازل تک پہنچاسکتے ہیں۔
فطرت کے قانون کے مطابق اس دنیا میں ترقی کا راز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مفروضہ ظالموں کو دریافت کریں، آپ یہ دریافت کریں کہ آپ کے خلاف کیا کیا سازشیں ہورہی ہیں ۔ اس قسم کی دریافتیں صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے نہ فطرت کے قانون کو جانا، اور نہ زمانے کے مواقع (opportunities) کو سمجھا۔ آپ خدا شناسی سے بھی محروم ہیں، اور انسان شناسی سے بھی۔ مگر اس دنیا کے لیے اس کے خالق کا قانون یہ ہے کہ جو حقائق (realities) سے باخبر ہو ، وہ کامیابی کی تاریخ بنائے، اور جو شخص یا قوم حقائق سے بے خبر ہو وہ دنیا میں صرف شکایت اور احتجاج کرنے والاایک محروم گروہ بن کر رہ جائے ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ایک آیت آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (
تمام حیوان اپنے پیروں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں، چڑیا کا سفر اپنے پرکے ذریعہ ہوتا ہے- یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خارجی سواری کے ذریعہ اپنا سفر کرسکتا ہے- موجودہ زمانے میں جدید مواصلات (modern communication) کی ایجاد نے سواری (transportation) کے تصور کو بہت بڑھادیا ہے- آج کے انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جسمانی حمل ونقل (physical transportation)سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرے اور اِسی کے ساتھ افکار کے حمل ونقل (transportation of ideas)کو بھی نہایت سرعتِ رفتار سے انجام دے سکے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں براہِ راست طورپر صرف حیوانی مواصلات کا ذکر ہے، مگر بالواسطہ طورپر اس میں ہر قسم کے مواصلات بشمول مواصلات بذریعہ ٹکنالوجی کا اشارہ موجود ہے- آدمی اگر اس آیت کو اس کے توسیعی مفہوم (extended meaning) کے ساتھ پڑھے تو یہ آیت اس کے لیے کائناتی معرفت کا ذریعہ بن جائے گی- اِس آیت میں وہ اللہ کی کائناتی نعمت کو دریافت کرے گا- یہ ایک آیت اس کے لیے بلین ٹریلین سے بھی زیادہ معانی کا خزانہ بن جائے گی-
قرآن معروف معنوں میں کوئی معلوماتی کتاب نہیں- لیکن قرآن کے اندر وہ تمام معلومات موجود ہیں جن کا تعلق معرفت سے ہے- یہ معلومات زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہیں- ان آیتوں پر غور کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معانی کی دریافت کی جاسکتی ہے- یہی تدبر اور تفکر وہ چیز ہے جس سے معرفت میں اضافہ ہوتاہے- یہی وہ چیزہے جو آدمی کے ایمان کو یقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تدبر کو نصیحت کا ذریعہ بتایا گیا ہے (
واپس اوپر جائیں
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام فرضِ کفایہ ہے، وہ فرضِ عین نہیں، یعنی اگر کچھ لوگ دعوت کا کام انجام دیں تو بقیہ لوگوں سے اُس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی- یہ تصور یقینی طورپر ایک بے بنیاد تصور ہے-
جہاں تک فرضِ عین کا تعلق ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں- فرضِ عین وہ ہے جس کی ادائیگی ہر فرد کے لیے ضروری ہے اور جس کی ادائیگی کے بغیر کسی انسان کی اخروی نجات ممکن نہیں- مثلاً نماز فرض عین ہے اور متفقہ طورپر ترکِ نماز سے آدمی کی نجات یقینی طورپر مشتبہ ہوجاتی ہے- یہی معاملہ دعوت الی اللہ کا ہے-
دعوت الی اللہ کیا ہے، وہ دراصل ’’ختم نبوت‘‘ کے عقیدے کا جز ہے- جب ایک صاحبِ ایمان یہ اقرار کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے تو اس کے بعد اُس کے اوپر یہ لازم آجاتا ہے کہ وہ خاتم النبیین کے بعد آپ کے پیغام کو بعد کی نسلوں میں جاری رکھے- نبوت بلا شبہہ ختم ہوگئی، لیکن کارِ نبوت بدستور جاری ہے- دعوت الی اللہ کا مقصد اِس کارِ نبوت کو مسلسل نسل درنسل جاری رکھنا ہے- اس لیے دعوت الی اللہ کا کام ایک مسلسل کام ہے نہ کہ کوئی وقتی کام-
دعوت فرض عین ہے یا فرض کفایہ کاسوال اس وقت ہوتا ہے، جب کہ دعوت کو محض اعلانِ غیر کے معنی میں لیا جائے - مگر حقیقت یہ ہے کہ دعوت ایک شخصی عبادت ہے- دعوت کا نہایت گہرا تعلق انسان کی ذاتی تربیت اور ذاتی طورپر تعمیر شخصیت سے ہے- حقیقت یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کیے بغیر کسی مومن کی مومنانہ شخصیت کی تکمیل نہیں ہوتی، کسی مومن کے اندر وہ اعلیٰ شخصیت نہیں بنتی جو آخرت کے اعتبار سے مطلوب ہے- داعی ایک اعتبار سے دوسروں کو سچائی کا پیغام پہنچاتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ خود اپنے آپ کو سچائی پر کھڑا کرتا ہے- وہ اپنے آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آخرت میں اس کو مقعد ِصدق (seat of truth) پر جگہ پانے کا اعزاز حاصل ہو-
واپس اوپر جائیں
شہادت ایک عظیم عمل ہے۔ جو لوگ شہادت کا عمل انجام دیں ، ان کے لیے اللہ کے یہاں عظیم درجات ہیں۔ ان کو جنت کے اعلیٰ درجات میں جگہ ملے گی۔ شہادت کیاہے۔شہادت عین وہی چیز ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو پرامن طور پر اللہ کے بندوں تک پہنچانا۔ زندگی کی حقیقت (reality of life) سے انسان کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں باخبر کرنا ۔ شہادت یا دعوت کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کے اندر طلب ہو وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق کو جان لے۔ اور جس کے اندر طلب نہ ہو اس پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے، اس کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ آخرت کے دن یہ کہہ سکے کہ ہم کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ خالق کا مطلوب ہمارے بارے میں کیا تھا۔ شہادت یا دعوتی مشن کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً تبلیغ (
شہادت کا لفظی مطلب گواہی دینا (to witness) ہے۔ شہادت اور دعوت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے لیکن شہادت کے لفظ میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی دعوت کے کام کو اس طرح کامل صورت میں انجام دینا کہ آدمی کا پورا وجود دعوت کا مکمل اظہار بن جائے۔
یہی شہادت ہے۔ شہادت کا یہ تصور قرآن میں اجنبی (alien)ہے کہ شہادت کے دو درجے ہیں— قولی شہادت اور عملی شہادت۔ یعنی تقریر اور تحریر سے شہادت کی ذمے داری ادا کرنا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ مکمل نظام قائم کرکے لوگوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نظامی تصورِ شہادت نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے، اور نہ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر نے اس کو انجام دیا، حتیٰ کہ پیغمبر آخر الزماں نے بھی نہیں۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شاہد (
شہادت کا تصور
قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں 160 بار آیا ہے۔ہر جگہ وہ گواہی (witness) کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف نسبت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر بار وہ اسی گواہی کے مفہوم میں آیا ہے، کسی اور مفہوم میں نہیں۔
قرآن کے مطابق ، پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر اللہ کا گواہ بنے۔ وہ پر امن فکری جدوجہد کے ذریعے لوگوں کو بتائے کہ اللہ نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اور آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ہر پیغمبر کا مشترک مقصد یہی تھا، اور ہر پیغمبر نے شہادت کے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی انداز میں انجام دیا۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن کارِنبوت بدستور باقی ہے۔ خاتم النبیین کے بعد تمام انسانی نسلوں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ ان کو پیغمبر کی نیابت میں اللہ کا پیغام بدستور پہنچایا جائے، اور قیامت تک پہنچایا جاتا رہے۔ یہ کام بعد کے زمانے میں امتِ محمدی کو انجام دینا ہے۔ یہ گویا نبی کے بعد نبی کے کارِ شہادت کا تسلسل ہے۔ اس عمل کی درست ادائیگی کی شرط یہ ہے کہ اس کو امانت اور خیرخواہی (
امانت یہ ہے کہ اصل پیغامِ خداوندی میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ کی جائے۔ اور نصح یہ ہے کہ اس کام کویک طرفہ خیرخواہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تاکہ مخاطب کے لیے انکار کا کوئی معقول سبب باقی نہ رہے۔
امتِ وسط
امتِ محمدی کی اس ذمے داری کو قرآن کی سورہ نمبر 2میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (البقرۃ:
Thus We have made you a middle nation, so that you may act as witnesses for mankind, and the Messenger may be a witness for you.
امت ِ وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle ummah) ہے۔ یعنی امتِ محمدی کی حیثیت خاتم النبیین اور بعد کی انسانی نسلوں کے درمیان بیچ کے نمائندہ کی ہے۔ اللہ کے دین کو خاتم النبیین سے لینا اور اس کو بعد کی نسلوں تک کسی اجرت کی امید کے بغیر قیامت تک پہنچاتے رہنا۔ اس پہنچانے کا مطلب صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کو قول بلیغ (
قرآن کی اس تعلیم کے مطابق موجودہ دنیا ہمیشہ کے لیے دارالدعوۃ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے مطابق نبوت محمدی اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو نسبت ہے وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ امت کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے انسانوں کی حیثیت مشہود(
امت محمدی کی اس دعوتی ذمے داری کو حدیث میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2642)۔ یعنی اہل ایمان زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ شہادت کا یہ کام خالص پیغمبرانہ طریقے پر انجام دینا ہے۔ یہ ایک خدائی کام ہے جس میں کسی سیاسی یا قومی یا مادی مقصد کو شامل کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس کام میں کسی اور مقصد کو شامل کیا جائے تو وہ قرآن کے الفاظ میں رکون ہوگا جو انسان کو اللہ کے یہاں سخت مواخذہ کا مستحق بنا دیتا ہے۔وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(
دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں
شہادت یا دعوت کا یہ کام ایک ابدی قسم کا پیغمبرانہ مشن ہے۔ اس کو ہر زمانے میں مسلسل طور پر انجام دینا ہے۔ اس مشن کا اصل پیغام تو ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ لیکن زمانی تبدیلیوں کے اعتبار سے اس کی ادائیگی میں فرق ہوتا رہے گا۔ شہادت یا دعوت کے اس عمل کی ادائیگی کو موثر بنانے کے لیے اس طرح انجام دینا ہوگا کہ وہ ہرزمانے کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔ اس زمانی رعایت کے بغیر حجت کی شرط پوری نہیں ہوسکتی، جو کہ اس کام کی حسن ادائیگی کی لازمی شرط ہے۔
دعوت دورِ تعقل میں
دعوت یا شہادت کا یہ پیغمبرانہ مشن سفر کرتے ہوئے، اب پندرھویں صدی ہجری (اکیسویں صدی عیسوی ) میں داخل ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانہ کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ جدید ذہن (modern mind) کی نسبت سے اس کو عقلی طور پر مدلل صورت میں پیش کیا جائے۔ اس کے بغیر مطلوب معیار پر اس کام کی انجام دہی نہیں ہوسکتی۔
شہادتِ اعظم
بعد کے دور میں شہادت کا یہ دعوتی عمل عالمی سطح پر مزید اضافے کے ساتھ انجام پائے گا۔ اس دعوتی واقعے کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دور آئے گا جب کہ شہادت علی الناس یا دعوت الی اللہ کے اس کام کو حجت (reason) کی سطح پر انجام دینا ضروری ہوگا۔ اس وقت امت کے جو افراد وقت کے استدلالی معیار پر اس دعوتی کام کو انجام دیں گے، وہ اللہ کے یہاں بہت بڑے درجے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس دور میں اللہ کے جو بندے اس کام کو اس کے مطلوب معیار پر انجام دیں گے، ان کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہذا أعظم الناس شہادةً عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر سب سے بڑی شہادت (دعوت) ہوگی۔
شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تھا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے معروف لغوی لفظ قتل استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ (
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر ہوگا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔
اس جنگ میں صحابہ میں سے ستر آدمی مارے گیے۔ صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے: أنس بن مالک أنہ قال: قُتِل منہم یوم أحُد سبعون (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4078)۔ یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحابِ رسول میں سے ستر آدمی قتل ہوئے۔
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسلام میں مستند زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بعد کے زمانے میں دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بھی تبدیلی آئی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف ہوگیا۔ اس کے بجائے، شہادت اور شہید کا لفظ جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام ہوگیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا۔مثلا حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، وغیرہ۔ اصحابِ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔ مثلا َ عمر بن الخطاب شہید، عثمان بن عفان شہید، علی ابن ابی طالب شہید، سعد بن معاذ شہید، وغیرہ۔ صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساتھ لکھا اور بولا گیا، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساتھ۔ جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج ہوا۔ چناں چہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچھ روایات کے اوپریہ باب قائم کیا ہے: باب لا یقول فلان شہید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ سادہ بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساتھ پکارا جائے: اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗىِٕہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ (
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجودہ زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کا اصل سبب یہی ہے۔ جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک ہوتے ہیں، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فوراً جنت میں داخل ہو گیے۔
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات (colonialism) کے دور میں رائج ہوا۔ اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعداس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندرعام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری ہوا۔ اس کے بعدبتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں، وہ شہید ہوں گے، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تھا، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباہ کن صورت وہ ہے جو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing) کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچھ علماء کی طرف سے غلط طور پراس کو استشہاد (طلبِ شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ لیکن شہادت کا اصل کام ، دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں، نہ مسلم علماء کے اندر، نہ مسلم عوام کے اندر۔ شہادت کے اس خودساختہ تصور کے تحت وہ جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں، وہ ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
سنتِ یہود کی پیروی
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امتِ محمدی بعد کے زمانے میں ضرور یہود کی کامل اتباع کرے گی: لتتبعُنَّ سَنَنَ من کان قبلَکم ، شبرًا بشبرٍ وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو دخلوا جُحْرَ ضبٍّ تبعتُمُوہم. قلنا : یا رسولَ اللہِ ، الیہودُ والنصارى ؟ قال : فمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یہ سادہ طورپریہودکی اتباع کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دراصل ایک قانونِ فطرت کا معاملہ ہے، جس کو قرآن میں طول امدکے نتیجے میں قساوت کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ (
سنتِ یہود کی پیروی کی سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے جو شہادت (witness) کے معاملے میں واقع ہوئی۔ یہود کو اللہ نے اپنے دین کا گواہ (witness) بنایا تھا۔ اس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: خداوند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے منتخب کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ، اور سمجھو کہ میں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا (یسعیاہ،
You are My witnesses, declares the Lord, and My servant whom I have chosen, so that you may know and believe Me and understand that I am He. Before Me no god was formed, nor will there be one after Me. (Isaiah 43:10)
یہود پربعد کے زمانے میں جب زوال آیا تو انھوں نے خدا کے دین کی گواہی کی اس ذمے داری کو عملاً چھوڑدیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ان کے اندر قومی ذہن پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوگئی جس کو یہود کی تاریخ میں یہودی احساسِ برتری (Jewish supremacism)کہا جاتا ہے۔
چناں چہ ان کی دلچسپی تمام تر اپنی قوم تک محدود ہوگئی ، وہ دوسرے انسانوں کے خیرخواہ نہ رہے۔ بلکہ دوسروں کو عمومی طور پر انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ قوم یہود کی خود ساختہ برتری کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے دینِ خداوندی کی گواہی کے کام کو چھوڑدیا، او ر اس کے بجائے دوسرے قومی کاموں میں مشغول ہوگیے۔ مگر اسی کے ساتھ خود پسندی (self-righteousness)کے جذبہ کی بنا پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اب بھی اپنے پیغمبر موسیٰ کے بتائے ہوئے دین پر قائم ہیں۔
یہود کے اس معاملے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ(
ترجمہ: جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم خدا کی کتاب کو پوری طرح لوگوں کے لیے ظاہر کرو گے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے۔ مگر انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا۔ کیسی بری چیز ہے جس کو وہ خرید رہے ہیں ۔ جو لوگ اپنے اس عمل پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بَری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میںکامل طور پر یہود کے متبع بن چکے ہیں۔ انھوں نے دعوت الی اللہ کے کام کو عملاً چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ دوسرے قومی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کاموں کو وہ غلط طور پر دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ انھوں نے شہادت کے تصور کو بدل کر جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میںلے لیا۔ وہ قومی سیاست (communal politics) میں مشغول ہیں۔ اس خودساختہ عمل میں جب ان کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دعوت اور شہادت کا مطلوب کام انجام دے رہے ہیں۔
انسان کوئی کام نفسیاتی محرک کے تحت کرتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیےدوسروں کے ساتھ خیرخواہی کی اسپرٹ ضروری ہے۔ مگر دورِ زوال میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا ذہن جو مسلمانوں میں آیا اس کے نتیجے میں وہ دوسری قوموں کو کم تر اور اپنا حریف سمجھنے لگے۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ان کے اندر باقی نہ رہا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اسی قومی نفسیات کے شکار ہیں۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس نے ان سے دعوت الی اللہ کا جذبہ چھین لیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان بظاہراپنی سرگرمیوں کو’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔لیکن وہ جوکچھ کررہے ہیں، اس کا نظامِ مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ طریقہ عین اسی طریقے کی اتباع ہے جس کو قرآن میں زوال یافتہ یہود کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی یُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا(
خود کش حملہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندران کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہرہ پیدا ہوا ہے جو غالباً تحلیلِ حرام (یسمّونہا بغیر اسمہا فیستحلونہا:سنن الدارمی،حدیث نمبر2145) کی سنگین ترین صورت ہے، اور وہ ہے خودکش بمباری (suicide bombing)۔ یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا۔
یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے۔ کچھ علماء نےبطورِ خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلبِ شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کا استدلال گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی خود ساختہ فتویٰ خودکش بمباری جیسے صراحتاً ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلا صحیح البخاری (حدیث نمبر3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکھتی ہے۔حتی کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتھی ہو، اور وہ غزوہ میں لڑ کر بہادری دکھائے لیکن آخر میں وہ اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے مارکر اپنا خاتمہ کرلے تب بھی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی۔ کسی بھی عذرکی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وہ لڑتے ہوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے۔ لیکن قصداً اپنے جسم کے ساتھ بم باندھنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم کا دھماکا کر دینا، جس میں وہ آدمی خود بھی مرے، اور دوسرے بھی مارے جائیں۔ یہ طریقہ صراحتاً خود کشی کا طریقہ ہے، اور وہ یقینی طور پراسلام میں ناجائز ہے۔ اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ مقابلہ کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وہ صبر ہے، نہ کہ خود کش حملہ۔ مگراس معاملے میں موجودہ مسلمانوں کا آبسیشن (obsession) اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔
بے فائدہ جنگ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: والذی نفسی بیدہ لا تذہب الدنیا، حتى یأتی على الناس یوم لا یدری القاتل فیم قَتَل، ولا المقتول فیم قُتِل۔ فقیل: کیف یکون ذلک؟ قال: الہرج، القاتل والمقتول فی النار(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2908) ۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا، جب کہ قاتل یہ نہیں جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا، اور مقتول یہ نہیں جانے گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔کہا گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرج (بے معنی قتل وقتال)کے زمانے میں ہوگا۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
ہرج کا مطلب شارحین حدیث نےبتایا ہے :شدۃ القتل و کثرتہ (عمدۃ القاری،جلد نمبر7،صفحہ نمبر
موجودہ زمانے میں یہ حال ہے کہ مسلمانوں کے مختلف ٹیررسٹ (terrorist) گروپ بن گیے ہیں۔ وہ مختلف مقامات پر قتل و قتال کا ہنگامہ جاری کیے ہوئے ہیں،حتی کہ اسکول کے بچوں، مسجد کے نمازیوں، اور قبرستان کے سوگوار افراد پر بھی۔ قتل و قتال کا یہ اَن جسٹیفائڈ (unjustified) ہنگامہ اتنا زیادہ ہے، جیسے کہ ان لوگوںنے قتال برائے قتال کو خود ایک مطلوب کام سمجھ لیا ہے۔ خواہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی معقول سبب (justified reason)موجود نہ ہو۔
مسئلہ کا حل
امت مسلمہ کے اندر یہ جو سخت نامحمود صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان کو صحیح آئڈیالوجی دی جائے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں غلط آئڈیالوجی کے شکار ہیں۔ اس کی اصلاح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ان کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر درست آئڈیالوجی سے واقف کرایا جائے۔اس سے کم درجے کی کوئی چیز اس صورتِ حال کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مثلاً ان لوگوں کو اس فطری حقیقت سے باخبر کرنا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں کے درمیان جو تفریق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہمارے دوست ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ۔ بلکہ صحیح تفریق یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے واقعی دوست (actual friends) ہیں، اور کچھ لوگ ہمارے امکانی دوست (potential friends)۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔
اس کے مطابق اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا دشمن نہ سمجھیں، بلکہ بلاتفریق ہر ایک کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں— یہی دعوہ اسپرٹ ہے، اور اسی کا نام دعوت الی اللہ ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کو قرآن کی وہ آیت یاددلاناہے، جس میں قتل کی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (
اسی طرح ان لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان کا مسلمان کو مارنا قرآن کے مطابق ایک جہنمی فعل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا (
پیغمبر ِ اسلام کی آخری وصیت
آج شدید ضرورت ہے کہ پیغمبر اسلام کے اس انتباہ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کو یاد دلایا جائے جو آپ نے اپنے آخری زمانے میں حجۃ الوداع کے موقع پردیا تھا۔ صحیح البخاری کی روایت کے مطابق اس کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال: یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا: یوم حرام، قال: فأی بلد ہذا؟، قالوا: بلد حرام، قال: فأی شہر ہذا؟، قالوا: شہر حرام ، قال: فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال: اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس رضی اللہ عنہما: فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ آپ نے کہا کہ اے لوگو، آج کون سا د ن ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ یومِ حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ شہر حرام ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ حرام کا مہینہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو کہ تمھارا خون، تمھارے مال ، اور تمھاری عزت تمھارے اوپر حرام ہے، جیسا کہ آج کا دن حرام کا دن ہے، اور تمھارے اس شہر میں، اور تمھارے اس مہینے میں۔ آپ نے یہ کلمات بار بار فرمائے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا، اور فرمایا کہ اے اللہ کیا میں نے پہنچادیا، اے اللہ، کیا میں نے پہنچادیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک یہ آپ کی وصیت ہے اپنی امت کے لیے، پس جو حاضر ہے وہ ان کو پہنچادے جو حاضر نہیں ہے، ( پھرابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ذکر کیا) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجا نا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
امت کے لیے کرنے کا کام
موجودہ زمانے میں امت مسلمہ عام طور پر منفی ذہن میںمبتلا ہوگئی ہے۔ یہ صرف ان کی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پرہے۔ اپنی منفی سوچ کے تحت وہ دوسری قوموں کو اپنے دشمن کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں۔ کچھ لوگوں کے اندر یہ مزاج سوچ کی حدتک ہے، اور کچھ لوگ اپنی اس سوچ کے تحت قتل و قتال میں مشغول ہیں۔ یہ بلاشبہ وہی خطرناک علامت ہے، جس کی طرف احادیث میں پیشگی طور پر باخبر کیا گیا تھا۔
آج فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد اپنے اندر مثبت ذہن (positive thinking) پیدا کریں۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن سمجھنے کا مزاج کلی طور پر ختم کردیں۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ان کی حیثیت ایک قوم کی نہیں ہے، بلکہ ایک اصولی گروہ کی ہے۔ ان کا مشن صرف ایک ہے، اور وہ پرامن دعوت الی اللہ ہے۔ اس کام کو انھیںیک طرفہ خیرخواہی کے تحت انجام دینا ہے۔ اگر دوسرے لوگ ان کے خیال کے مطابق ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کریں تب بھی انھیں اس قسم کی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئےیک طرفہ طور پر لوگوں کا خیرخواہ بننا ہے، اور ان کو اللہ کا وہ پیغام پہنچا نا ہے جو ان کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا عمل ان کو آخرت کی پکڑ سے بچانے والا نہیں۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہوئیں، ان پر اب ایک صدی سے زیادہ مدت گزرچکی ہے۔ لیکن ان کی یہ سرگرمیاں ہر محاذ پر نتیجے کے اعتبار سے ناکام ہوگئیں۔ وہ مسلمانوں کے حق میں کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوئیں۔ ان متشددانہ سرگرمیوں کا یہ منفی انجام بتاتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل نہیں۔ اگر اس معاملے میںان کو اللہ کی مدد ملتی تو وہ ضرور کامیاب ہوتے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ تشدد کا طریقہ یک لخت چھوڑ دیں، اورپر امن دعوتی عمل (peaceful dawah work) میں مصروف ہوجائیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جو مسلمانوں کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ (یہ مضمون کتابچہ کی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ص کی ایک آیت یہ ہے: کِتَٰبٌ أَنزَلْنَٰہُ إِلَیْکَ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا۟ ءَایَٰتِہِۦ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا ٱلْأَلْبَٰبِ.(
اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی باتوں کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جو قرآن کا مطالعہ تدبر کے ساتھ کرے- صرف لفظی تلاوت کے ذریعہ قرآن کا حق ادا نہیں ہوسکتا- مزید یہ کہ تدبر کے لیے تیارذہن (prepared mind) درکار ہے-
جو شخص قرآن کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن بنائے- اس کے بعد ہی وہ قرآن کو حقیقی طورپر سمجھ سکے گا- اپنے آپ کو تیار ذہن بنانے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں، ان میں سے ایک ضروری شرط تقویٰ(
قرآن میں عقل کے مترادف کم سے کم چھ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں— عقل، فؤاد، لب، قلب، حجر، نُہیٰ- ان کے سوا قرآن میں اور بہت سے الفاظ ہیں، جو بالواسطہ طورپر عقل سے تعلق رکھتے ہیں- مثلاً سمع اور بصر وغیرہ- حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تمام آیتیں عقل پر مبنی ہیں،کچھ آیتیں براہِ راست طورپر اور کچھ آیتیں بالواسطہ طورپر-
مثلاً إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَٰبِ (
جہاں تک عقل کے بالواسطہ حوالے کی بات ہے، اس سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے- مثلاً قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (
اسی طرح قرآن کی آخری سورہ یہ ہے کہ انسان اور جن کے وسوسہ کے شر سے اپنے آپ کو بچاؤ (الناس)- یہاں ظاہر ہے کہ وسوسہ ایک غیر محسوس چیز ہے- وسوسہ کو چھوکر یا دیکھ کرنہیں جانا جاسکتا، وسوسہ کے شر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے عقل کو استعمال کرکے وسوسہ کو دریافت کرے- اِس طرح قرآن کی یہ آیت عقل کے بالواسطہ حوالے کی ایک مثال ہے-
یہی معاملہ قرآن کی تمام آیتوں کا ہے- مثلاً قرآن میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں (
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حج تو ایک عبادت کا فعل ہے، اس کا جدال سے کیا تعلق- اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کی عبادت کے دوران بہت سے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں- ساتھ رہنے کی بنا پر فطری طورپر آپس میں اختلافات(differences) پیدا ہوتے ہیں- اس لیے حاجی کو چاہئے کہ وہ اختلاف پر صبر کرے، وہ اس کو جدال تک پہنچنے نہ دے- آیت کا یہ پہلو بھی عقل کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے-
اسی طرح قرآن کی ایک سورہ میں معاہدۂ حدیبیہ کا صراحتاً ذکر کیے بغیر یہ آیت آئی ہے: إنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِیْنًا (
قرآن میں کل ایک سو چودہ (
قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن معروف معنوں میں کوئی فقہی کتاب یا قانون کتاب نہیں ہے- قرآن میں کہیں بھی وہ اسلوب استعمال نہیں کیا گیا ہے جو فقہ کی کتابوں یا قانونی کی کتابوں میں اختیار کیا جاتا ہے- قرآن کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن وزڈم کی کتاب (book of wisdom) ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے جب کعبہ کی تعمیر کی تو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمھارے پاس آئیں گے پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیںگے (
کعبہ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد حضرت ابراہیم نے آواز دی- لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان کی آواز باہر کے لوگوں تک نہیں پہنچی- پھر اس کا مطلب کیا ہے-یہ بات حال کی خبر کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ مستقبل کے امکان کے معنی میں ہے-اس روایت میں دراصل اللہ کے ایک منصوبے (divine plan)کو بتایا گیا ہے- وہ یہ کہ حضرت ابراہیم اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسانی تاریخ میں ایک عمل (process)جاری ہوگا- اس عمل کی تکمیل پر یہ واقعہ ہوگا کہ اللہ کا ایک بندہ مکہ میں یا کسی دوسرے مقام پر اللہ کی بات کہے گا اور اس کی بات بطور واقعہ ہر جگہ پہنچ جائے گی- یہ دور تاریخ میں آیا- اسی دور کو ابلاغ کا دور (age of communication) کہاجاتاہے- حضرت ابراہیم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالی کی خصوصی مدد سے، ایسے حالات پیداہوئے جن کے نتیجے میں انسان نے نئی نئی دریافتیں کیں اور آخر کار وہ دور وجود میں آگیا جس کو کمیونیکیشن کا دور کہا جاتا ہے- حضرت ابراہیم کے زمانے میں صرف یہ ممکن ہوتا تھاکہ انسان اپنی زبان سے بولے اور اس کے قریب میں جو لوگ ہیں، اس کی آواز کو سنیں، لیکن اب ٹیکنالوجی کے ذریعہ یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان ایک مقام پر بولے اور عین اسی وقت پورے گلوب پر بسے ہوئے لوگ اس کی آواز بھی سنیں اور اس کی تصویر بھی دیکھیں- یہ نیا دور اللہ کی توفیق سے وجود میں آیا اور اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کو خدائی مشن کے لیے استعمال کیا جائے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی کچھ آیتیں وہ ہیں جن کو احکام کی آیتیں کہاجاتا ہے- قرآن کی آیتوں کا دوسرا حصہ وہ ہے، جن کو حکمت (wisdom)کی آیات کہنا درست ہوگا- یہ حکمت کسی پر اسرار چیز کا نام نہیں ہے- اس سے مراد فطری حکمت (natural wisdom) ہے، یعنی حکمت کے وہ اصول جن پر دنیا کا نظام قائم ہے، اور جن کی پیروی کرکے کوئی انسان، اس دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے-
قرآن واحد محفوظ الہامی کتاب ہے- اس حقیقت کا اظہار قرآن میں پیشگی طورپر ان الفاظ میں کیا گیا تھا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (
قرآن کی حفاظت کا یہ کام ثابت شدہ تاریخ کے مطابق چار ادوار (periods) میں انجام پایا- پہلے دور میں یہ کام زیادہ تر حفظ (memorization) کے ذریعہ ہوا- دوسرے دور میں حفاظت ِ قرآن کا یہ کام تحریر (writing) کے ذریعہ انجام پایا- لوگوں نے بڑی تعداد میں یہ کیا کہ حفظ قرآن کے ساتھ وہ جزئی یا کلی طورپر قرآن لکھتے رہے- کتابت کا یہ کام قدیم زمانے کی دستیاب چیزوں پر ہوتا رہا جن میں قدیم طرز کا کاغذ (قرطاس) بھی شامل ہے- اس کے بعد پرنٹنگ پریس کا زمانہ آیا-
انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس ساری دنیا میں عام ہوگیا- اس کے بعد قرآن مطابع میں چھاپا جانے لگا- اس کے مجلد نسخے بڑی تعداد میں تیار کیے گئے- یہ مطبوعہ نسخے ہر جگہ پھیل گئے- اس کے بعد ٹکنالوجی کا زمانہ آیا، اور اب انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر پورا قرآن، تحریر اور آواز دونوں صورتوں میں محفوظ ہوچکا ہے-
ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن اترا، اس وقت پورے ملک عرب کی زبان عربی تھی- لیکن دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان کا بھی یہ حال تھا کہ مختلف علاقوں کے عرب قبیلے مختلف لہجے میں عربی بولتے تھے- اس بنا پر ایسا ہوا کہ اسلام جب پورے عرب میں پھیل گیا تو ہرایک کا قرآن باعتبار متن ایک ہی قرآن تھا، لیکن قرآن کو پڑھنے کا لہجہ سب کا ایک نہ تھا- اس وقت لوگوں کی سہولت کے لیے یہ کہا گیا کہ قرآن سات لہجوں میں اترا ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ باعتبار نزول قرآن کے سات لہجے تھے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے اپنے لہجے کے اعتبار سے قرآن کے پڑھنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، یہ ایک عملی بات تھی نہ کہ کوئی نظری بات-
قرآن کے متن (text)کی حفاظت کے لیے صحابہ نے آخری انتہائی طریقہ اختیار کیا- مثلاً خلیفہ اول حضرت ابوبکر کے حکم سے زید بن ثابت انصاری نے قرآن کو کاغذ پر لکھ کر اس کا مصحف تیار کیا جس کو رَبعہ کہاجاتا تھا- یہ کام انھوں نے ڈبل چیکنگ سسٹم (double checking system) کے اصول پر کیا، یعنی لکھے ہوئے کو حفظ سے چیک کرنا، اور حفظ کو لکھے ہوئے سے چیک کرنا- اس طرح جو کاغذی نسخہ (ربعہ) تیار ہوا اس کو خلیفہ اول کے حکم سے رسول اللہ کی زوجہ حفصہ کے گھر پر رکھ دیا گیا-
ایک مصحف (رَبعہ) کی صورت میں لکھے جانے سے پہلے لوگوں کے پاس قرآن کے اجزا مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے موجود تھے- مستند مصحف تیار ہونے کے بعد خلیفہ اول کے حکم سے اور تمام صحابہ کی رائے سے یہ کیاگیا کہ ان تمام مختلف اجزا کو جلا دیاگیا-حرق مصحف کا یہی واقعہ دوسری بار خلیفہ ثالث حضرت عثمان کے زمانہ میں پیش آیا- اس مدت میں لوگوں نے بطور خود جزئی یا کلی طورپر مصاحف لکھ لیے تھے-
ان مصاحف میں ان کے قبائل کی قرأت کا اسلوب شامل ہوگیا تھا- حضرت عثمان نے یہ کیا کہ زید بن ثابت انصاری کی قیادت میں صحابہ کی ایک کمیٹی بنائی- پھر انھوں نے حضرت حفصہ کے پاس جومصحف صدیقی محفوظ تھا اس کو منگوایا، اور صحابہ سے کہا کہ اس کی نقلیں تیار کرو- اس طرح مصحف صدیقی کی سات نقلیں تیار کی گئیں- پھر خلیفہ کے حکم سے ان نقلوں کو مدینہ اور دوسرے شہروں کی مسجدوں میں رکھوا دیا گیا- اس کے بعد حضرت عثمان نے مزید اہتمام یہ کیا کہ لوگوں نے بطور خود قرآن کے جو تحریری نسخے تیار کیے ـتھے، ان کو جمع کروایا اور پھر صحابہ کے اتفاق رائے سے ان تمام مصاحف کو جلا دیاگیا- یہ کام بہت جرأت کا طالب تھا-
لیکن حضرت عثمان نے صحابہ کی رائے سے یہ جرأت مندانہ اقدام کیا- بعد کو جب خلیفہ ثالث کے خلاف کچھ شورش پسندوں نے ہنگامہ کیا، یہاں تک کہ ان کو قتل کردیاگیا، اس وقت شورش پسندوں نے خلیفہ ثالث کو بدنام کرنے کے لیے جو باتیں کہی تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے خلیفہ ثالث کو حرّاق المصاحف قرار دیا تھا، یعنی قرآن کو جلانے والا- (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، خطبة الکتاب، ص:
قرآن کی تاریخ اور اس کی تدوین پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں- یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ قرآن اگر چہ قدیم زمانہ میں اترا، لیکن اس کی حفاظت کے لیے تمام ممکن اقدام کیا گیا، حتی کہ سیکولر محققین نے بھی کھلے طور پر اس کا اعتراف کیا ہے-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- سنن ابی داؤدکے الفاظ یہ ہیں: إنَّ أوَّلَ ما دخلَ النَّقصُ علَى بَنی إسرائیلَ کانَ الرَّجلُ یَلقى الرَّجلَ فیقولُ یا ہذا اتَّقِ اللَّہَ ودَع ما تصنَعُ فإنَّہُ لا یحلُّ لَکَ ثمَّ یَلقاہُ منَ الغَدِ فلا یمنعُہُ ذلِکَ أن یَکونَ أکیلَہُ وشریبَہُ وقعیدَہُ فلمَّا فعلوا ذلِکَ ضربَ اللَّہُ قلوبَ بعضِہِم ببعضٍ ثمَّ قالَ لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَى ابْنِ مَرْیَمَ إلى قولِہِ فَاسِقُونَ ثمَّ قالَ کلَّا واللَّہِ لتأمُرُنَّ بالمعروفِ ولتَنہَوُنَّ عنِ المنکَرِ ولتأخُذُنَّ علَى یدَیِ الظَّالمِ ولتَأطرُنَّہُ علَى الحقِّ أطرًا ولتقصرُنَّہُ علَى الحقِّ قصرًا(ابو داؤد: 4336)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے اندر جو پہلا نقص آیا، وہ یہ تھا کہ ان کا ایک شخص اپنی قوم کے دوسرے شخص سے ملتا اور اُس سے کہتا کہ اے شخص، خدا سے ڈر اور جو کچھ تم کررہے ہو، اس کو چھوڑ دو، کیوں کہ ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں- پھر وہ اگلے دن اُس شخص سے ملتا(اور وہ دیکھتا کہ وہ اپنی روش سے باز نہیں آیا ہے)- مگر یہ چیز اُس کو اِس سے نہ روکتی کہ وہ اس کے ساتھ کھانے اور پینے اور بیٹھنے میں اس کا شریک بنے- جب انھوں نے ایسا کیا تو اللہ نے ایک کے دل کو دوسرے کے دل جیسا کردیا- پھر آپ نے سورہ المائدة (سورہ نمبر 5)کی آیت
یہ حدیث اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- اس حدیث میں امتوں کے بارے میں ایک تاریخی قانون کو بتایا گیاہے، اور وہ یہ کہ جب امت کی بعد کی نسلوں میں زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوتاہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور امت کے رہنماؤں کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہئے- غور کیجئے تو یہ حدیث مسلمانوں کے آج کے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرة کی ایک آیت یہ ہے: مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر(
قرآن کی اِس آیت میں نسخ سے مراد الغاء (to abolish) نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہٹانا (replacement) ہے- آیت میں اس عمل کو بظاہر اللہ کی طرف منسوب کیا گیاہے، لیکن یہ اسلوب کی بات ہے- اس سے مراد حقیقتاً اجتہاد کا عمل ہے، جس کو متقی اہل علم انجام دیتے ہیں- خیر سے مراد اچھا (better)نہیں ہے بلکہ اس سے مراد انسانی حالات کے اعتبار سے زیادہ قابلِ تطبیق (more applicable) ہونا ہے-
قرآن کے مطابق، اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی (
اس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن کی کچھ آیتوں میںاہل ایمان کو قتال (war) کا حکم دیا گیا ہے- یہ حکم توحید کی طرح ابدی حکمکے معنی میں نہ تھا، بلکہ حالات کی نسبت سے مطلوب تھا- اب حالات مکمل طورپر بدل گئے ہیں- قدیم دور اگر جنگ کا دور تھا تو اب دنیا میں امن کا دور آچکا ہے، اب اسلام کے مقصود کو حاصل کرنے کے لیے جنگ کی ضرورت نہیں- اس لیے اب قتال کی آیت کی تشریح نو (re-interpretation) کی جائے گی، اور یہ نئی تشریح بلا شبہہ قرآن کے مطابق قرار پائے گی-
واپس اوپر جائیں
جدید دور میں ایک نظریہ بہت زیادہ عام ہے، وہ ہے صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ- اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے- مگر یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے- پیدائشی طورپر ہر عورت مس ڈِفرنٹ (Ms. Different) ہے، اور ہر مرد مسٹرڈِفرنٹ (Mr. Different) -
عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے- اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر (adviser) بنیں-حقیقت یہ ہے کہ فطر ت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری (gender partnership) کا نظریہ زیادہ درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ-انسان کی زندگی مسائل (problems)کا مجموعہ ہے- یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں- اس لیے بار بار یہ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتھیوں میں دو مختلف صفات ہوں تاکہ ہر مسئلہ کو منیج (manage)کیا جاسکے- ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ اداکرسکے- ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ اداکرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے:
There must be a partner who can deal with the problem differently.
فطرت کے نظام میں یکسانیت (uniformity)موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کےتعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہے گا- ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پھر نزاع کبھی ختم نہ ہوگا- اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کار (division of labour) کا طریقہ رائج ہوجائے گا- دونوں خود اپنے فطری تقاضے (natural urge) کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے- ایک دوسرے سے الجھنے کا طریقہ ختم ہوجائے گا- اور ایک دوسرےسے معاونت کا طریقہ رائج ہوجائے گا-
واپس اوپر جائیں
سرولیم میور(William Muir)ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انگریز تھا، جو برٹش حکومت کے دور میں غیر منقسم ہندستان کی ایک ریاست کا گورنر مقرر ہوا- سرولیم میور نے ایک کتاب لکھی، جس کا نام ’’لائف آف محمد‘‘(The Life of Mahomet)تھا- یہ انگریزی کتاب 1866 میں چار جلدوں میں شائع ہوئی-
علماء کے نزدیک یہ کتاب اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ’’زہر‘‘ پھیلانے والی کتاب تھی- لوگ مصنف کو دشمن اسلام قرار دے کر اس کے سخت خلاف ہوگئے- سرسید احمد خاں کو اس پر غصہ آیا، انھوں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کروایا، پھر اس کے خلاف اردو زبان میں ایک کتاب لکھی، جو خطبات احمدیہ کے نام سے شائع ہوئی-
اس طرح کے کام کو دفاع اسلام کا عنوان دے کر بہت اہم کام سمجھاجاتا ہے، مگر یہ طریقہ سنت کے مطابق نہیں- سنت ِ رسول کے مطابق اصل کرنے کاکام دعوت اسلام ہے، نہ کہ دفاع اسلام- یعنی مصنف کے لئے دعا کرنا، اس سے مل کر اس کی غلط فہمیوں کو دور کرنا- اس موضوع پر مثبت انداز میں تعارفی کتاب تیار کرکے چھاپنا- انگریزوں میں اور دوسرے لوگوں میں پر امن دعوتی مشن جاری کرنا- سنت رسول کے مطابق یہی کرنے کا اصل کام ہے- مگر یہ اصل کام نہ سرسید احمد خاں نے کیا، اور نہ علماء نے-
سنت ِ رسول کے مطابق اسلام کا اصل مشن یہ نہیںہےکہ مفروضہ دشمنان اسلام کے خلاف مناظرانہ انداز میں تقریریں کی جائیں، جوابی انداز میں کتابیں شائع کی جائیں، یہ سب رد عمل (reaction) کے طریقے ہیں، اور رد عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں- اس قسم کے حامیان اسلام کو نتیجہ (result) کے اعتبار سے غور کرنا چاہئے، یعنی انھیں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ ان کی جوابی کوششوں کا مثبت نتیجہ کیا ہوا، باعتبار نتیجہ اس سے اسلام کو فروغ ہوا یا نفرت کو فروغ ہوا-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر کی ایک حدیث ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال: ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیہ (مؤطا امام مالک: 1874) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے، جب تک تم ان دونوں چیزوں کو پکڑے رہوگے، وہ دو چیزیں ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت-یہ حدیث اس معیار (criterion)کو بتاتی ہے جس کی روشنی میں بعد کے زمانے کے مسلمانوں کو جانچ کر یہ معلوم کیا جاسکے کہ وہ صراط مستقیم پر قائم ہیں یا وہ اس سے ہٹ گئےہیں- اس معاملے کا یہی واحد معیار ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا معیار اس معاملے میں درست نہیں-اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے درمیان پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)قرآن وسنت ہو تو وہ ہدایت پر ہیں، اور جب ان کے درمیان پوائنٹ آف ریفرنس کچھ اور ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ہدایت پر قائم نہیں-
جب مسلمانوں کی کتابیں قرآن وسنت پر مبنی ہوں، جب ان کی مجلسوں میں قرآن وسنت کا چرچا ہو، جب وہ ہر معاملے میں قرآن وسنت سے رہنمائی لیتے ہوں، جب ان کا یہ حال ہو کہ وہ قرآن وسنت کے نام پر بولیں اور قرآن وسنت کے نام پر چپ ہوجائیں، تب سمجھنا چاہئے کہ وہ ہدایت پر ہیں اور جب ایسا نہ ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہدایت سے بھٹک گیےہیں-تاہم قرآن وسنت سے ہٹنے کی ایک اور صورت ہے، جو قرآن وسنت کا نام لینے کے باوجود باقی رہتی ہے، اوریہ وہی ہے جس کو حدیث میں تفسیر بالرائے کہاگیا ہے- تفسیر بالرائے کا مطلب ہے قرآن وسنت کی غلط تعبیر (misinterpretation) - غلط تعبیر وتشریح کا یہ امکان ہمیشہ باقی رہےگا- انسان کو اس دنیا میں کامل آزادی دی گئی ہے- انسان جس طرح دوسری باتوں کے لیے آزاد ہے، اسی طرح وہ قرآن وحدیث کی غلط تشریح کے لیے بھی آزاد ہے، اس برائی سے بچنے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقوی ہے- تقوی انسان کو اس سے بچاتا ہے کہ و ہ قرآن وحدیث کی خودساختہ تشریح کرے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الانفال میں ایک غیر مطلوب انسانی کردار کا ذکر ہے- آیت کے الفاظ یہ ہیں: اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ (
اصل یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے بطور خود کسی چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے، اور کسی چیز کو غیراہم، وہ کسی چیز کو قابل غور سمجھتا ہے، اور اس کی نظر میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو قابل غور ہی نہیں- جن لوگوں کا یہ مزاج ہو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے باہر کسی بات کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس پر غور کریں- وہ اپنے سے باہر کسی بات کے بارے میں ایسی روش اختیار کرتے ہیں جیسے کہ انھوں نے اس کو سنا ہی نہیں- ان کے پاس عقل ہوتی ہے لیکن وہ اپنی عقل کو کہیں اور مشغول کئے ہوئے ہوتے ہیں- وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ وہ کسی نئی چیز کو اہمیت دیں، اور اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں، ایسے لوگ حیوان کی مانند ہیں، کیونکہ حیوان بھی یہی کرتا ہے کہ اپنی مانوس چیزوں کے سوا کسی اور چیز کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر دھیان دے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرے-
واپس اوپر جائیں
قرآن خدا کی کتاب کی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں اترا- اس وقت ساری دنیا میں توہم پرستی کا کلچر رائج تھا- قرآن کے بعد علمی دریافتوں کا سلسلہ شروع ہوا- یہ دور بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا- قرآن کی صداقت کا یہ علمی ثبوت ہے کہ بعد کی علمی تحقیقات قرآن کی باتوں کی تصدیق بنتی چلی گئیں- اس سلسلہ میں برٹش سائنسداں سرجیمس جینز کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:
The stream of knowledge is heading towards a non-mechanical reality;kthe universe begins to look more like a great thought than like a great machine. (The Mysterious Universe, James Jeans, p.
یہ بات برٹش سائنسداںنے 1930 میں کہی تھی- اس کے بعد کی تمام دریافتیں اس بات کی تصدیق بنتی چلی گئیں کہ حقیقت کا جو تصور قرآن میں دیاگیا ہے، وہی درست تصور ہے- اس درمیان سائنسی دریافتوں کے ذریعہ ملحدانہ تصورات رد ہوتے چلے گئے- اور موحدانہ تصورات ثابت شدہ بنتے چلے گئے-
مثلاً قدیم ملحدین یہ سمجھتے تھے کہ کائنات ابدی ہے، وہ جیسی آج ہے ویسی ہی وہ ابد سے چلی آرہی ہے، اس لیے کائنات کو خالق کی کوئی ضرورت نہیں- مگر بعد کی سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ کائنات کا ایک آغاز ہے- 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) کی صورت میں کائنات کا آغاز ہوا-
اسی طرح قدیم ملحدین مانتے تھے کہ کائنات میں کوئی نظم نہیں،مگر موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میںایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے- حقیقت یہ ہے کہ سائنس کی تمام دریافتیں مذہب توحید کی تصدیق کرتی ہیں، خواہ براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر-
واپس اوپر جائیں
آدمی سمجھتا ہے کہ وہ زندگی میں جی رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد موت کے دروازے پر کھڑا ہوا ہے- جب موت کا کوئی وقت مقرر نہیں تو ہر لمحہ موت کا لمحہ ہے- انسان کا ہر اگلا قدم موت کی طرف جانے والاقدم ہے- زندگی ہر انسان کے لیے صرف آج کا تجربہ ہے، کل کا تجربہ نہیں- ہر آدمی کے لیے آج کا دن زندگی کا دن ہے اور کل کا دن موت کا دن-
موت معلوم دنیا سے نامعلوم دنیا کی طرف سفر کا نام ہے- آدمی روزانہ سفر کرتا ہے- کبھی چھوٹا سفر اور کبھی بڑا سفر، کبھی ملک کے اندرسفر اور کبھی ملک کے باہرسفر- یہ تمام اسفار ایک معلوم مقام سے چل کر دوسرے معلوم مقام تک جانے کے ہم معنی ہوتے ہیں-اس قسم کے سفروں سے آدمی اتنا زیادہ مانوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کو کوئی سنگین چیز نہیں سمجھتا-
لیکن موت کے سفر کا معاملہ اس سے مختلف ہے- موت کے سفر میں ایسا ہوتاہے کہ آدمی ایک معلوم دنیا سے نکل کر دوسری نامعلوم دنیا کی طرف جاتا ہے- یہ بلاشبہہ ہر آدمی کے لیے ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے- مگر آدمی اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے اس کی سنگینی کو محسوس نہیں کرتا- وہ دنیا میں جن اسفار کا تجربہ کرتا ہے، ان سے وہ اتنا مانوس ہوجاتا ہے کہ وہ گہرے شعور کے تحت، موت کے سفر جیسے سفر کا ادراک نہیں کر پاتا - اسی بنا پر ہر آدمی کے لیے موت ایک دور کی خبر بنی ہوئی ہے، وہ اس کے لیے قریب کا کوئی واقعہ نہیں-
آدمی اپنے مزاج کی بنا پر ہمیشہ کنڈیشننگ کے تحت سوچتا ہے- یہی انسان کی بے حسی کا سب سے بڑا سبب ہے- موت کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے مانوس ذہن سے باہر آکر موت کے بارے میں سوچے، وہ اپنے شعور کو کامل طورپر بیدار کرے- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی موت کی حقیقت کو سمجھے، جو بلاشبہہ ہر انسان کا سب سے زیادہ سنگین معاملہ ہے-
واپس اوپر جائیں
نفسیات کے اعتبار سے کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ آسان کام دوسروں کی شکایت (complaint) ہے، اور سب سے زیادہ مشکل کام دوسروں کا اعتراف (acknowledgment) ہے-یہ بات انسان کی نسبت سے ہے- لیکن جہاں تک فطرت کے قانون کا تعلق ہے، فطرت کے قانون کے مطابق دوسروں کی شکایت کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے- اس کے برعکس، دوسروں کا اعتراف کرنے کا ذہن انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر میں سب سے زیادہ معاون عنصر کی حیثیت رکھتا ہے-
کیوں ایسا ہے کہ دوسروں کی شکایت نہایت آسان ہے اور دوسروں کا اعتراف بے حد مشکل- اس کا سبب یہ ہے کہ شکایت کا مطلب دوسروں کی نفی(negation) ہے، اور اعتراف کا مطلب خود اپنی نفی ہے- جب آدمی کسی دوسرے کی شکایت کرتاہے تو اس کو ایسا کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسرا شخص براہے اور میں اچھا ہوں- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرنے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ میں اچھا نہیں ہوں بلکہ دوسرا شخص اچھا ہے-
آدمی کی سب سے بڑی کمزوری خودی ہے- شکایت کرتے ہوئے آدمی کو اپنی خود ی کے جذبے کی تسکین حاصل ہوتی ہے- اس کے برعکس، دوسرے کا اعتراف کرتےہوئے آدمی کی خودی کو ٹھیس پہنچتی ہے- یہی فرق ہے جس کی بنا پر لوگوں کے لیے شکایت کرنا سب سے زیادہ آسان کام بن گیا ہے، اور اعتراف کرنا سب سے زیادہ مشکل کام-
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں آدمی کے لئے امتحان کے پرچے ہیں- شکایت کا موقع بھی امتحان ہے، اور اعتراف کا موقع بھی امتحان- جس آدمی کا یہ حال ہو کہ وہ دوسروں کی شکایت تو کرے مگر وہ دوسروں کا کھلا اعتراف نہ کرے، ایسا آدمی آزمائش میں ناکام ہوگیا- ایسا آدمی اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں بن سکتا-
واپس اوپر جائیں
دنیا میں جو برائیاں (evils) ہیںان سب کا سبب صرف ایک ہے- اور وہ ہے لوگوں میں اَیز اِٹ از تھنکنگ (as it is thinking) نہ ہونا- غصہ، نفرت، انتقام، عدم برداشت، تشدد وغیرہ سب کی اصل جڑ یہی ہے- ایز اٹ از تھنکنگ کا مطلب ہے مبنی بر حقیقت سوچ-
غور کیا جائے تو یہی وہ چیز ہے جس کو شیطان کا کلچر (satanic culture) کہاگیا ہے- شیطان یا ابلیس جنوں کا سردار تھا- پیدائش آدم کے وقت اس نے یہ اعتراض اٹھایا کہ خدا نے انسان کو خلیفة الارض بنادیا اور جنات کو کچھ نہیں دیا- یہ انتخابی طرز فکر کی پہلی مثال تھی- جنّ کو جو اختیارات دیے گئے تھے اس کے لحاظ سے گویا وہ خلیفة الکون تھا- مگر ابلیس نے یہ کیا کہ جو کچھ اس کو ملا ہوا تھا، اس کا اعتراف نہیں کیا، اور جو کچھ انسان کو دیاگیا تھا اسی کا ذکر یک طرفہ طورپر کیا- اسی یک طرفہ طرز فکر سے ساری برائیاں پیداہوئیں- ابلیس کا یہی کلچر آج تک ساری دنیا میں جاری ہے-
سارے انسانوں کی مشترک برائی بتانا ہو تو وہ صرف ایک ہوگی- اوروہ انتخابی سوچ (selective thinking) ہے- ہر عورت اور مرد یہ کرتے ہیں کہ اپنے بارے میں ایک ڈھنگ سے سوچتے ہیں، اور دوسرے کے بارے میں دوسرے ڈھنگ سے- اپنے آپ کو ایک معیار سے جانچتے ہیں، اور دوسرے کو دوسرے معیار سے- اپنی پسند کو لوگوں کا ذکر کرنا ہو تو وہ ان کی صرف اچھائیاں بیان کریں گے، اور اگر ان لوگوں کا ذکر کرنا ہو جو انھیں پسند نہیں ہیں تو ان کی صرف برائیاں بیان کریں گے- ایک قوم کے بارے میں وہ منفی رپورٹنگ (negative reporting) کریں گے، اور دوسری قوم کے بارے میں صرف مثبت رپورٹنگ (positive reporting)- ایک گروہ ان کو ظالم نظر آئے گا اور دوسرا گروہ مظلوم دکھائی دے گا- ایک کے لئے ان کے دل میں صرف نفرت ہوگی، اور دوسرے کے لئے صرف محبت — یہی وہ چیز ہے جس نے لوگوں کو حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) سے محروم کردیا ہے-
واپس اوپر جائیں
1- ترجمۂ کتب:
اب گڈورڈ بکس سے قرآن کا ترجمہ اسپینش، فرنچ اور اٹالین زبان میں شائع ہوچکا ہے۔ چائنیز زبان میں ترجمہ کا کام ہو رہاہے۔
صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب The Prophet of Peace کا ترجمہ انڈونیشی زبان میں ہوچکا ہے۔
غیر مسلموں کو اسلام سےمتعارف کرانے والی صدر اسلامی مرکز کی ایک بہترین انگریزی کتاب What is Islam کو ان زبانوں میں ٹرانسلیٹ کیا جاچکا ہے، فرنچ، جرمن، اسپینش، اور فلپائن کے اکثریت کی زبان تغالوگ (Tagalog)، وغیرہ۔
پیغمبر ِ اسلام کی دعوتی زندگی پر مشتمل صدر اسلامی مرکز کی کتاب مطالعہ سیرت کا سندھی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ جناب یوسف سندھی نے سی پی ایس پاکستان کے تعاون سےیہ ترجمہ کیا ہے۔
2- دعوتی سرگرمیاں:
دعوت کا ایک اہم مقام بک فیر ہے۔ اس لیے الرسالہ مشن سے وابستگی رکھنے والےداعی نیشنل اور انٹرنیشنل پیمانے پر منعقد ہونے والے بک فیر میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوںجن انٹرنیشنل بک فیر میں شرکت کی گئی، وہ یہ ہیں:شارجہ انٹرنیشنل بک فیر(
سہارن پور کے کمپنی گارڈن میں
بہار کے دلسنگھ سرائے (سمستی پور) میں 1 مارچ 2015 کو ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں بہار سی پی ایس ٹیم کے جناب دانیال صاحب نے اسلام اور امن کے موضوع پر لکچر دیا۔ تقریر کے بعد تمام حاضرین کو ہندی ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
ممبئی ٹیم نے
سی پی ایس کولکاتا نے
ڈاکٹر راجیش سروادنیا فاؤنڈر آف وویکانندا یوتھ کنکٹ (ممبئی) نے
سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی کے زیراہتمام 2 اپریل 2015 کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر دہلی میں گلوبل چیپٹرس میٹ رکھی گئی تھی۔ اس پروگرام کا افتتاح صدر اسلامی مرکز نے کیا۔ اس میں تین کتابوں کا رسم اجرا کیاگیا۔ یہ کتابیں ہیں: اسلام اینڈ ورلڈ پیس (انگریزی ترجمہ امن عالم)، اسلامی جہاد(کتابچہ) اور شہادت: امت مسلمہ کا مشن (کتابچہ)۔ اس کے علاوہ ملک وبیرون ملک کے نمائندوں نے اپنے اپنے مقامات پر ہونے والی دعوتی سرگرمیوں اور تجربات سے لوگوں کو باخبر کیانیز مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔
3- الرسالہ مشن کے متعلق تاثرات :
مالدیپ اسلامی افیرس کے ڈپٹی وزیر محمدقباد ابوبکر
I have been distributing Maulana’s book, Khandani Zindagi among some women since the past two years. It has become very popular. Recently, I received a message from one of the women, who requested me to send more of Maulana’s books, including Tabir ki Ghalati and The Secret of a Successful Family Life.
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.