اٹلی اور اسپین کا دعوتی سفر
گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت بڑے پیمانے پر ترجمہ قرآن کی نشر واشاعت کا کام ہورہا ہے- اِس سلسلے میں مقامی پروگراموں کے علاوہ، اسفار کے ذریعے بھی ملک اور ملک کے باہر کے مختلف مقامات پر یہ کام کیا جاتا ہے- اِس سلسلے میں نومبر 2014 میں میرایورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں کا سفر ہوا— اٹلی، اسپین، ترکی اور دبئی-
میرے اٹلی کے سفر کا محرک ایک پروگرام تھا- یہ پروگرام 17 جولائی 2014 کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) میں ہوا- اِس میں اٹلی کے اسپریچول رہنما مسٹر ماریو (Mario)کی قیادت میں اٹلی کے 90 مسیحی خواتین و حضرات شامل تھے- اِس موقع پر امن اور اسلام اور اسپریچویلٹی کے موضوع پر مولانا وحیدالدین خاں کی ایک تقریر ہوئی- پروگرام کے خاتمے پر اٹیلین گروپ کے تمام خواتین وحضرات کودعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا-لیکن مجھے یہ احساس ہوا کہ اطالوی (Italian)زبان میں ترجمہ قرآن ان کے لیے زیادہ قابلِ فہم ثابت ہوگا- اُس وقت میرے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ اردو، ہندی، انگریزی، وغیرہ کے بعد اب ضرورت ہے کہ اطالوی اور دوسری یورپی زبانوں میں بھی قرآن کا ترجمہ شائع کیا جائے-اِس سلسلے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اطالوی زبان میں قرآن کے کئی تراجم موجود ہیں- اُن میں سب سے معروف ترجمہ وہ ہے جو اٹلی کے ایک نو مسلم مسٹر حمزہ (Hamza Roberto Piccardo) نے تیار کیا ہے- چناںچہ میں نے ارادہ کیا کہ یورپ کے سفر کے دوران مترجم سے ضرور ملاقات کی جائے اور اُن سے اِس ترجمے کی اشاعت کی اجازت حاصل کرکے اس کو شائع کیا جائے-
میرے اندر اٹلی جانے کا ابتدائی محرک اپریل 2014 میں پیدا ہوا تھا- اُس وقت میں پیرس میں تھا- یہاں اٹلی کے چند مسلمانوں سے ملاقات ہوئی — ابراہیم شبانی، فواد سلیم اور عزّالدین- مسٹر ابراہیم شبانی اٹلی میں ایک ادارے کے ذمہ دار ہیں- اس ادارے کا نام یہ ہے:
المرکز الاسلامی بسیستو-میلانو(Centro Islamico di Sesto S.G. Milano)
اِسی طرح مسٹر سلیم فواد اور مسٹر عز الدین (Izzeddin Elzir)اٹلی کے ایک بڑے اسلامی ادارہ سے منسلک ہیں- اِس ادارے کا نام یہ ہے:
اتحاد الہیئات الإسلامیة فی إیطالیا
(Unione Delle Comunita Islamiche d’ Italia)
اِن حضرات سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی تھی- انھوں نے مجھے اٹلی آنے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ آپ اٹلی آکر دیکھیں، پھر ان شاء اللہ وہاں کے ماحول کو سامنے رکھ کر اٹلی میں دعوتی کام کو منظم کیا جاسکتا ہے-تاہم 2 نومبر 2014 کے اِس سفر میں جب میں اٹلی پہنچا تو اُن لوگوںسے ملاقات نہ ہوسکی-اس وقت وہ لوگ کسی پروگرام کے تحت شہر سے باہر گئے ہوئے تھے-
31 اکتوبر 2014 کو نئی دہلی سے اٹلی کے لیے میرا سفر وایا فرانس ہوا- سفر کے دوران ایک دعوتی تجربہ پیش آیا- پیرس کے ایرپورٹ پر میں نے ائرفرانس کی ایک خاتون اسٹاف کو ریلٹی آف لائف (Reality of Life)کی ایک کاپی پیش کی- تھوڑی دیر کے بعد مذکورہ خاتون میرے پاس آئیں- اُس وقت ریلٹی آف لائف ان کے ہاتھ میں تھی- انھوں نے اس بک لٹ کا غالباً ایک حصہ پڑھ لیا تھا- انھوں نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے اِن الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا:
This is what I actually wanted to read. I liked it so much that I will cherish this book for the whole of my life.
پیرس سے مجھے اٹلی کے شہر میلان (Milan) کے لیے روانہ ہونا تھا- یہاں مجھے مسٹر حمزہ سے ملنا تھا- تاہم میلان جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے خاندان میں کسی شخص کی وفات ہوگئی ہے- اس کی وجہ سے وہ شہر میں نہیں ہیں، لہذا اِس وقت اُن سے ملاقات نہیں ہوسکتی- چنانچہ ان کے بیٹے مسٹر داؤد (Davide Piccardo) سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ قرآن کے اِس ترجمے کی عمومی اشاعت کے حق میں نہیں ہیں-چنانچہ گفتگو کے باوجود ہمارے یہاں سے قرآن کے اٹیلین ترجمے کی اشاعت کی اجازت نہ مل سکی-
تاہم میلان کے اِس سفر کا ایک فائدہ یہ ہواکہ یہاں کے ایک اسلامک سنٹر (مریم مسجد) کو دیکھنے کا اتفاق ہوا- اِس سنٹر کی مسجد میں ایک عرب مسٹر ابراہیم امام ہیں- ان سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مسجد کے مختلف شعبے دکھائے- میں نے کہا کہ میں اطالوی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرانا چاہتا ہوں- انھوں نے کہا کہ یہاں ایک مقامی خاتون مترجم عائشہ روڈولفی (Aicha Rodolfi) ہیں- اگر آپ اُن سے رابطہ کریں تو شاید اِس سلسلے میں وہ آپ کی رہنمائی کرسکیں-
چناں چہ میں نے محترمہ عائشہ روڈولفی سے رابطہ کرکے اُن سے ملاقات کی- ان سے ملنے کے لئے میں اٹلی کے دوسرے شہر (Castelfranco Emilia)گیا- وہ ایک نو مسلم خاتون ہیں-انھوں نے بتایا کہ پہلے وہ ایک فیشن ماڈل تھیں- بعد کو وہ قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوئیں اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا- اس کے بعد ان کی والدہ نے بھی اسلام قبول کرلیا-
عائشہ روڈولفی کے گھر پر ان کی والدہ اور مسٹر حسین سے ملاقات ہوئی- گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہ لوگ یہاں بڑے پیمانے پر دعوہ ورک کررہے ہیں- انھوں نے بتایا کہ وہ اسٹریٹ دعوہ (Street Dawah) کے طریقے پر دعوت کا کام کرتے ہیں- اِس سلسلے میں وہ خاص طورپر تعارفِ اسلام کے موضوع پر سعودی عرب سے چھپے ہوئے پمفلٹس لوگوں کو دیتے ہیں- عائشہ روڈولفی نے بتایا کہ اِن پمفلٹس میں عام طورپر شرک وبدعات، توحید اور حلال وحرام کی باتیں بیان کی گئی ہیں- تاہم اِن کتابوں کا اسلوب یہاں کی جدید نسل کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرتا- انھوں نے کہا کہ اگر اس سے بہتر اسلوب میں کوئی لٹریچر ہم کو مل جائے تو ہم اس کو پھیلائیں گے-
عائشہ روڈولفی کو میں نے اپنے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں — ترجمہ قرآن، پمفلٹس، وغیرہ دکھائیں- انھوں نے اِس کو دیکھا اور پسندکیا- انھوں نے کہا کہ اس لٹریچر کا ہم اطالوی زبان میں ترجمہ کریں گے -آپ اس کو انڈیا سے شائع کرکے ہمیں بھیج دیں، تاکہ ہم یہاں بڑے پیمانے پر لوگوں تک اس کو پہنچا سکیں- میں نے کہا ضرور،آپ اس کا ترجمہ کریں، یہی ہمارا اصل مقصد ہے- انھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ہم ’’اسٹریٹ دعوہ‘‘ کے تحت اٹلی کے ہر شہر میں اِس لٹریچر کو پھیلانے کی کوشش کریں گے-
اٹلی سے روانہ ہوکر 3 نومبر 2014کو مجھے اسپین جانا تھا- اسپین کا سفر بھی دراصل قرآن کے اسپینی ترجمے کی اشاعت کے لیے تھا- اِس کا اصل محرک یہ تھا کہ خواجہ کلیم الدین صاحب (امریکا) کافی عرصے سے مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکا میں، خاص طورپر ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں قرآن کے اسپینش ترجمے کی بہت ضرورت ہے، کیوں کہ اسپین کے علاوہ ساؤتھ امریکا کے ملکوں میں بھی اسپینش زبان بولی جاتی ہے-مثلاً میکسکو، ارجنٹائنا، کولمبیا، پناما، کیوبا، چلی، پیرو، وینزولا ، وغیرہ میں عام طور پر اسپینش (Spanish) زبان بولی جاتی ہے- کلیم الدین صاحب کا کہنا تھا کہ اگر اسپینش زبان میں قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر تیار ہوجائے تو ساؤتھ امریکا میں بڑے پیمانے پر اس کے ذریعے دعوہ ورک کیا جاسکتا ہے-
جب میں نے اِس سلسلے میں جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ اسپینش زبان میں قرآن کے چارترجمے موجود ہیں- ان میں سب سے معروف ترجمہ وہ ہے جس کو غرناطہ(Granada)کے مسٹر عبدالغنی (Abdul Ghani Melara Navio) نے تیار کیا ہے- یہ ترجمہ شاہ فہد قرآن کامپلیکس ،مدینہ سے بھی شائع ہوچکا ہے- کافی تلاش کے بعد غرناطہ کے مسٹر لقمان نیٹو (Luqman Nieto) کے ذریعے مترجم موصوف کا نمبر معلوم ہوا-چناں چہ اُن سے ملاقات کے لیے میں نے غرناطہ جانے کا ارادہ کرلیا-
چنانچہ پہلے میں اٹلی سے اسپین کے شہر مالقہ (Malaga) گیا- یہ غرناطہ سے قریب ایک تاریخی شہر ہے- یہاں انٹرنیشنل ائرپورٹ بھی ہے- مالقہ بھی اسلامی سلطنت کا حصہ تھا، اس لئے یہاں مسلم دور کی کافی عمارتیں موجود ہیں- مالقہ سے غرناطہ کے لئے ائرپورٹ سے ڈائریکٹ بس جاتی ہے- چناں چہ میں یہاں سے بذریعہ بس تقریباً ڈھائی گھنٹے میں غرناطہ پہنچ گیا- سفر کے دوران ہر طرف خوب صورت مناظر دکھائی دے رہے تھے- دریا، پہاڑ، سبزہ، وغیرہ- یہاں کی مٹی سرخ رنگ کی تھی- اس میں ہر طرف دور تک پھیلے ہوئے زیتون کے سرسبز وشاداب باغات ایک عجیب منظر پیش کررہے تھے-
غرناطہ پہنچ کر میں نے مسٹر عبد الغنی کو فون کیا- وہ میرے ہوٹل کے قریب ہی رہتے ہیں- چنانچہ بیس منٹ کے اندر وہ ہوٹل پہنچ گئے- تقریباً دو گھنٹے کی گفتگو کے بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر آئے اور اُس پر مختلف چیزیں مجھ کو دکھانے لگے- مثلاً انھوں نے اپنے اسپینش ترجمہ قرآن پر تفسیری نوٹس لکھے ہیں، وہ انھوں نے مجھے دکھائے- مسٹر عبد الغنی عربی زبان وادب کے اچھے اسکالر ہیں- اِس وقت ان کی عمر تقریباً 70 سال ہوچکی ہے- انھوں نے بتایا کہ وہ غرناطہ کے ایک مسیحی خاندان میں پیداہوئے- تاہم اللہ کی توفیق سے 1979 میں انھوں نے اسلام قبول کر لیا-انھوںنے بتایا کہ 1970 کے زمانے میں یہاں مراکو سے ایک مسلم صوفی آئے تھے- اُن کی دعوت وتبلیغ سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں یہاں کے مسیحی لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا- انھوں نے بتایا کہ میںبھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہوں جو اُس وقت مذکورہ صوفی کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام میں داخل ہوئےتھے-
دیر تک اُن سے امن اور جہاد وغیرہ کے موضوع پر بات ہوتی رہی- گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ ہماری امن اور جہاد کی آئڈیالوجی سے اتفاق نہیں رکھتے- گفتگو کے دوران ایک بات انھوں نے یہ کہی کہ قرآن کو مفت نہیں دینا چاہئے- اِس سے قرآن کی اہمیت لوگوں کی نظر میں کم ہوجاتی ہے- اِسی طرح گفتگو کے دوران غیر مسلموں کے لیے وہ بار بار ’’کفار‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے- میں نے کہا کہ غیر مسلموں کے لیے کفار کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں- غیر مسلم ہمارے مدعو ہیں- میں نے کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان -اِس اعتبار سے اُن کے لیے کفار کے بجائے ’’مدعو‘‘ کا لفظ استعمال کرنا درست ہوگا-میں نے ان سے اپنے یہاں سے قرآن کے اسپینش ترجمے کی اشاعت کی اجازت مانگی، اور اس کے لئے بطور رائلٹی ان کو ایک خطیر رقم کی پیش کش بھی کی، مگر وہ اس ;کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے-
آخر میں میں نے اُن کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا- مثلاً قرآن کا انگریزی ترجمہ، تذکیر القرآن (انگریزی) اور پرافٹ آف پیس، وغیرہ- اِس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیااور کہا کہ مولانا وحید الدین خاں کا یہ ترجمہ میرے پاس پہلے سے موجود ہے-پچھلے سال ہم نے غرناطہ کی مسجد کے لئے قرآن اور دوسری تعارفی کتابیں بھیجی تھیں جو کہ وہاں تقسیم کی گئیں-
غرناطہ کے ایک اور ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا- اس ادارے کا نام یہ ہے:
وقف الأندلس للتربیة والتعلیم (Fundación Educativa al-Andalus)
اِس ادارے کے ذمے دارمسٹر مضطر (M. Mujtar Medinilla) ہیں- وہ ایک اسپینی مسلم ہیں-ایک جرمن مسلمان مسٹر احمد (Ahmad Gross)کے ساتھ مل کر وہ اِس ادارے کو چلا رہے ہیں-اِس ادارے کے تحت تعلیم وتربیت کے علاوہ دعوتی کام بھی ہوتا ہے-یہ لوگ وہاں ایک بڑا اسلامی اسکول بھی قائم کرنے والے ہیں-
مسٹر ادریس (Idris Medinilla) مسٹر مضطر کے بیٹے ہیں- وہ مجھ کو غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں لے گئے- اس کا نام یہ ہے:
مرکز الدراسات الإسلامیة(Centro de Estudios Islámicos)
یہ غرناطہ میں ایک بڑا دعوتی مرکز ہے- یہاں لوگ کثرت سے آکر اسلام قبول کرتے ہیں- اِسی طرح سیاح، خاص طور پر مسیحی حضرات بڑی تعداد میں اسلام کو جاننے کے لئے یہاں آتے رہتے ہیں- یہاں ایک بڑی لائبریری ہے- اِسی طرح یہاں ایک وسیع اور خوبصورت لیکچر ہال بھی ہے-اس ہال میں اسلام کے مختلف موضوعات پر پروگرام ہوتے رہتے ہیں-
غرناطہ میں مولانا وحید الدین خاں کے ترجمہ قرآن کے اسپینش ایڈیشن کی تیاری کے متعلق مسٹر لقمان نیٹو (مترجم اسپینش) سے بات ہوئی- پہلے انھوںنے کہا کہ میں اسپینش زبان میں اس کا ترجمہ کرنے کی کوشش کروں گا- تاہم بعد کو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ قرآن کا ترجمہ آسان کام نہیں ہے، یہ ایک بہت بڑی ذمے داری کا کام ہے- میں اپنے آپ کو اِس کا اہل نہیں پاتا- اِس لیے میں اِس کام کے لیے معذرت خواہ ہوں-اسپین میں جن اداروں میں جانے کا اتفاق ہوا، اُن میں سے ایک مقامی اخبار کا آفس تھا- یہاں سے اسپینش زبان میں ایک پندرہ روزہ اخبار نکلتاہے- اس کا نام یہ ہے:
Islam Hoy (Islam Today)
یہاں اخبار کے ایڈیٹر سے بھی ملاقات ہوئی- اِس اخبار کے کئی ایڈیشن دیکھے- معلوم ہوا کہ یہ سب مسلم قومی ذہن کی نمائندگی کررہے ہیں- اِسی طرح یہاںمدرسہ ایڈیشن (Madrasa Edition) کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ ہے- اس کے انچارج مذکورہ اسپینی نوجوان مسٹر ادریس (Idris Medinilla)ہیں-مسٹر ادریس سے دعوتی موضوع پر بات ہوئی- انھوںنے دعوتی کام میں اپنی دلچسپی ظاہر کی- انھوںنے کہا کہ آپ ہمیں اسپینش زبان میں اپنا لٹریچر دیجئے- ان شاء اللہ ہم اس کو یہاں کے مقامی لوگوں کے درمیان پھیلائیں گے-
4 نومبر 2014 کو غرناطہ میں الحمراء (Alhambra Palace)دیکھنے کا پروگرام تھا- چناں چہ اس کا پیشگی ٹکٹ لے کر میں وہاں گیا- غرناطہ (Granada) اسپین کے جنوب میں واقع ایک قدیم تاریخی شہر ہے- غرناطہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں موجود قصر الحمراء ہے- 1492 تک غرناطہ مسلم اسپین کی آخری ریاست تھا- مسلم دورِ حکومت میںالحمراء قلعہ اور محل دونوں تھا، جس طرح دہلی کا لال قلعہ ہے- الحمراء 889 اور 1358 عیسوی کے دوران مختلف مراحل میں بنایا گیا- الحمراء آج بھی اسپین میں زائرین کا مرکزِ توجہ بنا ہوا ہے- الحمراء اسپین کا سب سے بڑا سیاحتی مقام ہے- الحمراء صرف ایک محل نہیں ہے، وہ نہایت وسیع باغات کے درمیان ایک پہاڑ پر واقع شاہی اقامت گاہ ہے- الحمراء کا رقبہ 740 میٹر لمبا اور تقریباً 200 میٹر چوڑا ہے-
الحمراء غیر معمولی طورپر ایک بے حد خوب صورت مقام ہے-الحمراء کو مکمل طورپر دیکھنے کے لیے ایک پورا دن مطلوب تھا، مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے میں جلد ہی اس کے ایک حصے کو دیکھ کر واپس آگیا- یہاں زائرین کو میں نے دعوتی لٹریچر دیا-
غرناطہ کے ایک اور سینٹر میں جانے کا اتفاق ہوا- یہ ادارہ الحمراء کے سامنے ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے- یہاں ایک خوب صورت مسجد ہے- اس سینٹر کانام یہ ہے :
Grand Mosque of Granada
یہ مسجد یہاں کے نو مسلم حضرات نے تقریباً تیس سال پہلے تعمیر کی تھی-یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی - سینٹر میںکچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اسپین میں دعوتی کام کرتے ہیں- معلوم ہوا کہ یہاں روزانہ تقریباً 500 زائرین آتے ہیں- یہاں سے الحمراء کا منظر نہایت دلکش نظر آتاہے- یہاں ایک مکتبہ (bookshop) بھی ہے- اس میں تعارفِ اسلام کے موضوع پر کتابیں موجود ہیں- یہاں سینٹر کی مسجد کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو اپنے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam?) دیا-ان لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہمیں قرآن کے تراجم اور کتابچے بھیجیں گے تو ہم ان کو یہاں سیاحوں (tourists)کے درمیان پھیلائیں گے-
غرناطہ سے فارغ ہوکر میں قرطبہ کے لیے روانہ ہوا- یہ ٹرین کے ذریعے تقریباً دو گھنٹے کا سفر تھا- قرطبہ (Cordoba) اسپین کاایک قدیم شہر ہے- 711 عیسوی میں مسلمانوں نے اس کو فتح کیا اور 756 میں اس کو اپنا دار السلطنت بنایا- اس کے بعد پندرھویں صدی عیسوی تک وہ مسلم اسپین کا دارالسلطنت بنا رہا- دسویں صدی میں قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا شہر تھا- اس کی حیثیت ایک قسم کے عالمی کلچرل سنٹر کی ہوگئی تھی-
قرطبہ میں اسپین کے مسلم دورِ حکومت (711-1492) کی بہت سی یادگاریں پائی جاتی ہیں- اِن میں مسجد قرطبہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے- یہ مسجد بارہ ہزار مربع میٹر کے رقبے میں واقع ہے- اِس میںتقریباً بارہ سو ستون ہیں- اب اس کوچرچ میں تبدیل کردیاگیا ہے-
مسجد قرطبہ کے وسیع صحن میں ہر طرف خوب صورت فوارے جاری تھے اور مختلف قسم کے درخت لگے ہوئے تھے- اِن درختوں میں پھل لٹکے ہوئے تھے-
مسلم اقتدار کے خاتمہ کے بعد مسجد قرطبہ کو عیسائیوں نے چرچ میں تبدیل کردیا ہے- اس معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں ایک مسیحی پیشوا سینٹ ونسنٹ (Saint Vincent Ferrer) گزرا ہے- مسیحیوں نے ا س کے نام پر قرطبہ میں دریا کے کنارے ایک چرچ تعمیر کیا تھا- اس علاقہ پر سیاسی قبضہ کے بعد مسلمانوں نے عین اسی چرچ کی جگہ مسجدبنادی- اس طرح اس مسجد کے ساتھ غیرضروری طورپر نزاع کی حالت قائم ہوگئی- کہا جاتا ہے کہ بعد کو 786 عیسوی میں سلطان عبد الرحمن الداخل نے عیسائیوں کو راضی کرکے اس جگہ کو خرید لیا اور وہاں مزید توسیع کے ساتھ عظیم مسجد قرطبہ کی تعمیر کی- اس تعمیر پر دو سال میں 80 ہزار دینار خرچ ہوئے- عیسائیوں کو جب دوبارہ سیاسی غلبہ ملا تو انھوں نے مسجد کے توسیعی حصہ کو چھوڑ دیا-تاہم سینٹ ونسنٹ چرچ کی ابتدائی جگہ کو دوبارہ انھوں نے گرجا میں تبدیل کردیا-
مسجد قرطبہ کے قریب ایک اسلامی سینٹر تھا-اس میں مسجد کے علاوہ ایک ادارہ بھی قائم ہے- میں اس ادارے میں گیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت یہاں ترکی حکومت کے تعاون سے ریسٹوریشن (restoration) کا کام چل رہا ہے، اس وجہ سے یہ ادارہ فی الحال بند ہے- یہ ایک بڑا ادارہ تھا جس میں مسجد اور اسلامک سینٹرقائم ہے- اس ادارے کا پورا نام یہ ہے:
مسجد الأندلسیین (Mezquita De Los Andaluces)
الجامعة الإسلامیة الدولیة ابن رشد-الأندلس
(Universidad Islamica Internacional Averroes De Al-Andalus)
قرطبہ میں ایک اور اسلامی سینٹر ہے- اس سینٹر کو اسپین کے ایک مسلمان مسٹرمحمدحنیف (Hanif Esccudero Uribe) کے والد نے تقریباً 25 سال پہلے قائم کیا تھا- اس ادارے میں کئی کام ہوتے ہیں- خاص طورپر یہاں کھانے پینے کی چیزوں کے لئے حلال سرٹیفکیشن (Halal Certification)جاری کیا جاتا ہے- میں اس ادارے میں گیاتو یہاں اسٹاف کے ایک ممبر مسٹر سعید (Said Bouzraal) سے ملاقات ہوئی-مسٹر سعید اس ادارے کے اشاعتی شعبے میں ایڈیٹرہیں- یہاں سے اسپینش زبان میں کئی اہم کتابیںچھپی ہیں- یہاں سے معروف مترجم اور مفسر محمد اسد کا اسپینش ترجمہ قرآن بھی شائع ہواہے- میں نے اپنے یہاں سے اس کی اشاعت کی اجازت چاہی، مگر اس کی اجازت نہ مل سکی-
مسٹر حنیف نے بتایا کہ ہمارے مرکز میں اسپین کے مختلف شہروں کے مسلمان آتے ہیں-وہ یہاں کا دعوتی لٹریچرلے کر دعوتی کام کرتے ہیں-میں نے اپنے یہاں سے چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹس مسٹر حنیف کو دیا- انھوں نے اس کو پسند کیا اور کہا کہ آپ ہم کو یہ لٹریچر مزید بھیجیں، تاکہ ہم اس کو یہاں دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرسکیں-
قرطبہ پہنچ کر مجھ کو قاضی منذر القرطبی کا ایک واقعہ یاد آگیا- اسپین کے سلطان عبد الرحمن ناصر نے جب قرطبہ میں الزہراء کا محل تعمیر کرلیا تو ایک دن وہ اپنے سونے کے تخت پر بیٹھا- دربار میں بڑے بڑے لوگ جمع تھے-سلطان نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا تم نے سنا ہے کہ کبھی کسی نے ایسا عالی شان محل بنایا ہو- درباریوں نے خوب تعریف کی، مگر قاضی منذر سرجھکائے بیٹھے رہے-آخر میں سلطان نے قاضی منذر سے بولنے کے لیے کہا- قاضی منذر روپڑے- انھوں نے کہا: خدا کی قسم، میرا یہ گمان نہیں تھا کہ شیطان تمھارے اوپر اتنا زیادہ قابو پالے گا کہ وہ تم کو کافروں کے درجہ تک پہنچا دے- سلطان نے کہا کہ دیکھئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کیسے آپ مجھے کافروں کے درجہ تک پہنچا رہے ہیں- اس کے بعد قاضی منذر نے قرآن سے سورہ الزخرف کی آیات 33-35 پڑھیں- ان آیتوں کو سن کر سلطان شدید طورپر متاثر ہوا اور رونے لگا- اس نے قاضی منذر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو بہتر جزا عطا فرمائے اور مسلمانوں میں آپ جیسے بہت لوگ پیدا کرے-
قرطبہ کے بعد مجھے میڈرڈ (Madrid) جانا تھا-یہ سفر میں نے ٹرین کے ذریعہ طے کیا-یہ ایک تیز رفتار ٹرین تھی جس کے ذریعے میں تقریباً چارگھنٹے میں قرطبہ سے میڈرڈ پہنچ گیا-میڈرڈ میں سعودی عرب کے تعاون سے ایک عظیم الشان مسجد اور اسلامی مرکز تعمیر کیا گیا ہے- اس کانام یہ ہے:
المرکز الثقافی الإسلامی بمدرید(Centro Cultural Islamico De Madrid)
یہاں میں نے ظہر کی نماز ادا کی- اس سینٹرمیں اسلام کے مختلف پہلوؤں، مثلاً سیرتِ رسول وغیرہ کے موضوع پر ایک مستقل نمائش (Exhibition) کا اہتمام کیا گیا ہے- اِس سینٹر کو دیکھنے کے لیے کثرت سے زائرین یہاں آتے ہیں- یہاں زائرین کے درمیان بڑے پیمانے پر دعوتی کام کیا جاتا ہے-اسی طرح دعوتی مقصد کے تحت ’’ڈسکور اسلام‘‘ کے عنوان سے یہاں ایک پروگرام چلایا جاتاہے- اس کا نام یہ ہے:
اکتشف الإسلام (Descubra El Islam)
اس سینٹر کے عرب ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی- میں نے ان کو الاسلام یتحدی اور اپنے یہاں کاچھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی پمفلٹ What is Islam کا اسپینش ایڈیشن (¿Qué es el Islam) دیا-اس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا-
7 نومبر 2014کو اسپین سے روانہ ہو کر مجھ کو ترکی جانا تھا- یہاں 8-10 نومبر کے درمیان ایک بک فیر (Istanbul International Book Fair)ہورہا تھا- یہ ایک بہت بڑا بک فیر تھا- یہاں ترکی کے کئی بڑے پبلشرز اور پبلشنگ گروپ سے ملاقات ہوئی — تماس (Timas)، کائنات(Kaynak)، نسیل(Nesil)اور تسارم (Tasarim) ،وغیرہ-
اِن لوگوں کو میں نے مولانا وحید الدین خاں کا انگریزی ترجمہ قرآن (پاکٹ سائز( دکھایا - مسٹر راشد(Rasit Tibet)نے اِس کو بہت پسند کیا- انھوں نے کہا کہ ترکی زبان میں اسی طرح کا ترجمہ قرآن شائع کرنے کی ضرورت ہے- انھوں نے کہا کہ یہاں بھی عام طورپر یہی رواج ہے کہ لوگ صرف قرآن کا عربی متن پڑھ لیتے ہیں،قرآن کو سمجھ کر اس کی تلاوت کرنے سے عموماً لوگ غافل ہیں- اِس لیے اگر اِس طرح کا ایک پاکٹ سائز ترجمہ قرآن یہاں کی مقامی زبان میں شائع کردیا جائے تو وہ فہم قرآن کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا-
یہاں ترکی کے ایک اور پبلشر (Bahar Publication) کےڈائریکٹر مسٹر محمد (Mehmet Baspehlivan)سے ملاقات ہوئی- انھوں نے مولانا وحید الدین خاں کی ایک کتاب ترکی زبان میں شائع کی ہے-اِس کے علاوہ، وہ تذکیر القرآن کا ترکی ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہتے ہیں- ترکی کے سفر (مئی 2012) میں مولانا اُن کے گھر بھی گئے تھے اور وہاں ایک مختصر نشست ہوئی تھی-
اِس سفر میں استانبول (ترکی) کی مسجد رستم پاشا (Rustem Pasha Mosque) کے امام سے ملاقات ہوئی- مسجد رستم پاشا ایک تاریخی مسجد ہے- اِس مسجد کی تعمیر سولھویں صدی عیسوی میں ہوئی تھی- اِس مسجد کی تعمیر میں استعمال کیے گئے ٹائلس (tiles) دنیا میں سب سے خوب صورت مانے جاتے ہیں- اِس لیے یہاں بہت زیادہ سیاح (tourists)آتے ہیں-
اس مسجد کے امام اسماعیل (Ismail Karakelle)سے تقریباً چار سال پہلے ترکی کے ایک سفر میں میری ملاقات ہوئی تھی- اُس وقت اُن سے زائرین کے درمیان مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمہ قرآن کے ڈسٹری بیوشن کی بات ہوئی تھی- انھوں نے اس سے دلچسپی ظاہر کی- چنانچہ میں نے اُن کو ترکی کے ایک پریس (Imak Printers) سے چھپوا کر اس کی تیس ہزار کاپیاں ان کو مسجد میں آنے والے زائرین کےدرمیان ڈسٹری بیوٹ کرنے کے لیے دی تھیں- اس کے بعد سے یہاں مسلسل قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے- اب کچھ مقامی اہلِ خیر کے تعاون سے ترکی ہی میں ہمارا انگریزی ترجمہ قرآن چھاپ کر لوگوں کو دیا جاتا ہے- اب تک اِس ترجمے کی ایک لاکھ 80 ہزار کاپیاں زائرین کے درمیان تقسیم کی جاچکی ہیں-
ترکی سے مجھے 11 نومبر 2014 کو دبئی جانا تھا- یہاں شارجہ میں ایک بک فیر (Sharjah International Book Fair) تھا- یہاں پرہمارا بھی اسٹال تھا جس کو بک لینڈ کے لوگ مینج کررہے تھے- یہ ایک بہت بڑا بک فیر تھا- اِس میں کثرت سے عالمِ عرب کے تقریباً تمام بڑے پبلشرز آتے ہیں- اِس کے علاوہ یہاں انڈین پبلشرز بھی بہت بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں- تاہم یہاں انڈین پبلشرز کے اسٹال پر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے- خاص طورپر ساؤتھ انڈیا کے لوگ بہت زیادہ یہاں کے اسٹال پروزٹ کرتے ہیں اور بڑے پیمانے پر یہاں سے کتابیں خریدتے ہیں- اِس موقع پر وزٹرس کے درمیان بھی ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے قرآن کے انگریزی ترجمے اور دعوتی پمفلٹس تقسیم کیے گئے- اس کو لوگوں نے شوق سے لیا-
دبئی میں ہمارے کئی ساتھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام کررہے ہیں- خاص طورپر مز سیما جلال، مسٹر جاوید خطیب، مسٹر سلیم عبد الرحمن- اِن لوگوں نے حال میں قرآن ڈسٹری بیوشن کا ایک پروگرام (100 Quran for 100 Hotels)بنایا تھا- اِس کے تحت دبئی کے ایک سو بڑے ہوٹلوں کے رسیپشن (reception)پر ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ ایک خوب صورت اسٹینڈ کے ساتھ رکھوایا گیا- دبئی ایک عالمی سیاحتی اور تجارتی مرکز ہے- اِس لیےیہاں دنیا کے ہر مقام سے بکثرت سیاح آتے ہیں- چناں چہ دبئی اوقاف کے تعاون سے دبئی میوزیم (متحف دبئى) میں بھی قرآن ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا گیا ہے- میوزیم کے ایگزٹ گیٹ (exit gate)پر ایک ریک (rack) میں ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا ترجمہ رکھا ہوا ہے- اِس ریک پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں: خذ ہدیتک(Take Your Gift) -میوزیم سے جاتے ہوئے سیاح عام طور پر یہاں سے اس کو لے لیتے ہیں- میوزیم کے سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ ہم ریک میں قرآن کا ترجمہ رکھتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں اس کی تمام کاپیاں ختم ہوجاتی ہیں-
اِس کے علاوہ دبئی کے کچھ اور بڑے ہوٹلوں کے کمروںمیں بھی قرآن کا ترجمہ رکھوایا گیاہے- مثلاً ناوٹل(Novotel Al Barsha) اور جُمیرا بیچ ہوٹل، وغیرہ- یہاں ہوٹل کے ہر کمرے میں ہمارے ساتھیوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھوایا ہے- اِس کے علاوہ جُمیرا مسجداور البدیة مسجد میں بھی ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ رکھاگیا ہے، تاکہ اس کو یہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان تقسیم کیا جاسکے-
دبئی کے سفر سے واپسی پر میرے پاس ترجمہ قرآن کی صرف ایک کاپی موجودتھی- میں سوچ رہا تھا کہ اس کااستعمال کیسے کیا جائے- اِس کے بعد جہاز میں ایک امریکی خاتون سے ملاقات ہوئی- وہ ایک بڑے گروپ کے ساتھ انڈیا آرہی تھیں-اُن سے دیر تک اسلام کے موضوع پر باتیں ہوتی رہیں- آخر میں میں نے ان کو قرآن کا یہ ترجمہ اور کچھ دعوتی پمفلٹس دئے- انھوں نے خوشی کے ساتھ اِس کو لیا اور کہا میں اس کو ضرور پڑھوں گی- اِس سے اندازہ ہوا کہ آدمی کو ہر وقت اپنے پاس قرآن کا ترجمہ اور دعوتی لٹریچر رکھنا چاہئے-کسی بھی وقت کوئی شخص مل سکتا ہے جس کو قرآن کا ترجمہ دے کر اُس تک خدا کا پیغام پہنچایا جاسکے- (ثانی اثنین خان)
واپس اوپر جائیں