رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اسوہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: وما انتقم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لنفسہ إلا أن تنتہک حرمة اللہ، فینتقم للہ بہا- (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3560) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا - البتہ اگر خدائی حرمت کو پامال کیا جاتا تو آپ اللہ کے لیے اس کا انتقام لیتے تھے-
اِس روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے ذات اور مشن میں فرق کرنا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ایسی بات کہتا جس کاتعلق آپ کی ذات سے ہو تو آپ اس کو نظر انداز فرماتے تھے، لیکن اگر کوئی ایسی بات کہی جائے جس کا تعلق آپ کے پیغمبرانہ مشن سے ہو تو آپ شدت کے ساتھ اُس کا نوٹس لیتے تھے، اور یہ کوشش فرماتے تھےکہ اس کی وجہ سے آپ کے مشن پر کوئی برا اثر نہ پڑے-
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مخالفین ایک ایسی بات کہتے ہیں جو بظاہر داعی کے بارے میں ہوتی ہے، لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے اس کی زد داعی کے مشن پر پڑتی ہے- ایسے موقع پر داعی خاموش نہیں رہتا، بلکہ پرامن انداز میں وہ اس کا دفعیہ کرتاہے، تاکہ مشن کو نقصان سے بچایا جاسکے-
مشن ایک اجتماعی ظاہرہ ہے، اور ذات کا معاملہ ایک انفرادی معاملہ - افراد کے مجموعے سے مشن وجود میں آتاہے، لیکن حکمت کا تقاضا ہے کہ مشن سے وابستہ حضرات، اِس فرق کو سمجھیں- وہ اپنی ذات کو مشن کے تحت سمجھیں، نہ کہ مشن کو اپنی ذات کے تحت- جس مشن کے افراد اِس فرق کو ملحوظ نہ رکھیں، وہ مشن کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہیں گے- اِس کے نتیجہ میں وہ اپنی ذات کا بھی نقصان کریںگے، اور مشن کا نقصان بھی-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المائدة میں قتلِ انسان کا حکم بتایا گیاہے- آیت کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ۭوَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (
خدا کی شریعت میں سب سے زیادہ سنگین جرم (serious crime) یہ ہے کہ کسی حقیقی سبب کے بغیر ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کردے- ایسے ایک انسانی قتل کو قرآن میں سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ ایسا ایک واقعہ قتلِ انسانی کی حرمت کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کو ختم کردیتا ہے- خدائی شریعت کے مطابق یہ مطلوب ہے کہ انسانی قتل کی حرمت کے بارے میں لوگ آخری حد تک حساس ہوں- مگر جب کسی مسلّمہ سبب (accepted reason) کے بغیر کسی کو قتل کردیا جائے تو لوگوں کے اندر احساس حرمت کا خاتمہ ہوجاتا ہے-
انسان کو پیدا کرنے والا، انسان نہیں ہے، بلکہ یہ خدا ہے جس نے انسان کو پیداکیا ہے- ایسی حالت میں کسی انسان کو ہر گز یہ حق نہیں ہے کہ وہ خدا کے پیدا کئے ہوئے انسان کو قتل کردے- اس قسم کا قتل صرف اس وقت جائز ہوسکتا ہے جب کہ خود خدا کی شریعت کے مطابق اس کا جواز ثابت ہوتا ہو- کوئی دوسرا عذر اس قسم کے فعل کو جائز ثابت نہیں کرتا- قاتل کا کوئی خود ساختہ عذر ہرگز ایسے فعل کے لئے کافی نہیں-
یہ فطرت کا عام اصول ہے- انسان نے پانی کو پیدا نہیں کیا، اس بنا پر انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع کرے- انسان نے غذا کو پیدا نہیں کیا، اس بنا پر انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ چاول کا ایک دانہ بھی ضائع کرے- یہی اصول شدید تر انداز میں انسان کے لئے ہے- کسی انسان نے انسان کو پیدا نہیں کیا، اس لئے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایک انسان کو اس کی زندگی سے محروم کردے-
قتلِ انسان کا معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے-انسان کا قتل دراصل خالق کے منصوبہ کا قتل ہے- انسان تخلیق کا سب سے زیادہ نادر نمونہ ہے- خالق نے اس نادر نمونے کو یقینا کسی عظیم مقصد کے تحت بنایا ہے- ہر انسان جو پیداہوتاہے، وہ ایک عظیم مقصد کے لئے پیداہوتا ہے- ایسی حالت میں کسی انسان کو قتل کرنا- سادہ طورپر ایک انسان کو قتل کرنے کے ہم معنی نہیں ہے، بلکہ وہ خود خالق کے تخلیقی منصوبے کو قتل کرنے کے ہم معنی ہے-
جب ایک انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ اس لئے پیداہوتا ہے کہ وہ اِس دنیا میں زندگی گزارے- وہ یہاں خالق کے منصوبہ کی تکمیل کرے- وہ اپنے بارے میں خالق کی امیدوں کو پورا کرے- ایک انسان کا پیدا ہونا اتنا ہی اہم ہے جتنا ایک درخت کا اگنا- ایک درخت جب اگتا ہے تو وہ اس لئے اگتا ہے کہ وہ باغِ عالم میں نمو (grow) کرے۔ وہ بڑھ کر پورا درخت بنے، اور دنیا والوں کو پھول اور پھل کا تحفہ دے- ایسے درخت کو کاٹنا اگر ایک درجہ کا جرم ہے تو انسان کو قتل کرنا ہزار بلین سے بھی زیادہ بڑے درجے کا جرم ہے-
انسان کو زندگی دینا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ با حیات رہ کر اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرے، وہ اپنے مقصد تخلیق کو دریافت کرے، پھر اس کے مطابق وہ اپنے لئے ایک عملی منصوبہ بنائے، پھر حقیقت پسندانہ انداز میں اس کو مکمل کرنے کی کوشش کرے، وہ اپنے سماج کا ایک مفید عنصر بنے، وہ تاریخ انسانی کے اس باب کو لکھے، جو اس کے خالق نے اس کے لئے مقدر کیا ہے-
واپس اوپر جائیں
اسلام کے ابتدائی دور میں سن آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا-اس کے بعد عرب کے قبائل افواج (النصر: 1) کی صورت میں اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے- افواج سے مراد عمومی قبول اسلام (mass conversion) ہے۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاریخی بات ان الفاظ میں فرمائی تھی: عن جابر قال سمعت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول: إن الناس دخلوا فی دین اللہ افواجا وسیخرجون منہ افواجا (مسند احمد: 14696) جابر بن عبد اللہ کہتےہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے، اور عن قریب وہ فوج در فوج اس سے نکل جائیں گے-
جابر بن عبد اللہ مشہور صحابی ہیں- ان کی وفات
مذکورہ حدیث کے راوی جابر بن عبد اللہ ہیں- جابر بن عبد اللہ کے ایک پڑوسی کہتے ہیں کہ میں ایک سفر سے واپس آیا، اس وقت جابر بن عبد اللہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے- انھوں نے امت کے افتراق اور باہمی جنگ کا ذکر کیا- اس پر جابر بن عبد اللہ روپڑے، انھوں نے روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ حدیث بیان کی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے اندر افتراق اور بگاڑ کے واقعات کیوں پیش آئے- اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ لوگوں کی نیتوںمیں فساد آگیا تھا، یا ان کے اندر اخلاص ختم ہوگیا تھا- اس صورت حال کا واحد سبب وہ ظاہرہ ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتاہے-
کنڈیشننگ وہی چیز ہے، جس کو عرب کے ایک قدیم مقولہ میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا: من شبّ على شیٔ شاب علیہ (منار القاری شرح مختصر صحیح البخاری: صفحہ 60) یعنی آدمی جس چیز پر جوان ہوتا ہے، اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جوانی کی عمر میں جس ماحول میں آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی ہے، اس کا اثر اس کی زندگی میںآخری وقت تک باقی رہتا ہے-
یہ حقیقت ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: کل مولود یولد على الفطرة فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ (صحیح البخاری: 1385) یعنی ہر پیدا ہونے والا فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنادیتے ہیں-
مسلم نسلوں میں بعد کے زمانے میں جوبگاڑ پیداہوا، ان سب کا اصل سبب یہی کنڈیشننگ کا معاملہ تھا- عمومی قبولیت اسلام (mass conversion) کی بنا پر لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے- دور پریس سے پہلے تعلیم وتربیت کا نظام موجود نہ تھا- چنانچہ ایسا ہوا کہ لوگ کلمہ پڑھ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے، لیکن تربیتی نظام نہ ہونے کی بنا پر ان کی ڈی کنڈیشننگ (deconditioning) نہ ہوسکی- وہ مذہب کے اعتبار سے مسلم تھے، لیکن کلچر کے اعتبار سے وہ قدیم کلچرل روایات میں بدستور جیتے رہے- کثرت سے احادیث میں یہ پیشگی خبر دی گئی تھی کہ جلد ہی لوگوں کے اندر بگاڑ پیدا ہوجائے گا- اس بگاڑ کا سبب عام طورپر فتنہ کو سمجھا جاتا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس کا سبب کنڈیشننگ کا معاملہ تھا، یعنی اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کے زیر اثر کام کرنا-
مثال کے طور پر ایک حدیث رسول مختلف کتب حدیث میں آئی ہے- یہ حدیث رسول تنبیہ (warning)کی زبان میں ہے- اُس کے الفاظ یہ ہیں: أفلا ترجعوا بعدی ضلالاً، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری: 4406) یعنی آگاہ، میرے بعد تم لوگ لوٹ کر گمراہ نہ ہوجانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو-
اِس حدیث رسول میں ترجعوا کا لفظ ہے، یعنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جانا- یہ سابقہ حالت وہی تھی، جس سے نکل کر وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے، یعنی قبائلی کلچر (tribal culture) اسلام سے پہلے یہ لوگ قبائل کلچر میں جیتے تھے- قبائلی کلچر میں ہر آدمی کے پاس تلوارہوتی تھی- قبائلی کلچر میں پرامن تبادلۂ خیال (peaceful discussion) کا طریقہ رائج نہ تھا- وہ لوگ اختلاف کا حل صرف یہ سمجھتے تھے کہ لڑ کر اس کو طے کیا جائے-
مزید یہ کہ لڑائی سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا تھا- کیوں کہ ہارنے والے فریق کےاندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا تھا- اس طرح عملاً قبائلی دور مسلسل جنگ (chain war) کا دور بن گیا تھا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ تم لوگوں کے اندر فطری طورپر اختلاف پیداہوں گے، مگر اس کو پرامن گفتگو کے ذریعہ حل کرنا، ایسا ہرگز نہ کرنا کہ قبائلی کنڈیشننگ (tribal conditioning) کی بنا پر اختلاف کو عذر بنا کر دوبارہ تم آپس میں لڑنا شروع کردو-
تاریخ بتاتی ہےکہ اہلِ ایمان کی کنڈیشننگ باقی رہی، کیوں کہ اس زمانہ میں اس کی ڈی کنڈیشننگ کا کوئی نظام موجود نہ تھا- چنانچہ نہ صرف باہمی جنگ بلکہ ہر اعتبار سے قدیم روایات مسلمانوں کے اندر واپس آگئیں-
قدیم روایات کی یہ واپسی ان مسلمانوں کے ذریعہ ہوئی، جن کا حال یہ تھا کہ اقرار کلمہ کے اعتبار سے وہ مسلمان ہو کر مسلم سماج میں داخل ہوچکے تھے، لیکن کنڈیشننگ کی بنا پر ان کا مائنڈسیٹ یا قرآن کے الفاظ میں شاکلہ (
ماضی کی طرف رجوع (return to past) کا یہ معاملہ مختلف اعتبار سے پیش آیا- مثلاً اسی بنا پر ایسا ہوا کہ خلفاء اربعہ کے بعد مسلمانوں میں خاندانی سلطنت (dynasty) کا دور آگیا، جو پھر کبھی ختم نہ ہوا- اسی طرح اسلامی عبادت مکمل طورپر مبنی بر فارم(form based) بن گئی، اسی طرح یہ ہوا کہ مسلم تاریخ سیاسی پیٹرن (political pattern) پر لکھی جانے لگی، وغیرہ-
اس معاملہ کی سب سے زیادہ غیر مطلوب مثال وہ ہے جو مذکورہ حدیث کے مطابق جنگ وتشدد کی صورت میں پیش آئی- مسلمانوں کے اندر بعد کے زمانے میں جنگ وتشدد کا جو سلسلہ شروع ہوا اور جو آج تک جاری ہے، وہ دراصل اسی کنڈیشننگ کی بنا پر ہے- یہ معاملہ ایک لفظ میں جہاد کے نام پر قدیم قبائلی کلچر کی واپسی کا معاملہ ہے:
Jihad or expansion of tribal culture.
واپس اوپر جائیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: نعمتان مغبون فیہا کثیر من الناس: الصحة والفراغ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6412) یعنی دو نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں رہتے ہیں، وہ ہیں صحت اور فرصت- یعنی آدمی دنیا کے کاموں کی وجہ سے آخرت کو بھولا رہتاہے اور سوچتا ہے کہ جب صحت ہوگی تو آخرت کا کام کر لوں گا، اور جب فرصت ہوگی تب آخرت کا کام کرلوں گا-
اِس حدیث کا مطلب یہ ہےکہ انسان اپنی دنیا پسندی کی وجہ سے پہلے یہ کرتا ہے کہ وہ غیر فطری عادتوں کی بنا پر اپنی صحت خراب کرلیتاہے، اور پھر صحت کو عذر (excuse) بناکر یہ سوچتا رہتا ہے کہ جب صحت ٹھیک ہوجائے گی تب آخرت کا کام کرلوں گا- اِسی طرح وہ پہلے اپنے آپ کو غیر ضروری کاموں میں مشغول کرلیتاہے، اورپھر سوچتا رہتاہے کہ جب فرصت ملے گی تب آخرت کا کام کرلوں گا-
صحیح طریقہ یہ ہےکہ آدمی اپنے آپ کو غیر فطری عادتوں سے بچائے، تاکہ اُس کی صحت درست ہو- اِسی طرح وہ غیر ضروری مشغولیتوں سے بچے، تاکہ آخرت کا کام کرنے کے لئے اُس کے پاس کافی وقت ہو-
زندگی میں منصوبہ بندی (planning) کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اگر آدمی سوچ سمجھ کر منصوبہ بند زندگی گزارے تو فطرت کے قانون کے مطابق، اُس کی صحت بھی درست رہے گی، اور اُس کے پاس کافی وقت موجود ہوگا- اِس طرح اُس کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ زندگی کے معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھے، اور ایسی زندگی گزارے جو اُس کی آخرت کے لیے مفید ہو-
جو آدمی ایسا نہ کرے اور اپنے مسائل کو لے کر عذر پیش کرتا رہے، تو وہ ایک دہری غلطی میں مبتلا ہے — غلط انداز میں زندگی گزارنا اور پھر اُس کو درست ثابت کرنے کے لیے عذرات پیش کرنا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التین میں تخلیقِ انسانی کے معاملے کو ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ (
قرآن کی اس سورہ میں احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت اعلیٰ ذوق (high taste) کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے- انسان کے اندر جو احساس لذت (sense of enjoyment) ہے، وہ کسی بھی دوسری مخلوق میں نہیں، نہ جمادات میں، نہ نباتات میں، نہ حیوانات میں-
اسفل سافلین میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تخلیقی ساخت کے اعتبارسے اعلیٰ تسکین (satisfaction) کا طالب ہے- لیکن انسان کو اس دنیا میں کوئی بھی چیز اس کی طلب کے مطابق نہیں ملتی- اس دنیا میں انسان کو مسلسل طورپر عدم تشفی (unfulfillment)کی حالت میں جینا پڑتاہے- گویا کہ انسان ایک ایسا طالب ہے جس کا مطلوب اس کو حاصل نہیں-خدا کے احسن الخالقین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یقیناً احکم الحاکمین بھی ہے- اس پہلو پر غور کرنے سے اس معاملے کی حکمت معلوم ہوتی ہے- وہ یہ کہ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھے- وہ اس تخلیقی حکمت کو دریافت کرے، اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کرے- جو آدمی اس معرفت کا ثبوت دے، اس کے لئے آخرت کی ابدی دنیا میں اجر غیر ممنون (unending reward) مقدر کیا گیاہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ آل عمران کا آخری رکوع (190-200) کا مطالعہ کیجئے تو ایک انسان کی ایمانی زندگی کے 10 مراحل سامنے آتے ہیں- یہ 10 مراحل بالترتیب حسب ذیل ہیں:
1- اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ — عقل کو استعمال کرتے ہوئے آیات تخلیق میں مسلسل غوروفکر (continuous contemplation) کی زندگی گزارنا-
2- رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا — حقیقت کی شعور ی دریافت (discovery) ، اس دریافت کے مطابق اس کا درست رسپانس (right response) دینا-
3- وقت کے منادئ ایمان کو پہچاننا، اس کا بھر پور ساتھ دینا، تمام فکری حجابات (intellectual conditioning)کو توڑ کر-
4- رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ — تاریخ میں بننے والے سچے انسانوں کی فہرست میں شامل ہونا، ان کے ساتھ حسن رفاقت کا متمنی ہونا-
5- الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا — دریافت کردہ سچائی کے ساتھ مکمل شرکت(total involvement)، زندگی کے سابق پیٹرن کو چھوڑ کر نیا پیٹرن اختیار کرنا-
6- وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ — غیر مصالحانہ انداز (uncompromising stand) اختیار کرنا، کسی چیز کو عذر (excuse)نہ بنانا-
7- وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ — ایمانی زندگی کے لئے ہر قیمت (price) دینے کے لئے تیار رہنا، قربانی (sacrifice) کی حد تک قائم رہنا-
8- وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا — ایمانی مشن کے لئے سنجیدہ جدوجہد (sincere struggle) کرنا، اس راہ میں اپنی آخری کوشش صرف کردینا-
9- وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ — جنت کی بشارت، جنت کے حصول کو اپنا واحد مرکز توجہ (sole concern) بنا لینا-
10- اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا — کامل صبر کا مزاج پیدا ہوجانا- ہر ڈسٹریکشن (distraction) سے بچتے ہوئے ایمانی سفر کی منزل طے کرنا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الحج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰى رَبِّکَ(
دوسروں کو خطاب کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نزاعی امور (controversial points) کو موضوع کلام بنایا جائے- مثلاً سیاسی اور سماجی حقوق کو لے کر تحریک چلائی جائے- یہ خدا کے نزدیک ایک غیر مطلوب طریقہ ہے- یہ طریقِ کار احتجاج سے شروع ہوتا ہے، اور آخر کار تشدد تک پہنچ جاتا ہے- اِس طریقِ کار کا کوئی مثبت فائدہ نہیں-
اِس کے برعکس جب انسان کی فطرت کو ایڈریس کیا جائے تو وہ تمام تر غیر نزاعی بنیاد پر انسان کو مخاطب کرنا ہوتا ہے- ایسی حالت میں آدمی مجبور ہوتاہے کہ وہ دعوت کو خود اپنی فطرت کی آواز سمجھے، اور اُس پر کھلے دل کے ساتھ غور کرے- یہی وہ فطری طریقہ ہے کہ جس کو قرآن میں دوسرے مقام پر وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلًۢا بَلِیْغًا (
اجتماعی زندگی میں نزاع کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے صرف مسائل میں اضافہ ہوگا- نزاع ہمیشہ نفرت اور تشدد کا باعث بنتا ہے- نزاع کا طریقہ کبھی کسی خیر کا سبب نہیں بنتا- یہ بات جس طرح دوسرے پہلوؤں سے صحیح ہے، اسی طرح وہ دعوت کے پہلو سے بھی درست ہے- دعوت کے مواقع صرف اس وقت کھلتے ہیں جب کہ نزاع کی صورت حال کو یک طرفہ طورپر ختم کردیا جائے- اس دنیا میں نزاع کا خاتمہ دعوت کا آغاز ہے- نزاع اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ (
اِس آیت میں ’ذَکِّرْ‘ کا لفظ آیا ہے- اِس کا مطلب قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتا ہے- اِس دوسری آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ۣ فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ (
ابتدائی دور میں، جب کہ دعوت کا کام عربوں تک محدود تھا- اُس وقت عربی قرآن کو لوگوں تک پہنچانا کافی تھا- مگر اب جب کہ دعوت کا کام دنیا کی تمام قوموں سے متعلق ہوگیاہے- اب اہلِ ایمان پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ ہرقوم کی زبان میں قرآن کا ترجمہ تیار کریں اور منظم انداز میں اُس کو تمام قوموں تک پہنچائیں- اب یہ کافی نہیں کہ عربی قرآن کو چھاپا جائے اور اُس کو لوگوں تک پہنچادیا جائے- آج اگر مسلمان ایسا کریں کہ وہ قرآن کو آرٹ پیپر پر بہترین انداز میں چھاپیں، وہ اعلی معیار کے مطابق، اس کی جلد بندی کریں، وہ سونے اور چاندی کے کام سےاُس کو خوشنما بنائیں، پھر وہ قرآن کا یہ نسخہ دوسری قوموں کو دیں تو ایسے قرآن کو لوگ صرف ایک گفٹ آئٹم سمجھیں گے، نہ کہ اپنے لیے گائڈ بک- اِس قسم کا خوبصورت عربی قرآن لوگوں کو دینے سے مسلمانوں کی دعوتی ذمہ داری ہرگز ادا نہیں ہوسکتی-
واپس اوپر جائیں
روایت میں آتا ہے کہ مکی دورمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشخصوں کے بارے میں ہدایت کی دعا کی - اس دعا کے الفاظ یہ تھے: اللہم اعزَّ الإسلام بأحب ہذین الرجلین إلیک بعمرو بن ہشام أو بعمر بن الخطاب (الترمذی، رقم الحدیث: 3681) یعنی اے اللہ، اِن دو شخصوں میں سے اپنے محبوب تر شخص کے ذریعہ اسلام کو طاقت دے، عمروبن ہشام یا عمر بن خطاب-
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبولِ حق سے پہلے ہی کوئی شخص اللہ کو محبوب بن جاتاہے- اِس روایت میں محبوبیت سے مراد طالب ہدایت ہونا ہے- دعا کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے جس شخص کے اندر ہدایت کی طلب پائی جاتی ہو، اُس کو اسلام کی توفیق دے، اور اس کو اسلام کے لیے حامی وناصر بنادے-
اللہ کی محبت اس شخص کے لیے ہے جو حق کو قبول کرے- ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص قبولِ حق سے پہلے اللہ کا محبوب بندہ بن جائے- کوئی شخص قبول حق سے پہلے اپنی جس صلاحیت کی بنا پر اللہ کی نظر عنایت کا مستحق بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس کے اندر حق کی تلاش کا جذبہ موجود ہے یا نہیں- اگر کوئی شخص حق کا طالب نہ ہو تو وہ اللہ کی نظرِ عنایت کا مستحق نہیں بنے گا، لیکن جس شخص کے اندر حق کی طلب پائی جائے، اس کو ضرور اللہ کی مدد پہنچے گی- اللہ کی عنایت سے اس کو حق قبول کرنے کی توفیق حاصل ہوگی- پھر ایسا ہوگا کہ جو چیز پہلے اس کے دل میں طلب کے درجہ میں تھی، اب وہ اس کے لیے اعلان کی صورت حاصل کرلے گی-اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المعارج میں اہل ایمان کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے: وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ(
سائل اور محروم کا ایک حق وہ ہے جو قانونی طورپر معلوم ہوتاہے- اسی معلوم حق کو شریعت میں زکوة کہاگیاہے- اس حق کی ادائیگی کے معاملے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: تؤخذ من أغنیائہم وترد على فقرائھم (البخاری، رقم الحدیث: 1395 )یعنی ان کے مال والوں سے لینا اور ان کے بے مال والوں کی طرف لوٹانا-
یہ معلوم حق کا ابتدائی مفہوم ہے- لیکن معلوم حق کا ایک اور مفہوم ہے، جو غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے- وہ یہ کہ سائل کو باروزگار بنانا تاکہ وہ خود اپنی کمائی سے اپنی ضرورت کو پورا کرسکے- اسی طرح محروم کا معلوم حق یہ ہے کہ اُس کے اِس تقاضے کو پورا کیاجائے کہ وہ بھی سماجی زندگی میں برابر کا درجہ پاسکے-
محروم کے اس معلوم حق کو پورا کرنے کے لئے مسلمانوں نے تو کچھ نہیں کیا، البتہ مغرب کے سیکولر لوگوں نے اس معاملے میں اتنا زیادہ کیا کہ اس کو ایک مستقل شعبہ کی حیثیت دے دی- قدیم زمانے میں ایسے لوگوں کو ناقص الاعضاء (disabled)کہا جاتا تھا- اہل مغرب نے چاہا کہ ایسے لوگوں سے احساس کم تری کو ختم کریں- تحقیق سے معلوم ہوا کہ ناقص الاعضا افراد بھی کسی اور پہلو سے امکانی طورپر غیر ناقص ہوتے ہیں- چنانچہ 1980 میں ان کے لیے ایک نیا ٹرم وضع کیا گیا جس کو ڈفرینٹلی ایبلڈ(differently abled)کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں اس قسم کے لوگوں کے لیے ایسے طریقے دریافت کیے گئے ہیں جن کو اختیار کرکے ناقص الاعضا شخص بھی نارمل زندگی گزارسکتا ہے-
واپس اوپر جائیں
خدا کے نقشہ تخلیق (creation plan) کے مطابق موجودہ دنیا انسان کے لئے دارالابتلا (
وہ امتحان برائے امتحان نہیں ہے بلکہ وہ اس لئے ہے کہ دنیا کے مختلف حالات سے گزرتے ہوئے ہر فرد کے رسپانس (response) کا ریکارڈ تیار کیا جائے، اور یہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کون ہے جو جنت کی ابدی دنیا میں بسانے کے لئے مستحق امیدوار (deserving candidate) کی حیثیت رکھتا ہے-
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ دنیا انسان کے لئے مواقع کی دنیا (world of opportunities) ہے- ایک اعتبار سے اس کو امتحان کی جگہ (testing ground) کہاجائے گا، لیکن دوسرے اعتبار سے بلا شبہہ اس کا نام مواقع کی جگہ (opportunity ground) ہے-
اہل جنت کی صفات کو قرآن میں اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے- اس کے مطابق جنتی انسان کی مطلوب صفات یہ ہیں کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرنے والا انسان ہو، اس کے اندر کامل معنوں میں مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو، وہ دوسروں کے لئے مسائل (nuisance) پیدا نہ کرے، وہ معاشرے کے اندر پرامن ممبر بن کر رہنے والا ہو، اس کے دل میں ہرایک کے لئے کامل ہمدردی پائی جاتی ہو، وہ تواضع (modesty) کی صفت کا حامل ہو، وہ کامل معنوں میں ایک سچا انسان ہو، وغیرہ-
موجودہ دنیا کے مختلف حالات کے درمیان رہتے ہوئے جو یہ ثابت کرے کہ وہ ان اعلیٰ صفات کا حامل انسان ہے، اس کو منتخب کرکے جنت کی ابدی دنیا میں بسایا جائے گا-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَکُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (
قرآن کی اس آیت میں اجتماعی زندگی کا ایک اصول بتایا گیا ہے- وہ یہ کہ جب کوئی شخص کوئی اختلافی بات کہے تو سننے والے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اس کو بدنیتی کا معاملہ سمجھ لے، اور کہنے والے کو برا آدمی سمجھنے لگے- اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے کو تحقیق کا معاملہ سمجھا جائے نہ کہ کسی شخص کے بارے میں رائے قائم کرنے کا معاملہ- کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا صرف اتمام حجت کے بعدجائز ہے، اس سے پہلے نہیں-
اصل یہ ہے کہ شکایت یا اختلاف کا سبب اکثر حالات میں بے خبری اور غلط فہمی ہوتا ہے- لوگ معاملے کے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی بنا پر ایک مخالفانہ رائے قائم کرلیتے ہیں- کسی کے بارے میں اس طرح رائے قائم کرنا درست نہیں- اسلامی تعلیم کے مطابق، اتمام حجت سے پہلے تحقیق ہے، اور اتمام حجت کے بعد رائے قائم کرنا-
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف شکایت ہوجاتی ہے- یہ شکایت بڑھتے بڑھتے نفرت بن جاتی ہے، اور نفرت کے بعد مزید برائیاں پیدا ہوتی ہیں- مثلاً ایک دوسرے کو بدنام کرنا، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرنا، ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ لینا- اس قسم کی اجتماعی خرابیوں کا سبب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ تحقیق کے بغیر رائے قائم کرلیتے ہیں، وہ جو کچھ سنتے ہیں، اس کو درست سمجھ لیـتے ہیں- اس طریقے کا نتیجہ بے حد سنگین ہے— دنیا میں ندامت اور آخرت میں مواخذہ-
واپس اوپر جائیں
قرآن کے مطابق کلام کی دو قسمیں ہیں- ایک ہے قول بلیغ (
قول بلیغ سے مراد وہ کلام ہے، جو آدمی کے ذہن کو ایڈریس (address) کرنے والا ہو، جوآدمی کو نئی سوچ میں ڈال دے- قول مُعْجِب سے مراد وہ کلام ہے، جس کو سن کر آدمی کہہ اٹھے ونڈر فل اسپیچ (wonderful speech)- لوگ اس کے کلام کی خوب تعریف کریں، لیکن اس کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں کوئی انقلاب نہ آئے-
جو شخص قول بلیغ کی زبان میں کلام کرے، اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا نہیں ہوتی، اس کو عمومی مقبولیت حاصل نہیں ہوتی- البتہ ایسا ہوتاہے کہ جو افراد سنجیدہ ذہن رکھتے ہوں، جو سچائی کے متلاشی ہوں، ایسے افراد کو قول بلیغ سے اپنے لئے غذا ملتی ہے، ان کی غفلت ٹوٹتی ہے، ان کے اندر نیا تفکیری عمل (thinking process) شروع ہوجاتاہے، وہ چیزوں پر ازسر نو غور کرنے لگتے ہیں، ان کا رائے قائم کرنے کا طریقہ بدل جاتا ہے- اب تک اگر وہ اپنی ذات کے لئے جی رہے تھے تو اب وہ حق کے لئے جینے والے بن جاتے ہیں- ان کے اندر ایک نیا مزاج ڈیولپ ہوتا ہے جس میں بولنا کم ہوتا ہے اور سوچنا زیادہ- دوسرے پر تنقید کم ہوتی ہے اور اپنی اصلاح کے بارے میں فکر کرنا زیادہ-
قول مُعْجِب کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے- قول معجب کا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک لفظی مہارت کا معاملہ ہوتاہے- ایسے افراد عوام پسند بولی بولنے کے ماہر ہوتے ہیں، ان کی باتیں سن کر لوگ تالیاں بجاتے ہیں، لوگوں کے درمیان ان کا خوب چرچا ہوتا ہے، لیکن حقیقی نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو آپ کو ظاہری بھیڑ کے درمیان معنوی سناٹا نظر آئے گا- قول معجب کی تعریفیں تو خوب ہوں گی لیکن برسوں کے ہنگامے کے باوجود وہاں کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہ آئے گا جس کے اندر کوئی حقیقی تبدیلی آئی ہو- قول بلیغ سے محاسبہ خویش پیدا ہوتا ہے، اور قول مُعْجِب سے صرف قصیدہ خوانی-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (
خیانت کا لفظ امانت کی ضد ہے- اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے امانت کا مطلب آنسٹی(honesty) ہے، اور خیانت کا مطلب ڈس آنسٹی (dishonesty)- با اصول انسان کی سب سے بڑی صفت آنسٹی ہے، اور بے اصول انسان کی سب سے بڑی صفت ڈس آنسٹی- یہ دو الفاظ کسی انسان کی پوری زندگی کا خلاصہ ہیں- حقیقی معنوں میں انسان وہی ہے جو اپنے کیریکٹر کے اعتبار سے ایک آنسٹ انسان (honest man) ہو- اس کے مقابلے میں وہ انسان ایک غیر انسان ہے، جو اپنے کیریکٹر کے اعتبار سے ایک ڈس آنسٹ انسان ہو-
آنسٹ انسان کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ ایک قابلِ پیشین گوئی کیرکٹر (predictable character) کا حامل ہوتا ہے- اس کے بارے میں کوئی شخص پیشگی طورپر یہ جان سکتا ہے کہ وہ اپنے قول اور اپنے عمل کے اعتبار سے کیسا انسان ہے، وہ ایک قابلِ اعتماد انسان ہے یا ایک ناقابلِ اعتماد انسان-
اس کے مقابلے میں ڈس آنسٹ انسان اپنی صفات کے اعتبار سے اس کے برعکس انسان ہوتا ہے- اس کے قول وفعل کے بارےمیں کوئی پیشگی رائے قائم نہیں کی جاسکتی- یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ جب اس سے کوئی معاملہ پیش آئے گا تو وہ کس قسم کا انسان ثابت ہوگا- وہ اپنے کردار کے اعتبار سے ایک بے اصول انسان ہوتاہے، اللہ کی نسبت سے بھی اور انسان کی نسبت سے بھی- وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے انسان ہوتاہے لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر انسان-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الروم میں اللہ کی ایک سنت کوان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِہِمْ فَجَــاۗءُوْہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَانْتَـقَمْنَا مِنَ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا ۭ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ(
قرآن کی اس آیت میں پیغمبروں کے حوالے سے اللہ کی ایک سنت کو بیان کیا گیاہے- اس سنت کا تعلق ایسے اہلِ ایمان سے ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لئے اٹھیں- ایسے لوگ ایک خدائی مشن (divine mission)کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں، وہ اللہ کے کنسرن (concern) کو اپنا کنسرن بناتے ہیں، وہ اپنے لئے جینے کے بجائے اللہ کے لئے جینے والے بنتے ہیں، وہ اپنے آپ کو اللہ کے کام کے لئے وقف کردیتے ہیں، ایسے لوگ اپنے عمل سے اس حقیقت کا ثبوت دیتے ہیں کہ ان کا انحصار تمام تر اللہ پر ہوچکا ہے-
ایسے لوگ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اللہ کے خاص بندے بن جاتے ہیں، ان کا پورا وجود اس بات کی سفارش (recommendation) بن جاتا ہے کہ اللہ ان کی طرف خصوصی توجہ فرمائے- اُن کے معاملے کو اللہ اپنا معاملہ قرار دے دے- اللہ اور بندے کے درمیان یہی خصوصی تعلق ہے، جس کو مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دین کے داعیوں کا اللہ کے اوپر یہ حق (due) ہے کہ وہ ان کی خصوصی مدد کرے-
جب کوئی شخص اپنے آپ کو اللہ کے مشن میں پوری طرح وقف کردے تو اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ ایسے شخص کی زبان سے دعا کے ایسے کلمات نکلتے ہیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کرنے والے ہوں، جو اس کے لئے اللہ کی خصوصی مدد کو لازم بنا دیں-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس لابن آدم حق فی سوى ہذہ الخصال بیت یسکنہ وثوب یواری عورتہ وجِلف الخبز والماء(الترمذی، رقم الحدیث: 2341) یعنی اِس دنیا میں انسان کا حق صرف چند ہے- ایک گھر جس میں وہ رہے اور ایک کپڑا جو اُس کی سترپوشی کرے اور روٹی کا ایک ٹکڑا اور پانی-یہ حدیث رسول بتاتی ہے کہ دنیا میں سامانِ حیات کا معیار کیا ہے، یعنی حقیقی ضرورت کے اعتبار سے وہ کیا چیز ہے جو اگر انسان کو مل جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو کافی سمجھے- اگر یہ معیار آدمی کے ذہن میں نہ رہے، اس کے برعکس آدمی کا معیار یہ ہو کہ اِس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس ایک عالی شان محل (palace) ہو تو وہ بقدر ضرورت گھر پر قانع نہ ہوگا، وہ اپنی ساری توجہ محل کو حاصل کرنے میں لگا دے گا، محل کے بغیر وہ اپنے آپ کو بے گھر (homeless) سمجھتا رہے گا-
یہی معاملہ قوم کا ہے- اگر کوئی قوم بطور خود یہ سمجھ لے کہ اس کی قومی زندگی کے لیے سیاسی اقتدار لازمی طورپر ضروری ہے تو اس کو سیاسی اقتدار سے کم درجے کی چیز بے حقیقت معلوم ہوگی- ایسی قوم کو سیاسی اقتدار سے باہر ہزاروں چیزیں حاصل ہوں گی، لیکن ایسی قوم کے لوگ اقتدار سے محرومی کے غم میں پڑے رہیں گے، حتی کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اِس مفروضہ معیار کے حصول کے لیے ناکام لڑائی شروع کردیں اور نتیجةً اپنی تباہی میں کچھ اور اضافہ کرلیں-
موجودہ زمانہ میں مسلمان عام طور پر احساس محرومی کا شکارہیں- حالانکہ یہ دور وہ تھا جب کہ وہ احساس یافت میں جینے والے ہوں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا شکر کریں- مسلمانوں کی موجودہ حالت کا واحد سبب یہ ہے کہ انھوں نے بطور خود اسلام کا غلط معیار بنا رکھا ہے- وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، تب اسلام زندہ ہے، ورنہ اسلام زندہ نہیں- اِس جوش میں وہ اِس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ آج بھی پچاس سے زیادہ ملکوں میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ہے، لیکن ان کو یہ کھلی حقیقت نظر نہیں آتی-
واپس اوپر جائیں
6 اکتوبر 2014 کی صبح کو موبائل پر ایک میسج آیا- یہ میسج محبوب بھائی (ممبئی) نے بھیجا تھا- ممبئی کی سی پی ایس ٹیم حال میں ناندیڑ گئی تھی- یہ میسج اسی وزٹ کے بارے میں تھا- میسج میںانھوں نے لکھا تھا:
We have very encouraging news from Nanded. Today the first monthly Dawah Meet was held at Abdur Rahman Chaus’s house after Isha prayer. Six people participated in this first meeting. Besides other things they discussed plans to meet mad‘us in Nanded and surrounding areas. Monthly meets have started at almost all places visited by the CPS Mumbai team, alhamdulillah. (Mob. 9619163993)
ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران محبوب بھائی نے بتایا کہ ہم لوگوں نے مہاراشٹر میں دعوتی اسفار کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، اس کے دوران ایک عجیب تجربہ سامنے آیا - ہماری ٹیم جس مقام پر جاتی ہے، وہاں الرسالہ کے قارئین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں، اور باقاعدہ دعوتی سرگرمی شروع کردیتے ہیں- ہر جگہ ہفتہ وار اجتماع، یا ماہانہ اجتماع کیا جانے لگا ہے- انھوںنے کہا کہ ہماری ٹیم جہاں جاتی ہے، وہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر ممبئی کی ٹیم ہمارے یہاں آکر کام کرسکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے-
مقابلہ (competition) کی اسپرٹ، ایک صحت مند اسپرٹ ہے- اس کو قرآن میں تَنافُس (
قرآن میں السائحون اور سائحات کے الفاظ ان لوگوں کے لئے آئے ہیں جو سفری سرگرمیوں کے ذریعہ دعوت کا کام کرتے ہیں- آج کل کی زبان میں اس کو دعوہ اِن ایکشن (Dawah in action) کہاجاسکتا ہے- دعوت کے کام کو بڑھانے کے لئے یہ طریقہ بہت ضروری ہے- مقامی طورپر کام کرنا بھی ایک کام ہے، لیکن جب آپ سفر کرکے دوسرے مقامات پر جائیں تو اس کے ذریعہ دعوتی کام میں اضافہ ہوتا ہے- دعوت کا مشن نئی وسعت اختیار کرلیتا ہے-
موجودہ زمانہ کمیونی کیشن (communication) کا زمانہ ہے- سفر کی جدید سہولتیں اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دعوہ ان ایکشن کے کام کے لئے عالمی راہیں کھول دی ہیں- اب ضرورت ہےکہ اس کام کو مزید اضافہ کے ساتھ زندہ کیا جائے، جس کو قرآن میں سیاحت کہاگیا ہے-
سیاحت صرف یہ نہیں ہے کہ دعوت کے پروگر ام کے تحت آپ کہیں جائیں، بلکہ الرسالہ مشن کے ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے بیگ میں لٹریچر رکھے، وہ جب بھی کسی سے ملے تو اس کو تحفہ کے طورپر ایک کتاب پیش کرے- موجودہ زمانے میں ملاقات کے مواقع بھی بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں- انسان جب بھی کسی کام کے لئے نکلتاہے تو ہمیشہ اس کو جگہ جگہ نئے افراد ملتے ہیں- یہ تمام افراد آپ کو دعوتی کام کا موقع دے رہے ہیں-
آپ کو چاہئے کہ دعوتی لٹریچر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھیں، اور ہر ملاقات کے موقع پر لوگوں کو اسے دیتے رہیں، یہ کام قریبی سفروں میں بھی کرنا ہے، اور دور کے سفروں میں بھی-
واپس اوپر جائیں
God— A Source of Conviction
اگر آپ کے پاس کائناتی دوربین ہو اور آپ کائنات کے کسی مقام پر کھڑے ہو کر کائنات کا مشاہدہ کریں تو سب سے پہلے آپ کی نظر اس استثنائی planet پر جائے گی جس کا نام زمین ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مکمل طورپر ایک lifeless دنیا میں زمین کا tiny planet زندگی اور زندگی کو sustain کرنے والے ہر قسم کے سامان سے بھر پور ہے۔ یہ نادر استثنائی منظر آپ کو ایک حیرتناک کیفیت میں مبتلا کردے گا۔
پھر آپ دیکھیں گے کہ زمین اپنے چاند اور دوسرے planets کے ساتھ مسلسل حرکت میں ہے۔ اس کی ایک گردش اپنے axis پر ہور ہی ہے ، اس حرکت کے ساتھ ساتھ بیضوی دائرہ میں وہ مسلسل طورپر سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ پھر یہ پورا سولر سسٹم کہکشاں کی عظیم پلیٹ پر وسیع تر دائرہ میں تیزی سے گھوم رہا ہے۔ پھر پورا کہکشانی نظام خلا میں دوسری بہت سی کہکشاؤں کے ساتھ ایک اور وسیع دائرہ میں مسلسل طورپر حرکت میں ہے۔
اتھاہ space میں ستاروں اور سیاروں کی یہ گردش آپ کو دہشت ناک حد تک عجیب معلوم ہوگی۔ پھر آپ جب دیکھیں گے کہ unbelievable حد تک آگ کے بڑے بڑے الاؤ جن کو ستارے کہا جاتا ہے، countlessتعداد میں ادھر ادھر تیزی سے دوڑ رہے ہیں اور ان کے درمیان ہماری زمین ایک چھوٹے ذرّے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ یہ سارا منظر آپ کو اتنا دہشت ناک حد تک عجیب معلوم ہوگا کہ آپ کو اپنا وجود اس کے سامنے بالکل بے قیمت اور حقیر دکھائی دینے لگے گا۔
یہ تجربہ آپ کو بیک وقت دو چیزوں کی دریافت کرائے گا۔ ایک یہ کہ اس دنیا کا ایک طاقتور خدا ہے جو اس کا Creator بھی ہے اور اس کا Sustainer بھی۔ اگر آپ اپنے چشم تصور میںاِس کائناتی منظر کو لے آئیں تو آپ کا دل پکار اٹھے گا کہ کائنات خود اپنے آپ میں اپنے خالق کا ایک بین ثبوت ہے۔ اس کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ انسان اس کائنات میںایک عاجز اور حقیر مخلوق ہے- خدا انسان کی ایک ایسی لازمی ضرورت ہے جس کے بغیر اس کا کوئی وجود ہی ممکن نہیں۔
یہ بلاشبہہ زندگی کی سب سے زیادہ اہم حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا ادراک جب آدمی کو ہوجائے تو وہ بے اختیار انہ طورپر خدا کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار اٹھتا ہے کہ خدایا میری مدد فرما۔ تیری مدد کے بغیر میرا کوئی بھی کام بننے والا نہیں۔
اتھاہ کائنات میں خدا انسان کا سہارا ہے۔وہ انسان کی کشتی کو سہارا دے کر اس کو ساحل تک پہنچانے والا ہے۔ خدا کا عقیدہ انسان کے لیے سب کچھ ہے۔ اس عقیدہ کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں۔
انسان کے عجز (helplessness) کا احساس جو کائنات کو دیکھ کر ہوتا ہے وہی ہر آدمی کو اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بھی لازمی طور پر پیش آتا ہے۔ ہر عورت اور مرد بار بار اس تجربہ سے گزرتے ہیں کہ انہیں محسوس ہوتاہے کہ وہ محدودیت limitation) (کا شکار ہیں۔ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کو وہ پا نہیں سکتے۔ ان کی زندگی بار بار ایسے احوال میں پھنس جاتی ہے جہاں وہ اپنے آپ کوبے بس helpless) (محسوس کرنے لگتے ہیں- اسی کے ساتھ نقصان کا خوف، بیماری اور حادثہ اور بڑھاپا اور موت کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہر آدمی اپنے سے برتر کسی طاقت کا محتاج ہے۔ ایک superior power کی مدد کے بغیر وہ اپنے کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ یہ احساس گویا خدا کے وجود کا ایک نفسیاتی ثبوت ہے ۔ ہر آدمی لازمی طورپر اس نفسیاتی تجربہ سے دوچار ہوتا ہے۔ ہر آدمی خود اپنے اندر خدا کے وجود کی یقینی گواہی پارہا ہے۔
ہر آدمی کی فطرت مستقل طورپر اس کو یہ آواز دے رہی ہے کہ تم کو ایک خدا کی ضرورت ہے۔ خدا کے بغیر تمہاری زندگی مکمل نہیں ہوسکتی۔خدا کی مدد کے بغیر تم اپنے آپ کو کامیاب نہیں بنا سکتے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الاعراف میںایک انسانی صفت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیاہے:وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بِہَا وَلٰکِنَّہٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الْکَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(
ہانپنے کا فعل (panting)کو ئی انسان اس وقت کرتاہے جب کہ اس پر بوجھ لدا ہوا ہو- لیکن کلْب (dog) اپنی فطری بناوٹ کی وجہ سے ہر حال میں ہانپتاہے، خواہ اس کے اوپر بوجھ ہو یا بوجھ نہ ہو- کلب کی اس فطری صفت کی مثال کو لے کر انسان کی ایک اخلاقی حالت کو بیان کیاگیاہے- وہ یہ کہ انسان اگر خواہش (desire) کا اتباع کرے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے، اور اگر وہ خدا کی ہدایت (guidance) کا اتباع کرےتو اس کا حال کیا ہوتا ہے- خدائی ہدایت کا اتباع کرنے والا ہمیشہ ایک حالت پر رہتاہے، اور وہ شکر کی حالت ہے- خدائی ہدایت کی اتباع کرنے والا ہمیشہ شکر کے احساس میں جیتاہے، خواہ دنیا کا سامان اس کو کم ملے یا زیادہ-
اس کے برعکس حال اس انسان کا ہوتا ہے جو اتباعِ ہویٰ (خواہش کی پیروی) میں مبتلا ہوجائے- چوںکہ تخلیقی نقشے کے مطابق انسان کی خواہش لامحدود ہے، اور دنیا کی چیزیں محدود ہیں- اس بنا پر خواہش کی اتباع کرنے والے انسان کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر حال میں ہانپتا رہے گا، یعنی دنیا میں کم ملے تب بھی وہ شکر سے خالی ہوگا، اور اگر اس کو دنیا میں بظاہر زیادہ ملے تب بھی وہ شکر سے خالی رہے گا- حقیقت یہ ہے کہ خواہش کی تکمیل صرف آخرت میں ہوگی، موجودہ دنیا میں خواہش کی تکمیل ہونے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں
انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں، ایک ذہنی اور دوسرا عملی- ایک انسان کی ذہنی زندگی (intellectual life)اور دوسری عملی زندگی (practical life) - دونوں اگرچہ انسانی زندگی کا حصہ ہیں، مگر دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے مختلف ہیں-ذہنی اور فکری اعتبار سے یہ ممکن ہوتاہے کہ آدمی اپنے اندر معیاری سوچ پیداکرے- وہ چیزوں کے بارے میں معیار کے اعتبار سے رائے قائم کرے- قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ذہنی اور فکری اعتبار سے انسان سے اعلی معیار مطلوب ہے، اس معاملہ میں اعلی معیار سے کم تر کوئی حالت اللہ کے یہاں قابل قبول نہیںہوسکتی- اس سلسلہ کی ایک رہنما آیت یہ ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَاۗءُ ۭوَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا (
انسانی زندگی کا دوسرا پہلو وہ ہے، جس کو عملی پہلو کہاجاسکتا ہے- یہ ایک ایسا پہلو ہے، جس میں ہمیشہ کامل معیار پر قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا- اس لئے عملی معاملہ میں رخصت (concession) کا امکان رکھا گیاہے- اس سلسلہ میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ۭ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (
واپس اوپر جائیں
گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت بڑے پیمانے پر ترجمہ قرآن کی نشر واشاعت کا کام ہورہا ہے- اِس سلسلے میں مقامی پروگراموں کے علاوہ، اسفار کے ذریعے بھی ملک اور ملک کے باہر کے مختلف مقامات پر یہ کام کیا جاتا ہے- اِس سلسلے میں نومبر 2014 میں میرایورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں کا سفر ہوا— اٹلی، اسپین، ترکی اور دبئی-
میرے اٹلی کے سفر کا محرک ایک پروگرام تھا- یہ پروگرام
میرے اندر اٹلی جانے کا ابتدائی محرک اپریل 2014 میں پیدا ہوا تھا- اُس وقت میں پیرس میں تھا- یہاں اٹلی کے چند مسلمانوں سے ملاقات ہوئی — ابراہیم شبانی، فواد سلیم اور عزّالدین- مسٹر ابراہیم شبانی اٹلی میں ایک ادارے کے ذمہ دار ہیں- اس ادارے کا نام یہ ہے:
المرکز الاسلامی بسیستو-میلانو(Centro Islamico di Sesto S.G. Milano)
اِسی طرح مسٹر سلیم فواد اور مسٹر عز الدین (Izzeddin Elzir)اٹلی کے ایک بڑے اسلامی ادارہ سے منسلک ہیں- اِس ادارے کا نام یہ ہے:
اتحاد الہیئات الإسلامیة فی إیطالیا
(Unione Delle Comunita Islamiche d’ Italia)
اِن حضرات سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی تھی- انھوں نے مجھے اٹلی آنے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ آپ اٹلی آکر دیکھیں، پھر ان شاء اللہ وہاں کے ماحول کو سامنے رکھ کر اٹلی میں دعوتی کام کو منظم کیا جاسکتا ہے-تاہم 2 نومبر 2014 کے اِس سفر میں جب میں اٹلی پہنچا تو اُن لوگوںسے ملاقات نہ ہوسکی-اس وقت وہ لوگ کسی پروگرام کے تحت شہر سے باہر گئے ہوئے تھے-
This is what I actually wanted to read. I liked it so much that I will cherish this book for the whole of my life.
پیرس سے مجھے اٹلی کے شہر میلان (Milan) کے لیے روانہ ہونا تھا- یہاں مجھے مسٹر حمزہ سے ملنا تھا- تاہم میلان جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے خاندان میں کسی شخص کی وفات ہوگئی ہے- اس کی وجہ سے وہ شہر میں نہیں ہیں، لہذا اِس وقت اُن سے ملاقات نہیں ہوسکتی- چنانچہ ان کے بیٹے مسٹر داؤد (Davide Piccardo) سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ قرآن کے اِس ترجمے کی عمومی اشاعت کے حق میں نہیں ہیں-چنانچہ گفتگو کے باوجود ہمارے یہاں سے قرآن کے اٹیلین ترجمے کی اشاعت کی اجازت نہ مل سکی-
تاہم میلان کے اِس سفر کا ایک فائدہ یہ ہواکہ یہاں کے ایک اسلامک سنٹر (مریم مسجد) کو دیکھنے کا اتفاق ہوا- اِس سنٹر کی مسجد میں ایک عرب مسٹر ابراہیم امام ہیں- ان سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مسجد کے مختلف شعبے دکھائے- میں نے کہا کہ میں اطالوی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرانا چاہتا ہوں- انھوں نے کہا کہ یہاں ایک مقامی خاتون مترجم عائشہ روڈولفی (Aicha Rodolfi) ہیں- اگر آپ اُن سے رابطہ کریں تو شاید اِس سلسلے میں وہ آپ کی رہنمائی کرسکیں-
چناں چہ میں نے محترمہ عائشہ روڈولفی سے رابطہ کرکے اُن سے ملاقات کی- ان سے ملنے کے لئے میں اٹلی کے دوسرے شہر (Castelfranco Emilia)گیا- وہ ایک نو مسلم خاتون ہیں-انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ ایک فیشن ماڈل تھیں- بعد کو وہ قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوئیں اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا- اس کے بعد ان کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرلیا-
عائشہ روڈولفی کے گھر پر ان کی والدہ اور مسٹر حسین سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لوگ یہاں بڑے پیمانے پر دعوہ ورک کررہے ہیں- انھوں نے بتایا کہ وہ اسٹریٹ دعوہ (Street Dawah) کے طریقے پر دعوت کا کام کرتے ہیں- اِس سلسلے میں وہ خاص طورپر تعارفِ اسلام کے موضوع پر سعودی عرب سے چھپے ہوئے پمفلٹس لوگوں کو دیتے ہیں- عائشہ روڈولفی نے بتایا کہ اِن پمفلٹس میں عام طورپر شرک وبدعات، توحید اور حلال وحرام کی باتیں بیان کی گئی ہیں- تاہم اِن کتابوں کا اسلوب یہاں کی جدید نسل کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا- انھوں نے کہا کہ اگر اس سے بہتر اسلوب میں کوئی لٹریچر ہم کو مل جائے تو ہم اس کو پھیلائیں گے-
عائشہ روڈولفی کو میں نے اپنے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں — ترجمہ قرآن، پمفلٹس، وغیرہ دکھائیں- انھوں نے اِس کو دیکھا اور پسندکیا- انھوں نے کہا کہ اس لٹریچر کا ہم اطالوی زبان میں ترجمہ کریں گے -آپ اس کو انڈیا سے شائع کرکے ہمیں بھیج دیں، تاکہ ہم یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں تک اس کو پہنچا سکیں- میں نے کہا ضرور،آپ اس کا ترجمہ کریں، یہی ہمارا اصل مقصد ہے- انھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ہم ’’اسٹریٹ دعوہ‘‘ کے تحت اٹلی کے ہر شہر میں اِس لٹریچر کو پھیلانے کی کوشش کریں گے-
اٹلی سے روانہ ہوکر 3 نومبر 2014کو مجھے اسپین جانا تھا- اسپین کا سفر بھی دراصل قرآن کے اسپینی ترجمے کی اشاعت کے لیے تھا- اِس کا اصل محرک یہ تھا کہ خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کافی عرصے سے مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکا میں، خاص طورپر ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں قرآن کے اسپینش ترجمے کی بہت ضرورت ہے، کیوں کہ اسپین کے علاوہ ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں بھی اسپینش زبان بولی جاتی ہے-مثلاً میکسکو، ارجنٹائنا، کولمبیا، پناما، کیوبا، چلی، پیرو، وینزولا ، وغیرہ میں عام طور پر اسپینش (Spanish) زبان بولی جاتی ہے- کلیم الدین صاحب کا کہنا تھا کہ اگر اسپینش زبان میں قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر تیار ہوجائے تو ساؤتھ امریکا میں بڑے پیمانے پر اس کے ذریعے دعوہ ورک کیا جاسکتا ہے-
جب میں نے اِس سلسلے میں جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ اسپینش زبان میں قرآن کے چارترجمے موجود ہیں- ان میں سب سے معروف ترجمہ وہ ہے جس کو غرناطہ(Granada)کے مسٹر عبدالغنی (Abdul Ghani Melara Navio) نے تیار کیا ہے- یہ ترجمہ شاہ فہد قرآن کامپلیکس ،مدینہ سے بھی شائع ہوچکا ہے- کافی تلاش کے بعد غرناطہ کے مسٹر لقمان نیٹو (Luqman Nieto) کے ذریعے مترجم موصوف کا نمبر معلوم ہوا-چناں چہ اُن سے ملاقات کے لیے میں نے غرناطہ جانے کا ارادہ کرلیا-
چنانچہ پہلے میں اٹلی سے اسپین کے شہر مالقہ (Malaga) گیا- یہ غرناطہ سے قریب ایک تاریخی شہر ہے- یہاں انٹرنیشنل ائرپورٹ بھی ہے- مالقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا، اس لئے یہاں مسلم دور کی کافی عمارتیں موجود ہیں- مالقہ سے غرناطہ کے لئے ائرپورٹ سے ڈائریکٹ بس جاتی ہے- چناں چہ میں یہاں سے بذریعہ بس تقریباً ڈھائی گھنٹے میں غرناطہ پہنچ گیا- سفر کے دوران ہر طرف خوب صورت مناظر دکھائی دے رہے تھے- دریا، پہاڑ، سبزہ، وغیرہ- یہاں کی مٹی سرخ رنگ کی تھی- اس میں ہر طرف دور تک پھیلے ہوئے زیتون کے سرسبز وشاداب باغات ایک عجیب منظر پیش کررہے تھے-
غرناطہ پہنچ کر میں نے مسٹر عبد الغنی کو فون کیا- وہ میرے ہوٹل کے قریب ہی رہتے ہیں- چنانچہ بیس منٹ کے اندر وہ ہوٹل پہنچ گئے- تقریباً دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر آئے اور اُس پر مختلف چیزیں مجھ کو دکھانے لگے- مثلاً انھوں نے اپنے اسپینش ترجمہ قرآن پر تفسیری نوٹس لکھے ہیں، وہ انھوں نے مجھے دکھائے- مسٹر عبد الغنی عربی زبان وادب کے اچھے اسکالر ہیں- اِس وقت ان کی عمر تقریباً 70 سال ہوچکی ہے- انھوں نے بتایا کہ وہ غرناطہ کے ایک مسیحی خاندان میں پیداہوئے- تاہم اللہ کی توفیق سے 1979 میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا-انھوںنے بتایا کہ 1970 کے زمانے میں یہاں مراکو سے ایک مسلم صوفی آئے تھے- اُن کی دعوت وتبلیغ سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں یہاں کے مسیحی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا- انھوں نے بتایا کہ میںبھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہوں جو اُس وقت مذکورہ صوفی کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوئےتھے-
دیر تک اُن سے امن اور جہاد وغیرہ کے موضوع پر بات ہوتی رہی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ہماری امن اور جہاد کی آئڈیالوجی سے اتفاق نہیں رکھتے- گفتگو کے دوران ایک بات انھوں نے یہ کہی کہ قرآن کو مفت نہیں دینا چاہئے- اِس سے قرآن کی اہمیت لوگوں کی نظر میں کم ہوجاتی ہے- اِسی طرح گفتگو کے دوران غیر مسلموں کے لیے وہ بار بار ’’کفار‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے- میں نے کہا کہ غیر مسلموں کے لیے کفار کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں- غیر مسلم ہمارے مدعو ہیں- میں نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان -اِس اعتبار سے اُن کے لیے کفار کے بجائے ’’مدعو‘‘ کا لفظ استعمال کرنا درست ہوگا-میں نے ان سے اپنے یہاں سے قرآن کے اسپینش ترجمے کی اشاعت کی اجازت مانگی، اور اس کے لئے بطور رائلٹی ان کو ایک خطیر رقم کی پیش کش بھی کی، مگر وہ اس ;کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے-
آخر میں میں نے اُن کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا- مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ، تذکیر القرآن (انگریزی) اور پرافٹ آف پیس، وغیرہ- اِس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیااور کہا کہ مولانا وحید الدین خاں کا یہ ترجمہ میرے پاس پہلے سے موجود ہے-پچھلے سال ہم نے غرناطہ کی مسجد کے لئے قرآن اور دوسری تعارفی کتابیں بھیجی تھیں جو کہ وہاں تقسیم کی گئیں-
غرناطہ کے ایک اور ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا- اس ادارے کا نام یہ ہے:
وقف الأندلس للتربیة والتعلیم (Fundación Educativa al-Andalus)
اِس ادارے کے ذمے دارمسٹر مضطر (M. Mujtar Medinilla) ہیں- وہ ایک اسپینی مسلم ہیں-ایک جرمن مسلمان مسٹر احمد (Ahmad Gross)کے ساتھ مل کر وہ اِس ادارے کو چلا رہے ہیں-اِس ادارے کے تحت تعلیم وتربیت کے علاوہ دعوتی کام بھی ہوتا ہے-یہ لوگ وہاں ایک بڑا اسلامی اسکول بھی قائم کرنے والے ہیں-
مسٹر ادریس (Idris Medinilla) مسٹر مضطر کے بیٹے ہیں- وہ مجھ کو غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں لے گئے- اس کا نام یہ ہے:
مرکز الدراسات الإسلامیة(Centro de Estudios Islámicos)
یہ غرناطہ میں ایک بڑا دعوتی مرکز ہے- یہاں لوگ کثرت سے آکر اسلام قبول کرتے ہیں- اِسی طرح سیاح، خاص طور پر مسیحی حضرات بڑی تعداد میں اسلام کو جاننے کے لئے یہاں آتے رہتے ہیں- یہاں ایک بڑی لائبریری ہے- اِسی طرح یہاں ایک وسیع اور خوبصورت لیکچر ہال بھی ہے-اس ہال میں اسلام کے مختلف موضوعات پر پروگرام ہوتے رہتے ہیں-
غرناطہ میں مولانا وحید الدین خاں کے ترجمہ قرآن کے اسپینش ایڈیشن کی تیاری کے متعلق مسٹر لقمان نیٹو (مترجم اسپینش) سے بات ہوئی- پہلے انھوںنے کہا کہ میں اسپینش زبان میں اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کروں گا- تاہم بعد کو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ قرآن کا ترجمہ آسان کام نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑی ذمے داری کا کام ہے- میں اپنے آپ کو اِس کا اہل نہیں پاتا- اِس لیے میں اِس کام کے لیے معذرت خواہ ہوں-اسپین میں جن اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا، اُن میں سے ایک مقامی اخبار کا آفس تھا- یہاں سے اسپینش زبان میں ایک پندرہ روزہ اخبار نکلتاہے- اس کا نام یہ ہے:
Islam Hoy (Islam Today)
یہاں اخبار کے ایڈیٹر سے بھی ملاقات ہوئی- اِس اخبار کے کئی ایڈیشن دیکھے- معلوم ہوا کہ یہ سب مسلم قومی ذہن کی نمائندگی کررہے ہیں- اِسی طرح یہاںمدرسہ ایڈیشن (Madrasa Edition) کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ ہے- اس کے انچارج مذکورہ اسپینی نوجوان مسٹر ادریس (Idris Medinilla)ہیں-مسٹر ادریس سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی- انھوںنے دعوتی کام میں اپنی دلچسپی ظاہر کی- انھوںنے کہا کہ آپ ہمیں اسپینش زبان میں اپنا لٹریچر دیجئے- ان شاء اللہ ہم اس کو یہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان پھیلائیں گے-
4 نومبر 2014 کو غرناطہ میں الحمراء (Alhambra Palace)دیکھنے کا پروگرام تھا- چناں چہ اس کا پیشگی ٹکٹ لے کر میں وہاں گیا- غرناطہ (Granada) اسپین کے جنوب میں واقع ایک قدیم تاریخی شہر ہے- غرناطہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں موجود قصر الحمراء ہے- 1492 تک غرناطہ مسلم اسپین کی آخری ریاست تھا- مسلم دورِ حکومت میںالحمراء قلعہ اور محل دونوں تھا، جس طرح دہلی کا لال قلعہ ہے- الحمراء
الحمراء غیر معمولی طورپر ایک بے حد خوب صورت مقام ہے-الحمراء کو مکمل طورپر دیکھنے کے لیے ایک پورا دن مطلوب تھا، مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے میں جلد ہی اس کے ایک حصے کو دیکھ کر واپس آگیا- یہاں زائرین کو میں نے دعوتی لٹریچر دیا-
غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں جانے کا اتفاق ہوا- یہ ادارہ الحمراء کے سامنے ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے- یہاں ایک خوب صورت مسجد ہے- اس سینٹر کانام یہ ہے :
Grand Mosque of Granada
یہ مسجد یہاں کے نو مسلم حضرات نے تقریباً تیس سال پہلے تعمیر کی تھی-یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی - سینٹر میںکچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اسپین میں دعوتی کام کرتے ہیں- معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ تقریباً 500 زائرین آتے ہیں- یہاں سے الحمراء کا منظر نہایت دلکش نظر آتاہے- یہاں ایک مکتبہ (bookshop) بھی ہے- اس میں تعارفِ اسلام کے موضوع پر کتابیں موجود ہیں- یہاں سینٹر کی مسجد کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam?) دیا-ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہمیں قرآن کے تراجم اور کتابچے بھیجیں گے تو ہم ان کو یہاں سیاحوں (tourists)کے درمیان پھیلائیں گے-
غرناطہ سے فارغ ہوکر میں قرطبہ کے لیے روانہ ہوا- یہ ٹرین کے ذریعے تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا- قرطبہ (Cordoba) اسپین کاایک قدیم شہر ہے- 711 عیسوی میں مسلمانوں نے اس کو فتح کیا اور
قرطبہ میں اسپین کے مسلم دورِ حکومت (711-1492) کی بہت سی یادگاریں پائی جاتی ہیں- اِن میں مسجد قرطبہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے- یہ مسجد بارہ ہزار مربع میٹر کے رقبے میں واقع ہے- اِس میںتقریباً بارہ سو ستون ہیں- اب اس کوچرچ میں تبدیل کردیاگیا ہے-
مسجد قرطبہ کے وسیع صحن میں ہر طرف خوب صورت فوارے جاری تھے اور مختلف قسم کے درخت لگے ہوئے تھے- اِن درختوں میں پھل لٹکے ہوئے تھے-
مسلم اقتدار کے خاتمہ کے بعد مسجد قرطبہ کو عیسائیوں نے چرچ میں تبدیل کردیا ہے- اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں ایک مسیحی پیشوا سینٹ ونسنٹ (Saint Vincent Ferrer) گزرا ہے- مسیحیوں نے ا س کے نام پر قرطبہ میں دریا کے کنارے ایک چرچ تعمیر کیا تھا- اس علاقہ پر سیاسی قبضہ کے بعد مسلمانوں نے عین اسی چرچ کی جگہ مسجدبنادی- اس طرح اس مسجد کے ساتھ غیرضروری طورپر نزاع کی حالت قائم ہوگئی- کہا جاتا ہے کہ بعد کو
مسجد قرطبہ کے قریب ایک اسلامی سینٹر تھا-اس میں مسجد کے علاوہ ایک ادارہ بھی قائم ہے- میں اس ادارے میں گیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت یہاں ترکی حکومت کے تعاون سے ریسٹوریشن (restoration) کا کام چل رہا ہے، اس وجہ سے یہ ادارہ فی الحال بند ہے- یہ ایک بڑا ادارہ تھا جس میں مسجد اور اسلامک سینٹرقائم ہے- اس ادارے کا پورا نام یہ ہے:
مسجد الأندلسیین (Mezquita De Los Andaluces)
الجامعة الإسلامیة الدولیة ابن رشد-الأندلس
(Universidad Islamica Internacional Averroes De Al-Andalus)
قرطبہ میں ایک اور اسلامی سینٹر ہے- اس سینٹر کو اسپین کے ایک مسلمان مسٹرمحمدحنیف (Hanif Esccudero Uribe) کے والد نے تقریباً
مسٹر حنیف نے بتایا کہ ہمارے مرکز میں اسپین کے مختلف شہروں کے مسلمان آتے ہیں-وہ یہاں کا دعوتی لٹریچرلے کر دعوتی کام کرتے ہیں-میں نے اپنے یہاں سے چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس مسٹر حنیف کو دیا- انھوں نے اس کو پسند کیا اور کہا کہ آپ ہم کو یہ لٹریچر مزید بھیجیں، تاکہ ہم اس کو یہاں دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرسکیں-
قرطبہ پہنچ کر مجھ کو قاضی منذر القرطبی کا ایک واقعہ یاد آگیا- اسپین کے سلطان عبد الرحمن ناصر نے جب قرطبہ میں الزہراء کا محل تعمیر کرلیا تو ایک دن وہ اپنے سونے کے تخت پر بیٹھا- دربار میں بڑے بڑے لوگ جمع تھے-سلطان نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے ایسا عالی شان محل بنایا ہو- درباریوں نے خوب تعریف کی، مگر قاضی منذر سرجھکائے بیٹھے رہے-آخر میں سلطان نے قاضی منذر سے بولنے کے لیے کہا- قاضی منذر روپڑے- انھوں نے کہا: خدا کی قسم، میرا یہ گمان نہیں تھا کہ شیطان تمھارے اوپر اتنا زیادہ قابو پالے گا کہ وہ تم کو کافروں کے درجہ تک پہنچا دے- سلطان نے کہا کہ دیکھئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کیسے آپ مجھے کافروں کے درجہ تک پہنچا رہے ہیں- اس کے بعد قاضی منذر نے قرآن سے سورہ الزخرف کی آیات
قرطبہ کے بعد مجھے میڈرڈ (Madrid) جانا تھا-یہ سفر میں نے ٹرین کے ذریعہ طے کیا-یہ ایک تیز رفتار ٹرین تھی جس کے ذریعے میں تقریباً چارگھنٹے میں قرطبہ سے میڈرڈ پہنچ گیا-میڈرڈ میں سعودی عرب کے تعاون سے ایک عظیم الشان مسجد اور اسلامی مرکز تعمیر کیا گیا ہے- اس کانام یہ ہے:
المرکز الثقافی الإسلامی بمدرید(Centro Cultural Islamico De Madrid)
یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی- اس سینٹرمیں اسلام کے مختلف پہلوؤں، مثلاً سیرتِ رسول وغیرہ کے موضوع پر ایک مستقل نمائش (Exhibition) کا اہتمام کیا گیا ہے- اِس سینٹر کو دیکھنے کے لیے کثرت سے زائرین یہاں آتے ہیں- یہاں زائرین کے درمیان بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جاتا ہے-اسی طرح دعوتی مقصد کے تحت ’’ڈسکور اسلام‘‘ کے عنوان سے یہاں ایک پروگرام چلایا جاتاہے- اس کا نام یہ ہے:
اکتشف الإسلام (Descubra El Islam)
اس سینٹر کے عرب ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو الاسلام یتحدی اور اپنے یہاں کاچھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam) دیا-اس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا-
7 نومبر 2014کو اسپین سے روانہ ہو کر مجھ کو ترکی جانا تھا- یہاں
اِن لوگوں کو میں نے مولانا وحید الدین خاں کا انگریزی ترجمہ قرآن (پاکٹ سائز( دکھایا - مسٹر راشد(Rasit Tibet)نے اِس کو بہت پسند کیا- انھوں نے کہا کہ ترکی زبان میں اسی طرح کا ترجمہ قرآن شائع کرنے کی ضرورت ہے- انھوں نے کہا کہ یہاں بھی عام طورپر یہی رواج ہے کہ لوگ صرف قرآن کا عربی متن پڑھ لیتے ہیں،قرآن کو سمجھ کر اس کی تلاوت کرنے سے عموماً لوگ غافل ہیں- اِس لیے اگر اِس طرح کا ایک پاکٹ سائز ترجمہ قرآن یہاں کی مقامی زبان میں شائع کردیا جائے تو وہ فہم قرآن کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا-
یہاں ترکی کے ایک اور پبلشر (Bahar Publication) کےڈائریکٹر مسٹر محمد (Mehmet Baspehlivan)سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مولانا وحید الدین خاں کی ایک کتاب ترکی زبان میں شائع کی ہے-اِس کے علاوہ، وہ تذکیر القرآن کا ترکی ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہتے ہیں- ترکی کے سفر (مئی 2012) میں مولانا اُن کے گھر بھی گئے تھے اور وہاں ایک مختصر نشست ہوئی تھی-
اِس سفر میں استانبول (ترکی) کی مسجد رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) کے امام سے ملاقات ہوئی- مسجد رستم پاشا ایک تاریخی مسجد ہے- اِس مسجد کی تعمیر سولھویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی- اِس مسجد کی تعمیر میں استعمال کیے گئے ٹائلس (tiles) دنیا میں سب سے خوب صورت مانے جاتے ہیں- اِس لیے یہاں بہت زیادہ سیاح (tourists)آتے ہیں-
اس مسجد کے امام اسماعیل (Ismail Karakelle)سے تقریباً چار سال پہلے ترکی کے ایک سفر میں میری ملاقات ہوئی تھی- اُس وقت اُن سے زائرین کے درمیان مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمہ قرآن کے ڈسٹری بیوشن کی بات ہوئی تھی- انھوں نے اس سے دلچسپی ظاہر کی- چنانچہ میں نے اُن کو ترکی کے ایک پریس (Imak Printers) سے چھپوا کر اس کی تیس ہزار کاپیاں ان کو مسجد میں آنے والے زائرین کےدرمیان ڈسٹری بیوٹ کرنے کے لیے دی تھیں- اس کے بعد سے یہاں مسلسل قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے- اب کچھ مقامی اہلِ خیر کے تعاون سے ترکی ہی میں ہمارا انگریزی ترجمہ قرآن چھاپ کر لوگوں کو دیا جاتا ہے- اب تک اِس ترجمے کی ایک لاکھ 80 ہزار کاپیاں زائرین کے درمیان تقسیم کی جاچکی ہیں-
ترکی سے مجھے
دبئی میں ہمارے کئی ساتھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام کررہے ہیں- خاص طورپر مز سیما جلال، مسٹر جاوید خطیب، مسٹر سلیم عبد الرحمن- اِن لوگوں نے حال میں قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک پروگرام (100 Quran for 100 Hotels)بنایا تھا- اِس کے تحت دبئی کے ایک سو بڑے ہوٹلوں کے رسیپشن (reception)پر ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ ایک خوب صورت اسٹینڈ کے ساتھ رکھوایا گیا- دبئی ایک عالمی سیاحتی اور تجارتی مرکز ہے- اِس لیےیہاں دنیا کے ہر مقام سے بکثرت سیاح آتے ہیں- چناں چہ دبئی اوقاف کے تعاون سے دبئی میوزیم (متحف دبئى) میں بھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا گیا ہے- میوزیم کے ایگزٹ گیٹ (exit gate)پر ایک ریک (rack) میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا ترجمہ رکھا ہوا ہے- اِس ریک پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں: خذ ہدیتک(Take Your Gift) -میوزیم سے جاتے ہوئے سیاح عام طور پر یہاں سے اس کو لے لیتے ہیں- میوزیم کے سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ ہم ریک میں قرآن کا ترجمہ رکھتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں اس کی تمام کاپیاں ختم ہوجاتی ہیں-
اِس کے علاوہ دبئی کے کچھ اور بڑے ہوٹلوں کے کمروںمیں بھی قرآن کا ترجمہ رکھوایا گیاہے- مثلاً ناوٹل(Novotel Al Barsha) اور جُمیرا بیچ ہوٹل، وغیرہ- یہاں ہوٹل کے ہر کمرے میں ہمارے ساتھیوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوایا ہے- اِس کے علاوہ جُمیرا مسجداور البدیة مسجد میں بھی ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھاگیا ہے، تاکہ اس کو یہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان تقسیم کیا جاسکے-
دبئی کے سفر سے واپسی پر میرے پاس ترجمہ قرآن کی صرف ایک کاپی موجودتھی- میں سوچ رہا تھا کہ اس کااستعمال کیسے کیا جائے- اِس کے بعد جہاز میں ایک امریکی خاتون سے ملاقات ہوئی- وہ ایک بڑے گروپ کے ساتھ انڈیا آرہی تھیں-اُن سے دیر تک اسلام کے موضوع پر باتیں ہوتی رہیں- آخر میں میں نے ان کو قرآن کا یہ ترجمہ اور کچھ دعوتی پمفلٹس دئے- انھوں نے خوشی کے ساتھ اِس کو لیا اور کہا میں اس کو ضرور پڑھوں گی- اِس سے اندازہ ہوا کہ آدمی کو ہر وقت اپنے پاس قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر رکھنا چاہئے-کسی بھی وقت کوئی شخص مل سکتا ہے جس کو قرآن کا ترجمہ دے کر اُس تک خدا کا پیغام پہنچایا جاسکے- (ثانی اثنین خان)
واپس اوپر جائیں
دنیا کے 100 ارب پتی (billionaires) افراد کا سروے کیاگیا ہے- اِس سروے میں پایا گیا ہے کہ اکثر ارب پتی ایسے ہیں جو وراثت کے طورپر ارب پتی نہیں بنے- اُن کو کسی حکومت یا کسی ادارے کی طرف سے کوئی سپورٹ بھی نہیں ملا- انھوںنے صرف اپنی ذاتی کوشش سے اعلیٰ ترقی حاصل کی-اُن میں سے اکثر نے غریبی کی حالت سے آغاز کیا اور پھر ترقی کرتے ہوئے وہ ارب پتی بن گئے-
اِس واقعے سے فطرت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ محرومی صرف محرومی نہیں ہے، وہ آدمی کو ایک بہت بڑی چیز دیتی ہے اور وہ ہے طاقت ور محرک(incentive)- فطرت کے قانون کے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو محرومی کی حالت میں پاتا ہے، اس کے اندر آگے بڑھنے کا ایک طاقت ور جذبہ پیدا ہوجاتا ہے- یہ داخلی جذبہ اس کو مسلسل طورپر متحرک رکھتاہے، یہاں تک کہ وہ اس کو کامیابی کی اعلیٰ منزل تک پہنچا دیتا ہے:
Being deprived creates strong motivation.
کسی انسان کے لیے سب سے بڑی چیز خارجی فیور (favour) نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے سب سے بڑی چیز داخلی محرک ہے- فیور سے آدمی کے اندر قناعت (contentment) پیدا ہوتا ہے اور جس آدمی کو فیور نہ ملے، اس کے اندر عدم آسودگی (discontentment)کی نفسیات پیدا ہوتی ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ عدم آسودگی کی نفسیات آدمی کو با عمل بناتی ہے، جب کہ آسودگی کی نفسیات اس کو بے عملی میں مبتلا کردیتی ہے-
Out of the world’s 100 richest people today,
واپس اوپر جائیں
1- 13 جون 2014کو سہارن پور سی پی ایس ٹیم نے آل انڈیا ہینڈی کیپڈ ریہاب لیٹیشن پروگرام میں شرکت کی اور اس پروگرام میں شرکت کے لئے آئے ہوئے سیاستداں اور سماجی ورکروں کے درمیان قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
4- بڑی خوشی کی بات ہے کہ صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب دی ٹرو جہاد (The True Jihad) کا عربی ترجمہ 'الجہاد الحق کے نام سے شائع ہوچکا ہے، جسے سعودی عرب کے مکتبہ العبیکان نے شائع کیا ہے۔ اور انڈونیشی ترجمہ کا کام چل رہا ہے۔
5- ایم ایس رمیاہ انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی، بنگلورو میں آئی آئی ٹی کھڑگپور ، مغربی بنگال کی جانب سے روبوٹ ٹکنالوجی پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں ایک چھوٹا سا پروگرام سماج میں امن کے متعلق بھی تھا۔ آرگنائزر کی دعوت پر سینٹر فار پیس بنگلور کی جانب سے مس سارہ فاطمہ نے اس پروگرام میں اسلام میں امن اور سی پی ایس کے ذریعہ اس تعلق سے ہورہی کوششوں پر ایک لکچر دیا۔ لکچر کے بعد تمام حاضرین کو قرآن اور پیس کے موضوع پر لٹریچر دیا گیا۔ یہ پروگرام
7- بڑی خوشی کی بات ہے کہ ملیشیا میں صدر اسلامی مرکز کا قرآن طبع ہوچکا ہے۔ یہ قرآن وہاں آنے والے ٹورسٹوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ گڈورڈ بکس، دہلی کے ملیشیا ڈسٹری بیوٹر سہیم انٹرپرائزز نے اس قرآن کو ملیشیا میں طبع کیاہے۔
I am very pleased to receive this message and I can assure you it had always been my wish to convey the message of Islam to people, especially to my colleagues. I will be very happy to take up this responsibility to work for the cause of God. Initially, I can support myself financially and also hope to include more people in this work. By the Grace of God, I may also find sponsors later on. But, I really want to spend the little I have in the cause of God, so that I can find it multiplied with my Lord. By the Grace of God, everything will go smoothly. (Adama Ceesay, Taiwan)
Respected Maulana Sahab, I have been reading your literature for a long time now and it has changed my life and thinking. I have reached two conclusions:
1: The Muslim world must understand that reasons for their “zawal” are not external “sazish” but rather Muslims themselves are responsible for it.
2: The Muslim movement should work on dawah and knowledge, and leave the government to the politicians. It gives me great pleasure that your hard, intelligent and persistent work is bringing Muslims all over the world to the realization of this point that the reason for our backwardness is not “sazish” against the Muslims, rather Muslims themselves are responsible for it. I pray and I am sure that soon the Muslim ulama and intelligentsia would realize that they should not work to change the government system, rather they should confine themselves to dawah and ilm (Jan Muhammad, Canada)
I received an envelope from the Centre for Peace, Bangalore. Upon opening it, I was amazed to find the magazine, Spirit of Islam by one of my favourite scholars, Maulana Wahiduddin Khan. I have been following many of the articles of Maulana in The Times of India, and some months back I even ordered a copy of the Quran from the Centre for Peace and Spirituality. I am writing to you to appreciate the work that you all are doing. I think this is one of the best works to earn the Hereafter. I am very thankful for what you have given me and I will subscribe myself to the monthly magazine. Much thanks again for the work you are doing, and please let me know if there is anything I can do for this cause. (Asim Nabi, Aligarh, U.P. (
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.