پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین کی تصویر کو بگاڑ دیا گیا ہے۔اللہ کا دین مکمل طور پر دین امن (religion of peace) ہے، لیکن خود مسلمانوں کے غلط عمل کے ذریعے اس کو دین تشدد (religion of violence) بنادیا گیا ہے۔ یہ صورتِ حال ایسی ہے جس پر ہر صاحبِ ایمان تڑپ اٹھے، ہر صاحبِ ایمان خدا کے دین کو دوبارہ امن کا دین بنانے کے لئے کامل طور پر سرگرم ہوجائے۔ اس مقصد کے لئے قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں لوگوں تک پہنچانا ہے۔عالمی زبانوں میںاسلام کا پر امن پیغام ہر طرف فلڈ (flood) کر دینا ہے۔یہاں تک کہ ہر عورت اور ہر مردیہ جان لے کہ خدا کا دین امن کا دین ہے، تشدد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
قرآن کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ اللہ، رب العالمین ہے، وہ رحمۃ للعالمین ہے۔ اللہ کا اور اللہ کے دین کا کوئی تعلق نفرت و تشدد سے نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سچے اہل ایمان پکار اٹھیں ، اور یہ کہیں کہ کیا اللہ کے دین کی تصویر پر تشدد دین کی بنادی جائے گی، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔ یہی صدیق اسپرٹ ہے، اور یہی آج کا سب سے بڑا مطلوب کام۔
واپس اوپر جائیں
الرسالہ مشن کے تحت انڈیا کے ایک شہر میں ایک اجتماع کیا گیا۔ یہ اجتماع تربیتی مقصد کے لئے کیا گیا تھا۔اجتماع کے بعد الرسالہ کے ایک قاری نے کہا کہ ہم اجتماع میں تربیت کے لئے شریک ہوئے تھے، مگر یہاں تربیت کی کوئی بات نہیں ہوئی۔مجھ کو اس اجتماع سے کوئی تربیتی فائدہ نہیں ملا۔
یہ تبصرہ ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ پچھلے زمانے میں تربیت اور تربیتی کیمپ کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہوا۔ اس سے لوگوں کے ذہن میں تربیت کا ایک روایتی ماڈل (traditional model) بن گیا۔لوگ اسی کو تربیتی کام سمجھنے لگے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تربیت کا یہ روایتی ماڈل موجودہ زمانے میں ایک غیر متعلق ماڈل (irrelevant model)بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں تربیت کے نام پر سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن یہ تربیتی سرگرمیاں عملاً بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔
تربیت کا روایتی تصور مبنی بر فارم تصور ہے۔ اس کے برعکس، الرسالہ مشن میں تربیت کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ مبنی بر اسپرٹ تصور ہے۔مبنی بر اسپرٹ تربیت ہی کو ہم قرآن کا طریقِ تربیت سمجھتے ہیں۔ یہ طریقہ نظری اعتبار سے بھی درست ہے، اور عملی تجربہ کے اعتبار سے بھی یہی طریقہ مفید ثابت ہوا ہے۔
مذکورہ تربیتی اجتماع میں جو باتیں کہی گئی تھیں، ان میں سے دو باتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ الرسالہ مشن میں تربیت کا جو نہج (method) اختیار کیا گیا، وہ کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں بظاہر تربیت کے نام سے نہیں کہی گئی تھیں، لیکن عملا اس کا تعلق تربیت ہی سے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ تربیت دراصل سوچ کا نام ہے۔
1 - مذکورہ اجتماع میں ایک بات یہ کہی گئی تھی کہ حق کا داعی وہ ہے جو اپنے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا کرے۔وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے اپنی معرفت کو بڑھائے، وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے سوال کا جواب معلوم کرے، وہ اپنی ذاتی سوچ کے ذریعے دعوت کا پروگرام بنائے۔ دعوت کا کام کوئی روٹین کا کام نہیں ہے، دعوت کا کام ایک تخلیقی کام ہے۔دعوت کا کام مؤثر طور پر وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جن کے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) کی صلاحیت موجود ہو۔
2 - اجتماع کے موقع پر دوسری بات وہ تھی جو قرآن کی ایک آیت کو لے کرکہی گئی۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (
بتایا گیا کہ اس آیت کے دو حصے ہیں۔ ایک، وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ، اور دوسرا، ویکون الدین کلہ للہ ۔ نحوی اعتبار سے پہلا حصہ امر کے صیغے میں ہے، اور دوسرا حصہ خبر کے صیغے میں ۔ یعنی فتنہ کو ختم کرنے کے لئے تو اہل ایمان کو لڑنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو، دین کا اللہ کے لئے ہوجانا، اپنے آپ وقوع میں آئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب فتنہ کا دور ختم ہوجائے تو اس کے بعد وہ وقت آجاتا ہے جب کہ پیدا شدہ مواقع (opportunities) کو استعمال کیا جائے۔
پھر بتایا گیا کہ قرآن کی اس آیت میں دراصل ایک دور کے خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی بات کہی گئی ہے۔ آیت میں فتنہ کا لفظ مذہبی تشدد (religious persecution) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم تاریخ میں مذہبی تشدد کا جو کلچر قائم ہوا، وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ خدا کو یہ مطلوب ہے کہ مذہب کے معاملے میں انسان کوآزادانہ اختیار (free choice) حاصل ہو۔ مگر قدیم زمانے میں مذہبی تشدد کے کلچر نے یہ کیا کہ انسان کے لئے ایک ہی چوائس کا امکان باقی رہا، یعنی غالب کلچر کا چوائس۔یہ حالت خالق کے نقشے کے مطابق نہ تھی اس لئےاہل ایمان کو حکم دیا گیا کہ مذہبی تشدد کے دور کو ختم کر دو تاکہ تخلیق کے مطابق فطری حالت قائم ہو جائے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق رسول اور اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں جو دور آیا ہے، وہ مواقع کا دور (age of opportunities) ہے۔ اب اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ منفی سوچ کو یکسر ختم کردیں۔ اب اہل ایمان کے لئے یہ جواز باقی نہیں رہاکہ کسی کواپنا دشمن سمجھ لیں، اورپھر اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا معاملہ کریں۔ اب اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ زمانے کی اسپرٹ کو سمجھیں، وہ مثبت منصوبہ بندی کے ذریعے پر امن طور پر اللہ کا پیغام سارے اہل عالم تک پہنچادیں۔ تربیت اصلاسوچ کی تربیت کا نام ہے، نہ کہ مسائل بتانے کا نام۔
تربیت کا جو طریقہ عام طور پر رائج ہے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ مربی (trainer) لوگوں سے اس طرح کی باتیں کہتا ہے کہ آپ اچھے طریقے کو اپنی عادت میں شامل کیجئے، آپ تہجد کی عادت ڈالئے، آپ الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ کہنے کی عادت ڈالئے، آپ ہر کام کو دائیں ہاتھ سے شروع کرنے کی عادت ڈالئے، وغیرہ۔ اس طرح کی باتیں تربیت کی تصغیر (underestimation) ہیں۔ تربیت دراصل ذہن سازی کا نام ہے، نہ کہ عادت سازی کا نام۔
فطرت کے اصول کے مطابق آدمی جو کام بھی کرتا ہے، وہ اس کی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے حقیقی تربیت یہ ہے کہ آدمی کے طرزِ فکر (art of thinking) کو درست کیا جائے، آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ صحیح انداز میں سوچے، وہ صحیح انداز میں چیزوں کا تجزیہ کرے، وہ اپنے آپ کو متعصبانہ طرزِ فکر سے بچائے، اور موضوعی اندازِ فکر (objective thinking) کے مطابق چیزوں کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے۔مثلا، یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ سنی ہوئی باتوں کو مان لیتے ہیں، اور اس کو دہرانے لگتے ہیں، یہ طریقہ غلط ہے۔ صحیح تربیت وہ ہے جو اس معاملے میں لوگوں کو باشعور بنائے۔ اسی طرح عام طور پر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ وہ تنقید اور تنقیص کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ نہایت آسانی سے کسی کے بارے میں منفی رائے زنی کرنے لگتے ہیں۔اس معاملے میں تربیت کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر تنقید کریں۔ جس معاملے میں ان کے پاس ثابت شدہ مواد موجود نہ ہو، اس معاملے میں وہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔
تربیت اس کا نام نہیں ہے کہ لوگوں کوصحیح اور غلط (dos and don’ts) کی زبان میں کچھ مسائل بتا دیئے جائیں۔ تربیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بات کو اس طرح مدلل انداز میں بیان کیا جائے جو مخاطب کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ جس کو سن کر مخاطب سوچنے پر مجبور ہوجائے۔تربیت خود فکری (self thinking) کا نام ہے۔تربیت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنا مربی خود بن جائے، وہ اپنا محاسبہ آپ کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث ِ رسول عمر بن خطاب کے حوالے سے ان الفاظ میں آئی ہے: یا عمر، فواللہ، إن لقیک الشیطان بفَجّ قط، إلا أخذ فَجًّا غیر فجِّک (مسند أحمد، رقم الحدیث: 1624) یعنی اے عمر، خدا کی قسم، شیطان اگر کبھی تمھارے راستے میں آتاہے، تو وہ ہمیشہ تمھارے راستے کے سوا ایک اور راستہ اختیار کرلیتاہے-اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ ایک شخص کی فضیلت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک اصول کے بیان کے طورپر ہے - ایک شخص کا نام اُس میں بطور علامت ہے، نہ کہ بطور فضیلت-
اصل یہ ہے کہ شیطان سے حفاظت کا تعلق اس بات سے ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی بیداری (intellectual awakening) کتنی زیادہ آئی ہے- اِس حدیث میں حضرت عمر کا نام ایک علامتی مثال کے طورپر ہے- حضرت عمر کا معاملہ یہ تھاکہ ان کے اندر کامل درجہ میں تواضع (modesty) پائی جاتی تھی- وہ علم کے بہت زیادہ حریص تھے- وہ اپنی غلطی کے اعتراف میں ایک لمحہ کی دیر نہیں کرتے تھے- ان صفات نے حضرت عمر کو ایک بے حد حساس انسان بنادیا تھا- ان کی یہ حساسیت اپنی ذات کے بارے میں نہ تھی، بلکہ حق کے بارے میں تھی- کسی امر حق کو پہچاننے میں وہ ایک لمحے کی تاخیر کا تحمل نہیں کرسکتے تھے-
ان صفات کا نتیجہ یہ تھا کہ حضرت عمر قرآن کی اِس آیت کا کامل مصداق بن گئے تھے: اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ہُمْ مُبْصِرُوْنَ (
واپس اوپر جائیں
خلافت راشدہ کے آخری زمانے میں اُس فرقے کا ظہور ہوا جس کو خوارج کہا جاتا ہے۔ خوارج دراصل غلو (extremism) کا شکار تھے۔ وہ ہرگناہ پر لوگوں کو کافر قرار دینے لگے (الذین یکفّرون بکل ذنب)۔ اس کے رد عمل میں علماء کے درمیان اس پر بہت زیادہ بحثیں ہوئیں، آخر کار اس دور کے علما نے اس پر اتفاق کر لیا کہ جو شخص قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ امام ابو جعفر الطحاوی (وفات:
واپس اوپر جائیں
فقہی مسائل میں اختلاف کا معاملہ زیادہ ترعبادت کے طریقوں میںاختلاف سے تعلق رکھتا ہے۔اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : صلوا کما رأیتمونی أصلی (صحیح البخاری:
اس طرح کی احادیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی غیر اختلافی ماڈل تھا۔ لیکن رسول اللہ کے بعد صحابہ عملی اعتبار سے قابل تقلید نمونہ بن گئے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ مختلف بیرونی علاقوں میں پھیل گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ صحابہ کے عبادتی طریقوں میں کامل یکسانیت نہیںپائی جاتی۔ مثلا نماز میں قرأت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا یا نہ پڑھنا، امام کے پیچھے مقتدی کا قرأتِ فاتحہ کرنا یا نہ کرنا، نماز میں آمین بالسر اور آمین بالجہر کا اختلاف،وغیرہ ۔
صحابہ کے درمیان اس قسم کا اختلاف (صحیح تر لفظ میں فرق)پہلے بھی موجود تھا، مگر پہلے اس فرق کو بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا تھا۔بعد کے زمانے میں جب کہ مسلم معاشرے میں نو مسلموں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو اس فرق پر سوال کیا جانے لگا۔اب اس اختلاف کو موضوع بنا کر یہ سوال کیا جانے لگا کہ ان میں سے صحیح تر ماڈل کون سا ہے۔یہ نومسلم جن مذاہب سے نکل کرآئے تھے، وہاں انھوں نے دیکھا تھا کہ اس قسم کے فرق کوبنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کے فرق کی بنیاد پر دوسرے مذاہب میں الگ الگ فرقے بنے ہوئے ہیں۔اپنے اس قدیم ذہن کو انھوں نے اسلام پر بھی منطبق (apply) کردیا۔اس ذہن کے تحت وہ اس وقت کے مسلم علما سے سوالات کرنے لگے۔یہی وہ ظاہرہ ہے جس نے اسلام میں مذہبی فرقہ بندی کے دور کا آغاز کردیا۔
اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیشگی ہدایت کے طور پر موجود تھی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أصحابی کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم (مشکاۃ المصابیح : 6018)، یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے تم ہدایت پر ہوگے۔اس حدیث کے مطابق صحابہ کے درمیان عبادت کے طریقوں میں اختلاف تنوع (diversity) کی بنا پر تھا، یعنی ہر طریقہ جو کسی صحابی سے ثابت ہووہ یکساں طور پر درست ہے۔عقلی طور پر تنوع کا یہ طریقہ قابلِ فہم تھا، کیوں کہ صحابہ کا اختلاف یا فرق صرف جزئیات (non-basics) میں تھا، وہ کلیات (basics) میں نہ تھا ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فطری قانون کے مطابق جزئیات میں ہمیشہ فرق پایاجاتاہے، جزئیات میں یکسانیت (uniformity) کا حصول ممکن نہیں۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر یہ اختلاف مسلکی شدت کا سبب بن گیا۔ جب کہ یہ اختلاف خود صحابہ میں موجود تھا، مگر صحابہ کے درمیان ان اختلافات کی بنیاد پر کوئی مسلکی تشدد نہیں پیدا ہوا۔ اس کا سبب واضح طور پر یہ تھا کہ صحابہ مختلف طریقوں پر عبادت کرتے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فلاں طریقہ افضل ہے، اور فلاں طریقہ غیر افضل۔ وہ مختلف طریقوں پر اس طرح عمل کرتے تھے جیسے کہ ہر طریقہ یکساں طور پر درست ہو۔ مگر بعد کو ایسا ہوا کہ انہی اختلافات کو لے کرامت مختلف فرقوں، بلکہ متحارب گروہوں میں بٹ گئی ۔ جب کہ اس قسم کا تحزب شریعت میں سخت نامحمود (
دورِ اول کے ان فقہاء نے یہ کیا کہ انھوں نے ترجیح (preference) کے نام سے بطور خود ایک اصول وضع کیا۔ انھوں نے لمبی بحثیں کر کے ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقے کو مرجوح ثابت کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے اختلافات کو بیان کیا، اور پھر ایک مسلک کو لے کر کہا کہ ھذا أحوط (یہ زیادہ محتاط طریقہ ہے) ، ھذا أفضل (یہ زیادہ افضل طریقہ ہے)۔ انھوں نے بطور خود ایک مسلک کو اولیٰ اور دوسرے مسلک کو غیر اولیٰ قرار دیا۔یہ بلاشبہ علمائے فقہ کی ایک اجتہادی غلطی تھی۔یہی وہ اجتہادی غلطی ہے جس نے امت میں فقہی تشدد کا آغاز کر دیا، جو پھر کبھی ختم نہ ہو سکا۔
یہ انسان کی نفسیات ہےکہ اس کے لئے جب انتخاب افضل اور غیر افضل کے درمیان ہو تو وہ ہمیشہ افضل کا انتخاب کرے گا۔ وہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لئے ہر طرح کے دلائل دے گا۔بعد کے زمانے میں انسان کی یہی نفسیات بروئے کار آئی، اور فقہی مسلک میں اختلاف کے نتیجے میں نفرت اور تشدد حتیٰ کہ جنگ تک کو جائز کر لیا گیا۔
اس معاملے میں دورِ اول کے علما کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مسلک کوقابلِ ترجیح قرار دینے کے باوجودوہ مسلک کے بارے میںمتشدد نہ تھے۔ مثلا حنفی اور شافعی فقہاءنماز میں بسم اللہ پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ مالکی فقہاء اس کے قائل نہ تھے، مگر دونوںگروہوں نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کی۔اسی طرح امام شافعی فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کے قائل تھے، جب کہ امام ابو حنیفہ اس کےقائل نہ تھے،مگر جب امام شافعی امام ابوحنیفہ کے مقبرہ کے پاس گئے اور وہاں فجر کی نماز ادا کی تو انھوں نے دعائے قنوت نہیں پڑھی، وغیرہ۔مگر اس طرح کا عمل صرف انفرادی اخلاق کو ثابت کرتا ہے، اور شرعی اختلاف کے حل کے لئے شرعی اصول درکار ہے، نہ کہ انفرادی اخلاق۔
دینی امور میں جب کسی ایک طریقہ کو دوسرے طریقے کے مقابلے میں افضل بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ افضل طریقہ میں زیادہ ثواب ہے، اور غیر افضل طریقہ میں کم ثواب ہے۔ ایک فقہی عالم اگر افضلیت اور غیر فضلیت کی زبان میں اس طرح کا مسئلہ بتائے، اور اس کے بعد مخالف مسئلہ بتانے والے عالم کے پیچھے ایک بار نماز پڑھ لے تو اس قسم کے عمل سے فقہی تشدد ختم نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ عمل لوگوں کی نظر میںذاتی نوعیت کا ایک اخلاقی برتاؤ یا حسنِ معاشرت قرار پائے گا، نہ کہ کوئی شرعی مسئلہ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ جب حسن معاشرت اور دینی افضلیت کے درمیان انتخاب (choice) ہو تو آدمی ہمیشہ اس طریقے کو لے گا جس کو افضل بتایا گیا ہے، اور غیر افضل پر عمل کرنے والے کو کم تر سمجھ لے گا۔ اس طرح کےشرعی معاملے میں حسنِ معاشرت کبھی فیصلے کی بنیاد نہیںبن سکتا۔یہ مزاج یقینابڑھتے بڑھتے آخرکار فقہی تشدد اور گروہی تحزب کی صورت اختیار کر لے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ امت کے اندر بعد کے زمانے میں جو فقہی تشدد اور مسلکی تحزب پیدا ہوا، اس کا سبب خود دین کی تعلیمات میں نہ تھا۔ اس کا سبب تمام تر علمائے متقدمین کی اس اجتہادی غلطی میں تھا کہ انھوں نے غیر ضروری طور پر ایک ایسے معاملے میں توحد کااصول اختیار کیا جوکہ در اصل توسع کا معاملہ تھا۔ ایک دینی اختلاف جو دراصل توسع (diversity) کی بنا پر تھا، اس کے معاملے میں انھوں نے توحد (uniformity) کے اصول کو منطبق کرنا چاہا۔ ان کی یہ کوشش یقینی طور پر غیر فطری تھی، اس بنا پر توحد کے نام پر کی جانے والی کوشش تشدد کا ذریعہ بن گئی، اور آخر کار امت واحدہ ،امتِ متفرقہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اس واقعے کی ذمے داری ساری کی ساری فقہائے متقدمین پر ہے۔ اس صورتِ حال کی اصلاح صرف اس وقت ہو سکتی ہے ، جب کہ فقہائے متقدمین کے بارے میں یہ مانا جائے کہ انھوں نے بطورِ خود اختلافی مسائل کےحل کے لئے جو طریقہ اختیار کیا وہ ان کی ایک اجتہادی غلطی تھی، اور اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ اس غلطی کی تصحیح کر دی جائے۔
واپس اوپر جائیں
ایک مضمون قرآن کی دو آیتوں میں بیان کیا گیاہے- ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (
قرآن کی اِس آیت میں کلمات اللہ سے مراد اللہ کے تخلیقی کرشمے (creative marvels) ہیں- یہ تخلیقی کرشمے بے شمار ہیں- ان کی دریافت صرف عقلی غور وفکر کے ذریعہ ہوتی ہے- اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قرآن کی اس آیت میں تدبر وتفکر کا میدان بتایا گیا ہے-کلمات اللہ میں تدبر کا میدان اتنا زیادہ وسیع ہےکہ وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب اس لئے اتاری تاکہ لوگ اس کی آیتوںپر غور کریں(
اصل یہ ہے کہ قرآن میں حقائق کی تفصیل نہیں بتائی گئی- قرآن میں صرف اشارات بتائے گئے ہیں- تدبر سے مراد قرآن کے اشارات کی روشنی میں تمام موجودات پر تدبر ہے- یہی تدبر معرفت کا خزانہ ہے- اس تدبر سے قرآن کے خدا کا کلام ہونے پر یقین بڑھتا ہے، معرفت میں اضافہ ہوتا ہے، تخلیق کی حکمتیں معلوم ہوتی ہیں، چھپی ہوئی حقیقتوں کی دریافت ہوتی ہے- تدبر کا یہی عمل ہے جس کے ذریعہ وہ مطلوب انسان بنتا ہے، جس کو قرآن میں ربانی انسان (
واپس اوپر جائیں
اسلام میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے- یہاں تک کہ صبر پر بے حساب انعام کا وعدہ کیاگیا ہے:اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ(
صبر کا ایک فائدہ وہ ہے جو انسان کو آخرت میں ملے گا- لیکن صبر کا فائدہ اسی موجودہ دنیا میں شروع ہوجاتاہے- صبر کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ آدمی مایوسی کی نفسیات سے بچ جاتا ہے- مایوسی کی نفسیات میں جینے والے انسان کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ بے یقینی (uncertainty)کی نفسیات میں جینے لگتاہے- ایسا آدمی کبھی حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کا منصوبہ نہیں بنا سکتا- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا آدمی اپنی زندگی میں کوئی بڑا کام نہیں کرپاتا-
صبر کا معاملہ اس کے برعکس ہے- صبر آدمی کو اِس نفسیات سے بچا لیتاہے کہ وہ کھوئے ہوئے کو نہ بھلائے- ایسا آدمی کامل معنوں میں یقینیت (certainty) میں جینے لگتا ہے- وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ عزم وحوصلہ کے ساتھ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے- اور اس کے نتیجہ میں بڑی کامیابی حاصل کرے-
یقین (conviction) انسان کی سب سے بڑی صفت ہے- کوئی بڑا کام وہی شخص کرسکتاہے جو یقین میں جیتاہو- قرآن میں صبرکو اتنی زیادہ اہمیت اسی لئے دی گئی ہے کہ صبر آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بے یقینی کے اسباب کو نظر انداز کرکے صرف ان چیزوں پر فوکس کرے جو آدمی کے اندر یقین پیداکرنے والی ہیں- موجودہ دنیا میں ہر لمحہ ایسے تجربات پیش آتے ہیں جو آدمی کے ذہن کو بھٹکا کربے یقینی کی طرف لے جاتے ہیں- صبر آدمی کو اس بھٹکاؤ سے بچاتا ہے- وہ آدمی کو ہر حال میں یقین پر قائم رکھتا ہے-
واپس اوپر جائیں
معجزہ کیا ہے- معجزہ دراصل استثنا (exception) کا دوسرا نام ہے- قرآن ایک استثنائی کتاب (exceptional book) ہے- قرآن کی یہی منفرد حیثیت اس بات کا ثبوت ہےکہ قرآن خدا کی بھیجی ہوئی کتاب ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بتایا گیاہے: قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(
کسی کتاب کا استثنائی کتاب ہونا، اس بات کا ثبوت ہےکہ وہ خدا کی طرف سےہے- کیونکہ یہ صرف خدا کی صفت ہے کہ وہ کسی کتاب کو استثنائی کتاب بنادے- انسان ایک محدود ہستی ہے اور محدود ہستی کسی استثنائی کتاب کو وجود میں نہیں لاسکتی- استثنائی کتاب کو وجود میں لانے کے لئے ایک لامحدود ہستی درکار تھی- اور اس لامحدود صفت کا حامل صرف خدا ہے، کوئی دوسرا نہیں-
البتہ یہ ممکن ہے کہ خدا اپنی مصلحت کی بنا پر کسی انسان کی مدد کرے، اور اس کو توفیق دے کہ وہ ایسی کتاب تیار کرے جو دوسری انسانی کتابوں کے مقابلہ میں ایک استثنائی کتاب (exceptional book) کی حیثیت رکھتی ہو- جس کے مثل کتاب تیار کرنے پر کوئی انسان قادر نہ ہو- اگر ایسا ہوتو اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ بھی ایک خدائی معاملہ ہوگا، نہ کہ معروف معنی میں ایک انسانی معاملہ-
اس دنیا میں اللہ تعالی نے استثنا (exception) کو ایک پہچان بنا دیا ہے- یہ فطرت کا ایک طریقہ ہے- آدمی کو چاہئےکہ جہاں وہ کوئی استثنا دیکھے، وہاں وہ اس پر گہرائی کے ساتھ غور کرے- جو شخص ایسا کرے، وہ یقینا وہاں ایک بڑی چیز کو دریافت کرلے گا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الفرقان میں یہ آیت آئی ہے: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (
اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام اپنی امت کے بارے میں قیامت میں یہ کہیں گے کہ بعد کے زمانے میں میری قوم نے قرآن کو ایک چھوڑی ہوئی کتاب(discarded book) بنا دیا- یہ امت کے اُس دور کی بات ہے، جو کہ رسول اور اصحاب رسول کے بعد امت کے زوال کے زمانے میں پیش آئے گا- یہ وہی واقعہ ہوگا، جو پچھلی امتوں پر اسی طرح پیش آچکا ہے-
دورِ زوال میں قرآن چھوڑی ہوئی کتاب کیسے بن جاتا ہے- یہ قرأت اور تلاوت اور ظاہری احترام کے معنی میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس معنی میں ہوتا ہے کہ دورِ زوال میں امت کے افراد کے اندر تخلیقیت (creativity) باقی نہیں رہتی- اِس بنا پر وہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی نئی تطبیق(reapplication)دریافت نہیں کرپاتے-وہ روایتی اسلام کو جانتے ہیں، لیکن وہ تطبیقی اسلام (applied Islam) سے بے خبر ہوتے ہیں- اس بنا پر اسلام ان کے زندہ عقیدہ کا جز نہیں ہوتا-
قرآن بلا شبہہ ایک ابدی کتاب ہے، لیکن زمانہ بدلتا رہتا ہے- اس بنا پر ضرورت ہوتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی ایسی تشریح کی جائے جو وقت کے ذہن کو ایڈریس کرسکے-حالات کے اعتبار سے ایسی تطبیق دریافت کی جائے،جس میں لوگوں کو نظر آئے کہ اسلام آج بھی ان کے لیے ایک قابل عمل رہنما دین کی حیثیت رکھتاہے- اس کو دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ;کو ان کے لیے دریافت نو (rediscovery) کی چیز بنا دیا جائے- جب ایسا نہ ہو تو عملاً یہی ہوگا کہ قرآن ان کے لیے ایک مہجور کتاب بن جائےگا-
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: من أصبح منکم آمنًا فی سربہ ، معافىً فی جسدہ ، عندہ قوت یومہ ، فکأنما حِیْزَت لہ الدنیا(الترمذی، رقم الحدیث: 2346) یعنی تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ امن کی حالت میں ہو، اور اس کو جسمانی صحت حاصل ہو، اس کے پاس اُس دن کا رزق ہو، تو گویا کہ اس کو ساری دنیا حاصل ہوگئی-
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مادی اعتبار سے قناعت (contentment) کا طریقہ اختیار کرو، تاکہ تم دین کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ادا کرسکو- یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص دنیا کے معاملے میں بقدر ضرورت پر اکتفا کرے گا، وہی آخرت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگا-
میرے پاس ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا، انھوں نے کہا کہ میں بہت مشکل میں ہوں، میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے- میں نے کہا کہ آپ کو کوئی مشکل نہیں- اللہ نے آپ کو مشکلات سے بچا رکھا ہے- حقیقت یہ ہے کہ مشکل ہمیشہ آدمی کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے- اگر آپ اپنی سوچ کو درست کرلیں تو آپ کے لئے کوئی مشکل مشکل نہ رہے گی-میں نے کہا کہ آپ نے دور سے مجھ کو ٹیلی فون کیا ہے، یہ کوئی سادہ بات نہیں- یہ اللہ کی ایک عظیم نعمت کا واقعہ ہے- آپ کو حافظہ (memory) کی نعمت حاصل تھی- اس لئے یہ ممکن ہوا کہ آپ میرے ٹیلی فون نمبر کو یاد کریں، پھر آپ کے پاس ٹیلی فون موجود تھا، جو اتنی بڑی نعمت ہےکہ پچھلی تاریخ میں کسی بادشاہ کو بھی یہ نعمت حاصل نہ تھی، پھر آپ نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ میرا نمبر ڈائل کیا- اگر آپ سوچیں تو یہ ایک معجزاتی واقعہ تھا، پھر آپ ہزار میل دور سے بول رہے ہیں اور میں اس کو سن کر عین اسی وقت قابل فہم زبان میں اس کا جواب دے رہا ہوں- یہ سارا معاملہ ایک عظیم نعمت کا معاملہ ہے- اس طرح کی بے شمار چیزیں ہیں جو آج بھی آپ کو پوری طرح حاصل ہیں- اگر آپ اللہ کے ان عطیات کو یادکریں تو آپ اپنے آپ کو اتنا ہلکا محسوس کریں گے، جیسے کہ آپ مشکلوں میں نہیں جی رہے ہیں، بلکہ آسانیوں میں جی رہے ہیں-
واپس اوپر جائیں
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے- بے وضو آدمی قرآن کو نہیں چھوسکتا- یہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد مسئلہ ہے- یہ مسئلہ قرآن میں مذکور نہیں، وہ تمام تر بعد کے زمانے میں مدون ہونے والی فقہ کی پیدا وار ہے-اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا- یہ سب اپنے پچھلے مذہب کے ذہن (mindset) کو لے کر اسلام میں داخل ہوئے- ان میںسے بہت سے لوگوں نے عربی زبان سیکھی، اور وہ عالم اور امام بن گئے-یہی وہ نو مسلم علماء ہیں، جنھوں نے فقہ کی تدوین کی، انھوں نے اپنے قدیم مذہبی مزاج کے مطابق بہت سے مسائل غیر شعوری طورپر اسلام میں داخل کردئے، جو کہ دورِ صحابہ میں پائے نہیں جاتے تھے- مزید یہ کہ انھوں نے ان خود ساختہ فقہی مسائل کی تائید کے لیے قرآن کی آیتوں کی غلط تاویل کی- مثلاً شاتم رسول کو قتل کرنا، قرآن سے ثابت نہیں، لیکن فقہا نے غلط تاویلات کے ذریعہ اس کو اسلام میں شامل کردیا اور یہ لکھ دیا کہ یُقتل حدّا (ایسا شخص بطور حد قتل کیا جائے گا)-
انھیں فقہی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے بغیر قرآن کو چھونا جائز نہیں- مگر یہ انھیں نو مسلم فقہا کا وضع کردہ مسئلہ ہے-اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں- اگر یہ مسئلہ اسلام کا مسئلہ ہوتا تو یقینی طورپر قرآن میں مذکور ہوتا، مگر قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں - یہ حضرات اِس معاملہ میں قرآن کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں- وہ آیت یہ ہے:لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (
واپس اوپر جائیں
تمام فلسفیوں کا کیس ایک تھا، وہ ہے حقیقت کی تلاش- تمام فلسفیوں نےیہ چاہا کہ وہ سچائی کو علم کے راستے سے جانیں، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ہر فلسفی اپنی اس تلاش میں ناکام رہا- برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کا معاملہ بھی یہی تھا- تمام عمر مطالعہ کرنے کے باوجود وہ سچائی کو دریافت کرنے میں ناکام رہا- دوسرے فلسفیوں کا کیس بھی یہی ہے- مگر دوسرے فلسفیوں نے اس حقیقت کا بہت کم اعتراف کیا، جب کہ برٹرینڈ رسل نے کھلے لفظوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے - رسل کا یہ اعتراف اس کی خود نوشت سوانح عمری میں دیکھا جاسکتا ہے-
اس نے لکھا ہے : ’’جب میں اپنے زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی ضائع ہوگئی- میں ایسی باتوں کو جاننے کی کوشش کرتا رہا، جن کو جاننا ممکن ہی نہ تھا- میری سرگرمیاں بطور عادت جاری رہیں- میں بھلاوے میں پڑا رہا- جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو میں اس کو چھپا نہیں پاتا کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں، اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ نیا مقصدِ حیات کیا ہے، جس میں میں اپنی بقیہ عمر کو وقف کروں- میں اپنے آپ کو کامل تنہائی میں محسوس کرتا ہوں، جذباتی اعتبار سے بھی اور مابعد الطبیعیاتی اعتبار سے بھی، جس سے میں کوئی مخرج نہیں پاتا‘‘:
“When I survey my life, it seems to me to be a useless one, devoted to impossible ideals. My activities continue from force of habit, and in the company of others, I forget the despair which underlies my daily pursuits and pleasure. But when I am alone and idle, I cannot conceal for myself that my life has no purpose, and that I know of no new purpose to which to devote my remaining years. I find myself involved in a vast mist of solitude both emotional and metaphysical, from which I can find no issue.”
(p.
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاحزاب میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے، جو سارے زمین وآسمان کو نہیں دی گئی، اور وہ امانت ہے، یہی امانت وہ چیز ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہے- امانت سے مراد دراصل وہی چیز ہے جس کو فری تھنکنگ (free-thinking) کہاجاتا ہے، یعنی آزادانہ طورپر سوچنا اور آزادانہ طورپر اپنے عمل کی پلاننگ کرنا- اس امانت کی صحیح ادائیگی انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی میں ناکام ہونا انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے (
اس موقع پر قرآن میں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، ظلوم اور جہول، یعنی غیر عادل اور نادان- انسان اپنی آزادی کو غلط استعمال کرنے کی بنا پر بہت جلد عدل (justice) سے ہٹ جاتا ہے، اور اسی طرح وہ آزادی کے غلط استعمال کی بنا پر دانش مندی (wisdom) کے راستے سے ہٹ جاتاہے- یہی انحراف (deviation) اس کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے-
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی اصلاح کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنی فطرت (nature) سے نہ ہٹے- اگر آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور فطرت کے راستے سے نہ ہٹے تو فطرت خود ہی اس کی راہ نما بن جائے گی- فطرت سے ہٹنا آدمی کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے، اور فطرت پر قائم رہنا آدمی کو کامیاب بناتا ہے-
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی آزمائش اس بات میں ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح انتخاب (right choice) کو لے، وہ اپنے آپ کو غلط انتخاب سے بچائے- صحیح انتخاب اور غلط انتخاب کا یہ معاملہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہے، اور عمل سے بھی-
فکرکے اعتبار سے صحیح انتخاب وہ ہے جس کا نمونہ آغازِحیات کے وقت فرشتوں نے اختیار کیا، اور غلط انتخاب وہ ہے جس کو ابلیس نے اپنا شیوہ بنایا- فرشتوں سے جب کہاگیا کہ انسان کے آگے جھک جاؤ تو وہ جھک گئے- اس کے برعکس، ابلیس اس پر راضی نہ ہوا- اس نے یہ اعتراض کیا کہ انسان کو خلیفة الارض کیوں بنایا گیا- یہ اعتراض سلیکٹو تھنکنگ (selective thinking) کی ایک مثال تھی- ابلیس جنوں کا سردار تھا- جن کو خدا نے اس سے زیادہ چیز دی تھی، یعنی خلافت کائنات- لیکن ابلیس نے اس پہلو کو نظر انداز کیا اور صرف یہ سوچا کہ انسان کو زمین کی خلافت کیوں دی گئی-
یہی برائی پوری تاریخ میں رائج ہے- انسانوں کی ننانوے فیصد سے زیادہ تعدادمنفی سوچ میں پڑی ہوئی ہے، یعنی انتخابی سوچ (selective thinking)- ملے ہوئے کو نظر انداز کرنا، اور نہ ملے ہوئے کو مسئلہ بنا کر اس کو اپنی سوچ کا محور بنانا-
اس معاملے میں مسلمانوں کا استثنا نہیں- موجودہ زمانے کے مسلمان ساری دنیا میں ہر قسم کے بہترین مواقع کو پائے ہوئے ہیں، جس طرح دوسرےلوگ ان کو پائے ہوئے ہیں- لیکن فطرت کے قانون کے تحت ایسا ہے کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو مسلمانوں کو نہیں ملی- مسلمان یہ کررہے ہیں کہ اسی نہ ملے ہوئے کو اپنی سوچ کا مرکز ومحور بنائے ہوئے ہیں اور ملے ہوئے کو نظر انداز کررکھا ہے- اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کی دلدل میں پڑے ہوئے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ شکر سے محروم ہیں جو کسی انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے-
مسلمانوں کی اس منفی سوچ کا سبب کیا ہے، وہ ہے
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول کا زمانہ تھا- تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے ساتھ دو قسم کے واقعات پیش آئے- ایک یہ کہ مخالفین کی جارحیت (aggression) کی بنا پر قتال، اور دوسری چیز ہے مخالفین کی طرف سے مظالم کا ارتکاب- قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں قتال کے واقعات کا ذکر تو موجود ہے لیکن جہاں تک مخالفین کے مظالم کا تعلق ہے وہ تقریباً غیر مذکور واقعات (unreported events) بنے ہوئے ہیں- مظالم کے واقعات ہم کو تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتے ہیں، قرآن سے نہیں-
اس فرق کا سبب یہ ہے کہ قرآن میں قتال کی آیتیں امت کے تاریخی کردار (historical role) کو بتانے کے لئے ہیں- وہ امت کے مستقل مشن (permanent mission) کو بتانے کے لئے نہیں ہیں- امت کا مستقل مشن پرامن دعوت الی اللہ ہے- قدیم عرب میں قتال کا واقعہ وقتی ضرورت کے تحت اس لئے پیش آیا کہ جبر کے دور (despotic rule) کو ختم کرکے دنیا میں آزادی کا دور لایا جائے تاکہ انسان کو جو کرنا ہے، اس کو وہ آزادانہ طور پر کرسکے- قرآن میں اس واقعے کو ختم فتنہ (
قدیم عرب میں رسول اور اصحاب رسو ل کے ساتھ ظلم کے بڑے بڑے واقعات پیش آئے، مگر قرآن میں صراحتاً ان کا ذکر موجود نہیں- البتہ صبر یا اس کے ہم معنی الفاظ کی آیتیں قرآن میں کثرت سے موجود ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مظالم پر شکایت اور احتجاج کیا جائے ، اس کے بجائے قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہلِ اسلام اس قسم کی باتوں پر صبر وتحمل کا طریقہ اختیار کریں- صبر وتحمل کا طریقہ کوئی انفعالی (passive) طریقہ نہیں- صبر وتحمل ایک اعلی درجہ کی ایجابی صفت ہے- صبر وتحمل کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو آخری حد تک منفی سوچ (negative thinking) سے بچانا، اپنی پوری توانائی (energy) کو تعمیری مقصد کے لئے صرف کرنا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التوبہ میںایک واقعہ کے ریفرنس میں فطرت کا ایک قانون (
اس معاملے کی ایک جزئی مثال قدیم عرب میںنَسی (intercalation) کا واقعہ ہے- تخلیقی نظام کے مطابق قمری کیلنڈر (Lunar calendar)اور شمسی کیلنڈر (Solar calendar) کے درمیان ایک سال میں تقریباً گیارہ دن کا فرق ہوتا ہے- قدیم زمانے میں عربوں نے نَسی کا طریقہ اختیار کیا- وہ خود ساختہ طورپر ہر سال ایسا کرتے تھے کہ قمری کیلنڈر کے دنوں میں اضافہ کرکے اس کو شمسی کیلنڈر کے مطابق کرلیتے تھے-
یہ طریقہ تخلیقی نظام میں مداخلت کی حیثیت رکھتا تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں جو اصلاحات کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ نے فتح مکہ (8 ھ) کے بعد ایک حکم کے تحت اس طریقے کو ختم کردیا، اور قمری کیلنڈر کو اس کے فطری نقشے پر قائم کردیا- حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو ، خطبۂ حجة الوداع، صحیح البخاری: 3197، صحیح مسلم: 1679-
اس طرح کے اصلاحی معاملہ کی زیادہ بڑی مثال وہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ الانفال میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
قرآن کی اِس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد (religious persecution) ہے- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی (religious extremism) کا طریقہ رائج تھا- مزید یہ کہ اس مذہبی انتہا پسندی کو پولیٹی سائز (politicize)کرکے، اس کے حق میں وقت کے حکمرانوں کی حمایت بھی حاصل کرلی گئی تھی، اس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی نے عملاً مذہبی تشدد (religious persecution) کی صورت اختیار کرلی تھی- یہ صورت حال خدا کے قائم کردہ تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ مذہب کے معاملے میں تشدد کا طریقہ ختم ہو، اس کے بجائے پورے معنوں میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا طریقہ رائج ہوجائے- تاکہ ہر شخص آزادانہ طورپر اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرسکے-
مذہبی جبر کے خاتمہ کا یہ عمل رسول اور اصحاب رسول کے زمانے میں شروع ہوا- تدریجی عمل (gradual process) کے تحت وہ تاریخ میں سفر کرتا رہا- مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ عمل یورپ (Europe) میں پہنچا- اہل یوروپ نے اس میں مزید اضافے کئے- یہاں تک کہ مذہبی آزادی کا مطلوب نظام اپنی آخری صورت میں قائم ہوگیا- دنیا میں مذہبی آزادی کا دور لانے کے معاملے میں اہلِ یوروپ کارول تکمیلی رول کی حیثیت رکھتا ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ کے اس واقعے کو سمجھیں، وہ اہلِ مغرب کے خلاف اپنے منفی ذہن (negative thinking)کو مکمل طورپر ختم کردیں، اس معاملے میں وہ اہلِ مغرب کے کنٹری بیوشن کا اعتراف کریں، وہ اہلِ مغرب سے رقابت کا تعلق ختم کردیں، اور اس کے بجائے دوستی کا طریقہ اختیار کریں، وہ اس معاملے میں اہلِ مغرب کو اپنا محسن سمجھیں- مسلمانوں کے درمیان جب اس قسم کا مثبت ذہن پیدا ہوگا تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے اندر سے منفی ذہن کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا، اور دعوت الی اللہ کا فریضہ بخوبی طورپر انجام پانے لگے گا-
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قومی شکایتوں کو مکمل طورپر ختم کردیں- اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ مسلمان خدا کے قائم کردہ فطری نظام کو سمجھیں، اور پیدا شدہ مواقع کو استعمال کریں-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ نمبر 50 میں جنت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ فِیہَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ (
عمل عام یہ ہے کہ آدمی ان معلوم احکام پر عمل کرے جو بظاہر قرآن و سنت میں لفظوں کی صورت میںبتا دیئے گئے ہیں۔ مثلا ایک حدیث کے مطابق، پانچ بنیادی احکام پر عمل کرنا(البخاری: 8)۔ جو آدمی اخلاصِ نیت کے ساتھ ان متعین احکام پر عمل کرے، اس کے لئے جنت ہے۔ یہ وہ جنت ہے، جس کے لئے ہم نے جنت عام کا لفظ استعمال کیا ہے۔
جنت خاص ان لوگوں کے لئے ہے، جو موجودہ دنیا میں عمل خاص کا ثبوت دیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل خاص سے مراد وہ عمل ہے، جو اعلیٰ معرفت کا نتیجہ ہو،جو اعلیٰ معرفت کے تحت کسی انسان سے صادر ہو۔جنت دراصل معرفت کی قیمت ہے۔ عام معرفت پر عام جنت، اور خاص معرفت پر خاص جنت۔
اعلیٰ درجے کے عارفین وہ ہیں جو تدبر کے ذریعے اپنے اندر تخلیقی سوچ (creative thinking) پیدا کریں، جو تفکر کے ذریعے کائنات میںچھپی ہوئی آیاتِ الٰہیہ کو دریافت کریں، جو توسم کے ذریعے زندگی کے ہر تجربے کو اللہ کی معرفت میں ڈھال لیں، جو دعوت الی اللہ کو اس طرح دریافت کریں جو ان کو یک طرفہ طور پر ہر انسان کا خیر خواہ بنادے،جوتقویٰ کے اس درجے پر پہنچ جائیں جب کہ منفی واقعات کو بھی وہ مثبت واقعات میں تبدیل کر لیں۔یہی معرفتِ مزید ہے، اور معرفتِ مزید ہی کسی کو جنت مزید کا مستحق بنائے گی۔
عملِ مزید کیا ہے، اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے۔حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس بن مالک، قال: کان عبد اللہ بن رواحة إذا لقی الرجل من أصحابہ، یقول: تعال نؤمن بربنا ساعة، فقال ذات یوم لرجل، فغضب الرجل، فجاء إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ، ألا ترى إلى ابن رواحة یرغب عن إیمانک إلى إیمان ساعة؟ فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم: یرحم اللہ ابن رواحة، إنہ یحب المجالس التی تتباہى بہا الملائکۃ (مسند احمد: 13796)۔یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن رواحہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے ان کی ملاقات ہوتی تو وہ کہتے؛ آؤ، ہم اپنے رب پر ایک ساعت کے لئے ایمان لائیں، انھوں نے ایک دن یہی بات ایک آدمی سے کہی۔ وہ آدمی یہ سن کر غضب ناک ہوگیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے کہا اے اللہ کے رسول، کیا آپ نے ابن رواحہ کو نہیں دیکھاوہ آپ پر ایمان کے بعد ایک ساعت کے ایمان کی ترغیب دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاکہ ابن رواحہ پر اللہ رحم کرے ، وہ ایسی مجلسوں کو محبوب رکھتے ہیں جس پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔
یہ واقعہ تقابلی انداز میں بتاتا ہے کہ عمل عام کیا ہے اور عمل مزید کیا ہے۔عمل عام یہ ہے کہ آدمی روٹین (routine) کے درجے میں معلوم احکام پر عمل کرے۔ مثلا روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھنا، اور سال میں ایک مہینہ کا روزہ رکھنا۔ اخلاص کے ساتھ اپنی زندگی میں ان معلوم احکام کی پابندی کرتے رہنا۔ایسا شخص بھی بشرطِ نیت آخرت کی جنت میں جگہ پائے گا، مگر یہ جنت اس کے لئے جنتِ عام ہوگی۔
اس کے مقابلے میں دوسرا انسان وہ ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کی آیات(signs of God in nature) میں غور کرے، وہ تدبر اور تفکر کے ذریعے معرفت خداوندی کے نئے نئے پہلو دریافت کرے، وہ اپنے سادہ ایمان کو تخلیقی ایمان (creative faith) بنائے، وہ اپنے آپ کو خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا کرے۔ ایسا شخص گویا اپنی کوشش سے عمل مزید کر رہا ہے۔اللہ تعالی ایسے انسان کے عمل مزید کی قدر دانی اس طرح فرمائے گا کہ اس کو جنت مزید (additional Paradise) یا خصوصی جنت میں داخلہ عطا کرےگا۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول مختلف کتابوں میں آئی ہے- ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إنَّ اللہَ یبعثُ لہذہ الأمةِ على رأسِ کلِّ مائةِ سنةٍ من یُجدِّدُ لہا دینَہا (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4291 ) یعنی بے شک اللہ تعالی ہر صدی کے سرے پر اس امت کے لئے ایک شخص کو اٹھائے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا-
جدّد کا لفظی مطلب نیا کرنا (to renew) ہے- حدیث کے الفاظ کے مطابق نیا کرنے کا یہ عمل دین کی نسبت سے نہیں ہوتا بلکہ امت کی نسبت سے ہوتا ہے، اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ پرانے دین کی جگہ نیا دین لایا جائے- تجدید کا مقصد صرف یہ ہے کہ امت جو کہ عقیدہ کے اعتبار سے بظاہر دین کو مان رہی ہے، مگر حقیقی عمل کے اعتبار سے اس کے اندر کمی واقع ہوگئی ہے- اس وقت اس کے لئے نئی توانائی (revitalization)کی کوشش کی جائے- یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو ہر امت میں اس کی بعد کی نسلوں کے لئے پیش آتی ہے-
دین کی بنیاد متن (text) پر ہے- متن ہمیشہ ایک ہی رہتاہے- اس لئے متن میں کسی نئے عمل کی ضرورت نہیں- مگر امت کی بعد کی نسلیں ایک بدلے ہوئے زمانے میں پیدا ہوتی ہیں- اب ضرورت ہوتی ہے کہ اصل دین کی تبیین (interpretation) اس طرح کی جائے جو بعد کے لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرسکے- دوسرے الفاظ میں تجدید دین کا مطلب دین کی نئی تطبیق (reapplication) ہے- اس کا مقصد یہ ہے کہ دین کو بعد کے لوگوں کے لئے از سر نو قابل فہم (understandable) بنایا جائے- مثلاً بعد کے لوگ معرفت اور دعوت کے الفاظ بولیں گے- لیکن معرفت اور دعوت ان کی شعوری دریافت نہ ہوگی- اس لئے ان کی لغت میں معرفت اور دعوت کے الفاظ تو ہوں گے لیکن ان کی حقیقی زندگی اس سے خالی ہوگی- تجدید یہ ہے کہ اِن الفاظ کو ان کے لئے دوبارہ شعوری دریافت بنایا جائے- تجدید کا تعلق تطبیق ِ نو سے ہے، نہ کہ دین ِ نو سے-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ابلیس اور آدم کا قصہ سات بار بیان ہوا ہے- یہ تکرار (repetition) نہیں ہے- یہ اسلوبِ کلام کا معاملہ ہے، نہ کہ تکرارِ قصہ کا معاملہ-
غور کیجئے تو قرآن کے مذکورہ ساتوں مقام پر بظاہر آدم اور ابلیس کے قصے کی تکرار ہے، لیکن ہر جگہ سبق (lesson) الگ الگ نکالا گیا ہے- اس بنا پر اس کو تکرار نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ قرآن نے ایک قصے کے حوالے سے سات مختلف اسباق کی طرف اشارہ کیا ہے-
اس معاملے کی حقیقت یہ ہےکہ حوالہ (reference) کی تعدادمحدود ہوتی ہے، لیکن پہلو میں تنوع (diversity) کی بنا پر اس میں اسباق کی تعداد ہمیشہ بہت زیادہ ہوجاتی ہے- جہاں تک قابل حوالہ قصے کی بات ہے،وہ ایک معلومات کا مسئلہ ہے- مطالعے کے ذریعہ ہر آدمی یہ معلومات حاصل کرسکتا ہے- لیکن کسی ایک قصے سے متعدد سبق نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پائی جائے-
قرآن میں بار بار یہ کہاگیا ہے کہ تدبر کرو، تفکر کرو، توسم کرو، وغیرہ- کسی واقعے کے معلوماتی پہلو کو جاننے کے لئے تدبر اور تفکر کی ضرورت نہیں ہوتی- تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ واقعے کے متعدد پہلوؤں کا علم حاصل کیا جائے، واقعے کے اندر چھپے ہوئے مختلف اسباق (lessons)کو دریافت کیا جائے-
اسی دریافت (discovery) کے ذریعے ایک انسان تخلیقی انسان بنتا ہے،اسی دریافت کے ذریعے وہ ترقی پذیر شخصیت تیار ہوتی ہے، جس کا آغاز زمین سے ہوتا ہے، لیکن اپنے پھیلاؤ کے اعتبار سے وہ آسمان تک پہنچ جاتی ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَاۗءِ (
واپس اوپر جائیں
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان ہے- مگر یہ بات درست نہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے، وہ فقدانِ قیادت نہیں ہے، بلکہ فقدانِ قبولیتِ قیادت ہے- یعنی مسلمانوں کے اندر خود فطری قانون کے مطابق، قیادت موجود ہے، مگر قیادت کو ماننے کا مزاج ان کے اندر موجود نہیں-اس معاملے پر غور کیجئے تو اُس کی جڑ یہ معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بعض اسباب سے، نہایت جذباتی ہوگئے ہیں- ایسے لوگوں کے درمیان صرف اُس قیادت کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے جو ہائی پروفائل (high profile) میں بولے، لو پروفائل (low profile) میں بولنے والے شخص کو اُن کے درمیان مقبولیت حاصل نہیں ہوتی- اور تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ ہائی پروفائل میں بولنے والا شخص صرف اپنی قوم کی تباہی میں اضافہ کرتاہے-
امت کا یہ مزاج زوال کی بنا پر پیداہوا ہے- اس مزاج کی اصلاح صرف گہری منصوبہ بندی کے ذریعہ ممکن ہے- اس گہری منصوبہ بندی کا پہلا جز یہ ہے کہ امت کی اصلاح کا آغاز ہرگز اقدام سے نہ کیا جائے، بلکہ ذہنی تیاری سے کیا جائے- موجودہ زمانے میں اصلاح امت کے نام سے بہت سی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب ناکام ہوگئیں- اس کا سبب یہ ہے کہ ان تحریکوں نے اپنے کام کا آغاز اقدام سے کیا- اس قسم کا آغاز گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا (putting the cart before the horse)کا مصداق ہے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے امت کے افراد میں تعمیری شعور پیدا کیا جائے- یہ کام صرف خاموش جدوجہد کے ذریعہ ممکن ہے- شور وغل اور جلسہ جلوس کا طریقہ کبھی تعمیرشعور کے لئے مفید نہیں ہوسکتا-امت کی اصلاح کا کام جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی ضروری یہ بات بھی ہے کہ اس اصلاح کے لئے صحیح طریقہ اختیار کیاجائے۔ اصلاح کا غیر فطری طریقہ صرف وقت اور طاقت کے ضیاع کے ہم معنی ہے- ایسا کرنے سے اصلاح امت کے کام میں صرف تاخیر ہوگی، اس کے ذریعہ مطلوب اصلاح ہونے والی نہیں- یہ فطرت کا قانون ہے اور فطرت کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی-
واپس اوپر جائیں
شیخ سعدی شیرازی (وفات: 1291ء)ایک فارسی شاعر تھے- انھوں نے اپنی کتاب گلستان میں اپنا ایک واقعہ لکھا ہے- ایک بار وہ ایک سفر میں تھے- اس دوران ان کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی- انھوں نے اس سے بات کرنا چاہا تو بات نہ ہوسکی- کیونکہ وہ ترکی کارہنے والا تھا- وہ ترکی کے سوا کوئی اور زبان نہیں جانتا تھا- اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے انھوں نے اپنی کتاب میں یہ شعر لکھا ہے:
زبانِ یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم
The language of my friend is Turkish and I don’t know Turkish.
موجودہ زمانہ میں کچھ اسی قسم کا معاملہ انسان اور قرآن کے درمیان ہوا ہے- انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے متلاشیٔ حق (seeker of Truth) ہے- وہ اپنے خالق کو دریافت کرنا چاہتا ہے مگر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خالق کی محفوظ کتاب عربی زبان میں ہے مگر میں عربی زبان نہیں جانتا:
The language of the divine book is Arabic and I don’t know Arabic.
اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں قرآن کا ایسا ترجمہ کیا جائے جو بآسانی قابل فہم (easily understandable) ہو اور پھر اس کو تمام قوموں تک پہنچایا جائے-اس کام کی اہمیت کی بنا پر اس کو ترجیحی بنیاد (priority basis)پر کیا جاناچاہئے- موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کی یہ سب سے پہلی ذمہ داری ہے- کوئی بھی دوسرا کام اس کا بدل (alternative) نہیں بن سکتا-
ظالم کے خلاف جہاد، حکومت اسلامی کے ہنگامے، ملی کام (community work)، اسلامی قانون کا نفاذ جیسے کام جن میں موجودہ زمانہ کے مسلمان مشغول ہیں وہ سب کے سب اصل فریضہ کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) ہیں-
واپس اوپر جائیں
فلسطین میں لمبی مدت سے عرب - اسرائیل جنگ ہورہی ہے- اِس دوران جو واقعات میڈیا میں آئے ہیں، ان میں سے ایک واقعہ انگلش میڈیا میں ان الفاظ میں رپورٹ کیاگیاہے کہ ایک فلسطینی نوجوان عبد الرحمن نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے تو اپنے باپ کا انتقام لینا ہے:
Twelve year old Abdul Rahman Al-Batish hasn’t stopped crying since he lost his father in the bombing of an apartment (in Gaza). “They are killers, and one day I will avenge my father”. ITV’s Middle East Correspondent reports him as saying.
انتقامی وار ہمیشہ چین وار(chain war) ہوتی ہے- اس قسم کی جنگ کبھی دوطرفہ بنیاد پر ختم نہیں ہوسکتی- اُس کو ختم کرنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ اُس کو یک طرفہ بنیاد (unilateral basis) پر ختم کردیا جائے-
یہ اصول قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا (
قرآن کی اِس آیت میں قدیم عرب کے اُس قبائلی کلچر کا ذکر ہے جو انتقامی جنگ پر کھڑا ہوا تھا اور اُس کے نتیجہ میں ان کے درمیان چین وار(chain war) کی صورت حال قائم تھی- قرآن نے اِس سے نجات کا یہ فارمولابتایا کہ تم اللہ کے لئے یک طرفہ بنیاد پر اپنا تشدد ختم کردو- اِس کے بعد اپنے آپ فریقِ ثانی کا تشدد ختم ہوجائے گا، اور امن کی صورت حال قائم ہوجائے گی- ختمِ جنگ اور قیامِ امن کے لیے پہلے بھی یہی واحد قابلِ عمل فارمولا تھا، اور اب بھی اس مقصد کے لیے یہی واحد قابل عمل فارمولاہے-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی دور میںشوال سنہ 5ھ میں احزاب کا واقعہ پیش آیا- اس موقع پر قریش کے سردار بارہ ہزا رکا لشکر لے کر آئے تھے کہ مدینہ پر حملہ کریں- مگر وہاں ایسے حالات پیش آئے کہ جنگ نہ ہوسکی اور قریش کا لشکر جنگ کے بغیر واپس چلا گیا- اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے ایک تاریخی بات کہی ،وہ یہ کہ: الآن نغزوہم ولا یغزوننا، ونحن نسیر الیھم (صحیح البخاری: 4110) یعنی اب ہم ان سے غزوہ کریں گے، وہ ہم سے غزوہ نہیں کریں گے، اور ہم ان کی طرف جائیں گے-
اس حدیث میں غزوہ سے مراد جنگ نہیں ہے، بلکہ اقدام ہے جیساکہ نَسیرُ کے لفظ سے واضح ہوتا ہے- اِس کا مطلب یہ ہےکہ اب حالات میں ایسی تبدیلی آچکی ہے کہ اقدام فریق ثانی کی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ اب اقدام ہماری طرف سے ہوگا- جیساکہ تاریخی طورپر معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے بعد کوئی جنگ کا منصوبہ نہیں بنایا، بلکہ صرف پرامن دعوت کا منصوبہ بنایا- اِس لیے یہاں اقدام سے مراد دعوتی اقدام ہے، نہ کہ جنگی اقدام-
یہی اسلام کا ابدی اصول ہے- اسلام کا اقدامی عمل صرف دعوت ہے- اسلام کے تمام مقاصد صرف دعوت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں- اسلام میں اگر جنگ پیش آتی ہے تو وہ صرف ناگزیر دفاع کے موقع پر استثنائی طور پر پیش آتی ہے- اسلام میں اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے کہ اہلِ ایمان اپنی طرف سے کوئی جارحانہ جنگ شروع کردیں-
اسلام کا اصل نشانہ دعوت إلی اللہ ہے، اور دعوت إلی اللہ کا کام صرف پرامن طریقہ کار اور معتدل ماحول کے اندر انجام دیاجاسکتاہے- اسلام کا نشانہ افراد کے ذہن کو بدلنا ہے- اسلام کا یہ نشانہ نہیں ہے کہ لڑ کر حکومت پر قبضہ کیاجائے- اسلام کا نشانہ لوگوں کو جنت تک پہنچانا ہے، نہ کہ کچھ اور-
واپس اوپر جائیں
محمد قطب (برادر سید قطب) مصر کے مشہور ادیب تھے- 4 اپریل 2014 کو ان کی وفات ہوئی، جب کہ ان کی عمر
یہ کتاب علامتی طورپر بتاتی ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام دنیا کے مسلم اہل علم کا نقطہ نظر مغربی تہذیب کے بارے میں کیا ہے- بلا استثنا تمام مسلمان، عرب بھی اور نان عرب بھی مغربی تہذیب کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- وہ اس کو نہ صرف مادی تہذیب بلکہ مسلم دشمن تہذیب سمجھتے ہیں- مغربی تہذیب کے بارے میں یہ منفی تصور سرتا سر غلط فہمی پر مبنی ہے- یہ اسی طرح بے بنیاد ہے، جس طرح بہت سے سیکولر اہل علم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک تشدد پسند مذہب ہے- حالانکہ اصل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے-
اصل یہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک موافق اسلام تہذیب ہے- یہ اسی تائید ِ دین کا عملی ظہور ہے جس کی پیشین گوئی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی (ملاحظہ ہو، صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)
موجودہ زمانے میں ضرورت تھی کہ مسلم اہلِ علم ایسی کتاب لکھیں، جس کا ٹائٹل ہو: الاسلام فی القرن العشرین - لیکن برعکس طورپر وہ ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں جن کا ٹائٹل الجاہلیة فی القرن العشرین یا اس کے ہم معنی ہوتا ہے- دور جدید سے مسلم اہل علم کی یہی بے خبری موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے- آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کو دورِ جدید کے بارے میں حدیث کے الفاظ میں بصیر زمانہ (صحیح ابن حبان، رقم الحدیث:
واپس اوپر جائیں
انسان کو استثنائی طورپر یہ صفت دی گئی ہے کہ اس کو ہر چیز میں ایک لذت (taste) کا احساس ہوتا ہے- اس لذت کو ابتدائی درجے میں رکھا جائے تو فطرت کے عین مطابق ہوگا، اور اگر اس لذت کو لامحدود بنادیا جائے تو اس سے ہر قسم کی برائیاں وجود میں آئیں گی-
اِس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز جب آدمی کی زندگی میں داخل ہوتی ہے تو ابتداء ًا وہ صرف لذت (taste) کے درجے میں ہوتی ہے- دھیرے دھیرے وہ عادت (habit)کی صورت اختیار کرتی ہے- پھر مزید ترقی کرکے وہ اڈکشن (addiction) بن جاتی ہے- اس کے بعد جو اگلا مرحلہ آتا ہے، وہ ہے پوائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) - جب یہ آخری مرحلہ آجائے تو آدمی کی اصلاح عملاً ناممکن ہوجاتی ہے-
اسی حقیقت کو قرآن میں توبۂ قریب (
غلطی کرنے کے بعد آدمی کو چاہئے کہ وہ کل کا انتظار نہ کرے، بلکہ وہ آج ہی پہلی فرصت میں اس کی تلافی کرے- فطرت کے قانون کے مطابق یہی طریقہ صحیح طریقہ ہے-
آدمی کو کبھی بھی توبۂ بعید کا انتظار نہیں کرنا چاہئے، اس لئے کہ غلطی کے پیچھے ہمیشہ کوئی لذت شامل رہتی ہے، مادی لذت یا ذہنی لذت- اگر آدمی غلطی کے بعد فوراً اس کی اصلاح نہ کرے تو اس کے بعد اس کے اندر اِس لذت پسندی کی بناپر ایک نفسیاتی عمل شروع ہوجائے گا- لذت دھیرے دھیرے عادت بنےگی، اس کے بعد وہ اڈکشن (addiction)بن جائے گی، اور پھر وہ وقت آجائے گا، جب کہ آدمی کے لئے ابتدائی حالت کی طرف واپسی ناممکن ہوجائے-
واپس اوپر جائیں
تخلیقیت (creativity) ذہنی ارتقا کا ایک درجہ ہے- تخلیقیت کسی انسان کی اعلیٰ ترین صفت ہے- تخلیقیت کا مطلب ہے گہرے غوروفکر کے ذریعہ کوئی نئی بات دریافت کرنا:
To discover a new idea after deep thinking
تخلیقیت کے دو درجے ہیں- ایک خاص، اور دوسرا عام- تخلیقیت کا پہلا درجہ ہے خود سے کوئی نئی بات دریافت کرنا-تخلیقیت کا دوسرا درجہ ہے کوئی چیز سن کر یا پڑھ کر اس میں نیا پہلو دریافت کرنا- ان دونوں درجوں کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:
(1) Creativity of the first order
(2) Creativity of the second order
اس معاملہ کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ نے قرآن میں یہ آیت پڑھی: وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (
واپس اوپر جائیں
دینِ اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے— قرآن، سنت، اجتہاد- ان تینوں مآخذ کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— نظریہ، تطبیق، تطبیقِ نو:
Ideology, application, reapplication
قرآن میں دین کے فکری یا نظریاتی پہلو کو بیان کیاگیا ہے- سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس اسلامی فکر کو کس طرح اپنی عملی زندگی میں اختیار کیا- اجتہاد اُس سنجیدہ کوشش کا نام ہے جب کہ ایک صاحبِ ایمان اِس دین کو نئے حالات کی نسبت سے دوبارہ دریافت کرے، اور اُس کا حقیقی پیرو بن جائے-
اجتہاد، اسلام کی ایک مستقل ضرورت ہے- اسلام کی تعلیمات اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں، لیکن انسان کے حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں- حالات کے بدلنے سے حکم نہیں بدلتا بلکہ حکم کی تطبیق کے طریقے بدل جاتے ہیں- یہ زندگی کی ایک ایسی ضرورت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اِس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابہ نے اجتہاد کیا، اور بعد کے زمانے میں بھی یہ اجتہاد جاری رہے گا-
موجودہ زمانے میں ایک قابل اجتہاد بات یہ ہے کہ قدیم اور جدید کے فرق کو سمجھا جائے اور اس فرق کے اعتبار سے دینی حکم کی تطبیق تلاش کی جائے- مثلاً قرآن کی اشاعت ایک ابدی حکم ہے، اور قرآن ہی دعوت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ ہے- پرنٹنگ پریس سے پہلے قرآن کی اشاعت کا کام اِس طرح کیا جاتا تھا کہ صحابہ قرآن کے مقری (پڑھ کر سنانے والا) بنے ہوئے تھے- اب پرنٹنگ پریس کے زمانے میں اہلِ ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ قرآن کے ڈسٹری بیوٹر بن جائیں، یعنی مطبوعہ نسخوں کو پھیلانے والے- اِس مثال سے اجتہاد کی دوسری صورتوں کو سمجھا جاسکتا ہے-اجتہاد یا تطبیق نو کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں- اجتہاد کے لئے بیک وقت دو صلاحیتیں درکار ہیں، اصل دین اور حالاتِ زمانہ، دونوں سے گہری واقفیت-
واپس اوپر جائیں
قال مالک: کان وہب بن کَیسان یقعد إلینا- ثم لا یقوم أبدا حتى یقول لنا إنہ لا یُصلح آخر ہذہ الأمة إلا ما أصلح اوَّلَہَا، قلت لہ یرید ماذا؟ قال یرید التُّقَى (مسند المؤطا للجوہری:
تقوی کا لفظ اسپرٹ (spirit) کو بتاتا ہے- اس روایت میں اگر چہ بظاہر اصلاح امت کا حوالہ ہے، لیکن اس سے مراد مصلح (پیغمبر) کے طریقہ کو بتانا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ مصلح اول کے جس طریقہ سے امت اصلاح یافتہ ہوئی تھی، بعد کے مصلحین کو بھی یہی کرنا ہے کہ اسی طریقہ کے مطابق امت کو اصلاح یافتہ بنائیں- مصلح اول کا یہ طریقہ آپ کی تاریخ سے معلوم ہوتاہے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے مصلح اول تھے- آپ کو مکہ میں حکومت کا عہدہ پیش کیا گیا تو آپ نے کہا میرا مقصد تمھارے اوپر حکومت کرنا نہیں ہے- اس سے معلوم ہوا کہ دعوت واصلاح کا کام غیر سیاسی (non-political)انداز میں ہونا چاہئے- قدیم مکہ میں کعبہ کے اندر 360 بت رکھے ہوئے تھے- مگر آپ نے اپنی تحریک کا آغاز تطہیر کعبہ سے نہیں کیا، بلکہ تطہیر ذہن سے کیا- مکہ میں جب مخالفت زیادہ بڑھی تو آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے- اس سے معلوم ہوا کہ حقوق کے نام پر لڑائی لڑنے کے بجائے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ نئے مواقع کار دریافت کریں- مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے کبھی مکہ والوں کی شکایت نہیں کی، بلکہ مثبت طورپر دعوت کا کام کرتے رہے- اس سے معلوم ہوا کہ ظلم کے خلاف چیخ وپکار رسول اللہ کا طریقہ نہیں، وغیرہ- یہی طریقہ آج بھی دعوت واصلاح کا صحیح طریقہ ہے-
واپس اوپر جائیں
قالت قریشٌ للنبیِّ صلَّى اللہُ علیہِ وسلَّمَ : ادعُ لنا ربَّکَ أنْ یجعلَ لنا الصَّفا ذَہَبًا ونؤمنُ بکَ، قال : وتفعلون، قالوا : نعم، قال : فدعا فأتاہُ جبریلُ فقال : إنَّ ربَّک یَقرأُ علیک السلامَ ویقولُ : إن شئتَ أصبح لہم الصَّفا ذہبًا فمن کفر بعدَ ذلک منہم عذَّبْتہُ عذًابا لا أعذِّبہُ أحدًا من العالمین وإن شئتَ فتحتُ لہم بابَ التوبةِ والرحمةِ ،قال : بل بابُ التوبةِ والرحمةِ(مسند احمد: 2166)-قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنے رب سے دعا کیجئے وہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا دے، پھر ہم آپ پر ایمان لائیں گے، آپ نے کہا: کیا تم ایساکرو گے، انھوں نے کہا کہ ہاں- پھر رسول اللہ نے دعا کی تو جبریل آپ کے پاس آئے اور کہاکہ آپ کے رب نے آپ کوسلام بھیجا ہے، اور یہ کہا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو وہ صفا پہاڑ کو سونے کا پہاڑ بنا دے گا، مگر اس کے بعد ان میں سے جو انکار کرے گا- اس کو میں ایسا عذاب دوں گا جو دنیا والوں میں کسی کو نہ دیاہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میںان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں گا- آپ نے فرمایا کہ ہاں توبہ اور رحمت کا دروازہ-
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں پر فراوانی کے دروازے کھول دئے جائیں تو اس کے نتیجہ میں ان کے اندر غفلت اور سرکشی پیداہوگی، وہ ایمان سے دور ہو کر مزید سزا کے مستحق بن جائیں گے- ایمان کے لئے اصل اہمیت یہ ہے کہ آدمی کے اندر عجز کی نفسیات پیداہو- عجز کی نفسیات آدمی کو ایمان کی طرف لے جاتی ہے- اس کے برعکس، فراوانی (affluence)میں آدمی کے اندر غفلت اورسرکشی پیدا ہوتی ہے، جواس کو خدا سے مزید دور کردیتی ہے-حدیث کا مطلب یہ ہے اہلِ مکہ کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مشکل حالات کا سامنا کریں، اس سے ان کے اندر اللہ کی طرف رجوع کی کیفیت پیدا ہوگی، ان کے اندر تلاش حق کی اسپرٹ بیدار ہوگی- وہ اپنے عجز کو دریافت کریں گے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سچائی کو قبول کرلیں گے- یہ صرف قریش کی بات نہیں بلکہ وہ تمام انسانوں کی بات ہے- ہدایت کا یہی اصول قریش کے لئے بھی تھا اور دوسرے تمام انسانوں کے لئے بھی-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں فتح (victory) کا لفظ اس معنی میں دو سورتوں میں آیا ہے، سورہ النصر اور سورہ الفتح- سورہ النصر میں فتح کا لفظ سیاسی فتح کے معنی میں ہے، یعنی مکہ کی فتح-لیکن سورہ الفتح میں یہ لفظ سیاسی فتح کے معنی میں نہیں ہے- کیونکہ یہ سورہ معاہدۂ حدیبیہ کے وقت اتری تھی، اور معاہدہ حدیبیہ میں رسول اور اصحابِ رسول کو کوئی سیاسی فتح حاصل نہیں ہوئی تھی- حدیبیہ کا سفر رسول اور اصحابِ رسول نے اس لئے کیا تھا کہ مکہ جاکر عمرہ ادا کریں، لیکن اس وقت مکہ پر قریش کا غلبہ تھا- انھوں نے آپ کو اجازت نہ دی اور آپ کو اور آپ کے اصحاب کو عمرہ کی ادائیگی کے بغیر درمیان سے مدینہ کی طرف واپس ہونا پڑا تھا-
سورہ النصر میں صرف فتح کا لفظ آیا ہے، جب کہ سورہ الفتح میں فتح مبین (open victory) کا لفظ استعمال ہوا ہے- گویا سورہ الفتح میں جس فتح کا ذکر ہے، وہ اللہ کی نظر میں رسول اور اصحاب کے لئے زیادہ بڑی فتح تھی- یہ زیادہ بڑی فتح کیا تھی، یقیناً وہ کوئی ایسی چیز تھی، جو سیاسی فتح (political victory) کے علاوہ تھی-غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح مبین مواقع دعوت کے فتح کے معنی میں تھی- فتح مکہ اگر سیاسی فتح تھی تو معاہدۂ حدیبیہ کے ذریعہ جو فتح حاصل ہوئی اس کو پر امن فتح (peaceful victory) کہاجاسکتاہے- معاہدہ حدیبیہ کے ذریعہ دونوں فریق اس کے پابند ہوگئے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی لڑائی نہیں کریں گے- معاہدہ حدیبیہ دراصل امن کا معاہدہ تھا:
Makkah was victory in terms of territory, Hudaybiyah was victory in terms of opportunity.
رسول اور اصحاب رسول کو یہ موقع مل گیا کہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر کھلے طورپر دعوت الی اللہ کا کام کرسکیں- دوسری فتوحات میں اگر سیاسی فتوحات حاصل ہوتی ہیں تو معاہدہ حدیبیہ نے یہ امکان کھول دیا کہ دعوت کے ذریعہ انسانوں کو فتح کیا جاسکے- گویا اللہ کی نظر میں ملک کی فتح سے زیادہ بڑی چیز انسان پرفتح حاصل کرنا ہے-
واپس اوپر جائیں
ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے- میں نے ایک صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے کوئی بات پوچھی- اس کے بعد مجلس کا ہر آدمی کچھ نہ کچھ بولنے لگا- میںنے اس پر سخت گرفت کی- میں نے کہا کہ یہ طریقہ آداب مجلس کے بالکل خلاف ہے- جب کوئی بات ایک متعین شخص سے پوچھی جائے تو اسی شخص کو اس کا جواب دینا چاہئے- بقیہ لوگوں کو خاموشی کے ساتھ صرف سننا چاہئے-
ایک صاحب نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی- میں نے کہا کہ یہ سادہ طور پر صرف غلطی کی بات نہیں، یہ اس بات کی علامت ہےکہ آپ لوگ مجلسی آداب کے بارے میں باشعور نہیں ہیں- اصل یہ ہے کہ آپ لوگ سنجیدگی کے ساتھ یہ عہد کریں کہ اب آپ لوگ اس انداز پر اپنی تربیت کریں گے کہ آپ ہر موقع پر آداب کلام کو سمجھیں اور اس کے مطابق ایسا کریں کہ بولنے کے موقع پر بولیں اور چپ رہنے کے موقع پر خاموش رہیں-
قرآن کی سورہ الحجرات میں یہ آیت آئی ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (
بظاہر اس آیت میں رسول اور اصحاب رسول کا ذکر ہے- لیکن قرآن کی کوئی آیت وقتی نہیں ہے، بلکہ ہر آیت میں تمام اہلِ ایمان کو ابدی تعلیم دی گئی ہے- اس اعتبار سے غور کیجئے تو قرآن کی اِس آیت میں عمومی حکم کو بتایا گیا ہے، اور وہ مجلس کے آداب کا حکم ہے- اس میں بتایا گیاہے کہ جب بھی کسی مجلس میں کئی آدمی بیٹھے ہوئے ہوں تو وہاں ہر ایک کوڈ سپلن کے ساتھ بولنا چاہئے-
واپس اوپر جائیں
انسان کا معاملہ کیا ہے، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہترین خواہشات کے ساتھ پیداہوتا ہے، لیکن اِس دنیا میں وہ اپنی خواہشوں کو پورا نہیں کرپاتا- انسان کا کیس ایک لفظ میں یہ ہے— معیاری خواہشیں اور غیر معیاری تسکین:
Perfect desires, imperfect fulfillment.
خواہشیں (desires) اکتسابی نہیں ہیں، بلکہ وہ فطری ہیں- آدمی اِن خواہشوں کو پیدائشی طورپر لے کر اِس دنیا میں آتاہے- ہر خواہش کے پیچھے ایک احساس ہوتا ہے- یہ احساس استثنائی طورپر صرف انسان کے اندر پایا جاتا ہے- محظوظ ہونے کا احساس (sense of enjoyment) ہر انسان کو پیدائشی طورپر ملتاہے-
انسان کی شخصیت میں یہ ایک تضاد کا معاملہ ہے- یعنی انسان کے اندر خواہشیں لامحدود ہیں، لیکن دنیا میں ان خواہشوں کی تکمیل کا انتظام نہایت محدود ہے- انسانی شخصیت کے اس تضاد کو سمجھنا انسان کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کرے- وہ وہی چاہے جو فطرت کے قانون کے مطابق اسے اس دنیا میں ملنے والا ہے- وہ اس چیز کے پیچھے نہ بھاگے جو فطرت کے قانون کے مطابق اس کو اس دنیا میں ملنے والا ہی نہیں- انسان کے بارے میں اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر شخص کے لئے نہایت ضروری ہے- جو آدمی اس حقیقت کو دریافت کئے بغیر زندگی کے میدان میں داخل ہوجائے، وہ صرف اپنے وقت اور اپنی توانائی کو ضائع کرے گا- وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کئے بغیر اس دنیا سے چلا جائے گا-
یہی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے- یہ زندگی کی جدوجہد کا آغاز ہے- اس سوال کا صحیح جواب وہی شخص پاسکتاہے، جو متعصبانہ فکر (biased thinking) سے آزاد ہو کر اس پر غور کرے- وہ اپنی خواہش کو الگ رکھتے ہوئے، اس کو جاننے کی کوشش کرے- اس معاملے میں غلطی کرنا، پوری زندگی کو غلط کردینے کے ہم معنی ہے-
واپس اوپر جائیں
مولانا ابو الکلام آزاد (وفات: 1958) نے اپنے بارے میں لکھا تھا کہ:
’’زمانے نے میری صلاحیتوں کی قدر نہ کی.....‘‘
مولانا آزاد کے اِس جملے کا مطلب یہ تھا کہ پیدائشی فطرت کے اعتبار سے، وہ اعلی صلاحیت کے مالک تھے، لیکن دوسرے لوگوں نے اُن کو نہیں پہچانا، اِس لیے ان کی صلاحیت پوری طرح استعمال نہ ہوسکی-مولانا ابو الکلام آزاد کا یہ احساس صرف ایک آدمی کا احساس نہیںہے-تاریخ میں بہت سے ایسے انسان ہیں جو اپنے احساس کے اعتبار سے غیر استعمال شدہ شخصیت کی حیثیت سے جیے اور اسی احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گیے- ایسے افراد کو بظاہر دوسرے لوگوں سے شکایت تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد اپنے اِس احساس کے لیے تمام تر خود ذمے دار تھے، نہ کہ کوئی دوسرا شخص-
خالق نے موجودہ دنیا کو جس قانون کے تحت بنایا ہے، اس کے مطابق، کسی انسان کے لیے یہاں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے- ایک یہ کہ وہ کسی دوسرے کے بنائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرینڈر کرے، یا وہ اپنے لیے ایک خود تعمیر کردہ دنیا (self-created world) کو تخلیق کرے اور اس کے اندر اپنی مرضی کے مطابق رہے- اِن دو کے سواکوئی اور انتخاب کسی شخص کے لیے ممکن نہیں-
موجودہ دنیا مسابقت (competition) کے اصول پر مبنی ہے- اس دنیا میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کی قدر وقیمت کو پہچانے، اور وہ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرے، جو بطور خود آپ اُس سے چاہتے ہیں- ایسا کبھی کسی انسان کے لئے نہیں ہوا- صلاحیتوں کو دینے والا اللہ رب العالمین ہے اور صلاحیتوں کا استعمال وہی شخص کرتا ہے جس کو صلاحیت دی گئی ہے- دوسرے آدمی سے زیادہ سے زیادہ جو امید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ آپ کے کیے ہوئے کام کا اعتراف کرے-اِس دنیا میں کوئی بھی شخص آپ کے حصے کا کام نہیں کرسکتا- موجودہ دنیا کے لئے یہ مقولہ بالکل درست ہے— کرو یا مرو: Do or die
واپس اوپر جائیں
اجتماعی زندگی (social life) میں باعزت زندگی حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط ہے- اس شرط کا تعلق 50 فیصد آپ سے ہے اور 50 فیصد دوسروں سے- وہ یہ کہ آپ دوسروں کے لئے یا تو مفید انسان (giver person)بنیں یا آپ دوسروںکے لئے بے مسئلہ انسان (no problem person) بن جائیں- پہلی صورت زیادہ سے زیادہ شرط کی ہے، اور دوسری صورت کم سے کم شرط کی- ان دو کے سوا کوئی تیسری صورت سماج میں با عزت بننے کی نہیں- جو لوگ تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہوں ان کو کسی سماج میں اگر جگہ ملے گی تو صرف سماج کے کوڑا خانے میں- سماج کے مطلوب شخص کا درجہ ان کو کبھی ملنے والا نہیں-
اجتماعی زندگی ہمیشہ دو اور لو (give and take) کے اصول پر قائم ہوتی ہے- اس اصول کے مذکورہ دو پہلو ہیں- اگر آپ سماج کو مثبت معنوں میں کچھ دے رہے ہیں تو آپ سماج کے اندر مطلوب انسان کا درجہ پائیں گے، اور اگر آپ اپنی طرف سے سماج کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو آپ کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ آپ د وسروں کے لئے ایک بے مسئلہ انسان بن جائیں- اگر آپ سماج کے ایک دینے والے ممبر ہیں تو آپ سماج کی ترقی میں اضافہ کررہے ہیں، اور اگر آپ سماج کے بے مسئلہ انسان ہیں، تب بھی آپ کا ایک سماجی رول ہے، وہ یہ کہ آپ سماج کی ترقی میں کوئی خلل نہیں ڈال رہے ہیں- پہلا انسان اگر سماج کی ترقی میں براہِ راست معاون ہے تو دوسرا انسانی سماج کی ترقی میں بالواسطہ معاون کی حیثیت رکھتا ہے-
جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ مذکورہ دونوں شرطوں میں سے ایک شرط بھی پورا نہ کریں، وہ سماج کے لئے صرف ایک بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں- ایسے لوگ اگرچہ روایتی قانون کی نظر میں مجرم (criminal) نہیں ہیں لیکن وہ آداب حیات کے پہلو سے یقیناً ایک غیر قانونی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں- دنیا کی قانونی عدالت میں اگرچہ ان کے خلاف کسی سزا کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا لیکن فطرت کی عدالت میں وہ بلاشبہہ ایک اخلاقی مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک دانشور کا قول ہے — جس دن آپ بھر پور زندگی جئے، وہی آپ کا دن تھا، باقی صرف کلینڈر کی تاریخ تھی- اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ دن گزارنا، اور دوسرا طریقہ ہے دن کو استعمال (avail) کرنا- جس نے دن گزارنے کے لئے زندگی گزاری، اس نے اپنی عمر کو ضائع کیا، اور جو شخص دن کو بھر پور طورپر استعمال کرے، اسی کی زندگی، زندگی ہے، وہی وہ شخص ہے جس نے زندگی کو سمجھا، اور اس کا فائدہ اٹھایا-
ہر بار جب ایک نیا دن آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کچھ مواقع (opportunities) کو لے کر آتا ہے- یہ مواقع بلند آواز سے نہیں بولتے، مواقع کی زبان ہمیشہ خاموشی کی زبان ہوتی ہے- یہ انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ مواقع کو پہچانے، اور حالات کے مطابق منصوبہ بنا کر ان سے فائدہ اٹھائے-
مواقع پہچاننے کی کئی شرطیں ہیں- مثلاً یہ کہ کون سا موقع میرے لئےہے، اور کون سا موقع میرے لئے نہیں ہے، کسی موقع کو پرامن طورپر حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، مواقع کو استعمال کرنے کے لئے حقیقت پسندی کی اہمیت کیا ہے، اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے مجھے کس طرح اپنی حد کے اندر رہنا ہے، مجھے دوسرے کی حد کے اندر داخل نہیں ہونا ہے، وغیرہ-
اپنی زندگی جینے کے لئے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ دنیا میں صرف آپ نہیں ہیں،یہاں دوسرے لوگ بھی ہیں، جن کو اپنی زندگی گزارنا ہے- ایک شخص اگر اپنی زندگی میں کامیاب ہوناچاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ٹکراؤ نہ کرے، وہ دوسروں سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر شروع کرے- جس طرح آپ کا کچھ انٹرسٹ ہے، اسی طرح دوسروں کا بھی کچھ انٹرسٹ ہے- کامیاب وہ ہے جو دوسروں کے انٹرسٹ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنا مقصد حیات حاصل کرے-
واپس اوپر جائیں
1- 14نومبر2014کو سہارن پور کے پنجابی ہوٹل میں شری رام اوتار ٹرسٹ کی جانب سے بھگوت گیتاپر ایک بڑا سیمینار ہوا۔ اس سیمینار میں سی پی ایس، سہارن پورکی ایک ٹیم نے قرآن کا ترجمہ اور صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔
2- انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن (IIMC)، نئی دہلی کے تین طلبہ کی ایک ٹیم نے 20 نومبر 2014کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ موضوع تھا، اسلام اور دہشت گردی۔ یہ لوگ ایک ڈاکیومنٹری بنارہے ہیں۔ان میں سے ایک مسٹر آنند نے کہا کہ وہ آنے سے پہلے بہت ہی زیادہ ٹینشن میں تھے، مگر صدر اسلامی مرکز سے گفتگو کے بعد بالکل پازیٹیو ہو گئے۔
3- مصری سفارت خانہ، دہلی کے کلچرل کاؤنسلر ڈاکٹر اے، ایم عبد الرحمٰن نے
5- سی پی ایس بہار کے مسٹر ابو الحکم دانیال نے ٹیم کے چار ممبروں کے ساتھ وارانسی کا سفر کیا۔ یہ سفر بنارس لائنس کلب اور ویمنزکالج، بنارس کی دعوت پر ہوا۔ مسٹر دانیال نے دونوں مقام پرحاضرین کے درمیان اسلام اور پیس کے موضوع پر کئی لکچرز دئیے۔اس کے علاوہ سوال و جواب اور انٹرایکشن کا سیشن بھی ہوا۔ نیزان لوگوں کے درمیان ترجمہ قرآن، اور دیگر اسلامی کتابیں تقسیم کی گئیں۔ تمام لوگوں نے پیس فل اسلام کو بہت زیادہ پسند کیا۔ یہ سفر
6- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی کتاب خاندانی زندگی (Family Life)کا تامل زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ مسٹر یوسف راجا نے یہ ترجمہ کیا ہے، اور گڈورڈ بکس ، چنئی سے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔
7- سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم
میں آپ کے ذریعہ سے آپ لوگوں کی آرگنائزیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کہ انھوں نے ہم لوگوں تک قرآن کا یہ ترجمہ پہنچایا۔ میں بہت دنوں سے قرآن کے ترجمے کی تلاش میں تھا، مگر اب تک مجھےیہ نہیں مل پایا تھا۔آج اس قرآن کو پاکر بہت خوشی ہوئی کہ اب قرآن کو پڑھنے کا موقع ملے گا۔ اجئے چترویدی (محمد انیس، جئے پور )
I was much tensed for the past three days due to a parking issue at my residence. I did not know what to do. I had the option of either forgoing my current parking lot and taking a less desirable one or sticking to the status quo and creating constant friction and unpleasantness. A meeting was held with other owners of the building and the builder who had sold the flats to us. When I realized that nobody wanted the less desirable parking lot, I volunteered to take it. Everybody was happy, but the builder got so impressed by this gesture that he committed to handing over the original papers of the whole building to me. Thanks to Maulana’s teachings. When I was faced with the situation, I thought what would have Maulana advised me to do and then I took the above step. Also, I remembered that Maulana often refers to a Hadith in his lectures that God grants to peace what He does not grant to violence. He also often quotes the Hadith that a believer would never enter Paradise if his neighbour experiences trouble because of him. I took this decision after praying salah haja and keeping Maulana’s teachings in mind. Thank you Maulana. (Dr. Taha Mohsin, Delhi)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.