رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ تمھارے باپ ابراہیم کا طریقہ (ماہذہ الأضاحی، قال: سنّۃ أبیکم إبراہیم (مسند احمد،رقم الحدیث: 18797؛ ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3127)۔ اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ عید ِاضحی کی حقیقت کیاہے، وہ ہے —حضرت ابراہیم کے طریقے کو علامتی طورپر انجام دے کر اُس کو عملی اعتبار سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا عہد کرنا۔
عید اضحی ہر سال ماہِ ذو الحجہ کی مخصوص تاریخوں میں دہرائی جاتی ہے۔ وہ دراصل حج کی عالمی عبادت کاحصہ ہے۔ حج پورے معنوں میں، حضرت ابراہیم کی زندگی کا علامتی اعادہ (symbolic performance) ہے۔ اِس کا ایک حصہ وہ ہے جو ہر مقام پر عید ِ اضحی کی شکل میں جزئی طورپر انجام دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم کا مشن عالمی دعوتی مشن تھا۔ آپ نے اِس مشن کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کیا ۔ آپ نے اپنے اہلِ خاندان کو اِسی کام میں لگایا۔ آپ نے اِس دعوتی مشن کے مرکز کے طورپر کعبہ کی تعمیر کی اور اُس کا طواف کیا۔ آپ نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرکے بتایا کہ دنیا میں میری دوڑ دھوپ تمام تراللہ کے لیے ہوگی۔ آپ نے قربانی کرکے اپنے اندر اِس عزم کو پیدا کیا کہ آپ اپنی زندگی کو پوری طرح، اللہ کے کام کے لیے وقف کریں گے۔ آپ نے احرام کی شکل میں سادہ کپڑے پہنے جو اِس بات کی علامت تھے کہ ان کی زندگی مکمل طور سادہ زندگی ہوگی۔ آپ نے شیطان کو کنکریاں مار کر اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے آپ کو شیطان کے بہکاوے سے آخری حد تک بچائیں گے، وغیرہ۔
اِسی ابراہیمی طریقِ زندگی کو جزئی طور پرہر سال عید ِ اضحی کے موقع پر تمام مسلمان اپنے اپنے مقام پر دہراتے ہیں۔ اِس طرح یہ عید ِ اضحی، حضرت ابراہیم کے طریقِ حیات کو اپنی زندگی میںاپنانے کا ایک سالانہ عہد ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو یہ جانچنا چاہیے کہ اُس نے عید ِ اضحی کے دن کو صحیح طور پر منایا، یا صحیح طورپر نہیں منایا۔
عید اضحی کے دن مسلمان اپنے قریب کے لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ ملاقاتیں گویا اُس دعوتی سرگرمی کی تجدید ہیں جو حضرت ابراہیم نے اپنے وقت کی آباد دنیا میں انجام دیں۔ اِسی طرح آج ہر مسلمان کو اپنے زمانے کے لوگوں کے درمیان دعوتی ذمے داریوں کو ادا کرنا ہے۔ پھرہر جگہ کے مسلمان اللہُ أکْبَرُ اللہُ أکْبَرُ، لاَ إلٰہَ إلاّ اللہُ وَاللہُ أکْبَرُ، اللہُ أکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُکہتے ہوئے مسجدوں میں جاتے ہیں اور وہاں دو رکعت نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور امام کا خطبہ سنتے ہیں۔ یہ اپنے اندر اِس روح کو زندہ کرنا ہے کہ میں خدا کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، اور یہ کہ میری پوری زندگی عبادت اور اطاعت کی زندگی ہوگی۔ اِسی کے ساتھ امام کے پیچھے نماز ادا کرنا اور نماز کے بعد خطبہ سننا، اِس بات کا عہد ہے کہ میںاِس دنیامیں اجتماعی زندگی گزاروں گا، نہ کہ متفرق زندگی۔
عید ِ اضحی کے دن قربانی کی جاتی ہے۔ اِس قربانی کے وقت یہ کلمات ادا کیے جاتے ہیں:اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الأنعام:
قربانی کے وقت ادا کیے جانے والے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قربانی کی اصل روح یا اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ قربانی دراصل ایک علامتی عہد (symbolic covenant)ہے۔ اِس علامتی عہد کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ عید اضحی کے دن آدمی علامتی طورپر یہ عہد کرتا ہے کہ اس کی زندگی پورے معنوں میں، خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہوگی۔ وہ اپنی زندگی میںعبادتِ الٰہی کو اُس کے تمام تقاضوں کے ساتھ شامل کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں وقف کرے گا۔ وہ دنیا میں سرگرم ہوگا تو خدا کے مشن کے لیے سرگرم ہوگا۔ اُس پر موت آئے گی تو اِس حال میں آئے گی کہ اُس نے اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے مشن میں لگا رکھا تھا، وہ پورے معنوںمیں خداوند ِ عالم کا بندہ بناہوا تھا۔ اُس کا جینا خدا کے لیے جینا تھا، نہ کہ خود اپنے لیے جینا۔
واپس اوپر جائیں
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یأتی علی الناس زمانٌ یحجّ أغنیاء الناس للنزاہۃ، وأوساطہم للتّجارۃ، وقرّاؤہم للرّیاء والسُمعۃ، وفقراء ہم للمسئلۃ (کنز العُمّال، رقم الحدیث: 12362 ) یعنی لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا، جب کہ مال دار لوگ تفریح کے لیے حج کریں گے، اور اُن کے درمیانی درجے کے لوگ تجارت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے علماء دکھاوے اور شہرت کے لیے حج کریں گے، اور ان کے غریب لوگ مانگنے کے لیے حج کریں گے۔
یہ حدیث بہت ڈرا دینے والی ہے۔ اس کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ اُنھیں غور کرنا چاہیے کہ اُن کا حج اِس حدیثِ رسول کا مصداق تونہیں بن گیا ہے۔ مال دار لوگ سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی اسپرٹ ہے ، یا سیر و تفریح (outing) کی اسپرٹ۔ عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دینی فائدے کے لیے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کے لیے۔ علماء غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کے لیے بیت اللہ جاتے ہیں، یا اپنی پیشوایانہ حیثیت کو بلند کرنے کے لیے۔ اِسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انھوں نے خدا سے مانگنے کا ذریعہ بنایا ہے، یا انسانوں سے مانگنے کا ذریعہ۔
اِس حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ امت پر جب زوال آئے گا تو اُس وقت لوگوں کا حال کیا ہوگا۔ دورِ عروج میں امت کا حال یہ ہوتا ہے کہ دین کا روحانی پہلو غالب رہتا ہے اور اس کا مادّی پہلو دبا ہوا ہوتا ہے۔ دورِ زوال میں برعکس طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کا روحانی پہلو دب جاتا ہے اور اس کا مادّی پہلو ہر طرف نمایاں ہوجاتا ہے۔ پہلے دور میں، تقویٰ کی حیثیت اصل کی ہوتی ہے اور مادّی چیزیں صرف ضرورت کے درجے میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، دورِزوال میں مادی چیزیں اصل بن جاتی ہیں اور کچھ ظاہری اور نمائشی چیزوں کا نام تقویٰ بن جاتا ہے۔ یہی معاملہ حج اور عمرہ کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور اسلام کی دوسری عبادات کے ساتھ بھی۔
واپس اوپر جائیں
اللہ اکبر نماز کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہے- اذان اور نماز دونوں ملا کر دیکھا جائے تو پانچ وقت کی نمازوں میں اللہ اکبر کا کلمہ روزانہ تقریباً تین سو بار دہرایا جاتا ہے، یعنی ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بار- گویا ایک مسلمان اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ جوکلمہ سنتا یا بولتا ہے، وہ اللہ اکبر کا کلمہ ہے، یعنی اللہ سب سے بڑا ہے-
اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ایک مسلمان، اللہ کی عظمت کو دریافت کرے- اللہ کی عظمت اس کے شعور کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہو- اللہ کی عظمت اس کے تفکیری عمل (thinking process) میں اِس طرح شامل ہوجائے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ کی عظمت کے احساس سے غافل نہ ہو-
اللہ اکبر کا کلمہ کسی انسان کی زندگی میں ایک شاہ ضرب (master stroke)کی حیثیت رکھتا ہے- اگر حقیقی معنوں میں کسی انسان کو اللہ کی دریافت ہوجائے تو اس کے بعد اس کی زندگی میں سب سے بڑا مثبت بھونچال آجائے گا- وہ پورے معنوں میں ایک نیا انسان بن جائے گا- اللہ اس کی سوچ کا واحد مرکز بن جائے گا- اس کی زندگی پورے معنوں میں ایک خدا رخی زندگی بن جائے گی-
ایسے انسان کا معاملہ یہ ہوگا کہ اللہ اس کا سپریم کنسرن (supreme concern) بن جائے گا- اللہ کے سوا ہر چیز اس کی زندگی میں سکنڈری حیثیت اختیار کرلے گی- اس کے اندر مادی طرز فکر کا خاتمہ ہوجائے گا- اس کی سوچ قومی سوچ کے بجائے اصولی سوچ بن جائے گی- وہ آخرت کی کامیابی کا حریص بن جائے گا- وہ منفی سوچ سے مکمل طورپر پاک ہوجائے گا- اس کی شخصیت کامل معنوں میں ایک متواضع (modest)شخصیت بن جائے گی- اس کے اندر سے کبر (arrogance) کا خاتمہ ہوجائے گا — اللہ اکبر ایک اعتبار سے عقیدہ ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک شخص کی زندگی کا کامل طریقہ-حقیقت یہ ہے کہ اللہ اکبر خلاصۂ ایمان ہے-
واپس اوپر جائیں
اخلاص کے معنی ہیں خالص (pure) ہونا، ملاوٹ سے پاک ہونا- سیکولراصطلاح میں جس چیز کو سنجیدگی (sincerity) کہا جاتا ہے، دینی اصطلاح میں اُس کا نام اخلاص ہے- اخلاص تمام دینی اعمال کی لازمی شرط ہے- جودینی عمل اخلاص کے ساتھ کیا جائے، وہی عمل دینی عمل ہے اور جس دینی عمل میں اخلاص نہ پایا جائے، وہ بظاہر دینی عمل ہونے کے باوجود دینی اعتبار سے بے قیمت ہو جائے گا-
اصل یہ ہے کہ انسان کا ذہن ایک وسیع جنگل ہے- انسانی ذہن کے اندر طرح طرح کے تقاضے، طرح طرح کی خواہشیں، طرح طرح کے دواعی (motivations) ہمیشہ موجود ہوتے ہیں- اِس واقعے کی بنا پر انسان کے اندر وہ کمزور ی پیدا ہو جاتی ہے جس کو متعصبانہ طرز فکر (biased-thinking) کہا جاتا ہے- ایسی حالت میں اخلاص یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو تمام فکری ملاوٹوں سے بچائے اور انتہائی حد تک بے آمیزانداز میں اپنی رائے قائم کرے-مثال کے طورپر شہد کی مکھی جب پھولوں سے شہد نکال کر اس کو اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے تو وہ کامل خالص پن (purity) کے ساتھ یہ کام انجام دیتی ہے، لیکن ایک تاجر جب اس شہد میں ملاوٹ کرکے اس کو بیچتا ہے تو وہ اس کو غیر خالص بنا دیتا ہے-
یہی معاملہ تمام دینی اور اخلاقی عمل کا ہے- اگر آدمی ایک دینی کام صرف اللہ کے لیے کرے تو وہ اللہ کی نظر میں صاحبِ اخلاص قرار پائے گا- اِس کے برعکس، اگر وہ دینی یا اخلاقی کام کو اِس طرح کرے کہ وہ اِس میں کسی اور ذاتی غرض کو شامل کردے، مثلاً شہرت یا لوگوں کی نظر میں نیک نامی یا کوئی ذاتی مفاد، وغیرہ- اگر کسی شخص کے بظاہر دینی عمل میں اِس طرح کا ذاتی محرک شامل ہوجائے تو اس کا عمل غیر مخلصانہ عمل بن جائے گا- اللہ کی نظر میں ایسے عمل کی کوئی قیمت نہ ہوگی- تاہم اخلاص کا کوئی خارجی معیار نہیں، اخلاص تمام تر داخلی نیت کا معاملہ ہے- اس کو یا تو انسان خود سمجھ سکتا ہے، یا اللہ جو دلوں کی حالت کو جاننے والا ہے-
واپس اوپر جائیں
ابوالعتاہیہ (وفات:
وفی کلّ شیء لہ آیة تدلّ على أنہ الواحد
یہ شعر بجائے خود ایک اچھا شعر ہے، لیکن چیزوں میں نشانیوں (signs) کا موجود ہونا اپنے آپ میں نصیحت کے لیے کافی نہیں- نصیحت کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کو دیکھنے والا صاحبِ عقل ہو- اِسی لیے قرآن میں زمین اور آسمان کی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہاگیا ہے کہ: لآیات لقوم یعقلون (
عقل سے مراد سوچنے کی صلاحیت ہے، یعنی چیزوں کو سادہ طورپر نہ لینا، بلکہ اُن پر غور کرنا- قرآن میں آیا ہے کہ: وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ (
اعراض کا مطلب ہے روگردانی کرنا- آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بار بار نشانیوں (signs) کو دیکھتے ہیں، مگر وہ اس پر دھیان نہیں دیتے، وہ اُس پر زیادہ غور نہیں کرتے، وہ اُس سے سبق لینے کی کوشش نہیں کرتے- نشانیاں بلا شبہہ اپنی ذات میں نشانیاں ہیں، لیکن وہ زندگی کے لیے سبق آموز صرف اُس وقت بنتی ہیں جب کہ آدمی ٹھہر کر ان کے بارے میں سوچے، وہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرے-
نشانیوں سے مراد کوئی محدود چیز نہیں ہے- ہر مشاہدہ اور ہر تجربہ ایک نشانی ہے- ہر واقعے میں نشانی کا ایک پہلو ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ نشانیوں کو دریافت کرے اور اُن کے ذریعے اپنے فکری رزق (intellectual food) کا سامان کرے-
واپس اوپر جائیں
سیکولر فکر رکھنے والے متعدد اہلِ علم نے یہ بات کہی ہے کہ خدا کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے — خدا، انسان کی ایک عظیم ایجاد ہے:
God is a great invention by man
یہ صرف ایک ورڈ پلے (word play) ہے- زیادہ درست بات یہ ہے کہ اِس طرح کہاجائے کہ — انسان، خدا کی ایک عظیم تخلیق ہے:
Man is a great creation by God
خدا کے وجود کے بارے میں میں علمی غوروفکر سب سے پہلے فلسفہ میں شروع ہوا- فلسفہ اِس معاملے میں کسی حتمی انجام تک نہ پہنچ سکا- گلیلیو اور نیوٹن کے بعد غوروفکر کا سائنسی انداز شروع ہوا- سائنس کا موضوع اگرچہ خالق نہیں تھا، بلکہ اس کے اپنے الفاظ میں، نیچر(nature) تھا- مگر نیچر کیا ہے- نیچر تخلیق کا دوسرا نام ہے- گویا سائنس کا موضوع ہے — خالق کے حوالے کے بغیر مخلوق کا مطالعہ کرنا- سائنسی مطالعے میں پہلے، نیوٹن کے زمانے میں، یہ مان لیا گیا تھا کہ دنیا ایک میکانکل ڈزائن (mechanical design) ہے- اس کے بعد ردر فورڈ (Ernest Rutherford) کے زمانے میں معلوم ہوا کہ دنیا ایک میننگ فل ڈزائن (meaningful design)ہے- اِس کے بعد فریڈ ہائل (Fred Hoyle) کا زمانہ آیا، جب کہ یہ دریافت ہواکہ دنیا ایک انٹیلجنٹ ڈزائن (intelligent design) ہے-
اِن دریافتوں کو سامنے رکھ کر غور کیاجائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ خدا کا وجود علمی طورپر دریافت ہوچکا ہے- اب سارا معاملہ صرف تسمیہ (nomenclature) کا ہے، یعنی یہ کہ اِس دریافت شدہ حقیقت کا نام کیا ہو- فلسفیوں نے اِ س حقیقت کو ورلڈ اسپرٹ (world spirit) کہا تھا- سائنس اِس کو انٹیلجنٹ ڈزائن کہہ رہی ہے- اہلِ مذہب کی زبان میں اِسی حقیقت کا نام خدا (God) ہے-سائنس نے صرف تخلیق کو دریافت کیا، لیکن تخلیق کے دریافت کے ساتھ ہی خالق اپنے آپ دریافت ہوجاتا ہے-
واپس اوپر جائیں
اسلام میں مصدر شرعی کی حیثیت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے— قرآن اور سنت- قرآن اور سنت دونوں ابدی طورپر شرعی مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں- قرآن اِس لیے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور سنت اِس لیے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کا کلام یا اس کا عمل ہے- قرآن اور سنت کے سوا کسی اور چیز کو یہ درجہ حاصل نہیں-
تیسری چیز وہ ہے جس کو قرآن میں استنباط (
بعد کے زمانے میں جب کوئی نئی صورتِ حال پیش آئے تو علماءِ اسلام کو یہ کرنا ہوگاکہ وہ اُس پر کام کریں اور استنباط یا اجتہاد کے ذریعے یہ معلوم کریں کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی تعلیم کو کس طرح منطبق (apply) کیا جاسکتا ہے- علماء کی یہ رائے اگر کامل اتفاق (consensus)سے بنی ہو تو اس کو اجماع کہا جائے گا اور اگر وہ اکثریت (majority)کی رائے پر بنی ہو تو اس کو رائے جمہور کہا جائے گا- تاہم اجماع یا رائے جمہور دونوں میں سے کوئی بھی ابدی نہیں-
حقیقت یہ ہے کہ دین میں قرآن اور سنت کی حیثیت مطلق مرجع (absolute reference) کی ہے- قرآن وسنت کی تعلیمات اصولاً ہمیشہ اور ہر دور میں قابلِ اتباع رہیں گی- اُن میں حالات کے اعتبار سے، نئی تشریح یا نئی تاویل تو کی جاسکتی ہے، لیکن اُن کا حکمِ شرعی ہونا ہمیشہ یکساں طورپر مطلوب ہوگا- مگر جہاں تک اجماع یا رائے جمہور کی بات ہے، وہ عملی تقاضا (practical reason) کی بنا پر دین کا حصہ ہیں، یعنی جب تک وہ حالات باقی ہیں، جن میں کوئی مسئلہ اجماعی یا جمہوری طورپر بنایا گیا تھا، اُس وقت تک وہ بھی باقی رہیں گے، اور جب حالات بدل جائیں توضرورت ہوگی کہ ازسرِ نو اُن کا حکم متعین کیاجائے-
واپس اوپر جائیں
عظیم ہاشم پریم جی (پیدائش: 1945) دنیا کے عظیم ترین صنعت کاروں میں سے ایک ہیں- اُن کو ایک نہایت کامیاب انسان (super achiever) سمجھا جاتا ہے- انھوں نے ایک بار کہا کہ — زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آپ اس کو سمجھنے لگتے ہیں تو وہ ختم ہونے کے قریب ہوجاتی ہے-
زندگی کے بارے میں اس قسم کا تاثر اکثر کامیاب لوگوں نے بیان کیا ہے- اصل یہ ہے کہ انسان کی عمرمحدود ہے، لیکن اس کی خواہشیں (desires) لامحدود ہیں- آدمی پختگی کی عمر کو پہنچ کر جب اپنی زندگی شروع کرتا ہے تو اس کو طرح طرح کے تجربات پیش آتے ہیں، منفی تجربات بھی اور مثبت تجربات بھی- لرننگ (learning) کے مختلف احوال سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جب کہ وہ محسوس کرتاہے کہ اب میں زیادہ بہتر طورپر اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہوں، عین اُس وقت اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب میں بوڑھا ہوگیا یا میری موت کا وقت قریب آگیا-
اِس مرحلے میں پہنچ کر اس کا یقین (conviction) مایوسی (frustration) میں تبدیل ہوجاتاہے- اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی آخری منزل تک پہنچے بغیر میرا خاتمہ ہورہا ہے- اس احساس کو رابندر ناتھ ٹیگور نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— میری ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی- جو انتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گا سکا-
ہر انسان حوصلے کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرتاہے اور پھر مایوسی کے ساتھ وہ مرجاتا ہے- اِس المیہ کا سبب صرف ایک ہے — فانی دنیا میں اُس چیز کو پانے کی کوشش کرنا جو صرف آخرت کی ابدی دنیا میں ملنے والی ہے- آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی شروع کرنے سے پہلے خالق کے تخلیقی نقشے کو جانے- اِس دنیا میں حقیقی کامیابی صرف اُس انسان کے لیے مقدر ہے جو خالق کے نقشے کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر کرے-
واپس اوپر جائیں
ہیرا (diamond) سب سے زیادہ قیمتی دھات ہے- ہیرا خالص کاربن ہوتا ہے- اس میں وہی بنیادی اجزا ہوتے ہیں جو کوئلے میں پائے جاتے ہیں- قدرتی ہیرا تیار ہونے میں کئی سو سال لگتے ہیں- ہیرا جب نکالا جاتا ہے تو وہ ایک کھردری معدنیات کے مشابہ ہوتا ہے- تراش خراش کے بعد وہ قیمتی ہیرے کی شکل میں بن کر تیار ہوتاہے- نگینہ بنانے میں عام طور پر
جو ہیرے کامعاملہ ہے، وہی فطرت کے مطابق، انسان کا معاملہ بھی ہے- ہیرے کی طرح انسان بھی ایک پوٹنشل کے روپ میں پیدا ہوتا ہے- اِس پوٹنشل کو ایکچول بنانا انسان کا اپنا کام ہے۔ جو شخص اِس راز کو جانے اور اپنے امکان کو واقعہ بنانے کی کوشش کرے، وہی ’ہیرا انسان‘ ہے- اور جو آدمی ایسا نہ کرسکے، اس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ہیرے کے ٹکڑے کو کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے-
ہر انسان کے اندر ایک امکانی شخصیت ہوتی ہے- یہ شخصیت کسی انسان کو فطرت کی طرف سے عطا کی جاتی ہے- اِس شخصیت کا ارتقا اپنے آپ نہیں ہوسکتا- یہ کام آدمی کو خود کرنا ہے- یہی آدمی کا اصل امتحان ہے- بعض انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیلف میڈ مین (self-made man) تھے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے انسان کا کیس یہی ہے-
ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اُس شخصیت (personality) کو دریافت کرے جو فطرت کی طرف سے اُس کو ملی ہے- یہ شخصیت گویا ایک ناتراشیدہ ہیرا ہے- ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اِس ناتراشیدہ انسان کو دریافت کرے اور پھر دانش مندانہ منصوبے کے ذریعے وہ اِس ناتراشیدہ ہیرے کو تراشیدہ ہیرا بنائے- جو شخص اِس عمل میں ناکام رہے، اس کے لیے نہ دنیا میں کوئی جگہ ہے اور نہ آخرت میں کوئی جگہ-
واپس اوپر جائیں
حج کی روایتوں میں سے ایک روایت یہ ہے کہ اہلِ مدینہ نے عبد اللہ بن عباس سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا کہ اس نے (زمانۂ حج میں) طواف کیا، پھر وہ حائضہ ہوگئی- انھوںنے کہا کہ وہ مدینہ واپس چلی جائے- اہلِ مدینہ نے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے کہ ہم آپ کے قول کو لیں اور زید بن ثابت الانصاری کے قول کو چھوڑ دیں: لانأخذ بقولک وندع قول زید (صحیح البخاری، کتاب الحج، رقم الحدیث: 1758-1759 )
عبد اللہ بن عباس اور زید بن ثابت دونوں صحابی تھے، لیکن مذکورہ مسئلے میں دونوں کے درمیان اختلاف تھا- عبد اللہ بن عباس کا کہنا یہ تھا کہ مذکورہ کیس میں عورت کے لیے رخصت ہے کہ وہ طواف وداع کیے بغیر اپنے گھر واپس چلی جائے- لیکن زید بن ثابت انصاری کا مسلک یہ تھا کہ ایسی عورت کو حیض کے بعد سات دن قیام کرنا چاہیے اور پھر طواف وداع کرکے اپنے گھر واپس جانا چاہیے-
رائے کے اس اختلاف کے باوجود دنوں صحابہ کے درمیان یا اُن کے پیروؤں کے درمیان وہ غیر مطلوب اختلاف پیدا نہیں ہوا جو موجودہ زمانے میں اِس طرح کی صورتِ حال میں پایا جاتا ہے- اِس کا سبب مسلک میں اختلاف کو برداشت کرنا نہیں تھا، بلکہ اِس کا سبب مسلک میں توسع (diversity) تھا، یعنی یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے- مذکورہ عورت اگر حیض کے بعد طوافِ وداع کے بغیر واپس چلی جائے تو اس کو اِس کی رخصت ہے اور اگر وہ ٹھہر جائے اور ایک ہفتے کے بعد طوافِ وداع کرکے واپس جائے، تب بھی ٹھیک-فقہی مسلک میں اختلاف ہمیشہ جزئی نوعیت کا ہوتاہے، اور جزئی نوعیت کے اختلاف میں ہمیشہ توسع مطلوب ہوتاہے، نہ کہ توحد، یعنی ایک مسلک درست ہے اور دوسرا مسلک غلط- یہی وہ حقیقت ہے جو کہ حدیث میں اِن الفاظ میں بتائی گئی ہے: فبأیّہم اقتدیتم، اہتدیتم (مشکاة المصابیح، رقم الحدیث: 6018)-فقہی مسائل میں اختلاف مسلک کو توسع پر محمول کرنا چاہئے، نہ یہ کہ ایک مسلک صحیح ہے، اور دوسرا مسلک غلط۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عن أنس أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال لما صوّر اللہ آدم فی الجنة ترکہ ماشاء اللہ أن یترکہ فجعل ابلیس یطیف بہ ینظر ما ہو فلما رآہ أجوف عرف أنہ خلق خلقا لا یتمالک (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6815) یعنی جب اللہ نے جنت میں انسان کی ساخت بنائی تو اللہ نے اس کو ایک مدت کے لیے وہاں باقی رکھا۔ پھر ابلیس آیا۔ وہ آدم کا مطالعہ کرنے لگا کہ وہ کیا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ اجوف (hollow) ہے۔ اس نے جان لیا کہ آدم کی تخلیق اِس طرح ہوئی ہے کہ اس کے اندر تمالک کی صفت نہیں۔
اِس حدیث کے بارے میں التور بشتی نے لکھا ہے کہ’’ہذا الحدیث مشکل جدا‘‘(یہ حدیث بے حد مشکل ہے) لیکن محدث ابن جوزی نے ایک بات لکھی ہے جو گویا اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے: الأجوف ضعیف الصبر ( کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی 1716 / 2138)۔ مذکورہ حدیث میں تمالک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تمالک کا مطلب ہے — سیلف کنٹرول، یعنی اپنے آپ پر قابو رکھنا۔ ابلیس کی یہ تشخیص نہایت درست تھی اور اِس کا پہلا مظاہرہ اِس طرح ہوا کہ جنت میں آدم اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے۔ انھوں نے واضح ہدایت کے باوجود جنت کے ممنوعہ درخت (forbidden tree) کا پھل کھالیا۔ تمالک میں اِس ناکامی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم کو جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر بھیج دیاگیا-
ابلیس نے انسان کی اِس کمزوری کو پہلے ہی دن دریافت کرلیا تھا۔ اُس نے یہ جان لیا تھا کہ انسان کو صراطِ مستقیم سے ہٹانے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ یہ ہے کہ اس کو ایسی خواہشوں میں مبتلا کیاجائے جہاں وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے منحرف ہوجائے-
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو ابلیس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اِس مقابلے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ابلیس کے وسوسے کو پہچانے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں تذکّر (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ آل عمران کی ایک آیت میں بتایا گیا ہےکہ — جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں نے تم کو کتاب اور حکمت دی، پھر تمھارے پاس پیغمبر آئے جو سچا ثابت کرے اُن پیشین گوئیوں کو جو تمھارے پاس ہیں تو تم اُس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کر وگے۔ اللہ نے کہا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا۔ انھوں نے کہا: ہم اقرار کرتے ہیں۔ فرمایا: اب گواہ رہو اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔ (
قرآن کی اِس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق پر وہ ایمان مطلوب ہے جو معرفت کے درجے میں ہو۔ پیغمبر کے معاصرین میں سے جو لوگ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں، وہ معرفت کے درجے میں سچائی کو دریافت کرکے اس کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر کی امت اپنے بعد کے زمانے میں صرف پیدائشی ایمان پر قائم ہوجاتی ہے۔ یہ پیدائشی ایمان اللہ کو مطلوب نہیں، اِس لیے بعد کے زمانے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ امت معرفت والے ایمان کا ثبوت دے-
مثلاً قدیم زمانے میں امتِ موسی کے لیے ضروری تھا کہ وہ حضرت مسیح کی سطح پر دوبارہ معرفت والے ایمان کا ثبوت دیں۔ اِسی طرح امتِ مسیح کے لیے ضروری تھا کہ وہ حضرت محمد کی سطح پر ایمان کی شعوری دریافت کریں اور دوبارہ اپنے آپ کو معرفت والے ایمان پر قائم کریں-
اب ختمِ نبوت کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں، لیکن مذکورہ قانون بدستور باقی ہے۔ بعد کے زمانے میں امتِ مسلمہ کی نجات کے لیے پیدائشی ایمان کافی نہیں ہوسکتا۔ امت کے افراد کو بعد کے زمانے میں دوبارہ معرفت والے ایمان کا ثبوت دینا ہے۔ اُن کو یہ کرنا ہے کہ وہ غور وفکر کے ذریعے دینِ خداوندی کو دوبارہ زندہ شعور کی سطح پر دریافت کریں۔ اِس سے کم کوئی چیز اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی-بعد کے زمانے میں غیر اہلِ ایمان کو ڈسکوری کی سطح پر خدا کے دین کو پانا ہے، اور اہلِ ایمان کوری ڈسکوری کی سطح پر-
واپس اوپر جائیں
امریکا کے ایک جرنل (The Journal of Positive Psychology)کے شمارہ 19 دسمبر 2012 میں ایک ریسرچ کے نتائج چھپے ہیں۔ یہ ریسرچ امریکا کے د و اسکالرس (academics) نے کی ہے۔ اُن کے نام یہ ہیں:
Yuna L Ferguson, Kennon M Sheldon
اِس ریسرچ میں خوش رہنے کا راز بتایا گیا ہے۔ انھوں نے اپنے تجربات کے ذریعے یہ پایا ہے کہ جو لوگ پرمسرت میوزک (happy music) سنتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں خوش رہتے ہیں، اِن میں وہ لوگ زیادہ خوش پائے گئے جنھوں نے باقاعدہ طورپر خوش رہنے کی کوشش کی:
Those who actively tried to feel happier reported the highest level of positive mood afterwards.
پرمسرت میوزک سن کر خوش رہنے کا یہ طریقہ فطرت کے مطابق نہیں، یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہی چیز ہے جس کو غم غلط کرنے کا طریقہ کہاجاتا ہے۔ فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ زندگی کے مسائل کو چیلنج (challenge) کے طورپر لیا جائے۔
انسان کی زندگی مسائل سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مسائل اِس لیے نہیں آتے کہ کسی مصنوعی تدبیر سے اُن کو بھلا دیا جائے، بلکہ یہ مسائل اِس لیے آتے ہیں کہ ان کو چیلنج سمجھ کر ان کا سامنا کیاجائے۔ اِس طرح آدمی کے ذہن میں ایک قسم کا فکری سنگھرش (intellectual struggle) وجود میں آتا ہے۔ اِس کے ذریعے آدمی کی تخلیقیت (creativity)میں اضافہ ہوتاہے، اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوتا ہے، اس کے ذریعے آدمی کا جمود (stagnation) ٹوٹتاہے، اس کے اندر حرکت اور فعالیت پیداہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرمسرت زندگی کا راز ذہنی ارتقا ءمیں ہے، نہ کہ پرمسرت میوزک سننے میں-
واپس اوپر جائیں
کہاجاتا ہے کہ 1847 میں ایک آدمی نے ایک بچے کے پاس ایک عجیب قسم کا پتھر دیکھا۔ یہ بچہ ہوپ ٹاؤن (Hopetown) جو دریائے اورنج پرواقع ہے،کے ایک کھیت میں کھیل رہا تھا۔ یہ بظاہر ایک گول پتھر تھا۔ اُس شخص نے یہ پتھر بچے کے ہاتھ سے لے کر جب ایک جوہر شناس کو دکھایا تو معلوم ہوا کہ وہ ہیرا (diamond)ہے۔ یہ پتھر 2.
جس طرح پتھر کے معاملے میں جوہر شناسی مطلوب ہے، اسی طرح انسان کے معاملے میں بھی جوہر شناسی مطلوب ہے۔ بے شمار انسان پیدا ہو کر دنیا میں آتے ہیں، لیکن سب یکساں قابلیت کے نہیں ہوتے۔ اُن میں بعض افراد ایسے ہوتے ہیںجو امکانی طورپر خصوصی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے ہوں۔ لیکن یہ صلاحیت ایک چھپی ہوئی صلاحیت ہوتی ہے، وہ آواز دے کر اپنے آپ کو نہیں بتاتی۔ ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی جوہر شناس ان کی چھپی ہوئی صلاحیت کو پہچانے اور اس کو اظہارکا موقع دے-
کسی آدمی کے جوہر کو پہچاننے کی دو صورتیں ہیں — ایک، یہ کہ آدمی اتنا زیادہ خود شناس ہو کہ وہ خود اپنے آپ کو پہچان لے، یا اس کو کوئی ایسا قدر داں مل جائے جو اس کے جوہر کو پہچانے اور اس کے لیے وہ بوسٹر (booster) بن جائے۔ یہ دونوں نہایت مشکل کام ہیں۔ خود شناس بننے کے لیے کامل درجے کی حقیقت پسندی درکار ہے اور جوہر شناس بننے کے لیے کامل درجے کی خیرخواہی-
تجربہ بتاتاہے کہ یہ دونوں صفتیں لوگوں کے اندر بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اِس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اعلی صلاحیت کے افراد پیدا ہوتے ہیں، لیکن وہ دنیا میں اپنا استعمال نہیں پاتے، کبھی اِس لیے کہ وہ خود اپنے آپ کو دریافت نہیں کرپاتے اور کبھی اِس لیے کہ دنیا میں اُن کو کوئی سچا خیر خواہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جس میں اکثر لوگ ناکام ثابت ہوئے ہیں-
واپس اوپر جائیں
الرسالہ مشن سے وابستہ ایک خاتون کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔ روڈ ایکسیڈینٹ میں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ اُن سے گفتگو کرتےہوئے میں نے کہا کہ اِس معاملے کو آپ قرآن کی دو آیتوں کی روشنی میں دیکھئے(
حقیقت یہ ہے کہ موت کوئی ’’حادثہ‘‘ نہیں، موت ایک امتحان (test) ہے۔ موت کو اگر حادثہ (accident) سمجھا جائے تو اُس سے غم کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس، موت کو اگر امتحان سمجھا جائے تو آدمی کے اندر ایک نیا عزم جاگ اٹھے گا-وہ سمجھے گا کہ اب تک میرا امتحان زندگی کے ذریعے ہورہا تھا، اب میرا امتحان موت کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ میری کامیابی یہ ہے کہ میں اِس معاملے کو امتحان کی نظر سے دیکھوں اور اس میں پورا اترنے کی کوشش کروں-
کسی کی موت خواہ وہ حادثے کے طور پر ہو یا بیماری کے طورپر، وہ کبھی بے وقت نہیں آتی۔ ہرانسان جو اِس دنیا میں پیداہوتا ہے، وہ امتحان کے لیے پیداہوتا ہے۔ ہر ایک کے لیے امتحان کی ایک مدت مقرر ہے۔ یہ مقرر مدت پوری ہوتے ہی موت کا فرشتہ آتا ہے اور اس کی روح قبض کرکے اس کو آخرت کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے-
آدمی کو چاہیے کہ وہ موت کے معاملے میں حقیقت پسند بنے۔ وہ موت کو ایک اٹل حقیقت کے طورپر تسلیم کرے۔ وہ موت کو اپنے لیے سبق کا ذریعہ بنائے، نہ کہ غم اور افسوس کا ذریعہ-
موت کو حدیث میں ’’ہادم اللذات‘‘ (مسند احمد، رقم الحدیث: 7925)کہاگیا ہے، یعنی لذتوں کو ڈھادینے والا واقعہ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو موت کا حقیقی ادراک ہوجائے، وہ آخری حد تک سنجیدہ ہوجائے گا۔ وہ آج (today) کے بجائے کل (tomorrow) کو اپنا نشانہ (goal) بنا لے گا۔ اس کی زندگی مکمل طورپر آخرت رخی زندگی بن جائے گی-
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنما متفقہ طورپر اعلان کررہے ہیں کہ تمام دنیا کے مسلمان غیرمسلم قوموںکی طرف سے ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک غلط رہنمائی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے ساتھ جو ناموافق حالات پیش آرہے ہیں، وہ قرآن کے مطابق، تنبیہہ خداوندی کی حیثیت رکھتے ہیں، جیساکہ اِس سے پہلے یہود کے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعات چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے ہمارے رہنماؤں نے اِن واقعات کو مفروضہ ظالموں کے ساتھ منسوب کرکے اُن کے خلاف احتجاج اور جوابی تشدد شروع کردیا۔ اگر وہ اِن واقعات کو خدا کی تنبیہات (warnings) سمجھتے تو وہ مسلمانوں کو داخلی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے۔ اس کے بعد ایسا ہوتا کہ مسلمان اصلاحِ خویش میں مشغول ہوجاتے، نہ کہ شکایت غیر میں-
موجودہ صورت ِ حال میں قرآن کی یہ آیت ایک خدائی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے: فَلَوْلَآ اِذْ جَاۗءَہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (
اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب قوم کے اندر بگاڑ آیا تو اللہ کی طرف سے تنبیہات آئیں۔ اُس وقت چاہیے تھا کہ قوم کے اندر محاسبہ کا جذبہ پیدا ہوتا اور وہ اصلاحِ خویش کی طرف متوجہ ہوجاتے، لیکن عملاً یہ ہوا کہ انھوں نے خود ساختہ توجیہات کے ذریعے اس کو مفروضہ ظالموں کا ظلم قرار دے دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی غلط سوچ میں اور زیادہ پختہ ہوگئے۔ تنبیہ خداوندی کو ظلمِ انسانی قرار دینا ہمیشہ شیطان کی تزئین کے تحت ہوتاہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہی نامطلوب تزئین ہے-تنبیہہ ِ خداوندی کو ظلمِ انسانی سمجھنا، بلاشبہہ ایک تباہ کن غلطی ہے-
واپس اوپر جائیں
انسانی زندگی کا ایک ظاہرہ وہ ہے جس کو بڑھاپا کہاجاتاہے۔ بڑھاپا کوئی غیر مطلوب چیز نہیں۔ بڑھاپے کی عمر میں انسان کے لئے ایک موقع موجود ہوتا ہے، یعنی نصیحت لینا۔ قرآن کی سورہ الفاطر میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ (
انسان اس دنیا میں محدود عمر کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ چناں چہ پیدا ہوتے ہی انسان کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے۔ تقریباً
اس طرح آدمی سے ایک ایک چیز چھنتی رہتی ہے۔ پہلے جوانی، پھر صحت، پھر سکون، وغیرہ۔ یہاں تک کہ موت کا وقت آتا ہے۔ اور آدمی کی ہر وہ چیز، جس کو وہ اپنا سمجھتا تھا، یہاں تک کہ اس کا اپنا جسمانی وجود بھی اس سے چھن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف انا (ego)ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں-
موت کا تجربہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سنگین تجربہ ہے۔ اس تجربہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اپنے قبل ازموت مرحلۂ حیات میں جو کمایا تھا وہ اس سے ابدی طورپر چھن گیا۔ اِس کے آگےبعد ازموت مرحلۂ حیات کا معاملہ ہے۔ اس دوسرے مرحلہ میں آدمی کو صرف وہ چیز کام آئے گی جو اس نے عمل صالح کی صورت میں اپنے آگے کے لئے بھیجی۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ النساء میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا (
توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا۔ یعنی غلطی کرنے کے بعد اصلاح کی طرف لوٹنا۔ قرآن کے مطابق توبہ کی دو صورتیں ہیں، توبہ قریب اور توبہ بعید-قرآن کے مطابق مطلوب توبہ وہ ہے جو توبۂ قریب ہو۔ توبہ بعید اللہ کے نزدیک مطلوب توبہ نہیں۔ توبہ قریب ایمانی حساسیت کی علامت ہے اور توبہ بعید ایمانی بے حسی کی علامت -توبۂ قریب یہ ہے کہ آدمی کے اندر غلطی کرنے کے بعد شدید قسم کی ندامت (repentance) پیداہو۔ وہ فوراً غلطی کے بعد متنبہ ہوجائے۔ اس کے اندر احساس خطا اتنی شدت کے ساتھ ابھرے کہ وہ اس کا تحمل نہ کرسکے کہ غلطی کے بعد اپنی حالت پر مطمئن بنا رہے۔ شدیداحساس خطا کے ساتھ وہ بلاتاخیر غلطی کی تلافی کرنے کی طرف دوڑ پڑے-
غلطی کے مختلف صورتیں ہیں۔ غلطی اگر مادی نوعیت کی ہے تو وہ جلدسے جلد متعلق شخص کے مالی نقصان کی تلافی کرے۔ اور غلطی اگر اخلاقی نوعیت کی ہے تو وہ فوراً بہتر اخلاقی سلوک کے ساتھ اس کی تلافی کی کوشش کرے-اس معاملہ\ میں سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے، جب کہ غلطی کی نوعیت ایسی ہو، جس میں اس کی ضرورت ہو کہ غلطی کرنے والا متعلق شخص سے مل کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور کھلے طورپر اس سے معافی مانگے۔ اس قسم کی توبہ کسی انسان پر بہت شاق گزرتی ہے۔ کیوں کہ اس میں آدمی کی بڑائی ختم ہوتی ہے۔ اس کا برتری کا جذبہ منہدم ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے سامنے چھوٹا بنانا پڑتا ہے، جس کے مقابلہ میں اس نے اپنے آپ کو بڑا فرض کرلیا تھا۔ توبہ کی یہ قسم نفی خویش (self negation) کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اور نفی خویش بلا شبہہ کسی انسان کے لئے سب سے زیادہ سخت بات ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ میں حضرت مسیح کے حوالے سے یہ الفاظ آئے ہیں: وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُس(
روح القدس کا لفظی مطلب مقدس روح (Holy Spirit) ہے۔ یہ اللہ تعالی کی ایک خصوصی نصرت ہے جو کسی بندے کے اوپر فرشتوں کے ذریعے آتی ہے۔ یہی خصوصی نصرت تھی جو حضرت مسیح پر آئی۔ اِس خصوصی نصرت نے حضرت مسیح کو اِس قابل بنایا کہ وہ اپنے مخالفوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے اپنے خدائی مشن کی تکمیل کرسکیں-
روح القدس کا تعلق شخصی طورپر خصائصِ نبوت سے نہیں ہے، وہ حق کے داعی کے لیے اللہ کی خصوصی نصرت کا معاملہ ہے۔ اِس خصوصی نصرت کے استحقاق کا اصول یہ ہے کہ جب کوئی شخص بے آمیز حق کی دعوت کے لیے اٹھے، وہ اِس دعوت کے بارے میں اتنا زیادہ سنجیدہ ہو کہ اپنا سب کچھ اس کے لیے وقف کردے، لیکن قلتِ وسائل کی بنا پر وہ محسوس کرے کہ وہ اپنے مشن کی تکمیل کے معاملے میں آخری حد تک عاجز (helpless) ہوگیاہے-اِس احساسِ عجز کے ساتھ وہ اللہ سے دعائیں کرنے لگے-
مزید یہ کہ خود اللہ کے علم میں یہ بات ہو کہ یہ بندہ واقعی معنوں میں اللہ کے لیے کھڑا ہوا ہے، وہ اپنی طرف سے ساری کوشش کے باوجود واقعةً عاجز ثابت ہو رہاہے-جب اللہ کے علم محیط میں ایک داعی کی یہ حیثیت متحقق ہوجائے تو اُس وقت اللہ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے فرشتوں کو یہ حکم دیتاہےکہ اِس بندے کی خصوصی مدد کرو، تاکہ وہ اپنے دعوتی مشن کو اس کی تکمیل تک پہنچا سکے۔ اسی خصوصی نصرت کا نام روح القدس کی تائید ہے-روح القدس، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، نصرت کا معاملہ ہے، نہ کہ کرامت کا معاملہ- (
واپس اوپر جائیں
مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانے پر مذہبی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف بڑھ کر کبھی تشدد کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ عام طورپر سمجھا جاتاہے کہ اِن اختلافات کا سبب مدارس کا نصاب ہے۔ ان کے خیال کے مطابق، اگر مدارس کے نصاب میں اصلاح کردی جائے تو اختلاف کا خاتمہ ہوجائے گا اور لوگوں کے اندر اتحاد واتفاق کی حالت قائم ہوجائے گی۔
مگر یہ اصل صورتِ حال کا کم تر اندازہ (underestimation) ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا سبب فطرتِ انسانی میں ہے، نہ کہ مدارس کے نصاب میں۔ پیدائش کے اعتبار سے، ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ(Mr. Different) ہوتا ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔
یہی فطری فرق اختلاف کا اصل سبب ہے۔ اگر تمام مدارس کا نصاب ایک کردیا جائے تب بھی اختلاف باقی رہے گا، کیوں کہ خواہ نصاب کی سطح پر اختلاف نہ ہو تب بھی فطرت کی سطح پر اختلاف موجود رہے گا، وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں-
حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں ایک ہی مدرسہ، مدرسۂ نبوت، کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ ابو الحسن اشعری اور واصل بن عطا دونوں ایک ہی مدرسے کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔
موجودہ زمانے میں سرسید احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ مولانا سیدسلیمان ندوی اور مولانا مسعود علی ندوی دونوں ایک ہی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے، اِس کے باوجود دونوں میں اختلاف پیدا ہوا-
اصل یہ ہے کہ خواہ دو آدمیوں نے ایک ہی مدرسہ اور ایک ہی نصاب کے تحت تعلیم پائی ہو، لیکن طرز فکر (way of thinking) کی سطح پر ہمیشہ ایک آدمی اور دوسرے آدمی کے درمیان فرق ہوتا ہے- یہی فرق ہے جو اختلاف کا سبب بن جاتا ہے- اِس کے بعد وہ بڑھ کر نفرت اور تشدد تک پہنچ جاتا ہے- یہ اختلاف یا فرق چوں کہ فطرتِ انسانی کا حصہ ہے، اِس لیے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں- ایسی حالت میں اختلاف کے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناکام طورپر اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کو اُس اصول کی تعلیم دی جائے جس کو ’’اختلاف کے باوجود اتحاد‘‘ کہاجاتا ہے، یعنی رائے (opinion) کی سطح پر اختلاف، لیکن سماجی تعلق (social relationship) کی سطح پر اتفاق-
انسانوں کے طرز فکر میں اختلاف کوئی غیر مطلوب چیز نہیں، بلکہ وہ عین مطلوب ہے- کیوں کہ اِس اختلاف کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور ڈسکشن اور ڈائیلاگ ذہنی ارتقا کا ذریعہ ہے- جہاں ڈسکشن اور ڈائیلاگ نہ ہو، وہاں یقینی طورپر ذہنی جمود (intellectual stagnation) پیدا ہوجائے گا، اور ذہنی جمود سے زیادہ تباہ کن اور کوئی چیز انسان کے لئے نہیں-
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں خاص طورپر اورمشرقی دنیا میں عام طورپر لوگوں کے درمیان ایک ہی کلچر کا رواج ہے اور وہ فیملی کلچر ہے، یعنی پیسہ کمانا اور گھر والوں کے تقاضے پورا کرنا۔ لوگوں کو صرف یہی ایک ماڈل معلوم ہے، اِس کے سوا کسی اور ماڈل کا اُنھیں علم نہیں-
اِس فیملی کلچر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ عملاً تحمیق خاندان (befooling of family) کے ہم معنی بن گیا ہے-اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا دائرہ بہت محدود ہوگیاہے۔ اُن کا ذہن صرف اپنی مادی ضرورتوں کے محدود دائرے میں کام کرتاہے۔ وہ اِس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ وہ اِس محدود دائرے کے باہر سوچیں۔ ان کے یہاں کتابوں کے مطالعے کا ماحول نہیں ہوتا۔ اُن کے یہاں سنجیدہ تبادلہ خیال (serious discussion)کا رواج نہیں ہوتا۔ ان کے یہاں یہ کلچر نہیں ہوتا کہ وہ رشتےداروں کے علاوہ لوگوں سے ملیں اور اُن سے سیکھنے اور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو جاب کے لیے یا تفریح کے لیے یا شاپنگ کے لیے۔ اِس قسم کی چیزوں کے علاوہ، ان کے یہاں ذہنی ارتقا کا کوئی تصور نہیں-
اِس فیملی کلچر کا نقصان یہ ہے کہ لوگ بظاہر مادی اعتبار سے آسودہ زندگی گزار رہے ہیں، لیکن عملاً وہ فکری پس ماندگی (intellectual backwardness) کا شکار ہیں۔ اُن سے کسی سنجیدہ موضوع پر بات کیجئے تو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ ان کے اندر کوئی علمی سوچ نہیں، اُن کو حقائقِ عالم کی معرفت نہیں، زندگی کے زیادہ بڑے مسائل کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں۔ بظاہر وہ انسان نظر آئیںگے، لیکن عملاً وہ صرف ایک خوش پوش حیوان (well-dressed animal) کی مانند ہوں گے-
خاندانی زندگی کی تشکیل اِس طرح ہونی چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے اُن کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں مددگار ہو، نہ کہ لوگوںکے ذہنی ارتقاء کے لیے وہ ایک مستقل رکاوٹ بن جائے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الفتح میں زمانہ رسالت کے اُس واقعے کا ذکر ہے جس کو معاہدہ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کے وقت رسو ل اور اصحابِ رسول کو حدیبیہ سے بظاہر ناکام لوٹنا پڑا تھا۔ لیکن اِس معاہدے کے بعد یہ ہوا کہ رسول اور اصحابِ رسول صرف دو سال کے اندر دوبارہ فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئے-
ظاہری حالات کے اعتبار سے اصحابِ رسول بوقت معاہدہ سخت پریشان تھے۔ اُس وقت قرآن میں یہ آیت اتری: فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا (
یہ فتحِ قریب کیا تھی، اِس کا جواب خود قرآن کی اِس سورہ میں موجود ہے۔ اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں: فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا (
سکینہ کے لفظی معنی اطمینان(tranquillity) کے ہیں۔ یہاں سکینہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو ذہنی اطمینان (peace of mind) کہاجاتا ہے۔ یہ سکینہ اللہ کی خصوصی مدد ہے، جو مشکل اوقات میں اہلِ ایمان کے اوپر نازل ہوتی ہے۔ مشکل اوقات حقیقتاً مشکل نہیں ہوتے، بلکہ وہ ایک فطری تاخیر ہے جو منصوبۂ الٰہی کے تحت پیش آتی ہے۔ اِس تاخیر(delay) کو بآسانی گوارا کرنے کے لیے اہلِ ایمان کو اللہ کی طرف سے سکینہ حاصل ہوتا ہے۔ معاہدہ حدیبیہ کے وقت اصحابِ رسول پر جو سخت حالات گزررہے تھے، اس کو سکینہ کے نزول نے آسان کردیا۔ اللہ کی یہ مدد ہر مومن فرد اور ہر مومن گروہ کے لیے ضرورآتی ہے، بشرطیکہ اس کا کیس حقیقی معنوں میں منصوبۂ الٰہی کے مطابق ہو- (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ قریش میں قریش کی نسبت سے اللہ کی ایک سنت بیان کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ (
قدیم مکہ میں قبیلۂ قریش کوسرداری کا مقام حاصل تھا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ وہ کعبہ کے متولی تھے۔ کعبہ کی اہمیت یہ تھی کہ اس میں عرب کے تمام قبائل کے بت رکھے ہوئے تھے، اِس لیےکعبہ تمام عرب قبائل کا مقدس ترین مرکز بن گیا تھا-
قدیم زمانے میں معاشیات کا انحصار زراعت پر تھا، لیکن مکہ میں کوئی زراعت نہ تھی۔ قریش کے لوگ کچھ روایتی سامان کی تجارت کرتے تھے۔ اِس مقصد کے لیے وہ تجارتی اسفار کرتے تھے-اُن کا تجارتی قافلہ سردی کے موسم میں یمن کی طرف جاتا تھا۔ اور گرمی کے موسم میں شام کے علاقے کی طرف۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کے قافلوں کو ہمیشہ ڈاکوؤں کا خطرہ رہتا تھا۔ لیکن قریش کے قافلے اِس قسم کے خطرات سے محفوظ تھے، کیوں کہ کعبہ کے خادم اور متولی ہونے کی بنا پر اُن کو عرب کے قبائل میں عزت کا مقام حاصل تھا۔ ایسے موقع پر کسی قریش کی حفاظت کے لیے یہ کافی تھا کہ وہ رہزنوں سے یہ کہہ دے کہ: أنا من حَرَم اللہ-
قرآن کی اِس سورہ میں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ صرف قدیم زمانے کے قریش کا ایک معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اللہ کی ایک سنت کا معاملہ ہے۔ یہ دراصل اللہ کے عطیات کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو ہر زمانے میں مختلف قسم کی سہولتیں عطا فرماتا ہے، تاکہ وہ اللہ کے شکر کرنےوالے بنیں اور اللہ کی عبادت کے تقاضوں کو پورا کریں۔ قدیم زمانے میں قریش کو جو اقتصادی نعمت حاصل تھی، وہ آج کے انسان کو لاکھوں گنا اضافے کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ قدیم زمانے میں کچھ روایتی سامانوں کی صرف محدود تجارت ہوسکتی تھی۔ باربرداری (transportation) کے لیے بھی صرف اونٹ اور خچر کا ذریعہ دستیاب تھا-مگر موجودہ زمانے میں صنعتی انقلاب نے صورتِ حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ موجودہ زمانے کو اقتصادی انفجار(economic explosion) کہاجاتا ہے۔ اب تجارت کی بے شمار صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔ اب ہر انسان کے لیے کمائی کے لامحدود ذرائع کھل گئے ہیں-
موجودہ زمانے میں اقتصادی ترقی کے جو مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ قریش کے زمانے کے اقتصادیات (economics) سے اُن کو کوئی نسبت نہیں۔ یہی معاملہ راستوں کے تحفظ کا بھی ہے۔ قدیم زمانے میں اجتماعی تحفظ کا کوئی نظام موجود نہ تھا، ہر شخص اپنے تحفظ کا خود ذمے دار ہوتا تھا۔ اِسی صورتِ حال کی بنا پر قدیم زمانے میں وہ مسئلہ پیدا ہوا جس کو رہزنی (robbery)کہا جاتا ہے-
برطانی فلسفی جرمی بنتھام (Jeremy Bentham d. 1832)غالباً پہلا شخص تھا جس نے اجتماعی تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ انگلینڈ میں انیسویں صدی میں پاپولیشن ایکسپلوزن ہوا۔ اس کے بعد وہاں کی سوسائٹی میں جرائم بڑھ گئے۔ اُس وقت وہاں کے ذمے داروں نے محسوس کیا کہ سماجی تحفظ کا باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ چنانچہ 1829 میں لندن میں ایک سرکاری تنظیم قائم کی گئی۔ اس کا نام یہ تھا:
Metropolitan Police Services
یہ دنیا میں پولیس کی پہلی سرکاری تنظیم تھی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے ہر ملک کی حکومت نے اس کو اختیار کرلیا۔ اِسی انتظام کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ہم جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہم کو یقین ہوتا ہے کہ سرکاری طورپر قائم شدہ پولیس کا انتظام ہماری حفاظت کرے گا، ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی۔ یہ انتظام اُس سے لاکھوں گنا بڑا ہے جو قدیم زمانے میں قریش کو کعبہ کے متولی ہونے کی بنا پر حاصل تھا۔ قریش کو قدیم زمانے میں اللہ کی جو نعمت حاصل تھی، وہ موجودہ زمانے کے انسان کو بہت زیادہ اضافے کے ساتھ عطا ہوئی ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے قریش کو جو نوازش محدود سطح پر حاصل تھی، وہ موجودہ زمانے میں لامحدود سطح پر عالمی دائرے میں حاصل ہوگئی ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ آج انسان زیادہ بڑے پیمانے پر اللہ کا شکر ادا کرے اور زیادہ بڑے درجے میں وہ عبادتِ الٰہی کی ذمے داریوں کو پورا کرے-
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے، ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرے۔ لوگوں کے اِس مزاج کی بنا پر یہ مقولہ بنا ہے کہ — آسمان ہی اس کی حد ہے:
Sky is the limit
یہ مقولہ بہت مشہور ہے۔ لیکن وہ ایک غیر فطری مقولہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی صلاحیتیں بہت محدود ہیں، انسان اپنی محدود یت (limitations)کی وجہ سے ایک حد تک ہی آگے جاسکتا ہے، اس کے بعد نہیں۔ مذکورہ قسم کے مقولے کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ آدمی اپنے نشانے کو نہ پائے، البتہ وہ شدید قسم کی مایوسی میں مبتلا ہوجائے، یہاں تک کہ اِسی مایوسی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جائے-
انسان کے لیے صحیح نشانہ ’’آسمان‘‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی فطری حد کو جانے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ ایسی حالت میں کسی انسان کے لیے صحیح نشانہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے اعتبار سے اپنا نشانہ مقرر کرے، وہ یہ کہے کہ:
Stress is the limit
یعنی انسان کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، لیکن جب اس کو محسوس ہو کہ وہ ذہنی تناؤ (stress) کا شکار ہورہاہے تو وہ سمجھے کہ یہاں میری حد آگئی۔ اس کے عمل کی حد اس کا شوق یا اس کا حوصلہ نہ ہو، بلکہ ذہنی سکون (peace of mind) ہو-
انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر استعمال کرسکے۔ جب تک وہ ذہنی تناؤ سے بچا ہوا ہے، اُس وقت تک اس کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی فطری حد کے اندر ہےاور جب وہ دیکھے کہ میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہا ہوں تو وہ جان لے کہ اب میری حد آگئی۔ اب مجھے توقف کرنا چاہیے، نہ کہ ناکام طور پر آگے بڑھنا۔ اس دنیا میں آدمی جو کچھ پاسکتا ہے، وہ فطرت کے دائرے کے اندر پاسکتا ہے، اس کے باہر نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث رسول اِن الفاظ میں آئی ہے: أکثروا ذکر ہادم اللذات الموت(صحیح ابن حبان، رقم الحدیث: 2992) یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ موت ہر شخص کے لیے ایک بھیانک تجربہ ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر آدمی اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے۔ ہر آدمی اپنی بساط کے مطابق، اپنے لئے ایک چھوٹا یا بڑا محل بناتا ہے۔ ہر آدمی اپنی تمام کوشش کر کے اپنی ایک دنیا تعمیر کرتا ہے، لیکن بہت جلد وہ وقت آتاہے جب کہ موت اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ موت ہر انسان کے لیے اس کی بنائی ہوئی دنیا کی نفی (nullification) کے ہم معنی ہے-
اگر آدمی کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ ہو تو موت کی یاد ہی اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ اس کا دنیا پرستانہ ذہن ختم ہو جائے اور وہ کامل اعتبار سے،آخرت پسند انسان بن جائے۔ دنیا کی تمام خرابیوں کی جڑ صرف ایک ہے اور وہ ہے موت کو حذف کرکے سوچنا۔ اور تمام اچھائیوں کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی اِس احساس کے ساتھ جئے کہ وہ ایک دن مرنے والا ہے اور اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے رب العالمین کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔ موت سے غفلت آدمی کو غیر سنجیدہ بناتی ہے اور موت کا یقین آدمی کو آخری حد تک سنجیدہ بنا دیتاہے-
موت کا تصور انسان سے سرکشی کا جذبہ چھین لیتاہے۔ موت کا تصور آدمی کو یاد لاتاہے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے۔ موت آدمی کو انسانِ اصلی (man-cut to size) بناتی ہے۔ موت آدمی کے اندر سے بڑائی کا جذبہ چھین لیتی ہے۔ موت کی یاد آدمی کو آخری حد تک متواضع (modest) بنا دیتی ہے۔ یہ صفات آدمی کے اندر ایک داخلی محرک پیدا کردیتی ہیں جو بلاشبہ انسان کی اصلاح کا سب سے زیادہ طاقت ور ذریعہ ہے۔
موت کی یاد آدمی کو اپنی زندگی کے بارے میں آخری حد تک ذمہ دار بنادیتی ہے۔ موت کی یاد بلاشبہہ انسان کے لیے سب سے بڑی مصلح کی حیثیت رکھتی ہے-
واپس اوپر جائیں
خاندان (family) وسیع تر انسانیت کا ایک یونٹ ہے۔ خاندان کے اندر محدود دائرے میں وہ تمام حالات پیش آتے ہیں جو وسیع تر انسانیت کے اندر زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، خاندان ہر ایک کے لیے گویا ایک تربیتی اسکول ہے۔ ہر آدمی اپنے خاندان کے اندر اُن تمام باتوں کو سیکھ سکتا ہے جو دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اِس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ آدمی خاندان پرستی کا شکار نہ ہو۔ وہ اپنے خاندان کو بھی اُس نظر سے دیکھے جس طرح کوئی شخص دوسرے انسانوں کو دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے مختلف قسم کے کیریکٹر ہیں، وہ سب کیریکٹر ہر آدمی کے اپنے خاندان کے افراد میں موجود ہوتے ہیں۔خاندان ہر آدمی کے لیے روایتی ’’جامِ جمشید‘‘ کی مانند ہے۔ خاندان کے آئینے میں آدمی ہر قسم کے اخلاق کا نمونہ دیکھ سکتا ہے۔ اِس طرح ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں کو دیکھ کر زندگی کا تجربہ حاصل کرے اور اپنی زندگی کی حقیقت پسندانہ انداز میں منصوبہ بندی (planning) کرے-
مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو اِس قریبی امکان سے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اِس محرومی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے لوگوں کے اندر موضوعی طرزِ فکر کا نہ ہونا۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت جلد متعصبانہ طرز فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کو اپنے گھر والوں کی غلطی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کے بارے میں غیر ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں ہمدردانہ انداز میں۔ وہ خاندان سے باہر کے افراد کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے خاندان کے افراد کو دوسری نظر سے-اِس طرح اُن کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ نہ اپنوں کی زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کی زندگی سے کوئی نصیحت حاصل کرتے ہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک شخص جب شعوری طورپر ایمان کو اختیار کرتا ہے تو اس کے بعد یہ بھی اس کے ایمان کا ایک لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ وہ دین کے کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے، خاص طورپر دعوت الی اللہ کے کام کے لیے۔ اِسی کا نام دینی مشن ہے۔ ایمان اگر کسی انسان کی داخلی صفت ہے تو دینی کام اس کی ایک خارجی صفت-دینی مشن کے معاملے میں اصل معیار یہ نہیں ہے کہ آپ نے مقدار (quantity) کے اعتبار سے کتنا کام کیا، بلکہ اس کا اصل معیار یہ ہے کہ آپ نے اپنے کام کے دوران خود اپنے لیے کیا پایا۔ دینی مشن کے معاملے میں خارجی مقدار کی حیثیت اضافی ہے اور داخلی یافت (internal realization) کی حیثیت حقیقی-
دین کے احکام خواہ وہ انفرادی ہوں یا بظاہر ان کی نوعیت اجتماعی ہو، دونوں حالتوں میں کسی حکم کا پہلا نشانہ ہمیشہ فرد ہوتا ہے۔ ہر دینی حکم کے معاملے میں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ایک فرد نے اس کو کتنا اپنایا، اس کی تعمیل کے دوران ایک فرد کو کتنا ربانی رزق ملا۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے اعتبار سے، اس کو کیا ملا اور کیا نہیں ملا-
کوئی مومن خواہ وہ اکیلا ہو یا وہ اجتماعی زندگی کے اندرہو، ہر حال میں اس کو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرناچاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانچ کر دیکھے کہ کسی دینی عمل یا کسی دینی سرگرمی کے دوران اس کو اپنی ذات کے لیے کیا ملا۔ اپنی ذات کی نسبت سے اس نے کیا پایا اور کیا کھویا-
ہر آدمی کے لیے اِس دنیا میں جانچ کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہر آدمی کا سب سے بڑا کنسرن یہ ہونا چاہئے کہ اس کے اپنے اندر ذہنی یا روحانی ارتقا ہو۔ وہ اپنے آپ کو شیطان سے دور لے جائے۔ وہ اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم نشیں بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اِس طرح تیار کرے کہ آخرت میں وہ جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔ آخرت میں وہ اللہ کی پکڑ سے بچ جائے اور اللہ کی رحمتوں میں حصے دار بنے-
واپس اوپر جائیں
بیسویں صدی کے آغاز میں اُس فلکیاتی واقعہ کی دریافت ہوئی جس کو عام طورپر بگ بینگ (Big Bang) کہا جاتا ہے۔ اِس واقعے کو یہ نام برٹش سائنس داں فریڈ ہائل (Fred Hoyle) نے دیا تھا جس کی وفات 2001 میں ہوئی۔ بگ بینگ کے بعد خلا میں جو واقعات پیش آئے، اُن میں سے ایک واقعہ وہ ہے جس کو سولرسسٹم (solar system) کہا جاتا ہے۔ سولر سسٹم کو ایک امریکی سائنس داں الان باس (Alan Boss) نے لٹل بینگ (Little Bang)کا نام دیا۔ اس کی پیدائش 1951 میں ہوئی-
تسمیہ (nomenclature) کے اِس اصول کو لے کر میں نے سوچا تو میری سمجھ میں آیا کہ پوری تاریخ میں چھ قسم کے بینگ جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔ وہ چھ بینگ یہ ہیں:
1. Big Bang (بگ بینگ)
2. Little Bang (شمسی نظام)
3. Water Bang (واٹر بینگ)
4. Plant Bang (پلانٹ بینگ)
5. Animal Bang (اینمل بینگ)
6. Human Bang (ہیومن بینگ)
سائنس دانوں نے کائنات میں اِس طرح کے چھ ادوار کی نشان دہی نہیں کی ہے، لیکن سائنس نے کائنات کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، اُن کو لے کر جب غور کیا جائے تو بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ کائنات میں تخلیق کا جو عمل ہوا ہے، اُس کے غالباً یہی چھ ادوار ہیں۔ اب تک کی سائنسی معلومات اِس تقسیمِ ادوار کی بظاہر تصدیق کرتی ہیں-اِس اعتبار سے چھ ادوار کی تقسیم بالواسطہ طور پر ایک سائنسی تقسیم ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المومن میں ارشاد ہوا ہے: وَاَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَـنَاجِرِ کٰظِمِیْنَ ڛ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلَا شَفِیْعٍ یُّــطَاعُ یَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ(
اِس آیت میں نگاہ کی خیانت اور دل کا اخفا، دونوں انسان کی ایک کمزوری کو بتاتے ہیں۔ اِس کی وضاحت ضحاک بن مزاحم (وفات:
اِس کے برعکس، صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر ذہنی دیانت داری (intellectual honesty) کی صفت موجود ہو۔ اس کا ضمیر (conscience) اتنا زیادہ زندہ ہو کہ وہ اِس بات کا تحمل نہ کرسکے کہ وہ ایک ثابت شدہ بات کا انکار کرے اور ایک غیر ثابت شدہ بات کو اپنائے ہوئے ہو۔ ذہنی بددیانتی بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے، اور ذہنی دیانت داری بلا شبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی طاقت۔ پہلا انسان ایک مردہ انسان ہے اور دوسرا انسان ایک زندہ انسان-
واپس اوپر جائیں
علما کی ہمیشہ یہ روش رہی ہے کہ وہ دین میں کسی ادنی انحراف کو برداشت نہیں کرتے۔ جب بھی وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ مسلمان دین کے کسی معاملے میںانحراف کی روش اختیار کررہے ہیںتو وہ اس کے خلاف انکارِ منکر کے اصول پر زبان وقلم کے ذریعے سخت کارروائی کرتے ہیں۔ مگر اُن کا یہ انکارِ منکر دین کی اُن تعلیمات کے معاملے میں ہوتا ہے جن کا تعلق عقیدہ اور عبادت جیسی چیزوں سے ہے۔ اِس کے علاوہ، دین کا ایک اور پہلو ہے، مگر اِس دوسرے پہلو کے بارے میں علما نے ہمیشہ بالکل مختلف روش اختیار کی-
دین کے اِس دوسرے پہلو کی ایک واضح مثال وہ ہے جس کا تعلق حکومت سے ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قرآن میں حکومت کے معاملےمیں شوری (
بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ بعد کے زمانے میں اِس میں مزید اضافہ ہوا۔ تمام علما نے اِس پر اجماع کرلیا کہ قائم شدہ مسلم حکومت کو تسلیم کیاجائے گا، اس کے خلاف خروج حرام ہوگا۔ (اس معاملے کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو: امام نووی کی شرح صحیح مسلم، جلد
یہ کوئی سادہ یا اتفاقی بات نہیں۔ یہ دراصل اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے، وہ یہ کہ اسلام کی تعلیمات کے دو مختلف حصے ہیں۔ ایک حصے کو اسلام کا حقیقی حصہ (real part)کہاجاسکتا ہے اور دوسرے حصے کو اسلام کا اضافی حصہ(relative part) کہاجاسکتا ہے۔ عقیدہ اور عبادت جیسی تعلیمات کا تعلق اسلام کے حقیقی حصے سے ہے اور حکومت یا حکومتی نظام کا تعلق اسلام کے اضافی حصے سے-
واپس اوپر جائیں
غصہ (anger) کو عام طور پر ایک بری چیز سمجھا جاتاہے۔ لیکن خالق نے کوئی بری چیز پیدا نہیں کی۔ اور غصہ بھی ایک تخلیق ہے۔ اس لئے وہ شرّ محض نہیں ہوسکتا-غصہ انسانی فطرت کے اندر جاری ہونے والا ایک عمل ہے۔ غصہ اپنے آپ نہیں آتا۔ غصہ آنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی آدمی آپ کو مشتعل کردے۔ غصہ برین اسٹارمنگ (brain storming) کا ذریعہ ہے۔
جب کسی آدمی کو غصہ آتا ہے تو اس کے دماغ میں غیر معمولی تعداد میں انرجی خارج (release) ہوتی ہے۔ یہ کسی انسان کے لئے ایک بے حد اہم وقت ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی کے لئے دو امکانات ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خارج شدہ انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ (divert) کرے۔ یا وہ اس کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کردے-
آدمی اگر اپنی انرجی کو منفی رخ میں ڈائیورٹ کرے گا تو اس سے اس کے اندر ٹینشن، نفرت، انتقام حتی کہ تشدد کا مزاج پیداہوجائے گا-یہ چیزیں بلا شبہہ انسان کی ہلاکت کا ذریعہ ہیں۔ اس کے برعکس اگر انسان اپنی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرے تو اس سے اُس کے اندر ذہنی ارتقا، فکری تخلیقیت، تعمیری مزاج اور مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اور یہ تمام چیزیں انسان کی شخصیت کی اعلی تعمیر کے لئے نہایت ضروری ہیں-
غصہ کے وقت پیدا ہونے والی انرجی کو مثبت رخ میں ڈائیورٹ کرنے کے لیے کسی مزید کوشش کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل فطرت کے قانون کے تحت آدمی کے اندر اپنے آپ ظہور میں آتا ہے۔ شرط صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ آدمی غصہ کے وقت چپ ہوجائے۔ اگر آدمی اس وقت اِس ذہنی انضباط (intellectual discipline) کا ثبوت دے تو اس کی فطرت خود عمل کرے گی اور غصہ کے وقت خارج ہونے والی انرجی کو اپنے آپ مثبت رخ پر موڑ دے گی-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التکاثر میں انسان کی ایک عمومی حالت کو ان الفاظ میں بتایا گیاہے: اَلْہٰىکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (
انسان کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ وہ اِسی عمل میں مشغول رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے اس احساس کے ساتھ چلا جاتا ہے کہ اس نے جس چیز کے حصول کو اپنا نشانہ بنایا تھا، اس کو وہ حاصل نہ کرسکا-
حقیقت یہ ہے کہ مال برائے ضرورت کی ایک حد ہے۔ اِس کے برعکس مال برائے مال کی کوئی حد نہیں۔ اگر انسان ضرورت کے لئے مال حاصل کرنا چاہے تو ایک حد پر پہنچ کر اس کو اطمینان حاصل ہوجائے گا۔ لیکن انسان اگر مال برائے مال کو اپنی زندگی کا نشانہ بنائے تو اس کی طلب کی کبھی کوئی حد نہیں آئے گی۔ انسان بے اطمینانی کی حالت میں جیے گا، اور بے اطمینانی کی حالت میں مر جائے گا-
امریکا کے مشہور دولت مند بل گیٹس (Bill Gates) نے اپنی زندگی کا مقصد یہ بنایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرے۔ انھوںنے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن گئے۔ لیکن آخر میں ان کو محسوس ہوا کہ میری ضرورت تو محدود ہے۔ پھر اس کثیر دولت کا کیا استعمال۔ انھوں نے اپنے ایک لکچر میں کہا کہ:
Once you get beyond a million dollars, it is the same hamburger.
یعنی تم خواہ کتنی ہی زیادہ دولت حاصل کرلو، مگر تمھاری ضرورت تو بدستور وہی سینڈوچ رہے گی- یہ ہر اُس آدمی کا انجام ہوتا ہے، جو زیادہ دولت کمانے کو اپنا نشانہ بنائے- آخرمیں عدم اطمینان کے سوا کچھ اور اُس کے حصے میں آنے والا نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک بت پرست شخص سے ایک مسلمان نے قرآن کے حوالے سے کہا کہ آپ غیر اللہ کو حاجت روائی کے لیے مت پکارا کریں۔ کیوں کہ قرآن (
بت پرست شخص کی یہ بات دلیل نہیں ہے بلکہ وہ ایک شوشہ ہے۔ قرآن میں جو بات کہی گئی ہے وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس کا مقصد، مکھی کا معاملہ بتانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد مفروضہ اصنام کی کمزوری کو بتاناہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے مفروضہ اصنام کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ بارش برساتے ہیں، وہ انسان کو اولاد دیتے ہیں، وہ انسان کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ یہ سب بے بنیاد مفروضات ہیں۔ اِن مفروضات کی کوئی حقیقت نہیں۔ اِس مثال میں مکھی کا لفظ کمزوری کی علامت کے طورپر آیا ہے، نہ کہ مکھی جیسے ایک حیوان کو بتانے کے لیے-
لوگوں میں اِس طرح کا کمزور استدلال بہت عام ہے۔ لوگ عام طورپر دلیل کا جواب دلیل سے دینا نہیں جانتے۔ وہ اکثر ایسا کرتےہیں کہ دلیل کے جواب میں ایک غیر متعلق مثال بیان کردیں گے۔ وہ صاحب دلیل کے خلاف عیب جوئی کی زبان استعمال کریں گے۔ وہ دعوی کی زبان بولیں گے ، حالاں کہ دعوی کی زبان سے کوئی با ت ثابت نہیں ہوتی-
دلیل کے بجائے شوشے کا طریقہ اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی شخص چاہے تو قرآن او ر حدیث کے معاملے میں بھی، وہ اُس کو استعمال کرسکتا ہے، مگر شوشہ محض ایک جوک (joke) ہے، وہ ہرگز کوئی دلیل نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا سمعت الرجل یقول ہلک الناس فہو أہلکہم (موطأ الإمام مالک، رقم الحدیث: 1802) یعنی جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سب سے زیادہ ہلاکت میں وہی شخص ہے-
اِس حدیثِ رسول میں ’ہلک الناس‘ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے خود بھی یہ زبان استعمال کی۔ مثلاً حضرت علی بن ابی طالب نے ایک خطیب کو دیکھا تو کہا کہ: ہلکتَ وأہلکتَ (تم خود بھی ہلاک ہوئے اور تم نے دوسروں کو بھی ہلاک کیا)۔
اِس حدیث رسول میں جس روش کی مذمت کی گئی ہے، وہ دراصل تنقید برائے تنقید (criticism for the sake of criticism) ہے، یعنی لوگوں کو برا بتانا، لیکن یہ نہ بتانا کہ ان کے لیے صحیح بات کیاہے۔ دوسروں کے خلاف منفی ریمارک دینا، لیکن مثبت نصیحت کا طریقہ اختیار نہ کرنا۔ بے دلیل تنقید کرنا، لیکن مدلل تجزیہ کے ذریعے یہ نہ بتانا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ نفرت کی زبان میں لوگوں کی مذمت کرنا، لیکن خیر خواہی کے انداز میں ان کو نصیحت نہ کرنا-
بلا دلیل تنقید کا فائدہ تو کچھ نہیں، مگر اس کا نقصان بہت زیادہ ہے۔ بادلیل تنقید سے لوگوں کے اندر محاسبہ (introspection) کا مزاج بنتا ہے۔ اِس کے برعکس، بے دلیل تنقید سے لوگوں کے اندر نفرت اور بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ بادلیل تنقید، اصلاح کا ذریعہ ہے۔ اور بے دلیل تنقید صرف فساد کا ذریعہ۔
صالح تنقید وہ ہے جس میں خیر خواہی کا جذبہ پایا جائے۔ جس کا مقصد فریق ثانی کی اصلاح ہو۔ اس کے برعکس غیر صالح تنقید کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسرے کو بے عزت کرنا اور اس کی برائی بیان کرنا۔ صالح تنقید اسلام میں عین مطلوب ہے۔ اِس کے برعکس، غیر صالح تنقید کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک بار ایک سفر میں ایک صاحب میرے ساتھ تھے۔ میں نے دیکھا کہ اُن کے پاس پاکٹ سائز کا ایک معرى قرآن ہے۔ جہاں موقع ملتا ہے، وہ اس کی تلاوت کرنے لگتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میرا یہ معمول تقریباً پندرہ سال سے ہے۔ اِس طرح ہر مہینے میں ایک بار میں پورا قرآن پڑھ لیتاہوں۔ میں نے اُن سے کہا کہ آپ ماشاء اللہ روزانہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اِس اعتبار سے کبھی غور نہیں کیا۔ میں قرآن کو ثواب کی نیت سے پڑھتا ہوں-یہی عام طورپر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ قرآن کو پڑھتے ہیں، لیکن اُن کا پڑھنا برائے تلاوت ہوتا ہے، برائے تدبر نہیں ہوتا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر عام طورپر اسی قسم کی تلاوتِ قرآن کا رواج ہے۔ مگر اصحابِ رسول کے زمانے میں اِس قسم کی تلاوت قرآن کا رواج نہ تھا۔ ایک بار حضرت عائشہ سے ایسے کچھ لوگوں کا ذکر کیاگیا جو معنوی تدبر کے بغیر صرف الفاظ کی تلاوت کے طورپر قرآن کو پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ نے یہ سن کر کہا: اولئک قرءوا ولم یقرءوا (شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1925) یعنی انھوں نے قرآن کو پڑھا، مگر انھوں نے قرآن کو نہیں پڑھا-
اِس سلسلہ میں قرآن میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اِس پہلو سے قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (
واپس اوپر جائیں
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر الأمور أوساطہا (شعب الإیمان للبیہقی، رقم الحدیث: 3605 ) یعنی معاملات میں سب سے بہتر طریقہ درمیانی طریقہ ہے-
اِس حدیثِ رسول میں زندگی کا ایک نہایت اہم اصول بتایا گیا ہے۔ اِس اصول کی اہمیت ہر انسان کے لیے ہے۔ یہ اصول کسی انسان کے ذہنی ارتقا کے لیے بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس حدیث رسول کو سمجھنے کے لیے ایک اصول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ اِس میں ’خیر الأمور‘ کا لفظ آیا ہے، اس میں ’خیر الأفکار‘ کا لفظ نہیں آیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اِس حدیث میں جس توسط کا ذکر ہے، اس کا تعلق فکری چیزوں سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق عملی چیزوں سے ہے، یعنی آدمی کو چاہیے کہ وہ عملی معاملات میں توسط کا طریقہ اختیار کرے، لیکن فکری معاملات کی نوعیت اِس سے مختلف ہے-
توسط اور اعتدال دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ عملی زندگی میں توسط اور اعتدال کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اعتدال پسندی کا بالمقابل لفظ انتہا پسندی ہے۔ اعتدال پسندی سے اجتماعی زندگی میں امن قائم ہوتا ہے اور انتہاپسندی سے اجتماعی زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ اِس لیے اجتماعی زندگی کا بہترین اصول یہ ہے کہ اس کو توسط اور اعتدال پر قائم کیا جائے-
لیکن فکر کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ فکر کسی آدمی کا ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ فکر کے معاملے میں آدمی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی عقل اور اپنے ضمیر پر چلے۔ اِس لیے صحیح یہ ہے کہ آدمی عملی نوعیت کے اجتماعی معاملات میں آخری حد تک مصالحانہ انداز (compromising attitude) اختیار کرے اور فکر کے معاملے میں آدمی آخری حد تک غیرمصالحانہ انداز (uncompromising attitude) اختیار کرے-یہی اسلام کا طریقہ بھی ہے اور یہی دانش مندی کا طریقہ بھی-(
واپس اوپر جائیں
ماہ نامہ الرسالہ کے مضامین میں اکثر روحانیت (spirituality) پر زور دیا جاتا ہے- ایک صاحب جو ماہ نامہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں، اِن مضامین کو پڑھنے کے بعد ای میل کے ذریعے اُن کا ایک سوال موصول ہوا ہے- انھوں نے یہ سوال کیا ہے کہ — زندگی کے مادی تقاضے بھی ہیں اور روحانی تقاضے بھی، پھر دونوں تقاضوں کے درمیان توازن (balance) کس طرح قائم کیا جائے:
How can one maintain a balance between spirituality and materialism.
جواب یہ ہے کہ توازن کا اصول غیر فطری اصول ہے- اکثر لوگ ’’توازن‘‘ کے تصور میںالجھے رہتے ہیں،چناں چہ وہ کبھی اپنی زندگی کے مختلف تقاضوں کے درمیان توازن قائم نہیں کرپاتے- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ٹنشن (tension)کا شکار ہوجاتے ہیں- توازن کا اصول غیر فطری ہونے کی وجہ سے ایک ناقابلِ حصول چیز ہے، اور جو چیز ناقابلِ حصول ہو، اس کے بارے میں صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ قبول کرلیا جائے-
فطری قانون کے مطابق، زندگی کا نظام ترجیح (priority) کے اصول پر قائم ہے، یعنی زندگی کے ایک تقاضے کو اولین (primary) اہمیت دینا اور دوسرے تقاضے کو ثانوی (secondary) درجے پر رکھنا- اِس معاملے میں یہی واحد قابلِ عمل فارمولا ہے- اِس کے سوا کوئی دوسرا فارمولا سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں-
روحانیت اور مادیت کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ترجیح کا اصول اختیار کیا جائے ، یعنی روحانیت کو اولین حیثیت دی جائے اور مادیت کو ثانوی حیثیت- اِس معاملے میں یہی حقیقت پسندی ہے- جو آدمی اِس حقیقت کو نہ مانے، اُس کو اِس کی بھاری قیمت دینی پڑے گی، وہ یہ کہ ایسا شخص ہمیشہ ٹنشن میں جئے گا، وہ ہمیشہ ذہنی سکون (peace of mind) سے محروم رہے گا-
واپس اوپر جائیں
فواد سیزگین (پیدائش: 1924) ترکی کے مشہور اسکالر ہیں۔ وہ ترکی زبان کے علاوہ ، عربی، انگریزی اور جرمن زبان پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ اُن کےاستاد ہیلمٹ رٹر(Helmut Ritter) نے اُن سے کہا تھاکہ اگر تم واقعی اسکالر بننا چاہتے ہو تو روزانہ
مسلم تہذیب کا موضوع کسی آدمی کو ایک یونی ورسٹی میں پروفیسر بنا سکتا ہے، لیکن اللہ رب العالمین کے تخلیقی پلان کے مطابق، کسی تہذیب کے علمی مطالعے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو خدا کی ابدی جنت کا مستحق بنائے اور لوگوں کو اِس حقیقت سے باخبر کرے-
مثلاً اِس اعتبار سے، اہمیت کی بات یہ نہیں ہے کہ کس نے امریکی براعظم کو پہلے دریافت کیا اور کون وہاں بعد کو پہنچا۔ رب العالمین کے تخلیقی پلان کے مطابق، اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ اہلِ امریکا کو کس نے خدا کا پیغام پہنچایا اور کون اِس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہا-
اِس معاملے میں صحیح نقطہ نظر یہ ہے کہ چیزوں کو رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے اعتبار سے دیکھا جائے، رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، زندگی کی منصوبہ بندی کی جائے، رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، چیزوں کی اہمیت متعین کی جائے اور رب العالمین کے نقشہ تخلیق کے مطابق، اِس دنیا میں اصل اہمیت دعوت الی اللہ کی ہے، نہ کہ کسی موضوع کا علمی مطالعہ وتحقیق۔ تہذیب کا موضوع صرف ایک دنیوی موضوع ہے، جب کہ خالق کے نزدیک اصل اہمیت کا موضوع وہ ہے جس کا تعلق آخرت کی ابدی زندگی سے ہو-
واپس اوپر جائیں
مستشرقین کے جواب میں موجودہ زمانے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مگر ان کا اصل جواب یہ ہے کہ علوم اسلام پر ایسی اعلی کتابیں تیار کی جائیں جو اپنی تحقیق اور معلومات کے اعتبار سے مستشرقین کی باتوں کا مثبت جواب بن جائیں۔ اس سلسلے میں یہاں ہم عظیم ترکی عالم فواد سیزگین (Fuad Sezgin) کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنھوںنے اس میدان میں انتہائی قابل قدر کام انجام دیا ہے۔ موصوف نے
Geshichte des Arabischen, Schrifttums, Leiden, 1967
اِس کتاب کا معیاری عربی ترجمہ دکتور محمود فہمی حجازی اور دکتور فہمی ابوالفضل نے کیا ہے۔ اس کا نام تاریخ التراث العربی ہے۔ وہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کو الہیئة المصریة العامہ للکتاب، قاہرہ نے 1978 میںشائع کیا ہے۔ پہلی جلد تین حصوں پر مشتمل ہے اور اسی طرح دوسری جلدبھی:
المجلد الاول: (1) علوم القرآن (2) علم الحدیث
(3) التدوین التاریخی الى غایة سنة 430 ہجریة تقریباً
المجلد الثانی: (1) الفقہ (2) العقائد (3) التصوف الی غایة سنة 430 ہجریة تقریباً
کتاب کی تیسری جلد تاریخ شعر عربی سے متعلق ہے-
ہر فصل کے شروع میں نہایت قیمتی مقدمہ ہے جس میں خالص علمی اور تاریخی انداز میں متعلق فصل کا تعارف ہے۔ اس کے بعد صحابہ سے لے کر پانچویں صدی ہجری کے ابتدائی نصف تک اُن اسلامی شخصیت کے حالات اور کارنامہ کا محققانہ تذکرہ ہے جو ان موضوعات پر مستند حوالہ کی حیثیت رکھتی ہیں-
یہ کتاب بلا شبہہ اپنی قسم کی واحد کتاب ہے اور اس قابل ہے کہ تمام اسلامی اداروں کے کتب خانوں میں کتب حوالہ کی الماری میں موجود ہو۔ اس موضوع پر ماضی میں متعدد قیمتی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً ابن الندیم کی الفہرست (
واپس اوپر جائیں
1.
http://alquranmission.org/podcasts.aspx
2.20 جون 2014 کو زی نیوز نے عراقی کرائسس پر صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویوکے دوران موضوع سے متعلق سوالات کا جواب دیاگیا- گفتگو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ جمہوریت کتنی اہم چیز ہے۔ اس لیے ضرورت یہ ہےکہ انہیں اس بارے میں ایجوکیٹ کیا جائے، تبھی اس قسم کے جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔
3.
http://cpsglobal.org/podcast/maulanas-interactions
4. ٹائمس آف انڈیا گروپ کے اسپریچول اخبار اسپیکنگ ٹری کی جانب سے
5. الرسالہ مشن کا کام اب ساؤتھ انڈیا کی ریاست کیرلا میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ 19 جولائی 2014 کو کالیکٹ میں ایک سینٹر کا افتتاح عمل میں آیا، جس کا نام سینٹر فار پیس رکھا گیا ہے۔ کیرلا میں الرسالہ مشن سے وابستہ مسٹر شبیر علی نے مقامی ساتھیوں کے تعاون سے اس کو شروع کیا ہے۔
6.
7.
8. انڈین کلچر اور ہیریٹیج کی آن لائن اوپن انسائیکلوپیڈیا Sahapedia کی نمائندہ مز نہاریکا گپتا نے
9.
10. انڈیااورانڈیاسےباہرکےمختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑےپیمانےپرقرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں- اب دعوتی کا م کا ایک تخلیقی طریقہ انہوں نے تلاش کیا ہے، اسٹریٹ دعوۃ۔ وہ یہ کہ کسی روڈ کے کنارے، جہاں پبلک کی آمد و رفت رہتی ہے، وہ ایک اسٹال لگا کر پر امن انداز میں لوگوں کو قرآن کا ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر دیتے ہیں۔ لوگ بڑے شوق سے اور شکریہ کے ساتھ اسے لیتے ہیں-
اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کے درمیان فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کا چرچا ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اسرائیل میں موجود کچھ سنجیدہ عرب مسلمان مقامی یہود اور ٹورسٹوں کے درمیان منظم انداز میں دعوتی کام کر رہے ہیں۔ یہ دعوتی کام الرسالہ مشن کے تعاون سے ہو رہاہے۔ انہوں نے ثانی اثنین خان کو ایک پیغام بھیجا ہے جو یہاں درج کیا جارہا ہے۔ یعنی اللہ کی مدد اور آپ کی کتابوں سے دعوتی کام دن بدن پھیلتا اور مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ یہاں لوگ آپ کے دعوتی لٹریچر سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں:
اللہ یحفظک اخی ویحفظ والدک الشیخ وحید الدین خان وقل لہ اننا نحبکم باللہ ، وبفضل اللہ اولا وارسال الکتب والمصحف المترجم تتطور الدعوہ بشکل قوی ، ورسالہ الى والدک ان الکثیر من الذین اسلموا تاثروا من طریقة عرض فکرة الاسلام فی الکتیب ۔ وکل عام وانتم بخیر -
I received a copy of the Quran, and started reading it and I realized how I wasted my life without it. My cousin who is working as Circle Inspector in AP Police, needs a copy of Quran in English. Can you please send it to him? Dua ki Darkhasth. (Samiulla. AP)
I live in the UK and I am trying to get a copy of an English translation of the Quran in Braille for a blind non-Muslim who is interested in learning about Islam. How can I get hold of MaulanaWahiduddin Khan’s English Translation of the Quran in Braille?? Is it available in the UK?? Thanks! (Nassar Hameed)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.