اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ جب کسی سےاپنی پسند کی بات سنتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں، اور اگر وہ اس سے اپنی پسند کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں بُری رائے قائم کرلیتے ہیں۔ یہ طریقہ آدابِ ملاقات کے خلاف ہے۔ملاقات کا مقصد ایک انسانی مطالعہ ہے، نہ کہ لوگوں کے بارے میں اچھی رائے یا بُری رائے قائم کرنا۔
ہر انسان ایک کامل انسان ہے۔ وہ اپنی ذات میں پوری نوعِ انسانی کا نمائندہ ہے۔ ہر عورت اور مرد کا رد عمل گویا پوری انسانیت کا رد عمل ہے۔ ہر انسان کا مطالعہ گویا پوری انسانیت کا مطالعہ ہے۔ ایک انسان کو جان لینا گویا پوری نوعِ انسانی کو جان لینا ہے۔
اس اعتبار سے ہر انسان گویاانسانیت کی ایک لائبریری ہے۔ اگر آپ کے اندر غیر جانبدارانہ سوچ ہے، اگر آپ تعصب سے خالی ہو کر انسان کا مطالعہ کرسکتے ہیں تو ہر انسان آپ کے لیے پوری انسانیت کے مطالعے کا ذریعہ بن جائے گا۔ آپ ایک انسان کو دریافت کر کے تمام انسانوں کو دریافت کر لیں گے، حتی کہ آپ کا محدود خاندان وسیع تر معنوں میں انسانیت کی لائبریری بن جائے گا۔
ہر انسان کبھی خوش ہوتا ہے، کبھی غمگین ہوتا ہے، کبھی وہ مثبت ردعمل کا اظہار کرتا ہے اور کبھی منفی ردعمل کا اظہار۔ اسی طرح وعدہ پورا کرنا اور وعدہ پورا نہ کرنا، شکایت کو درگزر کرنا اور درگزر نہ کرنا، دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرنااور بددیانیتی کے ساتھ معاملہ کرنا،صدق بیانی کرنا اور کذب بیانی کرنا، مدلل اختلاف کرنا اور الزام تراشی کرنا،قابلِ پیشن گوئی کردار کا حامل ہونا اور ناقابلِ پیشن گوئی کردار کا نمونہ بن جا نا، وغیرہ۔ اس طرح کا ہر معاملہ بظاہر ایک انسان کی طرف سے پیش آتا ہے، لیکن وسیع تر معنوں میں وہ تمام انسانوں کے سلوک کو بتاتا ہے۔اگرآپ کے اندر گہرا مطالعہ کرنے کی صلاحیت ہو تو آپ ایک فرد میں تمام افراد کو دیکھ لیں گے، آپ ایک خاندان کے اندر پوری انسانیت کے معاملےکو دریافت کرلیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے اندر بصیرت (wisdom)کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک بیان آیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا لِیُعَذِّبَ اللَّہُ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِینَ وَالْمُشْرِکَاتِ وَیَتُوبَ اللَّہُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا (
امانت (trust) سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد اللہ کی ایک ذاتی صفت (attribute) ہے۔ یہ صفت تخلیق (creation) ہے۔ تخلیق کی صفت اللہ نے مخلوقات میں سے کسی اور مخلوق کو نہیں دی، صرف انسان کوتخلیق کی یہ صفت محدود طور پر دی گئی ہے۔انسان کو محدود طور پر تخلیق کی یہ صفت دی گئی ہے، لیکن اس کو قدرت کی صفت نہیں دی گئی۔
اسی صفتِ تخلیق کی بنا پر انسان ایسے کام کرتا ہے، جس کا کرنا کسی اور مخلوق کے بس میں نہیں۔ مثلا، پلان (منصوبہ) بنانا، حکومت قائم کرنا، فطرت کے مخفی راز کو دریافت کرنا، ٹکنالوجی کے ذریعے نئی نئی چیزیں تیار کرنا، وہ چیز وجود میں لانا جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے،وغیرہ۔اس امانت کے ساتھ چوں کہ لازمی طور پرمواخذہ (accountability) کا تصور شامل تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر امانت کو درست طور پر استعمال کیا گیا تو ابدی جنت ہے، اور اگر اس کو درست طور پر استعمال نہ کیا جائے تو ابدی جہنم ۔ یہ ایک نازک معاملہ تھا، اس لیےبقیہ کائنات اس کو لینے کی ہمت نہ کر سکے،مگر انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایڈونچرسٹ (adventurist) تھا، اس لیے اس نے اس امانت کو قبول کر لیا۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر کی ایک حدیث ہے۔ آپ نے اپنے معاصر اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے اپنی امت کو ایک آخری سبق دیا۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنة نبیہِ (مؤطا امام مالک: 1874) یعنی میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم اس کو پکڑے رہوگے، وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت۔
یہ حدیث دین میں قرآن و سنت کی اہمیت کو بتاتی ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امت صرف قرآن و سنت کے لفظی مفہوم کو پکڑے رہے، اور وہ گمراہی سے بچ جائے گی۔فطرت کے قانون کے مطابق احوال و ظروف ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن و سنت کی عصری تطبیق (contemporary application)کو دریافت کیا جائے، اور قرآن و سنت کی اسپرٹ کے مطابق نئے حالات میںاپنی اسلامی زندگی کی تشکیل کی جائے۔
اس دینی تقاضے کو ایک حدیث میں اجتہاد کہا گیا ہے۔اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: إن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لما أراد أن یبعث معاذا إلى الیمن قال: کیف تقضی إذا عرض لک قضاء؟، قال: أقضی بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد فی کتاب اللہ؟، قال: فبسنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، قال: فإن لم تجد فی سنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ولا فی کتاب اللہ؟ قال: أجتہد رأیی، ولا آلو فضرب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال: الحمد للہ الذی وفق رسول، رسول اللہ لما یُرْضِی رسولَ اللہ (ابو داؤد : 3592) یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب ارادہ کیا کہ معاذ بن جبل کو(بحیثیت عامل ) یمن بھیجیںتو آپ نے ان سے فرمایا: تمہارے سامنے جب کوئی معاملہ آئے گا تو اس کا فیصلہ کس طرح کروگے؟ انھوں نے کہا کہ میں اللہ کی کتاب سے اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کی کتاب میں اس کا حکم نہ پاؤ؟ انھوں نے کہا تو میں اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اللہ کے رسول کی سنت میں اس کا حکم نہ پاؤ، اور نہ اللہ کی کتاب میں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا، اورمیں اس میں کمی نہیں کروں گا۔تو رسول اللہ نے ان کے سینےپر ہاتھ مارا، اور فرمایاکہ اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس چیز سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
امت کے تمام علماء نے ہر دور میں دین میں اجتہاد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے، مگر عملاً پچھلے ادوار میں یہ ہوا کہ علماء نے اجتہاد کے اصول کو صرف جزئیاتی مسائل تک محدود رکھا ، کلیاتی مسائل میں وہ اجتہاد کے اصول کا انطباق نہ کر سکے۔
مثلا قرأت فاتحہ خلف الامام پر فقہی بحثیں، آمین بالسر اور آمین بالجہر پر فقہی بحثیں، رمضان میں تراویح کی رکعت پر فقہی بحثیں، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام بحثیں، جزئیاتی بحثیں ہیں۔ مگر علماء نے ان جزئیاتی بحثوںکو اتنی زیادہ اہمیت دی، گویا کہ یہی اجتہاد کے اصل موضوعات ہیں۔
اسلام کے ظہور کے بعدعملا تقریبا ہزار سال تک وہی روایتی دور (traditional period)قائم تھا جس دور میں کہ اسلام آیا تھا۔ اس لیے اس ہزار سالہ دور میںعلما کے اس موقف سے مسلم سماج میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ لوگوں کی دینی زندگی بدستور چلتی رہی۔
لیکن انیسویں صدی عیسوی میں انسانی تاریخ میں ایک بڑا ظاہرہ پیدا ہوا، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے۔یہ ظاہرہ اکیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔جدید تہذیب نے ہر اعتبار سے زندگی کے نقشے کو بدل دیا ہے۔ اب ضرورت تھی کہ کلیاتی مسائل کی سبت سے اجتہاد کے اصول کو استعمال کیا جائے، اور نئے حالات میں اسلام کی تطبیقِ نو (reapplication)کو تلاش کیا جائے۔مگر علماء اس اجتہاد میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ دین کے جزئیاتی مسائل میں اجتہاد کے اصول کی تطبیق جانتے تھے، مگر دین کے کلیاتی مسائل میں اجتہاد کی تطبیق سے وہ کامل طور پر بے خبر تھے۔اجتہاد کے معاملے میں علماء کی اس ناکامی نے امتِ مسلمہ کو عملاً ایک ڈائریکشن لیس (directionless) امت بنادیا ہے۔
اس معاملے میں کوتاہی کی سب سے بڑی مثال وہ ہے جو جدید تہذیب کی نوعیت کو دریافت کرنے میں ہوئی۔انیسویں صدی اور بیسویں صدی کا زمانہ جدید تہذیب کے ظہور کا زمانہ ہے۔ جدید تہذیب کے بعد زندگی کے معاملات میںجو تبدیلیاں ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جزئیاتی نہیں تھیں، بلکہ کلیاتی تھیں۔اس نوعیت کی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے علماء ذہنی اعتبار سے تیار نہ تھے۔ چنانچہ ساری دنیا کے علماء نے ردعمل (reaction) کے تحت منفی موقف اختیار کر لیا۔ تمام دنیا کے علماء نے متفقہ طور پر یہ اعلان کردیا کہ جدید تہذیب اسلام دشمن تہذیب ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا موقف نفرت اور تشدد کا ہونا چاہئے، نہ کہ امن اور مصالحت (compromise)کا۔
امت کی تاریخ میں یہ بلاشبہ سب سے بڑی اجتہادی غلطی تھی۔اس غلطی کے نتائج امت کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئے۔ اس کی بنا پر یہ ہوا کہ جدید تہذیب کے مقابلے میں امت اپنا مثبت موقف (positive stand)دریافت نہ کر سکی۔وہ صرف رد عمل کی نفسیات کے تحت مغربی تہذیب اور مغربی اقوام کے خلاف منفی سرگرمیوں میں مبتلا رہی۔ اس منفی موقف کا نقصان جدید تہذیب کو تو نہیں پہنچا، البتہ امت جدید دور میں ایک پس ماندہ امت (backward community) بن کر رہ گئی۔
اب امت اپنے اس موقف کے آخری دور میں ہے۔ یہ دور مایوسی (frustration) کا دور ہے۔ چنانچہ مایوسانہ نفسیات کی بنا پر پوری امت یا تو شکایت اور احتجاج میں مبتلا ہے، یابے نتیجہ قسم کے گن کلچر اورخود کش بمباری (suicide bombing) میں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب اسلام کے لیے دشمن تہذیب نہیں تھی، بلکہ وہ ایک مؤید تہذیب (supporting civilization)تھی۔ اسلام میں کوئی نقصان کئے بغیر وہ اسلام کے لیے نئے وسیع تر مواقع کھول رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تہذیب کا ظہور اس پیغمبرانہ پیشن گوئی کی تصدیق تھی جو کہ صحیح البخاری اور دوسری کتابوں میں آئی ہے۔ اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اللہ اس دین کی تائید فاجر (secular)لوگوں کے ذریعہ بھی کرے گا (صحیح البخاری : 3062)۔
اسلام کی ابتدائی تاریخ میں 6ہجری میں حدیبیہ کا معاہدہ پیش آیا۔ اس کے بعد یہ آیت اتری: إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا وَیَنْصُرَکَ اللَّہُ نَصْرًا عَزِیزًا (
قرآن کی اس آیت میں فتح مبین (clear victory)اور نصر عزیز (mighty help) وقتی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ابدی معنی میں ہے۔ اسلام کے حق میں اللہ کی اس نصرت خاص کا ظہور فوری طور پر یہ ہوا کہ اس معاہدہ کے جلد ہی بعد مکہ فتح ہوگیا، اور پھر اسلام سارے عرب میں پھیل گیا۔ یہ گویا موعود فتح مبین کا پہلا مرحلہ (first phase) تھا۔
اس فتح کا دوسرا مرحلہ (second phase)ایک عمل (process) کی صورت میں تاریخ میں جاری ہوا۔ اس عمل نے تاریخ انسانی میں پہلی بار فتح کو مقامی معاملے کےبجائے ایک عالمی واقعہ بنادیا۔ اللہ کی یہی وہ نصرت خاص ہے، جو جدید تہذیب کی صورت میں اسلام کے حق میں ظاہر ہوئی۔ اس تہذیب کے لیڈر چونکہ سیکولر لوگ تھے، اس لیے علمائے اسلام اس کی حقیقت کو سمجھ نہ سکے۔ حالانکہ حدیثِ رسول میں پیشگی طور پرامت کو اس سے باخبر کردیا گیا تھا۔
اس دور کے مسلم علما قرآن و سنت پر زور دیتے رہے، بطور خود انھوں نے سمجھا کہ وہ صراطِ مستقیم پر ہیں، حالانکہ اجتہاد کو عملاً حذف کرنے کی بنا پروہ صراطِ مستقیم سے ہٹ چکے تھے۔ اس معاملے کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے علماء ایک غلط آبسیشن (obsession) کا شکار ہو گئے۔ وہ ایک نئے قسم کی ڈائکاٹمس تھنکنگ (dichotomous thinking)کے ٹریپ (trap) میں مبتلا ہوگئے۔وہ تیسرے آپشن (third option)کو استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔ ان مسائل کا حل تیسرے آپشن کو استعمال کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
دنیا کی زندگی میں ایک انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ بظاہر اس کی اپنی کوششوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر یہ صرف اس کا ظاہری پہلو ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر ملی ہوئی چیز خدا کا یک طرفہ عطیہ ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ خدا کا ایک بندہ شعوری طور پر اس حقیقت کو دریافت کرے اور پھر دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ — خدایا، تونے دنیا کی نعمتوں کو مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دیا، اسی طرح تو آخرت کی نعمتوں کو بھی مجھے یک طرفہ عنایت کے طور پر دے دے۔ اس معاملہ میں مَیں نے تیرے ساتھ یہی گمان کیا ہے، اور میں امید رکھتا ہوں کہ تو میرے اس گمان کو آخرت میں پورا فرمائے گا، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: أنا عند ظن عبدی بی، فلیظن بی ما شاء (مسند احمد: 16016)۔
انسان کو اس کے خالق نے احسنِ تقویم (
اگر آدمی اپنی تخلیق کو دریافت کرے، اور اپنی تخلیق کے حوالے سے وہ خالق کو یاد کرے تو اس کی زبان سے دعا کے ایسے الفاظ نکلنے لگیں گے، جو خالق کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والے ہوں۔یہی وہ دعا ہے جس کو حدیث میں اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا بتایا گیا ہے- اور جو دعا اسم اعظم کے ساتھ کی جائے، اس کے متعلق رسولِ خدا نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوتی ہے (ابن ماجہ: 1494-1495)۔ اسم اعظم کے ساتھ دعا، دراصل کیفیت اعظم کے ساتھ دعا کا نام ہے، اور جو دعا کیفیت اعظم کے ساتھ کی جائے اس کی قبولیت میں کوئی شبہہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں
مومن کی ایک صفت قرآن میں سیاحت (
مومن کا سفر، دعوت کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی سفر کرکے مدعو کے پاس جانا، اور اس کو اللہ کا پیغام پہنچانا۔ مومن کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اس نے جس سچائی کو جانا ہے، اس سچائی سےوہ دوسرے انسانوںکو باخبر کرے۔ اسی عمل کا نام دعوت الی اللہ ہے۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ایک شخص جس دین کو نجات کی حیثیت سے اختیار کرے ، اس کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچانے کا حریص ہو۔ وہ چاہے کہ جس صراطِ مستقیم کو اس نے دریافت کیا ہے، اس میں وہ دوسرے انسانوں کو شریک کرے۔ ایمان کا یہی وہ تقاضا ہے جس کو دعوت کہا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک مومن جو سفرکرے، وہ دعوتی سیاحت ہے۔
الرسالہ مشن ایک دعوتی مشن ہے۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مردوں اور عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری ذمے داریوں کی طرح دعوتی سیاحت کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔ ہرریاست کے لوگ مختلف شہروں اور قصبوں میں جائیں، وہاں لوگوں سے ملیں، وہ ان کو بتائیں کہ دعوت کے کام کو کس طرح منظم انداز میں کرنا چاہئے۔ وہ ہر جگہ ہفتہ وار اجتماع یا ماہانہ اجتماع کا نظام بنائیں۔ وہ ہرجگہ لائبریری قائم کرنے کی کوشش کریں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دعوتی لٹریچر کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔ وہ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ قرآن مشن میں زیادہ سے زیادہ اپنا تعاون پیش کریں۔دعوتی سفر کو نہایت سادہ ہونا چاہئے، سیاسی باتوں اور کمیونل باتوں سے اس کو مکمل طور پر خالی ہونا چاہئے۔
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے عرب ممالک کا سفر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ عرب ملکوں میں مجھے ایک انوکھا ظاہرہ دکھائی دیا۔ اور وہ ہے سیاحوں کی کثرت سے آمد۔عرب ملکوں میں کثرت سے تاریخی عمارتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر شہروں میں شاندار مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ ان عمارتوں کو دیکھنے کے لیے روزانہ بڑی تعداد میں بیرونی سیاح (tourists) وہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب ملکوں کے انتظامی اور اقتصادی دفاترمیں زیادہ تربیرونی لوگ کام کرتے ہیں۔ اس طرح عرب ممالک میںبیرونی ملکوں کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔ یہ لوگ روزانہ ہوائی جہازوں سے آتے ہیں۔کوئی بھی شخص ان کو ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔
یہ رپورٹ سن کر میں نے کہا کہ دعوت الی اللہ کے ذہن سے دیکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مدعو خود داعی کے دروازے پر پہنچ رہا ہے۔ اور خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تمھارے پاس اللہ کی جو کتاب ہے، اس کو ہمیں پڑھنے کے لیے دو۔
لیکن عرب ممالک کے لوگوں میں دعوت کا ذہن موجود نہیں۔ اس بنا پر ان کے اندر یہ شوق نہیں کہ ان غیر مسلم لوگوں کوان کی قابلِ فہم زبان میں قرآن کےترجمے دیں، وہ ان کو اسلام کا پرامن پیغام پہنچائیں، وہ ان کے اوپر اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں جو امتِ مسلمہ کی حیثیت سے اللہ نے ان کے اوپر عائد کی ہے، یعنی شہادت علی الناس (
رسول اللہ کا مشن، دعوت کا مشن تھا۔ قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ امت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں دعوت الی اللہ کا شعور موجود نہیں۔ آج کرنے کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا شعور زندہ کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں
مغل دور کے شاعر ذوق دہلوی نے کہا تھا:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ نے کائنات پیدا کی۔ اس کا ایک حصہ مادی دنیا (physical world)تھا۔ مادی دنیا خالق کے مقابلے میں کامل سرینڈر (total surrender) کا کیس تھی۔اس کے بعد کائنات میں فرشتے تھے۔جو گویا معرفت (realization) کا کیس تھے۔مگر اس کے باوجود کائنات میں ایک خانہ خالی تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انسان کو بنایا گیا۔
انسان ایک انوکھی مخلوق ہے، جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑا ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے انسان کو اعلیٰ درجے کا دماغ دیا گیا۔ اس کو کامل آزادی دی گئی۔ اس کو یہ موقع دیا گیا کہ کامل آزادی کے ماحول میں وہ اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ خود اپنے فکری عمل کے ذریعے خالق کو دریافت کرے۔ وہ کسی جبر (compulsion) کے بغیرخود اپنے شعور کے تحت یہ گواہی دے کہ خدایا میں نے تجھ کو دریافت کیا۔ کامل اختیار رکھتے ہوئے، میں تیرا اعتراف کرتا ہوں۔ تجھ کو قادرِ مطلق مانتے ہوئے، یہ اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے مقابلے میں، مَیں عاجزِ مطلق ہوں۔میرا وجود اور جوکچھ میرے پاس ہے، وہ سب تیرا عطیہ ہے، وہ میری اپنی تخلیق نہیں۔
انسان کی یہی امتیازی صفت ہے۔ وہ خود دریافت کردہ حقیقت کا کیس ہے۔یہ انوکھا واقعہ اس وقت ممکن ہوتا ہے، جب کہ انسان اپنے عقلی امکان کو درست طور پر استعمال کرے۔ وہ ہر قسم کے بھٹکاؤ (distraction) سے اپنے آپ کو بچائے۔وہ انا (ego)رکھتے ہوئے، اپنے آپ کو بے انا (egoless) بنا لے۔ وہ منفی آئٹم کے جنگل میں، اپنے آپ کو مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم رکھے۔ یہی وہ انسان ہے جس کے لیے جنت کی معیاری دنیا بنائی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
مولانا حافظ سید عبدالکبیر عمری، جامعہ دارالسلام، عمرآباد (تامل ناڈو) میں شیخ التفسیر تھے۔ 90 سال سے زیادہ عمر پانے کے بعد انھوں نے 3 مارچ 2015کو وفات پائی۔ ان کی صحت آخر وقت تک اچھی رہی۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کی اچھی صحت کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: سادہ کھانا، سادہ زندگی۔ یہ تندرستی کا ایک فطری اصول ہے۔ جو شخص اس پر عمل کرے، وہ یقینا اپنی پوری زندگی میں صحت مند رہے گا۔
ایک مرتبہ مدرسے کی انتظامیہ اور طلبہ کے درمیان کسی وجہ سے نزاع ہوگیا۔ مولانا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے انتظامیہ سے کہا کہ طلبہ کو فریق مت بناؤ ، رفیق بناؤ۔ معاملہ حل ہو جائے گا۔ انتظامیہ نے اس مشورے پر عمل کیا،اورمسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوگیا۔ یہ فارمولا بلاشبہ ایک درست فارمولا ہے۔ وہ نہ صرف مدرسے کے معاملات کے لیے مفید ہے، بلکہ وہ تمام اختلافی معاملات کے لیے یکساں طور پرمفید ہے۔ خواہ وہ معاملہ خاندانی زندگی کا ہو یا سماجی زندگی کا۔
ایک مرتبہ وہ کلاس میں تفسیر کی کتاب بیضاوی کا درس دینے کے لیے آئے۔ وہ دیر تک خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ طلبہ نے پریشان ہوکر سوال کیا کہ مولانا طبیعت تو ناساز نہیں ہے۔ مولانا نے آبدیدہ ہوکر جواب دیا کہ آج میں مطالعہ کے بغیر آیا ہوں۔ طلبہ نے سوال کیا کہ مولانا آپ تو 50 سال سے زیادہ عرصے سے بیضاوی کا درس دے رہے ہیں، پھر بھی کیا آپ کو مطالعے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے جواب دیا کہ ہر دن مطالعہ کرنے کی وجہ سےمَیں آپ لوگوں کو کچھ نئی بات دے پاتا ہوں، آج آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کوئی نئی بات نہیں۔ کل خدا کے یہاں اس بات پر میری پکڑ ہوگی تو میں کیا جواب دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہی اچھے استاد کا معیار ہے۔ جس استاد کے اندر یہ اسپرٹ موجود ہو، وہ بلاشبہ اچھا استاد ہے۔ جس ادارے کو ایسے استاد حاصل ہوں، وہ ایک خوش قسمت ادارہ ہے۔ ایسے ادارے میں تعلیم پاکر جو نوجوان نکلیں، وہ یقینا اپنی زندگی میں کامیاب رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں
دنیا میں کوئی شخص صحیح راستے پر چلتا ہے، اور کوئی شخص صحیح راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اس فرق کا راز کیا ہے۔یہ حقیقت قرآن کی ایک آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے- وہ آیت یہ ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ (
خیر (virtue) سے کیا مراد ہے، اس کا جواب ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من تواضع للہ درجة رفعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی علیین، ومن تکبر على اللہ درجة، وضعہ اللہ درجة، حتى یجعلہ فی أسفل السافلین (مسند احمد: 11724) یعنی جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ بلند کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو علیین میں شامل کر دیتا ہے، اور جو شخص اللہ پر ایک درجہ تکبر کرتا ہے، اللہ اس کو ایک درجہ پست کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اسفل السافلین میں پہنچادیتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ہدایت اس کو ملتی ہے جس کے اندرتواضع (modesty) کی صفت موجود ہو۔ اور وہ شخص اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے، جس کے اندر کبر (arrogance) کا مزاج پایا جائے۔یہی ہدایت اور گمراہی کا خلاصہ ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے۔ اللہ اپنے علمِ کامل کے ذریعے اس حقیقت کو جان لیتا ہے۔ پھر وہ تواضع کی صفت والے انسان کو مینیج کرتے ہوئے ہدایت کی منزل تک پہنچادیتا ہے، اور جس شخص کے اندر کِبر موجود ہو، اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھٹک کر منزل سے دور ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسان کے ایک مزاج کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ ہَؤُلَاءِ یُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ (
Those people aspire for immediate gains.
حب عاجلہ کا مزاج پہلے بھی انسان کے اندر تھا، مگر اب وہ اتنا زیادہ عام ہوچکا ہے کہ شاید اس میںکوئی استثنا باقی نہیں رہا۔ اعلان یا اعلان کے بغیر ہر ایک کا نشانہ یہ ہے کہ ابھی اور اسی وقت (right here, right now) ۔ اس نظریہ کے ماننے والوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر اب نہیں تو کب:
If not now, when?
جولوگ ایسا کہتے ہیں، وہ یقینا سوچے بغیر ایسا کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ حقیقت کے اعتبار سے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آج حاصل کر لو، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی کیوں ہمارا مطلوب حاصل نہیں ہوتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان نے یہ چاہا کہ وہ اس دنیا میں اپنی خواہش (desire) کو پورا کرے، مگر عملا صرف یہ ہوا کہ ہر آدمی اپنی خواہش کوپورا کئے بغیر اس دنیا سے چلا گیا۔
پوری تاریخ میںکوئی بھی انسان ایسا نہیں جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہو۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، اس کو آج ہم حاصل کر لیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں، وہ آج کی زندگی میں کیوں حاصل نہیں ہوتا۔اس سوال پر غور کیا جائے تو آدمی اس نتیجے تک پہنچے گا کہ خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan ) کے مطابق ہمارا مطلوب آج کی دنیا میں حاصل ہونے والا نہیں۔
انسان تمام مخلوقات میں استثنائی طور پر کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ فطرت کی زبان میں انسان کے سوال کا جواب ہے۔ فطرت کا یہ تقاضا بتاتا ہے کہ انسان کا مطلوب کَل کے دورِ حیات میں ملنے والا ہے، آج کے دورِ حیات میں اس کا ملنا فطرت کے قانون کے مطابق مقدر ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرۃ میں تخلیقِ انسانی کا ذکر کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّہَا (
انسان کی تخلیق کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ انسان کو فطری طور پرلامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے اس پوٹنشل کو ایکچول (actual) بنائے۔یہ صفت نہ ستاروں اور سیاروں میں ہے، اور نہ درختوں اور حیوانات میں۔ یہ انسان کی ایک نادر خصوصیت ہے، جو ساری کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔یہ صرف انسان ہے جو اپنے آپ کو سیلف میڈ مین (self-made man) بناتاہے۔
اپنے فطری امکانات کو واقعہ بنانے کے بعد کسی انسان کے اندر جو شخصیت بنتی ہے، اسی کو قرآن میں مزکیٰ شخصیت (
اپنے پوٹنشل کو ایکچول بنانے میں تجربات کا نہایت بنیادی رول ہے۔ کوئی بھی دوسری چیز انسان کے لیے تجربہ کا بدل نہیں بن سکتی۔ اس تجربے ساتھ جب تدبر شامل ہوجائےتو اسی کا نتیجہ معرفت ہوتا ہے۔ یہی وہ کورس ہے جس سے گزر کر وہ شخصیت بنتی ہے، جس کو عارف کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عارف انسان ہی انسان ہے- جو انسان عارف نہیں، وہ انسان بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرۃ میں انسانی تخلیق کی حکمت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ، الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ، أُولَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُون(
صبر کرنے والا وہ ہے جواس طرح کی صورتِ حال میں درست رسپانس (right response) دے۔صبر یہی درست رسپانس ہے۔ اس معاملے میں صبر کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ پیش آئے، اس کو آدمی منفی طور پر نہ لے بلکہ اس کو مثبت رسپانس (positive response ) میں کنورٹ کرے۔ غیر صابر آدمی پیش آمدہ واقعات کو انسان کی طرف منسوب کر کےمنفی رد عمل میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، صابر آدمی اس قسم کے واقعات کو منصوبۂ الٰہی کا نتیجہ سمجھے گا، اور ہر واقعے میں ربانی غذا دریافت کرتا رہے گا۔ صبر کی روش اختیار کرنے والے ہدایت یاب ہیں، اور بے صبری کی روش اختیار کرنے والے غیر ہدایت یاب۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس تخلیق کی ابتدا ہی میں انسان کے خلاف ہوگیا۔ اس نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ: میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی پوری نسل کو گمراہ کر دوںگا (
ابلیس کو اتنے حتمی انداز میں اس قسم کا اعلان کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب یہ واقعہ تھا کہ آدم کو پیدائش کے بعد جنت میں رکھا گیا۔ آدم سے کہا گیا کہ پوری جنت تمہارے لیے ہے مگر تم ایک درخت سے دور رہنا،تم اس کا پھل نہ کھانا۔ مگر آدم اپنے آپ کو روک نہ سکے، اور جا کر اس ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا پھل کھا لیا۔
یہ تجربہ بتارہا تھا کہ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے کل (whole)کو چاہے گا، وہ جزء (part) پر قانع نہ ہوگا۔ اس تجربے کی بنا پر ابلیس نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ انسان کے اس مزاج کو استعمال (exploit) کرے گا۔وہ لوگوں کو جزء پر قانع نہ ہونے دے گا، وہ انسان کو اکسائے گا کہ وہ کُل سے کم ملنے پر راضی نہ ہو۔ اس طرح وہ پوری نسل انسانی کو گمراہی میں ڈال دے گا۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان دونوں اسی فریب کا شکار ہو گئے، سب کے سب حقیقی شکر سے محروم ہو کر رہ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کا نظام آزمائش (test)کے اصول پر قائم ہے۔ اس بنا پر یہاں ہر فرد اور ہر قوم کو سب کچھ نہیں ملتا، بلکہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ ملتا ہے اور کچھ نہیں ملتا۔ یہ معاملہ فرد کے ساتھ بھی ہے، اور قوم کے ساتھ بھی۔ لیکن فرد اور قوم دونوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ملے ہوئے پر راضی نہیں ہوتے، بلکہ نہ ملے ہوئے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، انفرادی دائرے میں بھی اور اجتماعی دائرے میں بھی۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ فرد اور قوم دونوں ناشکری میں جیتے ہیں، وہ شکر کرنے والے نہیں بنتے— یہی پوری انسانی تاریخ کا خلاصہ ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے- اس کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بتایا گیاہے:وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ (
اللہ کا عابد بننا کیا ہے- اللہ کا عابد بننا یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو اس کی صفات کمال کے ساتھ اس طرح دریافت کرے کہ خالق ہی اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔ اللہ کو واحد کنسرن بنانا کو ئی قانون کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر معرفت (realization) کا معاملہ ہے۔ ایک انسان جب تدبر اور تفکر کے ذریعہ اپنے رب کو دریافت کرتا ہے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین اس کا معبود بن جاتا ہے، اللہ کی دریافت اس کے لیے ایک ماسٹر اسٹروک (masterstroke)بن جاتی ہے، جو اس کی پوری زندگی کو اس طرح ہلادے کہ اس کے فکر و عمل کا کوئی پہلو اس سے محفوظ نہ رہے۔
عابد ِ عارف کی تائید کے لیے خالق نے یہ انتظام کیا ہے کہ معرفت کا ڈیٹا (data) آیاتِ فطرت (signs of nature)کی صورت میں ساری کائنات میں پھیلا دیا ہے۔ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کو استعمال کر کےاپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔جو آدمی اس طریقہ پر عمل کرے گا، وہ اللہ کی توفیق سے ضرور کامیابی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔معرفت کے اس سفر میں کامیابی کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی پوری طرح سنجیدہ (sincere) ہو۔جو آدمی اس شرط کو پورا کرے، وہ ضرور اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب رہے گا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُونَ (
عضویاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو پیدائشی طور پر جو جسم دیا گیا ہے، وہ ایک انوکھے قسم کا جسم ہے۔ انسانی جسم کے اندر
مگر ہر آدمی پیدا ہونے کے بعد بچپن اور جوانی کے مراحل سے گزرتے ہوئے آخرکار بڑھاپے کی عمر تک پہنچتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں یہ آرگن رفتہ رفتہ انسان کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، کوئی جزئی طور پر، کوئی کلی طور پر۔یہی وہ واپسی کا عمل ہے جو انسان کو بوڑھا اور آخرکار ناکارہ بنادیتا ہے۔
اس عمل کو قرآن میں تنکیس کہا گیا ہے۔ یعنی دیے ہوئے اعضا کو واپس لینا۔واپسی کا یہ عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک طاقت ور خالق ہے، وہ پہلےیہ اعضا انسان کو دیتا ہے، اور پھر اپنی مرضی کے مطابق ان کو واپس لے لیتا ہے۔یہ ایک حتمی عمل ہے، جس کو کوئی روکنے والا نہیں۔
انسانی جسم کے اندرہونے والایہ واقعہ اپنے اندر ایک عظیم سبق رکھتا ہے۔آدمی اگر اس عمل پر غور کرے تو وہ بیک وقت دو حقیقتوں کو دریافت کرے گا۔ایک طرف یہ حقیقت کہ یہاں ایک قادرِ مطلق (All Powerful) خدا ہے، اور دوسری طرف یہ حقیقت کہ وہ خود ایک عاجز مطلق (all powerless) مخلوق ہے۔ دینے والا دے تو اس کو ملے گا، اگر دینے والا نہ دےتو اس کو کچھ ملنے والا نہیں۔ یہی وہ دریافت ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔یہ دریافت انسان کو انسان بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں
کلچر کے اعتبار سے دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں۔ لیکن نظریاتی حقیقت کے اعتبار سے آج کی دنیا کا مذہب صرف ایک ہے، اور وہ دولت پرستی (money worship)ہے۔ آج تقریبا ہر انسان کا مقصد حیات یہ بن گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے۔ آج ہر عورت اور مرد کا واحد کنسرن (sole concern) دولت کا حصول ہے۔اس معاملے میں بظاہر مذہبی انسان اور غیرمذہبی انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میںسائنسی تحقیقات کے بعد دنیا میں ترقی (development) کا ایک نیا دور آیا ۔مادی ضرورت کی بے شمار نئی چیزیںایجاد ہوئیں۔ اس بعد اس کا کمرشلائزیشن ہوا۔بے شمار نئے نئے آئٹم بازار میں فروخت ہونے لگے۔یہ دیکھ کر ہر آدمی یہ محسوس کرنے لگا کہ اگر میرے پاس پیسہ ہو تو میںہر چیز کو خرید سکتا ہوں، خواہ وہ سوئی اور پنسل ہو یا کار اور ہوائی جہاز۔موجودہ زمانے میں ٹی وی اور اشتہارات نے اس کلچر میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔
یہی کمرشل کلچر ہے، جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں منی کلچر (money culture) آگیا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا حریص بن گیا۔ یوپی کا ایک کامیاب وکیل دہلی آیا، وہ دہلی کی ایک پوش کالونی میں ایک گھر لینا چاہتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ تم اتنی زیادہ مہنگی کالونی میں کیوں گھر لینا چاہتے ہو۔ اس نے جواب دیا:
I don't want my Mercedes to be parked next to a Santro car.
یعنی میں نہیں چاہتا کہ میری قیمتی کار کسی سستی کار کے پاس کھڑی ہو۔ مذکورہ آدمی کا یہ جملہ آج کے انسان کے مزاج کو بتاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ مزاج ہر عورت اور مرد کے اندر پایا جاتا ہے- کسی کے اندر کم اور کسی کے اندر زیادہ، کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار کردیتا ہے اور کوئی اپنی زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتا۔
واپس اوپر جائیں
بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونزم کا عروج ہوا۔ اس زمانے میں کمیونسٹ لوگوں نے یہ نظریہ بنایا: جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا دشمن ہے۔مگر یہ ثنویت (dichotomy) غلط تھی۔ فطرت کے قانون کے مطابق صحیح بات یہ ہے کہ جو ہمارا ساتھی نہیں، وہ ہمارا امکانی موید (potential supporter) ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم علما اور مسلم رہنما بھی اسی غیرفطری سوچ کا شکار ہو گئے۔ حدیث کے مطابق وہ بصیر زمانہ (صحیح ابن حبان:
اس بے خبری کی بنا پر انھوں نے یہ رائے قائم کرلی کہ مغربی تہذیب ، اسلام دشمن تہذیب ہے۔ حالاںکہ البخاری کی ایک روایت (3062) کے مطابق وہ اسلام مؤید تہذیب (supporting civilization) تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں مولانا شبلی نعمانی نے ایک نظم لکھی، جس کا ایک شعر یہ تھا:
کہاں تک لوگے ہم سے انتقامِ فتح ایوبی دکھاؤگے ہمیں جنگ صلیبی کا سماں کب تک
آسٹریا کے نومسلم لیوپولڈ اسد نے اپنی کتاب Islam at the Crossroads میں لکھا ہے کہ مسیحی یورپ کے لیے اسلام کے خلاف تعصب ان کا پشتینی روگ بن چکا ہے۔
Their prejudice against Islam is simply an atavistic instinct
شامی عالم الشیخ عبد الرحمٰن حسن حبنکہ المیدانی نے عربی زبان میں سلسلۃ اعداء الاسلام کے تحت کئی کتابیں لکھی ہیں، ان میں سے ایک کتاب یہ ہے: اجنحۃ المکرالثلاثۃ و خوافیھا (التبشیر، الاستشراق، الاستعمار)۔ اس کتاب میں انھوں نے عالمی سطح پرکام کرنے والی تین مسلم مخالف سازشوں کا ذکر کیا ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کردینا چاہتی ہیں۔ وہ تین سازشیں یہ ہیں، تبشیر (Christian Mission) استشراق (Orientalism)، استعمار (Colonialism)۔
یہ باتیں بلاشبہ اندھے پن کی حد تک بے خبری کی باتیں ہیں۔ اصل حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں اللہ تعالی نے حالات میں ایسی انقلابی تبدیلیاں کی ہیں ، جس کے نتیجہ میں پورا دور عملاً اسلام کی تائید (support)کا دور بن گیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو مساوات (equation) تھی ، وہ حامیانِ حق اور مخالفین حق کے درمیان تھی۔ اب جدید تبدیلیوں کے بعد ایک نئی مساوات (equation) قائم ہوئی ہے، اور وہ ہے حامیان حق اور مؤیدین حق کی مساوات۔
موجودہ زمانے میں جو نئے ظاہرے پیدا ہوئے ہیں، وہ سب کے سب مؤیدین اسلام (supporters of Islam) ہیں ، نہ کہ مخالفِین اسلام— مغربی تہذیب، جمہوریت، کھلاپن (openness)، فکری آزادی، مذہبی ناطرف داری، اقوام متحدہ، سائنسی دریافتیں، صنعتی انقلاب، جدید سیاحت (modern tourism)، کانفرنس کلچر، لائبریری کا ادارہ، وغیرہ۔ سب کے سب اسلام کے لیے عظیم تائیدی مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ اہل ایمان ان مواقع کو سمجھیں، اور ان کو پرامن منصوبہ (peaceful planning) کے تحت استعمال کریں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان ان حقیقتوں سے کیوں بے خبر ہوگئے۔ اس کا سبب ایک بدعت ہے، اور وہ ہے شخصیتوں کو بڑے بڑے لقب (title)دینا۔ جب آپ کسی شخصیت کو بڑا لقب دے دیں تو اس کے بعد سوچنے کا عمل (thinking process) رک جاتا ہے۔ القاب کلچر سے پہلے آدمی کے مائنڈ میں ہمیشہ کاما ہوتا ہے، القاب کلچر کے بعد اس میں فل اسٹاپ لگ جا تا ہے۔
ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ کسی کو ملک الاملاک نہ کہو، یعنی شہنشاہ (emperor) کا لقب نہ دو (صحیح البخاری:6202 )۔ شہنشاہ (emperor) صرف سیاسی لقب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ لقب کلچر کے معنی میں ہے، یعنی لوگوں کو بڑے بڑے القاب نہ دو۔ افرادکو بڑے بڑے لقب (title) دینا، فکری اعتبار سے ایک ہلاکت خیز طریقہ ہے۔ کسی کو بڑا لقب دینے کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس شخص کی بات کو حرف آخر (final word) سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ذہن لوگوں کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) کا خاتمہ کردیتا ہے- اس کے بعد فکری ارتقا کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے۔ یہی بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کا حال ہوا۔
مثلا امت میں بعد کے زمانےمیں یہ ہوا کہ ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کا لقب دے دیا گیا، فقہائے اربعہ کو مجتہد ِمطلق کہا جانے لگا- اسی طرح موجودہ زمانے میں حسن البنا کو امام کا لقب دینا، شاہ ولی اللہ کو قائم الزمان قرار دینا، اقبال کو دانائے راز سمجھنا، وغیرہ ۔ لقب دینے کا یہ طریقہ یقینی طور پر ایک بدعت تھا، اور حدیث کے مطابق بدعت سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اس لقب کلچر کا یہ نتیجہ ہوا کہ امت سے تخلیقی فکر (creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا۔ اس فکری حادثہ کا سب سے برا ظاہرہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب اسلام کے لیے عظیم تائید (great support) بن کر ابھری تھی، مگر اپنی ذہنی جمود (intellectual stagnation)کی بنا پر مسلمان اس سے کامل طور پر بے خبر رہے۔ جس مغربی تہذیب کو محسن سمجھ کر اس کا استقبال کرنا تھا، اور اس کے پیدا کردہ مواقع (opportunities)کو اسلام کے حق میں استعمال کرنا تھا، اس کو اپنا دشمن سمجھ کر اس سے غیرضروری طور پر لڑنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مزید تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوا۔
واپس اوپر جائیں
برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ احتیاج مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے معاملے پر ہر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہ فطری طور پر وہ رسپانس (response) دے گا، جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الحمد للہ رب العالمین (الفاتحہ)، یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
جنت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی سعید الخدری قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:والذی نفس محمد بیدہ، لأحدہم أہدى بمنزلہ فی الجنة منہ بمنزلہ کان فی الدنیا۔ (صحیح البخاری: 6535) یعنی اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جنت کا ایک شخص جنت میں اپنے گھر کو اس سے زیادہ پہچانے گا، جتنا وہ دنیا میں اپنے گھر کو پہچانتا تھا۔
دنیا میں ہر آدمی اپنا ایک مادی مسکن (physical abode) بناتا ہے، جس میں وہ موت سے قبل کے دورِ حیات میں رہتا ہے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات میں ایک مومن اپنے اس گھر میں رہے گا، جو اس نےاپنے اسپریچول مسکن (spiritual abode)کے طور پر بنایا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ایک سچا مومن دنیا کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اسپریچول لائف (spiritual life) گزارتا ہے۔حقیقتِ حیات کی معرفت ، اپنے خالق سے محبت، خدا کی کتاب کا مطالعہ، رسول اور اصحابِ رسول کی زندگیوں سے سبق لینا، تخلیق میں تدبر اور تفکر، دنیا ئے معانی (world of meanings)میں ہر لمحہ اس کی دریافتیں۔یہ سب چیزیں ایک مومن کی زندگی میں ہر لمحہ ایک اعلی قسم کی ذہنی سرگرمی (intellectual activities) کے طور پر جاری رہتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے دوران ہر مومن اپنا ایک ربانی گھر یا اسپریچول مسکن (spiritual abode) بناتا ہے۔
یہ ربانی گھر دنیا کی زندگی میں ایک ناقابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر موجود رہتا ہے۔ آخرت میں وہ ایک قابلِ مشاہدہ حقیقت کے طور پر ظاہر ہو جائے گا۔ آخرت میں بننے والی ابدی جنت میں ایک مومن اپنے اس تعمیر کردہ ربانی گھر میں رہے گا۔دنیا میں وہ اس کو فکر کی سطح پر ایک ناقابل مشاہدہ واقعہ کے طور پر جانتا تھا، آخرت میں وہ اس کو مادی سطح پر ایک قابل مشاہدہ واقعہ کی حیثیت سے معلوم کر لے گا، اور فرشتوں کی رہنمائی میں وہ اپنے اِس ابدی گھر میں داخل ہو جائے گا۔
واپس اوپر جائیں
اسلام میں تدبر اور تفکر (contemplation) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حتی کہ تدبر کوافضل عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ تدبر سے یقین بڑھتا ہے۔ تدبر سے یہ ہوتا ہے کہ سنی یا پڑھی ہوئی بات خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) بن جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں جو باتیں بتائی گئی ہیں، ان کی حیثیت گویا خبر کی ہے۔یہ خبر مبنی بر وحی ہے۔ اس خبر سے ہم کو صحیح نقطۂ آغاز (right starting point) ملتا ہے۔ پھر انسان اپنی عقل کو استعمال کر کے اس خبر میں اپنی طرف سے شعوری اضافہ کرتا ہے۔ وہ اس کی گہرائیوں تک پہنچتا ہے۔ وہ اس کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کو معلوم کرتا ہے۔ وہ خبر کو عقلی فریم ورک (rational framework) میں ڈھالتا ہے۔ اس طرح خبر اس کے لیے صرف خارجی نوعیت کی خبر نہیں رہتی، بلکہ وہ اس کے لیے داخلی اعتبار سے خود دریافت کردہ معرفت بن جاتی ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (
خبر کو معرفت بنانا اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اسی سے تمام ایمانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اس سے آدمی کے اندر یقین آتا ہے۔ اس کے اندر صحیح تفکیر (right thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اس سے انسان کو وہ خیر کثیر حاصل ہوتا ہے، جس کو قرآن میں حکمت (wisdom) کہا گیا ہے۔ اس سے آدمی اس قابل بن جاتا ہے کہ وہ چیزوں کو نوراللہ (اللہ کی روشنی) میں دیکھے،اور اپنے ایمان و اسلام کو کمال کے درجے میں پہنچادے۔یہی وہ افرادہیں جو آخرت میں جنت الفردوس کے مستحق قرار پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ ق میں اہل جنت کا ذکر ہے- اس سلسلے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے: لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ فِیہَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ (
قرآن کی اس آیت میں مزید (more) کا لفظ آیا ہے۔اس مزید کی کوئی حد نہیں- جس طرح اللہ رب العالمین کے کمالات کی کوئی حد نہیں ، اسی طرح اس کے عنایات کی بھی کوئی حد نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اگر کچھ لوگ اپنے عمل سے بر تر استحقاق پیدا کریں تو ان کو انعام بھی یقینا بر تر سطح پر دیا جائے گا۔
قرآن میں اہل جنت کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (
Paradise of creative believers
یہ وہ خصوصی اہل ایمان ہیں وہ جو خود دریافت کردہ معرفت (self-discovered realization) پر کھڑے ہوں، جو ذاتی منصوبہ (self-programming) کے تحت دعوت الی اللہ کا کام کریں، جو تخلیقی مواقع (self-created opportunities) کے مطابق خدا کے مشن کو انجام دیں، جو مقتصد کے مقام پر نہ ٹھہریں، بلکہ السابقون کا درجہ حاصل کریں۔ یہ اس قابل ہوں گے کہ وہ آخرت میں جنتِ مزید کے مستحق قرار پائیں ۔
واپس اوپر جائیں
انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں وہ جنت میں داخلہ پائے۔جنت اس کے لیے ہےجس کو اللہ کی مغفرت حاصل ہو۔ مغفرت کے بغیر کوئی انسان جنت میں داخلہ نہیں پا سکتا۔قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی اصل توبہ ہے۔ اور حقیقی توبہ وہ ہے جو توبۂ نصوح (
اصل یہ ہے کہ انسان کے خالق نے اس کو آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس دنیا میں انسان کو آباد کیا گیا ہے، وہ ایک آزمائش (test) کی دنیا ہے۔اس بنا پربار بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے ۔ اس کو مذہب کی اصطلاح میں گناہ (sin) کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان خطا کے ارتکاب سے بچ نہیں سکتا، اس لیے کو ئی انسان آئیڈیل معنوں میںصالح العمل بھی نہیں بن سکتا۔
ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے جنت کے حصول کی شرط کیا ہے۔ وہ شرط صرف ایک ہے، اور وہ اللہ کی مغفرت (forgiveness)ہے۔جنت کسی بھی انسان کو اپنے عمل کی قیمت کے طور پر نہیں ملے گی، بلکہ اللہ کے انعام کے طور پر ملے گی۔جنت عطیۂ خداوندی کا معاملہ ہے، جنت استحقاقِ انسانی کا معاملہ نہیں۔
ایک حدیثِ رسول میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: قال رسول اللہ : لن یدخل أحدا عملہ الجنة، قالوا: ولا أنت یا رسول اللہ؟ قال: لا، ولا أنا، إلا أن یتغمدنی اللہ بفضل ورحمة (صحیح البخاری: 5673)رسول اللہ نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کو ہر گز اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، کیا آپ بھی، فرمایا: ہاں، میں بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ مجھ کو اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔انسان کا ہر عمل ایک محدود عمل ہے، اور جنت ایک لامحدود نعمت، اور کوئی بھی محدود چیز لا محدود کی قیمت نہیں بن سکتی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ نَصِیرٍ (
انسان ایک طاقت ور مخلوق کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ بوڑھا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے۔بڑھاپے کی عمر میں انسان کے اندر ہر قسم کی کمزوری آجاتی ہے۔ انسان کو جوانی کی عمر میں جو قوت (energy) ملی ہوتی ہے، وہ بڑھاپے کی عمر میں اس سے چھن جاتی ہے۔ اس تجربے میں ایک عظیم حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اس تجربے کا مقصد یہ ہے کہ انسان یہ جانے کہ جوانی کی عمر میں میرے اندر جو طاقت تھی، وہ میری ذاتی ملکیت (personal property) نہیں تھی۔بلکہ وہ ایک خدائی عطیہ (divine gift) تھی۔ اگر وہ میری ذاتی ملکیت ہوتی تو وہ ہمیشہ میرے ساتھ باقی رہتی۔بلکہ کوئی دینے والا ہے، جس نے پہلے مجھ کو یہ نعمت دی تھی، اور اب اس نے یہ نعمت مجھ سے چھین لی۔بڑھاپے کی عمر ایک تجربہ ہے۔ یہ تجربہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے بارے میں اس حقیقت کو دریافت کرے۔ اس حقیقت کی دریافت گویا معرفت کی تکمیل ہے۔ جو آدمی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر بھی اس حقیقت سے بے خبر رہے، اس سے زیادہ محروم انسان اور کوئی نہیں۔بڑھاپے کا یہ تجربہ ہر بوڑھے انسان کے لیے مقدر ہے۔ البتہ جو انسان دعاؤں میں جیتا ہو، اس کے لیے بڑھاپے کی مشقت کو سہل بنادیا جاتا ہے۔ تاکہ اس کے لیے بڑھاپے کا دَور مصیبت کا دور نہ رہے، بلکہ وہ معرفت کا دَور بن جائے۔ زندگی ایک تجربہ ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ ہر تجربے سے مثبت سبق حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی تین سورتوں میں یہ آیت آئی ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
Every human being is bound to taste death
قرآن کا یہ بیان پوری انسانی تاریخ میں ایک واقعہ ثابت ہواہے۔ دولت، طاقت، سیاسی اقتدار، کوئی بھی چیز انسان کو موت سے بچانےوالی نہ بن سکی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان ایک مقرر مدت کے بعد لازمی طور پر مرجاتا ہے۔ موت سے بچنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔
اگر ایسا ہوتا کہ انسان اتفاقاً پیداہو اور اتفاقاً مرجائے تو کچھ لوگ مرتے، اور کچھ لوگ لمبی مدت تک زندہ رہتے۔لیکن موت کے معاملے میں کسی فرد کا استثنا نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ موت کا معاملہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ، بلکہ وہ فطرت کی منصوبہ بندی (planning) کا معاملہ ہے۔یہ خالق کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے ، وہ بے سبب ہونے والا کوئی واقعہ نہیں۔
موت کا ایک تخلیقی منصوبہ ہونا، مزید یہ ثابت کرتا ہے کہ زندگی اور موت ایک بامقصد ظاہرہ ہے۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زندگی اور موت کے پیچھے ایک تخلیقی مقصد ہے تو اس کے بعد لازم ہوجاتا ہے کہ انسان اس مقصد کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔اسی میں انسان کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔
موت کا واقعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا کی تعمیر انسان کا نشانہ نہیں ہو سکتا۔ انسان کا نشانہ صرف وہ چیز ہوسکتی ہے جس میں زندگی اور موت دونوں کی توجیہہ موجود ہو،جس میں زندگی بھی بامعنی نظر آئے اور موت بھی بامعنی۔پیغمبرِ اسلام نے فرمایا : أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ ، یَعْنِی الْمَوْت (ابن ماجہ: حدیث نمبر 4258) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جو کہ لذات کو ڈھادینے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لذاتِ حیات کی بنیاد پر اپنا منصوبہ نہ بناؤ،بلکہ حقائقِ موت کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بناؤ۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نساء میں یہود مدینہ کے حوالے سےایک اسلوبِ کلام کا ذکران الفاظ میںکیا گیاہے: وَرَاعِنَا لَیًّا بِأَلْسِنَتِہِمْ(
لیّ لسان کا مطلب ہےتوڑ مروڑ کر بولنا۔عوامی زبان میں اس کو کہتے ہیں گھما پھرا کر بات کہنا۔ انگریزی زبان میںاس کو ٹوسٹ (twist) کر کے بولنا کہا جاتا ہے:
To speak by twisting the words
لیّ لسان یا ٹوسٹ کرکے بولنے کا یہ معاملہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔ تاکہ بظاہر بات بھی کہہ دی جائے لیکن اصل حقیقت چھپی رہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اخبار پر یہ الزام لگایا کہ اس نے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا:
The newspaper was accused of twisting the facts.
لیّ لسان کی یہ صفت دراصل کمزور شخصیت (weak personality) کی علامت ہے۔ جس کو مذہب کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہا جاتا ہے۔ لیّ لسان کی زبان میں کلام کرنے کا اسلوب کیوں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نفسیاتی سبب اپنے آپ کو درست سمجھنا (self-righteousness)ہے۔ یہ ایک عام انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھے، اور غلطی کا الزام دوسرے کے اوپر ڈالتا رہے۔ اسی مزاج کی بنا پر ایسا ہوتا ہےکہ آدمی بات کو اس طرح پیش کرتا ہے جس میںاس کی اپنی ذات صحیح نظر آئے، اور غلطی کی ذمے داری دوسروںکے اوپر چلی جائے۔یہ اسلوبِ کلام پہلے شعوری طور پر آتا ہے، پھر دھیرے دھیرے وہ آدمی کے لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ پہلے جو بات اس نے سوچ کر کہی تھی ، اب وہ عادت کے طور پر کہنے لگتا ہے۔یہ عادت اتنی زیادہ عام ہوجاتی ہے کہ آدمی غیر ضروری طور پر بھی لیّ لسان کے اسلوب میں بولنے لگتا ہے۔یہ منافقت ہے، اور منافقت سے زیادہ بری کوئی چیز انسان کےلیےنہیں۔
واپس اوپر جائیں
امت مسلمہ کو خیر امت کہا گیا ہے۔ یہ خیر باعتبار واقعہ نہیں ہے، بلکہ باعتبارِ امکان ہے۔ اقراری مومن ہونے کی بنا پر مسلمانوں کے اندر خیرکا ایک امکان چھپا ہوا ہے۔ اس امکان کو استعمال کرکے امت کو حقیقی معنوں میں خیر امت بنایا جاسکتا ہے۔
وہ امکان یہ ہے کہ داعی اور امت کے درمیان ایک متفقہ بنیاد (accepted common ground) موجود ہے۔ وہ یہ کہ امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے قرآن کو مستند کلام (authentic word) سمجھتی ہے۔ جو بات قرآن کے حوالے سے کہی جائے، امت اپنے عقیدہ کے اعتبار سے اپنے کو مجبور پائے گی کہ وہ اس کو بطور حقیقت تسلیم کرے اور اس کا اتباع کرے۔
مثال کے طور پر اگر آپ امت کے افراد سے یہ کہیں کہ تم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہو، اس کی پہلی آیت ہے: الحمد للہ رب العالمین (
قرآن کی آیت دراصل ایک حقیقت کا اعلان ہے۔ وہ یہ کہ اس عالم کے رب نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ آدمی ہر وقت اس پر شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی سوچ کی اس طرح تربیت کرو کہ تمھاری زندگی کا ہر تجربہ اور تمھارے آس پاس کا ہر واقعہ تمھارے ذہن میں شکر کا آئٹم بن جائے- تم تھرلنگ (thrilling) شکر میں جینے والے بن جاؤ۔ حمداسپرٹ میں جینا مسلم کی نسبت سے بھی مطلوب ہے، اور غیر مسلم کی نسبت سے بھی۔اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ: جو شخص انسان کا شکر نہ کرے وہ اللہ کا شکر نہیں کرے گا ( من لم یشکر الناس، لم یشکر اللہ عز وجل) مسند احمد: 7504
واپس اوپر جائیں
قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: فَأَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ (
ایک غم کے بعد دوسرے غم میں مبتلا کرنے کی حکمت کیا ہے۔وہ یہ ہے کہ جب ایک غم پر کچھ مدت گزرجاتی ہے تو آدمی اس کا خوگر (used to) ہوجاتاہے۔اس طرح وہ غم اس کے لیےفکری مہمیز کی حیثیت سے باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان کے اوپر ایک صدمہ کے بعد دوسرا صدمہ ڈالا جائے تاکہ اس کی فکر مسلسل طور پر زندہ (alive)رہے۔ اس کے اندر فکری ارتقا (intellectual development) کا عمل نان اسٹاپ طور پر جاری رہے۔
انسان لامحدود پوٹنشل (potential) کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس پوٹنشل کو ان فولڈ (unfold)کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر صدمہ (shock)کے تجربات گزریں۔ یہ صدمہ بار بار پیش آنا چاہئے، ورنہ انسانی فطرت کے مطابق اس کی تاثیر خبط ہو جائے گی۔صدمہ خود کوئی فکری واقعہ نہیں۔ صدمہ کا رول صرف یہ ہے کہ وہ آدمی کو شاک (shock)پہنچائے۔ اس صدمہ کے اثر سے اپنے آپ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پوٹنشل، خود فطرت کے قانون کے تحت اَن فولڈ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ویسا ہی واقعہ ہے جیسے سیب کے اوپر دباؤ ڈالنے سے اس کا رس نکلنے لگتا ہے، اور اس وقت تک جاری رہتا ہےجب تک دباؤ کا عمل جاری رہے۔ دباؤ کا عمل ختم ہوجائے تو سیب سے رس کا نکلنا بھی بند ہو جائےگا۔
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی ضرورت شخصیت کا ارتقا (personality development) ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق شخصیت کا ارتقا ہمیشہ دباؤ (problems and challenges)) کے حالات میں ہوتا ہے، یہ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے کہ وہ ہمیشہ دباؤ کے حالات میں رہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقا غیر منقطع (non-stop)طور پر جاری رہے۔
واپس اوپر جائیں
Destiny and Free Will
انسان آزاد ہے یا مجبور۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے۔ انسان ایک اعتبار سے آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر عورت اور مرد آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ بار بار محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ذات کے باہر بھی کچھ طاقتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے وہ اس دنیا میں اپنا کام نہیں کر سکتے۔
یہ دو طرفہ تقاضے کیا ہیں۔ اصل یہ ہے کہ ایک ہے خود انسان کی شخصیت، اور دوسری چیز ہے وہ حالات جن کے درمیان کسی آدمی کو اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِن حالات کو فطرت کا قائم کیا ہوا انفراسٹرکچر (infrastructure) کہا جاسکتا ہے۔ جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ انسان کو اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے سوچے، وہ جو بات چاہے بولے، جس رخ پر چاہے اپنی زندگی کا سفر شروع کرے۔ اس اعتبار سے انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
دوسری چیز وہ ہے جس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر مکمل طور پر فطرت کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہ انفراسٹرکچر دنیا میں اپنے آپ قائم ہے۔ انسان کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ اس انفراسٹرکچر کو بدل ڈالے یا اس کو نظر انداز کر کے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثال کے طور پر ایک انسان زمین پر چلتا ہے۔ یہ چلنا انسان کی اپنی آزادی کا معاملہ ہے۔ لیکن اس چلنے کے لئے ضرورت ہے کہ آدمی کے قدموں کے نیچے ایک زمین ہو ۔ اس زمین کے اندر قوتِ کشش ہو، اور پھر انسان کے اوپر ہوا کا دباؤ ہو، وغیرہ۔ یہ چیزیں خارجی انفراسٹرکچر کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس خارجی انفراسٹرکچر کے بغیر چلنے کا عمل ممکن نہیں، نہ کسی عورت کے لئے اور نہ کسی مرد کے لئے۔ یہی معاملہ دوسری ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان اپنا عمل کرتا ہے۔
اسی طرح انسان سانس لیتا ہے۔ سانس لینا یا نہ لینا انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ لیکن درست طور پر سانس لینے کے لئے ضروری ہے کہ باہر کی دنیا میں آکسیجن کی سپلائی کا نظام موجود ہو۔ آکسیجن کی مسلسل سپلائی کے بغیر کوئی آدمی سانس نہیں لے سکتا۔ جب کہ سانس کے بغیر انسان کے لئے اس دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان دو طرفہ تقاضوں کے درمیان ہے۔ ایک اعتبار سے وہ آزاد ہے، اور دوسرے اعتبار سے وہ مجبور ہے۔ اپنے ارادے کے استعمال کے اعتبار سے وہ پوری طرح آزاد ہے۔ لیکن اس اعتبار سے وہ مجبور ہے کہ اپنے ارادے کا آزادانہ استعمال وہ خالق کے مقرر کیے ہوئے انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں کر سکتا۔جبر و اختیار کی اس درمیانی صورتِ حال کو علم العقائد میں وَسَطِیّہ کہا جاتا ہے۔ یہی وسطیہ کا نظریہ اس معاملے میں صحیح نظریہ ہے۔
تقدیر اور تدبیر کی بحث بہت پرانی ہے۔ قدیم فلاسفہ نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے، اور بعد کے زمانے میں بھی اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر اس موضوع پر لوگوں نے جوکچھ لکھا ہے اس کو پڑھ کر قاری کو کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔ آدمی اس مسئلے کا واضح جواب چاہتا ہے۔ لیکن اس کو موجودہ لٹریچر میں اس کا واضح جواب نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ عام طور پر کسی ایک پہلو کی طرف جھک جاتے ہیں۔ وہ سارے معاملے کو بھلا کر تقدیر کا مسئلہ سمجھ لیتے ہیں یا تدبیر کا۔ مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ یک طرفہ سوچ درست نہیں۔ یہ لوگ جب اس معاملے کو تقدیر کا مسئلہ بتا کر اس کی وضاحت کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ تدبیر کا پہلو اس میں نظر انداز ہوگیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ تدبیر کو اصل قرار دے کر اس پر بحث کرتے ہیں تو قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں تقدیر کے پہلو کی رعایت موجود نہیں۔ یہی چیز ہے جو قاری کے لیے کنفیوزن کا سبب بن جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، یہ مسئلہ تقدیر اور تدبیر دونوں کے درمیان کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دونوں پہلوؤں کو لے کر غور کریں تو کنفیوزن ختم ہوجائے گا۔ اور آپ اس مسئلے کے بارے میں یقینی جواب تک پہنچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غزوہ پیش آیا جس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے- اس غزوہ میں کافی بھیڑ بکری غنیمت کی صورت میں حاصل ہوئیں- رسول اللہ نے غنیمت کا سامان مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا(ولم یعط الانصار شیئا)۔ اس واقعہ کو لے کر کچھ انصار کے درمیان شکایت پیداہوئی- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےانصار کے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی- آپ نے فرمایا کہ اے انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکری لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں کو لے جاؤ ( أترضون أن یذہب الناس بالشاة والبعیر، وتذہبون بالنبی إلى رحالکم)صحیح البخاری: 4330 -
اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ دوسروں کو اگر میں نے بھیڑ بکری دی ہے تو تم کو تو میں نے خود اپنے آپ کو دے دیا ہے-
یہ انسان کی عام کمزوری ہے کہ وہ اپنے ملے ہوئے کو نہیں دیکھ پاتا اور دوسرے کو جو کچھ ملے وہ اس کو بہت زیادہ نظر آتا ہے- فطرت کے قانون کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ملی ہوئی چیز بظاہر زیادہ ہوتی ہے، اور نہ ملی ہوئی چیز بظاہر کم- ایسی حالت میں مذکورہ قسم کا مزاج بے حد خطرناک ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر سے شکر کا جذبہ نکل جائے گا، وہ ناشکری میں جینے لگے گا- اور یہ نقصان بلاشبہہ تمام نقصانات سے زیادہ ہے- جو چیز آدمی کے اندر ناشکری پیدا کرے اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں-
دین میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے۔ اس کے صبح و شام شکر کی نفسیات میں بسر ہوتے ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ آدمی اس معاملے میں اپنے شکر کی حفاظت کرے۔ شکر کی حفاظت کرنے سے شکر باقی رہے گا، اور حفاظت نہ کرنے سے شکر کا احساس آدمی کے اندر سے رخصت ہوجائے گا۔ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ آدمی ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے۔
واپس اوپر جائیں
لمبے تاریخی عمل (historical process)کے نتیجے میںدنیا کے اندر ایک نیا دور آیا ہے۔ بیسویں صدی میں یہ دور اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے، اور اب اکیسویں صدی میں اس کا سفر جاری ہے۔ اس دور کا ایک انقلابی نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے تاریخ میں پہلی بار مساوات (equation) کو بدل دیا ہے۔ پچھلے ہزاروں سال سے دنیا میں جو مساوات قائم تھی ، وہ پرو مذہب اور اینٹی مذہب کی مساوات تھی۔اب دنیا میں ایک نئی مساوات قائم ہوئی ہے، جو پرو مذہب اور موافقِ مذہب کے اصول پر قائم ہے۔
مساوات (equation)کی یہ تبدیلی ایک عالمی اصول (universal norm)کا نتیجہ ہے۔ وہ یہ کہ نئے زمانہ نے قوموں کے اتفاق رائےسے یہ کیا کہ پرامن اختلاف رائے(peaceful dissent)کو انسان کا مطلق حق (absolute right) قرار دے دیا ۔اس عالمی اصول کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی کو مطلق طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کو یا اپنے نقطۂ نظر کو دنیا میں کہیں بھی بلا روک ٹوک پیش کرے۔دنیا میں کوئی بھی اس کو اس عمل سے روکنے والانہیں۔وہ ہر اجتماعی ادارہ کو اپنے نظریہ کی تبلیغ کے لیے استعمال کرے، مثلا کانفرنس ، سیمینار، ورک شاپ، ایگزبیشن، ایر پورٹ، لائبریری، پارک،وغیرہ- جہاں کہیں بھی چند انسان ہیں، وہاں اس کو ناقابلِ تنسیخ حق حاصل ہےکہ وہ جس بات کو سچ سمجھتا ہے، اس کو وہ لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
اظہارِ رائے کے اس مطلق حق کی صرف ایک ہی شرط ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی کبھی دوسروں کے لیے جارح (aggressor) نہ بنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کی پرامن دعوت اسی طرح ہر انسان کا حق ہے، جس طرح ہوا میں سانس لینا، یا سورج کی روشنی سے فائدہ اٹھانا۔ یہ ایک انوکھی نعمت ہے جو موجودہ زمانے میں حق کے داعیوں کو حاصل ہوئی ہے۔موجودہ زمانے میں جولوگ اسلام کے نام پر تشدد کلچر چلارہے ہیں، وہ صرف اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دور جدید کے اس پہلوسے کامل طور پر بے خبر ہیں۔ اگر وہ دورِ جدید کو جانتے تو وہ یہ کہتے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم گن سمندروں میں ڈال دیں، اوربم کے بجائے قرآن اور اسلامی کتابوں کو لے کر ساری دنیا میں پھیل جائیں۔
واپس اوپر جائیں
ایک ریسرچ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ مضبوط شعورِ مقصدیت (strong sense of purpose) کسی آدمی کے لیے بہتر صحت کا راز ہے۔ جو آدمی مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہو، وہ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہے گا۔وہ ٹینشن کا شکار نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ دوسرے جسمانی عوارض سے بچا رہے گا۔
اصولی طور پر یہ بات درست ہے۔ لیکن اس مسئلے کا براہ راست تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی نے کس چیز کو اپنا مقصد بنایا ہے۔ اگر اس نے مادی یا دنیوی چیزوں کے حصول کو اپنا مقصد بنایا ہے تو اس کو یہ فائدہ صرف جزئی طور پر حاصل ہوگا۔ اپنی زندگی کے آغاز میں وہ مضبوط شعورِ مقصدیت کا حامل ہوگا، لیکن زندگی کے آخر میں وہ مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔
مضبوط شعورِ مقصدیت کے اصول کا اصل ذریعہ یہ ہے کہ آدمی خدا اور جنت کو اپنا مقصد بنائے۔ایسا آدمی کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوگا۔وہ ہمیشہ یقین کی حالت میں زندہ رہے گا۔ابدی طور پر مضبوط شعورِ مقصدیت کا سر چشمہ صرف اللہ رب العالمین ہے:
Living life with a strong sense of purpose may lower your risk for early death, heart attack or stroke, a new study has claimed. The analysis defined purpose in life as a sense of meaning and direction, and a feeling that life is worth living. Previous research has linked purpose to psychological health and well-being, but the new analysis found that a high sense of purpose is associated with a 23% reduction in death from all causes and a 19% reduced risk of heart attack, stroke, or the need for coronary artery bypass surgery (CABG) or a cardiac stenting procedure. (The Times of India , Delhi : March 09, 2015)
واپس اوپر جائیں
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دین ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔
گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو بات کہو قولِ کریم کے ساتھ کہو (
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب پیغمبر موسیٰ کو حکم دیا کہ تم اپنے زمانے کے بادشاہ فرعون کے پاس جاؤ اور اس کو توحید کا پیغام پہنچاؤ تو اس وقت موسی کو یہ ہدایت بھی دی گئی : فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَى (
واپس اوپر جائیں
کسی مشن کے ہمیشہ دو تقاضے ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا استحکام (consolidation)، اور دوسرا، اس کی توسیع (expansion)۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اسلامی مشن کا جو طریقہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ استحکام پر براہِ راست فوکس دیا جائے۔ مشن جب اپنی جگہ پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد لازمی طور پر اس کی توسیع کا عمل (process) شروع ہوجاتا ہے۔
مشن کےاستحکام کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرکزی مقام پر افراد پر عمل کرکےایک ٹیم بنائی جائے۔ پھر اس ٹیم کے ذریعے مشن دوسرے علاقوں میں پھیلے۔مشن اگر ایک مرکزی مقام پر مستحکم ہوجائے تو اس کے بعد مشن کی توسیع اپنے آپ ہوتی ہے۔اس کے برعکس اگر توسیع پر زیادہ دھیان دیا جائےتو دونوں ہی کام مؤثر طور پر انجام نہ پائیں گے۔
استحکام کا کام ہمیشہ کسی مقام کو مرکزی حیثیت دے کر انجام پاتا ہے۔جب کہ توسیع کے معاملے میں یہ ہوتا ہے کہ زیادہ بڑے رقبے میں پھیلاؤ کو اہمیت دی جانے لگتی ہے۔استحکام کے نتیجے میں افراد بنتے ہیں، اور توسیع کے طریقے میں عمومی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مشن میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔لیکن مشن میں استحکام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔
مشن کا معاملہ درخت جیسا معاملہ ہے۔ درخت یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اپنے مقام پر اپنی جڑیں پھیلاتا ہے، جب اس کی جڑیں مقامی طور پر جم جاتی ہیں تو درخت مستحکم انداز میں بڑھنا شروع ہوتا ہے۔ تو اس میںشاخیں اور پتیاں نکلتی ہیں، یہاں تک کہ وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔مشن پہلے اپنے قریبی دائرے میں اپنی جڑیں مستحکم کرتا ہے۔ اس طرح مشن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے قریبی مقام پر خود اپنی طاقت سے کھڑا ہو جائے۔ جب مشن کو اس طرح مرکزی استحکام حاصل ہو جائے تو اس کے بعد فطری قانون کے مطابق چاروں طرف اس کا پھیلاؤ شروع ہوجاتا، یہی وہ بات ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ (
واپس اوپر جائیں
برٹش سائنس داں نیوٹن کو جدید سائنس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔نیوٹن 1643 میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش سے تین مہینے پہلے اس کے باپ کا انتقال ہوچکا تھا۔ بعد کو اس کی ماںدوسری شادی کرکے اپنے نئے شوہر کے پاس چلی گئی۔ اس طرح نیوٹن بچپن ہی میں والدین کی محبت سےعملا محروم ہوگیا۔نیوٹن کے ایک سوانح نگار نے اس کی بابت یہ الفاظ لکھے ہیں:
Basically treated as an orphan, Isaac did not have a happy childhood.
اپنے حالات کی بنا پر نیوٹن کے لیے اس کی خارجی دنیا اس کی دلچسپی کا مرکز نہ بن سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ذہن کی دنیا میں رہنے لگا۔وہ بہت زیادہ سوچنے والا انسان بن گیا۔وہ ہر وقت کائنات کی حقیقت کے بارے میں غور کرنے لگا۔
بچپن کے زمانے میں نیوٹن کی اس حالت کو دیکھ کرلوگ یہ کہنے لگے کہ نیوٹن ایک کھویا ہوا (woolgatherer) انسان ہے۔بعد کو معلوم ہوا کہ نیوٹن کھویا ہوا انسان نہ تھا، بلکہ اس کے حالات نے اس کو ایک ہمہ وقت سوچنے والا انسان بنادیا تھا۔ اس طرح وہ اس قابل ہوگیاکہ وہ اپنے ذہنی امکان (intellectual potential)کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکے۔ وہ اپنے دائمی تدبر کی بنا پر کائنات کی ان حقیقتوں کو دریافت کر لے جو اس سے پہلے انسان کے لیے لا معلوم حقیقتیں بنی ہوئی تھیں۔
یہ نیوٹن کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہ نیوٹن کے واقعے کی صورت میں فطرت کی کہانی ہے۔ یہ واقعہ بتارہا ہے کہ انسان کے ساتھ جو تجربہ گزرتا ہے، خواہ بظاہر وہ ایک منفی تجربہ ہو لیکن اس کے اندر ہمیشہ ایک مثبت پہلو موجود ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کے ساتھ ہمیشہ ایک پلس پوائنٹ موجود ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے اس پلس پوائنٹ کو دریافت کرے، اور اس کو استعمال کرکے وہ ترقی کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا امید کی دنیا ہے، نہ کہ ناامیدی کی دنیا۔اس حقیقت کو جاننا بلاشبہ کسی انسان کے لیےسب سے بڑی دانش مندی ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے، وہ خالق کی طرف سے ایک منفرد صلاحیت (unique quality) لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہر انسان ایک غیر معمولی دماغ (mind)لے کر آتا ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہو تا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرکے اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور دانش مندانہ پلاننگ کے تحت اپنے پوٹنشل (potential)کو واقعہ (actual) بنائے۔ہر آدمی کامیابی کے ساتھ اس کو انجام دے سکتا ہے، بشرطیکہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے ذہن کو استعمال کرے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تائیدی نظام (supporting system)کہا جا سکتا ہے۔ فطرت کے مطابق یہ ہونا چاہئے کہ سماج کا نظام مکمل طور پر میرٹ (merit)کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ مبنی بر میرٹ سماج (merit based society)کے اندر فطری طور پر ایک موافق عمل قائم ہو جاتاہے، جس کو آٹو میٹک چینلائزیشن (automatic channelization) کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل (process)کے دوران اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی آخر کار اپنی اس استثنائی خصوصیت کو دریافت کر لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا۔
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اس بات کا طاقت ور محرک پا یا جاتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں امتیازی درجہ حاصل کرے۔ یہ داخلی اسپرٹ اپنا کام کرتی ہے۔ آدمی نے اگر غلط چائس (choice) لے لیا ہے تو وہ اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے چائس کو بدلے، اور اس چائس کو لے جس میں وہ اکسل (excel)کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس داخلی اسپرٹ کے ساتھ سماج کے اندر مبنی بر میرٹ نظام شامل ہو جائے تو اس کے بعد لازمی طور پر ایسا ہو تا ہے کہ ہر آدمی اپنے اس خصوصی رول کو پا لیتا ہے، جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا تھا —یہی زندگی کی تعمیرکافطری طریقہ ہے۔ کسی خود ساختہ طریقے سے اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی زیادہ خوش نما معلوم ہوتا ہو۔
واپس اوپر جائیں
1- سویڈش ریسرچ اسکالر مسٹر متھیاس (Mattias Dahlkvist) نے صدر اسلامی مرکز کا مفصل انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا، اسلام کی سیاسی تعبیر، اور موجودہ مسلمان ۔ یہ انٹرویو دسمبر 2015کی 6اور 9 تاریخ کو ہوا۔ مسٹر متھیاس سویڈن کی امیاس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں، اور اس سے پہلے بھی صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لے چکے ہیں۔
2- ملک کے مختلف حصوں میں بک فیرلگے، مثلا الٰہ آباد، کولکاتا، چنئی، حیدرآباد، بنگلور، دہلی وغیرہ۔ ان تمام بک فئر میںسی پی ایس کے علاقائی چیپٹرس نےاپنا اسٹال لگایا تھا۔ مسلم اور نان مسلم دونوں قارئین کا رسپانس بہت ہی اچھا رہا۔ ٹی وی چینل، مثلاً زی سلام، ای ٹی وی اردو، دور درشن، وغیرہ نے اسٹال پر آکر انٹرویو لیا۔ ایک وزیٹر نے یہ کہا کہ میں بہت دنوں سے قرآن کی تلاش میں تھا، ایک نے کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ایک نے کہا کہ سب کو قرآن پڑھنا چاہئے، وغیرہ۔
3- سینٹر فار پیس بنگلور نے
4- روشنی آئی بینک (eye bank) سہارن پور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اشوک جین نے
5- کوالالمپور، ملیشیا میں صبا اسلامک میڈیا نےاسٹریٹ دعوہ کا کام شروع کیا ہے۔ ملیشیا کے سابق وزیراعظم ماثر محمد نے 8 جنوری 2015 کواس پروگرام کا افتتاح کیا۔ اس پروگرام کا ماٹو یہ ہے: One Soul One Quran۔ اس پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انگلش ترجمۂ قرآن ملیشیا آنے والے ٹورسٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اور تقریبا 80 یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس اس دعوتی کام میں حصہ لیں گے۔
I never realized how important was the area in which the Centre for Peace and Spirituality was working till the time I attended the talk. After listening to the talk, it seemed as if Islam is one of the most sacred and peaceful religions of the world. It becomes difficult to accept the fact that people who indulge in violence call themselves followers of this religion. I really appreciate the work being done by CPS and its efforts in making people more humane in their approach towards fellow human beings. I was touched by the content of the talk and look forward to learning more in the area. (Shilpa Gahlot, IIT Delhi)
I am enthused with Maulana’s books, and I think it is a great pity that they have not been translated into the German language yet. That is a service I would like to render. I would be glad if you could support me in my endeavor to introduce the books of this outstanding scholar to the German-speaking audience. I am sure the people in Germany would derive much benefit from them. May Allah reward the Maulana abundantly. )Mohammed Ardouz, Iqra Publications, Koln, Germany)
میں ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کررہی تھی- ۱۹۹۲سے الرسالہ کی قاری ہوں جس زمانہ میں ،میں الرسالہ سے متعارف ہوئی اس زمانہ میں میں بہت ہی زیادہ اسٹریس (stress)اور گھریلو مسائل سے گزررہی تھی۔ اگر میں اس زمانہ میں الرسالہ سے متعارف نہ ہوتی اور مجھے صبر والی تعلیمات اور اس کا صحیح explanationنہ ملاہوتا تو میں نفسیاتی طور مکمل ٹوٹ گئی ہوتی ،میں اور میری فیملی مکمل طور سے بکھر کر رہ جاتی۔ الرسالہ نے مجھے اللہ سے جوڑا ،میرے اندر صبر ،قناعت ،توکل، شکر جیسی صفات پیدا کیا ،حالات کا تجزیہ کرکے اس کی مناسبت سے اس کا صحیح رسپانس دینے کی صلاحیت پیدا کی ۔الرسالہ کے بعد ہی میرے اندر قرآن کے معانی کو جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے اپنی لڑکی کی شادی میں قرآن کا ڈسٹریبیوشن بھی کیا ،اور مسلسل قرآن ساتھ میں رکھتی ہوں تاکی کوئی بھی دعوتی موقعہ ہاتھ سے نہ جائے ۔ریٹائر منٹ کے بعد میرا قرآن سے تعلق مزید بڑھ گیا ہے،ابcpsکی اکٹیو ممبر کی حیثیت سے کام کرنا چاہتی ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ مجھے القرآن مشن کا ایک حصہ بنا دے ،اور اسلام کے پیغام امن کو عام کرنے کی توفیق بخشے (آمین) رحمت النساء،بنگلور
انڈیا کے ایک بڑےمسلم ادارے نے الرسالہ کے تئیں پسندید گی کا ااظہار کرتے ہوئے یہ خط لکھا ہے:
محترم جناب ایڈیٹر صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ کا مجلہ ـالرسالہ اپنی تمام تر خصوصیتوں اور عمدہ طباعت کے ساتھ ادارے کی لائبریری کو پابندی سے موصول ہو رہا ہے۔ یہ مجلہ علمی و تحقیقی اور حسن انتخاب کے لحاظ سے طلبہ و اساتذہ کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔ اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ محترم، اس مجلہ سے کم و بیش چار ہزار طلبہ و طالبات، اساتذہ و معلمات استفادہ کرتے رہے ہیں، اور عوام وخواص کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس کو کافی پسند کیا ہے۔والسلام۔
Feedback from a reader of the Spirit of Islam: The January 2015 issue of the Spirit of Islam carried valuable information for readers. I liked the article ‘Starting from Scratch’. The words, “Poverty is not deprivation, rather it is a challenge. Deprivation is a great motivator for achievement’’, are indeed noteworthy. Kindly spread ahimsa, love and affection through your journal. The write-up Get Rid of Depression will be useful to many. Promotion of global peace is the need of the hour. Albeit the title of your magazine, the articles are of universal significance. I wish you all the best on the occasion of the beginning of your third year with this issue. I congratulate the editorial committee for the efforts they take to publish the magazine. (S. Balasubramanian, Tamil Nadu)
I give the Quran and What is Islam booklet to many non-Muslims such as doctors, professors and other people. I always put some books on Islam in my bag when I am going to school or somewhere away from home.This way I am able to give books to many people including new friends I meet. (Adama Ceesay, Taiwan)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.