ایمان پتھر کی طرح کوئی جامد چیز نہیں- ایمان ایک زندہ حقیقت ہے- ایمان میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے- اِس حقیقت کو قرآن میں ازدیادِ ایمان (
اِس کی ایک مثال سورج گرہن اور چاند گرہن کا معاملہ ہے- ہزاروں سال پہلے کے زمانے میں جب ایک انسان اِس ظاہرہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا تو اُس وقت بھی یہ ظاہرہ اس کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنتا تھا- وہ سوچتا تھا کہ اللہ کتنا زیادہ قدرت والا ہے- وہ روشن اجسام (سورج، چاند) پر اندھیرے کا پردہ ڈال دیتا ہے- اور پھر اندھیرے کا پردہ ہٹا کر، اُس کو دوبارہ روشن کردیتا ہے- یہ بھی اضافۂ ایمان کا واقعہ ہے- یہ واقعہ بھی صاحب ایمان کے لیے یقینی طورپر اضافۂ ایمان کا ذریعہ بنا ہوا تھا-موجودہ زمانے میں دور بین (telescope) کی ایجاد نے اضافۂ ایمان کے معاملے کو بہت زیادہ بڑھا دیا- آج جب دور بین کی مدد سے سورج گرہن اور چاند گرہن کا مطالعہ کیاگیا، تو معلوم ہوا کہ یہ ظاہرہ اللہ کی عظیم قدرت کا انوکھا نشان ہے- اب دور بینی مشاہدے کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ گرہن اُس وقت ہوتا ہے، جب تین مختلف سائز کے متحرک اجسام وسیع خلا میں، ایک بے حدمتناسب دوری کے ساتھ ایک وقتِ خاص میں ایک سیدھ میں آجائیں:
Alignment of three moving bodies of different sizes at a particular point in time, in the vast space.
ازدیادِ ایمان کی نعمت اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے، جس کے اندر مسلسل تدبر کے ذریعہ تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوگئی ہو-
واپس اوپر جائیں
ستمبر 2014 میں کشمیرمیں ایک تباہ کن سیلاب آیا- ایسے تباہ کن سیلاب کی مثال کشمیر کی سوسال کی تاریخ میں نہیں ملتی- اس تباہی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی، یعنی وہ انسان کی طرف سے نہ تھی، بلکہ وہ براہِ راست خدا کی طرف سے تھی- ایسی حالت میں کشمیریوں کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے خدا کی کتاب قرآن کا مطالعہ کریں-
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کا سیلاب سادہ طور پر ایک سیلاب نہ تھا، بلکہ وہ ایک خدائی انتباہ (Divine warning) تھا- وہ براہِ راست خدا کی طرف سے ایک پیغام تھا- کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کو اسی حیثیت سے دیکھیں- وہ کشمیر کے سیلاب کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ایک اصلاحی پیغام قرار دیں-
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(
اس حیثیت سے قرآن کا مطالعہ کیجئے تو اس معاملے کی ایک نظیر حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے- حضرت یونس آٹھویں صدی قبل مسیح میں پیغمبر کی حیثیت سے نینویٰ (عراق) میں آئے- آپ نے یہاں کے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلایا- ابتدائی طورپر قوم نے آپ کے پیغام کو نہیں مانا-
قرآن کے الفاظ میں حضرت یونس غضبناک (
حضرت یونس کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، بلا شبہہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی، اور کشمیریوں کے ساتھ ستمبر 2014 میں جو کچھ پیش آیا، وہ بھی بلا شبہہ ایک فطری آفت (natural calamity) تھی- اس مشابہت سے معلوم ہوتاہے کہ کشمیریوں کے لیے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے میں سبق ہے- کشمیر کے لوگوں کو حضرت یونس کے واقعے پر غور کرنا چاہئے، اور اس کی روشنی میں اپنے لیے عمل کا نیا منصوبہ بنانا چاہئے-
کشمیر کے معاملے پر اس حیثیت سے غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یونس کی مثال براہِ راست طور پر کشمیریوں کے اوپر چسپاں ہوتی ہے- اور جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے، قرآن میں مذکور ہر پیغمبر کا نمونہ مسلمانوں کے لیے یکساں طورپر قابلِ اتباع ہے (
حضرت یونس کے معاملے کی حقیقت یہ تھی کہ اہلِ نینویٰ کے لیے حضرت یونس کی دعوتی کوشش ابھی اللہ کے نزدیک تکمیل کی حد تک نہیں پہنچی تھی، مگر حضرت یونس نے ایسا کیا کہ اللہ کی طرف سے حکم ملنے سے پہلے نینویٰ سے ہجرت کرکے باہر چلے گئے- یہی وجہ تھی جس کی بنا پر ان کے ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آیا-
اہلِ ایمان کی یہ منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام قوموں تک اللہ کا دین پہنچائیں- دعوت ایک پرامن جدوجہد ہے، جس کو خیر خواہی کے جذبے کے تحت اہلِ ایمان کو انجام دینا ہے- کشمیر کے مسلمانوں نے اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کیا- 1947 کے بعد جب کشمیر میں نیا دور آیا تو کشمیر کے مسلمانوں نے پر امن دعوتی جدوجہد کے بجائے پُر شور سیاسی جدوجہد (political activism) شروع کردیا- کشمیریوں کی یہی وہ غلطی ہے جس کی بنا پر خدا نے ستمبر 2014 کی فطری آفت (natural calamity) ان کے اوپر بھیج دی- یہ فطری آفت بلاشبہہ کشمیریوں کے لیے ایک خدائی انتباہ (divine warning) تھی-
حضرت یونس سے دعوت کی ذمہ داری میں جزئی کمی واقع ہوئی تھی، اس کے نتیجے میں وہ سمندری طوفان کا شکار ہوگئے- کشمیریوں نے اپنی دعوتی ذمہ داری کے معاملے میں کامل غفلت کا ارتکاب کیا ہے، ایسی حالت میں ان کے لئے خدا کی پکڑ سے بچنا ممکن نہ تھا-
کشمیر میں دعوت کے بہت زیادہ مواقع ہیں- کشمیریوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے دعوت کے ان مواقع کو استعمال نہیں کیا- اب وقت آگیا ہے کہ وہ اجتماعی توبہ (
دعوت الی اللہ ایک لازمی فریضہ ہے، دعوت الی اللہ ہر مسلمان کا اصل منصبی مشن ہے- دعوت الی اللہ یعنی اللہ کا پیغام تمام لوگوں تک پہنچانا، ایک ایسا کام ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں مطلوب ہے- مسلمان اگر دعوت الی اللہ کا کام نہ کریں تو وہ اللہ کی پکڑ سے بچنے والے نہیں-
کشمیری مسلمانوں کے لیے خاص طور پر اس کی اہمیت اور زیادہ ہے- کشمیرکی امتیازی خصوصیات کی بنا پر لوگ بڑی تعداد میں اس ریاست میں باہر سے برابر آتے رہتے ہیں- یہ آنے والے لوگ بظاہر سیاح یا یاتری، وغیرہ ہوتے ہیں، لیکن اگر انسانی فطرت کے اعتبار سے دیکھئے تو ان میں سے ہر شخص متلاشی (seeker)ہوتا ہے- ان میں سے ہر شخص خاموش زبان میںکہہ رہا ہوتا ہے کہ اے کشمیریو، ہم تمھارے یہاں آئے ہیں تاکہ تم ہم کو وہ سچائی دو جو اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی صورت میں تمھارے پاس موجود ہے- اس طرح کشمیر عملاً ایک مدعو لینڈ بن گیا ہے-
مذکورہ پہلوؤں نے کشمیر کو مسلم دنیا میں ایک امتیازی خطے کی حیثیت دے دی ہے- کشمیر میں خدا کے خاص منصوبے کے تحت بے شمار دعوتی اسباب جمع ہوگئے ہیں- دنیا کشمیر کو جنت نظیر (Paradise on Earth) کہتی ہے، انڈیا اس کو اپنا تاج (Crown) بتاتا ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ کشمیر خدا کی جنت کے تعارف کا ایک خصوصی مقام ہے-
عظیم دعوتی مواقع کے پس منظر میں یہ کہنا یقیناً درست ہوگا کہ اس دور میں کشمیر کو اللہ کی طرف سے بلا تمثیل وہ رول ملا ہے، جو دور اول میں مدینہ کو ملا تھا- اس دعوتی امکان (Dawah opportunity) کو استعمال نہ کرنا بلا شبہہ ایک مجرمانہ فعل ہوگا-
اللہ نے کشمیریوں کے لیے دعوت کا عظیم رول مقدر کردیا ہے جس وقت وہ اپنے حقیقی رول کو دریافت کریں گے، اور وہ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو وہ وقت کی ایک بریکنگ نیوز (breaking news) ہوگی- عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کا یہ عمل موجودہ زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی ایک نئی تاریخ کا آغاز بن جائے-
واپس اوپر جائیں
عبادت الہٰی پوری کائنات کا دین ہے، انسان کا بھی اور دوسری موجودات کا بھی-فرق یہ ہے کہ دوسری موجودات سے تسخیری عبادت مطلوب ہے، یعنی جبری عبادت (compulsory ibadat)، اور انسان سے اختیارانہ عبادت (Ibadat by choice)- اسی اختیارانہ عبادت کو قرآن میں، امانت (
مجبورانہ عبادت پر کوئی انعام (reward) نہیں- لیکن اختیارانہ عبادت کا معاملہ، اِس سے مختلف ہے- اختیارانہ عبادت، ایک ذمہ داری کا معاملہ ہے- اختیارانہ عبادت کے ساتھ، سزا اور انعام دونوں جڑے ہوئے ہیں- اختیارانہ عبادت میں اگر آدمی ناکام ہوجائے، تو اُس کی سخت پکڑ ہوگی- اِس کے برعکس، اختیارانہ عبادت میں جو کامیاب رہے، اُس کے لیے بڑے بڑے انعامات ہیں۔
انسان کو اِس دنیا میں جو اختیار دیاگیا ہے، وہ پوری کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے- اختیار خداوند رب العالمین کی صفت ہے- انسان کو اِس خداوندی صفت کا ایک شمّہ عطا کیا گیا ہے- یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہر عطیہ کے ساتھ، ذمہ داری جڑی ہوئی ہوتی ہے- انسان کو جب اختیار کا عظیم عطیہ دیاگیا، تو اُس کے ساتھ ہی یہ لازم ہوگیا کہ یہ دیکھا جائے کہ انسان، اِس عظیم نعمت کا درست استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال- اِسی کے ساتھ یہ بھی لازم ہوگیا کہ اختیار یا آزادی کے صحیح استعمال پر انسان کو اعلی انعام دیاجائے، اور اِسی کے ساتھ اختیار اور آزادی کے غلط استعمال پر اُس کو اُس کے مطابق سزا دی جائے-
کائنات کی تمام چیزیں، اللہ کی تسخیری عبادت کررہی ہیں- انسان کی یہ صفت ہے کہ وہ اللہ کی عارفانہ عبادت کرتاہے- وہ اپنے عقل کو استعمال کرکے، اللہ کو دریافت کرتا ہے- وہ اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کا ادراک کرتا ہے- اِس احساس کے ساتھ جب وہ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکا دیتا ہے، تو اسی کا نام عارفانہ عبادت ہے-
واپس اوپر جائیں
جنت اور انسان ایک دوسرے کا مثنیٰ (counterpart) ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی (complementary)چیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنت انسان کے لیے بنائی گئی ہے اور انسان جنت کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ — جنت مطلوبِ انسان ہے اور انسان مطلوبِ جنت۔ انسان کے بغیر جنت ادھوری ہے، اور جنت کے بغیر انسان ادھورا۔ یہ بات خود تخلیقی منصوبے میں شامل ہے کہ اِس دنیا میں جنتی انسان تیار ہوں جو جنت کی ابدی دنیا میںبسائے جاسکیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں یہ آیت آئی ہے: مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِــیْمًا (
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کا تقاضا اِس طرح پورا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے اعمال کرکے اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بنا لیں۔ اللہ کا تخلیقی منصوبہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں، اور پھر آخرت میں پہنچ کروہ جنت کے باغوں میں آباد ہوں۔
مفسر ابوالبرکات النسفی (وفات: 1310ء) نے مذکورہ آیت کی تشریح کے تحت لکھا ہے: الإیمان: معرفۃ المنعم، والشکر: الاعتراف بالنعمۃ (تفسیر النسفی: 1/259) یعنی ایمان، منعم کی معرفت ہے، اور شکر، نعمت کے اعتراف کا نام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شعوری طور پر اپنے رب کو دریافت کرے، وہ مخلوق کے ذریعے خالق کا تعارف حاصل کرے۔ شکر کا مطلب خدا کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ اِس دنیا میں جو کچھ انسان کو ملا ہوا ہے، وہ سب خدائے برتر کا انعام (blessing)ہے۔ اِس انعام کے لیے دل سے منعم (giver)کا معترف ہونا، بلاشبہہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ’’عن أبی ہریرة، قال، جلس جبریل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فنظر إلى السماء فإذا ملک ینزل، فقال جبریل: إن ہذا الملک ما نزل منذ یوم خلق، قبل الساعة، فلما نزل قال، یا محمد، أرسلنی إلیک ربک، أفملکا نبیا یجعلک،أو عبدا رسولا؟ قال جبریل: تواضع لربک یا محمد۔ قال: بل عبداً رسولاً۔ (مسند أحمد: 7160) یعنی جبریل آئے اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے۔ انھوں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ اُس وقت ایک فرشتہ آسمان سے اتر رہا تھا۔ جبریل نے کہا کہ یہ فرشتہ اپنی پیدائش کے بعد، اس وقت سے پہلے کبھی زمین پر نہیں آیا۔ جب وہ فرشتہ آگیا تو اس نے کہاکہ اے محمد، آپ کے رب نے مجھ کو آپ کے پاس بھیجا ہے۔ اللہ آپ کو بادشاہ نبی بنائے یا عبدرسول۔ جبریل نے کہا کہ اے محمد، اپنے رب کے لیے متواضع بنئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں، میں عبدرسول بننا پسند کرتاہوں-
یہی وہ بات ہے جس کو قرآن میں وبشراً رسولاً (
واپس اوپر جائیں
علماء نے یہ نظریہ وضع کیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے، انسانوں کے ساتھ تعلق کی صرف دو بنیادیں ہیں — وِلاء اور بَراء- وِلاء کا مطلب ہے، دوستی رکھنا، اور براء کا مطلب ہے جدائی رکھنا- اِن حضرات کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ وِلاء (دوستی) کا تعلق صرف ان لوگوں سے رکھیں، جو مسلمان ہیں- اور جو لوگ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں، ان کو وہ اپنا غیر سمجھیں، اور اُن سے جدائی کا تعلق قائم کریں- یہ ایک قومی نظریہ ہے نہ کہ اسلامی نظریہ-
اِن حضرات نے یہ نظریہ سورہ الممتحنہ کی آیت نمبر ایک اور آیت نمبر چار سے أخذ کیا ہے- مگر یہ نظریہ، ایک بے بنیاد نظریہ ہے- اُس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں- شانِ نزول کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ الممتحنہ، فتح مکہ سے کچھ پہلے اُس وقت نازل ہوئی، جب کہ حاطب بن ابی بلتعہ کا مشہور واقعہ پیش آیا تھا- چنانچہ سورہ الممتحنہ میں وِلاء اور بَراء کی بات جو کہی گئی ہے، وہ کوئی عمومی بات نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان خصوصی حالات سے ہے، جو کہ حاطب ابن ابی بلتعہ کے واقعے کے زمانے میں عرب میں موجود تھے-
حقیقت یہ ہے کہ سورہ الممتحنہ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اُس وقت کے لیے ہے، جب کہ جنگ کے حالات ہوں اور اہلِ اسلام اور غیر اہلِ اسلام عملاً ایک دوسرے کے خلاف برسرِ جنگ (at war) ہوں- اِن آیات کا تعلق اُس صورت حال سے نہیں ہے، جب کہ حالتِ جنگ کا خاتمہ ہوجائے اور دونوں گروہوں کے درمیان امن کی حالت قائم ہوجائے-
موجودہ زمانہ میں جو مسلمان ہیں، ان کا تعلق دوسری قوموں سے قوانینِ امن کی بنیاد پر قائم ہوگا، نہ کہ قوانینِ جنگ کی بنیاد پر- مذکورہ بے بنیاد نظریے کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، غیر ضروری طورپر دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں- وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں- حتی کہ وہ اُن کے خلاف تشدد پر اتر آتے ہیں- یہ سب بلاشبہہ، وہ باتیں ہیں، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کے مختلف کتابوں میں آئی ہے- مسند احمد (رقم الحدیث: 4142) کے الفاظ یہ ہیں: عن عبد اللہ بن مسعود قال: خطّ لنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یوماً خطًّا، قم قال: ہذا سبیل اللہ، ثم خطّ خطوطاً عن یمینہ وعن شمالہ ثم قال: ہذہ سُبُل متفرقة على کلّ سبیل منہا شیطان یدعوا إلیہ- ثم قرأ ہذہ الایة: ’’وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ‘‘ (
عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمارے سامنے زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا رستہ ہے- پھر آپ نے اِس سیدھی لکیر کے دائیں اور بائیں کچھ لکیریں کھینچیں، پھر آپ نے فرمایا کہ یہ متفرق راستے ہیں- اِن متفرق رساتوں میں سے ہر راستے پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے- پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: ’’یہ ہے میرا سیدھا راستہ، تم اس کی پیروی کرو- اور تم متفرق راستوں کی پیروی نہ کرو، ورنہ تم بھٹک جاؤگے‘‘-
اِس حدیث رسول کی وضاحت قرآن کی اِس آیت سے ہوتی ہے: قل ہذا سبیلی ادعوا إلی اللہ علی بصیرة أنا ومَن اتبعنی (
مذکورہ حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کی سرگرمیوں کا اصل نشانہ دعوت الی اللہ ہے- ان کو اِسی صراطِ مستقیم پر تاحیات چلتے رہنا ہے- اُن کی ذمے داری ہے کہ جس طرح پیغمبر نے دعوت الی اللہ کو اپنا مرکزی نشانہ بنایا اور اپنی ساری توانائی اِسی پر صرف کردی، اسی طرح اہلِ ایمان کو چاہیے کہ پیغمبر اسلام کے بعد وہ دعوت الی اللہ کو اپنا مرکزی نشانہ بنائیں اور نسل درنسل اِسی نشانہ پرقائم رہیں-
مگر انسان کی زندگی موجودہ دنیا میں مسائل سے بھری ہوئی ہے-بار بار ایسے خلافِ مزاج واقعات پیش آتے ہیں جو آدمی کو مشتعل کردیں، اور اس کی توجہ کو اصل نشانے سے بھٹکا کر دوسری طرف پھیر دیں-یہی وہ صورتِ حال ہے جو شیطان کو بار بار یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو بھڑکا کر انھیں انحرافی نشانوں کی طرف پھیر دے-وہ دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹ کر لوگوں کی طرف سے پیدا کردہ مسائل میں الجھ جائیں- اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں- جب بھی وہ دیکھیں کہ کوئی پیش آمدہ صورت حال انھیں دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹا رہی ہے تو وہ اس کو شیطان کا بہکاوا سمجھیں، اور شیطان سے پناہ مانگتے ہوئے دوبارہ وہ دعوت الی اللہ کے راستے پر قائم ہوجائیں-
موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کے راستے سے یہ انحراف بہت بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ مادی اور سیاسی شکایتیں پیدا ہوئیں- مسلمان ان شکایتوں پر بھڑک اٹھے اور وہ دوسری قوموں سے لڑنے لگے- موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان اِس انحراف کا شکار ہوگئے- کچھ مسلمان دوسری قوموی کے خلاف منفی بولی بولنے لگے، اور کچھ مسلمان اُن سے باقاعدہ مسلّح ٹکراؤ کرنے لگے- انھوں نے نہ صرف دعوت الی اللہ کے کام کو چھوڑ دیا، بلکہ انھوں نے مزید یہ کیا کہ اپنے مدعو کو اپنا حریف اور دشمن قرار دے دیا- اس طرح اُن کا انحراف اپنی آخری حد پر پہنچ گیا-
یہ معاملہ جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا، وہ بلاشبہہ’سبیل اللہ‘ سے کھلا ہوا انحراف تھا، وہ خدا کی مرضی کے مطابق نہ تھا- اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام مسلم رہنماؤں کی طویل قربانی کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا، بلکہ برعکس طورپر وہ مسلمانوں کی ذلت اور ناکامی میں اضافے کا سبب بن گیا-
موجودہ زمانے کے تمام لکھنے اور بولنے والے مسلمان اس پسپائی کا ذمے دار دوسری قوموں کو بتا کر اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی مہم چلائے ہوئے ہیں- یہ سرتاسر ایک بے نتیجہ کام ہے- مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی ان تحریکیوں کو انحراف کی تحریکیں قرار دے کر اُنھیں ترک کردیں- وہ دوبارہ دعوت الی اللہ کے مقرر راستے پر قائم ہوجائیں- مسلمانوں کے لیے اصلاً یہ اصلاحِ خویش کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ دوسروں کو سازشی قرار دے کر ان کے خلاف منفی مہم چلانے کا معاملہ-
واپس اوپر جائیں
جہاد ایک عربی لفظ ہے- اس کے معنی وہی ہیں جس کو پُرامن جدوجہد (peaceful struggle) کہا جاتا ہے- اس پُر امن جدوجہد سے مراد اصلاً دعوتی جدوجہد ہے، جیسا کہ قرآن کی سورہ الفرقان میںارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (
دعوت اصلاً ایک نظریاتی جدوجہد (ideological struggle) ہے- یہ ایک بے حد وسیع کام ہے- اس کے مختلف تقاضے ہیں- دعوت کے کام کو جب اس کے تمام مطلوب تقاضوں کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جائے تو وہ ایک عظیم جدوجہد بن جاتا ہے- اسی لیے اس دعوتی عمل کو جہاد کہاگیا ہے-
اصلاً جہاد کا مطلب یہی ہے- تاہم بعض اوقات اس کے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے، جہاد کے لفظ کو قتال (جنگ) کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہ اُس کا صرف توسیعی مفہوم ہے- جہاں تک احکام اورآداب کا تعلق ہے، جہاد اور قتال دونوں کے احکام اور آداب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں- جہادِ دعوت کا اصل نشانہ فریقِ ثانی کی سوچ کو بدلنا ہوتا ہے، جب کہ قتال کا نشانہ برعکس طورپر فریقِ ثانی کا استیصال کرنا ہے-
جہاد اور قتال کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ جہاد بمعنی دعوت ایک عمومی حکم ہے- دعوتی جہاد ہمیشہ اور ہر حال میں کرنا ہے- جہادِ دعوت کا نشانہ اللہ کے پیغام کو اُس کے بندوں تک پہنچانا ہے- دعوتِ انسانی خیر خواہی پر مبنی ایک مثبت کام ہے جو ہر زمانے میں اور ہر نسل میں جاری رہتا ہے- اِس کے برعکس، جہاد بہ معنی قتال ایک وقتی عمل ہے جو صرف اُس وقت کیا جاتا ہے جب کہ کوئی بیرونی ملک کسی مسلم ملک پر مسلح حملہ کردے- اِس حملے کا مقابلہ کرنے کی ذمے داری افراد پر نہیں ہے، اس کی ذمے داری صرف منظّم حکومت پر ہے جو حسب ضرورت اس کا انتظام کرتی ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کے بارے میں ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن أبی موسى عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال: تعاہدوا القرآن، فوالذی نفسی بیدہ لہو أشد تفصیا من الإبل فی عقلہا (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5033) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قرآن کی حفاظت کرو، کیوں کہ قرآن اُس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ نکل جانے والا ہے جس طرح اونٹ اپنی رسی سے چھوٹ کر نکل جاتا ہے-
اس حدیث میں قرآن کی حفاظت سے مراد اس کی لفظی حفاظت نہیں ہے، بلکہ اس کی معنوی حفاظت ہے- قرآن کے معانی، بہ الفاظ دیگر، قرآنی طرزِ فکر، ایک ایسی چیز ہے جو صرف اُس وقت آدمی کے ذہن کا حصہ بنتا ہے جب کہ آدمی اس پر مسلسل طورپر سوچے، جب کہ وہ اس کے تفکیری عمل (thinking process) کا مستقل جزء بناہوا ہو- اگر ایسا نہ ہو تو قرآن بہت جلد فراموشی کے خانے میں چلا جائے گا- وہ آدمی کے زندہ حافظہ (living memory) میں باقی نہ رہے گا-
اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زندگی میں آدمی ہر لمحہ مسائل حیات سے دوچار رہتا ہے- طرح طرح کے دنیوی تقاضے ہر لمحہ آدمی کو اپنی طرف کھینچتے رہتےہیں- قرآن مکمل طورپر ایک کتاب آخرت ہے، جب کہ انسان مکمل طورپر ایک دنیوی مخلوق ہے- یہی وہ فرق ہے جس کی طرف مذکورہ حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے-
اس صورت حال میں کسی مومن کے لیے صاحبِ قرآن بننے کی صرف ایک شرط ہے، یہ کہ وہ اپنے اندر تجریدی فکر (detached thinking) کی صلاحیت پیدا کرے- وہ ایک غیر قرآنی دنیا میں قرآنی ذہن کے ساتھ رہ سکے-جب ایسا ہوگا کہ آدمی مسلسل طورپر قرآن کی آیتوں پر غور کرے گا تو وہ قرآن میں نئے نئے معانی کی دریافت کرے گا- اس طرح قرآن پر اس کا یقین بڑھتا چلا جائے گا-
واپس اوپر جائیں
قرآن میں انسان کے بارے میں ایک عمومی تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: اِنَّ ہٰٓؤُلَاۗءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَیَذَرُوْنَ وَرَاۗءَہُمْ یَوْمًا ثَــقِیْلًا(
انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے، لیکن اس کی مدتِ حیات کے دو حصے ہیں — موت سے قبل (pre-death period) اور موت کے بعد (post-death period)- انسان کی عام کمزوری یہ ہے کہ وہ قبل از موت زندگی کو لے کر سوچتا ہے، بعد از موت زندگی کو لے کر وہ سوچ نہیں پاتا- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی مذکورہ آیت میں بیان کی گئی ہے-یہ کوئی سادہ بات نہیں- یہی بات ہے جو انسان کی پوری سوچ کو صحیح رخ یا غلط رخ دیتی ہے- جو شخص موت سے قبل کے مسائل کو لے کر سوچے، اس کے اندر دنیا رخی سوچ (world-oriented thinking) ڈیولپ کرے گی- اس کی سوچ ہر اعتبار سے، غیر حقیقت پسندانہ سوچ بن جائے گی- اس کے برعکس، جو شخص موت کے بعد کے مسائل کو لے کر سوچے، اس کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking) ڈیولپ ہوگی- اس کی سوچ ہر اعتبار سے حقیقت پسندانہ سوچ بن جائے گی- حقیقت پسندانہ سوچ ہی کا دوسرا نام صحیح طرزِ فکر (right thinking) ہے- اِسی طرح غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہی کا دوسرا نام غلط طرزِ فکر (wrong thinking) ہے-
انسان کے بننے یا بگڑنے کا تمام تر انحصار اِسى بات پر ہے۔ جو شخص اپنے اندر دنیا رخی مزاج ڈیولپ کرے گا تو یہ اس کی پوری سوچ کو غلط رخ پر ڈال دے گا- اِس کے برعکس، جس آدمی کا ذہن آخرت رخی ذہن ہو، اس کے اندر آخرت رخی مزاج ڈیولپ کرے گا جو اس کی پوری سوچ کو صحیح سمت میں جاری کردے گا — یہی وہ چیز ہے جو انسان کی شخصیت کی تعمیر (personality building) میں اصل اہمیت رکھتی ہے-
واپس اوپر جائیں
عمر بن عبدالعزیز (وفات: 720ء) کی پیدائش مدینہ میں ہوئی۔ مگر خلیفہ کی حیثیت سے وہ شام کے شہر دمشق میں رہے جواس وقت اسلام کادار الخلافہ تھا۔ آپ کی وفات شام کے ایک اورشہر حلب میں ہوئی۔ شام کا ملک جن اسلامی شخصیتوں کی یاد دلاتا ہے ان میں سے ایک ممتاز نام عمر بن عبد العزیز کا ہے۔ جو پانچویں خلیفۂ راشد کہے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں عمر بن عبد العزیز واحد شخص ہیں جو صحابہ کے مزاج سے کامل مناسبت رکھتے تھے۔ عمر بن عبدالعزیز کا مشہور واقعہ ہے کہ جراح بن عبد اللہ (عامل خراسان) نے ان سے کہا کہ لوگ کثرت سے مسلمان ہورہے ہیں اس پر ہمیں پابندی لگانا چاہیے ورنہ حکومت کی آمدنی میں بہت زیادہ کمی ہوجائے گی۔کیوں کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کے اوپر سے جزیہ معاف ہوجاتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز نے جواب دیا: اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا ہے، نہ کہ ٹیکس وصول کرنے والا(إن اللّہ إنما بعث محمداً صلى اللہ علیہ وسلم داعیاً، ولم یبعثہ جابیاً) البدایة والنہایة9/213-
عمر بن عبدالعزیز کے اس قول میں جو ’’شعورِ دعوت‘‘ ہے وہ مجھے صحابہ کے بعد کسی بھی دوسرے شخص کے یہاں نظر نہیں آتا۔
عمر بن عبدالعزیز کا زمانہ پہلی صدی ہجری کا آخری زمانہ ہے۔ اس زمانہ میں ہر طرف فتوحات کا چرچا تھا۔ پوری ملت پر سیاسی اور غزواتی طرز فکر چھایا ہوا تھا۔ ایسے حالات میں دعوت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے وہ ذہن درکار تھا جو دور کے خلاف سوچ سکے۔ جو حالات سے اوپر اٹھ کر غیر متاثر انداز میں اپنا ذہن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔عمر بن عبد العزیز کا مذکورہ قول اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اندر یہ نادر ترین صفت بدرجہ اتم موجود تھی۔ انھوں نے دَور کے خلاف سوچا۔ وہ عملاً ’’دورتلوار‘‘ میں تھے، مگر انھوں نے ذہنی سفر کے ذریعہ اپنے آپ کو ’’دوردعوت‘‘ میں پہنچا یا۔
واپس اوپر جائیں
یہ اقتباس بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے اسکالر حضرات کی تحریروں اور تقریروں سےکوئی ذہن کیوں نہیں بنتا- یہ لوگ اپنی بات کو اِس طرح دو طرفہ انداز میں بیان کرتے ہیں جس سے یہ امر واضح نہیں ہوتا کہ محرر یا مقرر کا مقصود کیا ہے- اسکالر حضرات کے اِسی مزاج کی بنا پر اُن کے کلام میں وضوح (clarity)نہیں ہوتی، اور جب کلام میں وضوح نہ ہو تو وہ کسی کے ذہن کو ایڈریس نہیں کرے گا-
یہ سمجھنا کہ ’’اسلام مستقبل کی تشکیل میں فیصلہ کن عنصر‘‘ بننے والا ہے، اس لیے مغربی دنیا میں اسلام کے مطالعے کا رجحان پیدا ہوا ہے، یہ درست نہیں- یہ اصل صورتِ حال کو خود ساختہ مسلم ذہن کے تحت دیکھنا ہے، نہ کہ اصل مغربی ذہن کے تحت- مغربی نوجوانوں کے ایک طبقے میں اسلام (صحیح تر الفاظ میں مسلم) کو جاننے کا ذوق اِس مفروضے کی بنیاد پر نہیں پیدا ہوا ہے کہ اسلام اُن کو مستقبل کا معمار دکھائی دیتا ہے- اِس رجحان کا سبب تمام تر منفی ہے- اِس کا واحد سبب یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اہلِ مغرب مسلمانوں کو (نہ کہ اسلام کو) ایک خطرہ (danger) کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں- خود اہلِ مغرب کی طرف سے یہ کوئی مثبت رجحان نہیں، البتہ اِس صورتِ حال نے ہمارے لیے ایک موقع کھول دیا ہے، وہ یہ کہ ہم اُن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف پیش کرکے اُن کے حق میں اپنی دعوتی ذمے داری کو ادا کرسکیں-
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے علماء اور مسلم دانشور عام طورپر یہ سمجھتے ہیں کہ دنیائے اسلام کے بارے میں مغرب کا ایک ایجنڈا ہے اور اِس ایجنڈے کو وہ پوری طاقت کے ساتھ نافذ کررہا ہے- اِس سلسلے میں بطور مثال یہاں ایک حوالہ نقل کیاجاتا ہے- یہ حوالہ موجودہ مسلم دنیا کے مشہور دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات: 2010) کا ہے- انھوں نے الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ، پاکستان کے تحت ایک محاضرے میں بتایا کہ 2003 میں وہ جرمنی کی ایک کانفرنس میں شریک ہوئے- اِس کا عنوان یہ تھا:
Is Islam a Threat to the West and Europe?
اِس کانفرنس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا کہ مسلم مفکرین کی بڑی تعداد کا نقطہ نظر مغرب کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہئے اور اس کے منفی پہلوؤں کو قبول نہیں کرنا چاہئے- انھوں نے بتایا کہ اس کے جواب میں کانفرنس میں موجود مغربی نمائندوں نے کہا کہ مغرب اِن شرائط پر اپنی ٹکنالوجی اور اپنی تہذیب وتمدن سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوگا- یہ ایک پورا پیکیج ہے جس کو آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا- اِس میں مغرب آپ کو اخذ وانتخاب (pick and choose)کی اجازت نہیں دے گا (ماہ نامہ الشریعہ، مارچ 2005، صفحہ:
یہ پورا بیان عصر حاضر سے بے خبری کی پیداوار ہے- اِس معاملے میں عصر حاضر کا ذہن وہی ہے جو امریکا کے بارے کہاگہا ہے، یعنی:
The business of America is business
اصل پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کمرشلائزیشن (commercialization) کا زمانہ ہے- موجودہ زمانے کی تشکیل اصلاً جدید صنعت (modern industrialization) نے کی ہے- اِس جدیددور میں ہر چیز ایک قابلِ فروخت آئٹم (purchasable item) بن چکی ہے- اگر آپ پرائس دے سکتے ہوں تو آپ سوئی سے لے کرہوائی جہاز تک ہر چیز خرید سکتے ہیں، اور اگر آپ پر ائس دینے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو موجودہ زمانے میں آپ کو کوئی چیز ملنے والی نہیں- اِس معاملے میں مغرب کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں- ایجنڈا کا تصور مسلم ذہن کی پیداوار ہے- جہاں تک مغرب کا تعلق ہے، اُس کا کنسرن صرف یہ ہے کہ وہ دنیا سے تیل اورخام اشیاء حاصل کرے اور پھر اپنا پروڈکٹ تیار کرکے اس کو ساری دنیا میں مہنگے داموں میں فروخت کرے-
’’ایجنڈا‘‘ کا تصور تمام تر مسلم ذہن کی پیداوار ہے جو کہ اپنے تعصبات کی بناپر مغرب سے کامل طورپر بے خبر ہیں- اِس بے خبری کے نتیجے میں مسلمانوں کو صرف ایک چیز ملی ہے، اور وہ ہے مغرب سے بے بنیاد نفرت، اِس کے سوا جدید دور سے کوئی بھی مثبت چیز مسلمان حاصل نہ کرسکے- اِس صورتِ حال کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس صرف ایک لفظ ہے اور وہ ہے — فکری دیوالیہ پن (intellectual bankruptcy)-
مسلم علما اور دانش وروں کایہ فکری دیوالیہ پن بہت قدیم ہے- اِس سے پہلے جب نوآبادیات کا دور آیا تو تمام علما اور مسلم دانش وروں نے اُس کو اِسی منفی معنی میں لیا اور غیر ضروری طورپر وہ اس کے خلاف نفرت کلچر اور تشدد کلچر میں مبتلا ہوگئے- حالاں کہ نوآبادیاتی قومیں جو اپنے علاقے سے نکل کر ایشیا اور افریقہ میں داخل ہوئی تھیں، اُن کا مقصد اصلاً اپنی صنعتی پیداوار کے لیے بازار (market)حاصل کرنا تھا- دوسری چیزیں جو اُن کے ساتھ آئیں، وہ نوآبادیاتی نظام کا اضافی حصہ تھیں، نہ کہ حقیقی حصہ-
اِس سنگین بے خبری کا نہایت مہلک انجام ہوا-اولاً یہ کہ اپنے منفی ذہن کی بنا پر مسلمان مغربی تہذیب سے کچھ سیکھنے سے محروم رہے- دوسرا شدید تر نقصان یہ تھا کہ مغربی قوموں کو انھوں نے دشمن کے خانے میں ڈال دیا، وہ ان کو مدعو سمجھنے سے قاصر رہے- اس بنا پر وہ مغربی قوموں کے اوپر اپنی داعیانہ ذمے داری کو ادا نہ کرسکے-
واپس اوپر جائیں
دورِ جدید (modern age) کا ظہور اچانک نہیں ہوا- دورِ جدید دراصل ایک لمبے تاریخی عمل (historical process) کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا- یہ تاریخی عمل ساتویں صدی عیسوی میںاسلامی انقلاب کے بعد شروع ہوا اور بیسویں صدی عیسوی میں وہ اپنی تکمیل تک پہنچا- جدید دور ہی کو دوسرے الفاظ میں، جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاتا ہے- اِس اعتبار سے جدید تہذیب ایک موافقِ اسلام تہذیب تھی، نہ کہ مخالف ِ اسلام تہذیب-
جدید تہذیب کے موافقِ اسلام ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے تمام اجزا اپنی تمام تفصیل کے ساتھ عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں- حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو وہ اِس طرح نہیں آتا کہ انسانی آزادی(human freedom) کو مکمل طورپر حذف کردیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب معیاری انقلاب نہیں ہوتا- انقلاب کی قدروقیمت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اِس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ اس کے کچھ اجزا حقیقی ہوتے ہیں اور کچھ اجزا وہ ہوتے ہیں جو انسانی آزادی کی بنا پر اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں-
اِس معاملے میںاسلامی انقلاب کا بھی کوئی استثناء (exception) نہیں- ساتویں اور آٹھویں صدی میں جو اسلامی انقلاب آیا، اس نے تاریخ انسانی کو بہت سے قیمتی تحفے دئے- مثلاً شرک کے دور کو ختم کرکے توحید کے دور کو دنیا میں لانا- تاہم اسلامی انقلاب میں بھی زمانی اسباب کے تحت ایسے اجزا شامل ہوگئے جو معیارِ مطلوب کے مطابق نہ تھے- مثلاً شُورائی خلافت کی جگہ خاندانی حکمرانی (dynasty) کا قائم ہوجانا- اسلام کے نام پر باہمی لڑائیاں، وغیرہ- اسلام کا ظہور بلاشبہہ تاریخِ بشری کے لیے ایک نعمت کا ظہور تھا- لیکن اِس نعمت کو حقیقی طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تاریخ کواُن اجزا سے الگ کرکے دیکھا جائے جو خداداد انسانی آزادی کی بنا پر اس کے اندر شامل ہوگئے-
ٹھیک یہی معاملہ جدید مغربی تہذیب کا بھی ہے- جدید مغربی تہذیب نے انسانی تاریخ کو بہت بڑی بڑی چیزیں عطا کیں، جو اِس سے پہلے کبھی انسان کو حاصل نہ تھیں- مثلاً فطرت میں چھپے ہوئے قوانین (natural laws) کو دریافت کرنا، سیاسی زندگی میں بادشاہت کے بجائے جمہوریت کو رواج دینا، انسانی زندگی سے مذہبی جبر کو ختم کرنا، علمی مطالعے کے لیے سائنسی طریقہ (scientific method) کو رواج دینا، عالمی مسائل کے لیے اقوامِ متحدہ کی صورت میں ایک انٹرنیشنل فورم کا قیام، ایسے نئے علوم کا رواج جو اسلام کے لیے بے حد مفید تھے- مثلاً حفریات (excavation)، وغیرہ-
لیکن مغربی تہذیب جب دنیا میں آئی تو وہ اِس طرح نہیں آئی کہ انسانی آزادی حذف ہوگئی- اس کے ساتھ فطری طورپر مطلوب اجزا کے ساتھ ایسے غیر مطلوب اجزا بھی شامل تھے، جو اصلاً خود تہذیب کا حصہ نہ تھے، مگر انسانی آزادی کی بنا پر بظاہر وہ اس کا حصہ بن گئے- مثلاً سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں، انسان کے مادہ پرستانہ مزاج کی بنا پر پیدا ہونے والے مفاسد، استغلال (exploitation)، شخصی اور قومی مفاد (interest) سے پیدا ہونے والی برائیاں، وغیر ہ- مغربی تہذیب کے اندازہ (evaluation) کے لیے ضروری ہے کہ اِس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا جائے، ورنہ مطالعہ کرنے والا منصفانہ مطالعہ کرنے سے قاصر رہے گا-
مغربی تہذیب کے ظہور کے بعد جو حالات پیداہوئے، اُن کو اگر خالص معیار (ideal) کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کے کچھ اجزا یقیناً مطلوب اجزا نظر آئیں گے اور کچھ اجزا غیر مطلوب- مگر اِن تمام اجزا کو ایک فہرست میں شامل کرکے اگریہ کہا جائے کہ یہ مغرب کا ایجنڈا ہے تو یہ ایک غیرفطری تجزیہ ہوگا- اگر ایجنڈے کے نظریے کو اصولی طور پر درست مان لیاجائے تو عین یہی تبصرہ اسلام کی تاریخ پر صادق آجائے گا- ایک مبصر یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام اگرچہ توحید کاعلم بردارتھا، لیکن اس کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل تھا کہ خلافت کے نام پر خاندانی حکمرانی قائم کی جائے، اسلام کی مختلف تعبیرات کرکے لوگ آپس میں لڑائیاں کریں، دار الاسلام اور در الکفر کا نظریہ وضع کر کے غیرمسلم اقوام کے خلاف نفرت کلچر پیدا کیا جائے، وغیرہ-
ایک عالم کا مشہور قول ہے: خذ ما صفا ودع ماکدر- اس قول میں روایتی الفاظ میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، یعنی انسانی زندگی یا انسانی انقلاب میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ اس کے کچھ اجزا مطلوب اجزا ہوں گے اور کچھ اجزا غیر مطلوب اجزا- مطلوب اجزا وہ ہوں گے جو معیار سے مطابقت رکھتے ہوں، اور غیر مطلوب اجزا وہ ہوں گے جو انسانی آزادی کی بنا پر اس میں شامل ہوجائیں-
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اِس دنیا میں انسان کو آزادانہ اختیار (free choice) کا حق دیا ہے- انسان کا یہ حق قیامت تک منسوخ ہونے والا نہیں- اِس آزادی کو قرآن میں امانت (
واپس اوپر جائیں
ایک عالم نے کہا ہے : مَن کان فی بیتہ مجموعۃٌ من الأحادیث، فکأنما فیہ نبیٌّ یتکلّم (جس آدمی کے گھر میںحدیثِ رسول کا ایک مجموعہ موجود ہو تو گویا کہ اُس گھر میں کلام کرتا ہوا ایک پیغمبر موجود ہے)۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص سچے جذبے کے ساتھ حدیث کی کتاب کو کھولے گا، اور اُس میں موجود اقوالِ رسول کو پڑھے گا تو اُس کو محسوس ہوگا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے ہم کلام ہو کر اُس کو براہِ راست نصیحت کررہے ہیں۔
یہی معاملہ صحبت ِ رسول کا بھی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی اسپرٹ زندہ ہو، اور اُس کے اندر صحیح معنوں میں اتّباعِ رسول کا جذبہ موجود ہو تو آج بھی وہ صحبت ِ رسول کا تجربہ کرسکتا ہے۔
مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے دشمن سے نفرت نہیںکرتے تھے، بلکہ آپ اُس کے ساتھ اعلیٰ انسانی سلوک کرتے تھے، اور اُس کی ہدایت کے لیے خدا سے دعا کرتے تھے۔ اب اگر آپ کا کوئی دشمن ہو، مگر آپ اُس کے ساتھ جوابی دشمنی نہ کریں، بلکہ یہ سوچیں کہ رسول اللہ نے اپنے دشمن کے ساتھ جو سلوک کیا تھا، وہی سلوک مجھ کو بھی اپنے دشمن کے ساتھ کرنا چاہیے۔
اِس طرح سوچ کر جب آپ اپنے دشمن کے ساتھ پیغمبر والا برتاؤ کریں تو اُس وقت آپ کو رسول اللہ کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہوجائے گی۔ آپ اپنی سوچ اور جذبات کے اعتبار سے، رسول اللہ کے ساتھ خصوصی مناسبت محسوس کرنے لگیں گے۔ یہاںتک کہ یہ جذبہ اتنا ترقی کرے گا کہ آپ کو محسوس ہوگا کہ زمانی دوری ختم ہوگئی ہے اور آپ گویا کہ رسول اللہ کی صحبت میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک فطری حقیقت ہے، اور کوئی بھی شخص کسی بھی مقام پر اس کا تجربہ کرسکتا ہے۔
اسی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے مخالفین کی طرف سے نہایت نازیبا سلوک کیا گیا ۔ مثلاً آپ کو مجنوں کہا گیا ۔ آپ کو مذَمَّم کہاگیا ۔ آپ کو ساحر اور کذّاب کہا گیا، وغیرہ، لیکن آپ نے کبھی ایسے لوگوں کو منفی جواب نہیں دیا۔ آپ نے اس کے خلاف نہ شکایت کی، نہ احتجاج، بلکہ آپ ایسے لوگوں کے لیے خدا سے دعا کرتے رہے۔ اب اگر کسی کو اِس قسم کا منفی تجربہ ہو،مگر وہ دل کی پوری آمادگی کے ساتھ رسول اللہ کے طریقے کو اختیار کرلے تو ایسے موقع پر اُس کے اندرمخصوص جذبات ابھریں گے۔ وہ اپنے اندر رسول اللہ کے ساتھ ایک خاص تعلق محسوس کرے گا۔ وہ صحبت ِ رسول کا تجربہ کرنے لگے گا۔
صحبت ِ رسول کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ، جسمانی صحبت(physical companionship) اور دوسری ہے روحانی یا نفسیاتی صحبت (psychological companionship)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہلِ ایمان کو آپ کے ساتھ جسمانی صحبت حاصل ہوئی، لیکن بعد کے زمانے کے اہلِ ایمان کو بھی آپ کی روحانی یا نفسیاتی صحبت حاصل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ وہ اُس کی شرط کو پورا کریں، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری مزاجی مناسبت۔
صحبت صرف ساتھ بیٹھنے کانام نہیں ہے ، بلکہ اس کا مدار تمام تر مزاجی مناسبت پر ہے- دورِ اول میں بھی اِس کی واضح مثالیں ملتی ہیں- اُس وقت اسلام قبول کرنے والوں میں جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاجی مناسبت رکھتے تھے، ان کو آپ کی صحبت کا فائدہ ملا- اور جو لوگ آپ سے مزاجی مناسبت نہیں رکھتے تھے، وہ بظاہر آپ سے قریب ہونے کے باوجود صحبت کے فائدےسے محروم رہے- سچے صحابہ اور منافقین کے درمیان جو فرق ہے، وہ اِسی بنا پر ہے- سچے صحابہ کے اندر رسول اللہ سے مزاجی مناسبت تھی، اِس لیے ان کو صحبت ِ رسول کا پورا فائدہ ملا، اور منافقین کے اندر یہ مزاجی مناسبت موجود نہ تھی، اِس لیے وہ رسول اللہ سے قریب رہتے ہوئے بھی صحبت ِ رسول کے حقیقی فائدے سے محروم رہے-
واپس اوپر جائیں
قوموں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کی مبالغہ آمیز تصویر بناتے ہیں، یہاںتک کہ ان کی شخصیتیں افسانوی شخصیت (legendary figure) کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں- یہی معاملہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہوا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے اپنی ماضی کی شخصیتوں کی مبالغہ آمیز تصویر بنا رکھی ہے- اِس کے نتیجے میں دو بڑا نقصان مسلمانوں کے حصے میں آیا ہے — ماضی کا ضرورت سے زیادہ اندازہ (overestimation) اور حال کا ضرورت سے کم اندازہ (underestimation) -
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے عام طورپر ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے موجودہ حالات کو بدلنے کی ایک ہی شکل ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کے اندر قدیم شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوں، مگر اِس قسم کی باتیں خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں-
مثلاً مشہور عرب مورخ خیر الدین الزرکلی (وفات: 1976) نے ماضی کی مشہور مسلم شخصیتوں پر کئی جلدوں میں ایک کتاب تیار کی ہے، اس کا نام ہے: الأعلام- وہ مسلمانوں کے احیاءِ نو کا راز اِس میں سمجھتے تھے کہ ماضی جیسی مسلم شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوں- چنانچہ انھوں نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا کہ — صلاح الدین ایوبی کو ہمارے درمیان دوبارہ لے آؤ، حطین یا حطین جیسے معرکے دوبارہ گرم کرو:
ہاتِ صلاح الدین ثانیة فینا جدّدی حطّین أو شبہ حطّینا
خیر الدین الزرکلی کا یہ شعر صرف صاحبِ کلام کی زمانے سے کامل بے خبری کی ایک مثال ہے- آج کا زمانہ اور آج کے حالات ہر اعتبار سے بدل چکے ہیں- موجودہ زمانے میں کوئی کام کرنے کے لیے پہلی شرط بصیرتِ زمانہ ہے، نہ کہ صلاح الدین کا دوبارہ پیداہونا- حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں صلاح الدین ایوبی جیسی شخصیت کے لوگ پیدا ہوئے، مگر عملاً وہ کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے، کیوں کہ وہ بصیرتِ زمانہ سے بالکل بے خبر تھے- اس کی ایک مثال فلسطینی لیڈر یاسر عرفات (وفات: 2004) کی ہے- فطری صلاحیت کے اعتبار سے وہ گویا صلاح الدین ثانی تھے، مگر ساری قربانیوں کے باوجود وہ مکمل طورپر ناکام رہے-
اِسی طرح کی ایک مثال ڈاکٹر محمد اقبال کی ہے- انھوں نے شیخ احمد سرہندی کے بارے میں نہایت مبالغہ آمیز تصور قائم کر رکھا تھا- چناں چہ انھوں نے لکھا ہے کہ — مسلم ہندستان نے سب سے بڑا جو مذہبی عبقری پیدا کیا، شیخ احمد سرہندی تھے:
The greatest religious genius produced by Muslim India was Shaikh Ahmad Sarhindi.
شیخ احمد سرہندی جیسی شخصیت تخلیق کے کارخانے میں بار بار پیدا ہوتی ہے- ایسا نہیں ہے کہ یہ مولڈ تخلیق کے کارخانے میں ختم ہوچکا ہے- مثال کے طورپر فطری صلاحیت کے اعتبار سے مولانا ابوالکلام آزاد اُسی درجے کی شخصیت تھے جس درجے کی شخصیت شیخ احمد سرہندی کی تھی- لیکن مولانا آزاد کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے- اِس کا سبب دونوں کے درمیان زمانی حالات کا فرق تھا-
مشہور مسلم دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازی (وفات: 2010) نے اپنے ایک مقالہ میں عہد ماضی کی مسلم شخصیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’اِس نظامِ تعلیم میں نواب سعد اللہ خاں بھی تیار ہوا جو مجدد الف ثانی کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنتِ مغلیہ کا وزیر اعظم بنا- وہ سلطنت ِ مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، سکّم، برما، اِن سب ریاستوں پر مشتمل تھی- اس کے نظام کو سعداللہ خان نے شاہ جہاں کے زمانے میں کامیابی کے ساتھ چلایا تھا‘‘- (ماہ نامہ الشریعہ، پاکستان، مارچ 2005، صفحہ:
سعد اللہ خاں کوئی منفرد شخصیت نہیں تھے- اِس طرح کی شخصیتیں قدرت کے کارخانے میں بار بار پیدا ہوتی ہیں- مثلاً سید جمال الدین افغانی اپنی فطری صلاحیت کے اعتبار سے کسی بھی درجے میں کم نہ تھے- لیکن غیر معمولی سرگرمیوں کے باوجود وہ کوئی نتیجہ خیز کام نہ کرسکے- حقیقت یہ ہے کہ کارنامے کے معاملے میں کسی شخصیت کا حصہ ہمیشہ پچاس فی صد سے کم ہوتا ہے اور حالات کا حصہ ہمیشہ پچاس فی صد سے زیادہ-
موجودہ زمانے کے مسلم مقررین اور محررین کی یہ عام غلطی ہے کہ وہ اپنی ماضی کی شخصیتوں کا تصور ان کے حقیقی قد سے زیادہ (larger than life size) قائم کیے ہوئے ہیں- اِس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ شخصیتیں دوبارہ پیدا ہوجائیں تو موجودہ زمانے میں بھی وہ بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہیں- مگر اِس قسم کا تصور مبالغہ آمیز خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں-
اصل یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے دو دور ہیں — قدیم روایتی دور(ancient traditional age)، اور جدید سائنسی دور (modern scientific age)- دونوں دوروں میں ہر اعتبار سے نوعی فرق پایا جاتا ہے- یہ فرق اتنا زیادہ ہے کہ قدیم زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا شخص اگر آج پیدا ہوتو وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتا- ایسا آدمی آج کے حالات میں صرف بے جوڑ (misfit) ہو کر رہ جائے گا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں-
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کام کرنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ کام کرنے والے لوگ جدید دور کا گہرا مطالعہ کریں- وہ اپنے آپ کو جدید حالات کے اعتبار سے تیار کریں- وہ کامل معنوں میں بصیرِ زمانہ (بصیراً بزمانہ) بنیں- اِس کے بعد ہی وہ آج کے دور میں کوئی حقیقی کام انجام دے سکتے ہیں، خواہ تعلیم وتدریس کا معاملہ ہو یا تصنیف وتالیف کا معاملہ، خواہ ایک ادارہ چلانے کا معاملہ ہو یا حکومت چلانے کا معاملہ، امت کی اصلاح کا معاملہ ہو یا زمانے کی قیادت کا معاملہ، کسی سیمنار کو خطاب کرنے کا معاملہ ہو یا کسی انٹرنیشنل تنظیم کو خطاب کرنےکا معاملہ- غرض زندگی کا جو معاملہ بھی ہو، اس میں رہنمائی کرنے کے لیے دورِ جدید سے کامل واقفیت لازمی طورپر ضروری ہے- جو لوگ یہ واقفیت نہ رکھتے ہوں، وہ اگر جدید دور میں رہنمائی کا منصب سنبھالیں تو اُن کا انجام وہی ہوگا جس کو ایک شاعر نے اپنے اِس شعر میں بیان کیا ہے:
إذا کان الغراب رئیس قوم سیہدیہم إلى دار البوار
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال میں ہے- آج کی یہ ایک اہم ضرورت ہے کہ امت کا احیا (revival) کیا جائے، لیکن اِس احیا کی لازمی شرط یہ ہے کہ یہ کام صحیح ماڈل کے مطابق کیا جائے- غلط ماڈل اختیارکرنے سے کبھی امت کا احیا نہیں ہوگا، خواہ ہزاروں سال تک اس کی کوشش کی جاتی رہے-
احیاءِ امت کا صحیح ماڈل صرف ایک ہے، اور وہ پیغمبرانہ ماڈل ہے- یہ ماڈل سنت کی صورت میں پوری طرح محفوظ ہے- ہم کو چاہیے کہ سنت ِ رسول کے اِس محفوظ ماڈل کو مطالعۂ کتب کے ذریعے دریافت کریں اور پھر اس کی روشنی میں امت کے احیا کا کام انجام دیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
اِسی صورت حال کا یہ نتیجہ ہے کہ آج جو شخص احیائِ امت کے لیے اٹھتا ہے، وہ بظاہر اگرچہ اسلام کا نام لیتا ہے، لیکن عملاً مسلم تاریخ کا احیا اس کا نشانہ بن جاتا ہے-
موجودہ زمانے میں احیاءِ امت کی تمام تحریکوں کا یہی انجام ہوا ہے- اِن میں سے کوئی مسلم دورِ حکومت کے احیا کی بات کرتا ہے اور کوئی مسلم تہذیب کے احیا کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، کوئی شرعی قانون کے نفاذ میں مسلم احیا کا راز بتاتا ہے، کوئی جہاد کے نام پر تشدد کلچر پھیلائے ہوئے ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کا احیا کررہاہے، وغیرہ-
اِس قسم کی تحریکیں موجودہ زمانے میں بہت بڑے پیمانے پر اٹھیں، مگر ہنگامہ خیز جدوجہد کے باوجود وہ عملاً ناکام ثابت ہوئیں- اِس ناکامی کا سبب صرف ایک تھا، وہ یہ کہ اِن تحریکوں کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں ہوئی- نصرتِ خداوندی سے محرومی کا سبب مشترک طورپر یہ تھا کہ یہ سب کی سب تحریکیں تاریخی ماڈل کو لے کر کھڑی ہوئیں- اُن میں سے کوئی بھی تحریک حقیقی طورپر پیغمبرانہ ماڈل کو لے کر نہیں اٹھی-
پیغمبرانہ ماڈل اور تاریخی ماڈل کا فرق ایک لفظ میں یہ ہے کہ پیغمبرانہ ماڈل مبنی بردعوت ماڈل ہوتا ہے- اِس کے برعکس، تاریخی ماڈل مبنی بر سیاست، مبنی برتہذیب، مبنی بر قومیت ہوتاہے- اِس دنیا میں کوئی تحریک اللہ کی نصرت سے کامیاب ہوتی ہے اور اللہ کی نصرت صرف پیغمبرانہ ماڈل پر آتی ہے، کسی اور ماڈل پر اللہ کی نصرت کبھی آنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانے میں ایمپائر کی ایک ہی معلوم قسم تھی، اور وہ سیاسی ایمپائر (political empire) ہے- موجودہ زمانے میں سیاست کا ڈی سنٹرلائزیشن (decentralization) ہوا ہے- موجودہ زمانے میں ایسے نئے مواقع کھل گئے ہیں جنھوں نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ غیر سیاسی میدانوں میں بڑے بڑے ایمپائر قائم کئے جاسکیں- مثلاً ایجوکیشن کا میدان، صنعت کا میدان، دعوت کا میدان، وغیرہ-
عجیب بات ہے کہ بظاہر اِن نئے مواقع سے مذہبی لوگ بھی بے خبر ہیں اور سیکولر لوگ بھی- اِسی بے خبری کا یہ نتیجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیکولر گروپ بھی تشدد میں مشغول ہے، اور مذہبی گروپ بھی- اگر یہ لوگ جانتے کہ موجودہ زمانے میں تشدد صرف تباہی کا ذریعہ ہے، اب تشدد کے ذریعہ کوئی تعمیری نتیجہ پیدا نہیں کیا جاسکتا، اگر وہ ایسا جانتے تو یقینی طورپر ان کی منصوبہ بندی مختلف ہوتی- وہ پرامن طریقے کو اختیار کرکے ایسی کامیابی حاصل کرلیتے جو تشدد کے ذریعے ہرگز ممکن نہیں-
یہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ تشدد کے ذریعے صرف منفی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، نہ کہ مثبت نتائج- تشدد کے ذریعے تخریب ہوسکتی ہے، مگر تشدد کے ذریعے کسی بھی تعمیری کام کو انجام نہیں دیا جاسکتا- موجودہ زمانے کے مسلمان لمبی مدت سے مختلف ملکوں میں پُرتشدد تحریکیں چلارہے ہیں، مگر یہ متشددانہ تحریکیں مسلمانوں کو کسی مثبت انجام تک نہ پہنچا سکیں-
حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے- انسانی سماج سے باہر فطرت کی جو دنیا ہے، اس میں وسیع پیمانے پر سرگرمیاں جاری ہیں، مگر فطرت کے عالمی نظام میں کہیں بھی تشدد نظر نہیں آتا- تشدد صرف انسانی دنیا میں ہے، وہ فطرت کی دنیا میں موجود نہیں- انسان پر لازم ہے کہ وہ تشدد کا طریقہ چھوڑ دے، کیوںکہ فطرت کی دنیا میں صرف فطرت کا اختیار کیا ہوا پرامن طریقہ ہی نتیجہ خیز ہوسکتاہے- فطرت کے خلاف جو طریقہ اختیار کیا جائے، اس کے لیے اِس دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں-
واپس اوپر جائیں
اسلام کا ظہور ساتویں صدی عیسوی میں ہوا۔اس سے پہلے کی پوری معلوم تاریخ میں کبھی بھی انسانی مساوات کسی قابلِ لحاظ حیثیت سے کہیں موجود نہ تھی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر عمل کی پشت پر ایک تائیدی نظریہ درکار ہوتا ہے۔ مگر اسلام سے پہلے مساوات کے حق میں ایسی کوئی نظریاتی بنیاد (ideological base) سرے سے پائی نہیں جاتی تھی۔ قدیم زمانہ کے نظریات کے مطابق عدم مساوات کی صورت حال ہی فطری صورت حال تھی۔ ایسی حالت میں مساوات کا اصول کس طرح لوگوں کے لیے قابل قبول ہوتا۔
زمین کے ایک خطہ میں آوا گمن یا پنر جنم کا عقیدہ لوگوں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ اس عقیدہ کے مطابق ایک انسان اور دوسرے انسان کا فرق خود اس کے پچھلے عمل کا نتیجہ تھا۔ اس میں کوئی تبدیلی موت کے بعد اگلے جنم ہی میں ممکن ہوسکتی تھی۔
ایسی حالت میں انسانوں کے درمیان مساوات قائم کرنا سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔اسی طرح جب لوگوں نے دیکھا کہ کچھ انسان سیاہ فام ہیںاور کچھ انسان سفید فام تو اس کی بنیاد پر یہ نظریہ بنایا گیا کہ سفید فام برتر نسل (superior race) سے تعلق رکھتے ہیں، اور سیاہ فام کمتر نسل (inferior race) سے۔ یہ نظریہ، خاص طورپر اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں بہت زیادہ پھیلا یہاں تک کہ وہ انسانوں کے درمیان مساوات کے قیام میں مستقل رکاوٹ بن گیا۔
قدیم زمانے میں ساری دنیا میں بادشاہت کا رواج تھا۔ اس رواج کے تحت یہ تفریقی نظریہ لوگوں کے ذہنوں پر چھاگیا کہ سیاسی اعتبار سے انسانوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک حاکم اور دوسرے محکوم یا رعایا۔ یہ ذہن بھی ہزاروں سال تک انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹنے کا سبب بنا رہا۔ چوں کہ یہ تفریق حاکموں کے لیے نہایت مفید ِمطلب تھی اس لیے وہ اس کو راسخ کرنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتے رہے۔
اس قسم کے مختلف تفریقی نظریات نے قدیم زمانہ میں انسانی مساوات کے تصور کو ایک غیر عملی چیز بنا دیا تھا۔ اسلام نے پہلی بار تفریق انسانیت کے اس ذہن کو توڑا اور وہ حقیقی نظریہ (ideology) فراہم کی جس کی بنیاد پر انسانی مساوات کا قیام عمل میںآسکے۔
اسلام نے یہ تصور دیا کہ جو کچھ تفریق ہے وہ خدا اور انسان یا خالق اور مخلوق کے درمیان ہے، خود انسانوں کے درمیان باہمی طورپر کوئی تفریق نہیں۔ ہر انسان یکساں طور پر خدا کا بندہ ہے۔ اس اصول کے تحت عرب میں جو سماجی انقلاب آیا وہ دھیرے دھیرے تمام دنیا میں پھیل گیا، یہاں تک کہ مساوات کا وہ زمانہ آگیا جس کو آج ہم ساری دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
صبر کے لفظی معنیٰ ہیں رکنا۔ عربی میں کہتے ہیں: صبرتُ الدابّۃ (میں نے جانور کو چارے سے روک دیا)۔ شریعت میں جس صبرکا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی حقیقت اسی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ایمانی زندگی بااصول زندگی کا نام ہے۔ مومن انسان ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جذباتی ردعمل کے تحت کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس کے سامنے جب کوئی صورت حال آئے گی تو وہ رک کر سوچے گا کہ اس معاملے میںکون سا ردّ عمل میرے اصول اور مقصد کے مطابق ہے اور کون سا رد عمل میرے اصول اور مقصد کے خلاف ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیش آمدہ معاملات میں عاجلانہ جواب (hasty response) کا نام بے صبری ہے، اور سوچے سمجھے جواب (considered response) کا نام صبر۔
اس صبر کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ آپ پر ایک خواہش کا غلبہ ہوتا ہے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے کہ خواہش پیدا ہوتے ہی اس کو کر گزریں بلکہ آپ اپنے کو تھام کر سوچتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو شریعت خداوندی کا تقاضا ہے تو یہ صبر ہے۔ کسی شخص سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ مگرآپ اپنے کو روکتے ہیں اور پھر وہ کرتے ہیں جو ایمان کا تقاضا ہے، تو یہ صبر ہے۔ آپ اسلامی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، آپ کے راستے میں رکاوٹیں پیش آتی ہیں، اب آپ اندھا دھند اقدام نہیں کرتے، بلکہ سارے پہلوؤں کو شریعت کی روشنی میں جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہی کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق کرنا چاہیے تو یہ صبر ہے۔ آپ ایسے حالات میں گِھر جاتے ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اب آپ فوری جذبے کے تحت اٹھ کر حالات سے لڑنے نہیں لگتے، بلکہ قرآن اور سنت کی روشنی میں پورے معاملے کو جانچتے ہیں اور اس کے بعد وہ کرتے ہیں جو قرآن اورسنت کی منشا ہے، نہ کہ وہ جو آپ کی ذاتی منشا ہے، تو اس کا نام صبر ہے۔صبر مومن کا دستورہے، صبر مومن کا اصولِ حیات ہے۔ صبر وہ حکیمانہ طریق ِ عمل ہے جو مومن اس دنیامیں اختیار کرتا ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کی صفت نہ ہو، اس کے متعلق یہ امر مشتبہ ہے کہ اس کو ایمان کی معرفت ملی ہے، یا ابھی تک اس کو ایمان کی معرفت نہیں ملی۔
واپس اوپر جائیں
کامل انسان کون ہے۔ کامل انسان وہ ہے جس کے اندر انسانی صفات کامل درجہ میں پائی جاتی ہوں۔ جس کی شخصیت میں اوصافِ آدمیت اپنی کامل صورت میں اکھٹا ہوجائیں۔ جو ان خصوصیات کا عملی نمونہ بن جائے جو امکانی طورپر ہر فرد کے اندر اس کے خالق نے رکھ دی ہیں۔
ایسا انسان متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی پیچیدگی سے خالی ہوتا ہے۔ وہ نفس امّارہ پر نفس لوامہ کو غالب کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ النفس المطمئنۃ کا مصداق بن جاتا ہے۔
یہ وہ انسان ہے جو دنیوی چیزوں سے گزر کر حقیقت اعلیٰ میں جینے لگے۔ جو ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے، جو ارنا الأشیاء کما ھی کے درجہ میں پہنچ جائے اور چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھنے لگے، نہ کہ ان کی اس شکل میں جیسا کہ وہ بظاہر دکھائی دیتی ہیں۔
یہ آدمی وہ ہے جو ایک دلیل کے آگے اس طرح جھک جائے جس طرح کوئی شخص طاقت کے آگے جھکتا ہے۔جو بات کو خود بات کے اعتبار سے دیکھے، نہ کہ اس اعتبار سے کہ وہ اس کے موافق ہے یا اس کے خلاف۔ جو اعلیٰ ترین صلاحیت رکھنے کے باوجود آخری حد تک متواضع بن جائے۔ جس کا حل ہر قسم کے منفی جذبات سے خالی ہو۔ جو اپنے اور غیر کا فرق کیے بغیر لوگوںسے معاملہ کرسکتا ہو۔ جو ذاتی مفاد اور شخصی محرکات سے آخری حد تک بلند ہو۔ جو اپنی ذات میں جینے کے بجائے برتر حقائق پر جیتاہو۔
ہر انسان کو خدا نے امکانی طورپر انسانِ کامل ہی بنایا ہے۔مگر اس امکانی کاملیت کو ایک واقعی شخصیت میں ظاہر کرنا، یہ ہر شخص کا اپنا کام ہے۔ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس اسفل سافلین کا کیس بن جاتا ہے-یہ اس کی اپنی ارادی کوشش ہے جو دوبارہ اس کو احسن تقویم کے درجے تک پہنچاتی ہے۔کامل انسان بننے کا راز کامل تقوی ہے- یہ دراصل اللہ کا خوف ہے جو کسی انسان کو کامل انسان بنا دیتا ہے- کامل انسان بننے کا کوئی اور طریقہ نہیں-
واپس اوپر جائیں
حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا مشن صرف ایک ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ، یعنی ہر زمانے میں اور ہر مقام پر اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہنا- قرآن میں یہ بات نہایت واضح ہے- سنتِ رسول سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے- اِس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ اکثر مسلمان دعوت الی اللہ کے کام کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے- اِس کا سبب ایک ’’مگر‘‘ ہے- یہ مگر،قومی مگرہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا عام طورپر یہ حال ہے کہ وہ اپنے قومی مسائل کو لے کر سوچتے ہیں- اِس کے مطابق، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قومیں اُن کے خلاف سازش کرتی رہتی ہیں- یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بناپر وہ دعوت کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے، وہ دعوت کی اہمیت کا اقرار کریں گے، اس کے بعد ایک ’’مگر‘‘ کہہ کر اس کو چھوڑیں گے -
مذکورہ قومی ذہن کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں- دوسروں کے بارے میں ان کی سوچ پوری کی پوری منفی سوچ بن گئی ہے- دوسری قوموں کےلیے اُن کے دل میں صرف نفرت ہے، نہ کہ خیر خواہی، اور یہ ایک واقعہ ہے کہ دعوت کا کام ہمیشہ دوسروں کے لیے خیر خواہی کے جذبے کےتحت ہوتا ہے- نفرت کے جذبے کے ساتھ کبھی دعوت کا کام نہیں کیا جاسکتا-
اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں مسابقت (competition) اور چیلنج کا نظام قائم ہے- مسلمان جن چیزوں کو بطور خود ظلم اور سازش سمجھتے ہیں، وہ سب کے سب اللہ کے اِسی تخلیقی منصوبے کی بنا پر ہیں- یہ صورتِ حال اِس دنیا میں ہمیشہ تھی اور ہمیشہ باقی رہے گی- اِس لیے مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنی مفروضہ ’’شکایتوں‘‘ کو اللہ کے خانے میں ڈال دیں، جن کو اب تک وہ دوسری قوموں کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں- ایسا کرنا مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس قومی ذہن سے آزاد کریں، اِس کے بغیر وہ دعوت الی اللہ کی ذمے داری کو ادا نہیں کرسکتے-
واپس اوپر جائیں
دعوت الی اللہ تمام پیغمبروں کا مشن تھا اور خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی-دعوت الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی طرف بلانا- دعوت الی اللہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اللہ کی پکڑ سے ڈرانا اور اللہ کے انعام کی خوش خبری دینا-
دعوت الی اللہ کیا ہے، اِس کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ دعوت الی اللہ یہ ہےکہ لوگوں کو اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے آگاہ کیا جائے- لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ خالق نے یہ دنیا کیوں بنائی، اُس نےانسان کو یہاں کس لیے آباد کیا، زندگی کیا ہے اور موت کیا-
یہ سوالات ہر انسان کے لیے بنیادی سوالات ہیں- اِنھیں سوالات کے جواب پر انسانی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے- اِنھیں سوالات کے جواب سے یہ متعین ہوتاہے کہ انسان کیا کرے اور کیا نہ کرے- اللہ تعالی نے ہر دور میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اُن پر وحی کی- اِس وحی کی روشنی میں انھوں نے ہر دور کے انسانوں کو بتایا کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے- وہ دنیا میں کس طرح زندگی گزاریں کہ وہ اللہ کی پکڑ سے بچیں اور آخرت کے انعامات کے مستحق قرار پائیں-
ہر پیغمبر اپنے بعد الہامی کتاب کی صورت میں یہ ہدایت اپنے زمانے کے لوگوں کو دیتا رہا، لیکن قدیم دور میں یہ الہامی تعلیمات محفوظ نہ رہ سکیں- یہ واقعہ ہر پیغمبر کے بعد بار بار ہوا- آخر کار اللہ تعالی نےاپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا، اور آپ پر اتری ہوئی تعلیمات کو ایک کتاب کی شکل میں محفوظ کردیا جس کو ہم قرآن کہتے ہیں- اب یہی قرآن نبوت کا بدل ہے- اب امتِ محمدی کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ہر دور میں اور ہر نسل میں قرآن کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتی رہے- یہ کام اِس طرح موثر انداز میں ہونا چاہیے کہ لوگوں کا ذہن ایڈریس ہو اور وہ اپنے خالق کی منشا کو سمجھیں اور اس کو اپنی زندگی میںاختیار کرسکیں-
واپس اوپر جائیں
مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل دورِ زوال کا ایک ظاہرہ ہے-کوئی امت جب بعد کے زمانے میں زوال (degeneration) کا شکار ہوتی ہے تو اُس وقت امت کے اندر وہ چیز پیدا ہوجاتی ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ زوال کا تعلق فطرت کے ایک قانون سے ہے۔ اِس میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ اپنے دورِ زوال میں ہے، اور زوال کے دوسرے مظاہر کی طرح اس کے اندر مذہبی انتہا پسندی آچکی ہے۔ قرآن اور حدیث میں مذہبی انتہا پسندی کے لیے جو لفظ استعمال کیاگیا ہے، وہ غلو ہے۔ کسی امت کی بعد کی نسلوں میں جب زوال آتا ہے تو اُس وقت فطری قانون کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ امت کے افراد میں دین کی اسپرٹ ختم ہوجاتی ہے۔ اُن کے درمیان صرف دین کا فارم باقی رہتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی دراصل مبنی بر فارم مذہب کا دوسرا نام ہے۔
کسی امت کے دور زوال میں جب مبنی بر فارم مذہب کا رواج ہوجائے تو ایسا ہوتا ہے کہ دین کے ہر معاملے میں ظواہر کو اہم سمجھ لیا جاتا ہے۔ اُس وقت فطری طور پرایسا ہوتاہے کہ قرآن میں صحتِ تلفظ کو ساری اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ عبادت کے معاملے میں خشوع کے بجائے ارکان کی ادائیگی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔ دینی احکام کے معاملے میں ساری بحث اس کے فنی پہلوؤں پر مرتکز ہوجاتی ہے۔ اسلامی زندگی کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ ایک ظاہری شناخت (identity) کو اختیار کرلیاجائے۔ اسلامی دعوت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ مروجہ سیاسی نظام کو توڑ کر اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی حکومت کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بالجبر لوگوں کے اوپر شرعی حدود قائم کی جائے۔ اسلامی مفاد کا مطلب یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ تمام قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ کیا جائے، وغیرہ-
کسی امت کا دور زوال میں پہنچنا کیا ہے، وہ ایک عمومی مثال کے مطابق، تاڑ سے گرکر کھجور پر اٹکنا ہے۔ ایسے وقت میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ عام قوموں کی طرح صرف ایک مادی قوم بن جاتی ہے۔ تاہم اپنی تاریخی روایات کے مطابق، اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے دین سے قطع تعلق کرلے۔ دین اس کے لیے ایک روایتی وراثت ہوتا ہے۔ دین اس کی قومی شناخت ہوتا ہے۔ دین کی تاریخ اس کے لیے فخر کا سرمایہ ہوتی ہے۔ اس کے ادارے اور اس کی سرگرمیاں، سب کی سب، دین کے نام پر کھڑی ہوتی ہیں۔ دین اب اس کے لیے صرف دین نہیں رہتا، بلکہ وہ اس کی دنیوی حیثیت کی واحد علامت بن جاتاہے-
کسی امت پر جب یہ وقت آتا ہے تو اُس وقت اس کے اندر وہ ظاہرہ فروغ پاتا ہے جس کو مذہبی انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔ فطری طورپر اُس وقت اِس مذہبی انتہا پسندی کا اظہار دین کی اسپرٹ میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ظواہر میں ہوتا ہے۔ اُس وقت دین کا اظہار اُن معاملات میں ہوتا ہے جن کا تعلق زندگی کے دنیوی یا مادّی پہلو سے ہو-
ایک زوال یافتہ امت کے اندر کام کا آغاز افراد کی اصلاح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماعی اقدام سے۔ ایسی امت کے اندر اگر کوئی اجتماعی ادارہ بنایا جائے، اس کےاندر کوئی حکومت قائم کی جائے، اس کے اندر کوئی تنظیم قائم کی جائے تو ایسا ہر اقدام ہمیشہ نتیجے کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوگا۔ کیوں کہ زوال یافتہ امت کے اندر بنائے ہوئے اجتماعی ادارے کے ارکان بھی زوال یافتہ ہوں گے۔ اِس بنا پر اِس قسم کا اجتماعی ادارہ اپنے درودیوار یاظاہری دھوم کے اعتبار سے تو ادارہ نظر آئے گا، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ صرف ایک شان دار قبرستان ہوگا، اِس کے سوا اور کچھ نہیں-
واپس اوپر جائیں
علامہ اقبال (وفات: 1938) بر صغیر ہند کی نہایت مشہور شخصیت تھے، مسلمانوں کے ہر حلقے میں ان کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا ایک مشہور شعر یہ ہے:
چین وعرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ شعر ایک عرب اسکالر ڈاکٹر عبد الوہاب عزام (وفات: 1959 ء) کو اتنا زیادہ پسند آیا کہ انھوں نے عربی زبان میں اس کا ترجمہ کرکے اس کو شائع کیا۔ اُن کا عربی ترجمہ یہ تھا:
الصین لنا والعُرب لنا والہند لنا والکل لنا
لیکن یہ شعر صحیح اسلامی ذہن کی ترجمانی نہیں-اِس کا ایک ثبوت یہ ہےکہ کسی صحابی یا کسی تابعی نے مسلم کی تعریف اِن الفاظ میں نہیں کی۔ حقیقت کے اعتبار سے یہ بات درست نہیں کہ ساری دنیا مسلمانوں کی دنیا ہے، بلکہ ساری دنیا انسانوں کی دنیا ہے، نہ کہ کسی قوم یا کسی امت کی دنیا۔ قرآن وسنت میں تخلیقِ عالم کا جو تصور دیاگیا ہے، وہ یہی ہے-
صحیح بات یہ ہے کہ ہر مسلم اُسی طرح ایک انسان ہوتا ہے جس طرح دوسرے انسان۔ خدا کی بنائی ہوئی دنیا پر کسی مسلم کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے انسانوں کا حق۔ اللہ نے یہ دنیا کسی خاص امت کے لیے نہیں بنائی، بلکہ سارے انسانوں کے لیے بنائی ہے-
البتہ مسئولیت کے اعتبار سے، مسلم یا مسلم امت کی ایک ذمہ داری ہے، اور وہ دعوت الی اللہ کی عالمی ذمے داری ہے۔ مسلمان خاتم النبیین کی امت ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کی یہ لازمی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے پیغمبر سے ملے ہوئے دینِ خداوندی کو ساری دنیا کے انسانوں تک پہنچائیں اور قیامت تک پہنچاتے رہیں۔ ساری دنیا مسلمانوں کی دنیا نہیں ہے، البتہ ساری دنیا کے انسان مسلمان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں-قرآن وحدیث کے اعتبار سے یہی صحیح اسلامی ذہن ہے-
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کہ میرا پروموشن (promotion) ہوگیا ہے، اب مجھے زیادہ تنخواہ ملے گی، زیادہ بڑا گھر رہنے کو ملے گا، اب مجھے زیادہ بڑی گاڑی استعمال کے لیے دی جائے گی- پہلے مجھے سفر کے لیے ریلوے کا پاس (pass) ملتا تھا، اب مجھے سفر کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملے گا، وغیرہ-اس کو سن کر میںنے سوچا کہ یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے- جنت کے معاملے کو دنیا کی اصطلاح میں اسی طرح بیان کیا جاسکتا ہے، جنت کا معاملہ بھی گویا پروموشن کا معاملہ ہے، جن لوگوںکا ریکارڈ موجودہ غیر کامل دنیا میں اچھا ہوگا، ان کو پروموٹ کرکے آخرت کی کامل دنیا (جنت) میں داخل کردیا جائے گا-
یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ آدمی دنیا میں بہت زیادہ ہوش مندی کے ساتھ رہے، وہ اپنے ہر معاملے کو اِسی نظر سے جانچے کہ وہ جنّت میں داخلے کے لیے رکاوٹ ہے یا مدد گار- اِس اعتبار سے جس آدمی کا ذہن بیدار ہو، وہ گویا کہ خود اپنا چوکی دار بن جائے گا، وہ اپنی سوچ، اپنی گفتگو، اپنا سلوک، غرض اپنے قول وعمل کی مسلسل طورپر نگرانی کرتا رہے گا، وہ حضرت عمر کے اِس قول کا مصداق بن جائے گا کہ: وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا (کنزل العمال: 44203)یعنی اپنے آپ کو دنیا میں تولو اِس سے پہلے کہ تم کو آخرت میں تولا جائے-
پروموشن کی خبر کی طرح دعوت بھی ایک خبر ہے- اگر کسی شخص پر سچائی منکشف ہوجائے تو اس کےلیے یہ واقعہ جاب میں پروموشن کی خبر سے بلین گنا زیادہ بڑا واقعہ ہوگا- ایسا آدمی اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی دریافت کو اپنے ذہن میں لیے رہے اور اس کا اعلان نہ کرے- حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی دریافت اپنے آپ کسی آدمی کو داعی بنا دیتی ہے- اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے سچائی کو پالیا ہے، اس کے باوجود وہ دعوت الی اللہ کا کام نہ کرے تو یہ گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے سچائی کو پایا ہی نہیں-
واپس اوپر جائیں
اسلام میں سب سے زیادہ مطلوب چیز فرد کا تزکیہ ہے، یعنی ربانی تصورِ حیات کے مطابق، ذہنی ارتقا۔ کسی صاحبِ عقیدہ کے اندر جو اعلی صفات مطلوب ہیں، اُن کا اصل ذریعہ یہی ذہنی ارتقا ہے۔ علمی اعتبار سے، ذہنی ارتقا کا ذریعہ قرآن وحدیث کا مطالعہ ہے۔ کوئی آدمی جتنا زیادہ مطالعہ کرے گا، اتنا ہی زیادہ اس کے اندر وہ علمی بنیاد پائی جائے گی جو تزکیہ کے عمل کے لیے ضروری ہے-
لیکن تزکیہ یا ذہنی ارتقا کے لیے ایک اور چیز مطلوب ہے۔ اس کو نفسیاتی بنیاد کہاجاسکتا ہے۔ اِس نفسیاتی بنیاد کو علماء نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: الإیمان بین الرجاء والخوف - یعنی ایمان امید اور خوف کے درمیان ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ مومن ہمیشہ ایک قسم کے شک (suspicion) کی حالت میں جیتا ہے۔ کبھی وہ اللہ کی رحمت کو یاد کرکے یقین کا تجربہ کرتا ہے اور کبھی وہ اپنی کوتاہیوں کو سوچ کر شبہہ کی حالت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہ ایمانی کیفیت اتنی زیادہ عام ہے کہ صحابہ کا بھی اِس معاملے میں استثنا نہیں-
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ فطرت کے نقشے کے مطابق، یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے آدمی کا ذہنی ارتقا مسلسل طورپر جاری رہے۔ شبہہ کی یہ حالت دراصل ایک قسم کا ذہنی شاک (intellectual shock) ہے، اور نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ذہنی ترقی صرف شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کے ذریعہ ہوتی ہے-
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ انسان خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) پر کھڑا ہو۔ اور خود دریافت کردہ حقیقت کے حصول کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان کے اندر مسلسل طورپر سوچ کا عمل (thinking process) جاری رہے۔ اعلىٰ علم و معرفت کے حصول کے لیے ’’میں نہیں جانتا‘‘ کی نفسیات درکار ہے، نہ کہ ’’میں جانتا ہوں‘‘ کی نفسیات-
واپس اوپر جائیں
بائبل (نیا عہد نامہ) کے باب متّی میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح نے کہا کہ — یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں، صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
Do not suppose that I have come to bring peace to the earth. I did not come to bring peace, but a sword. (Matthew,
مسیحی علما ء اِس قول میں ’’تلوار‘‘ کے لفظ کو تمثیل کے معنی میں لیتے ہیں- اُن کے نزدیک، یہاں تلوار کا لفظ تمثیل کے معنی میں ہے- اِس سے مراد نظریاتی ٹکراؤ ہے- مسیح نے اپنے اِس قول میں عملی تشدد کی وکالت نہیں کی ہے:
Many Christians believe that the sword is a metaphor for ideological conflict and that Jesus is not advocating physical violence.
مسیحی علماء کی یہ تاویل بالکل درست ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ تلوار کا لفظ تمثیل کے طورپر بھی استعمال ہوتا ہے، ادبی لٹریچر میں بھی اور مذہبی لٹریچر میں بھی- اسلام میں بھی تلوار کا تمثیلی استعمال پایا جاتا ہے- اصل یہ ہے کہ تلوار یا جنگ کا لفظ اپنے ادبی استعمال کے لحاظ سے اکثر شدت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی بھر پور جدوجہد کرنا-
مثلاً کہا جاتا ہے: فائٹ ٹو فنش (fight to finish)- اِس جملے کا مطلب جنگ نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو، اپنی کوشش میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہ کرو-لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ تنقید کو اتنا ہی برا سمجھتے ہیں، جتنا کہ تشدکو- مگر یہ لوگوں کی حساسیت کی بات ہے، ورنہ تنقید ایک پرامن اصلاحی عمل ہے- انسان کو چاہئے کہ وہ تنقید کو مثبت انداز میں لے- وہ تنقید کو برا سمجھنے کے بجائے اس پر غور کرے-
واپس اوپر جائیں
برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ انِاک پاویل (Enoch Powell) نے ان سیاسی لیڈروں پر تبصرہ کیا ہے جومیڈیا کی شکایت کرتے ہیں-اُن کے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے- انھوں نے کہا کہ کسی سیاسی لیڈر کی میڈیا سے شکایت ایسی ہی ہے جیسے پانی کے جہاز کا ایک کیپٹن سمندر کی موجوں کی شکایت کرنے لگے:
A politician who complains about the media is like a ship’s captain complaining about the sea.
یہ تبصرہ بالکل درست ہے- مگر یہ صرف سیاسی لیڈر اور میڈیاکی بات نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کے لیے عام ہے- کوئی بھی عورت یا مرد جب کسی کی شکایت کرتے ہیں تو حقیقت کے اعتبار سے اُن کی شکایت ایک بے جا شکایت ہوتی ہے وہ ایک ایسے معاملے کو شکایت کا معاملہ بنالیتے ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شکایت کا معاملہ ہی نہیں-اِس دنیا کا نظام فطرت کے اصول پر قائم ہے- فطرت کے اصول کے مطابق کسی انسان کو جس دنیا میں رہنا پڑتا ہے، وہ گویا ایک سمندر ہے- اجتماعی زندگی ہمیشہ موجوں سے بھرے ہوئے سمندر جیسی ہوتی ہے- اجتماعی زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ایک انسان کو موجوں سے سابقہ پیش آئے گا- آدمی کو چاہئے کہ وہ ان موجوں کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھے- وہ موجوں کی شکایت کرنے کے بجائے یہ آرٹ سیکھے کہ وہ کس طرح کامیابی کے ساتھ اِن موجوں سے گزر سکتا ہے-
زندگی میں موج یا چیلنج کا وجود کوئی برائی نہیں- وہ انسان کی بہتری کے لیے ہے، وہ اس لیے ہے کہ انسان کی تربیت کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کی عقل میں اضافہ کرے، وہ اِس لیے ہے کہ انسان کو اور زیادہ طاقتور بنائے- زندگی میں مشکلات کی حیثیت تجربہ کی ہے، اور تجربہ کے بغیر کبھی کوئی انسان مکمل نہیں ہوسکتا-آدمی کو چاہئے کہ وہ تجربات سے سیکھے، وہ شکایات کی نفسیات سے آخری حد تک اپنے آپ کو بچائے-
واپس اوپر جائیں
1- انٹرنیشنل اسکول فار جین اسٹڈیز کے زیر اہتمام نان وائلنس پر تین ہفتہ کا ایک ورکشاپ منعقد کیا گیا، جس میں امریکہ، کناڈا، زمبابوے، اور پاکستان کے
The Concept of Non-violence in Islam
لکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی۔ تمام حاضرین نے بڑے انٹرسٹ کے ساتھ سنا۔ سی پی ایس ممبر مس ماریہ خان اور مس صوفیہ خان نے ان کے درمیان قرآن کا انگلش ترجمہ اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا، جسے تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ یہ پروگرام ولبھ اسمارک جین مندر، علی پور میں ہوا تھا۔
http://cpsglobal.org/content/religion-and-social-change-july-30-2014
-3 سی پی ایس کی کولکاتا ٹیم نے 2اگست 2014 کوایک انٹر فیتھ ڈائلاگ کا اہتمام کیا۔ اس کا عنوان تھا:
Importance of Peace & and Spirituality in Global Perspective
اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ مثلا مسٹراو ۔پی۔ شا، اور مسٹر وجئے یوگی (ہندوازم)، مسٹرمونی جی مہاراج (جین ازم)،Rev پی ایس بشپ (کرشچنیٹی)، ٹی ایس والیا (سکھ ازم)، اور ڈاکٹر سید تنویر نسرین (یونیورسٹی آف بردوان)، وغیرہ۔ پروگرام کے اختتام پر تمام لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ جس کو تمام مہمانوں نے بخوشی قبول کیا۔ پروگرام کا اختتام مولانا محمد شفیق قاسمی (امام ناخدا مسجد اور صدر کولکاتا ٹیم) کے کلمات پر ہوا۔
4- ٹائمس آف انڈیا اور کوکیلا دھیروبھائی امبانی ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام
http://cpsglobal.org/content/organ-donation-august-11-2014
http://cpsglobal.org/content/organ-donation-noble-act
5- سی پی ایس کی ممبئی ٹیم نے
6- بی بی سی ٹی وی کی ٹیم
7- ترکی کی ایک تعلیمی این جی او انڈیا لاگ (Indialogue) کے زیر اہتمام چلنے والے کئی اسکولوں میں گڈورڈبکس، دہلی کی جانب سے 100 انگلش ترجمۂ قرآن اورسو سو تمام دعوتی کتابچے ارسال کئے گئے۔
8- صدر اسلامی مرکز کی کتاب الاسلام کا انگریزی ترجمہ گڈورڈبکس سے طبع ہوچکا ہے، انگریزی ورزن کا نام ہے: The Vision of Islam۔ اس کتاب کو اس لنک پر آن لائن پڑھا جاسکتا ہے:
http://cpsglobal.org/books/vision-islam
9- مختلف قسم کے دعوتی تجربات وتاثرات کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
At the end of our weeklong professional development course at La Salle university, Philadelphia, I gave out copies of Quran translation to my class of 12 fellow teachers from different schools and two professors who facilitated the program. I was a little hesitant at first to give out the copies of Quran as it is customary here to not talk about religion and politics inside the class room. To my surprise, everyone was happy and appreciative to receive the copies of the Quran and said it was a very thoughtful gesture. (Khwaja Kaleemuddin, US)
3000 copies of a bigger size Quran published for Serving Islam Team, a prominent dawah group in Hong Kong. This size will now be kept in hotel rooms in Dubai and other places.
Respected Maulana Sahib, I have read your book, Jeewan Ka Udeshya. I like reading books that are not concerned with either Islam or Hinduism. This book is readable for every living human being. (RC Jain, Jodhpur)
Feedback of a reader of Spirit of Islam: I received my first edition of the Spirit of Islam early this month and would like to give my feedback. The magazine has umpteen social messages which have been beautifully illustrated in each of its articles. Every article has spiritual significance to convey to its readers. The magazine highlights the essence of spirituality in its true sense, which is synonymous with social peace and harmony. As a teenager myself, everyday comes to me as a challenge. Each day, I am introduced to situations that have the potential to lead me astray and make me take wrong decisions. In such a case, articles such as, Suicide is Not an Option, have profound messages to tell and act as courage boosters! Every article has a small yet, a significant lesson that can come in handy in my everyday life. I consider it my privilege to be introduced to this magazine. I would want to congratulate and convey my gratitude to everyone associated with the Spirit of Islam. I would be looking forward to the future editions of the magazine. (Hemapriya R.)
Taxi dawah: A taxi driver asked Mr. Javed of the Ministry of Awqaf, UAE, for the English Quran translations so that he could give it to the passengers. We are giving him 100 copies of the Quran for distribution to the tourists. (Seema Jalal, Dubai)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.